Music

header ads

گائے یا بکری کُنویں میں گر کر زندہ نکل آئے تو کنواں پاک اور اس کے احکام Gaye Ya Bakri Ka Kunwen Me Girne Ke Ahkam

 مسئلہ ۹۲:    ۲۵ جمادی الاولی ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ گائے یا بکری کُنویں میں گر کر زندہ نکل آئے تو کنواں پاک بتاتے ہیں تسکینِ قلب کیلئے دس بیس ڈول کا حکم اور بات ہے حالانکہ یقینا اُس کے کُھر اور پاؤں کا زیریں حصّہ پیشاب وغیرہ میں روز آلودہ ہوا کرتا ہے تو حکمِ طہارت کس بنا پر ہے۔ بینوا توجروا۔


الجواب: اِسی بنا پر سیدنا امام اعظم وامام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ایک روایت نادرہ آئی کہ گائے بکری کے گرنے سے کنواں مطلقاً ناپاک ہوجائیگا اگرچہ زندہ نکل آئیں اور اسی کو حاوی قدسی میں اختیار کیا۔ بدائع میں ہے:


روی عن ابی حنیفۃ وابی یوسف فی البقر والابل انہ ینجس الماء لانھا تبول بین افخاذھا فلا تخلو عن البول ۱؎۔ گائے اور اونٹ کے بارے میں امام ابوحنیفہ اور ابویوسف رحمہما اللہ سے روایت ہے کہ پانی نجس ہوجائیگا کیونکہ یہ جانور اپنی رانوں کے درمیان پیشاب گراتے ہیں جس کی وجہ سے رانیں، پیشاب سے محفوظ نہیں رہتی ہیں۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    امابیان المقدار الذی یصیربہ المحل نجساً    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۵)


حلیہ میں ہے: وعلی ما عن ابی حنیفۃ من ھذا الحکم المذکور مشی الحاوی القدسی ۲؎۔ اس مذکور حکم کے بارے میں امام صاحب کی روایت کی بنا پر حاوی قدسی اس پر چلے۔ (ت)


 (۲؎ حلیہ)

مگر مذہب صحیح ومشہور ومعتمد ومنصور یہی ہے کہ جب تک اُن کے بدن پر کسی نجاست کا ہونا یقینا نہ معلوم ہو کنواں پاک رہے گا، خانیہ وہندیہ میں ہے: وقعت شاۃ وخرجت حیۃ ینزح عشرون دلوا لتسکین القلب لاللتطھیر حتی لولم ینزح وتوضأ جاز ۳؎۔ اگر کنویں میں بکری گری اور زندہ نکلی تو اطمینان قلبی کیلئے بیس ڈول نکالے جائیں پاک کرنے کیلئے نہیں حتی کہ اگر یہ ڈول نہ نکالے تو بھی وضو جائز ہوگا۔ (ت)


 (۳؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل مایقع فی البئر        نولکشور لکھنؤ        ۱/۵)


نیز   عٰلمگیریہ میں  تبیین امام زیلعی سے ہے:ان وقع نحو شاۃ واخرج حیا فالصحیح انہ اذالم یکن فی بدنہ نجاسۃ فالماء طاھر ۱؎ اھ مختصرا۔ اگر بکری جیسا کوئی جانور گرا اور زندہ نکال لیا گیا تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اگر اس کے بدن پر نجاست نہ ہو تو کنویں کا پانی پاک ہے اھ مختصراً۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    النوع الثالث ماء الاٰبار من المیاہ    پشاور    ۱/۱۹)


امام محقق علی الاطلاق نے اس کی توجیہ یہ فرمائی کہ اگرچہ امر مذکور ظاہر ہے مگر احتمال ہے کہ کنویں میں گرنے سے پہلے آب کثیر میں گزری ہوں کہ بدن پاک ہوگیا ہو، فتح القدیر میں ہے:


الحاصل المخرج حیا ان کان نجس العین اوفی بدنہ نجاسۃ معلومۃ نزحت کلھا وانما قلنا معلومۃ لانھم قالوا فی البقر ونحوہ یخرج حیا لایجب نزح شیئ وان کان الظاھر اشتمال بولھا علی افخاذھا لکن یحتمل طھارتھا بان سقطت(عہ) عقیب دخولھا ماء کثیرا ھذا مع الاصل وھو الطہارۃ تظَافَرَ علی عدم النزح واللّٰہ سبحٰنہ و تعالٰی اعلم۔


الحاصل کنویں سے نکلا ہُوا جانور اگر زندہ ہو اگر وہ نجس العین (خنزیر) ہو یا اس کے بدن پر نجاست کا علم ہو تو کنویں کا سارا پانی نکالا جائیگا ہم نے نجاست کے علم کی بات اس لئے کی ہے کہ فقہاء نے گائے وغیرہ کے بارے میں فرمایا کہ اگر یہ زندہ نکال لی جائے تو کنویں سے کچھ پانی نکالنا ضروری نہیں اگرچہ ان جانوروں کی رانوں کا پیشاب سے ملوّث ہونا ظاہر بات ہے لیکن ان کے پاک ہونے کا پھر بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ جانور پیشاب کرنے کے بعد کثیر پانی میں داخل ہونے کے بعد کنویں میں گرے ہوں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ طہارت اصل ہے، یہ دونوں چیزیں کنویں سے کچھ پانی نہ نکالنے کو واضح کرتی ہیں واللہ تعالٰی اعلم،


 (عہ)قال فی المنحۃ قولہ بان سقطت ای النجاسۃ وضمیر دخولھا للبقر وماء بالنصب مفعول دخول اھ۲؂ اقول بل ضمیر سقطت ایضا للبقر والمعنی سقطت فی البئر بعد دخولھا الماء الکثیر ولو کان کمافھم لقال بدخولھا مع مافيہ من تفکیک الضمائر من دون حاجۃ اھ منہ (م)

منحہ میں کہا ہے کہ ''سقطت'' کی ضمیر، نجاست اور ''دخولھا'' کی ضمیر ''بقر'' کیلئے ہے اور ''ماء'' پر نصب ''دخول'' کا مفعول ہونے کی بنا پر ہے اھ میں کہتا ہوں بلکہ سقطت کی ضمیر بھی بقر کیلئے ہے، اور معنی یہ ہوا کہ گائے یا بھینس کثیر پانی میں داخل ہونے کے بعد کنویں میں گری اور اگر ایسے ہوتا جیسے انہوں (صاحبِ منحہ) نے سمجھا تو پھر بدخولھا کہتا، حالانکہ ایسے ضمیروں کا اختلاف ہے جوکہ بلاوجہ ہے اھ منہ (ت)


 (۲؂منحۃ الخالق علی البحر الرائق    کتاب الطہارۃ   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی       ۱/۱۱۷   )


وقیل ینزح من الشاۃ کلہ والقواعد تنبوعنہ مالم یعلم یقینا تنجسھا کماقلنا ۱؎۔ اور کہا گیا ہے کہ بکری کے گرنے پر کنویں کا سارا پانی نکالا جائے حالانکہ یہ قواعد سے بعید ہے جب تک یقینی طور اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو جیسے ہم نے بیان کیا ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر    فصل فی البئر    سکّھر    ۱/۹۲)


حلیہ وبحر وغیرہما میں اس پر اُن کی تبعیت کی۔ :اقول :مگر لاکھوں (۱) جانور کہ گھروں میں بندھے کھاتے ہیں اُن میں اس احتمال کی کیا گنجائش اور حکم بلاشبہ عام ہے______ تو دوسری توجیہ ضرور درکار واللّٰہ الھادی وولی الایادی  (اللہ تعالٰی ہادی اور مددگار ہے۔ ت) خاطر فقیر غفرلہ المولی القدیر میں مدت سے یہ خطور کرتا تھا یہاں جفاف وانتشار سبب طہارت ہوں یعنی جس(۲) طرح زمین پر پیشاب پڑا اور خشک ہوگیا کہ اثر باقی نہ رہا زمین نماز کیلئے پاک ہوگئی اگرچہ اُس سے تیمم نہیں ہوسکتا یوں ہی(۳) ان کے بدن پر ان کا پیشاب لگ کر خشک ہونے کے بعد بدن پاک ہوجاتا ہے نیز(۴) جس طرح جُوتے میں کوئی جرم دار نجاست لگی اور چلنے میں ریت مٹی سے خشک ہوکر جھڑ گئی جُوتا پاک ہوگیا یوں ہی جب(۵) ان کی مینگنی گوبر بدن پر لگ کر خشک ہوکر لیٹنے لوٹنے بدن کھجانے سے جھڑ گئی بدن پاک ہوگیا مگر اس پر جرأت نہ کرتا تھا یہاں تک کہ بفضلہ تعالٰی فتاوٰی غیاثیہ میں اسکی تصریح دیکھی؟


حیث قال سئل ابونصر رحمہ اللّٰہ تعالٰی من یغسل(۶) الدابۃ فيصیبہ من مائھا اوعرقھا(۷) قال لایضرہ قیل لہ فان کانت تمرغت فی روثھا وبولھا قال اذا جف وتناثر وذھب عینہ فلایضرہ فعلی(عہ) ھذا اذاجری(۱) الفرس فی الماء وابتل ذنبہ وضرب بہ علی راکبہ ینبغی ان لایضرہ ۱؎۔


جہاں انہوں نے کہا ابونصر رحمہ اللہ تعالٰی سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو جانور کو نہلا رہا ہو اور اس کو جانور کا پانی یا پسینہ لگ جائے، جواب میں انہوں نے فرمایا کہ کوئی ضرر نہیں، اس پر یہ پُوچھا گیا کہ اگر وہ جانور گوبر اور پیشاب سے ملّوث ہو تو۔ جواب میں انہوں نے کہا جب (جانور کے بدن) پر سے گوبر وغیرہ خشک ہوکر جھڑ جائے اور بدن اس سے صاف ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، اس بناء پر گھوڑے کے پانی میں گزرنے اور اُس کی دُم تر ہوجانے کے بعد اگر گھوڑے نے اپنی دُم سوار کو ماردی تو کوئی ضرر اور حرج نہیں ہونا چاہئے۔ (ت)


 (عہ) اقول وکذا ان علم نجاسۃ الذنب ومر علی الماء بحیث اذھب النجس فضرب بذنبہ بعد ذلک لایضرہ مااصابہ من بللہ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

میں کہتا ہوں اسی طرح اگر گھوڑے کی دُم پر نجاست کا علم ہو اور پانی میں گزرنے کی وجہ سے دُم کی نجاست ختم ہوگئی ہو تو اس صورت میں سوار کو دُم مارنے کی وجہ سے جو تری لگی وہ مضر نہ ہوگی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی غیاثیہ    فصل فی بیان النجاسات        مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ    ص۱۰)


پھر بحمداللہ تعالٰی اس کی تائید بدائع امام ملک العلماء میں دیکھی کہ بکری(۲) کا بچّہ اُسی وقت پیدا ہوا جب تک اُس کا بدن رطوبتِ رحم سے گیلا ہے ناپاک ہے خشک ہوکر پاک ہوجائے گا یعنی صاحبین کے طور پر جن کے نزدیک رطوبتِ فرج نجس ہے ورنہ امام کے نزدیک وہ بحال تری پاک ہے،


وھذا نصہ لوسقطت السخلۃ من امھا وھی مبتلۃ فھی نجسۃ حتی لوحملھا الراعی فاصاب(عہ) بللھا الثوب اکثر من قدر الدرھم منع جواز الصلاۃ ولووقعت فی الماء فی ذلک الوقت افسدت الماء واذا یبست فقد طھرت ۲؎۔


اس کی عبارت یہ ہے جب بکری کا بچّہ پیدا ہو اور وہ ابھی (رحم کی رطوبت) سے تَر ہو تو ناپاک ہوگا حتی کہ اگر اس کو چرواہے نے اٹھا لیا اور اس بچّے کی تری کپڑے کو لگ گئی تو اس کپڑے سے نماز جائز نہ ہوگی جبکہ کپڑے کو لگنے والی تری مقدار درہم سے زیادہ ہو، اور اگر اس حالت میں بچہ پانی میں گرا تو پانی بھی ناپاک ہوجائیگا، اور اگر وہ بچّہ خشک ہوگیا تو پھر پاک ہے۔ (ت)


یہ ہے بحمداللہ تعالٰی جوا ب شافی ولاحاجۃ بعدہ الی ماکنت وجھت بہ فی الاحلی من السکرواللّٰہ تعالٰی اعلم  (اس کے بعد ''الاحلی من السکر'' میں جو وجہ میں نے بیان کی ہے اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ ت)


 (۲؎ بدائع الصنائع    امابیان المقدار الذی یصیربہ المحل نجساً    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۶)


 (عہ) اقول فيہ نظر فالسخلۃ حین تقع من امھالا تستمسک بنفسھا فيکون عندھما حاملا للنجاسۃ وان لم یصب ثوبہ ولابدنہ منہ شیئ الا ان یقال ان الرطوبۃ مادامت علی السخلۃ فی معدنھا وقد اسلفنا ردہ فی مسألۃ المثانۃ تقع فی البئر ۱۲ منہ غفرلہ (م)

میں کہتا ہوں یہ قابلِ غور ہے بکری کا بچّہ جب پیدا ہوتے گِرا تو صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بچّے کے بدن پر نجاست ہے تو حاملِ نجاست ہونے کی وجہ سے اس کو اٹھانے والے کی نماز نہ ہوگی اگرچہ وہ رطوبت اٹھانے والے کے کپڑے یا بدن کو نہ لگی ہو مگر یہ کہا جاسکتا ہےکہ جب تک رطوبت بچّے کے بدن پر ہے وہ اپنے معدن میں ہے حالانکہ اس بات کا رَدہم مثانہ کے کنویں میں گرنے کے مسئلہ میں کرچکے ہیں۔ (ت)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے