Music

header ads

فصل ثانی مطلق ومقید کی تعریف میں۔ Fasle Sani Mutallaq wa muqayyad Ki Tareef me

 فصل ثانی مطلق ومقید کی تعریف میں۔


یہاں عبارات علما مختلف آئیں، اما لفظا اومعنی ایضا فمنھا صحیح وخلافہ والصحیح منھا حسن واحسن فنذکرھا ومالھا وعلیھا لیتبین المنتجب من المجتنب، فیراعی معیارا فی کل مطلب، واللّٰہ الموفق ماغیرہ رب۔


یا تو لفظاً یا معنیً بھی، ان میں سے کچھ صحیح ہیں اور کچھ اس کے برخلاف صحیح میں سے کچھ حسن اور کچھ احسن ہیں، تو اب ہم انہیں اور ان پر جو ابحاث ہیں انہیں ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح اور غلط ظاہر ہوتا کہ ہر بحث میں معیار کی رعایت کی جاسکے (ت)

اوّل مطلق وہ کہ شے کی نفس ذات پر دلالت کرے کسی صفت سے غرض نہ رکھ نہ نفیا نہ اثباتاً قالہ فی الکفایۃ (یہ تعریف کفایہ میں ہے۔ت) اور مقید وہ کہ ذات کے ساتھ کسی صفت پر بھی دال ہو، عنایہ میں ہے:


ان اللّٰہ تعالی ذکر الماء فی الاٰیۃ مطلقا والمطلق مایتعرض للذات دون الصفات ومطلق الاسم ینطلق علی ھذہ المیاہ ۱؎ اھ ای ماء السماء والاودیۃ والعیون والاٰبار ذکرہ مستدلا علی جواز التوضی بھابقولہ تعالٰی وانزلنا من السماء ماء طھورا۔


اللہ تعالٰی نے آیہ مبارکہ میں پانی کو مطلق ذکر کیا ہے،اور مطلق وہ ہے جس میں صرف ذات کا ذکر ہو صفات کا نہ ہو،اور پانی کا مطلق نام انہی پانیوں پر بولاجاتاہے اھ یعنی آسمان، وادیوں، چشموں اور کنوؤں کے پانیوں پر،اس کاذکروضو کے جواز کے سلسلہ میں کیا ہے فرمانِ الٰہی ہے وانزلنا من السماء ماءً طھوراً۔ (ت)


اقول: ھذا(۱)ھو المطلق الاصولی ولیس مراداھٰنا قطعا فانہ مقسم المقیدات وھذا قسیمھا وھوینطلق علی جمیع المقیدات فیلزم جوازالتوضی بھابل المطلق ھھنا مقید بقید الاطلاق فی مرتبۃ بشرط لاشیئ ای مالم یعرض لہ مایسلب عنہ اسم الماأالمرسل ولاشک ان ھذا متعرض لوصف زائد علی نفس الذات فالمطلق ھھنا قسم من المقید وقسیم لسائرالمقیدات وقد تنبہ لھذاالسیدالعلامۃ الشامی فنبہ علیہ بقولہ واعلم ان الماء المطلق اخص من مطلق ماء لاخذ الاطلاق فیہ قیداولذا صح اخراج المقید بہ واما مطق ماء فمعناہ ای ماء کان فیدخل فیہ المقید المذکور ولایصح ارادتہ ھھنا ۱؎ اھ ووقع فی البحربعدماعرف المطلق بما یاتی والمطلق فی الاصول ھوالمتعرض للذات دون الصفات لابالنفی ولا بالاثبات کماء السماء والعین والبحر ۲؎ اھ فقدکان یفھم بالمقابلۃ انہ لیس مراداھھنا لکن جعل(۱)المیاہ المطلقۃ مثالا صرف الکلام الی الایہام فالاحسن مافی الکافی (عـہ) والبنایۃومجمع الانھر اذاذکروا المطلق الاصولی ثم قالوا وارید ھھنا مایسبق الی الافہام ۱؎ الخ


میں کہتا ہوں یہ اصولی مطلق ہے اور وہ یہاں قطعاً مراد نہیں کیونکہ وہ مقیدات کا مقسم ہے اور یہ اُن کا قسیم ہے اور یہ تمام مقیدات پر جاری ہے تو ان تمام سے وضو کاجوازلازم آتا ہے بلکہ مطلق یہاں بقید اطلاق مقید ہے اور بشرط لاشیئ کے مرتبہ میں ہے، یعنی اس کو جب تک ایسی چیز لاحق نہ ہو جو اس سے مطلق پانی کا نام سلب کرلے، اور اس میں شک نہیں کہ یہ نفس ذات پر ایک زائد وصف کی طرف اشارہ ہے، تو مطلق یہاں مقید کی قسم ہے اور باقی مقیدات کا قسیم ہے علامہ شامی نے اس کو محسوس کرتے ہوئے فرمایا ''جاننا چاہئے کہ ماءِ مطلق مطلق ماء سے اخص ہے کیونکہ اس میں اطلاق کی قید ہے،اس لئے مقید کا اس سے خارج کرنا درست ہے، اور مطلقِ ماء کے معنی ہیں کوئی بھی پانی ہو تو اس میں مذکور مقید بھی داخل ہوگا،اور یہاں اس کا ارادہ صحیح نہیں ہے اھ بحر میں مطلق کی تعریف کے بعد ہے ''مطلق اصول میں معترض ذات کو بیان کرتا ہے نہ کہ صفات کو، نہ نفی سے نہ اثبات سے، جیسے آسمان، چشمہ اور دریان کا پانی اھ مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں مراد نہیں ہے لیکن مطلق پانیوں کی اس کی مثال بنانا کلام میں ایہام پیدا کرنا ہے تو احسن وہی ہے جو کافی، بنایہ اور مجمع الانہر میں ہے، اِنسب نے اصولی مطلق کا ذکر کیا ہے، پھر فرمایا ہے، یہاں وہی مراد جو ذہنوں کی طرف سبقت کرتا ہے الخ (ت)


 (۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر    باب الما الذی یجوزبہ الوضو مالایجوز    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۰)


 (عـہ)وفی غایۃ البیان المراد ھنامایفھم بمجرداطلاق اسم الماء والافالمیاہ المذکورۃ لیست بمطلقۃ لتقییدھابصفۃ وفی اصطلاح اھل الاصول ھوالمتعرض للذات دون الصفۃ اھ اقول لاوجود للمطلق فی الاعیان الا فی ضمن للمقید فلاتخصیص للمیاہ والمذکورۃ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

اور غایۃ البیان میں ہے کہ مراد یہاں پر وہ ہے جو محض ماء کے نام کے اطلاق سے سمجھا جاتاہے ورنہ مذکورہ پانی مطلق پانی نہیں کیونکہ یہ پانی کسی صفت سے مقید ہیں،اور اصولیین کے نزدیک مطلق وہ ہے جو صرف ذات کو بتائے نہ کہ صفت کو اھ میں کہتا ہوں مطلق کا وجود اعیان میں نہیں مقید کے ضمن ہی میں ہوتاہے، تو مذکورہ پانیوں میں تخصیص نہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۲)

(۲؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۶۶)

(۱؎ مجمع الانہر    تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبعہ عامرہ مصر    ۱/ ۲۷)


دوم مطلق وہ کہ اپنی تعریف ذات میں دوسری شَے کا محتاج نہ ہو اور مقید وہ کہ جس کی ذات بے ذکر قید نہ پہچانی جائے۔ ذکرہ فی مجمع الانھرعلی جہۃ التمریض فقال ویقال المطلق مالایحتاج فی تعریف ذاتہ الی شیئ اٰخروالمقید مالایتعرف ذاتہ الابالید ۲؎ اھ اس کو مجمع الانہر میں ناپسندیدہ قول کے طور پر بیان کیا ہے فرمایااور کہاجاتاہے کہ مطلق وہ ہے جو اپنی ذات کی تعریف میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں ہوتا ہے اور مقید وہ ہے جس کی ذات قید کے بغیر نہیں جانی جاتی ہے اھ (ت)


 (۲؎ مجمع الانہر    تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبعہ عامرہ مصر    ۱/ ۲۷)


اقول: وھوبظاھرہ افسدمن الاول فان شیااماقط لایحتاج فی تعریف ذاتہ الٰی شیئ اٰخرو لکن المقصودانہ الباقی علی طبیعۃ الماء وصرافۃ المائیۃ لم یداخلہ مایخرجہ عن طبعہ اویجعلہ فی العرف مرکبامع غیرہ فیصیرذاتااخری غیر ذات الماء لایطلق علیہ محض اسم الماء ولاتعرف ذاتہ باطلاقہ واوضح منہ قول الغنیۃ ھومایسمی فی العرف ماء من غیر احتیاج الٰی تقیید فی تعریف ذاتہ ۳؎ اھ وھوماخوذ عن الامام حافظ الدین فی المستصفی کما سیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔


میں کہتا ہوں،یہ بظاہر پہلے سے بھی زیادہ غلط ہے کیونکہ کوئی چیز بھی اپنی ذات کی تعریف میں کسی دوسری چیز کی محتاج نہیں ہوتی ہے، لیکن مقصود یہ ہے کہ وہی پانی کی طبیعت پرباقی ہے،اور پانی کی طبیعت میں کوئی ایسی چیز داخل نہیں ہوئی جو اس کو اس کی طبیعت سے خارج کردے یا عرف میں اس کے غیر کے ساتھ مرکب کردے تو وہ پانی کے علاوہ دوسری چیز بن جائے جس پر محض پانی کے نام کا اطلاق نہ ہو،اور اس کے اطلاق سے اس کی ذات نہ پہچانی جائے اور اس سے زیادہ واضح غنیہ کی عبارت ہے کہ وہ،وہ ہے جو عرف میں پانی کہلاتا ہے،اس کی ذات کی تعریف میں کسی تقیید کی حاجت نہ ہو اھ یہ تعریف امام حافظ الدین نے مستصفیٰ میں کی ہے، جیسا آئیگا اِن شاء اللہ تعالٰی۔ (ت)


 (۳؎ غنیۃ المستملی احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۸۸)


سوم: مطلق وہ کہ اپنی پیدائشی اوصاف پر باقی ہو،خزانۃ المفتین میں شرح طحاوی سے ہے: ھو الباقی علی اوصاف خلقتہ ۱؎ اقول ان ارید(۱)بالاوصاف الاوصاف الثلثۃ خاصۃ اومع الرقۃ والسیلان انتقض بمنقوع الحمص والباقلا وماخلط بصابون واشنان ولو طبخ بھما اوبسدرمادام باقیاعلی رقتہ وکذاماالقی فیہ تمیرات فحلاولم یصر نبیذ التغیر اوصافھاکلا اوبعضامع جوازالوضوء بھااتفاقاوکذا(۲)بماخلط بمائع موافق فی الاوصاف اکثر منہ اومساویا مع امتناع الوضوء بہ وفاقا فانتقض طرادوعکساوان ارید الاعم اتسع الخرق فانتقض بنحو الحمیم ایضا۔ یہ وہ ہے جو اپنے پیدائشی اوصاف پر باقی ہے، میں کہتا ہوں اگر اوصاف سے محض اوصاف ثلثۃ مراد ہیں، یامع رقت وسیلان کے، تو اس پر چنوں اور باقلٰی کے پانی سے اعتراض ہے، اور اس پانی سے اعتراض ہے جس میں صابون اور اُشنان ملایا گیا ہو، اگرچہ ان دونوں کے ساتھ پکایا گیا ہو، یا جھربیری کے ساتھ پکایا گیا ہو جب تک اس میں رقّت باقی ہو،اور اسی طرح وہ پانی جس میں کھجوریں ڈالی گئی ہوں اور میٹھا ہوگیاہواور نبیذ نہ بناہو کیونکہ اس کے اوصاف میں کُلی یا جزوی تغیر پیدا ہوگیا ہے حالانکہ اس کے ساتھ وضو اتفاقاً جائز ہے اور اسی طرح وہ پانی جو کسی مائع (سیال) سے مل گیاہو جو پانی کے اکثر اوصاف میں اس کے مشابہ ہو یا مساوی ہو حالانکہ اس سے وضو اتفاقاً ناجائز ہے یہ طرداوعکساً منتقض ہوگیا، اور اگر عام کا ارادہ کیا ہو تو نقض وسیع ہوجائیگا تو گرم پانی کی مثل سے بھی نقض وارد ہوگا۔(ت)


 (۱؎ طحطاوی علی الدر المختار    باب المیاہ        بیروت   ۱ /۱۰۲)


چہارم مطلق وہ کہ اپنی رقت وسیلان پر باقی ہو شلبیہ علٰی الزیلعی میں ہے: الماء المطلق مابقی علی اصل خلقتہ من الرقۃ والسیلان فلو اختلط بہ طاھرا وجب غلظہ صار مقیدا ۲؎ اھ یحیی اھ


مطلق پانی جب تک ہے کہ اپنی اصل خلقت پر ہو، یعنی اس میں رقّت اور سیلان باقی ہو اور جب اس میں کوئی پاک چیز مل کر اس میں گاڑھا پن پیدا کردے تو وہ مقید ہوجائیگا اھ یحی اھ (ت)


(۲؎ شلبی علی التبیین    کتاب الطہارت    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/ ۱۹)


اقول: ھذا(۳) افسدوقد تضمن سابقہ الردعلیہ ویزیدھذاانتقاضابماخلط بکل مائع لایسلبہ رقتہ وان غیر اوصافہ کاللبن والخل والعصیر ونحو ذلک۔


میں کہتا ہوں یہ اور بھی زائد فاسد ہے،اور گزشتہ بحث میں اس پر رد ہوچکا ہے اور اس پر یوں بھی اعتراض وارد ہوتاہے اُس کے ساتھ کہ اس میں کوئی ایسی مائع شے شامل ہوجائے جو اس کی رقت کو ختم نہ کرے خواہ اُس کے دوسرے اوصاف میں تغیر پیدا کردے،جیسے دودھ، سرکہ، عرق وغیرہ۔(ت)


پنجم مطلق وہ جس کے لئے کوئی نیا نام نہ پیدا ہوا، ہدایہ میں فرمایا: قال الشافعی رحمہ اللّٰہ تعالٰی لایجوز التوضی بماء الزعفران واشباھہ مما لیس من جنس الارض لانہ ماء مقید الاتری انہ یقال ماء الزعفران بخلاف اجزاء الارض لان الماء لایخلو عنھا عادۃ ولناان اسم الماء باق علی الاطلاق الا تری انہ لم یتجدد لہ اسم علی حدۃ واضافتہ الی الزعفران کاضافتہ الی البئر والعین ۱؎ اھ


امام شافعی نے فرمایاوہ اشیاء جو زمین کی جنس سے نہیں ہیں جیسے زعفران کا پانی وغیرہ اُن سے وضو جائز نہیں، کیونکہ وہ مقید پانی ہے، اس لئے اس کو زعفران کا پانی کہتے ہیں، بخلاف زمینی اجزاء کے، کیونکہ عام طور پر کوئی پانی زمینی اجزاء سے خالی نہیں ہوتا ہے، اور ہماری دلیل یہ ہے کہ پانی کا نام علی الاطلاق باقی ہے اور اس کا کوئی نیا نام وضع نہیں ہوا ہے اور اس کی اضافت زعفران کی طرف ایسی ہی ہے جیسے پانی کی اضافت کنویں یا چشمے کی طرف ہوتی ہے اھ (ت)


 (۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوز بہ  مطبع عربیہ کراچی   ۱/۱۸)

اقول: ظاھرہ(۱)منتقض بالحمیم فقدحدث لہ اسم لم یکن فان قلت اسم الماء باق علیہ فالمراد ماتجدد لہ اسم مع انتفاء اسم الماء الاتری الٰی قولہ ان اسم الماء باق علی الاطلاق اقول اولا قولہ قدس سرہ لم یتجدد لہ مفصول عماقبلہ الا تری الی قولہ الا تری فقدجعلہ دلیلا علی بقاء الاسم لاان بقاء الاسم ماخوذ فیہ وثانیا بقاء الاسم علی الاطلاق کاف علی الاطلاق لایحتاج بعدہ الٰی عدم حدوث ولا یضرمعہ الف حدوث فضمہ الیہ یجعلہ لغوا۔ ھذااوردہ الفاضل عصام فی حاشیۃ بانہ منقوض بماء الباقلاء حیث لم یتجددلہ اسم ولم یبق ماء مطلقاثم قال والجواب ان المراد ھو الاستلزام الاکثری فان الغالب فی المقید تجدد الاسم کالخبز(عـہ۱)والمرقۃ والصبغ ونحو ذلک بخلاف المطلق وھذاالقدرکاف فی غرضنااذالاولی فی الفرد(عـہ۲)الذی یشتبہ حالہ ان یلحق بالاکثر الاغلب ۱؎ اھ وتعقبہ العلامۃ سعدی افندی بقولہ لک ان تمنع الاکثریۃ الاتری الٰی ماء الورد وماء الھندباء وماء الخلاف واشباھھا ۲؎ اھ


میں کہتا ہوں بظاہر اس پر گرم پانی کااعتراض وارد ہوتاہے کیونکہ اس پر ایک ایسانام بولاجارہاہے جو پہلے نہ تھا۔اگریہ کہا جائے کہ اس میں بھی پانی کا نام باقی ہے، تو مراد یہ ہے کہ جس کا نیا نام پڑ گیا ہو اور پانی کا نام ختم ہوگیا ہو، چنانچہ انہوں نے فرمایا ''پانی کا نام علی الاطلاق باقی ہے۔ میں کہتا ہوں اوّل تو ان کا قول ''لم یتجددلہ'' ماقبل سے منفصل اور الگ ہے چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے ''الاتری'' تو اس کو انہوں نے نام کے باقی رہنے پر دلیل بنایا ہے یہ نہیں کہ نام کا باقی رہنا اس میں ماخوذ ہے، ثانیا نام کا علی الاطلاق باقی رہنا اطلاق کے لئے کافی ہے اس کے بعد وہ عدم حدوث کا محتاج نہیں اور اس کے ہوتے ہوئے ہزار حدوث بھی مضر نہیں، تو اِس کا اُس کے ساتھ ملادینا اس کو لغو قرار دیگا۔ یہ عصام نے اپنے حاشیہ میں لکھا کہ اس پر باقلاء کے پانی سے اعتراض وارد ہوگا اس لئے کہ اس کا کوئی نام نیا نہیں پیدا ہوا اور مطلق پانی بھی نہ رہا پھر فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ مراد استلزام اکثری ہے، کیونکہ مقید میں عام طور پر نام نیا ہوجاتاہے،جیسے روٹی، شوربہ اور رنگ وغیرہ بخلاف مطلق کے،اتنی مقدار ہماری غرض میں کافی ہے،کیونکہ اولٰی اُس فردمیں جس کاحال مشتبہ ہویہ ہے کہ اس کواکثرواغلب سے لاحق کیا جائے اھ اس پر علامہ سعدی آفندی نے تعاقب کیا،اور فرمایا اس میں اکثریت کے وجود کاانکار کیا جاسکتا ہے،جیسے گلاب کا پانی، کاسنی کا پانی، اور بید کا پانی اور اسی طرح دوسری اشیا کا پانی اھ (ت)


 (عـہ۱) اقول من العجب عدالخبر من المیاہ المقیدۃ۔ (م)

میں کہتا ہوں بڑے تعجب کی بات ہے کہ روٹی کو مقید پانیوں میں شمار کیا ہے۔ (ت)

(عـہ۲) ای فیلحق ماء الزعفران بالماء المطلق وماء الباقلاء لتبین حالہ بالمقید وان لم یتجددلہ ایضا اسم اذلا تدع ان کل لامتجدد مطلق ۱۲ منہ غفرلہ۔

یعنی زعفران کے پانی کو مطلق پانی اور باقلٰی کے پانی سے ملحق کیاجائیگاتاکہ اس کاحال مقید سے جدا ہوجائے،اگرچہ اس کا بھی کوئی نیا نام نہیں پڑاہے کیونکہ ہمارایہ دعوٰی نہیں ہے کہ ہر وہ پانی جس کانیا نام نہ ہو وہ مطلق ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)؂


 (۱؎ حاشیۃ سعدی چلپی مع الفتح القدیر        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۳)

(۲؎  اشیۃ سعدی چلپی مع الفتح القدیر        نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۴)


اقول: السؤال والجواب والتعقب کل ذلک نداء من وراء حجاب اما(۱)التعقب فلان کثرۃ مایقال لہ ماء کذا لاتنفی اکثریۃ ماتجددت لہ الاسماء وھی معلومۃ قطعابلا امتراء واما الجواب فاولاحاصل(۲)الجدل ان الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ استدل علی کونہ ماء مقیدابانہ یقال لہ ماء الزعفران فاحتاج الی التقیید وکل مااحتاج الی التقیید مقید واجاب عنہ الشیخ قدس سرہ بمنع ومعارضۃ اماالمنع فقول واضافتہ الی الزعفران الخ ای لانسلم ان کل اضافۃ للاحتیاج بل ربما یکون لتعریف شیئ وراء الذات کماء البئر والعین واما المعارضۃ فقولہ ان اسم الماء باق الخ فاستدل علی الاطلاق ببقاء اسم الماء المطلق وعلی ببقائہ بانہ لم یتجدد لہ اسم فلا بدمن ضم الکلیۃ القائلۃ ان کل مالم یتجدد لہ اسم فاسم المطلق باق علیہ فنقض المعترض الکلیۃ بماء الباقلاء ونحوہ ولایمسہ الجواب بالاکثریۃ لانتفاء التعدیدوثانیا (۱)اللازم من قولہ الغالب فی المقید تجدد الاسم اکثریۃ الاستلزام للتجدد من جھۃ التقیدای اکثرالمقیدات متجددات والنافع لہ(عـہ)اکثریۃ الاستلزام للاطلاق من جھۃ عدم التجددای اکثر مالم یتجددلہ اسم فھو مطلق لیلحق ھذا الذی لم یتجددلہ اسم بالاکثرالاغلب لکن لایلزم ھذامن ذلک بل یمکن ان یکون اکثر ماتقید تجددولایکون اکثر مالم یتجدد لم یتقید فان القضیۃ الاکثریۃ لایجب ان تنعکس بعکس النقیض کنفسھالجوازان تکون افراد مالم یتجددلہ اسم اقل بکثیر من افراد المقید ویکون اکثرھاداخلا فی المقید فیکون اکثرافرادالمقید متجدداواکثر افراد اللامتجددمقیدامثلا یکون المقید من المیاہ الفاًقدتجددالاسم لثمانمائۃ منھادون مائتین ومالم یتجدد لہ الاسم من المیاہ سواء کان مطلقااومقیداثلثمائۃ مائۃ منھامن الماء المطلق والباقی من المقید فیصدق ان اکثر المقید متجدد ولایصدق ان اکثر اللامتجدد لامقید بل اکثرہ مقید کماعلمت۔


میں کہتا ہوں سوال وجواب اور تعقب یہ سب پردے کو پیچھے پکارنا ہے، تعقب تو اس لئے کہ جن اشیاء کو کہا جاتا ہے کہ ''فلاں چیز کا پانی'' ان کی کثرت، اُن اشیاء کے اکثر ہونے کے منافی نہیں جن کے نام نئے پڑ گئے ہوں اور یہ بلاشبہ معلوم ہیں، اور جواب کی بابت اول تو یہ ہے کہ جھگڑے کا حاصل یہ ہے کہ امام شافعی نے اس کے مقید پانی ہونے پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ اس کو زعفران کا پانی کہاجاتا ہے تو اس میں قید کی ضرورت ہوئی اور ہر وہ چیز جس میں قید کی ضرورت ہو مقید ہوتی ہے تو اس کا جواب شیخ قد س سرہ، نے منع اور معارضہ کے ساتھ دیا ہے۔ منع تو اس اعتبار سے، پس ان کا قول واضافتہ الی الزعفران الخ یعنی ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہر اضافت احتیاج کیلئے ہے، بلکہ اضافت کبھی کسی شے کی تعریف کیلئے ہوتی ہے، ذات کے علاوہ جیسے کنویں کا پانی چشمے کا پانی، باقی رہا معارضہ تو ان کا قول ان اسم الماء باق الخ تو انہوں نے اطلاق پر مطلع پانی کے نام کے باقی ہونے سے استدلال کیا ہے اور اس کے باقی رہنے پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ اس کا کوئی نیا نام نہیں پڑا ہے، تو اس میں یہ قاعدہ کلیہ ملانے کی ضرورت ہے کہ مُردہ پانی جس کا نیا نام نہ پڑا ہو تو مطلق کا نام اس پر باقی ہے تو معترضٍ نے اس کلیہ پر نقض وارد کیا ہے باقلی وغیرہ کے پانی سے، اور اکثریت والے جواب کا اس سے تعلق نہیں ہے کیونکہ اس میں ''تعدیہ'' نہیں پایا جاتا ہے، اور ثانیا، لازم ان کے قول ''مقید میں غالب نام کا تجدد ہے'' سے تجدد من جھۃ التقیید کے استلزام کی اکثریت ہے، یعنی اکثر مقیدات، متجدد ہیں حالانکہ ان کے حق میں نفع بخش اطلاق من جہۃ عدم التجدد کے استلزام کی اکثریت ہے، یعنی اکثر وہ کہ جن کا کوئی نیا نام نہیں پڑا ہے تو وہ مطلق ہے تاکہ یہ جس کا نام نیا نہیں ہے اس کو اکثر واغلب سے لاحق کیا جاسکے، لیکن یہ اُس سے لازم نہیں آتا ہے، بلکہ ممکن ہے کہ جو چیزیں مقید ہیں ان میں سے اکثر کا نیا نام ہوگیا ہو اور اکثر وہ چیزیں جن کا نیا نام نہ ہو متقید نہ ہوئی ہوں، کیونکہ جو قضیہ اکثر یہ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ اس کا عکس نقیض اس کے مساوی ہو، اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ جن کا نام نیا نہیں ہے ان کے افراد مقید کے افراد سے بہت ہی کم ہوں اور ان کے اکثر مقید میں داخل ہوں تو مقید کے اکثر افراد نئے نام والے ہوجائیں گے اور لامتجدد کے اکثر افراد مقید ہوجائیں گے، مثلاً وہ مقید پانی جس کے لئے ہزار نام ہو، ان میں سے آٹھ سو افراد کا نام بدل گیا ہو، دو سو کا نہ بدلا ہو، اور جن پانیوں کا نام نہ بدلا ہو خواہ وہ مطلق ہوں یا مقید تین سو ہوں، سو ان میں سے مطلق پانی کے اور باقی دو سو مقید پانی کے ہوں تو اب یہ قضیہ تو صادق ہے کہ اکثر مقید متجدد ہے اور یہ صادق نہیں کہ اکثر لامتجدد لامقید ہے،بلکہ اس کا اکثر مقید ہے، جیسا کہ آپ نے جانا۔ (ت)


(عـہ)ای فی توجیہ کلام الامام المصنف قدس سرہ لجعل ماء الزعفران من المیاہ المطلقۃ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

یعنی مصنف کے کلام کی توجیہ میں، زعفران کے پانی کو مطلق پانیوں میں شمار کرنے کیلئے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


فان قلت بل نقررھکذا لوکان ھذا مقید التجددلہ اسم بالنظر الی الغالب لکن لم یتجدد لہ اسم فلیس بمقید ظناوالظن یکفی لانہ مشتبہ الحال فیحال علی الغالب والغالب فی المقید التجدد فانتفاء اللازم الاکثری یدل علی انتفاء الملزوم ظناکماان انتفاء اللازم الکلی یدل علی انتفاء الملزوم قطعا وحاصلہ التمسک بغلبۃ التجدد فی المقید من دون حاجۃ الٰی غلبۃ الاطلاق فی اللامتجدد۔


اگر کہا جائے کہ ہم اس کی تقریر اس طرح کرتے ہیں کہ اگر یہ مقید ہوتا تو اس کا کوئی نیا نام ہوتا، غالباً ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس کا نیا نام نہیں ہوا اس لئے وہ ظنی اعتبار سے مقید نہیں اور اس میں ظن کافی ہے کیونکہ اس کا حال مشتبہ ہے تو اس کا دارومدار غالب پر رکھا جائے گا اور غالب مقید میں تجدد ہے، تو لازم اکثری کا انتفاء ملزوم کے انتفاء پر ظنی طور پر دلالت کرتا ہے، جیسا کہ لازم کلی کا انتفاء ملزوم کے انتفاء پر قطعاً دلالت کرتا ہے، اور اس کا حاصل مقید میں غلبہ تجدد سے استدلال ہے، اور لامتجدد میں غلبہ اطلاق کی حاجت نہیں ہے۔ (ت)

اقول: انما یظن ماھو اکثر والاکثریۃ فی استلزام وجود ا لوجودب لاتستلزم اکثریۃ استلزام انتفاء ب لانتفاء ا ففی مثلہ انما یظن بوجوداللازم عند تحقق الملزوم لابانتفاء الملزوم عند انتفاء اللازم۔


میں کہتا ہوں جو اکثر ہو اسی کا ظن ہوتا ہے ا کے وجود کی اکثریت کا ب کے وجود کی اکثریت کو مستلزم ہونا ا کے انتفاء کی وجہ سے ب کے انتفاء کے استلزام کی اکثریت کو مستلزم نہیں ہے تو اس جیسی صورت میں ملزوم کے وجود کے تحقق کے وقت لازم کے وجود کا ظن ہوتا ہے نہ کہ انتفاء ملزوم بوقت انتفاء لازم کے۔(ت)


وثالثا ماالفارق(۱)بین ماء الباقلاء وماء الزعفران حتی کان ھذامشتبھا فالحق بالغالب وذاک متعینافلم یلحق واما السؤال(عـہ) فلان ماء الباقلاء اسم جدیدغیر اسم الماء وکون اسم الماء جزء منہ لاینافی الجدۃ الاتری انہ لایصلح ان یقال لہ ماء لکونہ ثخیناوالماء رقیق بخلاف ماء الزعفران فان المرادبہ مالم یثخن وھذابالوفاق بل مالم یصلح للصبغ وھذاعندالتحقیق کما تقدم فی ۱۲۰ھذا ماظھرلی ثم رأیت المحقق ابن امیر الحاج اشارالیہ فی الحلیۃ اذ قال ذات ماء الورد مثلا لاتعرف من مجرد قول القائل ماء حتی یضیفہ الی الورد ولھذا کانت الاضافۃ لازمۃ لکونھااضافۃ الی مالا بدمنہ وبواسطۃ ھذا اللزوم حدث لہ اسم آخرعلٰحدۃ فلا تسوغ تسمیتہ ماء علی الاطلاق الا علی سبیل المجاز اھ واللّٰہ الموفق لارب سواہ۔


ثالثا، یا فرق ہے باقلٰی کے پانی اور زعفران کے پانی میں، کہ اس کو مشتبہ قرار دیا جائے،اور غالب سے لاحق کیا جائے اور وہ متعین ہے تو لاحق نہ کیا جائے گا باقی رہا سوال تو باقلاء کا پانی نیا نام ہے، پانی کے نام کا غیر ہے اور پانی کا اس کے نام کا جُزئ ہونا جِدّت کے منافی نہیں،اس لئے اس کو پانی نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ گاڑھا ہے اور پانی پتلا ہوتا ہے بخلاف زعفران کے پانی کے، کیونکہ اس سے مراد وہ ہے جو گاڑھا نہ ہوا ہو،اور یہ اتفاقاً ہے، بلکہ جب تک رنگنے کے لائق نہ ہو، اور یہ تحقیق کی بنا پر ہے جیسا کہ پانی کی تقسیم ۱۲۰ میں گزرا یہ مجھ پر ظاہر ہوا پھر میں نے محقق ابن امیر الحاج کو دیکھا کہ انہوں نے اس کی طرف حلیہ میں اشارہ فرمایا، وہ فرماتے ہیں گلاب کے پانی کی ذات مثلاً کسی قائل کے صرف اس قول سے معلوم نہیں ہوتی ہے کہ ''پانی'' جب تک کہ وہ اسے گلاب کی طرف مضاف نہ کرے، اس لئے اضافت لازم ہوئی کیونکہ یہ ایسی چیز کی طرف اضافت ہے جس کی طرف اضافت ضروری ہے اور اس لزوم کے واسطہ سے اس کا الگ نام پڑگیا، تو اس کو مطلقاً پانی کہنا درست نہ ہوگا، ہاں مجازاً کہا جاسکتا ہے ا ھ واللہ الموفق (ت)


 (عـہ)ثم رأیت اجاب عنہ فی البنایۃ بان المضاف ھھناخارج من المضاف الیہ بالعلاج فلایجوز وان لم یتجدد لہ اسم اھ 

پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے بنایہ میں اس کا جواب دیا کہ یہاں مضاف، مضاف الیہ سے خارج ہے علاج کی وجہ سے تو جائز نہیں اگرچہ اس کا نیا نام نہ ہو اھ


اقول: تسلیمہ(۲)عدم تجدد الاسم قدعرفت مافیہ وماقالہ مبنی علی ماذکرہ فی تعریف اضافۃ التقیید وسیاتی(۳) مافیہ، بعونہ تعالی وعلٰی کل فقد سلم ان التعریف بتجدد الاسم غیر جامع ثم قال وقال تاج الشریعۃ الدلیل یقتضی الجواز ولکن الطبخ والخلط یثبتان نقصانا فی کونہ مائعا اھ۔


میں کہتا ہوں نام کے نیا نہ ہونے کا تسلیم کرنا، اس پر جو اعتراض ہے وہ آپ نے جان لیا، اور جو انہوں نے کہا ہے وہ اس چیز پر مبنی ہے جس کو انہوں نے اضافت تقیید کی تعریف میں ذکر کیا ہے،اور یہ عنقریب آئے گا اور بہرحال یہ تعریف کہ نام نیا ہوجائے جامع نہیں اس کو انہوں نے تسلیم کیا ہے پھر کہا کہ تاج الشریعۃ نے فرمایا دلیل جواز کا تقاضا کرتی ہیلیکن پکانا اور مل جانا پانی کے مائع ہونے میں خلل پیدا کرتے ہیں اھ


اقول: ھذا یوافق ماذکر الحقیر حیث اشار الی ان المنع لاجل الثخن ۱۲ منہ غفرلہ (م)


میں کہتا ہوں یہ اس کے مطابق ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ منع گاڑھے ہونے کی وجہ سے ہے ۱۲ منہ غفرلہ(ت)


ثم اقول: ان تحقق(عـہ۱)ان من(۱)المیاہ المقیدۃ مالا یتجددلہ اسم فی العرف لعدم تعلق الغرض بہ مثلا انمایزول عنہ اسم الماء المطلق کان ذلک نقضا علی المنع کما کان الحمیم نقضاعلی الجمع ویکون(۱) ھذااظھر(عـہ)وروداعلی الفتح اذقال فیہ فی بیان التقیید ھوبان یحدث لہ اسم علیحدۃ ولزوم التقیید یندرج فیہ وانما یکون ذلک اذا کان الماء مغلوبااذفی اطلاقہ علی المجموع حینئذ اعتبارالغالب عدماوھوعکس الثابت لغۃ وعرفا وشرعا اھ۔


پھر میں کہتا ہوں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بعض مقیدپانی ایسے ہیں جن کیلئے کوئی نیا نام عرف میں مقرر نہیں ہوا ہے،کیونکہ اس سے کوئی غرض متعلق نہیں، مثال کے طور پر،اس سے مطلق پانی کا نام زائل ہوگا تو یہ نقض ہوگا منع پر،جیسا کہ حمیم نقض ہوگا جمع پر اور یہ فتح پر ورود زیادہ ظاہر ہوگا کیونکہ انہوں نے بیانِ تقیید میں فرمایا، تقیید یہ ہے کہ اس کا نیانام پڑ جائے،اور لزوم تقیید اسی میں شامل ہے،اور یہ اس وقت ہوگاجبکہ پانی مغلوب ہو کیونکہ اس کے مجموعہ پر اطلاق ہونے میں اس وقت غالب کا اعتبار ہوگا عدمی طور پر اور یہ لغت سے ثابت شدہ کا اور عرف وشرع سے ثابت شدہ کا برعکس ہے اھ۔ (ت)


 (عـہ۱) قالہ لانہ یتصور علی قول محمد اما علی قول ابی یوسف الصحیح علی مایاتی من العبد الضعیف تحقیقہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی بعد تمام سردالتعریفات فلا یتقید الا اذا صلح المقصود اٰخر فح یسمی باسم مایقصد بہ ذلک المقصود تأمل ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

یہ بات انہوں نے اس لئے کہی ہے کہ یہ محمد کے قول پر متصور ہے لیکن ابو یوسف کے قول پر، جیسا کہ ہم تحقیق سے پیش کرینگے، تو یہ مقید نہ ہوگا مگر جبکہ مقصود آخر کیلئے صالح ہو، تو اس وقت اس کا نام وہی ہوگا جو اُس کا مقصود ہے، غور کرو ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

(عـہ)فان حصر التقیید فی حدوث الاسم فی الفتح منطوق وعن الھدایۃ مفھوم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

فتح میں تقیید کا نام کے نئے ہونے میں منحصر ہونا منطوق ہے، اور ہدایہ سے مفہوم ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


اقول انما(۲)الثابت بہ انہ کلما تجدد الاسم کان الماء مغلوبا اما فی جھت العکس فانما ثبت انہ کلما کان الماء مغلوبا لم یصح اطلاق الماء المطلق علیہ لا انہ یحدث لہ اسم برأسہ ولابد فحصر التقیید فی حدوث الاسم محل نظر واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی اس کا نیا نام ہوگا تو پانی مغلوب ہوگا، اور اس کے عکس میں یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ جب بھی پانی مغلوب ہوگا تو اس پر مطلق پانی کا اطلاق صحیح نہ ہوگا یہ نہیں کہ اُس کے لئے کوئی نیا نام وضع کرلیا جائے گا، اور یہ ضروری ہے، تو تقیید کو نئے نام پڑ جانے میں منحصر کردینا محلِ نظر ہے واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

ششم مطلق(عـہ۱)وہ ہے جسے دیکھنے والا دیکھ کر پانی کہے خزانۃ المفتین میں شرح طحاوی سے ہے:

المطلق مااذانظرالناظر الیہ سماہ ماء علی الاطلاق ۱؎ اھ اقول رب(۱)ماء لایدرک البصر تقییدہ ولااطلاقہ کالمخلوط بمائع موافق فی اللون یتوقف الامر فیہ علی غلبۃ الطعم اوالاجزاء وماالقی(۲)فیہ تمراوزبیب یتوقف علی صیرورتہ نبیذ اولا یضر مجرد اللون وما خلط بعصفراوزعفران یتوقف علی صلوحہ للصبغ وشیئ من ذلک لایدرک بالبصر فلایصح جمعاولامنعا۔


مطلق وہ ہے کہ جب دیکھنے والا اس کو دیکھے تو اس کو مطلق پانی کا نام دے اھ میں کہتا ہوں بہت سے پانی ایسے ہیں کہ نگاہ سے نہ تو ان کا مقید ہونا معلوم ہوتا ہے اور نہ مطلق ہونا جیسے وہ پانی جو کسی سیال میں مخلوط ہو اور دونوں ہم رنگ ہوں، اس میں دارومدار مزے اور اجزاء کے غلبہ پر ہوگا، اور جس میں کھجور اور منقٰی ڈالا جائے اس میں دارومدار اسی کے نبیذ ہونے پر ہوگا، محض رنگ مضر نہیں، اور جو عُصفر اور زعفران میں ملایا جائے تو اس میں یہ دیکھا جائیگا کہ آیا اس سے کوئی دوسری چیز رنگی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ان میں سے کوئی چیز آنکھ سے معلوم نہیں ہوسکتی، تو یہ جمع ومنع کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (ت)


(عـہ۱)ویشیر الیہ قول البنایۃ فی ماتغیربالطبخ لان الناظر لونطر الیہ لایسمیہ ماء مطلقا اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

بنایہ کا قول اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے بارہ میں جو پکانے سے متغیر ہوجائے کیونکہ اگر دیکھنے والا اس کی طرف دیکھے تو اسے مطلق پانی نہیں کہے گا اھ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ خزانۃ المفتین)


ہفتم مطلق وہ ہے جسے بے کسی قید کے بڑھائے پانی کہہ سکیں فتح القدیر میں ہے: الخلاف فی ماء خالطہ زعفران ونحوہ مبنی علی انہ تقیید بذلک اولا فقال الشافعی وغیرہ تقید لانہ یقال ماء الزعفران ونحن لاننکرانہ یقال ذلک ولکن لایمتنع مع ذلک مادام المخالط مغلوبا ان یقول القائل فیہ ھذا ماء من غیر زیادۃ ۲؎ اھ۔


جس پانی میں زعفران یا اسی کے مثل کوئی چیز مل جائے اس میں اختلاف اس امر پر مبنی ہے کہ وہ اس کے ساتھ مقید ہوا یا نہیں، امام شافعی وغیرہ فرماتے ہیں مقید ہوگیا، کیونکہ اس کو زعفران کا پانی کہا جاتا ہے اور ہم اس کے منکر نہیں کہ اس کو ماء زعفران کہا جاتا ہے، لیکن جب تک مخلوط پانی ہونے والی چیز پانی سے مغلوب ہو یہی کہا جائیگا کہ یہ پانی ہے، اس میں کچھ اضافہ نہیں اھ (ت)


 (۲؎ فتح القدیر     باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوز بہ    مطبع نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۳)


اقول لاشک ان الماء المقید قسم من الماء وحمل المقسم علی القسم لایمتنع ابدا واین عدم التقیید من التقیید بعدم التقیید والکلام فی ھذالا ذاک والجواب انہ ماء لغۃ لاعرفالصحۃ النفی تقول لیس ماء بل صبغ والکلام فی العرف۔


میں کہتا ہوں مقید پانی، پانی ہی کی ایک قسم ہے اور مقسم کو قسم پر حمل کرنا ہرگز ممنوع نہیں اور عدم تقیید کو تقیید بعدم التقیید سے کیا نسبت؟ اور گفتگو اس میں ہے نہ کہ اُس میں۔ اور جواب یہ ہے کہ وہ لغہً پانی ہے نہ کہ عرفاً، کیونکہ نفی صحیح ہے، آپ کہہ سکتے ہیں یہ پانی نہیں ہے بلکہ رنگ ہے اور کلام کا دارومدار عرف پر ہوتا ہے۔ (ت)


ہشتم مطلق وہ ہے جس سے پانی کی نفی نہ ہوسکے یعنی نہ کہہ سکیں کہ یہ پانی نہیں۔ اقول وھذا معنی سابقہ غیران صحۃ الاطلاق وامتناع النفی قدیتفارقان فیما کان ذاجہتین یصح فیہ الحمل من وجہ والسلب من وجہ اٰخر۔


میں کہتا ہوں یہ گزشتہ معنی ہیں،البتہ صحتِ اطلاق اور امتناع نفی، جب دو جہت والے ہوں تو کبھی ایک دوسرے سے جُدا ہوتے ہیں من وجہ حمل اور من وجہ سلب صحیح ہوتا ہے۔ (ت)


تبیین الحقائق میں ہے: اضافۃ الی الزعفران للتعریف بخلاف ماء البطیخ ولھذاینفی اسم الماء عنہ ولایجوزنفیہ عن الاول ۱؎ اھ


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    مطبع الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۱)


پانی کی اضافت زعفران کی طرف تعریف کیلئے ہے بخلاف ''ماء البطیخ''کے اس لئے اس سے پانی کے نام کی نفی کی جاتی ہے اور پہلے سے اس کی نفی جائز نہیں ہے اھ۔(ت)


اقول: ان ارید نفی الماء المطلق داراومطلق الماء فلایجوز نفی المقسم عن القسم قط والماء الذی یخرج من البطیخ لیس من جنس الماء فالحق انہ لیس ماء مقیدابل خارج من مطلقہ کالادھان والجواب الجواب۔


میں کہتا ہوں اگر ماءِ مطلق کی نفی کا ارادہ کیا جائے تو دور لازم آئے گا یا مطلقِ ماء کی نفی کی جائے تو مقسم کی نفی قسم سے قطعاً جائز نہیں اور وہ پانی جو بطیخ سے نکلتا ہے جنس ماء سے نہیں ہے تو حق یہ ہے کہ وہ مقید پانی نہیں ہے بلکہ مطلقِ ماء سے خارج ہے جیسے تیل والجواب الجواب۔ (ت)

نہم: مطلق وہ جس سے پانی کا نام زائل نہ ہو،


وھو معنی سابقہ واشیرالیہ فی کثیر من الکتب ففی التبیین زوال اسم الماء عنہ ھو المعتبر فی الباب ۱؎ اھ وفی الھدایۃ والکافی الا ان یغلب ذلک علی الماء فیصیر کالسویق لزوال اسم الماء عنہ ۲؎ اھ افی المنیۃ عن شرح القدوری للاقطع اذا اختلط الطاھر بالماء ولم یزل اسم الماء عنہ فھو طاھر وطھور ۳؎ اھ۔


یہ اس کے سابقہ معنے ہیں، اس کی طرف بہت سی کتب میں اشارہ کیا گیا ہے،تبیین میں ہے اس سے پانی کے نام کا زائل ہونا ہی معتبر ہے اھ اور ہدایہ اور کافی میں ہے مگر یہ کہ وہ پانی پر غالب ہو تو ستّو کی طرح ہوجائے،کیونکہ اس سے پانی کا نام زائل ہوگیا اھ اور منیہ میں ابو نصرا قطع کی شرح قدوری سے ہے کہ جب پاک چیز پانی میں مل جائے اور اس سے پانی کا نام زائل نہ ہو تو وہ طاہر بھی ہے طہور بھی ہے اھ (ت)


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت    مطبعۃ الامیریہ مصر   ۱/۱۹)

(۲؎ ہدایۃ        الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ    مطبعہ عربیہ کراچی    ۱/۱۸)

(۳؎ منیۃ المصلی    فی المیاہ        مطبعہ یوسفی لکھنؤ    ص۶۴)


اقول ھذا حق فی نفسہ لکن لایصلح تعریفا اذلو ارید بالماء الماء المطلق دارو الافلا زوال عن المقید ایضا اصلا کما علمت مع جوابہ وفسرہ فی الغنیۃ مرۃ بالسادس اذقال تحت قول الماتن اذالم یزل عنہ اسم الماء مانصہ بحیث لوراٰہ الرائی یطلق علیہ اسم الماء ۴؎ اھ


میں کہتا ہوں یہ فی نفسہ حق ہے لیکن یہ تعریف نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اگر پانی سے مطلق پانی کا ارادہ کیا جائے تو دور لازم آئے گا ورنہ مقید سے بھی زوال نہ ہوگا جیسا کہ آپ نے مع جواب کے جانا،اور اس کی تفسیر غنیہ میں ایک جگہ ''چھٹے'' سے کی کیونکہ انہوں نے ماتن کے قول کہ جب اس سے پانی کا نام زائل نہ ہوا،کے تحت فرمایا کہ اگر دیکھنے والا اس کو دیکھے تو اس پر پانی کا نام بولے اھ (ت)


 (۴؎ غنیۃ المستملی             فی المیاہ  سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


اقول: وقد(۱)علمت فسادہ ومرۃ زاد فیہ الخامس اذقال تحت قول الاقطع ولم یتجددلہ اسم اٰخربان سمی شرابااونبیذا اونحو ذلک ۱؎ اھ اقول ان عطفہ(۱) تفسیرافموقوف علی ثبوت ان کل مازال عنہ اسم الماء وجب ان یوضع بازائہ اسم اٰخر اوان اراد الزیادۃ کان المعنی ان الاطلاق یتوقف علی اجتماع العدمین فان وجد احدھماکأن زال عنہ اسم الماء ولم یتجدد اسم اٰخر اوتجدد اسم اٰخر ولم یزل اسم الماء کان مقیدا وھذا الثانی باطل کما فی الحمیم۔


میں کہتا ہوں اس   کا فساد آپ کو معلوم ہوچکا ہے اور کبھی اس میں پانچویں کو زیادہ کیا کیونکہ انہوں نے اقطع کے قول کے تحت فرمایا اس کا کوئی نیا نام نہیں پڑا مثلاً یہ کہ شربت یا نبیذ وغیرہ کہا جائے اھ میں کہتا ہوں اس کا عطف تفسیری ہے اور اس امر پر موقوف ہے کہ ہر وہ چیز جس سے پانی کا نام زائل ہوا ہو لازم ہے کہ اُس کے بالمقابل کوئی اور نام وضع کیا جائے اور اگر زیادتی کا ارادہ کیا تو معنٰی یہ ہوں گے کہ اطلاق موقوف ہے دو عدموں کے اجتماع پر تو اگر ان میں سے کوئی ایک پا یا جائے مثلاً یہ کہ اس سے پانی کا نام زائل ہوجائے اور اس کا کوئی نیا نام نہ پڑے یا نیا نام پڑ جائے مگر پانی کا نام زائل نہ ہو تو مقید ہوجائیگا اور یہ دوسری شق باطل ہے جیسا کہ گرم پانی میں۔(ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی        فی المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰    )

دھم: مطلق وہ ہے کہ پانی کا نام لینے سے جس کی طرف ذہن سبقت کرے بشرطیکہ اُس کا کوئی اور نام نہ پیدا ہوا ہو اور جس کی طرف لفظ آب سے ذہن سبقت نہ کرے یا اس کا کوئی نیا نام ہو وہ مقید ہے حلیہ میں ہے: الماء المطلق فیہ عبارات من احسنھا مایتسارع افھام الناس الیہ عند اطلاق الماء مالم یحدث لہ اسم علی حدۃ والماء المقید مالاتتسارع الیہ افھام الناس من اطلاق لفظ الماء اوما حدث لہ اسم علیحدۃ ۲؎ اھ مطلق پانی کے متعلق کئی عبارتیں ہیں، سب سے عمدہ یہ ہے کہ مطلق پانی وہ ہے کہ جب صرف پانی کہا جائے تو ذہن اُس کی طرف منتقل ہوجائیں،جب تک کہ اس کیلئے کوئی نیا نام نہ پڑے اور مقید پانی وہ ہے کہ جب صرف پانی کا لفظ بولا جائے تو ذہن اس کی طرف نہ جائے یا وہ کہ جس کا کوئی نیا نام ہو اھ (ت)


(۲؎ حلیۃ)


اقول: اولا ھذا اصلح من سابقہ فی العکس فانہ لاینتقض منعاوان وجد مقید لم یحدث لہ اسم واقبل(۱)ایرادا منہ فی الطرد فانہ صرح بان تسارع الافھام الیہ لایجدی عنہ حدوث اسم اٰخر وثانیامع(۱)قطع النظر عنہ لاشک ان ھذا الشرط ضائع لامحل لہ اصلا فان حدوث الاسم الذی یکون فی المقید لاامکان لاجتماعہ مع تسارع الافھام الیہ عند الاطلاق۔


میں کہتا ہوں اوّلاً مانعیت کے اعتبار سے یہ تعریف پہلی سے بہتر ہے کیونکہ اس پر ایسے مقید پانی کا اعتراض نہ ہوگا جس کو ابھی نیا نام نہیں دیاگیااور جامعیت کے اعتبار سے یہ پہلی سے زیادہ قابل اعتراض ہے اگر اس کا نیا نام پڑ جائے تو ذہنوں کا اس کی طرف سبقت رکھنا کچھ مفید نہ ہوگا، اور ثانیا اس سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ شرط فضول اور بے محل ہے کیونکہ اس نام کاپیدا ہونا جو مقید میں ہے اُس کا، اُس کے ساتھ مجتمع ہونے کا کوئی امکان نہیں، حالانکہ اذہان اُس کی طرف عندالاطلاق سبقت کرتے ہیں۔ (ت)

یازدھم مطلق وہ ہے جس کی طرف نامِ آب سے ذہن سبقت کرے اور اس میں نہ کوئی نجاست ہو اور نہ اور کوئی بات مانع جواز نماز یہ قیدیں بحر میں اضافہ کیں تاکہ آبِ نجس ومستعمل کو خارج کردیں۔


اقول ولواکتفی بالاٰخر لکفی ونصہ المطلق مایسبق الی الافھام بمطلق قولنا ماء ولم یقم بہ خبث ولامعنی یمنع جواز الصلاۃ قال فخرج الماء المقید والمتنجس والمستعمل ۱؎ اھ


میں کہتا ہو ں اگر وہ آخر پر اکتفا کرتے تو کافی ہوتا اور اُس کی عبارت یہ ہے کہ مطلق وہ ہے جس کی طرف اذہان مطلق ماء کے بولنے سے منتقل ہوجاتے ہیں، اور یہ وہ پانی ہے جس میں کوئی ناپاکی نہ ہو اور نہ ایسا کوئی وصف ہو جو جواز صلوٰۃ کے منافی ہو تو اس قید سے مقید، متنجس اور مستعمل پانی خارج ہوگیا اھ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق    کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۶)


اقول: ھل(۱) المستعمل واخوہ داخلان فیما یسبق الیہ الذھن باطلاق الماء ام لاعلی الثانی ضاع القیدان وسقط تفریع خروجھماعلی زیادۃ القیدین وعلی الاول لاشک(۲) انھما من الماء المطلق اذلا نعنی بالمطلق الا ھذاوعلیہ اقتصر الائمۃ قبلہ بل ھو(۳) نفسہ فیمابعد ذلک بورقۃ اذقال لانعنی بالمطلق الا مایتبادر عند اطلاق اسم الماء ۲؎ 

اھ


میں کہتا ہوں کیا مستعمل اور اس کا مثل پانی اُس پانی میں داخل ہیں جن کی طرف لفظِ ماء بولتے ہی ذہن فوری طور پر منتقل ہوجاتا ہے یا نہیں، دوسری صورت میں دونوں قیدیں ضائع ہوجائیں گی، اور دو قیدوں کی زیادتی پر ان دونوں کے خروج کی تفریع ساقط ہوجائے گی، اور برتقدیر اول اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں مطلق پانی سے ہیں کیونکہ مطلق سے یہی مراد ہے اور اُن سے قبل ائمہ نے اسی پر اکتفا کیابلکہ انہوں نے خود ہی ایک ورق بعد فرمایا ہماری مراد مطلق سے وہ پانی ہے کہ جب پانی کا لفظ بولا جائے تو اسی کی طرف ذہن متبادر ہو اھ ۔


 (۲؎  بحرالرائق    کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۸)


وھذہ مناقضۃ بل(۱) فی نفس الکلام ایضا شوب منھااذیقول فخرج المقید والمتنجس والمستعمل ولذا قال ش ظاھرہ ان المتنجس والمستعمل غیر مقید مع(عـہ۱)انہ منہ لکن عند العالم بالنجاسۃ اوالاستعمال ولذا قید بعض العلماء التبادر بقولہ بالنسبۃ للعالم بحالہ ۱؎ اھ


اور یہ مناقضہ ہے بلکہ نفس کلام میں اس کی ملاوٹ ہے،وہ فرماتے ہیں تو مقید، متنجس اور مستعمل اس سے نکل گئے اور اس لئے ''ش'' نے فرمایا کہ اس کا ظاہر یہ ہے کہ متنجس اور مستعمل غیر مقید ہے حالانکہ یہ مقید سے ہے، مگر اس کے نزدیک جس کو نجاست یا استعمال کا علم ہو،اس لئے بعض علماء نے متبادر میں بالنسبۃ للعالم بحالہ کی قید بڑھائی ہے۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر   ۱ /۱۳۴)


(عـہ۱) ای المذکور اوکل منھما ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)یعنی مذکور یا ان دونوں میں سے ہر ایک ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)


اقول: رحمک(۲) اللّٰہ اذا کان ھذا عارضا خفیا لایظھر لمن لم یعلم بحالہ الا بالاخبار من خارج ظھران الماء فیھماباق علی صرافۃ مائیتہ لم یعرضہ مایخرجہ عنھاوالالظھر لمن نظر وسیرفان الانسان فی معرفۃ الماء من غیرہ لایحتاج الی تعلیم من خارج فکیف یکون مقیدا وبالجملۃ ھذا شیئ تفرد بہ البحر لم ارہ(عـہ۲) لغیرہ وتبعہ(عـہ۳) علیہ ش وکذا محشی الدرر عبدالحلیم والخادمی وذلک حین قول الدرر زوال اطلاقہ اما بکمال الامتزاج اوبغلبۃ الممتزج قالا علیہ اورد علی الحصر الماء المستعمل واجاب الاول بان کلام المصنف فی زوالہ باختلاط المحسوس ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں جب یہ چیز ایسی مخفی ہے کہ صرف واقف حال ہی جان سکتا ہے یا خارج سے اطلاع پر معمول ہوسکتی ہے تو یہ ظاہر ہوا کہ پانی اُن دونوں میں اپنے اطلاق پر باقی ہے اس کو کوئی ایسی چیز عارض نہ ہوئی جو اُس کو پانی ہونے سے خارج کردے ورنہ ہر صاحبِ نظر کو ظاہر ہوجاتا، کیونکہ پانی کے بارے میں جاننے کیلئے انسان کو باہر سے جاننے کی ضرورت نہیں، تو یہ کیسے مقید ہوگا؟ خلاصہ یہ کہ یہ ایسی چیز ہے جس میں بحر متفرد ہیں میں نے اور کسی کے کلام میں اس کو نہیں دیکھا اور انکی متابعت ش نے کی اسی طرح درر کے محشی عبدالحلیم اور خادمی نے کی، صاحبِ درر فرماتے ہیں اس کے اطلاق کا زوال یا تو کمالِ امتزاج سے ہوگا یا ممتزج کے غلبہ سے ہوگا، اس پر ان دونوں نے اعتراض کیا ہے کہ حصر اعتراض مستعمل پانی سے کیا گیا ہے، اور پہلے نے جواب دیا کہ مصنف کا کلام اُس کے زوال میں ہے کسی محسوس چیز کے اختلاط کی وجہ سے اھ (ت)


 (عـہ۲) ثم رأیت السید الشریف العلامۃ رحمہ اللّٰہ تعالی سبقہ الیہ فی التعریفات کما سیاتی ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

پھر میں نے دیکھا کہ سید شریف نے التعریفات میں بھی یہی لکھا ہے، جیسا کہ آئے گا، ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

(عـہ۳) وکذا تلمیذہ شیخ الاسلام الغزی فی المنح واقرہ علیہ ط فصار واسبعۃالسید والبحر والغزی وعبدالحلیم والخادمی و ط و ش رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیھم وعلینااجمعین قال علامۃ ط علی قول الدرھومایتبادرعندالاطلاق ای یبدر للذھن فھمہ بمجرد سماعہ مطلقاوھو بمعنی قول المنح ھو الباقی علی اوصاف خلقتہ ولم یخالطہ نجاسۃ ولم یغلب علیہ شیئ اھ ولفظ السید فی التعریفات ھو الماء الذی بقی علی اصل خلقتہ ولم تخالطہ نجاسۃ ولم یغلب علیہ شیئ طاھر اھ۔

اور اسی طرح اُن کے شاگرد شیخ الاسلام غَزّی نے منح میں ذکر کیا اور اس کو ط نے برقرار رکھا تو یہ سات ہوگئے، سید، بحر، غزی، عبدالحلیم، خادمی، ط اور ش رحمہم اللہ تعالٰی علیہم وعلینا اجمعین، علّامہ 'ط' نے در کے قول پر فرمایا،وہ عندالاطلاق متبادر ہوتا ہے،یعنی ذہن کی طرف فہم سبقت کرتا ہے محض سننے سے مطلقا،اور یہ منح کے قول ''وہی باقی ہے اپنے خلقی اوصاف پر اور اس میں کوئی نجاست نہیں ملی ہے اور اس پر کوئی شے غالب نہیں ہوئی ہے اھ کے مطابق ہے،اور سید کے لفظ التعریفات میں یہ ہیں یہ وہی پانی ہے جو اپنی اصلی خلقت پر باقی ہے اور اس کو کوئی نجاست نہیں ملی ہے اور اس پر کوئی پاک شے غالب نہیں ہوئی ہے اھ


اقول وھواحسن ممافی المنح بوجھین احدھما(۱)انہ قیدالشیئ بالطاھرفلم یصرقولہ لم تخالطہ نجاسۃ مستدرکابخلاف عبارۃ المنح فان ماخالطہ نجاسۃ فقدغلبہ شیئ والاٰخرانہ اتی(۲)بالاصل مکان الاوصاف فلا یردعلیہ الجمد(۳)بخلاف المنح فان الماء بانجمادہ لایتغیر اللون ولا طعم ولا رائحۃ وھی المتبادرۃ من ذکرالاوصاف والمعتبر فی التعریف ھو المتبادروظاھرانہ لم یخالطہ نجس ولا غلبہ شیئ الا ان یعمم الاوصاف الرقۃ والسیلان ولوان السیداسقط قولہ لم تخالطہ نجاسۃ لم یخالطہ نکارۃ وکان من احسن التعریفات الا مافی معنی الغلبۃ من الخفاء کما لایخفی ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)


میں کہتا ہوں یہ منح کی عبارت سے دو طرح اچھاہے ایک تو یہ کہ انہوں نے شیئ کو طاہر سے مقید کیا تو ان کا قول ''نہیں ملی اس سے نجاست'' زائد نہ ہوگابخلاف عبارت منح کے،کیونکہ جس میں نجاست ملی توبلاشبہ اس پر کوئی چیز غالب ہوگئی، اور دوسرے یہ کہ وہ اصل کو لائے بجائے اوصاف کے تو ان پر جمد کے ذریعہ اعتراض وارد نہ ہوگا بخلاف منح کے کہ پانی منجمد ہونے کے باعث نہ تو رنگ کو بدلتا ہے اور نہ مزے اور بو کو اور اوصاف کے ذکر سے متبادر یہی ہے اور تعریف میں متبادر ہی معتبر ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی نجس اس سے ملا نہیں اور کوئی شیئ اس پر غالب نہ ہُوئی، ہاں اگر اوصاف کو عام کر لیا جائے اور رقۃ وسیلان کو اس میں شامل کرلیا جائے،اور اگر سید اپنا قول لم تخالطہ نجاسۃ ساقط کردیتے توان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا،اور یہ بہترین تعریف ہوتی،ہاں صرف غلبہ کے معنی میں کچھ پوشیدگی ہے، کما لایخفی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ حاشیۃ الدرر علی الغرر لعبد الحلیم        بحث الماء    مکتبہ عثمانیہ بیروت   ۱/۱۸)

اقول: کیف(۱)وقد ذکرالمستقطرمن النبات والثانی بان المقسم الماء الطاھروالمستعمل کالنجس فلاغبار ۲؎ اھ۔ میں کہتا ہوں یہ کیسے،حالانکہ انہوں نے گھاس سے ٹپکائے جانے والے کا ذکر کیا ہے اور دوسرے کا جواب یہ ہے کہ مقسم پاک پانی ہے اور مستعمل نجس کی طرح ہے تو اس پر کوئی غبار نہیں اھ (ت)


 (۲؎ الحاشیۃ علی الدرر شرح الغرر لابی سعید الخادمی    بحث الما    مکتبہ عثمانیہ بیروت    ص۲۱)


اقول: قدعلمت(۲)ان کلام الائمۃ یؤذن بدخول المتنجس فی المطلق فضلا عن المستعمل وکذلک کلام اھل الضابطۃ قبل البحرحیث لم یزیلو الاطلاق الا بالامرین ثم رأیت فی کلام ملک العلماء مایدل علیہ صریحا اذقال قدس سرہ اما شرائط ارکان الوضوء فمنھا ان یکون الوضوء بالماء ومنھا انیکون بالماء المطلق ومنھا ان یکون الماء طاھرافلایجوز بالماء النجس ومنھا ان یکون طھورا فلایجوز بالماء المستعمل ۱؎ اھ ملتقطا فھو صریح فی ان اشتراط اطلاق الماء لم یخرجھما حتی احتیج الی شرطین اٰخرین وکذلک کلام المنیۃ اذیقول تجوزالطھارۃ بماء مطلق طاھر۲؎ اھ فافادعموم المطلق للطاھر وغیرہ واستدرک علیہ فی الحلیۃ بقولہ کان الاولی ان یقول طھورمکان طاھرلان الطھارۃ لاتجوز بماء طاھر فقط ۳؎ اھ فافاد عمومہ المستعمل وقد صرح بہ فی الغنیۃ فقال یسمی المتنجس ماء مطلقافاحتاج الی الاحترازعنہ بقولہ طاھرولوکانت المجاورۃ تکسبہ تقییدالماء احتیج بعد ذکر الاطلاق الٰی ذکر الطاھرا ۴؎ اھ والیہ اشار فی البنایۃ اذقال التوضی بہ جائز مادامت صفۃ الاطلاق باقیۃ ولم تخالطہ نجاسۃ ۵؎ اھ


میں کہتا ہوں کہ ائمہ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناپاک مطلق میں داخل ہے چہ جائیکہ مستعمل، اور اسی طرح اہلِ ضابطہ کا کلام بحر سے پہلے، کیونکہ ان کے نزدیک اطلاق زوال صرف دو امروں سے ہے پھر میں نے ملک العلماء کے کلام میں اس کی صراحت پائی، وہ فرماتے ہیں بہرحال ارکانِ شرائطِ وضو، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ وضو پانی سے ہو اور یہ کہ ماء مطلق سے ہو اور پانی پاک ہو تو نجس پانی سے جائز نہیں، ایک یہ کہ طہور ہو تو مستعمل پانی سے جائز نہیں اھ ملتقطا، تو یہ اس میں صراحت ہے کہ مطلق پانی کی شرط نے ان دونوں کو خارج نہیں کیا، تاکہ دو دوسری شرطوں کی حاجت پڑے، اوریہی گفتگو منیہ میں ہے وہ فرماتے ہیں ماءِ مطلق طاہر کے ساتھ طہارت جائز ہے اھ تو عموم مطلق نے طاہر اور غیر طاہر کا افادہ کیا اور حلیہ میں اس پر یہ استدراک کیا ہے، فرمایا بہتر یہ تھا کہ طہور کہتے بجائے طاہر کے، کیونکہ طہارت صرف طاہر پانی سے نہیں ہوتی ہے اھ تو انہوں نے اس کے مستعمل کو عام ہونے کا افادہ کیا اور غنیہ میں اس کی تصریح کی فرمایا ناپاک پانی کو مطلق پانی کہا جاتا ہے پھر ان کو اس سے احتراز کی حاجت ہوئی تو فرمایا طاہر ہو اور اگر مجاورۃ سے اس میں تقیید ہوجاتی تو اطلاق کے بعد طاہر کے ذکر کی ضرورت نہ ہوتی اھ اور بنایہ میں اسی طرف اشارہ کیا، فرمایا اس سے وضو جائز ہے جب تک اس میں صفت اطلاق باقی ہو اور اس میں نجاست نہ ملی ہو اھ۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    ارکان الوضوء        سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)

(۲؎ منیۃ المصلی    فصل فی المیاہ    مطبع یوسفی لکھنؤ    ص۶۱    )

(۳؎ حلیہ)

(۴؎ غنیۃ المستملی    فصل فی بیان احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۸۸)

(۵؎ بنایہ شرح ہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۸۷)


اقول: ولعل الحامل للبحرعلیہ قول بعضھم تجوزالطھ ارۃ بالماء المطلق ارسلہ ارسالا فلوشملھمااوھم جوازالطھارۃ بھماولیس بشیئ فان امثال القیود تطوی عادۃ للعلم بھا فی محلہ الاتری ان الاکثرین لم یقیدوابالاطلاق ایضاانماقالوا تجوز بماء السماء والاودیۃ الخ


میں کہتا ہوں غالباً بحر کو یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ بعض فقہأ نے فرمایا مطلق پانی سے طہارۃ جائز ہے،اس کو انہوں نے مطلق رکھا، تو اگر یہ ان دونوں کو شامل ہوتاتو ان دونوں سے طہارت کے جواز کا وہم ہوتا،اور یہ کچھ نہیں،کیونکہ قیود کی مثالیں عام طورپر ذکر نہیں کی جاتی ہیں کہ ان کا علم ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء نے اس کواطلاق کی قید سے بھی مقید نہیں کیا ہے پس فرمایا ہے طہارت جائز ہے آسمان کے پانی سے وادیوں کے پانی سے الخ۔(ت)


دوازدھم: حلیہ وبحر کی قیدوں سے آزاد مطلق صرف وہ ہے کہ پانی کا نام لینے سے جس کی طرف ذہن جاتا ہے ملک العلماء بدائع میں فرماتے ہیں: الماء المطلق ھو الذی تتسارع افہام الناس الیہ عند اطلاق اسم الماء کماء الانھار والعیون والاٰبار والسماء والغدران والحیاض والبحار۔ مطلق پانی وہ ہے کہ جب پانی کا نام لیا جائے تو ذہن اس کی طرف منتقل ہوجائیں، جیسے نہروں، چشموں، کنوؤں، بادلوں، تالابوں، حوضوں اور دریاؤں کا پانی۔ (ت)

پھر فرمایا:


واما المقید فھو مالا تتسارع الیہ الافہام عند اطلاق اسم الماء وھو الماء الذی یستخرج من الاشیاء بالعلاج کماء الاشجار والثمار وماء الورد ونحو ذلک ۱؎ اھ۔ بہرحال مقید پانی وہ ہے کہ جب پانی کا نام لیا جائے تو ذہن اس کی طرف سبقت نہ کرے، اور یہ وہ پانی ہے جو کسی عمل کے ذریعہ چیزوں سے نکالا جائے جیسے درختوں، پھلوں اور گلاب وغیرہ کا پانی اھ۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


اقول: والحصرالمستفادمن قولہ ھو الماء الذی یستخرج غیر مراد قطعاوانماالمعنی کالماء الذی فلیتنبہ۔ میں کہتا ہوں وہ حصر جو ان کے کلام ''یہ وہ پانی ہے جو نکالا جائے'' میں ہے، مراد نہیں ہے قطعاً، اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ مثل اُس پانی کے، تو متنبہ رہناچاہئے۔(ت)


درمختار میں ہے:(یرفع الحدث بماء مطلق) ھومایتبادرعند الاطلاق ۲؎ (حدث کو رفع کیا جائے مطلق پانی سے، یہ وہ ہے جو اطلاق کے وقت متبادر ہو۔ ت)


 (۲؎ درمختار        باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)


بحر سے گزرا:لانعنی بالمطلق الا مایتبادرعنداطلاق اسم الماء ۱؎ (ہم مطلق سے وہی مراد لیتے ہیں جو ماء کااطلاق کرتے وقت متبادر ہوتا ہے۔ت)


 (۱؎ بحرالرائق        کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۸)


کافی وبنایہ ومجمع الانہر میں ہے:المرادبہ ھھنامایسبق الی الافھام بمطلق قولناالماء ۲؎ (اس سے مراد یہاں وہ ہے جو ہمارے قول پانی کے اطلاق سے فوری سمجھا جائے۔ت)


 (۲؎ مجمع الانہر  تجوز الطہارۃ بالماء المطلق مکتبہ عامرہ مصر ۱/۲۷)


عنایہ وبنایہ میں ہے:لایجوز بما اعتصر لانہ لیس بماء مطلق لانہ عند اطلاق الماء لاینطلق علیہ وتحقیق ذلک انالوفرضنا فی بیت انسان ماء بئراوبحراوعین وماء اعتصر من شجر اوثمر فقیل لہ ھات ماء لایسبق الی ذھن المخاطب الا الاول ولا نعنی بالمطلق والمقید الاھذا ۳؎۔


جو پانی نچوڑا جائے اس سے وضو جائز نہیں کیونکہ وہ مطلق پانی نہیں کیونکہ جب ماء کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا ہے اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ اگر ہم فرض کریں کہ کسی شخص کے گھر میں پانی کا کنواں ہے یا دریا چشمہ ہے اور وہ پانی بھی ہے جو درخت یا پھل سے نچوڑا گیا ہے، پھر ہم اس سے پانی مانگیں تو مخاطب کا ذہن پہلے پانی ہی کی طرف منتقل ہوگا،اور مطلق ومقید سے یہی مراد ہے۔ (ت)


 (۳؎ العنایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۱)


اقول: یہی اصح واحسن تعریفات ہے کماقال فی الحلیۃ لولا مازاد  (جیسا کہ حلیہ میں کہا ہے اگروہ نہ ہوتا تو زیادتی نہ ہوتی۔ت) مگر محتاج توضیح وتنقیح ہے


واقول:(۱)وباللّٰہ التوفیق العوارض لاھی تفھم عندالاطلاق٭ولاھی مطلقاتسلب الاطلاق٭فان الذات ھی المفھومۃ من الاطلاق کمااذاقلت انسان لایتسارع الفھم منہ الی الرومی والزنجی اوالعالم والجاھل اوالطویل والقصیر اوالحسین والدمیم وامثال ذلک من العوارض ولا یلزم منہ خروج ھؤلاء عن الانسان المطلق فان ذاتھم لیست الامافھم من لفظ الانسان ولم یعرضھم مایقعدھم عن الدخول فیماتتسارع الیہ الافھام بسماع لفظ الانسان ولوان العوارض مطلقا تمنع الدخول لعدم انفھامھامن المطلق لما دخل تحتہ شیئ من افرادہ لان لکل فرد تشخصالایسبق الیہ الذھن عند ذکر اسم المطلق فکان ھذا یقتضی التسویۃ بین مطلق الماء والماء المطلق لکن ثمہ عوارض تمنع ذویھاعن الدخول تحت الشیئ المطلق ویقال فیھاان اسم المطلق لم یتناولھالکونھاممالاتتسارع الیہ الافھام کمقطوع الیدین والرجلین فی الرقبۃ فان المفھوم الذات الکاملۃ ونبیذ التمر وماء العصفر الصالح الصبغ فان اسم الماء المطلق لایطلق علیھماولایسبق الافھام عند اطلاقہ الیھمامع ان اصحاب تلک العوارض ایضا لیست ذاتھاالامافھم من الاطلاق وعدم انفہام العوارض مشترک فی کل عارض فلابد من الفرق ولم ارمن حام حول ھذا۔


اقول: وباللہ التوفیق عوارض نہ تو عندالاطلاق مفہوم ہوتے ہیں اور نہ مطلقاً سلب ہوتے ہیں،کیونکہ عندالاطلاق ذات ہی مفہوم ہوتی ہے، جیسے آپ انسان کا لفظ بولتے ہیں تو ذہن رومی، حبشی، عالم، جاہل، لمبے، چھوٹے، حسین، بدشکل وغیرہ کی طرف منتقل نہیں ہوتا ہے، مگر اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ یہ لوگ مطلق انسان کے زمرے سے خارج ہیں، کیونکہ ان کی ذات وہی ہے جو لفظ انسان سے مفہوم ہے اور ان کو کوئی ایسا مانع درپیش نہیں کہ یہ لوگ اس مفہوم میں داخل نہ ہوں جو لفظ انسان سنتے ہیں ذہن میں آجاتا ہے، اور اگر عوارض مطلقا دخول سے مانع ہوتے، کیونکہ یہ مطلق سے سمجھے نہیں جاتے ہیں تو مطلق کے تحت اس کے افراد میں سے کوئی شیئ داخل نہ ہوتی کیونکہ ہر ایک فرد کیلئے تشخص ہے جس کی طرف مطلق نام کے ذکر کرنے سے ذہن منتقل نہیں ہوتا ہے تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ مطلقِ ماء اور ماء مطلق کے درمیان مساواۃ ہے لیکن وہاں ایسے عوارض موجود ہیں جو ان کے ذدات کو مطلق شی کے تحت داخل ہونے سے مانع ہیں ، اور ان میں کہا جاتا ہے کہ مطلق اسم اُن کو شامل نہیں ہے کیونکہ ذہن ان کی طرف تیزی سے منتقل نہیں ہوتا ہے جیسے کہ رقبۃ میں مقطوع الیدین والرجلین، کیونکہ مفہوم ذات کاملہ ہے اور نبیذ تمر اور عُصفر کا پانی جو رنگائی کے لائق ہو کیونکہ ماءِ مطلق ان دونوں پر نہیں بولا جاتا ہے اور اطلاق کے وقت ذہن ان دونوں کی طرف منتقل نہیں ہوتا ہے باوجود اس کے کہ ان عوارض والے ان کی ذات نہیں ہیں، مگر وہ جو اطلاق کے وقت مفہوم ہو اور عوارض کا مفہوم نہ ہونا ہر عارض میں مشترک ہے، تو فرق ہونا ضروری ہے، مگر میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے یہ فرق بتایا ہو۔ (ت)


فاقول: علی مابی من قلۃ البضاعۃ٭وقصورالصناعۃ٭مستعینا بربی ثم بصاحب الشفاعۃ٭ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم توضع الاسماء بازاء الحقائق وتمایزالحقائق بتفاوت المقاصدولذاکان بعض الاوصاف تجری مجری الاجزاء کالاطراف فی الحیوان والاغصان فی الاشجار لان بفواتھافوات منافع الذات والشیئ اذا خلاعن مقصودہ بطل فیتطرق بہ التغیر الی الذوات المدلول علیھاعرفابالاسماء ومعلوم ان المرکب من الشیئ وغیرہ غیرہ غیران العرف بل والشرع واللغۃ جمیعا تلاحظ الغلبۃ فاذا کان الممازج اکثر قدرامن الشیئ کان المرکب احق باسم الممازج من اسم الشیئ وان تساویا تساقطا فلم یکن المرکب مفھومامن اطلاق اسم شیئ منھمالان وضع الاسمین بازاء کل بحیالہ لابازاء الکل مجموعانعم ان کان اقل لم یعتبرالا ان تحدث بامتزاجہ حقیقۃ عرفیۃ مرکبۃ ممتازۃ مقصودۃ لمقاصدمنحازۃ فیصیرالمرکب ذاتااخری عرفا لاختلاف المقاصد فلایبقی داخلا تحت المفھوم عرفا من الاطلاق فثبت ان (عـہ) المتفاھم من اطلاق اللفظ ھی الذات الموضوع لھامن دون نقص ولازیادۃ یغیرانھافکل عارض لایعتری بھاالمعروض تغیر فی ذاتہ وان کان ھناک نقص اوزیادۃ فی امرخارج فھو لایمنع المعروض من الدخول تحت الشیئ المطلق والامنع وبہ علم ان بطلانالحقیقۃ فی المرکب مع المساوی والغالب لغۃ وعرفاوشرعامطلقاومع القلیل المذکورعرفامع بقاء الحقیقۃ اللغویۃ ولذا کان المقید قسما من مطلق الماء وفی جھۃ النقص قدتبطل مطلقااذاکان ذلک الوصف جاریامجری الرکن فی الوضع اللغوی ایضاکالسیلان للماء وقد تبقی لغۃ وتبطل عرفااعنی عن المتفاھم العرفی عند اطلاق الاسم وذلک اذا تبدلت المقاصد العرفیۃ کالرقبۃ علی الاقطع فانھا حقیقۃ فیہ لغۃ ولایفھم منھاعرفااذاعلمت ھذا فالنقص فی الماء بزوال سیلانہ اورقتہ فالثخین لایسمی ماء فضلا عن الجمد والزیادۃ باختلاطہ باکثر منہ قدرااومساواوبمایصیر بہ مرکباممتازا منحازابالغرض کالمنقوع فیہ التمراذاصارنبیذاوالمطبوخ فیہ اللحم اذاصارمرقا والمحلول فیہ الزعفران اذاصار صبغاوالمخلوط فیہ اللبن اذاصارضیاحافعن ھذا تتشعب الفروع(۱)جمیعاعلی مذھب قاضی الشرق والغرب الصحیح المصحح کما تقدم عن الھدایۃ والخانیۃ ولاشک ان فی ھذہ الوجوہ الاربعۃ تبدل الذات حقیقۃ اوعرفاومحمد زادخامساوھومااشبہ المائع الممازج لہ بحیث یکاد یحسبہ الذی لایعلم حالہ ذلک المائع ویظن انہ لیس بماء فمثل ھذالایدخل عندہ فی المتفاھم من مطلق الماء فمناط المنع عند ابی یوسف صیر ورتہ غیر الماء ولوظناوبالجملۃ یرتاب فی کونہ ماء وعلیہ بناء ضابطۃ الامامین الاسبیجابی وملک العلماء رحمھما اللّٰہ تعالٰی وھی التی قابلناھا بالضابطۃ الزیلعیۃ وبینا فی القسمین الاولین مااتفقتا فیہ علی الجواز اوالمنع وفی الثالث مااختلفتا فیہ وسیاتی بیان کل ذلک ان شاء 

اللّٰہ الکریم الوھاب۔


پھر میں علمی بے بضاعتی کے باوجود کہتا ہوں اسماء کی وضع حقائق کے مقابلہ میں ہوتی ہے اور حقائق میں امتیاز مقاصد کے اعتبار سے ہوتاہے اور اس لئے بعض اوصاف اجزاء کے قائم مقام ہوتے ہیں جیسے حیوانات کے اعضاء اور درختوں کی ٹہنیاں کیونکہ ان چیزوں کے خاتمہ سے ذات کی منفعتیں بھی ختم ہوجاتی ہیں،اور جب کسی چیز کا مقصود ہی فوت ہوجائے تو وہ چیز باطل ہوجاتی ہے اور اس طرح ذات بھی متغیر ہوجاتی ہے جس پر اسماء کے ذریعہ عرفاً دلالت کی جاتی ہے اور یہ معلوم ہے کہ جو چیز کسی چیز اور اُس کے غیر سے مرکب ہوتی ہے وہ اس کا غیر ہوتی ہے، لیکن عرف، شریعت اور لغۃ سب ہی میں غلبہ کا اعتبار ہوتا ہے تو جب ملنے والی چیز اصلی شَے سے مقدار میں زیادہ ہو تو مرکب پر وہ نام پڑنا چاہئے جو اس ملنے والی اکثر شَے کا ہے نہ کہ اصل شے کا اور اگر دونوں میں برابری ہو تو تساقط ہوگا تو ان میں سے جب کسی شَے کا اطلاق ہوگا تو مرکب مفہوم نہ ہوگا کیونکہ نام تو ہر ایک کے مقابل مستقلاً ہے، مجموعہ کے مقابل نہیں،ہاں اگر وہ کم ہو تو معتبر نہ ہوگا ہاں اگر اس کے ملنے سے ایک نئی حقیقت عرفیہ وجود میں آجائے جو مرکب اور ممتاز ہو،اور خاص مقاصد کیلئے ہو تو مرکب عرفاً ایک نئی ذات ہوگا،اس لئے کہ مقاصد مختلف ہوگئے، تو وہ اطلاق سے عرفاً مفہوم کے تحت داخل نہ ہوگا،پس ثابت ہوا کہ لفظ کے اطلاق سے وہی ذات مراد ہوتی ہے جس کے لئے لفظ وضع کیا گیا ہو، اس میں نہ تو کوئی کمی نہ زیادتی، جس کی وجہ سے ذات میں کوئی تغیر آتا ہو، تو ہر وہ عارض جس کی وجہ سے ذات میں کوئی تغیر نہ ہو خواہ کسی خارجی امر میں کمی بیشی ہو تو یہ چیز معروض کے مطلق شیئ کے تحت آنے میں منحل نہ ہوگی ورنہ مانع ہوگی۔اسی سے یہ بھی معلوم ہواکہ حقیقت کا مرکب میں باطل ہونا مساوی اور غالب کے ساتھ ہے لغۃً، عرفاً اور شرعاً، مطلقاً، اور قلیل مذکور کے ساتھ عرفا مع حقیقت لغویہ کے باقی رہنے کے اس لئے مقید، مطلق ماء کی قسم ہوتا ہے، اور نقص کی جہت میں کبھی حقیقۃ مطلقاً باطل ہوجاتی ہے جبکہ وصف وضع لغوی اعتبار سے بھی رکن کے قائم مقام ہو جیسے پانی کیلئے سیلان، اور کبھی حقیقۃ لغۃً تو باقی رہتی ہے اور عرفاً باطل ہوجاتی ہے، یعنی نام کو بولے جانے کے وقت عرف کے فہم میں نہیں آتی، اور یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب مقاصد عرفیہ بدل جائیں جیسے ''رقبۃ'' اقطع پر کیونکہ یہ اس میں حقیقۃ ہے لغۃً لیکن عرفا اس سے نہیں سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ نے یہ جان لیا تو پانی میں نقص کی صورت یہ ہوگی کہ اس کا سیلان یا اس کی رقت ختم ہوجائے تو گاڑھے کو پانی نہیں کہیں گے چہ جائیکہ جمد کو، اور اس میں زیادتی کی صورت یہ ہوگی کہ وہ کسی ایسی چیز میں مخلوط ہوجائے جو مقدار میں اُس سے زیادہ یا اس کے برابر ہو یا اُس چیز سے جس سے مرکب ہو کر وہ ممتاز ہوجائے اور مقصد کے اعتبار سے بالکل مختلف ہوجائے، جیسے وہ پانی جس میں کھجوریں بھگوئی جائیں تو وہ نبیذ بن جائے، اور جس میں گوشت پکایا جائے اور وہ شوربہ ہوجائے، اور جس میں زعفران ملایا جائے اور وہ رنگ بن جائے اور جس کو دودھ میں ملایاجائے یہاں تک کہ وہ لسّی ہوجائے،اسی اصل پر قاضی شرق وغرب کے مذہب پر تمام فروع متفرع ہوتی ہیں، جیسا کہ ہدایہ اور خانیہ سے گزرا، اور اس میں شک نہیں کہ ان چاروں صورتوں میں ذات حقیقۃ یاعرفاً تبدیل ہوجاتی ہے،اور امام محمد نے ایک پانچویں صورت کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ،وہ پانی ہے جو اس سیال شَے سے مشابہ ہو جو اس میں ملائی گئی ہے،اور وہ ایسا ہوجائے کہ ناواقف حال اس کو وہی شیئ سمجھے پانی نہ سمجھے، اس قسم کی چیز ان کے نزدیک مطلق ماء کے مفہوم میں داخل نہیں، تو ابو یوسف کے نزدیک منع کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ پانی کا غیر ہوجائے خواہ عرفاً ہی۔ اور امام محمد کے نزدیک اس پر ہے کہ اس کو استعمال کرنے والا پانی کے علاوہ کوئی اور مائع سمجھنے لگے خواہ صرف گمان ہی ہو۔ خلاصہ یہ کہ وہ اس کے پانی ہونے میں شک کرے، اور اسی پر ضابطہ مبنی ہے، یہ ضابطہ امام اسبیجابی اور ملک العلماء نے بیان کیا ہے،یہی وہی ضابطہ ہے جس کا مقابلہ ہم نے ضابطہ زیلعیہ سے کیا ہے اور پہلی دو قسموں میں بیان کیا ہے کہ ان کا اتفاق جواز اور منع میں ہے اور تیسرے میں وہ جس میں ان کا اختلاف ہے اس کا بیان اِن شاء اللہ تعالٰی آئے گا۔


 (عـہ)اقول وبھذاوللّٰہ(۱)الحمد ظھرمعنی قولھم المطلق ینصرف الی الفرد الکامل وقولھم المطلق ینصرف الی الادنی وتبین انہ لاخلاف بینھما فالمطلق ینصرف فی الطلب الی ادنی مایطلق علیہ سواء کان مطلوب الفعل اذیکفی لبراء ۃ الذمۃ اوالترک اذ الممنوع جنسہ فلایجوز شیئ منہ لکن ینصرف الی فرد کامل فی الذات لم یعرضہ مایجعلہ ناقصافی ذاتہ بالمعنی المذکور لعدم انفھامہ ح من المطلق فالمنصرف الیہ ادنی ماکمل فیہ الذات ھذا ھو التحقیق الانیق اماما قال الشامی ان انصراف المطلق الی الفرد الکامل یذکر فی مقام الاعتذار فمحلہ اذاحمل المطلق علی کامل فی وصف اٰخر وراء الکمال فی الذات اتقنہ فانہ علم نفیس وباللّٰہ التوفیق ۱۲ منہ غفرلہ حفظہ ربہ تعالٰی۔ (م)

میں کہتا ہوں اس سے فقہأ کے اس قول کے معنی واضح ہوگئے کہ مطلق سے مراد فرد کامل ہوتا ہے، نیز یہ کہ مطلق کو ادنٰی کی طرف پھیرا جاتا ہے اور یہ کہ دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ طلب میں مطلق سے ادنٰی مراد ہوتا ہے، عام ازیں کہ مطلوب فعل ہو کہ وہ برأت ذمہ کیلئے کافی ہوتا ہے یا ترک ہوکر ممنوع اس کی جنس ہوتی ہے تو اس میں سے کچھ بھی جائز نہیں ہوتا ہے لیکن فرد کامل فی الذات مراد ہوتا ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہ ہونی چاہئے جو اس کی ذات میں مذکور معنی کے اعتبار سے موجب نقص ہو کیونکہ اس صورت میں وہ مطلق سے مفہوم نہ ہوگا، تو جس کی طرف پھیرا جاتا ہے وہ ادنٰی ہے اس چیز کا جس میں ذات مکمل ہوئی ہو یہ تحقیق انیق ہے، اور شامی نے جو کہا ہے کہ مطلق کا فرد کامل کی طرف پھرنا مقامِ اعتذار میں ذکر کیا جائیگا تو اس کا محل یہ ہے کہ مطلق جب کسی ایسے امر پر محمول ہو جو کسی دوسرے وصف میں کامل ہو ذات کے علاوہ۔ اس کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ نفیس علم ہے ۱۲ منہ غفرلہ حفظہ رب تعالٰی۔ (ت)

فان قلت علی ماقررت یلزم خروج الماء المتنجس والمستعمل من الماء المطلق فان من اعظم مقاصد الماء حصول التطھیر بہ قال اللّٰہ تعالٰی وینزل علیکم من السماء ماء لیطھر کم بہ وقد سقط ھذا منھما فیزاد فی جانب النقص علی زوال السیلان والرقۃ زوال صفۃ الطھوریۃ اقول الحقائق(۱)الشرعیۃ للمقاصد الشرعیۃ فبفوا تھا تفوت کالصوم والصلاۃ اما الماء فحقیقۃ عینیۃ والمعتبر فی بقائھا المقاصد العرفیۃ الاتری ان اعظم المقصود من الانسان العبادۃ قال تعالٰی وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون وقد فاتت الکافر اذلیس اھلالھا ومع ذلک لم یخرج من المتفاھم باطلاق الانسان قال تعالٰی ان الانسان لفی خسر الاالذین اٰمنو اوقال تعالٰی قتل الانسان مااکفرہ۔


اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس بنا پر ناپاک اور مستعمل پانی کا ماء مطلق سے خارج ہونا لازم آتا ہے، کیونکہ پانی کا سب سے بڑا مقصد پاکی کا حصول ہے فرمانِ الٰہی ہے ''وہ تم پر آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے تاکہ اس سے تم کو پاک کرے'' اور یہ وصف اُن دونوں پانیوں سے ختم ہوگیا، تو جانب نقص میں زوالِ سیلان ورقت پر صفتِ طہوریۃ کے زوال کا اضافہ کیا جائیگا۔ میں کہتا ہوں حقائقِ شرعیہ مقاصد شرعیہ کیلئے ہوتے ہیں، تو جب مقاصد شرعیہ فوت ہوجائیں تو حقائق بھی فوت ہوجاتے ہیں، جیسا کہ روزہ اور نماز اور پانی حقیقۃ عینیہ ہے اور اسی کی بقاء میں مقاصد عرفیہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ انسان کا بڑا مقصود عبادت ہے فرمانِ الٰہی ہے ''اور میں نے انس وجن کو عبادت ہی کیلئے پیدا کیا ہے'' اور یہ چیزیں کافر میں نہیں پائی جاتی ہیں کیونکہ وہ عبادت کا اہل نہیں، اس کے باوجود جب لفظ انسان کا اطلاق کیا جاتا ہے تو مفہوم انسان سے خارج نہیں ہوتا ہے فرمانِ الٰہی ہے ''بلاشبہ انسان خسارے میں ہے سوائے ایمان والوں کے''۔ فرمانِ الٰہی ہے ''لعنت ہو انسان پر کتنا ناشکرا ہے۔(ت)

بالجملہ تحقیق(۱) فقیر غفرلہ، میں مائے مطلق کی تعریف (عـہ) یہ ہے کہ وہ پانی کہ اپنی رقتِ طبعی پر باقی ہے اور اس کے ساتھ کوئی ایسی شے مخلوط وممتزج نہیں جو اُس سے مقدار میں زائد یا مساوی ہے نہ ایسی جو اُس کے ساتھ مل کر مجموع ایک دوسری شے کسی جُدامقصد کے لئے کہلائے ان تمام مباحث بلکہ فہیم کیلئے جملہ فروع مذکورہ وغیر مذکورہ کو ان دو بیت میں منضبط کریں

          مطلق آبے ست کہ بروقتِ طبعی خودست        نہ درومزج دگر چیز مساوی یا بیش

            نہ بخلطے کہ بترکیب کُند چیز دگر            کہ بودز آب جُدا در لقب ومقصد خویش


وباللّٰہ التوفیق٭ولہ الحمدعلی اراء ۃ الطریق٭وافضل الصلاۃ واکمل السلام علی الحبیب الرفیق٭ واٰلہ وصحبہ اولی التحقیق وسائر من دانہ بالایمان والتصدیق٭ اٰمین٭ والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔


عہ:منح وسید کی تعریفیں کہ حاشیہ پر گزریں ۱۳ و ۱۴ تھیں اور یہ تعریف رضوی بحمدہ تعالٰی پانزدھم

ثم وجدت عن المجتبی تعریفااٰخر ذکرہ عنہ فی انجاس البحران الماء المقید مااستخرج بعلاج کماء الصابون والحرض والزعفران والاشجار والاثمار والباقلاء اھ فالمطلق خلافہ اقول لیس(۲)بشیئ ویوافقہ اول الاقوال الاٰتیۃ فی الاضافات وسیاتی ردہ ثمہ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

پھر میں نے مجتبٰی سے ایک اور تعریف بحر کے انجاس میں دیکھی کہ مقید پانی وہ ہے جو کسی عمل کے ذریعہ نکالا جائے، جیسے صابون کا پانی اور حرض، زعفران، درختوں، پھلوں اور باقلی کا پانی اھ اور مطلق اس کے خلاف ہے، میں کہتا ہوں یہ کچھ بھی نہیں، اس کی موافقت اضافات میں وارد شدہ پہلے قول سے ہوتی ہے، اس کی تردید وہاں ہوگی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


اضافات(۱)بہت چیزوں پر پانی کا نام کسی شَے کی طرف مضاف کرکے بولا جاتا ہے اُن میں بعض تو جنسِ آب سے خارج ہیں اور اطلاق آب محض بطور تشبیہ جیسے آبِ زر آبِ کا فور اور جو حقیقۃ پانی ہیں ان میں کچھ مائے مطلق ہیں جیسے آبِ باراں آب دریا اور کچھ مائے مقید جیسے ماء العسل ماء الشعیر اول کو اضافت تعریف کہتے ہیں اور دوم کو اضافتِ تقیید۔ علماء  نے ان میں چند طرح فرق فرمایا:


اوّل جو پانی کسی شے سے بذریعہ تدبیر نکالا جائے اُس کی طرف پانی کی اضافتِ تقیید ہوگی ورنہ اضافتِ تعریف، عنایہ وبنایہ میں ہے: اضافتہ الی الزعفران للتعریف لاللتقیید الفرق بینھماان المضاف ان لم یکن خارجا عن المضاف الیہ بالعلاج فالاضافۃ للتعریف وانکان خارجامنہ فللتقید کماء الورد ۱؎ اھ اقول ان کان(۲)المراد حدوثہ بالتدبیر کما ھو فی ماء الوردو سائر المستقطرات ورد ماء النارجیل وماء الجبحب وماء النخل الھندی المسمی تارفانھاموجودۃ وانما التدبیر لاخراجھاکالفصد لاخراج الدم وان ارید ظھورہ بہ فان لم یرد ماء البئر لان ظھورہ من الارض بالتدبیر بحفر البئر لامن المضاف الیہ ورد ماء العسل فان الماء فان الماء ظاھر بنفسہ انماالتدبیر فی امتزاجہ طبخابالعسل فانارید(عـہ)ماء العسل من حیث ھو ماء العسل فحدوثہ بالتدبیر لامجرد ظھورہ۔


پانی کی اضافت زعفران کی طرف تعریف کیلئے ہے نہ کہ تقیید کیلئے، اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر مضاف، مضاف الیہ سے عمل کے ذریعہ نہ نکالا گیا ہو تو اضافت تعریف کیلئے ہے اور اگر تدبیر سے خارج ہو تو تقید کیلئے ہے جیسے گلاب کا پانی اھ میں کہتا ہوں اگر ان کی مراد اس کا حدوث ہے تدبیر سے جیسے گلاب کے پانی میں یا دوسرے اُن پانیوں میں ہے جو نچوڑ کر نکالے جاتے ہیں تو ناریل کا پانی، تربوز کا پانی، تاڑی کا پانی، اس کے علاوہ ہیں کہ یہ پانی سے ہی موجود ہوتے ہیں تدبیر صرف ان کے نکالنے کیلئے کی جاتی ہے جیسے خون نکالنے کیلئے فصد کھلوائی جاتی ہے، اور اگر یہ مراد ہو کہ اس کا اس کے ذریعہ ظہور ہو، پس اگر کنویں کے پانی سے اعتراض نہ ہو کہ اس کا ظہور بھی زمین کے کھودے سے ہوتا ہے مضاف الیہ سے نہیں ہوتا تو شہد کے پانی کے ذریعہ اعتراض وارد ہوگا، کیونکہ پانی بنفسہ ظاہر ہے تدبیر تو اس کو شہد میں ملا کر پکانے سے ہوتی ہے اور اگر شہد کاپانی من حیث ھو مراد ہو تو اس کا حدوث تدبیر سے ہوگا نہ کہ محض ظہور سے۔ (ت)


 (۱؎ العنایۃ مع الفتح القدیر    باب الماء الذی یجوزبہ الوضو        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۳)


 (عـہ )ھذا ھو مفاد کلام الامام العینی اذجعل ماء الباقلی خارجا بالتدبیر والا فالماء لاحدث بہ ولاظھر بل کان موجودا ظاھرا من قبل انما حدث الممزوج من حیث ھو ممزوج فتعین فی کلامہ الشق الاول ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

یہ عینی کے کلام سے مستفاد ہوتا ہے، انہوں نے باقلی کے پانی کو تدبیر سے خارج ہونے والا پانی قرار دیا ہے ورنہ تو پانی میں نہ کوئی حدوث ہے اور ظہور،بلکہ وہ موجود وظاہر پہلے تھا البتہ ممزوج من حیث الممزوج بعد میں پیدا ہوا، تو ان کے کلام میں شق اول متعین ہوگئی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


وم جہاں ماہیت مضاف کامل ہو اضافت تعریف کیلئے ہے جیسے نماز فجر اور قاصر ہو تو تقیید کیلئے جیسے نمازِ جنازہ کہ رکوع وسجود وقرأت وقعود نہیں رکھتی، کفایہ ومجمع الانہر میں ہے:


علامۃ اضافۃ التقیید قصور الماھیۃ فی المضاف کأن قصورھا قیدہ کیلا یدخل تحت المطلق مثالہ حلف(۱) لا یصلی فصلی الظھر یحنث لانھاصلاۃ مطلقۃ واضافتھا الی الظھر التعریف ولایحنث بصلاۃ الجنازۃ لانھا لیست بصلاۃ مطلقۃ واضافتھا الیھا للتقیید ۱؎۔


تقیید کی اضافت کی علامت مضاف میں ماہیۃ کا ناقص ہونا ہے، گویا اس کا ناقص ہونا اس کی قید ہے تاکہ مطلق کے تحت داخل نہ ہو، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی نے حلف اٹھایا کہ وہ نماز نہ پڑھے گا پھر اس نے ظہر کی نماز پڑھی تو حانث ہوجائیگا کہ وہ مطلق نماز ہے اور اس کی اضافت ظہر کی طرف تعریف کیلئے ہے اور نماز جنازہ پڑھنے سے حانث نہ ہوگا کیونکہ وہ مطلق نماز نہیں ہے اور اس کی اضافت جنازہ کی طرف تقیید کیلئے ہے۔ (ت)


 (۱؎ شلبیہ علی التبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۱)


اسی طرح شلبیہ علی الزیلعی میں معراج الدرایہ شرح ہدایہ سے ہے نیز اُسی میں مشکلات امام خواہر زادہ 

سے ہے: کل ماکانت الماھیۃ فیہ کاملۃ فالاضافۃ فیہ للتعریف وماکانت ناقصۃ فالاضافۃ للتقیید نظیر الاول ماء السماء وماء البحر وصلاۃ الکسوف ونظیر الثانی ماء الباقلاء وصلاۃ الجنازۃ ۱؎ اھ اقول قصور(۱)الماھیۃ انما ھو فی ماء الباقلا ونحوہ عماثخن وزالت رقتہ اما فی المتغیر بالزیادۃ کالانبذۃ والمذق فتبدلت لانقصت الا ان یراد بالقصور والنقص مایعم الانتفاء مجازا تقول(۲)العرب قل ای عدم کما فی نسیم الریاض۔


ہر وہ چیز جس میں ماہیت کامل ہو تو اس میں اضافت تعریف کیلئے ہے اور جس میں ماہیت ناقص ہو تو اس میں اضافت تقیید کیلئے ہے پہلے کی نظیر ماء السماء اور ماء البحر اور صلوٰۃ الکسوف ہے اور دوسری کی مثال ماء الباقلی اور صلاۃ الجنازہ ہے اھ میں کہتا ہوں ماہیت کا ناقص ہونا ماء الباقلٰی میں ہے یا اس قسم کے اور پانیوں میں جو گاڑھے پڑ گئے ہوں اور اُن میں سے رقت ختم ہوگئی ہو لیکن وہ پانی جو کسی زیادتی کے باعث متغیرہو گئے ہوں جیسے نبیذ ومذق تو یہ تبدیل ہوئے ہیں کم نہیں ہوئے۔ ہاں اگر قصور ونقص سے مراد وہ ہو جو انتفاء کو عام ہو مجازاً، عرب کے لوگ کہتے ہیں قَلَّ یعنی معدوم ہوگیا، نسیم الریاض میں ایسا ہی ہے۔ (ت)


 (۱؎ شلبیۃ علی التبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    مطبعۃ الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۱)


سوم :جسے بے حاجت ذکر قید پانی کہہ سکیں وہاں اضافت تعریف کی ہے اور جہاں پانی کہنے میں ذکر قید ضروری ہو تقیید کی، مراقی الفلاح میں ہے: الفرق بین الاضافتین صحۃ اطلاق الماء علی الاول دون الثانی اذلا یصح ان یقال لماء الورد ھذا ماء من غیر قید بالورد بخلاف ماء البئر لصحۃ اطلاقہ فیہ ۲؎۔


دونوں اضافتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی پر پانی کااطلاق صحیح ہے دوسری پر نہیں ہے کیونکہ گلاب کے پانی کو ھٰذا ماءٌ کہنا صحیح نہیں،اس میں وردٌ کی قید لگانا ضروری ہے، ہاں کنویں کے پانی کو ھذا ماءٌ کہہ سکتے ہیں۔ (ت)


 (۲؎ مراقی الفلاح  کتاب الطہارۃ    مطبعۃ الامیریہ ببولاق مصر   ص۱۳)


بحر میں ہے: ماء البحر الاضافۃ فیہ للتعریف بخلاف الماء المقید فان القید لازم لہ لایجوزاطلاق الماء علیہ بدون القید کماء الورد ۱؎ اھ ماء البحر اس میں اضافت تعریف کے لئے ہے بخلاف مقید پانی کے، کیونکہ قید اس کو لازم ہے اس پر پانی کا اطلاق بلاذکر قید جائز نہیں جیسے گلاب کا پانی اھ۔ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۱/۶۶)

اقول: ھذا ھو السابع فی تعریفات المطلق والکلام الکلام فیقال ماء الورد لیس ماء حقیقۃ فعلی التحقیق لیس من المقیداماالمقید کماء الزعفران الصالح للصبغ فماء قطعاویصح ان یقال ھذاماء لان صحۃ حمل المقسم علی القسم من الضروریات نعم لایفھم من اطلاق قولناالماء وھذاشیئ غیرالحمل ولایصح ارادۃ حمل الماء المطلق فیرجع الی ان المقید یحمل علیہ الماء المطلق مع ذکرالقید وھذاجمع بین النقیضین والجواب مامر۔


میں کہتا ہوں یہ مطلق کی ساتویں تعریف ہے اور اس پر وہی گفتگو ہے جو گزری، کہا جاتا ہے گلاب کا پانی، حالانکہ درحقیقت یہ پانی نہیں ہے تو تحقیقی طور پر یہ مقید نہیں مقید جیسے ماء الزعفران جو رنگنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو یہ قطعاً پانی ہے اور اس کو ھذا ماءٌ کہہ سکتے ہیں کیونکہ مقسم کا قسم پر محمول ہونا بدیہیات میں سے ہے، ہاں جب ہم الماء اور ھذا کہتے ہیں تو اس سے سوائے حمل کے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا اور ماء مطلق کے حمل کا ارادہ صحیح نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقید پر الماء المطلق محمول ہوگا اور قید بھی ذکر کی جائے گی اور یہ جمع بین النقیضین ہے اور جواب وہ ہے جو گزرا۔ (ت)


چہارم جس سے پانی کی نفی کر سکیں یعنی کہہ سکیں کہ یہ پانی نہیں وہاں اضافت تقیید کی ہے ورنہ تعریف کی، تبیین میں ہے: اضافتہ الی الزعفران ونحوہ للتعریف کاضافتہ الی البئر بخلاف ماء البطیخ ونحوہ حیث تکون اضافتہ للتقیید ولھذا ینفی اسم الماء عنہ ولایجوز نفیہ عن الاول ۲؎ اھ


اس کی اضافت زعفران وغیرہ کی طرف تعریف کیلئے ہے جیسے پانی کی اضافت کنویں کی طرف، بخلاف ماء البطیخ وغیرہ کے، وہاں اضافت تقیید کیلئے ہے، اس لئے پانی کا نام اُس سے منفی کیا جاتا ہے اور اس کی نفی اول سے جائز نہیں اھ (ت)


 (۲؎ تبیین الحقائق کتاب الطھارت        الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۱)


اقول: ھذا ھو ثامن تعریفات المطلق والبحث البحث فیقال ان القسم لایصح نفی المقسم عنہ حقیقۃ ابداوان ارید نفی الماء المطلق مع بعدہ عن ظاھر العبارۃ یرجع الی ان اضافۃ التقیید فی الماء المقید وھذا لایجدی شبہ الحمل الاولی والجواب مامر۔


میں کہتا ہوں یہ مطلق کی آٹھویں تعریف ہے اور اس میں جو بحث ہے وہ بحث ہے اس میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قسم سے مقسم کی نفی صحیح نہیں حقیقۃً، اور اگر ماءِ مطلق کی نفی کا ارادہ کیا جائے، حالانکہ بظاہر عبارۃ سے یہ بعید ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اضافتِ تقیید ماءِ مقید میں ہے، اور یہ پہلے حمل کی طرح غیر مفید ہے اور جواب وہ ہے جو گزرا۔ (ت)


پنجم: جہاں امور خارجہ عن الذات مثل محل یا صفت یا مجاور کی طرف اضافت ہو تعریف ذات اُس کی محتاج نہ ہو وہ اضافت تعریف ہے غنیہ میں ہے: مایسمی فی العرف ماء من غیر احتیاج الی التقیید فی تعریف ذاتہ فاضافتہ الی محل کماء البئر اوصفتہ کماء المد ا ومجاورہ کماء الزعفران لیست بقید ۱؎۔


وہ جس کو عرف میں پانی کہا جاتا ہے جس کی ذات کی تعریف میں تقیید کی ضرورت نہیں، تو اس کی اضافت اس کے محل کی طرف ہے جیسے ماء البئر یا اس کی صفت کی طرف ہے جیسے ماء المد یا اس کے مجاور کی طرف ہے جیسے ماء الزعفران یہ قید نہیں ہے۔ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی، فصل فی بیان احکام المیاہ، سہیل اکیڈمی لاہور، ص۸۸)


ششم: جہاں ماہیت بے قید نہ پہچانی جائے اضافت تقیید ہے ولہٰذا اُس پر بلاقید لفظ آب کا اطلاق جائز نہ ہوگا اور جہاں بے ذکر قید اطلاق لفظ صحیح ہو اصافت تعریف ہے، حلیہ میں ہے: المقید لاتعرف ذاتہ الابالقید ولھذا کانت الاضافۃ لازمۃ فلایسوغ تسمیتہ ماء علی الاطلاق بخلاف اضافۃ الماء المطلق الی نحو البئر والعین فانھا اضافۃ الی مامنہ بدفھی عارضۃ لافادۃ عارض من عوارضہ وھو بیان محلہ الکائن فیہ اوالخارج منہ الذی یمکن الاستغناء عن ذکرہ فی صحۃ اطلاق لفظ الماء علیہ ولھذا ساغ ان یطلق القائل علیہ ماء اطلاقا حیقیقیا من غیر تقیید بالبئر ونحوھا وقد ظھر من ھذا التقیید انہ لم یمنع اندراج المقید بہ تحت الماء المطلق بخلاف الاول ۱؎ اھ۔


مقید کی ذات کی معرفت بلاقید نہیں ہوتی ہے اس لئے اضافت لازم ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو مطلق پانی کہنا جائز نہیں بخلاف ماء مطلق کی اضافت کے کنویں اور چشمے کی طرف، کیونکہ یہ ایسی چیز کی طرف اضافت ہے جو ضروری نہیں، تو یہ عارضی ہے، کیونکہ یہ اُس کے عوارض میں سے کسی ایک عرض کا فائدہ دے رہی ہے، اور یہ اس کے محل کا بیان ہے جس میں کہ وہ ہے یا جس سے وہ خارج ہو کہ اس کے ذکر سے استغنا ممکن ہو اور اس پر صرف ماء کا اطلاق صحیح ہو،اس لئے اس پر ماء کا اطلاق حقیقی بئر وغیرہ کی قید کے بغیر بھی جائز ہے، اس تقیید سے ظاہر ہوا کہ جو اس قید کے ساتھ مقید ہو اس کا ماءِ مطلق میں داخل ہونا ممنوع نہیں بخلاف اول کے اھ (ت)


اقول: اقتصر لغنیۃ علی الثانی من تعریفات المطلق وجمع الحلیۃ بینہ وبین السابع فمشی علی الثانی فی تحدید اضافۃ التقیید وعلی السابع فی تعریف اضافۃ التعریف ولاغزو فالامر قریب۔


میں کہتا ہوں غنیہ نے مطلق کی دوسری تعریف پر اکتفأ کیا ہے اور حلیہ نے اس کو اور ساتویں کو جمع کیا ہے، اوراضافۃِ تقیید کی تعریف میں انہوں نے دوسری کو ملحوظ رکھا ہے اور اضافتِ تعریف میں ساتویں کو، مگر یہ قریب قریب درست ہے۔ (ت)


ہفتم (عـہ) جس کی ماہیت بے اضافت پہچانی جائے اور مطلق نام آب لینے سے مفہوم ہو وہاں اضافت تعریف کی ہے ورنہ تقیید کی۔ شلبیہ علی الزیلعی میں امام حافظ الدین کی مستصفٰی سے ہے: فان قیل مثل ھذہ الاضافۃ یعنی ماء الباقلاء واشباھہ موجود فیما ذکرت من المیاہ المطلقۃ لانہ یقال ماء الوادی وماء العین قلنا اضافتہ الی الوادی والعین اضافۃ تعریف لاتقیید لانہ تتعرف ماھیتہ بدون ھذہ الاضافۃ وتفھم بمطلق قولنا الماء بخلاف ماء الباقلاء واشباھہ فانہ لاتتعرف ماھیتہ بدون ذلک القید ولاینصرف الوھم الیہ عند الاطلاق ولھذا صح نفی اسم الماء عنہ فیقال فلان لم یشرب الماء وان کان شرب الباقلاء اوالمرق ولوکان ماء حقیقۃ لماصح نفیہ لان الحقیقۃ لاتسقط عن المسمی ابدا ویکذب نافیھاوھذاکمایقال صلاۃ الجمعۃ ولحم الابل وصلاۃ الجنازۃ ولحم(۱)السمک ۱؎ اھ وقد ذکر نحوہ فی کافیہ وجلال الدین فی کفایتہ والبدر محمود فی بنایتہ اقول جمع بین الثانی والثانی عشر بل والثامن ارشادا الی تقاربھا ولو اکتفی بالوسط(عـہ) لکفی وصفا عنمجال کل جدال۔


اگر کہا جائے کہ اس جیسی اضافت یعنی ماء الباقلی وغیرہ کی مذکورہ مطلق پانیوں میں بھی موجود ہے، اس لئے کہ ماء الوادی اور ماء العین کہا جاتا ہے، ہم کہتے ہیں پانی کی اضافۃ وادی اور عین کی طرف تعریف کیلئے ہے نہ کہ تقیید کیلئے، کیونکہ ان کی ماہیت کو اس قید کے بغیر بھی سمجھا جاسکتا ہے اور مطلق لفظ ماء سے سمجھ میں آجاتے ہیں بخلاف باقلٰی وغیرہ کے پانیوں کے، کیونکہ ان کی ماہیت اس قید کے بغیر سمجھ میں نہیں آتی ہے اور جب مطلق لفظ ماء بولا جاتا ہے تو ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوتا ہے،اس لئے پانی کے لفظ کی نفی ان پانیوں سے درست ہے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ فلاں نے پانی نہیں پیا،اگرچہ اس نے شوربہ یا باقلٰی کا پانی پیا ہو،اور اگر یہ حقیقۃ پانی ہوتے تو یہ نفی صحیح نہ ہوتی۔کیونکہ حقیقت کبھی اپنے مسمی سے ساقط نہیں ہوتی ہے اور جو شخص اس کی نفی کرے اس کی تکذیب کی جاتی ہے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ صلٰوۃ الجمعۃ،لحم الابل، صلاۃ الجنازۃ اور لحم السمک کہا جاتا ہے اھ اسی قسم کی چیز انہوں نے اپنی کافی میں ذکر کی اور جلال الدین نے کفایہ میں اور بدر محمود نے بنایہ میں۔ میں کہتا ہوں انہوں نے دوسرے اور بارہ کو یکجا کردیا ہے بلکہ آٹھ کو بھی، تاکہ ان کے قریب ہونے کا پتا چل جائے، اور اگر درمیانی پر اکتفا کرلیتے تو کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔ (ت)


(عـہ)اقول ھذہ سبع عبارات الثلاث الاُخری منھا متقاربۃ المعنی بل متحدۃ المال مختلفۃ المبی والثالثۃ والرابعۃ تعریفان بما یستلزم ھذا المعنی والنقص والقصور فی الاولیین واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

میں کہتا ہوں یہ سات عبارتیں ہیں ان میں سے آخری تین معنوی اعتبار سے قریب ہیں بلکہ انجام کے اعتبار سے متحد ہیں، عبارت میں مختلف ہیں، تیسری اور چوتھی تعریفیں اُس چیز کے ساتھ ہیں جو اس معنی کو مستلزم ہیں، اور نقص وقصور پہلی دو تعریفوں میں ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ حلیہ)


 (عـہ)ثم رأیت الامام العینی کذلک فعل فی البنایۃ اذقال الاضافۃ نوعان اضافۃ تعریف کغلام زید وانہ لایغیر المسمی واضافۃ تقیید کماء العنب وانہ یغیرہ وانہ لایفھم من مطلق اسم الماء اھ اقول استدلال انی والمراد بماء العنب مانقع فیہ العنب لانہ الماء المقید لامایخرج بعصرہ فانہ لیس من الماء اصلا کما قدمنا فی حاشیتہ ۲۰۷ خلافالما اوھم العلامۃ ابن کمال ثم رأیت فی نص الکفایۃ التصریح بما ذھبت الیہ اذقال لایجوز بما اعتصر لانہ لیس بماء حقیقۃ ثم اقول احال الامام العینی امر التعریف والتقیید علی التغیر وعدمہ وعللہ بالانفھام من المطلق وعدمہ وھذا اجلی من التغیر المبھم فکان الاولی الارادۃ علیہ کما فعل قبلہ فی غایۃ البیان اذقال واضافتہ الی البئر للتعریف لاللتقیید اذایفھم بمطلق قولنا الماء اھ والعجب ان العینی مشی ھھنا علی ھذا الصحیح ثم بعد ورقتین عاد الی الاول الجریح ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

اقول: پھر امام عینی نے بنایہ میں ایسا ہی کیا ہے فرمایا اضافت کی دو قسمیں ہیں ایک اضافت تعریف کیلئے ہے جیسے غلام زید، یہ مسمّی میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کرتی ہے اور دوسری اضافت برائے تقیید، جیسے ماء العنب، یہ مسمّٰی کو متغیر کردیتی ہے اور مطلق ماء کے نام سے مفہوم نہیں ہوتا ہے اھ میں کہتا ہوں یہ استدلال''اِنّی'' ہے اور ماء العنب سے مراد وہ پانی ہے جس میں انگور پڑے ہوئے ہوں کیونکہ یہی ماءِ مقید ہے وہ نہیں جونچوڑنے سے نکلے، کیو نکہ وہ تو پانی ہے ہی نہیں، جیسا کہ ہم نے ۲۰۷ کے حاشیہ میں ذکر کیا،یہ علامہ ابن کمال کے وہم کے برخلاف ہے پھر مجھے کفایہ میں یہی تصریح مل گئی، وہ فرماتے ہیں اس پانی سے وضو جائز نہیں جو نچوڑا گیا ہو کیونکہ وہ درحقیقت پانی نہیں ہے۔ پھر میں کہتا ہوں امام عینی نے تعریف وتقیید کا دارومدار تغیر وعدمِ تغیر پر رکھا ہے اور اس کی علت یہ بیان کی کہ وہ مطلق سے مفہوم ہوتا ہے یا نہیں، اور یہ تغیر مبہم سے زیادہ واضح ہے تو اولٰی یہ ہے کہ اسی پر دارومدار کیا جائے جیسا کہ اس سے قبل غایۃ البیان میں کیا ہے فرمایا اس کی اضافت کنویں کی طرف تعریف کیلئے ہے نہ کہ تقیید کیلئے کیونکہ وہ مطلق المأ سے مفہوم ہوجاتا ہے اھ اور تعجب ہے کہ عینی نے اس صحیح قول کو اختیار کیا، پھر دو۲ ورق بعد وہ پہلے مجروح قول کی طرف آگئے ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ شلبیہ مع تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۰)


بالجملہ اصح واحسن وہی تعریف اخیر مائے مطلق پر یہاں بھی حوالہ ہے کہ جس کی طرف مطلق آب کہنے سے افہام سبقت کریں اُس کی اضافت اضافتِ تعریف ہے ورنہ اضافتِ تقیید اقول یعنی جبکہ جنس آب حقیقی لغوی سے خارج نہ ہو ورنہ اضافتِ تقیید بھی نہیں مجاز ہے جیسے آبِ زر واللہ تعالٰی اعلم۔


فصل ثالث ضوابط جزئیہ متون وغیرہا۔


اقول وباللہ التوفیق اوّل چند مسائل اجماعیہ ذکر کریں کہ کوئی ضابطہ اُن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔

(۱) اجماعِ اُمّت ہے کہ پانی کے سوا کسی مائع سے وضو وغسل یعنی ازالہ نجاست حکمیہ نہیں ہوسکتا۔

(۲) اجماع ہے کہ وہ پانی مائے مطلق ہونا چاہئے مائے مقید سے وضو نہیں ہوسکتا سوائے نبیذتمر کے کہ سیدنا 

امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ابتدا نظر بحدیث اُس سے جواز کے قائل تھے پھر رجوع فرمائی اور اُس سے بھی عدم جواز پر اجماع منعقد ہوگیا الا مایذکرمن امام


(عـہ۱)الشام الاوزاعی رحمہ اللّٰہ تعالٰی من التجویز بکل نبیذ ان ثبت عنہ واللّٰہ تعالٰی اعلم  (مگر وہ جو امام اوزاعی رحمہ اللہ تعالٰی سے منقول ہے کہ ہر نبیذ سے وضو جائز ہے بشرطیکہ یہ روایت ان کی طرف درست منسوب ہو واللہ تعالٰی اعلم۔ ت)  (عـہ۱) وقال فی البنایۃ شذ الحسن بن صالح وجوز الوضوء بالخل وما جری مجراہ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

بنایہ میں ہے کہ حسن بن صالح نے شذوذکرتے ہوئے سرکہ اور اس قسم کی دوسری اشیاء سے وضو کو جائز قرار دیا ۱۲ منہ غفرلہ،۔ (ت)


 (۳) اجماع ہے کہ غسل بالفتح یعنی کسی عضو کے دھونے میں اُس پر پانی کا بہنا ضرور ہے صرف تر ہوجانا کافی نہیں کہ وہ مسح ہے اور حضرت عزت عزجلالہ، نے غسل ومسح دو۲ وظیفے جُدا رکھے ہیں


الاما(عـہ۲) حکی عن الامام الثانی رحمہ اللّٰہ وھو مؤول کما تقدم  (مگر وہ جو امام یوسف سے منقول ہے وہ مؤول ہے جیسا گزرچکا۔ ت) تو پانی کا اپنے سیلان پر باقی رہنا قطعاً لازم۔


 (عـہ۲) وقال فی البنایۃ التوضی بالثلج یجوز ان کان ذائبا یتقاطر والا فلاثم قال وفی مسألۃ الثلج اذاقطر قطرتان فصاعدا جاز اتفاقا والافعلی قولھما لایجوز وعلی قول ابی یوسف یجوز اھ


بنایہ میں ہے کہ برف سے وضو جائز ہے بشرطیکہ پگھل کر ٹپک رہا ہو ورنہ نہیں، پھر برف کے مسئلہ میں فرمایا جب اُس سے دو یا زائد قطرے ٹپکیں تو وضو جائز ہے اتفاقاً ورنہ طرفین کے قول پر جائز نہیں ہے اور ابو یوسف کے قول پر جائز ہے اھ


اقول: ماکان(۱)ینبغی ان یقال قولہ الموھم خلاف الواقع فانما ھی حکایۃ نادرۃ عنہ وقد قال قبلہ فی البنایۃ السیلان شرط فی ظاھر الروایۃ فلایجوز الوضوء مالم یتقاطر الماء وعن ابی یوسف انہ لیس بشرط اھ ثم الروایۃ مؤولۃ کما علمت ثمہ فلاینبغی(۱)ذکرھاالابتاویلھا کیلا یتجرأ جاھل علی مخالفۃ امر اللّٰہ تعالٰی متشبثابھا ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)


میں کہتا ہوں یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ ان کا وہم پیدا کرنے والا قول خلاف واقع ہے کیونکہ یہ تو ان سے ایک نادر حکایت ہے اور اس سے قبل وہ بنایہ میں فرماچکے ہیں کہ سیلان ظاہر روایت میں شرط ہے تو جب تک پانی کے قطرے نہ ٹپکیں وضو جائز نہیں،اور ابو یوسف سے ہے کہ سیلان شرط نہیں اھ یہ روایت مؤول ہے جیسا آپ نے جانا تو اس کو بلاتاویل ذکر کرنا درست نہیں تاکہ کوئی اس کو دیکھ کر اللہ تعالٰی کے حکم کی مخالفت کی

 جُرات نہ کر بیٹھے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

(۴) اجماع لغت وعرف وشرع ہے کہ دو۲ چیزوں سے مرکب میں حکم غالب کیلئے ہے وقد قدمناہ عن المحقق علی الاطلاق فی التعریف الخامس للماء المطلق  (اور ہم نے محقق علی الاطلاق سے مطلق پانی کی پانچویں تعریف میں اس کو پہلے ذکر کردیا ہے۔ ت) تو پانی میں جب اُس کا غیر اُس سے زائد مقدار میں مل جائے بحکمِ اجماع اوّل قابلِ وضو نہ رہے گا۔


 (۵) اجماع عقل ونقل ہے کہ تعارض موجب تساقط ہے اور اجتماع حاضر ومبیح میں حاضر غالب تو اگر دوسری چیز مساوی القدر بھی ملے گی قابلِ وضو نہ رکھے گی وقد(عـہ۱) تقدم فی ۲۶۲ (جیسا کہ ۲۶۲ میں گزرچکا۔ ت)


 (عـہ۱) تقدم ھناک قول الغنیۃ یضم الیہ التمیم عند المساواۃ اھ وماتعقبتھا بہ والاٰن رأیت فی البنایۃ حین ارسل الی نقل ھذا الباب منھا بعض اصحابی مانصہ حکی عن ابی طاھر الدباس انہ قال انما اختلف اجوبۃ(۲) ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لاختلاف الاسئلۃ فانہ سئل عن التوضوئ(۳) اذا کانت الغلبۃ للحلاوۃ قال یتمیم ولا یتوضو وسئل عنہ ایضا کان الماء والحلاوۃ سواء ولم یغلب احدھما علی الاٰخر قال یجمع بینھما وقال السغناقی وعلی ھذہ الطریقۃ لایختلف الحکم بین نبیذ التمر وسائرالانبذۃ وسئل عنہ ایضا اذا کانت الغلبۃ للماء فقال یتوضو بہ ولا یتیمم اھ۔

یہاں غنیہ کا قول گزر چکا ہے کہ اس کے ساتھ مساوات کے وقت تیمم کو بھی شامل کرلینا چاہئے اھ اور اس پر جو اعتراضات میں نے کئے ہیں وہ بنایہ میں بھی ہیں، میرے ایک دوست نے بنایہ کا یہ حصہ مجھے نقل کرکے بھیجا ہے اس میں ہے ابو طاہر الدباس سے منقول ہے کہ اس سلسلہ میں ابو حنیفہ کے جوابات کے مختلف ہونے کی وجہ سوالات کا اختلاف ہے اُن سے دریافت کیا گیا کہ مٹھاس کا غلبہ ہوتو کیا کریں تو فرمایا تمیم کرے وضو نہ کرے ان سے دریافت کیا گیا کہ جب پانی مٹھاس برابر ہو تو کیا کریں؟ فرمایا وضو اور تمیم دونوں کریں، سغناقی نے فرمایا اس انداز میں نبیذتمر اور دوسرے نبیذوں کا حکم مختلف نہ ہوگا، یہسوال کیا گیا کہ جب پانی کا غلبہ ہو تو کیا حکم ہے؟ فرمایا وضو کرلے اور تمیم نہ کرے۔


