Music

header ads

ایک چوبچّہ زیر غسل خانہ سواگز طول بارہ گرہ چوڑا بارہ گرہ عمیق ہے اور آٹھ گرہ اونچائی پر اُس میں سوراخ لوٹے کی ٹونٹی کے برابر ہے Napak Pani Agar Kunwen me Gir Jaye tu?

 مسئلہ ۷۴ :   ازشہر کہنہ مرسلہ امجد علی خان وتلن خان     ۳ محرم الحرام ۱۳۱۴ھ

جناب مولوی صاحب دام ظلہ۔ بعد سلام نیاز کے عرض ہے کہ اسی مضمون کا ایک سوال کل آپ کے پاس آیا تھا لیکن اس کے لکھنے میں کچھ فروگذاشت ہوگیا تھا اور مفتی سے جو سوال کیا جاتا ہے اس کا جواب دیتا ہے لہذا ہوہو جو حال تھا اس میں لکھ دیا اس کو ملاحظہ کرکے لکھ دیجئے ایک چوبچّہ زیر غسل خانہ سواگز طول بارہ گرہ چوڑا بارہ گرہ عمیق ہے اور آٹھ گرہ اونچائی پر اُس میں سوراخ لوٹے کی ٹونٹی کے برابر ہے اور چوبچہ میں پانی جنابت اور غیر جنابت غسل کا اور وضو کا اور کنویں پر جو بہشتی بھرتے ہیں اُن کا گرا ہوا اور سقاوے میں برائے وضو جو لوٹوں میں بھرتے وقت تھوڑا سا گرتا ہے اور استنجا چھوٹا اور بڑا اور ایسے جنب جن کے نجاست لگی ہو اُن کے غسل کا یہ سب پانی چوبچہ میں آتا ہے اور جب آٹھ گرہ سے زیادہ اونچا پانی اُس میں ہوجاتا ہے تو نکلنا شروع ہوتا ہے ورنہ اُس میں ٹھہرا رہتا ہے اور رنگ بُو پانی کا تبدیل نہیں ہوا ہے لیکن اُس چوبچہ کے پانی میں بُو بھی آتی ہے اور مزہ کسی نے چکھا نہیں ہے تو ان صورتوں میں اُس چوبچہ کا پانی پاک ہے یا ناپاک اور پاک ہے تو کس قسم کا اور ایک پیچک اسی چوبچہ میں ڈال کر کنویں میں ڈالی تھی تو کنواں پاک رہا یا ناپاک اور اگر ناپاک ہوا تو کس قدر ڈول نکلیں گے۔


الجواب: شرع مطہر میں مدار نجاست علم پر ہے اور مدار طہارت نامعلومی نجاست پر۔ جس چیز کی نجاست معلوم نہیں وہ پاک ہے سقا وسقایہ و وضو وغسل بے جنابت وغسل جنابت سب کے پانی پاک ہیں اور استنجا(۱) جب ڈھیلے سے کرلیا جائے تو اصح مذہب پر طہارت ہوجاتی ہے اور اب جو پانی سے استنجا کریں تو وہ ناپاک نہیں ہوتا جبکہ نجاست نے مخرج جسے تجاوز نہ کیا ہو،


فان الشرع قداعتبر الاحجار مطھرۃ لما علی المخرج دفعا للحرج علی خلاف القیاس فی سائر البدن ۱؎ کماقررہ فی الحلیۃ من اٰداب الوضوء فما جاوزہ اعنی المخرج لایطھر بالحجر وانما یجف فاذا لاقی ماء قلیلا افسدہ


پاخانہ اور پیشاب کے مقام پر اگر نجاست صرف سوراخ (مخرج) تک محدود ہے تو شریعت نے اس حد تک طہارت کے لئے ڈھیلے کے استعمال کو معتبر قرار دیا ہے، شریعت کا یہ حکم خلاف قیاس ہے اس سے مقصد عوام سے حرج وتنگی ختم کرنا ہے، جیسا کہ حلیہ کے آدابِ وضو میں اس کو بیان کیا ہے۔ پس وہ نجاست جو مخرج کی حد سے تجاوز کر جائے وہ ڈھیلے سے پاک نہ ہوگی بلکہ وہ ڈھیلے کے استعمال سے خشک ہوجائے گی اور جب وہاں پانی لگے گا تو وہ جگہ ناپاک ہوجائے گی،


(۱؎ حلیہ)


ھذا ھو التحقیق الذی حصل للعبد الضعیف بمطالعۃ کلمات کثیرۃ شدیدۃ الاضطراب کماذکرتہ فیما علقتہ علی ردالمحتار ثم کون الاستجمار مطھرا قد استدل لہ فی الفتح بما رواہ الدار قطنی وصححہ انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نھی ان یستنجی بروث اوعظم وقال انھما لایطھران ۱؎ وتبعہ فی البحر وایدہ فی النھر وقال فی جامع الرموز ھو الاصح,


باہم مختلف کثیر عبارات کے مطالعہ سے اس ضعیف بندے کو یہی تحقیق حاصل ہوئی ہے، جیسا کہ میں نے ردمحتار پر تعلیقات میں ذکر کیا ہے، پھر ڈھیلے کا استعمال طہارت کا ذریعہ ہے، اس پر فتح القدیر میں اس حدیث کو دلیل بنایا جس کو دارقطنی نے روایت کیا اور اس کو صحیح قرار دیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے کو منع فرمایا اور فرمایا کہ دونوں چیزیں پاک کرنے والی نہیں ہیں، بحر میں اس کی اتباع کی اور نہر میں اس کی تائید کی ہے، جامع الرموز میں اس کو اصح کہا۔


 (۱؎ فتح القدیر ۔  فصل فی الاستنجاء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھّر    ۱/۱۸۹)


اقول : واخرج الطبرانی فی الکبیر بسند حسن عن خزیمۃ بن ثابت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من استطاب بثلثۃ احجار لیس فیھن رجیع کن لہ طھور ۲؎ فھذا نص بحمداللّٰہ صریح فی المقصود وقد قال العلماء کما فی الغنیۃ وغیرھا انہ لایعدل عن درایۃ ماوافقتھا  روایۃ ۳؎فکیف اذا کان ثم اختلاف تصحیح فعلی ھذا القول فلیکن التعویل وباللّٰہ التوفیق۔


میں کہتا ہوں طبرانی کبیر میں مصنف نے حسن سند کے ساتھ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس نے صفائی کیلئے تین ڈھیلے استعمال کئے اور ان میں گوبر نہ ہو تو ان سے طہارت حاصل ہوجائےگی، یہ حدیث صریح نص ہے جس میں مقصد واضح ہوتا ہے۔ اور علماء نے فرمایا جیسا کہ غنیہ وغیرہا میں ہے کہ جو استدلال سے ثابت ہو وہ روایت سے ثابت شدہ کے مساوی نہیں ہوسکتا خصوصاً جب ہاں تصحیح میں بھی اختلاف ہو تو کیسے مساوی ہوگا۔ لہذا اس قول پر اعتماد ہونا چاہئے اللہ تعالٰی سے توفیق ہے۔ (ت)


 (۲؎ المعجم الکبیر عن خزیمۃ بن ثابت    حدیث ۳۷۲۹    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۴/۸۷)

(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    الثامن تعدیل الارکان    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۲۹۵)


اور غسل خانے میں جو نجاست پیش از غسل دھوئی گئی اگر ابھی اُس کا پانی چہ بچہ میں نہ پہنچا تھا کہ اُس کے بعد غسل کیا اور یہ کہ پاک پانی اُسے بہا کر لے گیا تو زمین بھی پاک ہوگئی اور پانی بھی پاک رہا۔


فی ردالمحتار فی الذخیرۃ لواصابت الارض نجاسۃ فصب علیھا الماء فجری قدر ذراع طھرت الارض والماء طاھر بمنزلۃ الجاری ۱؎۔


ردمحتار میں ہے کہ ذخیرہ میں بیان کیا ہے کہ اگر زمین پر نجاست ہو تو جب اس پر پانی بہایا گیا اور وہ پانی ایک ہاتھ گز (ذراع) تک جاری ہوا تو زمین پاک ہوجائےگی اور پانی بھی جاری پانی کی طرح پاک ہوجائےگا۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۸)


اور اگر آب نجس چہ بچہ میں پہنچ گیا تھا اُس کے بعد پاک پانی غسل و وضو وغیرہما کا بہتا آیا اور اس نے چہ بچہ کو جاری کردیا تو سارا پانی کہ چہ بچہ میں تھا پاک ہوگیا۔


فی ردالمحتار والعرف الاٰن انہ متی کان الماء داخلا من جانب وخارجا من جانب اٰخر یسمی جاریا وان قل الداخل وبہ یظھر الحکم فی برک المساجد ومغطس الحمام مع انہ لایذھب بتبنۃ ۲؎۔


رد محتار میں ہے اور اب عرف یہ ہے کہ اگر پانی ایک جانب سے داخل ہو اور دوسری جانب سے خارج ہو تو اس کو جاری کہتے ہیں اگرچہ داخل ہونے والا قلیل ہو، اس سے مسجد کی نالی اور حمام سے نکاسی کا حکم معلوم ہوا اس کے باوجود کہ وہ تنکے کو بہا کر نہیں لے جاتا۔ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۸)


اور پانی میں ٹھہرنے سے بھی بُو آجاتی ہے یہ خواہی نخواہی مستلزم نجاست نہیں جب تک نجس چیز کے سبب بُو میں تغیر نہ آیا ہو۔

غرض اس چہ بچہ میں اکثر اوقات زیادہ احتمالات طہارت کے ہیں اور بعض وقت ایک احتمال نجاست کا پس اگر ثابت ومتحقق ہو کہ جس وقت پیچک اُس میں گری اُس سے پہلے کسی شخص نے کوئی نجاست حقیقیہ دھوئی تھی اور تنہا اُسی کا پانی چہ بچہ میں آیا ہوا تھا اور اس کے بعد پاک پانی نے آکر اُسے بہانہ دیا تھا جب تو اس صورت خاص میں کنویں کی نجاست اور کُل پانی نکالنے کا حکم دیا جائے گا اور اگر اُس کا ثبوت تحقیقی طور پر نہیں تو چہ بچہ پیچک کنواں سب پاک ہیں احتمال سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ پاکی کیلئے ایک احتمال طہارت کافی ہے نہ کہ جہاں غالب وہی ہو۔

فی ردالمحتار قال فی البحر وقیدنا بالعلم لانھم قالوا فی البقر ونحوہ یخرج حیا لایجب نزح شیئ وان کان الظاھر اشتمال بولھا علی افخاذھا لکن یحتمل طھارتھا بان سقطت عقب دخولھا ماء کثیرا مع ان الاصل الطھارۃ اھ۔ ومثلہ فی الفتح ۱؎ اھ۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


رد محتار میں ہے کہ بحر میں کہا ہے کہ ہم نے علم کی قید اس لئے لگائی ہے کہ فقہاء نے فرمایا کہ اگر بھینس وغیرہ کنویں میں گر جائے اور زندہ نکال لی جائے تو کنویں سے پانی نکالنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ ظاہر طور ہر بھینس کی رانوں پر پیشاب لگا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھینس کے پاک ہونے کا بھی احتمال ہے وہ یوں کہ ہوسکتا ہے بھینس کنویں میں گرنے سے متصل قبل کثیر پانی میں داخل ہوئی ہو اس کے ساتھ یہ بھی کہ طہارت اصل ہے اھ اور فتح القدیر میں بھی اسی طرح ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    فصل فی البئر    البابی مصر    ۱/۱۵۶)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے