اوید لاکل اومنہ بنیۃ السنۃ ۷؎ قید بہ فی البحر اخذا من قول المحیط لانہ اقام بہ قربۃ لانہ سنۃ اھ
یا ہاتھ دھونا کھانے کیلئے یا اس سے بہ نیت سنت (بحر میں یہ قید محیط کے قول سے لے کر لگائی ہے کیونکہ اُس نے اس سے عبادت ادا کی ہے اس لئے کہ وہ سنت ہے اھ
فی النھر وعلیہ ینبغی اشتراطہ فی کل سنۃ کغسل فم وانف اھ قال الرملی ولا تردد فیہ حتی لولم یکن جنبا وقصد بغسل الفم والانف مجرد التنظیف لااقامۃ القربۃ لایصیر مستعملا ۱؎)
اور نہر میں ہے کہ اس بنا پر یہ شرط لگانی چاہئے ہر سنّت میں جیسے منہ کا دھونا یا ناک میں پانی ڈالنا، اھ رملی نے کہا کہ اس میں کوئی تردد نہیں حتی کہ اگر وہ جُنب نہ ہو اور منہ اور ناک کے دھونے سے محض صفائی کا ارادہ کرے نہ کہ قربت کی ادائیگی کا تو پانی مستعمل نہ ہوگا،
اولرفع حدث کوضوء محدث ولو للتبرد فلو توضأ متوضئ لتبردا وتعلیم اولطین بیدہ لم یصر مستعملا اتفاقا ۲؎
یاحدث کو رفع کرنے کیلئے جیسے بے وضو کا وضو کرنا خواہ ٹھنڈک کے حصول کیلئے ہو، تو اگر کسی باوضو شخص نے ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے، سکھانے کیلئے، یا ہاتھوں کی مٹی چھڑانے کیلئے وضو کیا تو یہ پانی مستعمل نہ ہوگا،
(اورد ان تعلیم الوضوء قربۃ واجاب البحر وتبعہ النھر وغیرہ ان التوضی نفسہ لیس قربۃ بل التعلیم وھو خارج عنہ ولذا یحصل بالقول ۳؎)کزیادۃ علی الثلث بلانیۃ قربۃ ۴؎ قد قدمنا التحقیق فی کل ذلک فی بارق النور فتذکرہ اھ منہ قدس سرہ۔
بالاتفاق(اس پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ وضو کرنے کی تعلیم دینا بجائے خود عبادت ہے؟ بحر نے اس کا جواب دیا جس کو نہر وغیرہ نے بھی پسند کیا کہ وضو خود قربت نہیں ہے، ہاں تعلیم قربت ہے اور تعلیم وضو سے الگ شے ہے اس لئے تعلیم صرف قول سے بھی ہوجاتی ہے) جیسے تین مرتبہ سے زائد اعضاء وضو کا بلانیت قربت دھونا،ہم نے اس کی تحقیق بارق النور میں پہلے بیان کردی ہے اس کو یاد کرلے اھ(ت)
(ان اراد الزیادۃ علی الوضوء الاول وفیہ اختلاف المشائخ اما لواراد بھا ابتداء الوضوء صار مستعملا بدائع ای اذا کان بعد الفراغ من الوضوء الاول والا لکان بدعۃ کما مر فلا یصیر مستعملا وھذا ایضا اذا اختلف المجلس والا فلا لانہ مکروہ بحر لکن قدمنا ان المکروہ تکرارہ فی مجلس مرارا ۵؎)
(یہ اُس وقت ہے جب اُس کا ارادہ یہ ہو کہ پہلے وضو پر زیادتی کی جائے اور اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، اور اگر اس سے وضو کی ابتداء مراد ہو تو اس طرح پانی مستعمل ہوجائے گا، بدائع، یعنی جبکہ پہلے وضو سے فراغت کے بعد ہو ورنہ بدعت ہوگا جیسا کہ گزرا تو مستعمل نہ ہوگا، اور یہ بھی اس وقت ہے جبکہ مجلس مختلف ہو ورنہ نہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے،بحر۔ لیکن ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ مکروہ اس کا ایک ہی مجلس میں کئی مرتبہ تکرار ہے)
اور جیسے ران کا دھونا (جو اعضا ئے وضو سے نہیں ہے حالانکہ وہ بے وضو ہو نہ کہ جنب ہو)
یا پاک کپڑا (اور اسی کی مثل خشک اشیاء جیسے ہانڈیاں اور پھل، قہستانی)یا وہ چوپایہ جس کا گوشت کھایا جاتا ہو،
(بحر عن المبتغی قال سیدی عبدالغنی وغیرھا کذلک لاتنجس الماء ولا تسلب طھوریتہ کحمار وفارۃ وسباع بھائم لم یصل الماء الٰی فمہا اھ وذکر الرحمتی نحوہ ۵؎)
(بحر نے اس کو مبتغی سے روایت کیا، سیدی عبدالغنی وغیرہ نے کہا اور اسکے علاوہ بھی پانی ناپاک نہیں کرتے ہیں اور اُس کے پاک کرنے کی صفت کو اُس سے سلب نہیں کرتے ہیں، جیسا گدھا، چوہا، اور چوپایوں میں سے درندے جبکہ پانی ان کے منہ تک نہ پہنچے اھ اور رحمتی نے ایسا ہی ذکر کیا)
اولا سقاط فرض بان یغسل بعض اعضائہ ۶؎ التی یجب غسلہا احترازا عن غسل المحدث نحوا لفخذ ۷؎
(یا کسی فرض کو ساقط کرنے کیلئے مثلاً یہ کہ کسی عضو کو دھوئے) (اُ ن اعضاء میں سے جن کا دھونا لازم ہے، یہ بے وضو شخص کے اپنی ران وغیرہ کو دھونے سے احتراز ہے)
اویدخل یدہ او رجلہ فی جب لغیر اغتراف ونحوہ ۸؎ (بل لتبرد اوغسل ید من طین اوعجین فلو قصد الاغتراف ونحوہ کاستخراج کوزلم یصر مستعملا للضرورۃ ۹؎)
یا اپنا ہاتھ یا پیر کسی گڑھے میں ڈالے، اُس سے چُلّو وغیرہ نہ بھرے ،(بلکہ ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے یا ہاتھوں کو مٹی سے یا آٹے سے صاف کرنا مقصود، تو اگر چلّو بھرنے کا ارادہ کیا جیسے پانی سے لوٹا نکالنے کیلئے ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل نہ ہوگا کیونکہ یہ ضرورتاً ہے)
فانہ یصیر مستعملا اذا انفصل عن عضو وان لم یستقر فی شیئ علی المذھب وقیل اذا استقر ۱۰؎ (فی مکان من ارض اوکف اوثوب ویسکن عن التحرک وھذا قول طائفۃ من مشائخ بلخ واختارہ فخر الاسلام وغیرہ،
کیونکہ پانی مستعمل اُس وقت ہوگا جبکہ عضو سے جُدا ہو، اگرچہ کسی چیز پر نہ ٹھہرے، مذہب یہی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جبکہ کسی جگہ پر ٹھہرے، (زمین پر یا ہاتھ پر یا کپڑے پر، اور حرکت کے بعد اس میں سکون پیدا ہوچکا ہو، یہ بلخ کے مشائخ میں سے بعض کا قول ہے اس کو فخرالاسلام وغیرہ نے پسند کیا ہے،
(۱۰؎ درمختار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۶)
وفی الخلاصۃ وغیرھا انہ المختار الا ان العامۃ علی الاول وھو الاصح واثر الخلاف یظھر فیما لو انفصل فسقط علی انسان فاجراہ علیہ صح علی الثانی لاالاول نھر وقدمران اعضاء الغسل کعضو واحد فلو انفصل منہ فسقط علی عضو اٰخر من اعضاء الغسل فاجراہ علیہ صح علی القولین ۱؎ اھ ملتقطا
اور خلاصہ وغیرہ میں ہے کہ یہی مختار ہے، مگر عام علماء پہلے قول پر ہی ہیں اور وہی اصح ہے، اس اختلاف کا اثر اُس صورت میں ہوگا جبکہ پانی جدا ہوکر کسی انسان پر گرے اور وہ اس کو اپنے اوپر جاری کرے تو دوسرے قول پر صحیح ہے نہ کہ پہلے پر، نہر۔ اور یہ گزر چکا ہے کہ اعضاء غسل ایک عضو کی طرح ہیں، تو اگر اُس سے پانی جُدا ہو کر اعضاءِ غسل پر گرا اور اُس نے وہ اُن پر جاری کرلیا تو دونوں اقوال کے مطابق صحیح ہوگا اھ ملتقطا،
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۷)
وفی الھندیۃ عن التاتارخانیۃ لوتوضاء بالخل اوماء الورد لایصیر مستعملا عندالکل ۲؎ اھ
اور ہندیہ میں تاتارخانیہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر سرکہ سے یا گلاب کے عرق سے وضو کیا تو سب کے نزدیک مستعمل نہ ہوگا اھ۔ ت
(۲؎ ہندیۃ فیما لایجوزبہ الوضو نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۳)
تنبیہ قال فی المنیۃ(۱) بعدما عرف المستعمل بماء ازیل بہ حدث اواستعمل فی البدن علی وجہ القربۃ مانصہ امرأۃ غسلت القدر اوالقصاع لایصیر الماء مستعملا ۳؎ اھ۔
تنبیہ مُنیہ میں ماءِ مستعمل کی تعریف میں کہا کہ ''وہ پانی جس سے کوئی حَدَث زائل کیا گیا ہو یا بدن پر قُربۃ کے طور پر استعمال کیا گیا ہو، پھر فرمایا کہ اگر کسی عورت نے ہانڈی یا بڑا پیالہ دھویا تو پانی مستعمل نہ ہوگا اھ۔ ت
(۳؎ منیۃ المصلی فی النجاسۃ مکتبہ قادریہ لاہور ص۱۰۸)
اقول وھو کما تری مطلق یشمل مااذانوت بہ اقامۃ سنۃ لاجرم ان قال فی الغنیۃ قولہ فی البدن احتراز عما اذا استعمل فی غیرہ من ثوب ونحوہ بنیۃ القربۃ فانہ لایصیر مستعملا ویتفرع علی ماذکرنا امرأۃ غسلت القدر اوالقصاع ۱؎ الخ
میں کہتا ہوں یہ مطلق ہے اس میں یہ صورت بھی شامل ہے جبکہ اُس عورت نے اس دھونے سے سنّت کی ادائیگی کا ارادہ کیا ہو، غنیہ میں کہا کہ اُن کا قول ''فی البدن'' اس صورت سے احتراز ہے جب کپڑے وغیرہ میں استعمال کیا ہو بہ نیت ''قُربۃ'' تو وہ مستعمل نہ ہوگا، اور جو ہم نے ذکر کیا اُس پر یہ تفریع ہوگی کہ کسی عورت نے ہانڈی یا پیالے دھوئے الخ
(۱؎ غنیۃ المستملی فی النجاسۃ سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۵۳)
لکن قال فی الحلیۃ اما القدر والقصاع ونحوھمامن الاعیان الطاھرات کالبقول والثمار والثیاب والاحجارفلان الجمادات لایلحقھا حکم العبادۃ امالو نوت بذلک قربۃ بان غسلتھما من الطعام بقصد اقامۃ السنۃ کان ذلک الماء مستعملا ۲؎ اھ
مگر حلیہ میں فرمایا ''بہرحال ہانڈی پیالے وغیرہ یعنی پاک اشیا جیسے سبزیاں، پھل، کپڑے، پتھّر، تو اس لئے کہ جمادات پر عبادات کا حکم جاری نہیں ہوتا ہے، اگر ان کے ساتھ قربت کا ارادہ کیا یعنی کھانا لگ جانے کے بعد ان کو بطور سنّت دھویا تو یہ پانی مستعمل ہوجائے گا اھ(ت)
(۲؎ حلیہ)
اقول اولا فیہ بعد(۱) ولم یعزہ لاحد وقد قید فی مختصر القدوری والھدایۃ والمنیۃ وغیرھا الاستعمال لقربۃ بکونہ فی البدن واقر علیہ ھذا المحقق ومفاھیم الکتب حجۃ ولذا جعلہ فی الغنیۃ احترازاً ومثلہ فی الجوھرۃ النیرۃ حیث قال قولہ فی البدن قید بہ لانہ ماکان من غسالۃ الجمادات کالقدور والقصاع والحجارۃ لایکون مستعملا ۳؎ الخ
میں کہتا ہوں اوّلاً اس میں بُعد ہے اس کو انہوں نے کسی کی طرف منسوب نہیں کیا ہے ہدایہ، مختصر قدوری اور منیہ وغیرہ میں قُربت کے استعمال کو بدن میں ہونے کے ساتھ مقید کیا ہے، اور اس محقق نے اسے برقرار رکھا ہے اور کتابوں کے مفاہیم ہمارے لئے حجت ہیں، اور اس لئے غنیہ میں اس کو قید احترازی قرار دیا ہے، اسی کی مثل جوہرہ نیرہ میں ہے وہ فرماتے ہیں ان کا قول ''فی البدن'' کیونکہ جمادات کا دھوون جیسے ہانڈیاں، پیالے، پتھر کا دھوون، مستعمل نہ ہوگا الخ
(۳؎ الجوہرۃ النیرۃ الطہارت امدادیہ ملتان ۱/۱۶)
وثانیا تراھم(۲) عن اخرھم یرسلون مسائل الاستعمال فی غیر بدن الانسان ارسالا تاما غیرجانحین الی تقییدھا بعدم نیۃ القربۃ کمسألۃ غسل(۱) الدابۃ المذکورۃ فی المبتغی والفتح والبحر والدر والتتارخانیۃ وغیرھا ومسألۃ القدور والقصاع ھذہ وغیرھا فاطباقھم علی اطلاقھا یؤذن باتفاقہم علی تقییدھا ببدن الانسان فان کل ذلک یحتمل نیۃ القربۃ کغسل ثوب ابویہ من الوسخ والثمار من الغبار لاکلھما واحجار فرش المسجد للتنظیف الی غیر ذلک فما من مباح الا ویمکن جعلہ قربۃ بنیۃ محمودۃ کما لایخفی علی عالم علم النیات وثالثا ھذا(۲) التقیید ھو القضیۃ للدلیل(۳) الذی جعل بہ اقامۃ القربۃ مغیر ا للماء عن وصف الطہوریۃ اعنی حملہ الاٰثام من البدن المستعمل فیہ فی الھدایۃ قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالی لایصیر مستعملا الاباقامۃ القربۃ لان الاستعمال بانتقال نجاسۃ الاٰثام الیہ وانھا تزول بالقرب وابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی یقول اسقاط الفرض مؤثر ایضا فیثبت الفساد بالامرین ۱؎ اھ
ثانیا فقہاء سب کے سب غیر انسان کے بدن میں استعمال کے مسائل کو مطلق رکھتے ہیں عدمِ نیتِ قربت کی قید نہیں لگا تے ہیں، جیسے گھوڑے کو غسل دینے کا مسئلہ جس کا ذکر مبتغی، فتح، بحر، دُرّ اور تتارخانیہ وغیرہ میں ہے اور کپڑے اور پتھروں کا مسئلہ _______ پھلوں کا مسئلہ، ہانڈیوں اور پیالوں کا مسئلہ وغیرہا تو اُن تمام فقہا کا ان کو مطلق رکھنے پر اتفاق کرلینا اس امر کی علامت ہے کہ وہ سب کے سب اس کو بدنِ انسانی کے ساتھ مقید کرنے پر متفق ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک نیتِ قربت کا احتمال رکھتا ہے، جیسے اپنے والدین کے میلے کپڑوں کا دھونا، اور والدین کے کھلانے کیلئے پھلوں کا دھونا، اور مسجد کے فرش کا صفائی کیلئے دھونا وغیرہ تو ہر مباح کا نیت محمودہ سے قربت کرلینا ممکن ہے، اور نیتوں کا جاننے والا اِسے خوب جانتا ہے۔ثالثا یہ قید لگانا ہی دلیل کا تقاضا ہے جس کی وجہ سے قربت کی ادائیگی کو پانی کے وصف کو طہوریۃ سے متغیر کردینے والا قرار دیا تھا، یعنی اُس کا بدن سے گناہوں کا دُور کردینا۔ہدایہ میں ہے کہ امام محمد نے فرمایا پانی قربت کی ادائیگی سے ہی مستعمل ہوتا ہے کیونکہ استعمال کی وجہ گناہوں کا اُس کی طرف منتقل ہونا ہے، اور یہ چیز قُربت کی ادائیگی سے ہی ہوتی ہے، اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ اسقاطِ فرض بھی اس میں مؤثّر ہے تو دونوں صورتوں میں فساد ثابت ہوجائے گا اھ
(۱؎ الہدایۃ باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱/۲۲)
وفی العنایۃ التغیر عندھما(ای تغیر الماء وتدنسہ عندالشیخین رضی اللّٰہ تعالی عنھما) انما یکون بزوال نجاسۃ حکمیۃ عن المحل وانتقالہا الی الماء وقد انتقلت الی الماء فی الحالین(ای حال اقامۃ القربۃ وحال اسقاط الواجب( کما تقدم من اعتبارھا بالنجاسۃ الحقیقیۃ فیثبت فساد الماء بالامرین جمیعا ۱؎ اھ موضحا،
اور عنایہ میں ہے کہ تغییر اُن دونوں کے نزدیک(یعنی پانی کا بدلنا اور اُس کا میلا ہونا شیخین رضی اللہ عنہما کے نزدیک( نجاست حُکمیہ کا محل سے زائل ہو کر پانی کی طرف منتقل ہونے کے باعث ہوگا، اور یہ نجاست دونوں صورتوں میں ہی پانی کی طرف منتقل ہوئی ہے)قربۃ کی ادائیگی اور اسقاط فرض دونوں صورتوں میں) جیسا کہ گزرا کہ اس کو نجاست حقیقیہ پر قیاس کیا گیا ہے، تو پانی کا فساد دونوں صورتوں میں ثابت ہوجائے گا اھ
(۱؎ العنایۃ علی حاشیۃ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۸)
ومثلہ فی البحر عن المحیط حیث قال تغیر الماء عند محمد باعتبار اقامۃ القربۃ بہ وعندھما باعتبار انہ تحول الیہ نجاسۃ حکمیۃ وفی الحالین تحول الی الماء نجاسۃ حکمیۃ فاوجب تغیرہ ۲؎ اھ
اسی قسم کی بات بحر میں محیط سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں پانی کا تغیر امام محمد کے نزدیک اس پر مبنی ہے کہ قُربت اُس سے ادا کی گئی ہے، اور شیخین کے نزدیک اس لئے ہے کہ پانی کی طرف نجاست حکمیہ منتقل ہوئی ہے اور دونوں حالتوں ہی میں پانی کی طرف نجاست حکمیہ منتقل ہوئی ہے اس لئے پانی متغیر ہوجائے گا اھ
(۲؎ بحرالرائق بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۱)
وفی التبیین سببہ اقامۃ القربۃ اوازالۃ الحدث بہ عند ابی حنیفۃ وابی یوسف وعند محمد رضی اللّٰہ تعالی عنھم اقامۃ القربۃ لاغیر والاول اصح لان الاستعمال بانتقال نجاسۃ الحدث اونجاسۃ الاٰثام الیہ ۳؎ اھ
اور تبیین میں ہے اس کا سبب قُربۃ کا قائم کرنا ہے اور اُس سے حَدَث کا زائل کرنا ہے یہ شیخین کے نزدیک ہے، اور امام محمد کے نزدیک صرف قُربت کا ادا کرنا ہے، اور اول اصحّ ہے کیونکہ استعمال کا باعث یہ ہے کہ حَدَث کی نجاست اُس کی طرف منتقل ہوئی ہے یا گناہوں کی نجاست اس کی طرف منتقل ہوئی ہے اھ
(۳؎ تبیین الحقائق الماء المستعمل بولاق مصر ۱/۲۴)
وقال فی الکافی سؤر الکلب نجس لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یغسل الاناء من ولوغ الکلب ثلثا لایقال جاز ان یؤمر بالغسل تعبداکما امر المحدث بالوضوء لان الغسل تعبدالم یشرع الا فی طھارۃ الصلاۃ فانہ یقع للّٰہ تعالی عبادۃ والجمادات لایلحقہا حکم العبادات لانھا باعتبار نجاسۃ الاٰثام والجمادات لیست باھل لھا لایقال(۱) الحجر الذی استعمل فی رمی الجمار یغسل ویرمی ثانیا لاقامۃ القربۃ بہ لان الحجر الۃ الرمی وقد تتغیر الالۃ بنقل نجاسۃ الاٰثام الیھا کمال الزکٰوۃ والماء المستعمل ۱؎ اھ باختصار۔
اور کافی میں ہے کہ کُتّے کا جھُوٹا نجس ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس برتن کو کُتّا چاٹ لے اس کو تین مرتبہ دھویا جائے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ بھی تو جائز ہے کہ غسل کا حکم تعبُّداً دیا جائے جیسے بے وضو کو وضو کا حکم دیا گیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ غسل تعبُّداً صرف نماز کی طہارت کیلئے مشروع ہوا ہے کیونکہ وہ اللہ کی عبادت ہے، اور جمادات کو عبادات کا حکم نہیں ہے، کیونکہ وہ گناہوں کی نجاست کی وجہ سے ہے، اور جمادات گناہوں کے اہل نہیں ہیں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائےکہ وہ پتھر جو رمی جمرات میں استعمال ہوا ہو اس کو دھو کردوبارہ اُسی سے قربت کی ادائیگی کیلئے رمی کی جائے تو کیا حکم ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ پتھر آلہ رمی ہے اور آلہ اس کی طرف گناہوں کے منتقل ہونے کی وجہ سے متغیر ہوجاتا ہے جیسے زکوٰۃ کا مال اور مستعمل پانی اھ باختصار۔
(۱؎ کافی)
اقول وبما حثنا ھذہ ظھر وللّٰہ الحمد ان مطلق الوقایۃ والنقایۃ والکنز والغرر والاصلاح والملتقی والتنویر محمول علی مقید الکتاب والھدایۃ والمنیۃ ومما یؤیدہ اطباقھم علی اشتراط الانفصال عن العضو للحکم بالاستعمال وانما وقع(۱) المقال فی اشتراط القرار بعد الانفصال فشرطہ بعض المشائخ وبہ جزم فی الکنز مخالفا لکا فیہ واختارہ الامام فخرالاسلام وغیرہ فی شروح الجامع الصغیر وھو مذھب الامام ابی حفص الکبیر والامام ظھیر الدین المرغینانی وقال فی الخلاصۃ ھو المختار ورجحہ الاتقانی فی غایۃ البیان زاعماان فی عدم اشتراطہ حرجا کما بینہ مع جوابہ فی البحر والمذھب عندنا ھو حکم الاستعمال بمجرد الانفصال وصححہ فی الھدایۃ وکثیر من الکتب واعتمدہ فی الکافی وضعف خلافہ وعلیہ المحققون کما فی الفتح والعامۃ کما فی البحر بل فی المحیط ان القائل باشتراط الاستقرار الامام سفیٰن الثوری رحمہ اللّٰہ تعالٰی دون اھل المذھب وقد تکفل فی الفتح والبحر برد ماتعلقوا بہ واشار الیہ فی الدر وبالجملۃ المذکور فی کلام الفریقین ھو الانفصال عن العضو المؤذن بان المراداستعمالہ فی البدن لاغیر واللّٰہ تعالٰی اعلم،
الحمدللہ ہماری ان بحثوں سے معلوم ہوا کہ وقایہ، نقایہ ، کنز، غُرر، اصلاح، ملتقی اور تنویر کا اطلاق کتاب(قدوری) ہدایہ اور منیہ کے مقید پر محمول ہے، اور اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ان کا اتفاق ہے کہ پانی کا عضو سے جُدا ہونا اس کے مستعمل ہونے کیلئے شرط ہے۔ اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ انفصال کے بعد قرار کی شرط ہے یا نہیں؟ تو بعض مشائخ نے اس کی شرط رکھی ہے اور اسی پر کنز میں جزم کیا ہے جو اسکی اپنی کافی کے خلاف ہے، اور اس کو امام فخرالاسلام نے جامع صغیر کی شروح میں مختار قرار دیا ہے، اور یہی ابو حفص کبیر اور امام ظہیر الدین مرغینانی کا مذہب ہے، اور خلاصہ میں اسی کو مختار قرار دیا ہے، اور غایۃ البیان میں علامہ اتقانی نے اس کو راجح قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ ا س کو شرط نہ کرنے میں حرج ہے جیسا کہ انہوں نے اس کو بیان کیا اور اس کا جواب بھی بحر میں دیا، اور ہمارے نزدیک پانی عضو سے جدا ہوتے ہی مستعمل ہوجاتا ہے، اسی کو ہدایہ میں صحیح کہا ہے، اور کافی میں اس پر اعتماد کیا ہے اور اس کے خلاف کو ضعیف قرار دیا ہے، اور اسی پر محققین ہیں جیسا کہ فتح میں اور عام کتب میں ہے کما فی البحر، بلکہ محیط میں ہے کہ استقرار کی شرط کے قائل امام سفیان ثوری ہیں، اہل مذہب نہیں ہیں اور فتح اور بحر میں اِن کے دلائل کا رد کیا ہے اور دُر میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ فریقین کے کلام میں مذکور عضو سے منفصل ہونا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مراد اس کا بدن ہی میں استعمال ہے فقط نہ کہ اسکے غیر میں واللہ تعالٰی اعلم
ورابعا(۱) محل نظر کون غسل الاوانی بالماء لمجرد اثر الطعام قربۃ مطلوب بعینھا بل المطلوب ھو التنظیف وربما یحصل بلحس وبخرقۃ وبغیر ماء مطلق والاول(۲) اقرب الی التواضع والتأدب باٰداب السنۃ،
رابعا محلِ نظر یہ امر ہے کہ برتنوں کو محض اس لئے دھونا کہ اُن پر کھانے کا اثر ہے یہی قُربت مطلوبہ ہے بلکہ مطلوب صفائی ہے جو کبھی چاٹ کر بھی کپڑے سے اور کبھی ماء مطلق کے غیر سے حاصل ہوجاتی ہے اور پہلا اقرب الی التواضع ہے اور اس میں اتباع سنت بھی ہے،
فاخرج عـــــــــہ الامام مسلم فی صحیحہ عن جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم امر بلعق الاصابع والصحفۃ وقال ا نکم لاتدرون فی ایہ البرکۃ ۱؎
چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت جابر سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انگلیاں چاٹنے اور برتن چاٹنے کا حکم دیا اور فرمایا تم کو معلوم نہیں کہ کس چیز میں برکت ہوگی!
عـــــــــہ (۱) صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انگلیاں اور رکابی چاٹنے کا حکم فرماتے اور ارشاد کرتے تمہیں کیا معلوم کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے یعنی شاید اسی حصے میں ہو جو انگلیوں یا برتن میں لگا رہ گیا ہے ۔
(۱؎ صحیح لمسلم استحباب لعق الاصابع مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۱۷۵)
ولہ کاحمد وابی داؤد والترمذی والنسائی عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم امرنا ان نسلت القصعۃ قال فانکم لاتدرون فی ای طعامکم البرکۃ عـــــــــہ ۲؎
اور امام مسلم، احمد، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے حضرت انس سے مرفوعا روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں برتن صاف کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا تم کو پتا نہیں کہ تمہارے کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے۔
عـــــــــہ (۲) مسلم و احمد وابوداؤد وترمذی ونسائی نے انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہمیں کھانا کھا کر پیالہ خوب صاف کردینے کا حکم فرمایا کہ تم کیا جانو کہ تمھارے کون سےکھانے میں برکت ہے ۔
(۲؎ صحیح لمسلم استحباب لعق الاصابع مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۷۶)
وللامام احمد والترمذی وابن ماجۃ عن نبیشۃ الخیر الہذلی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من اکل فی قصعۃ ثم لحسھا استغفرت لہاالقصعۃ عـــــــــہ ۱؎
امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے نبیشۃ الخیر الہذلی سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی پیالہ میں کھایا پھر اس کو چاٹا تو وہ پیالہ اس کیلئے استغفار کرے گا۔
عـــــــــہ: احمدو ترمذی و ابن ماجہ نے نبیشۃ الخیر الہذلی سے روای کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی پیالے میں کھانا کھا کر زبان سے اسے صاف کردے وہ پیالہ اس کیلئے دعائے مغفرت کرے گا۔
(۱؎ مسند احمد بن حنبل عن نبیشۃ بیروت ۵/۷۶ )
زاد الامام الحکیم الترمذی عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وصلت علیہ عـــــــــہ ۲؎
امام حکیم ترمذی نے حضرت انس سے یہ لفظ نقل کئے ''اور وہ برتن اس کے لئے دعا کرے گا''
عـــــــــہ:امام حکیم ترمذی اسی مضمون میں حضرت انس سے راوی کہ فرمایا اور وہ برتن اس پر درود بھیجے
(۲؎ کنزالعمال اداب الاکل مکتبہ التراث حلب ۱۵/۲۵۳)
وزاد الدیلمی عنہ فتقول اللھم اعتقہ من النار کما اعتقنی من الشیطان عـــــــــہ ۳؎
اور دیلمی نے اُن سے روایت کی کہ وہ پیالہ کہے گا یا اللہ اس کو نارِ جہنم سے آزاد فرما جس طرح اس نے مجھ کو شیطان سے چھٹکارا دلایا ہے،
عـــــــــہ: دیلمی کی روایت میں ہے کہ فرمایا وہ پیالہ یوں کہے الہی! اسے آتش دوزخ سے بچا جس طرح اس نے مجھ کو شیطان سے بچایا یعنی برتن سنا ہوا چھوڑدیں تو شیطان اسے چاٹنا ہے۔
(۳؎ کنزالعمال، اداب الاکل، مکتبہ التراث حلب ۱۵/۲۵۳ )
والحاکم وابن حبان فی صحیحیھما والبیھقی فی الشعب عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالی عنہما فی حدیث یرفعہ الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لایرفع القصعۃ حتی یلعقھا اویلعقہا فان فی اٰخر الطعام البرکۃ عـــــــــہ ۴؎۔
حاکم اور ابن حبّان نے اپنی صحیح میں اور بیہقی نے شعب میں جابر بن عبداللہ سے مرفوعاً روایت کیا، آپ نے فرمایا کہ پیالہ کو نہ اٹھائے تاوقتیکہ اس کو خود چاٹ لے یا دوسرے کو چاٹنے دے کیونکہ کھانے کے آخر میں برکت ہے۔
عـــــــــہ: حاکم و ابن حبّان و بیہقی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنھما سے روای کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کھاناکھا کر برتن نہ اٹھائے جب تک اسے خود چاٹ نہ لے یا (مثلا کسی بچے یا خادم کو) چٹادےکہ کھانے کے پچھلے حصہ میں برکت ہے۔
(۴؎ صحیح ابن حبان اداب الاکل، مکتبہ التراث حلب اثریہ سانگلہ ہل ۸/۳۳۵)
وللحسن بن سفیٰن عن رائطۃ عن ابیہا رضی اللّٰہ تعالی عنہا عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لان العق القصعۃ احب الی من ان اتصدق بمثلھا طعاما عـــــــــہ ۵؎
اور حسن بن سفیان رائطہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ میرے نزدیک پیالہ کا چاٹ لینا اس کی مقدار میں کھانے کے صدقہ کرنے سے افضل ہے،
عـــــــــہ:مسند حسن بن سفیان میں والد رائطہ رضی اللّٰہ تعالی عنہما سے ہے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا پیالہ چاٹ لینا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ اس پیالے بھر کھانا تصدق کروں یعنی چاٹنے میں جو تواضع ہے اس کا ثواب اس تصدق کے ثواب سے زیادہ ہے ۔
(۵؎ کنزالعمال اداب الاکل، مکتبہ التراث حلب ۵/۲۷ )
وللطبرانی فی الکبیر عن العرباض بن ساریۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من لعق الصحفۃ ولعق اصابعہ اشبعہ اللّٰہ تعالٰی فی الدنیا والاخرۃ عـــــــــہ ۶؎
اور طبرانی نے کبیر میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جس نے پلیٹ کو چاٹا اور انگلیوں کو چاٹا اللہ اس کو دینا اور آخرت میں شکم سیر فرمائے گا۔
عـــــــــہ: معجم کبیر میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جو رکابی اور اپنی انگلیاں چاٹے اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اس کا پیٹ بھرے ۔ یعنی دنیا میں فقروفاقہ سے بچے قیامت کی بھُوک سے محفوظ رہے دوزخ سے پناہ دیا جائے کہ دوزخ میں کسی کا پیٹ نہ بھرے گا اُس میں وہ کھانا ہے کہ لایسمن ولا یغنی من جوع نہ فربہی لائے نہ بھوک میں کچھ کام آئے والعیاذ باللہ۔)
(۶؎ مجمع الزوائدباب العق الصحفہ والا صابع بیروت ۵/۲۷)
وخصوص الغسل بالماء من الامور العادیۃ الشائعۃ بین المؤمنین والکفار فاذا نوی شرط ۱۲ سنۃ التنظیف عـــــــــہ ای التنظیف لانہ سنۃ ادخلہ بنیتہ تحت عام محمود فکان کمتوضیئ توضأ للتعلیم۔
اور پانی کیساتھ دھونے کی خصوصیت ایک عادی امر ہے اس میں مومن وکافر کا بھی فرق نہیں، اب اگر اس نے تنظیف سے سنّت کی نیت کی تو اس نے اس کو اپنی نیت سے ایک محمود عام کے تحت داخل کیا تو یہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے تعلیم کے لئے وضو کیا۔
عـــــــــہ :یرید ان الاضافۃ بیانیۃ لالامیۃ لیصیر الغسل سنۃ فی ھذا التنظیف بل المعنی نوی سنۃ ھو التنظیف ای نوی التنطیف لکونہ سنۃ اھ منہ(م)
اضافت بیانیہ مراد ہے لامیہ نہیں تاکہ اس تنظیف میں دھونا سنّت بن جائے بلکہ معنی یہ ہے کہ سنّت کی نیت کی اور وہ تنظیف ہے یعنی تنظیف کی نیت کی کیونکہ وہ سنّت ہے اھ(ت)
ثم اقول تحقیق(۱) المقام علی ماعلمنی الملک العلام ان(۲) لیس کل ماجُعل قربۃ مغیرا للماء عن الطھوریۃ بل یجب ان یکون الفعل المخصوص الذی یحصل بالماء اولا وبالذات قربۃ مطلوبۃ فی الشرع بخصوصہ ومرجعہ الی ان تکون القربۃ المطلوبۃ عینا لاتقوم الا بالماء اذلو جازان تحصل بدونہ لکان لتحققہا موارد منھا مایحصل بالماء ومنھا غیرہ فما یحصل بالماء اولاوبالذات لایکون مطلوبا بعینہ بل محصلا لمطلوب بعینہ فیتحصل ان یکون نفس انفاق الماء فی ذلک الفعل مطلوبا فی الشرع عینا اذ المطلوب عینا لم یحصل الا بہ کان ایضا مطلوبا عینا کالمضمضۃ والاستنشاق فی الوضوء والتثلیث فیہ وفی الغسل ولو للمیت ولعلک تظن ان ھذہ فائدۃ لم تعرف الا من قبل العلامۃ صاحب البحر وتبعہ علیہ اخوہ فی النھر۔
اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے اس مقام کی جو تحقیق میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو قُربۃ ہے وہ پانی کو طہوریۃ سے بدلنے والی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ وہ مخصوص فعل جو پانی سے ادا کیا جارہا ہے وہ اوّلا وبالذات شریعت کی نگاہ میں قُربۃ مطلوبہ ہو، اور اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ قربۃ مطلوبہ ایک ایسا عین ہو جو پانی کے ساتھ ہی قائم ہو کیونکہ اگر اُس کے بغیر وہ قربۃ حاصل ہوجائے تو اُس کے وجود کے کئی موارد ہوں گے کچھ توپانی سے حاصل ہوں گے اور کچھ بغیر پانی کے حاصل ہوں گے تو جو چیز پانی سے اولاً وبالذات حاصل ہو تو وہ بعینہٖ مطلوب نہ ہوگی بلکہ بعینہ مطلوب کو حاصل کرنے والی ہوگی اس کا حاصل یہ ہوگا کہ محض پانی کا اس فعل میں صرف کرنا شرعاً مطلوب بعینہٖ ہو کیونکہ مطلوب بعینہٖ جب اس پر موقوف ہے تویہ بھی مطلوب بعینہٖ ہوجائے گا جیسے کُلّی، ناک میں پانی ڈالنا وضو میں، اور تثلیث وضو وغُسل میں اگرچہ میت کے غسل میں ہو، اور شاید ہمارے قارئین کو یہ خیال گزرے کہ یہ فائدہ تو صاحب بحر اور ان کے بھائی صاحب نہر کے کلام ہی سے معلوم ہوا ہے،
اقول کلا بل المسألۃ اعنی وضوء المتوضیئ للتعلیم منصوص علیھا فی المبتغی والفتح وغیرھما من کتب المذھب وقد نص فی الدّرانھا متفق علیھا ولا شک انھا صریحۃ فی تلک الافادۃ فان التعلیم قربۃ مطلوبۃ قطعا وقد نواہ بھذا التوضی وھو فی ھذا الخصوص ایضا متبع للسنۃ الماضیۃ ان البیان بالفعل اقوی من البیان بالقول ومع ذلک اجمعوا انہ لایصیر مستعملا فکان اجماعا ان لیس کل قربۃ تغیر الماء بل التی لاتقوم الا بالماء اذلا فارق فی التوضی بنیۃ التعلیم وبنیۃ الوضوء علی الوضوء الا ھذا ثم لابدان تکون التی تتوقف علی الماء قربۃ مطلوبۃ بعینہا والا لعاد الفرق ضائعا اذلا شک ان الوضوء للتعلیم محصل لقربۃ مطلوبۃ شرعا فیکون قربۃوھولایقوم الابالماء لکن الشرع لم یطلبہ عینا انما طلب التعلیم وھو لایتوقف علی انفاق الماء فاستقر عرش التحقیق علی ماافاد البحر وظھر ان الصواب فی فرع القدور والقصاع مع الغنیۃ فلذا عولنا علیہ۔
تو میں کہتا ہوں یہ بات نہیں ہے بلکہ تعلیم کیلئے وضو کرنے کا مسئلہ مبتغی اور فتح وغیرہ کتب مذہب میں منصوص ہے اور دُرّ میں تصریح کی ہے کہ یہ متفق علیہا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ وہ اس فائدہ میں صریح ہے، کیونکہ تعلیم قطعی طور پر قُربۃ ہے اور اس وضو سے اُس نے اُسی کی نیت کی ہے اور وہ اس خصوص میں گزشتہ سنت کی پیروی کرنے والا ہے کہ فعل کے ذریعہ بیان قول کے ذریعہ بیان سے اقوٰی ہوتا ہے، باوجود اس کے اُن کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پانی مستعمل نہ ہوگا، تو یہ اجماع ہوگیا اس امر پر کہ ہر قربۃ پانی کو متغیر نہیں کرتی ہے بلکہ صرف وہ قربت کرتی ہے جو پانی کے ساتھ ہی قائم ہو کیونکہ بہ نیت تعلیم وضو کرنے اور وضو بر وضو کی نیت میں فرق کرنے والی یہی چیز ہے۔ پھر جس قربت کا پانی پر موقوف ہونا لازم ہے وہ بعینہا مطلوب ہو ورنہ فرق ضائع ہوجائے گا کیونکہ تعلیم کیلئے کیا جانے والا وضو شرعی قربت کو حاصل کرنے والا ہے تو یہ قربت ہوگا، اور وضو صرف پانی سے ہی ہوتا ہے لیکن شریعت میں وہ بعینہٖ مطلوب نہیں ہے وہ تعلیم کیلئے مطلوب ہے اور تعلیم پانی خرچ کرنے پر موقوف نہیں ہے تو تحقیق وہی درست ہے جو بحر میں ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہانڈیاں اور پیالوں کے مسائل متفرقہ میں حق وہ ہے جو غنیہ میں ہے لہٰذا ہم نے اسی پر اعتماد کیا۔ ت
اقول ومما(۱) یؤیدہ اطلاقھم قاطبۃ مسألۃ التوضی والاغتسال للتبرد مع(۲) ان التبرد ربما یکون لجمع الخاطر للعبادۃ والتقوی علی مطالعۃ کتب العلم وھو لاشک اذن من القرب فکل مباح فعلہ العبد المؤمن بنیۃ خیر خیر غیرانہ لم یطلب عینا فی الشرع وان ساغ ان یصیرو سیلۃ الی مطلوب واعظم منہ(۱) مسألۃ الاغتسال لازالۃ الدرن(۲) فھو مطلوب عینا فی الشرع فانما بنی الدین علی النظافۃ وقد کانت ھذہ حکمۃ الامر بالاغتسال یوم الجمعۃ کما افصحت بہ الاحادیث بیدان ازالۃ الوسخ لایتوقف علی الماء فلم یکن مما طلب فیہ الشرع انفاق الماء عینا بخلاف غسل(۳) الجمعۃ والعیدین وعرفۃ والاحرام فان من اغتسل فیھا بماء ثمراو نبیذ تمر مثلا لم یکن اٰتیا بالسنۃ قطعا اوان ازال بہ الوسخ وبالدرن(۴) وذلک ان الحکم یکون لحکمۃ ولکن العباد مامورون باتباع الحکم دون الحکمۃ کما قدعرف فی موضعہ وھنا لک تم الرد علی مسألۃ القصعۃ والقدر،
پھر اس کی تائید تمام فقہاء کے اس اطلاق سے ملتی ہے کہ وہ فر ماتے ہیں کہ وضو اور غسل ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے کرنا، حالانکہ ٹھنڈک حاصل کرنا کبھی اس غرض سے بھی ہوتا ہے کہ انسان عبادت میں پرسکون رہے یا مطالعہ اطمینان سے کرسکے اور بلا شبہ اس صورت میں یہ عبادت ہوگا کیونکہ ہر مباح جو انسان خیر کی نیت سے کرے خیر ہے، البتہ وہ بعینہٖ مطلوب شرع نہیں، اگرچہ مطلوب کا وسیلہ بن سکتا ہے اس سے بڑی بات غسل کا مسئلہ ہے میل دور کرنے کیلئے یہ بعینہٖ مطلوب شرع ہے دین کی بنیاد ہی نظافت پر ہے اور جمعہ کے دن غسل کے حکم کی حکمت یہی ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ البتہ میل کا زائل کرنا پانی پر ہی موقوف نہیں، لہٰذا پانی کا خرچ کرنا بعینہ مطلوب شرع نہ ہوا، اور جمعہ، عیدین، وقوف بعرفہ، اورا حرام کا غسل شرعاً مطلوب ہے، ان غسلوں کو اگر کسی نے پھلوں کے عرق یا شیرہ کھجورسے کیا تو قطعی طور پر سنّت کی اتباع نہ ہوگی، خواہ اس سے میل کچیل زائل ہوجائے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے، لیکن بندوں پر حکم کی پابندی ہے نہ کہ حکمۃ کی۔ یہ بات اپنے مقام پر مذکور ہے یہاں تک پیالہ اور ہانڈی کے مسئلہ پر ردمکمل ہوا،
وتبین وللّٰہ الحمد ان المراد بالقربۃ ھھنا ھی المتعلقۃ بظاھر بدن الانسان مما ادار الشرع فیہ اقامۃ نفس القربۃ المطلوبۃ ولو ندبا علی امساس الماء عینا ولو مسحا بشرۃ بشر ولو میتا فزال الابہام واتضح المرام وظھرت فی الفروع کلھا الاحکام والحمدللّٰہ ولی الانعام،
اور الحمدللہ یہ بات واضح ہوگئی کہ قربت سے مراد اس مقام پر وہ قربۃ ہے جس کا تعلق ظاہر بدن سے ہو جس میں شریعت نے قربت مطلوب، خواہ ندبا ہی ہو، کا دارومدار اس پر کیا ہے کہ انسان، خواہ مردہ ہی ہو، کی جلد پر بعینہٖ پانی لگے، خواہ بطور مسح ہی ہو، اس سے ہمارا مقصود واضح ہوا اور مسئلہ کے فروع واحکام ظاہر ہوئے الحمدللہ ولی الانعام۔
والاٰن عسی ان تقوم تقول اٰل الامر الی ان الماء انما یصیر مستعملا اذا انفق فیما کان انفاقہ فیہ مطلوبا فی الشرع عینا فما الفارق فیہ وفیما اذا انفق فی قربۃ مطلوبۃ شرعا من دون توقف علی الماء خصوصا کیف لعموم قولہ تعالی ان الحسنات یذھبن السیاٰت ذلک ذکری للذاکرین ۱؎o
اب اس مقام پر ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ مستعمل پانی وہ ہوتا ہے جو کسی ایسے عمل میں خرچ ہوا ہو کہ جس میں اس کا خرچ کیا جانا بعینہ مطلوب شرع ہو تو اِس صورت میں اور جب پانی ایسی قربۃ میں خرچ کیا گیا ہو جو شرعاً مطلوب تو ہو مگر پانی پر موقوف نہ ہو کیا فرق ہوگا؟ جبکہ پانی میں تغیر پیدا کرنے والی چیز اس کی طرف نجاست حکمیہ کا آنا ہے اور گناہوں کی نجاست بھی نجاست حکمیہ ہی ہے، جو کُلَّا یا بعضاً ہر قربت سے دُھل جاتی ہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی '' ان الحسنٰت یذھبن السیئٰت (نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں یہ ذاکرین کیلئے نصیحت ہے( کہ عموم کا تقاضا ہے۔(ت)
(۱؎ القرآن ۱۱/۱۱۴)
اقول نعم(۱) ولوجہ اللّٰہ الحمد ابدا تزول الاٰثام باذن اللّٰہ بکل قربۃ رحمۃ منہ جلت اٰلاؤہ بھذہ الامۃ المبارکۃ المرحومۃ دنیا واخری بنبیھا الکریم الرؤوف الرحیم المرسل رحمۃ والمبعوث نعمۃ افضل صلوات ربہ واجمل تسلیماتہ وازکی برکاتہ وادوم تحیاتہ علیہ وعلی الہ وصحبہ وامتہ ابدا ولکن الزوال بقربۃ لایوجب التحول الی اٰلتھا التی اقیمت بھا وما علمنا ذلک الافی اٰلۃ عینھا الشرع کالمال فی الزکوۃ والماء فی الطھر لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی الصدقات انما ھی اوسخ الناس ۲؎ رواہ احمد ومسلم عن عبدالمطلب بن ربیعۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ،
میں کہتا ہوں ہاں یہ درست ہے گناہ ہر عبادت سے اللہ کی رحمت سے زائل ہوجاتے ہیں ....... مگر گناہوں کا کسی قربت کی وجہ سے زائل ہونا اس امر کا متقاضی نہیں کہ وہ آلہ تطہیر کی طرف منتقل ہوجائیں، یہ بات صرف اُسی آلہ میں ہے جس کو شریعت نے متعین کیا ہو جیسے زکوٰۃ میں مال اور طہارت میں پانی، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے، اس کو احمد ومسلم نے عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت کیا۔
(۲؎ صحیح للمسلم تحریم الزکوٰۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۳۴۵)
وقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من توضأ فاحسن الوضوء خرجت خطایاہ من جسدہ حتی تخرج من تحت اظفارہ ۳؎ رواہ الشیخان عن امیر المومنین عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ،
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اچھی طرح وضو کیا تو گناہ اُس کے جسم سے نکلیں گے یہاں تک کہ اُس کے ناخنوں کے نیچے سے نکلیں گے، اس کو شیخین نے امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا،
(۳؎ صحیح للمسلم خروج الخطایا مع ماء الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۲۵)
وقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأ العبد المسلم اوالمؤمن فغسل وجہہ خرج من وجہ کل خطیئۃ نظر الیہا بعینیہ مع الماء اومع اٰخر قطر الماء فاذا غسل یدیہ خرج من یدیہ کل خطیئۃ کان بطشتھا یداہ مع الماء اومع اٰخر قطرالماء فاذا غسل رجلیہ خرج کل خطیئۃ مشتھارجلاہ مع الماء اومع اٰخر قطرالماء حتی یخرج نقیامن الذنوب ۱؎ رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ،
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب مسلم یا مومن بندہ وضو میں اپنا چہرہ دھوتا تو اُس کے چہرہ سے ہر گناہ نکل جاتا ہے جس کی طرف اس نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا ہو پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ، جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو جو گناہ اس نے اپنے ہاتھوں سے کئے وہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنے پیر دھوتا ہے تو اُس کے پیروں کے گناہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔ اس کو مسلم نے ابو ھریرہ سے روایت کیا۔
(۱؎ صحیح للمسلم خروج الخطاء مع ماء الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۲۵)
والاحادیث کثیر شھیر فی ھذا المعنی واصحاب(۱) المشاھدۃ الحقۃ اعاد اللّٰہ علینا من برکاتھم فی الدنیا والاٰخرۃ یشاھدون ماء الوضوء یخرج من اعضاء الناس متلوثا بالاٰثام متلونا بالوانھا البشعۃ وعن ھذا حکم امام اھل الشھود ابو حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان الماء المستعمل نجاسۃ مغلظۃ لانہ کان یراہ متلطخا بتلک القاذورات فما کان یسعہ الا الحکم بھذاوکیف یردالانسان امرا یراہ بالعیان قالا الامام العارف باللّٰہ سیدی عبدالوھاب الشعرانی قدس سرہ الربانی وکان من کبار العلماء الشافعیۃ فی میزان الشریعۃ الکبری سمعت سیدی علیا الخواص رضی اللّٰہ تعالی عنہ(وکان ایضا شافعیا کما سیأتی)یقول(۲) مدارک الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ دقیقۃ لایکاد یطلع علیھا الا اھل الکشف من اکابر الاولیاء قال وکان الامام ابو حنیفۃ اذ رأی ماء المیضأۃ یعرف سائر الذنوب التی خرت فیہ من کبائر وصغائر ومکروہات فلہذا جعل ماء الطہارۃ اذا تطھر بہ المکلف لہ ثلثۃ احوال احدھا انہ کالنجاسۃ المغلظۃ لاحتمال ان یکون المکلف ارتکب کبیرۃ الثانی کالنجاسۃ المتوسطۃ لاحتمال ان یکون ارتکب صغیرۃ الثالث طاھر غیر مطھر لاحتمال ان یکون ارتکب مکروھا ۱؎
اور اس مفہوم کی احادیث بکثرت مشہور ومعروف ہیں، اور اصحاب مشاہدہ اپنی آنکھوں سے وضو کے پانی سے لوگوں کے گناہوں کو دھلتا ہوا دیکھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اہل شہود کے امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ مستعمل پانی نجاست مغلظہ ہے کیونکہ وہ اس پانی کو گندگیوں میں ملوّث دیکھتے تھے، تو ظاہر ہے کہ وہ دیکھتے ہوئے، اس کے علاوہ اور کیا حکم لگا سکتے تھے۔امام شعرانی نے میزان الشریعۃ الکبری میں فرمایا کہ میں نے سیدی علی الخواص(جو بڑے شافعی عالم تھے( کو فرماتے سُنا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے مشاہدات اتنے دقیق ہیں جن پر بڑے بڑے صاحبانِ کشف اولیاءاللہ ہی مطلع ہوسکتے ہیں، فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ جب وضو میں استعمال شدہ پانی دیکھتے تو اس میں جتنے صغائر وکبائر مکروہات ہوتے ان کو پہچان لیتے تھے، اس لئے جس پانی کو مکلّف نے استعمال کیا ہو اس کے تین درجات آپ نے مقرر فرمائے:
اوّل: وہ نجاست مغلظہ ہے کیونکہ اس امر کا احتمال ہے کہ مکلّف نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہو۔
دوم: نجاست متوسطہ اس لئے کہ احتمال ہے کہ مکلف نے صغیرہ کا ارتکاب کیا ہو۔
سوم: طاہر غیر مطَہِّر، کیونکہ احتمال ہے کہ اس نے مکروہ کا ارتکاب کیا ہو،
(۱؎ المیزان الکبرٰی کتاب الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۰۹)
وفھم جماعۃ من مقلدیہ ان ھذہ الثلثۃ اقوال فی حال واحد والحال انھا فی احوال بحسب حصر الذنوب فی ثلٰثۃ اقسام کما ذکرنا اھ وفیہ ایضا رضی اللّٰہ عن الامام ابی حنیفۃ ورحم اصحابہ حیث قسموا النجاسۃ الی مغلظۃ ومخففۃ لان المعاصی لاتخرج عن کونھا کبائر اوصغائر ۲؎
ان کے بعض مقلدین سمجھ بیٹھے کہ یہ ابو حنیفہ کے تین اقوال ہیں ایک ہی حالت میں، حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تین اقوال گناہوں کی اقسام کے اعتبار سے ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اھ اور اسی کتاب میں ہے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے نجاست کو مغلظہ اور مخففہ میں تقسیم کیا ہے، کیونکہ معاصی، کبائر ہوں گے یا صغائر۔
(۲؎ المیزان الکبری کتاب الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۰۸)
وسمعت سیدی علیا الخواص رحمہ اللّٰہ تعالٰی لوکشف للعبد لرأی الماء الذی یتطھر منہ الناس فی غایۃ القذارۃ والنتن فکانت نفسہ لاتطیب باستعمالہ کمالا تطیب باستعمال ماء قلیل مات فیہ کلب اوھرۃ قلت لہ فاذن کان(۱) الامام ابو حنیفۃ وابو یوسف من اھل الکشف حیث قالا بنجاسۃ الماء المستعمل قال نعم کان ابو حنیفۃ وصاحبہ من اعظم اھل الکشف فکان اذا رأی الماء الذی یتوضأ منہ الناس یعرف اعیان تلک الخطایا التی خرت فی الماء ویمیز غسالۃ الکبائر عن الصغائر والصغائر عن المکروھات والمکروھات عن خلاف الاولی کالامور المجسدۃ حسا علی حد سواء قال وقد بلغنا انہ دخل مطھرۃ جامع الکوفۃ فرأی شابا یتوضأ فنظر فی الماء المتقاطر منہ فقال یاولدی تب عن عقوق الوالدین فقال تبت الی اللّٰہ عن ذلک ورأی غسالۃ شخص اخر فقال لہ یااخی تب من الزنا فقال تبت ورأی غسالۃ اخر فقال تب من شرب الخمر وسماع اٰلات اللھو فقال تبت ۱؎ اھ
اور میں نے سیدی علی الخواص کو فرماتے سنا کہ اگر انسان پر کشف ہوجائے وہ طہارت میں استعمال کئے جانے والے پانی کو انتہائی گندہ اور بدبودار دیکھے گا اور وہ اس پانی کو اسی طرح استعمال نہ کرسکے گا جیسے اُس پانی کو استعمال نہیں کرتا ہے جس میں کتّا بلّی مرگئی ہو میں نے اُن سے کہا اس سے معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف اہل کشف سے تھے کیونکہ یہ مستعمل کی نجاست کے قائل تھے، تو انہوں نے کہا جی ہاں۔ ابو حنیفہ او ر ان کے صاحب بڑے اہل کشف تھے، جب وہ اُس پانی کو دیکھتے جس کو لوگوں نے وضو میں استعمال کیا ہوتا تو وہ پا نی میں گرتے ہوئے گناہوں کو پہچان لیتے تھے اور کبائر کے دھوون کو صغائر کے دھوون سے الگ ممتاز کرسکتے تھے، اور صغائر کے دھوون کو مکروہات سے اور مکروہات کے دھوون کو خلافِ اولیٰ سے ممتاز کرسکتے تھے اسی طرح جیسے محسوس اشیاء ایک دوسرے سے الگ ممتاز ہوا کرتی ہیں، فرمایا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک مرتبہ آپ جامع کوفہ کے طہارت خانہ میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ ایک جوان وضو کررہا ہے، اور پانی کے قطرات اُس سے ٹپک رہے ہیں تو فرمایا اے میر ے بیٹے! والدین کی نافرمانی سے توبہ کر۔ اس نے فوراً کہا میں نے توبہ کی۔ ایک دوسرے شخص کے پانی کے قطرات دیکھے تو فرمایا اے میرے بھائی! زنا سے توبہ کر۔ اس نے کہا میں نے توبہ کی۔ ایک اور شخص کے وضو کا پانی گرتا ہوا دیکھا تواُس سے فرمایا شراب نوشی اور فحش گانے بجانے سے توبہ کر۔ اس نے کہا میں نے توبہ کی اھ
(۱؎ المیزان الکبری الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۰۹)
ۤ وفیہ ایضا رحمہ اللّٰہ تعالی مقلدی الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ حیث منعوا الطھارۃ من ماء المطاھر التی لم تستجر لما یخر فیھا من خطایا المتوضئین وامروا اتباعھم بالوضوء من الانھاراوالاٰبار اوالبرک الکبیرۃ وکان سیدی علی الخواص رحمہ اللّٰہ تعالی مع کونہ شافعیا لایتؤضا من مطاھر المساجد فی اکثر اوقاتہ ویقول ان ماء ھذہ المطاھر لاینعش جسدامثالنا لتقذرھا بالخطایا التی خرت فیھا وکان یمیز بین غسالات الذنوب ویعرف غسالۃ الحرام من المکروہ من خلاف الاولی ودخلت معہ مرۃ میضأۃ المدرسۃ الازھریۃ فاراد ان یستنجی من المغطس فنظر ورجع فقلت لم قال رایت فیہ غسالۃ ذنب کبیر غیرتہ فی ھذا الوقت وکنت انارأیت الذی دخل قبل الشیخ وخرج فتبعتہ فاخبرتہ الخبر فقال صدق الشیخ قد وقعت فی زنا ثم جاء الی الشیخ وتاب ھذا امر شاھد تہ من الشیخ ۱؎ اھ کلہ ملتقطا وسقتہ ھھنا لجمیل فائدتہ وجلیل عائدتہ ولیس ماعینتہ انت اٰلۃ لقربۃ فی معنی ماعینہ الشارع فلا یلتحق۔
اسی میں حضرت امام ابو حنیفہ کے بعض مقلدین سے مروی ہے کہ انہوں نے اُن وضو خانوں کے پانی سے وضو کو منع کیا ہے جن میں پانی جاری نہ ہو کیونکہ اُس میں وضو کرنے والوں کے گناہ بہتے ہیں، اور اُنہوں نے حکم دیا کہ وہ نہروں کنوؤں اور بڑے حوضوں کے پانی سے وضو کریں۔ اور سیدی علی الخواص باوجود شافعی المذہب ہونے کے مساجد کے طہارت خانوں میں اکثر اوقات وضو نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ پانی ہم جیسے لوگوں کے جسموں کو صاف نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ اُن گناہوں سے آلودہ ہے جو اس میں مل گئے ہیں، اور وہ گناہوں کے دھوون میں یہ فرق بھی کرلیتے تھے کہ یہ حرام کا ہے یا مکروہ کا یا خلاف اولٰی کا، اور ایک دن میں ان کے ساتھ مدرسۃ الازہر کے وضو خانہ میں داخل ہوا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ حوض سے استنجا کریں، تو اس کو دیکھ کر لوٹ آئے میں نے دریافت کیا کیوں؟ تو فرمایا کہ میں نے اس میں ایک گناہ کبیرہ کا دھوون دیکھا ہے جس نے اس کو متغیر کردیا ہے، اور میں نے اُس شخص کو بھی دیکھا تھا جو حضرت شیخ سے قبل وضو خانہ میں داخل ہوا تھا، پھر میں اُس کے پیچھے پیچھے گیا اور اُس کو حضرت شیخ نے جو کہا تھا اس کی خبر دی، اُس نے تصدیق کی اور کہا کہ مجھ سے زنا واقع ہوا، اور حضرت شیخ کے ہاتھ پر آکر تائب ہوا۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے اھ یہ سب ماخوذ ہے اس کے عظیم فائدہ کیلئے میں نے اس کو ذکر کیا ہے، اور جس کو آپ نے قربت کا آلہ قرار دیا ہے وہ اس معنی میں نہیں ہے جس کو شارع نے معین کیا ہے تو یہ اس کے ساتھ لاحق نہ کیا جائے۔ ت
(۱ المیزان الکبری کتاب الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۱۰)
اقول بل الدلیل ناھض علی عدم الالتحاق الاتری ان ارواء الظماٰن قربۃ مطلوبۃ قطعا وقدورد(۱) فیہ خصوصا انہ محاء للذنوب اخرج الخطیب عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا کثرت ذنوبک فاسق الماء علی الماء تتناثر کما یتناثر الورق من الشجر فی الریح العاصف ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں بلکہ دلیل عدم التحاق پر قائم ہے کیا یہ نہیں کہ پیاسے کو سیراب کرنا قربۃ مطلوبہ ہے، اور اس بارے میں بطور خاص وارد ہوا کہ یہ گناہوں کا مٹانے والا ہے۔ خطیب انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تیرے گناہ زیادہ ہوجائیں تو تُو پانی پر پانی پلا تو تیرے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جس طرح تیز ہوا سے پیڑ کے پتّے جھڑ جاتے ہیں اھ
(۲؎ تاریخ بغداد عن انس بیروت ۶/۴۰۳)
فاذا استقیت لہ الماء من بئر اوسکبت من اناء واعطیتہ ایاہ فقد اقمت بہ قربۃ فلو تحولت نجاسۃ الاٰثام الیہ لصار نجسا حراما شربہ عند الامام وقذرابالاجماع مکروہ الشرب فیعود الاحسان اساء ۃ والقربۃ علی نفسھا بالنقض وھو باطل اجماعا فما ذلک الالان الشرع انما طلب منک ان تھیئ لہ مایرویہ ولم یعین لہ الماء بخصوصہ بحیث لایجزیئ غیرہ بل لوسقیتہ لبنا خالصا اوممزوجا بماء اوماء الورد اوجلابابثلج ولو زوماء الکاذی وامثال ذلک لکان اجدواجود واقمت القربۃ وازید واللّٰہ یحب المحسنین وقد اشتد(۱) تشییدا بھذا ارکان مانحونا الیہ فی مسألۃ القدور والقصاع ھذا کلہ ماظھرلی وارجو ان قد زھر الامر و زال القناع والحمدللّٰہ رب العلمین۔
تو جب تُونے اس کو کنوئیں کے پانی سے سیراب کیا یا کسی برتن سے انڈیلا اور اس کو دیا تو تونے اس کے ساتھ قربت کو قائم کیا، تو اگر گناہوں کی نجاست اس کی طرف منتقل ہوجائے تو وہ نجس ہوگا اور امام کے نزدیک اس کاپینا حرام ہوگا، اور بالاجماع گندا ہوگا اور اس کا پینا مکروہ ہوگا تو احسان گناہ ہوجائے گا اور قربت اپنے نفس پر نقض ہوگی یہ بالاجماع باطل ہے، یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ شریعت نے تم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم اُس کے لئے وہ تیار کرو جو اس کو سیراب کردے، اور اس کیلئے کسی پانی کو مخصوص نہیں کیا ہے کہ اُس کے بغیر کفایت نہ ہو، بلکہ اگر تم اس کو خالص دودھ، پانی ملا دودھ، عرق گلاب یا برف والا شربت خواہ وہ کیوڑے والا ہو تو زیادہ بہتر ہوگا تمہاری قربت ادا ہوگئی اور کچھ زیادہ بھی اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے، اور ہماری اس تقریر سے ہانڈیوں اور پیالوں والے مسئلہ کی مزید تائید ہوئی ہے۔ یہ میرے لئے ظاہر ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سے معاملہ واضح ہوگیا ہے والحمدللہ رب العالمین۔ ت
تنبیہ عامۃ(۲) الکتب فی بیان الشق الاول من الماء المستعمل علی التعبیر بماء استعمل فی رفع حدث وعلیہ المتون کالقدوری والہدایۃ والوقایۃ والنقایۃ والاصلاح والکنز والغرر والملتقی واعترضھم المحقق علی الاطلاق فی الفتح بان الحدث لایتجزء ثبوتا ۱؎ اھ علی القول(۳) الصحیح المعتمد فما بقیت ذرۃ مما لحقہ حکم الحدث بقی الحدث فی کل ماکان لحقہ حتی لوان محدثا اوجنبا تطھر وبقیت لمعۃ خفیفۃ فی رجلہ مثلا لم یحل لہ مس المصحف بیدہ ولا بکمہ ولا للجنب التلاوۃ کل ذلک علی ماھو المختار للفتوی فھذا الماء لم یرفع الحدث ولو لم ینو لم تکن قربۃ ایضامع انہ مستعمل قطعا بفروع کثیرۃ منصوصۃ عن صاحب المذھب رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی ادخال المحدث بعض اعضائہ فی الماء لغیرضرورۃ الاغتراف علی مافصلت فی الفتح والحلیۃ والبحر غیرھا وللتفصی عن ھذا قرر المحقق ان صیر ورۃ الماء مستعملا باحدی ثلث رفع الحدث والتقرب وسقوط الفرض عن العضو قال وعلیہ تجری فروع ادخال الید والرجل الماء القلیل لالحاجۃ ولا تلازم بین سقوط الفرض وار تفاع الحدث فسقوط الفرض عن الید مثلا یقتضی ان لایجب اعادۃ غسلھا مع بقیۃ الاعضاء ویکون ارتفاع الحدث موقوفا علی غسل الباقی وسقوط الفرض ھو الاصل فی الاستعمال لما عرف ان اصلہ مال الزکوٰۃ والثابت فیہ لیس الاسقوط الفرض حیث جعل بہ دنسا شرعا علی ماذکرناہ ۱؎ وتبعہ تلمیذہ المحقق فی الحلیۃ ثم البحر فی البحر ثم تلمیذہ العلامۃ الغزی حتی جعلہ متنا واقرہ علیہ المدقق فی الدرواعتمدہ العارف باللّٰہ سیدی عبدالغنی النابلسی فی شرح ھدیۃ ابن العماد زعم العلامۃ ش ان ھذا السبب الثالث زادہ فی الفتح ۱؎۔
تنبیہ مستعمل پانی کی پہلی شق کے بیان میں عام کتب میں یہی ہے کہ یہ وہ پانی ہے جو حَدَث دُور کرنے میں مستعمل ہواہو، متونِ کتب میں یہی ہے، مثلاً قدوری، ہدایہ، وقایہ، نقایہ، اصلاح،کنز، غُرر اور ملتقی وغیرہ، اورمحقق علی الاطلاق نے فتح میں اِن پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حَدَث کے ثبوت میں تجزّی نہیں ہوتی ہے اھ یعنی قول صحیح معتمد پر، تو جب تک بدن کا کوئی ذرہ جس سے حکمِ تطہیر لاحق ہوتا ہے باقی بچا رہے گا حدث بھی اُس حصہ میں باقی رہے گا، یہاں تک کہ کوئی بے وضو یا ناپاک شخص غسل کرتا ہے اور مثلاً اُس کے پیر میں خشکی کی معمولی سی چمک باقی رہ جاتی ہے تو وہ مصحف کو اپنے ہاتھ سے یا اپنی آستین سے نہیں چھو سکتا ہے اور جُنب ہونے کی صورت میں تلاوت نہیں کرسکتا ہے یہ سب فتوٰی کیلئے مختار ہے، تو اس پانی نے حدث کو رفع نہیں کیا، اور اگر اُس نے نیت نہ کی تو قربت بھی نہ ہوگی حالانکہ وہ قطعا مستعمل ہے، اس میں بہت سی فروع ہیں جو صاحبِ مذہب سے منقول ہیں، ان کا تعلق اِس امر سے ہے کہ بے وضو اپنے کسی عضو کو بلا ضرورت چُلّو بھرنے کیلئے پانی میں ڈالے، جیسا کہ فتح، حلیہ اور بحر میں تفصیل سے ذکر کیا ہے، اس اعتراض سے رہائی حاصل کرنے کیلئے محقق نے یہ تقریر کی ہے کہ پانی کے مستعمل ہونے کی تین صورتیں ہیں رفعِ حدث، تقرب اور فرض کا عضو سے ساقط ہونا، فرمایا کہ اسی پر یہ فروع متفرع ہوں گی کہ ہاتھ یا پیر تھوڑے پانی میں بلا ضرورت ڈالا، اور سقوط فرض اور ارتفاع حَدَث میں کوئی تلازم نہیں ہے اب ہاتھ سے سقوط فرض مثلاً چاہتا ہے کہ ہاتھ کے دھونے کا بقیہ اعضاء کے ساتھ اعادہ نہ ہو، اور حَدَث کا مرتفع ہونا باقی اعضاء کے دھونے پر موقوف ہو اور پانی کے استعمال میں سقوط فرض ہی اصل ہے جیسا کہ معلوم ہے کہ اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے اس میں یہی ثابت ہے کہ سقوطِ فرض ہو، کیونکہ اس میں شرعا میل کچیل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اھ اور ان کے محقق شاگرد نے ان کی پیروی کی حلیہ میں، پھر صاحب بحر نے بحر میں۔ پھر ان کے شاگرد علّامہ غزّی نے، یہاں تک کہ اس کو متن قرار دیا، اور دُر میں اس کو مدقق نے برقرار رکھا، اور عبدالغنی نابلسی نے شرح ہدیۃ ابن العماد میں اس پر اعتماد کیا، اور علّامہ ش نے فرمایا کہ اس تیسرے سبب کو فتح میں زیادہ کیا گیا۔ ت
(۱؎ فتح القدیر ماء مستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۹)
(۱؎ فتح القدیر ماء مستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۹)
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۶)
اقول ولیس(۱) کذا بل ھو منصوص علیہ من صاحب المذھب رضی اللّٰہ تعالی عنہ ففی الفتح عن کتاب الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان غمس جنب اوغیر متوضیئ یدیہ الی المرفقین اواحدی رجلیہ فی اجانۃ لم یجز الوضوءمنہ لانہ سقط فرضہ عنہ ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں یہ بات درست نہیں بلکہ یہ صاحب مذہب رحمہ اللہ سے ہی منصوص ہے، فتح میں حسن کی کتب سے ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ اگر ناپاک شخص یا بے وضو شخص نے اپنے دونوں ہاتھ دونوں کہنیوں تک پانی میں ڈبوئے یا ایک پیر کسی مرتبان میں ڈبویا تو اُس سے وضو جائز نہ ہوگا، کیونکہ اس کا فرض اُس سے ساقط ہوچکا ہے اھ
(۲؎ فتح القدیر بحث الماء المستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
وقدمنا عن الھدایۃ فی تعلیل قول ابی یوسف ای والامام رضی اللّٰہ تعالی عنہما ان اسقاط الفرض مؤثر ایضا فیثبت الفساد بالامرین ۳؎ اھ
اور ہم نے ہدایہ سے ابو یوسف کے قول یعنی امام کے قول کی بھی علّت بیان کرتے ہوئے پہلے ذکر کیا ہے کہ اسقاط فرض بھی موثر ہے تو فساد دونوں امروں سے ثابت ہوگا اھ
(؎ ہدایۃ الماء الذی یجوز بہ الوضوء العربیہ کراچی ۱/۲۲)
نعم المزید من المحقق ھو تثلیث السبب ولیس بذاک فان سقوط الفرض اعم مطلقا من رفع الحدث ففیہ غنیۃ عنہ اما ما فی منحۃ الخالق انہ قدیرفع الحدث ولا یسقط الفرض کوضوء الصبی العاقل لما مر من صیر ورۃ ماءہ مستعملامع انہ لافرض علیہ ۱؎ ا ھ
ہاں محقق نے جو اضافہ کیا ہے وہ سبب کی تثلیث ہے، اور وہ درست نہیں کیونکہ سقوطِ فرض اعم مطلق ہے رفعِ حدث سے، لہٰذا یہ اس سے بے نیاز کرنے والا ہے، اور منحۃ الخالق میں ہے کہ کبھی حدث ختم ہوجاتا ہے اور فرض ساقط نہیں ہوتا جیسے عاقل بچّے کا وضو کیونکہ ابھی گزرا ہے کہ اُس کا پانی مستعمل ہوجاتا ہے حالانکہ وضو اُس پر فرض نہیں۔
(؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
فاقول لیس(۱) بشیئ فان حکم الحدث(۲) انما یلحق المکلف وقد نصوا ان مراھقا جامع اومراھقۃ جومعت انما یؤمر ان بالغسل تخلقا واعتیاد ا ۲؎ کما فی الخانیۃ والغنیۃ وغیرھما
میں کہتا ہوں یہ ٹھیک نہیں کیونکہ حدث کا حکم مکلّف کو لاحق ہوتا ہے، علماء نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی مراھق نے جماع کیا یا کسی مراہقہ سے جماع کیا گیا تو ان کو اخلاق وآداب سکھانے کی غرض سے غسل کا حکم دیا جائے گا، خانیہ اور غنیہ وغیرہ میں یہی ہے۔
(۲؎ قاضی خان فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱/۲۱)
وفی الدر یؤمر بہ ابن عشرتادیبا ۳؎ فحیث لم یسقط الفرض لانعدام الافتراض لم یرتفع الحدث ایضا لانعدام الحکم بہ اما صیرورتہ مستعملا فلیس لرفعہ حدثا والاصار مستعملا من کل صبی ولولم یعقل وھو خلاف المنصوص بل لکونہ قربۃ معتبرۃ اذا نواھا ولذا قیدوہ بالعاقل لان غیرہ لانیۃ لہ والذی(۳) مران ارادبہ امر فی البحر فھو قولہ فی الخلاصۃ اذا توضأ الصبی فی طست ھل یصیر الماء مستعملا المختار انہ یصیر اذا کان عاقلا ۴؎ اھ
اور دُر میں یہ ہے کہ دس سالہ لڑکے کو تادیباً غسل کا حکم دیا جائیگا جب فرض ساقط نہ ہوگا کیونکہ فرضیت منعدم ہے تو حدث بھی مرتفع نہ ہوگا کیونکہ اس کا حکم منعدم ہے، اور رہا اس کا مستعمل ہونا تو یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس نے حدث کو رفع کیا ہے ورنہ تو ہر بچّہ کا مستعمل پانی مستعمل ہوجاتا اگرچہ وہ عاقل نہ ہو،اور یہ خلاف منصوص ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ یہ قربت اُسی وقت معتبر ہوگی جبکہ وہ اُس کی نیت کرے، اور اسی لئے انہوں نے بچّہ کو عاقل سے مقید کیا ہے کیونکہ غیر عاقل کی نیت نہیں ہوتی ہے، اور جو گزرا اگر اُس سے ان کا ارادہ وہ ہے جو گزرا بحر میں تو ان کا وہ قول خلاصہ میں ہے کہ جب بچّہ طشت میں وضو کرے تو آیا پانی مستعمل ہوگا؟ تو مختار یہ ہے کہ اس وقت مستعمل ہوگا جب بچّہ عاقل ہو اھ
(۳؎ درمختار موجبات الغسل مجتبائی دہلی ۱/۳۱)
(۴؎ خلاصۃ الفتاوٰی الماء المستعمل نولکشور لکھنؤ ۱/)
فھذا التقیید یفید ماقلنا وقد قال فی الغنیۃ(۴) ان ادخل الصبی یدہ فی الماء وعلم ان لیس بہا نجس یجوز التوضؤ بہ وان شک فی طہارتھا یستحب ان لایتوضأ بہ وان توضأ جاز ھذا اذا لم یتوضأ الصبی بہ فان توضأ بہ ناویااختلف فیہ المتأخرون والمختار انہ یصیر مستعملا اذا کان عاقلا لانہ نوی قربۃ معتبرۃ ۱؎ اھ
تو یہ تقیید اُسی چیز کا فائدہ دے رہی ہے اور غنیہ میں فرمایا کہ اگر بچہ نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور یہ علم تھا کہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست موجود نہیں ہے تو اس پانی سے وضو جائز ہے، جو ہم نے کہی ہے،اور اس کی طہارت میں شک ہے تو مستحب یہ ہے کہ اُس پانی سے وضو نہ کرے اور اگر وضو کیا تو جائز ہے، یہ اُس صورت میں ہے جب کہ بچہ نے اُس سے وضو نہ کیا ہو اور اگر نیت کے ساتھ وضو کیا ہو تو متاخرین کا اس میں اختلاف ہے، اور پسندیدہ قول یہ ہے کہ اگر وہ عاقل ہو تو مستعمل قرار پائے گا کیونکہ اُس نے معتبر قربت کی نیت کی ہے اھ
(۱؎ غنیۃ المستملی الماء المستعمل سہیل اکیڈمی لاہور ۱/۱۵۳)
وان اراد بہ مامر فی نفس المنحۃ قبیل ھذا بسطور فھو اصرح وابین حیث قال نقلا عن الخانیۃ الصبی العاقل اذا توضأ یرید بہ التطھیر ینبغی ان یصیر الماء مستعملا لانہ نوی قربۃ معتبرۃ ۲؎
اور اگر وہ ارادہ کیا جو نفسِ منحہ میں گزرا ہے اس سے چند سطور قبل تو وہ اور زیادہ واضح اور روشن ہے وہ خانیہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عاقل بچّہ جب وضو کرے اور اس سے پاکی حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو چاہئے کہ پانی مستعمل ہوجائے، کیونکہ اُس نے معتبر قربۃ کی نیت کی اھ
(۲؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۱)
ثم افاد(۱) بنفسہ ان قولہ یرید بہ التطہیر یشیر الی انہ ان لم یرد بہ التطھیر لایصیر مستعملا ۳؎ اھ ولکن سبحن من لاینسی ثم قال(۲( فی المنحۃ بقی ھل بین سقوط الفرض والقربۃ تلازم ام لا۴؎ الخ
پھر خود ہی فرمایا کہ اس کا قول ''یرید بہ التطھیر'' اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر اس نے نیت تطہیر نہ کی تو پانی مستعمل نہ ہو گا اھ لیکن بے عیب ہے وہ خدا جو بھولتا نہیں۔ پھر منحہ میں فرمایا اب یہ امر باقی رہ گیا ہے کہ آیا سقوطِ فرض اور قربۃ میں تلازم ہے یا نہیں الخ۔ ت
(۳؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
(۴؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول مرادہ(۳) ھل القربۃ تلزم سقوط الفرض ام لافان التلازم یکون من الجانبین ولا یتوھم عاقل ان سقوط الفرض یلزم القربۃ فان الاستنشاق فی الوضوء والمضمضۃ فیہ وللطعام ومنہ والوضوء علی الوضوء وامثالھاکل ذلک قرب ولا سقوط لفرض ولکن تسامح فی العبارۃ وظن انہ تبع فیہ الفتح والبحر حیث قال تلازم بین سقوط الفرض وارتفاع الحدث قال فی المنحۃ المراد نفی التلازم من احد الجانبین وھو جانب سقوط الفرض ۱؎ الخ
اقول انکی مراد یہ ہے کیا قربت سقوطِ فرض کو مستلزم ہے یا نہیں؟ کہ تلازم جانبین سے ہی ہوتا ہے اور کوئی عقلمند آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ سقوط فرض مستلزم قربت ہے، کیونکہ وضو میں ناک میں پانی ڈالنا اور کُلّی کرنا اور کھانے کیلئے کُلی کرنا اور اس کے بعد کُلی کرنا اور وضوپر وضو اور اسی جیسی دوسری چیزیں سب کی سب عبادتیں ہیں لیکن اِن سے کوئی فرض ساقط نہیں ہوتا ہے، لیکن انہوں نے عبارت میں تسامح سے کام لیا ہے اور انہوں نے گمان کیا ہے کہ اس میں انہوں نے فتح اور بحر کی متابعت کی ہے وہ دونوں فرماتے ہیں سقوطِ فرض اور ارتفاع حدث میں تلازم نہیں۔ منحہ میں فرمایا ایک جانب سے تلازم کی نفی ہے اور وہ سقوطِ فرض کی جانب ہے الخ(ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول لیس(۱) کذلک بل التلازم ھو اللزوم من الجانبین فسلبہ یصدق بانتقاء اللزوم من احد الجانبین وھو المراد لفاضلین العلامتین وتفسیرہ باللزوم من احدالجانبین مفسد للمعنی اذ بورود السلب علیہ یکون الحاصل نفی اللزوم من کلا الجانبین ولیس صحیحا ولا مراد وعلی کل فھذا السؤال مما یھمنا النظر فیہ اذلو ظھر لزوم القربۃ لسقوط الفرض سقط سقوط الفرض ایضا کما ارتفع رفع الحدث ودارحکم الاستعمال علی القربۃ وحدھا کما نسبوہ الے الامام محمد وان کان التحقیق انہ لم یخالف شیخیہ فی ذلک کما بینہ فی الفتح والبحر فرأینا العلامۃ صاحب المنحۃ فاذا ھو اجاب عما سأل فقال ان قلنا ان اسقاط الفرض لاثواب فیہ فلا وان قلنا فیہ ثواب فنعم قال العلامۃالمحقق نوح افندی والذی یقتضیہ النظر الصحیح ان الراجع ھو الاول لان الثواب فی الوضوء المقصود وھو شرعا عبارۃ عن غسل الاعضاء الثلٰثۃ ومسح الراس فغسل عضو منھا لیس بوضوء شرعی فکیف یثاب علیہ اللھم الا ان یقال ان یثاب علی غسل کل عضو منھا ثوابا موقوفا علی الاتمام فان اتمہ اثیب علی غسل کل عضو منھا والا فلا ویدل علیہ مااخرجہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأ العبد المسلم اوالمؤمن الی اخر الحدیث الذی قدمنا ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں بات یہ نہیں ہے بلکہ تلازم کا مطلب یہ ہے کہ لزوم دونوں جانب سے ہو، تو اس کا سلب احد الجانبین سے لزوم کے انتفاء کی صورت میں صادق آئے گا اور یہی مراد ہے دونوں فاضل علماء کی، اور اس کی تفسیر احد الجانبین کے لزوم کے ساتھ معنی کو فاسد کرنے والی ہے، کیونکہ جب اس پر سلب وارد ہوگا تو حاصل نفی لزوم ہوگا دونوں جانبوں سے اور یہ نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی مراد ہے، اور بہر نوع ہمیں اِس سوال پر غور کرنا ہے کیونکہ اگر قربت اور سقوطِ فرض کا لزوم ظاہر ہوجائے تو سقوطِ فرض بھی ساقط ہوجائے گا جیسے کہ رفعِ حَدَث مرتفع ہُوا اور حکمِ استعمال کا دارومدار محض قربۃ پر ہوجائیگا جیسا کہ فقہاء نے اُس کو امام محمد کی طرف منسوب کیا ہے اگرچہ تحقیق یہی ہے کہ انہوں نے شیخین کی مخالفت نہیں کی جیسا کہ بحر اور فتح میں ہے، علامہ صاحبِ منحہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے فرماتے ہیں کہ اگر اسقاطِ فرض میں کوئی ثواب نہ مانا جائے تو یہ درست نہیں، اور اگر کہیں کہ اس میں ثواب ہے تو یہ درست ہے، علامہ نوح آفندی فرماتے ہیں نظر صحیح کا تقاضا یہ ہے کہ راجح پہلا قول ہی ہے کیونکہ ثواب مقصود وضو میں ہے اور وہ شرعاً اعضاء ثلٰثہ کے دھونے اور سر کے مسح کو کہتے ہیں، تو ایک عضو کا دھونا شرعی وضو نہیں ہے تو اس پر ثواب کیسے ہوگا! ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ثواب کسی ایک عضو کے دھونے کا ثواب موقوف رہے گا مکمل وضو کرنے پر، اب اگر مکمل کرلے گا تو ہرہر عضو کے دھونے پر ثواب پائے گا ورنہ نہیں۔ اس کی دلیل مسلم کی روایت ابو ھریرہ سے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جب مسلمان یا مومن وضو کرتا ہے الحدیث الذی قدمناہ اھ(جو حدیث ہم پہلے بیان کرچکے( ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی حاشیہ بحرالرائق بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول اولا لامعنی(۱) للزوم القربۃ سقوط الفرض وان قلنا بثبوت الثواب فی اسقاط الفرض اذلا ثواب الا بالنیۃ وسقوط الفرض لایتوقف علیھا فالحق ان بینھما عموما من وجہ مطلقا ولو نظر(۲) رحمہ اللّٰہ تعالٰی الی فرق مابین تعبیریہ بالسقوط والاسقاط لتنبہ لان الثواب ان کان لم یکن الا بالقصد المدلول علیہ بالاسقاط والسقوط لایتوقف علیہ وثانیا(۳) للعبدالضعیف کلام فی توقف الثواب فی الطھارۃ علی الاتمام بل الثواب منوط بنیۃ الامتثال کما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۱؎
میں کہتا ہوں اوّلا قربۃ کے سقوطِ فرض کو لازم ہونے کے کوئی معنی نہیں، خواہ ہم یہ کہیں کہ ثواب ثابت ہوگا اسقاطِ فرض میں، کیونکہ ثواب بلانیت کے نہیں ہوتا اور فرض کا سقوط نیت پر موقوف نہیں ہے، تو حق یہ ہے کہ اُن دونوں میں عموم من وجہ مطلقا ہے، اور اگر وہ رحمہ اللہ دونوں تعبیروں کے فرق کو دیکھتے، یعنی سقوط اور اسقاط تو ان کو معلوم ہوتا کہ ثواب نیت سے ہوتا ہےجو اسقاط سے مفہوم ہوتی ہے اور سقوط اس پر موقوف نہیں۔ ثانیاعبد ضعیف کو اس امر میں کلام ہے کہ ثواب موقوف ہے طہارت کے مکمل ہونے پر بلکہ ثواب موقوف ہے حکم ماننے کی نیت پر، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''بیشک: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی نیت کرے،
(۱؎ جامع للبخاری باب کیف بدء الوحی قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲)
فمن جلس(۱) یتوضأ ممتثلا لامر ربہ ثم عرض لہ فی اثنائہ مامنعہ عن اتمامہ فکیف یقال لایثاب علی مافعل واللّٰہ لایضیع اجر المحسنین ۲؎
تو جو شخص اپنے رب کے حکم کو ماننے کیلئے وضو کرنے بیٹھا پھر درمیان میں کوئی ایسا امر لاحق ہوا کہ وضو مکمل نہ کرسکا تو اب یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ وہ کرچکا ہے اس پر اس کو ثواب نہیں ملے گا، اللہ اچھے کاموں کا اجر برباد نہیں کرتا،
(۲؎ القرآن ۹/۱۲۰)
نعم من(۲) نوی من بدء الامر انہ لایأتی الا بالبعض فھذا الذی یرد علیہ انہ لم یقصد الوضوء الشرعی بل ھو عابث بقصد مالا یعتبر شرعا والعابث لایثاب بخلاف من قدمنا وصفہ ویترا ای(۳) لی ان مثل ذلک العابث من قصد الوضوء الشرعی واتی ببعض الاعمال ثم قطع من دون عذر فان اللّٰہ تعالی سمی القطع ابطالا اذیقول عزمن قائل ولا تبطلوا اعمالکم ۳؎ والباطل لاحکم لہ واللّٰہ تعالی اعلم
ہاں اگر کسی نے شروع سے ہی یہ نیت کی کہ وہ بعض اعضاء کو دھوئے گا، تو یہ ہے جس پر یہ اعتراض وارد ہوگا کہ اُس نے وضو شرعی کا ارادہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ ایک ایسا کام کرکے جو شرعاً غیر معتبر عبث کررہا ہے اور جو عبث کرتا ہو اس کو ثواب نہیں ملے گا، بخلاف اس کے جس کا وصف ہم نے پہلے بیان کیا، اور مجھے لگتا ہے کہ اسی عبث کرنے والے کی طرح ہے وہ شخص جس نے شرعی وضو کا ارادہ کیا اور بعض اعمال کئے پھر وضو کو بلا عذر نامکمل چھوڑ دیا کیونکہ اللہ نے قطع کو ابطال قرار دیا ہے، اللہ فرماتا ہے ''تم اپنے ا عمال کو باطل نہ کرو'' اور باطل کا کوئی حکم نہیں واللہ تعالٰی اعلم۔
(۳؎ القرآن ۴۷/۳۳)
وثالثا محو الخطایا(۴) لم یکن ثوابا فلا ذکرلہ فی الحدیث اصلا وان کان فالحدیث حاکم بترتب ثواب کل فعل فعل عند وقوعہ ولا دلالۃ فیہ علی توقف الاثابۃ الی ان یتم وبالجملۃ فلا اغناء لاحد من القربۃ والسقوط عن الاخر بخلاف الرفع والسقوط فلا وجہ للتثلیث ثم رأیت العلامۃ ش اشار الی ھذا فی ردالمحتار حیث قال رفع الحدث لایتحقق الا فی ضمن القربۃ اواسقاط الفرض اوفی ضمنھما فیستغنی بہما عنہ ۴؎ اھ
ثالثا یہ کہ خطاؤں کا مٹ جانا اگرثواب نہیں ہے تو اس کا ذکر حدیث میں بالکل نہیں ہے اور اگر ثواب ہے تو حدیث کا حکم یہ ہے کہ ہر فعل کا ثواب اس فعل کے واقع ہوجانے کے وقت مرتب ہوگا، اور اس میں اس امر پر دلیل نہیں کہ ثواب تمام پر موقوف ہوگا، اور خلاصہ یہ کہ قربت اور سقوط میں سے کسی ایک کو دوسرے سے بے نیازی نہیں بخلاف رفع اور سقوط کے، تو تثلیث کی کوئی وجہ نہیں، پھر میں نے علامہ ش کو دیکھا کہ انہوں نے ردالمحتار میں اس طرف اشارہ کیا، فرمایا رفع حدث قربۃ کے ضمن ہی میں متحقق ہوتا ہے یا اسقاط فرض کے یا دونوں کے ضمن میں متحقق ہوتا ہے، تو اِن دونوں سے اس میں بے نیازی حاصل کی جائے گی اھ(ت)
(۴؎ ردالمحتار الماء المستعمل مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۶)
اقول لم یظھر(۱) لی کیف یتحقق رفع الحدث فی ضمن القربۃ من دون سقوط الفرض حتی یصح ھذا التثلیث الاٰخر الذی ذکر ھذا العلامۃ بل کلما رفع الحدث لزم منہ سقوط الفرض کما اعترف بہ فی المنحۃ فان جنح الی ماقدمنا عنہ من مسألۃ وضوء الصبی العاقل ای اذا توضأ ناویا فقد تحقق رفع الحدث فی ضمن القربۃ من دون سقوط فرض۔
میں کہتا ہوں مجھ پر یہ ظاہر نہیں ہوا کہ رفع حدث قربۃ کے ضمن میں کیسے متحقق ہوگا بغیر فرض کے سقوط کے یہاں تک کہ یہ دوسری تثلیث جس کی طرف اس علامہ نے اشارہ کیا ہے صحیح قرار پائے، بلکہ جب بھی حدث مرتفع ہوگا اس سے فرض ساقط ہوگا، جیسا کہ منحہ میں اس کا اعتراف کیا ہے، تو اگر اس کی طرف مائل ہوں جو ہم نے پہلے ان سے نقل کیا ہے یعنی عاقل بچّہ کا وضو، جب عاقل بچہ نیت کے ساتھ وضو کرے تو حدث قربت کے ضمن میں مرتفع ہوجائے گا مگر فرض ساقط نہ ہوگا۔(ت)
فاقول اوّلا قد علمت بطلانہ وثانیاان سلم(۱) ھذا یلزم ان یتحقق رفع الحدث من دون قربۃ ولا سقوط فرض اذا توضأ الصبی غیرنا ولان رفع الحدث لایفتقر الی النیۃ والقربۃ لاتوجد بدونھا فحینئذ ینھدم اصل المرام ویعود التثلیث الذی ذکر المحقق فالصواب ماذکرت ان رفع الحدث یلزمہ سقوط الفرض ففیہ غنیۃ عنہ۔
میں کہتا ہوں اولاً تم اس کا بطلان جان چکے ہو۔ثانیا اگر یہ مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ رفعِ حدث متحقق ہو بلا قربت کے، اور نہ فرض کا سقوط ہو جب بچّہ بلا نیت وضو کرے، کیونکہ رفعِ حَدَث محتاجِ نیت نہیں ہوتا جبکہ قربت بلا نیت نہیں پائی جاتی ہے، اس صورت میں اصلِ مقصود ہی ختم ہوجائے گا اور وہ تثلیث عَود کر آئے گی جس کو محقق نے ذکر کیا ہے، تو صحیح وہی ہے جس کو میں نے ذکر کیا کہ رفع حَدَث کو سقوط فرض لازم ہے، پس یہ اُس سے بے نیاز کرنے والا ہے۔(ت)
ثم اقول لو ان(۲) المحقق علی الاطلاق حانت منہ التفاتہ ھناالی کلام مشروحہ الھدایۃ لما جنح الی تثلیث السبب ولظھرلہ الجواب ایضا عما اعترض بہ کلام العامۃ والمتون وذلک ان الامام صاحب الھدایۃ قدس سرہ عبر فی المسألۃ بما ازیل بہ حدث اواستعمل قربۃ وقال فی الدلیل اسقاط الفرض مؤثر ایضا فیثبت الفساد بالامرین ۱؎
پھر میں کہتا ہوں اگر محقق علی الاطلاق صاحبِ ہدایہ کے کلام پر توجہ دیتے تو تثلیث سبب کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور جو عام کتب اور متون سے اعتراض ہوتا تھا اُس کا جواب بھی ظاہر ہوجاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبِ ہدایہ نے مسئلہ میں یہ تعبیر کی ہے کہ وہ پانی جس سے حدث زائل کیا گیا ہو یا بطور قربت استعمال کیا گیا ہو، اور دلیل میں فرمایا کہ اسقاط فرض بھی مؤثر ہے تو فساد دونوں امروں سے ظاہر ہوگا ۔
(۱؎ الہدایۃ باب الماء الذی لایجوز بہ الوضوء المکتبہ العربیۃ ۱/۱۲۲)
فافادان المراد بزوال الحدث ھو سقوط الفرض وان مؤداھما ھھنا واحد ولا شک ان سقوط الفرض عن عضو دون عضو بل عن بعض عضو دون بعضہ الاخر ثابت متحقق وان لم یترتب علیہ احکام ارتفاع الحدث وھو کما قدمت الاشارۃ الیہ فی بیان الفروع لیشمل مااذا تطھر کاملا اوغسل شیئا من اعضائہ بل عضوہ فلا تثلیث ولا اعتراض بعدم التجزی وتحقیقہ(۱) ماافادہ فی المنحۃ نقلا عن العلامۃ نوح افندی فی حواشی الدررناقلا عن الشیخ قاسم فی حواشی المجمع ان الحدیث یقال بمعنیین المانعیۃ الشرعیۃ عما لایحل بدون الطھارۃ وھذا لایتجزئ بلا خلاف عند ابی حنیفۃ وصاحبیہ وبمعنی النجاسۃ الحکمیۃ وھذا یتجزئ ثبوتا وارتفاعا بلا خلاف عند ابی حنیفۃ و عــــہ اصحابہ وصیرورۃ الماء مستعملا بازالۃ الثانیۃ ففی مسألۃ البئر سقط الفرض عن الرجلین بلا خلاف والماء الذی اسقط الفرض صار مستعملا بلا خلاف علی الصحیح اھ قال العلامۃ نوح ھذا ھو التحقیق فخذہ فانہ بالاخذ حقیق ۱؎ اھ
اس سے معلوم ہوا کہ زوالِ حدث سے مراد سقوط فرض ہے اور دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور اس میں شک نہیں کہ فرض کا سقوط ایک عضو سے نہ کہ دوسرے عضو سے، بلکہ بعض عضو سے نہ کہ دوسرے بعض سے ثابت متحقق ہے اگرچہ اس پر ارتفاع حدث کے احکام مترتب نہیں ہوتے ہیں اور یہ جیسا کہ میں اشارہ کرچکا ہوں بیان فروع میں اُس صورت کو بھی شامل ہے جبکہ پوری طرح طہارت کی یا کچھ اعضاء دھوئے بلکہ اپنے ایک عضو کا حصّہ دھویاتو نہ تثلیث ہوگی اور نہ عدم تجزی کا اعتراض ہوگا، اس کی تحقیق منحہ میں علامہ نوح آفندی کی اُس تحقیق سے منقول ہے جو درر کے حواشی میں منقول ہے اور جو حواشی مجمع میں شیخ قاسم سے منقول ہے کہ حَدَث کا اطلاق دو معنی میں ہوتا ہے، ایک تو یہ کہ جو چیز بلا طہارت جائز نہ ہو اُس کی شرعی ممانعت، اور یہ چیز ابو حنیفہ اور ان کے صاحبین کے درمیان بالاتفاق غیر متجزی ہے، اور دوسرا بمعنی نجاست حکمیہ، اور یہ چیز ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے درمیان بالاتفاق متجزی ہے ثبوتاً بھی اور ارتفاعاً بھی، اور پانی جو مستعمل ہوتا ہے تو دوسرے معنی کے ازالہ سے ہوتا ہے، تو کنوئیں کے مسئلہ میں دونوں پیروں کا فرض ساقط ہوگیا اور وہ پانی جو اسقاط فرض میں استعمال ہوا مستعمل ہوگیا، صحیح قول کے مطابق اس میں کوئی اختلاف نہیں، اھ علامہ نوح آفندی نے فرمایا تحقیق یہی ہے اور اسی کو اختیار کرنا چاہئے اھ۔(ت)
عــــہ:اقول قال فی الاول عند ابی حنیفۃ وصاحبیہ لان من المشائخ من قال بتجزیہ حتی اجاز للجنب القراء ۃ بعد المضمضۃ للمحدث المس بعد غسل الید وقال ھھنا واصحابہ لان تجزی ھذا لاخلاف فیہ عند مشائخنا اھ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
اقول پہلے کے متعلق امام ابو حنیفہ کے ساتھ صاحبیہ تثنیہ کا صیغہ ذکر کیا ہے کیونکہ بعض مشائخ نے کہا جنبی کو قرأت کیلئے کُلّی کافی ہے اور محدث کو مسِ مصحف کیلئے ہاتھ دھونا کافی ہے اور یہاں دوسرے معنی میں اصحاب جمع کا صیغہ ذکر کیا ہے کیونکہ اس کو سب نے کافی کہا ہمارے مشائخ کا اس میں اختلاف نہیں اھ(ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی حاشیۃ بحرالرائق بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول بل(۱) اختار فی غایۃ البیان ثم النھر ثم الدران حقیقۃ الحدث ھو المعنی الثانی قال فی البحر تبعا للفتح الحدث مانعیۃ شرعیۃ قائمۃ بالاعضاء الی غایۃ استعمال المزیل ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں غایۃ البیان، نہر اور دُر نے دوسرے معنی کو مختار قرار دیا ہے، بحر میں فتح کی متابعت کرتے ہوئے فرمایا حدث شرعی مانعیت ہے جو اعضاء کے ساتھ اس وقت تک قائم رہتی ہے یہاں تک کہ زائل کرنے والی چیز استعمال کی جائے،
(۲؎ بحرالرائق باب شروط الصّلوٰۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۲۶۷)
قال فی النھر وتبعہ الدر ھذا تعریف بالحکم وعرفہ فی غایۃ البیان بانہ وصف شرعی یحل فی الاعضاء یزیل الطھارۃ ۳؎
نھر اور دُر میں ہے کہ یہ حکم کے ساتھ تعریف ہے، اور غایۃ البیان میں اس کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک ایسا وصف ہے جو اعضاء میں حلول کرتا ہے اور طہارت کو زائل کرتا ہے
(۳؎ درمختار کتاب الطہارت مجتبائی دہلی ۱/۱۶)
قال وحکمہ المانعیۃ لما جعلت الطہارۃ شرطا لہ الخ ونظر فیہ ش نقلا عن حاشیۃ الشیخ خلیل الفتال عازیا لبعض الفضلاء بان حکم الشیئ ماکان اثرالہ خارجا عنہ مترتبا علیہ والمانعیۃ المذکورلیست کذلک وانما حکم الحدث عدم صحۃ الصلاۃ معہ وحرمۃ مس المصحف ونحو ذلک فالتعریف بالحکم کأن یقال الحدث مالا تصح الصلاۃ معہ تأمل۱؎ اھ
فرمایا کہ اس کا حکم مانعیت ہے اس چیز کی جس کیلئے طہارت شرط ہے الخ اور "ش" نے اس میں حاشیہ شیخ خلیل فتال سے نقل کرتے ہوئے نظر کی ہے، اور اس کو بعض فضلاء کی طرف منسوب کیا ہے کہ ہر چیز کا حکم اس کے اثر کو کہتے ہیں جو اس سے خارج ہو اور اس پر مرتب ہو اور مذکورہ مانعیت اس قسم کی نہیں ہے، اور حدث کا حکم تو یہی ہے کہ اس کے ساتھ نماز درست نہیں ہوتی اور مصحف کو نہیں چُھوا جاسکتا ہے اور اسی قسم کے دوسرے احکام، تو تعریف بالحکم اس طرح ہوسکتی ہے کہ حدث وہ چیز ہے جس کے ساتھ نماز درست نہ ہو، تامل اھ
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارت مصطفی البابی مصر ۱/۶۳)
قال ش علی(۱)ان التعریف بالحکم مستعمل عند الفقہاء لان الاحکام محل مواقع انظارھم ۲؎ اھ
"ش" نے فرمایا کہ علاوہ ازیں تعریف بالحکم فقہاء کے نزدیک مستعمل ہے کیونکہ احکام ہی سے وہ بحث کرتے ہیں اھ
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارت مصطفی البابی مصر ۱/۶۳)
وقد اشارالیہ ط وقال علی قولہ مانعیۃ ای کونہ مانعا من الصلاۃ ومس المصحف والاظھر ان یقال مانع شرعی ۳؎ اھ
اور "ط" نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور ''مانعیت'' پر فرمایا کہ اس کا نماز سے مانع ہونا اور مصحف کے چُھونے سے مانع ہونا ہے اور اظہریہ ہے کہ کہا جائے کہ یہ مانع شرعی ہے اھ (ت)
(۳؎ طحطاوی علی الدر کتاب الطہارت مصطفی البابی بیروت ۱/۵۶)
اقول وباللّٰہ التوفیق کلام(۲) المعترضین علی البحر کلہ بمعزل عن غوص القعرفان مبناہ طرا علی ان تعریف البحر غیر تعریف الغایۃ ولا دلیل علیہ فان المانعیۃ بمعنی الحال فضلا عن کونہ ممالا قیام لہ بموضوع لعدم کونہ من الصفات المنضمۃ لاقیام لھا بالاعضاء اصلا فانھا غیر مانعۃ حتی تکون لھا مانعیۃ وبمعنی النسبۃ ای شیئ لہ انتساب الی مانع شرعی صادق قطعا علی ذلک الوصف الشرعی الذی یحل بالاعضاء فیزیل طھرھا لان المانع ھو الخطاب الشرعی والمنتسب الیہ ما لاجلہ وردالخطاب و ھی النجاسۃ الحکمیۃ وھی بعینہا ذلک الوصف القائم بالاعضاء فرجع التعریف الی تعریف الغایۃ فلا خلاف ولا خلف الا تری ان تلمیذ المحقق علی الاطلاق اعنی المحقق الحلبی عرف الحدث فی الحلیۃ بانہ الوصف الحکمی الذی اعتبر الشارع قیامہ بالاعضاء مسبباعن الجنابۃ والحیض والنفاس والبول والغائط وغیرھما من نواقض الوضوء ومنع من قربان الصّلاۃ وما فی معناھا معہ حال قیامہ بمن قام بہ الی غایۃ استعمال مایعتبر بہ زائلا ۱؎ اھ
میں بتوفیقِ الٰہی کہتا ہوں معترضین کے بحر پر اعتراضات گہرائی سے خالی ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد اس پر ہے کہ بحر کی تعریف غایہ کی تعریف سے مختلف ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں کیونکہ مانعیت بمعنی حال ہے اس سے قطع نظر کہ وہ صفات منضمہ میں سے نہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کے ساتھ قائم نہیں ہوتی، اس کا اعضاء کے ساتھ قیام بالکل ہوتا ہی نہیں کیونکہ اعضاء مانع نہیں تاکہ انکے ساتھ مانعیت قائم ہو اور بمعنی نسبت کے یعنی وہ شے جس کا کسی مانع شرعی کی طرف انتساب ہو یہ قطعاً اس وصف شرعی پر صادق آتی ہے جو اعضاء میں حلول کرتا ہے اور ان کی طہارت کو زائل کرتا ہے اس لئے کہ مانع وہ خطاب شرعی ہے، اور اس کی طرف منسوب وہ چیز ہے جس کی وجہ سے خطاب وارد ہوا، اور وہی نجاستِ حکمیہ ہے، اور وہ بعینہا وہ وصف ہے جو اعضاء کے ساتھ قائم ہے تو تعریف، غایہ والی تعریف کی طرف لوٹ آئی تو کوئی خلاف نہیں اور نہ خلف ہے،
(۱؎ حلیہ)
وھو کما تری لیس الا بسطا لما اجملہ شیخہ المحقق وما ھو الاعین ماعرف بہ فی الغایۃ ولو قال مانع شرعی کما استظھرہ العلامۃ ط لکان ایضا مرجعہ الی ذلک لان ذلک الوصف الشرعی وھی النجاسۃ مانع شرعی بمعنی مالاجلہ المنع واستعمال المانع بھذا المعنی شائع ذائع غیران(۱) المحقق ابقاہ علی حقیقتہ فاتی بالنسبۃ فلا وجہ وجیھا للاستظھار ثم من اوضح(۲) دلیل علیہ ان البحر مغترف فی ھذا الحد من مناھل فتح القدیر کما ذکرہ فی ردالمحتار وقد قال المحقق فی الفتح مستدلالروایۃ الحسن وابی یوسف عن الامام الاعظم ان الماء المستعمل نجسا مغلظا اومخففا مانصہ ۱؎
کیا تم نہیں دیکھتے کہ محقق علی الاطلاق کے شاگرد محقق حلبی نے حلیہ میں حدث کی تعریف اس طرح کی ہے کہ وہ ایک وصف حکمی ہے کہ شارع نے اعضاء کے ساتھ اس کے قیام کا اعتبار کیا ہے، اور یہ جنابۃ، حیض، نفاس، پیشاب اور پاخانہ وغیرہما نواقض وضو کے باعث ہوتا ہے، اور یہ چیز نماز کے قریب جانے سے مانع ہوتی ہے، یا جو چیز نماز کے حکم میں ہو، یہ مانعیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک یہ وصف اُسی شخص کے ساتھ قائم رہے، یہاں تک کہ وہ اس چیز کو استعمال کرے جو اس کو زائل کرنے والی ہے اھ یہ تعریف جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں اُسی چیز کا بسط ہے جس کا اجمال ان کے شیخ محقق نے کیا ہے اور یہ بعینہ وہی تعریف ہے جو غایہ میں ہے، اور مانع شرعی کہتے جیسا کہ علامہ "ط" نے فرمایا اس کا بھی ماحصل یہی ہے کیونکہ وہ وصف شرعی، جو نجاست ہے مانع شرعی ہے اس معنی کے اعتبار سے کہ یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے منع ہے، اور مانع کا استعمال اس معنی میں شائع وذائع ہے،البتہ محقق نے اس کو اس کی حقیقت پر باقی رکھا ہے، تو نسبت کولائے ہیں تو استظہار کی کوئی معقول وجہ نہیں، پھر اُس پر واضح ترین دلیل یہ ہے کہ بحر نے بھی اس تعریف میں فتح القدیر سے استفادہ کیا ہے، جیسا کہ اس کو ردالمحتار میں ذکر کیا ہے اور محقق نے فتح میں ابو یوسف اور حسن کی ابو حنیفہ سے روایت پر استدلال کیا ہے کہ مستعمل پانی نجاست غلیظہ ہے یا نجاست خفیفہ ہے،
( ۱؎ فتح القدیر بحث الماء المستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۴)
وجہ روایۃ النجاسۃ قیاس اصلہ الماء المستعمل فی النجاسۃ الحقیقیۃ والفرع المستعمل فی الحکمیۃ بجامع الاستعمال فی النجاسۃ بناء علی الغاء وصف الحقیقی فی ثبوت النجاسۃ وذلک(۱) لان معنی الحقیقی لیس الا کون النجاسۃ موصوفا بھا جسم مستقل بنفسہ عن المکلف لاان وصف النجاسۃ حقیقۃ لاتقوم الابجسم کذلک وفی غیرہ مجازبل معناہ الحقیقی واحد فی ذلک الجسم وفی الحدث لانہ لیس المتحقق لنا من معناھا سوی انھا اعتبار شرعی منع الشارع من قربان الصلاۃ والسجود حال قیامہ لمن قام بہ الی غایۃ استعمال الماء فیہ فاذا استعملہ قطع ذلک الاعتبار کل ذلک ابتلاء للطاعۃ فاما ان ھناک وصفا حقیقیا عقلیا اومحسوسا فلا ومن ادعاہ لایقدر فی اثباتہ علی غیرالدعوی ویدل علی انہ اعتبار اختلافہ باختلاف الشرائع الاتری ان الخمر محکوم بنجاسۃ فی شریعتنا وبطھارتہ فی غیرھا فعلم انھا لیست سوی اعتبار شرعی الزم معہ کذا الی غایۃ کذا ابتلاء وفی ھذا لاتفاوت بین الدم والحدث فانہ ایضا لیس الانفس ذلک الاعتبار۱؎ اھ
جس روایت میں اس کو نجاست قرار دیا گیا ہے وہ قیاس کی بنیاد پر ہے اس قیاس کی اصل وہ پانی ہے جو نجاست حقیقیہ میں مستعمل ہو، اور اس کی فرع وہ پانی ہے جو نجاست حکمیہ میں مستعمل ہو، اور علّۃجامعہ، نجاست میں استعمال ہے،بناء کرتے ہوئے کہ وصف حقیقی ثبوت نجاست میں لغو ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حقیقی کا مفہوم یہ ہے کہ اس نجاست سے ایسا جسم متصف ہو جو بنفسہ مکلف سے مستقل ہو یہ نہیں کہ وصف نجاست حقیقۃً ایسے ہی جسم کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور اس کے غیر میں مجاز ہے،بلکہ اس کے حقیقی معنی ایک ہیں اس جسم میں اور حَدَث میں، اس لئے کہ ہمیں تحقیقی طور پر جو معنی معلوم ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ایک شرعی اعتبار ہے کہ جب تک وہ موجود ہو تو شارع نے اس کو جو اس کے ساتھ متصف ہو نماز وغیرہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے تاوقتیکہ وہ اس میں پانی کو استعمال نہ کرے، جب وہ پانی استعمال کرلے گا تو وہ اعتبار ختم ہوجائے گا، یہ سب طاعت کی ابتلا ہے، رہی یہ بات کہ یہاں کوئی وصف عقلی حقیقی یا محسوسی ہے، تو ایسی کوئی بات نہیں، اور جو اس کا دعوٰی کرتا ہے تو محض دعوی ہی ہے، اور اس کے اعتباری ہونے کی دلیل ہے کہ یہ شریعتوں کے مختلف ہونے سے مختلف ہوتا رہتا ہے، مثلاً شراب ہماری شریعت میں ناپاک ہے اور دوسری شریعتوں میں پاک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ نجاست محض شرعی اعتبار سے یہ اتنی سے اتنی مدّت تک کیلئے لازم کیا گیا ہے ابتلاءً اور اس میں خون اور حَدَث میں کوئی تفاوت نہیں کیونکہ یہ بھی ویسا ہی اعتبار ہے اھ
(۱؎ فتح القدیر بحث الماء المستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۵)
فھذانص صریح فی ان تلک المانعیۃ الشرعیۃ المغیاۃ الی استعمال المزیل لیست الا النجاسۃ الحکمیۃ فاتحد التعریفان۔
تو یہ اس امر میں نص صریح ہے کہ یہ مانعیت شرعیہ جس کی انتہا مُزیل کا استعمال ہے، نجاست حکمیہ ہی ہے تو دونوں تعریفیں متحد ہوگئیں۔ ت
ثم اقول(۱) التعریف(۲) بالحکم ان ارید بہ ان یجعل الحکم نفس المعرّف بحیث یحمل ھوعلی المعرَّف فنعم یسقط ایراد النہر والدر فان المانعیۃ بالمعنی المذکور وھی النجاسۃ الحکمیۃ لیست اثرامترتباعلی الحدث بمعنی الوصف الشرعی بل ھی ھو کما عرفت وح لایستقیم ایضا قول المجیب ان التعریف بالحکم کأن یقال ھو مالا تصح الصلاۃ معہ فان مالاتصح لیس حکما بل الحکم کما اعترف عدم الصحۃ ولم یعرف بہ وانما یکون تعریفاً بالحکم لوقیل الحدث عدم صحۃ الصلاۃ ویتکدر ایضا جواب ط وش بانہ مستعمل عند الفقہاء فان المستعمل عندھم ذکر الحکم فی التعریف لاحمل الاثر علی المؤثر وان ارید بہ ان یمیزالمحدود بذریعۃ الحکم بان یعطی انہ الذی یؤثر ھذا الاثرفنعم یستقیم تمثیل المجیب التعریف بالحکم بما ذکر لکن یسقط ح اصل جوابہ بان المانعیۃ لیست حکما فان التعریف بالحکم لیس اذن ان یکون المحمول عین الحکم بل ماذکر فیہ الحکم وھو حاصل فی التعریف المذکور قطعا لاشتمالہ علی منع المکلف من اشیاء مخصوصۃ مادام ذلک الوصف قائما بہ اتینا علی الایراد وھو علی ھذا اشد سقوطا وابین غلطا فان الذی اختارہ الموردون لایخ ایضا عن التعریف بالحکم لذکرھم فیہ زوال الطھارۃ وما ھو الا الاثر المترتب علی ذلک الوصف الشرعی واذن یکفی جوابا عن کلا الحدین ماذکر ط و ش وبالجملۃ فایقاع التغایربین الحدین لاداعی لہ وایراد النھر والدر لاصحۃ لہ وجواب الفتال عن بعض الفضلاء لایخلوعن خلط وغلط بقی الکلام علی المعنی الاول الذی ذکرہ العلامۃ قاسم وکیف تباینہ للمعنی الثانی۔
پھر میں کہتا ہوں تعریف بالحکم سے مراد اگر یہ ہے کہ حکم کو معرِّف بنا دیا جائے کہ وہ معرَّف پر محمول ہو تو نہر اور دُر کا اعتراض رفع ہوجائے گا، کیونکہ مانعیت بالمعنی المذکور یعنی نجاست حکمیہ کے معنی میں، حَدَث پر مترتب ہونے والا اثر نہیں ہے، یعنی وصف شرعی کے معنی میں بلکہ یہ وہی ہے جیسا کہ تم نے پہچانا۔ اور اس صورت میں مجیب کا یہ قول درست نہ ہوگا کہ تعریف بالحکم مثلاً یہ کہا جائے کہ حَدَث وہ ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نماز درست نہ ہو، کیونکہ ''وہ جس کے ہوتے ہوئے نماز صحیح نہ ہو'' یہ جملہ حکم نہیں ہے بلکہ حکم جیسا کہ انہوں نے اعتراف کیا، عدمِ صحت ہے، اور اس سے انہوں نے تعریف نہیں کی ہے، اور تعریف بالحکم اس صورت میں ہوتی جب یہ کہا جاتا کہ حَدَث نماز کا صحیح نہ ہونا ہے، اور ط و ش کا جواب بھی اس صورت میں مکدّر ہوجائے گا کہ اس قسم کی تعریف فقہاء کے یہاں مستعمل ہے، کیونکہ ان کے یہاں مستعمل تعریف میں حکم کا تذکرہ ہے نہ یہ کہ اثر کو مؤثر پر محمول کرلیا جائے، اور اگر اس سے یہ ارادہ کیا جائے کہ محدود کو بذریعہ حکم ممیز کیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ یہی ہے جو یہ اثر کررہا ہے تو اس صورت میں مجیب کی یہ مثال جو انہوں نے تعریف بالحکم کیلئے پیش کی ہے درست قرار پائے گی، مگر اس وقت ان کا اصل جواب ختم ہوجائے گا، یعنی یہ کہ مانعیت حکم نہیں ہے کیونکہ تعریف بالحکم اس صورت میں یہ نہیں ہے کہ محمول عین حکم ہو، بلکہ یہ ہے کہ جس میں حکم مذکور ہو، اور یہ تعریف مذکور میں قطعاً موجود ہے، کیونکہ یہ تعریف اس پر مشتمل ہے کہ مکلّف کو مخصوص اشیاء سے روکنا جب تک کہ یہ وصف اس کے ساتھ قائم رہے۔ اب ہم اعتراض کی طرف آتے ہیں اور اس کی صورت اور بھی زیادہ غلط اور ساقط ہے کیونکہ معترضین نے جو تعریف اختیار کی ہے وہ تعریف بھی تعریف بالحکم سے خالی نہیں ہے، کیونکہ وہ بھی اس میں زوال طہارت کا استعمال کرتے ہیں، اور وہ اُس وصفِ شرعی پر مرتّب ہونے والا اثر ہے، ایسی صورت میں دونوں تعریفوں پر جو اعتراض ہے اُس کے جواب میں "ط" اور "ش" نے جو تقریر کی ہے وہ کافی ہے، اور خلاصہ یہ کہ دونوں تعریفوں میں تغایر کا قول کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے، اور نہر اور دُر کا اعتراض درست نہیں ہے اور فتال نے جو جواب بعض فضلاء کی طرف سے دیا ہے وہ غلط اور خلط سے خالی نہیں ہے۔ اب اُس پہلے معنی پر گفتگو باقی رہ گئی جو علّامہ قاسم نے ذکر کئے ہیں، اور یہ معنی دوسرے معنی سے کس طرح مختلف ہے۔(ت)
فاقول(۱) المانع الشرعی ای مالاجلہ المنع ھی النجاسۃ الحکمیۃ والمنتسب الیھا تلبس المکلف بھا والفرق بینھما ان النجاسۃ وصف شرعی یحل بسطوح الاعضاء الظاھرۃ حلول سریان والسطح ممتد منقسم فتنقسم النجاسۃ بانقسامھا فتقبل التجزی ثبوتا ورفعا امارفعا فظاھر فانہ اذا غسل الید مثلا زالت النجاسۃ عنھا ولذا سقط عنھا فرض التطھیر مع بقاء النجاسۃ فی سائرالاعضاء التی حلتھا واما ثبوتا فلان الحدث الاصغر انما ینجس اربعۃ اعضاء والاکبر البدن کلہ وسنعود الی الکلام فی ھذا عنقریب ان شاء اللّٰہ تعالی
میں کہتا ہوں مانع شرعی یعنی جس کی وجہ سے منع ہے وہ نجاست حکمیہ ہے، اور جو اس کی طرف منسوب ہے وہ مکلّف کا اُس کے ساتھ ملتبس ہونا ہے، اوردونوں میں فرق یہ ہے کہ نجاست شرعی وصف ہے جو اعضاء ظاہرہ کی سطحوں کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اور یہ حلول سریانی ہوتا ہے اور سطح ممتد اور منقسم ہے تو اس کی تقسیم کی وجہ سے نجاست بھی منقسم ہوجائے گی، تو یہ رفعاً اور ثبوتاً تجزی کو قبول کرے گا، رفعاً تو ظاہر ہے، کیونکہ مثلاً اس نے ہاتھ تین بار دھویا تو اس سے نجاست زائل ہوجائے گی، اور اسی لئے اس سے فرض تطہیر ساقط ہوگیا جبکہ باقی اعضاء میں نجاست باقی ہے اور ثبوتاً اس طرح کہ حَدَث اصغر چار اعضاء کو ناپاک کرتا ہے اور اکبر تمام بدن کو، ہم عنقریب اس پر کلام کریں گے اِن شاء اللہ تعالٰی۔
اما تلبس المکلف بھا ای اصطحابہ لہا فوصف للمکلف یحدث بحلول النجاسۃ فی ای جزء من اجزاء بدنہ ویبقی ببقائھا فی شیئ منھا فان زادت النجاسۃ لم یزدوان نقصت لم ینتقص بل اذا حدثت حدث ومھما بقیت ولوکاقل قلیل بقی کملا واذا زالت بالکلیۃ زال وکان نظیرھما الحرکۃ بمعنی القطع وبمعنی التوسط فالاول متجزئۃ لانطباقھا علی المسافۃ المتجزئۃ والثانیۃ لاجزء لھا بل تحدث بحدوث اول جزء من اجزاء الاولی وتبقی بحالھا مادام المتحرک بین الغایتین فاذ اسکن زالت دفعا فانقلت لم لایحمل کلام البحر علی ھذا کی یثبت التغایر بین الحدین کمافھم النھر والدر ویوافق لما اعترض بہ تبعا للفتح کلام العامۃ والمتون ان الحدث لایتجزی۔
رہا نجاست کے ساتھ مکلّف کا متلبس ہونا، تو یہ مکلّف کا وصف ہے جو نجاست کے حلول سے پیدا ہوتا ہے، خواہ اس کے بدن کے کسی جزء میں بھی ہو، اور حدث اس وقت تک باقی رہے گا جب تک نجاست کسی بھی عضو میں باقی رہے، تو اگر نجاست زیادہ ہوجائے تو حدث زیادہ نہ ہوگا، اور نجاست اگر کم ہو تو حدث کم نہ ہوگا، بلکہ جب بھی نجاست وجود میں آئے گی حدث وجود میں آئے گا اور جب تک باقی رہے گی خواہ کم سے کم ہو تو حدث بھی مکمل طور پر باقی رہے گا اور جب نجاست بالکلیہ زائل ہوجائے گی تو حدث بھی زائل ہوجائے گا، ان دونوں کی نظیر حرکۃ بمعنی قطع ہے اور حرکۃ بمعنی توسط کے ہے، تو پہلی منقسم ہے کیونکہ وہ مسافتِ منقسمہ پر منطبق ہوتی ہے اور دوسری کا کوئی جزء نہیں بلکہ پہلی حرکۃ کے پہلے جز کے پیدا ہونے پر پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح باقی رہتی ہے جب تک دونوں غایتوں کے درمیان متحرک رہے اور جب پُر سکون ہوگا تو حرکت یک دم ختم ہوجائے گی۔ اگر تو کہے کہ بحر کے کلام کو اس پر کیوں محمول نہ کر لیاجائے تاکہ دونوں تعریفوں میں تغایر ظاہر ہوجائے جیسا کہ نہر اور دُر نے سمجھا ہے اور موافق ہوجائے اس اعتراض کے ساتھ جو انہوں نے فتح کی متابعت میں عام کتب اور متون پر کیا ہے کہ حَدَث منقسم نہیں ہوتا۔(ت)
قلت یاباہ قولہ قائمۃ بالاعضاء فان التلبس الذی لاتجزی لہ انما یقوم بالمکلف نفسہ لابالاعضاء والذی یقوم بھا یتجزی بتجزیھا کما عرفت امامخالفتہ لماذکرمن عدم التجزی فاقول لا(۱) غروفھو القائل فی باب شروط الصلاۃ متصلا بھذا التعریف بلا فصل مانصہ والخبث عین مستقذرۃ شرعا وقدم الحدث لقوتہ لان قلیلہ مانع بخلاف قلیل الخبث ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں اس تاویل سے ان کا قول ''قائمۃ بالاعضاء'' انکار کرتا ہے، کیونکہ تلبس جو ایک غیر متجزی شیئ ہے، وہ بذاتِ خود مکلّف کے ساتھ قائم ہوتا ہے نہ کہ اُس کے اعضاء کے ساتھ، اور جو چیز اعضاء کے ساتھ قائم ہے وہ اعضاء کی تجزی کے باعث متجزی ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے پہچانا اور اس کی مخالفت عدم تجزی سے، تو میں کہتا ہوں کہ اس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ خود ہی اس تعریف کے متصلا بعد ''باب شروط الصّلوٰۃ'' میں فرماتے ہیں ''اور خُبث وہ چیز ہے جو شرعاً گندی ہو، اور حدث کو اس کی قوت کے باعث مقدم کیا کیونکہ اس کا قلیل بھی مانع ہے بخلاف قلیل خبث کے اھ
(۱؎ بحرالرائق شروط الصلوٰۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۲۶۶)
فقد افصح بتجزی الحدث وقال متبوعہ المحقق علی الاطلاق فی الفتح کلمتھم متفقۃ علی ان الخف اعتبر شرعاما نعا سرایۃ الحدث الی القدم فتبقی القدم علی طھارتھا ویحل الحدث بالخف فیزال بالمسح ۲؎ اھ
یہاں انہوں نے بوضاحت حدث کے منقسم ہونے کا قول کیا ہے، اور اُن کے مقتدا محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ موزہ شرعا قدم کی طرف حدث کی سرایۃ کو قدم تک روکنے والا ہے، تو قدم بدستور پاک رہے گا اور حدث موزہ میں داخل ہوجائے گا، لہٰذا مسح سے اس کو زائل کرد یا جائے گا اھ
(۲؎ فتح القدیر مسح الخفین سکھر ۱/۱۲۸)
فھذا نص صریح علی تجزی الحدث واعتراف باطباق کلمتھم علیہ وھو کذلک فمن نظر کلامھم فی مسائل مسح الخفین وغیرھا ایقن بانھم جمیعا قائلون بتجزیہ وانما الذی لایتجزی ھو تلبس المکلف بالمنع الشرعی فظھر ظھور النھار ان الا یراد علی المتون والعامۃ وتثلیث السبب کلا کان فی غیر محلہ ولا حاجۃ الی ماتجشم(۱) البحر جوابا عن المتون بقولہ الا ان یقال ان الحدث زال عن العضو زوالا موقوفا ثم ضعفہ بقولہ لکن المعلل بہ فی کتاب الحسن عن ابی حنیفۃ اسقاط الفرض لاازالۃ الحدث ۳؎۔
یہ نص صریح ہے حدث کے متجزی ہونے پر اور اس امر کا اعتراف ہے کہ فقہاء اس پر متفق ہیں، اور بات ایسی ہے کیونکہ جو بھی مسح علی الخفین کی بابت فقہاء کے کلام کو دیکھے گا اس کو یقین آجائے گا کہ سب فقہاء حَدَث کے متجزی ہونے کے قائل ہیں، اور جو چیز متجزی نہیں ہوتی ہے وہ مکلّف کا منع شرعی سے متصف ہونا ہے، تو روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ متون اور عام کتب پر اعتراض اور سبب کی تثلیث سب بے محل ہیں اور جو تکلف بحر نے متون کے جواب میں کیا ہے اس کی چنداں حاجت نہیں، جو اب یہ ہے کہ ''مگر یہ کہ کہا جائے کہ حدث عضو سے زوالِ موقوف کے طور پر زائل ہوا ہے، پھر خود ہی اس کو ضعیف قرار دیا اور فرمایا کہ حسن کی کتاب میں ابو حنیفہ سے اسقاط فرض کی علّت بنانا مروی ہے نہ کہ ازالہ حدث کو۔(ت)
(۳؎ بحرالرائق بحث الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول بل لاوجہ(۲) لہ لان الحدث بالمعنی الذی لایتجزی اعنی تلبس المکلف بالمانع الشرعی لاقیام لہ بعضو حتی یزول عنہ منجزا اوموقوفا ثم تعلیل(۳) الامام فی ھذا الکلام باسقاط الفرض لاینافی تعلیلہ فی کلام اخر برفع الحدث علی ماقررنا لک بارشاد الھدایۃ ان مؤداھما واحد وقد قال فی الخلاصۃ والتبیین والفتح وغیرھا الماء بماذایصیر مستعملا قال ابو حنیفۃ وابو یوسف اذا ازیل بہ حدث اوتقرب۱؎ بہ الخ وباللّٰہ التوفیق
میں کہتا ہوں دراصل اس کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے، کیونکہ حَدَث اُس معنی کے اعتبار سے جس میں وہ منقسم نہیں ہوتاہے یعنی مکلف کا مانع شرعی کے ساتھ متلبس ہونا، اس کا قیام کسی عضو کے ساتھ نہیں، تاکہ وہ اس سے فوری طور پر یا موقوفاً زائل ہوجائے، پھر امام کا اس کلام میں اسقاط فرض کے ساتھ تعلیل کرنا، ان کے دوسرے کلام میں رفع حدث کی علّت بتانے سے متضاد نہیں، جیسا کہ ہم نے ہدایہ کی عبارت سے واضح کردیا ہے کہ دونوں کا ماحصل ایک ہی ہے، اور خلاصہ، تبیین، فتح وغیرہا میں ہے کہ پانی کا مستعمل ہونا ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک اس وقت ہوگا جب اس سے کوئی حدث زائل کیا جائے یا کوئی تقرب کیا جائے الخ وباللہ التوفیق
(۱؎خلاصۃ الفتاوٰی نولکشور لکھنؤ ۱/۱۷)
ثم جنوح(۴) المحقق فی آخرکلامہ الذی اثرنا عنہ الی ان سقوط الفرض ھو الاصل فی الاستعمال اعتمدہ فی البحر ثم الدر واشار الی الرد علیہ العلامۃ ش بان نقل اولا عن الفتح نفسہ ان المعلوم من جھۃ الشارع ان الاٰلۃ التی تسقط الفرض وتقاٰم بھا القربۃ تتدنس الخ وایضا عنہ مانصہ والذی نعقلہ ان کلا من التقرب والاسقاط مؤثر فی التغیر الا تری انہ انفرد وصف التقرب فی صدقۃ التطوع واثّر التغیر حتی حرمت علی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فعرفنا ان کلا اثرتغیرا شرعیا اھ ثم قال بعد نقلھما مقتضاہ ان القربۃ اصل ایضا فالمؤثر فی الاستعمال۲؎ اصلان اھ۔
پھر محقق کا جو کلام ہم نے نقل کیا ہے اس میں ان کا میلان اس طرف ہے کہ پانی کے استعمال سے سقوط فرض ہی اصل ہے بحر اور دُر نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور علامہ "ش" نے اس پر رد کی طرف اشارہ کیا ہے، پہلے تو انہوں نے خود ہی فتح سے نقل کیا کہ شارع سے معلوم ہے کہ وہ آلہ جس سے فرض ساقط ہو اور قربۃ ادا ہو میلا ہوجاتا ہے الخ انہوں نے مزید فرمایا کہ جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ تقرب اور اسقاط فرض دونوں ہی تغیر میں مؤثر ہیں، مثلاً وصف تقرب صدقہ تطوع میں منفرد ہے اور تغیر نے اثر کیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام ہوگئی، تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہر ایک نے شرعی تغیر کا اثر چھوڑا ہے اھ پھر دونوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس کامقتضی یہ ہے کہ قربۃ بھی اصل ہے تو استعمال میں مؤثر دو اصلیں ہیں اھ ت
(۲؎ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۶)
اقول کلام(۱) المحقق من اولہ الی اخرہ طافح باثبات الاصالۃ بھذا المعنی ای مایبتنی علیہ الحکم بتدنس الماء للقربۃ والاسقاط جمیعا بل ھو الذی ثلث واقام اصولا ثلثۃ وما کان لیقرر ھذا کلہ ثم فی طی نفس الکلام یحصر الاصالۃ فی شیئ واحد وانما منشأ کلامہ انہ رحمہ اللّٰہ تعالی نقل عنھم ان الاستعمال عند الشیخین باحد شیئین رفع الحدث والتقرب وعند محمد بالتقرب وحدہ وحمل رفع الحدث علی المعنی الذی لایتجزی فتطرق الا یراد بالفروع التی حکم فیھا باستعمال الماء مع بقاء الحدث فقرر ان اسقاط الفرض ایضا مؤثر واستدل علیہ بکلام الامام فی کتاب الحسن وبان الاصل الذی عرفنا بہ ھذا الحکم ھو مال الزکاۃ والثابت فیہ لیس الاسقوط الفرض ای وان اثبتناہ ایضا بالتقریب بدلیل آخر فالاصل الذی ارشدنااولاالی ھذاالحکم ھوسقوط الفرض فکیف یعزل النظرعنہ بل یجب القول بہ وھذالاینافی ان الاصول اثنان بل ثلثۃ ینقدح ھذا المعنی فی ذھن من جمع اول کلامہ باٰخرہ حیث یقول المعلوم من جہۃ الشارع ان الۃ تسقط الفرض وتقام بھا القربۃ تتدنس اصلہ مال الزکاۃ تدنس باسقاط الفرض حتی جعل من الاوساخ فی لفظہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ۱؎ الخ
میں کہتا ہوں محقق کا کلام از اوّل تاآخر سطحی ہے کہ اس میں اصالت اس معنی کے اعتبار سے ثابت کی ہے، یعنی وہ چیز جس پر حکم کی بنا ہو، پانی کے ادائے قربت کی وجہ سے میلا ہوجانے کے باعث اور اسقاطِ فرض کے باعث، بلکہ وہی ہیں جنہوں نے تثلیث کی اور تین اصول مقرر کئے، اور وہ یہ تقریر کرکے پھر ان میں سے ایک چیز پر اصالت کو منحصر نہیں کررہے، اُن کے کلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اُن(رحمہم اللہ) سے یہ نقل کررہے ہیں کہ شیخین کے نزدیک استعمال دو چیزوں میں سے ایک کی وجہ سے ہوتا ہے، رفعِ حدث اور تقرب، اور محمد کے نزدیک صرف تقرب سے اور رفعِ حدث کو اس معنی پر محمول کیا کہ اس میں تجزّی نہیں ہوتی، اِس بنا پر اُن فروع کی وجہ سے اعتراض وارد ہوا جن میں پانی کے استعمال کا حکم ہوا حدث کے باقی ہوتے ہوئے، انہوں نے اس امر کو ثابت کیا اسقاط فرض بھی مؤثر ہے، اور اس پر انہوں نے امام کے کلام سے استدلال کیا ہے جو کتاب حسن میں مذکور ہے اور یہ استدلال بھی کیا ہے کہ وہ اصل جس کی وجہ سے ہم نے یہ حکم جانا ہے وہ زکوٰۃ کا مال ہے اور اس میں صرف فرض کا سقوط ہے، یعنی اگرچہ ہم اس کو کسی اور دلیل کی وجہ سے تقرب سے ثابت کریں تو وہ اصل جو ہم نے پہلے سے بتائی ہے اور جس سے یہ حکم ثابت ہوا ہے وہ سقوط فرض ہے تو اُس سے صرفِ نظر کیونکر ممکن ہے بلکہ اس کوماننا لازم ہے،اور یہ اس امر کے منافی نہیں کہ اصول دو ہیں بلکہ تین ہیں یہ معنی اس کے دل میں ضرور خلجان پیدا کریں گے جو اُن کے اول کلام اور آخر کلام کو یکجا کرکے پڑھے گا، وہ کہتے ہیں کہ وہ آلہ جس سے فرض ساقط ہوتا ہے اور قربت ادا ہوتی ہے میلا ہوجاتا ہے اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے کہ وہ اسقاط فرض سے میلا ہوجاتا ہے اس لئے اس کو حدیث میں ''اوساخ'' قرار دیا گیا ہے الخ
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۵)
فافصح ان کلا الا مرین مغیر واقتصر فی الزکوٰۃ علی الاسقاط ثم قال فی بیان سبب ثبوت الاستعمال انہ عند ابی حنیفۃ وابی یوسف کل من رفع الحدث والتقرب وعند محمد التقرب وعند زفر الرافع لایقال ماذکرلاینتھض علی زفراذیقول مجرد القربۃ لایدنس بل الاسقاط فان المال لم یتدنس بمجردالتقرب بہ ولذا جاز للھاشمی صدقۃالتطوع بل مقتضاہ ان لایصیرمستعملا الا بالاسقاط مع التقرب فان الاصل اعنی مال الزکاۃ لاینفرد فیہ الاسقاط عنہ اذ لاتجوزالزکاۃ الا بنیۃ ولیس ھو قول واحد من الثلثۃ(یرید اصحاب الاقوال الثلثۃ الشیخین ومحمد او زفر) لانانقول غایۃ الامر ثبوت الحکم فی الاصل مع المجموع وھو لایستلزم ان المؤثرالمجموع بل ذلک دائر مع عقلیۃ المناسب للحکم فان عقل استقلال کل حکم بہ اوالمجموع حکم بہ والذی نعقلہ ان کلامؤثر۲؎ الی اخرماتقدم
اس سے واضح ہوا کہ دونوں امور تبدیلی کرنے والے ہیں، اور زکوٰۃ میں اسقاط پر اکتفاء کیا گیا ہے، پھر ثبوت استعمال کے سبب کے بیان میں فرمایا کہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک سبب رفعِ حدث اور تقرب ہے اور محمد کے نزدیک وہ تقرب ہے اور زفر کے نزدیک رفع ہے یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ یہ دلیل زفر کے خلاف نہیں چل سکتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ صرف قُربت پانی کو مستعمل نہیں کرتی ہے بلکہ اسقاط بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ مال زکوٰۃ محض تقرب کی وجہ سے میلا نہیں ہوا ہے، اور اسی لئے ہاشمی نفلی صدقہ لے سکتا ہے بلکہ اس کامقتضی یہ ہے کہ اسقاط مع تقرب سے اسقاط منفرد نہیں، کیونکہ زکوٰۃ بلانیت جائز نہیں اور یہ تینوں میں سے کسی ایک کا قول نہیں(اس سے ان کی مراد تینوں اقوال کے قائلین یعنی ابو حنیفہ وابو یوسف،محمدیازفررحمہم اللہ ہیں) کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ حکم کا اصل مجموع کے ساتھ ثابت ہوتا ہے اور وہ اس امر کو مستلزم نہیں ہے کہ موثر مجموع ہے بلکہ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ مناسب حکم کو سمجھا جائے، اگرہر حکم کااستقلال اس کے ساتھ سمجھا جائے یا مجموع کا تو اس کے ساتھ حکم کیا جائے گا اور جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر ایک موثر ہے الی آخر ماتقدم،
(۲؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
ثم قال قال فی الخلاصۃ ان الماء بما ذایصیر مستعملا(فذکر المذھبین کما نقلنا ثم قال) ھذا یشکل علی قول المشائخ ان الحدث لایتجزأ والمخلص ان صیرورۃ الماء مستعملا باحد ثلثۃ رفع الحدث والتقرب وسقوط الفرض وھوالاصل لما عرف ان اصلہ مال الزکاۃ والثابت فیہ لیس الاسقوط الفرض۔
پھر کہا کہ انہوں نے خلاصہ میں فرمایا کہ پانی کس چیز کی وجہ سے مستعمل ہوتا ہے(تو انہوں نے دونوں مذاہب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ ہم نے نقل کیا پھر فرمایا( یہ مشائخ کے قول کی روشنی میں مشکل ہے کہ حدث متجزی نہیں ہوتا، اور اس اشکال سے نجات کی صورت تین امور میں سے ایک امر ہے رفع حدث، تقرب اور سقوط فرض ہی اصل ہے، کیونکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے اور اس میں جو ثابت ہے وہ سقوط فرض ہی اصل ہے، کیونکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے اور اس میں جو ثابت ہے وہ سقوط فرض ہے۔ ت
اقول: ای وان کان الموجود فیہ الامران لکن ھذا اقوی وفیہ المقنع فلا یثبت بہ الا سببیۃ ھذا وان استفید سببیۃ الاخر بدلیل حرمۃ صدقۃ التطوع علیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کما قدم فتاثیر اسقاط الغرض ھواول ماثبت بالاصل الاعظم فلا مساغ لاسقاطہ قال والمفید لاعتبار الاسقاط مؤثرا صریح تعلیل ابی حنیفۃ انہ سقط فرضہ عنہ ۱؎ اھ ملتقطا
میں کہتا ہوں اگرچہ اس میں موجود دونوں امر ہیں لیکن یہ اقوی ہے اور اس میں کفایت ہے، تواس سے اس کی سببیت ثابت ہوگی اگرچہ دوسرے کی سببیت بھی ثابت ہوگی، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر نفلی صدقہ حرام ہے جیسا کہ گزرا، تو اسقاط فرض کی تاثیر پہلی چیز ہے جو اصل اعظم سے ثابت ہے تو اس کے ساقط کرنے کا کوئی جواز نہیں فرمایا) اور اسقاط کو مؤثر اعتبار کرنے کیلئے مفید امام ابو حنیفہ کی صریح تعلیل ہے کہ اسکا فرض اس سے ساقط ہوگیا اھ ملتقطا،
(۱؎ فتح القدیر الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالایجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
وعلیک بتلطیف القریحۃ ھذا وقررہ العلامۃ ط تبعاللبحربوجہ اخر حیث قال تحت قول الدر اسقاط فرض ھوالاصل فی الاستعمال کما نبہ علیہ الکمال مانصہ وھوموجود فی رفع الحدث حقیقۃ وفی القربۃ حکما لکونھا بمنزلۃ الاسقاط ثانیا وقدمر ۲؎ اھ
اور تم اپنی طبیعت کو خوشگوار کرو، ہذا، اور علامہ "ط" نے بحر کی متابعت کرتے ہوئے اس کی تقریر دوسرے انداز میں کی ہے، انہوں نے "دُر" کے قول اسقاط فرض ہی استعمال میں اصل ہے کے تحت فرمایا، جیسا کہ کمال نے اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ حدث کو رفع کرنے میں حقیقۃً موجود ہے اور قربت میں حکما ہے، کیونکہ یہ بمنزلہ اسقاط ثانیا ہے اور یہ گزرا اھ
(۲؎ طحطاوی علی الدر باب المیاہ بیروت ۱/۱۱۰)
وما مر ھو قولہ انما استعمل الماء بالقربۃ کالوضوء علی الوضوء لانہ لما نوی القربۃ فقدازداد طھارۃ علی طھارۃ فلا تکون طھارۃجدیدۃ الابازالۃالنجاسۃالحکمیۃ حکما فصارت الطھارۃعلی الطھارۃ وعلی الحدث سواء ۳؎ افادہ صاحب البحر اھ۔
اور جو گزرا وہ ان کا قول ہے، بیشک پانی قربت کی وجہ سے مستعمل ہوتا ہے، جیسے وضو پر وضو کرنا اس لئے جب قربت کا ارادہ کیا تو وہ طہارت کے اعتبار سے زیادہ ہوگیا، تو نئی طہارت نجاست حکمیہ کے ازالہ سے ہی ہوگی حکما، تو طہارت پر طہارت، اور حدث پر طہارت برابر ہوگئی، اس کا افادہ صاحبِ بحر نے کیا اھ ت
(۳؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول نقلہ عن معراج الدرایۃ واقرو فیہ(۱) بعدلا یخفی فما النجاسۃ لاسیما الحکمیۃ الا اعتبار شرعی والاعتبار الصحیح لایکون الاعن منشأ صحیح وبدونہ اختراع یجل شان الشرع عنہ وقد زال ذلک بالطھر فلا یعود الا بحدث جدید وبعبارۃ اخری ھل اعتبر الشرع ھنا شیأ ینافی الطھر یزول بالماء الثانی فیحصل طھر جدید ام لا علی الثانی عاد السؤال اذلا نجاسۃ حقیقۃ ولا اعتبار او علی الاول ما حقیقۃ النجاسۃ الحکمیۃ الا ذلک الاعتبار الشرعی فلا معنی لتحقق الحکمیۃ حکما لاحقیقۃ وبعبارۃ اخصر ماالحکمیۃ الا اعتبارالشرع فالحکمیۃ حکما اعتبار الشرع انہ اعتبرومااعتبراذلواعتبرلتحققت وبالجملۃ ماماٰل الجواب الافرضھا ھنالک فرضا باطلا ولا مساغ لہ وانا انبئک ان ماافادہ(۱) انما ھو تجشم مستغنی عنہ وذلک لان المعراج انما احتاج الیہ جوابا عن سؤال نصبہ بقولہ فان قیل المتوضیئ لیس علی اعضائہ نجاسۃ لاحقیقۃ ولا حکمیۃ فکیف یصیر الماء مستعملا بنیۃ القربۃ فاجاب بقولہ لما نوی القربۃ فقد ازداد ۱؎ الخ
میں کہتا ہوں اس کو معراج الدرایہ سے نقل کیا اور برقرار رکھا، اس میں بُعد ہے جو مخفی نہیں ہے کیونکہ نجاست، خاص طور پر حکمیہ اعتبار شرعی ہے اور اعتبار صحیح اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا منشاء صحیح ہو، اور اس کے بغیر اختراع ہے، شریعت کی شان اس سے بڑی ہے، اور یہ طُہر سے زائل ہوگیا تو صرف نئے حدث سے ہی یہ عود کرے گا، بالفاظ دیگر کیا یہاں شریعت نے کوئی ایسی چیز معتبر مانی ہے جو منافی طہر ہو اور دوسرے پانی سے زائل ہوجائے، تو نئی پاکی حاصل ہو یا معتبر نہیں مانی ہے، دوسری تقدیر پر سوال لوٹ کرآئیگا کیونکہ کوئی حقیقی نجاست نہیں اور نہ ہی اعتباری ہے اور پہلی تقدیر پر نجاست حکمیہ کی حقیقت شرعی اعتبار کے علاوہ اور کیا ہے تو یہ کہنا بے معنی ہے کہ نجاست حکمیہ حقیقۃً نہیں حکماً پائی جاتی ہے اور مختصر عبارت میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ نجاست حکمیہ صرف شرعی اعتبار سے عبارت ہے تو حکمیہ حکما شرع کا یہ اعتبار ہے کہ اس کا اعتبار کیا گیا ہے، اور اعتبار کیا نہیں گیا کیونکہ اگر اعتبار کیا جاتا تو وہ متحقق ہوجاتی۔ خلاصہ یہ کہ جواب کامآل یہ ہے کہ حکمیہ کو وہاں اعتبار کیا جائے بفرض باطل جس کی گنجائش نہیں، اور میں تجھ کو خبر دار کرتا ہوں کہ جس کا اِفادہ انہوں نے کیا ہے وہ محض تکلّف ہے جس کی ضرورت نہیں، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ معراج کو اس کی ضرورت اس لئے پڑی کہ انہیں اس سوال کا جواب دینا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ وضو کرنے والے کے اعضاء پر نہ حقیقی نجاست ہے اور نہ حکمی ہے تو پانی بہ نیت تقرب کیسے مستعمل ہوجائے گا، تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اس نے نیت کی تو زیادتی کی الخ۔(ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول اولا یعود السائل یمنع ازدیاد الطھارۃ وانما ازداد نظافۃ لانھا تقبل التشکیک دون الطھارۃ ولذا قلنا بعدم تجزی الحدث والی ازدیاد النظافۃ یشیر الحدیث المشہور الوضوء علی الوضوء نور علی نور اخرجہ رزین وان قال العراق والمنذری لم نقف علیہ کما فی التیسیر،
میں کہتا ہوں اولاً کہ سائل کہہ سکتا ہے کہ ہم طہارت کی زیادتی کو تسلیم نہیں کرتے اس میں نظافت کا اضافہ تو اس لئے ہے کہ نظافت کمی بیشی کو قبول کرتی ہے، مگر طہارت ایسی نہیں اور اسی لئے ہم نے کہا ہے کہ حدث میں تجزّی نہیں ہے، اور نظافت میں اضافہ کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ وضو پر وضو نور علٰی نور ہے، اس کی تخریج رزین نے کی ہے اگرچہ عراقی اور منذری نے کہا ہے کہ ہم اس پر مطلع نہیں ہوئے ہیں کما فی التیسیر۔
وثانیا لامساغ(۱) للسؤال رأسا فان مبناہ علی حصر النجاسۃ الحکمیۃ فی الحدث ولیس کذا بل منھا المعاصی کما تقدمت النصوص علیہ والماء الاول وان کان کما یزیل الحدث یغسل من اثر المعاصی ایضا بشرط النیۃ ولکن لایجب ان یزیلھا کلًّا والا لکفی الوضوء عن التوبۃ وصار کل من توضأ مرۃ ولو بعد الف کبیرۃ کمن لاذنب لہ وھوباطل قطعا فھذہ نجاسۃ حکمیۃ باقیۃ بعد التطھیر فی عامۃ المکلفین فاین مثار السؤال بل قدمنا(۲) ان المکروھات ایضا تغیر الماء فھذا اطم واعم
ثانیاً سوال کی گنجائش ہی نہیں، کیونکہ اس سوال کا دارومدار اس پر ہے کہ نجاستِ حکمیہ کو حدث میں منحصر کردیا گیا ہے اور حالانکہ بات یہ نہیں ہے، بلکہ نجاست حکمیہ میں معاصی بھی شامل ہیں، اس پر نصوص گزر چکے ہیں، اور پہلاپانی جس طرح حَدَث کو زائل کرتا ہے بشرطِ نیت گناہوں کو بھی دھو ڈالتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ گناہوں کو کلیۃً دھو ڈالے ورنہ تو وضو ہی کافی ہوجاتا تو بہ کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور ہزار ہا گناہوں کے بعد ایک ہی مرتبہ وضو کرلیتا تو تمام گناہ معاف ہوجاتے، اور وہ اس طرح ہوجاتا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ہے، اور یہ چیز قطعاً باطل ہے تو یہ وہ نجاست حکمیہ ہے جو مکلفین میں طہارت حاصل کرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے، تو اب سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے، بلکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ مکروہات بھی پانی کو متغیر کردیتے ہیں تو یہ بلند اور اعم ہے۔
اما المعصومون صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیھم فاقول لانسلم فی مائھم(۳) الاول ایضا انہ مستعمل فی حقنا بل طاھر طھور مطھرلنا فضلا عن الثانی واذا اعتقدنا الطھارۃ فی فضلاتہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فما ظنک بوضوئہ فالاستدلال(۴) علی طھارۃ الماء المستعمل بان اصحابہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم بادروا الی وضوئہ فمسحوا بہ وجوھم کما فی العنایۃ ۱؎ وغیرھا مع ضعفہ بوجوہ ذکرھا فی البحر عن العلامۃ الہندی لیس فی محلہ عندی نعم یعتبر مستعملا فی حقھم شرعا فلا یرد علی الحد نقضا کما اعتبرت فضلا تھم نواقض لعظم رفعۃ شأنھم ونزاھۃ مکانھم صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیھم۔
رہے انبیاءعلیہم السلام جو معصوم ہیں تو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا پہلا پانی ہمارے حق میں مائے مستعمل ہے، بلکہ وہ ہمارے حق میں پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے اور جب پہلے پانی کایہ حال ہے تو دوسرے پانی کا بطریق اولیٰ یہ حال ہوگا، اور ہم تو انبیاء علیہم السلام کے فضلات کی طہارت کے قائل، تو وضو کے پانی کا کیا ذکر ہے۔ بعض حضرات نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مستعمل پانی کی طہارت پر اس امر سے استدلال کیا ہے کہ آپ کے اصحاب نے اُس پانی کی طرف سبقت کی اور اس کو اپنے چہروں پر ملا، جیسا کہ عنایہ وغیرہ میں ہے، بوجوہ ضعیف ہے، یہ وجوہ بحر میں علامہ ہندی سے نقل کی گئی ہیں، میرے نزدیک وہ برمحل نہیں، ہاں ان کے حق میں شرعا مستعمل ہوگا، تو اس سے ماء مستعمل کی حد پر نقض وارد نہ ہوگا، اسی طرح ان کے فضلات کو نواقضِ وضو میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ ان کی شان بہت عظیم ہے اور ان کا مقام بہت ستھرا ہے صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہم۔(ت)
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ ومالا یجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
تنبیہ اختلفوا(۱) فی الحدث الاصغر ھل یحل کالاکبر بظاھر البدن کلہ وانما جعل الشرع الوضوء رافعا لہ تخفیفا ام لاالابالاعضاء الاربعۃ ویبتنی علیہ الخلاف فیما اذا غسل المحدث نحو فخذہ فیصیر الماء مستعملا علی الاول دون الثانی وبالعدم جزم فی کثیر من المتد اولات ونص فی الخلاصۃ انہ الاصح فکان ترجیحا للقول الثانی ولذا عولنا علیہ وفی المنحۃ عن النھر وکان الراجع ھو الثانی ولذا لم یصر الماء مستعملا بخلافہ علی الاول ۲؎ اھ والظاھر ان کان مشددۃ فیعطی تردد افی ترجیحہ۔
تنبیہ حدثِ اصغر کی بابت اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی تمام بدن میں حدثِ اکبر کی طرح حلول کرتا ہے، اور شارع نے وضو کو اس کیلئے رافع تخفیفا قرار دیا ہے یا نہیں؟ ہاں اعضاء اربعہ میں ایسا ہے اور اسی پر یہ اختلاف مبنی ہے کہ بے وضو شخص نے اگر اپنی ران کے مثل کو دھویا تو پہلے قول پر پانی مستعمل ہوجائے گا دوسرے قول پر نہ ہوگا، اور مستعمل نہ ہونے پر بہت سی متداول کتب میں اعتماد کیا گیا ہے اور خلاصہ میں تصریح کی ہے کہ یہی اصح ہے تو یہ قول ثانی کی ترجیح ہے، اسی لئے ہم نے اس پر اعتماد کیا ہے اور منحہ میں نہر سے ہے کہ راجح دوسرا ہے اور اسی لئے پانی مستعمل نہ ہوگا، اس کے برعکس ہے پہلی صورت میں اھ اور ظاہر یہ ہے کہ کَاَنَّ مشدّدہ ہے۔ تو اس سے اس کی ترجیح میں تردّد پیدا ہوگا،
(۲؎ منحۃ الخالق مع البحر کتاب الطہارت ۱/۹۲)
اقول وقد یجوز ان یقول قائل ربما یشھد للاول اوّلا حدیث(۱) اذا تطھرا حدکم فذکر اسم اللّٰہ علیہ فانہ یطھر جسدہ کلہ فان لم یذکر اسم اللّٰہ تعالٰی علی طھورہ لم یطھر الامامر علیہ الماء ۱؎
میں کہتا ہوں یہ بھی جائز ہے کہ کوئی کہنے والا کہے کہ پہلے قول کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب تم میں سے کوئی پاکی حاصل کرے اور اللہ کا نام لے تو اس کا پوراجسم پاک ہوجائے گا اور اگر اللہ کا نام نہ لے تو صرف وہی عضو پاک ہوگا جس پر پانی گزرا ہو،
(۱؎دار قطنی باب التسمیۃ علی الوضوء مطبع القاہرہ ۱/۷۳)
رواہ الدار قطنی والبیھقی فی سننہ والشیرازی فی الالقاب عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال البیھقی بعد ماساقہ بطریق یحیی بن ھاشم السمسار ثنا الاعمش عن شقیق بن سلمۃ عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یقول فذکرہ ھذا ضعیف لااعلم رواہ عن الاعمش غیر یحیی بن(۲) ھاشم وھو متروک الحدیث ۲؎
روایت کیا دار قطنی اور بیہقی نے اپنی سنن میں اور شیرازی نے القاب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیہقی نے یہ حدیث بسند یحیی بن ہاشم السمسار ذکر کی ہے، ہم سے اعمش نے شقیق بن سلمہ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، پھر پوری حدیث ذکر کی، یہ ضعیف ہے، میں نہیں جانتا کہ اس کو اعمش سے یحیی بن ہاشم کے غیر نے روایت کیا، اور وہ متروک الحدیث ہے،
(۲؎ سنن الکبریٰ للبیہقی تسمیۃ علی الوضوء بیروت ۱/۴۴)
ورواہ ابن عدی بالوضع اھ وکذبہ ابن معین وصالح جزرۃ وقال النسائی متروک وبہ اعلہ المحقق فی الفتح حین کلامہ علی وجوب التسمیۃ فی الوضوء تبعا للبیہقی۔
اور اس کو ابن عدی نے وضاع قرار دیا اھ ابن معین اور صالح نے اس کی تکذیب کی اور نسائی نے اس کو متروک کہا اور یہی علّت محقق نے فتح میں بیان کی، یہ اُس موقعہ پر ہے جہاں انہوں نے وضو میں بسم اللہ کے وجوب کا ذکر کیا بیہقی کی متابعت میں۔ ت
اقول بل لہ(۳) طرق ترفعہ عن الوھن فقد رواہ الدار قطنی والبیھقی ایضا عن ابن عمر وھما وابو الشیخ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھم ولفظہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من توضأ وذکر اسم اللّٰہ علی وضوئہ تطھر جسدہ کلہ ومن توضأ ولم یذکر اسم اللّٰہ علی وضوئہ لم یتطھر الاموضع الوضوء ۱؎
میں کہتا ہوں اس حدیث کے بعض طرق ایسے ہیں جو اس کی کمزوری کو رفع کرتے ہیں، دار قطنی اور بیہقی نے بھی اس کو ابن عمر سے روایت کیا، اور انہی دونوں نے اور ابو الشیخ نے ابو ھریرہ سے روایت کیا، ان کے لفظ یہ ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بسم اللہ کرکے وضو کیا تو اس کا سارا جسم پاک ہوگا اور جس نے وضو کے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو صرف وضو کی جگہ ہی پاک ہوگی
(۱؎ سنن الکبریٰ للبیہقی باب التسمیۃ علی الوضوء مطبع بیروت ۱/۴۵)
ورواہ عبدالرزاق فی مصنّفہ عن الحسن الضبی الکوفی مرسلا ینمیہ الی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من ذکر اللّٰہ عندالوضوء طھر جسدہ کلہ فان لم یذکر اسم اللّٰہ لم یطھر منہ الامااصاب الماء ۲؎
اس کو عبدالرزاق نے اپنی مصنَّف میں حسن الضبی کوفی سے مرسلاً روایت کیا، اور وہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں، فرماتے ہیں جس نے وضو کے وقت اللہ کا ذکر کیا اس کا تمام جسم پاک ہوجائے گا اور اگر اللہ کا ذکر نہ کیا تو صرف وہی حصہ پاک ہوگا جس پر پانی گزرا ہوگا،
(۲؎ کنزالعمال آداب الوضوء مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/۲۹۴)
واخرج ابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ قال اذا توضأ العبد فذکر اسم اللّٰہ تعالی طھر جسدہ کلہ وان لم یذکر لم یطھر الاما اصابہ بہ الماء ۳؎
اور ابو بکر سے ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنَّف میں روایت کی کہ بندہ جب وضو کرتا ہے اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا سارا جسم پاک ہوجاتا ہے اور اگر اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو صرف وہی حصہ پاک ہوتا ہے جس پر پانی پہنچا ہو ۔
(۳؎ مصنّف ابن ابی شیبۃ فی التسمیۃ فی الوضوء ادارۃ القرآن کراچی ۱/۳)
وروی سعید بن منصور فی سننہ عن مکحول قال اذا تطھر الرجل وذکراسم اللہ طھر جسدہ کلہ واذالم یذکر اسم اللّٰہ حین یتوضأ لم یطھر منہ الامکان الوضوء ۴؎
اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں مکحول سے روایت کی کہ جب کوئی شخص پاکی حاصل کرتا ہے اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا سارا جسم پاک ہوجاتا ہے اور جب بوقت وضو اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو صرف وضو کی جگہ پاک ہوتی ہے،
(۴؎ کنزالعمال آداب الوضوء موسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/۴۵۷)
ومع ھذہ الطرق یستحیل الحکم بالسقوط بل ربما یرتقی عن الضعف لاجرم ان صرح فی المرقاۃ لحدیث الدار قطنی ان سندہ حسن وثانیا نقل العلامۃ الزیلعی المحدث جمال الدین عبداللہ تلمیذ الامام الزیلعی الفقیہ فخرالدین عثمٰن شارح الکنز فی نصب الرایۃ تحت حدیث لاوضوء لمن لم یسم اللہ تعالی عن الامام ابن الجوزی ابی الفرج الحنبلی انہ قال محتجا علینا فی ایجابھم التسمیۃ للوضوء ان المحدث(ای بالحدث الاصغر اذفیہ الکلام ویکون(۱) ھو المراد عند الاطلاق کما فی الحلیۃ) لایجوز(۲) لہ مس المصحف بصدرہ ۱؎ اھ واقرہ علیہ۔
ان تمام طُرُق کی موجودگی میں سقوط کا قول کرنا محال ہے بلکہ ان سے حدیث مرتبہ ضعف سے بلند ہوجاتی ہے اور مرقاۃ میں دارقطنی کی روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ ثانیا علامہ زیلعی محدّث جمال الدین عبداللہ شاگرد امام زیلعی فقیہ فخرالدین عثمان شارح کنز نصب الرایہ میں ''لاوضوء لمن لم یسم اللّٰہ(اس کا وضو نہیں جو اللہ کا نام نہ لے)کی حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ امام ابن جوزی ابو الفرج الحنبلی نے ہم پر حجت قائم کرنے کیلئے وہ بسم اللہ کو وضو میں واجب قرار دیتے ہیں فرمایا کہ مُحدِث(جس کو حدثِ اصغر لاحق ہوا کیونکہ کلام اُسی میں ہے اور عندالاطلاق وہی مراد ہوتاہے، کما فی الحلیہ) اس کو مصحف کا چھونا اپنے سینہ سے جائز نہیں اھ اور اس کو انہوں نے برقرار رکھا۔ ت
(۱؎ نصب الرایۃ کتاب الطہارۃ اسلامیہ ریاض ۱/۷)
قلت ویؤیدہ مافی الفتح ثم البحر وحاشیۃ الشلبی علی التبیین قال لی(۳) بعض الاخوان ھل یجوز مس المصحف بمندیل ھولا بسہ علی عنقہ قلت لااعلم فیہ منقولا والذی یظھر انہ ان کان بطرفہ وھو یتحرک بحرکۃ ینبغی ان لایجوز وان کان لایتحرک بحرکتہ ینبغی ان یجوز لاعتبارھم ایاہ فی الاول تابعا لہ کبدنہ دون الثانی ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں اس کی تائید فتح میں، پھر بحر میں اور تبیین پر شبلی کے حاشیہ میں ہے مجھ سے بعض دوستوں نے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص گلے میں رومال ڈالے ہو تو وہ اس رومال سے مصحف کو چھو سکتا ہے؟ میں نے کہا میں اس سلسلہ میں کوئی نقل تو نہیں پاتا ہوں لیکن اگر صورت یہ ہو کہ اس کے ایک کنارے سے مصحف کو پکڑے اور اس کے حرکت دینے سے دوسرا کنارہ حرکت کرے تو جائز نہ ہونا چاہئے اور اگر حرکت نہ کرے تو مس کرنا جائز ہونا چاہئے، کیونکہ پہلی صورت میں وہ اس کو اس کا تابع قرار دیتے ہیں جیسا کہ اس کا بدن ہے دوسری صورت میں تابع نہیں کہتے اھ
(۲؎ بحرالرائق باب الحیض سعید کمپنی کراچی ۱/۲۰۱)
فان المراد المحدث بالحدث الاصغر اذ قد نقل قبلہ باسطرعن الفتاوی لایجوز للجنب والحائض ان یمسا المصحف بکمھا اوببعض ثیابھما لان الثیاب بمنزلۃ بدنھما ۳؎ اھ
کیونکہ محدث سے مراد حدث اصغر والا شخص ہے، کیونکہ اس سے کچھ ہی پہلے فتاوٰی سے منقول ہوا کہ جنب اور حائض کو جائز نہیں کہ وہ دونوں مصحف کو اپنی آستین سے یا کپڑے کے کسی حصّہ سے چھوئیں کیونکہ کپڑے منزلہ ان کے بدن کے ہیں اھ
(۳؎ شلبی علی التبیین باب الحیض بولاق مصر ۱/۵۸)
فقولہ بعض ثیابھما کان یشمل مندیلا ھولابسہ فلم یقول لااعلم فیہ المنقول افینسی مانقلہ اٰنفا وھو بمرأی منہ۔
تو ''بعض کپڑوں'' میں وہ رومال بھی آجاتا ہے جس کو وہ پہنے ہوئے ہو تو پھر وہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میں اس میں کوئی نقل نہیں جانتا کیا وہ دیکھتے بھالتے اُس نقل کو بھول گئے جو خود ہی انہوں نے پیش کی ہے۔(ت)
اقول لکنی(۱) رایت فی التبیین قال بعد قولہ منع الحدث مس القران ومنع من القرأۃ والمس الجنابۃ والنفاس کالحیض مانصہ ولا یجوز لھم مس المصحف بالثیاب التی یلبسونھا لانھا بمنزلۃ البدن ولھذا لوحلف لایجلس علی الارض فجلس علیھا وثیابہ حائلۃ بینہ وبینھا وھو لابسھا یحنث ولوقام(۲) فی الصلاۃ علی النجاسۃ وفی رجلیہ نعلان اوجوربان لاتصح صلاتہ بخلاف المنفصل عنہ ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں میں نے تبیین میں دیکھا ہے کہ وہ فرماتے ہیں حدث کی وجہ سے قرآن کو ہاتھ لگانا منع کیا ہے، اور جنابت اور نفاس نے حیض کی طرح، پڑھنے اور ہاتھ لگانے دونوں کو منع کیا ہے، ان کی عبارت یہ ہے کہ اُن کیلئے اُن کپڑوں کے ساتھ جو وہ پہنے ہوئے ہیں قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں کیونکہ وہ کپڑے بمنزلہ بدن کے ہیں، اور اس لئے اگر کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ زمین پر نہیں بیٹھے گا اب وہ اس طرح بیٹھا کہ اس کے اور زمین کے درمیان پہنے ہوئے کپڑے حائل ہوں تو وہ قسم میں حانث ہوجائے گا اور اگر کوئی شخص بحالتِ نماز نجاست پر کھڑا ہوا اور اس کے دونوں پیروں میں جوتے یا جرابیں ہیں تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی، اگر یہ چیزیں جُدا ہیں تو ہو جائے گی اھ
(۱؎ تبیین الحقائق باب الحیض بولاق مصر ۱/۵۷)
فھذا ظاھر فی رجوع الضمیر الی المحدث ومن معہ جمیعا فھذا النقل وللّٰہ الحمد وبالجملۃ المقصود انہ اذا منع مسہ بما علی عنقہ وصدرہ فکیف بھما فدل علی حلول الحدث جمیع البدن ثم رأیت المسألۃ منصوصا علیھا فی الھندیۃ عن الزاھدی حیث قال اختلفوا فی مس المصحف بما عدا اعضاء الطھارۃ وبما غسل من الاعضاء قبل اکمال الوضوء والمنع اصح ۲؎ اھ
تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضمیر مُحدِث کی طرف لوٹتی ہے اور اس کی طرف بھی جو مُحدِث کے ساتھ ہو، یہ صریح نقل ہے والحمدللہ، اور خلاصہ یہ کہ جب قرآن کو اس کپڑے کے ساتھ چُھونا جائز نہیں جو اس کی گردن اور سینے پر ہے تو خود گردن اور سینے سے مس کرنا کیسے جائز ہوگا! پس معلوم ہوا کہ حدث تمام بدن میں سرایت کرتا ہے، پھر میں نے اس مسئلہ کو ہندیہ میں زاہدی سے منصوص دیکھا وہ فرماتے ہیں اعضاءطہارۃ اور وہ اعضاء جو وضو کی تکمیل سے قبل دھوئے گئے ہوں اُن سے مسِ مصحف میں اختلاف ہے، اور منع اصح ہے اھ( ت)
(۲؎ فتاوی ہندیۃ باب فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۳۹)
وثالثا تقرر عند(۱) العرفاء ان لا حدث صغیر اولا کبیرا الا ماتولد من اکل حتی القھقھۃ فی الصّلاۃ فان تلک الغفلۃ الشدیدۃ فی عین الحضرۃ لاتکون الا من شبع ای شبع اذ الجائع ربما لایکشر لہ سن فضلا عن القھقھۃ خلفۃ عن کونہا فی الصلاۃ ولا شک ان نفع الاکل یعم البدن وکذا نفع الخارج والراحۃ الحاصلۃ بہ فدخول الطعام یولد الغفلۃ وخروج المؤذی یحققہا وبالغفلۃ موت القلب والقلب رئیس فانہ المضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ والماء ینعش ویذھب الغفلۃ کما ھو مشاھد فی المغشی علیہ۔
ثالثا عرفاء کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ حدث چھوٹا ہو خواہ بڑا مطلقاً کھانا کھانے ہی سے پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ نماز میں قہقہہ بھی کہ عین دربار میں ایسی سخت غفلت اُسی سے ہوسکے گی جس کا پیٹ بھرا اور نہایت بھرا ہو کہ بھُوک میں تو ہنسی سے دانت کھلنا ہی نادر ہے نہ کہ ٹھٹھا اور وہ بھی نماز میں، اور شک نہیں کہ کھانے کا نفع تمام بدن کو پہنچتا ہے یونہی فضلہ نکل جانے کی منفعت وراحت بھی سارے بدن کو ہوتی ہے تو کھانا معدہ میں جانا غفلت پیدا کرتا ہے اور موذی یعنی فضلہ کا نکلنا غفلت کو ثابت ومؤکد کرتا ہے اور غفلت سے دل کی موت ہے اور دل بدن کا بادشاہ ہے کہ یہی بوٹی درست ہو تو سارا بدن درست رہے اور بگڑے تو سارا بدن خراب ہوجائے اور پانی تازگی لاتا اور غفلت دُور کرتا ہے جیسا کہ غشی والے کے مُنہ پر چھڑکنے میں مشاہدہ ہے۔
قلت فکما ان سبب الموت عم البدن کان ینبغی ان یعمہ ایضا سبب الحیاۃ وبہ اتی الشرع فی الحدث الاکبر لکن الاصغر یتکرر کثیرا فلوامروا کلما احد ثوا ان یغتسلوا لوقعوا فی الحرج والحرج مدفوع فاقامت الشریعۃ السمحۃ السہلۃ مقام الغسل غسل الاطراف اذ من سنۃ کرمہ تعالی ان اذ اصلح الاول والاخر تجاوز عن الوسط وجعلہ معمورا فیھما ثم کان من الاطراف الراس وغسلہ کل یوم مرارا ایضا کان یورث البؤس والباس فابدل فیہ الغسل بالمسح رحمۃ من الذی یقول عز من قائل یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر فقضیۃ ھذا ان الحدث ولو اصغر یحل البدن کلہ۔
تو میں کہتا ہوں جس طرح موت کا سبب سارے بدن کو عام ہوا تھا چاہئے تھا کہ حیات کا سبب یعنی پانی بھی سب جسم پر پہنچے حدث اکبر میں تو شرع نے یہی حکم دیا مگر حدث اصغر بکثرت مکرر ہوتا ہے تو ہر حدث اصغر پر اگر نہانے کا حکم ہوتا تو لوگ حرج میں پڑتے اور اس دین میں حرج نہیں لہٰذا اس نرم وآسان شریعت نے اطراف بدن کا دھونا قائم مقام نہانے کے فرمایا دیا کہ اللہ عزوجل کی سنتِ کریم ہے کہ جب اول وآخر ٹھیک ہوتے ہیں تو بیچ میں جو نقصان ہو اُس سے درگزر فرماتا ہے اب اطراف بدن میں سر بھی تھا اور اُسے ہر روز چند بار دھونا بھی بیمار کردیتا مشقّت میں ڈالتا لہٰذا اس کو دھونے کے عوض مسح مقرر فرمادیا، رحمت اس کی جو فرماتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور دشواری نہیں چاہتا۔
(اس تمام گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ حدث خواہ اصغر ہی ہو تمام بدن میں حلول کرتا ہے۔ت)
اقول وبہ(۱) تبین ان ماصرح بہ غیر واحد من مشائخنا وغیرھم ان غسل غیر المصاب فی الحدث امرتعبدی کما فی الھدایۃ وغیرھا وقدمناہ عن الکافی وکذلک(۲) الاقتصار علی الاربعۃ فی الوضوء کما فیھا وفی الحلیۃ وغیرھما وبہ قال الامام الحرمین واختارہ الامام عزّ الدین بن عبدالسلام کلاھما من الشافعیۃ فان کل ذلک فی علم الحقائق احکام معقولۃ المعنی واللّٰہ تعالی اعلم ھذا تقریر اسئلۃ ظھرت لی واتیت بھا کیلا تعن لقاصر مثلی ولا یتفرع للتدبر فیحتاج لکشفھا۔
میں کہتا ہوں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے مشائخ کا یہ فرمانا کہ اُن اعضاء کودھونا جن کو حدث نہیں پہنچا ہے محض امر تعبدی ہے جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں ہے اور ہم نے کافی سے بھی نقل کیا ہے، اور اسی طرح وضو میں چار پر اقتصار جیسا کہ ہدایہ اور حلیہ وغیرہ میں ہے اور یہی امام الحرمین کا قول ہے اور امام عزّ الدین بن عبدالسلام نے اس کو اختیار کیا ہے یہ دونوں شافعی علماء ہیں کیونکہ یہ تمام حقائق کے معقول احکام ہیں واللہ تعالٰی اعلم، یہ اُن سوالوں کی تقریر ہے جو مجھے منکشف ہوئے، میں نے ان پر اس لئے گفتگو کی ہے کہ کہیں مجھ جیسے قاصر کو یہ درپیش نہ آجائیں اور وہ مشکل میں مبتلا نہ ہوجائے۔(ت)
اقول فی الجواب عن الاول المراد نجاسۃ الاٰثام اذلوارید نجاسۃ الحدث لزم ان من لم یسم لم یتم طھرہ وھو مذھب الظاھریۃ وروایۃ عن الامام احمد رضی اللہ تعالی عنہ ولم یقل بہ احد من علمائنا وبقاء نجاسۃ الاٰثام فیما عدا اعضاء الطھر بل وفیھا ایضا کما قدمنا لاینافی صحۃ الطھارۃ والصلاۃ وبہ ظھر(۱) الجواب عن استدلال ابی الفرج بالحدیث
اب میں پہلے کے جواب میں کہتا ہوں کہ اس سے مراد گناہوں کی نجاست ہے کیونکہ اگر حدث کی نجاست کا ارادہ کیا جائے تو یہ لازم آئے گا جو بسم اللہ نہ کرے اُس کی طہارت مکمل نہ ہوگی، اور یہ ظاہر یہ کا مذہب ہے، اور امام احمد کی ایک روایت ہے اور ہمارے علماء میں سے کسی کا قول نہیں، اور اعضاء طہارت کے علاوہ باقی اعضاء میں گناہوں کی نجاست کا باقی رہنا، بلکہ اعضاء طہارت میں بھی، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا صحت طہارت کے منافی ہے اور نہ ادائیگی نماز کے، اور اسی سے ظاہر ہوگیا جو اب اس استدلال سے جو ابو الفرج نے حدیث سے کیا ہے۔
وعن الثانی ان المنع للحدث بالمعنی الثانی الغیر المتجزی لقولہ تعالی لایمسہ الا المطھرون وقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لایمس القران الا طاھر وھو لایکون طاھر ام بقیت لمعۃ وان خفت فمنع المس انما یقتضی تلبس المکلف بنجاسۃ حکمیۃ لاتلبس خصوص العضو الممسوس بہ الا تری انہ لایجوز مسہ بید قدغسلہا مالم یستکمل الوضوء الا تری انھم منعوا المس بما علیہ من الثیاب ولا نجاسۃ فیھا حقیقۃ ولا حکمیۃ انما المنع لانھا تبع لبدن شخص محدث فلان یمنع بنفس بدنہ اولی وان کان بدنا لم یحلہ الحدث ھذا علی الاصح اما علی قول من یقول ان المنع للمعنی الاول ای لقیام النجاسۃ الحکمیۃ بالمسوس بہ فالمسألۃ ممنوعۃ من رأسھا بل ھو قائل بجواز مسہ بغیر اعضاء الطھارۃ کمامر عن الھندیۃ وان منع المس بالثیاب فبثوث تابع لما فیہ الحدث کالکم لید لم یغسل لامطلقا کما لایخفی ،
اور دوسرے کا جواب یہ ہے کہ حَدَث کا منع کرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے جو غیر متجزی ہے اللہ تعالٰی کے اس فرمان کی وجہ سے ''اس کو پاک لوگ ہی چُھوئیں'' اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ''قرآن کو پاک ہی چھُوئے'' اور مُحدِث اس وقت تک پاک نہ ہوگا جب تک ایک ''لُمعہ'' بھی باقی رہے خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو، تو چھُونے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ مکلف نجاست حکمیہ کے ساتھ ملوث ہے،یہ نہیں کہ اس کا کوئی خاص عضو اس میں ملوّث ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کو محض دُھلے ہوئے ہاتھ سے چھُونا جائز نہیں تاوقتیکہ وضو مکمل نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اس ہاتھ سے قرآن چھُونے کو منع کیا ہے جو کپڑے میں لپٹا ہوا ہو خواہ اس پر نہ حقیقی نجاست ہو اور نہ حکمی، ممانعت اس لئے ہے کہ وہ مُحدِث کی ذات کے تابع ہے تو نفسِ بدن سے چھُونے کی ممانعت بدرجہ اولی ہوگی، خواہ اس میں حدث نے حلول نہ کیا ہو، یہ اصح کے مطابق ہے، اور جو حضرات منع معنی اول میں قرار دیتے ہیں، یعنی ممسوس بہ کے ساتھ نجاست حکمیہ کا قائم ہونا، تو مسئلہ اصلا ممنوع ہے، بلکہ اُس کے مَس کے جواز کے قائل ہیں بلا اعضاء طہارت کے، جیسا کہ ہندیہ سے گزرا، اور اگر کپڑوں کے ساتھ چُھونا جائز نہیں تو اس کپڑے کے ساتھ جو تابع ہو کیونکہ اس میں حَدَث ہے، جیسے آستین ہاتھ کیلئے جو دُھلا نہ ہو، نہ کہ مطلقا کمالا یخفی۔
وعن الثالث نعم ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ لکنہ یحتمل وجہین الاول ان یعتبر الشرع حلول الحدث بکل البدن ثم یجعل تطھیر الاعضاء الاربعۃ تطھیرا للکل والثانی ان الشارع لما رأی فیہ الحرج اسقط اعتبارہ الا فی الاعضاء الاربعۃ ولکل منھما نظیر فی الشرع فنظیر الاول التیمم جعل فیہ مسح عضوین مطھراللاربع بالاتفاق ونظیر الثانی العین کان فی غسلھا حرج فلم یجعلھا الشرع محل حلول حدث اصلا لاانہ حل وسقط الغسل للحرج فلوغسل(۱) عینیہ لایصیر الماء مستعملا بالوفاق وعندالاحتمال ینقطع الاستدلال،
اور تیسرے کا جواب یہ ہے، ہاں یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف ہے اور رحمۃ ہے لیکن اس میں دو وجہیں ہیں پہلی تو یہ کہ شرع تمام بدن میں حدث کے حلول کا اعتبار کرتی ہے اور پھر چار اعضاء کی تطہیر کے بعد کل بدن کی طہارت کا حکم کرتی ہے اور دوسرے یہ کہ شارع نے جب اس میں حرج دیکھا تو اس کے اعتبار کو ساقط کردیا صرف اعضاء اربعہ میں رہنے دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی نظیر شرع میں موجود ہے، پہلے کی نظیر تمیم ہے اس میں دو اعضاء کے مسح کرنے کو چاروں اعضاء کی پاکی قرار دیا ہے، اور دوسرے کی نظیر آنکھ ہے کہ اس کے دھونے میں حرج تھا، تو شریعت نے اس میں حدث کا حلول نہیں مانا،یہ نہیں کہ حدث حلول کرگیا ہو، اب اگر کسی نے اپنی دونوں آنکھیں دھوئیں تو پانی بالاتفاق مستعمل نہ ہوگا، اور جب احتمال پیدا ہوجائے تو استدلال ختم ہوجاتا ہے،
بل اقول لوتأملت لرجحت الثانی اذعدم الاعتبار اولی من الاعتبار ثم الا ھدار والقیاس علی العین بجامع الحرج واضح صحیح بخلاف التیمم فان اصل الواجب ثم الوضوء والتیمم خلف ولم یزعم ھھنا احد ان اصل الواجب بکل حدث ھو الغسل والوضوء خلف بل لم یقل احد ان الغسل عزیمۃ والوضوء رخصۃ وھٰؤلاء ساداتنا العرفاء الکرام اعاد اللّٰہ تعالی علینا برکاتھم فی الدارین رأینا ھم یأخذون انفسھم فی کل نقیر وقطمیر بالغرائم ولا یرضون لھم التنزل الی الرخص ثم لم ینقل عن احد منھم انہ الزم نفسہ الغسل عند کل حدث مکان الوضوء ولو التزمہ الاٰن احد لکان متعمقا مشددامتنطعا فظھرانہ من الباب الثانی دون الاول علی ان ذلک طور اخر وراء الطور الذی نتکلم فیہ والاحکام(۳) لاتخلو عن الحکم لکن لاتدار علیھا الا تری ان من اشتغل فی لھو ولعب ومزاح وقھقھۃ خارج الصلاۃ فلا شک انہ غافل فی تلک الساعات عن ربہ عزوجل لاسیما(۱) الذی قھقہ فی صلاۃ الجنازۃ مع ان فی ذکری الموت شغلا شاغلا ولم یجعل الشرع شیئا من ذلک حدثا وکذا لم یجعل الاکل وھوالاصل ولا النوم الذی ھو اخ الموت مالم یظن خروج شیئ بان لم یکن متمکنا فعلینا اتباع مارجحوہ وصححوہ کما لو افتونا فی حیاتھم واللّٰہ تعالی اعلم باحکامہ۔
بلکہ میں کہتا ہوں اگر آپ تأمل کریں تو دوسرے کو ترجیح ہے کیونکہ اعتبار نہ کرنا اعتبار کرنے سے اَولیٰ ہے کہ پہلے اعتبار کیا جائے پھر اس کو باطل کیا جائے، اور آنکھ پر قیاس کرنا حرج کی علّت سے واضح اور صحیح ہے بخلاف تیمم کے کیونکہ وہاں اصالۃ جو چیز واجب ہے وہ وضو ہے اور تیمم خلیفہ ہے، اور یہاں کسی نے گمان نہیں کیا کہ ہر حدث میں اصالۃ واجب غسل ہے اور وضو خلیفہ ہے، بلکہ کسی نے یہ بھی نہ کہا کہ غسل عزیمۃ ہے اور وضو رخصۃ ہے، حالانکہ ہمارے یہ بزرگ، اللہ ان کی برکتیں ہم پر نازل کرے، باریک سے باریک تر چیز کا اعتبار کرتے ہیں اور کسی قسم کی رخصت پر تیار نہیں ہوتے، پھر ان میں سے کسی سے منقول نہیں کہ بجائے وضو کے غسل کرتا ہو اور اگر اب کوئی ایسا کرے تو وہ انتہا درجہ کا متشدد ہوگا تو معلوم ہوا کہ وہ دوسرے باب سے ہے نہ کہ پہلے باب سے۔علاوہ ازیں یہ ہماری گفتگو کا ایک نیا انداز ہے، اور احکام حکمتوں سے خالی نہیں ہوتے، لیکن اُن پر دارومدار نہیں ہوتا، مثلاً کوئی شخص لہو ولعب، مزاح اور قہقہوں میں بیرونِ نماز مصروف ہے تو بلا شبہ اِن لمحات میں وہ اپنے رب سے غافل ہے، خاص طور پر قہقہہ لگانے والا نماز جنازہ میں، حالانکہ موت انسان کو ہر چیز سے موڑ کر اللہ کی طرف متوجہ کردیتی ہے، مگر شارع نے ان اشیاء میں سے کسی چیز کو بھی حَدَث قرار نہیں دیا ہے، اور اس طرح کھانے کو، جو اصل ہے، اور نیند کو جو موت کی نظیر ہے تاوقتیکہ اُس شخص کو یہ ظن نہ ہوجائے کہ کوئی چیز خارج ہوئی ہے، مثلاً یہ کہ جم کر نہیں بیٹھا یا لیٹا تھا، تو ہم پر لازم ہے کہ جس چیز کو فقہاء نے راجح قرار دیا اور صحیح قرار دیا ہے ہم اس کی بالکل اسی طرح پیروی کریں جیسے اگر
وہ حضرات اپنی زندگی میں ہمیں فتوی دیتے۔ ت
تنبیہ (۲) معلوم ان اقامۃ قربۃ اورفع حدث اواسقاط فرض اوازالۃ نجاسۃ حکمیۃ بایھا عبرت کل ذلک یشمل المسح المفروض مطلقا والمسنون بشرط النیۃ فیجب ان تصیر البلۃ مستعملۃ اذا انفصلت من رأس اوخف اوجبیرۃ اواذن مثلا ولذا عولنا علیہ وصرحنا بعمومہ المسح لکن قال الامام فقیہ النفس فی الخانیۃ لوادخل(۳) المحدث رأسہ فی الاناء یرید بہ المسح لایصیر الماء مستعملا فی قول ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی قال انما یتنجس الماء فی کل شیئ یغسل اماما یمسح فلا یصیر الماء مستعملا وان اراد بہ المسح وقال محمد رحمہ اللّٰہ تعالی اذا کان علی ذرا عیہ جبائر فغمسھا فی الماء اوغمس رأسہ فی الاناء لایجوز ویصیر الماء مستعملا ۱؎ اھ
تنبیہ یہ امر معلوم ہے کہ قُربۃ کی ادائیگی، رفعِ حدث، اسقاطِ فرض، نجاستِ حکمیہ کا ازالہ وغیرہ، جو تعبیر بھی آپ کریں یہ مفروض مسح کو مطلقا شامل ہے اور مسنون کو بشرط نیت، لہٰذا لازم ہے کہ تری سر سے، موزے سے، پٹّی سے یا کان سے جُدا ہوتے ہی مستعمل ہوجائے، اور اسی لئے ہم نے اس پر اعتماد کیا،اور مسح کے عام ہونے کی تصریح کی، لیکن امام فقیہ النفس نے خانیہ میں فرمایا اگر بے وضو نے اپنا سر مسح کیلئے برتن میں ڈبو دیا تو ابو یوسف کے قول کے مطابق پانی مستعمل نہ ہوگا، کیونکہ وہ فرماتے ہیں پانی اس چیز سے نجس ہوگا جو دھوئی جاتی ہے، اور جو ممسوح ہے اُس سے نہیں خواہ اُس سے مسح کا ارادہ ہی کیا ہو، اور امام محمد نے فرمایا کہ اگر کسی کے ہاتھوں پر پٹیاں ہوں اور اس نے وہ پانی میں ڈبو دیے یا اپنا سر پانی میں ڈبو دیا تو جائز نہیں اور پانی مستعمل ہوگا اھ
(۱؎ فتاوٰی خانیۃ علی الھندیۃ باب الماء المستعمل نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۱۵)
وقد(۱) قدم قول ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی فکان ھو الاظھر الاشھر کما افادنی فی خطبتہ فکان ھوالمعتمد کما فی ط وش بل صححوا ان محمدا فیہ مع ابی یوسف رحمہما اللّٰہ تعالی فلا خلاف قال فی البحر لوادخل(۲) رأسہ الاناء اوخفہ اوجبیرتہ وھو محدث قال ابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی یجزئہ المسح ولا یصیر الماء مستعملا سواء نوی اولم ینووقال محمد رحمہ اللہ تعالٰی ان لم ینویجزئہ ولا یصیر مستعملا وان نوی المسح اختلف المشائخ علی قولہ قال بعضھم لایجزئہ ویصیرالماء مستعملا والصحیح انہ یجوز ولا یصیرالماء مستعملا کذا فی البدائع فعلم بھذا ان مافی الجمع ۲؎۔
اور ابو یوسف کے قول کو مقدم کیا گیا ہے وہی ظاہر ومشہور ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا تو وہی قابلِ اعتماد ہوگا، جیسا کہ ''ط'' و ''ش'' میں ہے بلکہ فقہاءء نے اس امر کو صحیح قرار دیا ہے کہ اس میں امام ابو یوسف کے ساتھ ہیں، تو کوئی اختلاف باقی نہ رہا۔ بحر میں فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنا سر، موزہ یا پٹّی بے وضو ہونے کی حالت میں برتن میں ڈبودی تو امام ابو یوسف نے فرمایا مسح ہوجائے گا اور پانی مستعمل نہ ہوگا خواہ مسح کی نیت کی ہو یا نہ، امام محمد نے فرمایا اگر نیت نہیں کی تو ان کے قول پر اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، بعضے کہتے ہیں اس کو کافی نہ ہوگا اور پانی مستعمل ہوجائے گا، اور صحیح یہ ہے کہ جائز ہے اور پانی مستعمل نہ ہوگا کذا فی البدائع تو اس سے معلوم ہوا کہ جمع میں جو اختلاف ہے۔(ت)
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۵)
(قلت ای والخانیۃ والفتح وغیرھا) من الخلاف فی ھذہ المسألۃ علی غیر الصحیح بل الصحیح ان لاخلاف وعلم ایضا انہ لافرق بین الرأس والخف والجبیرۃ خلافا لما ذکرہ ابن الملک ۱؎ اھ۔
(میں کہتا ہوں خانیہ اور فتح وغیرہ میں بھی) جو اختلاف بیان کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں،صحیح یہ ہے کہ اختلاف نہیں، اور یہ بھی معلوم ہو کہ سر، موزے اور پٹّی میں کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ ابن الملک نے ذکر کیا اھ
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۱۵)
واختصرہ فی الدر فقال لم یصر الماء مستعملا وان نوی اتفاقا علی الصحیح ۲؎ اھ۔
اور اسی کو دُر میں مختصر کیا، فرمایا پا نی مستعمل نہ ہوگا خواہ نیت کی ہو، یہ متفق علیہ ہے صحیح قول پر اھ ت
(۲؎ الدرالمختار ارکان الوضوء ۱/۱۹)
اقول: ولا یھولنک ھذا فلیس معناہ ان المسح لایفید الاستعمال کیف وکلامھم طرافی اسبابہ مطلق یعم الغسل والمسح ثم المسألۃ عینھا منصوصۃ علی لسان الکبراء منھم فقیہ النفس اذیقول(۱) توضأثم مسح الخف ببلۃ بقیت علی کفہ بعد الغسل جاز ولو مسح برأسہ ثم مسح الخف ببلۃ بقیت علی الکف بعد المسح لایجوز لانہ مسح الخف ببلۃ مستعملۃ بخلاف الاول ۳؎ اھ۔
اقول یہ چیز کوئی قابلِ تعجب نہیں، اس کا یہ معنی نہیں کہ مسح سے استعمال نہیں ہوتا، حالانکہ تمام فقہاء کا کلام اسباب استعمال کے سلسلہ میں عام ہے اس میں غسل اور مسح دونوں شامل ہیں، اور پھر اکابر علماء نے مسئلہ کی صراحت بھی کی ہے، مثلاً فقیہ النفس فرماتے ہیں کسی شخص نے وضو کیا پھر ہاتھ دھونے کے بعد جو تری باقی رہ گئی تھی اس سے موزے پر مسح کرلیا تو جائز ہے اور اگر سر پر مسح کیا اور مسح کے بعد ہاتھ پر جو تری رہ گئی تھی اُس سے موزے پر مسح کیا تو جائز نہیں کیونکہ اس نے مستعمل تری سے موزے پر مسح کیا ہے بخلاف اول کے اھ ۔
(۳؎ فتاوی خانیۃ مسح علی الخفین ۱/۲۳)
واقرہ فی الفتح وغیرہ وفی الخانیۃ ایضا الاستیعاب(۲) فی مسح الرأس سنۃ وصورۃ ذلک ان یضع اصابع یدیہ علی مقدم راسہ وکفیہ علی فودیہ ویمدھما الی قفاہ فیجوز واشار بعضھم الی طریق اخراحترازاعن استعمال الماء المستعمل الا ان ذلک لایمکن الا بکلفۃ ومشقۃ فیجوز الاول ولا یصیر الماء مستعملا ضرورۃ اقامۃ السنۃ۴؎ اھ۔
فتح وخانیہ میں اسی کو برقرار رکھا، پھر استیعاب مسح میں سنت ہے، اور استیعاب کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی انگلیاں ماتھے پر رکھے اور ہتھیلیاں کنپٹیوں پر اور گُدی کی طرف کھینچ کر لے جائے تو جائز ہے، اور بعض دوسرے فقہاء نے اور طریقہ بتایا کہ مستعمل پانی کے استعمال سے بچا جاسکے، مگر اس میں بہت تکلف اور مشقت ہے، تو پہلی صورت جائز ہے اور پانی مستعمل نہ ہوگا تاکہ سنّت ادا ہوسکے اھ۔
(۴؎ خانیۃ علی الہندیۃ فصل صفۃ الوضوء نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۳۵)
ای لما علم ان الماء مادام علی العضو لایصیر مستعملا وفی الفتح من(۳) مسح الرأس لومسح باصبع واحدۃ مدھا قدر الفرض جاز عند زفر وعندنا لایجوز وعللوہ بان البلۃ صارت مستعملۃ وھو مشکل بان الماء لایصیر مستعملا قبل الانفصال وما قیل الاصل ثبوت الاستعمال بنفس الملاقاۃ لکنہ سقط فی المغسول للحرج اللازم بالزام اصابۃ کل جزء باسالۃ غیر المسال علی الجزء الاٰخر ولا حرج فی المسح لانہ یحصل بمجرد الاصابۃ فبقی فیہ علی الاصل دفع بانہ مناقض لما علل بہ لابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی فی مسألۃ ادخال الراس الاناء فان الماء طھور عندہ فقالوا المسح حصل بالاصابۃ والماء انما یاخذ حکم الاستعمال بعد الانفصال والمصاب بہ لم یزایل العضو حتی عدل بعض المتاخرین الی التعلیل بلزوم انفصال بلۃ الاصبع بواسطۃ المد فیصیر مستعملا لذلک ۱؎ اھ۔
یعنی جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ پانی جب تک عضو پر باقی رہتا ہے مستعمل نہیں ہوتا ہے۔اور فتح میں ہے جس نے سرکا مسح کیا یا اگرچہ ایک انگلی سے مسح کیا کہ اس کو بقدرِفرض کھینچا، تو زفر کے نزدیک جائز ہے اور ہمارے نزدیک جائز نہیں اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ تری مستعمل ہوگئی، مگر اس پر اعتراض یہ ہے کہ پانی عضو سے جُدا ہوئے بغیر مستعمل نہیں ہوتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ اصل تو یہی ہے کہ پانی عضو سے لگتے ہی مستعمل ہوجائے مگر اعضاء مغسولہ میں اس کو حرج کی وجہ سے معتبر نہیں مانا گیا ہے ورنہ تو عضو کے ایک حصہ کا پانی دوسرے حصہ کو ناپاک کردیتا، اور مسح میں یہ صورت حال نہیں ہے کیونکہ اس میں بہانا نہیں ہے محض لگانا ہے تو اس میں اصل پر اعتبار کیا گیا۔ اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ امام ابو یوسف نے سر کو برتن میں داخل کرنے کی بابت جو ارشاد فرمایا ہے یہ قول اس کے برخلاف ہے کیونکہ پانی اُن کے نزدیک پاک کرنے والا ہے، وہ فرماتے ہیں پانی لگانے سے مسح تو ہوگیا اور چونکہ پانی عضو سے جدا ہونے کے بعد مستعمل ہوتا ہے اور مسح میں جدا نہیں ہوتا اس لئے مستعمل بھی نہ ہوگا حتی کہ بعض متاخرین نے بجائے اس دلیل کے یہ دلیل اختیار کی ہے کہ انگلی کی تری اس طرح جُدا ہوئی کہ اس کو کھینچا گیا تو اب یہ پانی مستعمل ہوجائے گا اھ۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارت نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۶)
وبالجملۃ فالنقول فی الباب کثیرۃ بثیرۃ وفی الکتب شھیرۃ وان کان للعبد فی مسألۃ الاصبع ابحاث غزیرۃ فلیس وجہ مسألۃ الاناء مایتوھم بل مانقلناہ انفا عن الفتح وقد ذکرہ فی موضع اخر بقولہ ان الماء لایعطی لہ حکم الاستعمال الا بعد الانفصال والذی لاقی الراس من اجزائہ لصق بہ فطھرہ وغیرہ لم یلاقہ فلم یستعمل ۲؎ اھ۔
خلاصہ یہ کہ اس باب میں نقول بہت موجود ہیں جو مشہور کتب میں پائی جاتی ہیں، اور ناچیز انگلی کے مسئلہ پر بڑی گہری ابحاث رکھتا ہے، برتن کے مسئلہ کی وجہ وہ نہیں جو بعض حضرات کے وہم میں آئی ہے بلکہ وہ ہے جو ہم نے ابھی فتح سے نقل کی ہے اور اسی کو انہوں نے دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا ہے کہ پانی کو مستعمل ہونے کا حکم اُسی وقت ملے گا جب وہ عضو سے جدا ہواور پانی کے جواجزاء سر سے متصل ہوئے وہ اسی میں چپک جاتے ہیں اور اس کو پاک کر دیتے ہیں اور سر کے علاوہ کسی اور حصے پر نہیں لگتے ہیں تو مستعمل نہ ہوا اھ۔
(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارت نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۷)
فمعنی قولھم فیھا لایصیر الماء مستعملا ای مابقی فی الاناء وھو المراد بقول الخانیۃ عن الامام ابی یوسف انما یتنجس الماء فیما یغسل لامایمسح ای ماء الاناء بادخال ماوظیفۃ الغسل دون المسح فزال الوھم وفیہ المدعی۔
تو فقہاءء نے جو فرمایا ہے کہ پانی مستعمل نہ ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک برتن میں رہے، اور خانیہ نے امام ابو یوسف سے جو نقل کیا ہے کہ پانی اُن اعضاء میں مستعمل ہوتا ہے جو دھوئے جاتے ہیں نہ کہ اُن میں جو مسح کیے جاتے ہیں، تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ برتن کا پانی اُن اعضاء کے داخل کرنے کی وجہ سے مستعمل ہوگا جو مغسولہ ہیں نہ کہ ممسوحہ تو وہم رفع ہوا اور یہی مقصود تھا۔(ت)
اقول وان(۱) کان فی قصرھم اللقاء علی مالصق بالرأس تأمل ظاھر وکان ھذا ھو مراد المحقق اذقال بعد ذکرہ وفیہ نظر ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں فقہا ء نے ملنے کو جو سر کے ساتھ مختص کر دیا ہے اس میں بظاہر تامّل ہے، اور غالبا محقق کی مراد یہی ہے کیونکہ انہوں نے اس کے ذکر کے بعد فرمایا: وفیہ نظر۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ ۱/۱۷)
اقول: ویظھر لی ان سبیل المسألۃ سبیل الخلف فی الملقی والملاقی وتصحیح ھذہ بل تصحیح الوفاق فیھا ربما یعطی ترجیح عدم الفرق الا ان یفرق بین الغسل والمسح فلا یصیر بہ کل الماء مستعملا حکما بالاتفاق بخلاف الغسل ویحتاج لوجہ فلیتدبر واللّٰہ تعالی اعلم۔
میں کہتا ہوں ا ور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کا حل ملنے والی شے اور جس سے ملی ہے اس میں اختلاف پر مبنی ہے، اور اس کی تصحیح بلکہ اس میں اتفاقی کی تصحیح سے عدم فرق کو ترجیح حاصل ہوتی ہے، ہاں اگر غسل اور مسح می ں ہی فرق کرلیا جائے تو بات اور ہے، تو اُس سے تمام پانی حکما مستعمل نہ ہوگا بالاتفاق بخلاف غسل کے، اور یہ دلیل کا محتاج ہے فلیتد برواللہ تعالٰی اعلم۔ ت
تنبیہ اعلم ان مسألۃ الاصبع المارۃ ترکہا المحقق فی الفتح غیر مبینۃ ذکرلہ ثلٰث تعلیلات وردالجمیع فالاول التعلیل بالاستعمال وقد علمت ردہ وما عدل الیہ بعض المتاخرین لاصلاحہ فردہ والاول معابان ھذا کلہ یستلزم ان(۱) مد اصبعین لایجوز وقد صرحوا بہ وکذا الثلاث علی القول بالربع وھو قول ابی حنیفۃ وابی یوسف رحمھما اللّٰہ تعالی ولکن لم ار فی مد الثلاث الا الجواز ۱؎ اھ۔
تنبیہ انگلی کا مسئلہ جو گزرا اس کو محقق نے فتح میں واضح نہیں کیا تین تعلیلات بیان کیں اور تینوں کو رَد کردیا، پہلی تعلیل استعمال سے متعلق ہے اور اس کا رَد تم معلوم کرچکے ہو، اور اس کی اصلاح میں بعض متاخرین نے جو فرمایا ہے اس کو اور پہلے کو ساتھ ہی انہوں نے رَد کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ دو انگلیوں کا کھینچنا جائز نہ ہو، اور اس کی فقہاء نے تصریح کی ہے اور چوتھائی کے قول پر تین کا کھینچنا جائز نہ ہو، اور یہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف کا قول ہے، لیکن تین کے کھینچنے میں مجھے جواز ہی ملا ہے اھ
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارت نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۱۶)
واعترضہ فی النھر بقول البدائع لووضع ثلثۃ اصابع ولم یمدھا جاز علی روایۃ الثلاث لاالربع ولو مسح بھا منصوبۃ غیر موضوعۃ ولا ممدودۃ فلا فلو(۲) مدھا حتی بلغ القدر المفروض لم یجز عند علمائنا الثلثۃ خلافا لزفر ۲؎ اھ۔
اور نہر میں اس پر اعتراض کیا اور بدائع کایہ قول ذکر کیا ہے کہ اگر تین انگلیاں رکھیں اور ان کو کھینچا نہیں تو تین کی روایت پر جائز ہے نہ کہ چوتھائی کی روایت پر، اور اگر کھڑی انگلیوں سے مسح کیا، ان کو نہ تو رکھا نہ کھینچا تو جائز نہیں، اور اگر اتنا کھینچاکہ فرض مقدار پوری ہوگئی تو ہمارے تینوں علماء کے نزدیک جائز نہ ہوگا امام زفر کا اس میں اختلاف ہے اھ۔
(۲؎ بدائع الصنائع مطلب مسح الرأس ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۵)
قال وقد وقفت علی المنقول ای ان عدم الجواز قول ائمتنا الثلثۃ فکیف یقول المحقق لم ارفیہ الا الجواز وھو عجیب من مثلہ کما نبہ علیہ فی المنحۃ فان الضمیر فی مدھا للمنصوبۃ وکلام الفتح فی الموضوعۃ۔
انہوں نے فرمایا کہ میں منقول پر مطلّع ہوا ہوں، یعنی عدم جواز ہمارے تینوں ائمہ کا قول ہے، تو محقق کا یہ قول کیونکر درست ہوگا کہ میں نے صرف جواز ہی دیکھا ہے، اور اُن جیسے شخص سے یہ بڑے تعجب کی بات ہے، منحہ میں اسی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ ''مدھا'' میں ھا کی ضمیر ''منصوبۃ'' کیلئے ہے اور فتح کا کلام ''موضوعۃ'' کیلئے ہے۔ ت
اقول کان النھر نظر ای ان الصوراربع ثلاث اصابع موضوعۃ اومنصوبۃ والکل ممدودۃ اولا وقد ذکر فی البدائع اولا صورتی عدم المدثم قال فلو مدھا فلیکن الضمیر الی ثلث اصابع مطلقۃ موضوعۃاومنصوبۃ لیستوعب کلامہ الصور لکن الشان انہ مدع ظفر النقل فیضرہ احتمال العود الی المنصوبۃ لاسیما وھی الاقرب وقد کشف(۱) المراد فی الحلیۃ حیث قال، فروع، مسح بثلثۃ اصابع منصوبۃ لم یجز ولو مدھا حتی بلغ المفروض لم یجز عند علمائنا الثلثۃ ولو وضعھا ولم یمد لم یجز علی روایۃ الربع ذکرہ فی التحفۃ والمحیط والبدائع ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں غالباً نہر نے دیکھا کہ صورتیں چار ہیں، تین انگلیاں رکھی ہوئیں یا کھڑی اور سب کھینچی ہوئی یا نہیں، اور بدائع میں پہلے نہ کھینچنے کی دو صورتیں ذکر کی ہیں، پھر کہا کہ ''فلو مدھا'' تو اس میں ضمیر ''ثلث اصابع'' کی طرف ہونی چاہئے خواہ وہ رکھی ہوں یا کھڑی، تا کہ اُن کا کلام تمام صورتوں کا استیعاب کرے، لیکن وہ اس امر کے مدعی ہیں کہ وہ نقل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو ضمیر کے منصوبہ کی طرف لوٹنے کا احتمال اُن کیلئے مضر ہوگا اور پھر وہ اقرب بھی ہے، اور حلیہ میں مراد واضح کی ہے فرمایا۔ فروع اگر کسی نے تین کھڑی انگلیوں سے مسح کیا تو جائز نہیں اور اگر ان کو اتنا کھینچا کہ فرض مقدار کو پہنچا دیا تو ہمارے تینوں علماء کے نزدیک جائز نہیں اور اگر انگلیوں کو رکھا اور نہ کھینچا تو چوتھائی کی روایت پر جائز نہیں، اس کو تحفہ، محیط اور بدائع میں ذکر کیا ہے اھ ت
(۱؎ بدائع الصنائع مطلب مسح الرأس سعید کمپنی کراچی ۱/۵)
اقول علی ان ماعدل الیہ(۲) بعض المتأخرین لااعرف لہ محصلا فان المراد ان کان الانفصال عن الاصبع فلا یفیدالاستعمال لانھا اٰلۃ وانما یفیدہ الانفصال عن المحل اوعن الرأس کلہ فظاھر الغلط اوعن موضعہ الذی اصابتہ الاصبع او لافنعم ولم یشف غلیلا بل کان نظیرا لما عدل عنہ للحکم بحصول الاستعمال مع کون الماء مترددا بعد علی نفس العضو غیر منفصل عنہ وھو باطل(۳) لاجرم ان نص فی الخلاصۃ ثم البحر فیما اذا مسح باطراف اصابعہ ومدھا حتی بلغ المفروض انہ یجوز سواء کان الماء متقاطرا اولا قالا وھو ۲؎ الصحیح،
میں کہتا ہوں بعض متأخرین نے جس کی طرف عدول کیا ہے میں اس کا کوئی فائدہ نہیں محسوس کرتا ہوں کیونکہ اگر ان کی مراد انگلی سے جدا ہونا ہے تو استعمال کا فائدہ نہ ہوگا کیونکہ وہ تو آلہ ہے اس کو تو محل سے جدا ہونا یا کل سر سے جدا ہونا مفید ہے، تو یہ ظاہراً غلط ہے یا اس کی جگہ سے جہاں انگلی لگی ہے یا نہیں، تو ہاں، مگر اس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ نظیر ہوگا اس چیز کی جس سے عدول کیا ہے تاکہ استعمال کے حصول کا حکم ہو حالانکہ پانی متردد ہے عضو پر اس سے جدا نہیں، اور وہ باطل ہے، پھر خلاصہ وبحر میں صراحت ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی انگلیوں کے کناروں سے مسح کیا اور ان کو کھینچا یہاں تک کہ فرض کے مقام کو پہنچا تو یہ جائز ہے خواہ پانی ٹپکے یا نہ ٹپکے اُن دونوں نے کہا کہ وہی صحیح ہے۔
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۱۵)
قال ش قال الشیخ اسمٰعیل ونحوہ فی الواقعات والفیض ۱؎ اھ۔ای علی خلاف مافی المحیط انہ انما یجوز اذا کان متقاطر لان الماء ینزل من اصابعہ الی اطرافھا فمدہ کاخذ جدید ۲؎۔
ش نے فرمایا شیخ اسمٰعیل نے فرمایا نیز واقعات اور فیض میں ہے اھ یعنی محیط کے برعکس یہ اس وقت جائز ہے جبکہ پانی ٹپک رہا ہو کیونکہ پانی اس کی انگلیوں کے کناروں تک ٹپک آئے گا تو اس کا کھینچنا گویا نیا پانی لینے کے مترادف ہے۔ ت
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ البابی مصر ۱/۴۵)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ البابی مصر ۱/۴۷)
والثانی مااختار شمس الائمۃ ان المنع فی مد الاصبع والا ثنتین غیر معلل باستعمال البلۃ بدلیل انہ لومسح(۱) باصبعین فی التیمم لایجوز مع عدم شیئ یصیر مستعملا خصوصا اذا تیمم علی الحجر الصلد بل الوجہ انامامورون بالمسح بالید والاصبعان لاتسمی یدا بخلاف الثلاث لانھا اکثر ماھو الاصل فیھا ۳؎ اھ
اور دوسرا وہ ہے جو شمس الائمہ نے اختیار کیا ہے کہ ایک یا دو انگلیوں کے کھینچنے کی ممانعت تری کے استعمال کی وجہ سے نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس نے دو انگلیوں سے تیمم میں مسح کیا تو جائز نہیں، حالانکہ کوئی چیز ایسی نہیں جو مستعمل ہو خصوصاً جب چکنے پتھر پر تیمم کیا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ہاتھ سے مسح کا حکم دیا گیا ہے اور دوانگلیوں کو ہاتھ نہیں کہا جاتا ہے بخلاف تین انگلیوں کے کیونکہ یہ مسح کے اصل میں جو اصل ہے اس کا اکثر حصہ ہیں اھ۔
(۳؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۶)
ای فی الید وھی الاصابع ولذا(۲) یجب بقطعھا ارش الید کاملا وردہ المحقق بعد استحسانہ بانہ یقتضی تعیین الاصابۃ بالید وھو(۳) منتف بمسألۃ المطر وقد یدفع بان المراد تعیینہا اوما یقوم مقامھا من الالات عند قصد الاسقاط بالفعل اختیارا غیران لازمہ کون تلک الاٰلۃ قدر ثلاث اصابع حتی لوکان عودا(۴) لایبلغ ذلک القدر قلنا بعدم جوازمدہ ۴؎
یعنی ہاتھ اور وُہ انگلیاں ہیں اور اسی لئے تین انگلیوں کے کاٹنے پر پورے ہاتھ کی دیت لازم ہوتی ہے اور محقق نے اس کو پسند کرنے کے بعد رد کردیا، کیونکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہاتھ کا لگانا ہی ضروری ہے حالانکہ بارش کے مسئلہ کی وجہ سے ایسا نہیں ہے، اس کا ایک جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ دراصل مراد ہاتھ کی تعیین ہے یا جو اس کے قائم مقام ہو، کوئی بھی آلہ ہو، جبکہ اختیاری فعلی سے اسقاط مطلوب ہو، البتہ یہ ضروری ہے کہ جو بھی آلہ ہو تین انگلیوں کی مقدار میں ہو یہاں تک کہ اگر کسی نے ایسی لکڑی پھیری جو اس مقدار کی نہ تھی تو جائز نہ ہوگا اھ۔
(۴؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۶)
اقول وحاصلہ ان الید غیر لازمۃ ولکن اذا وقع بھا لم یجز الا بما ینطلق علیہ اسمہا ولکن لقائل ان یقول اولا(۱) مسألۃ القدر المفروض کیفما کان ولا نظر الی الاٰلۃ ولا الفعل القصدی اصلا وقد قرر مشائخنا ان ذکر الید المقدرۃ فی قولہ تعالی وامسحوا برؤوسکم ای ایدیکم برؤوسکم لتقدیر المحل دون الاٰلۃ کما حققہ الامام صدر الشریعۃ وابن الساعاتی والمحقق نفسہ فی الفتح فلیتأمل ۔
میں کہتا ہوں کہ اس کا حاصل یہ نکلا کہ ہاتھ لازم نہیں ہے لیکن جب ہاتھ سے مسح کرنا ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار ہو کہ اس پر ہاتھ کا اطلاق ہوتا ہو۔ مگر اس پر متعدد طریقوں سے اعتراض ہوسکتا ہے، اوّل بارش کا مسئلہ ہمارے حق میں مفید ہے کیونکہ مقصود شرع یہ ہے کہ تری کی ایک معین مقدار لگ جائے خواہ کسی طرح ہو اس میں نہ تو آلہ زیر بحث ہے اور نہ اختیاری فعل، اور ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ فرمان الٰہی ''اور مسح کرو تم سروں کا'' اس کا مفہوم یہ ہے کہ "اپنے ہاتھوں کا اپنے سروں سے'' میں محل مقدر ہے نہ کہ آلہ صدرالشریعۃ، ابن الساعاتی اور خود محقق نے فتح میں یہی تقریر فرمائی ہے، غور کر۔
وثانیا(۲) اجمعوا ان لومسح باطراف اصابعہ والماء متقاطر جاز فظھر ان تعیین الاٰلۃ ملغاۃ ھھنا رأسا وان القیاس(۳) علی التیمم مع الفارق،
دوم فقہاءء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر کسی نے انگلیوں کے پوروں سے مسح کیا اور اُن سے پانی ٹپک رہا تھا تو جائز ہے، تو معلوم ہوا کہ یہاں آلہ کی تعیین اہم نہیں ہے اور اس کوتیمم پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
والثالث ماابداہ بقولہ قد یقال عدم الجواز بالاصبع بناء علی ان البلۃ تتلاشی وتفرغ قبل بلوغ قدر الفرض بخلاف الاصبعین فان الماء ینحمل بین اصبعین مضمومتین فضل زیادۃ یحتمل الامتداد الی قدر الفرض وھذا مشاھد او(۴) مظنون فوجب اثبات الحکم باعتبارہ فعلی الاکتفاء بثلاث اصابع یجوز مدالا صبعین لان مابینھما من الماء یمتد قدر اصبع وعلی اعتبار الربع لایجوز لان مابینھما مما لایغلب علی الظن ایعابہ الربع ۱؎ اھ۔
سوم انہوں نے ''عدم الجواز بالاصبع'' کہہ کر جو اعتراض کیا ہے سو وہ اس بنا پر ہے کہ تری فرض مقدار تک پہنچنے سے قبل ختم ہوجاتی ہے لیکن دو انگلیاں اگر ملی ہوں تو ان میں فرض مقدار تک پانی پہنچ سکتا ہے، اس کا مشاہدہ ہے یا ظن غالب ہے، تو اس پر اعتبار کرتے ہوئے حکم کا لگا دینا لازم ہوا تو تین انگلیوں پر اکتفاء کرنا دو کے پھیر لینے کو جائز قرار دیتا ہے کیونکہ ان دو کے درمیان اتنا پانی موجود ہوتا ہے جو مزید ایک انگلی کی مقدار پھیل سکتا ہے اور چوتھائی سر کے اعتبار پر جائز نہیں، کیونکہ جو پانی ان دو کے درمیان ہے ظن غالب نہیں کہ وہ چوتھائی کی مقدار کو پورا ہوسکے اھ۔ ت
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارت نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۷)
اقول: اخر کلامہ یشھد ان مرادہ بقولہ یحتمل الامتداد الی قدر الفرض ھو قدرہ علی القول باجزاء ثلاث فکان الاولی التعبیر بہ دفعا للوھم ثم ان المحقق ردہ بقولہ الا ان ھذا یعکر علیہ عدم جواز التیمم باصبعین ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں کہ ان کے کلام کا آخر اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ ان کی مراد یحتمل الامتداد الی قدر الفرض سے تین انگلیوں کا پھیرنا ہے، تو بہتر یہ ہے کہ اسی سے تعبیر کی جائے تاکہ وہم رفع ہوجائے پھر محقق نے اس کو یہ کہہ کر دفع کیا ہے مگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ دو انگلیوں سے تیمم جائز نہ ہو اھ ت
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارت نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۷(
اقول: ای فلیس ثمہ شیئ یفرغ ویتلاشی اذلا حاجۃ الی اثر غبار علی الید فان کان فضل غیر ملتفت الیہ شرعا فکان معدوما حکما وان لم یکن فاظھر للعدم حقیقۃ وحکما وھذا معنی قول شمس الائمۃ خصوصا اذا تیمم علی الحجر الصلد فھذا کل مااوردہ المحقق ولم یفصل القول فیہ فصلا۔
میں کہتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کوئی چیز ایسی نہیں جو فنا ہوجاتی ہو، کیونکہ ہاتھ پر گرد کے لگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ہو تو یہ اضافی امر ہے شرعاً اس کی حاجت نہیں، تو یہ حُکما نہ ہوا، اور اگر غبار نہ ہو تو بات زیادہ ظاہر ہوگی کیونکہ درحقیقت اور حکماً دونوں طرح ہی معدوم ہے اور شمس الائمہ کے قول ''خصوصا عی الحجر الصلد'' کا یہی مفہوم ہے، یہ وہ بحث ہے جو محقق نے کی ہے اور اس میں کسی قولِ فیصل کو ذکر نہ کیا۔(ت)
اقول: ویرد(۱) ایضا علی ماابداہ ان فناء البلل غیر مطرد اما سمعت تصحیح الخلاصۃ الجواز فی مد الاطراف وان لم یکن الماء متقاطرا ۲؎مع ان حکم المسألۃ مطلق ویظھر(۲) لی واللّٰہ تعالی اعلم ان لامخلص الا ان یقال ان المراد بعدم الاجزاء مااذا کانت البلۃ خفیفۃ تفنی باول وضع اوقلیل مدحتی لاتبقی الانداوۃ لاتنفصل عن الید فبتل الرأس ولعلہ ھو الاکثر وقوعا وبتصحیح الخلاصۃ مااذا کانت کثیرۃ تبقی الی بلوغ القدر المفروض بحیث تنفصل فی کل محل وتصیب وھذا ھو مراد المحیط بالتقاطر فتتفق الکلمات وانت اذ انظرت الی الوجہ اذعنت بھذا التفصیل کیف ولا معنی لاجزاء النداوۃ فی الصورۃ الاولیٰ ولا ھدار البلۃ فی الصورۃ الثانیۃ فلیکن التوفیق وباللّٰہ التوفیق۔
میں کہتا ہوں اور جوانہوں نے فرمایا اس کی تردید ا س امر سے بھی ہوتی ہے کہ تری کا ختم ہوجانا کوئی عمومی امر نہیں، جیسا کہ خلاصہ کی تصحیح میں گزرا کہ مسح انگلیوں کے پوروں کے پھیرنے سے بھی ہوجائیگا خواہ ان سے پانی نہ بہتا ہو، حالانکہ مسئلہ کا حکم مطلق ہے، میرے لئے ظاہر ہوتا ہے(واللہ تعالیٰ اعلم) کہ اس اعتراض سے چھٹکارے کی ایک ہی شکل ہے کہ اس سے یہ مراد لی جائے کہ جب تری اتنی کم ہو کہ رکھتے ہی ختم ہوجائے یا تھوڑا سا پھیرنے پر ختم ہوجائے اور محض اتنی باقی رہے کہ ہاتھ ترمحسوس ہو اور وہ سر کو تر نہ کرسکے اور غالباً عام طور پر ایسا ہی واقع ہوتا ہے، اور خلاصہ کی تصحیح سے مراد یہ ہو کہ جب تری اتنی زیادہ ہوکر فرض مقدار تک پہنچنے کے بعد بھی باقی رہے یعنی اس طور پر کہ ہر جگہ جدا ہو اور لگ جائے، اور محیط کی مراد تقاطر سے یہی ہے اس طرح تمام عبارات میں اتفاق ہوجائے گا، اور جو تم علت کو دیکھو گے تو یقین آجائے گا کیونکہ پہلی صورت میں تری کے پھیرنے کے اور کوئی معنی نہیں اور نہ ہی دوسری صورت میں تری کو ضائع کرنے کے، تو اس طرح تطبیق دینی چاہئے وباللہ التوفیق۔
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الرابع فی المسح نولکشور لکھنؤ ۱/۲۶)
اما حدیث(۱) التیمم فاقول: لابدفیہ من قصد المکلف وفعلہ الاختیاری فیکون لتقریر الامام شمس الائمۃ فیہ مساغ الاتری انھم صرحوا ان لوتیمم باصبع(۲) اواصبعین وکرر مرارا لم یجز کما فی البحر عن السراج عن الایضاح ولو مسح راسہ باصبع واحدۃ وکرراربعا فی مواضع صح اجماعا فلا یطلب موافقۃ ماھنا لما فی التیمم حتی یعکر علیہ بہ اذ لاتعین للالۃ ھھنا اصلا بخلاف التیمم وذلک ایضا فی الطریق المعتاد اعنی التیمم بالید والا فقد نص فی الحلیۃ ان لو تمعک(۳) فی التراب یجزئہ ان اصاب وجہہ وذراعیہ وکفیہ لانہ اتی بالمفروض وزیادۃ والا فلا ۱؎ اھ۔ای یجزئہ ان نوی کما لایخفی واللّٰہ تعالی اعلم۔
رہی حدیثِ تیمم، تو اس میں مکلّف کا ارادہ اور اس کا اختیاری فعل ضروری ہے، تب شمس الائمہ کی تقریر اس میں چل سکے گی، یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ اگر کسی نے ایک یا دو انگلیوں سے تیمم کیا اور ان کو بار بار پھرا تو جائز نہیں جیسا کہ بحر میں سراج سے ایضاح سے منقول ہے، اور اگر ایک انگلی سے اپنے سر کا مسح کیا اور چار مختلف جگہوں پر اس کا تکرار کیا تو اجماعاً صحیح ہے، تو اس کی موافقت تیمم کے معاملہ سے نہ کی جائے تاکہ اُس سے اعتراض لازم آئے کیونکہ یہاں آلہ کا تعین بالکل نہیں بخلاف تیمم کے، اور یہ بھی معتاد طریق میں ہے، یعنی ہاتھ سے تیمم میں ورنہ حلیہ میں تصریح کی ہے کہ اگر کوئی شخص خاک میں لوٹ پوٹ ہوگیا اور خاک اس کے چہرے، ہاتھوں اور بانہوں کو لگ گئی تو کافی ہے کیونکہ اُس نے نہ صرف فرض ادا کرلیا بلکہ اس سے بھی زیادہ کرلیا، ورنہ نہیں اھ یعنی اگر اس نے نیت کی ہے تو کافی ہوگا، جیسا کہ ظاہر ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۱؎ حلیہ)
فتوٰی مسمّٰی بہ
۲۷النمیقۃ الانقی فی فرق الملاقی والملقی۱۳
ملنے والے اور ڈالے گئے پانی کے فرق میں ایک پاکیزہ تحریر(ت)
مسئلہ ۲۹: رجب ۱۳۲۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر بے وضو یا جُنب کا ہاتھ یا انگلی یا ناخن وغیرہ لوٹے یا گھڑے میں پڑ جائے تو پانی وضو کے قابل رہتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں اس سے پانی مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر قابل وضو نہ رہے تو کس طرح قابل کیا جاسکتا ہے بینّوا توجروا۔
الجواب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط، الحمدللّٰہ الذی انزل الذکر الملقی علی السید الطیب الطھور الانقی الملاقی ربہ لیلۃ الاسراء علیہ من ربہ الصلاۃ الزھراء وعلی اٰلہ وصحبہ وامتہ وحزبہ الی یوم اللقاء اٰمین راجح ومعتمد یہ ہے کہ مکلّف پر جس عضو کا دھونا کسی نجاست حکمیہ مثل حدث وجنابت وانقطاع حیض ونفاس کے سبب بالفعل واجب ہے وہ عضو یا اُس کا کوئی حصّہ اگرچہ ناخن یا ناخن کا کنارہ آبِ غیر کثیر میں کہ نہ جاری ہے نہ دہ دردہ بے ضرورت پڑ جانا پانی کو قابلِ وضو وغسل نہیں رکھتا یعنی پانی مستعمل ہوجاتا ہے کہ خود پاک ہے اور نجاست حکمیہ سے تطہیر نہیں کرسکتا اگرچہ نجاست حقیقیہ اس سے دھو سکتے ہیں، یہی قول نجیح ورجیح ہے عامہ کتب میں اس کی تصریح ہے اور یہ خود ہمارے ائمہ ثلٰثہ امامِ اعظم وامام ابو یوسف وامام محمد رضی اللہ تعالی عنہم سے منصوص ومروی آیا اکابر مشائخ مثل امام ابو عبداللہ جرجانی وامام ابو الحسین قدوری وامام ملک العلماء ابو بکر کاشانی وامام فقیہ النفس فخرالدین قاضی وغیرہم رحمہم اللہ تعالیٰ نے اُسے ہمارے ائمہ کا مذہب متفق علیہ بتایا۔ فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اپنی ایک تحریر میں اُس پر ائمہ ثلٰثہ رضی اللہ تعالی عنہم کے سوا چالیس ائمہ وکتب کے نصوص نقل کئے اور بعض علمائے متاخرین رحمہم اللہ تعالٰی کو جو اس میں شبہات واقع ہوئے ان کے جواب دیے۔
یہاں اوّلاً فوائد اور ان کے متعلق مسائل ذکر کریں۔
ثانیاً اتمام جواب۔
ثالثاً تحقیق مقام وابانت صواب اور اس کیلئے اپنی تحریر مذکور سے رفع حجاب۔
ۤوباللّٰہ التوفیق فی کل باب والحمدللّٰہ الکریم الوھاب۔
فوائد قیود ومسائل مورود
فائدہ۱:(۱) نابالغ اگرچہ ایک دن کم پندرہ برس کا ہو جبکہ آثار بلوغ مثل احتلام وحیض ہنوز شروع نہ ہوئے ہوں اُس کا پاک بدن جس پر کوئی نجاست حقیقیہ نہ ہو اگرچہ تمام وکمال آب قلیل میں ڈوب جائے اُسے قابلیت وضو وغسل سے خارج نہ کرے گا لعدم الحدث(ناپاک نہ ہونے کی وجہ سے۔ ت) اگرچہ بحال احتمال نجاست جیسے ناسمجھ بچّوں میں ہے بچنا افضل ہے ہاں بہ نیت قربت سمجھ وال بچّہ سے واقع ہو تو مستعمل کر دے گا۔
لانہ من اھلھا وقد بینا المسئلۃ فی الطرس المعدل۔
کیونکہ وہ اس کے اہل سے ہے اور ہم نے یہ مسئلہ 'الطرس المعدل' میں بیان کردیا۔ ت
وجیز امام کُردری میں ہے:
ادخل صبی یدہ فی الاناء ان علم طھارۃ یدہ بان کان لہ رقیب یحفظہ اوغسل یدہ فھو طاھر ان علم نجاستہ فنجس وان شک فالمستحب ان یتوضأ بغیرہ لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک الی مالا یریبک المختار ان وضوء الصبی العاقل مستعمل وغیر العاقل لا ۱؎۔
اگر بچّہ نے پانی میں ہاتھ ڈالا، اور یہ معلوم ہے کہ اُس کا ہاتھ پاک ہے، مثلاً کوئی شخص بچہ کی دیکھ بھال پر متعین ہے یا اُس نے ہاتھ دھویا ہوا تھا، تو یہ پانی پاک ہے اور اگر اُس کے ہاتھ کا ناپاک ہونا معلوم ہے تو پانی ناپاک ہے، اور اگر شک ہے تو مستحب ہے کہ دوسرے پانی سے وضوء کرے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ''جو چیز تم کو شک میں ڈالے اس کو چھوڑ کر وہ اختیار کرو جو شک میں نہ ڈالے''۔ مختاریہ ہے کہ عاقل بچّہ کا وضو کرنا پانی کا مستعمل بناتا ہے غیر عاقل کا نہیں بناتا۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی بزازیۃ المعروف الوجیز الکردری علی الحاشیۃ الہندیۃ نوع فی المستعمل والمقید والمطلق نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۹)
اسی لئے ہم نے مکلّف کی قید لگائی۔
فائدہ ۲: اقول قول بعض پر کہ موت(۲) نجاست حکمیہ ہے اگر میت کا ہاتھ یا پاؤں مثلاً آبِ قلیل میں قبل غسل پڑ جائے اگرچہ بہ نیت غسل تو پانی کو مستعمل کردے گا کہ زوال نجاست کیلئے نیت کی حاجت نہیں(۳) اگرچہ احیا پر سے اس فرض کفایہ کے سقوط کو اُن کی جانب سے وقوع فعل قصدی لازم ہے ولہٰذا اگر میت دریا میں ملے تو جب تک احیا اپنے قصد سے اسے پانی میں جنبش نہ دے اُن پر سے فرض نہ اُترے گا مگر میت کے سب بدن پر پانی گزر گیا تو اُسے طہارت حاصل ہوگئی یونہی بے غسل دیے اس پر نماز جنازہ جائز ہے اور خاص غسل میت کی نیت تو احیا پر بھی ضرور نہیں اپنا قصدی فعل کافی ہے یہی اس مسئلہ میں توفیق وتحقیق ہے درمختار میں ہے:
(ان غسل( المیت)بغیر نیۃ اجزأہ( لطھارتہ لالاسقاط الفرض عن ذمۃ المکلفین(و) لذا قال(لووجد میت فی الماء فلا بد من غسلہ ثلثا) لانا امرنا بالغسل فیحرکہ فی الماء بنیۃ الغسل ثلثا فتح وتعلیلہ یفید انھم لوصلوا علیہ بلا اعادۃ غسلہ صح وان لم یسقط وجوبہ عنھم فتدبر ۱؎۔
(اگر غسل دیا) میت کو(بغیر نیت کے تو کافی ہے) اُس میت کی طہارت کیلئے نہ کہ فرض کو مکلّف لوگوں سے ساقط کرنے کیلئے(اور) اس لئے فرمایا(اگر کوئی مردہ پانی میں ملا تو بھی اس کو تین مرتبہ غسل کرانا ضروری ہے) کیونکہ ہمیں غسل دینے کا حکم دیا گیا ہے تو اُس مُردہ کو پانی میں تین مرتبہ بنیت غسل حرکت دینی چاہئے، فتح۔ اور جو وجہ انہوں نے بیان کی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس کی نماز جنازہ اُس کے غسل کے اعادہ کے بغیر پڑھ لی گئی تو لوگوں سے جنازہ کا وجوب ساقط ہوجائیگا اگرچہ ان سے غسل کا وجوب ساقط نہ ہوگا، فتدبر۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار باب صلوٰۃ الجنازۃ مجتبائی دہلی ۱/۱۲۰)
عنایہ میں ہے:
الماء مزیل بطبعہ فکما لاتجب النیۃ فی غسل الحی فکذا لاتجب فی غسل المیت ولہذا قال فی فتاوی قاضی خان میت غسلہ اھلہ من غیر نیۃ الغسل اجزائھم ذلک ۲؎۔
پانی اپنی طبیعت کی وجہ سے زائل کرنے والا ہے تو جس طرح زندہ شخص کے غسل میں نیت لازم نہیں اسی طرح مردہ کے غسل میں بھی نہیں، اسی لئے قاضی خان میں فرمایا کہ اگر کسی مُردہ کو اس کے گھر والوں نے بلا نیت غسل دے دیا تو کافی ہے۔ ت
(۲؎ عنایۃ مع الفتح فصل فی الغسل للمیت نوریہ رضویہ سکھر ۲/۷۴)
ردالمحتار میں ہے:
وصرح فی التجرید والا سبیجابی والمفتاح بعدم اشتراطھا ایضا ۳؎۔
تجرید، اسبیجابی اور مفتاح میں بھی نیت کے شرط نہ کرنے کی تصریح ہے۔ ت
(۳؎ ردالمحتار فصل فی الغسل للمیت البابی مصر ۱/۶۳۵)
اُسی میں ہے:
قال فی التجنیس لابد من النیۃ فی غسلہ فی الظاھر وفی الخانیۃ اذا جری الماء علی المیت اواصابہ المطر عن ابی یوسف لاینوب عن الغسل لانا امرنا بالغسل وذلک لیس بغسل وفی النھایۃ والکفایۃ وغیرھما لابد منہ الا ان یحرکہ بنیۃ الغسل اھ ثم نقل توفیق الفتح باستظہار ان اشتراطھا لاسقاط وجوبہ عن المکلف لالتحصیل طہارتہ ھو وشرط صحۃ الصلاۃ علیہ اھ ثم منازعۃ الغنیۃ لہ بان مامر عن ابی یوسف یفید ان الفرض فعل الغسل منا حتی لوغسلہ(۱( لتعلیم الغیر کفی ولیس فیہ مایفید اشتراط النیۃ لاسقاط الوجوب بحیث یستحق العقاب بترکہا وقد تقرر فی الاصول ان ماوجب لغیرہ من الافعال الحسیۃ یشترط وجودہ لاایجادہ کالسعی والطہارۃ نعم لاینال ثواب العبادۃ بدونھا اھ قال واقرہ الباقانی وایدہ بما فی المحیط لووجد المیت فی الماء لابد من غسلہ لان الخطاب یتوجہ الی بنی اٰدم ولم یوجد منھم فعل اھ فتلخص انہ لابد فی اسقاط الفرض من الفعل واما النیۃ فشرط لتحصیل الثواب ولذا اصح تغسیل الذمیۃ زوجہا المسلم مع ان النیۃ شرطہا الاسلام فیسقط الفرض عنا بفعلنا بدون نیۃ وھو المتبادر من قول الخانیۃ اجزأھم ذلک ۱؎ اھ
اور تجنیس میں ہے کہ ظاہر قول کے مطابق مردہ کے غسل میں نیت ضروری ہے، اور خانیہ میں ہے اگر میت پر پانی بَہ گیا یا بارش پڑ گئی تو ابو یوسف سے منقول ہے کہ یہ غسل شمار نہ ہوگا، کیونکہ ہمیں غسل کا حکم دیا گیا ہے اور یہ غسل نہیں ہے، اور نہایہ وکفایہ وغیرہما میں ہے کہ مردہ کو ایسی صورت میں بہ نیت غسل حرکت دینا لازم ہے، پھر انہوں نے فتح کی تطبیق نقل کی اور یہ بھی ذکر کیا کہ حرکت دینے کی شرط اس لئے ہے کہ غسل کا وجوب مکلف سے ساقط ہوجائے، یہ نہیں کہ مردہ پاک ہوجائے، اور نہ یہ اُس پر نماز کی صحت کی شرط ہے اھ پھر اُن کا غنیہ سے یہ جھگڑا کرنا کہ جو نقل ابو یوسف کی گزری اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض یہ ہے کہ ہم زندہ لوگ اُس مُردہ کو غسل دیں، یہاں تک کہ اگر مُردہ کو دُوسروں کو سکھانے کی غرض سے غسل دیا تو کافی ہوگا مگر اس میں یہ موجود نہیں ہے کہ نیت بھی اسقاطِ واجب کیلئے شرط ہے کہ اگر نہ ہو تو وہ عذاب کا مستحق ہو، اور اصول میں یہ مقرر ہے کہ جو افعال حسّیہ غیر کیلئے واجب ہوں تو اُن کا وجود ضروری ہے نہ کہ ایجادان کے موجود ہونے کیلئے ضروری ہے، جیسے کہ سعی اور طہارت، ہاں نیت کے بغیر عبادت کا ثواب نہیں ملے گا اھ فرمایا اس کو باقانی نے مقرر رکھتے ہوئے اس کی تائید محیط سے کی ہے، محیط میں ہے کہ اگر میت پانی میں پائی گئی تو بھی اس کا غسل ضروری ہے کیونکہ خطاب بنو آدم کو ہے اور اُن سے کوئی فعل پایا نہیں گیا اھ تو خلاصہ یہ نکلا کہ اسقاط فرض میں کسی نہ کسی فعل کا ہونا ضروری ہے اور نیت حصول ثواب کیلئے شرط ہے، اس لئے ذمی عورت اپنے مسلمان شوہر کو غسل دے سکتی ہے حالانکہ نیت کیلئے اسلام شرط ہے تو فرض ہمارے فعل سے ساقط ہوجائے گا خواہ نیت نہ ہو اور خانیہ کے قول أجزأھم سے بظاہر یہی معلو ہوتا ہے اھ۔ ت
(۱؎ ردالمحتار فصل فی الغسل للمیت البابی مصر ۱/۶۶۳)
اقول ھذا کلہ علی المتبادر من ارادۃ النیۃ الشرعیۃ اما لوحملت علی قصد الفعل ارتفع النزاع فان المامور بہ المکلف لایکون الافعلہ الاختیاری فما وقع عنہ من دون قصد منہ لایخرجہ عن عھدۃ ایجاب الفعل وغسل المیت لہ وجہان وجہ الی الشرطیۃ وھو عدم صحۃ الصلاۃ علیہ بدون الطھارۃ وھذا مایکفی فیہ وجودہ بلا ایجادہ کطھارۃ الحی ووجہ الی الفرضیۃ علینا ولا یتأتی الا بفعل توقعہ قصدا ولولم تقصد العبادۃ المامور بھا وھذا معنی قول ابی یوسف لانا امرنا بالغسل وقول المحیط ان الخطاب یتوجہ الی بنی اٰدم وبھذا تتفق الکلمات ویظھر(۱) مافی کلام الغنیۃ وللّٰہ الحمد۔
میں کہتا ہوں یہ سب نیت شرعیہ کے ارادہ سے متبادر ہے اور اگر نیت سے مراد ارادہ فعل لیا جائے تو اختلاف ختم ہوجائے گا، کیونکہ مکلّف کو جو حکم دیا گیا ہے وہ اس کا فعل اختیاری ہوگا اور جو اُس سے بلا قصد واختیار سرزد ہو وہ ایجاب فعل کی ذمہ داری سے اس کو عہدہ برآ نہیں کرسکتا، اور غسل میت کی دو وجہیں ہیں ایک تو شرطیہ کی طرف اور وہ یہ ہے کہ اس پر نماز بلا طہارت جائز نہیں، اور اس صورت میں غسل کا وجود کافی ہے خواہ اس کی طرف سے ایجاد نہ ہو، جیسے زندہ انسان کی پاکی، اور ایک وجہ ہم پر فرضیت کی ہے، اور یہ اُسی فعل سے ادا ہوسکتی ہے جو قصداً کیا جائے اگرچہ مامور بہا عبادت کا قصد نہ کیا جائے، اور یہی مفہوم ہے حضرت امام ابو یوسف کے قول ''اس لئے کہ ہم کو غسل کا حکم دیا گیا ہے'' کا، اور محیط کے اس قول ''کہ خطاب بنو آدم کی طرف متوجہ ہے'' کا بھی یہی مفہوم ہے، اس طرح مختلف اقوال میں تطبیق ہوجائے گی، اور جو غنیہ میں ہے وہ ظاہر ہوجائے گا وللہ الحمد۔ ت
اسی لئے ہم نے مکلف پر جس عضو کا دھونا واجب کہا نہ مکلف کا عضو کہ میت مکلف نہیں۔
فائدہ ۳: عورت(۲) ابھی حیض یا نفاس میں ہے خون منقطع نہ ہوا اس حالت میں اگر اس کا ہاتھ یا کوئی عضو پانی میں پڑ جائے مستعمل نہ ہوگا کہ ہنوز اس پر غسل کا حکم نہیں والمسألۃ فی الخانیۃ والخلاصۃ والبحر وغیرھا اس لئے ہم نے بالفعل کی قید ذکر کی۔
فائدہ ۴: جس عضو کا جہاں(۳) تک پانی میں ڈالنا بضرورت ہو اُتنا معاف ہے پانی کو مستعمل نہ کرے گا مثلاً:
(۱) پانی لگن یا چھوٹے حوض میں ہے کہ دہ در دہ نہیں اور کوئی برتن نہیں جس سے نکال کر وضو کرے تو چُلّو لینے کیلئےاُسی میں ہاتھ ڈالنے سے مستعمل نہ ہوگا۔
(۲) اسی صورت میں اگر ہاتھ مثلاً کہنی یا نصف کلائی تک ڈال کر چلّو لیا یعنی جس قدر کے ادخال کی چلو میں حاجت نہ تھی مستعمل ہوجائے گا کہ زیادت بے ضرورت واقع ہوئی۔
(۳) کَولی یا مٹکے میں کٹورا ڈوب گیا اُس کے نکالنے کو جتنا ہاتھ ڈالنا ہو مستعمل نہ کرے گا، اگرچہ بازو تک ہو کہ ضرورت ہے۔
(۴) برتن میں پاؤں پڑ گیا پانی مستعمل ہوگیا کہ اس کی ضرورت نہ تھی۔
(۵) کنوئیں یا حوض میں ٹھنڈ لینے کو غوطہ مارا یا صرف ہاتھ پاؤں ڈالا مستعمل ہوگیا کہ ضرورت نہیں۔
(۶) برتن یا حوض(۱) میں ہاتھ ڈالا تو تھا چُلُّو لینے کو پھر اُس میں ہاتھ دھونے کی نیت کرلی مستعمل ہوگیا کہ حوض میں دھونا بضرورت نہ تھا صرف چُلُّو لینے کی حاجت تھی۔
(۷) کُنوئیں سے ڈول نکالنے گھُسا اور وہاں غسل یا وضو کی نیت کرلی بالاتفاق مستعمل ہوگیا اگرچہ امام محمد نے ڈول نکالنے کیلئے اجازت دی تھی کہ قصد طہارت کی ضرورت نہ تھی وقس علیہ۔
فتح القدیر میں ہے:
لوادخل المحدث اوالجنب اوالحائض التی طھرت الید فی الماء للاغتراف لایصیر مستعملا للحاجۃ بخلاف مالو ادخل المحدث رجلہ او رأسہ حیث یفسد الماء لعدم الضرورۃ وفی کتاب الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان غمس جنب او غیر متوضیئ یدیہ الی المرفقین او احدی رجلیہ فی اجانۃ لم یجز الوضوء منہ لانہ سقط فرضہ عنہ وذلک لان الضرورۃ لم تتحقق فی الادخال الی المرفقین حتی لوتحققت بان وقع الکوز فی الجب فادخل یدہ الی المرفق لاخراجہ لایصیر مستعملا نص علیہ فی الخلاصۃ قال بخلاف مالوادخل یدہ للتبرد لعدم الضرورۃ ثم ادخال مجرد الکف انما لایصیر مستعملا اذا لم یرد الغسل فیہ بل اراد رفع الماء وفی المبتغی وغیرہ بتبردہ یصیر مستعملا ان کان محدثا والا فلا ۱؎ اھ باختصار۔
اگر بے وضو، جنب یا پاک ہوجانے والی حائض عورت نے اپنا ہاتھ چُلّو بھر پانی لینے کیلئے پانی میں ڈالا تو پانی مستعمل نہ ہوگا کیونکہ یہ ضرورۃً کیا گیا ہے، لیکن اگر بے وضو نے اپنا سریا پیر اس پانی میں ڈال دیا تو مستعمل ہوجائے گا کیونکہ بغیر ضرورت ہوا، اور حسن کی کتاب جو ابو حنیفہ سے ہے میں ہے کہ اگر جنب یا بے وضو نے اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک یا ایک پیر کسی مرتبان میں ڈالے تو اُس سے وضو جائز نہیں، کیونکہ اس طرح اس کا فرض اس سے ساقط ہوگیا کیونکہ کہنیوں تک ہاتھوں کو ڈبونے کی کوئی ضرورت نہ تھی ہاں اگر یہ ضرورت ہو، مثلاً لوٹا کنویں میں گر پڑا اس کو نکالنے کیلئے ہاتھ کہنیوں تک اس میں ڈالنا پڑا اس کو نکالنے کیلئے ہاتھ کہنیوں تک اس میں پانی ڈالنا پڑا تو پانی مستعمل نہ ہوگا، یہ خلاصہ میں منصوص ہے، فرمایا اگر ہاتھ محض ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے بلا ضرورت ڈالا تو اس کا یہ حکم نہیں، کیونکہ وہاں ضرورت نہیں، پھر محض ہاتھ کا ڈالنا پانی کو مستعمل نہیں کردیتا ہے جبکہ غسل کا ارادہ نہ ہو، مثلاً یہ کہ پانی اٹھانے کا ارادہ ہو، اور مبتغٰی وغیرہ میں ہے ٹھنڈک حاصل ہونے سے مستعمل ہوجائے گا اگر بے وضو ہو ورنہ نہیں اھ۔ ت
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالایجوز نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۷۶)
ردالمحتار میں زیر قول شارح محدث انغمس فی بئرلدلو ولم ینو ۲؎
(بے وضو جس نے ڈول نکالنے کیلئے کنویں میں غوطہ لگایا اور نیت نہ کی۔ ت)
(۲؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۷)
فرمایا:
لم ینو ای الاغتسال فلو نواہ صار مستعملا بالاتفاق الافی قول زفر سراج والمراد لم ینو بعد انغماسہ فلا ینافی قولہ لدلو افادہ ۳؎
ط۔
نیت نہ کی یعنی غسل کی، اگر غسل کی نیت کی تو پانی بالاتفاق مستعمل ہوجائے گا مگر زفر کے قول میں، سراج۔ اور مراد یہ ہے کہ غوطہ کھانے کے بعد نیت نہ کی تو ان کے قول لدلو کے منافی نہیں، اس کا افادہ 'ط' نے کیا۔ ت
(۳؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۸)
ولہٰذا ہم نے بے ضرورت کی قید لگائی۔
فائدہ ۵: امام(۱) ابو یوسف سے روایت معروفہ یہ ہے کہ عضو کا ٹکڑا ڈوب جانے سے مستعمل نہیں ہوتا جب تک پورا عضو نہ ڈوبے، مثلاً انگلیاں پانی میں ڈالیں تو مستعمل نہ ہوگا کفِ دست کے ڈوبنے سے حکمِ استعمال دیا جائے گا اور صحیح یہ ہے کہ بے ضرورت کتنا ہی ٹکڑا ہو مستعمل کر دے گا۔ فتح القدیر میں ہے:
لو ادخل الجنب فی البئر غیر الید والرجل من الجسد افسدہ لان الحاجۃ فیھما وقولنا من الجسد یفید الاستعمال بادخال بعض عضو وھو یوافق المروی عن ابی یوسف فی الطاھر اذا ادخل رأسہ فی الاناء وابتل بعض رأسہ انہ یصیر مستعملا اما الروایۃ المعروفۃ عن ابی یوسف انہ لایصیر مستعملا ببعض العضو ۴؎۔
اگر جنب نے کنویں میں ہاتھ پیر کے علاوہ کوئی عضو ڈالا تو پانی فاسد ہوجائے گا، کیونکہ ضرورت صرف انہی دو میں ہے اور ہمارا قول من الجسد بعض عضو کے داخل کرنے سے مستعمل ہونے کا فائدہ دیتا ہے، اور وہ ابو یوسف سے مروی شدہ قول کے موافق ہے، وہ فرماتے ہیں کہ پاک شخص نے کسی برتن میں اپنا سر ڈالا اور اس کا کچھ حصہ تر ہوگیا تو مستعمل ہوگا، اور ابویوسف سے جو روایت معروف ہے وہ یہ ہے کہ عضو کے بعض حصہ سے مستعمل نہ ہو گا۔ ت
(۴؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ الوضؤ وما لایجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۸)
اُسی میں اس سے کچھ پہلے ہے:
ان کان اصبعا اواکثر دون الکف لایضر ومع الکف بخلافہ ذکرہ فی الخلاصۃ ولا یخلو من حاجۃ الی تأمل وجہہ ۱؎۔
اگر انگلی یا اس سے زیادہ ہو اور ہتھیلی سے کم ہو تو مضر نہیں اور ہتھیلی کے ساتھ اس کے برعکس ہے، اس کو خلاصہ میں ذکر کیا، اس میں ضرورت ہے کہ اس کی وجہ پر غور کیا جائے۔ ت
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضؤ وما لایجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
وجیز امام کُردری میں ہے:
المعروف عن الامام الثانی عدم الفساد مالم یصر عضوا تاما والفساد ھو الظاھر ۲؎ اھ۔
امام ثانی سے مشہور یہ ہے کہ جب تک پورا عضو داخل نہ ہو فساد نہیں، حالانکہ فساد ظاہر ہے۔ ت
(۲؎ بزازیۃ مع الہندیۃ نوع فی المستعمل والمقید والمطلق نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۹)
اقول الحق ان المناط الحاجۃ فحیث کانت تندفع ببعض العضو فادخل کلہ یصیر مستعملا ولعل ھذا ھو محمل تلک الروایۃ ان ادخال الاصابع للاغتراف لایفسد بخلاف الکف ولھذا قال فی الخانیۃ من باب الوضؤ ان لم تکن معہ اٰنیۃ صغیرۃ فانہ یغترف من التوربا صابع یدہ الیسری مضمومۃ لابالکف ۳؎۔
میں کہتا ہوں حق یہ ہے کہ حکم کی علت حاجت ہے تو جہاں ضرورت عضو کے بعض حصّے سے پوری ہوجاتی ہو وہاں اگر کل عضو ڈال دیا تو پانی مستعمل ہوجائے گا اور شاید یہ اُس روایت کا محمِل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چُلّو بھر کر پانی لینے کیلئے انگلیوں کا ڈالنا پانی کو فاسد نہیں کرتا بخلاف ہتھیلی کے، اس لئے خانیہ کے باب وضو میں ہے اگر اس کے پاس چھوٹا برتن نہ ہو تو طشت سے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیاں ملا کر پانی نکال لے ہتھیلی نہ ڈالے۔ ت
(۳؎ خانیہ مع الہندیۃ صفۃ الوضوء نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۳۳)
ولہٰذا ہم نے حکم عام رکھا باقی فوائدہمارے رسالہ الطرس المعدل سے ظاہر ہیں اُسے قابل(۱) وضو کرنے کے دو۲ طریقے ہیں، ایک یہ کہ اپنی مقدار سے زائد آب طاہر مطہر میں ملا دیا جائے سب قابلِ وضو ہوجائے گا۔ درمختار میں ہے:
غلبۃ المخالط لو مماثلا کمستعمل فبا لاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطھیر
بالکل والالا ۱؎۔
ملنے والے پانی کا غلبہ اگر اسی کی مثل ہو جیسے مستعمل پانی تو اعتبار اجزاء(مقدار) کا ہوگا، اگر مطلق نصف سے زیادہ تو سب سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔ ت
(۱؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴)
دوسرے یہ کہ اُس میں طاہر مطہر پانی ڈالتے رہیں یہاں تک کہ اُس کا برتن بھر کر اُبلے اور بہنا شروع ہو سب طاہر مطہر ہوجائے گا کہ اس طرح پاک پانی کے ساتھ بہانے سے ناپاک پانی پاک ہوجاتا ہے تو غیر مطہر ہوجانا بدرجہ اولیٰ
درمختار میں ہے:
المختار طہارۃ المتنجس بمجرد جریانہ ۲؎۔
مختار قول یہ ہے کہ نجس پانی محض جاری ہونے سے پاک ہوجائے گا۔ ت
(۲؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶)
ردالمحتار میں ہے:
بمجرد جریانہ بان یدخل من جانب ویخرج من اٰخر حال دخولہ وان قل الخارج بحود لایلزم ان یکون ممتلأ اول وقت الدخول لانہ اذا کان ناقصا فدخل الماء حتی امتلأ وخرج بعضہ طھر ایضا کما حققہ فی الحلیۃ ۳؎۔
محض اس کے جاری ہونے سے، کہ ایک طرف سے داخل کیا جائے اور دوسری طرف سے نکالا جائے اس کے داخل ہونے کی حالت میں، اگرچہ خارج کم ہو، بحر، یہ ضروری نہیں کہ داخل ہوتے وقت بھرا ہوا ہو، کیونکہ جب ناقص ہوگا اور پانی داخل ہوکر برتن بھر جائے پھر پانی نکل جائے تو بھی یہ پانی پاک ہوجائے گا، جیسا کہ حلیہ میں تحقیق کی۔ ت
(۳؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۳)
بدائع میں ہے:
وعلی ھذا حوض الحمام اوالاوانی اذا تنجس ۴؎۔
اورا سی پر حمّام کے حوض کو قیاس کیا جائے یا برتنوں کو جب وہ ناپاک ہوجائیں۔ ت
(۴؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۴)
شامی میں ہے:
مقتضاہ انہ علی قول الصحیح تطھر الاوانی ایضا بمجرد الجریان وقد علل فی البدائع ھذا القول بانہ صارماء جاریا فاتضح الحکم وللّٰہ الحمد ۵؎ اھ وتمامہ فیہ ۔
اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ قول صحیح پر برتن بھی محض پانی کے بہنے سے پاک ہوجائیں گے، اور اس کی وجہ بدائع میں یہ بیان کی ہے کہ یہ جاری پانی ہوگیا، تو جاری پانی کا حکم اس پر لاگو ہوگا، تو حکم ظاہر ہوگیا وللہ الحمد اھ اور اس کی مکمل بحث اُسی میں ہے۔ ت
(۵؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۴)
بعض لوگوں کا کہنا کہ اس سے پانی مکروہ ہوجاتا ہے اگر پینے کے حق میں مراد تو مذہب صحیح پر مبنی ہے کہ ماء مستعمل(۱) طاہر ہے مطہر نہیں اُس سے وضو نہ ہوگا اور پینا مکروہ۔ حلیہ پھر شامی میں ہے: بلعہ ایاہ مکروہ ۱؎(اس کا اس کو نگلنا مکروہ ہے۔ ت)
(۱؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۷)
درمختار میں ہے:
ھو طاہر ولو من جنب وھو الظاھر لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھا للاستقذار وعلی روایۃ نجاستہ تحریما ۲؎۔
وہ پاک ہے خواہ جنب سے ہی ہو اور یہی ظاہر ہے لیکن اس کا پینا اور اس سے آٹا گوندھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے گِھن آتی ہے، اور نجس ہونے کی روایت پر مکروہ تحریمی ہے۔(ت)
(۲؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۷)
اور اگر وضو کے حق میں مقصود یعنی اس سے وضو ہوجائے گا مگر مکروہ ہے تو مذہب غیر صحیح پر مبنی ہے صحیح یہی ہے کہ اس سے پانی مستعمل ہوجائے گا اور اُس سے وضو صحیح نہ ہوگا نہ یہ کہ صرف کراہت ہو کما سنحققہ بتوفیقس اللّٰہ تعالٰی قد اٰن اوانہ بتوفیقہ عزشانہ۔
تحقیق المقام: بفضل الملک العلام اقول وباللّٰہ التوفیق اتت الفروع(۲) متوافرۃ والنقول عن ائمتنا الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھم وعمن بعدھم متظافرۃ ونصوص معتمدات الشروح والفتاوی متواترۃ شاھداتٍ علی ان المحدث اذا ادخل عضوہ قبل غسلہ فی ماء قلیل فانہ یجعل الماء مستعملا الا ماکان عن ضرورۃ فعفی قال فی الفتح بعد اقامۃ البینۃ علی ان رفع الحدث ایضا مغیر للماء وان لم تکن معہ نیۃ قربۃ مانصّہ وبھذا یبعد قول محمد انہ التقرب فقط الا ان یمنع کون ھذا مذھبہ کما قال شمس الائمۃ قال لانہ لیس بمروی عنہ والصحیح عندہ ان ازالۃ الحدث بالماء مفسد لہ ومثلہ عن الجرجانی وما استدلوا بہ علیہ من مسألۃ المنغمس لطلب الدلو حیث قال محمد الرجل طاھر والماء طاھر جوابہ ان الازالۃ عندہ مفسدۃ الا عند الضرورۃ والحاجۃ کقولنا جمیعا لو ادخل المحدث اوالجنب اوالحائض التی طھرت الید فی الماء للاغتراف لایصیر مستعملا للحاجۃ بخلاف مالو ادخل رجلہ اورأسہ حیث یفسد الماء لعدم الضرورۃ وفی کتاب(۱) الحسن عن ابی حنیفۃ ان غمس جنب او غیر متوضیئ یدیہ الی المرفقین اواحدی رجلیہ فی اجانۃ لم یجز الوضؤ منہ لانہ سقط فرضہ عنہ وذلک لان الضرورۃ لم تتحقق فی الادخال الی المرفقین حتی لوتحققت بان وقع(۲) الکوز فی الجب فادخل یدہ الی المرفق لاخراجہ لایصیر مستعملا نص علیہ فی الخلاصۃ قال بخلاف(۳) مالو ادخل یدہ للتبرد یصیر مستعملا لعدم الضرورۃ ۱؎ اھ۔
میں بفضلہ تعالیٰ کہتا ہوں کہ متوافر فروع اور ہمارے تینوں ائمہ اور بعد کے علماء کی نقول اور متون وشروح معتمدہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بے وضو شخص جب اپنا کوئی عضو دھوئے بغیر تھوڑے پانی میں ڈالے گا تو وہ پانی مستعمل ہوجائے گا، ہاں ضرورتاً ایسا کرنا معاف ہے، فتح میں اس امر پر دلیل قائم کی ہے کہ رفع حَدَث بھی پانی میں تغیر پیدا کرتا ہے خواہ اس میں تقرب کی نیت نہ ہو، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اس سے امام محمد کا قول کہ صرف تقرب سے متغیر ہوتا ہے، بعید ہوجاتا ہے ان کا مذہب نہ مانا جائے، جیسا کہ شمس الائمہ نے فرمایا ہے کیونکہ یہ اُن سے مروی نہیں ہے، اور اُن سے صحیح یہ ہے کہ حدث کا پانی سے زائل کرنا پانی کو فاسد کردیتا ہے،جواب یہ ہے کہ ازالہ حدث اُن کے نزدیک پانی کو فاسد کر دیتا ہے مگر ضرورتاً نہیں کرتا ہے جیسا کہ ہم سب کہتے ہیں کہ اگر بے وضوء ناپاک یاحائض جو پاک ہوگئی ہو اگر پانی میں ہاتھ ڈال کر چُلّو بھریں تو ضرورت کی وجہ سے یہ پانی مستعمل نہ ہوگا، ہاں اگر سر یا پیر ڈالا تو پانی فاسد ہوجائے گا کہ یہاں ضرورت نہیں ہے، اور حسن کی کتاب میں ابو حنیفہ سے ہے کہ اگر جنب یا بے وضو شخص نے اپنے دونوں ہاتھ کُہنیوں تک یا ایک پیر مرتبان میں ڈالا تو اس سے وضو جائز نہیں، کیونکہ اس کا فرض ساقط ہوا ہے، کیونکہ دونوں کہنیوں تک ڈبونے کی کوئی ضرورت نہ تھی، ہاں اگر ضرورت پائی گئی مثلاً لوٹا تالاب میں تھا تو اس کو نکالنے کیلئے کہنیوں تک ہاتھ ڈالے تو پانی مستعمل نہ ہوگا، خلاصہ نے اس کی تصریح کی ہے فرمایا بخلاف اس کے کہ اگر ہاتھ ٹھنڈک حاصل کرنے کو ڈبوئے تو پانی ضرورت نہ پائے جانے کی وجہ سے مستعمل ہوجائیگا اھ
اور اسی کی مثل جرجانی سے منقول ہے، انہوں نے اُس شخص سے استدلال کیا ہے جو ڈول نکالنے کیلئے پانی میں غوطہ لگائے۔ امام محمد نے اس شخص کی بابت فرمایا مرد بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک،
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوءمالا یجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
وفی التبیین نحوہ وزاد معللا لمحمد فی مسألۃ البئران وقوع الدلو فی البئر یکثر والجنابۃ تکثر ایضا فلو اغتسلوا لاخراج الدلو کلما وقع یحرجون ۲؎ اھ۔
اس کا اور تبیین میں بھی ایسا ہی ہے اور امام محمد کے کنویں کے مسئلہ میں باضافہ دلیل اس طرح بیان کیا ہے کہ کنویں میں ڈول کا گرنا بکثر ت ہوتا ہے اور جنابت بھی بکثرت ہوتی ہے تو اگر ہر مرتبہ ڈول نکالنے کیلئے غسل ضروری ہوتو لوگ تنگی میں پڑ جائیں گے اھ
(۲؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارت مطبع الامیر یہ ببولاق مصر ۱/۲۵)
وفی الخانیۃ(۴) اتفق اصحابنا رحمہم اللّٰہ تعالٰی فی الروایات الظاھرۃ علی ان الماء المستعمل فی البدن لایبقی طھورا واختلفوا ھل یصیر مستعملا لسقوط الفرض اذا قصد التبردا واخراج الدلو من البئر قال ابو حنیفۃ وابو یوسف رحمہما اللّٰہ تعالٰی یصیر مستعملا وقال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فی المشہور عنہ لا ۱؎ اھ۔
اور خانیہ میں ہے کہ ہمارے اصحاب روایات ظاہرہ میں اس امر پر متفق ہیں کہ جو پانی بدن پر مستعمل ہو وہ طہور نہ رہے گا اور اس میں اختلاف ہے کہ اگر ہاتھ ٹھنڈا کرنے کیلئے یا ڈول نکالنے کیلئے ہاتھ ڈالا تو آیا سقوط فرض کی وجہ سے مستعمل ہوگا یا نہیں؟ ابو حنیفہ اور ابو یوسف کا قول ہے کہ مستعمل ہوجائے گا اور محمد سے مشہور روایت یہ ہے کہ نہ ہوگا اھ
(۱؎ فتاوٰی خانیہ علی العالمگیری الماء المستعمل نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۱۴)
ای للضرورۃ کما مراما الامام فلم یعتبر الضرورۃ ھنا لندرۃ الاحتیاج الی الانغماس بخلاف الاحتیاج الی الاغتراف بالید ۲؎ اھ ش والتعلیل بالضرورۃ مقصور علی نحو طلب الدلو اما التبرد فلما اشتھر عن محمد من القصر علی القربۃ ومشی علیہ فی الخانیۃ فلذا ذکرہ وتبعہ البحر والنھر والدر۔
یعنی ضرورت کی وجہ سے جیسا کہ گزرا، مگر امام نے یہاں ضرورت کا اعتبار نہ کیا، کیونکہ غوطہ لگانے کی حاجت شاذہی ہوتی ہے ہاں ہاتھ سے چلّو بھرنا عموما ہوتا ہے اھ ش اور ضرورت کی علت ڈول طلب کرنے پر منحصر ہے ٹھنڈک کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ محمد سے یہ روایت مشہور ہوئی کہ وہ صرف ادائے قربۃ کو وجہ استعمال قرار دیتے ہیں اور خانیہ میں بھی یہی ہے تو اس لئے اس کو ذکر کیا اور بحر، نہر اور دُر نے اس کی پیروی کی۔ ت
(۲؎ ردالمحتار باب المیاہ ۱/۹۴۹ )
اقول وھذا(۱) عجب بعد مشیھم علی ان الصحیح ان محمدالایقصر التغیر علی التقرب قال ش قدمنا ان ذلک خلاف الصحیح عندہ فلذا اقتصر فی الھدایۃ علی قولہ لطلب الدلو ۳ اھ ۔
میں کہتا ہوںیہ امر باعث تعجب ہے کیونکہ وہ اس امر کو مانتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ محمد پانی کے تغیر کو قربۃ تک ہی محدود نہیں رکھتے۔ 'ش' نے فرمایا ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ یہ اُن کے نزدیک صحیح کے خلاف ہے اس لئے ہدایہ میں صرف ڈول کی تلاش کے مسئلہ پر اکتفاء کیا ہے اھ ت
(۳؎ ردالمحتار باب المیاہ ۱/۹۴۹ ۱/۱۴۸)
اقول الھدایۃ(۲) ایضا من الماشین کالخانیۃ وکثیرین علی ان محمد الایجعل السبب الا التقرب وقد ذکرناہ فی الطرس المعدل فلیس اقتصارہ علی ذکر الطلب لما ذکر وفیھا من فصل مایقع فی البئر المحدث اذا غسل ای فی الخانیہ ۱۲ اطراف اصابعہ ولم یغسل عضو اتاما اشارالحاکم(۵) رحمہ اللّٰہ تعالی فی المختصر الی انہ یصیر مستعملا ۱؎
میں کہتا ہوں ہدایہ بھی پیروی کرنے والا ہے، جیسے صاحبِ خانیہ ہیں اور بہت سے دوسرے فقہاء کہ امام محمد سبب، صرف تقرب کو قرار دیتے ہیں اور ہم اس کو ''الطرس المعدل'' میں بیان کرچکے ہیں تو ان کا طلب پر اکتفاء اس سبب سے نہیں جو ذکر کیا اور خانیہ کی فصل مایقع فی البئر میں ہے، بے وضو نے اگر اپنی انگلیوں کے کناروں کو دھویا اور پورا عضو نہ دھویا، حاکم نے مختصر میں کہا کہ اس طرح پانی مستعمل ہوجائے گا،
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فی مایقع فی البئر ۱/۶)
وفی وجیز(۶) الامام الکردری ادخل الجنب اوالحائض فیہ(ای فی الماء) یدہ للاغتراف اورفع ادخالہ للتبرد ۲؎
اور وجیز امام کُردری میں ہے، جُنب یا حائض نے اس میں(پانی میں) چلّو بھرنے کیلئے اپنا ہاتھ ڈالا یا اس میں سے لوٹا نکالنے کیلئے، تو پانی ضرورت کی وجہ سے خراب نہیں ہوگا، ہاں اگر ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے ڈالا تو فاسد ہوجائے گا،
(۲؎ بزازیۃ مع العالمگیری المستعمل والمفید والمطلق نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۱۹)
وفی الکافی(۷) انما لم یحکم محمد باستعمال الماء فی مسألۃ البئر للضرورۃ فانھم لوجاءوا بمن یطلب دلوھم لایمکنھم ان یکلفوہ بالاغتسال اولا ۳؎ اھ
اور کافی میں ہے کہ امام محمد نے کنویں کے مسئلہ میں پانی کے مستعمل ہونے کا حکم اس لئے نہیں لگایا کہ وہاں ضرورت ہے، کیونکہ اگر ڈول نکالنے والا مل جائے تو لوگوں کیلئے ممکن نہیں کہ پہلے اس کو غسل کا پابند کریں اھ،
(۳؎ الکافی)
وفی الخلاصۃ(۸) معزیا للاصل(۹) ونحوہ فی الخانیۃ وعنھا فی(۱۰) الغنیۃ واللفظ لفقیہ النفس مختصرا ادخل یدہ للاغتراف لایفسد الماء وکذا اذا ادخل یدہ فی الجب الی المرفق لاخراج الکوز ویدہ ورجلیہ فی البئر لطلب الدلو لمکان الضرورۃ ولو للتبرد یصیر مستعملا لانعدام الضرورۃ ۴؎ اھ
اور خلاصہ میں یہ چیز اصل کی طرف منسوب ہے اور اسی قسم ک عبارت خانیہ میں ہے اور خانیہ سے غنیہ میں منقول ہے اور الفاظ فقیہ النفس کے ہیں مختصراً کسی شخص نے پانی میں اپنا ہاتھ چلّو بھرنے کیلئے ڈالا تو وہ پانی کو فاسد نہ کرے گا اور اسی طرح لوٹا نکالنے کیلئے اپنا ہاتھ گڑھے میں کہنیوں تک ڈالا، اور اسی طرح ہاتھ پیر اگر کنویں میں ڈول کی تلاش میں ڈالے تو ضرورت کی وجہ سے پانی فاسد نہ ہوگا اور ٹھنڈک کے حصول کی خاطر ڈالے تو پانی مستعمل ہوجائے گا کہ ضرورت نہیں ہے۔
(۴؎ غنیۃ المستملی باب الانجاس سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۵۲)
وفی الحلیۃ(۱۱) قال القدوری(۱۲) کان شیخناابو عبداللہ یقول الصحیح عندی من مذہب اصحابنا ان ازالۃ الحدث توجب استعمال الماء ولا معنی لھذا الخلاف اذلا نص فیہ(۱) وانما لم یأخذ الماء حکم الاستعمال فی مسألۃ طلب الدلو لمکان الضرورۃ اذ الحاجۃ الی الانغماس فی البئر لطلب الدلومما یکثرولواحتیج الی نزح کل الماء کل مرۃ لحرجوا حرجا عظیما فصارکا لمحدث اذا غرف الماء بکفہ لایصیر مستعملا بلا خلاف وان وجد اسقاط الفرض لمکان الضرورۃ ۱؎ اھ
اور حلیہ میں ہے کہ قدوری نے کہا ہمارے شیخ ابو عبداللہ فرماتے تھے میرے نزدیک ہمارے اصحاب کا صحیح مذہب یہ ہے کہ ازالہ حَدَث پانی کے استعمال کا موجب ہے اور اس اختلاف کا کوئی مفہوم نہیں کیونکہ اس میں نص موجود نہیں، اور ڈول کی تلاش کے مسئلہ میں پانی کا مستعمل نہ ہونا ضرورت ہونے کی وجہ سے ہے کیونکہ کنویں میں ڈول کی تلاش میں غوطہ خوری عام ہے، اور اگر ہر مرتبہ کنویں کا پورا پانی نکالنا پڑ جائے تو لوگ سخت تنگی میں مبتلا ہوجائیں گے، تو یہ بے وضو کی طرح ہے کہ وہ چلّو سے پانی لے تو بالاتفاق پانی مستعمل نہ ہوگا اگرچہ اس میں اسقاط فرض بھی پایا جارہا ہے، کیونکہ ضرورت ہے،
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت مسئلۃ البئر جحط ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۷)
وفی البرھان(۱) شرح مواھب الرحمٰن ثم غنیۃ(۱۵) ذوی الاحکام للشرنبلالی معناہ وفی شرح الوھبانیۃ للعلامۃ ابن الشحنۃ اعتبار الضرورۃ فی مثل ذلک مذکور فی(۱۶) الصغری وغیرھا اھ وفی النھایۃ(۱۷) ثم الھندیۃ(۱۸)لوانغمس(۲)للاغتسال للصلاۃ یفسدالماء بالاتفاق ۲؎ ا ونحوہ فی العنایۃ(۱۹) وغیرھا
اور برہان شرح مواہب الرحمن، نیز غنیہ ذوی الاحکام شرنبلالی میں اس کا ہم معنی ہے، اور علّامہ ابن الشحنہ کی شرح وہبانیہ میں ہے کہ اس قسم کے مسائل میں ضرورت کا اعتبار صغریٰ وغیرہ میں مذکور ہے اھ اور نہایہ وہندیہ میں ہے کہ نماز کیلئے غسل کرنے کو غوطہ لگایا تو پانی بالاتفاق مستعمل ہوجائے گا اھ اور عنایہ وغیرہ میں اسی کی مثل ہے
(۲؎ ہندیۃ الماء الذی لایجوز بہ التوضؤ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۳)
وفی فوائد الامام ظھیرالدین ابی بکر محمد بن احمد بن عمر علی شرح الجامع الصغیر للامام الصدر الشھید حسام الدین عمر بن عبدالعزیز رحمہما اللّٰہ تعالی لو ادخل رجلہ فی البئر ولم ینوبہ الاستعمال ذکر شیخ الاسلام المعروف بخواھرزادہ رحمہ اللّٰہ تعالی ان الماء یصیر مستعملا عند محمد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وذکر شمس الائمۃ الحلوانی رحمہ اللّٰہ تعالی انہ لایصیر مستعملا لان الرجل فی البئر بمنزلۃ الید فی الاٰنیۃ فعلی ھذا التعلیل اذا ادخل الرجل فی الاناء یصیر مستعملا لعدم الضرورۃ ۱؎ اھ۔
اور امام ظہیر الدین ابو بکر محمدبن احمد بن عمر کے جو فوائد شرح جامع صغیر امام صدر شہید حسام الدین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہۤمیں ہے کہ اگر کسی شخص نے کنویں میں بلانیت استعمال اپنا پیر ڈالا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ الاسلام المعروف خواہر زادہ نے فرمایا کہ پانی امام محمد کے نزدیک مستعمل ہوجائے گا، اور شمس الائمہ الحُلوانی نے ذکر کیا کہ پانی مستعمل نہ ہوگا کیونکہ کنویں میں پیر کا ڈالنا ایسا ہے جیسا ہاتھ برتن میں، اسی استدلال کی بنیاد پر اگر کوئی شخص برتن میں پیر داخل کرے تو پانی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے مستعمل ہوجائے گا اھ۔
(۱؎ کفایۃ مع الفتح الماء الذی یجوزبہ الوضؤ ومالایجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۸۰)
قلت وحاصل قول الامام الحُلوانی ان الید ربما لاتبلغ قعرالبئر فمست الحاجۃ الی الرجل ھذا ھو الذی یعطیہ نص قولہ لااحتمال فیہ لغیرہ واسشناء موضع الضرورۃ معلوم من اقوالھم بالضرورۃ فقول(۱( العلامۃ ابن الشحنۃ فی زھر الروض بعد نقلہ یمکن دفع التعارض بحمل ماقالہ خواھر زادہ علی مااذا لم یکن موضع ضرورۃ وما قالہ الحُلوانی علی موضع الضرورۃ ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں اور امام حُلوانی کے قول کا ماحصل یہ ہے کہ ہاتھ کبھی کنویں کی تَہ تک نہیں پہنچ پاتا ہے تو پَیر کی ضرورت ہوتی ہے، یہ مفہوم ان کی اس تصریح سے حاصل ہوتا ہے کہ اس میں اس کے غیر کا احتمال نہیں ہے اور مقام ضرورت کا استنشاء اُن کے اقوال سے بداہۃً معلوم ہوتا ہے تو علامہ ابن الشحنہ کا قول زہر الروض میں نقل کے بعد اس کا تعارض اس طرح رفع ہوسکتا ہے کہ خواہر زادہ نے جو فرمایا ہے اس کو ضرورت کے نہ ہونے پر محمول کیا جائے اور حُلوانی کے قول کو ضرورت پر محمول کیا جائے اھ۔
(۲؎ زہر الروض)
تردد فی موضع الجزم وشک فی محل الیقین وفی متن الملتقی لوانغمس جنب فی البئر بلانیۃ فقیل الماء والرجل نجسان عندالامام والاصح ان الرجل طاھر والماء مستعمل عندہ ۳؎ اھ
تردد ہے مقام یقین میں اور شک ہے مقام یقین میں۔ اور متن ملتقی میں ہے کہ اگر کسی جُنب نے بلانیت کنویں میں غوطہ گایا تو کہا گیا کہ آدمی اور پانی دونوں نجس ہیں امام کے نزدیک۔ اور اصح یہ ہے کہ ان کے نزدیک آدمی پاک ہے اور پانی مستعمل ہے اھ ت
(۳؎ ملتقی الابہر فصل فی المیاہ العامرہ مصر ۱/۳۱)
وفی شرحہ مجمع الانھر لوقال انغمس محدث لکان اولی وانما قال بلانیۃ لانہ لوانغمس للاغتسال فسد الماء عند الکل ۱؎ اھ
اور اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے کہ اگر انغمس محدث کہا ہوتا تو بہتر تھا۔ اور اس لئے ''بلا نیت'' کہا کیونکہ اگر غسل کیلئے غوطہ لگایا تو سب ہی کے نزدیک پانی مستعمل ہوجائیگا اھ
( ۱؎ مجمع الانہر فصل فی المیاہ العامرہ مصر ۱/۳۱)
وفی النھر الفائق فی تعلیل قول محمد فی مسألۃ جحط اماطھارۃ الرجل فلان محمدالایشترط الصب واماالماء فللضرورۃ ۲؎ اھ
اور نہرالفائق میں مسئلہ بئز حجط میں امام محمد کے قول کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا آدمی کا پاک ہونا اس وجہ سے ہے کہ محمد بہانے کو شرط قرار نہیں دیتے اور پانی کا پاک ہونا ضرورت کی وجہ سے ہے اھ
(۲؎ فتح المعین بئر حجط سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
نقلہ السید الازھری علی الکنز وفی الدر اسقاط فرض ھو الاصل بان یدخل یدہ اور رجلہ فی الجب لغیر اغتراف ونحوہ فانہ یصیر مستعملا لسقوط الفرض اتفاقا ۳؎ اھ
اس کو سید ازہری نے کنز میں نقل کیا ہے، اور دُر میں ہے کہ اسقاط فرض ہی اصل ہے، مثلاً یہ کہ گڑھے میں ہاتھ یاپیر چلّو بھرنے وغیرہ کی نیت کے علاوہ کسی اور ارادہ سے ڈالے تو وہ مستعمل ہوجائے گا، کیونکہ اس طرح فرض بالاتفاق ساقط ہوجاتا ہے اھ
(۳؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۷)
ولو استرسلنا فی سرد الفروع لاعیانا ولکن نرد البحر ونکثر الاغتراف منہ لان الکلام سیدور معہ فنقول فی البحر من الماء المستعمل ذکر ابو بکر الرازی انہ یصیر مستعملا عند محمد باقامۃ القربۃ لاغیراستدلالابمسألۃالجنب اذا انغمس فی البئر لطلب الدلو قال شمس الائمۃ السرخسی جوابہ انما لم یصر مستعملا للضرورۃ واقرہ علیہ العلامۃ ابن الھمام والامام الزیلعی ۴؎ اھ
اور اگر ہم فروع گنانا شروع کردیں تو مشکل ہوگا، لیکن ہم سمندر پر آکر اُس سے بکثرت چلّو بھرتے ہیں، کیونکہ گفتگو انہی کے ساتھ رہے گی، تو ہم کہتے ہیں، بحر میں ہے کہ ابو بکر رازی کہتے ہیں کہ صرف قربۃ کی ادائیگی سے پانی مستعمل ہوگا، عند محمد۔ وہ اس کو جنب کے مسئلہ پر قیاس کرتے ہیں جو کُنویں میں ڈول نکالنے کی خاطر غوطہ لگائے۔ اور شمس الائمہ سرخسی نے فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ مستعمل ضرورت کی وجہ سے نہ ہوا، اور اس کو علّامہ ابن ہمام اور زیلعی نے برقرار رکھااھ
(۴؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۹۰)
وفیہ واعلم ان ھذا وامثالہ کقولھم فیمن ادخل یدیہ الی المرفقین واحدی رجلیہ فی اجانۃ یصیر الماء مستعملا یفید ان الماء یصیر مستعملا بواحد من ثلثۃ ازالۃ حدث اقامۃ قربۃ اسقاط فرض فکان الاولی ذکر ھذا السبب الثالث ۱؎ اھ
اس میں ہے جانناچاہئے کہ یہ اور ا س کے امثال جیسے ان کا قول ،اس شخص کی بابت جو اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک یا ایک پیر کسی مرتبان میں ڈالے تو پانی مستعمل ہوجائیگا، سے معلوم ہوتا کہ پانی کا مستعمل ہونا تین اشیاء میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوگا، حَدَث کا زائل کرنا، قربۃ کا ادا کرنا، فرض کا ساقط کرنا، تو بہتر یہ تھا کہ اِس تیسرے سبب کو ذکر کرتے۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
وفیہ(۱) ذکرشمس الائمۃ السرخسی فی المبسوط(ای شرحہ) ان فی الاصل(ای فی مبسوط الا مام محمد رحمہ اللہ تعالٰی) اذااغتسل الطاھر فی البئرافسدہ ۲؎ اھ
اور اسی میں ہے کہ شمس الائمہ سرخسی نے مبسوط میں(یعنی اس کی شرح میں) ذکر کیا کہ اصل میں(یعنی امام محمد کی مبسوط) میں ہے کہ اگر پاک شخص نے کنویں میں غسل کیا تو پانی مستعمل ہوجائیگا اھ
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۷)
ای اذا نوی القربۃ کما لایخفی وفیہ مسألۃ البئر جحط وصورتھا جنب انغمس فی البئر للدلواوللتبرد ولا نجاسۃ علی بدنہ فعند محمد الرجل طاھر والماء طھور وجہ قول محمد علی ماھو الصحیح عنہ ان الماء لایصیر مستعملا وان ازیل بہ حدث للضرورۃ ۳؎ اھ
یعنی اگر قربۃ کی نیت کی کمالایخفی۔ اور اسی میں ہے کہ کنویں کا مسئلہ جحط ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک جُنب نے کنویں میں غوطہ لگایا ڈول نکالنے کیلئے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے، اور اس کے بدن پر نجاست نہ ہو تو محمد کے نزدیک آدمی پاک ہے اور پانی پاک کرنے والا ہے، اور محمد کے قول کی وجہ صحیح قول کے مطابق یہ ہے کہ پانی مستعمل نہیں ہوتا ہے خواہ اُس سے حدث ہی کیوں زائل نہ کیا جائے ضرورت کی وجہ سے۔
(۳؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۷)
ولنقتصر علی ھذا القدر خاتمین بما اعترف البحر انہ کشف اللبس وازاح الحدس وھی کما تری نصوص صرائح تفید ان ملاقاۃ الماء القلیل لعضو علیہ حدث یجعلہ مستعملا سواء وردالماء علی العضو اوالعضو علی الماء علی سبیل النجاسۃ الحقیقیۃ فالماء نجس سواء وردت ھی علی الماء اوالماء علیھا وبالجملۃ کانت الفروع ÷ تأتی علی ھذا السنن المطبوع ÷ والاقوال ÷ تنسج علی ھذا المنوال ÷ الی ان جاء الدور بتلامذۃ الامام المحقق علی الاطلاق ÷ ودارت مسألۃ التوضی فی الفساقی الصغار بین الحذاق ۔ فافتی العلامۃ زین الدین قاسم بن قطلو بغا بالجواز والف رسالۃ سماھا رفع الاشتباہ عن مسألۃ المیاہ ۱؎
ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور اختتام پر بحر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ابہام کو رفع کردیاہے،اور جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں یہ صریح نصوص ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے سے پانی کا عضو سے ملنا جس پر حدث ہے پانی کو مستعمل بنا دیتا ہے خواہ پانی عضو پر وارد ہو یا عضو پانی پر وارد ہو، اور اگر یہ پانی نجس عضو پر آئے، خواہ پانی عضو پر یا عضو پانی پر تو پانی نجس ہوجائے گا۔ خلاصہ کلام یہ کہ مسئلہ کی فروع کو اِس انداز سے بیان کیا گیا ہے، اور اس قسم کے اقوال علماء وفقہاء کے ذکر کئے گئے ہیں، پھر جب محقق علی الاطلاق کے شاگردوں کا دور آیا اور چھوٹے حوضوں میں وضو کا مسئلہ ماہرین کے درمیان زیر بحث آیا تو علّامہ زین الدین قاسم بن قطلو بغانے جواز کا فتوٰی دیا اور ایک رسالہ لکھا جس کا نام ''رفع الاشتباہ عن مسئلۃ المیاہ''ہے
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ مطبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۲)
وخالفہ تلمیذہ العلامۃ عبدالبربن الشحنۃ وصنف رسالۃ سماھا زھرالروض فی مسألۃ الحوض ۲؎
اس پر ان کے شاگرد علّامہ عبدالبربن الشحنہ نے ان کی مخالفت کی، اور ایک رسالہ ''زھر الروض فی مسئلۃ الحوض'' لکھا۔
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ مطبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۲)
والامام ابن امیرالحاج فی الحلیۃ ایضامیل الی شیئ مما اعتمدہ العلامۃ قاسم وھم جمیعا من جلۃ اصحاب الامام ابن الھمام علیھم رحمۃ الملک المنعام ثم جاء المحقق زین بن نجیم صاحب البحر رحمہ اللّٰہ تعالٰی فانتصر الزین للزین ونمق رسالۃ سماھا الخیر الباقی فی جواز الوضوء من الفساقی ثم تتابع المتاخرون علی اتباعہ کالنھر والمنح والدر وذکر فی الخزائن ان لہ رسالۃ فیہ والعلامۃ الباقانی والشیخ اسمٰعیل النابلسی وولدہ العارف باللّٰہ سیدی عبدالغنی ومحشی الاشباہ شرف الدین الغزی فیما ذکرہ المدقق العلائی بلاغا وکذا بعض مشائخ الشامی والسادات الثلثۃ ابو السعود الازھری وط وش میلا مع تردد والیہ یمیل کلام العلامۃ نوح افندی ووافق العلامۃ ابن الشحنۃ منھم العلامۃ ابن الشلبی وبہ افتی والمحقق علی المقدسی والعلامۃ حسن الشرنبلالی ۔
امام ابن الحاج نے حلیہ میں علّامہ قاسم کی طرف کچھ میلان کیا ہے، یہ تمام کے تمام ابن ہُمام کے جلیل القدر تلامذہ ہیں، پھر ابنِ نُجیم صاحب بحر آئے اور انہوں نے زین کی مدد کی اور ایک رسالہ لکھا جس کا نام ''الخیر الباقی فی جواز الوضوء من الفساقی'' ہے پھر متاخرین نے پے درپے اس مسئلہ پر کلام کیا اور ان کی پیروی کی مثلاً نہر، منح، درر اور خزائن میں ہے کہ انہوں نے اس پر ایک رسالہ لکھا ہے، اور علّامہ باقانی، شیخ اسماعیل نابلسی اور ان کے صاحبزادہ عارف باللہ عبدالغنی نابلسی اور اشباہ کے محشی شرف الدین الغزی بقول مدقق علائی بطور بلاغ، اور اسی طرح بعض مشائخ شامی اور سادات ثلثہ ابو السعود الازہری 'ط' اور 'ش' کا اس طرف میلان ہے، کچھ تردّد بھی کیا ہے اور اسی طرف علامہ نوح آفندی کا کلام ہے اور علامہ ابن الشحنہ نے موافقت کی اور علّامہ ابن شلبی نے بھی موافقت کی اور اسی پر فتوٰی دیا اور محقق علی المقدسی اور علّامہ حسن شرنبلالی نے بھی یہی فرمایا۔(ت)
قلت والیہ یرشد کلام المحقق فی الفتح وقد علمت انھا الجادۃ المسلوکۃ الی زمن العلامۃ قاسم والمروی عن جمیع اصحابنا وعن ائمتنا الثلثۃ عینا ولم یخالفھا احد ممن تقدمہ غیر الامام صاحب البدائع فی جدل وتعلیل اما عند ذکر الاحکام فھو مع الجمھور وکذلک قدمنا عن عدۃ من ھٰؤلاء المتأخرین خلاف ما مالوا الیہ اماما نسب الی العلامۃ قارئ الھدایۃ فلا یتم کما ستعرف ان شاء اللّٰہ تعالٰی وبالجملۃ فالمسألۃ ذات معترک عظیم والرسائل الثلث جمیعا بحمداللّٰہ تعالٰی عندی وھٰانا الخصھا لک مع مالھا وعلیھا اجمالا مفصلا وباللّٰہ التوفیق فلنوزع الکلام علی اربعۃ فصول
میں کہتا ہوں محقق کا کلام فتح میں اسی طرف رہنمائی کرتا ہے اور آپ جان چکے ہیں کہ علّامہ ابن قاسم کے زمانہ تک یہی روش رہی، اور یہی ہمارے تمام اصحاب اور ائمہ ثلثہ سے منقول ہے، اور متقدمین میں سے سوائے صاحبِ بدائع کے کسی اور نے مخالفت نہ کی، جدل اور تعلیل میں، اور احکام کے ذکر کے وقت وہ جمہور کے ساتھ ہیں، اور اسی طرح ہم بہت سے متاخرین سے ان کے خلاف نقل کر چکے ہیں، اور جو علامہ قارئ الہدایہ کی طرف منسوب ہے وہ ثابت نہیں، جیسا کہ آپ عنقریب جان لیں گے اِن شاء اللہ تعالٰی، اور خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ بہت معرکہ کا ہے اور تینوں رسائل بحمداللہ میرے پاس ہیں جن کا خلاصہ میں آپ کے سامنے مالہا وما علیہا کے ساتھ پیش کرتا ہوں یہ کلام چار فصول پر مشتمل ہے۔
الفصل الاول فی کلام العلامۃ قاسم رسالتہ رحمۃ اللّٰہ تعالی نحو کراسۃ اطال فیھا الکلام فی حدالماء الکثیر وحقق(۱) ان جمیع جوانبہ سواء فی جواز الطھارۃ سواء کانت النجاسۃ مرئیۃ اولا واکثر من الرد علی شرح المختار والتحفۃ والبدائع حتی تجاوز الی المؤاخذات اللفظیۃ ولسنا الاٰن بصدد ذلک وانما یتعلق منھا بغرضنا نحو ورقۃ فی اٰخرھا ذکر فیھا الماء المستعمل وانہ لایغیر الماء مالم یغلب علیہ واختار التسویۃ فی ذلک بین الملقی والملاقی ای کما ان الماء المستعمل لوالقی فی حوض اوجرۃ وکان ماء الجرۃ اکثر منہ جازالطھارۃ بہ علی ماھو الصحیح المعتمد وعلیہ عامۃ العلماء کذلک ان ادخل المحدث اوالجنب یدہ مثلا فی جرۃ لم یتغیر ماؤھا لان المستعمل منہ مالاقی بدنہ وھو اقل بالنسبۃ الی الباقی واحتج علی ذلک بثلثۃ اشیاء الاولکلام البدائع حیث قال فی الکلام علی حدیث لایبولن احدکم فے الماء الدائم(ای حین استدل بہ للامام علی نجاسۃ الماء المستعمل) لایقال انہ نھی(ای عن الاغتسال فیہ لالان المستعمل نجس بل) لما فیہ من اخراج(۲) الماء من ان یکون مطھرا من غیر ضرورۃ وذلک حرام لانانقول الماء القلیل انما یخرج عن کونہ مطھرا باختلاط غیر المطھر بہ اذاکان غیر المطھر غالبا کماء الورد واللبن ونحوذلک فاما ان یکون مغلوبا فلا وھھنا الماء المستعمل مایلاقی البدن ولا شک ان ذلک اقل من غیر المستعمل فکیف یخرج بہ من ان یکون مطھرا ۱؎ انتھی۔
پہلی فصل، علّامہ قاسم کاکلام علامہ قاسم کا رسالہ تقریباً ایک کاپی ہے جس میں ''ماءِ کثیر'' کی تعریف پر انہوں نے مفصل گفتگو کی ہے، اور تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام کنارے برابر ہیں طہارت کے جواز میں، خواہ نجاست نظر آنے والی ہو یا نہ ہو، اور شرح مختار، تحفہ، بدائع وغیرہ پر کافی رد کیا یہاں تک کہ لفظی گرفت سے بھی نہ چُوکے۔ ہم اس وقت یہ چیزیں بیان کرنا نہیں چاہتے، ہماری غرض اس رسالہ کے آخری ورق سے متعلق ہے جس میں انہوں نے ماءِ مستعل کے مسائل بیان کیے ہیں اور یہ کہ وہ پانی کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا ہے جب تک وہ اس پر غالب نہ آجائے، اور انہوں نے اس سلسلہ میں ملقیٰ اور ملاقی کو برابر قرار دیا ہے یعنی جس طرح مستعمل پانی اگر کسی حوض یا ٹھلیا میں ڈالا جائے اور ٹھلیا کا پانی مستعمل پانی سے زیادہ ہو تو اس سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے۔ صحیح، معتمد قول یہی ہے اور عام علماء کا یہی قول ہے اور اسی طرح اگر محدِث یا ناپاک نے اپنا ہاتھ کسی ٹھِلیا میں ڈالا تو پانی متغیر نہ ہوگا کیونکہ اس میں سے مستعمل وہ ہے جو اس کے بدن سے ملا اور بہ نسبت باقی کے کمتر ہے، اس پر تین چیزوں سے استدلال کیاہے:اوّل صاحبِ بدائع نے ''لایبولن احدکم فی الماء الدائم''(ٹھہرے پانی میں کوئی پیشاب نہ کرے) پر کلام کرتے ہوئے فرمایا(یعنی جب امام نے اس سے مستعمل پانی کی نجاست پر استدلال کیا) یہ نہ کہا جائے کہ یہ نہی ہے(یعنی اس میں غسل کرنے سے اس لئے نہیں کہ مستعمل نجس ہے بلکہ) کیونکہ اس میں پانی کو بلا ضرورت مُطِہرّہونے سے خارج کرنا ہے اور یہ حرام ہے، کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ ماءِ قلیل مطِہرّ ہونے سے اس لئے خارج ہوجاتا ہے کہ وہ غیر مطہر پانی سے ملتا ہے مگر یہ اس وقت ہوگا جب غیر مطہر غالب ہو، مثلاً گلاب کا پانی اور دودھ وغیرہ، اور اگر مطلوب ہو تو نہ ہوگا اور یہاں مستعمل پانی وہ ہے جو بدن سے ملاتی ہوتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ غیر مستعمل سے کم ہے تو اس کی وجہ سے مطہر ہونے سے کیسے خارج ہوگا انتہیٰ۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۶۷)
قلت: وتمامہ فاما ملاقاۃ النجس الطاھر فتوجب تنجیس الطاھر وان لم یغلب علی الطاھر لاختلاطہ بالطاھر علی وجہ لایمکن التمییز بینھما فیحکم بنجاسۃ الکل ۲؎ اھ۔
میں کہتا ہوں مکمل اس طرح ہے، اور نجس کا طاہر کو ملاقی ہونا طاہر کو نجس کردیتا ہے اگرچہ طاہر پر غالب نہ ہو کیونکہ وہ طاہر سے اس طور پر مل گیا ہے کہ دونوں میں امتیاز ممکن نہیں رہا ہے تو کل کی نجاست کا حکم کیا جائے گا اھ۔
(۲؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۶۷)
قال وقال فی موضع اٰخر(ای بعدہ، بورقات) فیمن وقع فی البئر فان کان علی بدنہ نجاسۃ حکمیۃ بان کان محدثا اوجنبا اوحائضا اونفساء(ای وقد انقطعا عنھما) فعلی قول من لا یجعل ھذا الماء مستعملا(قلت یرید الامام ابا یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی لاشتراطہ الصبّ) لاینزح شیئ لانہ طھور وکذا علی قول من جعلھا مستعملا وجعل المستعمل طاھرا(یرید محمدا رحمہ اللّٰہ تعالٰی) لان غیرالمستعمل اکثر فلا یخرج عن کونہ طھورا مالم یکن المستعمل غالبا علیہ کما لوصب اللبن فی البئر بالاجماع اوبالت شاۃ فیھا عند محمد ۳؎ رحمہ اللّٰہ تعالی انتھی۔
کہا، اور دوسرے مقام پر فرمایا(یعنی اس کے کچھ ورق بعد) اس شخص کی بابت جو کنویں میں گر پڑا تو اگر اس کے بدن پر نجاست حکمیہ ہو مثلاً یہ کہ وہ بے وضو یا جنب یا حیض ونفاس والی عورت ہو(یعنی ان دونوں عورتوں کی ناپاکی ختم ہوچکی ہو) تو اُس کے قول پر جو پانی کو مستعمل قرار نہیں دیتا ہے(میں کہتا ہوں اس سے ان کی مراد امام ابو یوسف ہیں جن کے نزدیک بہانا شرط ہے) کنویں سے کچھ بھی نہیں نکالا جائے گا کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے، اور اسی طرح اُن کے قول پر جو پانی کو مستعمل کہتے ہیں اور مستعمل کو پاک کہتے ہیں(امام محمدمراد ہیں) کیونکہ غیر مستعمل زائد ہے تو ظہور ہونے سے اس وقت تک خارج نہ ہوگا جب تک مستعمل پانی غالب نہ ہوجائے، مثلاً دودھ کنویں میں ڈال دیا جائے،اور یہ بالاجماع ہے، یا بکری نے کنویں میں پیشاب کردیا، امام محمد کے نزدیک انتہی۔
(۳؎ بدائع الصنائع بیان مقدار الذی یصیر بہ المحل نجساً ۱/۷۴)
قلت: وتمامہ واما علی قول من جعل ھذا الماء مستعملا وجعل الماء المستعمل نجسا(یرید الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ علی روایۃ الحسن بن زیاد رحمہ اللّٰہ تعالٰی عنہ نجاسۃ الماء المستعمل وان کانت روایتہ عنہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی خصوص المسألۃ ماسیذکرہ) ینزح ماء البئرکلہ کما لووقعت فیھا قطرۃ من دم اوخمر وروی الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ ان کان محدثا ینزح اربعون وان کان جنبا ینزح کلہ وھذہ الروایۃ مشکلۃ لانہ لا یخلو اما ان صار ھذا الماء مستعملا اولا فان لم یصر مستعملا لایجب نزح شیئ لانہ بقی طھورا کما کان وان صار مستعملا فالماء المستعمل عند الحسن نجس نجاسۃ غلیظۃ فینبغی ان یجب نزح جمیع الماء ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں اس کا مکمل یہ ہے کہ، اور ان لوگوں کے قول پر جنہوں نے اس پانی کو مستعمل قرار دیا ہے اور مستعمل پانی کو نجس قرار دیا ہے(اس سے مراد امام ابو حنیفہ ہیں بروایت حسن بن زیاد کہ مستعمل پانی نجس ہوگا اگرچہ حسن کی روایت ابو حنیفہ سے خاص اسی مسئلہ میں ہے کہ جیسا وہ ذکر کریں گے) کُنویں کا کُل پانی نکالا جائے گا، جیسے کہ کُنویں میں خُون یا شراب کا قطرہ گر جائے، اور حسن نے ابو حنیفہ سے روایت کی کہ اگر بے وضو ہو تو چالیس ڈول پانی نکالا جائے گا اور اگر جنب ہو تو کل پانی نکالا جائے گا،اور یہ روایت مشکل ہے کہ یا تو یہ پانی مستعمل ہوگا یا نہیں تو اگر مستعمل نہیں ہے تو کچھ بھی پانی نہ نکالا جائے گا، کیونکہ وہ بدستور پاک ہے جیسا کہ تھا، اور اگر مستعمل ہوگیا تو حسن کے نزدیک مستعمل پانی نجاست غلیظہ ہے تو کنویں کا کُل پانی نکالنا چاہئے اھ
(۱؎ بدائع الصنائع بیان مقدار الذی یصیربہ المحل نجسا سعید کمپنی کراچی ۱/۷۴)
وانما ننقل ھذہ التمامات لفوائد ستعرفھا بعون اللّٰہ تعالٰی قال وقال فی موضع اٰخر(ای قبل ھذا باوراق وبعد الاول بقلیل) لواختلط الماء المستعمل بالماء القلیل قال بعضھم لایجوز التوضی بہ وان قل وھذا فاسد اما عند محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی فلانہ طاھر لم یغلب علی الماء المطلق فلا یغیرہ عن صفۃ الطھوریۃ کاللبن واما عندھما رضی اللّٰہ تعالی عنہما فلان القلیل مما لایمکن التحرز عنہ یجعل عفوا ثم الکثیر عند محمد مایغلب علی الماء المطلق وعندھما ان یستبین موضع القطرۃ فی الاناء انتھی۔ ۱؎
یہ جو کچھ ہم نے نقل کیا ہے اُن فوائد کی خاطر ہے جن کو آپ اِن شاء اللہ پہچانیں گے، فرمایا اور کہا ایک دوسرے مقام پر(یعنی اس سے چند ورق پہلے اور پہلے سے کچھ بعد) اگر ماء مستعمل تھوڑے پانی میں مل گیا تو بعض کے نزدیک اُس سے وضو جائز نہیں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ فاسد ہے امام محمد کے نزدیک تو اس لئے کہ یہ پاک ہے اور ماء مطلق پر غالب نہیں ہوا ہے، تو اس کو طہوریت کی صفت سے تبدیل نہیں کرے گا جیسے دودھ، اور شیخین کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ تھوڑے سے بچنا ممکن نہیں اس لئے معاف ہے پھر امام محمد کے نزدیک کثیر وہ ہے جو مطلق پانی پر غالب آجائے۔ اور شیخین کے نزدیک یہ ہے کہ قطرہ کی جگہ برتن میں ظاہر ہوجائے، انتہیٰ،
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارت الحقیقیۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۶۸)
قال وقد علمت ان الصحیح المفتی بہ روایۃ محمد عن ابی حنیفۃ رحمھما اللّٰہ تعالیٰ ۲؎ اھ فرمایا تمہیں معلوم ہوچکا ہے کہ صحیح مفتی بہ محمد کی روایت ابو حنیفہ سے ہے اھ
(۲؎ الاشتباہ عن مسألۃ المیاہ)
ای فلا یفسد قلیلہ لان غیر المستعمل اکثر الثانی: قال وقال محمد(۱) فی کتاب الاثار بعد روایۃ حدیث عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا ولا باس ان یغتسل الرجل مع المرأۃ بدأت قبلہ او بدأ قبلھا ۳؎
یعنی قلیل پانی کو فاسد نہیں کرتا ہے کیونکہ غیر مستعمل زائد ہے۔ ثانی: فرمایا، محمد نے کتاب الاثار میں حضرت عائشہ کی اس حدیث۔ کوئی حرج نہیں کہ مرد عورت کے ساتھ غسل کرے خواہ مرد پہل کرے یا عورت۔ کے بعد
(۳؎ کتاب الاثار باب غسل الرجل والمرأۃ من اناء واحد ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ص۱۰)
قال اذا عرفت ھذا لم تتأخر عن الحکم بصحۃ الوضوءمن الفساقی الموضوعۃ فی المدارس عند عدم غلبۃ الظن بغلبۃ الماء المستعمل او وقوع نجاسۃ فی الصغار منھا قال فان قلت اذا تکرر الاستعمال ھل یمنع قلت الظاھر عدم اعتبار ھذا المعنی فی النجس فکیف بالطاھر قال قال فی المبتغی(وھو الثالث) قوم یتوضؤن صفا علی شاطیئ النھر جاز فکذا فی الحوض لان حکم ماء الحوض فی حکم ماء جار انتھی ۴؎۔
فرمایا کہ اس سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مدارس میں جو برتن رکھے ہوتے ہیں اُن سے غسل کرلینے میں حرج نہیں، جبکہ یہ ظن غالب نہ ہو کہ مستعمل پانی غالب ہوگیا ہے یا چھوٹے برتن میں نجاست پڑچکی ہے۔ فرمایا اگر تم یہ کہو کہ جب استعمال بار بار ہو تو کیا وضو یا غسل منع ہے؟ میں کہتا ہوں بظاہر اس وصف کا اعتبار نجس پانی میں نہ ہوگا تو طاہر میں کیسے ہوگا؟ فرمایا کہ انہوں نے مبتغیٰ میں فرمایا(یہ تیسرا ہے) اگر کچھ لوگ صف باندھ کر نہر کے کنارے پر وضو کریں تو جائز ہے، حوض کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ حوض کا پانی جاری پانی کے حکم میں ہے انتہیٰ۔
(۴؎ الاشتباہ عن مسألۃ المیاہ)
قلت: ای ان المنع انما یکون لسقوط الغسالۃ فیھا اولادخال المحدثین ایدیھم فیھا والکل غیر مانع علی ماتقرر عندہ ثم اتی باثار بعضھا فی الملاقی وبعضھا فی الملقی فقال وقدروی ابن ابی شیبۃ عن الحسن فی الجنب یدخل یدہ فی الاناء قبل ان یغسلہا قال یتوضؤبہ ان شاء وعن سعید بن المسیب لاباس الجنب عــہ۱ یدہ فی الاناء قبل ان یغسلھا ۱؎ وعن عائشۃ بنت سعد قالت کان سعد یامرالجاریۃ بتناولہ الطھور من الحوض فتغمس یدھا فیھا فیقال انھا حائض فیقول انا حیضتہا وعن عامر قال کان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یدخلون ایدیھم فی الاناء وھم جنب والنساء حیض لایرون بذلک بأسا یعنی قبل ان یغسلوھا وعن ابن عباس فی الرجل یغتسل من الجنابۃ فینضح فی انائہ من غسلہ فقال لاباس بہ ۲؎
میں کہتا ہوں، یعنی منع اس لئے ہے کہ دھوون اس میں گرتا ہے یا اس لئے کہ بے وضو لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اور یہ سب غیر مانع ہے جیسا کہ ان کے نزدیک مقرر ہے پھر انہوں نے اس کے بعض اثار ملاقی میں اور بعض ملقیٰ میں ذکر کیے پس فرمایا اور تحقیق ابن ابی شیبہ نے حسن سے جنب کے بارے میں روایت کی جو بے دھوئے اپنا ہاتھ برتن میں ڈالے تو فرمایا اگر چاہے تو اُس کے ساتھ وضو کرے، اور سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ جنب اگر اپنا ہاتھ دھونے سے قبل برتن میں ڈال دے تو حرج نہیں، اور عائشہ بنت سعد کہتی ہیں کہ حضرت سعد باندی کو حکم دیتے تھے کہ وہ حوض سے پانی لا کر دے، تو وہ حوض میں اپنا ہاتھ ڈبوتی تھی، تو کہا جاتا تھا کہ وہ حائضہ ہے، تو آپ فرماتے تھے: کیا میں نے اس کو حائضہ کیا ہے؟ اور عامر سے مروی ہے کہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ پانی میں ڈالتے تھے جبکہ وہ جنب ہوتے تھے اور عورتیں حائض ہوتی تھیں اور یہ لوگ بلا ہاتھ دھوئے پانی میں ڈالنے میں ہرج نہیں سمجھتے تھے، اور ابن عباس سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص غسلِ جنابت کرے اور اس کے چھینٹے برتن میں گریں تو اس میں حرج نہیں،
عــ۱ کذا بالاصل ولعلہ ان یدخل الجنب یدہ ۱۲ منہ۔(م)
اصل میں اسی طرح ہے شاید یوں ہو ''ان یدخل الجنب یدہ''۔(ت)
(۱؎ مصنفہ ابن ابی شیبہ فی الرجل یدخل یدہ فی الاناء وہوجنب ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱/۸۲)
(۲؎ مصنفہ ابن ابی شیبہ فی الرجل الجنب یغتسل وینفح من غسلہ فی اناء ایضاً ۱/۷۲)
وعن الحسن وابراھیم والزھری وابی جعفر وابن سیرین نحوہ قال فان قلت فما محمل حدیث لایبولن احدکم فی الماء الدائم ولا یغتسلن فیہ من الجنابۃ ۱؎
اور حسن، ابراہیم: زہری، ابو جعفر اور ابن سیرین نے اسی قسم کی روایت کی،فرمایا اگر کوئی کہے کہ پھر ''لایبولن احدکم فی الماء الدائم الخ'' حدیث کا کیا مفہوم ہوگا؟
(۱؎ مصنّف ابن ابی شیبۃ من کان یکرہ ان یبول فی الماء الراکد ادارۃ القرآن کراچی ۱/۱۴۱)
قلت استدل بہ الکرخی علی عدم جواز التطہیر بالمستعمل ولا یطابق عمومہ فروعھم المذکورۃ فی الماء الکثیر فیحمل علی الکراھۃ وبذلک اخبر راوی الخبر فاخرج ابن ابی شیبۃ عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قال کنا نستحب ان ناخذ من ماء الغدیر ونغتسل بہ ناحیۃ ۲؎
میں کہتا ہوں کرخی نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مستعمل پانی سے طہارت کا حاصل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اس کا عموم زائد پانی میں ان کی فروع سے مطابقت نہیں رکھتا پس اسے کراہت پر محمول کیا جائے گا اور راویِ حدیث نے یہی خبر دی ہے۔ چنانچہ ابن ابی شیبہ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی کہ ہم اس امر کو پسند کرتے تھے کہ تالاب سے پانی لے کر ایک کونے میں جاکر غسل کریں،
(۲؎ مصنف ابن ابی شیبۃ الرجل ینتہی الی البئر والغدیر وہوجنب ادارۃ القرآن کراچی)
قال وما ذکر من الفروع مخالفا لھذا فبناء علی روایۃ النجاسۃ کقولھم لوادخل جنب اومحدث اوحائض یدہ فی الاناء قبل ان یغسلھا فالقیاس انہ یفسد الماء وفی الاستحسان لایفسد للاحتیاج الی الاغتراف حتی لوادخل رجلہ یفسد الماء لانعدام الحاجۃ ولو ادخلھا فی البئر یفسد لانہ محتاج الی ذلک فی البئر لطلب الدلو فجعل عفواً ولو ادخل فی الاناء اوالبئر بعض جسدہ سوی الید والرجل افسدہ لانہ لاحاجۃ الیہ ۳؎
فرمایا اور جو فروع اس کی مخالف ہیں تو وہ نجاست کی روایت پر ہیں، جیسے کسی جُنب یا محدث یا حائض نے اپنا ہاتھ برتن میں بلا دھوئے ڈالا، تو قیاس چاہتا ہے کہ پانی خراب ہوجائے اور استحسان کی رُو سے فاسد نہ ہوگا، کیونکہ چُلّو بھرنے کی حاجت ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے برتن میں پیر ڈال دیا تو پانی خراب ہوجائے گا کیونکہ ضرورت نہیں، اور اگر پیر کُنویں میں ڈالا تو پانی خراب نہ ہوگا کیونکہ کُنویں سے ڈول نکالنے کیلئے پیر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو معاف کردیا گیا ہے اور اگر برتن یا کُنویں میں ہاتھ پَیر کے علاوہ جسم کا اور کوئی حصّہ ڈالا تو پانی خراب ہوجائے گا کیونکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں،
(۳؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۶۹)
وامثال ھذہ(ثم ذکر مسائل واٰثارا لا تتعلق بما نحن فیہ الی ان قال) اور اسی کی مثل دوسری چیزیں ہیں(پھر انہوں نے ایسے مسائل اور آثار ذکر کئے جن کا اس بحث سے تعلق نہیں، پھر فرمایا)
وعن ابی جریج قال قلت لعطاء رأیت رجلا توضأفی ذلک الحوض متکشفا فقال لاباس بہ قدفعلہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما وقد علم انہ یتوضؤ منہ الابیض والاسود وفی روایۃ وکان ینسکب من وضوء الناس فی جوفھا قال وکأنھم رأوا حدیث المستیقظ خاصا بہ او انہ امر تعبدی علی أن ابن ابی شیبۃ قد روی عن أبی معویۃ عن الاعمش عن ابرھیم قال کان اصحاب عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ اذا ذکر عندھم حدیث ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قالوا کیف یصنع أبو ھریرۃ بالمھراس الذی بالمدینۃ ۱؎ اھ فھذا کل ما أتی ÷ بہ فی ھذا الباب فی کتابہ ÷ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی ماٰبہ۔
اور ابن جریج سے مروی ہے اُنہوں نے کہا کہ میں نے عطا سے کہا کہ ایک شخص نے حوض میں ننگے ہو کر غسل کیا تو انہوں نے کہا اس میں حرج نہیں، خود ابن عباس نے ایسا کیا حالانکہ ان کو معلوم تھا کہ اس میں سیاہ وسپید سب ہی غسل کرتے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس حوض میں لوگوں کے وضو کا پانی گرتا تھا، فرمایا کہ غالباً انہوں نے مستیقظ کی حدیث کو اُسی کے ساتھ خاص دیکھا یا یہ کہ یہ امر تعبدی ہے، علاوہ ازیں ابن شیبہ نے ابو معٰویہ سے اعمش سے ابراہیم سے روایت کی کہ ا صحاب عبداللہ کے سامنے جب حضرت ابو ھریرہ کی حدیث کا ذکر آتا تھا تو فرماتے تھے کہ ابو ھریرہ مہراس میں کیا کرتے تھے جو مدینہ میں تھی اھ اس باب میں اس قسم کی چیزیں ذکر کی ہیں۔
(۱؎ رسالہ علامہ قاسم (
اقول: وباللّٰہ التوفیق الکلام فیہ من وجوہ الاوّل من العجب(۱) استنادہ رحمہ اللّٰہ تعالی بعبارۃ المبتغی فلیس فیھا أثر مما ابتغی لان کلامہ عہ فی الحوض الکبیر الاتری إلی قولہ إن ماء الحوض فی حکم ماء جار ومعلوم قطعا أن ذلک انما ھوفی الحوض الکبیر ذی الماء الکثیر اما الصغیر فکالاوانی وقد قال(۱) العلامۃ نفسہ فی ھذہ الرسالۃ أن ماء الاوانی یتنجس بوقوع النجاسۃ وإن لم یتغیر قال وما کان فی غدیر اومستنقع وھو نحو ماء الاوانی فھو ملحق بھا إذلا اثر للمحل۔ ۱؎ اھ
میں بتوفیق الٰہی کہتا ہوں کہ اس میں چند وجوہ سے کلام ہے:اول تعجب ہے کہ انہوں نے مبتغی کی عبارت سے استدلال کیا ہے، حالانکہ وہ جو چاہتے تھے اس میں موجود نہیں، کیونکہ اس میں وہ بڑے حوض کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں جیسا کہ آپ ان کے قول ان ماء الحوض فی حکم ماء جار سے معلوم کرسکتے ہیں اور یہ قطعی معلوم ہے کہ حوض وہی ہوگا جس میں پانی بہت زیادہ ہو اور چھوٹا حوض تو برتنوں کی طرح ہے، خود علامہ نے اس رسالہ میں فرمایا کہ برتنوں کا پانی نجاست کے گرنے سے نجس ہوجائے گا خواہ اس میں تغیر نہ ہو، فرمایا جو پانی تالاب اور گڑھے میں ہو وہ برتنوں کے پانی کے برابر ہو تو وہ بھی برتنوں کے ساتھ ملحق ہے کیونکہ محل کا کوئی اثر نہیں اھ
(۱؎ رسالہ علامہ قاسم (
عــہ: ثم رأیت التصریح بہ فی کلام شیخہ المحقق علی الاطلاق حیث اورد کلام المبتغی فی مسائل الماء الکثیر ثم قال وانما اراد الحوض الکبیر بالضرورۃ اھ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
پھر میں نے اس کی تصریح ان کے شیخ محقق علی الاطلاق کے کلام میں دیکھی جہاں انہوں نے کثیر پانی کے مسائل میں مبتغی کا کلام وارد کیا پھر فرمایا بالضرورۃ اس سے مراد حوضِ کبیر ہے اھ (ت)
الثانی قدمنا(۲)فی نمرۃ۳۸ عن المبتغی التصریح بان الماء یفسد بادخال الکف ۲؎ الثالث کذلک(۳) لاأثر لتأیید شیئ من مقصودہ فی عبارۃ کتاب الاثار فلیس أن الرجل یدخل یدہ فی الاناء قبل الغسل اوالمرأۃ ثم یغتسلان منہ وکیف یظن ھذا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم او ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا وانما مراد محمد رحمہ اللّٰہ تعالی نفی قول من ابطل الوضوء بفضل وضوء المرأۃ مطلقا اواذا کانت جنبا اوحائضا وھما قولان للحنابلۃ والمالکیۃ ولذا قال بدأت قبلہ اوبدأ قبلہا وترجم لہ باب غسل الرجل والمرأۃ من إناء واحد من الجنابۃ ۔۳؎
دوم نمبر ۳۸ میں ہم نے مبتغی کی تصریح کہ پانی ہاتھ ڈالنے سے خراب ہوگا،سوم اسی طرح کتاب الآثار سے بھی ان کی تائید نہیں ملتی ہے، اس میں یہ نہیں کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ دھوئے بغیر برتن میں ڈالے یا عورت ڈالے پھر دونوں اس سے غسل کریں، اور اس قسم کا گمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت عائشہ سے کیسے ہوسکتا ہے، امام محمد کا مقصود تو صرف ان لوگوں کے قول کی تردید ہے جو عورت کے بچے ہوئے پانی سے مطلق مرد کیلئے وضو کرنے کو باطل قرار دیتے ہیں یا جب عورت جنب یا حائض ہو، اوریہی دو قول حنابلہ ومالکیہ کے ہیں، اور اس لئے فرمایا، عورت نے مرد سے پہلے یا مرد نے عورت سے پہلے ابتدا کی ہو، اور اس کا عنوان یہ قائم کیا ''باب عورت اور مرد کے ایک برتن سے غسلِ جنابت کرنے کے بیان میں'' ،
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
(۳؎ کتاب الاثار غسل الرجل والمرأۃ من اناء واحد من الجنابۃ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۰)
الرابع قد اوضح(۴) رضی اللّٰہ تعالی عنہ مرادہ الشریف فی مؤطاہ المنیف إذ قال باب الرجل یغتسل اویتوضأ بسور المرأۃ اخبرنا مالک حدثنا نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالی عنھما أنہ قال لاباس بأن یغتسل الرجل بفضل وضوء المرأۃ مالم تکن جنبا اوحائضا قال محمد لابأس بفضل وضوء المرأۃ وغسلھا وسؤرھا وإن کانت جنبا اوحائضا بلغنا أن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان یغتسل ھو وعائشۃ من إناء واحد یتنازعان الغسل جمیعا فھو فضل غسل المرأۃ الجنب وھو قول ابی حنیفہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔ ۱؎
چہارم امام محمد نے اپنی مراد کی وضاحت اپنی مؤطا میں کردی ہے، فرمایا: باب اس بیان میں کہ مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے۔ ہمیں مالک نے خبر دی، ہم سے نافع نے ابن عمر سے روایت کی، انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں کہ مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے، بشرطیکہ جنب یا حائض نہ ہو۔ محمد نے فرمایا اس میں حرج نہیں کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا جائے خواہ وہ اس کے وضو کا ہو یا غسل کا ہو یا جھوٹا ہو اور خواہ وہ جنب ہو یا حائض ہو، ہمیں حدیث پہنچی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ ایک ہی برتن سے پانی چھین جھپٹ کر غسل کرتے تھے، یہ جنب عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کا ثبوت ہے، اور یہی ابو حنیفہ کا قول ہے۔
(۱؎ موطا امام محمد الرجل یغتسل اویتوضأ بسؤر المرأۃ مجتبائی لاہور ص۸۳)
الخامس: قدمنا(۱) عن الائمۃ ابی بکر الرازی وشمس الائمۃ السرخسی والاسبیجابی والولوالجی وابی زید الدبوسی والزیلعی وابن الھمام وغیرھم الجم الغفیر غفراللّٰہ تعالی لنابھم وعن الخلاصۃ عن نفس کتاب الاصل لمحمد صرائح نصوصہ فی الحکم بخصوصہ فکیف یحمل ھذا الکلام علی خلاف وباللّٰہ التوفیق۔
پنجم ہم نے ابو بکر الرازی، شمس الائمہ سرخسی، اسبیجابی، ولوالجی، ابو زید الدبوسی، زیلعی، ابن الھمام وغیرہم، جلیل القدر ائمہ کی ایک عظیم جماعت سے پہلے ہی نقل کیا ہے اور خلاصہ سے امام محمد کی اصل کی تصریح نقل کی ہے کہ اسی میں خاص حکم بیان کیا ہے تو اس کلام کو اس کے خلاف پر کیونکر محمول کیا جاسکتا ہے وباللہ التوفیق۔ السادس: ماذکر(۲) رحمہ اللّٰہ تعالٰی عن ابن عباس والامام الباقر والحسن البصری وابن سیرین وابراھیم النخعی والزھری رضی اللّٰہ تعالی عنھم لایمس المقصود لانہ فی الملقی والکلام فی الملاقی۔
ششم انہوں نے جو ابن عباس، امام باقر، حسن بصری، ابن سیرین، ابراہیم نخعی اور زہری رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے وہ مقصود سے متعلق نہیں کیونکہ وہ ملقی کے بارے میں ہے جبکہ گفتگو ملاقی کی بابت ہے۔
السابع: ماذکر(۳) أخرا عن عطاء وابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنھم فاخرہ فی الملقی ولا حجۃفی اولہ فإنہ ان کان المراد التوضی فی الحوض بحیث تسقط الغسالۃفیہ کالتوضی فی الطست فھو من الملقی وان کان المراد التوضی بادخال الیدفیہ للاغتراف فقد مر ان ھذا القدر معفو عنہ عند عدم اٰنیۃ وان فرض ان المراد أن یلج الحوض ویتوضأفیہ لم تنتھض أیضا حجۃ إذلیس فیہ بیان قدر الحوض فجاز أن یکون کبیرا۔
ہفتم: جو آخر میں انہوں نے عطا اور ابن عباس سے نقل کیا ہے تو اس کا آخری حصہ ملقی میں ہے اور اس کے اول میں کوئی حجت نہیں، کیونکہ اگر مراد حوض سے وضو کرنا ہے کہ اس طرح اس کا دھوون حوض میں گرے جیسے طشت میں وضو کیا جاتا ہے تو وہ مُلقٰی سے ہے اور اگر مراد یہ ہو کہ حوض میں ہاتھ ڈال کر چلّو بھر کر وضوکیا تو گزر چکا ہے کہ اِس قدر کو شرع نے معاف رکھا ہے جبکہ دوسرے برتن نہ ہوں، اور اگر مراد یہ ہو کہ حوض میں اتر کر وضو کیا تو بھی حجت قائم نہ ہوگی کیونکہ اس میں حوض کے سائز کا ذکر نہیں، پس ممکن ہے کہ حوض بڑا ہو۔
الثامن :کذلک(۱) حدیث سعد رضی اللّٰہ تعالی عنہ فإنہ فی الحیض قبل الانقطاع وقدمنا عن الخانیۃ والخلاصۃ وغیرھما أنھا لاتفسد الماء اذا ذاک لعدم السببین سقوط الفرض واقامۃ القربۃ۔
ہشتم: اسی طرح سعد کی حدیث ہے کیونکہ وہ حیض کے منقطع ہونے سے قبل سے متعلق ہے اور ہم نے خانیہ اور خلاصہ وغیرہما سے نقل کیا کہ یہ پانی کو خراب نہیں کرتا، کیونکہ دونوں سبب ہی موجود نہیں ہیں نہ تو سقوط فرض ہے اور نہ ہی قربۃ کی ادائیگی ہے۔
التاسع: ماذکر(۲) عن عامر فظاھر ان لفظۃ یعنی قبل ان یغسلوھا مدرج فی الحدیث ولا یدری قول من ھو ولاحجۃفی المجہول۔
نہم: جو عامر سے نقل ہوا تو ظاہر یہ ہے کہ "قبل ان یغسلوھا'' کا لفظ حدیث میں مندرج ہے، اور معلوم نہیں کہ یہ کس کا قول ہے، اور مجہول سے استدلال نہیں ہوتا۔
العاشر: ماحکی (۳) عن الحسن یعارضہ مافی البدائع عنہ فی وقوع قلیل ماء مستعمل فی الماء سئل الحسن البصری عن القلیل فقال ومن یملک نشر الماء وھو ما تطایر منہ عندالوضوء وانتشر اشار الی تعذر التحرز عن القلیل فکان القلیل عفو اولا تعذرفی الکثیر فلا یکون عفوا ۱؎ اھ ھذا کلامہ فی الملقی فکیف فی الملاقی
دہم: جو حسن سے نقل کیا گیا ہے وہ اس کے مخالف ہے جو انہی سے بدائع میں نقل کیا گیا ہے یعنی یہ کہ کم پانی میں اگر مستعمل پانی گر جائے تو کیا حکم ہوگا، حسن بصری سے کم کی بابت پوچھا گیا، تو آپ نے جواب دیا کہا پانی کے چھینٹوں کا مالک کون ہے؟ تو کم تو تعذر کی وجہ سے معاف ہے مگر زائد میں یہ صورت نہیں تو وہ معاف نہ ہوگا، ان کی یہ گفتگو مُلْقٰی میں ہے تو ملاقی میں کیا حال ہوگا۔
(۱؎ بدائع الصنائع بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۸)
الحادي عشر: ما(۴) حکی عن سعید فعلی تقدیر الصحۃ عنہ مذھب تابعی فکیف یحتج بہ علی المذھب وکفی(۵) بہ جوابا عن سائر الاثار ۔
یا زدہم: جو سعید سے نقل کیا گیا ہے اگر وہ صحیح ہو تو وہ ایک تابعی کا مذہب ہے تو اس سے مذہب پر کیسے استدلال ہوسکتا ہے اور یہی جواب دوسرے آثار میں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔
الثاني عشر: کذلک(۶) العبارۃ الثالثۃ عن البدائع بمعزل عن المقصود فانھافی الملقی ولا کلام فیہ الا تری إلی قولہ ثم الکثیر عند محمد مایغلب علی الماء المطلق وعندھما ان یستبین مواقع القطرفی الاناء ۱؎ اھ ۔
دوا زدہم: اس طرح بدائع سے نقل کردہ تیسری عبارت بھی مقصود سے الگ ہے کیونکہ وہ مُلْقٰی کی بابت ہے اور اس میں گفتگو نہیں، اس میں یہ بھی ہے کہ ''پھر محمد کے نزدیک کثیر وہ ہے جو مطلق پانی پر غالب آجائے اورشیخین کے نزدیک یہ کہ قطروں کی جگہ برتن میں ظاہر ہوجائے اھ۔
(۱؎ بدائع الصنائع بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۸)
قلت: والوجہ فیہ ان الماء طاھر عند محمد فلا یسلبہ وصف الطھوریۃ مالم یغلب علیہ ونجس عندھمافیما یقال وقطرۃ نجس تنجس کل ماء قلیل غیر ان الذی لایستبین لایعتبر کرشاش البول قدر رؤس الابر فعفی عنہ لعسر التحرز فاین ھذا مما نحن فیہ نعم جل مافی یدہ ماذکر البدائع فی الجدل عن روایۃ ضعیفۃ وتعلیل قول محمدفی مسألۃ جحط ان المستعمل مالاقی البدن وھو اقل من غیرہ۔
میں کہتا ہوں اس میں وجہ یہ ہے کہ محمد کے نزدیک پانی پاک ہے تو ا س کی پاکیزگی کا وصف اس وقت تک اس سے سلب نہ ہوگا جب تک کہ اس پر کوئی نجاست غالب نہ آجائے، اور شیخین کے نزدیک نجس ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے، اور نجس کا ایک قطرہ ہی تمام قلیل پانی کو نجس کردیتا ہے البتہ جو پانی میں ظاہر نہیں ہوتا وہ معتبر نہیں ہوتا ہے جیسے سُوئی کی نوک کے برابر پیشاب کے چھینٹے، تو چونکہ اس سے بچنے میں دشواری ہے اس لئے اس کو معاف کردیا گیا، تو اس کا ہماری بحث سے کیا تعلق ہے، ہاں قابلِ غور وہ عبارت ہے جو انہوں نے بدائع سے نقل کیا ہے، وہ ایک ضعیف روایت پر جھگڑا ہے اور مسئلہ جحط پر محمد کے قول کی توجیہ ہے کہ مستعمل پانی وہ ہے جس کی ملاقات بدن سے ہوئی ہو اور وہ دوسرے سے کم ہے۔
اقول :وباللّٰہ التوفیق وھو المستعان علی افاضۃ التحقیق ایش انا ومن انا حتی اتکلم بین یدی ھذا الامام الھمام ÷ ملک العلماء الکرام ÷ اعلی اللّٰہ درجاتہ فی دار السلام ÷ وافاض علینا برکاتہ علی الدوام ÷ اٰمین ولکن المذھب قد تقرر ÷ والنقل الصحیح الصریح عن الائمۃ الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھم قد توفر ÷ ورأیت ھذا الامام الجلیل قد وافق الاجلۃ الفحول ÷فی تلک النقول ÷ عند ذکر المنقول ÷ وعلمت ان ما یقال فی الجدل ÷ اویبدی فی العلل ÷ لایقضی علی نصوص المذھب ÷ بل ربما لایکون المبدی أیضا الیہ یذھب ÷ کما ھو معلوم عند من خدم ھذا الفن المذھّب فجرّأنی ذلک علی ان اقول وھو:
میں کہتا ہوں وباللہ التوفیق وھوا لمستعان علی افاضۃ التحقیق، میں اور میری حقیقت کیا جو امام ہمام، علمائے کرام کے بادشاہ، اللہ تعالٰی جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے ہم ان کی برکتوں سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں آمین، کے سامنے لب کشائی کروں؟ لیکن مذہب ثابت شدہ ہے اور ائمہ ثلثہ کی تصریحاتِ صحیحہ موجود ہیں، اور اس امام جلیل القدر نے نقول کی حد تک ان ائمہ سے اتفاق کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہماری بحثوں سے مذہب کی تصریحات باطل نہیں قرار پاسکتی ہیں جیسا کہ اس فن کے خُدّام پر واضح ہے، اس لئے میں کچھ معروضات پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور وہ یہ ہیں:
الثالث عشر: الامام(۱) ملک العلماء قدس سرّہ ھو القائل فی بدائعہ بعد ماذکر سقوط حکم الاستعمال فی مواضع الضرورۃ کالیدفی الاناء للاغتراف والرجل فی البئر لطلب الدلو مانصہ ولو ادخل فی الاناء والبئر بعض جسدہ سوی الید والرجل افسدہ لانہ لاحاجۃ الیہ وعلی ھذا الاصل تخرج مسألۃ البئر اذا انغمس الجنب فیھا لطلب الدلولا بنیۃ الاغتسال ولیس علی بدنہ نجاسۃ حقیقیۃ والجملۃفیہ أن الرجل المنغمس اما أن یکون طاھرا اولم یکن بان کان علی بدن نجاسۃ حقیقیۃ اوحکمیۃ کالجنابۃ والحدث وکل وجہ علی وجہین اما ان ینغمس لطلب الدلو اوالتبرد اوالاغتسال وفی المسألۃ حکمان حکم الماء الذی فی البئر وحکم الداخل فیھا فان کان طاھرا وانغمس لطلب الدلو اوللتبرد لایصیر مستعملا بالاجماع لعدم ازالۃ الحدث واقامۃ القربۃ وان انغمس فیھا للاغتسال عہ۱ صار الماء مستعملا عند اصحابنا الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم لوجود اقامۃ القربۃ وعند زفر والشافعی رحمھما اللّٰہ تعالٰی لایصیر مستعملا لانعدام ازالۃ الحدث والرجل طاھرفی الوجہین جمیعا ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں: سیز دہم: امام ملک العلماء قدس سرہ نے بدائع میں ذکر کیا کہ وہ کون سے مقامات ہیں جہاں ضرورتاً پانی کے مستعمل ہونے کا حکم ساقط ہوجاتا ہے، جیسے چُلّو بھرنے کیلئے ہاتھ کا پانی کے برتن میں ڈالنا اور ڈول تلاش کرنے کیلئے پیر کا کنویں میں ڈالنا، پھر انہوں نے فرمایا کہ اگر کسی نے برتن یا کنویں میں اپنا جسم کے بعض حصے کو ڈال دیا ہاتھ پیر کے علاوہ، تو پانی فاسد ہوجائے گا کیونکہ یہ بے ضرورت ہے اور اسی اصل پر کنویں کے مسئلہ کی تخریج کی جائے گی کہ جنب انسان اس میں ڈول کی تلاش میں اُترا ہو بغیر نیت غسل کے بشرطیکہ اس کے جسم پر کوئی حقیقی نجاست موجود نہ ہو، اور خلاصہ یہ کہ اس میں بحث یہ ہے کہ یا تو غوطہ لگانے والا پاک ہوگا یا ناپاک ہوگا، مثلاً یہ کہ اس کے جسم پر حقیقی یا حکمی نجاست موجود ہو جیسے جنابۃ اور حدث، اور ہر وجہ کی پھر دو وجہیں ہیں یا تو غوطہ ڈول کی تلاش میں لگائے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے اور اس مسئلہ میں دو حکم ہیں ایک تو اُس پانی کا حکم جو کنوئیں میں ہے اور دوسرے اُس شخص کا حکم جو کنویں میں داخل ہوا، اگر وہ پاک ہے اور اس نے ڈول نکالنے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے غوطہ لگایا تھا، تو پانی بالاتفاق مستعمل نہ ہوگا، کیونکہ اس پانی سے نہ تو حدث کا ازالہ کیا گیا ہے اور نہ کوئی قربۃ ادا کی گئی ہے اور اگر اس میں غسل کیلئے غوطہ کھایا تو ہمارے اصحاب ثلثہ کے نزدیک پانی مستعمل ہوجائے گا کیونکہ اس سے قربۃ ادا ہوئی ہے اور زفر اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک مستعمل نہ ہوگا کیونکہ اس سے حدث زائل نہیں کیا گیا ہے اور آدمی دونوں صورتوں میں پاک ہے اھ۔
(عہ۱) یرید الاغتسال علی وجہ القربۃ بدلیل التعلیل وھو المرادفی سائر المواضع الاٰتیۃ دون الاغتسال لازالۃ درن اودفع حر فانہ والتبرد سواء لایفید الاستعمال اذا کان من طاھر لانعدام السببین اھ۔ منہ حفظہ ربہ تبارک وتعالٰی۔ (م)
علت کے بیان سے معلوم ہوا ہے کہ قربت کے طور پر غسل مراد ہے اور آئندہ تمام مقامات میں یہی مراد ہے، میل کو دُور کرنے یا گرمی کو دفع کرنے کا غسل مراد نہیں کیونکہ جب طاہر آدمی دفعِ گرمی اور حصولِ ٹھنڈک کیلئے غسل کرے تو پانی مستعمل نہ ہوگا کہ دونوں ازالہ حدث اور اقامت قربت نہیں پائے گئے اھ (ت)
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۹)
فانظر إلی قولہ فی المسألۃ حکمان حکم الماء الذی فی البئر فھل تری ان الذی فی البئر ھو مالاقی سطح بدنہ عند الانغماس کلا بل کل مافی البئر وھو المقصود بیان حکمہ وقد حکم علیہ فی الصورۃ الثانیۃ بانہ صار مستعملا باجماع ائمتنا الثلثۃ رضی اللہ تعالی عنھم وفیھم محمد القائل بطھارتہ وقد حکم بانہ بالانغماس سلب ماء البئر طھوریتہ فظھر ان حکم الاستعمال لیسری فی الماء القلیل کلہ سریان حکم النجاسۃ باجماع اصحابنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم فان السریان علی القول بنجاسۃ الماء المستعمل ظاھر لاخلف فیہ وھذا محمد القائل بالطھارۃ قد حکم بالسریان فکان القول بہ مجمعا علیہ ولم یبق لاحد بالخلاف ید ان بل یظن ان ملک العلماء ماش ھہنا علی جعل طہارۃ الماء المستعمل متفقا علیھا بین اصحابنا کما قال فی(۱) البدائع ومشائخ العراق لم یحققوا الخلاف فقالوا انہ طاھر غیر طھور عند اصحابنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم حتی روی عن القاضی ابی حازم العراقی انہ کان یقول انا نرجو ان لاتثبت روایۃ نجاسۃ الماء المستعمل عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ وھو اختیار المحققین من مشائخنا بما وراء النھر ۱؎ اھ۔
اب ان کے اس قول کو دیکھئے جس میں وُہ فرماتے ہیں :کہ مسئلہ میں دو حکم ہیں ایک تو اس پانی کا حکم جو کنویں میں ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کنویں میں وہی پانی ہے جو غوطہ کے وقت سطحِ بدن سے ملاقی ہوا تھا؟ ہرگز نہیں، بلکہ کُنویں کا کُل پانی ہے اور اسی کا حکم بیان کرنا مقصود ہے، اور دوسری صورت میں اس پر یہی حکم ہوا ہے کہ وہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مستعمل ہوگیا ہے، ان میں امام محمد بھی شامل ہیں جو اس کی طہارت کے قائل ہیں، اور انہوں نے فرمایا کہ غوطہ کی وجہ سے پانی کے پاک کرنے والی صفت سلب ہوگئی ہے تو ظاہر ہوا کہ استعمال کا حکم تھوڑے پانی میں مکمل طور پر جاری ہوتا ہے، جیسے کہ نجاست کا حکم، اس پر ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کیونکہ سرایت کرنا مستعمل پانی کو نجس کہنے کی صورت میں ظاہر ہے، اس میں خلاف نہیں، اور امام محمد جو پانی کی طہارت کے قائل ہیں سرایت کا حکم دے رہے ہیں تو گویا یہ قول اجماعی ہے، اس میں کسی کا خلاف نہیں رہا بلکہ یہاں یہ گمان بھی کیا گیا ہے کہ ملک العلماء نے پانی کے پاک ہونے کو ہمارے اصحاب کے درمیان متفق علیہ قرار دیا ہے جیسا کہ بدائع میں فرمایا ہے، اور مشائخ عراق نے اختلاف کی تحقیق نہیں کی، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ طاہر تو ہے مگر طاہر کرنے والا نہیں، یہ ہمارے اصحاب رضی اللہ عنہم کے نزدیک ہے، یہاں تک کہ قاضی ابو حازم العراقی سے مروی ہے کہ وُہ فرماتے تھے کہ ہمیں توقع ہے کہ مستعمل پانی کی نجاست کی روایت ابو حنیفہ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور یہی ہمارے وراء النہر کے محققین مشائخ کا مختار ہے اھ
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۷)
وذلک لان سوق کلامہ ھھنا کما قدم لاحاطۃ احکام الماء والرجل فی جمیع الصور المحتملۃ ھنا وقد التزم فی کل صورۃ بیان الخلاف بین ائمتنا الثلثۃ ان کان وفصل فی شقی الطاھر حکم الماء فقال فی الاوّل لایصیر مستعملا بالاجماع وفی الثانی صار مستعملا عند ائمتنا الثلثۃ خلافا لزفر والشافعی بقی علیہ بیان حکم الرجل فی المسئلتین عند ائمتنا فجمعھما وقال الرجل طاھرفی الوجھین جمیعا فکما انہ یستحیل عند الذوق السلیم کون ھذا تتمۃ قول زفر والشافعی فیبقی ساکتا عن بیان حکم الرجل فی الوجہین عند ائمتنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم کذلک یبعد ان یکون ھذا قول بعض دون بعض منھم اذلو کان کذلک لبین الخلاف کما بین فی سائر الصور ولم یأت بہ ھکذا مرسلا لایھام الخلاف اعنی عدم الخلاف مع وجودہ لاسیما مع قرینتی الاجماع والاتفاق فی حکم الماءفی ھذین الوجہین فلا ینقدح فی الذھن الاکونہ وفاقیا بین اصحابنا کقرینتیہ السابقتین وھذا لایتأتی الا علی القول بطھارۃ الماء المستعمل حیث لم یتنجس الماء فلا یحتمل ان ینجس الطاھر بخلاف مااذا قیل بنجاسۃ اذیتطرق القول بان الماء تنجس فنجس فلا یکون الرجل طاھر اوفاقا ۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ان کے کلام کی روش جیسا کہ گزرا پانی کے احکام کے احاطہ کیلئے ہے اور مرد کے احکام کی بابت ہے یہ تمام محتمل صورتوں میں ہے، اور انہوں نے یہ التزام کیا ہے کہ ہر صورۃ میں ہمارے ائمہ ثلثہ کا اختلاف بیان کیا ہے اگر واقعۃً اختلاف ہو۔ اور پاک کی دونوں شقوں میں پانی کا حکم تفصیلاً ذکر کیا ہے، پہلی صورت میں کہا بالاجماع مستعمل نہ ہوگا اور دوسری صورت میں کہا مستعمل ہوگیا ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک، اس میں زفر اور شافعی کا خلاف ہے اب ان پر یہ بیان کرنا باقی ہے کہ دونوں مسئلوں میں اُس شخص کا حکم ہمارے ائمہ کے نزدیک کیا ہے، تو ان دونوں کو جمع کردیا اور فرمایا کہ دونوں صورتوں میں وہ شخص پاک ہے، تو جس طرح ذوق سلیم پر یہ گراں ہے کہ اس کو زفر وشافعی کے اقوال کا تتمہ قرار دیا جائے، اور مرد کے حکم میں ہمارے ائمہ دونوں صورتوں میں خاموش رہے، یوں یہ بعید ہے کہ یہ قول بعض کا ہو اور بعض کا نہ ہو، اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ اختلاف کو ضرور بیان کرتے جیسا کہ تمام صورتوں میں بیان کیا ہے لیکن اس کو انہوں نے اس طرح مطلق ذکر نہ کیا تاکہ خلاف کا ایہام ہو یعنی عدمِ خلاف مع وجود خلاف بالخصوص جبکہ دو قرینے اجماع اور اتفاق کے اس امر پر موجود ہیں کہ دونوں صورتوں میں پانی کا حکم کیا ہے لہٰذا ذہن میں جو خلش ہے وہ اس کی ہے کہ یہ مسئلہ ہمارے اصحاب کے درمیان اتفاقی ہے، جیسے اس کے دو سابقہ قرینے ہیں، اور یہ اُسی صورت میں ہوگا جبکہ مستعمل پانی کی طہارت کا قول کیا جائے اس لئے کہ پانی نجس نہیں ہوا، تو یہ احتمال نہیں ہے کہ وہ پاک کو نجس بنا دے بخلاف اس صورت کے کہ پانی کو نجس کہا جائے کہ اس صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ پانی نجس ہوگیا ہے اس لئے اس نے طاہر کو نجس کردیا تو مرد بالاتفاق پاک نہ ہوگا۔
فان قلت الیس ان حکم الاستعمال انما یعطی بعد الانفصال والبدن کلہ شیئ واحدفی الاغتسال فمادام فیہ لم یکن مستعملا واذا صار مستعملا لم یکن فیہ فعن ھذا یخرج طاھرا مع نجاسۃ الماء المستعمل عندھمافیما یذکر عنہما قلت بلی ولکن اما یتمشی علی قول الامام اما عند ابی یوسف فیثبت حکم الاستعمال باول ملاقاۃ البدن الماء قال فی البدائع ابویوسف یقول ان ملاقاۃ اول عضو المحدث الماء یوجب صیرورتہ مستعملا فکذا ملاقاۃ اول عضو الطاھر الماء علی قصد اقامۃ القربۃ واذا صار الماء مستعمل باول الملاقاۃ لا تتحقق طھارۃ بقیۃ الاعضاء بالماء المستعمل ۱؎ اھ۔ فکیف یقول الماء مستعمل والرجل طاھر ،
اگر تُو یہ کہے کہ آیا یہ بات درست نہیں کہ پانی پر مستعمل ہونے کا حکم اُسی وقت لگایا جائیگا جب وہ بدن سے جدا ہو، اور بدن غسل کی صورت میں شیئ واحد ہے، تو جب تک پانی بدن پر رہے گا مستعمل نہ ہوگا اور جو مستعمل ہوگا تو بدن پر نہ رہے گا اسی وجہ سے وہ شخص پاک ہوجاتا ہے اور پانی شیخین کے نزدیک نجس ہوجاتا ہے جیسا کہ شیخین کی بابت مشہور ہے۔ میں کہتا ہوں یہ درست ہے، مگر یہ صرف امام ابو حنیفہ کے قول پر چل سکتا ہے کیونکہ ابویوسف کے نزدیک پانی کے مستعمل ہونے کا حکم بدن سے پہلی ملاقات ہی میں دے دیا جائیگا بدائع میں ہے ابو یوسف نے فرمایا مُحدِث کے پہلے عضو سے ملتے ہی پانی مستعمل ہوجاتا ہے، اور اسی طرح پاک آدمی کے کسی عضو کا بہ نیت ادائیگی قربۃ پانی کو لگنا پانی کو مستعمل بنا دیتا ہے اور جب پانی پہلی ملاقات ہی سے مستعمل ہوگیا تو باقی اعضاء کی طہارت پانی سے نہیں ہوسکتی ہے اھ تو پھر وہ کس طرح فرماتے ہیں کہ پانی مستعمل ہوگیا اور مرد پاک ہے۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
وقد قال فی البدائع ان کان علی یدہ نجاسۃ حکمیۃ فقط فان ادخلھالطلب الدلوا والتبرد یخرج من الاول (ای الماء الاول فان المسألۃ مفروضۃفی الانغماس فی عدۃ میاہ) طاھرا عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی ھو الصحیح لزوال الجنابۃبالانغماس مرۃ واحدۃ وعند ابی یوسف ھو نجس ولا یخرج طاھرا ابدا ۲؎ اھ۔ فان حملتہ ھنا علی حال الضرورۃ لقول البدائع اما ابو یوسف فقد ترک اصلہ عند الضرورۃ علی مایذکر وروی بشر عنہ ان المیاہ کلہا نجسۃ وھو قیاس مذھبہ ۳؎ اھ۔
اور بدائع میں فرمایا کہ اگر اس کے ہاتھ پر صرف نجاست حکمیہ ہے پھر وہ اس کو کنویں میں ڈول نکالنے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے داخل کرتا ہے تو وہ اول (یعنی پہلا پانی کیونکہ مسئلہ اس مفروضہ پر ہے کہ کئی پانیوں میں ہاتھ ڈبویا) سے پاک نکلے گا، یہ ابو حنیفہ اور محمد کے نزدیک ہے، یہی صحیح ہے کیونکہ جنابت ایک ہی مرتبہ ڈبونے سے زائل ہوگئی اور ابو یوسف کے نزدیک وہ نجس ہے، اور وہ کبھی پاک نہ ہوگا۔ اگر آپ اس کو یہاں ضرورت پر محمول کریں کیونکہ بدائع میں ہے ''بہرحال ابو یوسف نے اپنی اصل کو ضرورت کے وقت ترک کیا ہے، جیسا کہ اُن سے مروی ہے اور بشر نے ان سے روایت کی ہے کہ سب کے سب پانی نجس ہیں اور یہی چیز ان کے مذہب سے لگّا کھاتی ہے۔
(۲؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
(۳؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
دفعـہ۸۰۹ ان مامر ھھنا ان الماء مستعمل والرجل طاھر عکس مایقول بہ الامام الثانی حال الضرورۃ الا تری ان مذھبہ فی مسألۃ البئر جحط الحاء ای ان الماء طاھر علی حالہ والرجل لم یطھر کما کان قال فی البدائع ابو یوسف یقول یجب العمل بھذا الاصل ای ماتقدم من ثبوت الحکم باوّل اللقاء) الا عند الضرورۃ کالجنب والمحدث اذا ادخل یدہ فی الاناء لاغتراف الماء لایصیر مستعملا ولا یزول الحدث الی الماء لمکان الضرورۃ لان ھذا الماء لوصار مستعملا انما یصیر مستعملا بازالۃ الحدث ولو ازال الحدث لتنجس ولو تنجس لایزیل الحدث واذا لم یزل الحدث بقی طاھرا واذ بقی طاھرا یزیل الحدث فیقع الدور فقطعنا الدور من الابتداء فقلنا انہ لایزیل الحدث عنہ فبقی ھو بحالہ والماء علی حالہ ۱؎ اھ۔
دفعہ ۸۰۹ جو یہاں گزرا کہ پانی مستعمل ہے اور آدمی پاک ہے، امام ثانی کے قول کے برعکس ہے ضرورت کی حالت میں، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ان کا مذہب کنویں کے مسئلہ ''جحط'' میں ''ح'' ہے یعنی پانی اپنی سابقہ حالت پر پاک ہے اور انسان بھی جیسا کہ پہلے تھا ناپاک ہے۔ بدائع میں فرمایا ابو یوسف فرماتے ہیں اس اصل پر عمل لازم ہے (یعنی یہ کہ پہلی ملاقات ہی میں حکم ثابت ہوجاتا ہے) ہاں ضرورت کے وقت اس کو ترک بھی کرسکتے ہیں، جیسے جنب اور بے وضوجب برتن میں سے پانی لینے کیلئے اپنے ہاتھ ڈبوئیں تو پانی مستعمل نہ ہوگا اور حدث بھی زائل نہ ہوگا کیونکہ یہاں ضرورت موجود ہے، کیونکہ یہ پانی اگر مستعمل ہوتا تو حَدَث کے زائل کرنے کی وجہ سے ہوتا، اور اگر یہ حدث کو زائل کرتا تو ناپاک ہوجاتا اور اگر ناپاک ہوتا تو حدث کو زائل نہ کرتا، اور جب حدث کو زائل نہیں کیا تو پاک رہا اور جب پاک رہا تو حدث کو زائل کرے گا تو دور لازم آئے گا، تو ہم نے دور کو ابتداء ہی سے قطع کیا اور وہ اس طرح کہ یہ پانی حدث کو زائل نہیں کرتا ہے تو انسان اپنی حالت پر رہا اور پانی اپنی حالت پر رہا اھ۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
وبالجملۃ لااستقامۃ لہذا علی قول ابی یوسف اصلا الابان یقال انہ مبنی علی طہارۃ الماء المستعمل عندھم جمیعاوھو قول صحیح قد قواہ ملک العلماء وجعلہ مختار المحققین وان مشی فی مواضع کثیرۃ علی نسبۃ التنجیس الی الشیخین کما اشتھر فعلی ھذا تکون المسألۃ نصا عن ائمتنا الثلثۃ علی سریان حکم الاستعمال الی جمیع الماء مع طھارتہ واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
خلاصہ یہ کہ ابو یوسف کے قول پر یہ قول کسی طرح درست نہیں بیٹھتا ہے، اس کی محض ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ پانی ان تمام ائمہ کے نزدیک پاک ہے اور یہی قول صحیح ہے، اس کو ملک العلماء نے قوی قرار دیا اور اس کو محققین کا مختار قرار دیا، اگرچہ اکثر مقامات پر انہوں نے اس پانی کو شیخین کے نزدیک نجس قرار دیا ہے، جیسا کہ مشہور ہے، اس بنا پر یہ مسئلہ اس امر کی تصریح ہوگا کہ ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک استعمال کا حکم تمام پانی میں جاری ہوگا اور انسان پاک رہے گا، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
الرابع عشر:(۱۱) ثم قال قدس سرہ فی من انغمس فی ثلثۃ اٰبار واکثر عندھما (ای الطرفین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما)ان انغمس لطلب الدلواوالتبرد فالمیاہ باقیۃ علی حالھا وان کان الانغماس للاغتسال فالماء الرابع فصاعدا مستعمل لوجود اقامۃ القربۃ ۱؎ اھ۔ فانظر علی ای شیئ حکم بکونہ مستعملا الماء الرابع فصاعد الا خصوص مالاقی منہ سطح البدن۔
چودھواں: پھر قدس سرہ نے فرمایا کہ جس شخص نے تین یا تین سے زیادہ کُنوؤں میں غوطہ لگایا تو ان دونوں (یعنی طرفین) کے نزدیک اگر ڈول کی تلاش میں لگایا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے، تو پانی اپنی حالت پر باقی رہیں گے، اور اگر غوطہ خوری غسل کیلئے تھی تو چوتھا پانی اور اس کے بعد والے پانی مستعمل ہوں گے کہ ان سے قربۃ ادا ہوئی ہے اھ۔ تو دیکھے انہوں نے کس چیز پر مستعمل ہونے کا حکم لگایا ہے، چوتھا پانی اور اس سے زائد خاص وہ پانی نہیں جس سے مُحدِث ملا۔
قلت والمعنی جمیع المیاہ من اولہا وانما خص الرابع فما فوقہ بالذکر دفعا لتوھم انہ یقتصر حکم الاستعمال علی المیاہ الثلثۃ الاول اذ لاقربۃ بعد التثلیث فالرابع وما بعدہ لایصیر مستعملا لعدم السببین فنبّہ علی بطلانہ بان ذلک عند اتحاد المجلس ولا مساغ لہ فی باب الاٰبار۔
میں کہتا ہوں مراد یہ ہے کہ پہلے پانی سے لے کر تمام پانی مستعمل ہیں، انہوں نے چوتھے اور اُس کے بعد والے کا خصوصی ذکر اس لئے کیا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ استعمال کا حکم صرف تین پانیوں تک ہی محدود ہے کیونکہ تثلیث کے بعد قربۃ باقی نہیں رہتی ہے تو چوتھا اور اس کے بعد والا مستعمل نہ ہوگا، کیونکہ اس میں دونوں سبب موجود نہیں ہیں، تو اس کے بطلان پر انہوں نے متنبّہ کیا کہ یہ اتحاد مجلس کی صورت میں ہے، اور یہ چیز مختلف کُنوؤں میں نہیں پائی جاتی ہے۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
اقول: لکن(۱) یشکل علیہ انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی اما ذکر ھذافی من کان علی بدنہ نجاسۃ حقیقیۃ لان عبارتہ ھکذا وان لم یکن طاھرا فان کان علی بدنہ نجاسۃ حقیقیۃ وھو جنب اولا فانغمس فی ثلثۃ اٰبار اواکثر من ذلک لایخرج من الاولی والثانیۃ طاھرا بالاجماع ویخرج من الثالثۃ طاھرا عند ابی حنیفۃ ومحمد رضی اللہ تعالی عنہما والمیاہ الثلثۃ نجسۃ لکن نجاستھا علی التفاوت علی ماذکرنا وعند ابی یوسف کلھا نجسۃ والرجل نجس سواء انغمس لطلب الدلواوالاغتسال وعندھما ان انغمس لطلب الدلواوالتبرد فالمیاہ باقیۃ علی حالھا ۱؎ ۔۔۔الخ۔ وکیف تبقی علی حالہا والفرض ان علی بدنہ نجاسۃ حقیقیۃ الا ان یقال انتھی الکلام علیھا الی قولہ المیاہ کلھا نجسۃ والرجل نجس وقولہ سواء انغمس لطلب الدلو۔۔۔الخ۔ بیان لعدم اقتصار الحکم عند ابی یوسف علی النجاسۃ الحقیقیۃ بل کذلک الحکمیۃ کما قدمنا ان عند ابی یوسف ھو نجس ولا یخرج طاھرا ابدا فلما استطرد ھذا ابان خلاف الطرفین فیہ ان ھذا التعمیم لیس عندھما ۔
میں کہتا ہوں اس پر اشکال یہ ہے کہ انہوں نے یہ حکم اس شخص کا بیان کیا ہے جس کے بدن پر حقیقی نجاست ہو، ان کی عبارت اس طرح ہے ''پس اگر وہ پاک نہیں ہے تو یا تو اس کے بعدن پر حقیقی نجاست ہوگی، اور وہ جنب ہوگا یا نہیں، ایسا شخص اگر تین کُنووں میں غوطہ لگائے یا زیادہ میں تو پہلے اور دوسرے سے بالاجماع پاک نہیں نکلے گا اور تیسرے سے ابو حنیفہ اور محمد کے نزدیک پاک نکلے گا اور تینوں پانی نجس ہیں، مگر ان کی نجاست مختلف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، اور ابو یوسف کے نزدیک سب نجس ہیں، اور انسان بھی نجس ہے، خواہ اس نے ڈول نکالنے کیلئے غوطہ لگایا ہو یا غسل کرنے کیلئے، اور طرفین کے نزدیک اگر ڈول نکالنے کیلئے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے غوطہ لگایا تو پانی اپنی حالت سابقہ پر باقی ہے۔۔۔ الخ۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ اُس کے بدن پر حقیقی نجاست ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ان کا کلام المیاہ کلھا نجسۃ والرجل نجس پر پورا ہوا اور ان کا قول سواء انغمس لطلب الدلو۔۔۔الخ۔ اس امر کا بیان ہے کہ ابو یوسف کے نزدیک حکم نجاسۃ حقیقیہ پر مقصور نہیں ہے بلکہ حکمیہ کا بھی یہی حال ہے جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ ابو یوسف کے نزدیک انسان ناپاک ہے تو کبھی پاک نہ ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ اس میں طرفین کا خلاف ہے، کہ یہ تعمیم اُن دونوں کے نزدیک نہیں ہے۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی الطہارۃ الحقیقیۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
ویکدرہ ان الکلام المستطرد اذنفی النجاسۃ الحکمیۃ فکیف یقول عندھما ان انغمس لطلب الدلو اوالتبرد فالمیاہ باقیۃ علی حالھا فان عند الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ یصیر الماء مستعملا بازالۃ الحدث وان لم ینوبل کذلک عند محمد ایضا عند التحقیق،
اس پر یہ اعتراض ہے کہ کلام مستطرد نجاست حکمیہ کی بابت ہے تو پھر یہ کیسے فرمایا کہ طرفین کے نزدیک اگر ڈول نکالنے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے غوطہ لگایا تو پانی اپنی حالت پر باقی ہیں کیونکہ امام کے نزدیک پانی حدث کے ازالہ سے مستعمل ہوجائیگا اگرچہ اُس نے نیت نہ کی ہو، بلکہ تحقیق یہ ہے کہ امام محمد کے نزدیک بھی یہی حکم ہے،
وقد(۱) قال فی البدائع فی اٰدمی وقع فی البئر ان کان علی بدنہ نجاسۃ حکمیۃ فعلی قول من جعل ھذا الماء مستعملا والمستعمل نجسا ینزح ماء البئر کلہ ۱؎ کما تقدم ،
بدائع میں ہے کہ اگر کوئی انسان کُنویں میں گر گیا تو اگر اس کے بدن پر نجاست حکمیہ ہے توجولوگ اس پر پانی کو مستعمل قرار دیتے ہیں اور مستعمل کو نجس کہتے ہیں تو انکے نزدیک کنویں کا کُل پانی نکالا جائیگا جیسا کہ گزرا،
(۱؎ بدائع الصنائع فصل اما بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل نجسا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۴)
فاذا کان ھذافی الواقع بلا قصد فکیف فی المنغمس قصد ا للتبرد ثم قد (۲) اتی بشق النجاسۃ الحکمیۃ بعد ھذا وصرح فیہ بالحکم الصحیح علی خلاف ماھنا کما سیأتی وان حمل ماھنا علی الضرورۃ فمع بعدہ یاباہ قولہ اوالتبرد الا ان یقال انھم قد ادخلوہ فیہا کما یأتی فبناء علی ھذا التسامح یصح ھذا الحمل غیر انہ لایسلم فان زید الاستطراد حتی یشمل الطاھر فمع ان التعمیم المذکورفی قول الامام الثانی سواء انغمس۔۔۔الخ لم یکن لیشملہ قطعا یعکر علیہ ان الشمول لایخرج المحدث فکیف یصح اطلاق الحکم بان المیاہ باقیۃ علی حالھا ولا وجہ لتخصیص الحکم بالطاھر فان الکلام مسوق فی شق وان لم یکن طاھرا وقد قدم حکم الطاھر من قبل،
اور جب یہ حکم بلا قصد گرنے والے کا ہو تو پھر اس کا کیا حال ہوگا جو ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے قصداً غوطہ لگائے، پھر انہوں نے نجاست حکمیہ والی شق کا ذکر کیا ہے اور وہاں انہوں نے یہاں کے برعکس حکم صحیح کی صراحت کی، جیسا کہ آئے گا، اور اگر یہاں جو کچھ ہے اس کو ضرورت پر محمول کرلیا جائے تو یہ بعید ہونے کے علاوہ اُن کے قول اوالتبرد کے مناقض ہے، مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کو بھی اسی میں شامل کرلیا ہے، جیسا کہ آئیگا، تو اس تسامح کی بنیاد پر یہ حمل صحیح ہے لیکن محفوظ نہیں، اور اگر استطراد کو زائد کیا جائے اتنا کہ طاہر کو بھی شامل ہوجائے تو ایک تو امام ثانی کے قول کی تعمیم ''سواء انغمس۔۔۔الخ'' اس کو قطعا شامل نہیں، پھر اس پر یہ بھی اشکال ہے کہ شمول بے وضو کو نہیں نکالے گا تو یہ مطلق حکم کیسے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام پانی اپنی حالت پر باقی ہیں، اور حکم کو پاک کے ساتھ مخصوص کردینے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ گفتگو اس شق سے متعلق ہے کہ اگر پاک نہ ہو حالانکہ پاک کا حکم پہلے ہی گزر چکا،
وبالجملۃ فالعبارۃ ھھنافیما وصل الیہ فھمی القاصر لاتخلو عن قلق وحزازۃ ولعلھا وقع فیھا من قلم الناسخین تغییر وتقدیم وتاخیر وکم لہ من نظیر فلیتأمل واللّٰہ تعالی اعلم بمراد خواص عبادہ۔
اور خلاصہ یہ کہ میری ناقص فہم میں یہاں عبارت اضطراب سے خالی نہیں، اور شاید اس میں ناسخین سے کچھ تغیّر، تقدیم یا تاخیر واقع ہوئی ہے، اور اس کی بہت نظائر ہیں، غور کر اور اللہ تعالٰی زیادہ جانتا ہے اپنے خاص بندوں کے ارادوں کو۔
الخامس عشر: ثم قال قدس(۱) سرہ تحت قولہ المار وان کان علی یدہ نجاسۃ حکمیۃ فقط مانصہ واما حکم المیاہ فالماء الاول مستعمل عند ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لوجود ازالۃ الحدث والبواقی علی حالھا لانعدام مایوجب الاستعمال اصلا (ای لان الصورۃ مفروضۃفی الانغماس للتبرد اوطلب الدلو فلانیۃ قربۃ والحدث قدزال بالاول) وعند ابی یوسف ومحمد المیاہ کلھا علی حالھا اما عند محمد فظاھر لانہ لم یوجد اقامۃ القربۃ بشیئ منھا واما ابو یوسف فقد ترک اصلہ عند الضرورۃ علی مایذکر ۱؎ اھ۔ فقد افادان لووجدت نیۃ القربۃ لصار الماء مستعملا عند الامام الربانیّ ایضا بل ھو کذلک فان التحقیق انہ لایقصر الاستعمال علی نیۃ القربۃ کما تقدم۔
پندرھواں، پھر انہوں نے ان کے گزرے ہوئے قول ''وان کان علی یدہ نجاسۃ حکمیۃ فقط'' کے تحت فرمایا بہر حال پانی ، تو پہلا پانی امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستعمل ہے کیونکہ اس میں حدث کا ازالہ پایا جاتا ہے اور باقی اپنے حال پر باقی ہیں کہ وہاں کوئی ایسا سبب موجود نہیں جس کی بنا پر ان کو مستعمل قرار دیا جائے (یعنی مفروضہ تو یہ ہے کہ ٹھنڈک حاصل کرنے یا ڈول کی طلب میں غوطہ لگایا اور قربۃ کی نیت نہیں ہے، اور حدث پہلے ہی سے زائل ہوگیا) اور ابو یوسف اور محمد کے نزدیک کل پانی اپنی حالت پر ہیں، محمد کے نزدیک تو ظاہر ہے کیونکہ ان سے قربۃ ادا نہیں کی گئی ہے اور ابو یوسف نے ضرورت کی وجہ سے اپنی اصل کو چھوڑا ہے جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے اھ ۔پس انہوں نے بتایا کہ اگر قربۃ کی نیت ہوگی تو پانی مستعمل ہوگاامام ربانی کے نزدیک، بلکہ حقیقۃً یہی ہے کیونکہ تحقیق یہ ہے کہ مستعمل ہونا نیتِ قربۃ پر موقوف نہیں جیسا کہ گزرا۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصلفی الطہارۃ الحقیقیۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۷۰)
اقول: فھذہ صرائح نصوص المسألۃ عن ائمۃ المذھب رضی اللّٰہ تعالی عنھم اتی بھا ملک العلماء فلا یعارضھا ماوقع منہ فی تعلیل اوجدل اما الجدل فظاھر والعلۃ(۱) ان صحت لزمت صحۃ الحکم ولاعکس لجواز ان تکون ھٰذہ باطلۃ والحکم معللا بعلۃ اخری وھھنا کذلک فان القول بنجاسۃ المستعمل معلل بوجوہ اخر ذکرت فی البدائع نفسھا والہدایۃ والکافی والتبیین وغیرھا وھذا العلامۃ قاسم قدرد علی ملک العلماء استدلالہ بھذا الحدیث فی رسالتہ ھذہ وقد تقدم قولہ انہ لایطابق عمومہ فروعھم المذکورۃفی الماء الکثیرفیحمل علی الکراھۃ۔۔۔الخ وقال قبلہ حیث رد بعض کلام البدائع قولا قولا قولہ وروی عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انہ قال لایبولن احدکم فی الماء الدائم ولا یغتسلن فیہ من الجنابۃ من غیر فصل بین دائم ودائم۔۔۔الخ یقال علیہ انظر ھل انت من اکبر مخالفی ھذا الحدیث حیث قلت انت ومشائخک انہ یتوضؤ من الجانب الاخرفی المرئیۃ ویتوضؤ من ای جانب کان فی غیر المرئیۃ کما اذا بال فیہ انسان اواغتسل جنب ام انت من العاملین بہ فانہ لااعجب ممن لیستدل بحدیث ھو احد من خالفہ اھ۔ وھذا مااشار الیہ بقول لایطابق عمومہ۔۔۔الخ۔
میں کہتا ہوں یہ تصریحات ہیں جو اس مسئلہ میں ائمہ مذہب سے منقول ہیں، ان کو ملک العلماء نے ذکر کیا ہے، ان کے معارض وہ عبارت نہیں ہوسکتی ہے جو انہوں نے علّت کے بیان کے وقت یا جدل کے طور پر بیان کی ہے، جدل کی بات تو ظاہر ہے اور علّۃ اگر صحیح ہوئی تو حکم کی صحت کو لازم ہوگی، اور اس کا عکس نہ ہوگا، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ علت باطلہ ہو اور حکم دراصل کسی اور علۃ کی وجہ سے ہو، اور یہاں یہی صورت حال ہے، کیونکہ مستعمل پانی کی نجاست کا قول دوسری علتوں کی وجہ سے ہے جو بدائع میں مذکور ہیں، ہدایہ، کافی اور تبیین وغیرہا میں بھی یہی ہے، اور علّامہ قاسم نے اپنے رسالہ میں ملک العلماء کے اس حدیث سے استدلال پر رَد کیا ہے اور ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اس کے عموم اور ان کے مذکورہ فروع میں مطابقت نہیں پائی جاتی ہے جو ماءِ کثیر سے متعلق ہیں تو اس کو کراہت پر محمول کیا جائے گا الخ اور اس سے قبل فرمایا جہاں انہوں نے بدائع کے بعض کلام کو رد کیا ہے، اور ایک ایک بات کا رد کیا ہے کہ ان کا قول کہ روایت کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ ہی غسلِ جنابت کرے، اس میں کوئی تفصیل نہیں ہے ایک ٹھہرے ہوئے اور دوسرے ٹھہرے ہوئے کے درمیان ۔۔۔الخ اس پر یہ کہا جائے گا غور کرو کیا تم اس حدیث کے بڑے مخالفین میں سے ہو۔ کیونکہ تم نے اور تمہارے مشائخ نے کہا ہے کہ اگر نجاست نظر آرہی ہو تو دوسرے کنارے سے وضو کرلے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو جس کنارے سے چاہے وضو کرے، جیسے کسی انسان نے اس پانی میں پیشاب کیا یا جنب نے غسل کیا۔ یا تم اس حدیث پر عمل کرنے والوں میں سے ہو، اس سے زیادہ تعجب خیز بات کیا ہوگی کہ جو شخص اس حدیث کا مخالف ہے وہی اس حدیث سے استدلال بھی کرتا ہے اھ اور یہ ہے وہ بات جس کی طرف انہوں نے اپنے قول لایطابق عمومہ میں اشارہ کیا تھا الخ۔
اقول: رحمکم اللّٰہ جاوزتم الحدفی الاخذ والرد فاولا ماقالوہ(۱) انما ھوفی الکثیر والکثیر ملحق بالجاری والحدیث فی الدائم ثانیا: الکراھۃ(۲) ان ارید بہا کراھۃ التحریم لم یلائم قولہ وبذلک اخبر راوی الخبر قال کنا نستحب الی اخرمامر مع انھا لاتفید کم اذلولم یتغیر بہ الماء لم یکن وجہ للنھی عنہ الاتری ان الماء الکثیر لعدم تغیرہ یجوز الاغتسال فیہ اجماعا کمافی البدائع وقد استدل ھو علی نجاسۃ الماء المستعمل وشیخکم المحقق علی الاطلاق علی انسلاب الطہوریۃ عنہ بھذا النھی المفید کراھۃ التحریم وان ارید بہا کراھۃ التنزیہ فعدول عن الحقیقۃ من دون ضرورۃ ملجئۃ ولا یلائمہا نون التأکیدفی قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لایغتسلن وقددفع العلامۃ الاکمل فی العنایۃ کراھۃ التنزیہ بان تقییدہ بالدائم ینافیہ فان الماء الجاری یشارکہ فی ذلک المعنی فان البول کما انہ لیس بادب فی الماء الدائم فکذلک فی الجاری فلا یکون للتقیید فائدۃ وکلام الشارع مصون عن ذلک ۱؎ اھ۔ وقد قال فی المجتبی اما البول فیہ فمکروہ(۱) قلیلا کان اوکثیرا دائما اوجاریا وسمی ابو حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ من یبول فی الماء الجاری جاھلا ۲؎ اھ۔ کمافی ابن الشلبی علی التبیین۔
میں کہتا ہوں اللہ تم پر رحم کرے تم نے قبول کرنے اور رد کرنے دونوں میں حد سے تجاوز کیا ہے اول تو یہ کہ جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے وہ کثیر پانی کی بابت ہے اور کثیر جاری کے حکم میں ہے اور حدیث ٹھہرے ہوئے پانی سے متعلق ہے۔
ثانیاً اگر کراہت سے مراد کراہت تحریم ہے تو یہ ان کے قول کے موافق نہ ہوگی، اور اسی کی خبر حدیث کے راوی نے دی فرمایا ''کنا نستحب الخ'' پھر یہ آپ کیلئے مفید نہیں، اس لئے کہ اگر اس کی وجہ سے پانی میں تغیر نہ ہوتا تو اس سے منع کرنے کی کوئی وجہ نہ ہوتی، مثلاً کثیر پانی کہ وہ متغیر نہیں ہوتا اس سے غسل کرنا بالاجماع جائز ہے، جیسا کہ بدائع میں ہے اور اس نے خود اس سے مستعمل پانی کے نجس ہونے پر استدلال کیا ہے اور آپ کے شیخ محقق نے پانی سے طہوریۃ کے سلب ہوجانے پر استدلال کیا ہے، اور دلیل، یہی نہی ہے جو کراہت تحریمی کو ظاہر کرتی ہے اور اگر اس سے کراہت تنزیہی کا ارادہ کیا جائے تو یہ حقیقت سے بلا اشد ضرورت کے انحراف کرنا ہے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ''لایغتسلن میں جو نُون تاکید ہے اس سے بھی اس کی مطابقت نہیں، اور علامہ اکمل نے عنایہ میں کراہت تنزیہ کو دفع کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کو ''دائم'' کی قید سے مقید کرنا اس کے منافی ہے کیونکہ جاری پانی بھی اس کا شریک ہے کرا ہۃ تنزیہ میں۔ کیونکہ پیشاب کرنا ٹھہرے ہوئے پانی میں خلافِ ادب ہے اس طرح جاری پانی میں مکروہ ہے تو مقید کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، اور شارع کا کلام اس سے محفوظ ہے اھ۔ اور مجتبی میں ہے کہ پانی میں خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، ٹھہرا ہوا ہو یا جاری، پیشاب کرنا مکروہ ہے، اور ابو حنیفہ نے جاری پانی میں پیشاب کرنے والے کو جاہل کہا ہے اھ جیسا کہ ابن شلبی علی التبیین میں ہے۔
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۴)
(۲؎ شلبی علی تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ الامیریۃ ببولاق مصر ۱/۲۱)
اقول: المقرر(۲) عندنا ان نصوص الشارع لانظرفیھا الی مفہوم الخالف ویجوز ان یکون ذکر الدائم نظرا الی الحکم الثانی ھو النھی عن الاغتسال۔ وثالثا: ھب انھم(۳) لم یعملوافی بعض الصور باطلاقہ فلیس من قید اطلاقا اوخصص عموما لدلیل لاح ممنوعا عن التمسک بہ فی شیئ اخر ھذا وکذا عدم استعمال الماء بوقوع محدث فی البئر عند محمد علی تسلیمہ لم لا تعللونہ بما تقرر عندکم وصرحتم بہ غیر مرۃ ان محمدا لا یقول بالاستعمال الا بنیۃ القربۃ وای نیۃ للساقط وانتم المصرحون (۴) کما تقدم ان الطاھران انغمس فیھا للاغتسال صار الماء مستعملا عند اصحابنا الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھم فلم لم یقل محمد ثم ان غیر المستعمل اکثر فلا یخرج عن کونہ طھوراً۔
میں کہتا ہوں ہمارے نزدیک طے شدہ اصول یہ ہے کہ شارع کے نصوص میں مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں، یہ جائز ہے کہ دائم کی قید دوسرے حکم کے لحاظ سے ہو، یعنی غسل کی ممانعت۔
ثالثا: مان لیا کہ بعض صورتوں میں انہوں نے اس کے اطلاق پر عمل نہیں کیا ہے تو جس نے کسی مطلق کو مقید کیا ہو یا عام کو خاص کیا ہو کسی دلیل کی بناء پر، اس کو یہ ممنوع نہیں ہے کہ وہ اس جگہ سے کسی اور چیز کا استدلال کرے، اور اسی طرح پانی کا مستعمل نہ ہونا کسی مُحدِث کے کنویں میں گرجانے کی وجہ سے محمد کے نزدیک، اگر اس کو تسلیم بھی کرلیا جائے، تو آپ اس کی علت وہ کیوں نہیں بتاتے ہو جو تمہارے نزدیک مقرر ہے، اور تم نے ایک سے زائد مرتبہ اس کی وضاحت کی ہے کہ محمد فرماتے ہیں کہ پانی اس وقت مستعمل ہوگا جب قربۃ کی نیت ہو، اور جو پانی میں گرجائے اس کی کیا نیت ہوگی! اور تم نے تصریح کی ہے جیسا کہ گزرا کہ اگر پاک آدمی کنویں میں غوطہ لگائے نہانے کیلئے تو پانی ہمارے اصحاب ثلثہ کے نزدیک مستعمل ہوجائے گا، تو محمد نے کیوں نہیں کہا پھر غیر مستعمل اکثر ہے تو طہور ہونے سے خارج نہ ہوگا۔
السادس عشر: الروایۃ(۱)الصحیحۃ المعتمدۃفی مسألۃ جحط رابعۃ لم تشملھا الحروف وھی طم ای ان الرجل طاھر زال حدثہ والماء طاھر غیر طھور قال فی الھدایۃ والکافی والتبیین والسراج وغیرھا انھا اوفق الروایات ۱؎ وفی الدر انہ الاصح ۲؎
سولھواں: صحیح روایت اور معتمد روایت مسئلہ جحط میں چوتھی ہے اس کو حروف شامل نہیں اور وہ طم ہیں یعنی انسان پاک ہے اس کا حدث زائل ہوگیا ہے اور پانی پاک توہے مگر طہور (پاک کرنے والا) نہیں ہے، ہدایہ، کافی، تبیین اور سراج وغیرہا میں ہے کہ یہ تمام روایتوں میں سب سے زیادہ جامع ہے، اور دُر میں اسی کو اَصَحّ کہا،
(۱؎ شلبی علی تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ الامیریہ ببولاق مصر ۱/۲۵)
(۲؎ دُرمختار باب میاہ مجتبائی دہلی ۱/۷)
وفی الفتح وشرح المجمع انھا الروایۃ المصححۃ ۳؎ وفی البحر انہ المذھب المختار وانہ الحکم علی الصحیح ۴؎ فانقطعت الشبھۃ رأسا واستقر بحمداللہ عرش التحقیق علی ان الاستعمال یشیع فی الماء القلیل سریان النجاسۃ۔
اور فتح اور شرح مجمع میں کہا کہ یہی مصححہ روایت ہے اور بحر میں اسی کو مذہب مختار قرار دیا ہے اور یہ کہ صحیح قول کے مطابق حکم یہی ہے تو شبہ بالکل منقطع ہوگیا اور یہ امر محقق ہوگیا کہ مستعمل ہونا تھوڑے پانی میں اسی طرح سرایت کرتا ہے جس طرح نجاست سرایت کرتی ہے۔
(۳ ؎ بحرا لرائق کتاب الطھارۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۹۷)
(۴؎ بحرا لرائق کتاب الطھارۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۹۸)
السابع عشر: فرق قدس سرہ فی الحدث والنجاسۃ حیث تشیع ولا یشیع بان النجس یختلط بالطاھر علی وجہ لایمکن التمییز بینھمافیحکم بنجاسۃ الکل۔
سترھواں: قدس سرہ نے حَدَث اور نجاسۃ میں فرق کیا ہے کہ نجاست سرایت کرتی ہے اور حدث سرایت نہیں کرتا ہے کیونکہ نجس پاک چیز کے ساتھ اس طرح مل جاتا ہے کہ دونوں میں امتیاز نہیں ہوسکتا ہے تو کل پر نجاست کا حکم ہوگا۔
اقول: اولا(۱) الوجہ قاصر عن المدعی فرب نجس لایختلط ورب نجس یختلط ویمکن التمییز فلم یسری الحکم الی جمیع الماء القلیل ارأیتم لووقع فی الغدیر شعرۃ من خنزیر افلا یتنجس الا القدر الذی لاقاھا اذلا شیئ ھناک یختلط فلا یمکن التمییز ھذا لایقول بہ احد منا فان قلت تنجس بھا ماولیھا وھو مختلط بسائر الاجزاء بحیث لایمکن التمییز اقول فصبغ نجس القی فی غدیر یلزم ان لاینجس الاماینصبغ بہ لحصول التمییز باللون فان قلت مالم ینصبغ جاور المنصبغ فسری الحکم الی الکل۔
میں کہتا ہوں اول وجہ مدعی سے قاصر ہے کہ بہت سے نجس مختلط نہیں ہوتے اور بہت سے نجس مختلط ہوتے ہیں اور ممتاز رہتے ہیں تو حکم قلیل پانی میں مکمل طور پر نہ ہوگا مثلاً تالاب میں خنزیر کا ایک بال گرجائے تو کیا صرف وہی نجس ہوگا جو بال سے متصل ہوا ہو کہ اس میں کوئی چیز مختلط ہونے والی نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا امتیاز نہیں ہوسکتا ہے، یہ قول ہم سے کسی کا نہیں، اگر یہ کہا جائے کہ اس سے وہ پانی نجس ہوگا جو اُس سے متصل ہے اور وہ تمام اجزاء سے ملا ہوا ہے کہ تمیز ممکن نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ تھوڑی سی نجس قے کا تالاب میں مل جانا اس امر کو مستلزم ہے کہ صرف اتنا پانی ہی نجس ہو جو اس میں ملا ہو کیونکہ یہاں رنگ کی وجہ سے امتیاز حاصل ہوجائیگا۔ اگر کہا جائے کہ جو پانی قے سے آلود ہوگیا وہ اُس پانی سے مل جائے گا جو آلودہ نہیں ہوا ہے اس طرح کل پانی نجس ہوگیا۔
اقول : ھذہ طریقۃ اخری غیر ماسلک الامام ملک العلماء من ان الحکم بنجاسۃ الکل لعدم التمییز لاللسریان بالجوار وسیأتیک الرد علیھافی المائع وقد انکرھافی البدائع بقولہ قدس سرہ الشرع ورد بتنجیس جار النجس لابتنجیس جارجار النجس الا تری (۲) ان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم حکم بطھارۃماجاور السمن الذی جاور الفأرۃ وحکم بنجاسۃ ماجاور الفارۃ وھذا لان جار جارالنجس لوحکم بنجاسۃ لحکم ایضا بنجاسۃ ماجاور جار جار النجس الی مالانھایۃ لہ فیودی الی ان قطرۃ من بول اوفأرۃ لووقعت فی بحر عظیم ان یتنجس جمیع مائہ لاتصال بین اجزائہ وذلک فاسد ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں یہ ملک العلماء کے راستے کے علاوہ ایک اور راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ کل پانی کی نجاست کا حکم عدمِ تمییز کی بناء پر ہے اس لئے نہیں کہ متصل پانی میں اس نے سرایت کی ہے، اس کی تردید آپ مائع کے بیان میں پڑھ لیں گے، اور بدائع میں اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ شریعت نے ناپاک کے متصل کے ناپاک ہونے کا حکم دیا ہے یہ نہیں کہ متصل کے متصل کی ناپاکی کا حکم دیا ہے مثلاً یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پانی کے پاک ہونے کا حکم دیا جو اس گھی سے متصل ہے جو چُوہے سے متصل ہے اور جو گھی چُوہے کے متصل ہے وہ ناپاک ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نجس کے متصل کا متصل اگر اس پر نجاسۃ کا حکم لگایا جائے تو جو متصل کے متصل کے ساتھ متصل ہوگا اس پر بھی نجاست کا حکم لگایا جائے گا اور یہ سلسلہ لامتنا ہی چلے گا، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر پیشاب کا ایک قطرہ یا چُوہیا بڑے سمندر میں گرجائے تو تمام کا تمام پانی ناپاک ہوجائے گا کیونکہ پانی کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے متصل ہیں،ا ور یہ غلط ہے اھ۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل اما بیان المقدار الذی یصیربہ المحل نجساً ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۵)
وقد کان سنح لی فی الرد علی ھذا ثلثۃ اوجہ ذکرتھا علی ھامش نسختی البدائع اولھا: التقریرفی الجامد(۱) فلا سرایۃ وثانیھا: الشرع(۲) جعل الکثیر والجاری لایقبلان النجاسۃ مالم یتغیر احد اوصافھما والماء القلیل شیئ واحد فقیہ جار الجار جار۔
میں نے اس کی تردید تین طرح کی ہے اور یہ وجوہ میں نے اپنے بدائع کے نسخہ کے حاشیہ پر ذکر کی ہیں:
(۱)گفتگو جامد چیز میں ہے تو سرایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
) ۲) شریعت نے کثیر اور جاری پانی کے بارے میں یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس وقت تک ناپاک نہ ہوگا جب تک اس کے اوصاف میں سے کسی ایک وصف میں تبدیلی نہ ہوجائے اور تھوڑا پانی شیئ واحد ہے، اس میں متصل کا متصل، متصل ہے۔
وثالثھا: ذکر الشیخ الامام ھذا لابداء الفرق فی حکم الفارۃ والھر والشاۃ الواقعۃفی البئر بنزح عشرین واربعین والکل بان الفارۃ یجاورھا من الماء عشرون دلو الصغر جثتہا فحکم بنجاسۃ ھذا القدر لان ماوراءہ لم یجاور الفأرۃ بل جاور ماجاور الفأرۃ والشرع ورد الی اخرمامر،
) ۳) شیخ امام نے یہ اس لئے بیان کیا ہے کہ چُوہیا، بلّی اور بکری جو کنویں میں گِر جائے ان کے حکم میں فرق ظاہر ہوجائے، بیس، چالیس ڈول اور کل پانی نکالا جائیگا۔ چُوہیا کے ساتھ پانی کے بیس ڈول متصل ہیں کیونکہ اس کا جسم چھوٹا ہے تو اتنی ہی مقدار پانی کی نکالی جائے گی کیونکہ اس مقدار کے علاوہ پانی چُوہیا کے متصل نہیں ہے بلکہ جو چُوہیا سے متصل ہے اس کے متصل ہے اور حکم شرعی اس کی مثل وارد ہوا ہے۔۔الخ۔
فکتبت(۳) علیہ ان لوفرض عدم التنجیس بالفأرۃ الالقدر عشرین لزم فساد الکل للاختلاط بحیث لایمتاز ثم رأیت العلامۃ ابن امیرالحاج ذکرفی الحلیۃ الوجھین الاولین بعبارات مطنبۃ مفیدۃ کما ھو دابہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فقال فی الاول معلوم ان الماء لیس بشیئ کثیف یمنع کثافتہ سریان النجاسۃ الواقعۃفیہ من محلھا الذی حلت بہ الی غیرہ کمافی السمن الجامد لیقع الاقتصارفی التنجیس علی الجار المتصل دون غیرہ بل ھو مائع رقیق لطیف تعین لطافتہ ورقۃ اجزائہ مع الاضطراب العارض لہ بواسطۃ الاخذ منہ علی سرایۃ النجاسۃ الی سائر اجزائہ ثم ذکر الثانی بعد کلام اٰخر ۱؎۔
میں نے اس پر لکھا ہے کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ چُوہیا سے صرف بیس ڈولوں کی مقدار نجس ہوگی تو کُل کا فساد لازم آئیگا کہ اختلاط ہوا ہے اور امتیاز ختم ہوگیا۔ پھر میں نے علامہ ابن امیر الحاج کو دیکھا کہ انہوں نے حلیہ میں دو پہلی وجوہ مفصل عبارات سے لکھی ہیں، جیسا کہ ان کا اسلوب ہے، پہلی میں فرمایا یہ معلوم ہے کہ پانی کثیف شیئ نہیں کہ اس کی کثافت اس نجاست کی سرایت کو مانع ہو جو اس میں گری ہے، جیسا جامد گھی، تاکہ ناپاکی صرف متصل تک ہی محدود رہے دوسرے تک تجاوز نہ کرے، بلکہ پانی مائع ہے رقیق ہے لطیف ہے اس کی لطافت واجزاء کی رقت عارض ہونے والے اضطراب کے ساتھ، دوسرے تمام اجزاء تک نجاست کے سرایت کرنے میں معاون ہے، پھر دوسری وجہ دوسرے کلام کے بعد ذکر کی۔ (ت)
(۱؎ حلیہ)
والاٰن اقول: السمن(۱) الجامد ھل یقبل التنجس بجوار النجس ام لاعلی الثانی لم امر صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم بتقویر ماحول الفأرۃ وسلمتم نجاستہ وعلی الاول اذا فرض ان جار النجس نجس وھلم جراوجب تنجیس مایجاور ھذا المأمور بتقویرہ لکونہ مجاورا لھذا النجس وان لم یجاور الفارۃ فلا یجدی الفرق باللطافۃ والکثافۃ بل لقائل ان یقول(۱) اذا تنجس السمن حولھا فما یجاور ھذا السمن لیس جار جار النجس بل جار النجس وھکذا الی الاخر فان فرق بان السمن متنجس لانجس وجار النجس یتنجس لاجار المتنجس لزم ان لایتنجس الماء اذا القی فیہ ھذا السمن بعد التقویر لانہ لاقی متنجسا لانجسا وبہ یظھر مافی کلام ملک العلماء ویطوی ھذا البساط من اولہ۔
اور اب میں کہتا ہوں منجمد گھی نجس کے ملنے کی وجہ سے نجس ہونے کو قبول کرے گا یا نہیں! دوسری تقدیر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چُوہیا کے ارد گرد کے گھی کو دُور کرنے کا حکم کیوں فرمایا اور تم نے اس کی نجاست تسلیم کرلی، اور پہلی تقدیر پر جب یہ فرض کیا گیا کہ نجس کا پڑوسی نجس ہے اور ھلم جرا تو جو حصہ صفائی والی جگہ سے ملا ہوا ہے اس کو نجس کر دے گا کیونکہ وہ اس نجس کے مجاور ہے اگرچہ چُوہیا کے مجاور نہیں تو لطافت وکثافت کا فرق کچھ مفید نہ ہوگا، بلکہ کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ جب چُوہیا کے اردگرد گھی نجس ہوگیا تو جو اس گھی کے مُجاور ہے وہ نجس کے متصل کا متصل نہیں ہے بلکہ نجس کا متصل ہے اور اسی طرح اخیر تک، اگر یہ فرق کیا جائے کہ گھی متنجس ہے نجس نہیں ہے اور نجس کا متصل نجس ہوتا ہے نہ کہ متنجس کا متصل، تو لازم آئے گا کہ پانی اس وقت نجس نہ ہو جب اس میں گھی نتھارنے کے بعد ملایا جائے کیونکہ اس کی ملاقات متنجس سے ہوئی نجس سے نہیں ہوئی، اس سے ملک العلماء کے کلام کی خامی ظاہر ہوجاتی ہے اور بساط ابتدأ سے لپیٹ دی جاتی ہے۔
فاقول: وباللّٰہ التوفیق لیس(۲) سبب تنجس الطاھر مجاورتہ لنجس الا تری(۳) ان لولف ثوب نجس فی ثوب طاھر لم یتنجس الطاھر اذا کانا یابسین بل ولا اذا کانت فی النجس بقیۃ نداوۃ یظھر بھافی الطاھر مجرد اثر کمافی الدر والشامی وبیناہ فی فتاوٰنا بل ھو اکتساب الطاھر حکم النجاسۃ عند لقاء النجس وذلک یحصل فی الطاھر المائع القلیل بمجرد اللقاء وان کان النجس یابسالا بلۃفیہ وفی الطاھر الغیر المائع بانتقال البلۃ النجسۃ الیہ فلا بد لتنجیسہ من بلۃ تنفصل ثم یختلف الامر باختلاف جرم الطاھر لطافۃ وکثافۃ فالسرایۃفی اللطیف اکثر منھافی الکثیف وکذلک قد یختلف باختلاف زمن التجاور اذا عرفت ھذا فالسمن یقور ویلقی منہ قدر مایظن سرایۃ البلۃ النجسۃ الیہ ویبقی الباقی طاھرا لان التنجس لم یکن لمجاورۃ النجس حتی یقال ان السمن الذی بعدہ مجاور لہذا النجس بل لسرایۃ البلۃ وقد انتھت(۱) فظھران استشھاد ملک العلماء بمسألۃ السمن علی التفرقۃ بین الفأرۃ وما فوقھا لاوجہ لہ وانما الاٰبار تتبع الاٰثار،
میں کہتا ہوں وباللہ التوفیق، پاک کا ناپاک ہونا اس لئے نہیں ہے کہ وہ ناپاک سے متصل ہے مثلاً یہ کہ اگر ایک نجس کپڑا پاک کپڑے میں لپیٹ دیا جائے تو پاک ناپاک نہ ہوگا، اگر وہ دونوں خشک ہیں بلکہ اس صورت میں بھی نجس نہ ہوگا جبکہ ناپاک میں تری باقی ہو جس کا محض اثر پاک پر ظاہر ہو، جیسا کہ دُر اور شامی میں ہے اور ہم نے اس کو اپنے فتاوی میں بیان کیا ہے بلکہ وہ پاک کا نجاست کے حکم کو حاصل کرنا ہے نجس کے ملنے سے اور یہ اُس پاک میں ہوتا ہے جو مائع قلیل ہو، اور یہ محض ملنے سے ہوگا اگرچہ نجس خشک ہو اور اس میں تری نہ ہو، اور طاہر غیر مائع میں نجس تری اس کی طرف منتقل ہوگی تو اس کو ناپاک کرنے کیلئے تری کا ہونا ضروری ہے جو اس سے جُدا ہو، پھر معاملہ پاک کے جرم کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوگا، یعنی لطافت وکثافت کے اعتبار سے، تو لطیف میں بہ نسبت کثیف کے سرایت زیادہ ہوگی، اور اسی طرح یہ اختلاف اتصال کے زمانہ کے اختلاف سے بھی پیدا ہوتا ہے، جب تم نے یہ جان لیا تو گھی کو نتھارا جائے گا اور اس میں سے اتنی مقدار پھینک دی جائے گی جتنی اس کی طرف نجس تری کی سرایت کا گمان ہو اور باقی پاک رہے گا کیونکہ ناپاک ہونانجس کے اتصال کی وجہ سے نہ تھا کہ یہ کہا جائے کہ اس کے بعد والا گھی اس نجس کے مجاور (متصل ) ہے بلکہ اس کی نجاست تری کے اس کی طرف آجانے کی وجہ سے ہے اور تری ختم ہوچکی ہے، تو معلوم ہوا کہ ملک العلماء کا استشہاد گھی کے مسئلہ سے چُوہیا اور اس سے بڑے جانور کے مسئلہ میں اختلاف کو ثابت کرنے کے لئے بلا وجہ ہے اور بیشک کُنویں آثار کے تابع ہوتے ہیں،
وما احسن ماقال المحقق رحمہ اللہ تعالی فی فتح القدیرفی مسائل البئر من الطریق ان یکون الانسان فی ید النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کالاعمٰی فی یدالقائد ۱؎ اھ۔ نسأل اللّٰہ تعالٰی حسن التوفیق اٰمین۔
اور محقق نے فتح القدیر میں خوب فرمایا کنویں کے مسئلہ میں، صحیح راستہ یہ ہے کہ انسان حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے ہاتھ میں اس طرح ہاتھ دے دے جیسے اندھا اپنے قائد کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہے، ہم اللہ تعالٰی سے احسن توفیق کے سائل ہیں۔
(۱؎ فتح القدیر فصل فی البئر نوریہ رضویہ سکھر ۱/۸۶)
وثانیا: وھو الثامن (۲) عشر لیس مذھبنا ان النجس اذا وقع فی الماء القلیل لم ینجس منہ الاما اتصل بہ عینا والباقی باق علی طھارتہ وانما یمتنع استعمالہ مخافۃ استعمال النجس لاختلاطہ بہ بحیث لایمکن التمییز بل المذھب قطعا شیوع النجاسۃفینجس الکل وحینئذ۔
اور ثانیا (اور یہی اٹھارھواں ہے) ہمارا مذہب یہ نہیں ہے کہ جب نجاست تھوڑے پانی میں گر جائے تو صرف وہی پانی ناپاک ہوگا جو اس سے متصل ہے اور باقی پاک رہے گا اور اس کا استعمال اس لئے ممنوع ہوگا کہ کہیں اس میں ناپاک مل کر نہ آجائے اور پتا نہ چل سکے، بلکہ قطعی مذہب یہ ہے کہ نجاست تمام کو شامل ہوگی۔
اقول ماذا یشیع(۳) من النجاسۃ عینہا ام حکمہا ای یکتسب الماء بمجاورتہا حکمھا الاول باطل قطعا لما علمت من انجاس لاتختلط وایضا قطرۃ من بول مثلا کیف تمتزج بغدیر کبیر غیر کبیر فان قسمۃ الاجسام متناھیۃ عندنافیستحیل ان یکون فی الصغیر مایساوی عدۃ حصص الکبیر وللثانی وجھان الانتقال التدریجی ای یکتسب الحکم مایلیھا من الماء من کل جانب ثم الاجزاء التی تلی ھذہ المیاہ تکتسب من ھذہ ثم وثم الی ان ینتھی الی جمیع الماء مالم یبلغ حد الکثرۃ ام الثبوت الدفعی بان ینجس الکل بوقوع النجس معامن دون توسیط وسائط الاول باطل لانا نعلم قطعا ان بوقوع قطرۃ من بول مثلافی ھذا الطرف من غدیر طولہ مائۃ ذراع وعرضہ ذراع الانصف اصبع وعمقہ الف ذراع یتنجس الطرف الاخر واخر القعرمعالاان الشرع یحکم بتأخر تنجس ذلک الطرف بزمان صالح لانتقال الحکم شیئا فشیئا فاذن ثبت ثبوت الحکم للکل معااصالۃ بدون توسط ،
اور اس صورت میں میں کہتا ہوں کہ نجاسۃ کے عموم سے کیا مراد ہے کیا عین نجاست عام ہوگی یا اس کا حکم عام ہوگا؟ یعنی قریبی پانی پر بھی اس کا حکم لاگو ہوگا، پہلی صورت تو قطعاً باطل ہے کیونکہ معلوم ہوچکا ہے کہ نجاستوں میں اختلاط نہیں پایا جاتا ہےمثلا پیشاب کا ایک قطرہ تالاب سے کیسے مختلط ہوگا، کیونکہ ہمارے نزدیک اجسام کی تقسیم متناہی ہے، تو یہ امر محال ہے کہ چھوٹی چیز بڑی چیز کے متعدد حصّوں سے مل جائے اور دُوسری شق میں بھی دو صورتیں ہیں، ایک تو تدریجی انتقال ہے، یعنی جو پانی نجاست کے متصل ہے وہ حکم کو حاصل کرلے ہر طرف سے، پھر اس سے متصل پانی کے دوسرے اجزأ ان سے حکم کو حاصل کرلیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ یہ حکم تمام پانی کو عام نہ ہوجائے، جب تک حدِ کثرت کو پانی نہ پہنچے یا انتقال دفعۃً اور یکدم ہو کہ نجاست گرتے ہی سارا پانی ناپاک ہوجائے اور درمیان میں کوئی واسطہ نہ آئے، پہلا باطل ہے کیونکہ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ اگر پیشاب کا ایک قطرہ ایسے حوض میں گرجائے جس کی لمبائی سَو ہاتھ ہے اور چوڑائی ایک ہاتھ سے ایک انگلی کم اور گہرائی ایک ہزار ہاتھ ہے اب جس کنارے میں وہ قطرہ گرا ہے وہ قطعاً ناپاک ہے اور دوسرا کنارہ بھی ناپاک ہے اور گہرائی کا آخری حصہ تک ناپاک ہے اور یہ سب بیک وقت ہوگا یہ نہیں کہ شریعت دوسرے کنارے کی ناپاکی کا حکم قدرے تاخیر سے دے گی کہ آہستہ آہستہ حکم اس کی طرف منتقل ہو، اس سے معلوم ہوا کہ حکم اصالۃً تمام پانی کیلئے بیک وقت بلا توسط کے منتقل ہوگا،
ومعلوم من الشرع ان الماء لاینجسہ الاملاقاۃ النجس وقد افدتم انتم ھھنا ان ملاقاۃ النجس الطاھر توجب تنجیس الطاھر وان لم یغلب علی الطاھر فوجب ان الملاقاۃ حصلت لکل الماء دفعۃ لابالوسائط ومعلوم قطعا ان اللقاء الحسی اٰن الوقوع لیس الا لجزء خفیف والامر اظھرفی نحو الشعرۃ المذکورۃ فثبت انھا حین وقعت لاقت جمیع اجزاء الماء القلیل والا لما تنجس الکل معالعدم السبب فظھر وللّٰہ الحمد ان الماء القلیل فی نظرالشرع کشیئ واحد بسیط وان ملاقاۃ جزء منہ ملاقاۃ للکل فثبت(۱) ان المحدث اذا ادخل یدہ مثلافی الغدیر الغیر الکبیر فبمجرد الادخال لاقاھا الماء کلہ فصار جمیعہ مستعملا والحمد للّٰہ علی حسن التفھیم وتواتر الائہ
اور یہ بات معلوم ہے کہ شریعت پانی کو اس وقت تک نجس قرار نہیں دیتی ہے جب تک کہ نجاست اس کی طرف منتقل نہ ہو اور آپ نے یہاں فرمایا ہے کہ نجس کا پاک سے ملنا پاک کو نجس کردیتا ہے خواہ وہ پاک پر غالب نہ ہوا ہو، تو معلوم ہوا کہ ملاقاۃ تمام پانی سے دفعۃً بلا واسطوں کے ہوئی ہے، اور یہ قطعی معلوم ہے کہ یہ حسی لقاء محض ایک خفیف جزء سے ہے، یہ چیز بال کی مثال سے واضح ہے جو گزر چکی ہے، اس سے ثابت ہوا کہ جب وہ نجاست گِری تو کم پانی کے تمام اجزأ سے ملی، ورنہ تو تمام پانی بیک وقت ناپاک نہ ہوتا کیونکہ اس کا سبب موجود نہیں، اس سے ثابت ہوا کہ تھوڑا پانی شارع کی نگاہ میں شیئ واحد ہے اور بسیط ہے اور اس کے ایک جزء کی اس سے ملاقاۃ کُل سے ملاقاۃ ہے تو ثابت ہوا کہ مُحدِث جب اپنا ہاتھ مثلاً چھوٹے تالاب میں ڈالے تو ہاتھ ڈالتے ہی کُل پانی اُس سے مل گیا تو سب مستعمل ہوگیا،
وبالجملۃ لوکان اللقاء یقتصر علی مااتصل بہ حقیقۃ لم یتنجس بوقوع الشعرۃ الاقطیرات تحیطھا لان سبب التنجیس لیس الاملاقاۃ النجس وھی مقصورۃ علی تلک القطیرات لکنہ باطل قطعا فعلم ان الکل ملاق وانہ لامساغ لان یقال ان غیر الملاقی اکثر من الملاقی وللّٰہ الحمد دائم الباقی والصّلٰوۃ والسلام علی المولی الکریم الواقی، واٰلہ وصحبہ اجمعین الی یوم التلاقی۔
اور خلاصہ یہ کہ اگر ملاقاۃ صرف اسی حد تک ہوتی جس سے پانی حقیقۃً ملا ہے تو بال گرنے سے صرف چند قطرات ہی نجس ہوتے جو بال کے گردا گرد ہوتے کیونکہ ناپاکی کا سبب نجس سے ملاقاۃ ہے جو اِن چند قطروں تک محدود ہے، مگر یہ چیز قطعاًباطل ہے، تو معلوم ہوا کہ سارے کا سارا مُلاقی ہے اور اس کے سوا چارہ کار نہیں کہ یہ کہا جائے کہ غیر مُلاقی، ملاقی سے زیادہ ہے۔ (ت)
ثالثا وھو التاسع(۲) عشر قصر الحکم علی الملاقی یحیل الاستعمال، ویسلکہ فی سلک المحال، وذلک لان الاجسام لاتتلاقی الابالسطوح لاستحالۃ تداخل الاجسام وانی یقع السطح من الجسم فماء الوضوء والغسل یجب ان یبقی طھور الان الذی لاقی منہ بدن المحدث سطح والباقی جسم فلا یسلبہ الطھوریۃ لان المستعمل اقل بکثیرۃ من غیرہ۔
ثالثا، یہی (انیسواں) ہے حکم کا محض ملاقی تک محدود رکھنا استعمال کو محال کرنا ہے کیونکہ اجسام کی ملاقاۃ صرف سطوح سے ہوتی ہے، کیونکہ اجسام میں تداخل محال ہے اور سطح کو جسم سے کتنی نسبت ہے؟ تو وضو اور غسل کا پانی واجب ہے کہ طہور ہے کیونکہ پانی کے جس حصّے کو مُحدِث کا بدن ملا ہے وہ فقط سطح ہے اور باقی جسم ہے تو وہ اس کی طہوریۃ کو سلب نہ کرے گا، کیونکہ مستعمل، اپنے غیر سے بہت کم ہے۔
فان قلت: نعم ھو الحقیقۃ ولکن الشرع المطھر اعتبر کل الجسم المصبوب علی بدن المحدث مستعملا لانہ شیئ واحد متصل۔
اگر کہا جائے کہ حقیقۃ تو ایسا ہی ہے لیکن شریعت نے کل پانی کو جو مُحدِث کے جسم پر بہا گیا ہے مستعمل قرار دیا ہے کیونکہ وہ شیئ واحد ہے اور متصل ہے۔
قلت: فکذا کل ماء قلیل شیئ واحد حکما شرعیا متصل حسا عادیا ولم یکن ذلک فی المصبوب للصب بل لقلتہ الا تری ان ماء الغدیر یتنجس کلہ معا بوقوع قطرۃ من نجس وما ھو الا لانہ شیئ واحد لقاء جزء منہ لقاء الکل کما بینا فبا دخال المحدث یدہ فی الاناء لاقاھا کل مافی الاناء لاالسطح المتصل بھا فقط وفیہ المقصود فان قلت المؤثر الاستعمال وھوبالصب یعد مستعملا لکل المصبوب فیصیر کلہ مستعملا۔
میں کہتا ہوں اسی طرح ہر تھوڑا پانی حکم شرعی کے اعتبار سے شیئ واحد ہے اور حسّی اعتبار سے متصل ہے اور یہ چیز بہائے پانی میں بہانے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی قلت کی وجہ سے ہے، اس لئے تالاب کا کل پانی بیک وقت ناپاک ہوجاتا ہے جبکہ اس میں نجاست کا کوئی قطرہ گر جائے، اور یہ اسی لئے ہے کہ وہ شَے واحد کی طرح ہے، اُس کے ایک جُزء سے ملاقات کل سے ملاقات ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا تو جب مُحدِث نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا تو برتن میں جو کچھ تھا اُس سے ہاتھ کی ملاقات ہوگئی، یہ نہیں کہ صرف اس کی متصل سطح سے ملاقات ہوئی اور اسی میں مقصود ہے، اگر کہا جائے کہ استعمال میں مؤثر بہانا ہے تو کل بہایا ہوا مستعمل شمار ہوگا تو کل مستعمل ہوگا۔
قلت: لادخل لفعل المکلف عندنا انما المؤثر کون الماء القلیل المعدود شرعا شیئا واحدا اسقط فرضا اواقام قربۃ وھذا حاصل فی الوجھین۔
تو میں کہوں گا ہمارے نزدیک مکلّف کے فعل کا کوئی دخل نہیں، موثر تو صرف یہ ہے کہ تھوڑا پانی شرعاً ایک شَے ہے خواہ وہ فرض کو ساقط کرے یا قربۃ ادا کرے اور یہ دونوں صورتوں میں حاصل ہے۔
ورابعا وھو العشرون(۱) ماءفی طست اراد المحدث ان یغسل بہ یدہ فلہ فیہ وجھان ان یصبہ علی یدہ فیرد الماء علی الحدث اویدخل یدہ فی الطست فیرد الحدث علی الماء فان صبہ کلہ علی یدہ یصیر کلہ مستعملا قطعا باجماع اصحابنا وان کان یکفیہ بعضہ وقد اسرف لکن لامساغ لان یقال انما استعمل قدرما یکفیہ والفضل بقی علی طھوریتہ فکذا اذا ادخل یدہ فی کلہ وغسلہا ھناک وای فرق بینھما وباللّٰہ التوفیق۔
اور رابعاً اور یہی (بیسواں) ہے، اگر ایک طشت میں پانی ہے اور مُحدِث یہ چاہتا ہے کہ اس سے اپنا ہاتھ دھوئے، تو اس کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ اس کو ہاتھ پر بہائے تو پانی حَدَث پر واقع ہوگا اور یا یہ کہ ہاتھ کو طشت میں ڈال دے تو حَدَث پانی پر وارد ہوجائیگا تو اگر سب ہاتھ پر بہایا تو کل قطعا مستعمل ہوجائیگا، اس پر ہمارے اصحاب کا اجماع ہے اگرچہ اس کو بعض کفایت کرتا، اور اس نے اسراف کیا مگر یہ کہنے کا جواز نہیں کہ صرف اتنی مقدار مستعمل ہوئی جو اس کو کفایت کرتی اور باقیما ندہ اپنی طہوریۃ پر رہا تو اسی طرح جب اس نے اپنا ہاتھ سب پانی میں داخل کیا اور اس کو وہاں دھویا، اور ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ وباللہ التوفیق۔
وخامسا اقول: وباللّٰہ التوفیق وھو(۱) الحادی والعشرون: الاستعمال مبنیا للمفعول ای صیر ورۃ الماء مستعملا لایمکن ثبوتہ لا یلاقی بدن المحدث وھو سطح الماء الباطن لان الاستعمال انسلاب الطھوریۃ فلا یثبت الافیما کان طھورا کما ان الموت لایلحق الاما کان حیا ومعلوم ان الطھوریہ صفۃ جرم الماء قال اللّٰہ عزوجل وانزلنا من السماء ماء طھورا ۱؎ وقال تبارک وتعالی وینزل علیکم من السماء ماء لیطھر کم ۲؎ بہ لاصفۃ احدا اطرافہ التی لاوجود لھا الا بالانتزاع علی فرض اتصال الاجسام ولافی الغسل صفۃ طرف لایتجزی لانہ اسالۃ ولا اسالۃ الا بالجسم والا ففیم یمتاز عن المسح ،
اور خامسا میں کہتا ہوں، وباللہ التوفیق ، اور یہ (اکیسواں) ہے، استعمال مبنی للمفعول ہے یعنی پانی کے مستعمل ہونے کا ثبوت ممکن نہیں ہے اس چیز کیلئے جو بدن محدث کو ملاقی ہو اور وُہ باطنی پانی کی سطح ہے اس لئے کہ استعمال کے بعد طہوریت کا سلب ہوجانا ہے تو یہ اسی چیز میں ثابت ہوگا جو طہور ہو، جیسے موت اُسی چیز پر طاری ہوتی ہے جو زندہ ہو اور یہ معلوم ہے کہ طہوریت پانی کے جسم کی صفت ہے، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وانزلنا من السماء ماء طھورا (ہم نے آسمان سے پاک پانی برسایا) نیز فرمایا وینزل علیکم من السماء ماءً لیطھرکم بہ (وہ آسمان سے تم پر پانی برساتا ہے تاکہ تم کو اسی سے پاک کرے) یہ اس کی کسی طرف کی صفت نہیں ہے جس کا وجود محض انتزاعی ہے جبکہ اجسام کا اتصال فرض کیا جائے، اور نہ ہی غسل میں کسی طرف کی صفت ہے جس میں تجزی نہ ہو، اس لئے کہ غسل کا معنی بہانا ہے اور بہانا جسم پر ہی ہوگا ورنہ غسل مسح سے کیونکر ممتاز ہوگا؟
(۱؎ القرآن ۲۵/۴۸)
(۲؎ القرآن ۸/۱۱)
وبعبارۃ اخری ھل استعمال الماء عدم صلوحہ للتوضی بہ ام سقوط الصلوح بعد ثبوتہ علی الاول کان الملاقی مستعملا قبل ان یلاقی لان السطح لایمکن التوضی بہ وعلی الثانی لایصیر الملاقی مستعملا ابدا لانہ لم یکن صالحا لہ قط ،
اور بالفاظِ دیگر، آیا پانی کے مستعمل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں اس بات کی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ اس سے وضو کیا جاسکے؟ یا صلاحیت ثابت ہونے کے بعد ساقط ہوئی؟ پہلی صورت میں ملاقی مستعمل ہوگا قبل اس کے کہ ملاقات کرے کیونکہ سطح سے وضو ممکن نہیں اور دوسری تقدیر پر مُلاقی کبھی مستعمل نہ ہوگا کیونکہ اس میں اس کی صلاحیت کبھی نہ تھی،
وبہ ظھر وللّٰہ الحمد ان(۱)فی مسائل انغماس المحدث والفروع الکثیرۃ الناطقۃ بصیر ورۃ الماء مستعملا بدخول بعض عضو المحدث من دون ضرورۃ صرف الکل الی معنی ان القدر الملاقی للبدن یصیر مستعملا لابقیۃ ماء البئر او الزیر،(الغدیر) کما فعلہ فی الحلیۃ محتجا بما وقع فی البدائع وتبعہ البحرفی البحر صرف ضائع لامساغ لہ اصلا وفیہ ابطال(۲) صرائح النصوص الدائرۃ السائرۃفی الروایات الظاھرۃ عن جمیع ائمۃ المذھب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم حیث حکموا بالاستعمال وحصل بالصرف ان لااستعمال فان صح تاویل الاثبات بالنفی والنقیض بالنقیض صح ھذا(۳)
اور اس سے معلوم ہوا کہ مُحدث کا غوطہ لگانا، اور بہت سی فروع جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر ضرورت محدث کے کسی بھی عضو کے پانی میں داخل ہوجانے سے پانی مستعمل ہوجاتا ہے بغیر اس معنی کی طرف پھیرنے کی ضرورت کے کہ جس قدر پانی بدن سے ملا ہے وہ مستعمل ہوگا نہ کہ کنویں کا باقی پانی یا تالاب کا باقی پانی، جیسا کہ حلیہ میں کیا ہے، انہوں نے بدائع کی عبارت سے استدلال کیا ہے، اور محقق نے بحر میں اس کی متابعت کی ہے۔ مگر اس کا کوئی جواز نہیں، اور اس میں صریح نصوص جو تمام ائمہ مذہب سے ظواہر روایت میں ہیں، کا اِبطال ہے کہ ان سب نے استعمال کا حکم لگایا ہے اور یہ معنی کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی مستعمل نہیں، اگر اثبات کی تاویل نفی سے اور نقیض کی نقیض سے ہوسکتی ہے تو یہ بھی صحیح ہے،
ورحم اللّٰہ البحر حیث صدر منہ فی البحر الاعتراف بالحق ان ھذا التاویل لیس بتاویل بل تبدیل للحکم وتحویل حیث عبر عنہ تحت جحط بقولہ ان ماء البئر لایصیر مستعملا مطلقا ۱؎ ۔۔۔الخ۔ فھذا ھو معنی ذلک التاویل حقیقۃ ولا مساغ لما انصرف الیہ ان المستعمل ماتساقط عن الاعضاء وھو مغلوب فان ما تساقط لم یلاق ایضا انما الملاقی سطح وھو لایقبل الاستعمال۔
علامہ محقق نے بحر میں منصفانہ بات کہی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ تاویل نہیں بلکہ حکم کی تبدیلی ہے، کیونکہ
جحط کے تحت انہوں نے فرمایا کہ ''کنویں کا پانی مستعمل نہ ہوگا مطلقا۔۔۔ الخ'' یہ ہیں اُس تاویل کے حقیقی معنی، اور جو انہوں نے فرمایا ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔ وہ فرماتے ہیں مستعمل وہ ہے جو اعضاء سے گرا اور وہ مغلوب تھا کیونکہ جو گرا اس کی ملاقات نہ ہوئی تھی ملاقی تو صرف سطح ہے اور وہ استعمال کو قبول نہیں کرتی ہے۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت مسئلۃ البئر جحط ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۸)
وسادسا: وھو(۱) الثانی والعشرون: ماذکر قدس سرہ علی مذھب الامام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ومن وجوب نزح الماء کلہ یھدم اساس الفرق بین النجاسۃ العینیۃ والحدث اذلیس فی بدن المحدث مایختلط بالطاھر علی وجہ لایمکن التمییز وانما یتنجس مایلاقی وقد قصرتموہ علی مااتصل ببدنہ فکان یجب ان لایتنجس الا ھو واختلاط ماجاورہ من الماء بسائرہ یدفعہ ماذکرتم فی الفرق بین الفأر والھر ولایسری لما افدتم من ان النجس ھو جار النجس لاجار الجار لکن الامام اوجب نزح الکل فوجب القول بان الملاقی کل الماء واذن کما یتنجس کلہ عند الامام فیما یروی عنہ کذلک تنسلب الطھوریۃ عن کلہ علی مذھبہ المعتمد المفتی بہ لحصول السبب فی الکل،
اور سادساً (اور وہ بائیسواں ہے) جو قدس سرہ نے مذہب امام پر ذکر کیا ہے کہ کل پانی نکالا جائے گا وہ نجاست عینیہ اور حَدَث کے فرق کی اساس کو منہدم کرتا ہے کہ بدن محدث میں کوئی ایسی چیز نہیں جو طاہر سے اس طور پر مل جائے کہ تمیز ممکن نہ ہو، اور نجس صرف وہ ہوتا ہے جو اُس سے ملاقی ہو اور تم نے اس کو صرف اُس پر منحصر رکھا ہے جو اُس کے بدن سے ملتا ہے تو چاہئے کہ صرف وہی نجس ہو اور اس پانی کا اختلاط جو باقی بدن سے لگا ہے اس کو وہ فرق دفع کرتا ہے جو تم نے بلّی اور چُوہے میں بیان کیا ہے، اور وہ سرایت نہ کرے گا، کیونکہ آپ نے کہا ہے کہ نجس وہ ہے جو نجس کا پڑوسی ہے نہ کہ پڑوسی کا پڑوسی، لیکن امام نے کل پانی کے نکالنے جانے کو ضروری قرار دیا ہے تو یہ قول لازم ہوا کہ ملاقی کل پانی ہے، اور اس صورت میں جیسے کل پانی امام کے نزدیک نجس ہوتا ہے جیسا کہ اُن سے مروی ہے اسی طرح طہوریۃ کل پانی سے سلب ہوجائے گی جیسا کہ اُن کا مذہبِ معتمد مفتی بہ ہے کیونکہ سبب کل میں موجود ہے،
وبعبارۃ اخری کما قال قدس سرہ علی روایۃ الحسن الفرق بین المحدث والجنب کذلک نقول ھنا ان بوقوع المحدث فی البئر ھل ثبت اللقاء للماء کلہ اولا علی الثانی لم وجب نزح الجمیع فقد افدتم ان الجوار لایتعدی وعلی الاول حصل المقصود وبالجملۃ ھنا شیئاٰن السبب والحکم اما السبب فمتفق علیہ وھو اللقاء وانما الخلف فی الحکم انہ التنجس اوانسلاب الطھوریۃ فان اقتصر السبب علی مااتصل وجب قصر الحکم علیہ ای حکم کان وان شمل احد الحکمین جمیع الماء ثبت ثبوت السبب فی الکل فوجب شمول الحکمین للکل وباللّٰہ التوفیق۔
اور بالفاظِ دیگر جیسا کہ قدس سرہ نے فرمایا حسن کی روایت کے مطابق فرق محدث اور جنب کے درمیان میں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ محدث کے کنویں میں گرنے سے کیا کل پانی سے لِقاء ثابت ہوگی یا نہیں؟ اور بر تقدیر ثانی کنویں کا کل پانی نکالنا کیوں لازم ہوا کیونکہ آپ نے کہا ہے کہ جواز متعدی نہیں ہوتا ہے اور پہلی تقدیر پر مقصود حاصل ہوگیا۔ اور خلاصہ یہ کہ یہاں دو چیزیں ہیں، سبب اور حکم۔ سبب تو متفق علیہ ہے اور وہ ملاقاۃ ہے اور اختلاف صرف حکم میں ہے اور وہ ناپاک ہونا ہے یا طہوریت کا سلب ہونا ہے، اگر سبب متصل پر موقوف ہو تو حکم کا بھی اس پر مقصود کرنا واجب ہوگا، جو بھی حکم ہو، اور اگر ایک حکم تمام پانی کو شامل ہو تو سبب کل میں ہونا ثابت ہوجائے گا تو دونوں حکموں کا کل کو شامل ہونا لازم ہوگا، وباللہ التوفیق۔
وسابعا وھو الثالث(۱) والعشرون: افدتم ان الفأرۃ یجاورھا من الماء عشرون دلو الصغر جثتہا وفی الدجاجۃ والسنور المجاورۃ اکثر لزیادۃ ضخامۃفی جثتھا والادمی یجاور جمیع الماءفی العادۃ لعظم جثتہ ۱؎ اھ۔
سابعاً (اور وہ تئیسواں ہے) آپ نے کہا ہے کہ چُوہیا سے متصل بیس ڈول پانی ہوتا ہے کیونکہ اس کا جسم چھوٹا ہے اور مُرغی اور بلّی میں ان کی ضخامت کی وجہ سے زائد پانی متصل ہوتا ہے اور آدمی اپنے جُثّہ کے بڑے ہونے کی وجہ سے کل پانی کے متصل ہوتا ہے اھ
(۱؎ بدائع الصنائع المقدار الذی یصیر بہ المحل نجساً ۱/۷۵)
وذکرتم انہ الفقہ الخفی فھذا تصریح منکم بان المحدث الواقع فی البئر قد جاور جمیع الماءفیجب ان یصیر جمیعہ مستعملا وطاح القول بان المستعمل ما یلاقیہ وھو اقل من غیرہ وایضا ماء الطست وکثیر من الاجانات لایبلغ عشرین دلوا ولا عشرا وکف الانسان لیس باصغر من فأرۃ فاذا ادخل محدث یدہ فی اجانۃ وجب ان یصیر کلہ مستعملا ولا مساغ ھھنا للفرق بین النجاستین العینیۃ والحکمیۃ فان الجواریحصل بین الجسمین لذا تھما ولامدخل فیہ لوصف قام باحدھما حتی یختلف باختلافہ۔
اور تم نے ذکر کیا ہے کہ یہ فقہ حنفی ہے، یہ تمہاری طرف سے اس امر کی صراحت ہے کہ جو محدث کنویں میں گرتا ہے وہ تمام پانی کے مجاور ہوتا ہے تو لازم ہے کہ وہ تمام مستعمل ہو، اور یہ قول غلط ہوا کہ مستعمل وہ ہے جو اس سے ملا ہوا ہے اور وہ اس کے غیر سے اقل ہے اور طشت کا پانی اور بہت سے مٹکوں کا پانی بیس ڈول بلکہ دس ڈول کی مقدار تک نہیں ہوتا اور انسان کی ہتھیلی چوہیا سے چھوٹی نہیں ہوتی، تو جب محدث نے اپنا ہاتھ مٹکے میں ڈالا تو واجب ہے کہ اس کا کل مستعمل ہو، اور یہاں کوئی فرق نہیں دو نجاستوں کے درمیان عینیہ اور حکمیہ میں، کیونکہ جوار دو جسموں کی ذاتوں کو حاصل ہوتا ہے اور اس میں کسی ایسے وصف کو دخل نہیں جو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ قائم ہوتا کہ اس کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوجائے۔
فان قیل: حقیقۃ المجاورۃ لیست الالما اتصل بالجسم وانما سری الی عشرین فی الفأرۃ واربعین فی الھر والکل فی الادمی لان المیت تنفصل منہ بلات وتتفاوت بتفاوت الجثت قال ملک العلماء وجب تنجیس جمیع الماء اذا تفسخ شیئ من ھذہ الواقعات اوانتفخ لان عند ذلک تخرج البلۃ منھا لرخاوۃفیھا فتجاور جمیع اجزاء الماء وقبل ذلک لایجاور الاقدر ماذکرنا لصلابۃفیھا ۱؎ اھ۔ فالمراد بمجاورۃ عشرین واربعین والکل مجاورۃ البلۃ دون الجثۃ وانما لاقت الجثۃ مالاقت۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حقیقی مجاورۃ تو اسی چیز کیلئے ہے جو جسم سے متصل ہو، اور یہ بیس ڈول تک چوہیا میں سرایت کرتی ہے اور چالیس تک بلّی میں، اور کل پانی میں آدمی کے گرنے کی صورت میں کیونکہ میت سے تریاں جُدا ہوتی ہیں اور ان میں جُثّوں کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ ملک العلماء نے فرمایا کہ ان اشیاء میں سے اگر کوئی چیز پُھول جائے یا پھَٹ جائے تو کل پانی کا نجس قرار دینا ضروری ہے، کیونکہ اس صورت میں ان اشیاء سے تری خارج ہوگی کیونکہ ان میں نرمی ہے اور پانی کے تمام اجزاء سے متصل ہوجائے گی، اور اس سے قبل صرف اس مقدار کے متصل تھی جس کا ہم نے ذکر کیا کیونکہ اس صورت میں یہ اشیاء سخت تھیں اھ۔ تو بیس، چالیس یا کل کی مجاورۃ سے مراد تری کی مجاورۃ ہے نہ کہ جُثّہ کی، جُثّہ تو جس سے ملا ہے سو ملا ہے۔
(۱؎ بدائع الصنائع المقدار الذی یصیربہ المحل نجساً سعید کمپنی کراچی ۱/۷۵)
اقول: فاذن ینتقض ماذکر تم فی وقوع محدث فی البئرعلی قول الامام بنجاسۃ الماء المستعمل لعدم بلۃ ھناک تنفصل والحق علی مایظھر للعبد الضعیف غفرلہ ان الماء ان کان شیئا واحدا متصلا حقیقۃ کما تزعمہ الفلاسفۃ فلا شک ان لقاء بعضہ لقاء کلہ بل لابعض ھناک لعدم التجزی بالفعل وان کان(۱) اجزاء متفرقۃ کما ھو عندنا ان تألف الاجسام من جواھر فردۃ تتجاور ولا تتلاصق لاستحالۃ اتصال جزئین۔
میں کہتا ہوں جو آپ نے کہا ہے اس پر یہ نقض وارد ہوتا ہے کہ اگر محدث کنویں میں گر جائے تو امام کے قول پر مستعمل پانی نجس ہوجائے گا کیونکہ وہاں کوئی تری موجود نہیں جو محدث سے الگ ہوئی ہو، اور جو حق مجھ پر ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ پانی اگر متصل واحد ہے حقیقۃ جیسا کہ فلاسفہ کا خیال ہے تو اس میں شک نہیں کہ اس کے بعض سے ملاقاۃ کل سے ملاقات متصور ہوگی، بلکہ یہاں بعض کا تصوّر ہی نہیں کیونکہ بالفعل تجزی نہیں ہے اور اگر متفرق اجزاء ہوں جیسا کہ ہمارے نزدیک ہے کیونکہ ہمارے نزدیک اجسام جواہر منفردہ سے مرکب ہیں تو اس صورت میں اجزاء مجاور ہوں گے لیکن متصل نہیں ہونگے، کیونکہ دو اجزاء کا اتصال محال ہے۔
اقول وکل ماتجشمہ الفلاسفۃ وخدمہم من اقامۃ براھین ھندسیۃ وغیرھا علی استحالۃ الجزء وقد اوصلھا الشیرازی فی شرح الغوایۃ المسماۃ ھدایۃ الحکمۃ الے اثنی عشرو سماھا حججا انما تدل علی استحالۃ الاتصال دون امتناع نفس وجود الاجزاء ومبنی الھندسۃ علی توھم خطوط متصلۃ ولا حاجۃ لھا الی وجودھا عینا فضلا عن اتصالھا کالھیأۃ تبتنی علی توھم مناطق ومحاور واقطاب ودوائر وان لم یکن لہا وجود عینی بل اولی فان الہندسۃ تستغنی عن وجودھا بوجود المناشی ایضا فلا یرد علینا شیئ من ذلک وللّٰہ الحمد وقد(۲) اغفل ذلک کثیر من المتکلمین فاحتاروافی دفع شبہ المتفلسفین وباللّٰہ التوفیق ،
میں کہتا ہوں فلاسفہ نے جو تگ ودَو کی ہے کہ براہین ہندسیہ سے جزء کا اِبطال کیا ہے، اور شیرازی نے شرح الغوایہ جس کا نام "ہدایۃ الحکمۃ" ہے ایسے بارہ دلائل قائم کئے ہیں اور ان کا نام حجۃ رکھا ہے، اُن سے صرف اجزاء کا اتصال محال ثابت ہوتا ہے نفس جزء کا استحالہ ثابت نہیں ہوتا ہے اور ہندسہ کی بنیاد خطوط متصلہ کے تو ہم پر ہے، اور ان کا موجود ہونا خارج میں کچھ ضروری نہیں چہ جائیکہ ان کا اتصال، جیسے علم ھیأۃ کا دارومدار،مِنطقوں،مِحوروں، قطبوں اور دوائر کے تو ہم پر مبنی ہے اگرچہ ان کا خارجی وجود نہ ہو، بلکہ اس سے بھی اولیٰ ہے کیونکہ علمِ ہندسہ ان کے وجود سے ان کے منشاء کے وجود سے بھی مستغنی ہے، توان میں سے کوئی چیز ہم پر وارد نہیں ہوتی وللہ الحمد، اس سے بہت متکلمین غافل رہے اور متفلسفین کے اعتراضات کے رد میں حیران رہ گئے،
بل الجسم عہ ۱ عندنا اجزاء متفرقۃ حقیقۃ متصلۃ حساکماتری فی الھباء عند دخول الشمس من کوۃ بل وفی الدخان والبخار والغبار فح لااتصال حقیقۃ لشیئ من الماء بشیئ من البدن فلو اعتبرت الحقیقۃ لم یتنجس الماء بوقوع شیئ من الخبث فظھر ان الشرع المطھر قد اعتبر ھھنا الحس ولا شک ان کلہ فی الحس شیئ واحدکما ھوفی الحقیقۃ عند المتفلسفۃ ولیس ثم حاجز ینتھی الجوار الحسی بالبلوغ الیہ فوجب ان یکون علی ھذا ایضا لقاء بعضہ لقاء کلہ بل لابعض لعدم التجزی حسا اما الکثیر فجعلہ الشرع لایحتمل الخبث فلا یضرہ الجوار الحسی وبہ استقر(۱) عرش التحقیق علی ان الماء الکثیر لایتنجس شیئ منہ بوقوع النجاسۃ ولو مرئیۃ حتی ماحولھا مما یلیھا ھکذا ینبغی التحقیق واللّٰہ تعالٰی ولی التوفیق وھنا تم الکلام مع الامام الھمام، ملک العلماء الکرام، نفعنا اللّٰہ تعالٰی ببرکاتہ علی الدوام،فی دار السلام، امین۔
ہمارے نزدیک جسم اجزائے متفرقہ حقیقۃً متصلہ حِسّاً سے عبارت ہے جیسے کمرہ کے سوراخ سے روشنی کی کِرن جب اندر داخل ہوتی ہے تو اس میں ذرات نظر آتے ہیں، بلکہ دھوئیں، بخارات اور غبار میں بھی نظر آتے ہیں، لہٰذا پانی حقیقی طور پر بدن سے متصل نہیں ہے، تو اگر حقیقت کا اعتبار کیا جائے تو پانی کسی بھی گندی چیز کے گرنے سے نجس نہ ہو، پس معلوم ہوا کہ شریعت مطہرہ نے یہاں حِسّ کا اعتبار کیا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ حِسّ کے نزدیک کل ایک چیز ہے جیسا کہ متفلسفہ کے نزدیک حقیقت یہی ہے اور وہاں کوئی ایسی روک بھی موجود نہیں جہاں پہنچ کر جوار حسی رک جائے تو اس بنا پر لازم ہوا کہ بعض کی ملاقات کل کی ملاقات قرار پائے، بلکہ وہاں بعض ہے ہی نہیں کیونکہ تجزّی نہیں ہے حِسّاً، اور رہا کثیر تو شرع نے فرمایا ہے کہ اس میں نجاسۃ اثر نہیں کرے گی تو اس کو جوار حسّی کچھ مضر نہ ہوگا، اس تحقیق عرش نشیں سے معلوم ہوا کہ کثیر پانی نجاسۃ کے گرنے سے نجس نہ ہوگا خواہ وہ نظر آنے والی ہو، یہاں تک کہ نجاست کا گردوپیش بھی نجس نہ ہوگا، اسی طرح تحقیق ہونی چاہئے یہاں تک کہ امام ہمام ملک العلماء کے ساتھ گفتگو مکمل ہوئی، اللہ تعالٰی ان کی برکات سے ہم کو ہمیشہ جنت تک مستفید فرمائے۔ آمین
عہ۱: تنبیہ فان قلت(۳) کیف یری الجسم والجزء لایری اقول اولا جرت السنۃفی بصر البشر ان شیئا بالغ النہایۃفی الدقۃ اذا کان منفردا لم یحط بہ البصر واذا اجتمع امثالھا وکثرت ظھرت کما اذا کان فی جلد ثورا بیض نقطۃ سوداء کرأس الابرۃ لاتحس وان کثرت امثالھا متجاورات ابصرت بل قدلا یری من البعد الا لونھا وھو السواد وھذا ظاھرفی الھباء فان فیہ ذرات قلائل تری کریۃ الشکل وعامتہ لایحس البصر اشکالھا بل لونا سحابیا ککواکب المجرۃ والنثرۃ ولو تفرد شیئ منھا ماامکن عادۃ ان یبصرو بتکاثرھا وتراکمھا تری کعمود بنیک وبین الکوۃ مثل السحاب بل السحاب نفسہ من ذلک فان البخار اجزاء متفرقۃ ولا تبصر واحد منھا وبتراکمھا تری سحبا کالجبال ولعل الوجہ فیہ ان المنفرد یقتضی خصوص النظر الیہ فاذا کان علی ھذا القدر من الدقۃ انطبق الخطان الشعاعیان الواصلان الیہ وانعدمت زاویۃ الرؤیۃ کما ھو السبب فی انتفاء زاویۃ اختلاف المنظر لما فوق الشمس فاتحد تقویماہ المرئی والحقیقی واذا کثرت وانبسطت وقعت بین ساقی مثلث ذی زاویۃ مبصرۃ فابصرت
تنبیہ اگر تو کہے کہ جسم کیسے دکھائی دیتا ہے جبکہ جزء تو نظر نہیں آتی اوّلاً میں کہتا ہوں کہ نگاہ انسانی فطری طور پر انتہائی باریک چیز کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے جبکہ وہ چیز منفرد ہو۔ لیکن اگر اس چیز کے ساتھ اس کی متعدد امثال مجتمع ہوں تو وہ ظاہر ہوجاتی ہے، جیسے سفید بیل کی جلد پر سُوئی کے سرے کے برابر سیاہ نقطہ دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر متعدد سیاہ نقطے مجتمع ہوجائیں تو نظر آنے لگتے ہیں، بلکہ دُور سے تو محض ان کا سیاہ رنگ ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات غبار میں ظاہر ہے کیونکہ اس میں چھوٹے چھوٹے کروی الشکل ذرات ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کی شکلوں کو آنکھ محسوس نہیں کرتی بلکہ بادلوں کی مانند ان کا رنگ دکھائی دیتا ہے جیسے کہکشاں اور بکھرے ہوئے ستارے، ان میں سے کوئی بھی اگر منفرد ہو تو عادتاً اس کا دکھائی دینا ناممکن ہے۔ البتہ کثرت واجتماعیت کی وجہ سے نظر آجاتے ہیں، جیسے تیرے اور روشندان کے درمیان روشنی کا ستون بادل کی مثل دکھائی دیتا ہے، بلکہ خود بادل بھی اسی قبیل سے ہے کیونکہ بخارات متفرق اجزاء ہوتے ہیں جن میں سے کوئی ایک دکھائی نہیں دیتا مگر مجتمع ہو کر پہاڑوں جیسے بادل نظر آتے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ منفرد چیز خصوصی نظر کا تقاضا کرتی ہے جب وہ نہایت باریک ہو تو دونوں آنکھوں سے نکلنے والی شعاعیں اس تک پہنچ کر باہم منطبق ہوجاتی ہیں اور زاویہ نظر معدوم ہوجاتا ہے جیسا کہ مافوق الشمس اختلافِ منظر کے زاویہ کے منتفی ہونے کا یہی سبب ہے۔ پس اس کی حقیقی اور مرئی تقویمیں متحد ہوجاتی ہے اور جب یہ اجزاء کثیر اور پھیلے ہوئے ہوں تو بصری زاویہ والی مثلث کے دو خطوں کے درمیان واقع ہونے پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
وثانیا ھذا علی طریقتھم فان سلموا والا فانما اصلنا الایمانی ان الابصار وکل شیئ بارادۃ اللّٰہ تعالٰی وحدہ لاغیر فان شاء رأی الاعمی فی لیلۃ ظلماء عین نملۃ سوداء وان لم یشاء عمیت الزرقاءفی رابعۃ النھار عن جبل بالغ افق السماء فاذا اراد ان لاتری الاجزاء علی الانفراد واذا تجسمت اُبصرت یکون کما اراد اھ منہ حفظہ ربہ تبارک وتعالٰی (م)
ثانیاً مذکورہ بالا دلیل فلاسفہ کے مذہب کے مطابق ہے اگر مان لیں تو فبہا وگرنہ ہماری ایمانی دلیل یہ ہے کہ نگاہیں اور تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالٰی کے ارادے کے تابع ہیں۔ اگر وہ چاہے تو ایک اندھا تاریک رات میں سیاہ چیونٹی کی آنکھ کو دیکھ سکتا ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو دن کی روشنی میں فلک بوس پہاڑ سے نیلگوں آسمان کو بھی نہیں دیکھا جاسکتا چونکہ اس نے چاہا کہ اجزاء انفرادی طور پر نظر نہ آئیں اور جب وہ مجتمع ہوجائیں تو نظر آنے لگیں لہٰذا جیسا اس نے چاہا ویسا ہی واقع ہوا۔ (ت)
الرابع والعشرون: یمکن الجواب عن الاستناد الیٰ کلام البدائع بما (عـــہ۱) اوردہ فی البحر ولم یردّہ وان لم یردہ اذ نقل عن اسرار القاضی الامام الدبوسی ما تقدم ان محمدا یقول لما اغتسل فی الماء القلیل صار الکل مستعملا حکما ثم قال فھذہ العبارۃ کشفت اللبس واوضحت کل تخمین وحدس ۱؎ فانھا افادت ان مقتضی مذھب محمد ان الماء لایصیر مستعملا باختلاط القلیل من الماء المستعمل الا ان محمدا حکم بان الکل صار مستعملا حکما لاحقیقۃ فما فی البدائع محمول علی ان مقتضی مذھب محمد عدم الاستعمال الا انہ یقول بخلافہ ۲؎ اھ۔
چوبیسواں، صاحب بدائع کے کلام کی طرف جو منسوب ہے اس کا بیان صاحبِ بحر کے بیان سے ممکن ہے جس کو انہوں نے رَد نہیں کیا اگرچہ صاحب بحر نے یہ ارادہ نہیں کیونکہ انہوں نے قاضی امام دبّوسی کی اسرار سے نقل کیا ہے جو گزرا کہ امام محمد فرماتے ہیں تھوڑا پانی ہو اور اس میں کوئی غسل کرے تو کل حکما مستعمل ہوگا، تواس عبارت نے التباس کو ختم کردیا ہے، اس عبارت سے معلوم ہوا کہ محمد کے مذہب کا مقتضٰی یہ ہے کہ تھوڑے سے مستعمل پانی کے مل جانے سے پانی مستعمل نہ ہوگا، مگر محمد نے حکم کیا ہے کہ کل حکماً مستعمل ہوگا نہ کہ حقیقۃ، تو جو کچھ بدائع میں ہے وہ یہ ہے کہ محمد کے مذہب کا مقتضی یہ ہے کہ پانی مستعمل نہ ہوگا، مگر وہ کہتے اس کے خلاف ہیں اھ
(عـــہ ۱) ذکرہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی ضمن سؤال وعدل فی الجواب الی حمل الروایات المتواترۃ الظاھرۃ علی الضعیفۃ النادرۃ وغیر ذلک مما یأتیک الجواب عنہ ان شاء اللّٰہ اھ، منہ غفرلہ ۔(م)
انہوں نے اس کو سوال کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور جواب میں روایت متواترہ ظاہرہ کو روایت ضعیفہ نادرہ وغیرہ پر محمول کرنے کی طرف عدول کیا ہے جس کا جواب ان شاء اللہ تعالٰی آپ کو دیا جائے گا اھ منہ غفرلہ (ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۲)
قال فی منحۃ الخالق یعنی ان صاحب البدائع نسب الی محمد عدم الاستعمال بناء علی مااقتضاہ مذھبہ من ان المستعمل لایفسد الماء مالم یغلبہ اویساوہ لکن محمد ا ما قال بذلک الذی اقتضاہ مذھبہ بل قال فی ھذہ الصورۃ انہ صار مستعملا حکما کما صرحت بہ عبارۃ الدبوسی ۱؎ اھ۔
منحۃ الخالق میں فرمایا یعنی صاحبِ بدائع نے محمد کی طرف عدمِ استعمال کی طرف منسوب کیا، جیسا کہ ان کے مذہب کا مقتضٰی ہے کہ مستعمل پانی، پانی کو فاسد نہ کرے گا تاوقتیکہ اس پر غالب ہوجائے، یا اس کے برابر ہوجائے، لیکن محمد نے یہ نہیں فرمایا ہے حالانکہ یہ اُن کے مذہب کا مقتضٰی ہے بلکہ اس صورت میں انہوں نے فرمایا کہ یہ حکماً مستعمل ہوگیا جیسا کہ دبّوسی کی عبارت سے صراحۃً معلوم ہوتا ہے۔
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۲)
اقول: ثبوت الاستعمال باللقاء، وحقیقۃ (عہ۱) اللقاء لتلک الاجزاء، والحکم ثبت لجمیع الماء، لان القلیل شیئ واحد فی اعتبار الشریعۃ الغراء، کما اسلفنا تحقیقہ، ونورنا لک طریقہ، لان الحکم منتف حقیقۃ، فیکون اثباتہ مجازفۃ سحیقۃ۔
میں کہتا ہوں استعمال کا ثبوت ملاقاۃ سے ہوتا ہے، اور حقیقۃ ملاقاۃ ان اجزاء سے ہوتی ہے اور حکم تمام پانی کے لئے ثابت ہوتا ہے کیونکہ شریعت میں قلیل شے واحد ہے، جیسا کہ ہم اس کی تحقیق اور نورانی طریقہ بیان کر آئے ہیں، کیونکہ حکم حقیقی طور پر منتفی ہے تو اس حکم کو ثابت کرنا اندازاً ہوگا۔
(عــہ ۱) ای الحسیۃ العرفیۃ اھ منہ غفرلہ (م)
یعنی حقیقۃ حسی عرفی۔ ت
الخامس والعشرون: محاولۃ العلامۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی رد جمیع تلک الفروع المتواترۃ الدائرۃ فی عامۃ کتب المذھب المنصوص علیھا عن جمیع ائمۃ المذھب المطبق علیھا سلف المذھب وخلفہ الی روایۃ نجاسۃ الماء المستعمل شیئ عجیب من مثلہ المحقق۔
پچیسواں ______ وہ تمام فروع جو تواتر کے ساتھ عام کتبِ مذہب میں مذکور ہیں اور ائمہ شراح نے ان کو ذکر کیا ہے، اور تمام ائمہ مذہب سے منصوص ہیں جن پر سلف مذہب اور خلف مذہب متفق ہیں ان سب کو انہوں نے مستعمل پانی کے نجس ہونے والی روایت کی طرف راجع کیا ہے، علامہ جیسے محقق سے یہ بات بعید ہے۔
فاقول: اولا کیف(۱) یسوغ ان ترد بھذہ الکثرۃ وتدور فی جمیع کتب المذھب وتتداولھا الائمۃ والشراح ولا ینبہ احد انھا تبتنی علی روایۃ ضعیفۃ متروکۃ بل یذکرونھا ویقرونھا ویفرعون علیھا وعند الحجاج والحاج یفزعون الیھا فرد جمیع ذلک بعید کل البعد۔
میں کہتا ہوں اوّلا یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ فروع اس کثرت سے تمام کتب مذہب میں ذکر کی جائیں اور ائمہ وشُرّاح ان کو قبول کریں اور کسی کو یہ خبر نہ ہو کہ یہ ضعیف ومتروک روایت پر مبنی ہیں، بلکہ وہ حضرات ان کو مسلسل ذکر کرتے چلے جائیں اور ان پر مزید تفریعات کرتے چلے جائیں اور مناظروں میں ان کو پیش کرتے رہیں تو ان سب کو روایت نجاست کی طرف لوٹانا سخت بعید ہے۔
وثانیا: ھو منصوص علیہ فی الروایۃ الظاھرۃ وما روایۃ التنجیس الانادرۃ روی ھذہ الحسن ونص علی ذلک محمد فی الاصل وثالثا: تظافرت علیہ التصحیحات کما قدمنا عن البحر عن الخبازی عن القدوری عن الجرجانی وعن الحلیۃ عن ابی الحسین عن ابی عبداللّٰہ وعن خزانۃ المفتین ومتن الملتقی وعن البحرانہ المذھب المختار فکیف یبتنی علی روایۃ متروکۃ،
اور ثانیاً یہ ظاہر روایت میں نص ہے اور تنجیس کی روایت نادرہ ہے، اس کو حسن نے روایت کیا، اصل میں محمد نے اس پر نص کی۔
اور ثالثاً اس پر پے درپے تصحیحات موجود ہیں جیسا کہ ہم نے بحر، خبازی، قدوری، جرجانی، حلیہ، ابی الحسین، ابی عبداللہ، خزانۃ المفتین، اور متن ملتقی کے حوالوں سے نقل کیا، اور بحر سے نقل کیا کہ یہی مذہب مختار ہے تو پھر یہ متروک روایت پر کس طرح مبنی ہوسکتا ہے۔
ورابعا: توافرت فیہ نقول الاتفاق علیہ وانہ مذھب اصحابنا جمیعا کما سبق عن النھایۃ والعنایۃ والھندیۃ ومجمع الانھر والدر المختار وغیرھا وعن البحر عن البدائع وعنہ عن العنایۃ والدرایۃ وغیرھا وعن الحلیۃ وعن البحر عن الخبازی کلاھما عن ابی الحسین عن الجرجانی وعن شیخکم المحقق انہ قولنا جمیعا فکیف یجوز رجعہ الی روایۃ متروکۃ،
اور رابعاً متفقہ نقول کثرت سے ہیں یہی ہمارے تمام اصحاب کا مذہب ہے جیسا کہ گزرا نہایہ، عنایہ، ہندیہ، مجمع الانہر، درمختار وغیرہ سے اور بحر نے بدائع، عنایہ ودرایہ اور حلیہ سے اور بحر وخبازی دونوں نے ابو الحسن، جرجانی اور شیخ محقق سے یہ تمام کا قول ہے تو متروکہ روایت کی طرف اس کو راجع کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔
وخامسا اکثروا من عزوہ لمحمد کمامر عن الفوائد الظھیریۃ عن شیخ الاسلام خواھر زادہ وابی بکر الرازی وشمس الائمۃ السرخسی وعن الزیلعی وشیخکم المحقق حیث اطلق وعن البحر عن الاسبیجابی والولوالجی وحیث حکم محمد بسقوط حکم الاستعمال عللوہ بالضرورۃ کما سلف عن البحروالنھر والفتح والتبیین والکافی والبرھان والحلیۃ والفوائد والصغری والخبازی والقدوری والجرجانی وشمس الائمۃ الحلوانے و عن البحر عن السرخسی عن نص محمد فی الاصل وعن البحر عن الدبوسی ان محمدا یقول صار الکل مستعملا حکما وقد قال (عہ۱) فی البحر ان ھذہ العبارۃ کشفت اللبس واوضحت کل تخمین وحدس ۱؎ ومعلوم ان محمدا لم یقل قط بالتنجیس فکیف تحمل علیہ وبہ (۱) ظھر الجواب عما اراد بہ البحر فی البحر والرسالۃ دفع الاستبعاد عن ھذا الحمل بان المحقق فی الفتح حمل فرعافی الخانیۃ علی نجاسۃ المستعمل وقال لایفتی بمثل ھذہ الفروع ۲؎ اھ۔
اور خامساً اکثر نے اس کو محمد کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ فوائد ظہیریہ، شیخ الاسلام، خواہر زادہ، ابو بکر رازی، شمس الائمہ سرخسی، زیلعی اور تمہارے شیخ محقق، بحر، اسبیجابی، ولوالجی سے گزرا، اور جہاں محمد نے استعمال کا حکم ساقط ہونے کی بات کی اس کو انہوں نے ضرورت پر محمول کیا جیسا کہ بحر، نہر، فتح، تبیین، کافی، برہان، حلیہ، فوائد، صغری، خبازی، قدوری، جرجانی، شمس الائمہ حلوانی سے گزرا اور بحر سے سرخسی سے اصل میں امام محمد کی نص سے گزرا اور بحر سے دبوسی سے گزرا کہ محمد فرماتے ہیں کُل حکماً مستعمل ہوگا اور بحر میں فرمایا ہے کہ اس عبارت سے مشکل حل ہوگئی ہے، اور یہ معلوم ہے کہ محمد نے پانی کے نجس ہونے کا قطعاً قول نہیں کیا ہے تو اس کو اس پر کیسے محمول کیا جائے گا، اور اس سے بحر اور رسالہ کا جواب بھی ظاہر ہوگیا، انہوں نے اس حمل کو بعید گردانا تھا، اور کہا تھا کہ محقق نے فتح میں مستعمل پانی پر ایک فرع خانیہ کی اس پانی کی نجاست پر محمول کی ہے، اور کہا ہے کہ اس قسم کی فروع پر فتوی نہ دیا جائے اھ
(عـــہ۱) ای اوردہ علی نفسہ ولم یجب عنہ۔ منہ غفرلہ (م)
یعنی انہوں نے اسکو اپنے اوپر وارد کیا ہے اوراس کا جواب نہیں دیا۔ (ت(
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۳)
زاد فی الرسالۃ ان تلمیذہ فی الحلیۃ حمل علیھا فرعی الاجمۃ والطحلب وحمل فروعا کثیرۃ علی ھذا النحو ۳؎ اھ فھل بعض فروع وردت متفرقۃ فی غضون بعض الفتاوٰی کھذہ الفروع الوافرۃ، المتکاثرۃ المتواترۃ، الثابتۃ الدائرۃ، فی عامۃ الشروح والفتاوی مع عدۃ من المتون، من دون نکیر ولا مجال ظنون، ام ھی کھذہ فی الکتب الظاھرۃ، ام ھی مذیلات بالتصحیحات المتظافرۃ، ام ھی منصوص علیھا من جمیع ائمۃ المذھب الحنفی، ام ھی مزینۃ بطراز الاتفاق وبانھا قولنا جمیعا وبانھا مذھب اصحابنا فاین ذی من اتی، ام ھل لھا محمل غیر ھذا فکیف یقاس علی المتعین، مالہ سبیل واضح متبین۔
رسالہ میں یہ اضافہ ہے کہ ان کے شاگرد نے حلیہ میں اس پر اجمہ اور طحلب کی دو فروع کو محمول کیا، یہ خلاصہ اور منیہ میں مذکور ہیں اور فرمایا کہ اسی نہج پر انہوں نے بہت سی فروع اخذ کی ہیں، اھ تو کیا ان فروع کی طرح کچھ اور ایسی فروع ہیں جو متفرق فتاوی میں اس کثرت کے ساتھ مذکور ہوں، کیا شروح اور کیا متون اور ان پر کیسے کوئی نکیر نہیں کی؟ یا ان کی طرح کتب ظاہر روایت میں ہوں؟ یا ان کی اتنی تصحیحات ہوں؟ یا تمام مذہب حنفی کی کتب میں منصوص ہوں؟ـ یا ان پر اتفاق کیا گیا ہو کہ یہ ہم سب کا قول ہے یہ ہمارے اصحاب کا مذہب ہے؟ یا ان کا کوئی اور محمل ہے کہ ان کی طرف روشن راستہ ہو۔
(۳؎ جواز الوضوء من الفساقی رسالۃ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸/۸۲۱)
السادس والعشرون: کلام العلامۃ علی حدیث لایبولن احدکم فی الماء الدائم قدمنا الکلام علیہ واشرنا الی کلام شیخہ المحقق علی الاطلاق حیث یقول اما قولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم (وذکر الحدیث) فغایہ مایفید نھی الاغتسال کراھۃ التحریم ویجوز کونھا لکیلا تسلب الطھوریۃ فیستعملہ من لاعلم بہ بذلک فی رفع الحدث ویصلی ولافرق بین ھذا وبین کونہ یتنجس فیستعملہ من لاعلم لہ بحالہ فی لزوم المحذور وھو الصلاۃ مع المنافی فیصلح کون کل منھما مثیرا للنھی المذکور ۱؎ اھ۔
چھبیسواں علاّمہ نے لایبولن احدکم فی الماء الدائم (ٹھہرے پانی میں پیشاب نہ کرے) پر جو کلام کیا ہے اس پر ہم پہلے ہی بحث کر چکے ہیں، اور اُن کے شیخ محقق علی الاطلاق کے کلام کی طرف اشارہ کرآئے ہیں، وہ فرماتے ہیں ''بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (پھر انہوں نے مذکور حدیث بیان کی) میں جو غسل کرنے کی نہی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ جو ثابت ہوتا ہے وہ نہی تحریم ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ طہوریت سلب ہوجائے، اور اس کو کوئی شخص لاعلمی میں رفعِ حَدَث کیلئے استعمال کر بیٹھے اور نماز پڑھ لے اور اس میں اور اس مضمون میں کہ پانی نجس ہوجاتا ہے تو ایسا نہ ہو کہ اس کو کوئی شخص لاعلمی میں استعمال کرے، دونوں صورتوں میں محذور لازم ہے، یعنی منافی کے ہوتے ہوئے نماز پڑھنا، پس جائز ہے کہ ان میں سے ہر ایک مذکور نہی کا باعث ہو اھ۔
(۱؎ فتح القدیر الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالا یجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۵)
ودفع البحر(۱) ایاہ ببحث البدائع المذکور دفع للصحیح بمالیس بہ کما علمت اماحدیث المستیقظ،فاقول: لیس من حجتنا فی ھذا الباب لاحتمال انہ لاحتمال النجاسۃ العینیۃ بل ھو الظاھر من قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فانہ لایدری این باتت یدہ والعلامۃ عدل عن ھذا الجواب الواضح الی ثلثۃ لایستقیم(۱) منھا شیئ فاوّلا: دعوی الخصوص لادلیل علیہ وثانیا: کیف یجعل تعبدیا غیر معقول المعنی مع الارشاد الی المعنی فی نفس الحدیث فانہ لایدری این باتت یدہ وثالثا: ماعن اصحاب عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالی عنھم یجوز ان یکون لان اباھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان یرسلہ ارسالا فاشاروا الی تخصیص مواضع الضرورۃ کما ھو الحکم المصرح بہ عندنا اذا کان الماء فی جب ولا اٰنیۃ یغترف بھا۔
بحر کا اس کو بدائع کی مذکور بحث سے دفع کرنا صحیح کو غیر صحیح سے دفع کرنا ہے جیسا کہ آپ نے جان لیا اور رہی مستیقظ والی حدیث،تو میں کہتا ہوں اس سلسلہ میں ہماری دلیل یہ نہیں ہے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ یہ نجاست عینیہ کی وجہ سے ہو بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ''فانہ لایدری این باتت یدہ'' (وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات کو کہاں رہا) سے یہی ظاہر ہے، اور علّامہ نے اس جواب سے عدول کرکے تین جوابات دیے جن میں سے کوئی ٹھیک نہیں، پہلا دعوائے خصوص، جس پر کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے یہ کہ کس طرح اس کو تعبدی اور غیر معقول المعنی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ خود حدیث میں معنی کی طرف رہنمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ فانہ لایدری این باتت یدہ۔ تیسرے عبداللہ کے اصحاب سے جو مروی ہے ممکن ہے وہ اس لئے ہو کہ ابو ہریرہ اس کا ارسال کرتے ہوں تو انہوں نے ضرورت کے مقامات کے ساتھ اس کو مختص کرنے کی طرف اشارہ کیا ہو، جیسا کہ ہمارے یہاں یہ واضح حکم موجود ہے کہ جب پانی تالاب میں ہو اور کوئی برتن پانی نکالنے کیلئے نہ ہو۔
السابع والعشرون: قولہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی تکرار الاستعمال الظاھر عدم اعتبار ھذا المعنی فی النجس فکیف بالطاھر غیر(۲) مُظھر ولا ظاھر الاتری ان النجاسۃ تصیب الثوب او البدن فی مواضع متفرقۃ تجمع فان بلغت حد المنع منعت وما یتراأی من عدم جمع الواقعۃ فی الماء الکثیر فان الوقوع فی عشرۃ مواضع منہ کالوقوع فی موضع فلیس لعدم الجمع بل لعدم البلوغ الی حدالمنع حتی لوبلغت بان غیر المجموع احد اوصافہ وما کانت الافراد لتغیرہ فلا شک فی الجمع واللّٰہ تعالی اعلم ھذا تمام الکلام مع العلامۃ قاسم رحمہ اللّٰہ تعالٰی وقد ظھر بہ الحق السدید، بحیث لاحاجۃ الی المزید، والحمدللّٰہ الحمید المجید۔
ستائیسواں :ان کا قول تکرار استعمال کی بابت، ظاہر یہی ہے کہ یہ معنیٰ نجس میں اعتبار نہ کیا جائے تو پھر طاہر کا کیا حال ہوگا۔ یہ نہ ظاہر کرنے والا ہے اور نہ بذاتِ خود ظاہر ہے، مثلاً نجاست جو بدن یا کپڑے کو متفرق مقامات پر لگ جائے تو اس کو جمع کیا جائے گا۔ اب اگر منع کی حد کو پہنچ جائے تو منع کرے گی۔ اگر کثیر پانی میں نجاست گر جائے تو اس کو بظاہر جمع نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ پانی میں اگر دس جگہ نجاست گِر جائے تو وہ ایسی ہے جیسے ایک جگہ گری ہو، تو یہ چیز عدم جمع کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ حدِ منع تک نہیں پہنچی ہے اور اگر حدِ منع تک پہنچ جائے مثلاً یہ کہ نجاست کا مجموعہ اس کے اوصاف میں سے کسی وصف کو بدل دے، اور ہر فرد نہ بدلے تو جمع کرنے میں شک نہیں۔ یہ مکمل گفتگو تھی علّامہ قاسم کے ساتھ، اس سے حق ظاہر ہوگیا، اس سے زیادہ کی حاجت نہیں، والحمدللہ الحمید المجید۔
الفصل الثانی فی کلام العلامۃ زین فی البحر والرسالۃ کانت قضیۃ ترتیب الزمان ان نقدم علیہ کلام العلامۃ ابن الشحنۃ رحمھما اللّٰہ تعالٰی لکن اردنا الحاق الموافق بموافقہ لم یات رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی رسالتہ ولا فی بحرہ بشیئ یزید علی مااورد العلامۃ قاسم الا مالا مساس لہ بمحل النزاع افاض اولا فی تحدید الماء الکثیر وان المذھب تفویضہ الی رأی المبتلی وان التقدیر بعشرفی عشر انما اختارہ المتأخرون تیسیرا علی من لارأی لہ وانہ لایرجع الی اصل شرعی یعتمد علیہ ثم تکلم علی صفۃ الماء المستعمل وان المفتی بہ انہ طاھر غیر طھور ثم اتی علی المسألۃ فقال وقد قالوا ان الماء المستعمل اذا اختلط بالطھور تعتبر فیہ الغلبۃ فان کان الماءالطھور غالبا یجوز الوضوء بالکل والا لایجوز وممن نص علیہ الامام الزیلعی فی شرح الکنز والعلامۃ سراج الدین الہندی فی شرح الہدایۃ والمحقق فی فتح القدیر قال وھی باطلاقۃ تشمل مااذا استعمل الماء خارجا ثم القی الماء المستعمل واختلط بالطھور اوانغمس فی الماء الطھور اوتوضأ فیہ ۱؎ اھ۔
دُوسری فصل علّامہ زین کے کلام میں جو بحر اور رسالہ میں ہے: زمانی ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ابن الشحنہ کا کلام اس پر مقدم کرتے، لیکن ہم نے ایک موافق کو دوسرے موافق سے لاحق کرنا چاہا ہے انہوں نے اپنے رسالہ میں یا بحر میں علامہ قاسم کے کلام سے کچھ مزید اضافہ نہیں کیا ہے، صرف وہی بات مذکور ہے جس کا محلِ نزاع سے کچھ تعلق نہیں، پہلے تو انہوں نے کثیر پانی کی تحدید کی ہے اور کہا کہ مذہب میں یہ معاملہ صاحبِ معاملہ کے سپرد ہے، اور دَہ در دَہ کے اندازہ کو متأخرین نے اُن لوگوں کی آسانی کیلئے وضع کیا ہے جن کی اپنی کوئی رائے نہ ہو اور اس کی کوئی قابلِ اعتماد شرعی دلیل نہیں، پھر انہوں نے مستعمل پانی پر کلام کیا ہے اور بتایا ہے کہ مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ یہ طاہر تو ہے مگر پاک کرنے والا نہیں ہے، پھر اصل مسئلہ بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مشائخ فرماتے ہیں کہ مستعمل پانی جب پاک کرنے والے پانی کے ساتھ مل جائے تو اس میں غلبہ کا اعتبار ہوگا اگر پاک کرنے والا پانی زیادہ ہو تو سب پانی سے وضو جائز ہوگا ورنہ ناجائز ہوگا۔ اس کی تصریح زیلعی نے شرح کنز میں، علّامہ سراج الدین الہندی نے شرح ہدایہ میں اور محقق نے فتح القدیر میں کی ہے، اور فرمایا ہے کہ اُس صورت کو بھی شامل ہے کہ جب پانی خارجی طور پر استعمال کیا جائے پھر مستعمل پانی ڈالا جائے اور وہ پاک کرنے والے پانی سے مل جائے یا آدمی پاک کرنے والے پانی میں غوطہ کھائے یا اس سے وضو کرے اھ۔ (ت)
(۱؎ الرسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۱۹/۶)
اقول: مبنی(۱) علی جعل المستعمل ھی الاجزاء المتصلۃ بالبدن فما وراء ھا طھور اختلط بہ الماء المستعمل ولیس ھکذا بل کلہ ملاق فکلہ مستعمل فکیف یشملہ الاطلاق قال: ویدل علیہ ایضا مافی البدائع وذکر عبارات الثلاث قال فھذا صریح فیما قلنا ۲؎
میں کہتا ہوں یہ قول اس پر مبنی ہے کہ مستعمل پانی اُن اجزاء کو قرار دیا جائے جو بدن سے متصل ہوں اور اس کے علاوہ پاک کرنے والا ہے جس کے ساتھ مستعمل پانی مل گیا ہے، حالانکہ بات یہ نہیں ہے بلکہ کل پانی اس سے ملنے والا ہے لہٰذا کل مستعمل ہوگا، اس کو اطلاق کیسے شامل ہے؟ فرمایا اس پر بدائع کی عبارت بھی دلالت کرتی ہے اور پھر انہوں نے تینوں عبارات ذکر کی ہیں، فرمایا یہ ہمارے قول کی صریح دلیل ہے۔
(۲؎ الرسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۱۹/۶)
اقول: لامحل لایضا(۲) فان تلک الدلالۃ مبتنیۃ علی ما فی البدائع والا فلادلالۃ کما علمت وما فی البدائع قدفرغنا عنہ بابدع وجہ وللّٰہ الحمد! قال: ویدل علیہ ایضا مافی خلاصۃ الفتاوی جنب اغتسل فانتضح من غسلہ شیئ فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل فیہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قولہ محمد رحمہ اللّٰہ تعالی لایفسد مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ عن الطھوریۃ ۱؎ اھ بلفظہ۔
میں کہتا ہوں ''ایضا'' کا یہاں کوئی مقام نہیں، کیونکہ یہ دلالت مفہوم بدائع پر مبنی ہے ورنہ کوئی دلالت نہیں جیسا کہ تم نے جانا، اور جو کچھ بدائع میں ہے اس پر اچھی طرح ہم بحث کرچکے ہیں وللہ الحمد، فرمایا اس پر خلاصۃ الفتاوی کی عبارت بھی دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ناپاک شخص نے غسل کیا؟ اس سے کچھ چھینٹے اُڑ کر اس کے برتن میں پڑے تو اس کا پانی فاسد نہ ہوگا، اگر مستعمل بہہ کر اس میں گیا تو فاسد کردے گا اسی طرح حمام کا حوض، اور امام محمد کے قول پر فاسد نہ کرے گا جب تک غالب نہ ہوجائے، یعنی اس کو پاک کرنے کے وصف سے خارج نہ کریگا الّایہ کہ وہ پاک پر غالب ہوجائے اھ بلفظہ۔ (ت(
(۱؎ رسالہ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن ۲/۸۱۹/۶)
اقول رحمک(۱) اللّٰہ ھذا ملقی والکلام فی الملاقی ثم اورد علی نفسہ سؤالا من قبل فروع کثیرۃ فی کتب مشھورۃ تخالف ماجنح الیہ اورد منھا فرع( ۱) الخانیۃ لوصب الوضوء فی بئرولم یکن استنجی بہ علی قول محمد لایکون نجسا لکن ینزح منھا عشرون لیصیر الماء طھور ۲؎ اھ۔
میں کہتا ہوں خدا آپ پر رحم کرے یہ مُلقیٰ ہے جبکہ گفتگو ملاقی میں ہے، پھر انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ان فروع کثیرہ سے سوال وارد کیا جو کتب کثیرہ میں وارد ہیں، یہ سب ان کے نظریہ کے مخالف ہیں۔
خانیہ کی فرع(۱): اگر وضو کا بچا ہوا پانی کنویں میں بہا دیا مگر اس سے استنجا نہیں کیا تھا تو یہ محمد کے قول پر نجس نہ ہوگا، تاہم اس سے بیس ڈول نکالے جائیں گے تاکہ پانی طہور ہوجائے اھ۔
(۲؎ رسالہ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن ۲/۸۱۹/۶)
وفرع(عہ۱) الخلاصۃ نحوہ غیر ان فیہ ینزح الاکثر من عشرین دلوا ومن ماء صب فیہ عند محمد ۳؎ اھ۔ قال فھذا ظاھر فی استعمالہ الماء بوقوع قلیل من الماء المستعمل فیہ علی قول محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی ۴؎ واجاب بانہ مبنی علی روایۃ ضعیفۃ عن محمد ان الماء یصیر مستعملا بوقوع قلیل من الماء المستعمل لاعلی الصحیح من مذھبہ انہ لایصیر مستعملا مالم یغلب علیہ ۱؎ اھ۔
خلاصہ کی فرع(۲): یہ بھی اُسی طرح ہے مگر اس میں بیس ڈول سے زیادہ نکالے جانے کا ذکر ہے اور اُس پانی سے جو اس میں بہا یا گیا ہے محمد کے نزدیک اھ۔ فرمایا اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر تھوڑا مستعمل پانی، پانی میں گر جائے تو وہ پانی مستعمل ہوجائیگا، یہ محمد کا قول ہے اھ اس کا یہ جواب دیا کہ محمد کا یہ قول ایک ضعیف روایت پر مبنی ہے کہ پانی تھوڑے مستعمل پانی کے گرنے کی وجہ سے مستعمل ہوجائیگا، ان کا صحیح مذہب یہ ہے کہ پانی صرف اسی وقت مستعمل ہوگا جب اس پر مستعمل پانی کا غلبہ ہوجائے اھ
(۳؎ رسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن ۲/۸۲۰/۷)
(۴؎ رسالہ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن ۲/۸۱۹/۶)
(۱؎ رسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن ۲/۸۲۰/۷ )
(عہ۱ (اوردہ بعد عدۃ فروع والحقناہ بفرع الخانیۃ لاتحاد صورتھما اھ منہ غفرلہ (م(
انہوں نے اس فرع کو متعدد فروع کے بعد ذکر کیا ہے اور ہم نے اسے خانیہ کی فرع سے ملحق کیا ہے کیونکہ دونوں کی صورت ایک جیسی ہے اھ (ت(
ونقل تصحیحہ عن المحیط وعن شرح الھدایۃ للعلامۃ سراج الدین الھندی ونقل عنہ عن التحفۃ انہ المذھب المختار ۲؎۔
اور اس کی تصحیح کو محیط، سراج الدین ہندی کی شرح ہدایہ سے نقل کیا اور اُن سے تحفہ سے نقل کیا کہ وہی مذہب مختار ہے۔ (ت(
(۲؎ رسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن ۲/۸۲۰/۷)
اقول :ھو کما(۱) قال والفرعان فی الملقی فلا یمسان مورد النزاع والاستعمال لایتوقف علی غلبۃ المستعمل بل عدمہ علی غلبۃ المطھر فان تساویا صار الکل مستعملا کما نصوا علیہ منھم ھو فی البحر۔
میں کہتا ہوں یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ انہوں نے فرمایا اور یہ دونوں فرعیں مُلقیٰ میں ہیں لہٰذا محلِ نزاع سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا ہے اور استعمال مستعمل کے غلبہ پر موقوف نہیں بلکہ اس کا عدم غلبہ مطہّر پر مبنی ہے، تو اگر دونوں برابر ہوں تو کل مستعمل ہوجائے گا، جیسا کہ مشائخ نے اس کی تنصیص کی، بحر میں بھی یہی ہے۔ (ت(
اقول:واقتصار المحیط والسراج والتحفۃ والخلاصۃ وغیرھا علی ذکر الغلبۃ لان المساواۃ الحقیقۃ نادرۃ جداکما(۲) قالوہ فی انفھام افضلیۃ زید من قول القائل لاافضل منہ وفرع(۳) جحط المذکور فی المتون والشروح وصورتھا رجل نزل لطلب الدلو ولیس علی بدنہ نجاسۃ فعند محمد الماء طاھر غیر طھور والرجل طاھر مع ان الماء الذی لاقی بدنہ فی البئر اقل من غیرہ وقد جعلہ محمد مستعملا لانعدام الضرورۃ ۱؎ اھ واجاب بمامر۔
میں کہتا ہوں محیط، سراج، تحفہ اور خلاصہ وغیرہ میں غلبہ کے ذکر پر اقتصار کیا ہے، کیونکہ حقیقی مساوات نادر ہے، مشائخ نے اس کو اس مثال سے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی لاافضل من زید، کہے تو اس سے زید کی افضلیت سمجھ میں آتی ہے۔جحط(۳) کی فرع جو متون وشروح میں مذکور ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کُنویں میں ڈول نکالنے کیلئے اُترا اور اس کے بدن پر نجاست نہیں ہے تو محمد کے یہاں پانی طاہر ہے طہور نہیں اور آدمی طاہر ہے حالانکہ وہ پانی جو کنویں میں سے اس کے بدن پر لگا ہے دوسرے سے کم ہے، اور محمد نے اس کو مستعمل قرار دیا ہے کیونکہ ضرورت نہیں اھ اس کا جواب وہ دیا جو گزرا۔ (ت(
(۱؎ الرسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ والنظائر ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۱۹/۶)
اقول رحمکم(۱) اللّٰہ ورحمنا بکم اذا ارید بطاء جحط طاھر غیر طھور فکیف تجعلونہ مبنیا علی روایۃ ضعیفۃ عن محمد وانتم القائلون فی بحر کم علم بما قررناہ ان المذھب المختار فی ھذہ المسألۃ ان الرجل طاھر والماء طاھر غیر طھور علی الصحیح ۲؎ اھ۔
میں کہتا ہوں اللہ تم پر اور ہم پر رحم فرمائے اگر جحط کی ''طا'' سے طاہر غیر طہور مراد ہو تو آپ اس کو محمد کی روایت ضعیفہ پر کیونکر مبنی کرتے ہیں حالانکہ آپ بحر میں کہتے ہیں کہ ہماری تقریر سے معلوم ہوا کہ مذہب مختار اس مسئلہ میں یہ ہے کہ آدمی پاک ہے اور پانی طاہر غیر طہور ہے صحیح مذہب پر اھ
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۸)
نعم المشہور ان طاءہ للطاھر الطھور کما ذکرتم فی البحر وحینئذ یرد الفرع من قبل ان سقوط حکم الاستعمال لاجل الضرورۃ قلتم فی البحر عند محمد الرجل طاھر والماء طاھر طھور وجہ قول محمد علی ماھو الصحیح(عہ۱) عنہ ان الصب لیس بشرط عندہ فکان الرجل طاھرا ولا یصیر الماء مستعملا وان ازیل بہ حدث للضرورۃ واما علی ماخرجہ ابو بکر الرازی لایصیر مستعملا لفقد نیۃ القربۃ ۱؎ اھ۔ فان ابیتموھا لانھا روایۃ غیر مختارۃ کما قدمنا کانت المختارۃ اشد فی الرد،
ہاں مشہور یہی ہے کہ اس کی ''طا'' طاہر کیلئے ہے اور طہور کیلئے، جیسا کہ تم نے بحر میں ذکر کیا، اور اس وقت فرع اس جانب سے وارد ہوگی کہ استعمال کا حکم ضرورت کی وجہ سے ساقط ہوتا ہے تم نے بحر میں کہا ہے کہ محمد کے نزدیک مرد پاک ہے اور پانی طاہر طہور ہے امام محمد کے قول کی وجہ (صحیح روایت کے بموجب) یہ ہے کہ ان کے نزدیک بہانا شرط نہیں، تو آدمی پاک ہوا اور پانی مستعمل نہ ہوگا خواہ اس سے حدث زائل کیا گیا ہو، ضرورت کی وجہ سے، اور ابو بکر الرازی کی تخریج کے مطابق پانی مستعمل نہ ہوگا کیونکہ اس میں قربت کی نیت نہیں اھ تو اگر آپ اس روایت کا انکار کریں کہ یہ غیر مختار روایت ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا تو مختار روایت تردید میں زائد ہوگی۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۷ )
(عہ۱) اقول والمراد بہ استعمال الماء بازالۃ حدث وان لم ینوقربۃ خلافا لتخریج الامام الرازی ولذا قال واما علی ماخرج الخ فلیس تصحیحا لھذہ الروایۃ بل الصحیح ما تقدم انہ طاھر غیر طھور اھ منہ غفرلہ (م(
میں کہتاہوں اس سے مراد یہ ہے کہ ازالہ حدث سے پانی مستعمل ہوجائے گا اگرچہ قربت کی نیت نہ ہو بخلاف امام رازی کی تخریج کے، اسی وجہ سے انہوں نے اما علی ما خرج الخ فرمایا لہٰذا صحیح روایت یہ نہیں بلکہ وہ ہے جو گزری کہ پانی طاہر غیر طہور ہے اھ۔ (ت(
وفرع(۴) الاسرار وھو کلامہ علی حدیث لایبولن اذیقول من قال ان الماء المستعمل طاھر طہور لایجعل الاغتسال فیہ حراما وکذا من قال طاھر غیر طھور لان المذھب عندہ ان الماء المستعمل اذا وقع فی ماء اٰخر لم یفسدہ حتی یغلب علیہ وقدرما یلاقی بدن المستعمل یصیر مستعملا وذلک القدر من جملۃ مایغتسل فیہ عادۃ یکون اقل من ماء فضل عن ملاقاۃ بدنہ فلا یفسدہ ویبقی طھورا ولا یحرم فیہ الاغتسال الا ان محمدا یقول بصیر ورتہ مستعملا بالاغتسال فیہ ۲؎ اھ
اسرار(۴) کی فرع حدیث ''لایبولن'' پر انکی گفتگو یہ ہے کہ جو یہ کہتا ہے مستعمل پانی طہور وطاہر ہے تو وہ اس میں غسل کو حرام قرار نہیں دیتا ہے اور اسی طرح جو اس پانی کو طاہر غیر طہور کہتے ہیں کیونکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ جب مستعمل پانی دوسرے پانی میں مل جائے تو جب تک اس پر غالب نہ ہو اس کو فاسد نہیں کرتا اور صرف اسی قدر مستعمل ہوتا ہے جو بدن سے متصل ہوتا ہے اور یہ مقدار اُس مجموعی پانی کی مقدار سے جس سے کہ غسل کیا جاتا ہے عادۃً اس پانی سے کم ہوا کرتی ہے جو ملاقاۃ بدن سے بچ رہا ہوتا ہے، تو یہ اس کو فاسد نہیں کرے گا اور طہور ہی رہے گا اور اُس سے غسل حرام نہ ہوگا، تاہم محمد فرماتے ہیں کہ اس میں غسل کرنے سے یہ مستعمل ہوجائیگا اھ
(۲؎ الرسالۃ فی جواز الوضوء من رسائل ابن نجیم مع الاشباہ، ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۱۹/۶)
ونقلہ فی البحر بلفظ ان محمدا یقول لما اغتسل فی الماء القلیل صار الکل مستعملا حکما ۳؎ اھ ۔واجاب عنہ ایضا بمامر۔
اور بحر میں اس کو ان الفاظ سے نقل کیا ہے کہ محمد فرماتے ہیں کہ جب کوئی تھوڑے پانی میں غسل کرے گا تو سب کا سب حکماً مستعمل ہوجائے گا اھ اور اس کا جواب بھی وہ دیا جو گزرا۔
(۳؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
اقول سبحٰن(۱) اللّٰہ صریح منطوق الاسرار ان المذھب اعتبار الغلبۃ وان قضیتہ ان لایصیر الکل مستعملا لان الملاقی حقیقۃ اقل من غیرہ الا ان محمدا جعل الکل مستعملا حکما فکیف یتوھم انہ مبنی علی روایۃ ضعیفۃ خلاف ذلک المذھب وانما ھو تخصیص لقضیتہ وتخصیص الحکم انما یبتنی علی الحکم لاعلی خلافہ وھذا واضح جدا وسرکلام الاسرار قد بیناہ ۔
میں کہتا ہوں سبحان اللہ، اسرار کا صریح منطوق یہ ہے کہ مذہب یہ ہے کہ اعتبار غلبہ کو ہے، اگرچہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ کل مستعمل نہ ہوگا کیونکہ ملاقی حقیقۃ غیر ملاقی سے کم ہے مگر یہ کہ محمد نے کل کو حکما مستعمل قرار دیا ہے، تویہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی ضعیف روایت پر مبنی ہے جو اُس مذہب کے خلاف ہے، یہ اس کے مقتضی کی تخصیص ہے اور حکم کی تخصیص حکم پر ہی مبنی ہوتی ہے نہ کہ خلافِ حکم پر، اور یہ بہت واضح ہے، اور اسرار کے کلام کار ازہم نے بیان کردیا۔
وفرع(۵) المبتغی بالغین لو ادخل الکف صار مستعملا ۱؎ وزاد فی البحر فرع(۶) العنایۃ والدرایۃ وغیرھما ان الجنب اذا نزل فی البئر بقصد الاغتسال یفسد الماء عند الکل ۲؎
مبتغیٰ(۵) کی فرع: اگر ہتھیلی ڈالی تو پانی مستعمل ہوگیا اھ، اور بحر میں اضافہ کیا ہے عنایہ اور درایہ(۶) وغیرہما کی فرع کا: جنب اگر کنویں میں غسل کی نیت سے اُترے گا تو سب ہی کے نزدیک پانی فاسد ہوجائیگا۔''
(۱؎ الرسالۃ فی جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ان نجیم ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۱۹/۶)
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
وفرع(۷) الخانیۃ لوادخل یدہ اورجلہ فی الاناء للتبرد یصیر الماء مستعملا لانعدام الضرورۃ ۳
خانیہ (۷) کی فرع: اگر کسی نے اپنا پیر یا ہاتھ برتن میں ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے ڈالا تو پانی مستعمل ہوجائے گا کہ ضرورت موجود نہیں ہے۔
(۳؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
وفرع (۸) الاسبیجابی والولوالجی فیمن اغتسل فی بئر الی العشرۃ ولا نجاسۃ علیہ قال محمد صارت المیاہ کلہا مستعملا ۴؎ وزاد قولہ الی اخر الفروع ارشادا الی الکثیر الباقی قال وھذا صریح فی استعمال جمیع الماء عند محمد بالاغتسال فیہ ۵؎ اھ۔ واجاب عن الکل بانہ مبنی علی روایۃ ضعیفۃ عن محمد قائلۃ بنجاسۃ الماء المستعمل ۱؎ ثم استشھد بحمل الفتح فرعا فی الخانیۃ علیھا وقد مرما فیہ من ستۃ اوجہ۔
اسبیجابی(۸) اور ولوالجی کی فرع: جو کنویں میں دس ہاتھ تک نہایا اور اس پر کوئی نجاست بھی نہیں ہے تو محمد نے فرمایا کل پانی مستعمل ہوجائیگا، اور اپنے قول الی آخر الفروع کا اضافہ کیا، باقی کثیر فروع کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا یہ صریح ہے امام محمد کے نزدیک تمام پانی کے مستعمل ہونے میں اس میں غسل کرنے کی وجہ ہے، اور سب کا جواب یہ دیا کہ یہ ضعیف روایۃ پر مبنی ہے، یعنی محمد کی اس روایت پر کہ مستعمل پانی نجس ہوجاتا ہے، پھر یہ استشہاد کیا کہ فتح نے خانیہ کی ایک فرع کو اسی پر محمول کیا ہے، اور جو اس پر اعتراض ہے وہ چھ وجوہ سے گزر چکا ہے۔
(۴؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
(۵؎ بحرالرائق کتاب الطہارت سعید کمپنی کراچی ۱/۷۱)
(۱؎ الرسالۃ جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۲۰/۷)
وفرع(۹) منیۃ المصلی عن الفقیہ ابی جعفر(۱) توضا فی أجمۃ القصب فان کان لایخلص بعضہ الی بعض یجوز وفی الخلاصۃ توضأ فی أجمۃ القصب اوارض فیھا زرع متصل بعضھا ببعض ان کان عشرا فی عشر یجوز قال فمفھومہ انہ اذا کان اقل لایجوز التوضی فیہ والاجمۃ محرکۃ الشجر الکثیر الملتف ۲؎۔
منیۃ(۹) المصلی کی فرع: یہ فقیہ ابو جعفر سے ہے کسی نے بانسوں کے جُھنڈ میں وضو کیا اگر وہ اتنے گھنے ہیں کہ پانی کے حصّے ایک دوسرے سے جُدا رہتے ہیں تو جائز ہے اور خلاصہ میں ہے کہ بانسوں کے جُھنڈ میں یا ایسی زمین میں جس میں پودے ایک دوسرے سے متصل ہوں، اگر وہ دَہ در دَہ ہو تو وضو جائز ہے، اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر اس سے کم ہو تو جائز نہیں، اور أجَمَہ محّرکہ، گھنے درختوں کو کہتے ہیں۔
(۲؎ الرسالۃ جواز الوضوء مع الاشباہ من رسائل ابن نجیم ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۲۰/۷)
وفرع(۱۰) الکتابین الخلاصۃ والمنیۃ توضأ(۲) فی حوض وعلی جمیع وجہ الماء الطحلب ان کان بحال لوحرک یتحرک یجوز قال ومفھومہ انہ لوکان لایتحرک الطلحب بتحریک الماء لایجوز فان عدم تحرکہ بتحریک الماء یدل علی انہ بحالۃ من التکاثف والاستمساک لسطح الماء بحیث یمنع انتقال الماء المستعمل الواقع فیہ الی محل اخر فیقع الوضوء بماء مستعمل والطحلب نبت اخضر یعلو الماء بعضہ علی بعض اھ وھو ماخوذ عن الحلیۃ قال وھذا کلہ یدل ان الماء یصیر مستعملا بالوضو فیہ مطلقا ۱؎ اھ۔
خلاصہ اور منیہ کی فرع(۱۰): حوض میں وضو کیا اور طحلب پانی کی تمام سطح پر ہو اگر وہ ایسا ہے کہ اس کو حرکت دی جائے تو سب ہل جائے تو جائز ہے، فرمایا اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر حرکت نہ کرے طحلب پانی کے حرکت دینے سے تو جائز نہیں کیونکہ پانی کے حرکت دینے سے اس کا متحرک نہ ہونا اس امر پر دلالت ہے کہ وہ اتنا کثیف ہے کہ مستعمل پانی کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا مشکل ہے، تو وضو مستعمل پانی سے ہوگا، اور طحلب سبز رنگ کی گھاس ہے جو پانی پر تیرتی رہتی ہے اھ اور یہ حلیہ سے ماخوذ ہے، فرمایا یہ سب اس امر پر دلیل ہے کہ پانی اس میں وضو کرنے سے مطلقا مستعمل ہوجاتا ہے اھ۔
(۱؎ الرسالۃ جواز الوضوء من رسائل ابن نجیم مع الاشباہ ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۲۰/۷)
واجاب: عنھا بحملھما علی نجاسۃ الماء المستعمل صرح بہ شارح المنیۃ العلامۃ ابن امیر الحاج فقال وانما قید الجواز بعدم الخلوص لانہ لوکان یخلص بعضہ الی بعض لایجوز لکن علی القول بنجاسۃ الماء المستعمل اما علی القول بطھارتہ فیجوز مالم یغلب علی ظنہ ان القدر الذی یغترفہ منہ لاسقاط فرض من مسح اوغسل ماء مستعمل اویمازجہ مستعمل مساو اوغالب اھ۔ قال فھذا صریح فیما قلناہ من جواز الوضوء فی الفساقی،
اور ان دونوں سوالوں کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ ان دونوں کو مستعمل پانی کی نجاست پر محمول کیا ہے، اس کی تصریح شارح منیہ علامہ ابن امیر الحاج نے کی ہے، اور فرمایا کہ جواز کو عدم خلوص کے ساتھ مقید کیا کیونکہ اگر پانی کا کچھ حصّہ دوسرے حصہ کی طرف چلا گیا تو جائز نہیں، لیکن یہ تب ہے کہ جب مستعمل پانی کو نجس قرار دیا جائے، لیکن اگر اس کو پاک قرار دیا جائے تو جائز ہے تاوقتیکہ اس کو اس بات کا ظن غالب نہ ہوجائے کہ وہ مقدار جو اس پانی سے وہ چُلّو بھر کر لے رہا ہے مسح یا دھونے کے فرض کو ساقط کرنے کیلئے کہ وہ مستعمل پانی ہے یا اس میں مستعمل پانی ملا ہوا ہے جو اس کے برابر ہے یا غالب ہے اھ فرمایا یہ اس بارے میں صریح ہے جو ہم نے کہا ہے کہ وضو فساقی میں جائز ہے،
واما مسألۃ الطحلب فقال شارح المنیۃ ایضا ھذا ایضا بناء علی نجاسۃ الماء المستعمل اومساواتہ اھ۔ وکذا صرح فی مسألۃ توضأ(۱) فی حوض انجمد ماؤہ قالوا ان کان الجمد رقیقا ینکسر بالتحریک یجوز اما اذا کان کبیرا قطعا قطعا لایتحرک بالتحریک لایجوز فقال ھذا ایضا بناء علی نجاسۃ الماء المستعمل اما علی طہارتہ فالجواب ماذکرنا فی السابقات ۲؎ اھ
اور گھاس کا مسئلہ، تو منیہ کے شارح نے بھی فرمایا یہ بھی مستعمل پانی کی نجاست پر مبنی ہے یا وہ مستعمل پانی کے مساوی ہو، اھ اور اسی طرح انہوں نے اس مسئلہ میں تصریح کی کہ کسی شخص نے ایسے حوض میں وضو کیا جس کا پانی منجمد ہوچکا تھا فرمایا اگر منجمد پانی ایسا ہے کہ ہلانے سے بآسانی ٹوٹ جاتا ہے تو جائز ہے اور اگر اس کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوں کہ ہلانے سے نہ ہلیں تو جائز نہیں، فرمایا یہ بھی اسی پر مبنی ہے کہ مستعمل پانی نجس ہے، اور اس کی پاکی کی صورت میں تو جواب وہی ہے جو ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں اھ۔
(۲؎ الرسالۃ جواز الوضوء من رسائل ابن نجیم مع الاشباہ ادارۃ القرآن کراچی ۲/۸۲۱/۸)
وانت تعلم انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی سلک بفرعی الاجمۃ والطحلب مسلکین وذلک ان کلامنھما حکم بعدم جواز الوضوء ان کان ماء الاجمۃ دون عشر فی عشر اولا یتحرک الطحلب بتحریک الماء فجعلہ واردا علیہ حیث افاد صیرورۃ کل الماء مستعملا بالتوضی فیہ اذا کان قلیلا واجاب بحملہ علی روایۃ النجاسۃ وحکم الحلیۃ بالجواز وان کان قلیلا مادام اکثر بناء علی الطہارۃ فجعلہ دلیلا لہ حیث افادان الوضوء فی الماء القلیل لایفسدہ مادام الطھور غالبا علی المستعمل واضاف الیھما فرع الجمد فی الاحتجاج وان کان یصلح ایضا للایراد واقتصر فی البحر علی ایراد الفروع الثلثۃ تصریحا بالاول وتلویحا بالباقیین فیما ھو لہ لافیما ھو علیہ فقال ثم رأیت العلامۃ ابن امیر الحاج قال (فذکر قولہ المار) قال ثم قال ایضا وا تصال الزرع بالزرع لایمنع اتصال الماء بالماء وان کان مما یخلص فیجوز علی الروایۃ المختارۃ فی طہارۃ المستعمل بالشرط الذی سلف (ای غلبۃ الطھور علی غیرہ) ثم ذکرای الحلبی مسائل علی ھذا المنوال وھو صریح فیما قدمناہ من جواز الوضوء بالماء الذی اختلط بہ ماء مستعمل قلیل ۱؎ اھ۔
اور تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے جُھنڈ اور کائی کے مسئلہ میں دو را ہیں اختیار کی ہیں، اور یہ اس لئے ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے حکم عدمِ جواز کا لگایا، اگر جھُنڈ کا پانی دَہ در دَہ سے کم ہو یا پانی کو حرکت دینے سے کائی میں حرکت پیدا نہ ہو، انہوں نے قلیل پانی میں وضو پر تمام پانی کو مستعمل قرار دینے کو اعتراض قرار دیا اور اس کا جواب یہ دیا کہ یہ نجاست والی روایت پر محمول ہے اور حلیہ نے قلیل پانی میں وضو کو جائز کہا ہے بشرطیکہ وہ مستعمل پانی سے زیادہ ہو کیونکہ وہ پاک ہے، اس کو انہوں نے اپنی دلیل بنایا جہاں انہوں نے کہا کہ قلیل پانی میں وضو پانی کو فاسد نہیں کرتا جب تک پاک پانی غالب رہے، ان دونوں صورتوں کے ساتھ انہوں نے استدلال میں انجماد کی فرع کا اضافہ کیا اگرچہ یہ بھی اعتراض کی صورت بن سکتی ہے اور بحر میں تینوں فروع کا ذکر پر اکتفا کیا ہے پہلی کی تصریح کی ہے اور باقی میں تلویح کی ہے، ماھو لہ کا بیان کیا ہے نہ کہ ماھوعلیہ کا۔ پھر فرمایا کہ میں نے علّامہ ابن امیر الحاج کو دیکھا انہوں نے فرمایا (پھر ان کا گزشتہ قول نقل کیا) کہا نیز انہوں نے فرمایا کہ کھیتی کا کھیتی سے متصل ہونا پانی کے پانی سے متصل ہونے کو نہیں روکتا ہے اگرچہ یہ اس قبیلہ سے ہے کہ پہنچ سکتا ہے، تو مختار روایت کے مطابق جو مستعمل پانی سے طہارۃ جائز ہوگی مگر شرط وہی رہے گی جو گزری، (یعنی طہور کا غلبہ غیر پر) پھر حلبی نے چند مسائل اسی قسم کے ذکر کیے، اور وہ اُس میں صریح ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، یعنی اگر غیر مستعمل پانی میں تھوڑا سا مستعمل مل جائے تو اس سے وضو جائز ہے اھ
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۴)
وقولہ(۱) فی الرسالۃ ھذا صریح فیما قلناہ من جواز الوضوء فی الفساق اوفق بمقصودہ اذلا نزاع فی مسألۃ الاختلاط غیر انہ رحمہ اللّٰہ تعالی لما حکم بعدم الفرق بین الملقی والملاقی طفق لایفرق بینھما فی الحجاج ثم انھی کلامہ فی البحر بایراد حجۃ لہ اخری عن فتاوی العلامۃ قارئ الھدایۃ جمع تلمیذہ المحقق علی الاطلاق سئل عن فسقیۃ صغیرۃ یتوضؤ فیھا الناس وینزل فیھا الماء المستعمل فی کل یوم ینزل فیھا ماء جدید ھل یجوز الوضوء فیھا اجاب اذا لم یقع فیھا غیر الماء المذکور لایضر اھ یعنی اذا وقعت فیھا نجاسۃ تنجست لصغرھا ۱؎ اھ عہ۱ اھ
اور ان کا قول "رسالہ" میں ''یہ صریح ہے اس امر میں کہ فساقی سے وضو جائز ہے'' ان کے مقصود سے زیادہ موافق ہے، کیونکہ اختلاط کے مسئلہ میں تو کوئی نزاع ہی نہیں، البتہ صرف یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے ملقی اور ملاقی میں فرق نہیں کیا ہے تو قریب تھا کہ وہ ان دونوں سے استدلال میں بھی فرق نہ کرتے، پھر انہوں نے اپنا کلام بحر میں اس پر ختم کیا کہ اپنی ایک مزید دلیل فتاوی علامہ قارئ ہدایہ سے دی، اس کو ان کے شاگرد محقق علی الاطلاق نے جمع کیا ہے اُن سے ایک چھوٹے گڑھے کے بارے میں دریافت کیا گیا جس میں لوگ وضو کریں اس میں مستعمل پانی گرے اور ہر روز نیا پانی بھی آئے، اس سے وضو جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں مذکورہ پانی کے علاوہ اور پانی نہ گرتا ہو تو کچھ حرج نہیں اھ یعنی اس میں اگر کوئی نجاست گرے گی تو یہ نجس ہوجائے گا کیونکہ یہ چھوٹا ہے۔ اھ (ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۴)
عہ۱ :اھ السابق علی ھذین لکلام العلامۃ قارئ الہدایۃ وھو قول الامام ابن الھمام والاول من ھذین لکلام ابن الھمام من کلام البحر والاخیر لکلام البحر من کلام المصنف ۱۲ (م(
ان دونوں سے پہلے ''اھ'' علامہ قاری الہدایہ کے کلام کی انتہا ہے جس کو ابن ہمام نے ذکر کیا اور ان دونوں میں سے پہلی ''اھ'' ابن ہمام کے کلام کی انتہا ہے جس کو بحر نے بیان کیا اور آخری بحر کے کلام کی انتہا ہے جس کو مصنف نے ذکر کیا ہے ۱۲ (ت(
اقول وباللّٰہ التوفیق(۱) الایرادان والحجج الاربع کلھا مبنیۃ علی الذھول عن محل النزاع لان تلک الفروع طرافی الملقی لاالملاقی اما فرع قارئ الہدایۃ فظاھر لقول السؤال ینزل فیھا الماء المستعمل و قولہ فی الجواب اذالم یقع فیھا غیرہ واما فروع الحلیۃ الثلثۃ فلان مستندالجوابین والاحتجاجات کلام العلامۃ الحلبی وھو مصرح بانھا جمیعا فی الملقی دون الملاقی الا تری الی قولہ فی الاول ان کان لایخلص بعضہ الی بعض جازلان الماء حینئذ کثیر ولوکان الماء المستعمل الواقع فیہ نجاسۃ لم یمنع فکیف وھو طاھر وانما قید الجواز الی اٰخر مانقلتم وقال فی الثانی یمنع انتقال الماء المستعمل الواقع فیہ وقد نقلتموہ وان لم تعزوہ وقال فی الثالث ان کون الجمد ینکسر بتحریک الماء لایمنع من انتقال الماء المتصل منہ فی الحوض من ذلک المحل الواقع فیہ ۔۔۔الخ وکذلک قال فی نظائرہ بل ھذا علی طریق الحلیۃ مستفاد من نفس الفروع فانھا فی الوضوء فی حوض اوغدیر،
میں بتوفیق الٰہی کہتا ہوں دونوں اعتراض اور چاروں استدلال اس پر مبنی ہیں کہ محلِ نزاع پر نظر نہیں رکھی گئی کیونکہ یہ تمام فروع ملقی میں ہیں نہ کہ ملاقی میں، قارئ الہدایہ کی فرع تو ظاہر ہے، کیونکہ سوال میں ہے کہ اس میں مستعمل پانی روز آتا ہے اور جواب میں ہےکہ جبکہ اس میں اس پانی کے علاوہ کوئی اور چیز نہ گرتی ہو، اور حلیہ کی تینوں فروع اس لئے کہ دونوں جوابوں کی سند اور استدلالات علّامہ حلبی کا کلام ہیں، اور انہوں نے تصریح کردی ہے یہ تمام ملقیٰ میں ہیں نہ کہ ملاقی میں۔ چنانچہ ان کا پہلا قول دیکھا جائے کہ اس کا بعض دوسرے بعض کی طرف نہ جاتا ہو تو جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں پانی کثیر ہوگا، اور اگر وہ ماء مستعمل جس میں نجاست گر گئی ہو مانع نہیں ہے تو جو طاہر ہے وہ کیسے ہوگا، اور بیشک جواز کو مقید کیا الی آخر مانقلتم اور دوسرے میں فرمایا منع کرتا ہے مستعمل پانی کا منتقل ہونا جس میں وہ واقع ہے حالانکہ تم نے اس کو نقل کیا ہے اگرچہ اس کے قائل کا نام نہیں لیا ہے، اور تیسرے میں فرمایا کہ برف کا پانی کو حرکت دینے سے ٹوٹ جانا حوض میں جو پانی اس سے متصل ہے اس کے منتقل ہونے کو مانع نہیں ہے الخ اور اسی طرح اس کی نظیروں میں فرمایا بلکہ حلیہ کے طریق کے مطابق یہ نفس فروع سے مستفاد ہے کیونکہ یہ بظاہر حوض یا تالاب سے وضو سے متعلق ہیں،
وقد افاد فی الحلیۃ قبل الفرع الاول بصفحۃ فی الفرق بین التوضی من حوض وفیہ ان التوضی منہ لایستلزم البتۃ وقوع الغسالۃ فیہ بخلاف التوضی فیہ قال وکون وضوء المتوضئین من موضع وقوع غسالا تھم فیہ ھو مقصود الافادۃ من التفریع بخلاف کون وضوء المتوضی منہ بحیث تقع غسالاتھم خارجہ جائزا فان ذلک مجمع علیہ لایتفرع علی قول قوم دون اٰخرین ۱؎ اھ ۔
ا ور حلیہ میں فرع اول سے ایک صفحہ قبل فرمایا: حوض سے وضو اور حوض میں وضو کے اندر فرق ہے، اور اسی میں ہے کہ حوض سے وضو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دھوون حوض میں گرے، لیکن اگر حوض میں وضو کیا جائے تو دھوون لازمی طور پر اس میں گرے گا، فرمایا لوگوں کا اس جگہ سے وضو کرنا جہاں اُن کے دھوون کا پانی پڑتا ہے یہی تفریع کا اصل مقصود ہے اور ایسی جگہ وضو کرنا جہاں دھوون باہر گرتا ہو تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں، یہ ایسا نہیں کہ کچھ لوگوں کے قول پر متفرع ہو اور کچھ کے قول پر متفرع نہ ہو اھ۔
(۱؎ حلیہ)
ھذا کلہ علی طریق الحلیۃ وانا اقول وبہ(۱) استعین الوضوء فی الحوض یحتمل معنیین احدھما ان یغترف منہ بید اواناء ویتوضأ خارجہ بحیث تقع غسالتہ فیہ کقولک توضأت فی الطست وھو الذی اقتصر علیہ المحقق الحلبی والاخر ان یغسل اعضاء ہ بغمسھا فیہ کما یفعل کثیر من الناس فی الرجلین کقولک غسلت الثوب فی الاجانۃ وھذا اقرب الی ظرفیۃ الحوض للوضوء بالضم وان اطلق علی الاول لصیرورۃ الحوض ظرف الوضوء بالفتح فلاوجہ(۲) للقصر علی الاول والماء فی الاول ملقی ای استعمل فی الخارج ثم القی فی الماء المطلق وفی الثانی ملاق ای ماء مطلق لاقی بدنا ذاحدث فاسقط فرضا اوبدن (عہ۱ )متقرب فاقام قربۃ،
یہ تمام بحث حلیہ کے نہج پر ہے۔میں کہتا ہوں حوض سے وضو کے دو۲ معنی ہیں ایک تو یہ کہ حوض سے چُلّو سے پانی لیا جائے یا برتن سے لیا جائے اور حوض کے باہر وضو کیا جائے اور اس کا دھوون حوض میں گرتا رہے، جیسے کہا جاتا ہے، میں نے طشت سے وضو کیا۔ محقق حلبی نے اس پر اکتفا ء کیا ہے، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حوض میں اپنے اعضاء ڈبو کر وضو کرے جیسے عام طور پر لوگ پیر دھوتے ہیں، جیسے کہا جاتا ہے ''میں نے ٹب میں کپڑے دھوئے، اور یہ حوض سے وُضو بالضم کا ظرف ہونے کے اقرب ہے، اگرچہ اس کا اطلاق پہلے پر اس تاویل سے ہوتا ہے کہ وہ وضوء بالفتح کا ظرف ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو پہلے تک ہی مقصور رکھا جائے اور پہلے میں پانی ملقی ہے یعنی پہلے باہر استعمال کیا گیا پھر مطلق پانی میں ڈالا گیا اور دوسرے میں ملاقی ہے، یعنی مطلق پانی جو حدث والے بدن کو ملا اور ایک فرض کو ساقط کیا یا متقرب کے بدن کو ملا اور ایک قربۃ اس سے ادا ہوئی،
عہ۱ :ادخلہ فی البحر فی المحدث حکما تبعا للدرایۃ وتقدم الرد علیہ فی الطرس المعدل اھ (م(
بحر نے اس کو حکماً محدث میں داخل کیا درایہ کی پیروی کرتے ہوئے طرس معدل میں اس کا رد پہلے گزرا اھ (ت(
وانت تعلم(۳) ان العبارۃ فی الفروع الثلثۃ تحتمل الوجہین بیدانا لوحملناھا علی الثانی وجب ردھا الی روایۃ ضعیفۃ وھو نجاسۃ المستعمل اوصیرورۃ المطلق مستعملا بوقوع المستعمل ولوقلیلا الا ماترشش کالطل فانہ عفو دفعا للحرج وکلتاھما ضعیفۃ مھجورۃ والصحیح المعتمد طہارتہ وعدم تاثیرہ فی المطلق مطلقا مالم یساوہ اویغلب علیہ والروایات تصان عن مثلہ مھما امکن فظھر ان المراد فی الثلاثۃ معنی الثانی لامافھم المحقق واضطر الی حملھا علی ضعیف واذن صارت الثلثۃ حججالنا ولا دلیل ناطق علی صرفھا الی ضعیف ومن یفعلہ(۱) ینقلب مدعیا بعد ان کان سائلا فلینور دعواہ ببرھان واین البرھان وذلک لان الاصل فی روایات الائمۃ الاعتماد فمن استندبھا فقد قضی ماعلیہ، ومن یرید ردھا الی مایردھا فلیات بدلیل یلجیئ الیہ،
اور آپ جانتے ہیں کہ تینوں فروع کی عبارت دونوں وجہوں کا احتمال رکھتی ہے، صرف اتنا ہے کہ اگر ہم اس کو دُوسرے پرمحمول کریں تو اس کو ایک ضعیف روایت کی طرف راجع کرنا پڑے گا اور وہ مستعمل پانی کا نجس ہوتا ہے یا مطلق پانی کا تھوڑے مستعمل پانی سے مل جانے کی وجہ سے مستعمل ہوجانا، ہاں شبنم جیسے قطرے معاف ہیں حرج کو دفع کرنے کیلئے۔ یہ دونوں روایتیں متروک اور ضعیف ہیں، اور صحیح اور قابلِ اعتماد اس کی پاکی ہے اور اس کا مطلق پانی پر اثر انداز نہ ہونا ہے تاوقتیکہ اس کے برابر یا اس پر غالب نہ ہوجائے ____________ اور روایتیں اس قسم کی چیز سے حتی الامکان محفوظ رکھی جاتی ہیں، تو معلوم ہوا کہ تینوں فروع میں دوسرے معنی ہی مراد ہیں، وہ معنی نہیں ہیں جو محقق نے لئے ہیں اور پھر ان کو ضعیف روایت پر حمل کرنا پڑا اور اس طرح تینوں فروع ہماری دلیل بن گئی ہیں اور ان کو ضعیف روایت پر محمول کرنے کیلئے کوئی دلیل ناطق موجود نہیں، اور جو ایسا کرتا ہے وہ سائل کے بجائے اپنے آپ کو مدعی بناتا ہے اور ایسی صورت میں اس کو برہان لانا چاہئے، اور برہان کہاں سے ملے گا کیونکہ ائمہ کی روایات میں اصل اعتماد ہے تو جو ان سے استناد کرے گا اس نے اپنی ذمہ داری پُوری کردی، اور جو ان کو کسی اور طرف رد کرنا چاہتا ہے تو اُسے اس کی دلیل پیش کرنا ہوگی،
ودعوای ھذہ قداعترف بھا العلامۃ فی البحر والرسالۃ معا اذحکم بابتناء تلک الفروع علی روایۃ ضعیفۃ فقال وسیظھرلک صدق ھذہ الدعوی الصادقۃ بالبینۃ العادلۃ فقد اقرانہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی عاد بھذا مدعیا فکیف تسلم بلا دلیل اماما ذکر فی البینۃ وھو قول المحیط والعلامۃ السراج الھندی والتحفۃ اذا وقع الماء المستعمل فی البئر عند محمد یجوز التوضؤ بہ مالم یغلب علی الماء وھو الصحیح ولفظ التحفۃ علی المذھب المختار ۱؎۔
اور میرے اس دعوی کا اعتراف علامہ نے بحر اور رسالہ دونوں میں کیا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی بنیاد کو ضعیف روایت پر مبنی قرار دیا ہے اور فرمایا کہ تم پر اس دعوی کی صداقت بینہ عادلہ سے ظاہر ہوجائیگی۔انہوں نے اس میں اعتراف کرلیا کہ وہ اس طرح مدعی بن گئے ہیں، تو اب یہ دعوی بلا دلیل کس طرح قبول کیا جائیگا، اور بینہ میں جو انہوں نے ذکر کیا ہے وہ محیط علامہ سراج ہندی اور تحفہ کا قول ہے کہ اگر مستعمل پانی کنویں میں گر جائے تو محمد کے نزدیک اس سے وضو جائز ہے تاوقتیکہ وہ پانی پر غالب نہ ہوجائے اور یہی صحیح ہے اور تحفہ میں صراحت ہے کہ یہی مذہب مختار ہے۔ (ت(
(۱؎ الرسالہ فی جواز الوضوء مع الاشباہ والنظائر ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۸۲۰/۷)
فاقول:(۱) رحم اللّٰہ الشیخ العلامۃ ماذکروہ فھو فی الملقی فکیف یدل علی ابتناء مافی الاسرار والعنایۃ والدرایۃ وغیرہما من شروح الہدایۃ وشرح الاسبیجابی وفتاوی الولو الجی وغیرھا علی روایۃ ضعیفۃ مع کونھا فی الملاقی والی ھنا تم الکلام مع البحر والرسالۃ معا ولم یبق فیھا شیئ غیر حرف واحد فی البحر وھو قولہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی لایعقل (عہ۱)فرق بین الصورتین من جھۃ الحکم یعنی الملقی والملاقی۔
میں کہتا ہوں اللہ تعالٰی شیخ علامہ پر رحم فرمائے، جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے وہ ملقٰی میں ہے تو یہ اسرار، عنایہ، درایہ (شروح ہدایہ)، شرح اسبیجابی اور فتاوٰی ولوالجی وغیرہ کی عبارات کے ضعیف روایت پر مبنی ہونے پر کیونکر دلیل بن سکتا ہے کیونکہ وہ ملاقی کے بارے میں ہیں۔ یہاں تک بحر اور رسالہ سے جو گفتگو تھی پُوری ہوئی البتہ بحر نے ایک لفظ کہا ہے وہ یہ کہ ملقی اور ملاقی دونوں صورتوں میں حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ (ت(
(عہ۱) ذکر ھھنا عن بعض معاصریہ الفرق بان فی الوضوء یشیع الاستعمال فی الجمیع بخلافہ فی الصب اھ۔ ثم ردہ وھی عبارۃ مدخولۃ فتحت علی نفسھا باب الرد فکان لما ذکر فی البحر مساغ فلذا طوینا ذکرہ وسنعود الیہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی فی الفصل الرابع اھ منہ غفرلہ۔
یہاں انہوں نے اپنے بعض معاصرین سے یہ فرق نقل کیا ہے کہ وضو سے استعمال تمام پانی میں ہوتا ہے اور بہانے میں یہ نہیں ہے، پھر خود ہی انہوں نے اس کا رد کیا اور یہ عبارت مدخولہ ہے، اس نے اپنے اوپر رد کا دروازہ کھول دیا ہے، تو جو بحر میں اس کا جواز تھا اس لئے ہم نے اس کو ذکر نہ کیا اور چوتھی فصل میں ہم اس کو ذکر کریں گے اِن شاء اللہ تعالٰی اھ منہ (ت(
اقول ای(۲) لعمرک فرق وای فرق لان الاستعمال انما یثبت بازالۃ الماء حدثا اواسقاطہ فرضا اواقامتہ قربۃ وذلک بملاقاتہ بدن المحدث اوالمتقرب لاملاقاتہ مالاقاہ والموجود فی الملاقی الاول وفی الملقی فیہ الثانی ھذا کل ماذکرہ فی الرسالۃ وھھنا اعنی فی بحث الماء المطلق فی البحر اماما ذکر فی مسألۃ البئر جحط مفرعا علی قول الحلیۃ الماء المستعمل ھو الذی لاقی الرجل بقولہ فعلی ھذا قولھم (ای فیمن نزل البئر للاغتسال) صار الماء مستعملا معناہ صار الماء الملاقی للبدن مستعملا لاجمیع ماء ۱؎ البئر اھ ۔فقد قدمنا الکلام علیہ کافیا شافیا بتوفیق اللّٰہ تعالٰی تحت الحادی والعشرین من الکلام مع العلامۃ قاسم وثلثۃ حجج قبلہ من التاسع عشر فھذہ اربعۃ۔
میں کہتا ہوں دونوں صورتوں میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ پانی کا مستعمل ہونا یا تو حَدَث کے ازالہ کی وجہ سے ہوتا ہے یا اسقاط فرض کی وجہ سے یا کسی قربۃ کی ادائیگی کے باعث ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ہوگا جبکہ وہ مُحدِث یا متقرب کے بدن سے لگے نہ کہ اُس چیز کو لگے جو بدن کو لگی ہے، اور جو چیز مُلَاقیِ میں موجود ہے وہ اوّل ہے اور مُلْقیٰ میں دوسری چیز ہے یہ رسالہ میں ہے، اور بحر کی مطلق پانی کی بحث میں ہے، اور بحر نے مسئلہ جحط میں حلیہ کے اس قول پر تفریع کی ہے ''الماء المستعمل ھو الذی لاقے الرجل'' (مستعمل پانی وہ ہے جو آدمی کے جسم سے متصل ہو) تفریع کے لفظ یہ ہیں، تو اس بنا پر ان کا قول (یعنی جو شخص کنویں میں نہانے کو اُترا) پانی مستعمل ہوگیا، اس کا مفہوم یہ ہے کہ بدن کو لگنے والا پانی مستعمل ہوگیا، یہ نہیں کہ کنویں کا سارا پانی مستعمل ہوجائے، اھ ہم نے اس پر مکمل بحث علامہ قاسم کے کلام پر گفتگو کرتے ہوئے اکیسویں نمبر کے تحت کردی ہے اور اس سے قبل انیسویں نمبر میں تین دلائل بیان کیے ہیں تو یہ چار ہوئے۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۸)
واقول: خامسا لوصح(۱) ھذا لما احتجتم الی حمل تلک الروایات الظاھرۃ الکاثرۃ الوافرۃ علی روایۃ ضعیفۃ مرجوحۃ نادرۃ وکان یکفیکم ان تقولو انعم صار مستعملا لکن مالاقی البدن اوالکف وھو مستھلک مغلوب فلا یضر۔
خامسا میں کہتا ہوں اگر یہ بات درست ہوتی تو آپ ان کثیر ظاہر روایات کو ایک ضعیف روایت پر محمول نہ کرتے بلکہ صرف اتنا کہتے کہ ہاں وہ پانی مستعمل ہوگیا ہے، لیکن جو پانی بدن اور ہاتھوں کو لگا ہے وہ تھوڑا سا ہے اور مغلوب ہے تو نقصان دہ نہ ہوگا۔
وسادسا: حیث(۲) حکموا بسقوط الاستعمال فی ادخال الکف والانغماس اطبقوا سلفا وخلفا وانتم معھم علی تعلیلہ بالضرورۃ کما قدمنا عن الفتح والخلاصۃ والتبیین والبزازیۃ والکافی والخانیۃ والغنیۃ والحلیۃ والنھر والقدوری والجرجانی والبرھان والصغری والفوائد الظھیریۃ والشمس الائمۃ الحلوانی وعن بحرکم وعنکم عن شمس الائمۃ السرخسی وشارح الھدایۃ الخبازی والمحقق حیث اطلق والزیلعی وابی الحسن وابی عبداللّٰہ رحمہم اللّٰہ تعالٰی وقدمناہ عن الخلاصۃ عن نص محرر المذھب محمد فی کتاب الاصل وعن الفتح عن کتاب الحسن عن صاحب المذھب الامام الاعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم ولو کان لایستعمل الاما لصق بالبدن فای حرج یلحق وای ضرورۃ تمس فان الماء مع ثبوت الاستعمال یبقی طاھرا مطھر اکما کان۔
سادساً مشائخ نے سقوط استعمال کا حکم لگایا ہے ہاتھ ڈالنے اور غوطہ کھا نے کی صورت میں،سلف سے خلف تک اسی پر چلے آرہے ہیں اور آپ بھی اُن کے ہمنوا ہیں اور اس کیلئے علت ضرورت بتائی ہے جیسا کہ ہم فتح، خلاصہ، تبیین، بزازیہ، کافی، خانیہ، غنیہ، حلیہ، نہر، قدوری، جرجانی، برہان، صغری، فوائد ظہیریہ، شمس الائمہ حلوانی، بحر اور آپ کی سند سے شمس الائمہ سرخسی سے، شارح ہدایہ خبازی، محقق (انہوں نے اطلاق سے کام لیا) ابو الحسن وابو عبداللہ سے روایت کر آئے ہیں اور اس کو ہم نے خلاصہ سے محرر المذہب امام محمد کا قول ان کی اصل سے نقل کیا ہے اور فتح سے حسن کی کتاب سے صاحب المذہب امام اعظم سے نقل کیا ہے، اگر صرف اتنا ہی مستعمل ہوتا ہے جو بدن سے لگا ہوتو کیا حرج لاحق ہوتا ہے؟ اور کونسی ضرورت درپیش ہوتی ہے؟ کیونکہ پانی باوجود ثبوت استعمال کے طاہر مطہر ہی رہے گا جیسا کہ پہلے تھا۔
وسابعا: قدمنا(۱) عن الامام شمس الائمۃ الکردری ان ادخال المحدث یدہ فی الماء لالضرورۃ یفسدہ ۱؎ وعنکم عن المبتغی انہ یفسد الماء ۲؎
سابعاً ہم امام شمس الائمہ کردری سے نقل کر آئے ہیں کہ محدث کا اپنے ہاتھ کو پانی میں بلا ضرورت ڈالنا پانی کو فاسد کردیتا ہے اور تم سے مبتغیٰ سے روایت کی ہے کہ وہ پانی کو فاسد کردیتا ہے،
(۱؎ الہندیۃ بالمعنی فصل فیما لایجوزبہ الوضوء نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۲)
(۲؎ الہندیۃ بالمعنی فصل فیما لایجوزبہ الوضوء نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۳)
وعنکم عن المبسوط عن نص محمد فی الاصل اغتسل الطاھر فی البئر افسدہ ۳؎ وعن مجمع الانھر فسد عندالکل ۴؎
اور تم سے مبسوط سے، محمد کی اصل میں نص سے روایت کی ہے کہ اگر پاک آدمی کُنویں میں غسل کرے تو اس کو فاسد کردے گا، اور مجمع الانہر میں ہے کہ سب کے نزدیک فاسد ہوگیا،
(۴؎ مجمع الانہر فصل فی الماء بیروت ۱/۳۱)
وعن الھندیۃ عن النھایۃ یفسد بالاتفاق ۱؎ ولفظ العنایۃ فسد الماء عند الکل ۲؎ وعنکم عن الدرایۃ والعنایۃ وغیرھما یفسد عندالکل ۳؎ فھذ اصریح نص محمد فی الروایۃ الظاھرۃ وصرائح لقول الاجماع فی الکتب المعتمدۃ منھا بحرکم علی ان الماء کلہ یصیر مستعملا حتی لایبقی صالحا لان یتوضأ بہ اذلیس الفساد الاخروج الشیئ عما یصلح لہ ولوکان یجوزبہ الوضوء فایش فسد وکیف فسد۔
اور ہندیہ سے نہایہ سے منقول ہے کہ بالاتفاق فاسد ہوجائے گا، اور عنایہ کے الفاظ یہ ہیں کہ سب کے نزدیک پانی فاسد ہوگیا اور تم سے درایہ وعنایہ وغیرہما سے روایت کی ہے سب کے نزدیک فاسد ہوگیا تو یہ ظاہر روایت میں محمد کی صریح نص ہے، اور اجماع کی صریح نقول کتب معتمدہ میں موجود ہیں، بحر میں ہے علاوہ ازیں تمام پانی مستعمل ہوجاتا ہے حتیّٰ کہ اس سے وضو بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ فساد کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو چیز جس کام کی صلاحیت رکھتی تھی اب اس کے لائق نہ رہی اور اگر اس سے وضو جائز رہے تو پھر اس میں فساد کیوں اور کیسے ہوا؟ (ت(
(۱؎ ہندیۃ الفصل الثانی من المیاہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۳۳)
(۲؎ عنایۃ مع فتح القدیر ماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۹)
(۳؎ حاشیۃ الہدایۃ ماء الذی یجوزبہ الوضوء المکتبۃ العربیہ کراچی ۱/۲۳)
وثامنا: قدمنا(۱) عن الفتح عن کتاب الحسن عن صاحب المذھب الامام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ التصریح بابین لفظ لایقبل تاویلا ولا یرضی تحویلا وھو قولہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لم یجز الوضوء منہ فثبت قطعا ان لامساغ لھذا التاویل وانہ مضاد لصریح نص امام المذھب وجلی نص محمد فی ظاھر الروایۃ بل ومصادم لاجماع ائمۃ المذھب المنقول فی المعتمدات کبحرکم فالحق الناصع ھو المذھب المنصوص علیہ من ائمۃ المذھب فی الکتب الظاھرۃ المطبق علیہ فی الروایات المتواترۃ اعنی ثبوت الاستعمال لجمیع الماء القلیل قلیلا کان اوکثیرا بدخول جزء من بدن محدث فیہ لم یروما یخالفہ ولم یرفی کلام احدما ینازعہ الالفظۃ وقعت فی کلام البدائع فی تعلیل وجدل مع وفاقہ فی المروی وما قدر بحث مع نصوص صاحب المذھب وتصریح محررہ فی کتاب ظاھر الروایۃ بل مع اجماع ائمۃ المذھب لا جرم ان بقیت تلک الکلمۃ لم یعرج علیھا احد فیما نعلم الی عصر الامام المحقق علی الاطلاق حتی اتی تلمیذاہ العلامتان القاسم والحلبی فاثراھا، واٰثراھا واثاراھا، وجعلھا العلامۃ قاسم نصا مرویا، وحکما مرضیا، رد بہ نصوص المذھب المشہورۃ، والفروع المتواترۃ فی الکتب المنشورۃ، الی روایۃ ضعیفۃ مھجورۃ، ولم یات علیھا بروایۃ منقولۃ ماثورۃ، ولا درایۃ مقبولۃ منصورۃ، فالمذھب ھو المتبع، والحق احق ان یتبع، واللّٰہ المستعان، وعلیہ التکلان، وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید الانس والجان، واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ ماتعاقب الملوان، وبارک وسلم ابدا اٰمین، والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔
ثامناً ہم نے فتح کے حوالہ سے حسن کی کتاب سے صاحب مذہب امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول نقل کیا ہے، اور یہ اتنا واضح اور صریح قول ہے کہ کسی قسم کی تاویل کو قبول نہیں کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس سے وضوء جائز نہیں، تو قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ اس تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ امام مذہب کے نص صریح کے مخالف ہے اور امام محمد کے واضح نص کے بھی خلاف ہے بلکہ کتب معتمدہ میں ائمہ مذہب کا جو اجماع منقول ہے اس کے بھی مخالف ہے، مثلاً آپ ہی کی بحر میں حکایت اجماع موجود ہے تو حق وہی ہے جو ظاہر روایت کی کتب میں ائمہ مذہب سے منقول ہے اور جس پر متواتر روایات منطبق ہیں یعنی تمام قلیل پانی پر مستعمل ہونے کا حکم لگایا جانا خواہ قلیل ہو یا کثیر جبکہ محدث کے بدن کا کوئی حصہ بھی اس میں داخل ہوجائے اس پر یہی حکم ہوگا، اس کے خلاف کسی کے کلام میں منقول نہیں صرف ایک لفظ بدائع میں تعلیل وجدل کے طور پر آیا ہے حالانکہ روایت کردہ پر وہ متفق ہیں، لیکن نصوص مذہب کی موجودگی میں محض ایک بحث کی کیا قدر وقیمت ہوسکتی ہے، پھر محرر مذہب کی تصریح ظاہر الروایۃ کی کتاب میں ہے اور ائمہ مذہب کا اجماع ہے، پھر ایک اس کلمہ پر محقق علی الاطلاق کے زمانہ تک کسی نے غور نہ کیا یہاں تک کہ ان کے شاگرد علامہ قاسم اور حلبی آئے تو انہوں نے اس بات کو بڑھایا اور ترجیح دی اور پھیلایا اور علامہ قاسم نے تو اس کو اپنی پسندیدہ نص قرار دیا جس سے نصوص مذہب اور فروع متواترہ تک کو رد کردیا اور اس کی تائید میں صرف ایک ضعیف روایت لاسکے اور کوئی قابل عقلی یا نقلی دلیل پیش نہ کرسکے، تو مذہب حق وہی ہے جس کی پیروی کی گئی ہے اور حق ہی اس کا مستحق ہے کہ اس کا اتباع کیا جائے واللہ المستعان، اسی پر بھروسا ہے، انس وجن کے سردار پر درود اور ان کی آل واصحاب، اولاد اور باقی جماعت پر تاقیامت برکتیں اور سلام نازل ہو، آمین والحمدللہ رب العالمین۔
الفصل الثالث فی کلام العلّامۃ ابن الشحنۃ رسالتہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی اکثر من نصف کراسۃ سلک فیھا مسلکا یخالف ماسلکہ شیخہ العلامۃ قاسم خلافا کلیا فانہ کان ادعی تسویۃ الملقی والملاقی فی جواز الوضوء وادعی ھذا تسویتھما فی عدم الجواز ذکر رحمہ اللّٰہ تعالٰی مخاطبا لسائلہ سألت ارشدنی اللّٰہ وایاک عن حوض دون ثلثۃ اذرع فی مثلھا ھل یجوز الوضوء فیہ ام لاوھل یصیر مستعملا بالتوضی فیہ وذکرت ان المفتی بہ قول محمد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ طاھر غیر طھور وان المتقاطر من الوضوء قلیل لاقے طھورا اکثر منہ فلا یسلبہ وصف الطھوریۃ واجبتک انہ یجوز الاغتراف منہ والتوضی خارجہ لافیہ ۱؎ اھ ۔
تیسری فصل علّامہ ابن الشحنہ کے کلام میں ان کا رسالہ آدھی کاپی سے زیادہ ہے اس میں انہوں نے اپنے شیخ علّامہ قاسم کے سراسر خلاف راہ اپنائی ہے کیونکہ وہ تو جوازِ وضو میں ملقٰی اور ملاقی کی برابری کے قائل تھے اور انہوں نے عدمِ جواز میں دونوں کی برابری کا قول کیا ہے وہ بصیغہ خطاب فرماتے ہیں تُونے مجھ سے سوال کیا خدا تجھ کو اور مجھے ہدایت دے ایک حوض کے بارے میں جو تین ہاتھ سے کم ہے، اس میں وضو جائز ہے یا نہیں؟ اور اس میں وضو کرنے سے پانی مستعمل ہوگا یا نہیں؟ اور تُونے ذکر کیا مفتی بہ محمد کا قول ہے کہ وہ پاک ہے پاک کرنے والا نہیں ہے اور وضو سے جو ٹپکا ہے وہ کم ہے اور جس پانی سے ملا ہے وہ زیادہ ہے تو وہ اس کی طہوریت کے وصف کو سلب نہیں کرسکتا ہے، میں نے تجھ کو یہ جواب دیا ہے کہ اس سے چلّو بھر کر پانی لے کر وضو باہر کرنا جائز ہے اس کے بیچ وضو کرنا جائز نہیں اھ۔
(۱؎ رسالہ ابن الشحنۃ)
اقول: فھذا ظاھر(۱) فی الملقی وان المراد التوضی فیہ بالمعنی الاول ای بحیث تقع الغسالۃ فیہ وقد کان السائل نبہ علی الحکم الصحیح فیہ ان المتقاطر طاھر مغلوب لکن اجابہ بالمنع وھو خلاف الصحیح کما علمت والعجب ان الشیخ سینقل ان الصحیح خلافہ ثم مشی علیہ وکان حریا بنا ان نحمل کلامہ علی التوضی فیہ بالمعنی الثانی ای بغمس الاعضاء فیہ ومعنی قولہ التوضی خارجہ ان تکون اعضاء المتوضی خارج الحوض کی یوافق الصحیح ولا یناقض کلام نفسہ فیما ینقل من التصحیح وکان تخطئۃ السائل حیث سأل عن الوضوء فیہ بغمس الاعضاء ولم یکن بعدہ محل لذکر قلۃ المتقاطر ایسر علینا من تطرق امثال الخلل الی کلام العلامۃ ولکنہ رحمہ اللّٰہ سیصرح بھذا الظاھر فانسد باب التاویل ثم قدم مقدمۃ فی بیان الماء الذی یظھر فیہ اثر الاستعمال والذی لایظھر فیہ قاصدا اثبات ان الحوض المسئول عنہ اعنی الصغیر مما یتأثر بالاستعمال تأثرہ بالنجس فقال اعلم ان الماء الذی یظھر فیہ اثر الاستعمال ھو الذی (عہ۱) یظھر فیہ اثر النجاسۃ وکل مالایظھر فیہ اثر النجاسۃ لایظھر فیہ اثر الاستعمال ولا فرق ثم جعل یسرد الاقوال فی حد القلیل واطال الی ان قال فثبت ح ظھور اثرالاستعمال وھو سلب الطھوریۃ عن ماء الحوض الذی سألت عنہ وکان حکمہ کالاناء والجب والبئر اھ۔
میں کہتا ہوں یہ ملقیٰ میں ظاہر ہے اور یہ کہ اس سے مراد پہلے معنی کے اعتبار سے وضو کرنا ہے یعنی دھوون اس میں گرے اور سائل نے اس میں صحیح حکم پر خبر دار کیا تھا کہ ٹپکنے والا پانی طاہر مغلوب ہے مگر انہوں نے اس کا جواب منع کے ساتھ دیا اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ صحیح کے خلاف ہے، اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ خود شیخ عنقریب یہ نقل کریں گے کہ صحیح اس کے خلاف ہے اور پھر خود اسی پر چلے ہیں، اور ہمارے لائق بات تو یہ تھی کہ ہم اس کو دوسرے معنی میں لیتے وہ یہ کہ اس میں وضو کرنے پر محمول کرتے یعنی اس میں اعضاء کا ڈبو دینا، اور ان کے اس قول کے معنی کہ وضو حوض کے باہر، یہ ہیں کہ وضو کر نے والے کے اعضاء حوض کے باہر ہوں تاکہ صحیح کے موافق ہو اور خود کلام آپس میں متناقض نہ ہو یعنی اُس تصحیح کے جو نقل کی جائے گی، اور انہوں نے سائل کو غلط اس لئے ٹھہرایا کیونکہ اس نے یہ سوال کیا تھا کہ وہ اپنے اعضاء کو حوض میں داخل کرکے وضو کرنا چاہتا ہے اس کے بعد اس کا محل نہ تھا کہ ٹپکنے والا کم ہے یہ ہم پر بہ نسبت اس کے آسان ہے کہ علّامہ کے کلام میں خلل کو مان لیں مگر وہ خود اس ظاہر کی تصریح کریں گے تو تاویل کا باب بند ہوگیا، پھر ایک مقدمہ اُس پانی کے بارے میں بیان کیا جس میں اثرِ استعمال ظاہر ہوتا ہے اور جس میں نہیں ہوتا ہے، اس سے ان کا ارادہ یہ بتانا کہ وہ چھوٹا حوض جس کے بارے میں دریافت کیا جارہا ہے مستعمل پانی سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح نجس پانی سے، اور فرمایا جاننا چاہئے کہ وہ پانی جس میں استعمال کا اثر ظاہر ہوتا ہے وہی ہے جس میں نجاست کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور جس میں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو اس میں استعمال کا اثر بھی ظاہر نہ ہوگا اور کوئی فرق نہیں، پھر انہوں نے قلیل کے حد میں کئی اقوال پیش کیے اور کافی طوالت اختیار کی اور آخر میں کہا، تو ثابت ہوگیا کہ استعمال کے اثر ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے جس حوض کی بابت دریافت کیا ہے اس کے پانی سے طہوریت سلب ہوگئی اور اس کا حکم برتن، گڑھے اور کنویں کی مانند ہوگیا۔
(عہ۱) تعقیب المسند الیہ بضمیر الفصل یفید قصر المسند علی المسند الیہ فمفاد القضیۃ الاولی ان تأثیر النجاسۃ مقصور علی مایؤثر فیہ الاستعمال ای کل مالایظھر فیہ اثر الاستعمال لایظھر فیہ اثر النجاسۃ ثم ذکر عکسہ کلیا فافاد انھما شیئ واحد وانہ لاانفکاک لتأثیر عن اٰخر اھ منہ غفرلہ۔ (م(
مسند الیہ کے بعد ضمیر فصل لانا مسند کے مسند الیہ پر حصر کا فائدہ دیتا ہے تو پہلے قضیہ کا فائدہ یہ ہے کہ نجاست کا مؤثر ہونا اس چیز پر منحصر ہے جس میں استعمال مؤثر ہو یعنی جس میں استعمال کا اثر ظاہر نہ ہو اس میں نجاست کا اثر بھی ظاہر نہ ہوگا پھر انہوں نے اس کا عکس کلی ذکر کیا جس کا مفادیہ ہے کہ دونوں شیئ واحد ہیں اور یہ کہ ایک کی تاثیر دوسرے سے جُدا نہ ہوگی اھ منہ غفرلہ، (ت(
اقول: رحمکم اللّٰہ کل مااتیتم(۱) بہ الی ھنا انما بین ان القلیل الذی تؤثر فیہ النجاسۃ کذا وکذا ولیس فی شیئ منہ مایدل علی ان کل قلیل یتأثر بالاستعمال کالنجاسۃ وانما کان المقصود فیہ ولم تذکر وافیۃ غیر قولکم ان کل ما تأثر بھا تأثر بہ ولافرق وھی القضیۃ الاولی فی کلامکم اما الاخری القائلۃ ان کل ماتأثر بہ تأثر بھا فلا کلام فیھا ولا تمس المقصود اصلا ثم ذکر تکمیلا لتوضیحہ وسرد فیہ فرع(۱) الخلاصۃ ان الحوض الصغیر قیاس الاوانی والجباب لایجوز التوضی فیہ ولو وقعت فیہ قطرۃ خمر تنجس ۱؎
میں کہتا ہوں یہاں تک آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ قلیل پانی وُہ ہے جس میں نجاست اثر کرے وہ پانی فلاں فلاں ہے، اس میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ہر قلیل پانی استعمال سے متاثر ہوتا ہے جس طرح کہ نجاست سے متاثر ہوتا ہے اور اس سے وہ مقصود تھا جس کا آپ نے ذکر نہیں کیا صرف یہ ذکر کیا ہے کہ ہر پانی جو نجاست سے متاثر ہوگا وہ استعمال سے بھی متاثر ہوگا بغیر کسی فرق کے، یہ ہوا پہلا قضیہ تمہارے کلام میں اور دوسرا قضیہ یہ ہے کہ جو پانی استعمال سے متاثر ہوگا وہ نجاست سے بھی متاثر ہوگا، تو اس میں کلام نہیں، اور اس کا مقصود سے کوئی تعلق نہیں، پھر اپنی وضاحت کی تکمیل کی اور یہ فروع ذکر کیں، فرع(۱) خلاصہ کہ چھوٹا حوض جو برتنوں اور گڑھوں کی مانند ہو اس میں وضو جائز نہیں ہے اور اس میں اگر ایک قطرہ شراب کا گر جائے تو وہ نجس ہوجائے گا۔
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی الجنس الاول فی الحیاض نولکشور لکھنؤ ۱/۵)
وفرع(۲) البزازیۃ والتنجیس والخانیۃ اذا نقص الحوض من عشر فی عشر لایتوضؤ فیہ بل یغترف منہ ویتوضؤ خارجہ ۲؎ ولفظ الخانیۃ لایجوز فیہ الوضوء ۳؎ ولفظ التجنیس اعلاہ(۲) عشر فی عشر واسفلہ اقل وھو ممتل یجوز التوضی فیہ والاغتسال فیہ وان نقص لاولکن یغترف منہ ویتوضأ ۴؎ اھ۔
(۲) بزازیہ، تجنیس اور خانیہ میں ہے کہ جب حوض دَہ در دَہ سے کم ہو تو ا س میں وضو نہ کرے گا بلکہ اس میں سے چُلّو کے ذریعہ لے گا اور وضو حوض سے باہر کرے گا، اور خانیہ کے الفاظ یہ ہیں اس میں وضو جائز نہیں، اور تجنیس کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کا بالائی حصہ دہ در دہ ہے اور نچلا کم ہے اور وہ بھرا ہوا ہو تو اس سے وضو بھی جائز ہے اور غسل بھی، اور کم ہو تو جائز نہیں البتہ ا سے چُلّو بھر کر پانی لے کر وضو کرسکتا ہے۔
(۲؎ بزازیہ مع الھندیہ نوع فی الحیض نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۵)
(۳؎ قاضی خان فصل فی الماء الراکد نولکشور لکھنؤ ۱/۴)
(۴؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۷۷)
قلت: وفی عکسہ عکسہ ای (۳) اذا کان اسفلہ عشرا فی عشر واعلاہ اقل لم یجز الوضوء فیہ ممتلئا فاذا نقص وبلغ الکثرۃ جاز وبہ(۱) یلغزای ماء لایجوز الاغتسال فیہ مادام کثیرا واذا قل جاز وفرع(۳)الخانیۃ خندق طولہ مائۃ ذراع او اکثر فی عرض ذراعین قال عامۃ المشائخ لایجوز فیہ الوضوء ثم حکی عن بعضھم الجواز ان کان ماؤہ لوانبسط یصیر عشرا فی عشر ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں اس کے برعکس میں حکم برعکس ہے یعنی جب اس کا نچلا حصّہ دہ در دہ ہو اور اوپر والا کم ہو تو اس میں وضو جائز نہیں جبکہ بھرا ہوا ہو، پس جب کم ہوجائے اور کثرت کو پہنچ جائے تو جائز ہے، اسی لئے ایک فقہی پہیلی مشہور ہے ''وہ کون سا پانی ہے کہ جب کثیر ہو تو اُس سے غسل جائز نہیں اور جب کم ہو تو جائز ہے۔ خانیہ(۳) کی فرع، ایک خندق ہے جس کی لمبائی سَو ہاتھ یا اُس سے زیادہ ہے اور چوڑائی دو ہاتھ ہے تو عام مشائخ فرماتے ہیں اُس سے وضو جائز نہیں، اور بعض مشائخ سے جواز منقول ہے، بشرطیکہ وہ حوض ایسا ہو کہ اگر اس کے پانی کو پھیلا دیا جائے تو وہ دَہ در دَہ ہوجائے اھ۔
(۱؎ قاضی خان فصل فی الماء الراکد نولکشور لکھنؤ ۱/۴)
قلت: وھو(۲) المختار درر عن عیون المذاھب والظھیریۃ وصححہ فی المحیط والاختیار وغیرھما واختار فی الفتح القول الاخر وصححہ تلمیذہ الشیخ قاسم لان مدار الکثرۃ علی عدم خلوص النجاسۃ الی الجانب ولا شک فی غلبۃ الخلوص من جھۃ العرض ۲؎ اھ ش۔
میں کہتا ہوں یہی مختار ہے اس کو درر نے عیون المذاہب سے اور ظہیریہ سے نقل کیا اور محیط واختیار وغیرہما نے اس کی تصحیح کی، اور فتح میں دوسرے قول کو اختیار کیا اور اس کی تصحیح ان کے شاگرد شیخ قاسم نے کی کیونکہ کثرت کا دارومدار نجاست کے دوسری جانب نہ پہنچنے پر ہے، اور اس میں شک نہیں کہ خلوص کا غلبہ چوڑائی کی طرف سے ہے اھ ش۔
(۲؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۲)
اقول: ھذا(۱) غیر مسلم اذلو کان علیہ المدار لما جاز الوضوء فی الماء الکثیر من الجانب الذی فیہ النجاسۃ ولیس کذلک فعلم ان المدار ھو المقدار اعنی المساحۃ فلا حاجۃ الی العرض وقد قال المحقق نفسہ قالوا فی غیر المرئیۃ یتوضؤ من جانب الوقوع وفی المرئیۃ لا وعن ابی یوسف انہ کالجاری لایتنجس الا بالتغیر وھو الذی ینبغی تصحیحہ لان الدلیل انما یقتضی عندالکثرۃ عدم التنجس الا بالتغیر من غیر فصل وھو ایضا الحکم المجمع علیہ علی ماقدمناہ من نقل شیخ الاسلام ویوافقہ مافی المبتغی ان ماء الحوض فی حکم ماء جار ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں یہ مسلّمہ بات نہیں ہے کیونکہ اگر اسی پر مدار ہوتا تو کثیر پانی میں اس جانب سے وضو جائز نہیں ہوتا جس میں کہ نجاست ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ اصل چیز مقدار ہے یعنی پیمایش، تو چوڑائی کی کوئی حاجت نہیں، اور خود محقق نے فرمایا ہے ''مشائخ کا غیر مرئی نجاست میں کہنا ہے کہ جہاں نجاست گری ہے وہاں سے وضو کرسکتا ہے اور مرئیہ میں نہیں، اور ابویوسف سے مروی ہے کہ یہ جاری پانی کی طرح ہے جب تک تغیر نہ ہوگا نجس نہ ہوگا اسی کی تصحیح ہونی چاہئے، کیونکہ دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ کثرت کی صورت میں صرف اسی وقت ناپاک ہو جبکہ تغیر آجائے اور اس میں کوئی قید نہ ہو، یہ بھی اجماعی حکم ہے ہم اس پر شیخ الاسلام کی نقل بیان کر آئے ہیں، اور مبتغیٰ میں اس کے موافق ہے کہ حوض کا پانی جاری پانی کے حکم میں ہے اھ
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء مالایجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۲)
والعلامۃ نفسہ اطال فیہ الکلام فی رسالتہ تلک واحتج بالاحادیث والاٰثار وقال فی اٰخرہ فثبت ان ماء الغدر لایتنجس الا بالتغیر سواء کان الواقع فیہ مرئیا اوغیر مرئی فالجاری اولی ۲؎ اھ۔
اور علّامہ نے خود اپنے اس رسالہ میں اس پر طویل بحث کی ہے اور احادیث وآثار سے استدلال کیا ہے اور اس کے آخر میں فرمایا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ تالابوں کا پانی تغیر سے ناپاک ہوتا ہے خواہ گرنے والی چیز مرئی ہو یا غیر مرئی، تو جاری میں یہ حکم بطریق اولیٰ ہوگا اھ۔
(۲؎ زہر الروض فی مسئلۃ الحوض )
وقال قبلہ علی قول صاحب الاختیار ان کانت النجاسۃ مرئیۃ لایتوضؤ من موضع الوقوع۔۔۔ الخ مانصہ یقال لہ اذا کان الحکم ھذا فاین الاصل الذی ادعیتہ وھو ان الکثیر لاینجس وکیف خرج ھذا عن دلیل الاصل الذی اوردتہ وھو الحدیث ۳؎۔۔۔الخ وقال علی قول البدائع ان کانت مرئیۃ لایتوضؤ من الجانب الذی فیہ الجیفۃ مانصہ کلہ مخالف للاصل المذکور والحدیث ۴؎ اھ۔
اور اس سے قبل صاحبِ اختیار پر کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نجاست مرئیہ ہو تو گرنے کی جگہ سے وضو نہیں کرے گا۔۔۔الخ ان کی عبارت اس طرح ہے ''اُس سے کہا جائے گا کہ جب حکم یہ ہے تو اس اصل کا کیا ہوا جو آپ نے بیان کی تھی کہ کثیر پانی ناپاک نہیں ہوتا اور یہ اُس دلیل اصل سے کیسے خارج ہوگیا جس کو آپ نے بیان کیا تھا اور وہ حدیث ہے۔۔۔الخ اور بدائع کے قول پر فرمایا کہ اگر نجاست مرئیہ ہو تو جہاں مردار گرا ہے وہاں سے وضو نہیں کرے گا، ان کی یہ تمام عبارت اصل مذکور اور حدیث کے مخالف ہے اھ
(۳؎ زہر الروض فی مسئلۃ الحوض )
(۴؎ زہر الروض فی مسئلۃ الحوض )
ثم اقول: بل ادارۃ(۱) الامر علیہ یبطل اعتبار العرض فان المناط ح ان یکون بین النجاسۃ والماء یرید ان یأخذہ عشرۃ اذرع فاذا وقع النجس فی احد اطراف ذلک الخندق لم یخلص الی الطرف الاٰخر طولا وان خلص عرضا فیجوز الاخذ من الطول بعد عشرۃ اذرع وان لم یجز من العرض بل(۲) ھی تبطل اعتبار المساحۃ رأسا اذ المدار علی ھذا علی الفصل فلوان خندقا طولہ عشرۃ اذرع وعرضہ شبر وقع فی طرف منہ نجس جاز الوضوء من الطرف الاٰخر لوجود الفصل المانع للخلوص وھذا لایقول بہ احد منا ولو وقع(۳) النجس فی الوسط والغدیر عشر فی عشر بل عشرون فی العشرین الا اصبعا فی الجانبین تنجس کلہ لان الفصل فی کل جانب اقل من عشر وکذا اذا کان(۴) مائۃ فی مائۃ بل الفا فی الف عہ۱ ووقع بفصل عشرفی الاطراف ثم کل عشرین فی الاوساط قطرۃ نجس وجب تنجس الکل من دون تغیر وصف، مع کونہ عشرۃ اٰلاف ذراع بل الف الف، فالحق ان المدار ھو المقدار، والماء بعدہ کماء جار، واللّٰہ تعالی اعلم۔
پھر میں کہتا ہوں کہ اس پر دارومدار کرنا عرض کے اعتبار کو باطل کردیتا ہے کیونکہ اس وقت علت حکم یہ ہے کہ اس کے اور نجاست کے درمیان دس ہاتھ کا فاصلہ ہو تو اگر اس خندق کے ایک کنارے میں نجاست گر گئی تو وہ لمبائی میں دوسرے کنارے تک نہیں آسکتی اگرچہ چوڑائی میں دوسری طرف پہنچ جائے، تو لمبائی میں دس ہاتھ کے بُعد سے اس پانی کا استعمال جائز ہوگا اگرچہ چوڑائی سے جائز نہیں، بلکہ یہ مساحت کے اعتبار کو باطل کرتا ہے کیونکہ اس صورت میں دارومدار فصل پر ہے اب اگر کسی خندق کی لمبائی دس ہاتھ ہے مگر چوڑائی ایک بالشت ہے اور اس کے ایک کنارہ میں نجاست گر جائے تو دوسرے کنارے سے وضو جائز ہے کیونکہ خلوص کے لئے مانع موجود ہے، اور ہم میں سے یہ قول کسی کا نہیں۔ اور اگر نجاست تالاب کے بیچوں بیچ گر گئی اور تالاب دہ در دہ بلکہ بست دربست ہے مگر دونوں طرف سے ایک ایک انگل کم ہے تو پورے کا پورا ناپاک ہوجائے گا، کیونکہ فصل ہرجہت میں دس سے کم ہے، اسی طرح اگر وہ سَو در سَو ہو بلکہ ہزار در ہزار ہو، اور نجاست دس ہاتھ کہ فاصلہ سے اطراف میں واقع ہو اور پھر ہر بیس کے درمیان میں ایک نجس قطرہ ہو تو کل نجس ہوجائیگا خواہ وصف میں تغیر نہ ہوا ہو دس ہزار گز ہونے کے باوجود بلکہ لاکھ گز ہونے کے باوجود حق یہ ہے کہ دارومدار مقدار پر ہے اور پانی اس کے بعد ماءِ جاری کی طرح ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
(عہ۱)فتکفی لتنجیس عشرۃ اٰلاف ذراع خمس وعشرون قطیرۃ کحبۃ الجاورس مثلا ولتنجیس ماء منبسط فی الف الف ذراع الفان وخمسمائۃ۔ اھ منہ غفرلہ۔ (م)
دس ہزار گز کو نجس کرنے کیلئے نجاست کے پچیس قطرے باجرہ کے دانہ برابر کافی ہیں اور ایک لاکھ گز میں پھیلنے والے پانی کو نجس کرنے کیلئے دو ہزار پانچ سو قطرے کافی ہیں اھ منہ غفرلہ (ت(
اقول: ویظھر للعبد الضعیف انہ کان ینبغی ان یجعل ھذا ھو المقصود بظاھر الروایۃ ان الکثیر مالا یخلص بعضہ الی بعض واعبتروہ بالارتفاع والانخفاض بتحریک الوضوء من ساعتہ او الغسل اوالاغتراف اوالتکدر اوسرایۃ الصبغ والاول ھو الصحیح ویقرران المقصود بہ لیس الا تحصیل جامع بینہ وبین الجاری قال الامام ملک العلماء فی البدائع عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی جاھل بال فی الماء الجاری ورجل اسفل منہ یتوضؤ بہ قال لا بأس بہ وھذا لان الماء الجاری مما لایخلص بعضہ الی بعض فالماء الذی یتوضؤ بہ یحتمل انہ نجس ویحتمل انہ طاھر والماء طاھر فی الاصل فلا نحکم بنجاستہ بالشک ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں اس عبدِ ضعیف پر یہ ظاہر ہوا کہ مناسب یہ تھا کہ اسی کو ظاہر الروایۃ کا مقصود بنایا جاتا یعنی کثیر وہ ہے کہ بعض بعض میں شامل نہ ہو اور اس میں انہوں نے پانی کے زیروبم کا لحاظ کیا ہے، وضو، غسل، چُلّو سے پانی لینے، گدلا ہونے یا رنگ کے سرایت کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے، اور اول ہی صحیح ہے، اور یہ مقرر ہے کہ مقصود اس پانی اور جاری پانی میں کوئی جہت جامعہ تلاش کرنا ہے، ملک العلماء نے بدائع میں ابو حنیفہ سے نقل کی ہے کہ اگر کوئی جاہل جاری پانی میں پیشاب کردے اور اس کے نچلے حصّے میں کوئی شخص وضو کر رہا ہو تو فرمایا کچھ مضائقہ نہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جاری پانی کے اجزا ایک دوسرے میں شامل نہیں ہوتے ہیں، تو جس پانی سے وہ وضو کررہا ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ پاک ہو اور احتمال ہے کہ ناپاک ہو، اور پانی اصل کے اعتبار سے پاک ہے تو شک کی بنا پر اس پر ناپاکی کا حکم نہیں کیا جائے گا اھ
(۱؎ بدائع الصنائع المقدار الذی یصیر المحل نجسا سعید کمپنی کراچی ۱/۷۳)
اقول: معناہ ان البول یستھلک فی الماء فیصیر کجزء منہ لکن لایطھر لنجاسۃ عینا فھذا ماء بعضہ نجس غیران الماء الجاری لایتأثر بقیتہ بھذا البعض وھذا معنی قولہ لایخلص بعضہ الی بعض فاندفع(۱) مارد علیہ العلامۃ قاسم فی الرسالۃ بقولہ ھذا مما لایکاد یفھم ومن نظر تدافع امواج الانھار جزم بخلاف مقتضی ھذہ العبارات ۱؎ اھ۔ وکانہ ظن ان المراد لایصل بعضہ الی بعض ولو ارید(۲) ھذا لم یکن فی تدافع الامواج مایدفعہ فان التموج حین یوصل الماء الاول مکان الثانی ینقل الثانی الی مکان الثالث فلا یثبت وصول الاول الی الثانی بل الی مکانہ الاول وبالجملۃ المقصود حصول ھذا المعنی الملحق ایاہ بالجاری فاذا حصل لحق وصار لایقبل النجاسۃ اصلا لاانہ یتنجس من موضع النجاسۃ الی حیث یخلص بعضہ الی بعض ویبقی الباقی علی طہارتہ حتی یجب ان یترک من موضع النجاسۃ قدر حوض صغیر کما ھی روایۃ الاملاء وذلک(۳) لان الماء یتنجس بالمتنجس تنجسہ بالنجس فان صار قدر مایخلص الیہ نجسا کیف یبقی مابعدہ طاھرا مع اتصالہ بہ واللّٰہ تعالٰی اعلم ھذا۔
میں کہتا ہوں اس کے معنی یہ ہیں کہ پیشاب پانی میں گُم ہوجاتا ہے اور اس کے ایک جزء کی طرح ہوجاتا ہے لیکن وہ پاک نہیں کرتا ہے کہ اس کی ذات نجس ہے تو یہ ایسا پانی ہے جس کا بعض نجس ہے مگر جاری پانی کے بقیہ اجزاء اس سے متاثر نہیں ہوتے ہیں، اور یہی مفہوم اس عبارت کا ہے کہ اس کا بعض حصہ دوسرے بعض کی طرف نہیں پہنچتا ہے، تو وہ اعتراض جو علامہ قاسم نے اپنے رسالہ میں کیا وہ ختم ہوا، اعتراض یہ ہے ''یہ ایک ناقابلِ فہم چیز ہے اور جو شخص بھی نہروں کی ٹکراتی ہوئی موجوں کا مشاہدہ کرے گا اس کو معلوم ہوجائیگا کہ ان عبارات میں جو لکھا ہے وہ غلط ہے'' اور غالباً انہوں نے اس کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ پانی کا بعض حصّہ دوسرے بعض تک نہیں پہنچتا ہے، اگر بات یہی ہوتی تو موجوں کے ٹکراؤ سے اس کی تردید نہ ہوئی، کیونکہ موج جب پہلے کو دوسرے کی جگہ لے جائے گی تو دوسرے کو تیسرے کی جگہ لے جائے گی تو پہلا پانی دوسرے پانی کی جگہ تک نہیں پہنچے گا بلکہ اس کی پہلی جگہ تک پہنچے گا، خلاصہ یہ کہ اس میں اس وصف کا حاصل ہونا ہے جو اس کو جاری پانی سے ملاتا ہے، اگر یہ وصف پایا جائیگا تو وہ جاری پانی کے حکم میں ہوگا اور نجاست کو بالکل قبول نہ کریگا، یہ نہیں کہ نجاست کی جگہ سے وہ ناپاک ہوجائیگا، اور جہاں تک اس کے اجزاء جائیں گے اور باقی اپنی اصلی طہارت پر باقی رہے گا یہاں تک کہ نجاست کی جگہ سے چھوٹے حوض کی مقدار میں جگہ چھوڑ دی جائے جیسا کہ یہ املاء کی روایت ہے کیونکہ پانی ناپاک چیز سے ایسا ہی ناپاک ہوجاتا ہے جیسا کہ خود نجس چیز سے، تو اگر اتنی مقدار جو اس کی طرف آرہی ہے نجس ہوجائے تو اس کے بعد جو بچا ہے وہ طاہر کیسے رہے گا حالانکہ وہ بھی اس کے ساتھ متصل ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ رسالہ لعلامہ قاسم)
وذکر المسألۃ فی البدائع فجعل الجواز احکم وعدمہ احوط حیث قال اذا کان الماء الراکد لہ طول بلا عرض کالانھار التی فیھا میاہ راکدۃ لم یذکر فی ظاھر الروایۃ وعن ابی نصر محمد بن محمد بن سلام ان کان طول الماء مما لایخلص بعضہ الی بعض یجوز التوضؤ بہ وعن ابی سلیمٰن الجوز جانی لاوعلی قولہ لووقعت فیہ نجاسۃ ان کان فی احد الطرفین ینجس مقدار عشرۃ اذرع وان کان فی وسطہ ینجس من کل جانب مقدار عشرۃ اذرع فما ذھب الیہ ابو نصر اقرب الی الحکم لان اعتبار العرض یوجب التنجیس واعتبار الطول لایوجب فلا ینجس بالشک وماقالہ ابوسلیمن اقرب الی الاحتیاط لان اعتبار الطول ان کان لایوجب التنجیس فاعتبار العرض یوجب فیحکم بالنجاسۃ احتیاطا ۱؎ اھ۔
بدائع میں مسئلہ کا ذکر کیا اور جواز کو مضبوط اور عدمِ جواز کو احوط قرار دیا، فرمایا جب پانی ٹھہرا ہوا ہو اس میں طول ہو مگر عرض نہ ہو جیسا کہ نہروں میں ٹھہرا ہوا پانی۔ ظاہر روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے، اور ابو نصر محمد بن محمد بن سلام سے مروی ہے کہ اگر پانی کی لمبائی ایسی ہے کہ پانی کا بعض دوسرے بعض تک نہ پہنچتا ہو تو اس سے وضو جائز ہے، ابو سلیمان الجوز جانی سے ہے کہ نہیں، اور ان کے قول پر اگر اس میں نجاست پڑ جائے تو اگر کسی ایک کنارے پر ہو تو دس ہاتھ کی تعداد پر ناپاک ہوجائے گا، اور اگر درمیان میں ہو تو ہر جانب سے دس ہاتھ ناپاک ہوجائے گا تو ابو نصر کا قول اقرب الی الحکم ہے کیونکہ چوڑائی کا اعتبار ناپاک کرتا ہے اور لمبائی کا اعتبار نجاست لازم نہیں کرتا، تو شک سے ناپاک نہ ہوگا، اور جو ابو سلیمان نے کہا وہ اقرب الی الاحتیاط ہے کیونکہ لمبائی کا اعتبار اگر نجس کرنے کو واجب نہیں کرتا تو چوڑائی کا اعتبار واجب کرتا ہے تو نجاست کا حکم احتیاطاً لگایا جائے گا اھ ۔
(۱؎ بدائع الصنائع فصل اما بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل نجسا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۳)
اقول: فی کلا(۱) التعلیلین نظر بل الطول یوجب الطہارۃ والعرض لایوجب تنجیسہ لان المدار اذا کان علی الخلوص وعدمہ فعدمہ من جھۃ الطول ظاھر ووجودہ من جھۃ العرض زائل لان بقلۃ العرض یحصل الخلوص فی العرض وکیف یسری منہ الی الطول مع وجود الفصل المانع للخلوص و ان شئت فشاھدہ بما جعلوہ معیار الخلوص وعدمہ فانک اذا توضأت فیہ یتحرک فی عرضہ لاجمیع طولہ وکذا الصبغ والتکدیر واجاب فی البحر بان ھذا وان کان الاوجہ الا انھم وسعوا الامر علی الناس وقالوا بالضم ای ضم الطول الی العرض کما اشار الیہ فی التجنیس بقولہ تیسیرا علی المسلمین ۱؎ اھ واقرہ ش۔
میں کہتا ہوں دونوں تعلیلوں پر اعتراض ہے بلکہ لمبائی طہارت کو واجب کرتی ہے اور چوڑائی اس کی ناپاکی کو واجب نہیں کرتی کیونکہ دارومدار خلوص کے ہونے نہ ہونے پر ہے تو اس کا عدم لمبائی کے اعتبار سے ظاہر ہے اور اس کا وجود چوڑائی کے اعتبار سے زائل ہے، کیونکہ چوڑائی کی قلت سے خلوص حاصل ہوگا چوڑائی میں تو اس سے لمبائی کی طرف کیسے چلے گا حالانکہ فصل خلوص کو مانع ہے، اور اگر تو چاہے تو اس کا مشاہدہ اس چیز سے کر جس کو انہوں نے خلوص وعدمِ خلوص کا معیار قرار دیا ہے کیونکہ جب اس میں وضو کریں گے تو اس کے عرض میں اس کی حرکت ہوگی نہ کہ اس کے طول میں۔ اسی طرح رنگ اور گدلا پن۔ اور بحر میں جواب دیا کہ یہ اگرچہ اوجہ ہے مگر فقہاء نے لوگوں پر معاملہ کو آسان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ طول کو عرض سے ملایا جائے، چنانچہ تجنیس میں فرمایا تیسیرا علی المسلمین اھ (مسلمانوں کو سہولت دینے کیلئے) اور اس کو برقرار رکھا "ش" نے۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۷)
اقول: لیس(۱) باوجہ فضلا عن ان یکون الاوجہ وانما الا وجہ الجواز کما علمت وباللّٰہ التوفیق ھذا ثم ذکر فی زھرالروض فرع(۴) الخانیۃ حوض کبیر فیہ مشرعۃ ان کان الماء متصلا بالالواح بمنزلۃ التابوت لایجوز فیہ الوضوء واتصال ماء المشرعۃ بالماء الخارج منھا لاینفع کحوض(۵) کبیر(۶) انشعب منہ حوض صغیر فتوضأ فی الصغیر لایجوز وان کان ماء الصغیر متصلا بماء الکبیر وکذا لایعتبر اتصال ماء المشرعۃ بما تحتہا من الماء ان کانت الالواح مشدودۃ ۲؎ اھ۔
میں کہتا ہوں یہ اوجہ نہیں، چہ جائیکہ الاوجہ ہو، اوجہ تو جواز ہی ہے جیسا کہ آپ نے جانا وباللہ التوفیق پھر زہرالروض میں فرمایا، خانیہ(۴) کی فرع، ایک بڑا حوض ہے جس میں ایک نالی ہے، اب اگر اس کے تختے تابوت کی طرح ملے ہوئے ہیں تو اس میں وضو جائز نہیں اور نالی کے پانی کا متصل ہونا نفع بخش نہیں ہے، جیسے بڑے حوض(۵) میںسے چھوٹا حوض نکال لیا جائے اور کوئی شخص اس چھوٹے حوض سے وضو کرے تو جائز نہیں اگرچہ چھوٹے کا پانی بڑے کے پانی سے متصل ہو اسی طرح نالی کے پانی کا نیچے کے پانی سے متصل ہونا معتبر نہیں اگر تختے بندھے ہوں اھ ۔
(۲؎ فتاوٰی خانیۃ المعروف قاضی خان فصل فی الماء الراکد نولکشور لکھنؤ ۱/۴)
اقول: انما مبناہ فیما یظھر ماتقدم فی فرعہا الثالث من اشتراط العرض والا فلاشک فی حصول المساحۃ المطلوبۃ عند اتصال الماء وقد علمت ان اشتراطہ خلاف الصحیح الرجیح الوجیہ وفرع (۶)الخانیۃ(۱) حوض صغیر یدخل الماء من جانب ویخرج من جانب قالوا ان کان اربعا فی اربع فمادونہ یجوز فیہ التوضی وان کان اکثر لا الا فی موضع دخول الماء وخروجہ لان فی الوجہ الاول مایقع فیہ من الماء المستعمل لایستقر فیہ بل یخرج کما دخل فکان جاریا وفی الوجہ الثانی یستقر فیہ الماء ولا یخرج الا بعد زمان والاصح ان ھذا التقدیر لیس بلازم وانما الاعتماد علی ماذکر من المعنی فینظر فیہ ان کان ماوقع فیہ من الماء المستعمل یخرج من ساعتہ ولا یستقر فیہ یجوز فیہ التوضی والا فلا وذلک یختلف بکثرۃ الماء الذی یدخل فیہ وقوتہ وضد ذلک ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں اس کا دارومدار بظاہر اسی چیز پر ہے جو تیسری فرع میں گزرا یعنی چوڑائی کی شرط ورنہ مطلوبہ پیمائش کے پانی کے اتصال کے وقت حاصل ہوجانے میں کوئی شک نہیں، اور آپ جان چکے ہیں کہ اس کی شرط صحیح رجیح وجیہ کے خلاف ہے۔ خانیہ کی فرع، ایک چھوٹا حوض ہے جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف سے نکلتا ہے تو فقہاء نے فرمایا ہے کہ اگرچہار در چہار ہے یا اس سے کم ہے تو اس میں وضوجائز ہے اور اگر زیادہ ہے تو نہ ہوگا، صرف پانی کے داخل ہونے کی جگہ سے یا خارج ہونے کی جگہ سے ہوجائے گا کیونکہ پہلی صورت میں جو مستعمل پانی اس میں داخل ہوگا وہ اس میں نہیں ٹھہریگا بلکہ داخل ہوتے ہی نکل جائے گا تو جاری ہوگا اور دوسری صورت میں پانی اس میں ٹھہریگا اور کافی دیر بعد نکلے گا اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ اندازہ لازم نہیں ہے، اور اعتماد صرف اسی وصف پر ہے جو ذکر کیا گیا ہے، تو اس میں غور کیا جائے کہ اگر مستعمل پانی داخل ہوتے ہی نکل جاتا ہے اور اس میں ٹھہرتا نہیں تو اس میں وضوء جائز ہے ورنہ نہیں اس کا دارومدار اس پانی کی قوت وضعف پر ہے جو اس میں داخل ہوتا ہے اور نکلتا ہے اھ۔
(۱؎ فتاوٰی خانیۃ المعروف قاضی خان فصل فی المیاہ نولکشور لکھنؤ ۱/۳)
اقول: ھو خلاف ماعلیہ الفتوٰی قال فی الدر والحقوا بالجاری حوض الحمام لو الماء نازلا والغرف متدارک کحوض صغیر یدخلہ الماء من جانب ویخرج من اٰخر یجوز التوضی من کل الجوانب مطلقا یفتی ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں یہ مفتی بہ قول کے خلاف ہے، در میں فرمایا فقہاء نے حوض حمام کو جاری پانی کا حکم دیا ہے، خواہ پانی اتر رہا ہو اور مسلسل چلّو بھر کر پانی لیا جائے جیسے چھوٹا حوض کہ جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاتا ہو تو ایسے حوض کے ہر طرف سے وضو جائز ہے، اسی پر فتوٰی ہے،
(۲؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶۹)
ای سواء کان اربعا فی اربع اواکثر اھ۔ ش ۳؎ یعنی وہ چار چار کا ہو یا زیادہ ہو اھ ش۔
( ۳؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۰)
وعلیہ الفتوی من غیر تفصیل ھندیۃ عن صدر الشریعۃ والمجتبی والدرایۃ وفرع(۷) الخانیۃ بعد مامرو کذا قالوا فی(۱) عین ماء ھی سبع فی سبع ینبع الماء من اسفلہا ویخرج من منفذھا لایجوز فیہ التوضی الا فی موضع خروج الماء منھا ۱؎ اھ
اور اسی پر فتوٰی ہے بلا تفصیل ہندیہ، صدر الشریعۃ، مجتبی اور درایہ سے۔ خانیہ(۷) کی فرع: اسی طرح فقہاء نے اس چشمے کی بابت فرمایا ہے جو سات سات کا ہو، اس کے نیچے پانی کا سوتا ہو اور پانی اس کی نالی سے نکلتا ہو، اس حوض سے صرف اسی جگہ سے وضو جائز ہے جہاں سے پانی نکل رہا ہے اھ
(۱؎ قاضی خان فصل فی المیاہ نولکشور لکھنؤ ۱/۳)
اقول: ھو ایضا خلاف الفتوی قال فی الدر بعد ماتقدم وکعین ھی خمس فی خمس ینبع الماء منہ بہ یفتی ۲؎ اھ۔
میں کہتا ہوں یہ بھی خلاف فتوٰی ہے، در میں فرمایا اور جیسے وہ چشمہ جو پانچ پانچ کا ہو، جس میں پانی پھُوٹ رہا ہو، یہ مفتیٰ بہ ہے اھ
(۲ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶)
قال الشیخ اعنی ابن الشحنۃ وصرح الامام الحصیری فی خیر مطلوب بان الحاصل ان الشرط عدم استعمال الماء الذی استعملہ ووقع منہ ۳؎ اھ قال وھذا محقق استعمالہ فی الحوض الذی سألت عنہ وھذہ الفروع صریحۃ فی عین مسألتک ۴؎ اھ۔
شیخ ابن الشحنہ نے فرمایا اور امام حصیری نے خیر مطلوب میں صراحت کی کہ اصل چیز یہ ہے کہ مستعمل پانی کو دوبارہ مستعمل نہیں ہونا چاہئے اھ اور جو تم سے سوال کیا ہے اس میں ایسا ہونا متحقق ہے، اور یہ فروع تمہارے سوال کے سلسلہ میں صریح ہیں اھ اور جو تم سے سوال کیا ہے اس میں ایسا ہونا متحقق ہے، اور یہ فروع تمہارے سوال کے سلسلہ میں صریح ہیں اھ
(۳ رسالہ ابن شحنۃ )
( ۴؎ رسالہ ابن شحنۃ)
اقول: اولا(۲) کل ھذہ الفروع ماعدا الاولین خلاف الصحیح والمفتی بہ کما علمت وکذا الاولان علی محمل یفیدہ کما سیأتی فلا یصح الاحتجاج بھا وثانیا(۳) ھذہ سبعۃ فروع وان عددت فرع البزازیۃ والتجنیس والخانیۃ الاولی کلا بحیالہ فتسعۃ ولیس فی شیئ منھا مایفید دعوی التسویۃ بین الملقی والملاقی فی سلب الطہوریۃ حتی الفرع السادس فرع حوض صغیر یدخل فیہ الماء ویخرج وذلک لان کلھا یحتمل الوضوء فیہ بالمعنی الثانی اعنی بغمس الاعضاء وقد علمت انہ الاقرب الی الظرفیۃ وقد قال فی الخانیۃ حوض کبیر وقعت فیہ النجاسۃ ان کانت النجاسۃ مرئیۃ لایجوز الوضوء ولا الاغتسال فی ذلک الموضع بل یتنحی الی ناحیۃ اخری بینہ وبین النجاسۃ اکثر من الحوض الصغیر وان کانت غیر مرئیۃ قال مشائخنا ومشائخ بلخ جاز الوضوء فی موضع النجاسۃ ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں اولا یہ تمام فروع سوائے پہلی دو کے صحیح اور مفتیٰ بہ کے خلاف ہیں، جیسا کہ آپ کو معلوم ہوا، اور پہلی دو بھی ایسے محمل پر جو اس کا فائدہ دے، جیسا کہ آگے آئے گا تو ان سے استدلال صحیح نہیں، اور ثانیا یہ سات فروع ہیں اور اگر آپ بزازیہ، تجنیس اور خانیہ کی پہلی عبارت کو مستقل شمار کریں تو کل نَو ہوئیں مگر ان میں کہیں یہ دعویٰ نہیں کہ ملقی اور ملاقی میں سلبِ طہوریت میں مساوات ہے، یہاں تک کہ چھٹی فرع جو چھوٹے حوض سے متعلق ہے جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاتا ہو کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں اس امر کا احتمال ہے کہ اس میں وضو کرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہو، یعنی اعضاء کو ڈبو کر، اور تم جان چکے ہو کہ یہی معنی ظرفیت کے زیادہ قریب ہیں۔ اور خانیہ میں فرمایا کہ ایک بڑا حوض ہے جس میں نجاست گر گئی اب اگر نجاست مرئیہ ہے تو اس سے نہ وضو جائز ہے نہ غسل، اُس جگہ سے جہاں نجاست گری ہے بلکہ وہ نجاست گرنے کی جگہ سے ایک چھوٹے حوض کے فاصلہ کی مقدار میں دُور ہو جائے، اور اگر وہ نجاست غیر مرئیہ ہے تو ہمارے مشائخ اور بلخ کے مشائخ نے فرمایا جہاں نجاست گری ہے وہاں سے بھی وضو کرنا جائز ہے اھ
(۱؎ فتاوٰی خانیۃ المعروف قاضی خان فصل فی الماء الراکد نولکشور لکھنؤ ۱/۴)
فلیس بخاف ان المراد(عہ۱۱) المعنی الثانی اذلا معنی لعدم جواز الوضوء خارج الحوض بحیث تقع الغسالۃ فی موضع النجاسۃ ولا وجہ علی ھذا للفرق بین المرئیۃ وغیرھا وھذا کما تری یشمل الفرع السادس فانہ اذالم یسقع مایقع فیہ من الماء بل یخرج من ساعتہ کان جاریا کما ذکر والجاری لایتاثر بالغمس واذا کان یستقر ولا یخرج الا بعد زمان کان راکدا وھو صغیر فیضرہ الغمس فلیس فی الفروع شیئا مما یفید دعواہ نعم ھی صریحۃ فی دعوٰنا ان الملاقی کلہ یصیر مستعملا اماما اراد الشیخ فانما یلمح الیہ تعلیل الفرع السادس المذکور فی الخانیۃ لزیادۃ لفظ المستعمل ولولم یزدہ لرجع الی ماذکرنا انہ اذالم یستقر الماء فیہ کان جاریا وکذا تعلیل الحصیری وقد علمتم(۱) ماافادہ شیخکم المحقق علی الاطلاق فی فرع فی الخانیۃ انہ بناء علی کون المستعمل نجسا وکذا کثیر من اشباہ ھذا فاما علی المختار من روایۃ انہ طاھر غیر طھور فلا فلتحفظ لیفرع علیھا ولا یفتی بمثل ھذہ الفروع ۱؎ اھ
تو ظاہر ہے کہ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آدمی حوضِ کے باہر اس طرح وضو کرے کہ اس کا دھوون حوض میں خاص اس جگہ کرے جہاں نجاست گری تھی، اور پھر اس صورت میں مرئیہ اور غیر مرئیہ کے درمیان فرق کی کوئی وجہ نہیں، اور یہ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں چھٹی فرع کو شامل ہے، کیونکہ جب اس میں جانے والا پانی ٹھہرا نہیں، تویہ جاری پانی کے حکم میں ہوگیا اور جاری پانی اعضاء کے ڈبونے سے متاثر نہیں ہوتا ہے،اور اگر وہ ٹھہر کر تھوڑی دیر میں خارج ہوتا ہے تو وہ ٹھہرا ہوا ہے، تو حوض کے چھوٹا ہونے کی صورت میں اس کو مضر ہوگا، تو فروع میں سے کوئی بھی ان کے دعویٰ کے حق میں مفید نہیں ہے ہاں یہ فروع ہمارے دعویٰ میں صریح ہیں کہ کل ملاقی مستعمل ہوجائے گا اور جو شیخ کی مراد ہے اس کی طرف خانیہ کی چھٹی فرع کی تعلیل میں اشارہ ہے کیونکہ انہوں نے مستعمل کے لفظ کا اضافہ کیا ہے اور اگر وہ یہ لفظ نہ بڑھاتے تو اس کا مفہوم بھی وہی نکلتا کہ جب پانی اس میں ٹھہرا نہیں تو جاری ہے اور یہی حال حصیری کی تعلیل کا ہے، اور آپ جان چکے ہیں، خانیہ کی فرع میں جو تمہارے شیخ محقق علی الاطلاق نے فرمایا ہے وہ مستعمل پانی کے نجس ہونے پر مبنی ہے اور اسی طرح اس کے بہت سے نظائر کا حال ہے اور اگر مختار روایت لی جائے جس میں اس پانی کو طاہر غیر طہور قرار دیا گیا ہے تو ایسا نہ ہوگا، اس کو یاد رکھا جائے اور اسی پر تفریعات کی جائیں اور ان جیسی فروع پر فتوٰی نہ دیا جائے اھ
(۱؎ فتح القدیر قبیل بحث الغدیر العظیم سکھر ۱/۷۰)
فاذا کان ھذا فی الفروع فما بالک بالتعلیلات۔ جب فرع کا یہ حال ہے تو تعلیلات کا کیا حال ہوگا!
(عہ۱) وحمل الوضوء والاغتسال علی الاغتراف وفی علی من بعید یاباہ الذوق السلیم اھ منہ م)
اور وضو اور غسل کو چُلّو سے لینے پر محمول کرنا اور ''فی'' کو ''من'' کے معنی میں کرنا بعید ہے، ذوقِ سلیم اس سے انکار کرتا ہے اھ (ت)
0 تبصرے