اقول: الحلاوۃ ان لم تبلغ مبلغا تجعلہ نبیذا کانت مغلوبۃ وان بلغت فقد غلبت ولا واسطۃ بینھما وایضا لامعنی التساوی الماء والحلاوۃ فان التساوی والتفاضل فی کمین متجانسین فوجب ان المراد المساواۃ فی الاحتمال ای لایغلب علی الظن احدطرفی صیر ورتہ نبیذا اوبقائہ ماء بل یحتملان علی السواء فالحاصل حصول الشک والتردد وبہ عبر غیرہ ففی التبیین والفتح عن خزانۃ الاکمل وفی الحلیۃ عنھا وعن غیرھا قال مشایخنا انما اختلفت اجوبتہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لاختلاف المسائل سئل مرۃ ان کان الماء غالبا قال یتوضو وسئل مرۃ ان کانت الحلاوۃ غالبۃ قال یتیمم ولا یتوضو وسئل مرۃ اذالم یدر ایھما الغالب قال یجمع بینھما اھ ھذا لفظ الفتح وقال بعدہ وعلی ھذایجب التفضیل فی الغسل ان کان النبیذ غالب الحلاوۃ قریبا من سلب الاسم لایغتسل بہ اوضدہ فیغتسل الحاقا بطریق الدلالۃ اومترددا فیہ یجمع بین الغسل والتیمم اھ۔


میں کہتا ہوں کہ مٹھاس اگر اس درجہ نہ ہو کہ پانی کو نبیذ بنادے تو مٹھاس مغلوب سمجھی جائے گی، اور اگر اس درجہ ہو تو غالب ہوگی اور ان دونوں میں کوئی واسطہ نہیں، نیز پانی اور مٹھاس کی مساوات کے کوئی معنٰی نہیں، کیونکہ تساوی اور تفاضل دو ہم جنس کمیتوں میں ہوتے ہیں، تو ضروری ہوا کہ یہ مساواۃ احتمال ہے یعنی اس کا نبیذ ہونا یا پانی رہنا، غالب گمان میں نہیں ہے بلکہ دونوں چیزوں میں برابر کا احتمال ہے، تو حاصل شک وتردد کا حصول ہے، اور ان کے غیر نے اس کی یہی تعبیر کی ہے۔ تبیین اور فتح میں خزانۃ الاکمل سے اور حلیہ میں خزانہ وغیرہا سے ہے کہ ہمارے مشایخ نے فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے جوابات کے مختلف ہونے کی وجہ سوالات کا اختلاف ہے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ اگر پانی غالب ہو، تو آپ نے فرمایا وضو کرے اور جب یہ پوچھا کہ اگر مٹھاس غالب ہو، تو جواب میں فرمایا کہ وضو اور تیمم دونوں کو جمع کرے اھ، یہ فتح کے الفاظ ہیں اور اس پر پھر یہ کہا اس بنا پر غُسل میں بھی ضرور تفصیل ہوگی کہ اگر نبیذ میں مٹھاس اتنی غالب ہوجائے کہ پانی کا نام اس پر نہ بولا جائے تو اس سے غسل نہ کیا جائے اور اگر اس کے خلاف ہو کہ مٹھاس مغلوب ہو اور اس کو پانی کہا جائے تو غسل کرے کیونکہ دلالت کے طور پر غسل کا حکم وضو سے ملحق قرار پائے گا اور اگر نبیذ میں غلبہ کے بارے میں تردّد ہو تو غسل اور تیمم کو جمع کرے اھ (ت)


اقول لاحاجۃ(۱)الی الالحاق مع بقاء الاطلاق اما الذین اختلفوا فی جواز الغسل بہ فصحح فی المبسوط الجواز وصحح فی المفید عدمہ لان الجنابۃ اغلظ کما ذکرہ فی الفتح بعدہ۔


میں کہتا ہوں کہ اطلاق کی موجودگی میں الحاق کی ضرورت نہیں، نبیذ سے غسل کے جواز کے بارے میں اختلاف کرنے والوں نے جیسا کہ مبسوط میں جواز کی صحت کی ہے اور مفید میں عدمِ جواز کو صحیح کہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جنابت زیادہ غلیظ ہے جیسا کہ بعد میں اسے فتح میں ذکر کیا ہے۔ (ت)


فاقول: کلامھم فی ماصار نبیذا وھو غیر ھذا التوفیق الانیق وعلیہ یضطر القائل بجواز الاغتسال بہ الی الحاقہ بالوضوء دلالۃ لاقیاسالان الجواز فی نبیذ التمر معدول بہ عن سنن القیاس وماکان کذا یجوز الالحاق بہ دلالۃ لاقیاسا اما علی ھذا التوفیق فلاشک ان الوضوء والغسل سیان فی جوازھما بالماء المطلق فلایجعل احدھما اصلا والاٰخر ملحقا بہ ھذا ومثلہ لفظ التبیین والحلیۃ اذالم یدرایھما الغالب فھذا فی المشکوک دون المخالط المساویقدرا فلیس فیہ مایمیل الی مافی الغنیۃ فتثبت وللہ الحمد۔


پس میں کہتا ہوں کہ ان کا کلام اس صورت میں ہے جب نبیذ بن جائے تو اس میں مذکورہ توفیق جاری نہ ہوگی لہٰذا غسل کے جواز کے قائل وضو کے ساتھ الحاق کرنے میں دلالت کے قول پر مجبور ہیں اور وہ قیاس کویہاں استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ نبیذتمر سے وضو کا جواز قیاس کے قاعدہ پر نہیں ہے، جو قیاس کے خلاف ہو تو اس سے الحاق بطور دلالت ہوسکتا ہے اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا پس اس طرح وضو اور غسل دونوں مطلق پانی سے جواز میں مساوی ہیں ایک کو اصل اور دوسرے کو ملحق نہیں قرار دیا جاسکتا، ہذا، تبیین اور حلیہ کے الفاظ بھی اسی طرح ہیں، تو جب دونوں میں سے کسی کا غلبہ معلوم نہ ہو، تو یہ مشکوک کی بات ہوئی مقدار کے اعتبار سے مساوی مخلوط کی بات نہیں ہے، یہاں غنیہ والی بات کی طرف میلان ثابت نہیں ہے۔


اقول: ونظیر(۱)ھذاالاختلاف عن الامام مافی الحدیث انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سئل عن تقبیل الصائم عرسہ فاجاز فسئل اخری فنھی فاذا الذی اباہ لہ شیخ والذی نھاہ عنہ شاب ۱۲ منہ غفرلہْ (م)


میں کہتا ہوں کہ اس کی نظیر وہ ہے جو حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصّلوٰۃ والسلام سے ایک بار یہ سوال ہوا کہ اگر روزے والا اپنی بیوی کا بوسہ لے تو کیا حکم ہے، تو جواب میں اجازت فرمائی۔ اور دوسری بار یہی سوال کیا گیا تو آپ نے منع فرمایا۔ تو اسی ایک سوال کے مختلف جوابات کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ روزے والا بوڑھا ہو تو جائز فرمایا اور اگر وہ جوان ہے تو منع فرمایا، اس طرح امام ابو حنیفہ نے نبیذ کے بارے میں مختلف قول فرمائے کیونکہ ہر جواب علیحدہ نقطہ سے متعلق ہے۔ (ت)


(۶) اجماع ائمہ حنیفہ ہے کہ قلیل مستہلک کا خلط مزیل اطلاق نہیں اگرچہ وہ قلیل جنس ارض سے نہ ہو، ہدایہ میں ہے:  الخلط القلیل لامعتبر بہ لعدم امکانالاحتراز عنہ کما فی اجزاء الارض ۱؎۔ پانی میں معمولی ملاوٹ کا اعتبار نہیں کیونکہ مٹّی کے اجزاء کی طرح ایسی ملاوٹ سے پانی کا محفوظ ہونا مشکل ہے۔ (ت)


 (۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء    مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


فتح القدیر میں ہے: قدرأیناہ یقال فی ماء المد والنیل حال غلبۃ لون الطین علیہ وتقع الاوراق فی الحیاض زمن الخریف فیمر الرفیقان ویقول احدھما للاٰخر ھنا ماء تعال نشرب نتوضأ فیطلقہ مع تغیر اوصافہ بانتقاعھا فظھرلنا من اللسان ان المخلوط المغلوب لایسلب الاطلاق فوجب ترتیب حکم المطلق علی الماء الذی ھو کذلک وقد اغتسل صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یوم الفتح من قصعۃ فیھا اثر العجین رواہ النسائی والماء بذلکیتغیر ولم یعتبر المغلوبیۃ ۱؎۔


مد اور نیل کے پانی میں مٹی کا رنگ غالب ہوتا ہے اور حوضوں میں موسم خزاں کے پتّے گرتے ہیں اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ دو ساتھی وہاں سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہتے ہیں یہ پانی ہے آؤ پئیں اور وضو کریں اسی کو مطلق پانی قرار دیتے ہیں حالانکہ ان چیزوں کے ملنے کی وجہ سے پانی کے اوصاف متغیر ہوچکے ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ملنے والی مغلوب چیز پانی کو اپنے اطلاق سے خارج نہیں کرتی لہٰذا ایسے پانی پر مطلق کا حکم مرتّب ہوگا نیز فتح مکّہ کے روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایسے پیالے سے وضو فرمایا جس میں آٹا لگا ہوا تھا، اس کو نسائی نے روایت کیا ہے اور پانی اس آٹے کی وجہ سے متغیر ہوتا ہے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی کچھ پروا نہ کی۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر،  باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ، مطبع عربیہ کراچی ۱/۶۴)


 (۷) اجماع عرف وشرع ہے کہ زوال اسم موجب زوال اطلاق ہے وقد تقدم فی تعاریف المطلق لاسیما التاسع (مطلق کی تعریفوں خصوصاً نویں تعریف میں گزر چکا ہے۔ ت) ولہٰذا نبیذ تمر سے وضو ناجائز ہونے پر اجماع ہوا اگرچہ پانی اپنی رقّت پر رہے وقد تقدم فی ۲۸۶ (۲۸۶ میں گزر چکا۔ ت)

(۸) اجماع ائمہ حنفیہ ہے کہ پانی کے اوصاف میں قلیل تغیر ما نع اطلاق نہیں وقد تقدم فی ۱۱۶ (۱۱۶ میں گزر چکا ہے۔ ت)

یہ آٹھ اجماع واجب بالاتباع ناقابل نزاع غیر صالح الاندفاع ہیں اور یہی بحمداللہ تعالٰی وہ معیار کامل ہے جو مائے مطلق کی تعریف رضوی میں گزرا وللہ الحمدیہ احکام منقحہ ہاتھ میں رکھ کر ضوابط کی طرف چلئے۔ 

ضابطہ ۱: کسی پھل یا پیڑ یا بیل یا پتّوں یا گھاس کے عرق یا عصارے سے وضو جائز نہیں۔ قدوری ہدایہ وقایہ نقایہ کنز اصلاح غرر نور الایضاح متون وغیرہا عامہ کتب میں ہے لایجوز بمااعتصر من شجر اوثمر ۲؎ (درخت اور پھل کے نچوڑے ہوئے پانی سے وضو جائز نہیں۔ ت) اور صحیح یہ کہ یہ حکم قاطر ومستقطر ومعتصر سب کو عام ہے کماتقدم فی ۲۰۵ (جیسا کہ بحث ۲۰۵ میں گزر چکا ہے۔ ت)


 (۲؎ نورالایضاح،  کتاب الطہارۃ ، مطبع علمیہ لاہور    ص۳)


اقول: ھو عندی من فروع الاجماع الاول حتی فی قاطر الکرم وقد تقدم فی حاشیۃ ۲۰۷۔ میں کہتا ہوں کہ یہ میرے نزدیک پہلے اجماع کے فروعات میں سے ہے حتی کہ انگور کے درخت سے نکلنے والے قطروں کو شامل ہے اور یہ بات بحث ۲۰۷ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ (ت)

ضابطہ ۲ تا ۴: مطہر پانی کے ناقابل وضو ہوجانے کیلئے متون معتمدہ میں تین سبب ارشاد ہوئے:

(۱) زوال طبع آب

(۲) غلبہ غیر

(۳) طبخ باغیر

اگرچہ بعض نے ایک سبب بیان کیا بعض نے دو بعض نے اجمالاً سب، اور ان سے تعبیر میں بھی عبارات

مختلف آئیں مگر عند التحقیق بتوفیق اللہ تعالٰی سب اُسی معیار کے دائرے میں ہیں عبارات میں یہ ہیں:


(۱) قدوری لایجوز بما غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء کماء الباقلی والمرق وماء الزردج ۱؎ (وضو جائز نہیں ہے اُس پانی سے جس پر کسی دوسری شے کا غلبہ ہوگیا ہو اور اس کو پانی کی طبیعت سے نکال دیا ہو، جیسے باقلی کا پانی اور زدج کا پانی۔ ت)


 (۱؎ قدوری    کتاب الطہارت    مطبع مجتبائی کان پور    ص۶ )


 (۲) بدایہ مثلہ وانما اخذ عنہ وان زاد بعض الامثلۃ ۲؎  (بدایہ میں اسی کی مثل ہے انہوں نے قدوری سے لیا ہے اگرچہ بعض مثالوں کا اضافہ کیا ہے۔ ت)


 (۲؎ بدایۃ المبتدی )


(۳) وقایہ ولابماء زال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء اوبالطبخ کماء الباقلی والمرق ۳؎  (وقایہ میں ہے اور نہ اس پانی سے جس پر غیر کا بصورت اجزاء یا پکانے کی وجہ سے غلبہ ہوگیا ہو جیسے باقلٰی کا پانی اور شوربہ۔ ت)


 (۳؎ شرح الوقایۃ    کتاب الطہارت    مطبع رشیدیہ دہلی    ۱/ ۸۵)


 (۴) نقایہ یتوضو بماء السماء والارض وان اختلط بہ طاھر الا اذا اخرجہ عن طبع الماء اوغیرہ طبخا وھو ممالایقصد بہ النظافۃ ۴؎  (نقایہ میں ہے آسمان اور زمین کے پانی سے وضو کرے اگرچہ اس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو، اِلّا یہ کہ اس کو پانی کی طبیعت سے خارج کردیا ہویا پکنے کی وجہ سے اس کو پانی کی طبیعت سے خارج کردیا ہو اور وہ غیر چیز ایسی نہ ہو جس سے نظافت مطلوب ہوتی ہے۔ ت)


 (۴؎ جامع الرموز     کتاب الطہارت       مطبع الاسلامیہ گنبد ایران     ۱/۴۵)


(۵ و ۶) کنزو وافی لابما تغیر بکثرۃ الاوراق اوبالطبخ اوغلب علیہ غیرہ اجزاء ۵؎  (کنزو وافی میں ہے اس پانی سے وضو جائز نہیں جو پتّوں کی کثرت یا پکنے یا غلبہ اجزأ کی وجہ سے بدل گیا ہو۔ ت)


 (۵؎ کنزالدقائق    میاہ الوضوء        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۱  )


 (۷) اصلاح لابماء زال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء اوتغیر بالطبخ معہ وھو مما لایقصد بہ النظافۃ ۶؎ (اصلاح میں ہے اس پانی سے وضو جائز نہیں جو اپنی طبیعت کھو بیٹھا ہو دوسرے کے اجزاء کے غلبہ سے یا پکنے کی وجہ سے اور وہ چیز ایسی ہو جس سے نظافت کا ارادہ نہ کیا جاتا ہو۔ ت)


 (۶؎ اصلاح)


(۸) ملتقٰی لابماء خرج عن طبعہ بکثرۃ الاوراق اوبغلبۃ غیرہ اوبالطبخ کماء الباقلاء والمرق ۱؎  (ملتقےٰ میں ہے اس پانی سے وضو جائز نہیں جو پتّوں کی کثرت یا غیر کے غلبہ یا پکانے کے سبب اپنی طبیعت کھو بیٹھا ہو جیسے باقلأ کا پانی اور شوربہ۔ ت)


 (۱؎ ملتقی الابحر        تجوز الطہارت بالماء المطلق    عامرہ مصر        ۱/ ۲۸)


(۹) غرر لابماء زال طبعہ بالطبخ کالمرق اوبغلبۃ غیرہ علیہ ۲؎  (غرر میں ہے جس پانی کی طبیعت زائل ہوچکی ہو اس سے وضو جائز نہیں خواہ پکنے کی وجہ سے یا غیر کے غلبہ کی وجہ سے۔ ت)


 (۲؎ غرر        فرض الغسل        دارالسعادۃ مصر    ۱/ ۲۳)


 (۱۰) تنویر لابماء مغلوب بطاھر ولا بمازال طبعہ بطبخ کمرق ۳؎  (تنویر میں ہے جو پانی کسی پاک چیز کے ملنے سے مغلوب ہوچکا ہو یا پکنے سے طبیعت کھو چکا ہو اس سے وضو جائز نہیں ہے۔ ت)


 (۳؎ تنویر الابصار    باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)


 (۱۱) نورالایضاح لابما زال طبعہ بالطبخ اوبغلبۃ غیرہ علیہ ۴؎ اھ  (نورالایضاح میں ہے جس پانی کی طبیعت پکنے یا غیر کے غلبہ کی بنا پر زائل ہوچکی ہو اس سے وضو جائز نہیں۔ ت)


اقول: وترکنا ماذکر بعدہ من تلخیص الضابطۃ الزیلعیۃ فان وضع(۱)المتون لنقل المذھب دون الابحاث الحادثۃ۔ میں کہتا ہوں انہوں نے اس کے بعد جو ضابطہ زیلعیہ کی تلخیص ذکر کی ہے ہم نے اسے ترک کردیا ہے کیونکہ متون کو مذہب نقل کرنے کے لئے وضع کیا ہے نئی ابحاث کیلئے نہیں۔ (ت)


 (۴؎ نورالایضاح    کتاب الطہارۃ    علمیہ لاہور        ص۳)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے