Music

header ads

رقّت وسیلان کا واضح بیان Riqqat wa Sailan Ka wazeh bayan

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط

رسالہ ضمنیہ

الدقۃ والتبیان لعلم الرقۃ والسیلان (۱۳۳۴ھ)

(پانی کی) رقّت وسیلان کا واضح بیان (ت)


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم


اب فقیر بتوفیق الملک القدیر عزجلالہ اسباب ثلثہ پر کلام اور  ہر  ایک کے متعلق ابحاث مہمہ ذکر کرے۔

زوال طبع اس میں چند ابحاث ہیں:


بحث اوّل معنی طبیعت۔

اقول: طبع آب سے مراد اس کا وہ وصف ہے کہ لازم ذات ومقتضائے ماہیت ہو جس کا ذات سے تخلف ممتنع ہو وقال السیدان ط و ش طبعہ ای وصفہ الذی خلق اللّٰہ تعالٰی علیہ ۱؎  (سید طحطاوی اور سید شامی نے فرمایا پانی کی طبیعت یعنی اس کا وہ وصف جس پر اللہ تعالٰی  نے پانی کو پیدا کیا ہے۔ ت)


 ( ۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۵)


اقول:ھذا(۱) یشمل اللون والطعم والریح ولم یعدھا احدمن الطبع ویلزمہ(۲) ان لایجوز الوضو ء بما انتن اوتغیر لونہ اوطعمہ بطول المکث مثلا لخروجہ اذن عن طبع الماء وھو خلاف اجماع من یعتدبہ وکذا(۳) یردہ اجماع اصحابنا المذکور فی ۱۱۶ الی غیر ذلک (عـہ) من الاستحالات۔


میں کہتا ہوں کہ یہ تعریف رنگ، ذائقہ اور بُو پر مشتمل ہے حالانکہ کسی نے ان چیزوں کو پانی کی طبیعت میں شمار نہیں کیا اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ ایسے پانی سے وضو جائز نہ ہو جو بدبودار ہوچکا ہو یا زیادہ دیر پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا رنگ اورذائقہ تبدیل ہوچکا ہو کیونکہ اس وجہ سے وہ پانی اپنی طبیعت سے خارج ہوچکا ہے حالانکہ یہ بات معتبر اجماع کے خلاف ہے اور یوں ہی یہ بات ہمارے اصحاب (احناف) کے اجماع جس کا ذکر بحث ۱۱۶ میں ہوچکا ہے، سے مردود ہے، اس قسم کے بہت سے استحالات لازم آئیں گے۔ (ت)


 (عـہ)منھاان لایجوزالوضوء بماء حار ولابارد ولو باثر ریح لانہ لم یبق علی وصفہ الذی خلق علیہ ونقول لایخلواان الماء بدوخلقہ حارا اوباردا اومعتدلا وایاما کان لم یجز الوضوء بالباقیین الا ان یقال ان المراد بالوصف الثلثۃ لاغیر فانھا ھی المتعارف فیما بینھم عنداطلاق اوصاف الماء ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

ان محالات میں سےایک یہ کہ لازم آئے گا کہ گرم یا ٹھنڈا پانی، خواہ ہوا سے سرد ہو،سے وضو جائز نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پانی اپنی اصلی طبیعت سے خارج ہوچکاہے کیونکہ اس وصف پر باقی نہ رہا جس پر اس کو پیداکیاگیا تھا یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پانی کی پیدائش گرم تھی یا سرد تھی یا معتدل تھی جو بھی قرار دی جائے تو دوسری دو صورتوں میں وضو جائز نہ ہو الّا یہ کہ یوں کہا جائے کہ پانی کی طبیعت صرف تین وصف رنگ، بُو اور ذائقہ ہیں اور کوئی وصف گرم، سرد وغیرہ معتبر نہیں ہے کیونکہ پانی کے یہی تین وصف متعارف ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کے جاوصاف کا جب ذکر ہوتا ہے تو یہی تینوں اوصاف متعارف ہوتے ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


بحث دوم : طبع آب کی تعیین،عامہ  علماء نے   اسے رقت(۱) وسیلان سے تفسیر کیا اور یہی صحیح ہے ایضاح وبحر و صدرالشریعۃ وشلبیہ ومجمع الانہر وامداد الفتاح وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے


ھو الرقۃ والسیلان ۱؎  (طبعِ آب رقت وسیلان ہے۔ ت)


(۱؎ شلبیہ علی التبیین کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)


اسی طرح فتح وغیرہ سے مستفاد یہی فروع میں بہت کلمات کا مفاد، کما یظھر بمراجعۃ ماتقدم واقتصر القھستانی و عبدالحلیم علی الرقۃ وعلیہ مشی فی الغنیۃ عندذکرالضابطۃ کمامر فی ۲۸۷ وتراہ مفادکلام الاکثرین فی الفروع اذا تذکرت ماسلف اقول وھو حسن وجیہ لماقدمناان الرقۃ تستلزم السیلان ومنھم من اقتصر علی السیلان کالزیلعی والحلیۃ جوالدرر فی ذکر الضابطۃ۔


جیساکہ گزشتہ بحثوں کے پیش نظر ظاہر ہوتا ہے قہستانی اور عبدالحلیم نے صرف رقت کو پانی کی طبیعت قرار دیاہے، غنیہ نے بھی ضابطہ کو ذکر کرتے ہوئے  اسی کو اپنایاہے جیسا کہ بحث ۲۸۷ میں گزرا، اور جب گزشتہ ابحاث کو تُو یاد کرے تو تجھے معلوم ہوگا کہ اکثر حضرات کے کلام کا ماحصل یہی ہے۔میں کہتا ہوں کہ یہی خوبصورت وجہ ہے کیونکہ ہم نے پہلے ذکر کیاہے کہ رقت سیلان کو مستلزم ہے، اور بعض حضرات نے صرف سیلان کو پانی کی طبیعت قرار دیا ہے جیسا کہ زیلعی اور حلیہ نے کہاہے اور درر نے اس کو ضابطہ میں ذکر کیا ہے۔ (ت)


اقول:یحمل علی السیلان المعھود من الماء فیستلزم الرقۃیدل علیہ قول الغنیۃ طبعہ سرعۃ السیلان ۲؎ اھ میں کہتا ہوں کہ اس قول کو پانی کے معینہ سیلان پر محمول کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ سیلان رقّت کو مستلزم ہے اس پر غنیہ کا یہ قول دلالت کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پانی کی طبیعت جلد بہنا ہے اھ


 ( ۲؎ غنیۃ المستملی    احکام المیاہ        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


فھذہ مسالک تؤل الی شیئ واحد لکن ثمہ مایخالفھا ففی الدر والدرر طبعہ السیلان والارواء والانبات ۳؎ اھ یہ تمام مسالک ایک ہی چیز کی طرف راجع ہیں مگر یہاں ان کے مخالف بھی قول ہے جیسا کہ دُر اور دُرر میں ہے کہ پانی کی طبیعت سیلان، سیرابی، اور اگانا ہے۔


 (۳؎ درمختار         باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۷)


ومثلہ فی چلپی علی صدرالشریعۃ واقتصرعلیہ الوانی فی حاشیۃ الدررمن الاخیرین علی الانبات قال نوح افندی ثم السید الازھری ثم ط ثم ش اقتصر علیہ لاستلزمہ الارواء دون العکس فان الاشربۃ تروی ولاتنبت ۱؎ اھ


اور صدرالشریعۃ کے حاشیہ پر چلپی میں بھی   اسی طرح ہے اور دُرر کے حاشیہ میں الوانی  نے صرف انبات (اگا نے) کو ہی لیا ہے، نوح آفندی پھر سید ازہری اور پھر طحطاوی اور شامی نے کہا ہے کہ الوانی نے اس لئے صرف انبات کو لیا ہے اور سیرابی کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ انبات کو سیرابی لازم ہے اور سیرابی کو انبات لازم نہیں ہے کیونکہ شربت سیراب تو کرتے ہیں لیکن انبات نہیں کرتے اھ


 ( ۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۱۴۵)


وفی الجوھرۃ طبعہ الرقۃ والسیلان وت  سکےن العطش ۲؎ اھ اور جوہرہ میں ہے کہ پانی کی طبیعت رقّت، سیلان اور پیاس بجھانا ہے اھ


 (۲؎ الجوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارۃ    امدادیہ ملتان        ۱/۱۴)


وفی خزانۃ المفتین عن الاختیار شرح المختار طبع الماء کونہ سیالا مرطبامسکنا للعطش ۳؎ اھ اور خزانۃ المفتین میں الاختیار شرح المختار سےمنقول ہے کہ پانی کی طبیعت سیال تَر کرنا اور پیاس بجھانا ہے اھ


 (۳؎ اختیار شرح مختار    یجوز الطہارۃ فی الماء    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴)


وفی مراقی الفلاح طبعہ ھو الرقۃ والسیلان والار واء والانبات ۴؎ اھ اور مراقی الفلاح میں ہےکہ پانی کی طبیعت رقت، سیلان، سیراب کرنا اور اگانا ہے اھ۔


 ( ۴؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ    الامیریہ مصر        ص۱۵)


قال السید ط فی حاشیتہ الرقۃ والسیلان اقتصر علیھما فی الشرح (عـہ ) وھو الظاھر لان الاخیرین لایکونان فی ماء البحر الملح ۱؎ اھ سید طحطاوی  نے اس کے حاشیہ میں فرمایا کہ انہوں نے شرح میں صرف رقّت اور سیلان کو ہی ذکر کیاہے کیونکہ ظاہر یہی ہے اس لئے کہ آخری دونوں یعنی سیراب کرنا اور انبات (اگانا)سمندر کے نمکین پانی میں نہیں پائے جاتے ا ھ کیونکہ آخری دو وصف سمندری پانی میں نہیں ہوتے اھ


 ( ۱؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارت    نور محمد کارخانہ تجارت کراچی ص۱۵)


 (عـہ)اقول ومن(۱) العجب اقتصار البنایۃ علی الارواء اذقال طبع الماء کونہ مرویا لانہ یقطع العطش قال وقیل قوۃ نفوذہ ۵؎ اھ

اقول: تعجب ہے کہ بنایہ  نے صرف سیرابی پر اکتفا کیاہے جہاں انہوں نے کہا ہے کہ پانی کی طبیعت سیراب کرنا ہے کیونکہ اس سےپیاس بجھتی ہے اور انہوں نے کہاکہ بعض  نے پانی کو قوتِ سرایت کو کہا ہے اھ


 (۵؎البنایۃ     باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء    المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمہ     ۱/۱۸۸)


قول: ھذا ھو قضیۃ رقتہ وسیلانہ فالعجب(۲) تزییف ھذا واختیار طبع لاتعلق لہ بماھنا قال وقیل کونہ غیر متلون ۶؎ اھ میں کہتا ہوں کہ یہ تو پانی کی رقت اور سیلان کا معاملہ ہے، اس کو کمزور بنانااور ایسی چیز کو طبیعت بتانا جس کا یہاں کوئی تعلق نہیں ہے تعجب انگیز بات ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض  نے پانی کی طبیعت غیر متلون (بے رنگ) ہونا بتایا ہے اھ


 ( ۶؎البنایۃ     باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء    المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمہ     ۱/۱۸۸)


اقول: ھذا خلاف المشھود والمشہور ودوار(۳) فی الکتب ذکر لون الماء وقد(۴) جاء فی مرسل صحیح رواہ الامام الطحاوی عن راشد ابن سعد عن سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم الماء لاینجسہ شیئ الا ماغلب علی ریحہ اوطعمہ اولونہ ۳؎ میں کہتا ہوں کہ یہ بات مشاہدہ اور شہرت دونوں کے خلاف ہے اور کتب میں پانی کے رنگ کا باربار ذکر ہے امام طحاوی  نے صحیح مرسل کے طور پر راشد بن سعد سےروایت کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے فرمایاکہ پانی کو ناپاک کر نے والی کوئی چیز نہیں ماسوائے اس کے جو اس کے ذائقہ، بُو اور رنگ پر غالب ہوجائے


 ( ۳؎شرح معانی الآثار،    کتاب الطہارۃ     ۱/۱۹)


وھو فی ابن ماجۃ موصولا من حدیث راشد بن سعد عن ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان الماء طھور ولا ینجسہ الا ماغلب علی ریحہ وطعمہ ولونہ ۴؎ اور یہ حدیث ابن ماجہ میں موصولاً راشد بن سعد  نے ابی امامہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے فرمایا کہ پانی پاک کرتا ہے اس کو ناپاک کر نے والی صرف یہی صورت ہے کہ جب کوئی چیز اس کی بُو، ذائقہ اور رنگ پر غلبہ پالے۔


 (۴؎سنن ابن ماجہ     ابواب الطہارۃ    ص۴۰)


قال وقیل مایبقی لہ اثر الغلیان ۵؎  (انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض  نے کہاکہ پانی کی طبیعت یہ ہے کہ اس میں اُبلنے کی صلاحیت باقی ہو)


 (۵؎البنایۃ     ۱/۱۸۸ )


والاخراج علی طبعہ ان لایبقی لہ اثر الغلیان اھ کذا وھو فی نسخۃ سقیمۃ جدا ولعلہ مایقبل ای طبعہ ان یرتفع وینخفض عندالاغلاء اقول وھو ایضا من اثر الرقۃ والسیلان واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م) اور اس کو طبیعت سےخارج کر نے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں ابلنے کا اثر باقی نہ رہے اھ کمزور ترین نسخے میں ایسےہی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ پانی کی طبیعت یہ ہے کہ اُبالنے میں وہ بلند وپست ہوسکے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بھی رقت وسیلان کا اثر ہے واللہ اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


وبہ تُعقب علی الدرر فاجاب الوانی ثم السادۃ ابو سعود و ط و ش ان فی طبعہ انباتاالا ان عدم انباتہ لعارض کالماء الحار ۲؎ اھ اور اس سےدرر پر تعقیب کی گئی ہے، تو اس کا جواب الوانی، ابو السعود، ط اور ش  نے یہ دیا کہ اس کی طبیعت میں انبات ہے مگر اس کا عدمِ انبات کسی عارض کی وجہ سےہے، جیسےگرم پانی میں ہوتا ہے اھ


 (۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ مصطفی      البابی مصر۱/۱۴۵)

وردہ الخادمی بان ماء البحر لم یزل عن طبعہ بعارض کالماء الحار بل عند تخلیتہ علی طبعہ شأنہ عدم الانبات ۱؎ اھ اور اس کو خادمی  نے رد کیا کہ گرم پانی کی طرح سمندری پانی اپنی طبیعت سےزائل نہیں ہوا ہے کسی عارض کی وجہ سے، بلکہ اگر اس کو اس کی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تب بھی اس میں عدمِ انبات ہے اھ (ت)


 (۱؎ درر شرح غرر للخادمی    کتاب الطہارت     مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۲۱)


اقول وھذاوجیہ فان الاصل عدم العارض وان کان لایتم الاستدلال علیہ بقولہ عزوجل وھو الذی مرج البحرین ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینھمابرزخا وحجرا محجورا ۲؎،


میں کہتا ہوں یہ بات مدلل ہے کہ اصل عارض کا نہ ہونا ہے اگرچہ اس پر استدلال اللہ تعالٰی کے قول وھو الذی مرج البحرین ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینھما برزخا وحجرا محجوراسےتام نہیں ہوتا،


 (۲؎ القرآن     ۵۳/۲۵ )


فان المرج ھوالخلط والارسال ولایلزم ان یکون فی بدء خلقھما بل بعد تغیر احدھما بعارض واللّٰہ تعالٰی اعلم فلواکتفی الخادمی بھذا کان رداعلی دعوی ان الثلثۃ من طبع الماء لکنہ اراد قبلہ النقض علی قاعدۃ المتن فی منع الوضوء فانعکس علیہ الامر اذردد فبددفقال ان ارید المجموع من حیث ھو مجموع فیرد بماء البحر اذلیس فیہ ارواء وانبات وان ارید واحد منھا فبنحوماء البطیخ اذفیہ ارواء ولم یجز بہ الوضوء ۳؎ اھ


کیونکہ مرج کے معنی ملانے اور چھوڑ نے کے ہیں،اور یہ لازم نہیں کہ یہ صورت ان کی ابتداء تخلیق میں ہو،بلکہ ان میں سےکسی ایک کو عارض کی وجہ سےمتغیر ہو نے کے باعث ہو واللہ تعالٰی اعلم، تو اگر خادمی   اسی پر اکتفا کرلیتے تو یہ اس دعویٰ کا رد ہوجاتا  کہ یہ تینوں چیزیں پانی کی طبیعت ہیں، لیکن انہوں نے اس سےقبل نقض کا ارادہ کیا وضو کے ناجائز ہو نے کے بارہ میں متن کے قاعدہ پر، لیکن معاملہ اُلٹ ہوگیا،اس لئے کہ انہوں نے تردید کی اور تفریق کی، پس فرمایا اگر تینوں کا من حیث المجموع کا ارادہ کیاجائے تو اس کا رد سمندر کی پانی سےکیا جائےگا،کہ اس میں نہ اگانا ہے اور نہ زرخیزی،(حالانکہ اس سےوضو جائز ہے) اور اگر ان میں سےایک کا ارادہ کیا جائے تو تربوز کے پانی وغیرہ سےرد ہوگا کہ اس میں سیراب کرنا ہے لیکن اس سےوضو جائز نہیں اھ (ت)


 (۳؎ درر شرح غرر للخادمی    کتاب الطہارۃ    مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۲۱)


اقول: انما(۱) قاعدۃ المتن ماتقدم نقلہ من قولہ لابماء زال طبعہ الخ فان ارید المجموع لم یرد ماء البحر اذلم یزل منہ الکل لبقاء السیلان وان ارید واحد منھالم یرد ماء البطیخ لانہ قدزال منہ الانبات ھذا ان ارید بہ ماخالطہ ولو اراد مایستخرج منہ خرج رأسا بقولہ ماء فکان علیہ ان یعکس فیقول ان ارید الکل یرد ماء البطیخ لبقاء اثنین السیلان والارواء وان ارید واحد منھا یرد ماء البحر لزوال اثنین الانبات والارواء نعم لوکانت عبارۃ المتن یجوز بماء بقی علی طبعہ کان النقض کماذکر۔


میں کہتا ہوں متن کا قاعدہ وہ ہے جو منقول ہوا، ان کے قول لابماء زال طبعہ الخ میں،اور اگر مجموع کا ارادہ کیا جائے تو سمندری پانی سےاعتراض نہ ہوگا کہ اس کے تمام اوصاف زائل نہیں ہوئے ہیں کیونکہ اس میں سیلان باقی ہے،اور اگر ان میں سےایک کا ارادہ کیا جائے تو تربوز کے پانی سےاعتراض نہ ہوگاکیونکہ اس میں ایک وصف انبات زائل ہوا ہے یہ تقریر اس صورت میں کہ جب تربوز کا مخلوط مادہ مراد لیا جائے اور اگر اس سےخارج کیا ہوا پانی مراد لیا جائے توپھرتقریراس کے  برعکس ہوگی اوریوں کہاجائے گاکہ اگر تینوں امور کا مجموعہ مراد ہو تو پھر تربوز کے پانی سےاعتراض وارد ہوگا کیونکہ اس سےتینوں کا زوال نہیں ہے بلکہ اس میں سیلان اور سیرابی باقی ہے اور اگر تینوں میں سےکسی ایک کو طبیعت قرار دیا جائے تو سمندری پانی سےاعتراض ہوگا کہ اس کے دو وصف زائل ہوئے ہیں، اگانا اور سیراب کرنا، ہاں اگر متن کی عبارت یوں ہوتی کہ وضو جائز ہے اس پانی سےجو اپنی طبیعت پر باقی ہو تو نقض وہ ہوتا جو ذکر کیا۔ (ت)


فان قلت لم لایقال انہ صرف الکلام من المنطوق الی المفھوم ولاشک ان المفھوم منہ ھو ھذا ای الجواز بما بقی علی طبعہ ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کلام کو منطوق سےمفہوم کی طرف پھیر دیا ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس کا مفہوم یہی ہے، یعنی جو پانی اپنی طبیعت پر باقی ہو اس سےوضو جائز ہے۔ (ت)


اقول: لیس ھذا مفھومہ بل مفھومہ الجواز بمالم یزل طبعہ فیبقی التعکیس کما کان لانہ اذا ارید بالطبع المجموع کان المعنی یجوز بمالم یزل عنہ الکل فلا یردماء البحر لبقاء السیلان فیہ واذا ارید واحد کان المعنی یجوز بمالم یزل عنہ شیئ اصلا فلایرد ماء البطیخ لزوال الانبات بخلاف قولک یجوز بمابقی علی طبعہ فانہ لوارید الکل کان الجواز منوطا ببقاء الکل فیرد ماء البحر اوالبعض فماء البطیخ ھذا وقال العلامۃ البرجندی المراد طبع جنس الماء وھو الرقۃ والسیلان کذا قیل وفی الخزانۃ طبع الماء کونہ سیالا مرطبا مسکنا للعطش ولایخفی ان ماء بعض من الفواکہ کذلک فلو اختلط بالماء وغلبہ ینبغی ان یجوز التوضی منہ ولیس کذلک ۱؎۔


میں کہتا ہوں یہ اس کا مفہوم نہیں،بلکہ اس کا مفہوم اس پانی سےوضو کا جواز ہے جس کی طبیعت ختم نہ ہوئے ہو، تو تعکیس ایسی ہی رہے گی، کیونکہ جب طبیعت سےمجموعہ کا ارادہ کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے وضو جائز ہے اس پانی سےجس سےکل زائل نہ ہوں، تو سمندری پانی سےاس پر اعتراض وارد نہ ہوگا کیونکہ اس میں سیلان کا وصف باقی ہے اور جب ایک کا ارادہ کیا جائے تو معنی یہ ہوں گی وضو جائز ہے اُس پا نی سےجس سےکچھ زائل نہ ہوا ہو، تو بِطیخ کے پانی سےاعتراض وارد نہ ہوگاکہ اس سےایک انبات کا وصف زائل ہے بخلاف آپ کے اس قول کے ''وضو جائز ہے اس پانی سےجو اپنی طبیعت پر باقی ہو'' کیونکہ اگر کل کا ارادہ کیا جائے تو جواز کا دارومدار کل کے باقی رہنے پر ہوگا تو سمندری پانی پر اعتراض وارد ہوگا اگر بعض کا ارادہ کیا جائے تو بطیخ کے پانی سےاعتراض ہوگا۔ اس کو یادرکھو۔ علامہ برجندی  نے فرمایا مراد جنس پانی کی طبیعت ہے اور وہ رقت وسیلان ہے، اسی طرح کہاگیا ہے،اور خزانہ میں ہے پانی کی طبیعت اس کا سیال ہونا، تر کر نے والا ہونا، پیاس کے لئے ت  سکےن بخش ہونا ہے اور مخفی نہ رہے کہ بعض پھلوں کا پانی ایسا ہی ہوتا ہے تو اگر وہ پانی میں مل جائے اور غالب ہوجائے تو چاہئے کہ اُس سےوضو جائز ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے اھ (ت)


 (۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    ابحاث الماء    نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۱)


اقول:  ان(۱)خص الایرادبعبارۃ الخزانۃ کماھوظاھرسیاقہ فلاوجہ لہ لورودہ علی الاول ایضاسواء بسواء فان ماء بعض الفواکہ لایسلبہ الرقۃ ایضاکمالایسلبہ الارواء وان عممھما فلاوجہ لہ فان اعتبار الرقۃ مجمع علیہ وقد مشی ھوایضاعلیہ فی ضابطتہ التی وضعھاکما سیأتی فی الفصل الاٰتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی فاذن کان ینبغی الاخذ علی المتن فانہ لم یستثن فی خلط الطاھرالامااخرج الماء عن طبعہ اوغیرہ طبخاولیس فی خلط ھذاالماء شیئ من ذلک فان ارادالردعلی المتن فلاوجہ لہ فانہ قال وان اختلط بہ طاھر والعرف قاض انہ لایقال الا اذاکان الماء اکثر لان(۱)الخلط لایضاف الا الی المغلوب ففی مزج الماء والحلیب ان کان اللبن اکثر یقال لبن فیہ ماء اوالماء فماء خالطہ لبن وقدنبہ علیہ فی مجمع الانہر اذقال الخل مثلا اذا اختلط بالماء والماء مغلوب یقال خل مخلوط بالماء لاماء مخلوط بالخل ۱؎ اھ فلایشمل مااذاغلب علی الماء ماء الفاکھۃ وبالجملۃ لااری لھذا الایراد محلا ومحملا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں اگر اعتراض بطور خاص خزانہ کی عبارت پر ہے جیسا کہ سیاق سےظاہر ہے تو اس کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ وہ اول پر بھی برابر سےوارد ہے کیونکہ بعض پھلوں کے پانی سےرقت سلب نہیں ہوتی جیسےاس سےسیرابی سلب نہیں ہوتی اور اگر وہ دونوں کو عام ہے تو اِس کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ رقت کا اعتبار اجماعی ہے اور وہ بھی اپنے ضابطہ میں اسی پرچلے  ہیں جیسا کہ اِن شاء اللہ تعالٰی آیندہ فصل میں آئے گا، تو اس صورت میں متن پر اعتراض کرنا چاہئے تھا، کیونکہ انہوں نے پاک کے ملنے میں صرف اُس کا وضو کے جواز سےاستثناء کیا ہے جو پانی کو اس کی طبیعت سےخارج کردے، یا پکنے کی وجہ سےاس کو تبدیل کردے اور اِس پھل کے پانی کی ملاوٹ میں اُن میں سےکوئی چیز نہیں ہے، تو اگر متن پر رد کا ارادہ کیا ہے تو اِس کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے ''اور اگر اس کے ساتھ کوئی طاہر چیز مل جائے'' اور عرف فیصلہ کر نے والا ہے کہ یہ بات اُسی وقت کہی جائے گی جبکہ پانی زائد ہو کیونکہ خلط مغلوب ہی کی طرف مضاف ہوتی ہے، تو پانی اور دودھ کے ملانے میں اگر دودھ زائد ہو تو کہا جاتا ہے یہ دودھ ہے جس میں پانی ہے، یا پانی زائد ہے تو کہا جائےگا یہ پانی ہے جس میں دودھ ملا ہوا ہے، اس پر مجمع الانہر میں تنبیہ کی ہے اور فرمایا کہ مثلاً سرکہ جب پانی میں مل جائے اور پانی مغلوب ہو تو کہا جاتا ہے سرکہ میں پانی مخلوط ہے یہ نہیں کہتے کہ پانی میں سرکہ ملا ہوا ہے اھ، تو یہ اس صورت کو شامل نہیں جبکہ پھلوں کے پانی پر پانی کا غلبہ ہوجائے، اور خلاصہ یہ کہ میں اس اعتراض کا نہ محل پاتا ہوں اور نہ محمل، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ مجمع الانہر    تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبع عامرہ مصر    ۱/۲۸)


ثم اقول: الذی یظھرلی ان الزائدین علی الرقۃ والسیلان انماارادوا بیان طبع الماء فی نفسہ لاطبع لولاہ لم یجز الوضوء کیف وھم قاطبۃ اذااتواعلی الفروع لایبنون الا مرالا علی الرقۃ والسیلان ولن تری احدا منھم یقول ان لم ینبت اویرو لم یجزبہ الوضوء فانجلی الامروا نقشع الستروللّٰہ الحمد۔


پھر میں کہتا ہوں کہ جو لوگ پانی کی طبیعت میں رقت اور سیلان پر دو چیزوں کی زیادتی کا قول کرتے  ہیں وہ فی نفسہٖ پانی کی طبیعت کا ارادہ کرتے  ہیں نہ کہ اُس طبیعت کا کہ اگر وہ نہ ہو تو وضو جائز نہ ہو، اور یہ کیسےہوسکتا ہے کہ جب وہ فروع کے بیان پر آتے  ہیں تو معاملہ کو رقت وسیلان پر ہی مبنی کرتے  ہیں، اور ان میں سےکوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ اگر پانی میں اُگانی اور سیراب کر نے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس سےوضو جائز نہ ہوگا، اس سےمعاملہ صاف ہوگیا وللہ الحمد (ت)


بحث سوم معنی رقّت وسیلان کی تحقیق اور اُن کا فرق۔


قال العلامۃ الشرنبلالی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی نورالایضاح وشرحہ مراقی الفلاح  (الغلبۃ فی الجامد باخراج الماء عن رقتہ) فلاینعصرعن الثوب (وسیلانہ)فلا یسیل علی الاعضاء سیلان الماء ۱؎ اھ علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ تعالٰی  نے نورالایضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں کہا (جامد میں غلبہ کا تحقق پانی کو اُس کی رقّت سےخارج کر نے پر ہے) پس وہ کپڑے میں سےنچوڑا نہ  جاسکے گا (اور اس کا سیلان) سےاخراج یہ کہ وہ اعضاء پر پانی کی طرح بَہہ نہ   سکے گا اھ (ت)


 (۱؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ        الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۵)


اقول: اولا لایخفی(۱)علیک ان الانعصارمن الثوب اخص تحققامن السیلان فلاینعصر الا مایسیل ولایجب انعصار کل سائل کالدھن والزیت والسمن واللبن والعسل کل ذلک یسیل لانھا من المائعات وما المیع الا السیلان اواخص قال فی القاموس ماع الشیئ یمیع جری علی وجہ الارض منبسطا فی ھینۃ ۲؎


میں اوّلاً کہتا ہوں کہ سیلان کی نسبت کپڑے سےنچوڑا جانا تحقق   کے اعتبار سےاخص ہے تو وہی نچوڑا جاسکتا ہے جو بہتا ہو، اور ہر بہنے والی چیز کا نچوڑا جانا لازم نہیں، جیسےتیل، گھی، دودھ اور شہد، یہ سب بہنی والی چیزیں  ہیں کیونکہ یہ مائع  ہیں اور مائع کا مطلب ہی بہنی والی چیز ہے یا مائع سیلان سےاخص ہے، قاموس میں ہے ماع الشیئ یمیع زمین پر   کسی چیز کا پھیل کر بہنا۔


 (۲؎ قاموس المحیط    فصل المیم والنون، باب العین    مصطفی البابی مصر    ۳/۸۹)


قال فی تاج العروس کالماء والدم ۱؎ تاج العروس میں ہے جیسےپانی اور خون۔


 (۱؎ تاج العروس    فصل المیم من باب العین    مطبوعہ احیاء التراث العربی مصر    ۵/۵۱۶)


وفی القاموس سال یسیل سیلا وسیلانا جری ۲؎ اھ اور قاموس میں ہے سال یسیل سیلا وسیلانا، جاری ہوا اھ


 (۲؎ قاموس المحیط    فصل السین والشین واللام    مصطفی البابی مصر        ۴/۴۱۰)


ولیس شیئ منھا ینعصر ولذا(۱)لم یجز تطہیر النجاسۃ الحقیقیۃ بھا قال فی الھدایۃ یجوز تطھیرھابالماء وبکل مائع طاھر یمکن ازالتھابہ کالخل وماء الورد ونحوہ مما اذا عصرانعصر۳؎


اور ان میں سے  کسی چیز کو نچوڑا نہیں جاتا ہے اور اسی لئے نجاست حقیقیہ کو اِن سےپاک کرنا جائز نہیں۔ ہدایہ میں فرمایا اس کا پاک کرنا پانی اور ہر مائع سےجائز ہے جو خود پاک ہو،اور نجاست کا اُس سےزائل کرنا بھی ممکن ہو، جیسےسرکہ گلاب کا پانی وغیرہ، یعنی وہ چیزیں جو نچوڑے جا نے سےنچوڑی  جاسکیں،


قال المحقق فی الفتح قولہ اذاعصر انعصر یخرج الدھن والزیت واللبن والسمن بخلاف(۲)الخل وماء الباقلاء الذی لم یثخن ۴؎ اھ


 (۳؎ ہدایۃ  باب الانجاس وتطہیرہا   مکتبہ عربیہ کراچی   ۱/۵۴)


محقق  نے فتح میں فرمایا ''ان کا قول جب نچوڑا جائے تو نچڑ جائے، سےتیل، روغن زیتون، دُودھ اور گھی خارج ہوجاتے  ہیں بخلاف سرکہ اور باقلاء   کے پانی   کے جو گاڑھا نہ ہو اھ


 (۴؎ فتح القدیر باب الانجاس وتطہیرہامکتبہ نوریہ رضویہ سکھر  ۱/۱۷۰)


وفی المنیۃ ان غسل بالعسل اوالسمن اوالدھن لایجوز لانھا لاتنعصر بالعصر ۵؎ اور منیہ میں ہے کہ اگر شہد سےدھویا جائے یا گھی سےیا تیل سےتو جائز نہیں، کیونکہ یہ نچوڑے جا نے سےنہیں نچڑتے  ہیں،


 (۵؎ منیۃ المصلی    فصل فی المیاہ        مکتبہ عزیزیہ کشمیری بازار لاہور    ص۱۸)


قال فی الحلیۃ لان لھذہ الاشیاء لصوقابالمحل وایضا فی العسل من غلظ القوام مایمنع من المد اخلۃ فی الثوب ۶؎ اھ حلیہ میں فرمایا اس لئے کہ یہ چیزیں اپنے محل سےچپکی ہوئی ہوتی  ہیں اور شہد کی قوام کی سختی اس کو کپڑے میں داخل ہو نے سےمنع کرتی ہے اھ


 (۶؎ حلیۃ)

وفی مراقی الفلاح لاتطھر بدھن لعدم خروجہ بنفسہ ۷؎ اور مراقی الفلاح میں ہے تیل سےپاک نہ ہوگا کیونکہ وہ خود نہیں نکلتا ہے


 (۷؎ مراقی الفلاح     باب الانجاس والطہارۃ        مطبعۃ ازہریہ مصر        ص۹۳)


قال ط فی حاشیتہ ای فکیف یخرج النجاسۃ ۸؎ وقد تقدم فی ۲۸۶ ان ھذا یوھم بقاء الاطلاق مع انتفاء الرقۃ اذالم یسلب السیلان ولیس کذلک۔ "ط"  نے اس   کے حاشیہ میں فرمایا تو نجاست کیسےنکالے گا۔ اور ۲۸۶ میں گزرا کہ یہ پانی   کے اطلاق کو باقی رہنے کا وہم پیدا کرتا ہے جبکہ رقت منتفی ہو اور سیلان باقی ہو حالانکہ ایسا نہیں۔(ت)


 (۸؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح    باب الانجاس والطہارۃ        مطبعۃ ازہریہ مصر        ص۹۳)


فان قلت انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی تدارکہ فی الشرح بتقیید السیلان بسیلان کالماء وظاھر ان المراد بہ الماء الصافی الذی لم یخالطہ شیئ ولم یتغیرعن صفتہ الاصلیۃ ولا تسیل تلک المائعات مثلہ لکونہ ارق اماالذی یسیل کسیلانہ فلابد ان ینعصرکانعصارہ فان کان کل منعصر یسیل کالماء تساوی الرقۃ وھذاالسیلان والا کانت الرقۃ اعم وعلی کل لایلزم المحذورفانہ کلماانتفت انتفی،غایتہ ان یبقی ذکر السیلان مستدرکاعلی تقدیر خصوصہ اما علی التساوی فلاغروفی جمع المتساویین تاکیدا۔


اگریہ اعتراض کیا جائے کہ انہوں نے شرح میں اس کا تدارک اس طرح کیا ہے کہ سیلان کو مقید کیا ہے اُس سیلان سےجو پانی   کی طرح ہو اور ظاہر ہے کہ اس سےمراد صاف پانی ہے جس میں کوئی چیز ملی نہ ہو اور وہ اپنی اصلی صفت سےمتغیر نہ ہوا ہو اوریہ مائعات اس کی طرح نہیں بہتے کیونکہ پانی زیادہ پتلا ہے، بہرحال وہ چیز جو پانی کی طرح بہے تو ضروری ہے کہ وہ پانی کی طرح نُچڑے تو اگر ہر نچڑ نے والی چیز پانی کی طرح بہتی ہو تورقت اور یہ سیلان مساوی ہوجائیں گی ورنہ تو رقت اعم ہوگی اور ہر صورت میں کوئی محذور لازم نہ آئے گا، کیونکہ جب رقت منتفی ہوگی تو سیلان منتفی ہوگا، نتیجہ یہ کہ سیلان کا ذکر مستدرک ہوگا، برتقدیر اُس   کے خاص ہونے کے اور تساوی کی شکل میں تو متساویین   کے جمع ہونی میں کوئی حرج نہیں تاکیدا۔ (ت)


اقول فیہ(عہ۱)نظر بالنسبۃ الی بعض الالبان بل لبن المعزربمایکون ارق من بعض المیاہ وعلی التسلیم لانسلم ان کل ماسال کالماء ینعصر لجواز ان یکون فیہ مایمنعہ من الانعصار دون السیل کالدسم فان کان کل منعصر سائلا مثلا عادت الرقۃ اخص مطلقا والا فمن وجہ وعلی کل عاد المحذور۔


میں کہتا ہوں دودھ   کے بعض اقسام   کے اعتبار سےاس میں اعتراض ہے، بلکہ بکری کا دودھ بعض پانیوں   کے اعتبار سےزائد رقیق ہوتا ہے اگر مان بھی لیا جائے تو ہم یہ نہیں مانتے کہ ہر وہ چیز جو پانی کی طرح بہتی ہو وہ نچڑتی بھی ہو کیونکہ یہ جائز ہے کہ اس میں کوئی ایسی چیز ہو جو اس   کے نچڑ نے سےمانع ہو نہ کہ بہنے سےجیسےچکناہٹ، تو اگر ہر نچڑ نے والی چیز اس کی طرح بہنے والی ہو تو رقت اخص مطلق ہوجائے گی ورنہ من وجہ ہوگی اور بہرصورت محذور لوٹ آئےگا۔


 (عہ۱) فان قلت الیس ھذا عین ماقدمت انفا فی البحث الاول فی تبیین کلام التبیین وغیرہ اواقتصروا علی السیلان فقلت یحمل علی السیلان المعھود من الماء فیستلزم الرقۃ اقول نعم شتان ماھما فالسیل کمسیل الماء یستلزم الرقۃ بالمعنی الذی حققت لا الانعصار کالالبان ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اگر آپ اعتراض کریں کہ کیا یہ بیان آپ   کے اس بیان   کے عین مطابق نہیں ہے جو ابھی آپ  نے تبیین وغیرہ   کے کلام   کی وضاحت کرتے ہوئے پہلی بحث میں فرمایا کہ ''انہوں نے صرف سیلان کو کافی قرار دیا ہے'' اس   کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ اس سیلان کو پانی والے سیلان پر محمول کیا جائےگا جس کو رقت لازم ہے۔ میں کہتا ہوں دونوں مختلف  ہیں، سیلاب   کے پانی   کی رقت میں نچڑ نے کی وہ صلاحیت نہیں جو خالص پانی کی رقت میں ہے سیلاب   کے پانی کی رقت دودھ کی رقت جیسی ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


وثانیا افاد(۱)رحمہ اللّٰہ تعالٰی ان کل مالاینعصر لیس برقیق فعکسہ کل رقیق ینعصر٭ وفیہ نظر لایستتر٭ فان الدھن رقیق ولاینعصر٭ والامر فی اللبن اظھر امارقۃ الدھن فلما صرحوا ان المعتبر فی المقدارالمانع من النجاسۃ(۲) الغلیظۃ وزن الدرھم فی الشیئ الغلیظ ومساحتہ فی الرقیق کتب المذھب طافحۃ بذلک وفی البحر وفق الھندوانی بان روایۃ المساحۃ فی الرقیق والوزن فی الثخین واختار ھذا التوفیق کثیرمن المشائخ وفی البدائع ھوالمختارعندمشائخ ماوراء النھروصححہ الزیلعی وصاحب المجتبی واقرہ فی فتح القدیر ۱؎ اھ


اور ثانیا علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ تعالٰی  نے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو نچڑ تی نہیں وہ رقیق نہیں ہے، تو اس کا عکس یہ ہوگا کہ ہر رقیق چیز نچڑتی ہے، اور اس میں ظاہری نظر ہے کہ تیل رقیق ہے مگر نچڑتا نہیں اور دودھ کا معاملہ زیادہ ظاہر ہے اور تیل کی رقت توجیسا کہ فقہاء  نے تصریح کی ہے کہ معتبر وہ مقدار جو نجاست غلیظہ   کے مانع ہے، گاڑھی چیز میں ایک درہم کا وزن ہے، اور رقیق میں ایک درہم کی پیمائش معتبر ہے،کُتب مذہب اِس سےپُر  ہیں اور بحر اور ہندوا نی میں ہے کہ مساحت کی روایت رقیق میں اور گاڑھی میں وزن کی ہے، اور اس توفیق کو بہت سےمشائخ  نے پسند کیاہے اور بدائع میں ہے کہ ماوراء النہر   کے مشائخ   کے نزدیک یہی مختار ہے اور اس کو زیلعی اور صاحبِ مجتبیٰ  نے صحیح قرار دیا ہے اور اس کو فتح القدیر میں برقرار رکھا ہے اھ


 (۱؎ بحرالرائق    باب الانجاس        سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۸)


وفی الغنیۃ قال الفقیہ ابو جعفر یقدربالوزن فی المستجسدۃ ذات الجرم وبالبسط فی الرقیقۃ کالدم المائع ووافقہ علی ذلک من بعدہ وقالواھو الصحیح ۱؎ اھ


اور غنیہ میں ہے فقیہ ابو جعفر  نے کہا ہے جو نجاستیں جسم والی  ہیں ان میں وزن سےاندازہ لگایا جائے گا، اور رقیق میں پھیلاؤ کا اعتبار کیا جائےگا، جیسےمائع خون اور ان کی موافقت کی ان   کے بعد والوں  نے، اور کہا کہ وہی صحیح ہے اھ


 (۱؎ غنیۃ المستملی    فصل فی الاسار        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۲)


ثم اختلفوا(۱)فی دھن متنجس اصاب الثوب اقل من درھم ثم انبسط فزاد قال الاکثرون یمنع الصلاۃ لانہ الاٰن اکثر قال فی المنیۃ بہ یؤخذ وقال جمع انما العبرۃ بوقت الاصابۃ المسألۃ دوارۃ ۲؎ فی الکتب کالفتح والبحر والدر وغیرہا وھوصریح دلیل علی ان الدھن من الرقیق والالم یتصورالاختلاف لان البسط لایزیدہ وزنا وقال فی الغنیۃ اصابہ دھن نجس اقل من قدرالدرھم ثم انبسط یمنع الصلاۃ لان مساحۃ النجاسۃ وقت الصلوۃ اکثرمن قدرالدرھم وتحقیقہ ان المعتبر فی المقدارمن النجاسۃ الرقیقۃ لیس جوھر النجاسۃ بل جوھر المتنجس عکس الکثیفۃ ۳؎ اھ فثبت ان من الرقیق مالاینعصر۔


پھر فقہاء کا اختلاف ہے ناپاک تیل میں جو   کسی کپڑے کو ایک درہم سےکم مقدار میں لگ جائے پھر پھیل جائے اور زائد ہوجائے اکثر  نے فرمایا یہ مانع صلوٰۃ ہے کیونکہ یہ اب زائد ہے، منیہ میں فرمایا اسےکو لیا جائے گا،اور ایک جماعت  نے فرمایا اس وقت کا اعتبار ہوگا جبکہ یہ لگا ہو،یہ مسئلہ عام طور پر کتب میں موجود ہے،جیسےفتح، بحر اور دُر وغیرہ اور یہ صریح دلیل ہے اس امر کی کہ تیل رقیق ہے ورنہ تو اختلاف ہی متصور نہ تھا، کیونکہ پھیلنے سےاس کا وزن زائد نہ ہوگا، اور غنیہ میں فرمایا اگر اس کو نجس تیل لگا ایک درہم سےکم پھر پھیل گیا تو نماز نہ ہوگی،کیونکہ نجاست کی پیمائش نماز   کے وقت درہم کی مقدار سےزائد ہوگئی ہے اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ رقیق نجاست میں معتبر جوہرِ نجاست نہیں بلکہ نجس ہو نے والی چیز کاجوہر ہے یہ کثیفہ نجاست کا عکس ہے اھ تو ثابت ہوا کہ بعض رقیق چیزیں وہ  ہیں جو نُچڑتی نہیں۔ (ت)


 (۲؎ منیۃ المصلی     فصل فی الاسار       مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور    ص۱۳۶)

(۳؎ غنیۃ المستملی     فصل فی الاسار      سہیل اکیڈمی لاہور        ص۱۷۲)


وانا اقول: (۲) وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق  (میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی کی توفیق سےتحقیق کی گہرائی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ت) اہل سنت(۳) حفظہم اللہ تعالٰی   کے نزدیک ترکیب اجسام اگرچہ جواہر فردہ متجاورہ غیر متلاصقہ سےہے اور یہی حق ہے فقیر  نے بحمدللہ تعالٰی اپنے فتاوٰی کلامیہ میں اسےقرآن عظیم سےثابت کیا ہے جس کی طرف  علماءمتکلمین کی نظر اب تک نہ گئی تھی فیمااعلم واللّٰہ اعلم اذلم اقف علیہ فی کلامھم (اس میں جو میں جانتا ہوں اور اللہ زیادہ جانتا ہے کہ اس معاملہ میں ان  کے کلام میں واقفیت حاصل نہ کرسکا۔ ت) مگر اتصال حسی ضرور ہے  کما بیناہ فی رسالتناالنمیقۃ الانقی  (جیسا کہ ہم  نے اسےاپنے رسالہ النمیقۃ الانقی میں بیان کیا ہے۔ ت) تمام احکامِ دین ودنیا اسی اتصال مرئی پر مبنی  ہیں،یہ اتصال دو قسم ہے: قوی وضعیف۔ قوی یہ کہ جب تک خارج سےکوئی سبب نہ پیدا ہوا نفکاک نہیں ہوتا، ایسی ہی شی کا نام جامد ہے۔ پھر یہ خود قوت وضعف میں بریان پاپڑ سےلے کر سنگ خاراکی چٹان اور فولاد تک مختلف ہے مگر یہ نہ ہوگا کہ خودبخود اس   کے اجزا بکھر جائیں یا بہ کر اُتر جائیں۔ ضعیف یہ کہ محض مجاورت   کے سوااجزا میں عام بستگی وگرفتگی نہ ہو دَل پیدا کر نے والا ترا کم کہ اجزا یکے بالائے دیگرے  ہیں جگہ نپانے کی باعث ہو گنجائش ملتی ہی اجزا اُتر کر پھیلنے لگیں ایسی ہی شی کا نام مائع وسائل ہے اور ازاں جاکہ اجزاء میں تماسک یعنی جامدات کی مانند بستگی وگرفتگی نہیں اور میل طبعی ہرثقیل کاجانب تحت ہے تونشیب پاتے ہی جو حرکت ثقیل اشیاء میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کوئی مانع نہ ہو جامد میں سارے جسم کو معاً متحرک کرتی تھی کہ اجزا اول سےآخر تک ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے  ہیں یہاں ایسا نہ ہوگا بلکہ جانب نشیب   کے پہلے اجزاء حرکت میں پچھلوں کا انتظار کریں گے ان کے آگے بڑھتے ہی ان کے متصل جو اجزاء تھے جگہ پائیں گے اور وہ اپنے پچھلوں کے منتظر نہ رہ کر جنبش کریں گے یوں ہی یہ سلسلہ اخیر اجزاء تک پہنچے گا تواس جسم کی حرکت حرکتِ واحدہ نہ ہوگی بلکہ حرکات عدیدہ متوالیہ اور ازانجا کہ اگلوں کا بڑھنا اور پچھلوں کا اُن سےآملنا مسلسل ہے کہیں انفکاک محسوس نہ ہوگا جسم واحد کے اجزا میں اسی سلسلہ وار حرکت متوالی کا نام سیلان ہے پھر جس طرح جامدات قوت وضعف میں اُس درجہ مختلف تھے یوں ہی ان مائعات میں یہ اختلاف ہے کہ جہاں بوجہ مانع انفکاک حسی کے محتاج ہوں بعض بہت باریک ذروں پر منقسم ہو  سکیں گے اور بعض زیادہ حجم کے اجزاء پر کہ ایک نوع تماسُک سےخالی نہیں اگرچہ جامدات کی طرح عام تماسُک نہیں چھاننے میں اختلاف مائعات کی یہی وجہ ہی ظاہر ہے کہ کپڑا یا چھلنی جس چیز میں چھانیے اُس میں کچھ تو منافذومسام ہوں گے کہ اجزائے مائع کو نکلنے کی جگہ دیں گے اورکچھ کپڑے یا لوہے وغیرہ کی تار ہوں گے کہ اپنے محاذی اجزاء کو روکیں گے ناچار مائع اپنے اجزاء کی تفریق کا محتاج ہوگا پھر جو جس قدر باریک اجزا پر منقسم ہو  سکے گا اُتنے  ہی تنگ منفذسےنفوذ کرجائے گا اور دوسرا اس پر قادر نہ ہوگا یہی سبب ہے کہ بعض مائعات چھاننی میں سنگین کپڑے سےنفوذ کر جاتے  ہیں کہ اُس کپڑے کی باریک مسام سےبھی زیادہ باریک اجزاء پر متفرق ہوسکتے  ہیں اور بعض باریک کپڑے سےنکل   سکیں گے جو زیادہ گھنا نہ بُنا ہو بعض چھلنی کی وسیع منفذ چا ہیں گے وعلٰی ہذا القیاس اسی منشاء اختلاف کا نام مائع کی رقت وغلظت ہے ورنہ جامدات(۱) میں بھی رقیق وغلیظ ہوتے  ہیں پتلے کپڑے کو ثوبِ رقیق   کہتے  ہیں پتلی چپاتی کو خبزرُقاق، استخوان زمان پیری کو عظمِ رقیق،حدیث امیر المومنین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہے:


اے اللہ میری عمر بڑی ہوگئی اور میری ہڈی پتلی ہوگئی پس مجھے عاجز اور شرمسار کئے بغیر اپنے دربار میں حاضر کرلے۔(ت)


شیشہ کہ باریک دَل کا ہو زجاج رقیق۔ قال قائلھم ع:  رق الزجاج ورق الخمر فاشتبھا  (ترجمہ: شیشہ پتلا(باریک)ہوا،اورشراب پتلی ہوئی،یوں دونوں آپس میں مشابہ ہوئے۔ت)


بالجملہ(۱) رقت ودقت متقارب  ہیں رقیق پتلا دقیق باریک۔ اقول:  مگردقت میں کمی عرض کی طرف لحاظ ہے ولہٰذا خط کو دقیق کہیں گے اور رقت میں کمی عمق کی جانب تو سطح رقیق ہے یہ وہ ہے جو نظر بمحاورت خیال فقیر میں آیا پھر تاج العروس میں اس کی تصریح پائی۔


حیث قال قال المناوی فی التوقیف الرقۃ کالدقۃ لکن الدقۃ یقال اعتبار المراعاۃ جوانب الشیئ والرقۃ اعتبارا بعمقہ ۱؎۔ فرمایا کہ مناوی  نے توقیف میں فرمایا رقت مثل دقت ہے لیکن دقۃ میں   کسی چیز کے کناروں کا اعتبار ہوتا ہے اور رقت میں اس کی گہرائی کا۔ (ت)


 (۱؎ تاج العروس    فصل الراء من باب القاف    احیاء التراث العربی مصر    ۶/۳۵۸)


اسی لئے تالاب یا نالے میں جب پانی تھوڑی دَل کا رَہ جائے اُسےرُق ورُقارِق   کہتے  ہیں قاموس میں ہے: الرقارق بالضم الماء الرقیق فی البحر اوالوادی لاغزر لہ ۲؎ اھ وقدم مثلہ فی الرق الا قولہ لاغزرلہ فزادہ الشارح۔


رقارق بالضم پتلا پانی دریا یا وادی میں جو گہرا نہ ہو اھ اور اس کی مثل الرق میں گزرا اس کے قول لاغزر کا ذکر    نہیں، اس کا اضافہ شارح  نے کیا ہے۔ (ت)


(۲؎ قاموس المحیط    فصل الراء باب القاف     مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۵)


نیز اُسی میں ہے: استرق الماء نضب الایسیرا ۳؎۔ نیز اس میں ہے پانی رقیق ہوا یعنی قلیل گہرائی والا ہو۔ (ت)


 (۳؎ قاموس المحیط    فصل الراء باب القاف     مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۵)


اللھم کبر سنی و رق عظمی فاقبضنی الیک غیرعاجزولاملوم۔ 

اقول: یہ رقت بالفعل (۲)ہے اور مائع کا اس قابل ہونا کہ چھاننی میں باریک اجزاء پر منقسم ہو  سکے

رقت بالقوہ یہی ان مسائل میں ملحوظ ومبحوث عنہ ہے۔

ثم اقول: جانب زیادت انتہائے رقت تو جواہر فردہ پر ہے کہ اُن سےزیادہ باریکی محال ہے باقی ایک مائع دوسرے کے اعتبار سےرقیق اضافی ہے گائے کا دودھ ہر حال میں بھینس کے دُودھ سےرقیق ہے مگر برسات کی گھاس چرے اور کھلی اور دانہ کھائے تو خود اُس کی پہلی صورت کا دودھ دوسری سےرقیق تر ہے یوں ہی یہ اختلاف بکری کے دودھ سےنہ جمی ہوئی راب تک متفاوت ہے اور جانب کمی اُس کی انتہا اختتام سیلان پر ہے۔ جب شی سائل نہ رہے گی یہاں سےظاہر ہوا کہ رقیق بالقوہ وسائل بجائے خود متساوی  ہیں ہر رقیق بالقوہ سائل ہے اور ہر سائل رقیق بالقوہ عام ازیں کہ کپڑے سےنچڑ   سکے جیسے پانی یا نہیں جیسےتیل، گھی، شیر، شہد وغیرہا۔ اب رہا یہ کہ جب رقت مبحوث عنہا اجزائے لاتتجزی سےاخیر حد مائع تک بتفاوت شدید پھیلی ہوئی ہے تو یہاں جس مقدار کی انتفا پر زوال طبع آب   کہتے  ہیں اُس کی تحدید کیا ہے۔ پانی کس حد کی رقت تک نامتغیر کہا جائے گا اور کیسا ہو کر زائل الطبع کہلائے گا یہی اصل مقصد بحث ہے اس کا انکشاف بعونہٖ تعالٰی بحث آئندہ کرتی ہے وباللّٰہ التوفیق٭ ولہ الحمد علی ھدایۃ الطریق٭ وصلی اللّٰہ تعالٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اولی التحقیق۔

بحث چہارم رقت معتبرہ مقام کی حدبست۔

اقول رأیت العبارات فیہ علی ثلثۃ مناھج۔میں کہتا ہوں میں  نے اس سلسلہ میں تین قسم کی عبارات دیکھیں:


الاول: قال فی الغنیۃ لاتجوزبالمقیدکماء الزردج اذا کان ثخیناامااذاکان رقیقاعلی اصل سیلانہ فتجوز کماء المد ونحوہ ثم قال مادام رقیقا یسیل سریعا کسیلانہ عند عدم المخالطۃ فحکمہ حکم الماء المطلق ثم قال وضابطہ بقاء سرعۃ السیلان کماھو طبع الماء قبل المخالطۃ ثم قال (لوبل الخبز فی الماء ان بقیت رقتہ)کماکانت (جازوان صار ثخینا لا ۱؎اھ)


پہلی: غنیہ میں فرمایامقید سےجائز    نہیں،جیسےزردج کاپانی جبکہ گاڑھا ہو، اور جب گاڑھا نہ ہو اور اصلی سیلان پر ہو توجائز ہے، جیسےسیلاب وغیرہ کا پانی۔ پھر فرمایا جب تک رقیق ہو جلدی بہتا ہو جیسےمخالطت کے نہ ہونے کے وقت بہتا ہے، تو اس کا حکم مطلق پانی جیسا ہے پھر فرمایا اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ تیزی سےسیلان کا باقی رہنا، جیسا کہ وہ پانی کی طبیعت ہے مخالطت سےپہلے، پھر فرمایا (اگر روٹی پانی میں تر ہوگئی تو اگر اس کی رقت باقی ہے)جیسےکہ پہلے تھی (تو جائز ہے اور اگر گاڑھا ہوگیا تو جائز    نہیں) اھ


(۱؎ غنیۃ المستملی، فصل فی بیان احکام المیاہ، سہیل اکیڈمی لاہور، ص۸۸۔۹۱)


وفی العنایۃ والبنایۃ فی جوازالوضوء بماء تقع فیہ الاوراق شرطہ ان یکون باقیا علٰی رقتہ اما اذا صار ثخینا فلا ۱؎ اھ اور عنایہ اور بنایہ میں ہے کہ جس پانی میں پتّے گر گئے ہوں اُس سےوضو کے جواز میں شرط یہ ہے کہ اُس کی رقت باقی ہو اور جب گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز  نہیں اھ


 (۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر    باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۳)

(و البنایۃ شرح ہدایۃ          باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ     مطبع امدادیہ مکہ مکرمہ    ۱/۱۸۹)


فالضمیر فی رقتہ ربمایشیرالی مامال الیہ فی الغنیۃ وقد یعارضہ المقابلۃ بصیرورتہ ثخینالکن قالا بعدہ فی ماء الزعفران وغیرہ یعتبر فیہ الغلبۃ بالاجزاء فان کانت اجزاء الماء غالبۃ ویعلم ذلک ببقائہ علی رقتہ جازالوضوء وانکانت اجزاء المخالط غالبۃ بان صار ثخینا زالت عنہ رقتہ الاصلیۃ لم یجز اھ۔ تو رقتہ کی ضمیر بسا اوقات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کی طرف وہ غنیہ میں مائل ہوئے، اور اس کا معارضہ ''بصیر ورتہ ثخینا'' کے تقابل سےہوسکتا ہے، لیکن اُن دونوں  نے اس کے بعد فرمایا زعفران وغیرہ کے پانی میں کہ اس میں اجزاء کے غلبہ کا اعتبار ہوگا، تو اگر پانی کے اجزاء غالب ہوں، اور اس کا علم اس کی رقت سےہوگا، تو اس سےوضو جائز ہے اور اگر مخالط کے اجزاء غالب ہوں بایں طور کہ وہ گاڑھا ہو اس سےاس کی اصلی رقت زائل ہوگئی تو جائز    نہیں اھ (ت)


الثانی قال فی العنایۃ ایضا فی المطبوخ مع الاشنان ونحوہ یجوز التوضی بہ الا اذاصار غلیظا بحیث لایمکن تسییلہ علی العضو ۲؎ اھ دوسرے یہ کہ عنایہ میں بھی ہے کہ جس پانی میں اُشنان وغیرہ پکائی جائے تو اس سےوضو جائز ہے سوائے اس کے کہ وہ اتنا گاڑھا ہوجائے کہ اس کو اعضاء پر بہایا نہ  جاسکے اھ


ولفظ الحلیۃ عن البدائع والتحفۃ والمحیط الرضوی والخانیۃ وغیرھا اذاصار غلیظا بحیث لایجری علی العضو ۳؎ اھ اور حلیہ میں بدائع، تحفہ، محیط رضوی اور خانیہ وغیرہ سےہے کہ جب وہ اتنا گاڑھا ہوجائے کہ اعضاء پر نہ بہہ   سکے اھ


 (۲؎ العنایۃ مع الفتح         باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)

 (۳؎ حلیہ)

وفی التبیین والحلیۃ والدرران جری علی الاعضاء فالغالب الماء ۱؎ اھ اور تبیین، حلیہ اور دررمیں ہے کہ اگر وہ اعضاء پر جاری ہو تو غالب پانی ہی ہوگا اھ (ت)


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۱)


الثالث قال المحقق فی الفتح لاباس بالوضوء بماء السیل مختلطا بالطین ان کانت رقۃ الماء غالبۃ فان کان الطین غالبا فلا ۲؎ اھ تیسرے یہ کہ محقق  نے فتح میں فرمایا وہ پانی جس میں کیچڑ ملی ہوئی ہو، اگر وہ اعضاء پر بہتا ہو تو اس سےوضو میں حرج  نہیں، اور اگر اس میں مٹّی غالب ہو تو وضو جائز  نہیں اھ


 (۲؎ فتح القدیر الماء الذی یجوزبہ الوضوء نوریہ رضویہ سکھر۱/۶۵


وفی اجناس الناطفی والمنیۃ ان لم تکن رقۃ الماء غالبۃ لایجوز ۳؎ اھ اور ناطفی کی اجناس میں اور منیہ میں ہے اگر پانی کی رقت غالب نہ ہو تو وضو جائز    نہیں اھ


 (۳؎ غنیۃ المستملی   احکام المیاہ      سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


وفی الذخیرۃ والتتمۃ والحلیۃ الغلبۃ من حیث الاجزاء بحیث تسلب صفۃ الرقۃ من الماء ویبدلھا بضدھا وھی الثخونۃ ۴؎ اھ اور ذخیرہ، تتمہ، حلیہ میں ہے کہ اجزاء کے اعتبار سےغلبہ اس انداز میں کہ پانی کی رقت ختم ہوجائے اور اس کی ضد یعنی گاڑھا پن اس میں پیدا ہوجائے اھ


(۴؎     فتاوٰی ذخیرۃ)


وفی الخانیۃ فی ماء الزعفران والزردج ان صار متماسکا ۵؎ لایجوزاھ اور خانیہ میں ہے زعفران اور زردج کا پانی اگر گاڑھا ہو تو وضو جائز  نہیں اھ


 (۵؎ قاضیخان   فیما لایجوزبہ التوضی  ولکشور لکھنؤ    ۱/۹)


وفی الخلاصۃ ان کان رقیقایستبین الماء منہ یجوز وان صار نشاستج ۶؎ لایجوز اھ اور خلاصہ میں ہے کہ اگر اتنا رقیق ہو کہ پانی اس سےالگ ظاہر ہوتا ہو تو وضو جائز ہے اور اگر نشاستہ بن گیا ہو تو جائز    نہیں اھ


(۶؎ خلاصۃ الفتاوٰی، الماء المقید، نولکشور لکھنؤ، ۱/۸)


وفی فتاوٰی الامام فقیہ النفس توضأ بماء السیل یجوز وان کان ثخینا کالطین لا ۷؎ اھ اور فقیہ النفس کے  فتاوٰی (قاضیخان) میں ہے سیلاب کے پانی سےوضو جائز لیکن اگر گاڑھا ہو تو جائز    نہیں جیسےکیچڑ اھ


 (۷؎ قاضیخان ، فیما لایجوزبہ التوضی،  نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)


وفی الھدایۃ والکافی فی مطبوخ الاشنان الا ان یغلب ذلک علی الماء فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء(۱)عنہ ۱؎ اھ اور ہدایہ اور کافی میں ہے کہ وہ پانی جس میں اُشنان پکائی جائے، مگر یہ کہ وہ پانی پر ایسی غالب ہوجائے کہ وہ ستّو بن جائے، کیونکہ اب اس پر پانی کا نام نہیں بولا جائے گا اھ


 (۱؎ الہدایۃ  الماء الذی یجوزبہ الوضوء    عربیہ کراچی        ۱/۱۸)


وفی الخانیۃ وان صار ثخینا مثل السویق لا ۲؎ اھ اور خانیہ میں ہے اگر ستّوؤں کی طرح گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز  نہیں اھ


 (۲؎     فتاوٰی قاضی خان    فصل فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


وفی البدائع الا اذاصار غلیظا کالسویق المخلوط لانہ حینئذ یزول عنہ اسم الماء ومعناہ ایضا ۳؎ اھ اور بدائع میں ہے کہ اگر ستوؤں کی طرح گاڑھا ہوجائے، کیونکہ اس صورت میں اس پر پانی کا نام  نہیں بولا جائے گا اور نہ ہی معناً وہ پانی رہے گا اھ


 (۳؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


وفی الکافی ثم الھندیۃ اذا کان النبیذ غلیظا کالدبس لم یجز الوضوء بہ ۴؎ اھ اور کافی، ہندیہ میں ہے کہ جب نبیذ گاڑھا ہو جیسا شیرہ تو اس سےوضو جائز    نہیں اھ


 (۴؎     فتاوٰی ہندیہ    فصل فیما لایجوزبہ التوضو    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۲)


وفی الخلاصۃ ھذا (یرید الاختلاف فی جواز الوضوء) اذا کان حلوا رقیقا یسیل علی الاعضاء فان کان ثخینا کالرب لایجوزبالاجماع ۵؎ اھ۔   اور خلاصہ میں ہے یہ (جواز وضو میں اختلاف مراد ہے) جبکہ میٹھا رقیق ہو اور اعضاء پر بہتا ہو اور اگر شیرہ کی طرح گاڑھا ہو تو بالاجماع جائز نہیں اھ


 (۵؎ خلاصۃ الفتاوٰی    الماء المقید            نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


وفی البدائع(عـہ)ان کان غلیظا کالرب لایجوز بلاخلاف ۶؎ اھ فظاھرالاول ان لایسری التغیراصلا الی رقۃ الماء وسرعۃ سیلانہ۔ اور بدائع میں ہے کہ جب شیرہ کی طرح گاڑھا ہوجائے تو بلاخلاف جائز    نہیں اھ تو اول کا ظاہر یہ ہے کہ تغیر پانی کی رقّت کی طرف اور اس کی سرعتِ سیلان کی طرف سرایت نہ کرے۔ (ت)


 (۶؎ بدائع الصنائع     الماء المقید        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)


(عـہ)قولہ فی البدائع بل تقدم فی ۱۰۷عن الحلیۃ عنھاوعن التحفۃ والمحیط الرضوی والخانیۃ وغیرھا اذا صار غلیظابحیث لایجری علی العضو الخ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

ان کا قول بدائع میں ہے بلکہ ۱۰۷ میں حلیہ کی نقل اُن سےگزری نیز تحفہ، محیط رضوی اور خانیہ وغیرہا سےہے کہ جب اتنا گاڑھا ہوجائے کہ اعضاء پر نہ بہے الخ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


اقول: ولیس مراداقطعافان ماء المدالحامل للطین والتراب والرمل والغثاء یستحیل ان یبقی علی رقۃ الصافی وقداعترف انہ باق علی رقتہ واصل سیلانہ وظاھر الثانی الاکتفاء بنفس السیلان وقد اکدہ فی العنایۃ بزیادۃ الامکان فلم یخرج الا مابلغ مبلغ الجامدات حتی خرج عن صلاحیۃ الاسالۃ اصلا فھو مع الاول علی طرفی نقیض۔ میں کہتا ہوں یہ قطعاً مراد نہیں، کیونکہ سیلاب کے پانی میں کیچڑ، مٹی، ریت اور کوڑا کرکٹ ملا ہوا ہوتا ہے اور محال ہے کہ صاف پانی کی سےرقت پر باقی رہے اور وہ اعتراف کرچکے  ہیں کہ وہ اپنی رقت اور اصل سیلان پر باقی ہے اور دوسرے کا ظاہر نفس سیلان پر اکتفاء کرنا ہے اور اس کو عنایہ میں زیادۃ امکان سےمؤکد کیا ہے تو وہ اُسی حد تک پہنچا جس حد تک جامدات پہنچتی  ہیں، یہاں تک کہ وہ اسالت کی صلاحیت سےبالکل خارج ہوگیا تو وہ اول کے ساتھ نقیض کی دوطرفوں پر ہے۔ (ت).


اقول: ولیس مراداقطعا فان الطین والنشاوالسویق المخلوط والدبس والرب من المائعات الممکن تسییلھاواذابلغ الماء الی ھذہ الحال لایشک احد فی ماحدث لطبعہ من التغیر والزوال وھل تری احدایسمی الطین والسویق ماء فالصواب ھوالثالث المنصوص علیہ صریحا فی کلام کبارالائمۃ والثانی یرجع الیہ باقرب تاویل کماتقدمت الاشارۃ الیہ فی صدر الکلام۔ میں کہتا ہوں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ کیچڑ اور نشا(گارا) اور مخلوط ستّو، شیرہ اور راب ایسےمائعات میں سےہے جن کا بہانا ممکن ہے اور جب پانی اس حال پر پہنچ جائے تو کوئی بھی اس کی طبیعت میں پیدا ہونے والے تغیر پر اور زوال پر شک    نہیں کرے گا، کیا کوئی ستّوؤں اور کیچڑ کو پانی کہتا ہے؟ تو صحیح تیسرا ہے جس کی صراحت بڑے بڑے ائمہ کے کلام میں موجود ہے، اور دوسرا اس کی طرف قریب ترین تاویل سےرجوع کرتا ہے جیسا کہ اس کی طرف صدر کلام میں اشارہ گزرا ہے۔ (ت)


بقی الاول فاقول کلام العنایۃ فیہ قریب غیر بعید فانہ لم یفسرہ تفسیر الغنیۃ بزیادۃ ماقبل المخالطۃ والاناقض کلامہ فی الثانی وکلام الغنیۃ یفسرہ ھکذاوقد تفرد(عـہ)بہ فیمااعلم پہلا باقی رہا تو میں کہتا ہوں عنایہ کا کلام اس میں قریب ہے دُور نہیں کیونکہ انہوں نے اس کی تفسیر غنیہ کی طرح نہ کی،اور اس میں مخالطۃ سےماقبل کااضافہ نہیں کیا ورنہ ان کا کلام دوسرے میں متناقض ہوتا ہے، اور وہ اس میں متفرد  ہیں ۱؎ جیسا کہ میں جانتا ہوں،


 (عـہ)انما وافقہ ممن اتی بعدہ کلام المولی بحرالعلوم قال فی الارکان الاربعۃ الغلبۃ بالاجزاء بان تذھب رقۃ الماء علی ماکان الماء علیھا ؎۱ اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

ان کی موافقت ان لوگوں  نے کی ہے جو ان کے بعد آئے  ہیں، بحرالعلوم  نے ارکان اربعہ میں فرمایا اجزاء کے ساتھ غلبہ یہ ہے کہ پانی کی رقت ختم ہوجائے۔


 (۱ ؎رسائل الارکان         فصل فی المیاہ         مکتبۃ اسلامیہ کوئٹہ     ص ۲۴)


ثم یجعل ماء المدکاللامخالط فادنی (عـہ۱)احوالہ الاضطراب فالماخوذمانص علیہ الاصحاب٭ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب پھر سیلاب کے پانی کو اس پانی کی طرح کرتے  ہیں جو مخلوط نہ ہو، تو کم از کم اضطراب تو ہے ہی، تو ماخوذ وہی ہے جس پر اصحاب  نے نص کی ہے، واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ (ت)


(عـہ ۱)لکن سیأتی بتوفیق اللّٰہ تعالٰی التوفیق البازغ فانتظر ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)


اس طور پر کہ پانی کے اجزاء مخالط کے اجزاء پر غالب ہوں (ت) انتظار کرو، اللہ تعالٰی کی مدد سےاس کی روشن توفیق آتی ہے۔ (ت)

ثم اقول:  وباللہ التوفیق ہماری تقریر سابق سےواضح ہوا کہ مائعات دو قسم  ہیں، ایک وہ جن کے اجزا میں اصلاً تماسک    نہیں جیسےنتھرا پانی،دوسری جن میں نوع تماسک ہے جیسےشہد۔ یہاں سےجس طرح اُن کی رقت وغلظت کا فرق پیدا ہوتا ہے کہ اوّل اپنے اتصال حسی کہ بہت باریک اجزاء پر تقسیم کرسکتا ہے بخلاف ثانی یوں ہی اُن کے سیلان میں بھی تفاوت آئے گا اول جب جگہ پائے گا بالکل منبسط ہوجائےگا اول اصلا نہ رہے گا کہ اجزاء جو عدمِ وسعت کے سبب زیروبالا متراکم تھے وسعت پاکر سب پھیل جائیں گے کہ ہر جز طالب مرکز ہے اگر اجزائے بالا بالاہی ر ہیں بہ نسبت اجزائے زیریں مرکز سےدُور ہوں گے جگہ پاکر بلا مانع دور رہنا مقتضائے طبیعت سےخروج ہے کہ عادۃً ممکن نہیں خلافا لجھلۃ الفلاسفۃ الذین یحیلونہ عقلالان الفاعل عندھم موجب وعندنا(۱)مختار تعٰلی اللّٰہ مما یقول الظلمون علوا کبیرا وسبحن اللّٰہ رب العرش عمّایصفون  (اس میں جاہل فلاسفہ کا اختلاف ہے،جو اس کو عقلا محال قرار دیتے  ہیں کیونکہ ان کے نزدیک فاعل موجب ہے اور ہمارے نزدیک مختار ہے تعالٰی اللہ مما یقول الظلمون علواً کبیرا وسبحان اللہ رب العرش العظیم۔ ت)بخلاف ثانی کہ اجزا میں ایک نوع تماسک کے سبب سب نہ پھیل   سکیں گے ختم سیلان پر بھی مبدء سےمنتہی تک ایک اُبھرا ہوا جرم نظر آئےگا جیسا کہ مرئی ومشاہد ہے کہ اگر پختہ زمین یا تخت یا سینی یا لو ہے کی چادر پر شہد بہائیے بہاؤ رُکنے پر بھی یہاں سےوہاں تک اُس سطح سےاونچا شہد کا ایک دَل قائم رہے گا جسےخشک ہونے کے بعد چھیل سکتے  ہیں بے اس کے کہ زمین کا کچھ حصّہ چھلے لیکن اگر پانی بہائیے اور پُورا بہہ جانے سےکوئی روک نہ ہو تو ختمِ سیلان کے وقت اُس سطح پر اول تا آخر ایک تری کے سوا پانی کا کوئی دَل نہ رہے گا ہمارے ائمہ اسی قسم اول کا نام رقیق اور ثانی کا کثیف رکھتے  ہیں فقیرا سےروشن دلیل سےواضح کرے فاقول وباللہ التوفیق یہ دلیل ایک قیاس مرکب ہے تین مقدمات پر مشتمل:


مقدمہ اولٰی: ہمارے ائمہ(۱) نے باب نجاسات میں دو قسمیں فرمائی  ہیں جرم دار و بے جرم، اول کی مثال لید وغیرہ سےدیتے  ہیں اور دوم کی بول وخمر وغیرہما سےامام برہان الدین فرغانی ہدایہ میں فرماتے  ہیں: نجاسۃ لھاجرم کالروث ومالاجرم لہ کالخمر ۱؎۔ کوئی نجاست ایسی ہو کہ اُس کا جرم (جسم) ہو جیسےلید اور وہ جس کا جِرم نہ ہو جیسےشراب۔ (ت)


 (۱؎ ہدایہ    باب الانجاس وتطہیرہا   مطبع عربیہ کراچی        ۱/۵۶)


عنایہ میں ہے: النجاسۃ اما ان یکون لھا جرم کالروث اولا کالبول ۲؎۔ نجاست کا یا جرم ہوگا جیسےلید یا نہ ہو جیسےپیشاب۔ (ت)


 (۲؎ العنایۃ مع فتح القدیر  باب الانجاس وتطہیرہا   مطبع نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۱۷۱)


امام ملک العلماءء بدائع میں فرماتے  ہیں: الواقع فی البئر اماان یکون مستجسدا اوغیر مستجسد فان کان غیر مستجسد کالبول والدم والخمر ینزح ماء البئر الخ ۳؎۔؂ کنویں میں گر نے والی چیز یا تو جسم والی ہوگی یا غیر جسم والی، اگر غیر جسم والی ہو جیسےپیشاب، خون اور شراب، تو کنویں کا تمام پانی نکالا جائےگا۔ (ت)


 (۳؎ بدائع الصنائع    اما بیان المقدار الذی یصیربہ المحل نجسا    مطبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۶)


مسئلہ کفش وموزہ(۲) میں متون وشروح وفتاوی عامہ کتب مذہب  نے یہی ذی جرم وبے جرم کی تقسیم فرمائی اور ایسی مثالیں دی  ہیں ازاں جملہ امام فقیہ النفس خانیہ میں فرماتے  ہیں: الخف اذا اصابتہ نجاسۃ ان کانت مستجسدۃ کالروث والمنی یطھر بالحک وان لم تکن مستجسدۃ کالخمر والبول لا یطھر الا بالغسل وعن ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی اذا القی علیھاترابا فمسحھایطھر لانھا تصیر فی معنی المستجسدۃ وبہ ناخذ ۴؎۔


موزے پر اگر نجاست لگ جائے تو اگر وہ جسد والی ہو جیسےلِید اور منی، تو وہ رگڑ دینے سےپاک ہوجائے گی اور اگر جسد والی نہ ہو جیسےشراب اور پیشاب، تو دھوئے بغیر پاک نہ ہوگی اور ابو یوسف سےایک روایت یہ ہے کہ اگر اس پر مٹی ڈال کر رگڑ دے تو پاک ہوجائے گی کیونکہ اب یہ معنیً جسد والی ہوجائے گی، اور ہم اسی کو لیتے  ہیں۔ (ت)


 (۴؎     فتاوٰی خانیہ المعروف قاضیخان    فصل فی النجاسۃ التی تصیب الثوب والخف اوالبدن    ۱/۱۳)


اب ہم دکھاتے  ہیں کہ اُن کی نزدیک ادھر تو ذی جرم اور کثیف وثخین وغلیظ کہ مقابل رقیق  ہیں اُدھر خود بے جِرم ورقیق ایک معنی رکھتے  ہیں،اولاً کتابوں میں واحد سےاختلاف تعبیر،

(۱) امام طاہر بخاری  نے خلاصہ میں اسی حکم اخیر خانیہ کو ان لفظوں سےادا فرمایا: غیر المنی من النجاسات ان کانت رقیقۃ کالخمر والبول لایطھر الا بالماء وعن ابی یوسف اذا القی التراب علی الخف فمسحھا یطھر لانہ یصیر فی معنی المستجسدۃ ۱؎۔ نجاستوں میں منی کے علاوہ اگر رقیق ہو جیسےشراب اور پیشاب، تو صرف پانی سےہی پاک ہوگا، اور ابویوسف سےایک روایت ہے کہ جب موزے پر مٹی ڈالی گئی اور اس کو پونچھ دیا گیا تو وہ پاک ہوجائےگا کیونکہ وہ معنیً متجسد ہوگئی۔ (ت)


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی    فصل فی الغسل والثوب والدھن الخ    نولکشور لکھنؤ        ۱/۴۲)


 (۲) نجاست غلیظہ میں اعتبار مساحت ووزن درہم کہ رقیق وکثیف پر منقسم جس کی بعض عبارات بحث سوم میں گزریں، اور ہدایہ میں ہے: قیل فی التوفیق بینھما ان الاولی فی الرقیق والثانیۃ فی الکثیف ۲؎۔ ان دونوں میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ پہلی رقیق میں ہے اور دوسری کثیف میں ہے (ت)


 (۲؎ الہدایۃ   باب الانجاس  مطبوعہ عربیہ کراچی ۱/۵۷)


کافی میں ہے: قال الفقیہ ابو جعفر الاولی فی الرقیق والثانیۃ فی الکثیف وھو الصحیح ۳؎۔ فقیہ ابو جعفر  نے فرمایا: پہلی رقیق میں ہے اور دوسری کثیف میں ہے اور وہی صحیح ہے۔ (ت)


 (۳؎ کافی)


اسی طرح وقایہ ونقایہ واصلاح وملتقی وخلاصہ وبزازیہ وجوہرہ نیرہ وجواہر اخلاطی وغیرہا کتبِ کثیرہ میں ہے: وعبر فی الجوھرۃ الکثیف بالثخین وفی الجواھر بالغلیظ وزاد ھو الصحیح من المذھب ۴؎۔ اور جوہرہ میں کثیف کو ثخین سےتعبیر کیا ہے او جواہر میں غلیظ سے، اور یہ زیادہ کیا کہ یہی صحیح مذہب ہے (ت)


 (۴؎ الجوہرۃ النیرۃ، باب الانجاس،  امدادیہ ملتان، ۱/۴۵)


امام ملک العلماء  نے اسےیوں تعبیر فرمایا: قال الفقیہ ابو جعفر الھندوانی اذا اختلفت عبارات محمد فی ھذا فنوفق ونقول اراد بذکر العرض تقدیر المائع کالبول والخمر وبذکر الوزن تقدیر المستجسد ۱؎۔


فقیہ ابو جعفر ہندوانی  نے فرمایا جب محمد کی عبارات مختلف ہوجائیں تو ہم تطبیق دیں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے عرض (چوڑائی) کے ذکر سےمائع کا اندازہ مراد لیا جیسے پیشاب اور شراب اور وزن سےجسم والی کی مقدار کا اراد کیا۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع المقدار الذی یصیر المحل بہ نجساً    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۸۰)


(۳) بعینہ اسی طرح امام زیلعی  نے اول کو مائع دوم کو مستجسد سےتعبیر کرکے فرمایا وھذا ھو الصحیح ۲؎ (اور یہی صحیح ہے۔ ت)


(۲؎ تبیین الحقائق باب الانجاس    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۷۳)


(۴) اسی طرح مراقی الفلاح میں ہے : عفی قدر الدرھم وزنا فی المستجسدۃ ومساحۃ فی المائع ۳؎۔ مراقی الفلاح میں ایک درہم وزن کی مقدار نجاست متجسدہ میں معاف ہے اور ایک درہم کی مساحت مائع میں۔ (ت)


 (۳ ؎ مراقی الفلاح    باب الانجاس والطہارۃ        الازہریہ مصر    ص۸۹)


(۵) یہی فتاوٰی امام قاضی خان میں یوں ہے:فی المستجسدۃ کالروث یعتبر وزنا وفی غیر المستجسدۃ کالبول والخمر والدم بسطا ۴؎  اور نجاست متجسدۃ میں جیسےلید وزن کا اعتبار کیا جائےگا اور غیر متجسدہ میں پھیلاؤ کا جیسے پیشاب، شراب اور خون۔ (ت)


 (۴؎ قاضی خان    فصل فی النجاسۃ التی تصیب الثوب الخ    نولکشور لکھنؤ ۱/۱۰)


ثانیاً کتابوں سےنقل میں تغییر تعبیر۔

(۶) ہندیہ میں ہے :الصحیح ان یعتبر بالوزن فی المستجسدۃ وبالمساحۃ فی غیرھا ھکذا فی التبیین والکافی واکثر الفتاوی ۱؎۔


صحیح یہ ہے کہ متجسد نجاست میں وزن سےاعتبار کیا جائے گا اور اس کی غیر میں مساحت سےاسی طرح تبیین، کافی اور اکثر  فتاوٰی میں ہے۔ (ت)


 (۱؎ تبیین الحقائق    باب الانجاس        الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۷۳)

(و     فتاوٰی ہندیہ    الفصل الثانی فی الاعیان    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۴۵)


حالانکہ کافی میں رقیق اور تبیین میں ۲؎ میں مائع کا لفظ تھا کماعلمت۔


 (۲؎ تبیین الحقائق، باب الانجاس،  الامیریہ مصر ، ۱/۷۳)

ثالثاً  علماء کا اپنے ہی کلام میں تفننِ تعبیر۔


 (۷) بحر میں ہے: اشتراط(۱) الجرم قول الکل لانہ لواصابہ بول فیبس لم یجزہ حتی یغسلہ لان الاجزاء تتشرب فیہ فاتفق الکل علی ان المطلق (ای الاذی الذی یصیب الخف مقید فقیدہ ابو یوسف بغیر الرقیق وقیداہ بالجرم والجفاف ۳؎۔


جرم کی شرط لگانا تمام کا قول ہے کیونکہ اگر   کسی کو پیشاب لگ گیا اور خشک ہوگیا تو بلادھوئے کام    نہیں چلے گا کیونکہ پیشاب کے اجزاء اس میں جذب ہوجاتے  ہیں تو کُل کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مطلق (یعنی وہ گندگی جو موزے کو لگی ہے وہ مقید ہے تو ابویوسف  نے اس کو غیر رقیق سےمقید کیا اور ان دونوں  نے اس کو جِرم اور خشک ہونے سےمقید کیا۔ (ت)


 (۳؎ بحرالرائق        باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۳)


اس پر منحۃ الخالق میں فرمایا: الحاصل انھم اتفقوا علی التقیید بالجرم وانفرد ابوحنیفۃ ومحمد بزیادۃ الجفاف ۴؎۔ حاصل یہ ہے کہ وہ سب جرم کی قید لگا نے پر متفق  ہیں اور ابوحنیفہ اور محمد خشک ہو نے کی قید لگا نے میں متفرد  ہیں۔ (ت)


 (۴؎ منحۃ الخالق مع البحرالرائق     باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۳)


 (۸) اسی میں ہے: لم یعف عن التشرب فی الرقیق لعدم الضرورۃ اذ قد جوز وا کون الجرم من غیرھا بان  یمشی بہ علی رمل او تراب فیصیرلھا جرم ۵؎۔ رقیق میں سرایت کر نے کی وجہ سےمعاف نہیں کہ وہاں ضرورت نہیں اس لئے کہ انہوں نے اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ جرم اس کے غیر سےہو باینطور کہ ریت یا مٹی پر چلے اور جرم حاصل ہوجائے۔ (ت)


 (۵؎ بحرالرائق         باب الانجاس        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۲۴)


 (۹) فتح القدیر میں ہے :الحاصل بعد ازالۃ الجرم کالحاصل قبل الذلک فی الرقیق ۱؎۔ جرم کو زائل کر نے کے بعد وہی چیز حاصل ہوگی جو رقیق میں جرم کو زائل کئے بغیر ہوتی ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر  باب الانجاس  نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۱۷۲)


 (۱۰) غنیہ میں ہے : عمل ابو یوسف باطلاقہ الا انہ استثنی الرقیق کما قال المصنف (وان لم یکن لھا جرم کالبول والخمر فلابد من الغسل) بالاتفاق ۲؎۔ ابو یوسف  نے اس کے اطلاق پر عمل کیا البتہ انہوں نے رقیق کا استثنا ء کیاجیسا کہ مصنف  نے فرمایا (اور اگر اس کا جرم نہ ہو جیسےپیشاب اور شراب تو اس کا دھونا لازم ہے) بالاتفاق۔ (ت)


 (۲؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۸)


 (۱۱) اُسی میں حدیث مطلق نقل کرکے قید لھا جرم کی تعلیل میں فرمایا: قال فی الکفایۃ وغیرھا خرجت النجاسۃ الرقیقۃ من اطلاق الحدیث بالتعلیل ۳؎ الخکفایہ وغیرہ میں ہے رقیق نجاست حدیث کے اطلاق سےتعلیل کی وجہ سےنکل گئی الخ (ت)


 (۳؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۸)


 (۱۲) اُسی میں ہے : من اصاب نعلہ النجاسۃ الرقیقۃ اذا استجسد بالتراب اوالرمل لومسحہ یطھر ۴؎۔ جس کے جُوتے کو رقیق نجاست لگی پھر مٹی یا ریت کی وجہ سےمتجسد ہوگئی اب اگر وہ اس کو رگڑے تو پاک ہو جائے گی۔ (ت)


 (۴؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۸)


 (۱۳) اُسی میں ہے :المختار للفتوی الطھارۃ بالدلک فی الخف ونحوہ سواء کانت ذات جرم من نفسھا اوبغیرھا کالرقیقۃ المستجسدۃ بالتراب رطبۃ کانت اویابسۃ ۵؎۔ فتوٰی کے لئے مختار موزہ وغیرہ کی طہارت میں یہ ہے کہ اس کو رگڑ لیا جائے چاہے خود اُس کا اپنا جرم ہو یا   کسی اور کی وجہ سےجیسےوہ جو مٹی میں مل جا نے کی وجہ سےجسم والی ہوجائے خواہ تر ہو یا خشک۔ (ت)


 (۵؎ غنیۃ المستملی    الشرط الثانی الطہارۃ       سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۷۹)


(۱۴) حلیہ میں اسےمسئلہ اصابتہ نجاسۃ لھا جرم پر حدیث سےاستدلال کرکے فرمایا:  ھذا الاطلاق حجۃ لابی یوسف فی مساواتہ بین الرطب والیابس نعم علی ابی یوسف ان یقول بالطھارۃ فی الرقیق ایضا لان الاطلاق یتناولہ کما یتناول الکثیف مطلقا ۱؎۔ یہ اطلاق ابو یوسف کی حجت ہے وہ رطب ویابس میں فرق    نہیں کرتے  ہیں، اس کے علاوہ ابویوسف پر لازم ہے کہ وہ رقیق میں بھی طہارت کا قول کریں کیونکہ اطلاق کثیف کی طرح اس کو بھی شامل ہے۔ (ت)


 (۱؎ حلیہ)


 (۱۵) اُسی میں اس جواب اور اُس پر بحث نقل کرکے فرمایا: علی ان فی البدائع ان ابایوسف فی روایۃ عنہ سوی فی طھارتہ بین ان تکون مستجسدۃ اومائعۃ ۲؎۔ علاوہ ازیں بدائع میں ہے کہ ابویوسف کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے جسم والی اور مائع میں مساوات رکھی ہے۔ (ت)


 (۲؎ حلیہ)


رابعاً صریح تفسیر۔


(۱۶) تنویر میں تھا:عفی عن قدردرھم فی کثیف ۳؎  (ایک درہم کی مقدار کثیف میں معاف ہے۔ ت)


 (۳؎ درمختار ،باب الانجاس ،مجتبائی دہلی، ۱/۵۴)


درمختار میں اس کی تفسیر کی لہ جرم ۴؎  (جس کیلئے جرم ہو۔ ت)


 (۴؎ درمختار    باب الانجاس  مجتبائی دہلی۱/۵۴)


ردالمحتار میں ہے: قولہ لہ جرم تفسیر الکثیف ۵؎ (ان کا قول لہ جرم کثیف کی تفسیر ہے۔ ت)


 (۵؎ ردالمحتار  باب الانجاس  مصطفی البابی مصر    ۱/۲۳۳)


 (۱۷) جامع الرموز میں ہے:الکثیف مالہ جرم والرقیق مالاجرم لہ ۶؎  (کثیف وہ ہے جس کاجرم ہو اور رقیق وہ ہے جس کا جرم نہ ہو۔ت)


 (۶؎ جامع الرموز فصل     یطہر الشیئ    اسلامیہ گنبد ایران ۱/۱۵۲)


شامی میں حلیہ سےہے: عدمنہ(ای ممالہ جرم) فی الھدایۃ الدم وعدہ قاضیخان ممالیس لہ جرم ووفق فی الحلیۃ بحمل الاول علی مااذا کان غلیظا والثانی علی مااذا کان رقیقا اھ وھذا یؤدی مؤدی التفسیر وان لم یکن سوقہ لہ ۱؎۔


شمار کیاگیا ہے اس سے(یعنی اس سےجس کاجرم ہو) ہدایہ میں ہے خون کو، اور اس کو قاضیخان  نے اس میں شمار کیا جس کا جرم نہ ہو۔اور حلیہ میں اسی طرح توفیق کی گئی  ہے کہ اول کو غلیظ پر محمول کیا جائے اور دوسری کو رقیق پر یہ تفسیر کا فائدہ دیتا ہے اگرچہ اس کا اس کیلئے سیاق نہیں ہے۔ ت)


 (۱؎ ردالمحتار باب الانجاس  مطبعۃ مصطفی البابی  مصر ۱/۲۳۳)


بالجملہ اصطلاح فقہائے کرام میں رقیق وبے جرم ایک چیز  ہیں۔ مقدمہ ثانیہ: جسم کثیف(۱) ہو خواہ رقیق اِس کا بے جرم ہوناکیونکر متصور کہ جرم وجسم ایک شَی  ہیں اور اگر جرم بمعنی ثخن لیجئے یعنی عمق جسےدَل کہتے  ہیں تو جسم کو اُس سےبھی چارہ نہیں کہ اُس میں ابعاد ثلثہ ضرور  ہیں لہٰذا خود  علماء  نے اس کی تفسیر فرمائی کہ بے جرم سے یہ مراد کہ خشک ہو نے کے بعد مثلاً بدن یا کپڑے کی سطح سےاُبھرا ہو اُس کا کوئی دَل محسوس نہ ہو اگرچہ رنگ نظر آئے۔ان مباحث میں اسی کو غیر مرئی بھی کہتے  ہیں یعنی بنظرِ جرم نہ بنظرِ لون۔تبیین الحقائق وبحرالرائق ومجمع الانہر وفتح اللہ المعین وطحطاوی علی المراقی و ردالمحتار وغیرہا میں ہے:


الفاصل بینھماان کل مایبقی بعدالجفاف علی ظاھرالخف فھو جرم ومالایری بعد الجفاف فلیس بجرم ۲؎ اھ۔ دونوں میں فصل کر نے والی چیز یہ ہے کہ جو خشک ہو نے کے بعد موزے کے ظاہر پر نظر آئے تو وہ ذی جرم ہے اور جو خشک ہو نے کے بعد نظر نہ آئے وہ ذی جرم  نہیں ہے۔ (ت)


 (۲؎ تبیین الحقائق باب الانجاس مطبعۃ امیریہ ببولاق مصر ۱/۷۱)


اقول لم یردبظاھرہ ظھرہ لعدم اختصاص الحکم بہ بل بطنہ ھوالاکثراصابۃ انمااراد السطح الظاھرمن ظھرہ وبطنہ وقید بہ تحرزاعمایتشربہ داخل الخف فانہ لایختص بذی الجرم بل التشرب من الرقیق اکثروانمااحتاج الیہ لقولہ یبقی ولوقال یری لاستغنی عنہ کما فی مقابلہ فان البصر لایدرک الا ماعلی الظاھرولذااسقطہ السیدان الازھری وط لابدالھماالباقی بالمرئی ومن(۲) اغفل ھذا ابدل وابقی کما قال فی مجمع الانھرکل مایرٰی بعد الجفاف علی ظاھر الخف فھو ذوجرم ۱؎ الخ  و اعجب (۱) منہ صنیع العلامۃ ش اذقال فی الدر ھو کل مایری بعد الجفاف فقال ای علی ظاھر الخف ۲؎ کأنہ قید سقط عن الدر فزادہ۔


میں کہتا ہوں انہوں نے اس کے ظاہر سےاس کی پشت کاارادہ نہیں کیا ہے کیونکہ حکم اس کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ پُشت کے اندرونی حصہ کو زیادہ پہنچتاہے بلکہ ان کا ارادہ اس کی ظاہری سطح ہے خواہ پشت ہو یاباطن،اور یہ قید اس لئے لگائی تاکہ اس سےاحتراز ہو  سکے جس کو موزہ کا داخلی حصہ جذب کرلیتا ہے کیونکہ یہ جرم دار شیئ کے ساتھ مختص نہیں ہے،بلکہ رقیق میں جذب زیادہ ہوتا ہے اور اس کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے یبقیٰ فرمایا ہے اگر وہ یرٰی فرماتے تو اس کی ضرورت نہ ہوتی جیسا کہ اس کے مقابل میں ہے کیونکہ آنکھ تو صرف مقابل آ نے والی چیز کا ادر اک کرتی ہے اس لئے ازہری اور ط  نے اس قید کو ساقط کردیا،کیونکہ انہوں نے باقی کو مرئی سےبدل دیا ہے اور جس  نے اس سےغفلت کی اُسےبدلااور باقی رکھا،جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے ہر وہ چیز جو خشک ہو نے کے بعد موزہ کے ظاہر پر نظر آئے وہ جرم دار ہے الخ اور اس سےزیادہ عجیب وہ ہے جو علامہ "ش"  نے کیا جب مصنف  نے دُر میں یہ فرمایا ''وہ ایسی چیز ہے جو خشک ہو نے کے بعد نظر آتی ہے اس پر "ش"  نے فرمایا یعنی موزہ کے ''ظاہر'' پر، گویا قید دُر سےساقط ہوگئی ہے، تو انہوں نے اس کو زائد کردیا۔ (ت)


 (۱؎ مجمع الانہر        باب الانجاس        دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱/۵۸)

(۲؎ ردالمحتار        باب الانجاس        مصطفی البابی مصر        ۱/۲۲۷)


    فتاوٰی ذخیرہ پھر حلیہ وبحر وعبدالحلیم میں ہے:المرئیۃ ھی التی لھاجرم وغیرالمرئیۃ ھی التی لاجرم لھا ۳؎۔ مرئیہ جرم دار کو   کہتے  ہیں اور غیر مرئیہ اس کو جس کا جسم نہ ہو۔(ت)


(۳؎ بحرالرائق     باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۲۳۶)


شرح طحاوی و فتاوٰی صغریٰ وتتمہ ومنبع پھر بترتیب ان کے حوالہ سےعبدالعلی برجندی وشمس قہستانی وابن امیر الحاج حلبی وعبدالحلیم رومی  نے غیر مرئیہ میں زائد فرمایا:سواء کان لھا لون اولم یکن ۴؎۔


 (۴؎ جامع الرموز    فصل یطہر الشیئ    مطبع اسلامیہ گنبد ایران        ۱/۹۵)


ذخیرۃ العقبٰی میں ہے:ذی جرم ھو کل مایبقی بعد الجفاف علی ظاھر الخف سواء کان جرمہ من نفسہ کالنجس المتعارف والدم والمنی والروث اومن غیرہ کالبول والخمر المتجسدبالرمل اوالتراب اوالرما دبان مشی علیھافالتصق بالخف اوجعل علیہ شیئ منھا۵؎۔


جِرم دار وہ نجاست ہے جو خشک ہو نے کے بعد موزے کے ظاہر پر نظر آئے خواہ اس کا جرم اسی کا ہو جیسےمعروف نجاستیں،اور خون، منی اور لیدیا اس کے غیر سےہو جیسےپیشاب اور شراب جو ریت یا مٹی یا راکھ میں ملنے کی وجہ سےجِرم دار ہوگیا ہو، مثلاً اس پر چلا اور وہ موزے میں لگ گیا یا خود موزے پر ڈال لیا۔ (ت)


اس تمام مضمون کو مع زیادت افادات فتوی درمختار  نے ان معدود لفظوں میں افادہ کیا: (ذی جرم)ھو کل مایری بعد الجفاف ولومن غیرھا کخمر وبول اصاب تراب بہ یفتی اھ ۱؎


جرم دار وہ نجاست ہے جو خشک ہو نے کے بعد نظر آئے خواہ اس کے غیر سےہو جیسےشراب اور پیشاب جس میں مٹی مل گئی ہو، اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت)


 (۵؎ ذخیرۃ العقبی    باب الانجاس    الامیریہ مصر    ۱/۲۴۱)

 (۱؎ درمختار     باب الانجاس    مجتبائی دہلی    ۱/۵۴)


اقول: ولو اسقط(۱) ھو کل ماء لکان(عـہ) اخصر واظھر۔ میں کہتا ہوں اگر وہ ''کل ماءٌ'' کو ساقط کردیتا تو یہ مختصر ہوجاتا اور زیادہ اظہر ہوتا۔ (ت)


 (عـہ) اما کونہ اخصر فظاھر واما کونہ اظھر واحسن وازھر فلان رؤیۃ الشیئ تعم رؤیتہ بلونہ بل لارؤیۃ ھھنا الا ھکذا فیوھم تناول ملون لایبقی لہ بعد الجفاف جرم شاخص فوق المصاب بخلاف مااذا اسقط لانہ یصیر صفۃ لجرم فیصیر نصافی المقصود ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اس کا مختصر ہونا تو ظاہر ہے اور اس کا اظہر واحسن ہونا یہ بھی ظاہر ہے کیونکہ   کسی چیز کا دیکھنا اس کے رنگ کے دیکھنے کو بھی شامل ہے، بلکہ اس کی رؤیت یہاں اسی طرح ہے، تو اس سےوہم ہوتا ہے کہ یہ اُس رنگین کو شامل ہے جو خشک ہو نے کی بعد باقی نہیں رہتا ہے یعنی اس کا ابھرا ہوا جرم  نہیں رہتا ہے بخلاف اس کے کہ اگر اس کو ساقط کردیا جائے کیونکہ یہ جرم کی صفت ہوجائے گا تو یہ مقصود میں نص ہوگا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


اس پر طحطاوی نے زائد کیا:وما لایری بعد الجفاف فلیس بذی جرم ۲؎ اھ اور جو خشک ہو نے کے بعد نظر نہ آئے وہ جرم دار  نہیں۔(ت)


 (۲؎ طحطاوی علی الدرالمختار باب الانجاس    بیروت    ۱/۱۵۷)


اقول: واکتفی الدر عنہ بالمفھوم  (میں کہتا ہوں صاحبِ در  نے اس کے مفہوم پر اکتفاء کیا ہے۔ ت)


شامی  نے کہا:مفادہ ان الخمر والبول لیس بذی جرم مع انہ قدیری اثرہ بعد الجفاف فالمراد بذی الجرم ماتکون ذاتہ مشاھدۃ بحس البصر وبغیرہ مالایکون کذلک کما سنذکرہ مع مافیہ من البحث ۱؎۔


اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ پیشاب اور شراب جرم دار  نہیں حالانکہ ان کا اثر کبھی خشک ہو نے کے بعد بھی نظر آتا ہے تو جرم دار سےمراد وہ ہے جس کی ذات کا آنکھ سےمشاہدہ ہو  سکے اور غیر جرم دار وہ ہے جو ایسےنہ ہو جیسا کہ ہم اس کو مع بحث کے ذکر کریں گے۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار        باب الانجاس        مصطفی البابی مصر    ۱/۲۲۷)

درمختار کی عبارت مذکورہ نمبر ۱۶ پر شامی میں ہے:المراد بذی الجرم ماتشاھد بالبصر ذاتہ لااثرہ (عـہ)کمامرو یأتی ۲؎۔ ذی جرم سےمراد وہ ہے جس کی ذات آنکھ سےنظر آئے، نہ کہ اس کا اثر، جیسا کہ گزرا۔(ت)


 (عـہ)اقول ای مایشاھد اثرہ یعم مالایشاھد منہ الا الاثر فھو عطف علی ماتشاھد بحذف متعلقہ لاعلی ذاتہ کما یتوھم فیکون عدم رؤیۃ الاثر شرطا فی ذی الجرم ولیس کذلک ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اقول: یعنی جس طرح اس کا اثر دیکھا جاتا ہے تاکہ اس کو بھی عام ہو جس کا مشاہدہ    نہیں کیاجاتاہے صرف اس کے اثر کامشاہدہ ہوتا ہے تو اس کا عطف ماتشاھد پر ہے اس کا متعلق محذوف ہے ''ذاتہ'' پر عطف    نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا ہے، تو اثر کا نہ دیکھا جانا جرم دار میں شرط ہوگا حالانکہ ایسا    نہیں ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار    باب الانجاس    مصطفی البابی مصر    ۱/۲۳۳)


اسی طرح حلیہ میں ہے کما سیأتی۔

تحقیق شریف٭ فتح بہ اللطیف٭ علی عبدہ الضعیف٭ بفضلہ المنیف٭ اعلم ان ھذا المقام٭ زلت فیہ اقدام اقلام٭ یہ تحقیق ہے جو اللہ تعالٰی  نے اپنے فضل سےاپنے کمزور بندے پر ظاہر فرمائی جان لے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں قلموں کے قدم پھسل جاتے  ہیں۔(ت)


فالاول قال الامام اکمل الدین البابرتی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی العنایۃ عند قول الھدایۃ فی مسألۃ تطھیر النجاسۃ بازالۃ العین والغسل الٰی غلبۃ الظن بالطھارۃ النجاسۃ ضربان مرئیۃ وغیر مرئیۃ الخ مانصہ الحصر ضروری لدورانہ بین النفی والاثبات وذلک لان النجاسۃ بعد الجفاف اما ان تکون مستجسدۃ کالغائط والدم اوغیرھاکالبول وغیرہ ۱؎ اھ وتبعہ چلپی علی صدر الشریعۃ۔


اول،امام اکمل الدین بابرتی  نے عنایہ میں فرمایا، ہدایہ میں جہاں یہ ذکر ہے کہ نجاست کی تطہیر کیلئے نجاست کا دور کرنا اور دھونا ضروری ہے، کہ طہارت کا غلبہ ظن ہوجائے، یہاں بابرتی  نے کہا کہ نجاست کی دو قسمیں  ہیں مرئیہ اور غیر مرئیہ الخ ان کی نص یہ ہے کہ حصر ضروری ہے اس لئے کہ یہ نفی اوراثبات کے درمیان دائر ہے اور یہ اس لئے کہ نجاست خشکی کے بعد یا تو جرم دار ہوگی جیسےپاخانہ اور خون وغیرہ، یا غیر جرم دار ہوگی جیسےپیشاب وغیرہ اھ ا س کی پیروی چلپی علی صدر الشریعۃ  نے کی۔ (ت)


 (۱؎ العنایۃ مع الفتح    باب الانجاس        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۱۸۲)


الثانی فی تلک المسألۃ نقل القھستانی عبارۃ الصغری المارۃ ان غیر ذات جرم غیر مرئیۃ وانکان لھالون ۲؎۔ دوسرے اس مسئلہ میں قہستانی  نے صغری کی عبارت نقل کی جو گزری کہ وہ نجاست کہ جس کا جرم نہ ہو مرئی نہ ہوگی اور اگرچہ اس کا رنگ ہو۔


 (۲؎ جامع الرموز    فصل یطہر الشیئ    اسلامیہ گنبد ایران    ۱/۹۶)


الثالث فیھا نقل البرجندی عبارۃ شرح الطحاوی مثلہ ثم قال وھذا یخالف مافی بعض الشروح من ان غیر المرئی مالایری اثرہ بعد الجفاف والمرئی فی مقابلہ ۳؎ اھ


تیسرے برجندی  نے اس میں شرح طحاوی سےایسے ہی عبارت نقل کی پھر فرمایا یہ دوسری شروح سےمختلف ہے جن میں ہے کہ غیر مرئی وہ ہے جس کا اثر خشکی کے بعد نہ دیکھا جائے، اور مرئی اس کے مقابل ہے اھ ۔


 (۳؎ نقایۃ للبرجندی    فصل تطہیر الانجاس    نولکشور لکھنؤ    ۱/۶۴)


الرابع: فیھا نقل فی البحر عبارۃ الذخیرۃ وجعلھا معنی ماقال ھھنا فی غایۃ البیان ان المراد بالمرئی مایکون مرئیا بعد الجفاف ومالیس بمرئی ھو مالایکون مرئیا بعد الجفاف کالبول ۴؎ اھ وتبعہ ط۔


چوتھے، بحر  نے اس مسئلہ میں ذخیرہ کی عبارت نقل کی اور اس کو اس کے ہم معنی قرار دیا جو یہاں غایۃ البیان میں کہا کہ مرئی سےمراد وہ ہے جو خشکی کے بعد نظر آئے اور جو غیر مرئی ہے اس سےمراد وہ ہے جو خشک ہو نے کے بعد نظر نہ آئے جیسا کہ پیشاب اھ اور ط  نے اس کی متابعت کی ہے۔


 (۴؎ بحرالرائق    باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۳۶)


الخامس : فیھا نقل عبدالحلیم الرومی عن شرح الطحاوی والمنبع والذخیرۃ مامرثم نقل کلام البرجندی انہ یخالف بعض الشروح ثم کلام البحر وجعلہ ایاہ بمعنی الاول ثم قال ردا علیہ انت خبیر بان بینھما مخالفۃ اذرب شیئ لیس لہ جرم ولہ اثر کاللون یبقی اثرہ بعد الجفاف فعلی الاول غیر مرئی وعلی الثانی مرئی والمنصور ھو الاول کمالایخفی ۱؎ اھ


پانچواں،اس میں عبدالحلیم رومی کی نقل شرح طحاوی، منبع اور ذخیرہ سےہے جو گزری، پھر انہوں نے برجندی کا کلام نقل کیا کہ وہ بعض شروح کے مخالف ہے، پھر بحر کا کلام نقل کیا ہے اور اس نے اس کو اول کے ہم معنی کہا پھر ان پر رد کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اُن دونوں میں مخالفت ہے کیونکہ کئی چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا جرم تو  نہیں ہے مگر ان کا اثر ہے، جیسےرنگ کہ اس کا اثر خشک ہو نے کے بعد بھی باقی رہتا ہے تو یہ پہلی صورت کے لحاظ سےغیر مرئی ہے اور دوسری کی لحاظ سےمرئی ہے اور راجح پہلا ہی ہے جیسا کہ مخفی نہیں اھ (ت)


 (۱؎ حاشیۃ الدرر للمولی عبدالحلیم        باب تطہیر الانجاس        مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۴۰)


السادس :فیھا نقل فی الحلیۃ کلام الذخیرۃ والتتمۃ والیہ رد عبارۃ غایۃ البیان المذکورۃ فقال مراد بہ ماتکون ذاتہ مشاھدۃ بالبصر بعد الجفاف ومالا فلیس بینھا وبین مافی عامۃ الکتب مخالفۃ فی تفسیرھماوممایرشد الی ماذکرنا التمثیل المذکور فان بعض الابوال قدیری لہ لون بعد الجفاف اھ ۲؎۔


چھٹا، اس مسئلہ میں حلیہ میں ایک نقل ذخیرۃ اور تتمہ سے  ہے اور اسی کی طرف غایۃ البیان کی مذکورہ عبارت کو موافق کیا  ہے، اور کہا  ہے اس سے مراد وہ  ہے جس کی ذات خشک ہونے کے بعد مشاہدہ میں آئے، اور جو ایسا نہ ہو وہ مرئی نہیں تو اس میں اور جو عام کتب میں  ہے کوئی مخالفت نہیں، اور  ہمارے قول پر دلیل وہ  ہے جو مثال گزشتہ میں گزرا، کیونکہ بعض پیشاب ایسا ہوتا ہے جس کا رنگ خشک ہونے کے بعد نظر آتا  ہے اھ (ت)


 (۲؎ حلیہ)


السابع: فیھا قال فی الشامی قولہ بعد جفاف ظرف لمرئیۃ وقید بہ لان جمیع النجاسات تری قبلہ وتقدم ان مالہ جرم ھو مایری بعد الجفاف فھو مساو للمرئیۃ وقدعد منہ فی الھدایۃ الدم وعدہ قاضیخان مما لاجرم لہ وقدمنا عن الحلیۃ التوفیق بحمل الاول علی مااذا کان غلیظا والثانی علی مااذا کان رقیقا اھ ثم نقل عبارۃ غایۃ البیان وعقبھا بعبارۃ التتمۃ ثم ذکرتاویل الحلیۃ المار اٰنفا قال ویوافقہ التوفیق المار لکن فیہ نظر لانہ یلزم منہ ان الدم الرقیق والبول الذی یری لونہ من النجاسۃ الغیر المرئیۃ وانہ یکتفی بالغسل ثلثا بلااشتراط زوال الاثر مع ان المفھوم من کلامھم ان غیر المرئیۃ مالایری لہ اثر اصلا لاکتفائھم فیھا بمجرد الغسل بخلاف المرئیۃ المشروط فیھا زوال الاثر فالمناسب مافی غایۃ البیان وان مرادہ بالبول مالالون لہ والاکان من المرئیۃ اھ ۱؎۔


ساتواں، اس بحث میں، شامی میں فرمایا کہ ماتن کا قول ''بعد جفاف'' یہ مرئیہ کا ظرف  ہے اور یہ قید اس لئے لگائی  ہے کہ تمام نجاستیں خشک ہونے سے قبل دیکھی جاسکتی ہیں اور یہ پہلے گزرا کہ جرم دار وہ  ہے جو خشک ہونے کے بعد دیکھا جائے تو یہ مرئیہ کے مساوی  ہے اور ہدایہ میں اس میں سے خون کو شمار کیا  ہے اور قاضی خان نے خُون کو اُن چیزوں میں شمار کیا  ہے جو جرم دار نہ ہوں۔ اور ہم نے حلیہ سے تطبیق نقل کی  ہے کہ پہلے کو گاڑھے پر محمول کیا جائے اور دوسرے کو رقیق پر اھ پھر انہوں نے غایۃ البیان کی عبارت کو نقل کیا اور اس کے بعد تتمہ کی عبارت لائے پھر حلیہ کی گزشتہ تاویل کو ذکر کیا لیکن اس میں نظر  ہے کیونکہ اس سے لازم آتا  ہے کہ رقیق خون اور پیشاب جس کا رنگ نظر آتا  ہے کہ نجاست غیر مرئیہ سے ہو اور یہ کہ تین مرتبہ دھونے پر اکتفاء کیا جائے اور اس میں اثر کے زوال کی شرط نہ رکھی جائے حالانکہ اُن کے کلام سے مفہوم یہ  ہے کہ غیر مرئیہ وہ  ہے جس کا کوئی اثر نظر آئے، کیونکہ وہ اس میں صرف دھونے پر اکتفا کرتے ہیں بخلاف مرئیہ کے جس میں اثر کا زائل ہونا بھی شرط  ہے تو مناسب وہی  ہے جو غایۃ البیان میں  ہے اور یہ کہ ان کی مراد پیشاب سے وہ  ہے جس کا رنگ نہ ہو ورنہ وہ بھی نجاست مرئیہ ہوتا اھ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار باب الانجاس    مصطفی البابی مصر    ۱/۲۴۰)


الثامن: عبارۃ الکنز الصحیحۃ النجس المرئی یطھر بزوال عینہ وغیرہ بالغسل زاد فیھا مسکین مایفسدھااذقال (النجس المرئی) عینہ ثم قال (وغیرہ) ای غیر المرئی عینہ لکنہ تدارکہ بوصل قولہ وھو الذی لایری اثرہ بعد الجفاف ۱؎ اھ فلم یبق   (۱) علیہ الاضیاع زیادۃ عینہ فی الموضعین بل ایھامھا خلاف المراد ثم بالتدارک رجوع الکلام الی عدم التفرقۃ بین العین والاثر وکأنہ اخذہ من عبارۃ الامام القدوری النجاسۃ ان کان لھا عین مرئیۃ فطھارتھا زوال عینھا الا ان یبقی من اثرھا مایشق ازالتھا ومالیس لھا عین مرئیۃ فطھارتھا ان تغسل ۲؎ الخ فالمراد العین المرئیۃ ولو برؤیۃ لونھا الا تری الی استثنائہ الاثر من العین بل المقرر ان بصر البشر فی الدنیا لایدرک الا اللون والضوء وبالجملۃ استقام الکلام بالتدارک لکن السید اباالسعود نقلا عن السید الحموی اراد ردہ الی خلافہ فقال علی قولہ وھو الذی لایری اثرہ حکاہ فی الصغری بقیل بعد ان صدر بقولہ المرئی(عـہ) مالہ جرم سواء کان لہ لون ام لا ۳؎ اھ


آٹھواں، کنز کی عبارت  ہے جو صحیح  ہے کہ نجاست مرئیہ کا حکم یہ  ہے کہ اس کے عین کے زوال کے بعد وہ طاہر ہوجاتا  ہے اور جو اس کے علاوہ ہو وہ صرف دھونے سے پاک ہوتا  ہے مسکین نے اس میں یہ اضافہ کیا (کہ دیکھی جانے والی نجاست) یعنی جس کا جرم نظر آئے، پھر کہا (اور اس کے علاوہ)یعنی جس کا جرم نظر نہ آئے، پھر اس کا تدارک اپنے اس قول سے کیا کہ جس کا اثر خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے اھ تو اُن کے ذمہ صرف یہ اعتراض رہا کہ دونوں جگہ لفظ عین کا لانا فضول ہوا، بلکہ یہ خلاف مراد کا وہم پیدا کرتا  ہے پھر تدارک کے ساتھ کلام کا ماحصل یہ نکلتا  ہے کہ عین واثر میں فرق نہیں رہتا اور غالباً انہوں نے یہ قید قدوری کے کلام سے اخذ کی  ہے، وہ یہ  ہے کہ ایسی نجاست کہ اگر اس کا جرم نظر آتا  ہے تو اس کی پاکی اس طرح ہوگی کہ اس کا جرم ختم ہوجائے، اگر اُس کا کوئی ایسا نشان باقی رہ جائے کہ اس کا ازالہ دشوار ہو تو حرج نہیں اور جس نجاست کا جرم نظر نہیں آتا تو اس کی طہارت یہ  ہے کہ اسے دھویا جائے الخ تو مراد وہ جرم  ہے جو نظر آتا  ہے خواہ اس کا رنگ ہی نظر آئے، جیسا کہ اُن کے استثناء سےمفہوم ہوتا  ہے جو عین سے  ہے بلکہ یہ طے شدہ امر  ہے کہ انسانی آنکھ دنیا میں سوائے رنگ اور روشنی کے کچھ اور نہیں دیکھتی  ہے اور خلاصہ یہ کہ کلام تدارک کے ساتھ درست ہوگیا لیکن ابو السعود نے حموی سے نقل کرتے ہوئے اس کے مخالف معنی لینے کا ارادہ کیا  ہے تو ان کے قول ھو الذی لایری اثرہ پر فرمایا کہ صغرٰی میں اس کو ''قیل''سے ذکر کیا  ہے اور ابتدا اس طرح کی  ہے کہ مرئی وہ  ہے جس کا جرم ہو خواہ رنگ ہو یا نہ ہو اھ (ت)


 (۱؎ فتح اللہ المعین    باب الانجاس        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۳۰)

(۲؎ قدوری         باب الانجاس        مجتبائی دہلی        ص۱۸)


 (عـہ)اقول کما فسرفی الصغری المرئی بھذا فسر غیر المرئی بقولہ مالاجرم لہ سواء کان لہ لون اولا کمافی جامع الرموز فکان اولی نقلہ لان الکلام ھھنا فی غیر المرئی ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اقول: مرئی کی صغرٰی میں جس طرح تفسیر اس کے ساتھ کی  ہے اس طرح غیر مرئی کی تفسیر یوں کی  ہے کہ جس کا جرم نہ ہو خواہ اس کا رنگ ہو یا نہ ہو جیسا کہ جامع الرموز میں  ہے تو اولٰی اس کا نقل کرنا  ہے کیونکہ کلام یہاں غیر مرئی میں  ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۳؎ فتح اللہ المعین     باب الانجاس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۳۱)

نواں، اِن دونوں کی تفسیر علامہ ''ش'' نے موزے کی مسئلے میں صحیح طریقہ پر کی  ہے، پھر اُس سے انحراف کیا،اور فرمایا اس میں جو بحث  ہے ہم اس کو ذکر کریں گے جیسا کہ گزرا،یہ بحث ساتویں تحقیق میں آپ جان چکے ہیں۔(ت)


العاشر:قال فی الجوھرۃ (اذا اصاب الخف نجاسۃ لھاجرم)ای لون و اثر بعدالجفاف کالروث والدم والمنی ۱؎ اھ فرد الصحیح الی الغلط الصریح۔


 (۱؎ الجوہرۃ النیرۃ    باب الانجاس    امدادیہ ملتان    ۱/۴۲)


دسواں، جوہرہ میں کہا (جب موزے کو جرم دار نجاست لگ جائے) یعنی جس کا خشک ہونے کے بعد رنگ اور اثر ہو جیسے لید، خون اور منی اھ تو صحیح سے انہوں نے صریحاً غلط مطلب نکالا۔ (ت)


اقول:وتعرف مافی کل ھذہ بحرف واحد فاعلم ان المسائل ھھنا اربع مسألۃالتطہیر بازالۃ العین اوغلبۃ الظن ومسألۃ وقوع نجس فی حوض کبیر ومسألۃ الخف ومسألۃ التقدیر بوزن الدرھم اومساحتہ وزاد فی البدائع اخری مسألۃ الوقوع فی البئر فمسألۃ التطھیر والحوض الکبیر فریق وسائرھن فریق والمراد بالمرئی فی الفریق الاٰخر ھو المتجسد ای مایری لہ بعد الجفاف جرم شاخص فوق سطح المصاب ولا یکفی مجرد اللون وبغیر المرئی غیرالمتجسد ای مالا یری بعد الجفاف جرم شاخص وان بقی اللون وھذا مافی الصغری والتتمۃ وشرح الطحاوی والذخیرۃ والمنبع والمراد بالمرئی فی مسألۃ التطہیر والحوض الکبیر ما یدرکہ البصر وان جف ولوبمجرد لونہ من دون جرم مرتفع فوق المصاب وبغیر المرئی مالایحس لہ بالبصر بعد الجفاف اوفی الماء عین ولا اثر وھذا مافی غایۃ البیان وغیرہا،


میں کہتاہوں جو کچھ مذکورہ ابحاث میں  ہے وہ صرف ایک حرف سے معلوم کیا جاسکتا  ہے کہ دراصل یہاں چار مسائل ہیں، پاک کرنے کیلئے نجاست کے عین کو زائل کردینا یا اس کے زوال کا غلبہ ظن حاصل ہونا، بڑے حوض میں نجاست کے گرنے کا مسئلہ، موزے کا مسئلہ، وزن درہم سے اندازہ یا اس کی پیمائش کا لحاظ۔ اور بدائع میں ایک اور مسئلہ کا اضافہ کیا، کنویں میں گرنے کا مسئلہ، تو پاکی، اور بڑے حوض کا مسئلہ ایک فریق  ہے اور باقی دوسرا فریق  ہے اور مرئی سے دوسرے فریق میں جسم والا مراد  ہے، یعنی جس کا جرم خشک ہونے کے بعد بھی ابھرا ہوا نظر آئے اور اس میں صرف رنگ نظر آنا کافی نہیں  ہے، اور غیر مرئی سے مراد غیر متجسد  ہے، یعنی خشک ہوجانے کے بعد اُس کا اُبھرا ہوا جرم نظر نہ آئے اگرچہ اس کا رنگ باقی ہو،یہ وہ  ہے جو صغرٰی، تتمہ، شرح طحاوی، ذخیرہ اور منبع میں  ہے، اور مسئلہ تطہیر، اور بڑے حوض میں مرئی سے مراد وہ  ہے جو نظر میں آئے اگرچہ خشک ہوجائے، اگرچہ صرف رنگ نظر آئے جرم نظر نہ آئے، اور غیر مرئی سے مراد جو خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے یا پانی میں کوئی جرم ہو اور نشان نہ ہو یہ غایۃ البیان وغیرہ میں  ہے


والدلیل علی ھذا التوزیع:اولا مااستدلوا بہ علی احکام للفریقین کمالایخفی علی من طالع الکتب المعللۃ کالبدائع والھدایۃ والتبیین والکافی والفتح والغنیۃ والحلیۃ والبحر وغیرھا من ذلک قول الھدایۃ اذا اصاب الخف نجاسۃ لھا جرم فجفت فدلکہ جازلان الجلد لصلابتہ لاتتداخلہ اجزاء النجاسۃ الا قلیلا ثم یجتذبہ الجرم اذا جف فاذا زال زال ماقام بہ وان اصابہ بول لم یجز وکذا کل مالاجرم لہ کالخمر لان الاجزاء تتشرب فیہ ولا جاذب یجذبھا ۱؎ اھ


اور اس تو زیع کی دلیل یہ  ہے: (ت)

اوّلاً:وہ جو انہوں نے استدلال کیا  ہے مسائل کے فریقین کے احکام پر، جیسا کہ مخفی نہیں اس پر جس نے اُن کتب کا مطالعہ کیا  ہے جو احکام کی علتیں بیان کرتی ہیں، جیسے بدائع، ہدایہ، تبیین، کافی، فتح، غنیہ، حلیہ اور بحر وغیرہ۔ چنانچہ ہدایہ میں  ہے کہ اگر موزے کو کوئی جرم دار نجاست لگ جائے اور خشک ہوجائے تو وہ رگڑنے سے پاک ہوجاتا  ہے، کیونکہ کھال کی سختی کی وجہ سے اس میں نجاست کے اجزاء داخل نہیں ہوسکتے سوائے معمولی اجزاء کے اور جب موزہ خشک ہوگا تو اُن اجزاء کو جرم جذب کرلے گا اور جب وہ جرم زائل ہوگا تو جو اُس کے ساتھ ہوگا وہ بھی زائل ہوجائےگا اور اگر موزے پر پیشاب لگ جائے تو جائز نہیں، اور اسی طرح ہر اس نجاست کا حال  ہے جس کا جرم نہ ہو جیسے شراب، کیونکہ شراب کے اجزاء اس میں جذب ہوتے ہیں اور ان کاکوئی جاذب نہیں  ہے اھ


 (۱؎ ا لہدایہ         باب الانجاس    مطبع عربیہ کراچی     ۱/۵۶)


وفی الحلیۃ لانھا مجرد بلۃ فتدخل فی اجزاء الخف ولاجاذب لھا ۲؎ اھ اور حلیہ میں  ہے کیونکہ وہ محض تری  ہے تو وہ موزے کے اجزاء میں داخل ہوگی اور اس کا کوئی جاذب نہیں اھ


 (۲؎ حلیہ)


وانت تعلم انہ لااثر فی ھذا للاثر بقی اولا بخلاف مسألۃ التطھیر فان المقصود فیھا ازالۃ المصیب وذلک بالیقین فی المرئی وبغلبۃ الظن فی غیرہ لانہ اذالم یحس لم یبق سبیل الی الیقین بزوالہ فاکتفی باکبر الرأی الملتحق فی الفقہیات بالیقین اما مایری لہ عین اواثرفنعلم زوالہ بزوالہ وبقاء ہ ببقاء ہ لان الاثر لایقوم الابالعین والعرض لاینتقل من عین الی عین قال فی البدائع انکانت النجاسۃ مرئیۃ کالدم ونحوہ فطھارتہ زوال عینھا ولاعبرۃ فیہ بالعددلان النجاسۃ فی العین فان زالت زالت وان بقیت بقیت ولو زالت العین مابقی الاثر فان کان مما یزول اثرہ لایحکم بطھارتہ مالم یزل الاثر لان الاثر لون عینہ لالون الثوب فبقاؤہ یدل علی بقاء عینہ وانکانت مما لایزول اثرہ لایضر بقاء اثرہ لان الحرج (عـہ)مدفوع ۱؎ اھ ملتقطاوبھذا یفترقان فی الحوض فغیر المرئیۃ (عـہ۱) تنعدم والمرئیۃ تبقی ولاتؤثرحتی ان قلت مساحۃ الماء اثرت۔


اور تم جانتے ہو  کہ اس میں اثر کا کوئی دخل نہیں جو باقی رہا یا نہ رہا بخلاف مسئلہ تطہیر کے، کیونکہ وہاں مقصود لگی ہوئی چیز کا ازالہ  ہے، اور یہ اُسی وقت ہوگا جبکہ مرئی میں ازالہ کا یقین ہو اور غیر مرئی میں غلبہ ظن ہو کیونکہ جب وہ محسوس نہ ہو تو اس کے زوال کا یقین کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں، تو ظنِ غالب پر اکتفاء کرلیا گیا، جس کو فقہی مسائل میں یقین کا قائم مقام سمجھا گیا  ہے، اور وہ نجاستیں جن کا جرم یا اثر ہو تو اُن کے زوال کا حال اُن کے زوال سے معلوم ہوجاتا  ہے اور اُس کی بقاء ان کے باقی رہنے سے معلوم ہوجاتی  ہے کہ اثر تو عین سے قائم ہوتا  ہے اور عرض ایک عین سے دوسرے عین کی طرف منتقل نہیں ہوتا  ہے، بدائع میں فرمایا اگر نجاست مرئیہ ہو جیسے خون اور اسی کی مثل تو اس کی طہارت اس کے عین کے زوال پر موقوف ہوگی، اور اس میں عدد کا اعتبار نہیں، کیونکہ نجاست عین میں  ہے تو اگر وہ زائل ہوگا تو وہ زائل ہوگی اور وہ باقی ر ہے گا تو وہ باقی ر ہے گی، اور اگر عین زائل ہوگیا تو اثر باقی نہ رہیگا، اور اگر وہ اس قسم کا  ہے کہ اس کا اثر زائل ہوجاتا  ہے تو اس کی طہارت کا حکم اس وقت تک نہیں لگایا جائے گا جب تک کہ اثر زائل نہ ہو کیونکہ اثر اس کے عین کا رنگ  ہے نہ کہ کپڑے کا، تو اس کی بقاء اس کے عین کی بقاء پر دلالت کرتی  ہے اور اگر وہ ایسا  ہے کہ اس کا اثر زائل نہیں ہوتا تو اس کے اثر کا باقی رہنا مضر نہیں کیونکہ حرج مدفوع  ہے اھ ملتقطاً، تو اس طرح یہ دونوں حوض میں جُدا ہوجائیں گے تو غیر مرئیہ معدوم ہوجائے گی اور مرئیہ باقی ر ہے گی اور اثر انداز نہ ہوگی یہاں تک کہ جب پانی کی پیمائش کم ہوگی تو پھر اثر انداز ہوگی۔ (ت)


 (عـہ)اقول استدل رحمہ اللّٰہ تعالٰی علی ھذا باربعۃ اوجہ ھذااحسنھافاقتصرت علیہ تبعا للھدایۃ ولوذکرت سائرا لوجوہ بمالھا وعلیھا طال الکلام ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اقول: صاحب بدائع نے اس پر چار طرح سے دلیل قائم کی  ہے میں نے ہدایہ کی اتباع میں صرف اس کو بیان کیا  ہے اور اگر میں تمام وجوہ کو ہمہ پہلو ذکر کرتا تو بات طویل ہوجاتی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    شرائط التطہیر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۸)


 (عـہ۱) کما حققناہ فی الاصل السادس والعاشر من الجواب الخامس فی رسالتنارحب الساحۃ ۱۲ منہ غفرلہ (م) جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ''رحب الساحۃ''میں پانچویں جواب کے تحت چھٹے اور دسویں قاعدہ میں اس کی تحقیق کی  ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


وثانیا:عد ملک العلماء الدم من المرئی کمارأیت اٰنفاوقدعدہ قبل ھذا بورقتین من غیر ذوات الجرم فقال ان کان غیر مستجسدکالبول والدم والخمر ینزح ماء البئر کلہ ۱؎ اھ وکذلک قول الھدایۃ مالاجرم لہ کالخمر ومعلوم ان الدم والخمر من ذوات اللون فعلم ان لاعبرۃ بہ فی مسألۃ الخف والبئر وکذا مسألۃ التقدیر لان اللون لااثر لہ فی الکثافۃ والرقۃ ولذا قال فی الخانیۃ فی غیرالمستجسدۃ کالبول والخمر والدم یعتبر القدر بسطا ۲؎ اھ بخلاف مسألۃ التطھیر المشروط فیھا زوال الاثرمالم یشق فلذا جعلہ ملک العلماء فیھا من المرئی۔ اور ثانیاً ملک العلماء نے خون کو مرئیہ میں سے شمار کیا  ہے جیسے کہ آپ نے ابھی دیکھا،حالانکہ دو ورق پہلے انہوں نے اس کو غیر جرم والی نجاستوں میں شمار کیا تھا، فرمایا اگر وہ جرم دار نہ ہو جیسے پیشاب، خون اور شراب، توکنویں کا سارا پانی نکالا جائے اھ اور ہدایہ کا قول بھی ایسے  ہے کہ جس کا جرم نہ ہو جیسے شراب، اور یہ بات معلوم  ہے کہ شراب اور خون رنگ والی چیزیں ہیں پس معلوم ہوا کہ موزہ اور کُنویں کے مسئلہ میں رنگ کا اعتبار نہیں  ہے اسی طرح اس میں مقدار کا اعتبار نہیں کیونکہ رنگ میں کثافت اور رقت کا اثر نہیں ہوتا، اسی لئے خانیہ میں کہا کہ غیر جسم والی نجاستوں جیسے پیشاب، شراب اور خون میں پھیلاؤکے اعتبار سے اندازہ ہوگا اھ بخلاف مسئلہ تطہیر کے کہ اس میں زوالِ اثر مشروط  ہے جب تک کہ دشوار نہ ہو، اس لئے اس کو اس میں ملک العلماء نے مرئی قرار دیا  ہے۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    مقدار الذی یصیر المحل نجسا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۶)

(۲؎ قاضی خان    فصل فی النجاسۃ الخ        نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۰)


وثالثا:لک العلماء عبرفی مسائل الفریق الاخیربالمستجسد وغیر المستجسد او المستجسد والمائع ثم قال فی الفریق الاول النجاسۃ المرئیۃ قط لاتزول بالمرۃ الواحدۃ فکذا غیر المرئیۃ ولافرق سوی ان ذلک یری بالحس وھذا یعلم بالعقل ۱؎ اھ وھذا من اجلی نص علی ان المرئی بلونہ من المرئی فی مسئلۃ التطھیر۔


ثالثا: آخری فریق کے مسائل میں ملک العلماء نے جسم والی اور غیر جسم والی، یا جسم والی اور مائع سے تعبیر کیا، پھر فرمایا کہ فریق اول میں نجاست مرئیہ کبھی ایک مرتبہ میں زائل نہیں ہوتی  ہے تو اسی طرح غیر مرئیہ ہوگی اور کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ مرئیہ حِس سے نظر آتی  ہے اور غیر مرئیہ عقل سے معلوم ہوتی  ہے اھ اور یہ بڑی واضح نص  ہے مسئلہ تطہیر میں رنگ والی مرئیہ میں سے  ہے۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    شرائط التطہیر        سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۸)


و رابعا:کذلک الامام تاج الشریعۃ عبر فی مسألۃ التقدیر بالکثیف والرقیق وفی مسألۃ الخف بذی جرم ومالاجرم لہ وقال فی مسألۃ التطھیر یطھر عمالم(عـہ) یراثرہ بغسلہ ثلثا فابان ان مایری اثرہ من المرئی ولا اقول کما قال فی الغنیۃ(۱)تحت قولہ ان لم تکن النجاسۃ مرئیۃ ای ان لم یکن لھالون مخالف اللون الثوب ۱؎ اھ فانہ یحصر المرئی فی الرؤیۃ باللون ویخرج مایری لہ جرم شاخص فوق سطح المصاب مع موافقتہ لہ فی اللون علی انہ یرفع(۲)الامتیاز بین المرئی وغیرہ فکل شیئ اصاب ما یخالفہ فی اللون کان مرئیا واذا اصاب مایوافہ فیہ کان غیر مرئی۔


اور چوتھا، اسی طرح امام تاج الشریعۃ نے مقدار کے مسئلہ میں کثیف اور رقیق سے تعبیر فرمایا، اور موزے کے مسئلہ میں جرم دار یا غیر جرم دار سے تعبیر کیا، اور مسئلہ تطہیر میں فرمایا کہ جس نجاست کا اثر غیر مرئی ہو وہ تین مرتبہ دھونے سے  پاک ہوگی تو انہوں نے واضح کردیا کہ جس کا اثر نظر آئے وہ نجاست مرئیہ  ہے، اور میں وہ نہیں کہتا جو غنیہ میں ان لم تکن النجاسۃ مرئیۃ کے تحت فرمایا، یعنی اگر اس کا رنگ کپڑے کے رنگ سے مختلف نہ ہو اھ، کیونکہ یہ مرئی کو رؤیۃ باللون میں منحصر کرتا  ہے اور اس سے وہ خارج ہوجائےگا جس کا اُبھرا ہوا جرم نظر آتا ہو حالانکہ وہ رنگ میں کپڑے کے رنگ کے موافق ہوتا  ہے علاوہ ازیں ان کابیان مرئی اور غیر مرئی کے درمیان امتیاز کو ختم کردیتا  ہے کیونکہ اس طرح ہر وہ چیز جو ایسی چیز کو لگ جائے جو اُس کے رنگ میں مخالف ہو تو وہ مرئی ہوگی اور جب وہ ایسی چیز کو لگی جو رنگ میں اس کے موافق ہو تو غیر مرئی ہوگی۔ (ت)


 (عـہ) ولکن اکرم بعقل الذی یری ھذا التصریح المفیض٭ ثم یقوم یفسر النقیض بالنقیض٭ وھو العصری اللکنوی اذقال فی عمدۃ الرعایۃ وھی التی لاجرم لھا ولاتحس بعد الجفاف سواء کان لہ لون ام لاکذا فی خزانۃ الفتاوی اھ فسبحٰن اللّٰہ یقول التاج لم یراثرہ وھذا یفسرہ بمایری اثرہ اولا ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم ۱۲ منہ غفرلہ (م)

لیکن آپ اس کی عقل کو داد دیں جس نے یہ تصریح دیکھ کر اس کی تفسیر اس کی نقیض کے ساتھ کردی اور یہ معاصر لکھنوی ہیں جنہوں نے عمدۃ الرعایۃ میں کہا کہ یہ وہ نجاست  ہے جس کا جرم نہ ہو اور وہ خشک ہونے کے بعد محسوس بھی نہ ہو خواہ اس کا رنگ ہو یا نہ ہو خزانۃ المفتین میں ایسے  ہے اھ پس سبحان اللہ تاج الشریعۃ تو یہ فرمائیں کہ ''وہ جس کا اثر نظر نہ آئے'' اور یہ صاحب اس کی تفسیر کرتے ہیں کہ اس کا اثر دیکھا جائے یا نہ دیکھا جائے لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی        الشرط الثانی الطہارۃ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۸۳)


وخامسا: اتفقت المتون والاقدمون علی التعبیر فی مسألتی الخف والتقدیر بذی جرم وغیر ذی جرم والکثیف والرقیق وفی مسألتی التطھیر والحوض الکبیر بالمرئی وغیر المرئی لاشک ان المرئی لونہ مرئی بل لامرئی منہ الا اللون سواء کان کثیفا او رقیقا والذی لاجرم لہ شاخصا بعد الجفاف رقیق ولیس اللون جرما فتبین ان اللون معتبر فی ھذا الفریق دون الاٰخر ولومشت الشروح علی التفسیر فی الموضعین بماھو مؤدی نفس الالفاظ لم یقع الاشتباہ لکنھم کمافسروا فی مسألۃ التطھیر بما یری بعد الجفاف ومالایری بعدہ کما مرعن غایۃ البیان وعنھا فی البحر والشرنبلالیۃ والطحطاوی علی المراقی ومثلہ فی الدر وغیرہ کذلک فسروابھما ذا الجرم وغیر ذی الجرم فی مسألۃ الخف کماتقدم فذھب الوھل الی ان المراد واحد فی الموضعین ولیس کذلک بل ھو علی ظاھرہ فی مسألۃ التطھیر ومؤول برؤیۃ الجرم وعدمھا فی الفریق الاٰخر فھذا ھو التحقیق الانیق الذی لوحانت منھم التفاتۃ الیہ لما(۱)فسرھماالعنایۃ وچلپی فی الفریق الاول بالمستجسدۃ وغیرھا ولا(۲)نقل فیھاالقھستانی عبارۃ الصغری ولا(۳)البرجندی عبارۃ شرح الطحاوی ولا(۴)نصب الخلاف بینھا وبین مافی بعض الشروح ولا(۵) جعل البحر وط معنی العبارتین واحدا ولا نقل فیھا عبدالحلیم مانقل ولا(۶)اثبت الخلاف بین واردین غیر مورد واحد ولا(۷)جعل المنصور ھھنا الاول ولا(۸)صرف الحلیۃ کلام الغایۃ الی غیر المحمل اماکون بعض الابوال قدیری لہ لون فلایقدح فی المثال ولایحصر فیہ مراد المقال ولا(۹)اضطرب کلام الشامی فیہ فجزم فی مسألۃ التقدیر بحمل المرئی علی مرئی الجرم ثم انکرہ ولا (۱۰)احتاج الی ترجیح مافی الغایۃ علی مالایخالفہ اصلا ولا(۱۱) تمسک بالتوفیق فان کلام الھدایۃ فی مسئلۃ الخف قال اذااصاب الخف نجاسۃ لھاجرم کالروث والدم والمنی ۱؎ الخ وکذا کلام الخانیۃ فی مسألۃ التقدیر کماتقدم اٰنفا وھما من الفریق (عـہ)الاٰخر فکون الدم الرقیق من غیر المرئی فیہ لاینافی کونہ مرئیا فی مسئلۃ التطھیر ولا(۱)اورد السیدان علی کلام مسکین عبارۃ الصغری ولا(۲)فسر الجوھرۃ فی مسألۃ الخف الجرم باللون واین الجرم  واین اللون واین العین واین الاثر فانما نشأکل ذلک من عدم الفرق بین المقامین وھذہ زلۃ فاشیۃ لم ارمن تنبہ لھااو نبہ علیھاواللّٰہ الموفق لارب سواہ٭ وصلی اللّٰہ تعالی علی مصطفاہ٭ واٰلہ وصحبہ ومن والاہ٭


پانچواں، متون اور متقدمین علماء کا موزے اور مقدار کے مسئلہ میں جرم والی اور غیر جرم والی اور کثیف ورقیق کی تعبیر میں متفق ہیں اور تطہیر اور حوض کبیر کے مسائل میں مرئی اور غیر مرئی کی تعبیر میں اتفاق  ہے اور کچھ نہیں کہ مرئی وہ  ہے جس کا رنگ نظر آئے بلکہ مرئی کا رنگ  ہی نظر آتا  ہے خواہ کثیف ہو یا رقیق ہو اور وہ کہ جس کا جرم خشک ہوجانے کی بعد اُبھرا ہوا نظر نہ آئے وہ رقیق  ہے، اور رنگ کوئی جرم نہیں تو ظاہر ہوگیا کہ رنگ معتبر  ہے اس تطہیر اور حوض کے فریق میں نہ کہ دوسرے فریق میں، اور اگر شروح میں دونوں مقامات پر وہی تفسیر ہوتی جو نفسِ الفاظ سے مستفاد ہوتی  ہے تو کوئی اشتباہ واقع نہ ہوتا لیکن انہوں نے تطہیر کے مسئلہ میں اس طرح تفسیر کی  ہے کہ وہ جو خشک ہوجانے کے بعد نظر آئے اور وہ جو خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے جیسا کہ غایۃ البیان سے گزرا، اور اسی سے بحر، شرنبلالیہ، طحطاوی علی مراقی الفلاح اور اسی کی مثل دُر وغیرہ میں  ہے، اسی طرح انہوں نے موزے کے مسئلہ میں دونوں کی تفسیر جرم دار اور غیر جرم دار سے کی جیسا کہ گزرا تو معاً ذہن اس طرف منتقل ہوتا  ہے کہ دونوں جگہ مراد واحد  ہے حالانکہ یہ بات نہیں  ہے بلکہ یہ مسئلہ تطہیر میں ظاہر  ہے اور جرم کے دیکھنے نہ دیکھنے کے ساتھ فریق آخر میں یہ موؤل  ہے تو یہی تحقیق انیق  ہے اگر ان کی توجہ اس طرف ہوجاتی تو عنایہ اور چلپی فریق اول میں جسم والی اور غیر جسم والی سے مرئی اور غیر مرئی کی تفسیر نہ کرتے اور نہ قہستانی اس میں صغرٰی کی عبارت نقل کرتے اور نہ برجندی طحاوی کی شرح کی عبارت نقل کرتے، اور نہ وہ اس میں اور بعض شروح کی عبارات میں خلاف قائم کرتے اور نہ بحر اور ط دونوں عبارتوں کا ایک معنی بتاتے اور نہ اس بارے میں عبدالحلیم وہ نقل کرتے جو انہوں نے نقل کیا، اور نہ وہ دونوں مواقع کا خلاف متعدد جگہ ثابت کرتے اور نہ وہ یہاں پہلے کو مضبوط قرار دیتے، اور نہ حلیہ، غایۃ کے کلام کو غیر محمل پر پھیرتے تاہم بعض پیشاب رنگ والے نظر آتے ہیں اس کو مثال کے طور پر ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ کلام کی مراد کو اس میں منحصر نہ کرتے، اور نہ شامی کا کلام اس میں مضطرب ہوتا کہ مقدار کے بیان میں انہوں نے مرئی کو مرئی الجرم قرار دے کر پھر انہوں نے انکار کردیا، اور نہ وہ غایۃ کے بیان کردہ کو بلاوجہ ترجیح دیتے ایسی چیز پر جو بالکل مخالف نہ تھی اور نہ وہ عبارتوں کی توفیق کو دلیل بناتے کیونکہ خُف کے مسئلہ میں جہاں ہدایہ نے کہا،جب موزے کو ایسی نجاست لگ جائے جس کا جرم ہوتا  ہے جیسے گوبر، خون اور منی الخ اسی طرح مقدار کے مسئلہ میں خانیہ کا کلام جو ابھی گزرا، یہ دونوں کلام دوسرے فریق کے بارے میں ہیں پس رقیق خون کا خُف کے مسئلہ میں غیر مرئی ہونا تطہیر کے مسئلہ میں مرئی ہونے کے مخالف نہیں،اور نہ دونوں رہنما، علامہ مسکین کے کلام پر صغرٰی کی عبارت سے اعتراض کرتے اور نہ جوہرۃ موزے کے مسئلہ میں جرم کی تفسیر رنگ سے کرتے، کہاں رنگ اور کہاں جرم، کہاں رنگ اور کہاں عین اور کہاں اثر، مذکورہ تمام امور اس لئے پیدا ہوئے کہ دونوں مقاموں (فریقوں) میں فرق نہ کیا گیا، اور یہ بہت واضح بے احتیاطی  ہے اس بے احتیاطی کی توجہ کرنے والا یا توجہ دلانے والا مجھے کوئی نظر نہیں آیا واللہ الموفق ولارب سواہ وصلی اللہ تعالٰی مصطفاہ وآلہٖ وصحبہ ومن والاہ۔ (ت)


 (۱؎ الہدایۃ     باب الانجاس    مطبع عربیہ کراچی    ۱/۵۶)


 (عـہ)ای فالتوفیق فی محلہ فیطھر الخف من دم غلیظ بالحت ویقدر رقیق اصاب ثوبا بالمساحۃ لکن لایصح نقلہ الی مسألۃ التطھیر التی فیھا کلام الشامی فالدم الرقیق لایصح جعلہ فیھا غیر مرئی ۱۲ منہ غفرلہ (م)

یعنی توفیق اپنی جگہ پر  ہے غلیظ خون لگنے پر موزے کو رگڑ کر پاک کیا جاسکتا  ہے اور وہ رقیق خون جو کپڑے کو لگے تو اس کے پھیلاؤ کی مقدار کا اندازہ کیا جائےگا لیکن اس حکم کو علامہ شامی کے بیان کردہ تطہیر کے مسئلہ میں منتقل نہیں کیا جائے گا لہٰذا اس مسئلہ میں رقیق خون کو غیر مرئی قرار دینا صحیح نہیں  ہے۔ (ت)


التاسع:فسرھما العلامۃ ش فی مسألۃ الخف علی الوجہ الصحیح ثم حادعنہ فقال سنذکر مافیہ من البحث کماتقدم والبحث ماعلمت فی السابع۔ 

مقدمہ ثالثہ: ثابت ہواکہ رقیق وہ  ہے کہ زمین وغیرہ جس شی پر پڑے خشک ہونے کی بعد اس کا دل محسوس نہ ر ہے اور بالبداہۃ ظاہر کہ یہ اُسی شی میں ہوگا جو بہنے میں تمام وکمال پھیل جائے ورنہ اجزاء زیروبالار ہے تو ضرور دَل محسوس ہوگا تو دلیل قطعی سے روشن ہوا کہ یہاں رقیق اس مائع قسم اول کا نام  ہے یہ ہی وہ تحقیق معنی رقیق کہ ان سطور کے سوا نہ ملے گی وباللّٰہ التوفیق ولہ الحمد علی ھدایۃ الطریق۔

ثم اقول: ظاہر  ہے(۱)کہ پانی فی نفسہٖ ایسا ہی  ہے جسے بے جرم سے تعبیر کیا گیا اب اُس میں دوسری شی جرم دار ملنے کی تین صورتیں ہیں: (۱) استہلاک    (۲) اختلاط    (۳) امتزاج

استہلاک: یہ کہ وہ شی اس میں مل کر گم ہوجائے پانی سے اُس کا جرم ظاہر نہ ہو جیسے چھنا ہوا شربت کہ اُس میں شکر کے اجزاء ضرور  ہیں مگر ان کا جرم اصلا محسوس نہ رہا اُسی بہائیے تو خالص پانی کی طرح اُس کے سب اجزاء پھیل جائیں گے کہیں دَل نہ ر ہے گا تو رقت بحال خود باقی  ہے اگرچہ رقت اضافیہ میں ضرور فرق آئے گا کہ مخلوط ونامخلوط یکساں نہیں ہوسکتے۔

اختلاط : یہ کہ اُس کا جرم کُلاً یا بعضاً باقی ر ہے مگر پانی کو جرم دار نہ کرے بہانےمیں اس کےاجزاء الگ رہ جائیں اور پانی اُنہیں چھوڑ کر خود پھیل جائے جیسے بے چھنا شربت جس میں شکر یا بتاشوں کے کچھ ریزے رہ گئے ہوں ان ریزوں کو اختلاط تھا اور جس قدر کھُل گئے اُن کا استہلاک مگر ان میں کوئی پانی کے اجزاء پھیلنے کو مانع نہ ہوا۔

امتزاج: (عـہ۱) یہ کہ پانی اور وہ شی مل کر ایک ذات ہوگئے ہوں پانی اُسے چھوڑ کر نہ بَہ سکے بلکہ ہر جگہ وہ اس کے ساتھ گھال میل ر ہے ظاہر  ہے کہ یہ مجموع مرکب تمام وکمال نہ پھیل سکے گا اور ضرور جرم دار شی کی طرح ختم سیلان پر بھی دَل رکھے گا۔ پہلی دو صورتوں میں پانی اپنی رقت پر  ہے اول پر تو ظاہر کہ وہاں کوئی جرم محسوس  ہی نہ ہو اور دوم پر جرم جُدا ہے اور پانی جُدا تو پانی بدستور رقیق  ہی رہا جیسے کنکریلی یا سنگلاخ زمین میں تالاب کا پانی یا جس لوٹے میں پتھّر لو ہے کے ٹکڑے ڈال دیے جائیں کوئی عاقل نہ کہے گا کہ اس سے پانی  ہی رقیق نہ رہا بخلاف صورت سوم کہ بلاشُبہ رقت زائل اور طبیعت متبدل ہوئی زوال طبع سے یہی مراد  ہے وللہ الحمد۔


 (عـہ۱) کافی وکفایہ وبنایہ میں فرمایا:الامتزاج الاختلاط بین شیئین حتی یمتنع التمییز اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

امتزاج یہ  ہے کہ دو۲ چیزیں آپس میں اس طرح مل جائیں کہ ان کے درمیان تمیز نہ ہوسکے اھ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

اقول :اب بتوفیقہ تعالٰی سب اقوال متوافق ہوگئے اور اشارات علماء کے معنی واضح،


اوّلاً: رقت اضافیہ ضعف وقوت وقلت وکثرت میں بشدت متفاوت ہوتی  ہے جس کا بیان اوپر گزرا اس کی انتہاتو شَی کے جامد ہوجانے پر  ہے جب تک سیلان کچھ بھی باقی  ہے رقت باقی  ہے اگرچہ کیسی ہی خفیف اور شک نہیں کہ تینوں صورتوں میں سیلان موجود تو رقت بھی موجود اگرچہ بتفاوت لہٰذا دو صورت اولی میں محقق علی الاطلاق نے رقت آب کو غالب بتایا اور صورت ثالثہ میں امام ناطفی نے مغلوب۔


ثانیاً رقّت جس معنی پر محقق ہوئی یعنی بے جرم ہونا ختم سیلان کے بعد دَل نہ رہنا اس میں تفاوت افراد نہیں دَل اگر کچھ بھی ہوگا یہ رقت معدوم ہوجائے گی اصلاً نہ ہوگا بحال خود باقی ر ہے گی لہٰذا دو صورت اولٰی کو غنیہ میں یوں بتایا کہ پانی ویسا ہی اپنی رقت پر ر ہے جیسا کہ قبل اختلاط تھا اور صورت ثالثہ کو ذخیرہ وتتمہ وحلیہ نے یوں کہ رقت یکسر مسلوب۔

ثالثاً: دو صورت اولٰی  ہی کی طرف خلاصہ کا ارشاد کہ پانی اُس میں آشکار ہو مشیر کہ جب تک امتزاج نہ ہو پانی کا ظہور ظاہر ومستنیر۔

رابعاً:  خانیہ کا ارشاد کہ اگر متماسک ہوجائے وضو جائز نہیں صورت ثالثہ  ہی کا بیان  ہے کہ دَل باقی رہنا تماسک اجزاء ہی سے ہوتا  ہے اور بحال تماسک دَل ضرور رہتا  ہے۔

خامساً: اسی کو علماء کرام نے رُب ودبس ونشاستج وطین وسویق کی مثالیں دے کر بتایا کہ یہ سب اشیا اگرچہ سائل ورقیق اضافی ہیں مگر ان کے اجزا تماسک سے خالی نہیں ولہٰذا ختمِ سیلان پر ان میں ضرور دَل رہتا  ہے۔ رُب بالضم میووں کا عرق کہ جوش دے کر قوام پر لایا گیااور غلیظ وبَستہ ہوگیا، دِبس دوشاب اور اس کے مطلق سے دوشاب خرما مراد کہ عرق خرما بدستور نکال کر اتنا جوش دیں کہ انگلی سے اٹھائیں تو انگلی میں لپٹ آئے، نشاستج بالفتح جسے عربی میں نشااور فارسی میں نشاستہ کہتے ہیں۔ نشاستج اس کا معرب  ہے یہ کہ گیہوں پانی میں اتنی مدت تک بھگوئے جائیں کہ عفونت لے آئیں اور پوست چھوڑ دیں مغز باریک کوٹ کر صافی میں چھان کر رکھیں یہاں تک کہ گیہوں کے اجزا تہ نشین ہوجائیں پانی اوپر رہ جائے اُسے پھینک کر تَہ نشین کو سُکھالیں ظاہر  ہے کہ جب تک اجزاء تہ نشین نہ ہوں گے پانی سے ممتزج رہیں گے طین، کیچڑ، سویق، ستّو یہ مثالیں یاد رکھنے کی ہیں کہ غلظت کی صورت ذہن میں ر ہے ان کو ہم ایک مصرع میں جمع کریں ؎


 رُبّ ودِبس ونشاوطین وسویق        ہرچہ زینگونہ شد نہ ماند رقیق


 (راب، شیرہ، نشاستہ، کیچڑ اور ستّو ان میں سے جو بھی گاڑھا ہوجائے رقیق نہ ر ہے گا۔ ت)


سادساً : ہدایہ وبدائع وغیرہما میں سویق کو مخلوط سے مقید فرمانا صورت ثانیہ وثالثہ کے فرق کی طرف اشارہ فرماتا  ہے پانی میں اگر ستّو ڈال دیے کہ تہہ نشین ہوگئے نتھرا پانی یا خفیف آمیزش کا اوپر رہ گیاجو اُسے جرم دار نہ کردے تو وضو جائز نہ ہوگا ولہذا کالسویق المخلوط فرمایایعنی گھُلے ہُوئے ستّو کہ پانی سے ممتزج ہوجائیں،الحمدللہ کہ رقت مطلوبہ کی حد بندی اُس وجہ رفیع پر ہوئی کہ اس رسالہ کے غیرمیں نہ ملے گی۔ اُس کے بیان(۱) کا بھی ایک شعر اشعار تعریف مائے مطلق میں اضافہ کریں ؎


رقت آن دان کہ بہ سیلان ہمہ یک سطح شود    خالی ازجرم اگر مانع اوناید پیش


 (رقّت یہ  ہے کہ بہنے پر سطح برابر ہو اور اس کا حجم نہ بنے بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو۔ ت)

یا یوں  کہیے: ؎


    آں رقیق ست کہ اجزاش بختم سیلان        زیرو بالا نبود ہیچ سوائے پس وپیش


 (رقیق وہ چیز  ہے کہ بہاؤ کے ختم ہونے پر اس کے اجزاء کا حجم نہ بنے بلکہ بہنے میں صرف ان کا تقدم وتاخر ہو۔ ت)

الحمدللہ اس تقریر منیر سے فوائد کثیر حاصل ہوئے:


فائدہ ۱: طبیعت اور اس کی بقاو زوال کا بیان۔

فائدہ ۲: حقیقت سیلان اور اس کا فلسفہ اور جامدوسائل کا فرق اور یہ کہ اگر اُوپر سے نشیب میں مثلاً گیہوں کے دانے اور کوئی تختہ اور پانی گرائیں سب اپنی حرکت بالطبع سے متحرک ہوکر نیچے اُتر جائیں گے مگر ان میں پانی ہی کی حرکت کو سیلان کہیں گے نہ ان دو کی اس کی وجہ کہ اول اجسام منفصلہ کی حرکات عدیدہ ہیں اور دوم جسم واحد کی حرکت واحدہ اور سوم جسم واحد متصل حسّی کے اجزائے متجاورہ کی متوالی حرکات طبیعہ پے درپے کہ انکاک حسّی نہ ہونے دیں اسی کا نام سیلان  ہے۔

فائدہ ۳: رقت مطلق کے معنی اور اس کے مواضع اطلاق۔     فائدہ ۴: وہ امر اضافی ومقول بالتشکیک  ہے۔

فائدہ ۵: وہ اپنے نفس معنی کے لحاظ سے سیلان کے ساتھ مساوی بلکہ معنی شامل جامدات پر اُس سے عام مطلقاً  ہے اور ہنگامِ اضافت عام من وجہ کہ شیر شتربہ اضافت شیربز رقیق نہیں اور سائل  ہے اور گلاب کا شیشہ حلبی آئینہ کے اعتبار سے رقیق  ہے اور سائل نہیں۔فائدہ ۶: مسائل خف وغیرہ میں معنی جرم وعدم جرم۔

فائدہ ۷: اُن میں معنی مرئی وغیر مرئی۔    فائدہ ۸: مرئی وغیر مرئی معتبر مسئلہ تطہیر ومسئلہ حوضِ کبیر سے اُن کا فرق۔

فائدہ ۹: انظار ماہرین کی ان میں انواع انواع لغزش۔

فائدہ ۱۰: رقت مطلوبہ ومصطلحہ ائمہ کے معنی یہ سب بھی روشن طور پر واضح ہوگئے۔

فائدہ ۱۱: جرم میں بے جرمی کیونکر ہوتی  ہے۔     فائدہ ۱۲: نیز یہاں کلام ائمہ میں بمعنی تماسک۔

فائدہ ۱۳: کہ رقت مطلوبہ وبے جرمی ایک شے ہیں اور غلظت یہ کہ بعد ختم سیلان دَل باقی رکھے۔

فائدہ ۱۴: رقتِ آب غالب ومغلوب یا موجودو مسلوب ہونے سے مراد یہ کہ اُن کا ایک ہی مفاد۔

فائدہ ۱۵: کہ یہ رقت سیلان سے خاص  ہے اور اس کے بعد محل اثبات میں ذکر سیلان کی حاجت نہیں مثلاً یوں کہنا کہ فلاں صورت میں رقت وسیلان باقی رہیں تو وضو جائز ہے،ہاں یوں کہنے میں حرج نہیں کہ سیلان ورقت باقی رہیں کہ ذکر سیلان ذکر رقت سی مغنی نہیں اگرچہ تنہا ذکر رقت بس  ہے تو اطناب ہوا نہ اہمال۔

فائدہ ۱۶: محل نفی میں ذکر سیلان بحرفِ واو مضر وموہم خلاف مقصود  ہے اور بحرف یا کہ تردید کیلئے  ہے بیکار۔

فائدہ ۱۷: کپڑے سے نہ نچڑ سکنا اس رقت سے خاص  ہے دُودھ رقیق  ہے اور نچڑ نہیں سکتا۔

فائدہ ۱۸: یہ رقت نہ معنی اضافی  ہے نہ اس میں تشکیک۔

اقول: یہاں چار چیزیں ہیں:طبیعت، اوصاف،اجزا، مقاصد۔ اور ان سب کے اعتبار سے غلبہ لیا گیا  ہے غلبہ بحسب اوصاف توقول امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی  ہے جس کا بیان بعونہ تعالٰی آگے آتا  ہے باقی تین میں اعتبار غلبہ مجمع علیہ  ہے غلبہ بحسب طبع وہی زوال رقت  ہے اس کے اعتبار پر اجماع ظاہر اور غلبہ بحسب اجزا کہ خاص مذہب امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی کہاگیا اور امام برہان الدین (عـہ)صاحب ہدایہ وامام قاضی خان وامام شمس الائمہ کردری وامام حافظ الدین نسفی وغیرہم اکابر نے اُس کی تصحیح کی اسی کو درر ودر میں اصح اور منبع میں صحیح اور سراج وہاج وجوہرہ نیرہ وفتاوی غزی وفتاوی عالمگیریہ میں قول جمہور اور نہایہ وعنایہ وحلیہ وغنیہ وبحر ونہر وغیرہا میں اساتذہ کرام سے منقول وماثور بتایا کماتقدم کل ذلک فی نمرۃ ۱۲۲ و ۱۰۱ و ۷۹ (جیسا کہ نمبر ۱۲۲،۱۰۱ اور ۷۹ میں گزر چکا  ہے۔ ت)


(عـہ)ہدایہ میں زیر مسئلہ آبِ زردج فرمایا ھو الصحیح ( یہی صحیح  ہے۔ ت)


 بنایہ میں  ہے المروی عن ابی یوسف ھو الصحیح  (جو امام ابویوسف سے مروی  ہے وہ صحیح  ہے۔ ت)


نہایہ میں  ہے قولہ ھو الصحیح احتراز عن قول محمد  (اس کے قول ھو الصحیح سے امام محمد کے قول سے احتراز  ہے۔ ت)


نیز ہدایہ میں فرمایا الغلبۃ بالاجزاء لابتغیراللون  (غلبہ اجزاء کے اعتبار سے تغیر لون سے نہیں۔ ت)


بنایہ میں  ہے اشار بہ ایضاالٰی نفی قول محمد  (اس سے امام محمدکے قول کی نفی کا اشارہ بھی  ہے۔ ت)


عنایہ میں  ہے نفی لقول محمد فانہ یعتبرالغلبۃ بتغیراللون والطعم  (امام محمد کے قول کی نفی  ہے کیونکہ وہ غلبہ باعتبار تغیرلون وطعم مراد لیتے ہیں۔ ت)


کنز میں تھا اوغلب علیہ غیرہ اجزاء  (یا اس پر غیر کا غلبہ بطور اجزاء ہو۔ ت) اس پر شارح ہروی نے فرمایا احترازعن قول محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی اھ (یہ امام محمد رحمہ اللہ کے قول سے احتراز  ہے۔ ت) ۱۲ منہ غفرلہ (م)


جامع الرموزمیں ہے اعتبر الغلبۃ من حیث الاجزاء وھو الصحیح لتقدم الجزء علی الوصف فی الاعتبار کمافی حاشیۃ ۱؎ الھدایۃ  (غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہوگا اور یہی صحیح  ہے کیونکہ اعتبار میں جز وصف پر مقدم ہوتا  ہے جیسے کہ ہدایہ کے حاشیہ میں ہے۔ ت)


 (۱؎ جامع الرموز    باب المیاہ ، مطبع الاسلامیہ گنبد ایران    ۱/۴۶)


جوہرہ نیرہ میں  ہے الاصح ان المعتبر بالاجزاء ۲؎  (اصح یہی  ہے کہ اجزاء کا اعتبار ہوگا۔ ت)


 (۲؎ الجوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارۃ    مطبع امدادیہ ملتان        ۱/۱۴)


نیز عنایہ سے آتا  ہے کہ صحیح قول ابویوسف  ہے غایۃ البیان میں اسی کو  ہمارے ائمہ نے ظاہر الروایۃ بتایاغایہ وعنایہ وبنایہ نے شرح طحاوی امام اسبیجابی سے اس کی تائید کی اس کے خلاف یعنی اعتبار اوصاف کو امام کرخی وغیرہ اکابر نے خلاف صحیح بتایا۔


 بنایہ میں  ہے الروایۃ الصحیحۃ بخلافھا  (روایۃ صحیحہ اس کے خلاف  ہے۔ ت) اُسی میں  ہے صحۃ الروایۃ بخلافہ کذا عن الکرخی ۳؎ اھ  (صحتِ روایت اس کے خلاف  ہے ایسا  ہی کرخی سے  ہے۔ ت)


 (۳؎ البنایۃ شرح الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء     الامدادیہ مکۃ المکرم    ۱/۱۸۹)


اقول: اس نسبت وتصحیحات وترجیحات کے یہ معنی نہیں کہ امام محمدرحمہ اللہ تعالٰی اس کے قائل نہیں بلکہ یہ کہ امام ابویوسف صرف اسی کو اعتبار فرماتے ہیں اور امام محمد اس کے ساتھ غلبہ اوصاف کو بھی ورنہ غلبہ بحسب اجزا جس معنی پر لیا گیا جن کی تفصیل بحولہ تعالٰی آتی  ہے وہ سب بلاشبہ سب کو تسلیم ہیں۔ فلاتغرنک المقابلۃ الواقعۃ فی قول الفتح ان محمدایعتبرہ باللون وابایوسف بالاجزاء وقول الاجناس فی نمرۃ ۱۰۷ محمد یراعی لون الماء وابویوسف غلبۃ الاجزاء الاتری الی ۴؎ قول العنایۃ محمد یعتبر الغلبۃ باللون ثم الطعم ثم الاجزاء والصحیح قول ابی یوسف لان الغلبۃ بالاجزاء غلبۃ حقیقیۃ اذوجود المرکب باجزائہ فکان اعتبارہ اولی ۱؎ اھ وھی الضابطۃ التی مشی علیھا ملک العلماء والامام الاسبیجابی رحمہمااللّٰہ تعالٰی کمامرو یاتی تفصیلہ ان شاء اللّٰہ تبارک وتعالٰی فافھم وتثبت۔ فتح کے کلام میں امام محمد اور امام ابویوسف کے اقوال کا مقابلہ تجھے دھوکا میں مبتلا نہ کرے کہ امام محمد رنگ کا اور امام ابویوسف اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں،اور اسی طرح الاجناس کا قول کہ نمبر ۱۰۷ میں مذکور ہوا کہ امام محمد پانی کے رنگ کا اور امام ابویوسف اجزا کے غلبہ کی رعایت کرتے ہیں کیونکہ آپ نے دیکھا کہ عنایہ کا قول  ہے کہ امام محمد رنگ پھر ذائقہ اور پھر اجزاء کے غلبہ کا اعتبار کرتے ہیں اور صحیح امام یوسف کا قول  ہے کیونکہ غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہوتا  ہے کیونکہ مرکب کا وجود اجزا سے حاصل ہوتا  ہے لہٰذا اس غلبہ کا اعتبار اولیٰ  ہے، اور یہی وہ ضابطہ  ہے جس کو ملک العلماء اور امام اسبیجابی رحمہمااللہ نے اپنایا  ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا  ہے اور اس کی تفصیل ان شاء اللہ تبارک وتعالٰی آئندہ بھی آر ہی  ہے سمجھو اور قائم رہو۔ (ت)


 (۴؎ فتح القدیر         باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)

(۱؎ العنایۃ مع الفتح القدیر    باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء۔  مطبعۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۳)


رہا غلبہ بحسب مقاصد جسے اس کے لازم اعم زوال اسم سے تعبیر کرتے ہیں اس پر اجماع بھی ظاہر کما مرمرارا منھا فی نمرۃ ۲۸۷ وان الامام الزیلعی قدنص علیہ وان اغفلہ فی ضابطتہ وان الخلاف انما کان فی نبیذ التمر لاجل النص علی خلاف القیاس ثم انقطع برجوع الامام ویأتی قول الحلیۃ۔ جیسا کہ متعدد بار نمبر۲۸۷ میں گزرا،اور امام زیلعی نے اس پر نص کی  ہے اگرچہ انہوں نے ضابطہ میں غفلت سے کام لیا  ہے اور بیشک نبیذتمر میں اس کا خلاف  ہے تواس لئے کہ اس بارے میں مخالف قیاس نص وارد ہوئی  ہے اور یہ خلاف بھی امام ابوحنیفہ کی رجوع کی وجہ سے ختم ہوگیا،اور حلیہ کا قول آئے گا۔ (ت)


بالجملہ ان تین پر اجماع میں شک نہیں اور یہاں تینوں طور پر اُس کی تفسیر کی گئی۔

غلبہ طبع قدوری وہدایہ سے گزرا


غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء ۲؎ (پانی کو غیر کے غلبہ نے اس کی طبیعت سےخارج کردیا۔ ت)


 (۲؎ الہدایۃ باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء مطبع عربیہ کراچی ۱/۱۸)


ملتقی الابحر سے لابماء خرج عن طبعہ بغلبۃ غیرہ ۳؎ (نہ ایسے پانی سے جو غیر کے غلبہ کی وجہ سے اپنی طبیعت سے خارج ہوچکا ہو۔ ت)


 (۳۰؎ ملتقی الابحر فصل تجوز الطہارۃ بالماء المطلق مطبعۃعامرہ مصر۱/۲۸)


فائدہ ۱۹: پانی میں جرم دار اشیا ملنے کی صورتیں اور اُن کے احکام۔

فائدہ ۲۰جلیلہ(۱): پانی کی رقت زائل ہونا کچھ جامدات  ہی کے خلط پر موقوف نہیں خلافا(۲) لما تظافرت علیہ کلمات الشراح واھل الضابطۃ (یہ اس کے خلاف  ہے جس پر شراح حضرات اور اہل ضابطہ کا کلام گزر چکا  ہے۔ ت)بلکہ جرم دار مائعات مثل شہد وشیرہ و رُب و دِبس جب اس سے ایسے ممتزج ہوجائیں کہ بمعنی مذکور جرم دار کردیں ضرور رقت زائل اور طبیعت متبدل ہوجائے گی یہ فائدہ بہت ضروری یاد رکھنے کا  ہے کہ فصل آئندہ میں کام دے گا اِن شاء اللہ تعالٰی یہ  ہے وہ تحقیق بازغ کہ مولی عزوجل کے فضل بالغ سے قلبِ فقیر پر فائض ہوئی وللّٰہ الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ کمایحب ربنا ویرضی٭ وصلی اللّٰہ تعالٰی وبارک وسلم علی الحبیب الکریم الرؤف الرحیم الارضی٭ واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ ماعلت سماء ارضا٭ والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔                                                                                                                                                                                                              غلبہ غیر اس میں تین بحثیں ہیں:

بحث اوّل :کسی امر میں غلبہ مراد  ہے۔

غُررو نورالایضاح سے لابماء زال طبعہ بغلبۃ غیرہ ۴؎ (ایسے پانی سے  وضو جائز نہیں جس کی طبیعت غیر کے غلبہ کے وجہ سے ختم ہوچکی ہو۔ ت)


(۴؎ نورالایضاح    کتاب الطہارت    مطبعۃ علمیہ لاہور ص۳)


ہدایہ سے نمبر ۱۰۷ میں الا ان یغلب علی الماء فیصیر کالسویق المخلوط ۵؎  (مگر وہ پانی میں مل کر غالب ہوجائےتو حکم مخلوط ستّوؤں کی طرح ہوگا۔ ت)


 (۵؎ الہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    مطبعۃ عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


نیز غنیہ سے مالم یغلب علیہ بان اخرجہ عن رقتہ ۱؎ وضو جائز  ہے جب تک غیر نے اس پر غلبہ پا کر رقت سے خارج نہ کردیا ہو۔ ت)


 (۱۰؎ غنیۃ المستملی    احکام المیاہ     سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۱)


نیز ذخیرۃ وتتمہ وحلیہ سے یغلب علی الماء حتی تزول بہ الرقۃ ۲؎  (وہ چیز پانی پر اس طرح غالب ہوجائے کہ پانی کی رقت زائل ہوجائے۔ ت)


 (۲؎ فتاوی ذخیرۃ    )


نمبر ۱۱۹ میں خانیہ سے ان غلبۃ الحمرۃ وصار متماسکا لایجوز ۳؎  (اگر پانی پر سرخی غالب ہوگئی اور وہ گاڑھا ہوگیا تو وضو جائز نہیں۔ ت)


 (۳؎ فتاوی قاضی خان فیما لایجوزبہ التوضی     نولکشور لکھنؤ ۱/۹)


نیز خلاصہ سے ان غلب علیہ الحمرۃ وصار نشاستج لایجوز ۴؎  (اگر اس پر سُرخی غالب ہوگئی اور وہ نشاستہ کی طرح ہوگیا تو وضو جائز نہیں۔ ت)


 (۴؎ خلاصۃ  الفتاوٰی    الماء المقید         نولکشور لکھنؤ   ۱/۸)


غلبہ مقاصد نمبر ۱۰۷ میں حلیہ وتتمہ وذخیرہ سے قول امام ابی یوسف گزرا ان غلب علی الماء حتی یقال ماء البابونج والاٰس لایجوز ۵؎۔  (اگر پانی پر اس طرح غلبہ ہوجائے کہ اس کو بابونہ کا عرق یا جوس کہا جائے تو  وضو جائز نہیں۔ ت)


(۵؎ حلیہ)


نمبر ۳۰۴ میں قول ملک العلما اذا خالطہ علی وجہ زال عنہ اسم الماء بان صار مغلوبا بہ ۶؎ (جب پانی پر اس طرح غلبہ پاتے ہوئے ملے کہ اس کا نام پانی نہ رہے۔ ت)


 (۶؎ بدائع الصنائع    الماء المقید        سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


عنایہ، بنایہ، غایۃ البیان میں ہے وان اراد بالاشربۃ الحلو المخلوط بالماء کالدبس والشھد المخلوط وبہ من الخل الخل المخلوط بالماء کانت نظیر(عـہ) ماء غلب علیہ غیرہ ۷؎


(اگر شربت سے مراد پانی میں مخلوط میٹھا ہو جیسا کجھور کا شیرہ اور شہد پانی ملا ہوا ہو،اور سرکہ سے مراد وہ جس میں پانی ملا ہو تو یہ پانی پر غیر کے غلبہ کی نظیر ہوگی۔ ت)


 (عـہ)اقول لکن ھذا صحیح علی ماحملنا علیہ لاعلی ما(۱) حملوا لان عبارۃ الھدایۃبماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء اھ والشھد والدبس لایخلطان فی الاشربۃ بحیث یخرجان الماء عن رقتہ وان(۱) فرض فکیف یستقیم ھذا فی الخل فالصواب ماافاد فی الغایۃ اخراوفی العنایۃ والبنایۃ اولا انہ وان ارادبھا الاشربۃ المتخذۃ من الشجر کشراب الرمان والحماض وبالخل الخل الخالص کانا من نظیر المعتصر من الشجر والثمر اھ وقد نص علی(عـہ۱)ذلک فی شرح الوقایۃ وغیرہ نعم ذھب(۱) ھذا عن العلامۃ ابراھیم الحلبی فی متنہ الملتقی فاسقط ماکان فی اصولہ القدوری والوقایۃ من ذکر مااعتصرمن شجر اوثمر وابقی فی الامثلۃ الاشربۃ والخل وجعل الغلبۃ باعتبار المطبع حیث قال لابماء خرج عن طبعہ بغلبۃ غیرہ اوبالطبخ کالاشربۃ والخل وماء الورد والباقلاء والمرق اھ فلزمہ مالزم العنایۃ فی العنایۃ الاخری بالخل والاشربۃ وشیئ زائد(۲) وھو ماء الورد فلیس قطعا ماء خرج عن طبعہ بغلبۃ غیرہ اوبالطبخ وکذلک(۳) یرد ھذا علی الفرائد اماماردبہ علیہ فی مجمع الانھر اذقال لاوجہ لان یکون الخل مثالا لماغلب علیہ غیرہ وانکان مخلوطا بالماء فانہ لایصدق علیہ انہ ماء غلب علیہ غیرہ فان الخل اذا اختلط بالماء والماء مغلوب یقال خل مخلوط بالماء لاماء مخلوط بالخل تدبر اھ فاقول لیس بشیئ(۴) اذلیس الکلام ھھنا فی بقاء اطلاق اسم الماء بل بیان للواقع ان ماء خلط بالخل والخل اکثر لایجوز  الوضوء بہ ولاشک انہ ماء وقد قلتم والماء مغلوب اما الاسم وقد اشار الیہ المتن اذعبر عنہ بالخل لابالماء ۱۲ منہ غفرلہ (م)


اقول: لیکن یہ  ہمارے بیان کردہ محمل پر درست ہے ان کے محمل پر درست نہیں،کیونکہ ہدایہ کی عبارت یوں ہے وہ پانی جس پر غیر غالب ہوجائے اور وہ پانی کو اس کی طبیعت سے نکال دے اھ جبکہ شہد اور شیرہ کو پانی میں ملائیں تو ان کے ملنے میں پانی اپنی رقت سے خارج نہیں ہوتا اور بالفرض یہ مان لیا جائے تو سرکہ میں یہ بات کیسے درست ہوگی(کیونکہ سِرکہ خود رقیق ہے پانی کی رقت کو ختم نہیں کرتا) لہٰذا غایۃ میں آخری اور عنایۃ اور بنایۃ میں اول جومفاد حاصل ہوا وہ درست ہے کہ اگر شربت سے انار کا یا لیموں وغیرہ کا جوس مراد ہو اور سرکہ سے خالص سرکہ مراد ہو، تو پھر یہ دونوں شجر وثمر کے جوس کی نظیر ہیں اھ شرح وقایہ وغیرہ میں یہ منصوص ہے، ہاں علّامہ ابراہیم چلپی سے یہ بات چھُوٹ گئی ہے اور انہوں نے اپنے متن ملتقیٰ میں اس کے اصول قدوری اور وقایہ کی عبارت میں مااعتصر من شجر اوثمر کے ذکر کو ساقط کردیا اور شربت اور سرکہ کی مثالوں کو باقی رکھا اور غلبہ کو طبع کے اعتبار سے قرار دیا،اور یوں کہا جو پانی اپنی طبع سے غیر کے غلبہ یا پکانے کی وجہ سے خارج ہوچکا ہو تو اس سے  وضو جائز نہیں، جیسے شربت اور سرِکہ، عرق گلاب وباقلاء اور شوربا اھ تو ان کو عنایہ والی آخری دشواری لازم آئی جس کی وجہ سرکہ، شربت اور مزید عرق گلاب کا ذکر ہے اور یہ قطعاً ایسے پانی نہیں ہیں جو غیر کے غلبہ یا پکانے کی وجہ سے اپنی طبیعت سے یعنی رقت سے خارج ہوئے ہوں اور یہی اعتراض فرائد پر بھی لازم آتا ہے لیکن فرائد پر مجمع الانہر میں جو اعتراض کیا، جہاں یہ کہا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ سرکہ کو غیر کے غلبہ کی مثال قرار دیا جائے اگرچہ وہ پانی سے مخلوط ہو، کیونکہ جب سرکہ میں پانی ملایا جائے اور پانی مغلوب ہو تو اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایسا پانی ہے جس پر غیر کا غلبہ ہے کیونکہ سرکہ جب پانی میں ملے اور پانی مغلوب ہو تو کہا جاتا ہے یہ سرکہ ہے جس میں پانی ملایاگیا نہ کہ یہ پانی ہے جس میں سرکہ ملایا گیا تدبر اھ پس اس بارے میں میں کہتا ہوں کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہاں پانی کے نام کے اطلاق کی بقاء کا بیان نہیں ہے بلکہ یہ تو بیان واقع ہے کہ جب پانی سرکہ میں ملے اور سرکہ غالب ہو تو اس سے وضو جائز نہیں ہے،اور بیشک یہ پانی ہے تم نے خود اس میں پانی کا ذکر کیاکہ یہ پانی مغلوب ہے لیکن پانی کے نام کا مسئلہ تواس کی طرف ماتن نے اشارہ کرتے ہوئے اس کو سرکہ سے تعبیر کیا ہے پانی سے تعبیر نہیں کیا۔ (ت)


 (۷؎ عنایۃ مع القدیر    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۲)


(عـہ۱)اقول والعجب(۲)من الفاضل قرہ باغی فی حاشیۃ صدر الشریعۃ استظھر مالایصح واعرض عن نص صدر الشریعۃ الصحیح کانہ یرید الرد علیہ فقال الظاھران المراد من قول المصنف کالاشربۃ الاشربۃ التی تتخذمن الدبس والشھدوالسکر یخلطھا مع الماء فحینئذ یکون قولہ کالاشربۃ نظیر مازال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء وقولہ ماء الباقلاء والمرق نظیرمازال طبعہ بالطبخ اھ وفیہ کلام من وجوہ اخر لانطیل بھا ۱۲ منہ غفرلہ (م)


اقول: فاضل قرہ باغی پر تعجب ہے کہ انہوں نے صدر الشریعۃ کے حاشیہ میں غلط کو ظاہر کیا اور صدر الشریعۃ کی صحیح نص سے اعراض کیا جس سے انہوں نے مصنف پر اعتراض کا ارادہ کرتے ہوئے کہاکہ ظاہر یہ ہے کہ مصنف کے قول کالاشربۃسے مراد وہ شربت ہیں جو شہد، شیرہ اور شکر ملا کر پانی بنایا گیاہو تو اس صورت میں یہ شربت اس پانی کی نظیر بن جائیں گے جس پر غیر کے غلبہ کی وجہ سے اس کی طبع ختم ہوچکی ہو اور مصنف کا قول ماء الباقلاء والمرق اس پانی کی نظیر ہوگی جو پکانے کی وجہ سے طبع ختم کرچکا ہو،اس فاضل کے کلام میں دوسری وجوہ سے اعتراض ہیں جن کے بیان سے ہم کلام کو طویل نہیں کرتے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

یونہی مجمع الانہرمیں فرائد سے ہے جعل المصنف الاشربۃ والخل مثالین لماغلب علیہ غیرہ فیکون المراد من الاشربۃ الحلوالمخلوط بالماء کالدبس والشھد ومن الخل الخل المخلوط بالماء علی مااشیر الیہ فی النھایۃ والعنایۃ ۱؎  (مصنف نے شربت اور سرکہ کو غیر کے غلبہ کی مثالیں قرار دیا ہے تو شربت سے مراد پانی سے مخلوط میٹھا ہوگا جیسے شیرہ اور  ہد، اور سِرکہ سے پانی میں مخلوط سِرکہ مراد ہوگا جیسا کہ نہایہ اور عنایہ میں ہے۔ ت)


 (۱؎ مجمع الانہر        تجوز الطہارۃ الماء المطلق    عامرہ مصر        ۱/۲۸)


غلبہ اجزاء کنز سے گزرا لابماء غلب علیہ غیرہ اجزاء ۲؎  (جس پانی پر اجزاء کے لحاظ سے غیر کا غلبہ ہوجائے تو اس سے  وضو جائز نہیں ہے۔ ت)


 (۲؎ کنز الدقائق    باب المیاہ        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱)


ہدایہ سے ۱۲۲ میں الغلبۃ بالاجزاء ھو الصحیح ۳؎ (غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے اور یہی صحیح ہے۔ ت)


 (۳؎ الہدایۃ        الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    عربیہ کراچی        ۱/۱۸)


نیز خانیہ سے تعتبر من حیث الاجزاء ھو الصحیح ۴؎ (غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے اور یہی صحیح ہے۔ ت)


 (۴؎ قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


۷۱ میں منیہ سے الغلبۃ من حیث الاجزاء ۵؎  (غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ ت)


 (۵؎ منیۃ المصلی    فصل فی المیاہ        عزیزیہ کشمیری بازار لاہور    ص۱۸)


۸۵ میں جواہر الفتاویٰ سے ان غلب اجزاؤھا علی الماء یمنع التوضی ۶؎  (اگر ملنے والی چیز کے اجزاء پانی پر غالب ہوجائیں تو اس سے وضو جائز نہیں ہے۔ ت)


(۶؎ جواہر الفتاوی)


بحث دوم :غلبہ اجزاء سے کیا مراد ہے اقول یہ صحیح معتمد قول بھی ان تینوں اجماعی باتوں سے تفسیر کیا گیا اُس سے ظاہر تو کثرت اجزا ہے یعنی پانی میں جو چیز ملے پانی سے مقدار میں زائد ہو اور نمبر ۲۶۲ میں گزرا کہ مساوی کا حکم بھی مثل زائد ہے۔


اقول: ومن العجب قول العلامۃش التقییدبالمغلوب بناء علی الغالب والافقد یمنع التساوی فی بعض الصور کما یأتی ۱؎ اھ وای صورۃ لایمنع فیہ التساوی۔ میں کہتا ہوں اور مجھے علّامہ شامی کے اس قول سے تعجب ہوا،جس میں انہوں نے پانی کے مغلوب ہونے کی قید پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ مغلوب ہونا اکثر حالات کی بنا پر کہا گیا ورنہ بعض صورتوں میں پانی اور اس میں ملنے والی چیز کے مساوی ہونے پر بھی وضو ناجائز ہوتا ہے، جیسے آئندہ آئےگا اھ (تعجب کی وجہ یہ ہے کہ علامہ نے مساوی کو بعض صورتوں میں مانع قرار دیا حالانکہ اجزاء کے لحاظ سے ملنے والی کا غلبہ ہو یا مساوات ہو دونوں کا حکم ایک ہے لہٰذا غیر کے اجزاء کی مساوات کلی طور پر مانع ہے) اگر علامہ شامی کی نظر میں کوئی مساوات والی مانع نہ بنتی ہو تو وہ کون سی صورت ہے (ت)


 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۳)


غنیہ میں ہے:(الغلبۃ للماء من حیث الاجزاء) بان تکون اجزاء الماء اکثر من اجزاء المخالط ۲؎۔ پانی کے اجزاء کا غلبہ تب ہوگا جب پانی کے اجزاء اس میں ملنے والی چیز کے اجزا سے زیادہ ہوں (یعنی اگر پانی کے اجزاء مساوی ہوں تو پھر پانی مغلوب رہے گا)۔ (ت)


(۲؎ غنیۃ المستملی    باب احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


خزانۃ المفتین میں ہے : العبرۃ فیہ بکثرۃ الاجزاء انکان اجزاء الماء اکثر یجوز التوضی بہ والافلا ۳؎ اھ وھو قطعۃ من الضابطۃ الشیبانیۃ وستأتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔ غلبہ میں پانی کے اجزاء اس میں ملنے والی چیز کے اجزا کی کثرت کا لحاظ ہے اگر پانی کثیر ہو تو  وضو جائز ورنہ ناجائز ہے اھ یہ ضابطہ شیبانیہ کا ایک حصہ ہے عنقریب آئےگا اِن شاء اللہ تعالٰی (ت)


 (۳؎ خزانۃ المفتین)


مجمع الانہر میں ہے : غلبۃ غیرہ بان تکون اجزاء المخالط ازیدمن اجزاء الماء وھو قول ابی یوسف لانہ غلبۃ حقیقۃ لرجوعھا الی الذات بخلاف الغلبۃ باللون فانھا راجعۃ الی الوصف ومحمد اعتبر الغلبۃ باللون فی الصحیح عنہ لان اللون مشاھد۱؎۔؂ غیر کے غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ پانی میں ملنے والی چیز پانی سے زائد ہو، یہ امام ابویوسف کا قول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل غلبہ وہی ہے جس کا تعلق ذات سے ہو اور اس کے خلاف رنگ کے غلبہ کا تعلق وصف سے ہوتا ہے، امام محمد نے اس کا اعتبار اس لئے کیا کہ وہ نظر آتا ہے۔ (ت)


(۱؎ مجمع الانہر    فصل تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبع عامرہ مصر    ۱/۱۸)


یہی مضمون ابھی عنایہ سے گزرا،حلیہ میں بحوالہ زاہدی زادالفقہا سے نیز بنایہ میں ہے: تعتبر الغلبۃ فی الاجزاء فان کان اجزاء الماء اکثر یجوز  والا لا ۲؎۔ غلبہ میں اجزا کا اعتبار ہے اگر پانی کے اجزا غالب ہوں تو وضو جائز ورنہ نہیں۔ (ت)


 (۲؎ بنایۃ        باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء الخ    مطبع امدادیہ مکۃ المکرم    ۱/۱۹۲)


جوہرہ نیرہ میں ہے : الاصح ان المعتبر بالاجزاء وھو ان المخالط اذا کان مائعا فمادون النصف جائز فان کان النصف اواکثر لایجوز ۳؎ اھ۔ صحیح ترین یہ ہے کہ غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے اگر پانی میں ملنے والی چیز بہنے والی ہو تو اگر وہ نصف سے کم ہو تو اس پانی سے وضو جائز ہے اور اگر وہ ملنے والی چیز برابر ہو یا پانی سے زیادہ ہو تو پھر وضو جائز نہیں۔ (ت)


 (۳؎ جوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارۃ    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)


اقول: اراد بالمخالط الممازج وستعرف ان المائع غیر مقصورعلی الحکم وان کان الحکم مقصور علی المائع۔ میں کہتا ہوں پانی میں مخلوط چیز سے مراد وہ صورت ہے جب اس کے اور پانی کے اجزاء آپس میں ممتاز نہ رہیں، اور آپ کو عنقریب معلوم ہوگا کہ ہر بہنے والی چیز کا یہ حکم نہیں ہے اگرچہ یہ حکم صرف بہنے والی چیز میں پایا جاتا ہے۔ (ت)


نمبر ۲۶۲ میں بدائع سے گزرا: تعتبر الغلبۃ فی الاجزاء فان استویا فی الاجزاء قالوا حکمہ حکم الماء المغلوب ۴؎۔ پانی کے غالب ہونے میں اس کے اجزاء کی کثرت کا اعتبار ہے اگر پانی کے اجزاء ملنے والی چیز کے مساوی ہوں تو اس پر فقہا نے فرمایا کہ ایسی صورت میں پانی مغلوب ہوگا۔ (ت)


 (۴؎ بدائع الصنائع    الماء المقید            ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


اور اہلِ ضابطہ زیلعیہ عموماً یہی کثرتِ اجزامراد لیتے ہیں نمبر ۱۱۵ میں مراقی الفلاح وابو السعود ومنحۃ الخالق سے گزرا: الغلبۃ بالوزن ۵؎  (غلبہ وزن کے اعتبار سے ہوگا۔ ت)


 (۵؎ منحۃ الخالق علی البحر    الطہارت ، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)


غنیہ میں ہے:المعتبر کون اجزاءہ اکثر من اجزاء الماء ۱؎۔ معتبر یہ ہے کہ ملنے والی چیز کے اجزاء پانی کے اجزاء سے زیادہ ہوں۔ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی  احکام المیاہ   سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۱)


بحر وطحطاوی میں:ۤالعبرۃ للاجزاء فان کان الماء اکثر جاز وان مغلوبالا ۲؎۔ اعتبار اجزاء کا ہے اگر پانی کے اجزاء زیادہ ہوں تو اس سے  وضو جائز ہے اور اگر پانی کے اجزاء مغلوب ہوں تو وضو جائز  ہیں۔ (ت)


 (۲؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)


درمختار میں:بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز والالا ۳؎۔ مطلق پانی کے اجزاء اگر نصف سے زیادہ ہوں تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں۔ (ت)


 (۳؎ درمختار         باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)

زوالِ رقت سے اس کی تفسیر،


اقول: الرقۃ طبع الماء والطبع لازم الاجزاء وغلبۃ الملزوم تلزمھا غلبۃ اللازم فمغلوبیۃ الطبع تدل علی مغلوبیۃ الاجزاء ھذا ماظھرلی فی توجیہ ھذا التفسیرفافھم فلایخلو عن مقال فالاولی ان یقال تقیید لاتفسیرای المراد غلبۃ الاجزاء لامن حیث ذواتھا بل من حیث طبعھا ومقتضی ذاتھا فانقلت لم نسبت للاجزاء دون الکل اقول لما اعلمناک ان الثخن لتماسک فی الاجزاء والرقۃ لعدمہ۔


میں کہتا ہوں رقت پانی کی طبیعت ہے اور طبع اجزا کو لازم ہے تو ملزوم کا غلبہ لازم کے غلبہ کو مستلزم ہے تو طبع (رقت) کی مغلوبیت، اجزاء کی مغلوبیت پر دلالت کرے گی،اس تفسیر میں مجھے یہ سمجھ آئی ہے، غور کرو اس میں اعتراض ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کو تفسیر کی بجائے تقیید قرار دیا جائے،یعنی یوں کہا جائے کہ غلبہ میں اعتبار تو اجزاء کاہوگا مگر اجزاء کی ذات کا لحاظ نہیں بلکہ ان کی طبیعت کے لحاظ سے غلبہ معتبر ہوگا۔اگر تو اعتراض کرے کہ تم نے اجزاء کی طبیعت کہہ کر طبیعت و اجزاء کی طرف منسوب کیا، کُل کی طرف کیوں منسوب نہیں کیا؟ تو میں جواب دیتا ہوں کہ چونکہ گاڑھا اور غلیظ ہونا اجزاء کی طرف منسوب ہے لہٰذا اس کی ضد (رقیق ہونا) بھی اجزاء کی طرف منسوب ہوگا (جبکہ رقت ہی پانی کی طبیعت ہے)۔ (ت)


وقایہ واصلاح سے گزرا:لابماء زال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء ۱؎۔ غیر کے اجزاء کے غلبہ کی وجہ سے جس پانی کی طبع زائلٍ ہوچکی ہے اس سے وضو جائز نہیں (ت)


دونوں شرحوں سے گزرا: ھو الرقۃ والسیلان ۲؎  (طبع رقت وسیلان ہے۔ ت)


 (۱؎شرح وقایہ    فیما یجوزبہ الوضو    رشیدیہ دہلی        ۱/۸۵)

( ۲؎ شرح وقایہ    فیما یجوزبہ الوضو    رشیدیہ دہلی        ۱/۸۵)


۰۷ میں حلیہ وتتمہ وذخیرہ سے گزرا: الغلبۃ من حیث الاجزاء بحیث تسلب رقۃ الماء ۳؎  (غیر کا اجزاء کےلحاظ سے ایسا غلبہ جس سے رقّت ختم ہوجائے۔ ت)


 (۳؎ حلیہ)


شلبیہ میں منبع سے ہے : المراد بغلبۃ الاجزاء ان تخرجہ عن صفۃ الاصلیۃ بان یثخن لاالغلبۃ باعتبار الوزن ۴؎۔ اجزاء کے اعتبار سے غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کو صفت اصلیہ سے نکال دے کہ وہ گاڑھا ہوجائے نہ کہ وزن میں غلبہ ہوجائے۔ (ت)


 (۴؎ شلبیہ علی التبیین    کتاب الطہارۃ    الامیریہ مصر ۱/۲۰)


ارکان اربعہ میں ہے:الغلبۃ بالاجزاء بان تذھب رقۃ الماء ۵؎۔ اجزاء کا غلبہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے پانی کی رقت ختم ہوجائے۔ (ت)


 (۵؎ رسائل الارکان    فصل المیاہ        یوسف فرنگی محلی لکھنؤ    ص۲۴)


عنایہ وبنایہ میں ہے : الخلط یعتبر فیہ الغلبۃ بالاجزاء فان کانت اجزاء الماء غالبۃ ویعلم ذلک ببقائہ علی رقتہ جاز  الوضوء بہ وانکانت اجزاء المخلوط غالبۃ بان صار ثخینا زال عنہ رقتہ الاصلیۃ لم یجز اھ ۶؎۔ پانی میں مخلوط چیز کا غلبہ یہ ہے کہ اس کے اجزا غالب ہوں اگر پانی کے اجزاء کا غلبہ ہو جو پانی کی رقت سے معلوم ہوتا ہے تو  وضو جائز ہے ورنہ اگر ملنے والی چیز کے اجزاء کا غلبہ ہوجو پانی کے گاڑھا ہونے سے معلوم ہوتا ہے جبکہ پانی کی رقتِ اصلیہ ختم ہوجائے تو وضو ناجائز ہے اھ (ت)


 (۶؎ العنایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)


اقول: لکن الاکمل ذکربعدہ فی تصحیح قول الثانی ماتقدم فی البحث الاول ان وجود المرکب باجزائہ فاعتبارھااولی فھذایمیل الی ان المرادکثرۃ الاجزاء کماافصح بہ فی مجمع الانھرلان الترکب منھالامن طبائعھاوانماالطبع وصف لازم فان اعتبرت من حیث اوصافھالم یتم نفی قول الامام الثالث فان فرق باللازم والعارض فعلی تمامیتہ ھوبحث اٰخر غیرالترجیح بان ھذہ حقیقیۃ ذاتیۃ وتلک مجازیۃ عرضیۃ ھذاوقال فی البحر ذکر الحدادی ان غلبۃ الاجزاء فی الجامد تکون بالثلث وفی المائع بالنصف ۱؎ اھ قال عبدالحلیم لعلہ امتحنہ فوجدہ یصیر مغلوبابالقدرالمذکور فعینہ کماشرح المقدسی ۲؎ اھ میں کہتا ہوں مگر اس کے بعد اکمل نے دوسرے قول کی تصحیح میں ذکر کیاہے جو پہلے بحث اول میں گزر چکا ہے کہ مرکب کا وجود اس کے اجزاء سے حاصل ہوتاہے لہٰذا غلبہ میں اجزاء کا اعتبار بہتر ہے،اس سے غلبہ میں کثرت اجزاء کا اعتبار بہتر ہے،اس سے غلبہ میں کثرتِ اجزاء کا رُجحان پایاجاتاہے،جیسا کہ مجمع الانہر میں اس کو بیان کیا ہے، کیونکہ ترکیب اجزا سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ طبع سے طبع تو ایک وصف اس کو لازم ہے اگر اوصاف کے لحاظ سے غلبہ کااعتبار کیاجائے تو امام محمد کے قول کی نفی تام نہ ہوگی(جو کہ رنگ، بُو اور ذائقہ جیسے اوصاف سے غلبہ کا اعتبار کرتے ہیں)اگر طبع اور دیگر اوصاف میں یہ فرق کیا جائے کہ طبع پانی کیلئے وصف لازم اور رنگ وغیرہ وصف عارض ہیں تو یہ ترجیح سے ہٹ کر ایک نئی بحث ہوجائے گی کہ طبیعت پانی کی حقیقۃ ذاتیہ ہے اور دوسرے اوصاف مجازی اور عرضی ہیں، اس کو محفوظ کرو، اور بحر میں یہ ذکر ہے کہ حدادی نے کہا ہے کہ جامد میں اجزاء کا غلبہ ایک تہائی سے ہوجاتا ہے اور بہنے والی چیز کا پانی میں غلبہ نصف (مساوی) سے ہوجاتا ہے اھ اس پر عبدالحلیم نے کہا ہوسکتا ہے کہ شاید انہوں نے تجربہ کیا ہو اور جامد کی مذکورہ مقدار کے ملنے پر پانی مغلوب ہوا ہو اس لئے انہوں (حدادی) نے اس ایک تہائی کو مقرر کردیا جیسا کہ مقدسی کی شرح میں ہے اھ۔ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق        کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی        ۱/۷۰)

(۲؎ حاشیۃ الدرر    للمولیٰ عبدالحلیم    فرض الوضو    مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۱۸)


اقول ملحظہ الی ماوفق بہ فی البحربین ھذین القولین بانہ ان کان المخالط جامدا فغلبۃ الاجزاء فیہ بثخونتہ وان کان مائعا موافقا للماء فغلبۃ الاجزاء فیہ بالقدر ۱؎ اھ وکانہ رأی ان الثخن لایحصل مالم یکن الجامد نصف الماء فقدرہ بالثلث واللّٰہ تعالٰی اعلم ۔ میں کہتا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے جو بحر میں ان دونوں قولوں میں موافقت پیدا کرتے ہوئے کہا کہ پانی میں ملنے والی چیز جامد ہو تو پھر اس کے اجزا کے غلبہ کا مطلب پانی کا گاڑھا ہونا ہے اور وہ چیز بہنے والی پانی کے موافق ہو تو اس کے غلبہ کا مطلب اس کی مقدار کا غلبہ ہے اھ گویا کہ حدادی نے یہ سمجھا کہ جب پانی میں جامد نصف برابر ہونے پر پانی مکمل گاڑھا ہوجاتا ہے تو ایک تہائی سے ضرور غلبہ ہوجاتا ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۹)


اقول تقییدہ بالموافقۃ لاتباع الضابطۃ ولاتنس(۱) ماقدمناان الرقۃ ربماتزول بامتزاج مائع ایضااذاکان ذاجرم فالتوزیع غیرمسلم وبہ ظھرماقدمنا تحت قول الجوھرۃ۔ میں کہتا ہوں کہ بحر کا یہ کہنا بہنے والی چیز پانی کے موافق ہو محض ضابطہ کے لحاظ سے ہے، یہ بات نہ بھُولنا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ کبھی پانی کی رقت ایسے مائع (بہنے والی) سے زائل ہوجاتی ہے جو جِرم والی ہو،لہٰذا بحر کی مذکورہ تقسیم غیر مسلّم ہے اسی سے وہ بات واضح ہوگئی جو ہم نے جوہرہ کے قول کے تحت کہی تھی۔ (ت)

زوال اسم سے تفسیر، ۱۲۲ میں فتح وحلیہ سے گزرا:


صرح فی التجنیس ان من التفریع علی غلبۃ الاجزاء  قول الجرجانی  اذا طرح  الزاج  فی  الماء جاز  الوضوء  ان کان  لاینقش اذا 

کتب  والا فالماء  ھو المغلوب ۲؎ اھ تجنیس میں تصریح کی ہے کہ غلبہ اجزاء کی ایک تفریع جرجانی صاحب کا یہ قول ہے کہ جب پانی میں زاج (سیاہی) ڈالی جائے تو اگر لکھائی میں اس سے نقوش ظاہر نہ ہوں تو  وضو جائز ہے ورنہ پانی مغلوب ہوگا اھ


 (۲ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۹)


فان قلت ای نظر ھھنا الی الاجزاء حتی یسمی غلبۃ من حیث الاجزاء اقول بلی لابدلصلاحیۃ النقش اوالصبغ بازاء قدرمعلوم من الزاج والعفص اوالزعفران والعصفرقدرمخصوص من الماء حتی لوطرح فیہ اقل من القدر اوھذا القدر فی اکثر منہ لم ینقش ولم یصبغ فکانت اجزاؤھا مغلوبۃ بالماء اذلم تعمل فیہ بخلاف ما اذاصلح فقد غلبتہ اذغیرتہ۔


اگر تو اعتراض کرے یہاں اجزاء کا اعتبار کیسے ہوا جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ یہ اجزاء کے لحاظ سے غلبہ ہے،

(تو میں اس کے جواب میں) کہتا ہوں کہ کتابت میں نقوش ظاہر ہونے کی صلاحیت زاج، عفص، زعفران اور عصفر کی ایک خاص مقدار پانی میں ملانے سے حاصل ہوتی ہے اگر اس مقدار سے کم پانی میں ملائی جائے یا اتنی مقدار زیادہ پانی میں ملادی جائے تو کتابت میں رنگ ونقوش ظاہر نہ ہوں گے لہٰذا پانی غالب ہوگا اور اگر ان مذکورہ چیزوں کے ملانے سے کتابت کا عمل درست ہوجائے تو معلوم ہوگا کہ پانی مغلوب ہے اور ان مذکورہ چیزوں کے اجزا غالب ہوگئے۔ (ت)

کماتقدم قبیل الاضافات وفی نمرۃ ۲۶۲  (جیسا کہ اضافات کی بحث سے ذرا پہلے اور نمبر ۲۶۲ میں گزرا۔ ت) تو اس کا اعتبار دونوں سے مغنی(عـہ) اور سب صورتوں کو جامع تو قول امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اسی کا ارادہ الیق وانسب کہ محیط صور وضابطہ کلیہ ہو تعریف مطلق میں کہ چار سبب منع بیان ہوئے تھے سب اس میں آگئے ولہٰذا امام زیلعی نے فرمایا زوال الاسم ھو المعتبر فی الباب  (نام کا ختم ہوجانا ہی اس بارے میں معتبر ہے۔ت) حلیہ سے آتا ہے کہ یہی تمام اقوال کا مرجع ہے وللّٰہ الحمد وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم۔


 (عـہ)اقول وبہ ظھران(۱)قصرالتفسیرعلی کثرۃ الاجزاء کماتوھمہ عبارۃ الغنیۃ ومجمع الانھر والجوھرۃ وغیرھا(۲)اوعلی زوال الطبع کماتوھمہ عبارۃ المنبع وغیرھا لیس کماینبغی وعلی ھذا یحمل مافعل فی العنایۃ والبنایۃ وغیرھما من التفسیر مرۃ بھذا ومرۃ بذاک ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

میں کہتا ہوں کہ غلبہ کی تفسیر میں صرف کثرۃ الاجزاء کو ذکر کرنا جیسا کہ غنیہ، مجمع الانہر اور جوہرۃ وغیرہ کی عبارات سے وہم ہوتا ہے یا صرف زوالِ طبع کو سمجھنا جیسا کہ منبع وغیرہ کی عبارت سے وہم ہوسکتا ہے، درست نہیں ہے بنایہ اور عنایہ میں غلبہ کی تفسیر کبھی یوں اور کبھی یوں کی گئے ہے (کہ غلبہ کی مواقع کے لحاظ سے تفاسیر مختلف ہیں) اس کی یہی وجہ ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


بحث سوم : ان میں کس معنی کو ترجیح ہے اقول ان میں تنافی نہیں دوشاب خرما کہ پانی میں برابر سے زیادہ ممتزج ہو وہاں کثرت اجزا اور زوال طبع وزوال اسم سب کچھ ہے پھر زوال اسم ان دونوں اور ان کے غیر کو بھی شامل ظاہر ہے کہ رقت نہ رہے تو پانی نہ کہلائے گا کیچڑ کو کوئی پانی نہیں کہتا اور اگر جنس دیگر برابر یا زائد مل جائے تو ارتفاع نام اظہر ہے طبخ باغیر یہاں دو بحثیں ہیں:


بحث اول: طبخ کی حقیقت اور یہ کہ اُس کے صدق کو کیا کیا درکار اقول وباللہ التوفیق اسی میں چند امور کا لحاظ ضرور:

(۱) تنہا پانی کا جوش دینا پکانا نہیں کہا جاتا جب تک اُس میں کوئی اور چیز نہ ڈالی جائے سادات ثلثہ ابو السعود ازہری علی مسکین پھر طحطاوی پھر شامی میں ہے:


الطبخ یشعر بالخلط والا فمجرد تسخین الماء بدون خلط لایسمی طبخا ۱؎ اھ زاد الشامی ای لان الطبخ ھو الانضاج استواء(عـہ) قاموس ۲؎ اھ


کہ پکنا، خلط کرنے سے عبارت ہے اگر صرف پانی گرم کیا جائے اور اس میں کسی چیز کا خلط نہ ہو تو اس کو پکنا نہیں کہیں گے اھ اس پر شامی نے یہ زیادہ کیا اور کہا ''پکنا مکمل طور پر پک کر اور بھُن کر تیار ہونے کو کہتے ہیں'' قاموس اھ


 (۱؎ فتح المعین    اکل الطعام المتغیر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۳)


(عـہ)اقول فھمہ(۱) رحمہ اللّٰہ تعالٰی بالسین المہملۃ فاقتصرعلیہ وصوابہ بالمعجمۃ وتمامہ واقتدارا کمافی القاموس فالاشتواء الشیُّ ومنہ الشواء ویکون بلاماء والاقتدار من القدر بالکسر ای الطبخ فی القدر قال فی القاموس القدار الطابخ فی القدر کالمقتدر قال فی تاج العروس یقال اقتدر وقدر مثل طبخ واطبخ ومنہ قولھم اتقتدرون ام تشتوون اھ ومعنی النضج ھو الادراک کما فی القاموس ویؤدی مؤداہ الاستواء بالمھملۃ فلذا ذھب الیہ وھلہ رحمہ اللّٰہ تعالی ولم یعد نظرہ الی قولہ واقتدارا ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)


میں کہتا ہوں کہ علامہ شامی نے ''استواء'' کو "س "مہملہ سے سمجھا لہٰذا یوں بیان کردیا اور صحیح یہ ہے کہ یہ ش معجمہ کے ساتھ ''اشتواء''ہے اور قاموس میں مکمل یوں ہے''اشتواءً'' واقتدارً ہے، الاشتواء، الشی اور اسی سے الشواء ہے بغیر پانی بھُنی ہوئے چیز کو کہتے ہیں۔ الاقتدار،قِدر کسرہ کی ساتھ ہے جس کا معنی ہانڈی میں پکانا ہے،قاموس میں بیان ہے القدّار ہانڈی میں پکانے والا، جیسے کہ المقتدر کایہی معنی ہے۔ تاج العروس میں ہے اِقتدر اور قَدّر، طَبَخ اور اطّبخ کی طرح ہے۔ اسی لفظ سے عرب کہتے ہیں اتقتدرون ام تشتوون یعنی ہانڈی میں پکاؤ گے یا خشک بھُونو گے اھ اور النضج کا معنیٰ "تیار ہونا" ہے جیسا کہ قاموس میں ہے الاستواء (س مہملہ) بھی یہی معنی دیتا ہے اس لئے علامہ شامی رحمہ اللہ کا خیال ''الاستوا'' کی طرف گیااور انہوں نے بعد والے لفظ اقتداراً کی طرف توجہ نہ فرمائی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۵)


ای ومعلوم ان الماء لاینضج اقول وعلیہ قول الوقایۃ والنقایۃ والوافی والکنز والملتقی والغرر والتنویر ونور الایضاح وکثیرین لایحصون اذاقتصروا علی ذکر الطبخ ولم یقیدوا بکونہ مع غیرہ لانہ قد انفہم من نفس اللفظ فمن التجرید لاجل التوضیح قول الاصلاح اوتغیر بالطبخ معہ والھدایۃ فان تغیر بالطبخ بعد ماخلط بہ غیرہ وبہ(۱) یضعف مافی العنایۃ والبنایۃ انما قید بہ ای بالخلط لان الماء اذاطبخ وحدہ وتغیر جاز  الوضوء بہ ۱؎ اھ ومافی الحموی علی قول مسکین ای تغیر بسبب الطبخ بخلط طاھرالخ انہ اشاربھذہ الزیادۃ الی اصلاح کلام المصنف لان مجرد الطبخ دون الخلط لایکون مانعا ۲؎ اھ وقدتعقبہ السید الازھری بمامرفاصاب واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔


یعنی یہ بات معلوم ہے کہ پانی بھُن کرتیار نہیں ہوتا،میں کہتا ہوں اسی بنیاد پر وقایہ، نقایہ، وافی،کنز، ملتقیٰ، غرر ، تنویر ، نورالایضاح اور بے شمار لوگوں نے صرف طبخ کو ذکر کرکے یہی معنی مراد لیا ہے جبکہ اس کے ساتھ کسی دوسری چیز کے پکنے کا ذکر نہ کیا، کیونکہ خود لفظ سے یہ معنی سمجھ آتا ہے،اور اصلاح کے قول تغیر بالطبخ معہ(دوسری چیز کے ساتھ پک کر متغیر ہوجائے) اور ہدایہ کے قول، غیر کے ساتھ مل کر پکے اور متغیر ہوجائے (جہاں طبخ ذکر کرنے کے باوجود اس کے ساتھ خلط کا ذکر کیا گیا)کو وضاحت کیلئے تجرید قرار دیں گے (یعنی طبخ کو خلط کے معنی سے خالی کرنے کے بعد خلط کو ذکر کیا ہے) اور اسی معنی کی بنا پر عنایہ اور بنایہ کے اس قول کو ضعیف قرار دیا گیا ہے جس میں انہوں نے طبخ کو خلط کے ساتھ ذکر کرنے کو قید قرار دیا اور کہا کہ طبخ کو خلط کے ساتھ مقید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانی اکیلا پکایا جائے اور متغیر ہوجائے تو اس سے  وضو جائز ہے اھ (یہ تضعیف اس لئے کہ خلط، طبخ کے معنی کا جز ہے اس کو قیدبنانا درست نہیں) اور اسی بنا پر مسکین کے قول '' کسی پاک چیز کے ساتھ پکنے سے پانی میں تغیر الخ'' پر حموی کے اس قول کو ضعیف قرار دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مسکین نے طبخ کے ساتھ غیر کے خلط کا ذکر کرکے مصنف کے کلام کو درست کیا ہے کیونکہ خلط کے بغیر طبخ، وضو سے مانع نہیں ہے، حموی کے اس قول پر سید ازہری نے یہی اعتراض کیا اور درست کیا واللہ تعالٰی اعلم بالصواب (ت)


(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)

(۲؎ فتح المعین        اکل الطعام المتغیر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۳)


(۲) جو چیز آگ پر رکھی جائے بالطبع نرم ہو کہ آگ کا اثر جلد قبول کرسکے جس سے اس کے اجزامتخلخل ہوجائیں پہلے جو صلابت تھی باقی نہ رہے خامی جاکر استعمال مطلوب کے لئے مہیا ہوسکے لوہے یا پتھر کنکر کو تنہا یا پانی میں ڈال کر آگ پر رکھنے کو پکانا نہ کہیں گے وھذا حاصل بنفس مدلول الانضاج کمالایخفی (اور یہی حاصل ہے مکمل طور پر پکنے کا، جیسا کہ مخفی نہیں۔ ت)

(۳) صرف اُس شے کا یہ قابلیت رکھنا کافی نہیں یہاں کہ آگ پر رکھی جائے کہ یہ امور بالفعل حاصل ہوجائیں اگر پہلے ہی جُدا کرلی گئی پکانا نہ کہیں گے بلکہ کچا رکھنا۔

(۴) بعد حصول اتنی دیر نہ ہو کہ زائل ہوجائیں اگر اثر نار اور بڑھاکہ استعمال مطلوب کی صلاحیت سے نقل گئے تو پکانا نہ کہیں گے بلکہ جلانا وھذا التوسط ھوالانضاج (یہ واسطہ وہ تیار ہونا ہے۔ ت)

(۵) پکانے کو ضرور ہے کہ وہ شے مقصود ہو اگر پانی میں جوش دینے سے مقصود صرف پانی ہے مثلاً اس کی اصلاح ورفع غائلہ وغیرہ کے لئے دوسری شے کا صرف اثر لے کر پھینک دیناتو اسے اس چیز کا پکانا نہ کہیں گے زخم دھونے کیلئے پانی میں نیم ڈال کر جوش دینے کو نہ کہا جائے گا کہ نیم کی پتّی باریک رہے ہیں۔


تنبیہ پانی میں پکانے سے کبھی پانی بھی مقصود ہوتا ہے جیسے شوربا دار گوشت مگر یہ طبخ کیلئے لازم نہیں جیسے پانی میں شنجرف پکاتے نشاستہ کیلئے گیہوں آش کیلئے جَواور وہ پانی پھینکے اور یہ چھ چھ بدلے جاتے ہیں


امامافی المغرب قال الکرخی الطبیخ مالہ مرق وفیہ لحم اوشحم فاماالقلیۃ الیابسۃ ونحوھا فلا ۱؎ اھ  (مغرب میں ہے کہ کرخی نے فرمایاطبیخ وہ ہے جس میں شوربا اور اس کے ساتھ گوشت اور چربی ہو لیکن خالص مشک بھُونی ہوئی چیز وغیرہ کو طبیخ نہیں کیا جائےگا۔ ت)


 (۱؎ المغرب )

فاقول فی خصوص اللفظ لاعموم الطبخ کالشریب(۱)لماء لیس فی عذوبۃ وقد یشرب علی مافیہ والشروب ادون منہ ولایشرب الاضرورۃ کمافی التاج عن التہذیب عن ابی زید قال ومثلہ حکاہ صاحب کتاب المعالم وابن سیدہ فی المخصص والمحکم ۲؎ اھ فھو فی خصوص اللفظین لافی الشرب والشراب وسائر مشتقاتہ۔


پس میں کہتا ہوں خاص طبیخ لفظ کے بارے میں یہ قول ہے ورنہ عام طبخ میں یہ خصوصیت نہیں، جیسا کہ شریب خاص ایسے مشروب کو کہا جاتا ہے جس میں میٹھا نہ ہو حالانکہ میٹھا بھی مشروب ہوتا ہے اور لفظ شروب اس سے بھی کم درجہ ہوتا ہے جس کو صرف ضرورت کے وقت پیا جاتا ہے اس کو تاج العروس میں تہذیب کے حوالہ سے ابوزید سے نقل کیا اور اس نے کہا کہ اس کو کتاب المعالم اور ابن سیدہ نے مخصص اور محکم میں بیان کیا ہے اھ لہٰذا یہ خاص معانی لفظِ ''شریب'' اور ''شروب'' کے بارے میں ہیں اس مادہ سے دوسرے مشتقات شرب، شراب وغیرہ کیلئے یہ خصوصیات نہیں ہیں۔ (ت)


 (۲؎ تاج العروس    باب الباء فصل الشین    احیاء دار التراث العربی بیروت    ۱/۳۱۲)


بحث دوم طبخ میں منع کس وجہ سے ہے ۲۱۷(۲) میں طبخ کی بحث گزری اور یہ کہ اس میں عبارات مختلف آئیں اور یہ کہ طبخ موجب کمال امتزاج ہے ذ ی جرم شے معتدبہ کا پانی سے کامل امتزاج ضرور اس کی رقت میں فرق لائےگا،اور یہ کہ یہی مآل جملہ عبارات مذکورہ ہے اور یہ کہ امام ناطفی وعامہ کتب جامع کبیر ومنیہ وینابیع وتبیین وفتح القدیر وتجنیس امام صاحب ہدایہ وتجنیس ملتقط وحلیہ وظہیریہ وغنیہ ومراقی الفلاح نے پکانے سے اسی زوال رقت آب پر مدار حکم رکھا اسی کو غنیہ نے جامع صغیر امام قاضی خان سے نقل کیا اسی پر متون سے وقایہ وملتقی وغرر وتنویر ونورنے جزم فرمایاکہ لابماء زال طبعہ بالطبخ ۱؎  (جس پانی کی طبیعت پکانے سے زائل ہوجائے اس سے  وضو جائز نہیں۔ ت)


 (۱؎ شرح الوقایۃ        فصل فیما لایجوز  الوضوء ومالایجوز    رشیدیہ دہلی    ۱/۸۵)


امام صدر الشریعۃ نے شرح میں فرمایا: المراد بہ ان یخرجہ عن الرقۃ ۲؎  (اس سے مراد وہ پانی ہے جس کو رقت سے خارج کردے۔ ت)


 (۲؎ شرح الوقایۃ    فصل فیما لایجوز  الوضوء ومالایجوز    رشیدیہ دہلی    ۱/۸۵)


اقول یہی مختصر امام ابو الحسن وہدایہ امام برہان الدین سے مستفاد لانھما احلا الامر علی اخراج الماء عن طبعہ وذکرا فی 

الامثلۃ المرق ۳؎ (وہ دونوں معاملہ کا مدار اس پر رکھتے ہیں کہ پانی کو اس کی طبع سے نکال دے،اس کی مثال میں شوربا ذکر کیا۔ ت)


 (۳؎ الہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء        عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


نیز ان دونوں نے زوال طبع کی مثال میں آب باقلا گنا ہدایہ نے اُسے مطبوخ پر حمل کیا اسی طرف کافی نے اشارہ فرمایا بنایہ وکفایہ وعنایہ وغایۃالبیان وفتح نے اسے مقرر رکھا نمبر ۸۹ میں جوہرہ نیرہ کی عبارت گزری المراد المطبوخ بحیث اذابرد ثخن ۴؎  (ایسا مطبوخ مراد ہی جو ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا ہو جائے۔ ت)


 (۴؎ الہدایۃ  کتاب الطہارۃ    امدادیہ ملتان  ۱/۱۴)


یہی مضمون کفایہ وبنایہ وغایہ نیز معراج الدرایہ پھر شلبیہ علی الزیلعی سے آتا ہے نیز ان دو سے نمبر ۲۱۷ میں گزرا اور یہ کہ انہوں نے یہی مفاد خانیہ ٹھہرایا اور یہی مطلب خانیہ حلیہ نے بتایا کفایہ بھی اس میں شریک درایہ ہے کماسیأتی (جیسا کہ آئےگا۔ ت) بالجملہ عبارات اس پر متظافر ومتواتر ہیں اور اس درجہ تواتر کے بعد ہدایہ ونقایہ و وافی وکنز واصلاح کی تعبیر تغیر طبع مراد لینا بہت واضح وآسان ہے۔



اقول: بلکہ وہ نفس لفظ کا مفاد ہے کہ انہوں نے پانی کا تغیر لیا اور پانی ذات ہے نہ کہ وصف وصف عارض کا تغیر ذات کا تغیر نہیں عوارض بدلتے رہتے ہیں اور ذات بدستور رہتی ہے ذات نہ رہے تو عوارض بدلیں کس پر بخلاف وصف لازم کہ انتفائے لازم انتفائے ملزوم ہے اور اصل کلام میں حقیقت ہے جب تک وہ ممکن ہو مجاز ممکن نہیں جس طرح عنایہ میں فرمایا کہ الغلبۃ بالاجزاء غلبۃ حقیقیۃ ۵؎ (اجزاء کے لحاظ سے غلبہ حقیقی ہے۔ ت)


(۵؎ عنایۃ مع فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ  الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)


مجمع الانہر میں بڑھایا:بخلاف الغلبۃ باللون فانھا راجعۃ الی الوصف ۱؎ اھ وقد قدمنا ھذا البحث فی قول الکنز فی ۷۷  (رنگ کے اعتبار سے غلبہ اس کے خلاف ہے کہ وہ وصف کی طرف راجع ہے اس بحث کو ہم نے نمبر ۷۷ میں کنز کے قول میں ذکر کیا ہے۔ ت)


 (۱؎ مجمع الانہر    فصل یجوز الطہارۃ بالماء المطلق    دارالطباعۃ العامرۃ مصر ۱/۲۸)

اقول: وبہ یضعف مافی جامع الرموز تحت قولہ اوغیرہ طبخا فیہ اشارۃ الی ان الغلبۃ مانعۃ فیما طبخ من ھذا الجنس سواء کانت بالاجزاء اوباللون ۲؎ اھ ویأتی دفع اٰخر۔ میں کہتا ہوں اور اسی سے جامع الرموز کی اس عبارت کی کمزوری سمجھی گئی ماتن کے قول ''اوغیرہ طبخا'' کے تحت ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس جنس میں پکانے سےغلبہ حاصل ہوگا یہ غلبہ اجزاء کے لحاظ سے ہو خواہ رنگ کے اعتبار سے ہو اھ آگے ایک اور اعتراض ہوگا۔ (ت)


 (۲؎ جامع الرموز    باب الطہارت    مکتبہ اسلامیہ گنبد ایران    ۱/۴۷)


لاجرم امام قوام الدین کاکی پھر علامہ احمد ابن الشلبی نے فرمایا: عنی بالتغیر بالطبخ الثخانۃ والغلظ ۳؎ اھ وقد تقدم تمامہ فی ۲۱۷۔ پکانے کی بناء پر تغیر سے انہوں نے گاڑھا اور غلیظ مراد لیا ہے اھ اس کی پوری بحث ۲۱۷ میں گزر چکی ہے۔ (ت)


 (۳؎ شلبیۃ علی التبیین     باب الطہارت    المطبعۃ الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)


کفایہ میں ہے:عنی بالتغیر الثخونۃ حتی اذاطبخ ولم یثخن بعد بل رقۃ الماء باقیۃ جاز  الوضوء بہ ذکرہ الناطفی کذا فی فتاوٰی قاضی خان ۴؎۔ پکانے کےسبب تغیر سےانہوں نے گاڑھا ہونا مراد لیا ہےحتی کہ اگر پکایا اور گاڑھا نہ ہوا اور اس میں رقت باقی تھی تو اس سے وضو جائز ہوگا اس کو ناطفی نےذکر کیا ہےفتاویٰ قاضیخان میں ایسےہی ہے (ت)


 (۴؎ الکفایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء        مطبعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۲)


بنایہ میں ہے: م  تغیر  بالطبخ   ش  بان  صار ثخینا حتی  صار کالمرق  حتی  اذا  طبخ  و لم یثخن  ورقۃ الماء  فیہ باقیۃ یجوز  الوضوء  بہ ۱؎۔ متن میں تغیر بالطبخ پر شارح نے کہا کہ وہ گاڑھا ہوجائے حتی کہ شوربے جیسا ہوجائے لیکن اگر پکایا اور گاڑھانہ ہوا اور اس میں رقت باقی ہو تو اس سے  وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۱؎ البنایۃ الماء الذی یجوزبہ  الوضوء الخ  ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۸۹)


اسی طرح امام اکمل نے عنایہ میں نقل کرکے مقرر رکھا۔ ولو بلفظۃ قیل اذقال قولہ تغیر بالطبخ قیل المراد بالتغیر الثخونۃ فانہ یصیر مرقا ۲؎۔ اگرچہ قیل کے لفظ کے ساتھ ہے جبکہ انہوں نے ماتن کے قول تغیر بالطبخ پر کہا، بعض نے کہا کہ اس تغیر سے مراد گاڑھا ہونا ہے کیونکہ وہ شوربا بن جاتا ہے۔ (ت)


 (۲؎ العنایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ  الوضوء الخ    مطبعۃ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/۶۲)


اسی طرح غایۃ البیان میں ہے یہ تو عام بحث تھی رہی ان میں ہر کتاب پر خاص نظر۔

(۱) ہدایہ اقول متن میں زوال طبع تھا شرح نے اُسے مقرر رکھ کر آبِ باقلاء وغیرہ سے مطبوخ مراد لیا پھر ان تغیر بالطبخ لایجوز التوضی بہ ۳؎  (اگر پکانے سے متغیر ہوجائے تو اس سے  وضو جائز نہیں۔ ت) فرمایا


لاجرم وہی تغیر معہود ومقصود ھذا مایقتضی بہ موافقۃ الشرح لمشروحہ لکن فیہ اشکال قوی سنعود الی بیانہ اٰخر ھذا البحث بعونہ تعالٰی (شرح اور مشروح کی موافقت کا یہی تقاضا ہے لیکن اس میں ایک قوی اشکال ہے اس کو بیان کریں گے بحث کے آخر میں اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت)


 (۳؎ الہدایۃ         الماء الذی یجوزبہ  الوضوء الخ        مطبعۃ عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


(۲) نقایہ اقول اس کی اصل وقایہ میں زوال طبع ہے اور خود امام صاحب نقایہ نے شرح میں اعتبار رقت کی تصریح فرمائی اگر کہیے ممکن کہ نقایہ میں رائے کو تغیر ہوا کہ جانب تغیر گئی اقول تالیف شرح تصنیف نقایہ سے متأخر ہے کمالایخفی علی من طالعہ (اس پر مخفی نہیں جس نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) اگر کہئے پھر تغیر سے تغییر کیوں فرمائی اقول وہی اشارہ غامضہ کہ ہم نے ۲۱۷ میں بیان کیا کہ طبخ میں زوال رقت کا بالفعل ظہور ضرور نہیں بلکہ اس قابل ہوجانا کہ ٹھنڈا ہوکر رقیق نہ رہے


 کماتقدم التنصیص علیہ من الائمۃ الجلۃ وبہ اندفع مافی شرح نقایۃ البرجندی من الاستشھاد علی التغایر بجعل التغیر قسیم زوال الطبع کماقدمناہ ثمہ  (جیسا کہ اس پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تصریح گزر چکی ہے اور اسی سے علامہ برجندی کی شرح نقایہ میں تغایر کیلئے تغیر کو زوال طبع کے مقابل قرار دینے کو دلیل بنانے کا اعتراض ختم ہوگیا، جس کو ہم نے وہاں ذکر کردیا تھا۔ ت)


(۳ و ۴) کنزو وافی اقول اُن میں بالطبخ کا عطف بکثرۃ الاوراق پر ہے اور وہاں تغیر طبع ہے مراد تو بالطبخ اس کے نیچے داخل وتاویل (عـہ )البحر قدعلمت مافیہ اعترف بھذا فی النھرو استشکلہ علی تقدیر الاخذ بما فی الخانیۃ من البناء علی وجود ریح الباقلاء فقال کمانقل عنہ ابو السعود علی ھذا یشکل عطف الطبخ علی ماتغیرہ بکثرۃ الاوراق لما علمت ان التغیر بکثرۃ الاوراق بالثخن وھذا بنفس الطبخ سواء ثخن اولا ۱؎ اھ (بحر کی تاویل کی کمزوری تمہیں معلوم ہوچکی ہے اور نہر میں اس کا اعتراف ہوچکا ہے اور انہوں نے خانیہ کے اُس بیان کو جس میں انہوں نے طبخ کے تغیر پر باقلا کی بُو کو دلیل بنایا ہے پر اشکال وارد کیا ہے اور یوں کہا کہ ماتغیرہ بکثرۃ الاوراق پر طبخ کے عطف کرنے سے اعتراض پیدا ہوگا، کیونکہ کثرتِ اوراق (پتّوں کی کثرت) سے گاڑھا ہونے کی وجہ سے تغیر ہوتا ہے اور یہ محض پکانے سے تغیر ہوگا، گاڑھا ہو یا نہ ہو ابوسعود نے ان سے یوں ہی نقل کیا ہے اھ۔ ت)


(عـہ) تذکر ماتقدم فی ۲۱۷ من حمل البحر التغیر علی تغیر الاطلاق وقولی انہ لایتمشی فی عبارۃ النقایۃ والاصلاح۔

بحر کے اس قول جس میں انہوں نے ''تغیر'' سے اطلاق کا تغیر مراد لیا ہے جو نمبر ۲۱۷ میں گزرا، اور میرے اس قول کو جس میں کہا تھا کہ یہ بات نقایہ اور اصلاح کی عبارت میں درست نہیں ہوگی، کو یاد کرو۔


فان قلت ھلا قلت وفی نفس الکنز فان المفاھیم معتبرۃ فالکتب فاذا حمل التغیر علی تغیر الاطلاق کان المعنی لایجوز  الوضوء بماتغیر عن اطلاقہ بالطبخ امالوتغیر عنہ بغیر الطبخ جاز وھو باطل۔


اگر تو اعتراض کرے کہ تم نے اس بارے کنز کا ذکر کیوں نہیں کیا،حالانکہ کتب فقہ میں مفہومات کا اعتبار ہوتا ہے پس جب طبخ والے تغیر سے مراد، اطلاق کا تغیر ہے تو پھر معنی یوں ہوگا کہ پکانے کی وجہ سے جو تغیر پانی کے اطلاق میں پیدا ہوا ہے اس سے وضو جائز نہ ہوگا، اور اگر یہ اطلاق کا تغیر بغیر پکائے حاصل ہو تو اس سے  وضو جائز ہوگا حالانکہ یہ باطل ہے۔


اقول: عبارۃ(۱) الکنز وان احتملت المفھوم احتملت ان یکون الطبخ مطلقاعلۃ موجبۃ لتغیر الاطلاق وحصول التقیید وان لم یتغیرالشیء ادعی البحر والمعلول لایتخلف عن علتہ فلایکون لھا مفھوم من ھذہ الجھۃ کأن تقول لایتوضؤ بماء غُلب بکثرۃ اجزاء الممازج فلایحتمل انہ وجدت کثرۃ ولم یغلب بھا جاز بہ الوضوء لاستحالۃ انفکاک الغلبۃ عنھا۔


میں کہتا ہوں کہ کنز کی عبارت میں اگر مفہوم کا احتمال ہے تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ طبخ علی الاطلاق تغیر اطلاق کی علتِ مؤثرہ قرار پائے اور مطلق پانی کو مقید کرنے کی علّت بن جائے، اگرچہ طبخ کے ساتھ کوئی تغیر پیدا نہ ہو، جیسا کہ بحر نے دعویٰ کیا ہے تو اب کوئی مفہوم پیدا نہ ہوگا کیونکہ کوئی معلول اپنی علت سے جُدا نہیں ہوسکتا ہے،یہ یوں ہوا جیسے تم کہو کہ پانی میں ملنے والی چیز کے اجزاء کی کثرت ہونے پر وضو جائز نہیں، تو یہاں مفہوم مخالف پیدا نہیں ہوتا،کہ یوں کہا جاسکے کہ کثرت بغیر غلبہ اگر پائی جائے تو وضو جائز ہوگا،کیونکہ کثرت اجزاء غلبہ کیلئے علت موثرہ ہے جس کا جدا ہونا محال ہے۔


فان قلت الیس ان البحر حمل التغیر المذکور فی المتن علی زوال الاسم بالثخونۃ کماتقدم فی ۷۷ ولاشک ان قولہ بالطبخ داخل تحت ھذا التغیر فیکون المعنی اوثخن بالطبخ فلم لم تحتجّ علی البحر یقول نفسہ۔


اگر تو اعتراض کرے کہ کیا بحر نے متن کی تفسیر میں تغیر سے مراد پانی کے نام کی تبدیلی گاڑھے پن کی وجہ سے نہیں لی؟ جیسا کہ نمبر ۷۷ میں گزرا، اور اس میں شک نہیں کہ اس کا قول ''بالطبخ'' بھی اس کے تحت ہے تو اب معنی یہ ہوا اوثخن بالطبخ یا پکانے سے گاڑھا ہوجائے تو آپ بحر کا رد خود اس کے اپنے قول سے کیوں نہیں کرتے؟


اقول لو ان یقول معنی التغیر ھو التقیید غیر انہ فی الاوراق بالثخن ففسرتہ بہ ھناک وفی الطبخ بنفسہ اماکلام الفقیر ھھنا فمبنی علی التحقیق والیہ اشرت بقولی وتأویل البحر قدعلمت مافیہ فافھم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)


تو میں جواب دیتا ہوں کہ بحر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تغیر سے میری مراد تقیید یعنی پانی کو مقید کرنا ہے مگر اوراق (پتّوں) میں یہ تقیید گاڑھے پن سے ہوتی ہے اس لئے میں نے وہاں تغیر کی تفسیر گاڑھے پن سے کی ہے، لیکن مجھ فقیر کا یہ کلام محض تحقیق پر مبنی ہے جس کی طرف میں نے (تاویل البحر قدعلمت مافیہ) بحر کی تاویل میں اعتراض تمہیں معلوم ہے، کہہ کر اشارہ کیا تھا، فافہم ۱۲ منہ غفرلہ۔


 (۱؎ فتح اللہ المعین    کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۳)


اقول والاشکال مدفوع اولا(۱) بماعلمت من تواتر النصوص علی اعتبار الثخن فی الطبخ ایضا وثانیا(۱) بما سمعت ان الثخن لازم الطبخ عادۃ وثالثا(۲) اعلمناک فی ۲۱۷ ماٰل کلام الخانیۃ ھذا واجاب الحموی ثم ابو السعود عن اشکال النھر انہ یشکل ان لوکان مختار المصنّف ان التغیر بکثرۃ الاوراق بالثخن ولیس کذلک لمامر من ان ظاھر قولہ وان غیر طاھر احد اوصافہ انہ لوغیر اوصافہ الجمیع لایجوز وان لم یصر ثخینا ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں یہ اشکال مدفوع ہے اولاً اس لئے کہ طبخ میں بھی گاڑھے پن کا اعتبار ہے جس پر نصوص کا تواتر تمہیں معلوم ہے اور ثانیاً اس لئے کہ تم سن چکے ہو کہ گاڑھا پن، طبخ کو عادتاً لازم ہے اور ثالثا اس لیے کہ ہم نے خانیہ کے اس کلام کا ماحاصل ۲۱۷ میں آپ کو بتایا تھا اور حموی اور پھر ابوسعود نے نہر کے اشکال کا یہ جواب دیا کہ اشکال تب ہوتا جب مصنّف کثرتِ اوراق میں تغیر کی وجہ سے گاڑھا ہونے کو قرار دیتے حالانکہ ایسا نہیں جیسا کہ گزرا کہ ان کے قول (وان غیر طاھر احد اوصافہ) کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی پاک چیز پانی کے تمام اوصاف کو متغیر کردے تو وضو جائز نہیں اگرچہ وہ گاڑھا نہ ہو اھ (ت)


 (۱؎ فتح المعین    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۳)

اقول: اولا لیس(۱) الاولی بنا ان نحمل کلام الائمۃ علی الضعیف المھجور مع صحۃ المعنی الصحیح الموافق للجمھور وحدیث احد الاوصاف یأتی مافیہ بعون اللّٰہ تعالٰی۔


میں کہتا ہوں اوّلاً،ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ائمہ کرام کے کلام کو کسی ضعیف اور متروک پر محمول کریں جبکہ اس کا صحیح اور جمہور کے موافق معنی درست ہوسکتا ہو،جس حدیث میں پانی کے کسی ایک وصف کی تبدیلی کا ذکر ہے اس کے بارے میں اللہ کی مدد سے آئندہ بحث آئے گی۔


وثانیا الامام(۲) النسفی حافظ الدین صاحب الکنز ھو القائل فی مستصفاہ ان اعتبار احد الاوصاف خلاف الروایۃ الصحیحۃ ۲؎ کما تقدم فی ۱۰۱۔ اور ثانیاکنز کے مصنف امام حافظ الدین نسفی نے اپنی مستصفیٰ میں کہا ہے کہ کسی ایک وصف کی تبدیلی والی روایت صحیح روایت کے خلاف ہے جیسا کہ ۱۰۱ میں گزرا۔


 (۲؎ مستصفی)


 (۴) اصلاح اقول کان الاولی بہ الحمل علی مایوافق النصوص المتواترۃلکن العلامۃ الو زیر رحمہ اللّٰہ تعالٰی قال فی منھواتہ من ھھنا علم ان المعتبر فی صورۃ الطبخ تغیر الماء بہ لاخروجہ عن طبعہ کمایفھم من قول تاج الشریعۃ اوبطبخ کیف والمرق لایجوز بہ الوضوء مع انہ انما وجد فیہ تغیر الماء بالطبخ لاخروجہ عن حدالرقۃ والسیلان ۱؎ اھ


اصلاح، میں کہتا ہوں کہ اس کو نصوص متواترہ کے موافق معنی پر محمول کرنا بہتر ہے، لیکن علامہ وزیر رحمہ اللہ نے اپنی منہیات میں فرمایا کہ ''یہاں سے معلوم ہوا کہ پکانے کی صورت میں پانی کا تغیر معتبر ہے پانی کا اپنی طبع سے نکلنا مراد نہیں جیسا کہ تاج الشریعۃ کے اس قول سے مفہوم ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ یا پکانے سے متغیر ہو، تو اس سے وضو کیسے جائز ہو،حالانکہ شوربے سے وضو جائز نہیں باوجود یکہ اس میں پکانے کی وجہ سے تغیر پایا جاتا ہے وہ تغیر ایسا نہیں کہ جس کی وجہ سے پانی رقت وسیلان کی حد سے نکل جائے اھ (ت)


 (۱؎ اصلاح للعلامہ وزیر ابن  کمال پاشا)


اقول:  اولامایفھم(۱) من تاج الشریعۃبل(۲) الذی ھو نصہ ھو الموافق لمتواترات النصوص وثانیا مااستند(۳) الیہ من المرق قد جعلہ القدوری والھدایۃ والوقایۃ والملتقی والغرر والتنویر وغیرھا مماغلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء ۲؎ وتقدم اٰنفا قول البنایۃ وقیل العنایۃ بالثخونۃ یصیر مرقا ۳؎ وثالثا قد(۴) علمت ان الثخن لازم الطبخ عادۃ و رابعا(۵) قدعرفت معنی الرقۃ ولاشک ان المرق اذاسال لاینبسط کلافقد تجسد۔


میں کہتا ہوں اوّلاً تاج الشریعۃ کے کلام سے یہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ انہوں نے جو نص کے طور پر بیان کیا وہ تو نصوص متواترہ کے موافق ہے اور ثانیاً یہ کہ شوربے کے بارے میں انہوں نے تاج الشریعۃ کی طرف جو منسوب کیا اس کو قدوری، ہدایہ، وقایہ، ملتقیٰ، غرر اور تنویر وغیرہا نے اس صورت میں سے بنایا جس میں غیر کے غلبہ کی بنا پر پانی اپنی طبع سے نکل جاتا ہے، اور ابھی بنایہ کا قول اور عنایہ کا قیل گزرا کہ گاڑھے پن کی وجہ سے شوربا بنتا ہے،ثالثاً یہ کہ آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ عادی طور پر گاڑھا پن، طبخ کو لازم ہے، اور رابعاً  آپ کو رقت کا معنی معلوم ہوچکا ہے اور اس میں شک نہیں کہ شوربا جب بہتا ہے تو وہ پوری طرح پھیلتا نہیں۔ (ت)


 (۲؎ الہدایۃ        الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ        عربیہ کراچی        ۱/۱۸)

(۳؎ العنایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۲)


اکمال(۱)فی بیان الاشکال وحلہ بفضل الملک المفضال٭ کان فی متن الھدایۃ لاتجوز بماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء کماء الباقلاء والمرق وماء الزردج ۱؎ فقال فی الھدایۃ المراد بماء الباقلاء وغیرہ ماتغیر بالطبخ فان تغیر بدون الطبخ یجوز التوضی بہ ثم قال مستثنیا عما تغیر بالطبخ الا اذا طبخ فیہ مایقصد بہ المبالغۃ فی النظافۃ کالاشنان الا ان یغلب علی الماء فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ ۲؎ اھ


اشکال اور اس کے حل کا بیان اللہ تعالٰی کے فضل سے، ہدایہ کے متن میں ہے کہ ایسے پانی سے وضو جائز نہیں جس پر غیر کا غلبہ ہوا ہو اور پانی کو اپنی طبع سے خارج کردیا ہو، جیسا کہ شوربا، زردج اور باقلاء کا پانی، اس پر ہدایہ میں کہا کہ ماء الباقلا وغیرہ سے مراد، پکانے سے متغیر ہونے والا پانی ہے اور اگر پکائے بغیر پانی متغیر ہوجائے تو اس سے وضو جائز ہے، پھر انہوں نے پکانے کی وجہ سے متغیر ہونے والے پانی میں سے استثناء کرتے ہوئے فرمایا، مگر وہ پانی جس میں ایسی چیز پکائی گئی ہو جس سے صفائی میں مبالغہ مقصود ہو جیسے اشنان، اِلّا یہ کہ اس پر اشنان غالب ہو کر مخلوط ستّو کی طرح بنادے (یعنی گاڑھا کردے) تو وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس کا نام پانی نہیں رہتا اھ (ت)


 (۱؎ الہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    عربیہ کراچی    ۱/۱۸)

(۲؎الہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


اقول: وفیہ عندی اشکال قوی وذلک لان المراد بالتغیر بالطبخ اماتغیر الطبع اوتغیر الاوصاف لاسبیل الی الثانی۔


میں کہتا ہوں، میرے نزدیک ہدایہ کی عبارت میں قوی اشکال ہے، اس لئے کہ تغیر بالطبخ سے کیا مراد ہے تغیر الطبع ہے یا تغیر الاوصاف، دوسرا یعنی تغیر الاوصاف مراد نہیں ہوسکتا۔


اوّلاً لان کلام المتن فی زوال الطبع وھو مانع مطلقا بالاجماع ففیم التقیید بالمطبوخ وھذا ماقدمتہ فی ۸۹۔


اوّلاً اس لئے کہ مصنّف،پانی کی طبع کے زوال کے بارے میں کلام فرما رہے ہیں اور زوالِ طبع ہر طرح وضو سے مانع ہے اس پر اجماع ہے لہٰذا اس صورت میں پانی کے پکانے کی قید بے معنی ہے اور یہ بات میں پہلے ۸۹ میں کہہ چکا ہوں۔


وثانیاً کیف یراد بخروجہ عن طبعہ تغیر وصفہ بالطبخ۔ ثانیاً اس لئے کہ ''خروج عن طبع'' سے ''تغیرفی الاوصاف بالطبخ'' کیسے مراد لیا جاسکتا ہے؟


وثالثاً فرق بین بین طبخ المتغیر والتغیر بالطبخ والمتحقق فی ماء الباقلاء والحمص والزردج وامثالھا ھو الاول لان مجرد خلط بعضھا بالماء ومکث بعضھا فیہ مغیرلوصفہ والخلط والمکث متقدمان علی حصول الطبخ وھوالانضاج کماھومعلوم مشھود فلم یحصل التغیربالطبخ بل ورد الطبخ علی المتغیر وشتان ماھماوکذالاسبیل الی الاول اولاً یکون المعنی فان زال طبعہ بدون الطبخ یجوز التوضی بہ وھو بدیھی البطلان وثانیاً یبطل استثناء المنظف من المطبوخ فان زوال الطبع لاثنیا فیہ وثالثاً یتناقض الحکم والثنیافان قولہ الا اذاطبخ فیہ مایقصدبہ دل علی جواز التوضی بمازال طبعہ بطبخہ مع المنظف وھذا ھو الذی ابطلہ بالثنیاالاخیرۃ الا ان یغلب الخ فعلی کل من الوجھین ثلثۃ وجوہ من الاشکال ولم ارمن تعرض لشیئ من ھذا اوحام حولہ فضلاعمن رام حلہ وقد تبعہ(۱) علی الوجہ الاول فی الدرایۃ والشلبیۃ والکفایۃ والبنایۃ والدر فقال الاولان عنی بالتغیر الثخانۃ (الی قولھما ۱؎) ھذا اذا لم یکن المقصودبالطبخ المبالغۃ فی التنظیف فان کان کالاشنان والصابون یجوز الا ان یصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ ونحوہ فی التالیین ،


اور ثالثاً،اس لئے کہ ''متغیر کو پکانے'' اور ''پکانے سے تغیر'' میں بڑا فرق ہے، اور یہاں باقلٰی،چنوں، زردج وغیرہا کے پانی میں پہلی یعنی ''متغیر کا پکانا'' صورت پائی جاتی ہے کیونکہ ان میں سے بعض کے ملنے اور بعض کے پانی میں کچھ دیر پڑے رہنے سے ہی پانی متغیر ہوجاتا ہے اور اس کو پکانے  کا مرحلہ بعد میں ہوتا ہے جس کو تیاری کا مرحلہ کہتے ہیں یہ بات مشاہدہ سے معلوم ہے پس یہاں طبخ سے تغیر نہ ہوا بلکہ متغیر شدہ چیز پر طبخ واقع ہوا ہے، اور ان دونوں میں فرق واضح ہے اسی طرح پہلی شق (یعنی تغیر الطبع، مراد نہیں ہوسکتی) اوّلاً اس لئے کہ اس صورت میں معنی یوں ہوگا کہ اگر پکائے بغیر پانی کی طبع زائل ہوجائے تو وضو جائز ہے، حالانکہ یہ بدیہی طور پر غلط ہے(کیونکہ زوال طبع کے بعد کسی صورت میں وضو جائز نہیں ہے)اور ثانیاً، اس لئے کہ صفائی کی خاطر پکائی ہوئی چیز کا استثناء، اس صورت میں درست نہ ہوگا کیونکہ زوال طبع بلااستثناء جس چیز سے بھی ہو تو وضو جائز نہیں ہے، اور ثالثا اس لئے کہ اس صورت میں حکم اور استثناء دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہونگے کیونکہ ہدایہ میں پہلے متغیر بالطبخ کے ساتھ وضو کو ناجائز قرار دے کر اس سے نظافت کے مقصد کیلئے پانی میں پکائی ہوئی چیز کو مستثنٰی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نظافت کی خاطر پانی میں پکائی ہوئی چیز جس سے پانی کی طبع ختم ہوچکی ہو، سے وضو جائز ہو حالانکہ یہی وہ صورت ہے جس کو دوبارہ استثناء سے باطل کیا ہے اور یوں کہا الا ان یغلب الخ (یعنی نظافت کی خاطر پانی میں پکائی ہوئی چیز سے وضو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ نظافت والی چیز پانی پر غالب نہ ہو یعنی اس چیز نے پانی کی طبع کو زائل نہ کیا ہو) پس ہدایہ کی عبارت میں دونوں احتمال تین تین وجوہ سے اشکال کے حامل ہیں، میری نظر میں ان اشکال میں سے کسی ایک کو بیان کرنے یا ان کے قریب پھٹکنے والا کوئی نہیں چہ جائیکہ وہ ان کا حل پیش کرے، ہدایہ کی عبارت، تغیر بالطبخ کے دو احتمالوں میں سے پہلے احتمال کو درایہ، شلبیہ، کفایہ، بنایہ، اور دُر میں ذکر کیا گیا ہے، پہلی دونوں کتب یعنی درایہ اور شلبیہ نے کہا کہ ہدایہ نے تغیر سے گاڑھا پن مراد لیا ہے اور اس کو آخر تک یوں بیان کیا،یہ اس صورت میں ہے جب پکانے  میں نظافت کا مبالغہ مقصود نہ ہو اور اگر یہ مقصد ہو تو پھر وضو جائز ہے جیسے اشنان اور صابون وغیرہ سے، بشرطیکہ اس صورت میں اشنان وصابون کی وجہ سے پانی مخلوط ستّوؤں کی طرح نہ بن جائے کیونکہ ایسا ہوجانے پراس کوپانی نہیں کہا جاتا اھ،اور اسی طرح کا بیان دوسری دونوں کتب یعنی کفایہ اور بنایہ میں ہے،


 (۱؎ شلبیہ علی التبیین    کتاب الطہارۃ    الاسلامیہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)

(۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ    مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)

وقال الدر لایجوز بماء زال طبعہ وھو السیلان بطبخ الا بما قصد بہ التنظیف فیجوز ان بقی رقتہ ۲؎ اھ اوردُرنے یوں کہا ایسے پانی سے وضو ناجائز ہے پکانے سے جس کی طبع زائل ہوچکی ہو اور وہ طبع، پانی کا سیلان ہے، مگر جب پانی میں پکانے سے مقصد صفائی مقصود ہو تو وضو جائز ہوگا بشرطیکہ پانی کی رقت باقی ہو اھ


 (۲؎ درمختار    باب المیاہ            مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)


والعجب(۱) اَنْ لم یتنبہ لہ الشراح السادۃ حتی(۲)ط الاٰخذ علی المراقی بمایأت وقد(۳) اغتربہ الفاضل عبدالحلیم اذقال لااختلاف فی عدم جواز التوضی بماء زال طبعہ بالطبخ بخلاف مازال طبعہ بالخلط من غیرطبخ ۳؎ اھ


اور تعجب ہے کہ سید شارح حضرات بھی اس اشکال کی طرف متوجہ نہ ہوئے حتی کہ طحطاوی بھی جنہوں نے مراقی الفلاح پر گرفت کی جو آئندہ آئے گی، اور یہاں فاضل عبدالحلیم کو غلط فہمی ہوئی جہاں انہوں نے کہاکہ پکانے  کی وجہ سے جس پانی کی طبع زائل ہوجائے تو اس سے وضو کے ناجائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے برخلاف جبکہ بغیر پکائے کسی چیز کے خلط سے پانی کی طبع زائل ہوجائے تو وضو جائز ہے اھ


 (۳؎ حاشیۃ الدرر للمولی عبدالحلیم کتاب الطہارۃ    عثمانیہ بیروت        ۱/۱۸)

(و خلاصۃ الفتاوٰی     ماء المقید        نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


ویا سبحٰن اللّٰہ من ذا الذی اجاز الوضوء بماء زال طبعہ ھذالایساعدہ عقل ولانقل وقدمرفی رابع ابحاث زوال الطبع انہ لایجوز بالاجماع بلا خلاف ۴؎ اھ


یا سبحان اللہ وہ کون ہے جو زوالِ طبع کے بعد بھی پانی سے وضو کو جائز قرار دیتا ہو،یہ ایسی بات ہے جو عقل ونقل کے مخالف ہے،اور زوالِ طبع کی چوتھی بحث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ زوالِ طبع کے بعد وضو جائز نہیں ہے بلااختلاف یہ بات سب کو مسلّم ہے اھ (ت)


(۴؎ بدائع الصنائع     ماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)


وانا اقول(۱) وباللّٰہ التوفیق وجھد المقل دموعہ یبتنی کشف الغمۃ بعونہ تعالٰی علی تقدیم مقدمات فاعلم۔


میں کہتا ہوں اللہ تعالٰی سے ہی توفیق،اور اس اشکال کی پریشانی کو کم کرنے والی کوشش ہے۔اس اشکال کے حل کی بنیاد چند مقامات پر ہے۔


اوّلاً ان قول المتن ماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء لابدفیہ من التجوزوذلک لانہ جعلہ خارجا عن طبع الماء ثم سماہ ماء وماء خرج عن طبعہ حقیقۃ لایبقی ماء لماتقدم ان الطبع لازم الذات فتنتفی بانتفائہ وقد افادالمحقق علی الاطلاق فی الفتح ان ماسلب رقتہ لیس ماء اصلاکمایشیرالیہ قول المصنف فی المختلط بالاشنان فیصیرکالسویق لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ فلابدمن التجوزامافی الماء سماہ ماء باعتبارماکان وامافی الخروج سمی قرب الخروج خروجاوالثانی اکثر(۲) واقرب لان الاٰتی قریبا احق بالاعتبار من الفائت الساقط وایضاً موضوع الباب الماء الذی یجوز بہ الوضوومالاوایضا ھو اکثر فائدۃ لان الاعلام بماء لایجوز الوضوء بہ اھم من منع الوضوء بمالیس بماء۔


اوّلاً یہ سمجھو کہ ہدایہ کے متن میں یہ قول ''ماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء'' جس پانی میں کوئی چیز مل کر اس پر غالب ہوکر اسے طبع سے خارج کردے،اس قول میں مجاز لازمی ہے کیونکہ یہاں پانی کی طبع ختم ہوجانے کے باوجود اس کو پانی کہاگیا ہے حالانکہ پانی کی طبیعت ختم ہوجانے کے بعد وہ پانی نہیں رہتا ہے اس لئے کہ وہ بات پہلے کہی جاچکی ہے کہ طبع پانی کی ذات کو لازم ہے تو لازم کے ختم ہونے پر ذات کا خاتمہ ضروری ہے محقق مطلق نے فتح القدیر میں یہ واضح کیاہے کہ جب رقّت ختم ہوجائے تو وہ پانی نہیں رہتا،جیسا کہ مصنف نے کہا ستوؤں کی طرح گاڑھا ہونے والے اس پانی کو جس میں اشنان ملا ہو،کے بارے میں کہاکہ اس کا نام پانی نہیں ہوگااھ،لہٰذا یہاں مجاز ماننا ضروری ہے یہ مجاز لفظ ماء(پانی) میں ہوگا کہ قبل ازیں وہ پانی تھا(اس لئے مجازاً،زوالِ طبع کے بعد اسے پانی کہاگیا ہے)یا یہ مجاز لفظِ ''خروج'' میں ماننا ہوگاکہ موجودہ پانی سے عنقریب اس کی طبع خارج ہونے والی ہے (اس لئے طبع سے اس کو خارج قرار دیا،پہلی صورت میں ماکان اور دوسری میں مایکون کے اعتبار سے مجاز ہے)جبکہ مجاز کی دوسری (مایکون والی) قسم کا استعمال زیادہ ہے اور یہ اقرب الی الفہم بھی ہے کیونکہ عنقریب پائے جانی والی چیز اس چیز سے زیادہ معتبر ہے جو پائے جانے کی بعد ختم ہوچکی ہے نیز مجاز کی دوسری قسم کا یہاں اعتبار اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں اس پانی کی بحث ہے جس سے وضو جائز یا ناجائز ہے (یعنی پانی کا وجود ہونا ضروری ہے)نیزاس لئے بھی کہ دوسری قسم کے مجاز میں یہاں زیادہ فائدہ ہے یہ اس لئے کہ پانی موجودہونے پر یہ بتاناکہ اس سے وضو جائز نہیں، زیادہ مفید ہے اس قول کے مقابلہ میں کہ یوں کہا جائے جو پانی نہیں اس سے وضو منع ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)


وثانیاً السبب ھھنا کمال الامتزاج کمانص علیہ فی الکافی والکفایۃ والبنایۃ وغیرھا وسیأتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی وکمال الامتزاج اثرہ فی الشیئ المخالط بغیر طبخ اخراج الماء عن الرقۃ بالفعل وفی المخالط طبخا جعلہ متھیأ للخروج بالقوۃ القریبۃ وذلک لان المخالط یریداثخانۃ والنار تلطفہ وترققہ فلایظھر اثرہ کما ھوالا اذا زال المعارض وبرد کما تقدم التنصیص علیہ عن الکتب الکثیرہ فی ۲۱۷۔


ثانیاً اس پانی سے طبع کے زائل وخارج ہونے کا سبب یہ ہے کہ پانی میں کوئی چیز مکمل طور پر مخلوط ہوجائے جیسا کہ اس کو کافی، کفایہ، بنایہ وغیرہا نے واضح طور پر بیان کیا ہے اور عنقریب اس کا ذکر آئےگا اِن شاء اللہ تعالٰی، جبکہ کمالِ امتزاج (مکمل ملاوٹ) اگر بغیر پکائے ہو تو اس کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ پانی کی رقت ختم ہوجاتی ہے (یعنی بالفعل ختم ہوجاتی ہے) اگریہ کمال امتزاج پکانے  کی وجہ سے ہو تو پھر اس کا اثر یہ ہوتا ہے پانی کی رقت عنقریب ختم ہونی والی ہوتی ہے(یعنی بالفعل ختم نہیں ہوتی) کیونکہ ملاوٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ پانی گاڑھا ہوجائے اور آگ کی حرارت اس کو پتلا رکھتی ہے جس کی وجہ سے کمال امتزاج کا اثر فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا، لیکن جب رکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور یہ مخلوط ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو وہ گاڑھا ہوجاتا ہے جیسا کہ ۲۱۷ میں متعدد کتب کی تصریحات گزر چکی ہیں۔ (ت)


وثالثاً مجرد کمال الامتزاج مع عدم الثخن بالفعل غیر مانع فی المنظف لسریأتیک بیانہ بعونہ جل شانہ وقد قال فی الکافی ومن معھا فی الامتزاج بالطبخ انما یمنع الوضوء ان لم یکن مقصود اللغرض المطلوب من الوضوء وھو التنظیف کالاشنان والصابون الا اذاغلب فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ


ثالثا، محض کمالِ امتزاج جبکہ منظف میں بالفعل گاڑھا پن نہ ہو ............ وضو کیلئے مانع نہیں ہے اس کی وجہ (راز) کا ان شاء اللہ وبعونہ عنقریب بیان ہوگا،جبکہ کافی میں کہا کہ پانی میں کسی چیز کو پکانے سے کمالِ امتزاج، وضو سے مانع تب ہوگا جب کہ یہ امتزاج نظافت کیلئے جو کہ وضو کی غرضِ مطلوب ہے، نہ ہو، جیسا کہ اشنان وصابون، جب تک ان کا ایسا غلبہ نہ ہوجائے جو پانی کو ستووں کی طرح گاڑھا کردے تو اس صورت میں وضو جائز نہیں کیونکہ اتنا گاڑھا ہونے  پر اس کا نام پانی نہیں رہتا اھ


 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۳)


اذاعلمت ھذا فالشیخ الامام رحمہ اللّٰہ تعالٰی ورحمنا بہ حمل المتن علی المجاز الثانی لماتقدم من ترجیحاتہ وایاہ ارادبالتغیر وقد انحلت الاشکالات جمیعا فان حکم المتن علی مایتھیؤ لزوال الطبع مع بقائہ بعد علیہ بعدم جواز التوضی بہ لابدمن تقییدہ بالمطبوخ لانہ فی غیرہ لایدل علی سبب المنع وھو کمال الامتزاج بل یدل علی عدمہ اذلو کمل لثخن بخلاف المطبوخ فانہ فیہ دلیل علیہ کماعلمت غیر انہ لایمنع فی المنظف الا اذاحصل الثخن بالفعل فاستقام الاستثناءان و للّٰہ الحمد،


جب یہ تین مقدمات آپ کو معلوم ہوگئے تو شیخ (صاحب ہدایہ) نے متن میں مذکور تغیر کو مجاز کی مذکور قسم ثانی قرار دیا اُن ترجیحات کی بنا پر جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔اس سے تمام اشکالات ختم ہوگئے کیونکہ متن کا حکم اس پانی کے بارے میں ہے جو ابھی تک پانی ہے اگرچہ کچھ دیر بعد وہ اپنی طبیعت کھو بیٹھے گا،اس پانی کے بارے میں کہا کہ اس سےوضو جائز نہیں ہےتو اس صورت میں اس پانی کےتغیر (زوالِ رقت وطبع) کو طبخ (پکانے ) سےمقید کرنا ضروری ہے کیونکہ پکائے بغیر دوسری کسی صورت میں وضو سے مانع سبب (کمال امتزاج) پر دلیل نہیں پائی جاتی،بلکہ وہاں عدمِ سبب پر دلیل پائی جاتی ہے،کیونکہ اگر وہ سبب (کمال امتزاج) پایا جاتا تو پانی مکمل طو رپر گاڑھا ہوتا، پکانے  کی صورت اس کے خلاف ہے جیسا کہ مذکور ہوا(اس کی وجہ یہ مذکور ہوئی کہ ٹھنڈا ہونے کی صورت میں کمال امتزاج سے گاڑھا پن فوراً پیدا ہوجاتاہے جبکہ پکانے  کی صورت میں حرارت گاڑھے پن سے مانع ہوتی ہے) ہاں پکانے  کی صورت میں گاڑھے پن کے بغیر کمال امتزاج وضو کیلئے اس وقت مانع نہ ہوگا جب پانی میں نظافت کی غرض سے کوئی چیز پکائی گئی ہو بشرطیکہ اس سے بالفعل گاڑھا پن پیدا نہ ہو، پس اب ہدایہ کی عبارت میں دونوں استثناء درست ہوگئے۔

وبہ اندفع ماردبہ السید ابو السعود ثم السید ط علی العلامۃ الشرنبلالی اذقال فی مراقی الفلاح لایجوز بماء زال طبعہ بالطبخ بنحو حمص وعدس لانہ اذابردثخن کما اذا طبخ بما یقصد بہ النظافۃ کالسدر وصار ثخینا ۱؎ اھ،


اس جواب کی تقریر سے سید ابو سعود اور سید طحطاوی کا علامہ شرنبلالی پر اعتراض بھی ختم ہوگیا جو انہوں نے علامہ کی اس عبارت پر کیا جو علامہ نے مراقی الفلاح میں یوں کہی ہے ''چنے اور مسور جیسی چیزوں کو پانی میں پکانے سے جب پانی کی طبع زائل ہوجائے کہ ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں ہے جس طرح نظافت کے مقصد سے پانی میں پکائی ہوئی چیز (جیسی بیری کے پتّے وغیرہ) جو کہ پکنے میں گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں ہے اھ،


 (۱؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارت    الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۶)


فقالا ھذا من المصنف لیس علی ماینبغی فانہ متی طبخ بمالایقصد بہ النظافۃ لایرفع الحدث وان بقی رقیقا سائلا لکمال الامتزاج بخلاف مایقصد بہ النظافۃ فانہ لایمتنع بہ رفعہ الااذاخرج عنہ رقتہ وسیلانہ فالفرق بینھما ثابت وتسویۃ المصنف بینہما ممنوعۃ ۲؎ اھ۔


اس پر دونوں حضرات نے یہ اعتراض کیا کہ مصنف (علامہ شرنبلالی) کا یہ کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایسی چیز پانی میں پکائی جائے جس سے نظافت مقصود نہ ہو تو اس سے طہارت جائز نہیں،اگرچہ اس میں رقت وسیلان باقی ہو اس لئے کہ یہاں کمالِ امتزاج پایا جاتا ہے۔ لیکن جس چیز سے نظافت مقصود ہو تو وہاں جب تک رقت وسیلان ختم نہیں ہوتا اس وقت تک اس سے طہارت جائز ہے یہ فرق واضح ہے اور مصنّف (شرنبلالی) کا دونوں صورتوں کو برابر قرار دینا درست نہیں ہے اھ (ت)


 (۲؎ حاشیۃ طحطاوی         کتاب الطہارت    الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۶)


اقول اولا(۱) متی سوی وقد قال فی المنظف وصار ثخینا فاعتبر الثخونۃ بالفعل وقال فی غیرہ اذا برد ثخن فاعتبر التھیؤ للثخن


میں کہتا ہوں اولاً کہ علامہ شرنبلالی نے کب دونوں صورتوں کو برابر قرار دیا ہے؟ حالانکہ انہوں نے نظافت والی چیز کے بارے میں کہا کہ گاڑھا پن پایا جائے تو انہوں نے یہاں گاڑھے پن کا بالفعل پایا جانا معتبر قرار دیا اور غیر منظف میں انہوں نے کہا جب ٹھنڈا ہو کر گاڑھا ہو تو یہاں انہوں نے بالفعل گاڑھے ہونے کا اعتبار نہیں کیا بلکہ اس کے قابل ہونے کا اعتبار کیا ہے۔ (ت)


وثانیاقولھما(۱) وان بقی رقیقاان اراد بہ ماعلیہ المطبوخ قبل ان یبرد فلم ینکرہ المصنف بل قد نص علیہ اذاعتبرہ رقیقابعد ومنع الوضوء بہ وان اراد بہ مایبقی رقیقا بعدمایبرد ایضا فمنع الوضوء بہ ممنوع وکمال الامتزاج مدفوع اذلوکمل لثخن ولوبعد حین۔


اور ثانیا ان دونوں کا یہ قول، کہ غیر منظف سے وضو جائز نہیں اگرچہ اس کی رقت باقی ہو، تو اس رقّت کی بقا سے مراد اگر ٹھنڈا ہونے سے قبل ایسا ہو، تو مصنف نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس رقت پر یہ کہہ کر نص کردی کہ ٹھنڈا ہونے سے قبل رقیق ہو اور ٹھنڈا ہونے کے بعد گاڑھا ہو، کیونکہ انہوں نے ٹھنڈا ہونے کے بعد رقیق کا اعتبار کیا ہے اور یہ کہ اس سے انہوں نے وضو کو ناجائز کہا اور اگر ان کی مراد یہ ہو کہ ٹھنڈا ہونےکے بعد بھی رقیق رہے تو پھر ان دونوں حضرات کا اس سے وضو کو منع کرنا درست نہیں ہے اور یہا ں کمالِ امتزاج ماننا درست نہیں ہے کیونکہ اگر اس وقت کمال امتزاج ہوتا تو پھر کچھ دیر بعد گاڑھا ہوجاتا۔ (ت)


وثالثالئن(۲)سلم فالمنقول عن امامی المذھب ابویوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی ھو التسویۃ بین المنظف وغیرہ علی الروایۃ المشھورۃ عن ابی یوسف وعلی کلتاالروایتین عن محمد تذکر مااسلفنا فی ۱۰۷ عن الحلیۃ عن التتمۃ والذخیرۃ ان ابایوسف یعتبر فی المنظف سلب الرقۃ روایۃ واحدۃ واختلف الروایۃ عنہ فی غیرہ ففی بعضھا اعتبر سلب الرقۃ ای وھی المشھورۃ عنہ وفی بعضھا لم یشترطہ ای واکتفی بتغیر الاوصاف وھی الروایۃ الضعیفۃ المرجوحۃ وان محمدا اعتبر الغلبۃ باللون ای وھی الروایۃ المشھورۃ عنہ وفی بعضھا سلب الرقۃ وکلتاھمامطلقۃ عن التفصیل بین المنظّف وغیرہ فای عتب علی من سوی بینھما تبعا لامامی مذھبہ وھماالمراٰن یقتدی بھما بعد الامام الاعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم اجمعین واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اور ثالثااور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ علامہ شرنبلالی نے منظّف اور غیر منظف پکنے والے دونوں کو برابر ومساوی قرار دیا ہے تو بھی یہ درست ہے کیونکہ امام ابویوسف اور امام محمد دونوں اماموں کے ہاں منظف اور غیر منظف دونوں برابر ہیں، جیسا کہ امام ابویوسف سے مشہور اور امام محمد سے مشہور اور غیر مشہور دونوں طرح منقول ہے نمبر ۱۰۷ میں حلیہ، تتمہ اور ذخیرہ کے حوالے سے ہم نے جو بیان کیاتھا اس کو یاد کرو، وہ یہ کہ امام ابویوسف منظّف میں رقّت ختم ہونے کا اعتبار کرتے ہیں ان سے یہ ایک ہی روایت ہے جبکہ غیر منظّف کے بارے میں ان سے مروی روایات مختلف ہیں، بعض روایات میں وہ یہاں رقّت کے خاتمہ کا اعتبار کرتے ہیں یہی روایت مشہور ہے۔ اور بعض روایات میں یہ ہے کہ وہ یہ شرط نہیں لگاتے اور صرف اوصاف کی تبدیلی کااعتبار کرتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے اور امام محمد دونوں صورتوں میں غلبہ کیلئے رنگ کی تبدیلی کا اعتبار کرتے ہیں،ان سے یہی مشہور روایت ہے۔اور بعض روایات میں وہ غلبہ میں رقت کے خاتمہ کا اعتبار کرتے ہیں اور انہوں نے منظف وغیر منظف کے فرق کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا، لہذا،اگر بقول دونوں معترضین حضرات، علّامہ شرنبلالی،دونوں صورتوں کو امام ابویوسف اور امام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کی اتباع میں مساوی قرار دیں تو کیاقباحت ہے جبکہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے بعدیہ دونوں امام ہی قابلِ اتباع ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)


بالجملہ قول مشہور ومسلک جمہوریہی ہے کہ طبخ میں وجہ منع زوال رقت ہے یہی ہے وہ کہ ہم نے ۲۱۷ میں تحقیق کیا والاٰن اقول(اور اب میں کہتا ہوں۔ت) وباللّٰہ التوفیق(۱)(اور اللہ کی توفیق سے۔ ت) اوپر معلوم ہوا کہ یہاں چار چیزیں ہیں:(۱) اجزا ء (۲) اوصاف (۳) طبیعت (۴) اسم۔ اور اعتبار اجزاء تین وجہ پر ہے: مقدار، طبیعت، اسم۔ طبخ میں علتِ منع کثرتِ اجزا لینا تو محتمل نہیں کہ یہ کثرت ہوگی تو ابتدا سے نہ کہ بوجہ طبخ۔ یوں ہی تغیر لون وطعم وریح۔

 اولاً غالباً قبل حصول طبخ ونضج ہوجائے گا تو اُسے بھی تغیر بالطبخ میں نہیں لے سکتے اور بعض جگہ کہ بعد تمامی طبخ ہو اسے علت قرار دینے پر عام مطبوخات تغیر بالطبخ سے نکل جائیں گے کہ ان میں تغیر وصف طبخ سے نہ ہوا۔ 

 ثانیاً اس سب سے قطع نظر ہو تو اعتبار اوصاف مذہب صحیح معتمد کے خلاف ہے خود خانیہ میں اس کے خلاف کی تصحیح فرمائی،کماتقدم مشروحافی ۱۰۱و۱۲۲فھٰذاردجدید(۲)علی مافی البحروالنھر(۳)مستندین الٰی عبارۃ الخانیۃ الحکم علی وجود ریح الباقلاء وجامع(۴) الرموز المعتبر تغیر اللون (جیسا کہ واضح طور پر پہلے ۱۰۱ اور ۱۲۲ میں گزرا۔ پس یہ بحر اور نہر کے اُس بیان کی نئی تردید ہے جو خانیہ کی عبارت کی طرف منسوب ہے جس میں حکم کی بنیاد باقلیٰ کی بُو پر ہے نیز یہ جامع الرموز کی تردید ہے جس نے رنگ کی تبدیلی کا اعتبار کیا ہے۔ (ت)


ثم اعتبار الریح(۵)فیہ نظر فان محمدا الناظر الی الاوصاف لم یعتبرھا فی المشھور عنہ انما اعتبر اللون ثم الطعم ثم الاجزاء کما سیأتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی ولو(۱) سلم فلم القصر علیھا۔


پھر تغیراوصاف میں بُو کا اعتبار محل نظر ہے کیونکہ خود امام محمد جنہوں نے اوصاف کا لحاظ کیا ہے بُو کا اعتبار نہیں کرتے ان سے مشہور روایت یہی ہے کہ وہ صرف رنگ اور پھر ذائقہ اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آئےگا، اور اگر بُو کے اعتبار کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی صرف اسی کا اعتبار کیوں۔ (ت)


    باقی رہے دو طبیعت واسم۔ اعتبار طبیعت تو وہی قول مذکور جمہور ہے اور امام زیلعی واتقانی نے اعتبارا سم ذکر فرمایا۔


ففی التبیین ماتغیر بالطبخ لایجوز الوضوء بہ لزوال اسم الماء عنہ وھو المعتبر فی الباب ۱؎ اھ تبیین میں ہے پکانے سے جو تغیر پانی میں پیدا ہوا اس سے وضو جائز نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں پانی کا نام ختم 

ہوجاتا ہے اور پانی کی تبدیلی میں اس کے نام کی تبدیلی ہی معتبر ہے اھ


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ        الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)


ولما قال فی الھدایۃ ان تغیر بالطبخ لایجوز لانہ لم یبق فی معنی المنزل من السماء اذا النار غیرتہ ۲؎ اھ عللہ فی غایۃ البیان(عـہ) بزوال الاسم۔ اور یوں ہی ہدایہ کے قول کی بنیاد پر جس میں ہے کہ اگر پکانے  کی وجہ سے پانی میں تغیر پیدا ہوا تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ اب وہ آسمانی پانی کی کیفیت پر نہیں رہابلکہ آگ نے اس کو متغیر کردیا ہے اھ غایۃ البیان میں وضو جائز نہ ہونے کی علت زوالِ اسم کو قرار دیا ہے۔ (ت)


 (۲؎ الہدایۃ        باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ    مطبع عربیہ ببولاق مصر    ۱/۱۸)


 (عـہ) بل فی نفس الھدایۃ وایضاالکافی فیماطبخ المنظّف فغلب علیہ لزوال اسم الماء عنہ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

بلکہ خود ہدایہ اور کافی میں بھی ہے کہ وہ پانی جس میں ایسی چیز جو نظافت کیلئے مفید ہو، کو پکایا اور وہ چیز غالب ہوجائے تو پانی کا نام تبدیل ہوجائےگا ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)

ایک: معہود کہ پانی قدر مناسب یا اس سے کم ہو یہ بعد طبخ طبع واسم دونوں میں متغیر ہوجائےگا۔


دوم: اس درجہ کثیرو وافر ہوکہ شے مخلوط اس میں عمل نہ کرسکے اس سے نہ طبع بدلے گی نہ اسم کہ بوجہ افراط صالح مقصود آخر نہ ہوگا۔


سوم: زائد ہو مگر نہ اُس درجہ مفرط اس میں محتمل کہ زوالِ طبع نہ ہو اور نام بدل جائے مثلاً کہا جائے شوربا کس قدر زائد کردیا ہے بخلاف اس صورت کے کہ مثلاً دیگچہ(۱) بھر پانی میں چھٹانک بھر گوشت پکائیں اسے کوئی شوربا نہ کہے گا جمہور نے بلحاظ معہودزوال طبع پر اقتصار فرمایا اور ان بعض نے شمول غیر معہود کیلئے بلفظ تغیر تعبیر فرمایا جس سے تغیر اسم مقصود ہے نہ تغیر وصف کہ طبخ پر موقوف نہیں وقد اشرنا الی ھذا فی ۲۱۷ عند التوفیق بین قولھم اذابرد ثخن وقول الغنیۃ غالبا واللّٰہ تعالٰی اعلم  (ہم ۲۱۷ میں اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جہاں پر ان کے قول ''اذابرد ثخن'' اور غنیہ کےقول ''غالباً'' میں توفیق بیان کی، واللہ تعالٰی اعلم۔ ت)


اقول: وبہ ظھر الفرق بین المنظف وغیرہ فانہ اذا زال الاسم حصل المنع ولایزول الاسم فی المنظف الابزوال الطبع بالفعل لانہ لایقصد بہ الامایقصد من الماء وھو التنظیف فھذا غایۃ التحقیق واللّٰہ سبحٰنہ ولی التوفیق۔


میں کہتا ہوں اسی سے منظّف (یعنی نظافت والی چیز کو پکانے ) اور غیر منظّف کا فرق واضح ہوا، کیونکہ پانی کانام بدل جانے پر وضو منع ہوجاتا ہے جبکہ منظّف میں نام کی تبدیلی اسی صورت میں ہوتی ہے جب بالفعل پانی کی طبع ختم ہوجائے،کیونکہ خالص پانی اور منظّف دونوں کا مقصد نظافت کا حصول ہے، یہ کامل تحقیق ہے اللہ تعالٰی ہی توفیق کامالک ہے (ت)


بالجملہ حاصل تنقید وتنقیح یہ ہے کہ اگر کلام(۲) طبخ معہودسے خاص ہو تو مدار زوال طبع پر ہے اور یہی ہے وہ جسے عامہ کتب معتمدہ نے اختیار کیا اور اس وقت منظّف میں فرق یہ ہوگا کہ غیر منظف میں زوال بالقوۃ کافی ہے یعنی ٹھنڈی ہونے پر جرم دار ہوجائے اور منظف مثل صابون واُشنان میں زوال بالفعل درکار اور اگر معہودو غیر معہود سب کو شامل کریں تو مدار زوال اسم پر ہے خواہ صرف زوال طبع کے ضمن میں پایا جائے جبکہ پانی مقصود نہ ہو یا صرف چیز دیگر مقصد دیگر کیلئے ہوجانے کے ضمن میں جیسے طبخ غیر معہود میں جبکہ زیادت مفرطہ نہ ہو خواہ دونوں کے ضمن میں جہاں طبخ معہود اور پانی مقصود اس وقت بجائے زوال طبع تغیر کہیں گے امام دقیق النظر حافظ الدین نسفی نے وافی وکنز میں یہی مسلک لیا اور نقایہ واصلاح وتبیین وغایۃ البیان نے ان کا اتباع کیا اب منظف وغیر منظف میں فرق یہ ہوگا کہ غیر منظف میں کبھی باوصف بقائے رقت زوال اسم ہوجاتا ہے بخلاف منظف۔ اس کی نظیریں غیر مطبوخ میں کثیر ہیں جیسے نبیذ وصبغ ومداد وغیرہا مسائل کثیرہ۔ یہ ہے وہ جس سے بتوفیقہ تعالٰی تمام کلمات ائمہ ملتئم ہوگئے وللّٰہ الحمد علی الدوام٭ وعلی نبیہ وذویہ الصلاۃ والسلام۔ یہاں تک نوبحثیں ہوئیں، ایک اور اضافہ کریں کہ تلک عشرۃ کاملۃ ہوں۔

بحث دہم ارشادات متون پر نظر اقول ہم فصل دوم میں ثابت کر آئے کہ مائے طاھر غیر مستعمل کے فی نفسہ ناقابل وضو ہوجانے کے چار بلکہ تین ہی سبب ہیں:

(۱) کثرت اجزائے مخالط جس میں حکماً دوسری صورت مساوات بھی داخل۔

(۲) زوالِ رقت کہ جرم دار ہوجائے۔

(۳) زوال اسم جس سے یہاں اُس کی وہ خاص صورت مراد کہ مقصد دیگر کیلئے چیز دیگر ہوجائے۔ نیز فصل حاضر کی بحث دوم ابحاث غلبہ میں گزرا کہ غلبہ اجزاء کہ مذہب امام یوسف رحمہ اللہ تعالٰی ہے ان تینوں صورتوں پر بولا جاتا ہے بالجملہ مائے مطلق کی تعریف جو ہم نے محقق ومنقح کی اور امام ابویوسف کا مذہب کہ وہی صحیح صحیح ومعتمد ہے حرف بحرف متطابق ہیں وللہ الحمد۔


اب متون کو دیکھئے تو وہ بھی ان تین سبب سے باہر نہیں انہیں کو وجہ منع ٹھہراتے ہیں اگر سب کااستیعاب نہیں فرماتے اور یہ کچھ نئی بات نہیں متون (۱) نہ متون جن کی وضع اختصار پر ہے بلکہ شروح میں بھی جن کا کام ہی تفصیل وتکمیل ہے صدہا جگہ احاطہ صور نہیں ہوتا۔ بعض کی تصریح بعض کی تلویح کہ اشارت دلالت اقتضاءِ فحوی سے مفہوم ہوں اور کبھی بعض یکسر مطوی کمالایخفی علی من خدم کلماتھم وھذا من اعظم وجوہ العسر فی ادراک الفقہ واللّٰہ المیسر لکل عسیر ولاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (جیسا کہ یہ بات ان لوگوں پر مخفی نہیں جو مصنفین کی عبارات پر کام کرتے ہیں، فقہ کے ادراک میں یہ مشکل مرحلہ ہے، اور اللہ تعالٰی ہر مشکل کو آسان فرماتا ہے لاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔ ت)یہاں اکثرمتون نے صرف سبب دوم یعنی زوال طبع کا ذکرفرمایا قدوری وبدایہ نے عبارت میں اس کی کچھ تفصیل نہ فرمائی ہاں مثالوں سے صورت طبخ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاوقایہ وغرر ونورالایضاح نے اُسے دو سببوں کی طرف مفصل کیاطبخ وغلبہ غیراور ملتقیٰ نے تیسراسبب جزئی اور اضافہ کیاکثرت اوراق۔ پھر غلبہ غیر کو ان سب نے مطلق رکھا مگر اول نے کہ اجزا سے مقید کیا۔اقول اور اس کا ارادہ ملتقی میں چاہئے ورنہ کثرت اوراق بھی غلبہ غیر ہی ہے بہرحال کثرتِ اجزاء و زوال اسم جن میں زوال زوال طبع نہ ہو ان چھ(۲) میں مذکور نہ ہوئے ہدایہ نے شرح میں ان کا اشعار فرمایا اول کا ان لفظوں سے الخلط القلیل لامعتبربہ فیعتبر الغالب والغلبۃ بالاجزاء ۱؎  (قلیل ملاوٹ کا اعتبار نہیں صرف غالب کا اعتبار ہوتا ہے اور غلبہ میں اجزاء کا لحاظ ہوتا ہے۔ ت)


 (۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضو        مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


دوم کا اشارہ خفیہ اس عبارت سے ان تغیر بالطبخ لایجوز اذالنار غیرتہ الا اذا طبخ فیہ مایقصد بہ النظافۃ ۱؎ (اگر تغیر پکانے  کی وجہ سے ہوا تو وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ آگ سے تغیرپیدا ہوگیا ہے لیکن اگر ایسی چیز ملا کر پانی کو پکایا جائے جس سے نظافت مقصود ہو تو پھر جائز ہے۔ ت) یہ اعتبار مقصدکی طرف ایما ہے کماتقدم الاٰن تقریرہ  (جیسا کہ اس کی تقریر اب گزری ہے۔ ت)تو کلام ہدایہ جامع اسباب ثلٰثہ ہوا وافی وکنز نے دو سبب ذکر فرمائے کثرتِ اجزاء و زوال طبع۔


 (۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء        مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


اقول: وہ اعتبار طبیعت کے منافی نہیں کہ تغیر طبع قطعاً موجب زوال اسم ہے مگر یہاں ایک دقیقہ اور ہے۔

فاقول: وبہ نستعین اوپر گزرا کہ طبخ(۲) میں کبھی پانی مقصود نہیں ہوتا تو یہاں زوال اسم بے زوال طبع نہ ہوگا لعدم صیرورتہ شیئا اخر لمقصود اٰخر (کیونکہ چیز دگر مقصد دگر کیلئے نہیں ہوئی۔ ت) اور کبھی خود بھی مقصود ہوتا ہے اس میں تین صورتیں ہیں:

اقول: اوراسے کثرتِ اوراق وطبخ سے مفصل فرماکر اشارہ کیا کہ زوال طبع طبخ سے ہو خواہ بلاطبخ،اور اگر تغیر کو تغیر طبع ومقاصد دونوں کو عام لے کر کثرتِ اوراق میں صرف اول اور طبخ میں دونوں رکھیں تو بعض صور سبب سوم یعنی زوال اسم کی طرف بھی اشارہ ہوگا اصلاح نے دو سبب اخیر لیے زوال طبع واسم اقول مگر دونوں کی صرف بعض صورپر اقتصار کیا کہ اوّل کو غلبہ اجزاء اور دوم کو طبخ سے مقید کردیا، نقایہ میں اگر تغیربمعنی زوال طبع ہو تو اپنی اصل وقایہ کی طرح ہے اور بمعنی زوال اسم لیں اور یہی انسب ہے تو مثل اصلاح دو سببوں کا ذکر ہوااقول اور بہرحال سبب اول میں وقایہ واصلاح سے اصلح کہ غلبہ اجزاء سے مقید نہ فرمایا۔


اقول لکن(۱) فیہ اشکال قوی فان بالحکم الکلی والاستثناء انحصر سبب المنع فیما ذکر والعجب(۲) ان لم یتنبہ لہ الشارحان الفاضلان۔


میں کہتا ہوں لیکن اس میں اشکال ہے کیونکہ کلی حکم اور استثناء کی وجہ سے وضو سے منع کا سبب صرف اس کا ذکر کردہ ہی ہوگا، اور تعجب ہے کہ دونوں فاضل شارح حضرات کی توجہ اس طرف نہ ہوئی۔ (ت)


اقول: ویمکن الجواب عن السبب الاول بان کلامہ مشعر بکون المخالط اقل اجزاء لما قدمنا فی ثانی ابحاث زوال الطبع ان الاختلاط ینسب الی اقل الخلیطین فکانہ قال یتوضو بہ وان خالطہ ماھو اقل اجزاء منہ الا اذا اخرجہ عن رقتہ اوغیرہ اسمہ طبخالکن یبقی وارد ا قصرالثالث علی صورۃ الطبخ الا ان یقال اشار الی غیرہ دلالۃ فان الذی یغیر اسمہ بدون الاستعانۃ بالناراقوی ممالایزیلہ الا بمعالجۃ النار فکانہ قال اوغیرہ اسمہ ولوطبخاای فضلا عمایغیرہ بنفسہ وبھذا التقریر تصیر تشیرالی الاسباب الثلثۃ فتکون من احسن العبارات ھذا غایۃ ماظھرلی فی توجیھہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں، اور پہلے سبب کا جواب یوں ممکن ہے کہ اس کے کلام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پانی میں ملائی ہُوئی چیز کے اجزاء کم ہوں، جیسا کہ ہم زوالِ طبع کی ابحاث میں سے دوسری بحث میں ذکر کرچکے ہیں کہ اختلاط کو کم اجزاء والی چیز کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،گویا اب اس کا کلام یوں ہواکہ اس پانی سے وضو جائزہے اگرچہ اس میں ملنے والی چیز کے اجزاء کم ہوں،مگر جب یہ چیز پانی کی رقت کو ختم کردے یا پکنے کی صورت میں اس کے نام کو تبدیل کردے تو وضو ناجائز ہوگا لیکن اس جواب سے ایک اعتراض باقی رہا، وہ یہ کہ تیسرے سبب (نام کی تبدیلی)کو صرف پکانے  کی صورت سے مختص کردیا ہے۔ ہاں اگر یوں کہا جائے کہ دوسری صورت کی طرف دلالۃً اشارہ انہوں نے کردیا ہے کیونکہ نام کی تبدیلی جب آگ کے بغیر ہوگی تو یہ صورت زیادہ قوی ہوگی اس صورت سے جس میں صرف آگ سے ہی تبدیلی آسکتی ہے گویا یوں کہاکہ یا پانی کے نام کو تبدیل کردے خواہ پکانے  کی وجہ سے ہو چہ جائیکہ پکائے بغیر خود بخود نام کی تبدیلی والی صورت پیدا ہوجائے اس تقریر سے اس کی طہارت تینوں اسباب کی طرف اشارہ کرے گی تو اب یہ بہترین عبارت قرار پائے گی،یہ اس عبارت کی انتہائی توجیہ ہے واللہ تعالٰی اعلم (ت)


تنویرمیں اگرچہ زوال طبع کو طبخ سے مقید کیاگیامگر غلبہ غیر کو مطلق رکھاجس سے ظاہر غلبہ بکثرت اجزا ہے تو سبب اول اور بعض صور سبب دوم کاذکر ہوا اور اگر غلبہ کو بوجہ اطلاق غلبہ طبعاً واسماً واجزاءً کو عام لیا جائے تواسی قدر اسباب ثلثہ کو عام ہوجائےگا اور ذکر زوال طبع بطبخ ازقبیل تخصیص بعد تعمیم ہوگا۔


بل اقول :کانہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی لاحظ ان زائل الطبع بالطبخ لم یغلبہ المخالط نفسہ بل النار غیرتہ فیکون العطف علی ظاھرہ واذن تکون ھذہ احسن العبارات وترتقی من الضوابط الجزئیۃ الی الکلیات۔


بلکہ میں کہتا ہوں کہ انہوں نے گویا یہ لحاظ کیاکہ پکانے  کی وجہ سے طبع کا زوال پانی میں ملنے والی چیز کے غلبہ سے نہیں ہے بلکہ آگ نے اس کو متغیر کیا ہے پس یہ عطف اپنے ظاہر پر رہا۔اب یہ تمام عبارات میں احسن قرار پائی اور جزئی ضابطہ کی بجائے کلی ضابطوں میں شمار ہوگی۔ (ت)


متون کے ضوابط منع پر یہ نہایت کلام ہے وللّٰہ الحمد کما یرضاہ٭ والصلوۃ والسلام علی مصطفاہ٭ واٰلہٖ وصحبہ ومن والاہ۔

(ضابطہ ۵)اب متون ایک کلیہ دربارہ جواز افادہ فرماتے ہیں کہ اختلاط طاہرسے  پانی کے صرف وصف میں تغیر مانع وضو نہیں۔وصف سے مراد رنگ، مزہ،بو۔ عبارات اس میں تین طرح آئیں:

(۱)احد اوصافہ یعنی کسی ایک وصف میں تغیر۔ قدوری میں ہے: تجوز بماء خالطہ طاھر فغیراحداوصافہ کماء المد والماء الذی اختلط بہ الزعفران والصابون والاشنان ۱؎۔ ایسے پانی سے وضو جائز ہے جس میں کسی پاک چیز نے مل کر اس کے ایک وصف کو تبدیل کردیا ہو جیسے سیلاب کا پانی اور وہ پانی جس میں زعفران، صابون اور اُشنان ملا ہو۔ (ت)


 (۱؎ قدوری        کتاب الطہارت    مطبع مجیدی کان پور        ص۶)


بعینہٖ اسی طرح ہدایہ ووافی ومنیہ میں ہے : غیران ھذہ زادت بشرط ان یکون الغلبۃ للماء من حیث الاجزاء الخ و زادا فی الامثلۃ الماء الذی اختلط بہ اللبن ۲؎۔ مگر انہوں نے ایک زائد بات کی کہ وصف کی تبدیلی میں پانی کے اجزاء کا غلبہ ہو الخ اور وافی اور منیہ نے ایک مثال زائد بھی بیان کی ہے کہ وہ پانی جس میں دودھ ملا ہو۔ (ت)


 (۲؎ منیۃ المصلی    باب المیاہ        مطبع عزیزیہ کشمیری بازار لاہور    ص۱۸)


وقایہ، کنز، اصلاح اور مختار وغیرہا: وان غیراحد اوصافہ طاھر۳؎ اھ ومثلت الوقایۃ بامثلۃ القدوری والاصلاح بالتراب والزعفران۔ اگرچہ کسی پاک چیز نے پانی کا ایک وصف تبدیل کردیا ہو اھ وقایہ نے قدوری والی مثالیں ذکر کی ہیں اور اصلاح نے مٹی اور زعفران کی مثال دی ہے۔ (ت)


 (۳؎ کنز الدقائق    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۱)


 (۲)بعض اوصافہ کہ دو کو بھی شامل۔ بحر میں مجمع البحرین سے ہے: نجیزہ بغالب علی طاھر کزعفران تغیربہ بعض اوصافہ ۴؎۔ ہم وضو کو جائز قرار دیتے ہیں اس پانی سے جو ملنے والی پاک چیز پر غالب ہو اور اس کے بعض اوصاف متغیر ہوجائیں یسے زعفران (ت)


 (۴؎ بحرالرائق     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)


ملتقی میں ہے : وان غیر طاھر بعض اوصافہ کالتراب والزعفران والصابون ۱؎۔ اگرچہ پانی کے بعض اوصاف کو پاک چیز نے متغیر کر دیا ہو جیسے مٹّی، زعفران اور صابون۔ (ت)


 (۱؎ ملتقی الابحر    تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    عامرہ مصر    ۱/۲۷)


 (۳) کل اوصاف۔ غرر میں ہے : وان غیر اوصافہ طاھرجامد کاشنان و زعفران وفاکھۃ و ورق فی الاصح ان بقی رقتہ ۲؎۔ اگرچہ پانی کے اوصاف کو کسی پاک جامد چیز نے تبدیل کردیا ہو جیسے اشنان، زعفران، پھل اور پتّے جبکہ پانی کی رقت باقی رہے یہی اصح قول ہے (ت)


(۲؎ غرر مع شرح الدرر    فرض الغسل        عثمانیہ مصر    ۱/۲۱)


یہی مفادتنویر ہے: فانہ ذکرمثلہ تبعالہ کعادتہ رحمھما اللّٰہ تعالٰی وان ترک قولہ غیراوصافہ فقد دل علیہ بادارۃ الحکم علی بقاء الرقۃ مطلقا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اس کی مثل کہااپنی عادت کے مطابق ان کی اتباع کرتے ہوئے، اگرچہ انہوں نے غرر کا قول "غیر اوصافہ" کو چھوڑ دیاہے لیکن اس پر دلالت کیلئے انہوں نے حکم کو پانی کی رقت کی بقاء پر مطقاً قائم رکھا۔ (ت)


ولہٰذا درمختار میں فرمایا: وان غیرکل اوصافہ ۳؎ (اگرچہ اس کے تمام اوصاف کو بدل دے۔ ت)


 ( ۳؎ درمختار        باب المیاہ        مجتبائی دہلی    ۱/۳۵)


سادات ثلثہ حلبی طحطاوی شامی نے اسے مقرر رکھا نورالایضاح میں ہے: ولایضر تغیر اوصافہ کلھا بجامد۴؎  (کسی جامد کی وجہ سے اگر پانی کے تمام اوصاف بدل جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ت)


 (۴؎ نورالایضاح    کتاب الطہارۃ    علمیہ لاہور    ص۳)


اس پر شرح میں بڑھایا:بدون طبخ ثم قال مستدلا علیہ لمافی صحیح البخاری ومسلم ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم امر بغسل الذی وقصتہ ناقتہ وھو محرم بماء وسدرامر قیس بن عاصم حین اسلم ان یغتسل بماء وسدر واغتسل النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بماء فیہ اثر العجین وکان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یغتسل ویغسل رأسہ بالخطمی وھوجنب و یجتزئ بذلک ۱؎ اھ وتعقبہ السید ط فقال قد یقال غیر نحوالسدر لایقال علیہ لان المقصود بہ التنظیف فاغتفرفیہ تغیرالاوصاف ولا کذلک غیرہ ۲؎ اھ


بدون طبخ (پکائے بغیر) پھر اس پر دلیل پیش کرتے ہوئے وہ روایت ذکر کی جس کو بخاری اورمسلم نے بیان کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شخص کو جو کہ احرام کی حالت میں اونٹنی سے گرکر زخمی ہوا، حکم فرمایاکہ وہ بیری کے پتّوں والے پانی سے دھوئے۔ اور آپ نے قیس بن عاصم کو مسلمان ہونے پر بیری کے پتّوں والے پانی سے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔اور خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹے کے اثر والے پانی سے غسل فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے غسل میں خطمی والے پانی کے استعمال کو کافی سمجھتے اھ شرح نورالایضاح کی عبارت پر سید طحطاوی نے تعاقب کیا اور کہا کہ بیری کے پتّوں جیسی چیز پانی میں تغیر پیدا کرے تو معاف ہے، اس حکم پر دوسری چیزوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس سے تو صفائی مقصود ہے جبکہ دوسری چیزوں میں یہ مقصد نہیں ہوتا ہے اھ (ت)


 (۱؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۶)

(۲؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح            مطبعۃ الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۶)

اقول: تعقب علی الاستدلال بالحدیثین الاولین و الرابع لاعلی الحکم فقد سلّمہ من قبل وسَلِم منہ الحدیث الثالث ثم قد علمت مماحققناان المغتفر فی المنظف تھیؤہ للثخن اما الاوصاف فلاعبرۃ بھا اصلا لکن یکفی منعا علی الدلیل۔


میں کہتا ہوں کہ سید طحطاوی نے شرح نورالایضاح پر تعاقب حکم کے بارے میں نہیں کیابلکہ پہلی دو اور چوتھی حدیثوں سے استدلال پر تعاقب کیاہے لہٰذا حکم اور تیسری حدیث کو انہوں نے محفوظ رکھا، پھر آپ کو ہماری تحقیق سے معلوم ہوچکا ہے کہ صفائی والی چیز میں گاڑھے پن کی استعداد تک معافی ہے اس میں اوصاف کا بالکل اعتبار نہیں ہے لیکن دلیل پر منع (اعتراض) کیلئے اتنا کافی ہے۔ (ت)


اور تحقیق یہی ہے کہ تینوں وصفوں کا تغیر بھی کچھ مضر نہیں جب تک موانع ثلاثہ مذکورہ سے کوئی مانع نہ پایا جائے 

بیانہ(۱)


ان النظار افتر قوافی العبارۃ الاولی مثلھا الثانیۃ فرقتین فریق یعتبر فیھاالمفھوم فتدل علی المنع بتغیروصفین و الثانیۃ علی الجواز فیہ والمنع بتغیر الکل ثم یعترضہ محققوھم بانہ خلاف الصحیح الصحیح الجواز وان تغیرالکل قال الامام الزیلعی فی التبیین اشار القدوری الی انہ اذا غیر وصفین لایجوز الوضوء ۱؎ بہ ومثلہ فی الفتح والبحر وکذا علی عبارۃ البدایۃ فی النھایۃ والعنایۃ والبنایۃ والدرایۃ والکفایۃ والغایۃ الاتقانیۃ،


اس کا بیان یہ ہے کہ پہلی عبارت (ایک وصف والی)اور دوسری عبارت(دو وصفوں والی) کے بارے میں علماء کے دو فریق بن چکے ہیں،ایک فریق ان عبارات میں مفہوم مخالف کا اعتبار کرتے ہوئے پہلی عبارت میں دو وصفوں کی تبدیلی پر وضو کوناجائزکہتا ہے اور دوسرا عبارت میں مفہوم کا اعتبار نہ کرتے ہوئے وضو کو جائزکہتاہے اور یہ گروہ تمام اوصاف (رنگ، بو، ذائقہ)کی تبدیلی پر وضو ناجائز مانتا ہے لیکن پھر اس گروہ میں سے محقق لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ تمام اوصاف کی تبدیلی سے عدمِ جواز،صحیح قول کے خلاف ہے کیونکہ صحیح یہ ہے کہ اگر تمام اوصاف بھی تبدیل ہوجائیں تب بھی وضو جائز ہے (اس بحث کے بارے میں عبارات درج ذیل ہیں) امام زیلعی نے تبیین میں فرمایا کہ قدوری نے اشارہ کیا ہے کہ اگر دو وصف تبدیل ہوجائیں تو وضو ناجائز ہوگااھ اسی طرح ہے درج ذیل کتب میں، فتح، بحر، نہایہ میں بدایہ کی عبارت پر، عنایہ۔ بنایہ۔ درایہ۔کفایہ۔غایۃ اتقانیہ،


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت    مطبع الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۰)


قال الاولان قولہ احداوصافہ یشیرالی انہ اذاغیر الاثنین لایجوز لکن المنقول عن الاساتذۃ خلافہ فذکرا ماتقدم فی ۷۹زاد فی العنایۃ وکذا اشار فی شرح الطحاوی الیہ ۲؎ اھ واقرہ سعدی افندی وقال التالیان فی قولہ احداوصافہ اشارۃ الی انہ اذا تغیر اثنان لایجوز التوضی بہ لکن صحت الروایۃ بخلافہ کذا عن الکرخی ۳؎ اھ والکفایۃ ذکرت الاشارۃ ثم اثرت عن النھایۃ ماعن الاساتذۃ وذکرالاتقانی اشارۃ القدوری ثم قال لکن الظاھرعن اصحابناانہ یجوز الاتری الی مافی شرح الطحاوی الخ،


ان میں سے پہلے دونوں نے کہاکہ ان کا ''قول احد اوصافہ''اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر دو وصف بدل جائیں تو وضو جائز نہ ہوگا لیکن ماہرین سے اس کا خلاف منقول ہے، یہ کہہ کر پھر ان دونوں نے ۷۹ میں گزشتہ بحث کو ذکر کیا، اور اس پر عنایہ میں کذااشار فی شرح الطحاوی الیہ(طحاوی کی شرح میں ایسا ہی اشارہ کیا ہے)کا اضافہ کیا ہے اھ اور سعدی آفندی نے اس کی تائید کی ہے۔ اور ان کے بعد والے دونوں نے یہ کہاکہ ''ان قول احد اوصافہ'' میں اشارہ ہے کہ اگر دو وصف بدل جائیں تو وضو جائز نہ ہوگا۔ لیکن صحیح روایات اس کے خلاف ہیں امام کرخی سے ایسا ہی مروی ہے اھ کفایہ نے یہی اشارہ ذکر کرکے پھر نہایہ والا ماہرین سے منقول قول کا حوالہ بیان کیا۔اتقانی نے قدوری والا اشارہ ذکر کرکے پھر کہا ہمارے اصحاب کےظاہر قول کے مطابق اس سےوضو جائز ہے کیا طحاوی کی شرح میں موجود قول نہیں دیکھا الخ؟اھ ،


 (۲؎ العنایۃ مع فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضو    سکھر        ۱/۶۳)

(۳؎ البنایۃ        الماء الذی یجوز بہ الوضوء    ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۸۹)


وفی الجوھرۃ ان غیروصفین فعلی اشارۃ الشیخ لایجوز والصحیح یجوز کذا فی المستصفی ۱؎ اھ وقدمر فی ۱۰۱ وکذامر عن الحلیۃ اعتبار المفھوم فی ۷۱ وردہ بتصحیح المستصفی فی ۱۰۱ ثم ذکر کلام النھایۃ وفی فتح اللّٰہ المعین یفھم من التقییدعدم جواز الاستعمال اذاتغیر وصفان ولیس کذلک ۲؎ اھ ،


اور جوہرہ میں ہےکہ اگر دو وصف تبدیل ہوجائیں تو وضو ناجائز ہےجیسا کہ شیخ نےاشارہ کیا ہےلیکن صحیح یہ ہےکہ وضو جائز ہے،مستصفٰی میں ایسا ہے اھ یہ بات ۱۰۱ میں گزر چکی ہے اور یوں ہی ۷۱ میں حلیہ کے حوالہ سے مفہوم کے اعتبار کے بارے میں گزرا،اور پھر اس کے رد میں مستصفٰی کی تصحیح کے حوالہ سے ۱۰۱ میں ذکر کرکے پھر نہایہ کے کلام کو ذکر کیا ہے فتح اللہ المعین میں ہے کہ ایک وصف کی قید سی دو وصف کی تبدیلی میں وضو کا عدمِ جواز سمجھ آتاہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اھ،


 (۱؎ الجوہرۃ النیرہ    کتاب الطہارۃ    امدادیہ ملتان        ۱/۱۴)

(۲؎ فتح اللہ المعین    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۲)


واغرب فی الکفایۃ واذ ذکرمامر ثم استدرک علیہ بما فی التتمۃ عن الفقیہ المیدانی من مسألۃ وقوع الاوراق فی الحوض المارۃ ۳؎ فی ۷۶ قال قال صاحب النھایۃ لماتغیرلون الماء بالاوراق لابدان یتغیر طعمہ ایضا فکان وصفان زائلین فصار موافقا لمااشار الیہ الکتاب ۴؎ اھ


کفایہ میں عجیب انداز سے مذکورہ بات کوبیان کرکے پھر فقیرمیدانی سے تتمہ میں منقولہ مسئلہ سے اس پر استدراک کیااور وہ مسئلہ حوض میں پتّے گرنے کے بارے میں ہے جو ۷۶ میں گزرا ہے، توکفایہ نے کہاکہ صاحبِ نہایہ نے یہ بیان کیا کہ جب پتّوں کی وجہ سے پانی کا رنگ تبدیل ہوگا تو لازمی طور پر اس کا ذائقہ بھی تبدیل ہوگا۔ تو دو وصف کی تبدیلی ہونے پر یہ کتاب کے موافق ہوجائے گا۔ (ت)


 (۳؎ الکفایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ الوضو    نوریہ رضویہ سکھر    /۶۳)

(۴؎الکفایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ الوضو    نوریہ رضویہ سکھر    /۶۳)


اقول: وانت تعلم انہ لایدفع ماعن الاساتذۃ ولذالم تعتمدہ النھایۃ والبنایۃ مع ذکرھم جمیعا ان الماء اذاتغیر لونہ تغیر طعمہ ایضا ۱؎ اھ ھذہ عبارۃ الاخیرین۔


میں کہتا ہوں کہ اس سے اساتذہ (ماہرین) سے منقول شدہ موقف کارد نہیں ہوتا جس سے آپ آگاہ ہیں اس کے باوجود کہ یہ بات سب نے ذکر کی کہ جب رنگ بدلے گا تو ذائقہ بھی ضرور بدلے گا۔نہایہ اور بنایہ نے اس کو قابلِ اعتماد نہ سمجھا اھ یہ آخری دونوں (کفایہ اور غایہ) کی عبارت تھی۔ (ت)


 (۱؎ البنایۃ            الماء الذی یجوزبہ الوضوء    ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۸۹)


اقول: والمراد فی صورۃ الاوراق کماافصح عنہ النھایۃ فلایقال قدیتغیر لونہ بقلیل من اللبن والزعفران لاطعمہ وبالجملۃ کان الحق ان یستدرک بماعن الاساتذۃ علی ماعن الفقیہ کمافعلوا لاالعکس(۱) کالکفایۃ وتبعہ مسکین فتعقب المفھوم بمانقل فی النھایۃ عن الاساتذۃ ثم عاد فقال لایتوضو وان اجازہ ۲؎ الاساتذۃ اھ ومثلہ تعقب ورجع فی مجمع الانھرثم قال لکن یمکن التوجیہ بان نقل صاحب النھایۃ محمول علی الضرورۃ فلاینافی القول بعدم الجواز عند الضرورۃ کمافی التحفۃ ۳؎ اھ


میں کہتا ہوں کہ پانی میں پتّے گرنے کی وہ صورت مراد ہے جس کو نہایہ نے ذکر کیاہے لہٰذا اب یہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ اگر پانی میں تھوڑاسا دُودھ یازعفران ڈال دیاجائے تو پانی کا رنگ بدلنے کے باوجود اس کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوتا، تاہم حاصل یہ ہے کہ فقیہ میدانی پر اساتذہ سے منقول قول سے استدراک کرنا چاہیے تھا، جیسا کہ دیگر حضرات نے کیا ہے کفایہ کی طرح اس کا عکس نہیں کرنا چاہئے تھا،اور مسکین نے کفایہ کی پیرو ی میں مفہوم کا اعتبار کرتے ہوئے، نہایہ میں ماہرین کے نقل کردہ قول پر، تعاقب کیا اور پھر دوبارہ کہا کہ (دو وصف تبدیل ہوجانے پر) پانی سے وضو جائز نہیں ہے اگرچہ اساتذہ سے اجازت منقول ہے اھ اسی طرح کا تعاقب و رجوع مجمع الانہر میں کیا اور پھر کہا، لیکن یہ توجیہ ممکن ہے کہ صاحب نہایہ کی نقل کردہ ماہرین کی رائے ضرورت کیلئے ہو اور یہ بغیر ضرورت وضو ناجائز ہونے، والی تحفہ 

میں مذکور موقف کے خلاف نہیں ہے اھ (ت)


 (۲؎ شرح لملا مسکین مع فتح المعین    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۲)

(۳؎ مجمع الانہر            تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبعۃ عامرہ مصر    ۱/۲۷)

اقول: تبع(۱)فیہ الحلیۃ وقدعلمت ردہ فی ۷۷ وفریق یاباہ اقول اخذالاولون لفظۃ احد وبعض بشرط لاوھؤلاء لابشرط فشمل الکل شمول الجزئیۃ للکلیۃ وتقدم فی ۱۰۱ عن الزاھدی فی شرح القدوری قول المصنف احداوصافہ لایفیدالتقییدالخ وقدنقلہ فی الحلیۃ ثم قال لکن الظاھرانہ یرید من حیث الواقع والا فلاشک ان مفھوم المخالفۃ یفیدتقیید الجوازبذلک کماذکرنا وعلی ھذا الفرع الذی سیأتی فی الحمص والباقلاء اذانقع فی الماء وتغیرت الاوصاف الثلثۃ اھ والفرع المشار الیہ قول المنیۃ وکذا الحمصۃ والباقلاء اذانقع وان تغیر لونہ وطعمہ وریحہ ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں مجمع الانہرنے اس بات میں حلیہ کی پیروی کی ہے اور آپ۷۷میں اس کا رد معلوم کرچکے ہیں۔دوسرے فریق نے مفہوم مخالف کاانکار کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے فریق نے (ایک وصف یا بعض اوصاف کی تبدیلی کے بارے میں) لفظ ''ایک''اور ''بعض''کو بشرط لاغیر لیاہے اور اس دوسرے فریق نے لابشرط غیر، لیاہے پس اس دوسری صورت میں تمام اوصاف شامل ہوں گے جیسا کہ جزئی کُلی میں شامل ہوتی ہے اور ۱۰۱ میں زاہدی کے حوالہ سے شرح قدوری میں گزرامصنّف کا یہ قول کہ ایک وصف کا ذکر تقییدکا فائدہ نہیں دیتا الخ اور اس کو حلیہ میں نقل کیا پھر کہا کہ یہ عدم تقیید واقع کے لحاظ سے ہوگی ورنہ لفظوں کا مفہوم مخالف تو اسی ایک وصف کی تبدیلی سے جو ازثابت کرتاہے جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے اور اسی حقیقت پر اس تفریع کا بیان مبنی ہے جو آئندہ چنوں اور باقلیٰ کے بارے میں کہ ان کو جب پانی میں ڈال کر ترکیا جس سے پانی کے تینوں اوصاف تبدیل ہوجائیں اھ اور جس تفریع کی طرف اشارہ کیاوہ منیہ کا قول اور اسی طرح چنے اور باقلٰی جب ان کو پانی میں ڈال کر تر کیا جائے اگرچہ اس کا رنگ، ذائقہ اور بُو بدل جائے، ہے اھ


 (۱؎ منیۃ المصلی        فصل فی المیاہ    مکتبہ عزیزیہ کشمیر ی بازار لاہور    ص۱۸)


وفی جامع الرموزمافی الھدایۃ من ذکراحد الاوصاف لیس للتقیید کما فی الزاھدی والیہ اشیر فی المضمرات ۲؎ اھ اور جامع الرموز میں ہے کہ ہدایہ میں ایک وصف کا ذکرمقید کرنے کیلئے نہیں جیساکہ زاہدی میں ہے اور مضمرات میں اسی طرف اشارہ ہے اھ


 (۲؎ جامع الرموز    کتاب الطہارت     مطبعۃ اسلامیہ گنبد ایران    ۱/۴۷)


وقال العلامۃ احمد بن یونس الشلبی علی قول الکنز احد اوصافہاوجمیع اوصافہ اذابقی علی اصل خلقتہ ۱؎ اھ وکتب بعدہ لفظۃ اھ ولم یبین المنقول عنہ والظاھرمن السیاق انہ الشیخ یحییٰ (عـہ)۔


کنز کے قول احد اوصافہ اوجمیع اوصافہ (ایک وصف یا تمام اوصاف کی تبدیلی) پر علّامہ احمد بن یونس شلبی نے یہ کہاکہ بشرطیکہ پانی اپنی خلقت پر باقی رہے،اور یہ کہہ کر انہوں نے اھ کہالیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ کس کی عبارت  نقل کی ہے،اور سیاق سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کلام شیخ یحیی کا ہے۔


 (عـہ)لعل یحییٰ ھذا ھو الشیخ یحیی القوجحصاری صاحب الایضاح شرح الکنز واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (م)

شاید اس یحییٰ سے مراد شیخ یحییٰ القو جحصاری صاحبِ ایضاح شرح کنز ہوں، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ شلبیہ علی التبیین    کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)


وقال العلامۃ مولی خسرو فی الدرر وقعت عبارۃ کثیر من المشائخ ھکذا غیراحد اوصافہ طاھر فتوھم بعض شراح الھدایۃ ان لفظ الاحد احترازعمافوقہ ولیس کذلک لما فی الینابیع لونقع الحمص اوالباقلاء فتغیرلونہ وطعمہ و ریحہ یجو زبہ الوضوء وقال فی النھایۃ المنقول عن الاساتذۃ فنقل مامر ثم قال واشار فی شرح الطحاوی ۲؎ الیہ اھ


دُرر میں علامہ مُلّا خسرو نے کہا کہ بہت سے مشائخ کی عبارت یوں ہے غیر احدا وصافہ طاھر (پاک چیز ایک وصف کو تبدیل کردے)تو اس سے ہدایہ کے بعض شارحین کو وہم ہوا کہ لفظ احد(ایک) سے زائد کی نفی مقصود ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ینابیع میں ہے کہ اگر چنے باقلا پانی میں تر ہو کر اس کے رنگ اور ذائقہ اور بُو کو تبدیل کردیں تو بھی اس سے وضو جائز ہے اور نہایہ میں کہا کہ اساتذہ سے منقول ہے اوران کے گزشتہ قول کو نقل کرکے کہاکہ طحاوی کی شرح میں اس طرف اشارہ ہے اھ


 (۲؎ درر وغرر        کتاب الطہارۃ     دار سعادۃ مصر    ۱/۲۱)


واقرہ الشرنبلالی وعبد الحلیم والمولی حسن العجیمی واید الخادمی بقولہ والقول ان مافی الھدایۃ غیرروایۃ النھایۃکماتوھم بعید ۳؎ اھ


شرنبلالی، عبدالحلیم اور مولی ملاحسن عجیمی نے اس کو ثابت کیااور خادمی نے اس کی تائید کرتے ہوئے یوں کہا کہ یہ کہنا کہ ہدایہ کا بیان نہایہ کی روایت کے خلاف ہے،یہ وہم بعید ہے اھ


 (۳؎ خادمی شرح درر     کتاب الطہارۃ       دار سعادۃ مصر    ص۲۰)


وقال علی قولہ ولیس کذلک وقد یجاب انہ (یرید التقیید باحد الاوصاف)فیمایخالف الماء فی الاوصاف الثلثۃ فان المخالط للماء اذالم یوافقہ فیھافان غیر اثنین او الثلاث لایجوز الوضوء بہ والاجاز ۱؎ اھ قلت ھذاھو جواب الامام الزیلعی کما یأتی ثم ردہ الخادمی بقولہ لکن لایخفی ان ھذالیس من ھذا القبیل بل من قبیل الغلبۃ ۲؎ کما یأتی اھ یریدان ماحملتم علیہ قولھم وان غیراحداوصافہ وھو اختلاط مایخالف الماء فی الاوصاف الثلٰثۃ لیس من قبیل مافیہ الکلام ھنا وھو خلط الجامد لان العبرۃ بالاوصاف عند اھل الضابطۃانما ھی فی المائعات کماسیأتی فھو من قبیل ماغلب علیہ غیرہ وھو المذکور فی الغرراٰخر الکلام اماھنا فالعبرۃ بالرقۃ فکیف یحمل ھذا علی ذاک۔


خادمی نے ملاخسرو کے قول مذکور ولیس کذلک کے بارے میں کہاکہ اس کا جواب یوں ہوسکتا ہے کہ ایک وصف کی قید وہاں زائد اوصاف کی نفی کرےگی جہاں پانی میں ملنے والی چیز تینوں اوصاف میں پانی کے مخالف ہو کیونکہ تمام اوصاف میں مخالف چیز اگر پانی کے دو یا تینوں اوصاف کو تبدیل کردے تو اس پانی سے وضو جائز نہ ہوگا ورنہ جائز ہوگا۔میں نے یہاں کہاکہ یہی امام زیلعی کا جواب ہے جیسا کہ آئندہ آئے گا اھ پھر خادمی نے خود اس کا رد کرتےہوئے کہا زیر بحث کلام اوصاف میں پانی کے مخالف چیز کے بارے میں نہیں ہے، خادمی کی مراد یہ ہے کہ ان غیرا حداوصافہ یہ قول، پانی میں ملنے والی اس چیز کے بارے میں ہے جو تینوں اوصاف میں پانی کے مخالف ہو،اس قبیلہ سے نہیں جس میں یہاں کلام ہے کیونکہ یہ تو جامد چیز کے بارے میں بحث ہے جبکہ ضابطہ والوں نے اوصاف کااعتبار صرف بہنے والی چیزوں کے بارے میں کیا ہے جو آئندہ آئےگا، جبکہ یہ غیر کے غلبہ والی بات ہے جو غرر نے اپنے کلام کے آخر میں ذکرکیاہے،لیکن وہاں جامد میں تو رقت کا اعتبار ہے۔ پس اس کو اُس پر کیسے محمول کیا جاسکتا ہے۔ (ت)


 (۱؎ خادمی شرح درر    کتاب الطہارۃ    دارسعادۃ مصر    ۱/۲۱)

(۲؎ خادمی شرح درر    کتاب الطہارۃ    دارسعادۃ مصر    ۱/۲۱)

اقول: لکن(۱) تخصیص الکلام (عـہ)بالجامدانما حدث بعد الضابطۃ وکلام کل من قبل الزیلعی مطلق فالحاصل حملہ(عـہ) علی مائع مخالف فی الاوصاف الثلثۃ فالاعتراض ساقط عن الزیلعی وبالجملۃ ھمامسلکان لاھل الضابطۃ الاول حمل احد علی التقیید وحمل الحکم علی مائع یخالف فی الثلثۃ وھو مسلک الزیلعی والثانی جعل التقیید اتفاقیا وحمل الحکم علی الجامد وھو مسلک الدرر ومن تبعھاکالتنویر ونور الایضاح وکلاھما صحیح موافق للضابطۃ فلاایراد وانما نشأمن خلط المسلکین۔


میں کہتا ہوں، لیکن اوصاف کی تبدیلی کے باوجود وضو کے جواز کو جامد چیز سے خاص کرنا ضابطہ مذکورہ کے بعدکی بات ہے، حالانکہ امام زیلعی سے پہلے تمام حضرات کا کلام مطلق ہے، حاصل یہ ہے کہ امام زیلعی نے اس مطلق کو تینوں اوصاف میں مخالف بہنے والی چیز پر محمول کیا،یوں امام زیلعی پر سے اعتراض ساقط ہوگیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل ضابطہ کے دو مسلک ہیں،اوّل یہ کہ ایک وصف کے ذکر کو قیدبناکر اس کو بہنے والی ایسی چیز کاحکم قرار دیا جو تینوں اوصاف میں پانی کے مخالف ہو،یہ امام زیلعی کا مسلک ہے اور دوسرا یہ کہ وصفِ واحد کے ذکر کو اتفاقی قید بنایا اور اس کو جامد کا حکم قرار دیا یہ دُرر اور اس کے موافق حضرات جیسے تنویر، نورالایضاح کا مسلک ہے اور یہ دونوں مسلک درست ہیں اور ضابطہ کے موافق ہیں لہٰذا کوئی اعتراض نہیں، صرف دونوں مسلکوں کے خلط سے اشتباہ پیدا ہوا۔ (ت)


 (عـہ)ای حکم الجواز مع تغیرفی الاوصاف ۱۲ منہ غفرلہ (م) یعنی اوصاف کی تبدیلی کے باوجود وضو کے جواز کا حکم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

(عـہ)ای حمل الزیلعی ذلک المطلق ۱۲ منہ غفرلہ (م)

یعنی امام زیلعی نے اس مطلق کو تینوں اوصاف میں پانی کے مخالف بہنے والی چیز پر محمول کیا ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


اقول: نعم اذاطوینا الکشح عن الضابطۃالحادثۃ وقصرناالنظرعلی نصوص المذھب و المذاھب المنقولۃ عن ائمۃ المذھب فھما مسلکان متخالفان لان جعل احد قیدا احتراز یایقضی باعتبار الغلبۃ بالاوصاف وھو مذھب محمد و جعلہ اتفاقیا یطرحہ وھومذھب ابی یوسف رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وھذا ھو الاولی والاحزی لوجوہ تتلی۔


میں کہتا ہوں، ہاں اگرہم نئے ضابطہ سے صرف نظر کریں اور مذہب کے ائمہ کرام سے منقول انکی نصوص کا ہی لحاظ کریں تو پھر یہ دونوں مسلک مختلف ہیں کہ واحد وصف کے ذکر کو احترازی قید قرار دے کر اوصاف کے لحاظ سے غلبہ کا فیصلہ کیا جائے تو یہ امام محمد کا مسلک ہوگا اور اس ایک وصف کو اتفاقی قرار دے کر غلبہ میں اوصاف کے اعتبار کو ساقط قرار دیا جائے تو یہ امام ابویوسف کا مذہب ہوگایہی زیادہ بہتر اور مناسب ہے حسب ذیل وجوہ کی بنا پر۔


فاقول:(۱) اوّلا قدعلمت ان مذھب ابی یوسف ھوالصحیح المعتمد ومھماقدرنا ان نحمل النصوص علی الصحیح لانعدوہ۔


میں کہتا ہوں اول: یہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ امام ابویوسف کا مذہب ہی قابلِ اعتماد اور صحیح ہے اور جب تک ممکن ہوگا ہم نصوص کو صحیح مذہب پر محمول کریں گے اور آگے نہیں پڑھیں گے۔


وثانیا: النصوص (۲) مطلقۃ تشمل الجامد والمائع واعلی اللّٰہ درجات الامامین برھان الدین الفرغانی وحافظ الدین النسفی اذ زادافی الامثلۃ الماء الذی خالطہ اللبن فاتیابالتنصیص علی التعمیم وبطلان التخصیص ومحمدانما یقول باعتبار الاوصاف فی المائعات کما یأتی باعتبارالاوصاف فی المائعات کمایأتی تحقیقہ اِن شاء اللّٰہ تعالٰی فجعلہ للاحترازیجعل النصوص خارجۃعن المذھبین والمتون ماشیۃ علی مالاوجودلہ فی المذھب وانما کان وضعھا لنقل المذھب۔


دوم یہ کہ اس بارے میں نصوص میں اطلاق ہے جو جامد اور بہنے والی دونوں کو شامل ہے اس تعمیم پر امام برہان الدین فرغانی اور امام حافظ الدین نسفی(اللہ تعالٰی ان دونوں اماموں کے درجات کو بلند فرمائے) نے نص کرتے ہوئے اس مسئلہ کی مثالوں میں ایسے پانی کوجس میں دُودھ ملا ہو، کا اضافہ فرمایا جس سے تخصیص کا احتمال باطل ہوگیا،اور امام محمد بہنے والی چیزوں میں اوصاف کا اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ آئندہ اس کی تحقیق آئے گی ان شاء اللہ تعالٰی،پس اب ایک وصف کے ذکرکو قید احترازی بنانے کیلئے تمام نصوص کو دونوں مذکور مذاہب سے خارج کرناہے اور متون باوجودیکہ وہ مذہب کی ترجمانی کیلئے وضع ہیں ان کو ایسے امور میں رواں کرتے ہیں جن کا مذہب میں وجود ہی نہیں ہے۔


وثالثا: معلوم(۳) ان دلالۃ المفھوم غیر قطعیۃ ورب قیود تجیئ فی الکتب لامحترزلھا فحمل النصوص علی ھذا اولی ام جعل القید للاحتراز ثم القیام بالاعتراض۔


اور سوم، یہ کہ واضح طورپر معلوم ہے کہ مفہوم کی دلالت قطعی نہیں ہوتی کیونکہ کتب میں بہت سے قیود غیر احترازی آتی ہیں تو اب نصوص کو اس معنی پر محمول کرنا بہتر ہے یا قید کو احترازی بنا کر پھر اعتراض کا سامنا کیا جائے؟


و رابعا: لاشک(۴) ان کل کل معہ بعضہ وماغیر الاوصاف فقد غیر احدھاواعتبار(۱) الواحد علی صفۃالانفرادغیر لازم ومالہ من اطراد الاتری الی مافی خیریۃ لایستفاد من لفظ واحدۃ وصف التوحید فقد نصوا علی انہ (۲) لو کان تحتہ اربع نسوۃ ولہ عبید فقال ان طلقت واحدۃ منھن فعبد من عبیدی حراوثنتین فعبدان اوثلثافثلثۃ اواربعافاربعۃ فطلقھن معا اومفرقاای مرتبا فی الکل والبعض عتق عشرۃ من عبیدہ واحد بطلاق الاولی واثنان بطلاق الثانیۃ وثلثۃ بطلاق الثالثۃ واربعۃ بطلاق الرابعۃ : مجموع ذلک عشرۃ فلو اشترط وصف التوحید فی لفظ الواحدۃ لماوقع العتق علی الواحد فی صورۃ طلاقھن معالانہ حینئذ لم یطلق واحدۃ حال کونھا منفردۃ بل طلھقا فی جملۃ نسائہ الاربع ۱؎ اھ


چہارم،یہ کہ اس میں شک نہیں کہ ہر کُل کے ساتھ اس کا بعض بھی ہوتا ہے تو جب اوصاف کوکوئی چیز تبدیل کرے گی تو ان میں سے ایک وصف کو بھی تبدیل کرے گی جبکہ ایک کو انفرادی صفت پر رکھنا لازم نہیں ہے اور نہ ہی اس کیلئے کوئی ضابطہ ہے، کیاآپ نے فتاوٰی خیریہ کے اس مضمون پر غور نہیں کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ''واحدۃ'' کے لفظ سے وحدت کا وصف حاصل نہیں ہوتا (اسی لئے فقہاء کرام) نے اس بات پر نص کی ہے کہ اگر کسی شخص کی چار بیویاں ہوں اور اس کے دس غلام ہوں اور وہ یہ کہے اگر میں ایک بیوی کو طلاق دُوں تو ایک غلام آزاد،اگر دو کو طلاق دُوں تو دو غلام آزاد،اگر تین کو طلاق دوں تو تین غلام آزاد،اگر چار کو طلاق دوں تو چار غلام آزاد، اس کے بعد اس نے چاروں بیویوں کو ایک ساتھ یا متفرق طورپر طلاق دے دی تو اس کے دس غلام آزاد ہوجائیں گے، پہلی کے ساتھ ایک،دوسری کے ساتھ دو اور تیسری کے ساتھ تین اور چوتھی طلاق کے ساتھ چار غلام آزاد ہوں گے یوں کل دس عدد غلام آزاد ہوں گے(اس مسئلہ سے واضح ہوا)کہ اگر ''واحدۃ''میں توحیدکے وصف کا اعتبار شرط ہوتا تو سب بیویوں کو ایک ساتھ طلاق دینے کی صورت میں ایک غلام کو آزادی والی صورت نہ بنتی کیونکہ ایک غلام کی آزادی ایک بیوی کی طلاق سے مشروط تھی جبکہ ایک ساتھ طلاق دینے میں ایک بیوی کو علیحدہ طلاق نہیں ہوئی بلکہ چاروں بیویوں کو ایک ساتھ طلاق میں ایک طلاق ہے اھ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     قبیل باب الایلا    بیروت    ۱/۵۷)


اقول: والانصاف(۳) عندی ان الحکم بالمفھوم فی امثال المحال مختلف باختلاف الاحوال فان علم ان الافرادلامدخل فی الحکم لایسبق الذھن الی المفھوم کقول رجل لبنیہ اکرموا من یکرم احدکم لایفھم منہ احدان لاتکرموا من اکرم کلکم وکذلک قول حنفی من قرأ احدی اٰیات القراٰن صحت صلاتہ وقول شافعی من مسح احدی شعرات رأسہ صح وضوؤہ ومن ھذاالباب الصورۃ المذکورۃ فی الخیریۃ فانا نری الحکم یزداد بالازدیاد فلاتوقف لہ علی الانفراد،


میں کہتا ہوں، میرے نزدیک انصاف یہ ہے کہ احوال کے اختلاف کی بنا پر ہر محل میں مفہوم کا حکم مختلف ہوتا ہے کیونکہ اگر یقین کر لیا جائے کہ انفرادی وصف کا حکم میں کوئی دخل نہیں ہوتا تو پھر جب کوئی شخص اپنے بیٹوں کو یہ کہے کہ جو تم میں سے ایک کی عزت کرے تم اس کی عزت کرو، تو اس کلام سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جو تم سب کی عزت کرے تم اس کی عزت نہ کرو (حالانکہ اس بات سے یہ مفہوم نہیں سمجھتا) اس طرح کسی حنفی کا یہ قول کہ جس نے قرآن کی آیات میں سے ایک آیت پڑھی اس کی نماز درست ہے۔ اور کسی شافعی کا یہ قول کہ جس نے اپنے سر کے بالوں میں سے ایک بال کا مسح کرلیا اس کا وضو درست ہے۔ ان میں زیادہ آیات پڑھنے میں نماز کی اور زیادہ بالوں کے مسح سے وضو کی عدمِ صحت نہیں سمجھی جاتی، فتاوٰی خیریہ کی مذکورہ صورت اسی باب سے ہے کیونکہ زیادہ کرنے پر حکم بھی زیادہ ہوجاتا ہے اسی طرح حکم ایک پر موقوف نہیں ہوگا۔


ومن ذلک قولہ عزوجل وان احدمن المشرکین استجارک واتیتم احدھن قنطاراوجاء احد منکم من الغائط فانہ لاینفھم منہ عدم الحکم عندالتعدد حتی عنداصحاب المفاھیم بل لوکان مثلہ فی کلام الناس لم یدل علی المفھوم قطعاللعلم بان الانفراد لادخل لہ فی الحکم وان علم ان لہ مدخلا فیہ ثبت المفھوم کقولہ لاتکرموا من یکرم احدکم فمن المعلوم ان الحکم للاقتصار علی اکرام واحدفمن اکرمھم جمیعالایدخل تحت النھی واذا قیل من طلق ثنتین فلہ ان یراجع فھم منہ ان من طلق ثلثا لارجعۃ لہ ولم یفھم منہ ان من طلق واحدۃ لارجعۃ لہ فاجتمع فیہ الانفھام وعدمہ فاذاکان الامر یتلف ھکذا ویبتنی علی العلم بالعلۃ من خارج لم یصح الحکم باحد الطرفین من مجرد الکلام فھھنا ان علم ان للتوحداوالبعضیۃ مدخلا فی جواز الوضو ثبت المفھوم وان علم عدمہ انعدم فالحکم بکونہ قیدااحترازیامتوقف علی اثبات اعتبار التغیر بالاوصاف ولم یثبت بل ثبت خلافہ فلامفھوم وبالجملۃ    (۱) ھو احتمال قام البرھان علی بطلانہ فلایعتبر۔


اسی قبیل سے اللہ تعالٰی کا یہ قول ہے کہ اگر مشرکین میں ایک مشرک پناہ طلب کرنے اور یہ قول کہ عورتوں میں سے ایک کو وافر دو،اور یہ قول بھی کہ تم میں سے کوئی ایک بیت الخلاء سے فارغ ہو،کیونکہ ان اقوال میں عدد زیادہ ہونے پر عدم حکم کا فہم نہیں ہوتا حتی کہ وہ لوگ جو عبارات میں مفہوم اخذ کرنے کے قائل ہیں وہ بھی زیادہ سے حکم کی نفی نہیں کرتے بلکہ عوام الناس کے کلام میں بھی اگر ایک کا عدد ذکر ہو تو اس سے مفہوم مخالف نہیں لیا جاتاکیونکہ انفراد کا حکم میں دخل نہیں ہے۔اور اگر انفراد کا حکم میں دخل ہو تو پھر مفہوم مخالف ثابت ہوجاتاہے، جیسے کوئی یہ کہے تم میں سے ایک کی عزت کرنے والے کی عزت نہ کرو،اس جملہ سے واضح ہے کہ یہاں عزت نہ کرنے کا حکم صرف ایک کی عزت سے متعلق ہے اور اگر وہ سب کی عزّت کرے تو عزت کرنے میں ممانعت نہ ہوگی اور اگر کسی نے یہ کہا جو شخص دو طلاقیں دے گاتواس کو رجوع کاحق ہو گا، اس سے تین طلاقیں دینے والے کیلئے رجعت کا حق ثابت نہیں ہوتاجبکہ ایک طلاق دینے والے کیلئے رجعت کا حق ثابت ہوتاہے، اس طرح دو طلاقوں کے حکم میں مفہوم کا فہم اور عدمِ فہم دونوں پائے جاتے ہیں پس اگر معاملہ واضح نہ ہو اور حکم کا فیصلہ کسی خارجی علّت کے علم پر موقوف ہو توکسی پہلو پرحکم نفسِ کلام سے حاصل نہ ہوگا لہٰذا(یہاں پانی میں ملنے والی چیز سے وصفِ واحد کے ذکر میں) وضو کے جواز میں واحد یا بعض کا دخل ثابت ہو تو مفہوم مخالف ثابت ہوگا اور اگر واحد یا بعض کے عدمِ دخل کاعلم ہو تو پھر مفہوم ثابت نہ ہو گا،اس لئے یہاں واحد کا قیداحترازی ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ اوصاف سے تغیر کا اعتبار کیا جائے، چونکہ یہ بات ثابت نہیں بلکہ اس کا خلاف ثابت ہے لہٰذا مفہوم بھی ثابت نہ ہوگا،خلاصہ یہ کہ اس احتمال کے بطلان پر دلیل قائم ہے لہٰذا یہ احتمال معتبر نہ ہوگا۔ (ت)

وخامسا"تمثیلھم(۲) بماء المد والماء الذی خالطہ الصابون من اجلی قرینۃ علی عدم ارادتھم المفھوم فان ماء السیل یکون متغیراللون والطعم معابل ربمایکون متغیرالثلاثۃ وکذلک الماء اذا خالطہ الصابون لایقتصرعلی تغییر وصف واحد قط و الزعفران  ربما یتغیر بہ وصفان والثلثۃ واقتصارہ علی واحدنادر فی المعتاد وقد ارسلوہ ارسالا٭ وجعلوہ لما یغیراحد الاوصاف مثالا٭ وھذا وانکان فیہ مجال مقال٭ فماء المد والصابون کافیان فی الاستدلال٭ فظھر الامر و زوال اللبس وقیل الحمدللّٰہ رب العٰلمین۔


پنجم،یہ کہ ان فقہاء کرام کا "احد الاوصاف" کے ذکر کے بعد اس کے مثال میں سیلاب کے پانی اور صابون والے پانی کا ذکر کرنا اس بات پر واضح قرینہ ہے کہ یہاں مفہوم مراد نہیں ہے کیونکہ سیلاب کا پانی رنگ اور ذائقہ دونوں میں بلکہ تینوں اوصاف میں متغیر ہوتا ہے اور یوں ہی جب پانی میں صابون ملتا ہے تو بھی صرف ایک وصف تبدیل نہیں ہوتا اور زعفران سے دو وصف بلکہ تینوں وصف متغیر ہوجاتے ہیں صرف ایک وصف کا متغیر ہونا عادۃً نادرہے۔ تو فقہاء کرام نے پابند کیے بغیر ''احدالاوصاف'' کو بطور مثال ذکر کیاہے اگرچہ یہاں بحث کی گنجائش ہوسکتی تھی لیکن سیلاب اور صابون کے ذکرسے استدلال کافی ہے یوں معاملہ واضح ہوگیا اور اشتباہ ختم ہوگیا، الحمدللہ رب العٰلمین۔ (ت)


یہ ہے ضوابط متون کا بیان ضوابط پیشین نے مذہب امام ابویوسف کا اثبات کیا اور اس ضابطہ نے مذہب امام ثالث کی نفی اور اطلاق نے واضح کیا کہ پانی میں کوئی شے جامد ملے خواہ مائع مطلقا تغیر اوصاف غیر مانع اور دو امام اجل صاحبِ ہدایہ وصاحب کافی نے پانی میں دودھ ملنے کی مثال زائد فرما کر اس اطلاق کو پورا مسجل فرما دیا اور مذہب امام ابویوسف کہ اُس قدر تصحیحات کثیرہ سے مشید تھا اطباق متون سے اورمؤکد ہوگیا اور بحمداللہ یہی ہے وہ کہ مائے مطلق کی تعریف رضوی نے افادہ کیا وللّٰہ الحمد علی الدوام٭ وعلی نبیہ والہ الصلٰوۃ والسلام٭ علی مر اللیالی والایام٭


ضابطہ ۶ قول امام محمد رضی اللہ عنہ جسے امام اسبیجابی وامام ملک العلماء نے اختیار کیا،


وفی خصوص مسألۃ الاوراق فی الحوض مشی علیہ فی شرح الوقایۃ والمنیۃ ایضا مخالفۃ لنفسھا فیما مرعنھا فی الضابطۃ الخامسۃ ونقلھا الذخیرۃ والتتمۃ عن الامام احمد المیدانی وللحلیۃ میل الیہ فی المسألۃ علی تصریحاتھابخلافہ فی غیرھا وفیھا زعم چلپی فی ذخیرۃ العقبی انہ الاصح کما تقدم کل ذلک فی ۷۷ و ۷۹ و ۱۰۱ وغیرھا وذکر الامام ملک العلماء فی النبیذ المطبوخ ان الاقرب الی الصواب عدم جواز الوضو لغلبۃ التمر طعما ولونا کمایأتی فھذاماوجدت من ترجیحاتہ فی صور خاصۃ ولم ارالتصحیح الصریح لمطلق ھذاھذا القول الاماوقع فی الجوھرۃ ان الشیخ یریدالامام القدوری اختار قول محمد حیث قال فغیر احد اوصافہاھ وقال قبلہ اشار الشیخ الی ان المعتبر بالاوصاف والاصح ان المعتبر بالاجزاء ۱؎ اھ


اور خاص طور پر حوض میں پتّے گرنے کے مسئلہ میں امام محمد کے قول کو شرح وقایہ میں اختیار کیا اور مُنیہ نے بھی پانچویں ضابطہ میں مذکور اپنے قول کے خلاف اس کو اپنایا۔ امام احمد میدانی سے ذخیرہ اور تتمہ نے اس مسئلہ کو نقل کیا ہے حلیہ نے اس مسئلہ کی تصریحات پر امام محمد کے قول کو ترجیح دی جبکہ دوسرے مسائل میں انہوں نے اس کے خلاف کیا ہے اور چلپی نے ذخیرۃ العقبیٰ میں امام محمد کے قول کو اس مسئلہ میں اصح کہا ہے جیسا کہ یہ تمام اقوال ۷۷، ۷۹، ۱۰۱ وغیرہ میں گزر چکے ہیں، امام ملک العلماء نے پکائی ہوئی نبیذ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اقرب الی الصواب یہ ہے اس سے وضو جائز نہیں کیونکہ اس میں پانی پر کھجور کا رنگ اور ذائقہ کے لحاظ سے غلبہ ہے جیسا کہ آئندہ ذکر ہوگا۔ امام محمد کے قول کے بارے میں مَیں نے یہ ترجیحات چند خاص صورتوں میں پائی ہیں اور اس قول کے اطلاق کے بارے میں صریح تصریح میں نے نہیں دیکھی ماسوائے اس کے کہ میں نے جوہرہ میں پایا جس میں انہوں نے شیخ قدوری کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے امام محمد کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ''فغیر احد ا وصافہ'' اھ حالانکہ اس سے قبل جوہرہ نے کہا کہ شیخ نے اشارہ دیا ہے کہ اوصاف کا اعتبار ہے حالانکہ اصح یہ ہے کہ اوصاف کے بجائے اجزاء کا اعتبار ہے اھ (ت)


 (۱؎ الجوہرۃ النیرۃ     ابحاث الماء    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)


اقول: یبتنی(۱)علی جعل احد(عـہ)للتقیید وقد علمت مافیہ (میں کہتا ہوں کہ جوہرہ کا ''احد اوصافہ'' کے ذریعہ امام محمد کے قول کی ترجیح سمجھنا لفظ ''احد'' کو قید بنانے پر موقوف ہے حالانکہ اس میں بحث تم معلوم کرچکے ہو۔ ت) اب یہاں بعض ابحاث ہیں۔


(عـہ)اقول وھذا ایضا(۲)من دلائل انھم لم یریدوالتقیید والا لکان اختیارالقول محمد وھذا نص الھدایۃ عبر باحد الاوصاف وصحح قول ابی یوسف ۱۲ منہ غفرلہ (م)

میں کہتا ہوں یہ بھی اس بات پر ایک دلیل ہے کہ فقہاء نے تقیید مراد نہیں لی، ورنہ امام محمد کے قول کو ترجیح ہوجائے گی اور ہدایہ کی نص یہ ہے ''احد الاوصاف'' سے تعبیر کرکے امام یوسف کے قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ (ت)


بحث اوّل تنقیح مذہب۔


اقول: اس قول کے نقل میں عبارات مختلف آئیں اور اشہر یہ ہے کہ پانی میں اگر کوئی بہتی ہوئی چیز ملے تو امام محمد اوّلاً رنگ کا اعتبار فرماتے ہیں، اگر اُس کا رنگ پانی پر غالب آجائے قابلِ وضو نہیں ورنہ ہے، اور جس کا رنگ پانی کے خلاف نہ ہو اس میں مزے کا لحاظ فرماتے ہیں اس کا مزہ غالب ہو تو وضو ناجائز ورنہ جائز، اور جس کا مزہ بھی مخالف نہ ہو اس میں اجزاء پر نظر فرماتے ہیں اگر برابر یا زیادہ مقدار پر پانی میں مل جائے تو وضو صحیح نہیں ورنہ صحیح۔


فاولاً تقدم فی ۱۰۷ عن الحلیۃ عن الذخیرۃ والتتمۃ محمد اعتبر غلبۃ المخلوط لکن فی بعضھا اشار الی الغلبۃ من حیث اللون وفی بعضھا الی سلب الرقۃ ۲؎ اھ


اولاً،۱۰۷ میں حلیہ کا قول ذخیرہ اور تتمہ کے حوالہ سے گزرا ہے کہ امام محمد کا پانی میں مخلوط چیز کے غلبہ کا اعتبار کرتے ہیں لیکن بعض صورتوں میں وہ رنگ کے لحاظ سے اور بعض میں رقّت سلب ہونے کے لحاظ سے غلبہ قرار دیتے ہیں اھ


(۲؎ حلیہ)


ونقل فی الفتح عن بعضھم ان محمدایعتبرہ باللون وابایوسف بالاجزاء قال وفی المحیط عکسہ والاول اثبت فان صاحب الاجناس نقل قول محمد نصا بمعناہ ثم نقل کالحلیۃ عن الاجناس قال محمد فی الماء الذی یطبخ فیہ الریحان والاشنان اذالم یتغیر لونہ حتی یحمر بالاشنان اویسود بالریحان وکان الغالب علیہ الماء فلاباس بالوضو بہ فمحمد یراعی لون الماء وابویوسف غلبۃ الاجزاء ۱؎ اھ ومرفی بحث غلبۃ الاجزاء عن مجمع الانھر انہ قول ابی یوسف ومحمد اعتبر اللون فی الصحیح عنہ ۲؎ اھ


اور فتح القدیر میں بعض سے منقول ہے کہ امام محمد غلبہ میں رنگ کا اور امام ابویوسف اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں۔ اور محیط میں اس کا عکس بتایا ہے جبکہ اول زیادہ قوی ہے کیونکہ صاحب الاجناس نے امام محمد کے قول کو نصاً نقل کیا ہے پھر اس کو حلیہ نے اجناس سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس پانی میں ریحان (گل بابونہ) اور اشنان بوٹی پکائے گئے ہوں تو جب تک اشنان کی وجہ سے پانی سُرخ اور ریحان کی وجہ سے سیاہ ہوکر متغیر نہیں ہوتا اس وقت تک پانی غالب رہے گا لہٰذا اس سے وضو جائز ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام محمد پانی کے رنگ کا اور امام ابویوسف اجزاء کے غلبہ کا اعتبار کرتے ہیں اھ اور مجمع الانہر کے غلبہ کی بحث میں گزرا کہ اجزاء کا غلبہ امام ابویوسف کا قول ہے اور امام محمد رنگ کا اعتبار کرتے ہیں ان سے صحیح طور یہی مروی ہے اھ،


 (۱؎ فتح القدیر        باب الماء الذی یجوزبہ الوضو ومالایجوز    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)

(۲؎ مجمع الانہر    فصل تجوز الطہارۃ بالماء المطلق        مطبعۃ عامرہ مصر    ۱/۲۸)


وفی الجوھرۃ النیرۃ عن الفتاوی الظہیریۃ محمد اعتبر اللون وابویوسف الاجزاء ۳؎ اھ وفی جامع الرموز اعتبر الغلبۃ من حیث الاجزاء کما قال ابویوسف وفی روایۃ عن محمد واشھر قول محمد ان المعتبر اللون کمافی حاشیۃ الھدایۃ ۴؎ اھ فھؤلاء واٰخرون اقتصروا علی اللون۔


جوہرہ نیرہ میں فتاوٰی ظہیریہ سے منقول ہے کہ امام محمد رنگ اور امام ابویوسف اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں اور جامع الرموز میں ہے کہ غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہوگا جیسا کہ امام ابویوسف کا قول ہے اور ایک روایت میں یہ قول امام محمد کا ہے لیکن مشہور قول امام محمد کا یہ ہے کہ وہ رنگ کا اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ ہدایہ کے حاشیہ میں ہے اھ پس ان مذکور حضرات اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات نے امام محمد کے قول میں صرف رنگ کا ذکر کیا ہے۔ (ت)


 (۳؎ الجوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارت            مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)

(۴؎ جامع الرموز    مکتبہ کریمیہ گنبد قاموس ایران                ۱/۴۶)


وثانیا: فی الحلیۃ عن المحیط الرضوی العبرۃ عند محمد لغلبۃ الاجزاء دون اللون اوالطعم وعند ابی یوسف للون اوالطعم فان لم یوجد کل منھما فغلبۃ الاجزاء ۱؎ اھ قال وعزاہ فی المحیط الی النوادر اھ وھذا وانکان فیہ عکس النسبت وقد ثبت ان الاول اثبت فالنظر ھھنا الی تردیدہ بین اللون والطعم ثم تقدیھما علی الاجزاء۔


ثانیاً، حلیہ میں محیط رضوی سے منقول ہے کہ امام محمد کے ہاں اجزاء کے غلبہ کا اعتبار ہے رنگ اور ذائقہ کا اعتبار نہیں اور امام ابویوسف کے ہاں رنگ یا ذائقہ کا اعتبار ہے اگر دونوں نہ ہوں تو پھر وہ اجزاء کے غلبہ کا اعتبار کرتے ہیں اھ اور کہا کہ اس کو محیط میں نوادر اقوال میں شمار کیا ہے اھ اس بیان میں اگرچہ غلبہ کے معیار کی نسبت برعکس ہے جبکہ پہلی مذکورہ نسبت زیادہ قوی ہے تاہم اس بیان میں رنگ اور ذائقہ کی تردید اور پھر ان دونوں کے بعد اجزاء کا اعتبار مذکور ہے۔ (ت)


 (۱؎ حلیہ)


وثالثا مرفی البحث المذکور عن العنایۃ محمد یعتبر الغلبۃ باللون ثم الطعم ثم الاجزاء اھ وفی التبیین ذکر الاسبیجابی ان الغلبۃ تعتبر اولا من حیث اللون ثم الطعم ثم الاجزاء ۲؎ اھ


ثالثاً، عنایہ سے منقول ہو کر گزشتہ بحث میں گزرا کہ امام محمد غلبہ میں رنگ پھر ذائقہ اور پھر اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں اھ اور تبیین میں ہے امام اسبیجابی نے ذکر کیا ہے کہ پہلے رنگ کے غلبہ پھر ذائقہ اور پھر اجزاء کا اعتبار کیا جائے گا اھ


 (۲؎ العنایۃ    الماء الذی یجوز بہ الوضو    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۴)


ونقل فی الشلبیۃ عن یحییٰ عن الامام الاسبیجابی بلفظ ان الماء ان اختلط بہ طاھر فان غیر لونہ فالعبرۃ للون مثل اللبن والخل والزعفران یختلط بالماء وان لم یغیر لونہ بل طعمہ فالعبرۃ للطعم مثل ماء البطیخ والاشجار والثمار والانبذۃ وان لم یغیر لونہ وطعمہ فالعبرۃ للاجزاء فان غلب اجزاؤہ علی اجزاء الماء لایجوز الوضو بہ کالماء المعتصر من الثمر والاجازکالماء المتقاطرمن الکرم بقطعہ ۱؎ اھ


اور شلبیہ میں یحییٰ کے ذریعہ امام اسبیجابی سے منقول ہے کہ اگر پانی میں کوئی پاک چیز مل جائے تو اس سے اگر رنگ متغیر ہوا تو رنگ کا اعتبار ہوگا جیسا کہ دودھ، سرکہ اور زعفران ہو۔ اور اگر اس سے رنگ نہ بدلے بلکہ ذائقہ بدلا ہو تو پھر ذائقہ کا اعتبار کیا جائےگا، جیسا کہ تربوز کا پانی یا درختوں،پھلوں اور نبیذوں کا پانی ہو۔ اور اگر رنگ اور ذائقہ تبدیل نہ ہو تو پھر اجزاء کا اعتبار ہوگا جب پانی کے اجزاء پر ملنے والی چیز کے اجزاء غالب ہوجائیں تو وضو جائز نہ ہوگا جیسا کہ پھلوں کا جُوس ہو، اور اگر رنگ، ذائقہ اور اجزاء کا غلبہ نہ ہو تو پھر وضو جائز ہوگا جیسا کہ انگور کا پودا کاٹنے پر اس سے جٹپکنے والا پانی ہو اھ


 (۱؎ شلبیۃ علی التبیین     کتاب الطہارۃ    الامیریہ مصر        ۱/۲۰)


ومثلہ فی خزانۃ المفتین صدر بقولہ اذا اختلط شیئ بالماء تعتبر الغلبۃ من حیث اللون ثم الطعم ثم الاجزاء ثم ذکر معناہ سواء بسواء غیر انہ قال فی الشق الاخیر العبرۃ فیہ لکثرۃ الاجزاء انکان اجزاء الماء اکثر یجوز والالا ۲؎ اھ


اور ایسا ہی خزانۃ المفتین میں ہے صرف شروع میں انہوں نے کہا کہ جب پانی میں کوئی چیز ملے تو اعتبار رنگ، ذائقہ پھر اجزاء کا ہوگا پھر اس کا معنیٰ ذکر کیا سواء بسواء، سوائے اس کے کہ آخری شق میں کہا کہ اعتبار کثرت اجزاء کا ہے اگر پانی کے اجزاء غالب ہوں تو وضو جائز ہوگا، ورنہ نہیں اھ


 (۲؎ خزانۃ المفتین)


ومثلہ فی جامع الرموز عن الزاھدی وغیرہ وبدایتہ الطاھران خالف الماء لونا کاللبن والعصیر والخل وماء الزعفران فالعبرۃ لللون ۳؎ الخ فذکر ماء الزعفران مکان الزعفران ومثلہ فی البنایۃ عن شرح القدوری زاد الفقہاء بلفظ ماء الزعفران وکذلک فی الحلیۃ وقد عزاہ ایضا للزیلعی عن الاسبیجابی۔


اسی کے مثل جامع الرموز کی عبارت ہے جو یوں شروع ہوتی ہے کہ اگر ایسی پاک چیز ہو جو رنگ میں پانی کے مخالف ہو جیسے دودھ، سرکہ، جوس اس زعفران کا پانی وغیرہ تو اس میں رنگ کا اعتبار ہے الخ انہوں نے زعفران کے بجائے زعفران کے پانی کو ذکر کیا ہے۔ بنایہ میں بھی شرح قدوری زاد الفقہاءسےایسے ہی منقول ہے کہ زعفران کے ساتھ پانی کا لفظ بڑھایا ہے۔ اور یوں ہی حلیہ میں ہے اور اس کو زیلعی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے اسبیجابی سے نقل کیا ہے۔ (ت)


 (۳؎ جامع الرموز    کتاب الطہارۃ    اسلامیہ گنبد ایران    ۱/۴۶)


اقول :لکن عبارۃ الزیلعی عنہ ماقد سمعت وقال القھستانی اٰخر نقلہ المار فالاعتبار اولا لللون ثم الطعم ثم الاجزاء ۱؎ اھ وفی البرجندی ذکر فی الھدایۃ انہ یعتبر فی الغلبۃ اولا لللون ثم الطعم ثم الاجزاء فان خالف لونہ لو الماء کاللبن والزعفران ۲؎ الخ


میں کہتا ہوں کہ زیلعی کی امام اسبیجابی سے نقل کردہ عبارت آپ سن چکے ہیں، قہستانی نے گزشتہ نقل شدہ عبارت کے آخر میں فرمایا لہٰذا پہلے رنگ پھر ذائقہ اور اس کے بعد اجزاء کا اعتبار ہوگا اھ اور برجندی میں ہے کہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ غلبہ میں پہلے رنگ پھر ذائقہ اور پھر اجزاء کا اعتبار کیا جائےگا، پس اگر اس کا رنگ پانی کے رنگ کے مخالف ہو، جیسے دودھ اور زعفران الخ (ت)


 (۱؎ جامع الرموز    کتاب الطہارت    اسلامیہ گنبد ایران    ۱/۴۶)

(۲؎ نقایۃ برجندی     ابحاث الماء        نولکشور لکھنؤ        ۱/۳۲)

میں کہتا ہوں ہدایہ میں یہ مذکور نہیں، ہوسکتا ہے کہ لکھنے والے کی طرف سے زیادتی ہو، ان تمام حضرات نے تمام امور میں ترتیب کو تو ذکر کیا ہے لیکن پانی میں ملنے والی پاک چیز کو بہنے والی قید سے مطلق رکھا اور اس سے مقید نہ کیا، اور اسبیجابی اور سمعانی اور برجندی نے اس پاک چیز کی مثال زعفران کو ذکر کیا لیکن حلبی، عینی، زاہدی، زادالفقہاء وغیرہم نے مثال کو زعفران کے پانی سے مقید کیا۔ (ت)


و رابعاً: قال الامام ملک العلماء فی البدائع الماء المطلق اذاخالطہ شیئ من المائعات الطاھرۃ کاللبن والخل ونقیع الزبیب ونحو ذلک علی وجہ زال عنہ اسم الماء بان صار مغلوبا بہ فھو بمعنی الماء المقید ثم ینظر ان کان الذی خالطہ مما یخالف لونہ لون الماء کاللبن وماء العصفر والزعفران و نحو ذلک تعتبر الغلبۃ فی اللون وان کان لایخالف الماء فی اللون ویخالفہ فی الطعم کعصیر العنب الابیض وخلہ تعتبر الغلبۃ فی الطعم وان کان لایخالفہ فیھماتعتبرالغلبۃ فی الاجزاء فان استویافی الاجزاء لم یذکر ھذا فی ظاھر الروایۃ وقالواحکمہ حکم الماء المغلوب احتیاطاھذا اذالم یکن الذی خالطہ مما یقصد منہ زیادۃ نظافۃ فان کان مما یقصد منہ ذلک ویطبخ بہ اویخالط بہ کماء الصابون والاشنان یجوز التوضی بہ وان تغیر لون الماء اوطعمہ او ریحہ لان اسم الماء باق وازداد معناہ وھو التطھیر وکذلک جرت السنۃ فی غسل المیت بالماء المغلی بالسدر والحرض فیجوز الوضو بہ الا اذاصارغلیظا کالسویق المخلوط لانہ حینئذ یزول عنہ اسم الماء ومعناہ ایضا ولوتغیر الماء المطلق بالطین اوبالتراب اوبالجص اوبالنورۃ اوبوقوع الاوراق اوالثمار فیہ اوطول المکث یجوز التوضو بہ لانہ لم یزل عنہ اسم الماء وبقی معناہ ایضامع مافیہ من الضرورۃ الظاھرۃ لتعذرصون الماء عن ذلک،


رابعاً، امام ملک العلماء نے بدائع میں فرمایا کہ مطلق پانی میں جب کوئی بہنے والی پاک چیز مل جائے جیسے دودھ، سرکہ اور خشک انگور سے بنا ہوا شربت اور ان جیسی دوسری اشیاء جن کی وجہ سے پانی کا نام بدل جائے اور پانی مغلوب ہوجائے تو اس صورت میں وہ پانی مطلق نہ رہے گا بلکہ مقید ہوجائےگا پھر اس کے بعد معلوم کیاجائے گا کہ جو چیز پانی میں ملی ہے اگر اس کا رنگ پانی کے رنگ کے مخالف ہو تو غلبہ میں رنگ کا اعتبار کیا جائے گا،جیسے دودھ، عصفر اور زعفران کا پانی اور اگر وہ رنگ میں مخالف نہ ہو اگر وہ ذائقہ میں مخالف ہو تو غلبہ میں ذائقہ کا اعتبار کیا جائے گا جیسے سفید انگور کا جوس اور اس کا سرکہ ہو، اور اگر وہ چیز ان دونوں وصفوں میں مخالف نہ ہو تو پھر اجزاء کے لحاظ سے غلبہ کا اعتبار ہوگا، اور اگر دونوں کے اجزاء برابر ہوں تو اس صورت کو ظاہر روایت میں ذکر نہیں کیا گیا جبکہ فقہاء نے کہا ہے کہ اس صورت کا حکم بھی مغلوب والا ہوگا اس میں احتیاط ہے۔ یہ تفصیل اس صورت میں ہے جبکہ پانی میں ملنے والی چیز سے زیادہ نظافت مقصود نہ ہو، اور اگر اس سے نظافت مقصود ہو اور اسی مقصد کیلئے اس کو پانی میں پکایا گیا ہو یا ملایا گیا ہو جیسے صابون اور اشنان کا پانی تو اس صورت میں اس سے وضو جائز ہوگا اگرچہ اس صورت میں پانی کا رنگ، بو اور ذائقہ بھی تبدیل ہوجائے کیونکہ ابھی اس کو پانی کہیں گے اور پانی کی معنوی حیثیت یعنی تطہیر میں اضافہ ہوا ہے اسی لئے میت کو غسل دینے میں بیری کے پتّوں سے پکایا ہوا پانی اور اشنان والا پانی استعمال کرنے کا طریقہ مروّج ہے لہٰذا اس سے وضو جائز ہوگا، ہاں اگر اس صورت میں پانی زیادہ گاڑھا ہو کر ستوؤں کی طرح ہوجائے تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس کو پانی نہیں کہا جاتا اور نہ ہی اس میں پانی کی معنوی حیثیت باقی رہی ہے، اور اگر پانی میں گارا، غبار، چُونا، نورہ پتّے گرنے یا پھل گرنے یا دیر تک پانی پڑے رہنے کی وجہ سے مطلق پانی میں تغیر واقع ہوا تو اس سے وضو جائز ہے کیونکہ ابھی پانی کا نام تبدیل نہیں ہوا اور اس کی معنوی حیثیت بھی باقی ہے، نیز اس میں ظاہری ضرورت بھی ہے کیونکہ عام طور پر پانی کو مذکورہ چیزوں سے محفوظ کرنا مشکل ہوتا ہے۔


وقیاس ماذکرناانہ لایجوز الوضو بنبیذ التمر لتغیر اسم الماء وصیرورتہ مغلوبا بطعم التمر فکان فی معنی الماء المقید وبالقیاس اخذ ابویوسف الا ان اباحنیفۃ ترک القیاس بالنص(ثم افاض فی بحث النص الی ان قال) ثم لابد من معرفۃ نبیذ التمر الذی فیہ الخلاف وھوان یلقی شیئ من التمر فی الماء فتخرج حلاوتہ الی الماء فمادام حلوا رقیقااوقارصا یتوضو بہ عند ابی حنیفۃ وان کان غلیظا کالرب لایجوز بلاخلاف ھذا اذا کان نیأ فان کان مطبوخا ادنی طبخۃ فمادام حلوااوقارصا فھو علی الاختلاف وان غلا واشتد وقذف بالزبد ذکر القدوری فی شرحہ لمختصرالکرخی الاختلاف فیہ بین الکرخی وابی طاھر الدباس علی قول الکرخی یجوز و علی قول ابی طاھر لایجوز وجہ قول الکرخی ان اسم النبیذ کمایقع علی النیئ منہ یقع علی المطبوخ فیدخل تحت النص ولان الماء المطلق اذا اختلط بہ المائعات الطاھرۃ یجوز التوضو بہ بلاخلاف بین اصحابنا اذا کان الماء غالبا وھھنا اجزاء الماء غالبۃ علی اجزاء التمر فیجوز التوضو بہ وجہ قول ابی طاھر ان الجواز عرف بالحدیث والحدیث ورد فی النیئ واما قولہ ان المائع الطاھر اذا اختلط بالماء لایمنع التوضو بہ فنعم اذالم یغلب علی الماء اصلا فاما اذاغلب علیہ بوجہ من الوجوہ فلاوھھنا غلب علیہ من حیث الطعم واللون  وان لم یغلب من حیث الاجزاء فلایجوز التوضو بہ وھذا اقرب القولین الی الصواب ۱؎ اھ کلامہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وانما سقناہ وان تقدم اکثرہ مفرقاللتنبیہ علی فوائد ستعرفھا ان شاء اللّٰہ تعالٰی،


 (۱؎ بدائع الصنائع    الماء المقید    مطبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۵ ، ۱۷)


اسی قاعدہ کی بنا پر نبیذ تمر سے وضو ناجائز ہے کیونکہ اس پر پانی کا نام نہیں بولاجاتا اور وہ کھجور کے ذائقہ سے مغلوب ہوچکا ہے لہٰذا وہ مقید پانی ہے اس کے بارے میں امام یوسف نے قیاس پر عمل کیا ہے لیکن امام ابوحنیفہ اس بارے میں نص کے پائے جانے کی وجہ سے قیاس کو ترک فرمایا (اس کے بعد ملک العلماء نے نص کے بارے بحث فرمائی) اور اس کے بعد کہا پھر جس نبیذتمر میں اختلاف ہے اس کی معرفت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ پانی پر کچھ کھجوریں ڈال دی جائیں تو کھجوروں کی مٹھاس پانی میں منتقل ہوجائے پس جب تک وہ پانی پتلا میٹھا یا ترش رہے تو اس سے امام ابوحنیفہ کے نزدیک وضو جائز ہے اور اگر وہ نبیذ غلیظ ہوکر چاس (راب) کی طرح ہوجائے تو اس سے بالاتفاق وضو ناجائز ہے یہ مذکورہ صورت کچّے نبیذ کیلئے ہے اور اگر اس کو کچھ قدرے پکالیا جائے تو اس کی رقّت مٹھاس یا ترشی کے ساتھ باقی ہے تو اس میں بھی وہی اختلاف ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک وضو جائز ہے اور اگر وہ نبیذ کچّا یا پکّا ہونے کی صورت میں اُبل جائے اور جھاگ چھوڑ دے جس کی وجہ سے اس میں شدت پیدا ہوجائے تو امام کرخی کی کتاب مختصر کی شرح میں قدوری نے ذکر کیا ہے کہ اس صورت میں امام کرخی اور ابوطاہر الدباس کا اختلاف ہے امام کرخی اس سے وضو جائز کہتے ہیں اور ابوطاہر کے قول پر ناجائز ہے۔ امام کرخی کے قول کی وجہ یہ ہے کہ نبیذ کا نام کچّے اور پکّے دونوں پر بولا جاتا ہے لہٰذا یہ دونوں صورتیں نص (حدیث) کے حکم میں داخل ہیں، کیونکہ جب مطلق پانی میں کوئی پاک چیز بہنے والی مل جائے تو ہمارے اصحاب کے ہاں بلااختلاف اس سے وضو جائز ہے بشرطیکہ پانی غالب رہے، تو یہاں چونکہ کھجور کے اجزاء پر پانی کے اجزاء غالب ہیں لہٰذا اس سے وضو جائز ہوگا۔ اور ابوطاہر کے قول کی وجہ یہ ہے کہ نبیذ سے وضو کا جواز صرف حدیث سے ثابت ہے اور وہ حدیث کچے نبیذ کے بارے میں وارد ہوئی ہے امام کرخی کے اس قول کہ پانی میں بہنے والی پاک چیز کے ملنے سے وضو ناجائز نہیں ہوتا الخ، کا جواب یہ ہے کہ ہاں یہ درست ہے لیکن اس صورت میں جبکہ کسی طرح بھی پانی پر غلبہ نہ پائے اور اگر ملنے والی چیز نے کسی طرح پانی پر غلبہ پالیا  تو پھر وضو جائز نہیں ہے جبکہ یہاں مذکورہ صورت میں کھجور نے رنگ اور ذائقہ کے اعتبار سے پانی پر غلبہ حاصل کرلیا ہے اگرچہ اجزاء کے لحاظ سے اس کا غلبہ نہیں ہوا،اس لئے اس سے وضو ناجائز ہوگا،اور یہ ابوطاہر کا قول زیادہ درست ہے اھ امام ملک العلماء رحمہ اللہ تعالٰی کے اس کلام کو ہم نے پورا کردیا ہے یہ بتانے کیلئے کہ اس میں بہت فوائد ہیں جو آپ کو آئندہ معلوم ہوں گے، اگرچہ متفرق طور پر ان کا اکثر کلام پہلے ذکر ہوچکا ہے،


وقال فی رسائل الارکان الماء المطلق اذا خالطہ مائع وغلب علیہ لایجوز التوضی بہ والایجوز وتعرف الغلبۃ بان ینظر ان کان المائع مخالفا فی اللون کاللبن وماء الزعفران وماء العصفر یعتبر الغلبۃ فی اللون وان کان موافقا لہ فی اللون ومخالفا فی الطعم کماء الورد وعصیر العنب الابیض تعتبر الغلبۃ فی الطعم وان کان لایخالفہ اصلا کالماء(عـہ۱) تعتبر الغلبۃ بالکثرۃ کذا فی فتح القدیر نقلا عن بعض شروح الکنز ۲؎ اھ۔


اور رسائل الارکان میں فرمایا ہے کہ مطلق پانی میں جب کوئی بہنی والی چیز مل کر غالب ہوجائے تو وضو ناجائز ہے ورنہ وضو جائز ہے  اور غلبہ کی پہچان یہ ہے کہ پانی میں ملنے والی مائع چیز اگر رنگ میں پانی کے مخالف ہو تو رنگ کو غلبہ کا معیار قرار دیا جائےگا، جیسے دودھ، زعفران اور عصفر کا پانی اور اگر وہ رنگ میں موافق اور ذائقہ میں مخالف ہو تو غلبہ میں ذائقہ کا اعتبار کیا جائےگا، جیسے عرقِ گلاب، سفید انگور کا جوس اور اگر ان دونوں وصفوں میں پانی کے مخالف نہ ہو جیسے پانی تو پھر غلبہ میں کثرت کا اعتبار ہوگا، کنز کی بعض شروح سے فتح القدیر میں یوں بیان کیاگیا ہے اھ ات


(عـہ۱)لعلہ کالماء المستعمل فسقط من قلم الناسخ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

کالماء (جیسے پانی) ہوسکتا ہے یہ لفظ کالماء المستعمل (جیسے مستعمل پانی) ہو، جس کو کاتب کے قلم نے پورانہ لکھا ہو ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)


 (۲؎ رسائل الارکان    فصل فی المیاہ    مطبع علوی فرنگ محلی   ص۲۴)


اقول: ولیس فی الھدایۃ فلعلہ من تصحیفات الناسخ فھٰؤلاء رتبوا بین الکل واطلقوا الطاھر غیر مقیدیہ بالمائع وقد مثل الاسبیجابی والسمعانی والبرجندی بالزعفران لکن ابدلہ الحلبی والعینی والزاھدی و زاد الفقھاء وغیرھم بماء الزعفران۔

اقول: وھو سبق قلم فلا اثر منہ فی الفتح ففی ھذا التنصیص وعلی التخصیص بالمائع۔


میں کہتا ہوں کہ فتح القدیر میں اس عبارت کا کوئی نشان نہیں ہے یہ کاتب کے قلم کی غلطی ہے، تاہم رسائل الارکان کی اس عبارت میں پانی میں ملنے والی چیز کے بارے میں مائع ہونے کی نص ہے جس سے یہ مذکور حکم خاص ہے۔ (ت)


خامسا: تراھم جمیعا لم یذکروا الرائحۃ بل نصوص عـہ النوادر(۱) والامام الاسبیجابی(۲) والامام ملک العلماء(۳)والمحیط الرضوی(۴) وزاد الفقہاء(۵) والامام الزیلعی (۶) وخزانۃالمفتین(۷) و العنایۃ(۸) والبنایۃ(۹) والزاھدی(۱۰) والبرجندی(۱۱)  والقھستانی (۱۲) ویحییٰ(۱۳) وابن الشلبی(۱۴) وغیرھم ناطقۃ بنفی اعتبارھا حیث احالو الامر بعد اللون والطعم علی الاجزاء لاجرم ان قال بحرالعلوم فی رسائل الارکان لم اراعتبار الغلبۃ بالریح فی کتاب ۱؎ اھ۔


خامساً، آپ دیکھ رہے ہیں کہ فقہاء میں سے کسی نے بھی غلبہ میں بُو والے وصف کو ذکر نہیں کیا بلکہ درج ذیل کتب النوادر(۱)، الامام الاسبیجابی(۲)، الامام ملک العلماء(۳)، المحیط الرضوی(۴)، زاد الفقہاء(۵)، الامام الزیلعی(۶)، خزانۃ  المفتین(۷)، العنایۃ(۸)، البنایۃ(۹) الزاہدی(۱۰)، البرجندی(۱۱)، القہستانی(۱۲)، یحییٰ(۱۳)، اور ابن شلبی (۱۴) وغیرہم 

ی نصوص بُو کے اعتبار کی نفی پر ناطق ہیں جہاں انہوں نے رنگ اور زائقہ کے بعد ذائقہ کی بجائے اجزاء کے غلبہ کو ذکر کیا ہے اسی لئے مجبوراً بحرالعلوم کو رسائل الارکان میں کہنا پڑا کہ میں نے کسی کتاب میں غلبہ کیلئے بُو کا اعتبار نہیں جدیکھا اھ (ت)


عــہ الاضافۃ للعھدای التی تقدمت ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م) نصوص کی کتب مذکورہ کی طرف، اضافت عہدی ہے یعنی گزشتہ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ رسائل الارکان    فصل فی المیاہ        یوسف فرنگی محلی لکھنؤ    ص۲۴)


اقول : بلی قال(۱) الامام فقیہ النفس فی الخانیۃ عند ابی یوسف تعتبر الغلبۃ من حیث الاجزاء لا من حیث اللون ھو الصحیح وعلی قول محمد اعتبر الغلبۃ بتغیر الطعم واللون والریح ۱؎ اھ وقد نقلہ عنھا فی النھایۃ والبنایۃ والحلیۃ والشلبیۃ وقال فی الحلیۃ بعد نقلہ فزاد فی قول محمد الطعم والریح ۲؎ اھ وتقدم فی ۲۱۷ قول الخانیۃ ایضا لوطبخ وریح الباقلاء یوجد منہ لایجوز ۔


میں کہتا ہوں کہ ہاں امام فقیہ النفس نے خانیہ میں کہا ہے کہ امام یوسف کے نزدیک غلبہ میں رنگ کے بجائے اجزاء کا اعتبار ہے اور یہی صحیح ہے، اور امام محمد کے قول پر غلبہ میں رنگ، ذائقہ اور بُو کے متغیر ہونے کا اعتبار کیا جائے گا اھ خانیہ کی اس عبارت کو نہایہ، بنایہ، حلیہ اور شلبیہ میں نقل کیا گیا ہے اور حلیہ میں اس کو نقل کرنے کے بعد زائد یہ کہا کہ امام محمد کے قول میں ذائقہ اور بُو کا اعتبار ہے اھ اور نمبر ۲۱۷ میں خانیہ کا بھی قول گزرا ہے کہ اگر پانی میں باقلاء پکایا جائے اور اس کی بُو پانی میں پائی جائے تو اس سے وضو  جائز نہیں ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتاوی قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)

(۲؎ حلیہ)


وسادسا: اغرب جدا فی الجوھرۃ فزعم بعد تصحیح قول ابی یوسف ومحمد اعتبر الاوصاف ان غیر الثلثۃ لایجوز وان غیر واحدا جاز وان غیراثنین لایجوز والشیخ ای القدوری اختارقول محمد حیث قال فغیر احد اوصافہ ۳؎ اھ ھکذا جاء الاختلاف والمسئول من اللّٰہ تعالی التنقیح التطبیق اوالترجیح۔


سادساً، جوہرہ میں غریب ترین بات ہے انہوں نے امام یوسف کے قول کو صحیح قرار دینے کے بعد خیال ظاہر کیا کہ امام محمد اوصاف کا اعتبار کرتے ہیں کہ اگر تینوں وصف تبدیل ہوجائیں تو وضوجائز نہیں ہے، اور اگر ایک وصف تبدیل ہوجائے تو وضو جائز  ہے۔ اور شیخ قدوری نے امام محمد کے قول کو ترجیح دی ہے جہاں انہوں نے یہ کہا کہ ایک وصف متغیر ہوجائے اھ یوں مذکورہ بالا عبارات میں پانی پر غلبہ کے معیار میں اختلاف واقع ہوا ہے اور اب اللہ تعالٰی سے تنقیح میں تطبیق یا ترجیح کا سوال ہے۔ (ت)


 (۳؎ الجوہرۃ النیرۃ     کتاب الطہارۃ    مطبع امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)


فاقول: وباللّٰہ التوفیق ماذکر (۱) فی الجوھرۃ مخالف لاجماع الرواۃ عن اٰخرھم الثلثۃ عشر المذکورین فی الخامس والتسعۃ السابقین الاجناس(۱۴) والذخیرۃ(۱۵) والتتمۃ(۱۶) والظہیریۃ(۱۷) والمحیط(۱۸) والفتح(۱۹) والحلیۃ(۲۰) ومجمع    الانھر(۲۱) حتی(۲) الجوھرۃ(۲۲) نفسھا فانھم اجمعوا ان مجرد الغلبۃ باللون یقید الماء عند محمد وھذا یقول ان غیر واحدا جاز  واظن واللّٰہ تعالٰی اعلم انہ کان فی بالہ ان محمدا یعتبر الاوصاف ثم رأی الامام ابا الحسن قید باحد فاخذ مفھومہ فدل علی عبرۃ الاوصاف فظن انہ اختار قول محمد وقد نص ان تغیر واحد لایضر فحسب ان ھذا المفھوم من منطوقہ والمفھوم ھو مذھب محمد ولیس کذلک ولاھو مقصود القدوری کماعلمت،


پس میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں کہ جوہرہ میں جو مذکور ہے وہ تمام راویوں کے اجماع کے خلاف ہے تیرہ(۱۳) راوی جو پانچویں بحث (خامساً) میں مذکور ہیں اور ان سے پہلے نویہ ہیں اجناس(۱۴)، ذخیرہ(۱۵)، تتمہ(۱۶)، ظہیریہ     (۱۷) ، محیط(۱۸)، فتح(۱۹)، حلیہ(۲۰)، مجمع الانہر(۲۱) حتی کہ خود جوہرہ(۲۲) ان سب نے یہ اجماع کیا ہے کہ امام محمد کے نزدیک صرف رنگ کے غلبہ سے پانی مقید ہوجاتا ہے اور یہ (جوہرہ) کہہ رہے ہیں کہ امام محمد کے نزدیک ایک وصف کی تبدیلی سے وضو جائز ہے واللہ اعلم میرا گمان ہے کہ جوہرہ کے دل میں تھا کہ امام محمد اوصاف کا اعتبار کرتے ہیں۔ پھر اس نے امام ابو الحسن کو ایک وصف کو قید بناتے ہوئے دیکھا تو اس سے مفہوم اخذ کرتے ہوئے اوصاف کے اعتبار پر دلالت پائی تو جوہرہ نے گمان کیا کہ انہوں نے امام محمد کے قول کو ترجیح دی ہے اور ایک وصف کے بارے میں نص کردی کہ اس کی تبدیلی سے کوئی مضائقہ نہیں ہے یوں اس کو خیال ہوا کہ امام ابو الحسن قدوری کے منطوق سے جو مفہوم اخذ کیا ہے وہ امام محمد کا قول ہے جس کو انہوں نے ترجیح دی ہے حالانکہ معاملہ یوں نہیں ہے اور نہ ہی یہ قدوری کا مقصد ہے جیسا کہ آپ معلوم کرچکے ہیں۔


ثم قدعلمت ان الجمہورقدنفعوا الاعتبار بالرائحۃ فذکرھا فی الخانیۃ لایکون من زیادۃ ثقۃ بل مخالفۃ ثقۃ السائر الثقات فیکون شذو ذاینا فی الصحۃ وستعلم بعون اللّٰہ تعالٰی ان محمدا لم لم یعتبر الریح ثم اقتصارالاولین علی اللون لاینافی اعتبار غیرہ فان التنصیص علی شیئ لاینفی ماعداہ لاسیما واللون ھو الملحوظ اولا فان لم یکن فغیرہ وکذلک التردید فی اللون والطعم عدم تنصیص علی الترتیب بینھما لاتنصیص علی عدم الترتیب فروایۃ الجم الغفیر بالترتیب زیادۃ ثقات واجبۃ القبول بقی النظر فی ان الحکم ھل یشمل الجامد کما ھو مقتضی اطلاق الامام الاسبیجابی وتمثیلہ بالزعفران ام یختص بالماء کما ھو نص الامام ملک العلماء ۔


پھر اس بحث سے معلوم ہوگیا ہے کہ جمہور نے غلبہ میں بُو کی تبدیلی کے اعتبار کی نفی کی ہے، خانیہ میں بُو کا ذکر کسی ثقہ شخص کی طرف سے زائد چیز کا اثبات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ثقہ شخص کی طرف باقی تمام ثقہ لوگوں کی مخالفت ہے۔ لہٰذا یہ صحت کے منافی ایک شذوذ ہے عنقریب آپ کو بعون اللہ یہ معلوم ہوجائے گا کہ امام محمد نے بُو کا اعتبار کیوں نہیں کیا،پھر یہ کہ پہلے حضرات کا صرف رنگ کو ذکر کرنا باقی اوصاف کی نفی نہیں ہے کیونکہ ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کی نفی نہیں کرتا خصوصاً جبکہ اوصاف میں سے رنگ کا اعتبار پہلے کیا جاتا ہو کہ اگر رنگ تبدیل نہ ہو پھر دوسرے اوصاف کی تبدیلی کا لحاظ کیا جائے گا یوں ہی رنگ اور ذائقہ میں سے کسی ایک کا بیان اگرچہ یہ ترتیب پر نص نہیں ہے لیکن یہ عدمِ ترتیب پر بھی نص نہیں ہے اس لئے ان دونوں کی ترتیب جس کو ایک جِم غفیر نے ذکر کیا ہے قبول کرنا ضروری ہے، رہی یہ بحث کہ (پانی میں ملنے والی چیز جس سے اوصاف تبدیل ہوتے ہیں) اس غلبہ کا حکم جامد چیز کو بھی شامل ہے جیسا کہ امام اسبیجابی کے اطلاق اور اس کی مثال میں زعفران کے ذکر سے ظاہر ہوتا ہے یا یہ حکم صرف مائع چیز کو ہی خاص ہے جیسا کہ امام ملک العلماء کی نص سے ظاہر ہے ۔


واری لکل منھما مؤیدات اما الشمول فاقول اولا تقدم فی صدر ھذا البحث عن الفتح والحلیۃ عن الاجناس عن نص محمد اعتبار الالوان فی طبیخ الریحان والاشنان وماھما الا من الجامدات وثانیا مرفی ۱۲۲ عن الحلیۃ والفتح عن التجنیس ان اعتبار الجرجانی فی الزاج والعفص صلوح النقش تفریع علی اعتبار الغلبۃ بالاجزاء فافھم ان علی اعتبارھا بالاوصاف یتقید بمجرد التلون وان لم یصلح النقش وثالثا خص البدائع بالمائع ثم ذکران قیاسہ عدم الجواز نبیذ التمر لغلبۃ طعمہ فاعتبرہ فی الجامد و رابعا کذلک اجاب من قبل ابی طاھر فی مطبوخہ واحتج بغلبۃ اللون والطعم وقد عبّرھھنا ایضا فی کلامی الکرخی والدباس بالمائع مع ان الکلام فی الجامد۔


میری رائے میں دونوں احتمالات کی تائید میں دلائل ہیں، جامد اور مائع دونوں کا حکم میں شامل ہونا پس اس پر میں کہتا ہوں، اوّلاً، اس لئے کہ اس بحث کی ابتدا میں فتح اور حلیہ کی الاجناس سے نقل کردہ روایت گزر چکی ہے جس میں ریحان اور اشنان کے پکے ہوئے پانی میں ان کے رنگوں کے اعتبار کے بارے میں محمد کی نص کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ وہ دونوں صرف جامد چیزیں ہیں۔ ثانیا اس لئے نمبر ۱۲۲ میں تجنیس کے حوالہ سے حلیہ اور فتح کی روایت گزر چکی ہے کہ جرجانی کا زاج اور عفص (گھاس) میں نقش کی صلاحیت کا اعتبار کرنا یہ اجزاء کے لحاظ سے غلبہ کے اعتبار پر تفریع ہے، یہاں قابلِ فہم یہ بات ہے کہ ان میں اوصاف کے اعتبار کا تعلق صرف رنگ دار ہونے پر ہے نقش کی صلاحیت کا اس میں دخل نہیں ہے۔ ثالثاً، اس لئے کہ بدائع نے اس حکم کو مائع چیز کے ساتھ خاص کرنے کے بعد ذکر کیا کہ اس قاعدہ کے مطابق نبیذِتمر سے وضو جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس کے ذائقہ کا غلبہ ہوتا ہے جبکہ یہ ذائقہ والی چیز تمر (کھجور) ہے جو کہ جامد ہے۔ رابعاً، یوں ہی بدائع نے ابوطاہر کی طرف سے پکے ہوئے نبیذ کے بارے میں جواب دیا اور یہاں بھی انہوں نے رنگ اور ذائقہ کے لحاظ سے غلبہ کو دلیل بنایا ہے یہاں بھی امام کرخی اور دباس کے کلام میں اس کو مائع سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ بات جامد میں ہورہی ہے۔ ت)


اقول:ویظھرلی واللّٰہ تعالی اعلم ان تغیرالطعم اواللون انمایکون بالامتزاج ولا یمتزج الجامدبالمائع الاان ینماع شیئ منہ فتسری الاجزاء فی الاجزاء الا تری ان السکر اذاخلط بالماء لایبقی منہ ممتازاعنہ الا شیئ قلیل وکذلک الاصباغ ولو وضعت حجرا اسوداحمراخضراصفر فی الماء لایتلون الماء بلونہ فظھران الامتزاج لایحصل فی مائع الا لمائع وان کان اصلہ جامدا فلعل ھذا ھو سرالتعبیر بالمائع مع الکلام فی الجامدا تقنہ فانہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی بحث نفیس۔


میں کہتا ہوں کہ جامد کو مائع سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ذائقہ اور رنگ کی تبدیلی امتزاج کے بعد پائی جاتی ہے جبکہ جامد چیز کا مائع (بہنے والی) چیز کے ساتھ امتزاج نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ جامد چیز میں بہاؤ پیدا نہ ہو جس کی وجہ سے ایک کے اجزاء دوسرے کے اجزاء میں گرتے ہیں، مثلاً شکر جب پانی میں ملائی جائے تواس کا امتزاج ختم ہوجاتاہے صرف کچھ معمولی اجزاء جدا رہتے ہیں،اسی طرح رنگ کامادہ بھی پانی میں گھُل جاتا ہے لیکن اگر آپ کالا، سرخ، سبز اور زرد پتھر پانی میں رکھ دیں تو اس کی رنگت میں پانی متاثر نہ ہوگا تو واضح ہوگیاکہ امتزاج کیلئے مائع کامائع سے ملنا ضروری ہوتا ہے اگرچہ وہ اصلاً جامد ہی ہو، ہوسکتاہے کہ جامد میں گفتگو کے دوران اس کو مائع سے تعبیر کرنے کی وجہ یہی راز ہو،اس کو یاد رکھیں یہ نفیس بحث ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ (ت)

واما الخصوص فاقول اولا اجمعت الامۃ المرحومۃ واجماعھا حجۃمعصومۃعلی جواز الوضو بماء السیل مع العلم القطعی بتغیر لونہ بل ربما یتغیر الطعم والریح ایضا فثبت ان مجرد تغیر الاوصاف بالجامد لایفید التقییدبالاجماع،


اور اوصاف کی تبدیلی میں صرف مائع چیز کو خاص کرنے کی وجہ، پس میں کہتا ہوں، اوّلاً اس لئے کہ اس اُمت کا اس بات پر اجماع ہے جبکہ یہ اجماعِ اُمت خطا سے محفوظ ہے کہ سیلابی پانی سے وضو جائز ہے حالانکہ یہ قطعی طور پر معلوم ہےکہ اس کا رنگ بلکہ ذائقہ اور بُو تبدیل ہوئے ہوتے ہیں، تومعلوم ہوا کہ جامد چیز کے ملنے سے صرف اوصاف کی تبدیلی کی بنا پر پانی کو مقید قرار نہیں دیاجاسکتا بالاجماع۔


وثانیا:ھذا اجماع ائمتنارضی اللّٰہ تعالٰی عنھم ومنھم محمد ان التمراوالزبیب اوالتین مثلا اذا نقع فی الماء فانتقلت حلاوۃ منھا الیہ فحلا لم یبلغ الی ان یصیر نبیذا فانہ لایتقید ویجوز الوضو بہ اجماعا فمحمد لم یعتبر فیہ الطعم وقال بالجواز مع الاعتراف بتغیرہ بل وتغیر اللون والریح ایضا فمن المعلوم المشھودان اللون اسبق تغیرابھا من الطعم واذاتغیر یوجد لھاریح ایضا قطعا فقد تغیرت الاوصاف الثلثۃ بالجامدات ولم یضر بالاجماع مالم یغلب اجزاء بالمعنی الثالث اعنی صیرورتہ شیئا اٰخرلمقصد اٰخر وھذا ھو الفارق بین النبیذ والسیل فانہ لم یصرشیئا  اخر ولازال عنہ اسم الماء وھذا ھو مذھب ابی یوسف فعلم ان مذھبہ مجمع علیہ فی الجامد وانما الخلف فی المائع۔


ثانیاً اس لئے کہ کھجور، خشک انگور (میوہ) اور خشک انجیر کو پانی میں ڈالنے پر ان کی مٹھاس پانی میں منتقل ہوجائے اور ابھی نبیذ کی حد تک یہ تبدیلی پیدا نہ ہو تو اس شربت سے وضو کے جائز ہونے پر ہمارے تمام ائمہ کرام جن میں امام محمد بھی شامل ہیں کااجماع ہے(تو یہاں امام محمد نے تینوں اوصاف تبدیل ہوجانے کے باوجود ان کی تبدیلی کا لحاظ نہیں کیا) اور وضو کو جائز قرار دیاہے اجتماعی طور پر۔ پس امام محمد نے نبیذ میں طعم کا اعتبار نہیں کیا اور تغیر طعم کے باوجود جواز کا قول کیا ہے بلکہ تغیر لون اور ریح سے بھی جواز کا قول کیا ہے۔اور یہ بات معلوم ہے کہ ان چیزوں کا رنگ ذائقہ سے جلد اثر انداز ہوتا ہے اور جب ذائقہ متغیر ہوگا تو بُو بھی پائی جائے گی، تو معلوم ہُواکہ جامد سے تینوں وصف تبدیل ہونے کے باوجود اس شربت سے بالاتفاق وضو جائز ہے بشرطیکہ غلبہ اجزاء کا تیسرا معنی نہ پایا جائے یعنی کسی دوسرے مقصد کیلئے نئی چیز بن جانا، نہ پایا جائے۔ نبیذ اور سیلاب میں یہی فرق ہے پس سیلاب کی طرح اس شربت نے پانی کا نام تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی کوئی دوسری چیز بنا ہے جبکہ جامد چیز کے بارے میں امام ابویوسف کے مذہب کے موافق سب کا اتفاق ہے اختلاف صرف مائع چیز میں ہے۔


اقول:وبہ خرج الجواب عن الشاھدین الاخیرین فان الکلام فیھمافی الانبذۃ فالمرادتغیر الطعم الی حدیزیل عنہ اسم الماء ویجعلہ نبیذاولانزاع فیہ۔


میں کہتا ہوں اس بحث سے زبیب اور تین کی نبیذوں کے متعلق جواب معلوم ہوگیا کہ جب ان کا نبیذ بن جائے تو ذائقہ تبدیل ہو کر وہ اپنا نیا نام لے لیتا ہے جس کے مقید ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ (ت)


وثالثا:تقدم فی ۱۲۲ عن الخانیۃ التوضو بماء الزعفران والزردج یجوز ان کان رقیقا والماء غالب فان غلبتہ الحمرۃ وصار متماسکا لایجوز ۱؎ وعن الخلاصۃ توضأ بماء الزردج اوالعصفر اوالصابون ان کان رقیقا یستبین الماء منہ یجوز وان غلبت الحمرۃ وصار نشاستج لا ۲؎ اھ فافادان المدارالثخن لامجرداللون فان کان غلبۃ اللون تحصل فی ھذہ الاشیاء قبل الثخن فقد صرحابعدم الاجتزاء بھا مالم یثخن وان کانت لاتحصل الا اذاثخن فقد بینا ان ذکر غلبۃ اللون لکونھا ھھنا دلیلا علی المناط وھو الثخن فکان وصار متماسکا اونشاستج عطف تفسیرلہ۔


ثالثاً،اس لئے کہ نمبر ۱۲۲ میں خانیہ کے حوالہ سے گزراکہ زعفران اور زردج کے پانی سے وضو جائز ہے بشرطیکہ یہ پانی رقیق ہو اور پانی کا غلبہ ہو،اور اگر یہ گاڑھا ہوجائے اور سرخی بھی غالب ہوجائے تو وضو جائز نہیں ہوگا، اور خلاصہ کے حوالہ سے بھی گزراکہ زردج، عصفر اور صابون والا پانی اگرپتلا ہو اور پانی اس میں غالب رہے تو وضو جائز ہے اور اگر سُرخی غالب ہوجائے اور پانی گاڑھا ہو کر نشاستہ کی طرح لیپ ہوجائے تو وضو ناجائز ہے اھ اس سے معلوم ہوا کہ دارومدار گاڑھے وغلیظ ہونے پر ہے صرف رنگ کا اعتبار نہیں ہے لہٰذا ان چیزوں کے ملنے سے پانی کا رنگ اگر گاڑھا ہونے سے پہلے تبدیل ہو تو دونوں کی تصریح ہے کہ اس غلبہ کااعتبار نہیں ہے اور اگر گاڑھا ہوجانےکے بعد رنگ تبدیل ہو تو یہ گاڑھا ہونے کی دلیل ہے جس کو ہم نے بیان کردیا ہے پس گویا کہ گاڑھا ہونے اور نشاستہ بننےکا ذکر بطور عطف تفسیری ہوگا۔ (ت)


 (۱؎ خانیہ        فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)

(۲؎ خلاصۃ الفتاوی    الماء المقید         نولکشور لکھنؤ  ۱/۸)


اقول:  وبہ تبین الجواب عن نص الاجناس فلم یکتف رحمہ اللّٰہ تعالٰی بقولہ لم یتغیر لونہ حتی یحمراویسودبل اضاف الیہ وکان الغالب علیہ الماء وھذا ماعبر بہ الخانیۃ والخلاصۃ اذقالا بعد ذکر الحمرۃ وصار متماسکا بیدان المقام یحتاج الی تلطیف القریحۃ٭ واعمال رؤیۃ قویۃ صحیحۃ٭کلّا بل الی التوفیق٭من رب رفیق٭ فالنظر الظاھر یتسارع الی الفرق بین العبارۃ وعبارۃ الخانیۃ والخلاصۃلانھماذکرالشیئین غلبۃالحمرۃ والتماسک فی عدم الجواز فافھماان تغیر اللون لایکفی للمنع مالم یتماسک لابتناء الامر علی اجتماع الامرین ونقل الاجناس ذکرشیئین سلامۃ اللون وغلبۃ الماء فی جانب الجواز فافادان ایھما انتفی انتفی الجواز لعین الوجہ اعنی بناء الجواز علی الاجتماع۔


میں کہتا ہوں کہ اس سے الاجناس کی عبارت پر اس اعتراض کا جواب ظاہر ہوگیا کہ اس نے اپنے بیان میں صرف سرخ اور سیاہ رنگوں کے ذکرکو کافی نہ سمجھابلکہ اس پر پانی کے غالب ہونے کا اضافہ بھی کیا، چنانچہ خانیہ اور خلاصہ نے سرخی کو ذکر کرنے کے بعد گاڑھا ہونے کو جس مقصد کے لئے ذکر کیا ہے وہی مقصد الاجناس کا ہے کہ مدار حکم کو ظاہر کیاجائے مگر یہ مقام سوچ کی باریکی اور قوی وصحیح فکر کو عمل میں لانے کا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی توفیق کی طرف رجوع کرنے کا مقام ہے کہ یہاں ظاہر نظرمیں الاجناس اور خانیہ وخلاصہ کی عبارتوں کا فرق واضح ہوجاتا ہے ، کیونکہ خانیہ اور خلاصہ نے دو چیزوں کو عدمِ جواز کے بارے میں ذکر کیا ہے ایک سُرخی کا غلبہ اور دوسری چیز گاڑھا پن ہے انہوں نے اس سے یہ بتایا کہ صرف رنگ کی تبدیلی کافی نہیں ہے بلکہ گاڑھا پن بھی ضروری ہے کیونکہ وضو کے ناجائز ہونے کا دارومدار ان دونوں چیزوں پر ہے، اور اجناس کی عبارت میں وضو کے جواز کیلئے رنگت کا سالم رہنا اور پانی کا غالب رہنا دو چیزوں کو ذکر کیاہے جس سے انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ اگر دونوں چیزوں میں سے ایک ختم ہوجائے تو وضو کا جواز بھی ختم ہوجائےگا کیونکہ جواز کے حکم کا دارومدار دو چیزوں کے مجموعہ پر ہے۔ (ت)


اقول: و دقیق النظر یوضح الامر فان ھذا المعنی یوجب ان تغیراللون ینفی الجواز وان کان الغالب ھو الماء وھو خلاف الاجماع فان الغلبۃ ھو القطب الذی تدورعلیہ رحی ھذہ الاحکام عندجمیع ائمتناالاعلام اماسمعت قول الفتح ان اعتبارالغالب عدماعکس الثابت لغۃ وعرفا وشرعا ۱؎ اھ واذمن المعلوم ضرورۃ ان غلبۃالماء ھی العلۃ الکافیۃ للجواز وعدمھا للمنع اذلیس احدمن الامۃ یجیزالوضوبالماء المغلوب سلمت اوصافہ اولا الاما تقدم من حکایۃ شاذۃ عن الامام الاوزاعی علی کلام فی ثبوتھا عنہ رحمہ اللّٰہ تعالی فامتنع ان تکون غلبۃ الحمرۃ علۃ برأسھا منحازۃ عن الغلبۃ اوتمام العلۃ ،


میں کہتا ہوں کہ یہاں دقیق نظر سے واضح ہوتا ہے کہ اگر دونوں چیزوں میں سے رنگ بدل جائے اور پانی کا غلبہ باقی رہے تو وضو ناجائز ہو حالانکہ یہ اجماع کے خلاف ہے کیونکہ غلبہ ہی وہ چیز ہے جو ان مسائل میں احکام کا معیار ہے جو کہ تمام ائمہ کرام کو تسلیم ہے،کیا تم نے فتح کا قول نہیں سنا جس میں انہوں نے کہا کہ غلبہ کے عدم کا اعتبار شرعاً، عرفاً اور لغۃً ثابت چیز،کا عکس ہے (یعنی غلبہ کا وجود ثابت کا وجود ہے اور غلبہ کا عدم، ثبوت کا عدم ہے) اھ کیونکہ یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ جب پانی کا غلبہ ہوگا تو اس سے وضو کا جواز ثابت ہوگا کیونکہ پانی کا غلبہ اس جواز کی علت ہے۔ اور عدم غلبہ، عدمِ جواز کی علت ہے یہی وجہ ہے کہ اُمت میں سے کسی نے بھی پانی کے مغلوب ہونے پر وضو کو جائز نہیں کہا خواہ پانی کے اوصاف باقی رہیں یا تبدیل ہوجائیں، ماسوائے امام اوزاعی کے ایک قول کے جو کہ ان کی طرف منسوب ہے اگر اس قول کا ثبوت ان سے مل جائے تو ایک شاذ قول کی شاذ حکایت ہوگی،حالانکہ اس قول کے ثبوت میں کلام ہے لہٰذا اجناس کی عبارت میں سرخی (رنگ) کے غلبہ کو مستقل اور غلبہ سے علیحدہ علت یا تمام علت قرار دینا غلط ہے،


 (۱؎ فتح القدیر    باب الماء الذی یجوزبہ الوضو        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)


و حینئذ یدور الامربین وجھین اما ان تکون ھی العلۃ وبھاالغلبۃ فیکون قولہ وکان الغالب علیہ الماء عطف تفسیر لعدم تغیراللون واما ان تکون بمعزل عن العلیۃ وانماذکرت لانھا ھھنا اٰیۃ مغلوبیۃ الماء ببلوغ سیل الامتزاج رباہ وذلک لان الاحمراربالاشنان والاسودادبالریحان لایحصلان بنفس الطبخ ایضابل بالطبخ الکامل الا تری انہ فرض المسألۃ فی ماء یطبخان فیہ ثم قال اذالم یتغیرلونہ وکان الغالب الماء فلابأس فافادانھما یطرحان فی الماء ویمکثان فیہ ویعمل فیھما النارالی ان یطبخاولایحصل مع کل ذلک التغیر المغیرحتی امکن التقیید بعدمہ للجوازبل لابدلہ من مکث وعمل اٰخربعد ذلک حتی یحصل الطبخ الکامل الموجب لکمال الامتزاج وحینئذ یصیرالماء مغلوبابلاریب فذکرت ھذہ الامارۃ الظاھرۃ لکونھا مرئیۃ والمغلوبیۃ فی المطبوخ غیرمرئیۃ مالم یبردکماتقدم ثم ذکرالحقیقۃ تنبیھا علی ماھو المناط الحقیقی فھذامحمل نفیس واضح وھذا ھوعین مفاد الخانیۃ والخلاصۃ وللّٰہ الحمد واذاجاء الاحتمال سقط الاستدلال ترجح ھذا بعبارتی الخانیۃ والخلاصۃ اذ الروایات یفسر بعضھا بعضا ثم کفی بالاجماعین شاھدی عدل۔


لہٰذا یہاں دو وجہیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ اس سرخی کو ہی علت قرار دیا جائے اور اسی کو غلبہ کہا جائے اس صورت میں الاجناس کے قول ''کان الغالب علیہ الماء'' کو عطف تفسیری قرار دے کر رنگ کے تبدیل نہ ہونے کا بیان قرار دیاجائےگا،اور دُوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے اس سرخی کو علیت سے الگ رکھا جائے اور اس کے ذکر کو پانی کے مغلوب ہونے کی علامت قرار دیا جائے کیونکہ یہ پانی میں ملنے کی انتہائی صورت کی نشان دہی کرتی ہے کیونکہ اشنان کی وجہ سے سرخی اور ریحان کی وجہ سے سیاہی پانی میں معمولی پکانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ کامل طور پر پکانے سے حاصل ہوتی ہے آپ کو معلوم ہے کہ یہاں مسئلہ کی یہ صورت فرض کی گئی ہے کہ اشنان اور ریحا ن پانی میں پکائے گئے ہوں اس مسئلہ پر یہ کہا ہے کہ جب رنگ تبدیل نہ ہو اور پانی غالب ہو تو وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تو اس بیان سے یہ واضح ہورہا ہے کہ ان دونوں چیزوں کو پانی میں ڈال کر رکھا جائے گا اور پھر آگ پر خوب پکانے کے بعد کامل امتزاج پیدا ہوجانے پر یقینا پانی مغلوب ہوجائےگا اس موقعہ پر سرخی یا سیاہی کی علامت کو ذکر کیاگیا ہے کیونکہ یہ نظر آتی ہے جبکہ دیکھنے کی حالت میں پانی کا مغلوب نظر نہیں آسکتا جب تک کہ وہ ٹھنڈا نہ ہوجائے ورنہ معمولی پکانے پر وہ تغیر پیدا نہیں ہوتا جو وضو کے لئے مانع ہو تاکہ اس کی نفی کی قید لگائی جائے اس سے الاجناس نے مکمل پکائے جانے کے ذکر پر حقیقت کو واضح کیا تاکہ حکم کی علت متعین ہوسکے، الاجناس کی عبارت کا یہ محمل نفیس ہے اور یہی خانیہ اور خلاصہ کی عبارت کامفادہے وللہ الحمد، اور اس مذکور احتمال کی بنا پر استدلال ختم ہوجاتا ہے بلکہ خانیہ اور خلاصہ کی عبارتوں سے اس احتمال کو ترجیح مل گئی ہے کیونکہ بعض روایات سے بعض کو ترجیح وتفسیر مل جاتی ہے نیز دونوں اجماع، سچّے گواہ کافی ہیں۔ (ت)

فان قلت لعلھمافی غیرالمطبوخ فلایمنعان اعتبار الاوصاف فیہ ونص الاجناس انما ھو فیہ۔


اگر آپ کا اعتراض ہو کہ (سیلاب کے پانی سے باوجودیکہ اس میں اوصاف متغیر ہیں اور نبیذِ تمر سے وضو کے جواز پر) یہ دونوں اجماع کچّے پانی کے بارے میں ہیں لہٰذا ان سے پکے ہوئے پانی میں اوصاف کے اعتبار کی نفی نہیں ہوگی، جبکہ الاجناس کی نص پکائے ہوئے پانی سے متعلق ہے۔ (ت)


اقول: اولا نصہ مخصوص بمایحدث فیہ تغیرالاوصاف بعد کمال الطبخ کماعلمت ولایقاس علیہ مایتغیر قبل الطبخ وھو الکثیر الغالب اذقبلہ لافرق بینہ وبین التی وقد انعقد الاجماع علی عدم اعتبارہ فیہ فیؤل الکلام الٰی ان الاوصاف لاعبرۃ بھاالافیما تتغیر فیہ بعد الکمال الطبخ وھذالایضرنالماعلمت ان الماء یصیرمغلوبااذذاک فتحقق العلۃ سواء عبرتم بھااوبلازمھا من تغیر الاوصاف وثانیا ای فرق بین النی والمطبوخ سوی ان الطبخ یوجب کمال الامتزاج کمانص علیہ اھل الضابطۃ قاطبۃ،


اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں،اولاً، یہ کہ الاجناس کی نص اس صورت سے مخصوص ہے جس میں مکمل پکائے جانے کے بعد اوصاف کا تغیرپیدا ہو جیسا کہ آپ اوپر معلوم کرچکے ہیں، اس پر پکانے سے قبل کے تغیر کو قیاس نہیں کیا جاسکتا جبکہ پکانے سے قبل تغیر عام اور کثیر ہے۔ کیونکہ پکانے سے قبل تغیر اوربالکل کچّے پانی کے تغیر میں کوئی فرق نہیں ہے حالانکہ بالکل کچّے پانی کے بارے میں اجماع ہوچکا ہے کہ اس میں اوصاف کے تغیر کا اعتبار نہیں ہے، تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اوصاف کی تبدیلی وتغیر کا اعتبار صرف مکمل پکانے کے بعد ہوگا۔یہ بات ہمارے لئے مضر نہیں ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ مکمل پکانے کے بعد پانی مغلوب ہوجاتا ہے جس کی بنا پر وضو کے عدمِ جواز کی علّت پائی گئی ہے اس کو مغلوب کہہ کر تعبیر کردیااس کو مغلوبیت کے لازم یعنی اوصاف کی تبدیلی سے تعبیرکرو ثانیا، اس لئے کہ کچے اورپکے ہوئے پانی میں پکانے کی وجہ سے امتزاج کامل ہوجاتا ہے جس کو تمام اہل ضابطہ نے ذکر کیا ہے۔


قال الامام الزیلعی التقییداما بکمال الامتزاج اوغلبۃ الممتزج فکمال الامتزاج امابالطبخ ۱؎ الخ وقال قبیل التیمم انہ بالطبخ کمل امتزاجہ وکمال الامتزاج یمنع اطلاق اسم الماء علیہ ۲؎ اھ،


امام زیلعی نے کہاکہ پانی کو کمال امتزاج یااس میں ملی ہوئی چیز کے غلبہ سے مقید قرار دیا جاتا ہے اور کامل امتزاج پکانے سے حاصل ہوتا ہے الخ اور انہوں نے اس بات کو تیمم کی بحث سے تھوڑا پہلے بیان کیا اور کہا کہ پکانے سے امتزاج کامل ہوتا ہے، اور اس کامل امتزاج کی وجہ سے اس کو مطلق پانی کہنا ممنوع ہوجاتا ہے اھ،


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریہ مصر    ۱/۲۰)

(۲؎ تبیین الحقائق      قبیل باب التمیم     الامیریہ مصر  ۱/۳۶)


وقد قال قبل حدوث الضابطۃ ایضا الامام الجلیل النسفی فی الکافی ان بطلان الاطلاق بکمال الامتزاج وھو بطبخ الماء بخلط الطاھر ۳؎ الخ ویأتی تمامہ ان شاء اللّٰہ واذن نقول بموجبہ ولایکون دلیلا علی اعتبار مجرد تغیر الاوصاف کمالایخفی فانکشف الامر وللّٰہ الحمد۔


نیز ضابطہ کے بیان سے قبل جلیل القدر امام نسفی نے کافی میں فرمایا کہ پانی کا اطلاق کمال امتزاج سے ختم ہو جاتا ہےاور کمال امتزاج پانی میں پاک چیز کو ملاکر پکانے سے حاصل ہوتا ہے الخ یہ تمام بیان آئندہ آئےگا ان شاء اللہ تعالٰی وہاں ہم اس کے موجبات کو بیان کریں گے جبکہ یہ بیان صرف اوصاف کے تغیر کے اعتبار پر دلیل نہ بن سکے گا جیسا کہ واضح ہے۔ پس معاملہ واضح ہوگیا وللہ الحمد۔ (ت)


 (۳؎ کافی للنسفی)


بقی الشاھد الثانی من شواھد العموم اقول لیس مفھومہ ماذکربل لہ مذھب اٰخرغیر مستتروذلک ان الامام ابا عبداللّٰہ الجرجانی لمااعتبر فی تقیدہ صلوحہ الصبغ والنقش وماھوالابتلون الماء و ربمایحصل قبل الثخن کان لمتوھم ان یتوھم انہ اعتبر الغلبۃ باللون فنبہ الامام البرھان علی بطلانہ وقال بل ھو تفریع علی اعتبار غلبۃ الاجزاء لان غلبتھا کماعلمت علی ثلثۃ انحاء ھذا ھوالنحو الثالث منھا فذھبت الشواھد جمیعا۔


 (پانی میں ملنے والی چیز کے غلبہ میں اوصاف کی تبدیلی کا معیار جامد اور مائع)دونوں کوشامل ہونے پر مذکور شواہد میں سے دوسرے شاہد کی بحث باقی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کا وہ مفہوم نہیں جس کو ذکر کیا گیا ہے،بلکہ ان کادوسرا مذہب جو واضح ہے وہ یہ کہ امام ابو عبداللہ الجرجانی نے پانی کومقید بنانے میں زاج اور عفص کی ملنے پر رنگ ریزی اور نقش ونگار کی صلاحیت کاذکر کیاجو کہ پانی کے رنگدار ہونے کی وجہ سے ہوسکتی ہے جبکہ پانی کے گاڑھا ہونے سے قبل بھی اس پر رنگ نمایاں ہوجاتاہے تو اس سے کسی کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ امام جرجانی نے غلبہ کیلئے صرف رنگ کو معیار قراردیا ہے اس لئے امام برہان الدین نے اس وہم کو باطل قرار دینے کیلئے تنبیہ کرتے ہوئے امام برہان نے فرمایاکہ امام جرجانی کا یہ قول رنگ کے غلبہ کی بجائے اجزاء کے غلبہ پر تفریع ہے کیونکہ غلبہ تین قسم پر ہے اور یہ اجزاء کا غلبہ تیسری قسم ہے۔ یوں تمام شواہد کی بحث ختم ہوئی۔ (ت)


اماتمثیلہ بالزعفران فقداشبعنا الکلام علیہ فی ۱۲۲ الاٰن لم یبق الااطلاق الامام الاسبیجابی اقول اولالنامندوحۃ عنہ فیماتقرر فی مقرہ ان(۱) المطلق فی کلامھم یحمل علی المقیدوان(۲)من عادتھم الاطلاق تعویلاعلی معرفۃالحذاق قالواویفعلونہ کیلا یدعی علمھم من لم یزاحمھم بالرکب کل ذلک مذکور فی ردالمحتار وغیرہ،


امام اسبیجابی (کے اطلاق اور زعفران جو کہ جامد اور مائع دونوں کے شمول کی بنیاد ہے) میں سے زعفران کی مثال کے متعلق ہم سیر حاصل بحث کر چکے ہیں جو نمبر ۱۲۲ میں گزر چکی ہے اب صرف امام اسبیجابی کے اطلاق کی بحث باقی ہے۔میں کہتا ہوں، اولاً، یہ کہ اس بارے میں وسیع گنجائش ہے جیسا کہ اپنے مقام میں ثابت شدہ بات ہے کہ فقہاء کے کلام میں مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے اور ان کی عادت ہے کہ وہ مقید کی جگہ مطلق کو ذکر کردیتے ہیں کیونکہ ان کوماہرین کے علم وتجربہ پر اعتماد ہے کہ (وہ مطلق کو مقیدسمجھیں گے)ماہرین فن نے کہاہے کہ فقہاء کرام یہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ ان کے علم میں کوئی نااہل شخص برابری کا دعویٰ نہ کرے، یہ سب کچھ ردالمحتار وغیرہ میں مذکور ہے،

وثانیا: ھذا لولم یجب التقیید فکیف و قد وجب بشھادۃ الاجماعین وثالثا لک ان تقول الجامد ایضا تعتبر فیہ غلبۃ الاوصاف اذا ادت الٰی غلبۃ الاجزاء باحد المعانی الثلثۃ کماعرفت فی النبیذ والزاج والعفص والعصفر والزعفران وکثیر من نظائرھا فمن ھذا الوجہ یصح الاطلاق وان کان نحو التغیرالمعتبرفی الجامدمغایراللمعتبر عندہ فی المائع بل قد یظن اتفاق النحوین من کلام البدائع المارفی ۳۰۴ حیث ناط الامر فی المائعات بزوال الاسم وذکر فی تفصیلہ غلبۃ اللون والطعم وزوال الاسم ھو المعتبر فی الجامدات ایضا بل علیہ مدار الباب کمامر مرار اوکان ینتج ھذا ان لاخلف بین الامامین الصاحبین الا فی التعبیر۔


ثانیا، امام اسبیجابی کے قول کو مقید کرنا ضروری ہے (کیونکہ سیلاب کے پانی سے وضو کے جواز پر اجماعِ اُمت اور نبیذِتمر سے وضو کے جواز پر علماء احناف) کا اجماع،یہ دونوں اجماع اس کے قول کی تقیید کو واجب کرچکے ہیں(کہ اوصاف کے تغیر کا اعتبار صرف مائع چیز کے ملنے پر ہوگا جامد میں نہیں) ثالثا، آپ جامد چیز کے بارے میں اوصاف کے غلبہ کا اعتبار کہہ سکتے ہیں جبکہ یہ جامد چیز پانی میں اجزاء کے تینوں معانی میں سے کسی معنی کے لحاظ سے غلبہ کا سبب بن جائے، جیسا کہ نبیذ، زاج، عفص، عصفر اور زعفران وغیرہ کے بارے میں آپ معلوم کرچکے ہیں،اس لحاظ سے جامد اورمائع دونوں میں اوصاف کے غلبہ کا اطلاق درست ہوسکتا ہے اگرچہ جامد میں تغیر مائع میں تغیر سے مختلف ہے،بلکہ نمبر ۳۰۴ میں بدائع کی مذکور عبارت سے دونوں کے تغیر میں اتفاق کا گمان ہوتا ہے، وہاں انہوں نے بہنے والی چیزوں(مائعات)میں تغیر کا معیار پانی کے نام کی تبدیلی کو قرار دیا ہے جس کی تفصیل میں انہوں نے رنگ اور ذائقہ کے غلبہ کو بیان کیا ہے حالانکہ یہی نام کی تبدیلی جامد چیزوں میں بھی تغیر کا معیار ہے بلکہ اس میں تغیر کا دارومدار نام کی تبدیلی ہے جیسا کہ بار بار گزر چکا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ صاحبین (امام ابویوسف وامام محمد) کے درمیان صرف تعبیر کا اختلاف ہے۔ (ت)


اقول: وقد کان یعجبنی ھذا لان المنقول عن نص محمد انما ھی مسألۃ مطبوخ الاشنان والریحان وفیھا کمال الامتزاج الموجب للغلبۃ بالاجزاء لکن تعاورعباراتھم علی نصب الخلاف بینھما منعنی عن ذلک وان عبرہ المحقق فی الفتح بقولہ نقل بعضھم فیہ خلافا بین الصاحبین ان محمدا یعتبرہ باللون واماابو یوسف بالاجزاء ۱؎ اھ ،


میں کہتا ہوں مجھے یہ بات پسند ہے کیونکہ امام محمد سے جو نص منقول ہےوہ اشنان اور ریحان کےپکائے ہوئے پانی سےمتعلق ہےجبکہ اس مسئلہ میں پکانےکی وجہ سےایسا کامل امتزاج حاصل ہوجاتا ہےجو اجزاء کےاعتبار سےغلبہ کا موجب بنتا ہے لیکن فقہاء کرام کی عبارات کا ظاہر مفہوم میرےلئے مانع ہےکہ میں صاحبین کےاختلاف کو صرف تعبیری اختلاف کہوں اگرچہ اس کو فتح القدیر میں محقق صاحب نےتعبیر کردیا یوں کہہ کر، کہ بعض نےاس میں صاحبین کا اختلاف نقل کیا ہےکہ امام محمد رنگ کا اور امام ابویوسف اجزاء کےغلبہ کا اعتبار کرتےہیں اھ


 (۱؎ فتح القدیر     باب الماء الذی یجوز بہ الوضو        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)


لکن التحقیق عندی ان زوال الاسم المذکور ھھنافی البدائع لیس بالمعنی المعتبر فی غیر المائع کما سیأتیک بیانہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی وبالجملۃ قد استقر عرش التحقیق وللہ الحمد علی کل مانص علیہ الامام ملک العلماء فی البدائع ان خلاف محمدانماھو فی المائع وانہ لایقتصر علی اللون بل یعتبر الطعم وایضاوانہ یرتب بینہما فیقدم اللون ثم الطعم وانہ ینقل الحکم بعدھما الی الاجزاء ولایعتبر الریح٭ ھکذا ینبغی التنقیح٭ والحمدللّٰہ علی تواتر الاٰئہ٭ وافضل صلاتہ وسلامہ علیٰ سید انبیائہ٭واٰلہٖ وصحبہٖ وابنہ واحبائہ٭ اٰمین ھذاوزعم العلامۃ الحدادی فی الجوھرۃ بعد ماصحح قول ابی یوسف مانصہ ومحمد اعتبر الاوصاف ان غیر الثلثۃ لایجوز وان غیرواحداجازوان غیراثنین لایجوز قال والتوفیق بینہما ان کان مائعا جنسہ جنس الماء کماء الدباء فالعبرۃ للاجزاء کما قال ابویوسف وان کان جنسہ غیر جنس الماء کاللبن فالعبرۃ للاوصاف کماقال محمد قال والشیخ یعنی الامام القدوری اختار قول محمد حیث قال فغیر احد اوصافہ ۱؎ اھ


لیکن میرےنزدیک تحقیق یہ ہےکہ بدائع میں اس مقام پر پانی سےزوالِ اسم کا جو ذکر کیا ہےوہ اس معنی میں زوالِ اسم نہیں جس معنی میں غیر مائع میں معتبر ہےجس کا آئندہ بیان آئے گا ان شاء اللہ تعالٰی خلاصہ کلام یہ ہےکہ الحمدللہ، مکمل تحقیق وہ ہےجس کو امام ملک العلماء نےبدائع میں ذکر کیا ہےکہ امام محمد کا اختلاف صرف مائع چیز کے بارےمیں ہےاوریہ کہ وہ اس میں صرف رنگ نہیں بلکہ ذائقہ کا بھی اعتبار کرتےہیں اور ان دونوں میں ترتیب کےقائل ہیں پہلےرنگ کا اور پھر اس کےبعد ذائقہ کا اعتبار کرتےہیں اور اگر یہ دونوں نہ پائے جائیں تو پھر وہ غلبہ میں اجزاء کی طرف حکم کو منتقل کرتے ہیں اور بُو کا اعتبار نہیں کرتے،یہی تنقیح مناسب ہے، انعامات کے ہجوم پر اللہ تعالٰی کی حمد ہے اور صلٰوۃ وسلام تمام انبیاء کے سردار پر اور ان کی آل واصحاب پر،آمین۔اس کو محفوظ کر،جوہرہ میں امام ابویوسف کے قول کو صحیح قرار دینے کے بعد علامہ حدادی نے خیال ظاہر کیا اور کہا کہ امام محمد نے تینوں اوصاف کی تبدیلی پر وضو کو ناجائز قرار دیا ،اور اگر ایک وصف تبدیل اور متغیر ہوجائے تو وضو کو جائز اور دو اوصاف کی تبدیلی پر ناجائز کہا ہے، اور امام حدادی نے کہا کہ امام ابویوسف اور امام محمد کے اقوال میں موافقت یوں ہوگی، اگر پانی میں ملنے والی چیز مائع ہو جو پانی کی ہم جنس ہو جیسے کد وکاجوس، تو اس صورت میں غلبہ کیلئے اجزاء کا اعتبار ہوگا جیسا کہ امام ابویوسف نے کہا ہے،اگر وہ پانی میں ملنے والا مائع ایسا ہو جو پانی کا ہم جنس نہ ہو جیسے دُودھ۔ تو اس صورت میں غلبہ کے لئے اوصاف کا اعتبار ہوگا، جیسے کہ امام محمد کا مسلک ہے۔اور اس پر علامہ حدادی نے کہا شیخ قدوری نے امام محمد کےقول کو ترجیح دیتے ہوئے یوں کہا ''وہ ایک وصف کو تبدیل کرے اھ (ت)


 (۱؎ الجوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارۃ    مطبع امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)


اقول: ھذا(۱)لیس بتوفیق بل تلفیق ثم النصوص متظافرۃ عن محمد انہ یعتبر اللون ثم الطعم لاانہ لایعتبرالوصف الواحد وکون(۲)ماء الدباء من جنس الماء غیر معول ولامقبول ومن(۳) نظر الفروع المارۃ علم انہ لایوافق القولین ومااتت بہ النصوص علی المذھبین ثم ھو(۴)خلاف الاجماع فی ماء المدفقداطبقو انہ مادام علی رقتہ یجوز الوضو بہ مع انہ ربما یغیر وصفین بل الثلاث وماھو الا الاختلاط مالیس من جنس الماء من تراب و رمل وغثاء وکذا اجماعھم(۵)علی جواز الوضو بمانقع فیہ تمروان حلا ولاشک ان تغیر اللون یسبقہ مالم یصر نبیذا فلم یعتبر وافیہ الاوصاف بل الاجزاء بالمعنی الثالث واللّٰہ تعالٰی اعلم


میں کہتا ہوں،یہ تو موافقت نہ ہوئی بلکہ ایک نئی بات ہوئی، کیونکہ تمام نصوص میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ امام محمد پہلے رنگ اور پھر ذائقہ کی تبدیلی کا اعتبار کرتے ہیں نہ کہ وہ ایک وصف کی تبدیلی کا اعتبار نہیں کرتے، نیز کدو کے جوس کو پانی کا ہم جنس بتانا غیر معقول اور غیر مقبول ہے، اور جس کو گزشتہ فروعات کا علم ہے وہ جانتا ہے کہ امام ابویوسف اور امام محمد کے اقوال میں موافقت نہیں ہے، پھر علامہ حدادی کا یہ بیان سیلابی پانی میں اجماع کے بھی خلاف ہے کہ اس سے وضو جائز ہے جب تک رقت باقی رہے حالانکہ دو بلکہ تینوں اوصاف اس میں تبدیل ہوتے ہیں باوجودیکہ یہ تبدیلی پانی کے ہم جنس کی وجہ سے نہیں بلکہ مٹی، ریت اور تنکے ملنے کی وجہ سے ہوتی ہے، اسی طرح ان کا یہ بیان کہ کھجور ڈالنے سے میٹھے پانی میں اس اجماع کے بھی خلاف ہے جس میں اس سے وضو کو جائز قرار دیا گیا ہے جب تک یہ کھجور کا میٹھا پانی نبیذ نہ بن جائے حالانکہ اس میں شک نہیں کہ مٹھاس سے پہلے وہاں رنگ بھی تبدیل ہوتا ہے اوصاف کی تبدیلی کے باوجود یہاں اس کا اعتبار نہ کرتے ہوئے وضو جائز ہے بلکہ یہاں اجزاء کے لحاظ سے غلبہ کا تیسرا معنی پائے جانے کے باوجود اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

بحث دوم اس قول کی توجیہ احکام


اقول: وباللّٰہ التوفیق کتب معللہ کو غالباً ہر خلافیہ میں خصوصاً وہ خلاف کہ امام وصاحبین یا باہم صاحبین میں ہو دلائل فریقین بیان کرنے کا التزام ہوتا ہے اگرچہ خلافیات مشائخ میں ایسا اعتنا نہ کریں مگر اس خلافیہ میں دلیل قول امام محمد رحمہم اللہ تعالٰی کسی کتاب میں نظر فقیر غفرلہ المولی القدیر سے اصلا نہ گزری حتیٰ کہ بدائع میں جس نے اُس پر مشے فرمائی سوا اس لفظ کے کہ مجمع الانہر میں اعتبار رنگ پر لکھا لان اللون مشاھد  (کیونکہ رنگ نظر آتا ہے۔ ت) حالانکہ اس قول کے چارجز ہیں ہر جز طالب توجیہ ہے یہ دو حرفی جملہ ایک جُز کیلئے بھی وافی نہیں۔


فاولا ماکل(۱) مشاھد معتبرا فالدلیل اعم من المدعی۔


پس اوّلاً، یہ کہ ہر مشاہدہ کی جانے والی چیز معتبر نہیں ہوتی (لہٰذا مجمع الانہر کا رنگ کے اعتبار میں رنگ کو مشاہدہ والا قرار دے کر دلیل بنانا درست نہیں) کیونکہ یہ دلیل عام ہے اور دعوٰی خاص ہے۔ (ت)


وثانیا ماکل(۲) معتبر مشاھدا فالدلیل اخص من المدعی وبالجملۃ لایلزم من کونہ مشاھدا اعتبارہ ولامن عدم مشاھدۃ اٰخر عدم اعتبارہ۔


ثانیا، یہ کہ ہر معتبر چیز قابلِ مشاہدہ نہیں ہوتی پس یوں دلیل، دعوٰی سے خاص ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ قابلِ مشاہدہ ہونے کو معتبر ہونا لازم نہیں اور یوں ہی دوسری چیز کے قابلِ مشاہدہ ہونے کو غیر معتبر ہونا لازم نہیں ہے۔ (ت)


وثالثا ان خصت(۳) المشاھدۃ بالرؤیۃ خرج الطعم وقد اعتبرہ محمد وان اُریدبھا الحس دخلت الریح ولم یعتبرھا۔


اور ثالثا، یہ کہ اگر مشاہدہ کو دیکھنے سے مختص کیا جائے تو ذائقہ کا اعتبار نہ رہے گا حالانکہ امام محمد رضی اللہ عنہ ذائقہ کا اعتبار بھی کرتے ہیں اور اگر مشاہدہ سے مراد حِس ہو تو پھر بُو کا اعتبار بھی کرنا ہوگا حالانکہ وہ بُو کا اعتبار نہیں کرتے۔ (ت)


وانا اقول: وبربی ثم بنبیہ استعین جل وعلا وصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وصحبہ اجمعین کان محمدا یقول رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رفع الحدث منوط شرعا باستعمال الماء المطلق ومطلہ ھو الذی یتبادر الی الافھام باطلاق لفظ الماء ولاشک انھا حقیقۃ معروفۃ مشھورۃ معلومۃ لکل احد لاتلتبس ولایحتاج احد فی ادراکھا الی استجلاب العلم من خارج باخبار غیرہ ان ھذا ماء فلایراد بمطلقہ الا ماشأنہ ھذا ولاشک ان الماء اذاصار علی لون مائع اٰخر یرتاب الناظر فیہ ولایقطع انہ ماء الا اذا اخبرہ من یعرفہ من بدء امرہ واللون اول مدرک فان لم یغلب واخذہ فی فمہ للمضمضۃ فوجدہ علی طعم مائع اٰخر یاخذہ من الارتیاب ماکان یاخذ فی متغیر اللون بالنظر فخرجا عن الماء المطلق اما الریح فربما تکتسب بالمجاورۃ من دون خلط شیئ فماصح لونہ وطعمہ لایرتاب المستعمل فی کونہ ماء بمجرد تغیر فی ریحہ فانکان فیہ امتزاج غیرہ مساویا اوغالبا لایقف علیہ المستعمل الا بالاخبار من خارج وحینئذ یعرف انہ لیس بماء فالمائیۃ لم یتوقف ادراکھا علی الخارج بل عدمھا،


اور میں کہتا ہوں، اللہ تعالٰی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وصحبہ اجمعین کی امداد سے، کہ امام محمدرضی اللہ عنہ گویا یوں فرماتے ہیں کہ رفع حدث کیلئے شرعاً مطلق پانی کا استعمال ضروری ہے، اور مطلق پانی وہ ہے جو پانی کا لفظ بولنے پر ذہن میں آئے، اور اس میں شک نہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مشہور ومعروف اور ہر ایک کو معلوم ہے اس کو جاننے کیلئے کسی کو غیر سے سمجھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ یہ بتائے کہ پانی یہ ہے۔ لہٰذا مطلق پانی سے مراد یہی عام فہم حقیقت ہے۔ لہٰذا جب کسی دوسری بہنے والی چیز کا رنگ پانی میں ظاہر ہوتا ہے تو دیکھنے والے کو ضرور تردّد ہوتا ہے کہ کیا یہ پانی ہے یا کیا ہے تو جب کوئی دوسرا باخبر شخص بتائے تو اس کا تردّد ہوتا ہے ورنہ نہیں، پانی میں سب سے پہلے رنگ کا علم ہوتا ہے اور اگر رنگ پانی پر غالب نہ ہو تو پھر جب کُلی کرنے کیلئے پانی منہ میں ڈالا جائے تو اس وقت دوسری مائع چیز کا ذائقہ محسوس ہونے لگتا ہے پھر اس کو تردّد ہوتا ہے جو کہ دیکھنے پر رنگت کی تبدیلی سے نہ ہوا تھا، پس یہ رنگ کی وجہ سے تردّد اور ذائقہ کی وجہ سے تردّد والا پانی، مطلق پانی سے خارج ہوگا، جہاں تک بُو کا تعلق ہے تو وہ قُرب وجوار میں پڑی ہوئی چیز کی خوشبو کا اثر ہوسکتا ہے ضروری نہیں کہ پانی میں مخلوط کسی چیز کی وجہ سے بُو آرہی ہو، رنگ اور ذائقہ اگر درست ہو تو استعمال کرنے والے کو کوئی تردّد پیدا نہیں ہوتا کہ یہ خالص پانی ہے، پس اگر پانی میں ریح کے بغیر کسی دوسری شیئ کی ملاوٹ ہو برابر یا غالب طور پر ہو تو استعمال کرنے والے کو تردد ہوگا مگر جب اسے کوئی خارج سے خبر دے تو اس وقت وہ جانے گا یہ پانی نہیں ہے،


ومعلوم ان ھذا الارتیاب والالتباس انما یکون بالمائع فالماء مھما اخذ لون جامد اوطعمہ لایلتبس بہ وانما یتوقف فیہ انسلاب اسم الماء علی تھیؤہ لمقصد اٰخر فمن ھھنا حصل الفرق بین الجامد والمائع وظھر مذھب محمد باجزائہ الاربعۃ۔


تو معلوم ہوا کہ نفیس پانی کا ادراک کسی خارجی امداد کے بغیر ہوتا ہے اور یہ بات بھی واضح کہ پانی میں تردّد پیدا کرنے میں کسی مائع چیز کا دخل ہوتا ہے اس کے برخلاف کسی جامد چیز کے ملنے سے پانی کے رنگ یا ذائقہ کی تبدیلی کی وجہ سے استعمال کرنے والے کو اس وقت تک تردّد نہیں ہوتا جب تک کسی دوسرے مقصد کیلئے تیاری سے پانی کے نام کو تبدیل نہ قرار دیا جائے۔ اس بات سے پانی میں جامد چیز اور مائع کے ملنے کا فرق واضح ہوجاتا ہے، اور یوں امام محمد کے مذہب کے چاروں اجزاء واضح ہوئے۔(ت)


وبعبارۃ اخری اجمعنا ان ماصار شےا اٰخر لمقصد اٰخر لاتجوز بہ الطھارۃ وان لم تزل رقتہ ولابلغ الممازج الماء قدرا فاذن لیس الا لتغیر فی اوصافہ اذلوسلمت مع بقاء الطبع وغلبۃ القدر استحال ان یسلب عنہ اسم الماء من دون موجب فعلم ان التغیر فی الاوصاف ھھنا مقدم علی زوال الطبع ومغلوبیۃ القدر،


اور امام محمد کے مسلک کی ایک دوسرے انداز سے تقریر، یہ ہے کہ ہم سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانی میں مخلوط چیز کے سبب کوئی اور مقصد مطلوب ہو اور کوئی اور چیز بن گئی ہو تو اگرچہ اس صورت میں پانی کی رقت باقی ہو اور پانی کی مقدار بھی ملی ہوئی چیز سے زیادہ ہو تو پھر بھی اس سے وضو جائز نہیں ہے اس کی وجہ صرف پانی کے اوصاف کی تبدیلی ہوسکتی ہے کیونکہ پانی کی رقت باقی اور اس کی مقدار غالب ہونے پر اوصاف میں بھی تبدیلی نہ ہو تو اس کو پانی نہ کہنا اور اس کو کوئی دوسرا نام دینا محال ہوگا۔ اس حقیقت کے اعتراف پر یہ کہ امر واضح ہوگیا کہ اس صورت میں پانی کی طبع کے زوال (رقت کے ختم ہونے) اور پانی کی مقدار کے مغلوب ہونے سے قبل اس کے اوصاف کی تبدیلی ہوگی۔


ثُمَّ  ثَمَّ شےاٰن زوال اسم الماء وتجدد اسم اٰخر وھذا یتوقف علی تھیؤہ لمقصد اٰخر والمنع منوط بالاول وان لم یوجد الاٰخر لان الشرع المطھر انما امر بالماء فاذا انسلب عنہ اسم الماء خرج المامور بہ وان لم یدخل فی مقصد اٰخر غیر ان الجامد یتبع فیہ الاول الاٰخر فلاینسلب اسم الماء بہ مالم یتھیاۃ لمقصد اٰخر کما تری فی السیل وماء القی فیہ قلیل سکر اونقع فیہ حمص اوتمر بخلاف المائع فانہ اذاغلب علی اوصاف الماء اشتبہ الماء بہ فلم یبق مما یتبادر الیہ الفھم باطلاق لفظ الماء فقدزال الاسم وان لم یتجدد لہ اسم اٰخرلان بالارتیاب والالتباس لا ھذا الاسم یبقی ولاغیرہ یثبت وھذا ھو المعنی عندی بزوال الاسم المذکورھنا فی کلام الامام ملک العلماء الماشے علی قول محمد بخلاف المعتبر فی الجامد فانہ الذی یعقبہ حدوث اسم اٰخر کما تقدم تحقیقہ وباللّٰہ التوفیق ولہ الحمد۔


پھر یہاں دو۲ اور چیزیں ہیں، ایک پانی کے اطلاق کا نہ ہونا، دوسرا نئے نام سے موسوم ہونا، پانی کو نئے نام سے تب موسوم کیا جاتا ہے جب اس کو کسی دوسرے مقصد کیلئے تیار کیا گیا ہو، لیکن طہارت کی ممانعت کا تعلق پہلی صورت یعنی پانی کے اطلاق کے زوال سے ہے اگرچہ وہاں دوسرا نام نہ بھی دیا گیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے طہارت کیلئے پانی کے استعمال کا حکم دیا ہے اور جس چیز پر پانی کا نام اور اطلاق نہ رہا تو وہ مامور بہ (پانی) سے خارج ہوگی خواہ کسی دوسرے مقصد کیلئے ہو یا نہ ہو اور اس کو نئے نام سے موسوم کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، لیکن جامد چیز کے مخلوط ہونے پر یہ ضروری ہے کہ پہلی صورت (پانی کے اطلاق کی نفی) کے بعد دوسری صورت (نئے مقصد کیلئے تیاری کی وجہ سے نیا نام) کو ضرور لاحق ہوگی، جیسا کہ آپ سیلابی پانی، معمولی اور قلیل شکّر والا پانی، جس پانی میں چنے ڈالے ہوں یا جس پانی میں کھجور ڈال دی گئی ہو، کو دیکھ سکتے ہیں (کہ ان صورتوں میں نہ صرف یہ کہ پانی کا اطلاق باقی ہے بلکہ نئے مقصد کے لئے نیا نام بھی نہیں دیا گیا، لہٰذا اس سے وضو جائز ہے)اس کے برخلاف وہ پانی جس میں کوئی مائع چیز ملائی گئی ہو تو اگر پانی کے اوصاف اس سے تبدیل ہوجائیں تو اس کو پانی کہنے اور اس پر پانی کا اطلاق کرنے میں تردّد پیدا ہوتا ہے اور اس کا پانی ہونا ذہن میں نہیں آتا، تو نام اور اطلاق پانی کیلئے نہ رہا، لیکن نیا نام بھی اس کو نہ دیا گیا، کیونکہ تردّد کی وجہ سے پہلا نام ختم ہوگیا اور نیا نام ثابت نہ ہوسکا، میرے نزدیک امام ملک العلماء کے کلام میں زوال اسم ماء سے یہی مراد ہے جہاں انہوں نے امام محمد کے قول کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے۔ جامد چیز میں اس کے برخلاف طہارت ممنوع ہوگی جبکہ اس کو نیا نام دیا گیا ہو جیسا کہ پہلے تحقیق ہوچکی ہے، اللہ تعالٰی سے توفیق اور اسی کیلئے حمد ہے۔ (ت)


وبہ انکشف مایترا اٰی ورودہ من ان ھذا یوجب اعتبار الاوصاف فی الجامدات ایضا وان لم یحصل التھیؤ لمقصد اٰخر ولانعنی القلیل حتی تقولوا ان القلیل مغلوب والمغلوب ھدر اجماعا بل الحد الذی یعتبر فیما یجعلہ شےااذاصار لمقصود اٰخر فاذا بلغ التغیر ذلک الحدلم لاینسلب اسم الماء وان لم یتجدد اسم اٰخر لعدم التھیؤ المذکور،


اس تحقیق سے اس اعتراض کی حقیقت بھی منکشف ہوگئی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مائع کی طرح جامد میں بھی اوصاف کی تبدیلی کا اعتبار کیا جاتا ہے اگرچہ جامد کو پانی میں ملا کر کسی دوسرے مقصد کیلئے تیار نہ کیا گیا ہو، یہ شُبہ اس لئے ختم ہوجاتا ہے کہ بالاجماع ہم جامد کی وہ قلیل مدار مراد نہیں لے رہے جو صرف مغلوب ہو کر کالعدم ہوجائے بلکہ پانی میں شامل ہونے والے جامد کی اتنی مقدار مراد ہے جو کسی دوسرے مقصد کیلئے پانی کو دوسری چیز بنانے کیلئے معتبر ہوسکے تو جب جامد کی وجہ سے پانی میں اس حد تک تغیر پیدا ہوجائے تو لازمی طور پر وہاں پانی کا نام سلب ہوجائے گا خواہ نئے مقصد کیلئے نیا نام اس کو نہ بھی دیا گیا ہو،


وذلک کماء الزردج فانہ یطرح ولایصبغ بہ فلا یصیر لمقصود اٰخر بخلاف ماء الزعفران لکن اذا کان ماء الزردج بحیث یصلح للصبغ لوکان یصبغ بہ فقد تغیر وای فرق بین المائین اذا بلغا ھذا الحد فی تغیر الماء وکون ھذا یقصد للصبغ لاذاک شیئ اٰخر واراء التغیر فالماء مغلوب فیھما علی السواء وعلیہ تدور رحی المنع وعلیک بتلطیف القریحۃ فان الانسلاب بالتجدد اوالارتیاب لاغیر۔


اس کی مثال زردج (زردہ) والا پانی ہوسکتا ہے کہ جب پانی میں اتنا زردہ ڈالا جائے جس سے کسی چیز کو رنگ نہ دیا جاسکے تو اس صورت میں وہاں دوسرا مقصد تو حاصل نہیں مگر اس کو پانی نہیں کہا جاتا، اس کے برخلاف زعفران والا پانی ہے لیکن جب زردہ کی اتنی مقدار ہو جس سے کسی چیز کو رنگا جاسکتا ہو، تو یہ بھی ایک تغیر ہے جو دوسرے مقصد کیلئے تیار کیا گیا ہے، مگر دونوں صورتوں میں اس حد کا تغیر ہے کہ وہاں پانی کا نام سلب ہوجاتا ہے فرق صرف یہ ہے پہلے میں نئے مقصد کیلئے نیا نام نہیں ہے جبکہ دوسری صورت میں نئے مقصد کیلئے نیا نام ہے، جب دونوں صورتوں میں پانی مغلوب ہوکر اپنا نام کھوبیٹھا ہے تو ان دونوں صورتوں میں اس سے وضو ناجائز ہوگا کیونکہ وضو کے منع ہونے کیلئے پانی کا مغلوب ہوجانا ہی معیار ہے۔ آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ پانی سے اس کے نام کو سلب کرنے والے دو سبب ہیں ایک نئے مقصد کیلئے تیار ہونا اور دوسرا اس کے پانی ہونے میں تردّد پایا جانا۔ (ت)


وبہ ظھر الجواب عن قولھم المار فی البحث الاول من ابحاث غلبۃ الغیر عن العنایۃ ومجمع الانھر ان الغلبۃ بالاجزاء غلبۃ حقیقیۃ اذوجود المرکب باجزائہ فکان اعتبارہ اولی بخلاف الغلبۃ باللون فانھا راجعۃ الی الوصف کیف وقد اجمعنا ونص الحدیث علی اعتبار الغلبۃ بالاوصاف فی کثیر یخالطہ نجس،


گزشتہ تحقیق سے علماء کے اس قول کا بھی جواب واضح ہوگیا جس کو انہوں نے غیر چیز کے غلبہ کی پہلی بحث میں عنایہ اور مجمع الانہر سے نقل کیا ہے کہ حقیقی غلبہ اجزاء کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ مرکب چیز کا وجود اجزاء کی وجہ سے ہوتا ہے لہٰذا اجزاء کے غلبہ کا اعتبار اولٰی ہے بخلاف رنگ والے غلبہ کے کیونکہ وہ وصف کی طرف راجع ہے۔ اس کا جواب اس لئے واضح ہے کہ بہت سی نجس چیزیں جب پانی میں ملتی ہیں تو وہاں اوصاف کے غلبہ کے اعتبار سے حدیث کی نص اور ہمارا اجماع بھی ہے، اس کی مثالیں حسب ذیل ہیں،


وفی الدم (۱) ان خرج من الفم تعتبر الغلبۃ بینہ وبین الریق من حیث اللون فانکان احمر نقض الوضو وان اصفر لاکما فی التبیین والبحر وغیرھما وفی الدم(۲) خرج من اسنانہ فابتلعہ ان غلب علی الریق افطر ویعرف بوجدان طعمہ وعلیہ الاکثر وبہ جزم فی البزازیۃ واستحسنہ الکمال وشےخ الاسلام الغزی کمافی الدرعـــــہ وھذا التوزیع علی وفق مسلکی فاعتبر وفی الوضو اللون تقدیما لہ وفی الصوم الطعم لتعذر ادراک اللون وقلت:خاصۃ انت ایھا الامام الثانی فی (۳) لبن امرأۃ خلط بدواء انہ ان غیر طعمہ ولونہ معالم یتعلق بہ تحریم الرضاع والاحرم ۔


جب(۱) مُنہ سے خون نکلے تو وہاں رنگ کے اعتبار سے غلبہ ہوتا ہے کہ اگر تھوک میں سُرخی ہو تو خون غالب ہوگا اور اگر سُرخی کی بجائے صرف زردی ہو تو تھوک غالب ہوتا ہے جس پر وضو ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا حکم نافذ ہوتا ہے، جیسا کہ تبیین، بحر وغیرہما میں ہے، اور جب(۲) دانتوں سے خون نکلے اور روزہ دار اس کو حلق میں اتارلے تو اگر خون کا ذائقہ ہوا تو خون کو غالب قرار دے کر روزہ کے فساد کا حکم ہوگا اور اگر خون کا ذائقہ نہ پایا تو روزہ فاسد نہ ہوگا،یہی اکثر علماء کا موقف ہے اور اسی پر بزازیہ نے جزم کیا ہے کمال اور شےخ الاسلام الغزی نے اس کو پسند کیا ہے، جیسا کہ دُرمختار میں ہے، اور مذکور تقسیم وترتیب میرے ضابطہ کے مطابق ہے کہ وضو کے بارے میں رنگ کا اعتبار پہلے ہوگا اور روزہ کے بارے میں ذائقہ کا اعتبار ہوگا، کیونکہ روزہ کی صورت میں رنگ کا ادراک مشکل ہوتا ہے۔اور(۳) میں خاص طور پر امام ثانی (امام یوسف) کے بارے میں کہتا ہوں کہ انہوں نے عورت کے دودھ کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر وہ دوائی میں مل جائے اور دوائی کی وجہ سے اُس دودھ کا رنگ اور ذائقہ تبدیل ہوجائے تو اس سے بچنے کیلئے رضاعت والی حرمت ثابت نہ ہوگی ورنہ حرمت ثابت ہوجائےگی۔


عــہ عبارۃ وجیز الکردری لاشیئ اذاخرج الدم من بین اسنانہ والبزاق غالب فابتلعہ ولم یجد طعمہ وان غلب الدم اوتساویا فسد اھ۱؂۔ ونظم الدران غلب الدم اوتساویا فسد، والالا،الا اذاوجد طعمہ بزازیۃ۲؂ الخ اقول:فالثنیا باعتبار الغلبۃ بالاجزاء والحکم باعتبار الغلبۃ بالوصف فان المغلوب لاحکم لہ ۱۲ منہ غفرلہ۔(م)

وجیز الکردری کی عبارت یوں ہے ''جب دانتوں سے خون نکلے اور اس پر تھوک کی غالب رہے تو کوئی حرج نہیں جبکہ نگلنے میں خون کا ذائقہ نہ پائے، اور اگر تھوک پر خون غالب ہو یا برابر ہو تو وضو فاسد ہوگا اھ اور درمختار کی عبارت یوں ہے: ''اگر خون غالب ہو یا دونوں مساوی ہوں تو وضو فاسد ہوگا ورنہ نہیں الّا یہ کہ خون کا ذائقہ پائے بزازیہ الخ میں کہتا ہوں کہ درمختار کی عبارت میں حکم میں وصف کے لحاظ سے غلبہ کو بیان کیا گیا ہے اور استشناء میں اجزاء کے لحاظ سے غلبہ کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ مغلوب چیز کے لحاظ سے حکم نہیں ہوتا۔ (ت)


 (۱؂فتاوی بزازیہ علی ھامش فتاوی ھندیہ  کتاب الصوم    ۴/۹۸)

(۲؂درمختار    باب مایفسد الصوم     مطبع دہلی          ۱/۱۴۹ )

قال فی التبیین فی المنتقی فسر الغلبۃ فی روایۃ ابن سماعۃ عن ابی یوسف فقال اذاجعل فی لبن المرأۃ دواء فغیر لونہ ولم یغیر طعمہ اوعلی العکس فاوجر بہ صبی حرّم وان غیر اللون والطعم ولم یوجد فیہ طعم اللبن وذھب لونہ لم یحرّم وفسر الغلبۃ فی روایۃ الولید عن محمد فقال اذالم یغیرہ الدواء من ان یکون لبنا تثبت بہ الحرمۃ ۱؎ اھ۔


تبیین میں کہا ہے کہ منتقیٰ میں امام یوسف سے مروی غلبہ کی یہ تفسیر کی گئی ہے کہ جب عورت کے دودھ میں دوائی ڈالی جائے جس سے دودھ کے رنگ اور ذائقہ میں سے ایک چیز بدل جائے اور دوسری تبدیل نہ ہو تو پھر کسی بچّہ نے اس کو پی لیا تو حرمت ثابت ہوگی، اور اگر دوائی کی وجہ سے دودھ کا رنگ اور ذائقہ دونوں تبدیل ہوجائیں اور ذائقہ اور رنگ   باقی نہ رہے تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔ اور امام محمد سے غلبہ کی تفسیر کو ولید نے یوں بیان کیا ہے کہ جب دواء نے دودھ کی حیثیت کو باقی رکھا تو اس سے حرمت ثابت ہوگی اھ۔ (ت)


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الرضاع    مطبع الامیریہ مصر    ۲/۱۸۵)


فان قلت:لم عدل محمد ھھنا عن الاوصاف الی الاجزاء قلت:لان الحکم فی الطھارۃ علی الماء فلزم المطلق وھھنا علی الرضاع والمص(۱) من الثدی غیر لازم بالاجماع فبقی وصول اللبن الی الجوف فما دام اللبن لبنا صدق الوصول ھذا ماظھرلی فی تقریر مذھب محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔


اگر آپ کا یہ اعتراض ہو کہ امام محمد نے یہاں غلبہ کے اعتبار میں اوصاف کی بجائے اجزا کی طرف کیوں عدول کیا ہے؟ تو اس کے جواب کیلئے میں کہتا ہوں کہ طہارت کے معاملہ میں حکم کا تعلق پانی سے ہوتا ہے جس کو مطلق رکھنا ضروری ہے اور یہاں حکم کا تعلق رضاع سے ہے جس میں پستان سے چُوسنا لازم نہیں ہے بلکہ بالاجماع یہاں دودھ کا حلق سے اندر اترنا معتبر ہے تو جب تک دودھ کی حیثیت باقی ہے اس وقت تک حلق میں وصول کا لحاظ باقی رہے گا، امام محمد کے مذہب کی تقریر میں یہ میری رائے ہے۔ (ت)


اقول: وکانّ ابایوسف یقول رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ الارتیاب والالتباس لعارض لایغیر الذات لایخرج الشیئ عن حقیقتہ المتبادر الیھا الافھام عنہ سماع اسمہ کزید جاء متنکرا فلم یعرفہ الناس ولامعنی لزوال الاسم مع بقاء الحقیقۃ اجزاء ومقصودا کما قدمنا تحقیقہ ولربما یحصل الالتباس بخلط جامد فانہ لایغیر الا اذا انماع فاذا اتحد عملہ وعمل مائع کان اللبس علی حد سواء فانک ان القیت فی الماء عصفرا فاصفر وصار کماء الزردج لاتفرق بینہ وبین ماء القی فیہ ماء الزردج وقد اجمعنا علی اھدارہ مالم یتھیا لمقصد اٰخر والنجس لایؤثر فی تغییر ذات الماء کمامر منا تحقیقہ ان الماء النجس والمستعمل من الماء المطلق وانما یسلبہ وصف الطہارۃ فجاز البناء فیہ علی الاوصاف التی لاتتغیر بتغیرھا الذات بخلاف ماھنا فانہ مھما تبقی الذات سالمۃ یبقی داخلا تحت المطلق المامور بہ والمعتبر فی الوضو سیلان(۱) نجس بقوتہ ولانظر بعد ذلک الی امتزاجہ مع طاھر اقل منہ قدراً اواکثر فاحمرار البزاق یدل علی ان الدم کثیر خارج بقوتہ واصفرارہ علی انہ قلیل استتبعہ البصاق،


میں کہتا ہوں، امام یوسف گویا یوں فرماتے ہیں کہ عارضہ کی بنا پر کسی چیز میں تردّد واشتباہ اس چیز کی ذات کو اپنی حقیقت سے خارج نہیں کرسکتا حقیقت اس کی وہی ہے جو اس کے نام سننے پر فہم میں آئے، جیسا کہ زید اپنی حالت تبدیل کرکے آئے تو لوگ اس کو نہیں پہچانیں گے (اس کے باوجود وہ زید ہے) شیئ کا نام اُس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک شیئ کی حقیقت اجزاء اور مقصود کے اعتبار سے باقی ہو جیسے کہ ہم نے پہلے تحقیق کردی ہے، یوں تو جامد چیز ملنے سے کبھی اشتباہ پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ جامد چیز پانی میں پگھل کر اور گھُل کر ہی اس میں تبدیلی پیدا کرتی ہے، لہٰذا جب مائع اور جامد دونوں کا عمل قدرے مساوی ہے تو دونوں سے اشتباہ وتردّد کی صورت بھی برابر ہے یقینا آپ جب پانی میں عصفر ڈالیں گے تو پانی اسی طرح زرد ہوگا جس طرح زردہ والا پانی زرد ہوتا ہے آپ رنگ کی تبدیلی میں دونوں کا فرق واضح نہیں کر پائیں گے جبکہ ہم زردہ کے پانی کے معمولی رنگ کو کالعدم قرار دے چکے ہیں نجاست پا نی کی ذات کو تبدیل کرنے میں مؤثر نہیں ہوتی جیسا کہ پہلے ہماری تحقیق گزر چکی ہے کہ ناپاک پانی اور مستعمل پانی مطلق پانی ہوتے ہیں صرف ان کا وصفِ طہارت منتفی ہوتا ہے لہٰذا نجاست کے حکم کی بنیاد ایسے اوصاف پر ہوسکتی ہے جن کی تبدیلی سے پانی کی ذات تبدیل نہ ہو لیکن پانی میں پاک چیز ملنے کی وجہ سے تغیر کا حکم اس کے خلاف ہے کیونکہ یہاں اوصاف کی تبدیلی سے مطلق پانی کی ذات قابل استعمال ہونے میں سالم رہتی ہے۔ اور وضو کے فساد میں بدن سے نجاست کا اپنی قوت سے بہنا معتبر ہوتا ہے اس کے بعد اس نجاست کا پاک چیز سے امتزاج قلیل مقدار میں ہو یا کثیر مقدار میں اس کا کوئی لحاظ نہیں ہوگا تو تھوک کی سرخی سے منہ سے نکلنے والے خون کی کثرت اور قوت سے خارج کی دلیل ہوگی اور تھوک کی زردی خون کے قلیل اور مغلوب ہونے کی دلیل ہوگی۔


قال الامام الزیلعی الدم ان خرج من نفس الفم تعتبر الغلبۃ بینہ وبین الریق وان تساویا انتقض الوضو لان البصاق سائل بقوۃ نفسہ فکذا مساویہ بخلاف المغلوب لانہ سائل بقوۃ الغالب ویعتبر ذلک من حیث اللون ۱؎ الخ ثم قال(۱) لوقاء دما ان نزل من الرأس نقض قل اوکثر باجماع اصحابنا وان صعد(۲) من الجوف فالمختار ان کان علقا یعتبر ملئ الفم لانہ لیس بدم وانما ھو سوداء احترقت وانکان مائعا نقض وان قل لانہ من قرحۃ فی الجوف وقد وصل الی مایلحقہ حکم التطھیر۲؎اھ۔


امام زیلعی نے فرمایا ہے کہ منہ سے نکلنے والے خون میں غلبہ کا اعتبار ہوگا اور خون اور تھوک مساوی ہوں تو بھی وضو فاسد ہوگا کیونکہ اس صورت میں تھوک اور خون مساوی قوت سے خارج ہوئے ہیں ،مغلوب کا معاملہ اس کے برخلاف ہے کیونکہ وہ غالب کے تابع ہوتا ہے اور غلبہ کا اعتبار رنگ سے کیا جائے گا الخ پھر انہوں نے اس کے بعد فرمایا اگر خون کی قے آئے تو معلوم کیا جائے کہ یہ خُون سر سے اترا ہے یا پیٹ سے اُبھرا ہے اگر سر سے نازل ہُوا ہو تو اس سے وضو فاسد ہوجائےگا خواہ وہ خون قلیل ہو یا کثیر ہو اس پر ہمارے اصحاب کا اجماع ہے اور اگر وہ پیٹ کا خون بستہ ہو تو پھر منہ بھر کر قَے ہونے پر وضو فاسد ہوگا یہی مختار مسلک ہے کیونکہ حقیقت میں وہ خون نہیں ہے بلکہ وہ سوداء کا جلا ہوا مادہ ہے اور اگر وہ پیٹ سے اُبھرا ہوا خون رقیق ہو تو پھر قلیل قے سے بھی وضو فاسد ہوجائےگا کیونکہ وہ پیٹ میں کسی زخم کا خون ہے جو ایسے مرحلہ میں پہنچ گیا یعنی خارج ہوکر ایسی جگہ پہنچ گیا جس جگہ کو پاک رکھنے کا حکم ہے اھ۔


 (۱؎ تبیین الحقائق    نواقض الوضوء    مطبعہ امیریہ ببولاق مصر    ۱/۸)

(۲؎ تبیین الحقائق    نواقض الوضوء    مطبعہ امیریہ ببولاق مصر   ۱/۹)


ثم قال تحت قول الکنز لابلغما(۳) اودما(۴) غلب علیہ البصاق مانصہ ھذا اذاخرج من نفس الفم وان خرج من الجوف فقد ذکرنا تفاصیلہ ۳؎ اھ ای ان کان علقا اعتبر ملء الفم والا نقض وان قل،


اس کے بعد انہوں نے کنز کے اس قول لابلغماً اودما غلب علیہ البصاق (یعنی جب بلغم کی یا ایسے خون کی قے ہو جس پر تھوک غالب ہو تو وضو فاسد نہ ہوگا) کے تحت کہا یہ حکم جب ہے کہ وہ خون منہ کا ہو اور اور اگر وہ پیٹ کا ہو تو پھر اس کی تفصیل ہم بیان کرچکے ہیں اھ یعنی یہی کہ اگر خون بستہ ہو تو منہ بھر قے ہونے پر وضو فاسد ہوگا ورنہ نہیں اور اگر خون رقیق ہو تو پھر قلیل قے سے بھی وضو فاسد ہوگا،


 (۳؎ تبیین الحقائق    نواقض الوضوء    مطبعہ امیریہ ببولاق مصر    ۱/۹)


قال العلامۃ الشامی فی منحۃ الخالق الخارج من الجوف لایخالطہ البزاق الابعد وصولہ الی الفم لان البزاق محلہ الفم لاالجوف وبھذا یظھر الفرق بین الخارج من القسم والخارج من الجوف فان الخارج من الفم انما کان سیلانہ بسبب البزاق وجعل غلبتہ علی البزاق دلیل سیلانہ بنفسہ بخلاف الخارج من الجوف فانہ لایصل الی الفم الا اذاکان سائلا بنفسہ فالفرق بینھما واضح ۱؎ اھ


علامہ شامی نے منحۃ الخالق میں فرمایا کہ پیٹ سے آنے والے خون میں تھوک کی ملاوٹ منہ میں ہوتی ہے کیونکہ تھوک کا مقام منہ ہے پیٹ نہیں، اس سے منہ سے نکلنے والے خون اور پیٹ سے آنے والے خون کا فرق واضح ہوگیا کیونکہ منہ سے نکلنے والے خون کا سبب تھوک ہے اور تھوک پر اس کا غلبہ اس کے خود بہہ نکلنے کی دلیل ہے لیکن پیٹ سے آنے والے خون کا معاملہ اس کے خلاف ہے کیونکہ اس کا منہ تک آنا خود بہہ نکلنے کی دلیل ہے اس لئے کہ وہ بہہ کر یہاں پہنچا، یوں فرق واضح ہوا اھ۔


 (۱؎ منحۃ الخالق علی حاشےۃ البحرالرائق ،نواقض الوضوء ، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، ۱/۳۶)


والمناط فی الصوم دخول شیئ من الخارج فی الجوف الاماتعذر التحرز عنہ ولذا عفی(۱) عن بلۃ تبقی بعد المضمضۃ وعن   (۲) قلیل اثر یبقی فی الفم من المأکول وما(۳) وجد طعمہ غیر قلیل کما حققہ فی الفتح قال لنا ان القلیل تابع لاسنانہ بمنزلۃ ریقہ فلایفسد کالریق وانما اعتبر تابعا لانہ لایمکن الامتناع عن بقاء اثر مامن المأکل حوالی الاسنان وان قل ثم یجری مع الریق النابع من محلہ الی الحلق فامتنع تعلیق الافطار بعینہ فیعلق بالکثیر ومن المشائخ من جعل(۴) الفاصل کون ذلک مما یحتاج فی ابتلاعہ الی الاستعانۃ بالریق اولا الاول قلیل والثانی کثیر وھو حسن لان المانع من الافطار بعد تحقق الوصول 

 کونہ لایسھل الاحتراز عنہ وذلک فیما یجری بنفسہ مع الریق الی الجوف لاما یعتمد فی ادخالہ لانہ غیر مضطر ۱؎ فیہ ،


اور روزہ فاسد ہونے کا معیار یہ ہے کہ خارج سے کسی ایسی چیز کا پیٹ میں داخل ہونا جس سے بچاؤ مشکل ہو تو وہ معاف ہے اسی وجہ سے کُلی کرنے کے بعد منہ میں باقی رہنے والی تری روزہ دار کو معاف ہے اور کوئی چیز کھانے کے بعد اگر اس کا قلیل اثر منہ میں باقی رہ جائے تو وہ بھی معاف ہے اور اگر کوئی ذائقہ والی چیز ہو تو وہ قلیل نہ ہوگی اس سے روزہ فاسد ہوگا۔ اس کی تحقیق فتح القدیر میں ہے، انہوں نے فرمایا ہماری دلیل یہ کہ قلیل چیز دانتوں کے تابع ہو کر تھوک کی طرح ہوجائے گی لہٰذا اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا اس کو دانتوں کے تابع اس لئے قرار دیا ہے کہ کھائی ہوئی چیز کے اس اثر سے جو دانتوں کے اردگرد باقی ہوتا ہے سے بچنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ لعاب کے ساتھ مل کر حلق میں منتقل ہوجاتا ہے اس لئے روزہ کے فساد کا تعلق اس قلیل اثر سے نہ ہوگا بلکہ کثیر اثر سے ہوگا، روزہ کے لئے مفسد اور غیر مفسد اثر کے بارے میں مشائخ میں سے بعض نے یہ فرق بیان فرمایا ہے کہ اگر وہ اثر ایسا ہو جس کو حلق سے اتارنے کیلئے لعاب کی مدد ضروری ہو تو وہ قلیل اور غیر مفسد ہے اور اگر لعاب کے بغیر اس کو حلق سے اتارا جاسکے تو کثیر اور مفسد ہے، یہ فرق خوب ہے کیونکہ حلق تک وصول کے باوجود روزے کا فاسد نہ ہونا اس بنا پر ہے کہ اس سے بچنا مشکل ہے کیونکہ لعاب سے مل کر خودبخود وہ اثر حلق سے بغیر قصد اترجاتا ہے اور جو اثر قصداً اتارنا پڑا وہ معاف نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی مجبوری نہیں ہے،


 (۱؎ فتح القدیر        باب مایوجب القضاء والکفارۃ    نوریہ رضویہ سکھر        ۲/۲۵۸)


وفی (۱) الکافی فی السمسمۃ ان مضغھا لایفسد الا ان یجد طعمہ فی حلقہ وھذا حسن جدا فلیکن الاصل فی کل قلیل مضغۃ ۲؎ اھ۔ اور کافی میں ہے کہ اگر تِل کا دانہ چبایا تو روزہ فاسد نہ ہوگا لیکن اگر اس کا ذائقہ حلق میں پایا جائے تو فاسد ہوگا۔ یہ فرق بہت خوب ہے اھ۔


 (۲؎ فتح القدیر        باب مایوجب القضاء والکفارۃ    نوریہ رضویہ سکھر         ۲/۲۵۹)


فتبین ان اعتبار اللون والطعم فی الوضو والصوم لیس من جھۃ اعتبار الغلبۃ بالاوصاف بل لان بھما ھھنا تحقق المناط وقد نصوا فی(۲) خمر قُبّلت ان کان الماء قلیلا اومساویا یحد اذاوصل الی جوفہ وان غلب الماء لاالا ان یسکر کما فی البزازیۃ ۳؎ فاعبتروا الغلبۃ بالاجزاء والا فالخبیثۃ تغلب ضعفھا بل اضعافھا من الماء فی الاوصاف اما مسألۃ الرضاع فالمعتمد فیھا ایضا اعتبار الاجزاء باحد المعانی الثلثۃ کما ھو قول محمد دون الاوصاف کمابینتہ فیما علقتہ علی ردالمحتار علا ان المناط ھھنا شرب مایغذی وینبت اللحم و ینشز العظم فظن الامام الثانی ان الدواء اذا اذھب لونہ وطعمہ کسرقوتہ کالمخلوط(۳)بالطعام واللّٰہ تعالٰی اعلم فانکشف الحجاب-وزھر الصواب-والحمدللّٰہ الکریم الوھاب- وصلی اللّٰہ تعالٰی علی السید الاواب-واٰلہ وصحبہ خیر اٰل واصحاب الٰی یوم الحساب- اٰمین۔


اس بحث سے یہ واضح ہوا کہ روزہ اور وضو کے فساد میں رنگ اور ذائقہ کا اعتبار غلبہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ ان دونوں وصفوں کی وجہ ان کے فساد کا معیار پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے شراب کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ شراب میں پانی قلیل یا مساوی ہو تو پینے والے کو حد لگے گی بشرطیکہ یہ شراب اس کے حلق سے نیچے اتر گئی اور اس میں پانی کثیر اور زیادہ تھا توحد نافذ نہ ہوگی بشرطیکہ نشہ نہ ہوا ہو، اس کو بزازیہ میں ذکر کیا ہے، یہاں فقہاء نے اجزاء کے لحاظ سے غلبہ کا اعتبار کیا ہے، ورنہ خبیث شراب تو اپنے سے کئی گنا زیادہ پانی میں مل کر بھی اوصاف میں غالب رہتی ہے لیکن رضاع کے مسئلہ میں بھی اجزاء کے لحاظ سے غلبہ کا اعتبار ہوتا ہے خواہ وہ غلبہ اپنے تین معانی میں سے کسی معنیٰ میں پایا جائے، یہاں اوصاف کے لحاظ سے غلبہ کا اعتبار نہیں ہے یہ امام محمد کا قول ہے جیسا کہ میں نے اس کو ردالمحتار کی تعلیقات میں ذکر کیا ہے اس کے علاوہ یہاں رضاع میں حکم کا معیار، غذا، گوشت پیدا کرنا اور ہڈی بنانے والی چیز کو پینا ہے تو دوسرے امام (امام ابویوسف) نے یہ گمان فرمایا کہ جب دوا عورت کے دُودھ میں مل کر اس کے رنگ اور ذائقہ کو ختم کردے گی تو وہ دودھ کی قوت کو بھی ختم کردے گی جیسے طعام میں مل کر دُودھ کی قوت ختم ہوجاتی ہے واللہ تعالٰی اعلم، حجاب اُٹھ گیا، درستی کھل گئی، الحمدللہ والصلوٰۃ علٰی رسول اللہ وآلہٖ وصحبہ اجمعین، آمین۔ (ت)


 (۳؎ فتاوٰی بزازیۃ علی حاشےۃ الفتاوٰی الہندیۃ کتاب الاشربہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۶/۱۲۵)

فصل رابع ضوابط کلیہ۔ الحمدللہ ہمارے بیانات سابقہ نے واضح کردیا کہ دونوں مذہب امامین مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہما دو۲ ضابطہ کلیہ ہیں:


اوّل ضابطہ: یوسفیہ کہ جب پانی کا سیلان زائل ہوجائے یا رقت نہ رہے اگرچہ بے کسی چیز کے ملنے یا اُس میں اس کا غیر کہ مقدار میں برابر یا پانی سے زائد ہو مل جائے یا دوسری شے سے مل کر ایک مرکب جداگانہ مقصد آخر کیلئے ہوجائے اگرچہ وہ دوسری شے پانی سے مقدار میں کتنی ہی کم ہو ان صورتوں میں پانی مقید ہوگیا اور قابلِ وضو نہ رہا ورنہ مطلقاً مائے مطلق ہے اگرچہ رنگ مزہ بُو سب بدل جائیں اور یہی صحیح ومعتمد اور یہی مفاد متون مستند ہے۔


دوم ضابطہ : شےبانیہ کہ اگر سیلان یا رقت نہ رہے تو مقید ہے اگرچہ بے خلط چیزسے ہو اور کسی چیز کے خلط سے مقصد دیگر کیلئے چیز دیگر ہوجائے تو مقید ہے اگرچہ مخلوط جامد ہو اور اگر یہ صورتیں نہیں اور مخلوط شے جامد ہے تو مطلقاً مائے مطلق ہے اگرچہ اوصاف بدل جائیں اور اگر مخلوط شے مائع ہے تو اوّلا رنگ دیکھیں گے اگر پانی پر اُس کا رنگ اس درجہ غالب آیا کہ ناظر کو اُس کے پانی ہونے میں اشتباہ پڑے مائع دیگر کا شبہ گزرے تو مقید ہوگیا اور اگر رنگ اتنا نہ بدلا تو مزے پر نظر ہوگی اگر مزہ اُس حدِّ التباس تک بدل گیا تو مقید ہے اور اگر رنگ ومزہ اس حد تک نہ بدلے تو بُو کا لحاظ نہیں صرف یہ دیکھیں گے کہ وہ دوسرا مائع اگر مقدار میں پانی سے زائد یا برابر ہے مقید ہوگیا ورنہ مطلق ہے۔


سوم ضابطہ : برجندیہ کہ پاک چیز جو پانی میں ملے اگر جنس ارض سے ہے جیسے مٹی ہرتال چُونا یا اُس سے زیادت نظافت مقصود ہوتی ہے جیسے صابون وغیرہ اگرچہ پکنے میں ملے ان دونوں صورتوں میں جب تک پانی اپنی رقّت پر باقی ہے وضو جائز ہے ورنہ نہیں اور اگر نہ جنس زمین سے ہے نہ اُس سے زیادت نظافت مقصود تو اس کا خلط اگر پکتے میں ہوا اور اُس سے پانی میں کچھ بھی تغیر آیا وضو جائز نہیں اگرچہ رقّت باقی رہے مگر ظہیریہ نے اس میں بھی اعتبار رقّت کیا اور اگر خلط بلاطبخ ہوا تو اس صورت میں امام محمد مطلقاً اعتبار رنگ فرماتے ہیں اور امام ابویوسف کے نزدیک اگر وہ بہتی ہوئی چیز ہے تو کثرت اجزا کا اعتبار ہے اگر پانی زیادہ ہے وضو جائز ورنہ نہیں اور غیر مائع میں وہی اعتبار رقت ہونا چاہئے کہ پانی اپنی رقت پر نہ رہے تو وضو ناجائز ورنہ جائز۔


قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی تفصیلہ ان الطاھر المخالط اما(۱) من جنس الارض کالتراب والزرنیخ والنو رۃ اومن غیر جنس الارض وھو (۲) اما ان لم یختلط بہ بالطبخ او(۳) اختلط بہ بالطبخ وحینئذ اما ان یقصد بہ النظافۃ کالاشنان اولا(۴) فھذہ اربعۃ اقسام،


(علامہ برجندی) رحمہ اللہ تعالٰی نے کہا کہ پانی میں پاک چیز ملنے کی تفصیل یوں ہے کہ وہ مٹّی، ہڑتال، چونا جیسی جنس زمین سے ہوگی یا غیر جنس زمین سے، پھر خواہ وہ پانی میں پکانے سے نہ ملے یا پکانے سے مل گئی اور ملانے سے مقصود طہارت میں مبالغہ ہے جیسے اشنان یا نہیں تو یہ کل چار(۴) صورتیں ہوئیں،


وحکم الاقسام الثلثۃ الاول انہ ان غلب الماء جاز التوضی وان غلب ذلک المخالط لا، ومعنی غلبۃ المخالط فی الاول والثالث ان تزول الرقۃ وفی الثانی ان یغلب لون المخالط علٰی لون الماء عند محمد والاجزاء علی الاجزاء عند ابی یوسف رحمہما اللّٰہ تعالٰی واذا اعتبر غلبۃ الاجزاء ففی غیر المائعات ینبغی ان یکون بحیث یخرج الماء عن الرقۃ وفی روایۃ عن ابی یوسف فی ھذا القسم ان کان مما لایقصد بہ النظافۃ کالصابون فھو غیر طھور مطلقا سواء غلبت الاجزاء اولا ھذا ھو المفھوم من الفتاوی الظھیریۃ وشروح الھدایۃ، وذکر فی الھدایۃ انہ یعتبر فی الغلبۃ اولا اللون ثم الطعم ثم الاجزاء ۱؎،


پہلی تین صورتوں میں تو یہ حکم ہے کہ اگر پانی غالب ہو تو وضو جائز ہوگا ورنہ وضو جائز نہ ہوگا، پہلی اور تیسری صورت میں ملنے والی شے کا غلبہ تب ہوگا جب پانی کا پتلا پن جاتا رہے اور دوسری صورت میں امام محمد کے ہاں جب ملنے والی شے کا رنگ پانی پر غالب آجائے غلبہ ہوگا، اور امام ابویوسف کے ہاں جب اس کے اجزاء غالب ہوجائیں تو غلبہ ہوگا، چونکہ امام ابویوسف غلبہ بالاجزاء کے قائل ہیں بنابریں غیر مائع اشےاء کا غلبہ پانی کے پتلے پن کے زوال سے ہونا چاہے۔ امام ابویوسف سے ایک اور روایت بھی ہے کہ اگر ملنے والی شے سے طہارت میں مبالغہ مقصود نہ ہو مثلاً صابن، تو پانی وضو کے قابل مطلق نہ رہے گا چاہے اجزاء کا غلبہ ہو یا نہ ہو فتاوٰی ظہیریہ اور شرح ہدایہ کا مفہوم یہی ہے، اور ہدایہ میں یہ مذکور ہے کہ اوّلاً رنگ پھر ذائقہ پھر اجزاء کے غلبہ کا اعتبار ہوگا۔


 (۱۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    کتاب الطہارۃ    منشے نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۲)


واما حکم القسم الرابع فاشار الیہ بقولہ (اوغیرہ طبخا وھو ممالایقصد بہ النظافۃ) واطلاق التغیر وجعلہ قسیما للاخراج عن طبع الماء مما یتبادر منہ ان مطلق التغیر بالطبخ مانع سواء اخرجہ عن طبع الماء اولا، وھذا ھو المفھوم من الھدایۃ ویؤیدہ مافی الخزانۃ وفتاوی قاضی خان انہ اذاطبخ فیہ الباقلی وریح الباقلی یوجد منہ لایجوز بہ التوضی ھذا وقد ذکر فی الفتاوی الظھیریۃ انہ اذاطبخ الحمص او الباقلی فی الماء و صار بحیث اذا برد ثخن لایجوز بہ التوضی وان لم یثخن ورقۃ الماء باقیۃ جاز ۱؎ اھ۔ وسقناہ تماما وان تقدم اٰخرہ لجمع کلامہ فی محل واحد۔


رہا چوتھی صورت کا حکم جس کی طرف برجندی نے ''یا غیر جنس الارض پکانے سے ملے جس سے مبالغہ طہارت مقصود نہ ہو'' کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔ تغیر کو مطلق رکھنے اور پانی کے طبعی حالت سے اخراج کے مقابل ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری شے کے پانی میں پکنے سے آنے والی تبدیلی وضو سے مانع ہے چاہے پانی کو طبعی حالت سے نکالے یا نہ نکالے، یہ ہدایہ سے مفہوم ہے، جبکہ خزانہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اور فتاوٰی قاضی خان میں ہے کہ جب پانی میں لوبیا پکایا جائے اور اس کی بُو محسوس ہونے لگے تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا، فتاوٰی ظہیریہ میں ہے کہ چنے یا لوبیا پانی میں ابالے گئے اور ساکن ہونے پر پانی گاڑھا ہوگیا تو وضو جائز نہ ہوگا، اور اگر پتلا پن برقرار رہا تو جائز ہوگا۔ یہاں تمام عبارات کو محض یکجا کرنے کی خاطر ذکر کردیا گیا ورنہ اس کا آخری حصہ تو پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے۔ (ت)


 (۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    ابحاث الماء من کتاب الطہارۃ     مطبوعہ نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۲)


اقول:اس کا خلاصہ یہ کہ امام ابویوسف کے نزدیک مطلقاً رقت آب پر مدار ہے مگر دو صورتوں میں ایک یہ کہ کوئی بہتی چیز بغیر طبخ پانی میں ملے کہ اس میں کثرت اجزاء پر لحاظ ہے دوسرے یہ کہ جس چیز سے زیادت نظافت نہ مطلوب ہو طبخ میں ملے اس میں مطلق تغیر مانع ہے اور امام محمد کے نزدیک مطلقاً اوصاف کا اعتبار ہے مگر دو صورتوں میں، ایک یہ کہ ملنے والی چیز جنس زمین سے ہو دوسری یہ کہ اُس سے زیادت نظافت مطلوب ہو ان دونوں میں رقت پر نظر ہے، ہماری تحقیقات وتنقیحات مذکورہ اور ائمہ کے نصوص وتصریحات مسطورہ پر نظر کرنے والا جانے گا جن جن وجوہ سے اس میں کلام ہے مثلاً


اوّل مذہب(۱) امام ابویوسف میں مقصد آخر کیلئے شیئ دیگر ہوجانے کا ذکر باقی رہ گیا اس میں رقّت وکثرت اجزا کسی کا لحاظ نہیں۔


فان قلت الیس قال باعتبار الاجزاء علی قولہ وقد تقدم لک ان معناھا الثالث التھیؤ لمقصد اٰخر۔؂ اعتراض: کیا برجندی نے باعتبار الاجزاء کے الفاظ قد تقدم لک ان معناھا الثالث التھیؤ لمقصد اٰخر کے تحت نہیں کہے؟


ۤاقول:لکن کلامہ بمعزل عنہ الاتری انہ خصھا فی الجامدات بانسلاب الرقۃ۔ جواب: برجندی کے کلام کا مقصد ہرگز وہ نہیں جو بیان کیا جارہا ہے کیونکہ اس نے اس صورت کو جامدات کے ملنے پر پانی کی رقت ختم ہوجانے کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے۔ (ت)


ثانی: یوہیں (۲) مذہب امام محمد میں اس کا ذکر نہ آیا حالانکہ وہ مجمع علیہ ہے جیسا کہ مسائل نبیذ و زعفران وغیرہا میں گزرا۔

ثالث (۳) نمبر ۲۱۷ و بحث دوم ابحاث طبخ میں۳۱ کتابوں سے تصریح وتحقیق گزری کہ طبخ میں بھی رقت ہی مدار ہے مجرد تغیر وصف کا فی نہیں۔

رابع(۱) وہیں گزرا کہ منظف وغیر منظف میں کیا فرق ہے۔

خامس(۲) نیز یہ کہ صاحبین رحمہما اللہ تعالٰی سے مذہب منقول میں دونوں کا ایک حکم ہے۔


السادس(۳) انما الغلبۃ قطب الرحی فلاتختص بھا الاقسام الاولی۔ چھٹا اعتراض: پہلی اقسام غلبہ کے ساتھ مختص نہیں ہیں حالانکہ غلبہ ہی اس مسئلہ کا مدار ہے۔


السابع(۴) محمد لایقتصر علی اللون۔ ساتواں اعتراض: امام محمد محض رنگ پر اکتفا نہیں کرتے۔


الثامن(۵) مجرد الخلط بلاتغییر مالایمنع اجماعا فلابد من تقیید اطلاق ماذکر روایۃ عن الثانی فی القسم الثانی۔ آٹھواں اعتراض: محض ملاوٹ بغیر پانی کی تبدیلی کے جو بالاجماع وضو سے مانع نہیں ہے لہٰذا قسم ثانی میں امام ابویوسف کی مطلق روایت کو مقید بنانا ضروری ہے۔


التاسع(۶) قدمنا مافی استشھادہ باطلاق التغیر وجعلہ قسیما لزوال الطبع قلیل ۲۱۸۔ نواں اعتراض: ہم نے نمبر ۲۱۸ سے تھوڑا پہلے وہ اعتراض ذکر کیا ہے جو بحوالہ امام ابویوسف پانی میں تبدیلی کو مطلق رکھنے اور حالت طبعی سے نکلنے کا مقابل بنانے پر ہوتا ہے۔


العاشر(۷) حققنا مفھوم الھدایۃ فی ثانی ابحاث الطبخ وان مافھم منہ من الاجتزاء بمجرد تغیر الوصف الذی استشھد علیہ بعبارۃ الخزانۃ اوالخانیۃ غیر مراد۔ دسواں اعتراض : ہدایہ کے مفہوم کی تحقیق پکانے کی مباحث میں سے بحث ثانی میں ہم بیان کرچکے ہیں اور یہ بھی کہ اس سے جو سمجھا جارہا ہے کہ صرف اس وصف کے تغیر پر اکتفاء کیا جائےگا جس پر خزانہ اور خانیہ کی عبارت شاہد ہے یہ مراد نہیں ہے۔


الحادی(۸) عشر ذکرنا معنی کلام الخانیۃ فی ۲۱۷ وانہ لایؤید مایرید ۔ گیارھواں اعتراض: ہم خانیہ کے کلام کا صحیح مفہوم ۲۱۷ میں واضح کرچکے ہیں جو برجندی کے خیال کا مؤید نہیں ہے۔


الثانی(۹) عشر ذکرنا فی ثانی ابحاث الطبخ مافی الاستناد بھا بثلثۃ وجوہ۔ بارھواں اعتراض: خانیہ کی عبارت کو سند بنانے پر ہم پکانے کی بحث ثانی میں تین وجوہ سے اعتراض کرچکے ہیں۔ (ت)


چہارم ضابطہ: زیلعیہ عبارت امام زیلعی ۲۸۷ میں گزری اور ان کا خلاصہ ارشاد کہ جو(۱) پانی درختوں سبزیوں نے پی لیا منظفات(۲) مثل صابون وغیرہ کے سوا اور کوئی چیز اس میں پکانے سے نہایت گھال میل ہوگیا یا(۳) اور طرح دوسری چیز مل کر اس پر غالب آگئی اس سے وضو ناجائز ہے ورنہ جائز۔ یہ تین اسباب تقیید ہیں اور ان میں سبب سوم یعنی بلاطبخ وتشرب غلبہ غیر کی یہ تفصیل کہ جامد(۱) شے ملی تو پانی رقیق نہ رہے اور(۲) بہتی چیز اگر رنگ، مزہ، بُو تینوں وصف میں پانی کے مخالف ہے تو دو وصف بدل دے اور(۳) دو(۲) یا ایک میں مخالف ہے تو ایک ہی بدلنا کافی ہے اور کسی   (۴) میں مخالف نہیں تو کثرت مقدار کا اعتبار ہے اگر پانی مقدار میں زائد ہے وضو جائز ہے ورنہ نہیں۔


اقول: وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق (اللہ تعالٰی کی توفیق سے میں کہتا ہوں اسی کی توفیق سے تحقیق کی گہرائی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ت) یہ فقیر حقیر غفرلہ الغفور القدیر اکابر کے حضور زبان کھولنے کی کیا لیاقت رکھتا ہے مگر بحمد المولٰی سبحٰنہ وتعالٰی جب دامن ائمہ مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہم ہاتھ میں ہو تو دل قوی ہوتا ہے۔ بیان امام فخر زیلعی رحمہ اللہ تعالٰی کے دو۲ حصّے ہیں:


پہلا ضابطہ تقیید یعنی پانی کس کس سبب سے مقید ہوکر آب مطلق لائقِ وضو نہیں رہتا یہ ان لفظوں میں تھا کہ تشرب (۱) نبات یاکمال(۲) امتزاج بطبخ غیر منظف یا غلبہ(۳) غیر وبس اس میں صرف تین وجہ سے کلام ہے۔ 

اول(۱) یہ کلام نفیس وصحیح ورجیح ونجیح تھا اگر کلام آتی میں غلبہ غیر کو زوال رقت وغلبہ اوصاف وکثرت مقدار سے خاص نہ کرتے کہ زوال اسم وتبدل مقصود کو بھی شامل رہتا کماقدمنا فی مبحث غلبۃ الغیر۔

اقول: بلکہ اب صرف غلبہ غیر پر قناعت بس تھی کہ تشرب نبات وامتزاج بالطبخ کو بھی شامل مگر اُس تخصیص سے تقیید کا یہ اجماعی سبب اعنی تبدل مقصود باقی رہ گیا اور بس کہنا صحیح نہ ہوا اس کی تحقیق وتنقیح مستطاب اور کلام بحر وابو السعود سے جواب ۲۸۷ میں گزرا وباللہ التوفیق یہ اعتراض اصل میں بحر کا ہے۔

دوم تشرب نبات سے قاطر کرم کو کہ آپ ٹپکتا ہے خارج فرمانا اگرچہ ایک جماعت اکابر نے مانا تحقیق اس کے خلاف ہے اس کا بیان ۲۰۵ میں گزرا یہ اعتراض امام ابن امیر الحاج نے حلیہ میں کیا


فقال فی اثناء نقل الضابطۃ حین بلغ ھذا المحل مانصہ لکن عرفت مافی ھذا الحکم من الخلاف ومافی ھذا التعلیل من المعارضۃ فی المعنی کماقدمناہ اٰنفا من الکافی عن المحیط وذکرنا ان الظاھر انہ الاوجہ ۱؎ اھ۔


ضابطہ نقل کرتے ہوئے امام امیر الحاج نے یہاں پہنچ کر اپنے لفظوں میں یوں کہا لیکن اس حکم میں اختلاف اور بیانِ علت میں جو معنوی تعارض ہے اس سےتم باخبر ہوچکے ہو، جیسا کہ ہم نے کچھ ہی پہلے کافی سے بحوالہ محیط نقل کیا اور یہ بھی بتایا ہے کہ درحقیقت مضبوط بات بھی یہی ہے (ت)


 (۱؎ حلیہ)


اقول:(۱) بلکہ اس کے پانی ہی ہونے میں کلام ہے اس کا بیان حاشےہ ۲۰۷ میں گزرا ۔

سوم اقول مطبوخ(۲) منظف کا حکم باقی رہ گیا


ۤفانہ اخرجہ من الطبخ بالقید ومن الغلبۃ بقولہ وغلبۃ الممتزج بالاختلاط من غیر طبخ ولاتشرب نبات ۲؎۔


کیونکہ اس کو طبخ اور غلبہ کی صورتوں سے خارج کردیا ہے۔ طبخ سے (غیر منظفات کی) قید لگاکر، اور غلبہ سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ پانی میں ملنے والی چیز کا بغیر پانی اور بغیر سبزیوں کے چُوسنے، کے غلبہ ہو۔ (ت)


 (۲؎ تبیین الحقائق    ابحاث الماء        مطبعہ امیریہ بولاق مصر    ۱/۲۰)


دوسرا ضابطہ غلبہ بے تشرب وبے طبخ وہ یہاں سے آغاز ہوا کہ اگر جامد شے ملی الٰی آخرہٖ۔ 

اقول: اول میں جو کچھ فرمایا منقول تھا ہے دوم ہی امام ممدوح کا ایجاد واجتہاد ہے جسے امام محقق علی الاطلاق پھر علامہ شرنبلالی پھر علامہ شامی نے بلفظ اقتحام تعبیر فرمایا کہ اقتحم عہ شارح الکنز رحمہ اللّٰہ تعالٰی التوفیق بین کلام الاصحاب باعطاء ضابط فی ذلک ۳؎  (شارح کنز علیہ الرحمۃ نے فقہاء کے مختلف اقوال کو موافق بنانے کے لئے ضابطہ دے کر اس میں سینہ زوری سے کام لیا ہے۔ ت) اور یہی معترک ایرادات ومجمع ہرگونہ مخالفات ہے۔


عہ ھذہ عبارۃ المحقق حیث اطلق ومثلہ للشامی ولفظ الشرنبلالی فی الغنیۃ کماقال الزیلعی المقتحم لھذا الضابط ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

یہ عبارت محقق مطلق (صاحبِ فتح القدیر) کی ہے اور شامی نے بھی یہی الفاظ کہے ہیں البتہ شرنبلالی نے غنیہ میں یوں کہا کہ جیسے زیلعی نے کہا کہ جو اس ضابطہ کا اختراع کنندہ ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۳؎ فتح القدیر        الماء الذی یجوزبہ الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)


ازانجملہ چہارم ذکر ان چیزوں کا ہے جو کہ پانی کو مقید کریں نہ کہ پانی ہی نہ رکھیں اور سلب رقت ہو کر پانی ہی نہ رہے گا تو سبب سوم کی چاروں صورتوں سے پہلی حذف ہونی چاہئے یہ اعتراض امام ابن الہمام کا ہے،


حیث قال بعد نقل الضابطۃ والوجہ ان یخرج من الاقسام ماخالط جامدا فسلب رقتہ لان ھذا لیس بماء مقید والکلام فیہ بل لیس بماء اصلا کمایشےر الیہ قول المصنف الا ان یغلب فیصیر کالسویق لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ ونقلہ فی منحۃ الخالق واقرہ۔


ابن ہمام نے ضابطہ نقل کرنے کے بعد کہا بہتر یہ ہے کہ ان صورتوں میں سے جامد شے کے ملنے سے پانی کی رقت زائل ہوجانے کی صورت نکال دی جاتی، کیونکہ یہ مقید پانی نہیں ہے جس میں کہ بات ہو رہی ہے بلکہ یہ سرے سے پانی ہی نہیں جس کی طرف خود مصنف نے یوں اشارہ کیا کہ مگر یہ کہ غالب ہوکر ستّو جیسی شے بن جائے کیونکہ اسے پانی نہیں کہا جاتا اس کو منحۃ الخالق میں نقل کیا ہے اور ثابت کیا ہے (ت)


 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)


اقول:وما(۱) ھو الاشبہ الاخذ علی اللفظ اذلا اثرلہ علی الاحکام ومامثلہ فی الفقہ بنادر۔ میں کہتا ہوں، حالانکہ یہ مناسب نہیں، لفظی گرفت سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور فقہ میں ایسی چیز نادر نہیں ہے۔ (ت)


پنجم خرما جا مد ہے تو بحکم ضابطہ نبیذ سے وضو جائز ہونا چاہئے جب تک پانی رقیق رہے حالانکہ یہ خلاف صحیح ہے اور روایت جواز سے امام نے رجوع فرمائی۔

اقول:(۲) خر مے کی کیا تخصیص ہے کہ صحیح ومرجوح ومختار ومرجوع سے فرق کرنا پڑے کشمش مشمش انجیر وغیرہا سب جامد ہیں اور ان کی نبیذ سے وضو بالاجماع باطل اور بحکم ضابطہ جواز چاہئے۔

ششم یوہیں زعفران جامد ہے تو اگرچہ تینوں وصف بدل دے بروئے ضابطہ جواز رہے جب تک رقت باقی ہو حالانکہ حکم منصوص عدم جواز ہے جبکہ رنگنے کے قابل ہوجائے یہ دونوں اعتراض علامہ صاحب بحرالرائق کے ہیں ان کا ذکر ۲۸۷ و ۲۹۵ میں گزرا


مع ماحاول البحر من توجیھہ و رد النھر علیہ وتحقیق الرد بما لامزید علیہ وقدمنا ایضا فی ۱۲۴ ماورد فی مسألۃ الزعفران من عبارات ظواھرھا متنافیۃ وردھا بتوفیق اللّٰہ تعالٰی الی جادۃ واحدۃ صافیۃ۔


اس کے ساتھ ہی صاحبِ بحرالرائق کی توجیہ اور صاحبِ نہر کے رَد اور رَد کی ایسی تحقیق کی ہے جس پر اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اور ہم نے پہلے بھی نمبر ۱۲۴ میں مسئلہ زعفران سے متعلق وہ روایات بھی ذکرکی ہیں جو بظاہر متنافی ہیں اور ان کا ایسا مطلب بھی بیان کیا ہے جو انہیں بے غبار بنادیتا ہے۔ (ت)


اقول: وبہ ظھر وللّٰہ الحمد محمل مافی البحر اذقال بعد ماذکر تبعا للھدایۃ ان ماء الزعفران ماء مطلق عندنا ومقید عند الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مانصہ فان قیل لو(۱) حلف لایشرب ماء فشرب ھذا الماء المتغیر لم یحنث ولو(۲) استعمل المحرم الماء المختلط بالزعفران لزمتہ الفدیۃ ولو(۳) وکل وکیلا بان یشتری لہ ماء فاشتری ھذا الماء لایجوز فعلم بھذا ان الماء المتغیر لیس بماء مطلق قلنا لانسلم ذلک ھکذا ذکر السراج الھندی اقول ولئن سلمنا فالجواب امافی مسألۃ الیمین والوکالۃ فالعبرۃ فیھما للعرف وفی العرف ان ھذا الماء لایشرب واما فی مسألۃ المحرم فانما لزمتہ الفدیۃ لکونہ استعمل عین الطیب وان کان مغلوبا ۱؎ اھ۔ فالکلام فی ماء خالطہ زعفران قلیل فغیر لونہ ولم یجعلہ صالحا للصبغ فھذا ھو الباقی علی اطلاقہ الصالح للطھارۃ بہ وفیہ یستقیم قول العلامۃ السراج لانسلم ان شاربہ لایحنث وان المحرم یفدی باستعمالہ وان الوکیل ان شراہ لایلزم الموکل کیف وھو ماء مطلق وقلیل التغیر ھدر شرعا وعرفا۔


میں کہتا ہوں بحمدہٖ تعالٰی اس تقریر سے بحر کی وہ عبارت بھی واضح ہوگئی جو اس نے ہدایہ کی اتباع میں کہی کہ زعفران والا پانی ہمارے نزدیک مطلق پانی ہے اور امام شافعی کے ہاں مقید ہے ان کی عبارت یہ ہے کہ اگر اعتراض کیا جائے کہ اگر کسی نے پانی نہ پینے کی قسم کھائی پھر زعفران ملا پانی پی لیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی، یونہی حالت احرام میں زعفران کے پانی سے غسل کرلیا تو فدیہ لازم آئےگا، اور کسی کو پانی خریدنے کیلئے وکیل بنایا گیا ہو اور وہ زعفران ملا پانی خریدے تو یہ جائز نہ ہوگا تو ثابت ہوا کہ زعفران ملاپانی مطلق پانی نہیں ہوتا (جو آپ کے مسلک کے خلاف ہے) تو ہم جواب دینگے کہ ہم ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ سراج ہندی نے کہا، میں کہتا ہوں کہ اگر ہم آپ کے اعتراضات کو درست تسلیم کر بھی لیں (تو بھی ہمارے مسلک کے خلاف لازم نہیں آتا) کیونکہ قسم اور وکالت کی صورتوں میں تو عرف کا اعتبار ہوتا ہے اور عرف میں ہے کہ ایسا پانی پیا نہیں جاتا اور احرام والے مسئلہ میں فدیہ لازم ہونے کی وجہ خوشبو کا استعمال ہے اگرچہ یہاں خوشبو مغلوب ہے پانی کا مقید ہونا نہیں ہے، پس کلام اس زعفران ملے پانی میں ہوگا جس میں ا تنی تھوڑی مقدار میں زعفران ملا ہو جس سے پانی کا رنگ تو بدل گیا مگر وہ رنگنے کے قابل نہ ہو، تو ایسا پانی خالص پانی شمار ہوگا، اور علامہ سراج کا قول لانسلم الخ بھی درست رہے گا کہ ہم نہیں مانتے کہ زعفران والا پانی پینے سے قسم نہیں ٹوٹے گی اور یہ کہ مُحرِم پر فدیہ لازم آجائےگا۔ اس پانی کو استعمال کرنے کی وجہ سے اور وکیل بالشراء زعفران والا پانی خریدنے کا مجاز نہ ہوگا کیونکہ یہ مطلق پانی ہے اور معمولی تبدیلی کا عرفاً اور شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۸)


اقول: والالم یحنث بشرب ماء المد ولم یجز شراء الوکیل ممن احرزہ وھو کماتری وقد صرحوا(۱) ان الطیب ان طبخ فی طعام سقط حکمہ والا فالحکم للغالب فان غلب الطیب وجب الدم وان لم تطھر رائحتہ کما فی الفتح والا فلاشیئ علیہ غیر انہ اذا وجدت معہ الرائحۃ کرہ ۱؎ وان(۲) خلط بما یستعمل فی البدن کاشنان ونحوہ ففی ردالمحتار عن المسلک الملتقسط عن المنتقی ان کان اذانظر الیہ قالوا ھذا اشنان فعلیہ صدقۃ وان قالوا ھذا طیب علیہ دم ۲؎ اھ،۔


میں کہتا ہوں، اور اگر معمولی تغیر کا اعتبار ہو تو قسم اٹھانے والے کی قسم سیلاب کا گدلا پانی پینے سے نہ ٹوٹے گی اور وکیل بالشراء گدلا پانی خریدنے کا مجاز نہ ہوگا حالانکہ اس کے غلط ہونے پر آپ بخوبی واقف ہیں پھر یہ کہ علماء نے تصریح کی ہے کہ اگر خوشبو کو کھانے میں پکایا جائے تو خوشبو کا حکم ساقط ہوجاتا ہے ورنہ بغیر پکائے حکم غالب اجزا پر لگایا جائے گا، جیسا کہ فتح القدیر میں ہے، اگر خوشبو غالب ہوئی توقربانی دینا لازم ہوگا اگرچہ بُو ظاہر نہ ہو، ورنہ اس پر کچھ بھی لازم نہیں آئےگا البتہ اگر مغلوب ہونے پر بھی بُو محسوس ہوتی ہو تو اس کھانے کا استعمال مکروہ ہے اگر اشنان جیسی بدن پر استعمال ہونے والی شے میں خوشبو ملی ہو تو ردالمحتار میں بحوالہ مسلک الملتقسط المنتقی سے منقول ہے کہ اگر لوگ اسے اشنان قرار دیں تو صدقہ اور اگر خوشبو قرار دیں تو قربانی دینا لازم ہوگا،


 (۱؎ فتح القدیر    باب الجنایات    نوریہ رضویہ سکھر    ۲/۴۴۱)

(۲؎ ردالمحتار     باب الجنایات       مصطفی البابی مصر    ۲/۲۲۰)

وماقالوا(۳) فیما خلط بمشروب ان الحکم فیہ للطیب مطلقا فان غلب وجب الدم والا فالصدقۃ الا ان یشرب مرارا فالدم فقد بحث فیہ فی البحر انہ ینبغی التسویۃ بین المأکول والمشروب المخلوط کل منھما بطیب مغلوب اما عدم وجوب شیئ اصلا ای کما قالوا فی الطعام او وجوب الصدقۃ ۱؎ ای کما قالوا فی الشراب ویؤید بحث البحر مافی التبیین لو(۱) اکل زعفرانا مخلوطا بطعام ولم تمسہ النار یلزمہ دم وان مستہ فلاشیئ علیہ وعلی ھذا التفصیل فی المشروب ۲؎ اھ۔


پینے والی شے میں خوشبو ملنے کے بارے میں علماء نے کہا ہے کہ اگر خوشبو غالب ہو اور مُحرِم ایسی شیئ پئے تو قربانی ورنہ صدقہ لازم ہوگا، مگر مغلوب خوشبو والا پانی بار بار پئے تو قربانی لازم ہوجائے گی، تو اس پر بحرالرائق نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ جب کھانے اور پینے والی اشےاء میں خوشبو ملے اور وہ غالب نہ ہو تو ان اشےاء کا حکم یکساں ہونا چاہئے کہ یا تو دونوں صورتوں میں کھانے کی اشےاء کی طرح کچھ بھی لازم نہ ہو یا پینے والی اشےاء کی طرح دونوں میں صدقہ لازم ہو بحرالرائق کی تائید تبیین الحقائق کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے کہ اگر ایک شخص نے کچا زعفران ملا کھانا کھایا تو قربانی لازم ہوگی ورنہ نہیں اور یہی حکم پینے کی اشےاء کا بھی ہے۔


 (۱؎ ردالمحتار        باب الجنایات    مصطفی البابی مصر        ۲/۲۱۹)

(۲؎ تبیین الحقائق      باب الجنایات  مطبعہ امیریہ ببولاق مصر    ۲/۵۳)


وفی البحر عن مناسک الامام ابن امیر الحاج بحثا ان کان الطیب غالبا واکل منہ اوشرب کثیرا فعلیہ الکفارۃ والا فصدقۃ وان کان مغلوبا واکل منہ اوشرب کثیرا فصدقۃ والا فلاشیئ علیہ ۳؎ اھ۔ فقد سویا بین المأکول والمشروب۔


اور بحرالرائق میں امام ابن امیر الحاج کی کتاب المناسک سے ایک بحث منقول ہے کہ اگر غالب خوشبو والی کوئی شَے زیادہ مقدار میں کھاپی لی ہو تو کفارہ لازم ہوگا بصورت دیگر صرف صدقہ ہے، اور اگر خوشبو کے بجائے غلبہ کھانے پینے کی شیئ کا تھا اور زیادہ مقدار میں استعمال کرلی تو صدقہ لازم ہوگا ورنہ کچھ بھی نہیں، تو ان دونوں فقہاء نے کھانے اور پینے کی اشےاء کو حکم میں یکساں قرار دیا ہے۔ (ت)


 (۳؎ بحرالرائق     باب الجنایات       سعید کمپنی کراچی        ۳/۶)


اقول:علی ان ایجاب الصدقۃ فی المشروب بالطیب المغلوب لایوجبان الاطلاق بہ مسلوب الا تری ان قطرات من ماء الورد تطیب ارطالا من الماء ولایصح لعاقل ان یقول انہ خرج من کونہ ماء کلبن خلط بنزر من عنبر اومسک لایسوغ لاحد ان یقول لم یبق لبنا،


میں کہتا ہوں مغلوب خوشبو والے مشروبات پینے سے صدقہ کا لزوم اس کے مطلق پانی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ کیا یہ بات مشاہدہ میں نہیں کہ ایک دو قطرے عرق گلاب کے کئی رطل پانی کو خوشبودار بنادیتے ہیں مگر کوئی بھی عقلمند یہ نہیں کہتا کہ یہ پانی نہیں رہا، جیسے کہ دودھ کو عنبر یا کستوری کی معمولی سی مقدار خوشبودار بنادیتی ہے، مگر کوئی ذی ہوش نہیں کہتا کہ یہ دودھ نہیں ہے۔


وبالجملۃ فالاجوبۃ انما تستقیم فیما لم یصلح للصبغ وعلیہ یدل قول الھدایۃ لنا ان اسم الماء باق علی الاطلاق الاتری انہ لم یتجدد لہ اسم علیحدۃ ۱؎ اھ۔ فان ماصلح للصبغ قد تجددلہ اسم بحیالہ فیقال لہ صبغ لاماء فکیف یحنث شاربہ ولم لایخالف شاریہ فقد بان الذی سلکہ البحر مھیع واضح وھو محمل کلام العلامۃ السید الازھری اذقال اعلم ان اعتبار بقاء الرقۃ والسیلان دون تغیر الاوصاف فیما اذاکان المخالط جامدا کزعفران یقتضی جواز الاستعمال و ان غیر الزعفران لون الماء لاطلاق اسم الماء علیہ ،


 (۱؎ الہدایۃ ،  باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء  ، المکتبۃ العربیہ کراچی ، ۱/۱۷)


حاصل کلام یہ کہ جملہ جوابات زعفران کے ملنے سے رنگنے کے قابل نہ ہونے کی صورت میں درست ہوسکتے ہیں۔ ہدایہ کا قول بھی اسی بات پر دال ہے جو یوں ہے کہ ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ تاحال مطلق پانی ہی کہلاتا ہے۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اسے نیا نام نہیں دیا گیا اھ۔ پس جو پانی رنگنے کے قابل ہوجائے اسے بالکل علیحدہ نام دیا جاتا ہے کہ اسے رنگ کہا جاتا ہے  پانی نہیں کہا جاتا ہے، تو اسے پینے والا کیونکر حانث ہوگا اور اس کا خریدار وکیل کیونکر حکم عدولی کا مرتکب نہ ہوگا تو اس سے واضح ہوگیا کہ بحرالرائق کی اختیار کردہ راہ نہایت واضح اور درست ہے۔ علّامہ سید الازہری کے اس قول کا محمل بھی یہی ہے جہاں انہوں نے کہا جان لو کہ زعفران جیسی جامد شے کے پانی میں ملنے کے بعد رقت اور سیلان کی بقاء کا اعتبار کرنا اور اوصاف میں تبدیلی کا اعتبار نہ کرنا استعمال کے جائز ہونے کو چاہتا ہے اگرچہ زعفران پانی کے رنگ کو بدل ڈالے کیونکہ اس پر ابھی پانی کا اطلاق ہوتا ہے


ومنع بان المحرم لواستعملہ لزمتہ الفدیۃ ۲؎ فذکر الاسئلۃ الثلاثۃ واجوبۃالھندی والبحر فانما اراد التغیر القلیل المغتفر وحینئذ جواز الاستعمال صحیح مقرر ولم یرد بہ تقریرا یراد البحر علی الضابطۃ فانہ فیما صلح للصبغ وعندئذ جواز الاستعمال باطل منکر دل علیہ قولہ لاطلاق اسم الماء علیہ وقد افصح بالمراد قال عقیب مامر وھذا اذا کان بحال لایصبغ بہ فان امکن الصبغ بہ لم یجز کنبیذ تمر در عن البحر ۱؎ اھ۔ فاعرف وتثبت۔


اس پر علامہ ازہری نے یہ اعتراض کرنے کے بعد کہ اس پانی کا استعمال منع ہےکیونکہ مُحرِم جب ایسا پانی استعمال کرے تو اس پر فدیہ لازم ہوگا۔ تینوں سوال اور ہندی اور بحر کے جوابات بھی ذکر کیے تو علامہ ازہری کی مراد زعفران سے ہونے والا قابلِ معافی معمولی تغیر ہے جس میں استعمال کا جائز اور درست ہونا یقینی امر ہے۔ اس سے علامہ کی مراد ضابطہ پر بحرالرائق کے اعتراض کو تقویت دینا نہیں ہے کیونکہ یہ اعتراض صرف رنگنے کے قابل ہوجانے کی صورت میں وارد ہوتا ہے جس کے بعد استعمال کا جائز قرار دینا بے اصل ہے علامہ کے اس خیال پر ان کا قول لاطلاق اسم الماء علیہ دلالت کرتا ہے بلکہ انہوں نے اپنا مقصد کھل کر اس وقت بھی بیان کردیا جب انہوں نے گزشتہ قول کے کچھ ہی بعد یہ کہا کہ یہ ساری بحث اس صورت میں ہے کہ جب پانی رنگ دینے کے قابل نہ ہوا ہو۔ اگر اس سے رنگ دینا ممکن ہوجائے تو نبیذتمر کی طرح اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔ یہ بحث بحرالرائق کی ہے اسے پوری طرح پہچانو اور پختہ کرو۔ (ت)


 (۲؎ فتح المعین    کتاب الطہارۃ            ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۲)

(۱؎ فتح المعین        کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۲)


ہفتم دودھ کو اقسام غلبہ کی قسم دوم میں شمار فرمانا محل کلام ہے بلکہ وہ قسم اول میں ہے کہ بلاشُبہ ایک جدا خُوشبو رکھتا ہے جو پانی میں نہیں یہ اعتراض علّامہ خیر رملی کا ہے،


وقد تقدم فی ۱۳۴ وانہ تبعہ فیہ ش ووقع فی حاشےۃ مراقی الفلاح للعلامۃ ط تحت قول المتن مائع لہ وصفان فقط کاللبن لہ اللون والطعم ولارائحۃ لہ فیہ انہ یشم من بعضہ رائحۃ الدسومۃ ۲؎ اھ ۔


اور ۱۳۴ میں گزر چکا ہے کہ علامہ شامی نے اس اعتراض میں رملی کی اتباع کی ہے اور حاشےہ مراقی الفلاح میں جو علامہ طحطاوی کا ہے۔ متن کے اس قول کے تحت کہ ''وہ مائع چیز جس کے دو وصف ہوں، جیسے دودھ ہے جس کا ذائقہ اور رنگ تو ہے مگر خوشبو نہیں ہے'' یہ اعتراض کیا ہے کہ بعض سے چونکہ چکناہٹ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے، تو یہ کہنا درست نہیں کہ اس کی خوشبو نہیں اور یہ دو صفتوں والا مائع ہے۔ (ت)


 (۲؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ    مطبعہ ازہریۃ مصریۃ مصر    ص۱۶)


اقول: بل(۱) من کلہ وان خفی فی بعضہ الی ان یغلی کماقدمت۔   میں کہتا ہوں بلکہ ہر دودھ کی خوشبو ہوتی ہے اگرچہ بعض کی اُبالنے تک مخفی رہتی ہے (ت)


ہشتم آب بطیخ کو قسم سوم میں شمار فرمانا بھی محل نظر ہے کہ یقینا اس کی بُو پانی کے خلاف ہےاور بعض کا رنگ بھی سُرخ یا زرد یہ اعتراض بھی علّامہ رملی کا ہے،


وقدمر فی ۲۷۹ واشرنا ثمہ ان مرادہ مالالون لہ وان کان ظاھر سیاقہ حیث جعل اللبن مخالفا لماء فی وصفین اللون والطعم وقال فی ماء البطیخ یخالفہ فی الطعم فتعتبر الغلبۃ فیہ بالطعم ۱؎ اھ۔ انہ اراد مالایخالف منہ الماء الا فی الطعم کما قال العلامۃ الشرنبلالی فی مراقیہ ان بعض البطیخ لیس لہ الاوصف واحد ۲؎ اھ وتبعہ ابو السعود ثم ط وکذلک ش اذقال ماء البطیخ ای بعض انواعہ موافق للماء فی عدم اللون والرائحۃ مباین لہ فی الطعم ۳؎ اھ۔


اور ۲۷۹ پر گزرا ہے اور وہاں ہم نے اشارۃً یہ بھی بتایا تھا کہ علامہ رملی کی مراد خربوزے کا وہ پانی ہے جس کی رنگت نہ ہو، اگرچہ علامہ کی اس گفتگو کا ظاہر سیاق یہ ہے کہ اس نے دودھ کو پانی سے رنگ اور ذائقہ میں مخالف بتایا ہے اور تربوز کے پانی کے متعلق کہا کہ پانی سے صرف ذائقہ میں مختلف ہوتا ہے تو اس میں غلبہ کا اعتبار بذریعہ ذائقہ ہوگا اھ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے تربوز کی وہ قسم مراد لی ہے جو پانی سے صرف ذائقہ میں مختلف ہو (رنگ اور بو میں نہیں) جیسا کہ علامہ شرنبلالی نے اپنی مراقی الفلاح میں کہا کہ بعض تربوزوں کے لئے ایک ہی وصف ہوتا ہے اھ۔ شرنبلالی کی اتباع ابو السعود اور طحطاوی نے بھی کی اور شامی نے بھی یہی بات کہی ہے، جہاں اس نے کہا کہ تربوز کا پانی یعنی اس کی بعض اقسام رنگ اور بُو نہ ہونے میں پانی کے موافق اور ذائقہ میں مخالف ہوتی ہیں۔ (ت)


 (۱؎ طحطاوی علی الدر المختار        باب المیاہ        مطبوعہ بیروت    ۱/۱۰۳)

(۲؎ مراقی الفلاح مع الطحطاوی    کتاب الطہارۃ    مطبوعہ ببولاق مصر    ص۱۶)

(۳؎ ردالمحتار            باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۴)

اقول: وذلک لان مالایخالف منہ الماء فی الرائحۃ نادر بخلاف مایوافقہ فی اللون کمادل علیہ کلام العلامۃ الخیر ومالایخالف فی لون ولارائحۃ اندر والحاجۃ مندفعۃ بالحمل علی کثیر الوجود لانہ اذالم یخالفہ الا فی وصفین کفی الضابطۃ تغیر احدھما وطعمہ اقوی من ریحہ فاجتزأبہ وبہ یخرج الجواب عن المخالفۃ المذکورۃ فی ۳۰۲ فتنبہ۔


میں کہتا ہوں تربوز کا ایسا پانی جو بُو میں پانی کے موافق ہو نادر ہوتا ہے بخلاف اس تربوز کے جس کا پانی رنگ میں پانی کے موافق ہو جیسا کہ علامہ رملی کی بات اس پر دال ہے اور وہ تربوز جو رنگ اور خوشبو دونوں میں پانی کے موافق ہو نادر تر ہوتا ہے اور ضرورت کثیر الوجود پر محمول کرنے سے پوری ہوجاتی ہےکیونکہ وہ جب صرف دو صفتوں میں مخالف ہے تو یہ ضابطہ کافی ہوگا کہ دو اوصاف میں سے ایک بدل گیا ہو درانحا لیکہ ذائقہ بُو سے زیادہ قوی ہو تو اس کے اعتبار سے فیصلہ کیا جائےگا اور اسی سے ۳۰۲ میں مذکور مخالفت سے جواب حاصل ہوجائےگا۔ (ت)


یہ ہیں وہ ایرادات کہ کلام علماء میں تقریر ضابطہ پر نظر سے گزرے۔

وانا اقول: وباللہ التوفیق ان کے سوا وہ محل ایرادات کثیرہ ہے اجمالاً بھی اور تفصیلاً بھی، تفریعاً بھی اور تاصیلاً بھی۔ مثلاً:

نہم غیر تمر کی نبیذ(۱) سے بھی وضو جائز ہو جب تک رقیق رہے حالانکہ خلافِ اجماع ہے وقد ذکرناہ اٰنفا  (اور اس کو ہم ابھی ذکر کرچکے ہیں۔ ت)


دہم ہر شربت(۲) سے جائز ہو حالانکہ خلاف نصوص متواترہ ہے دیکھو ۱۸۵ و ۲۸۸۔

یاز دہم دو اخیساندہ(۳) سے جائز ہو حالانکہ خلاف اصل مجمع علیہ ہے۔


دواز دہم کسیس(۴) مازو روشنائی مل کر لکھنے کے قابل کردے جب بھی جائز ہو اگر رقت نہ جائے یہ بھی اصل اجماعی کے خلاف ہے۔


سیز دہم تا پانزدہم(۵) پینے کا پانی خوشبو کرنے کو گھڑے بھر میں قلیل کیوڑا گلاب بید مشک ڈالتے ہیں وہ یقینا وہی رہتا ہے جو مطلق آب کے نام سے مفہوم ہوتا ہے مگر بروئے ضابطہ پانی نہ رہا۔


شانز دہم و ہفدہم زعفران(۶) یا شہاب حل کیا ہوا پانی اگر پانی میں مل کر صرف رنگ بدلے اگر رنگنے کے قابل کردیا تو بالاجماع ورنہ امام محمد کے نزدیک اُس سے وضو ناجائز ہے اور حکم ضابطہ سب کے خلاف جواز۔


ہیجدہم یوں(۷) ہی بُودار پُڑیا کا حل کیا ہوا پانی جبکہ بُو غالب نہ ہو کہ بے اس کے بدلے رنگ بدل جائے۔

نوزدہم(۸) سفید انگور کا سرکہ جب صرف بُو بدلے باتفاق ارشادات ائمہ جواز ہے اور حکم ضابطہ ممانعت۔


بستم وبست ویکم(۹) رنگین سرکے جن کا مزہ یا بواقوی الاوصاف ہو جب صرف مزہ وبو تبدیل کریں حکم منصوص ائمہ جواز ہے اور ضابطہ مخالف ان کا ذکر ۲۸۷ سے ۳۰۵ تک گزرا اور وہ ترک کردئے جن میں صرف امام محمد سے خلاف ہے۔ یہ برطبق بحرالرائق بعض جزئیات سے کلام تھا اب اصول پرسُنیے۔


فاقول: وباللہ التوفیق،

بست و دوم جامد(۱) زوال رقت پر قصر صحیح نہیں اس کا بیان ۲۸۷ میں گزرا۔

بست وسوم زوال(۲) رقت کا جامد پر قصر صحیح نہیں اس کا بیان رسالہ الدقۃ والتبیان میں گزرا


بست وچہارم اول(۳) ابحاث غلبہ غیر میں گزرا کہ قول صحیح ومعتمد ومذہب وظاہر الروایۃ قول امام ابویوسف ہے اور ضابطہ صراحۃً اُس کے خلاف کہ اس میں اوصاف ساقط النظر اور اس میں اعتبار اوصاف۔


بست وپنجم ضابطہ(۴) ششم میں تحقیق وتنقیح قول امام محمد گزری کہ اولاً صرف رنگ معتبر ہے اُس میں خلاف نہ ہو تو صرف مزہ، اس میں بھی خلاف نہ ہو تو اجزاء۔ ضابطہ کا حرف اس ترتیب کے خلاف ہے تو اُسے دونوں امام مذہب سے صریح اختلاف ہے۔


اقول: والعجب(۵) ان الامام الفخر رحمہ اللّٰہ تعالٰی ورحمنا بہ فی الدنیا والاٰخرۃ حاول ھھنا التوفیق بین ماجاء فی الباب عن الاصحاب مماظاھرہ الاضطراب وقدعد فیھا ھذا القول قول محمد ایضا لکن حیث اتی علی التوفیق لم یلم بہ اصلا وماکان لہ ان یلتئم مع صریح نقیضہ وھذا کلامہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی اعلم ان عبارات اصحابنا مختلفۃ فی ھذا الباب مع اتفاقھم ان الماء المطلق یجوز الوضو بہ ومالیس بمطلق لایجوز،


میں کہتا ہوں تعجب خیز امر یہ ہے کہ یہاں سے امام الفخر رحمہ اللہ تعالٰی پر اور ان کے ذریعہ ہم پر دنیا وعقبیٰ میں رحم فرمائے اس باب میں اصحاب احناف کے بظاہر مضطرب اقوال میں تطبیق دینا چاہتے ہیں اور امام محمد کے اس قول کو بھی ان مضطرب اقوال میں شمار کیا ہے حالانکہ وہ تطبیق کی پُوری گہرائی تک نہیں گئے اور صراحۃً ضد کی موجودگی میں گہرائی تک جانا ممکن بھی نہیں تھا ان کا کلام یہ ہے جان لو کہ اصحاب احناف کے مطلق پانی سے وضو کے جواز اور مقید کے ساتھ عدمِ جواز پر اتفاق کے باوجود اس باب میں عبارات کا اختلاف ہے۔


فعن(۱) ابی یوسف ماء الصابون اذا کان ثخینا قد غلب علی الماء لایتوضأ بہ وانکان رقیقایجوز وکذا ماء الاشنان ذکرہ فی الغایۃ وفیہ(۲) اذا کان الطین غالبا علیہ لایجوز الوضو بہ وفی(۳) الفتاوی الظھیریۃ اذاطرح الزاج فی الماء حتی اسود جاز الوضو بہ وکذا العفص اذا کان الماء غالبا وفیہ(۴) ان محمدا اعتبر بلون الماء وابا یوسف بالاجزاء وفی المحیط عکسہ وفی   (۵) الھدایۃ الغلبۃ بالاجزاء لابتغیر اللون و(۶)ذکر الاسبیجابی ان الغلبۃ تعتبر اولا من حیث اللون ثم من حیث الطعم ثم من حیث الاجزاء وفی(۷) الینابیع لونقع الحمص والباقلاء وتغیر لونہ وطعمہ وریحہ یجوز الوضو بہ(۸) واشار القدوری الی انہ اذا غیر وصفین لایجوز الوضو بہ وھکذا جاء الاختلاف فی ھذا الباب کماتری فلابد من ضابط وتوفیق بین الروایات ۱؎ اھ۔


پس امام ابویوسف کے مطابق جب صابن کا پانی سخت ہوجائے کہ صابن پانی پر غالب ہوجائے تو وضو جائز نہ ہوگا، پتلا ہونے کی صورت میں وضو جائز رہے گا، اشنان کے پانی کا بھی یہی حکم ہے اس کو غایۃ میں ذکر کیا ہے، اور غایہ میں یہ بھی ہے کہ جب پانی پر مٹی غالب آجائے تو وضو جائز نہ رہے گا اور فتاوٰی ظہیریہ میں ہے جب تک پانی غالب رہے پھٹکڑی ڈالنے سے پانی سیاہ ہوجائے وضو جائز رہے گا، اور یہی حکم مازُوکا ہے۔ اسی میں ہے کہ امام محمد تو پانی کے رنگ کا اعتبار کرتے ہیں، اور امام ابویوسف اجزاء کا، جبکہ محیط میں ان کا مسلک برعکس بیان ہوا ہے۔ ہدایہ میں ہے کہ غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہوگا نہ کہ رنگ کی تبدیلی سے، اسبیجابی نے کہا کہ غلبہ میں پہلے رنگ کا اعتبار ہوگا پھر ذائقہ پھر اجزاء کا ینابیع میں ہے کہ اگر چنے اور لوبیا پانی میں بھگویا جائے اور ذائقہ،رنگ اور خوشبو بدل بھی جائے تو بھی وضو جائز رہے گا اور قدوری نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ دو صفتیں بدل جانے کے بعد وضو جائز نہیں رہتا۔ اس باب میں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اسی نوعیت کا اختلاف ہے، تو کسی ایک تطبیق اور ضابطہ کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاکہ روایات کے درمیان تطبیق ہوجائے،


 (۱؎ تبیین الحقائق    ابحاث الماء    مطبعۃ امیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۰)


ثم ذکر الضابطۃ ورد الاقوال الی محاملھا کما نقلنا فی ۲۸۷ وتلک ثمانیۃ نصوص واربعۃ محامل الاول المخالط الجامد وعلیہ الثلثۃ الاول والسابع الثانی مائع یخالف فی الثلثۃ وعلیہ الثامن الثالث یخالف فی البعض وعلیہ الرابع فیما حکی عن محمد الرابع الموافق وعلیہ الخامس بقی ھذا السادس الذی ھو قول محمد تماما ولامحمل لہ فان الضابطۃ وزعت والنص رتب واین الترتیب من التوزیع غیر ان البحر فی البحر اراد ایرادہ ھذا المو رد فاورد مالایحصلہ ھذا للعبد حیث قال واما قول من قال العبرۃ لللون ثم الطعم ثم الاجزاء فمرادہ ان المخالط المائع انکان لونہ مخالفا للون الماء فالغلبۃ تعتبر من حیث اللون وانکان لونہ لون الماء فالعبرۃ للطعم ان غلب طعمہ علی الماء لایجوز وان کان لایخالف فی اللون والطعم والریح فالعبرۃ للاجزاء ۱؎ اھ۔


پھر انہوں نے ضابطہ ذکر کیا اور تمام اقوال کا مناسب موقع اور محل بیان کیا جیسا کہ ہم ۲۸۷ میں نقل کر آئے ہیں جو آٹھ نصیں اور چار محمل ہیں:

(۱) ملنے والی جامد شے ہو اور اس محمل پر پہلی تین اور ساتویں نص منطبق ہوتی ہے۔

(۲) ملنے والی شیئ مائع (سیال) ہو جو تین اوصاف میں مخالف ہو اس پر آٹھویں نص منطبق ہوتی ہے۔

(۳) ملنے والی شیئ مائع (سیال) ہو جو بعض اوصاف میں مخالف ہو اس پر امام محمد کی روایت کے مطابق چوتھی نص منطبق ہوتی ہے۔

(۴) جو مائع (سیال) جملہ اوصاف میں پانی کے موافق ہو اس پر پانچویں نص کا انطباق ہوتا ہے۔

باقی رہ گئی چھٹی جو مکمل طور پر امام محمد کا قول ہے تو اس کا محمل کوئی نہیں، کیونکہ ضابطہ میں تفریق ہے اور نص میں ترتیب میں توترتیب  اور عدم ترتیب کا کیا جوڑ؟ البتہ بحرالرائق نے اس کو ایسے محمل پر لانے کی کوشش کی ہے جس کی اس فقیر کو کچھ سمجھ نہیں آتی بایں طور کہ اس نے کہا باقی رہا قول اس آدمی کا جس نے یہ کہا کہ اعتبار پہلے رنگ پھر ذائقہ پھر اجزاء کا ہے، تو اس کی مراد یہ ہے کہ جب ملنے والی مائع چیز کا رنگ پانی کے رنگ کے مخالف ہو تو غلبہ رنگ کے اعتبار سے ہوگا، اور اگر اس کا رنگ موافق ہو تو اعتبار ذائقہ کا ہوگا، اگر ملنے والی شیئ کا ذائقہ پانی پر غالب آگیا تو وضو جائز نہ ہوگا، اور اگر ملنے والی شیئ کا رنگ ذائقہ اور بو کسی میں پانی سے مختلف نہ ہو تو اعتبار اجزاء کا ہوگا (جس کے اجزاء زائد ہوں گے غلبہ بھی اسی کا ہوگا) (ت)


 (۱؎ بحرالرائق ابحاث الماء  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۱/۷۰)

اقول:اولا(۱) اذاکان العبرۃ باللون فیما یخالفہ فیہ وحدہ اومع وصف اٰخر لافی الاوصاف جمیعا وکذا الطعم فکلام الامام الاسبیجابی امافیما لایخالف الا فی ذلک الوصف وحدہ اوفیما یخالف فی وصفین اواعم لاسبیل الی الاخیرین لانہ اذا خالف فی وصفین فایھما تغیر غیر ففیم القصر علی احدھما۔


میں کہتا ہوں اوّلاً جب غلبہ میں اعتبار صرف رنگ کا ہے اس صورت میں کہ ملنے والی شے صرف ایک وصف (رنگ) کے اعتبار سے پانی کے مخالف ہو یا دونوں وصفوں میں نہ کہ جملہ اوصاف میں یونہی ذائقہ کا حکم ہے۔ تو علامہ اسبیجابی کا کلام یا تو اس شے میں ہوگا جو اسی ایک وصف (رنگ)میں پانی کے مخالف ہو یا دو اوصاف میں یا جملہ اوصاف میں، تو آخری دو صورتوں میں تو کسی طور گفتگو نہیں ہوسکتی کیونکہ جب وہ شے دو اوصاف میں پانی کے مخالف ہو تو جو وصف بھی تبدیلی کا باعث بنے گا پانی میں تغیر ہوجائے گا (اور معتبر ہوگا) تو پھر ایک وصف میں تغیر کو کیونکر منحصر کیا جاسکے گا؟ (ت)


وایضا لیکن الوصفان اللون والطعم فمن ذا الذی قدم اللون واخر الطعم وعلی الاول کان المعنی مالایخالف الا فی اللون کان المعتبر فیہ اللون ومالایخالف الا فی الطعم کان المعتبر فیہ الطعم وما لایخالف فی شیئ فالعبرۃ فیہ بالاجزاء فمن این جاء الترتیب ولم لم یقل العبرۃ اولا بالطعم ثم اللون ثم الاجزاء اوبالاجزاء ثم الطعم ثم اللون الی غیر ذلک من التقلیبات اذکلھا ح متساویۃ الاقدام فی البطلان والاھمال۔


نیز یہ کہ جب ایک شے کے رنگ اور ذائقہ دو اوصاف ہوں تو رنگ کو کس داعیہ کی وجہ سے مقدم کیا جائے گا اور ذائقہ کو مؤخر کیا جائےگا؟ پہلی صورت میں(جب دو وصف نہ ہوں) معنی یہ ہوگا کہ جب ملنے والی شے کی مخالفت صرف رنگ میں ہو تو اعتبار بھی رنگ کا ہوگا۔ جب صرف ذائقہ میں مخالف ہو تو ذائقہ کا، اور کسی وصف میں مخالف نہ ہونے کی صورت میں اجزاء کا اعتبار ہوگا، تو سوال یہ ہے کہ یہ ترتیب کہاں سے آئی اور یوں ترتیب کیوں نہیں رکھی کہ پہلے اعتبار ذائقہ کا ہوگا پھر رنگ کا اور پھر اجزاء کا۔ یا یوں کہ پہلے اجزاء کا اعتبار ہو پھر ذائقہ پھر رنگ کا، یا کسی اور طرح سے الٹ پلٹ ہو جبکہ یہ سب صورتیں باطل اور مہمل ہونے میں برابر تھیں۔ (ت)


وایضا تبقی علیہ خمسۃ من سبعۃ فان المخالفۃ فی لون اوطعم او ریح اولون وطعم اولون وریح اوطعم و ریح اوفی الکل فکیف قصر الحکم علی اثنین۔


نیز یہ کہ اس ضابطہ کے مطابق پانی میں ملنے والی شے کی سات صورتوں میں سے صرف دو کا حکم معلوم ہوگا پانچ کا حکم باقی رہے گا وجہ حصریہ ہے مخالفت صرف رنگ میں یا صرف ذائقہ میں یا صرف بُو میں یا رنگ وبُو میں یا رنگ وذائقہ میں یا ذائقہ وبُو میں یا تینوں میں ہوگی تو حکم کے بیان میں صرف دو پر کیوں اکتفا کیا گیا؟ (ت)


وثانیا ھل ھو(۱) یعتبر الریح ام لا الثانی یرد الضابطۃ وعلی الاول لم حذفھا وکیف استقام لہ نقل الحکم بعد الطعم الی الاجزاء۔ ثانیا یہ کہ اس کے ہاں بُو کا اعتبار ہے یا نہیں؟ عدمِ اعتبار کی صورت ضابطہ کو مسترد کرتی ہے اور اعتبار کی صورت میں اسے حذف کیا تو کیوں؟ اور پھر حکم کو ذائقہ سے اجزاء کی طرف منتقل کرنا کیونکر درست ہوگا (جبکہ بُو بھی اجرائے حکم کیلئے معتبر ہے)۔ (ت)


وثالثا عبارۃ(۱) الامام الاسبیجابی قدمناھا مع کثیر من موافقتھا صدر البحث الاول من الضابطۃ السادسۃ وھی بکل جملۃ منھا تخالف الضابطۃ وتأبی محملھا الموزع المبدد لاحکامھا اذیقول ان غیر لونہ فالعبرۃ لللون مثل اللبن وقدمنا ان اللبن یخالف فی الثلث فکیف اجتزء بواحد ۔


ثالثا امام اسبیجابی کی عبارت بہت سے موافقات کے ساتھ ہم نے چھٹے ضابطہ کی بحث اول کے شروع میں ذکر کی ہے اور اس کے ہر جملہ میں سے کچھ ضابطہ کے خلاف ہے اور اس کا نیا محمل اس کے احکامات کے اجراء سے عاری ہے (جو قدیم محمل پر جاری ہوتے ہیں) بایں طور کہ وہ کہتے ہیں اگر ملنے والی مائع چیز پانی کا رنگ تبدیل کردے تو اعتبار بھی رنگ کا ہوگا، جیسا کہ دودھ ہے حالانکہ ہم کچھ ہی پہلے بیان کرچکے ہیں کہ دُودھ تو تینوں اوصاف میں پانی کا مخالف ہوتا ہے تو ایک وصف کی تبدیلی کو اس نے وضو سے مخالفت کیلئے کیوں کافی قرار دیا ہے؟ (ت)


و رابعا: لم عین(۲) اللون وانتم القائلون کالامام الضابط ان کان لون اللبن اوطعمہ ھو الغالب لم یجز الوضوء۔ رابعاً انہوں نے دودھ میں صرف رنگ کو ہی کیوں متعین کیا ہے؟ حالانکہ تمہارا بھی ضابطہ بنانے والے امام کی طرح یہ کہنا ہے کہ اگر دودھ کا رنگ یا ذائقہ غالب ہو تو وضو جائز نہ ہوگا۔ (ت)


وخامسا: قال والخل(۳) وھذا فی کونہ ذا الثلاثۃ ابین من اللبن فمعلوم قطعا انہ یخالف الماء طعما وریحا وقد اعتبر اللون مخالف فی الثلاث ولم یعتبر وصفین بل واحدا۔


خامساً اس نے وَالْخَلّ (اور سرکہ بھی) کہا ہے جس کا دودھ کی نسبت تین اوصاف والا ہونا زیادہ واضح ہے تو قطعی طور پر معلوم ہوگیا کہ دودھ پانی سے ذائقہ اور بُو میں مخالف ہوتا ہے جبکہ رنگ کے اعتبار سے مخالفت پہلے ہی تسلیم کرچکے ہو، پس وہ تینوں وصفوں میں مخالف ہے اور انہوں نے دو وصفوں کا اعتبار نہیں کیا بلکہ ایک کا اعتبار کیا ہے۔ (ت)


وسادساً قال والزعفران(۴) وھذا اظھر من اللبن فی جمع الثلاث وازھر من الخل فی الاجتزاء بواحد لکون لونہ اسبق عملا والخل ماکان منہ کذاک فذاک والا فمطمح نظرہ ھو اللون نفسہ لالکونہ دلیلا علی تغیر غیرہ قبلہ لکونہ اضعف منہ۔


سادسا اس نے غلبہ رنگ کی مثال دیتے ہوئے والزعفران کہا ہے اور یہ تین اوصاف جمع ہونے میں دودھ سے زیادہ واضح اور سرکہ کی نسبت ایک وصف پر کفایت کیلئے زیادہ جچتا ہے کیونکہ اس کا رنگ تبدیلی کا عمل سرعت سے انجام دیتا ہے اور جو سرکہ ایسا ہو وہ بھی اس کے حکم میں ہوگا ورنہ اس کا مقصود تو صرف رنگ کا اعتبار ہے نہ رنگ اس اعتبار سے کہ یہ دوسرے کی نسبت پہلے دوسری شے کو بدل دیتا ہے کیونہ وہ ویسے بھی کمزور ہوتا ہے۔ (ت)


وسابعاً قال وان لم یغیر لونہ بل طعمہ فالعبرۃ للطعم نفی(۱) توز یعکم وراعی ترتیبہ وارشد انہ ان خالف لونہ فلاعبرۃ للطعم۔ سابعاً اس نے کہا کہ اگر پانی کا رنگ بدلنے کے بجائے ذائقہ بدلا تو اعتبار ذائقہ کا ہوگا، تو اس نے آپ کی تقسیم کی نفی بھی کردی اور اپنی ترتیب کی رعایت بھی ملحوظ رکھی اورساتھ ہی یہ بات بھی بتادی کہ اگر ملنے والی شے کا رنگ پانی سے مخالف ہو تو ذائقہ کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (ت)


وثامنا: قال مثل ماء البطیخ والاشجار والثمار والانبذۃ ھذا فیما لایلون ولا(۲) شک ان فیھا ذوات الرائحۃ ولربما کان ریحھا اغلب فلم یعتبرھا وقصر الحکم علی الطعم۔


ثامناً اس نے کہا کہ تربوز، درختوں، پھلوں کے پانی اور نبیذوں کی مثل یہ تمام بے رنگ اشےاء ہیں مگر ان میں کچھ اشےاء بُو والی بھی ہیں اور بعض اوقات ان کی بُو غالب بھی ہوتی ہے، مگر اس کا اعتبار نہیں کیا اور حکم کو ذائقہ پر ہی منحصر کر دیا۔ (ت)


وتاسعا: قال وان لم یغیر لونہ وطعمہ فالعبرۃ للاجزاء اسقط(۳) الریح رأسا وھو الحق الناصع کماقدمنا فی ۲۹۸۔ تاسعاً اس نے یہ کہا کہ اگر رنگ اور ذائقہ نہ بدلے تو اعتبار اجزاء کا ہوگا، بُو کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے حالانکہ یہ بظاہر حق بات تھی جیسا کہ ہم پہلے ۲۹۸ میں بیان کرچکے ہیں۔ (ت)


وعاشراً : قال فان غلب اجزاؤہ علی اجزاء الماء لایجوز الوضوء بہ کالماء المعتصر من الثمر والا جاز کالماء المتقاطر من الکرم بقطعہ ۱؎ جعل(۱) الذی یخرج من ثمر بعصر اوکرم بقطر ماءً وجعل الاول مغلوب الاجزاء باجزاء الثمر والثمر جامد فاعتبر فی ھذا الجامد الاجزاء دون الرقۃ فانہ ربما یکون رقیقا کماء النارجیل والتار الھندی ھذہ بکلام الامام القاضی الاسبیجابی وانتم قلتم قول من قال فعم کل من قال بھذا الترتیب فاذن۔


عاشراً اس نے یہ کہا کہ اگر اس کے اجزاء پانی کے اجزا پر غالب آجائیں تو پھل سے نچوڑے ہوئے پانی کی مانند اس سے بھی وضو جائز نہ ہوگا ورنہ انگور سے کاٹنے کے بعد ٹپکنے والا پانی پانی کی طرح اس پانی سے بھی وضو جائز ہوگا، تو اس نے پھلوں سے نچوڑے ہوئے اور انگوروں سے ٹپکے ہوئے عرق کو پانی قرار دیا ہے اور پہلے کو پھل کے اجزاء کے ساتھ مغلوب الاجزاء قرار دیا ہے حالانکہ پھل ایک جامد چیز ہے، تو انہوں نے اس جامد میں اجزاء کا اعتبار کیا نہ کہ رقت میں، کیونکہ بعض اوقات پھل کا پانی رقیق ہوتا ہے مثلاً ناریل یا تاڑی کا پانی یہ تو اسبیجابی کا کلام ہے جبکہ آپ نے توقول مَنْ قَال کہا تو یہ ہر اُس شخص کو شامل ہوگیا جو اس ترتیب کا قائل ہے۔ (ت)


 (۱؎ کل ذلک من حاشےۃ الشلبی علی التبیین     ابحاث الماء    مطبعۃ امیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۰)


الحادی عشر: اعتبر(۲) فی خزانۃ المفتین وفی العنایۃ عن زاد الفقھاء وفی جامع الرموز عن الزاھدی فی العصیر اللون مع ان طعمہ ربما کان اسبق۔ گیارھواں، خزانۃ المفتین اور عنایہ میں زاد الفقہاء سے اور جامع الرموز میں زاہدی سے ہے کہ پھلوں سے نچوڑے پانی میں رنگ کا اعتبار کیا گیا ہے حالانکہ بعض اوقات اس کا ذائقہ جلدی اثر دکھاتا ہے۔ (ت)


الثانی عشر: ھو(۳) ذو الثلثۃ واجتزؤا بواحد۔ بارھواں، یہ تین اوصاف والی شیئ ہے حالانکہ انہوں نے ایک وصف کی تبدیلی کو ہی کافی قرار دیا ہے۔ (ت)


الثالث عشر:  اعتبر(۴) البدائع فی ماء العصفر اللون ولم یلاحظ الریح وربما تکون اغلب۔ تیرھواں، بدائع نے عصفر کے پانی میں رنگ کا اعتبار کیا ہے اور بُو کا لحاظ نہیں کیا حالانکہ بعض اوقات بُو زیادہ غالب ہوتی ہے۔ (ت)


الرابع عشر: اعتبر(۵) البدائع ثم الحلیۃ فی خل العنب الابیض الطعم ولاشک ان ریحہ اسبق۔ چودھواں، بدائع اور حلیہ نے انگور کے سفید رنگ کے سرکہ میں ذائقہ کا اعتبار کیا ہے حالانکہ بلاشبہ اس کی بُو جلدی غالب آتی ہے۔


الخامس عشر: فی(۱) العینی عن زاد الفقھاء والقھستانی عن الزاھدی ان توافقا لونا وطعما کماء الکرم فالعبرۃ للاجزاء ۱؎ اھ۔ وانت تعلم ان الماء القراح لیس بارق منہ فاعبتروا فی الجامد الاجزاء۔


پندرھواں، عینی میں زاد الفقہاء سے اور قہستانی میں زاہدی سے ہے کہ اگر پانی اور جوس ہم رنگ وہم ذائقہ ہوں جیسے انگور کا پانی ہے تو اعتبار اجزاء کا ہوگا، اور تم اس بات کو جانتے ہو کہ خالص پانی اس سے زیادہ پتلا نہیں ہوتا پس انہوں نے جامد میں اجزاء کا اعتبار کیا ہے۔ (ت)


 (۱؎ البنایۃ شرح الہدایۃ    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۸۹)

السادس عشر :کلامھم(۲) جمیعا نص مفسر فی اعتبار الترتیب فردہ الی التوزیع غیر مصیب ھذا کلہ بکلام الذین تسندون الیھم واماتأویلکم فالسابع عشر قولکم مرادہ ان المخالط المائع للماء انکان لونہ مخالفا فالغلبۃ من حیث اللون ۲؎۔


سولھواں، ان سب کی گفتگو ترتیب کا اعتبار کرنے میں واضح ہے تو اس کو بے ترتیبی کی طرف پھیرنا درست نہیں یہ ان علماء کے کلام کا خلاصہ ہے جو آپ کے ہاں بھی مستند ہیں بہرحال تمہاری تاویل اور یہی سترھواں ہے تمہارا قول ہے کہ اس کی مراد یہ ہے کہ پانی میں اگر مائع شیئ ملے اور اس کا رنگ پانی سے مختلف ہو تو غلبہ رنگ کا ہوگا۔ (ت)


 (۲؎ البحرالرائق    ابحاث الماء        سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)


اقول: نعم(۳) ویعم باطلاقہ مایخالف فی اللون مع الباقیین فلم اجتزء بواحد۔ میں کہتا ہوں، ہاں یہ قول مطلق ہونے کی بنا پر ان تمام اشےاء کو بھی شامل ہے جو رنگ کے ساتھ دیگر اوصاف میں بھی پانی کے مخالف ہوں، تو اس نے ایک وصف پر ہی اکتفاء کیوں کیا ہے؟


الثامن(۴) عشر: یشمل مایخالف فی اللون و وصف اخراسبق من اللون ففیم انتظر اللون۔ اٹھارھواں، یہ اس شے کو شامل ہے جو رنگ میں اگرچہ مخالف ہو مگر اس کا دوسرا وصف رنگ سے قبل اثر انداز ہوجائے (ایک وصف کی تبدیلی تو ہوگئی) تو رنگ کا انتطار کیوں کیا جائےگا۔ (ت)


التاسع(۱) عشر مثلہ الامام الاسبیجابی والامام السمعانی فی الخزانۃ والبرجندی فی شرح النقایۃ بالزعفران وخصصتم بالمائع حوطا علی الضابطۃ۔ انیسواں، امام اسبیجابی اور امام سمعانی نے خزانہ میں اور برجندی نے شرح النقایہ میں اس کی مثال زعفران کو قرار دیا ہے جبکہ آپ نے ضابطہ پر مدار رکھتے ہوئے مائع کے ساتھ مختص کیا ہے۔ (ت)


العشرون: (۲) قولکم وانکان لونہ لون الماء فالعبرۃ للطعم ۱؎۔ بیسواں، آپ کا قول ہے کہ اگر اس کا رنگ پانی جیسا ہو تو اعتبار ذائقہ کا ہوگا۔ (ت)


 (۱؎ البحرالرائق        ابحاث الماء    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)


اقول: نعم ویعم ماخالف بریح اسبق فانی یوافق الضابطۃ۔ میں کہتا ہوں، ہاں یہ مثال جلد اثر کرنے والی بُو والی شیئ کو بھی شامل ہوجائے گی تو یہ مثال ضابطہ کے مطابق کیونکر ہوگی (حالانکہ اعتبار تو مطلقاً ذائقہ کا ہے) (ت)


الحادی(۳) والعشرون: لم شرط فیہ وفاق اللون فان العبرۃ فی الضابطۃ بالطعم مطلقا وان خالف فی اللون ایضا اذالم یکن ذاریح وکان طعمہ اسبق۔ اکیسواں، اس نے رنگ کی موافقت کی شرط کیوں لگائی ہے؟ کیونکہ ضابطہ میں مطلقا اعتبار ذائقہ کا ہے رنگ اگرچہ مخالف بھی ہو جبکہ شیئ بو والی نہ ہو اور اس کا ذائقہ جلد اثر کرنے والا ہو۔ (ت)


الثانی(۴) والعشرون مثّلہ الامام الاسبیجابی و زاد الفقہاء ثم البدر محمود والشمس القھستانی بالانبذۃ زاد الزاد والعینی المشمس فمن این التخصیص بالمائع۔ بائیسواں، امام اسبیجابی اور زاد الفقہاء، پھر بدر محمود اور شمس قہستانی نے اس کی مثال نبیذیں قرار دی ہیں جبکہ زاد اور عینی نے سورج سے گرم پانی کا بھی اضافہ کیا ہے تو مائع کے ساتھ تخصیص کس چیز کی ہوگی؟


الثالث(۵) والعشرون: قولکم وان کان لایخالفہ فی اللون والطعم والریح فالعبرۃ للاجزاء۲؎۔ تئیسواں، تمہارا قول ہے کہ جب ملنے والی شے، رنگ ذائقہ اور بُو میں سے کسی میں مخالف نہ ہو تو اعتبار اجزاء کا ہوگا۔


 (۲؎ البحرالرائق        ابحاث الماء    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)


اقول: قال الامام البرھان فی الھدایۃ فی الماء الذی اختلط بہ الزعفران او الصابون اوالاشنان الخلط القلیل لایعتبر بہ لعدم امکان الاحتراز عنہ کما فی اجزاء الارض فیعتبر الغالب والغلبۃ بالاجزاء لابتغیر اللون ھو الصحیح ۱؎ اھ ۔فاین ذھب تخصیص المائع۔


میں کہتا ہوں کہ امام برہان نے ہدایہ میں اس پانی کے بارے میں کہا جس میں صابن، اشنان اور زعفران کی معمولی سی ملاوٹ ہوجائے چونکہ اس ملاوٹ سے بچنا ممکن نہیں لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں، جیسا کہ اجزاءِ زمین کا حکم ہے اور اعتبار غالب کا ہوگا اور صحیح قول کے مطابق غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہوگا نہ کہ رنگ کی تبدیلی سے تو مائع کی تخصیص کہاں چلی گئی! (ت)


 (۱؎ الہدایۃ        الماء الذی یجوز بہ الوضوء    المکتبۃ العربیہ کراچی        ۱/۱۸)


الرابع(۱) والعشرون: ذکرالریح لااثر لہ فی کلامھم وانما زید رعایۃ للضابطۃ کماعلمت فاذن انما صریح نصوصھم انہ ان لم یخالفہ فی اللون والطعم فالعبرۃ للاجزاء وھذا خلاف الضابطۃ۔ چوبیسواں، بُو کا ذکر محض ضابطہ کی رعایت کیلئے کیا گیا ورنہ اس کے اضافہ سے آپ کو معلوم ہے کہ کوئی اور مقصد نہیں ہے بس اس صورت میں ان کی صریح نصوص یہ ہوں گی کہ اگر وہ ملنے والی شے پانی کے رنگ اور ذائقہ میں مخالف نہ ہو تو اعتبار اجزاء کا ہوگا اور یہ ضابطہ کے خلاف ہے۔ (ت)


الخامس والعشرون: مما یسلک فی السلک ان البحر نقل عبارۃ عن المجمع واستصعب ردھا الی الضابطۃ ثم ابدی شےا ردہ علیہ الشامی فی حاشےتہ وعندی فی الکل نظر قال فی المجمع ونجیزہ بغالب علی طاھر کزعفران تغیر بہ بعض اوصافہ اھ۔ قال البحر تفید ان المتغیر لوکان وصفین یجوز اوکلھا لا۲؎قال ولایمکن حملہ علی شیئ کمالایخفی۳؎ اھ۔ ای علی شیئ من المحامل الاربعۃ وذلک لانہ لیس فی الضابطۃ قسم یمنع بتغیر الثلثۃ دون الاثنین قال والذی یظھر ان مرادہ من البعض البعض الاقل وھو الواحد کماھی عبارۃ القدوری تصحیحا لکلامہ ویدل علیہ قولہ فی شرحۃ فغیر بعض اوصافہ من طعم او ریح اولون ذکرہ باوالتی ھی لاحد الاشےاء بعد من التی اوقعھا بیانا للبعض ولایظھر لتغییر عبارۃ القدوری فائدۃ ۱؎ اھ۔


پچیسواں، بحرالرائق نے مجمع سے ایک روایت نقل کی ہے جسے ضابطہ پر منطبق کرنا مشکل ہوا تو اس نے وہ محمل بیان کیا جو شامی نے اپنے حاشےہ میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ میرے نزدیک ہر ایک محلِ نظر ہے، صاحبِ مجمع نے کہا ہم اس پانی سے وضو جائز کہتے ہیں جس کے بعض اوصاف زعفران ایسی پاک شیئ کے ساتھ ملنے سے بدل جائیں مگر وہ پانی غالب رہے۔ بحرالرائق نے کہا اس سے یہ فائدہ حاصل ہُوا کہ اگر دو صفتیں بدلیں تو وضو جائز ہوگا یا سب بدل جائیں تو وضو جائز نہ ہوگا، اور یہ بھی کہا کہ یہ ایسی عبارت ہے جس کو کسی شے پر محمول نہیں کیا جاسکتا کمالایخفی۔یعنی چار محامل میں سے کسی پر بھی یہ محمول نہیں ہے کیونکہ ضابطہ میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جو اس بات پر دال ہو کہ تمام اوصاف بدلنے پر تو وضو کرنا منع ہے اور دو کے بدلنے پر منع نہ ہو، فرمایا جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوصاف سے اس کی مراد بعض کا کم تر حصّہ ہے جو تین میں سے ایک وصف ہوتا ہے جیسا کہ قدوری کی عبارت اس کلام کی تصحیح میں وارد ہے اور اس کی شرح میں اس کا قول اس پر دلالت بھی کرتا ہے جو یہ ہے، پس اس نے بعض اوصاف کو بدل دیا ہو، یعنی ذائقہ یا رنگ یا بُو کو تو اس نے انہیں کلمہ اَوْ کے ساتھ ذکر کیا ہے جو دو اشےاء میں سے ایک کیلئے ہوتا ہے اور کلمہ اَوْ کو مِنْ کے بعد ذکر کیا ہے جس نے ان مذکورہ اشےاء کو بعض کا بیان دیا ہے اور قدوری کی عبارت کی تبدیلی کا کوئی فائدہ بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ (ت)


 (۲؎ البحرالرائق     کتاب الطہارۃ        سعید کمپنی کراچی        ۱/۶۹)

(۳؎ البحرالرائق     کتاب الطہارۃ        سعید کمپنی کراچی       ۱/۷۰)

(۱؎ البحرالرائق        کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)

اقول: قدمنا(۱) فی الضابطۃ الخامسۃ تحقیق ان بعضا ھھنا یشمل الکل فماغیر الکل فقد غیر البعض فان اخترنا الضابطۃ قلنا قولہ تغیر بہ بعض اوصافہ صفۃ للزعفران لالطاھر حتی یکون قیدا فی الحکم بالغلبۃ وھی فی کل قسم بحسبہ اما بسلامۃ الاوصاف جمیعا اواکثرھا او الرقۃ وحدھا وان تغیرت وھذا فی الجامد ومنہ الزعفران فالماء الغالب وان تغیر بہ بعد اوصافہ ولو فی ضمن الکل مادامت الرقۃ باقیۃ ولاحاجۃ الی التقیید لان الکلام فی الماء وماثخن لیس بماء فھذا توفیق عبارۃ المجمع بالضابطۃ ولاصعوبۃ فیہ اماعلی المذھب فنقول تغیر بہ صفۃ لطاھر والمعنی نجیزہ بماء خالطہ طاھر فغیر بعض اوصافہ حتی الکل مادام الماء غالبا قدرا وطبعا و اسما فالکلام (۱) وجیہ صحیح لایحتاج الی تمحل للتصحیح فلیکن۔


میں کہتا ہوں کہ پانچویں ضابطہ میں ہم تحقیق کرچکے ہیں کہ یہاں بعض کل کو بھی شامل ہے، تو جو شَے جملہ اوصاف کو تبدیل کرے گی وہ بعض کو بھی تبدیل کرے گی، اگر ہم ضابطہ ہی اختیار کرلیں تو میں کہتا ہوں کہ اس کا قول تغیر بہ بعض اوصافہ ''زعفران'' کی صفت ہے نہ کہ ''طاہر'' کی حتی کہ بعض اوصاف کا بدلنا حکم کیلئے قید ہو۔ پس حکم غلبہ کے اعتبار سے ہوگا اور غلبہ ہر قسم میں مختلف نوعیت کا ہوگا یا توتمام اوصاف سلامت رہیں یا زیادہ اوصاف یا صرف پتلاپن اگرچہ اوصاف بدل جائیں، اور یہ حکم جامد میں ہوگا جس میں زعفران بھی ہے، تو پانی اُس وقت تک غالب ہوگا جب تک اس کا پتلاپن باقی رہے اگرچہ اس کے بعض اوصاف بدل جائیں۔ چاہے کل اوصاف کے ضمن میں ہی تبدیل ہوئے ہوں، تو اب قید لگانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ گفتگو پانی میں ہو رہی ہے اور جو سخت ہوجائے وہ پانی ہی نہیں رہتا تو مجمع کی عبارت کی ضابطہ کے ساتھ تطبیق یوں ہے، اور اس میں کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ اگر مذہب کو ہی ملحوظ رکھیں اور کہیں کہ تَغیر بَہ بَعض اَوْصَافہ ''طاہر'' کی صفت ہے تو پھر معنی یہ ہوگا ہم اس پانی سے وضو کی اجازت دیتے ہیں جس کے ساتھ کوئی پاکیزہ چیز مل کر اس کے بعض اوصاف کو بھی بدل دے یہاں تک کہ کل کو بھی جب تک پانی مقدار، طبیعت اور نام کے اعتبار سے غالب رہے تو کلام بالکل صحیح اور بے غبار ہے۔ اس کی تصحیح کیلئے کسی تکلیف کی ضرورت نہیں کہ اس کا ارتکاب کیا جائے۔ (ت)


السادس والعشرون: وقال العلامۃ الشامی فی المنحۃ اقول قول المجمع ونجیزہ بغالب علی طاھر لایخلو اما ان یحمل علی الاعم من الجامد والمائع اوعلی الجامد فقط ولاسبیل الی حملہ علی الماء فقط لقولہ کزعفران فان حمل علی الاعم لایصح حمل البعض علی الواحد لان غلبۃ المخالط الجامد تعتبر بانتفاء الرقۃ لابالاوصاف فضلا عن وصف واحد وایضا بالنظر الی المخالط المائع لاتثبت الغلبۃ فیہ بوصف واحد مطلقا فانہ اذا کان مخالفا للماء فی کل الاوصاف یعتبر ظھورھا کلھا او اکثرھا وان حمل علی الجامد فقط فقد علمت مما قررناہ مایرد علیہ من انہ یعتبر فیہ انتفاء الرقۃ والسیلان وان تغیرت الاوصاف کلھا مالم یزل عنہ اسم الماء کما یاتی التقیید بہ فلافرق بین الزعفران وبین ماء الباقلاء والمجاز الذی فی الینابیع والظھیریۃ فکما اعتبر فیہ انتفاء الرقۃ فلیعتبر فی الزعفران  نعم فی عبارۃ المجمع تأمل من حیث افھامھا انہ لوتغیر الاوصاف کلھا لایجوز الوضو بہ فانہ لیس علی اطلاقہ فیقید بانتفاء الرقۃ اویقال اذاتغیرت الاوصاف کلھا بنحو الزعفران یزول اسم الماء عنہ غالبا فقد ظھرلک امکان حملھا علی ماقررہ وان حملھا علی ان المراد بالبعض الواحد کما ھو ظاھر عبارۃ شرحہ یقوی الاشکال فیجب تأویل مافی شرحہ علی انہ لیس المراد تغییر واحد فقط اوعلی ان اوبمعنی الواو فینتطم الکلام واللّٰہ تعالٰی ولی الالھام ۱؎ اھ۔


چھبیسواں، علامہ شامی نے منحہ میں کہا ہے میں کہتا ہوں کہ مجمع کا قول نجیزہ بغالب علی طاھر خالی نہیں، یا تو جامد اور مائع دونوں پر محمول کیا جائےگا یا فقط جامد پر اور فقط مائع پر محمول کرنا درست نہیں بوجہ اس کے قول کزعفران کے، پس اگر عام مراد ہو تو بعض کو وصفِ واحد پر محمول کرنا درست نہیں کیونکہ جامد ملنے والی شیئ کا غلبہ پتلا پن ختم ہوجانے سے ہوگا تمام اوصاف کی تبدیلی سے نہیں چہ جائیکہ ایک وصف کی تبدیلی سے غلبہ ہو، تیز ملنے والی مائع شے کو دیکھتے ہوئے تو ایک وصف کے ظاہر ہونے سے کسی صورت میں غلبہ ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ جب وہ شے تمام اوصاف میں پانی کے مخالف ہو، تو تمام یا اکثر اوصاف کا ظہور غلبہ کیلئے معتبر ہوگا، اور اگر اسے فقط جامد پر محمول کریں تو آپ کو ہماری گفتگو کے ذریعہ اس پر وارد ہونے والا اعتراض معلوم ہے کہ اس میں غلبہ کا اعتبار پتلے پن کے زوال اور بہنے کی صلاحیت ختم ہونے سے ہوتا ہے اگرچہ تمام اوصاف بدل جائیں جب تک اس سے پانی کا نام سلب نہ ہوجائے جیسا کہ قید آرہی ہے تو اب زعفران اور لوبیا کے پانی میں کوئی فرق نہ ہوگا پس وہ مجاز جو ینابیع اور ظہیریہ میں ہے کہ جیسے اس میں پتلا پن کے نہ ہونے کا اعتبار کیا ہے یونہی زعفران میں بھی ہونا چاہئے ہاں سمجھانے کے اعتبار سے مجمع کی عبارت قابل غور ہے کہ اگر تمام اوصاف بدل جائیں تو اس پانی سے وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ اپنے اطلاق پر نہیں رہا تو اسے پتلاپن کے نہ ہونے سے مقید کرنا ضروری ہے یا یہ کہا جائے کہ جب زعفران جیسی شے سے جملہ اوصاف بدل جائیں تو اس سے اکثر اوقات پانی کا نام زائل ہوجاتا ہے تو بحر والے کی عبارت کے بیان کردہ مفہوم پر محمول کرنا ممکن ہوجائےگا، اور اگر اس کو اس پر محمول کیا جائے کہ بعض سے مراد ایک وصف ہے جیسا کہ شرح کی عبارت اعتراض کو قوی بناتی ہے تو پھر شرح کی عبارت کی یہ تاویل ضروری ہے کہ مراد فقط ایک وصف کی تبدیلی نہیں یا اَوْ بمعنی واؤ کے ہے تو کلام درست ہوجائےگا، اور اللہ تعالٰی الہام کرنے والا ہے۔ (ت)


 (۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق    کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)


اقول:اولا(۱) حدیث الافھام افھمناک حالہ۔ میں کہتا ہوں اولاً (۱) تو سمجھانے کی بات کا حال تو ہم نے آپ کو سمجھادیا۔


وثانیا اشتبہ(۲) علیہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی غلبۃ الماء الذی فیہ کلام المجمع فان غالبا فی کلامہ صفۃ الماء بغلبۃ المخالط فقال بالنظر الی المخالط المائع لاتثبت الغلبۃ فیہ بوصف واحد مطلقا الخ۔۔۔ وانما حقہ ان یقول بالنظر الی المخالط المائع لاتبقی غلبۃ الماء بعد تغیر وصف واحد مطلقا فانہ اذالم یخالف الماء الا فی وصفین فغیر واحدا فقد غلب علی الماء۔


ثانیا (۲)جس پانی کے غلبہ میں مجمع والا گفتگو کررہا ہے شامی علیہ الرحمۃ پر غلبہ کی نوعیت مشتبہ رہی کیونکہ اس کے ہاں اکثر وہ پانی مراد ہوتا ہے جس پر کوئی مائع چیز ملنے کے بعد غالب آجائے اور اس کے متعلق کہا ہے کہ ملنے والی مائع شے کے پیشِ نظر مطلقاً ایک وصف کی وجہ سے غلبہ ثابت نہیں ہوتا الخ... اصل میں تو اسے یوں کہنا چاہئے تھا کہ ملنے والی مائع شیئ کو دیکھتے ہوئے پانی کا غلبہ ایک وصف کی تبدیلی سے قطعاً باقی نہیں رہتا کیونکہ اگر شے پانی کے صرف دو وصفوں میں مخالف ہو اور ایک وصف کو تبدیل کردے تو پانی کا غلبہ جاتا رہے گا۔


وثالثا(۳) حاصل مااطال بہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی بعد تصحیحہ بماذکرنا ان مفاد العبارۃ علی ھذا الحمل غلبۃ المخالط اذاغیر اکثر من وصف والماء اذاغیر وصفا واحدا ھذا بالمنطوق وذاک بالمفھوم والاول باطل فی الجامد مطلقا ولابد من ارادتہ ولو فی ضمن العموم لقولہ کزعفران فان المناط فیہ الرقۃ وان غیر الاوصاف طرا والثانی باطل فی مائع لایخالف الا فی وصفین فانہ یغلب اذاغیر وصفا۔


ثالثاً(۳) عبارت کی وہ تصحیح جو ہم نے ذکر کی ہے اس کے بعد بھی اس کی طویل گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ اس صورت پر محمول کریں تو عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ملنے والی شیئ کا غلبہ تب ہوگا جب پانی کے اکثر اوصاف بدل جائیں اور پانی کا غلبہ تب شمار ہوگا جب ایک وصف بدلے ثانی الفاظ سے اول مفہوم سے معلوم ہوتا ہے۔ پہلا جامد میں مطلقاً باطل ہے اگرچہ عموم کے ضمن میں ہو مگر اس کا مراد لینا ضروری ہے کیونکہ اس نے کزعفران کہا ہے جس میں مدار پتلے پن پر ہے اگرچہ تمام اوصاف کو ہی بدل ڈالے اور دوسرا اُس مائع میں باطل ہے جو صرف دو اوصاف میں مخالف ہو کیونکہ اس میں ایک بھی وصف بدل جانے سے وہ پانی پر غالب آجاتا ہے۔ (ت)


اقول:الاعتراض بالمائع ذھول عن سنن سلکہ ھھنا الامام الضابط واقتفی اثرہ البحر فانھما حملا کل مطلق فی النصوص علی صورۃ خاصۃ فکما حملا النوط بالرقۃ علی الجامد ولم یرد علیہ ان المائعات تمنع مع بقاء الرقۃ وحملا الغلبۃ بالاجزاء علی المائع الموافق ولم یرد علیہ انہ منقوض بغیرہ وحملا المنع بتغیر وصف واحد علی مائع یخالف فی وصف او وصفین ولم یرد علیہ النقض بمایخالف فی الثلاث فکذا اذاحملا المنع باکثر من وصف علی مایخالف فی الثلاث کیف یرد علیہ النقض بالمخالف فی وصفین وقد(۱) قبلتموہ فی عبارۃ القدوری والکنز والمختار ولم تمنعونہ فی عبارۃ المجمع۔


میں کہتا ہوں کہ مائع کے ذریعے یہاں اعتراض امام ضابطہ کے طریق سلوک سے غفلت کی بناء پر ہے اور صاحبِ بحر نے بھی اس کی پیروی کی ہے کیونکہ یہ دونوں ہر مطلق کو نصوص میں ایک خاص صورت پر محمول کرتے ہیں جیسا کہ یہ پتلے پن سے مقید کو جامد پر محمول کرتے ہیں حالانکہ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ مائع اشیئاء تو پتلا پن باقی رہنے کے باوجود بھی مانع ہوجاتی ہیں، اور جیسا کہ انہوں نے مائع موافق میں غلبہ کو اجزاء کے غلبہ پر محمول کیا ہے اور اس پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے جب مائع غیر موافق ہو اور انہوں نے اس مائع میں جو پانی سے ایک یا دو اوصاف میں مخالف ہو وضو سے ممانعت کو ایک وصف کی تبدیلی پر محمول کیا ہے اور اس پر تین اوصاف کے مخالف ہونے کا اعتراض نہیں کیا، یونہی جب انہوں نے تین اوصاف میں مخالف ہونے کی صورت میں ممانعت کو ایک سے زیادہ وصف کی تبدیلی پر محمول کیا ہے تو اس پر دو اوصاف میں مخالف مائع والا اعتراض کیونکر وارد ہوگا باوجودیکہ آپ قدوری، کنز اور مختار کی عبارات میں اسے قبول کرچکے ہیں تو مجمع کی عبارت میں اسے کیوں منع کردیا؟ (ت)


بقی حدیث الخصوص والعموم فاقول للبحر(۲) ان یختار العموم ولا یرد الایرادان فان(۳)  التقیید ربما یکون حفظا للعلوم لالنفی ماعداہ کقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ ۱؎ اذکان فی الکھول من ھو افضل منھما کالخلفاء الاربعۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم اجمعین ،


رہی خصوص وعموم کی بات، تو میں کہتا ہوں کہ صاحبِ بحر کیلئے یہ گنجائش ہے کہ وہ عموم کو اختیار کریں تو اب دونوں اعتراض وارد نہ ہوں گے کیونکہ بعض اوقات قید کو عموم کے برقرار رکھنے کیلئے ذکر کیا جاتا ہے ماعدا کی نفی کیلئے نہیں جیسا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، کیونکہ بزرگوں میں خلفاءِ اربعہ جیسے لوگ دونوں سے افضل موجود تھے۔


 (۱؎ جامع للترمذی ابواب المناقب  امین کمپنی دہلی  ۲/۲۱۸)


و التقیید لیس قیدا فی الغالب فیکون المعنی نجیزہ بالغالب علی ماغیر بعض اوصافہ لابالغالب علی ماغیر کلھا ولافی المغلوب فیکون المعنی نجیزہ بماء خالطہ مغلوب غیر بعض اوصافہ لابماء خالطہ مغلوب غیر الکل فان فسادھما ظاھر لان الماء مھما کان غالبا والمخالط مغلوبا جاز ال وضو بہ قطعا من دون تخصیص ولاتقیید بل ھو تصویر للمغلوب والغلبۃ لاتقال الا حیث للمرجوع  ایضا شیئ من العمل اذلولم یعمل اصلا کان مضمحلا کالمعدوم لامغلوبا والعمل فی الرقۃ ینفی غلبۃ الماء فلم یبق الا الاوصاف غیر ان الجامد مغلوب وان عمل فی جمیع اوصاف الماء مادام رقیقا فلو ارادہ خاصۃ کفی ان یقول غیر اوصافہ ولم یحتج الی زیادۃ بعض فعلم انہ اراد التصویر بھما معا والعمل فی الماء الذی تتأتی معہ المغلوبیۃ فی الجامد والمائع معا لیس الا عملا فی وصف واحد فان الجامد وان کان مغلوبا مع العمل فی الکل لکن المائع اذاعمل فی وصفین غلب فوجب ان یراد بالبعض الواحد لیصح تصویر المغلوبیۃ العامۃ للصنفین وذلک فی الجامد مطلقا وفی المائع اذا خالف فی الاوصاف جمیعا ولایرد النقض بمائع غیرہ کماعلمت انہ المھیع الذی سلکاہ وقبلتموہ انتم والناس فی کل مقام علا انہ تصویر والتصویر انما یستدعی وجود صورۃ یصدق فیھا المصور لااستغراقہ جمیع الافراد ھذا ماعندی فی توجیہ کلام البحر۔

ورابعاً بہ علم(۱) ان ارادۃ الواحد لایقوی الاشکال بل علی ھذا التقدیر بہ لہ الانحلال، ولو ارید(۲) الاعم لقوی الاعضال، فانہ یکون منطوق الکلام غلبۃ الماء اذاتغیر بالمائع لہ وصفان وھذا لاصحۃ لہ علی الضابطۃ اصلا۔


رابعاً(۴) اس سے معلوم ہوا کہ ایک کے ارادہ سے اشکال قوی نہیں ہوتا بلکہ اعتراض کا دفاع ہوتا ہے اور عام مراد ہونے کی صورت میں تنگی بڑھ جاتی ہے کہ بایں صورت کلام کے لفظ یہ ہونگے کہ پانی کا غلبہ تب ہوگا جب اس سے دو وصفوں والے مائع میں تبدیلی ہو اور یہ ضابطہ کے اعتبار سے کسی طرح درست نہیں ہے۔ (ت)


وخامساً ان بنینا الکلام علی(۳) ماسبق الی ذھنہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی منقلبا ان الکلام فی غلبۃ المخالط لم یظھر لقوۃ الاشکال وجہ فانک اذاقلت کل مائع غیر للماء وصفا او وصفین فقد غلبہ ورد علیہ عـہ ۱ مایخالف الماء فی الاوصاف الثلثۃ کماورد علی ارادۃ الواحد ولوقلت کل مائع غیر وصفا واحدا غالب لم یرد  ایضا الا ھذا فھما متساویان فی الاشکال۔


خامساً(۵) اگر ہم اعتراض کی بنیاد صاحبِ بحرکے ذہن میں موجود مفہوم کو اُلٹتے ہوئے اس پر رکھیں کہ یہ کلام ملنے والی چیز کے غلبہ کے بارہ میں ہے، تو اعتراض کی قوت کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ جب آپ یہ کہیں کہ ہر وہ مائع جو پانی کی ایک یا دوصفتیں بدل دے تو وہ پانی پر غالب آجائےگا تو اس پر تین اوصاف میں مخالف کا اعتراض لازم آتا ہے جیسے کہ ایک وصف مراد لینے کی صورت میں وارد ہوتا ہے اگرآپ کہیں کہ ہر مائع جو ایک وصف کو بدل دے وہ غالب ہے تو بھی یہی اعتراض وارد ہوگا تو یہ دونوں اشکال میں برابر ہیں۔ (ت)


عــہ۱ :لان الحکم یعم تغییر وصف واحد وذو الثلثۃ لایغلب بہ ۱۲ منہ غفرلہ (م)

کیونکہ حکم وصف واحد کی تغییر کو عام ہے اور تین وصفوں والا اس سے مغلوب نہیں ہوتا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


وسادساً تأویلکم(۱) الاٰخران عند تغیر الاوصاف جمیعا بنحو الزعفران یزول اسم الماء غالبا خلاف المشاھد۔ سادساً(۶)، تمہاری دوسری تاویل کہ زعفران ایسی شے کے ساتھ پانی کی جملہ صفات بدل جانے سے اکثر طور پر پانی کا نام سلب ہوتا ہے یہ مشاہدہ کے خلاف ہے۔ (ت)


وسابعاً خلاف(۲) النصوص کماتقدم فی حکم الانبذۃ وغیرھا۔ سابعاً(۷) نصوص کے بھی خلاف ہے، جیسا کہ نبیذوں کے حکم میں گزرا۔


وثامناً مبنی(۳) تأویلکم الاول الحمل علی الجامد خاصۃ اذھو الذی تدیرون فیہ الامر علی الرقۃ وعدمھا ومعلوم ان حدیث الرقۃ یعم فیہ المنطوق والمفھوم فکما ان جامدا غیر جمیع الاوصاف لایمنع مالم تنتف الرقۃ کذلک ماغیر بعضھا لایصلح مالم تبق الرقۃ فانتفی الفرق بین البعض والکل وبقی القید ضائعا والمفھوم باطلا وبالجملۃ لوارادہ بالخصوص لماکان وجہ لزیادۃ البعض الموھمۃ خلاف الحکم المراد والمنصوص۔


ثامناً(۸)، تمہاری پہلی تاویل کی بنیاد علی الخصوص جامد پر ہے کیونکہ آپ کے ہاں پتلے پن کے وجود اور عدمِ وجود پر معاملہ کا مدار ہے اور یہ بات تو معلوم ہے کہ پتلے پن کی بات ظاہری اور ضمنی دونوں صورتوں کو شامل ہے، تو جیسے پانی کے تمام اوصاف کو بدلنے کے باوجود جب تک رقت باقی رہے جامد وضو سے مانع نہیں ہے۔ یونہی جب وہ بعض اوصاف کو بدلے تو رقت کے معدوم ہونے پر طہارت کی صلاحیت نہیں رکھے گا، تو بعض اور کل کا فرق باقی نہ رہا قید ضائع گئی اور مفہوم باطل ہوگیا حاصل یہ کہ خاص کر جامد مراد لینے پر حکم منصوص ومنطوق کے خلاف وہم میں مبتلا کردینے والی بعض کی قید لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (ت)


وتاسعا(۹) بون(۱) بین بین ماء نقع فیہ الحمص والباقلاء وماء خلط بزعفران فارادۃ الامر فی الاول علی الرقۃ صحیحۃ وفی الثانی لاکماعلمت تحقیقہ مرارا وللّٰہ الحمد


تاسعا(۹)، جس پانی میں چنے اور لوبیا بھگوئے گئے ہوں اور جس پانی میں زعفران مل گیا ہو بڑا دور کا فرق ہے تو پہلی صورت میں معاملہ کی بنیاد پتلے پن پر رکھنا درست ہے دوسری میں نہیں جیسا کہ کہ بار بار آپ کے علم میں آیا وللہ الحمد ؎


    فھذہ ستون بحثا فاخرا             حمد الربی اولاً واٰخراً 

    وقد تقدمت کثیر غیرھا             ولیس یخفی خیرھا ومیرھا

     وکل(۲) خیر من عطاء المصطفٰی     صلی علیہ اللہ مع من یصطفیٰ 

    اللّٰہ یعطی والجیب القاسم         صلی علیہ القادۃ الاکارم 

    ما نال خیرا من سواہ نائل             کلا ولایرجی لغیر نائل

     منہ الرجا منہ العطامنہ المدد         فی الدین والدنیا والاخری للابد


یہ ساٹھ بحثیں باعثِ فخر ہیں ابتداء اور انتہاء میں، تعریف اللہ تعالٰی کیلئے ہے ان کے علاوہ بھی بہت سی گزر چکی ہیں ان میں سے اچھی اور کمزور کوئی بحث مخفی نہ رہی ہر اچھائی مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی عطاء سے ہے خدا ان پر جملہ پسندیدہ لوگوں کے ساتھ رحمتیں بھیجے۔ رب دینے والا اور حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) تقسیم کرنے والے ہیں اور آپ پر قابلِ احترام قائدین درود بھیجتے ہیں آپ کے غیر سے کسی نے بھی بھلائی حاصل نہیں کی اور نہ کسی دوسرے سے کوئی حاصل کرنے والا امید رکھتا ہے امید بھی آپ سے عطا بھی آپ کی اور مدد بھی آپ کی، دنیا اور آخرت میں ہمیشہ کیلئے۔ (ت)


بالجملہ ضابطہ کا یہ دوسرا حصّہ مذہب امام ابویوسف ومذہب امام محمد ونصوصِ متواترہ مذہب سب کے خلاف ہے مذہب(۳) حنفی میں یہ تفصیلیں کہیں نہیں، ہاں کتبِ شافعیہ میں ان کے قریب تھیں شاید وہیں سے خیال امام ضابط میں رہیں۔ امام بدر محمود عینی بنایہ میں فرماتے ہیں:


مذہب الشافعی علی التحریران الماء اذا تغیر احد اوصافہ مما لایمکن حفظ الماء عنہ کالطحلب ومایری علی الماء من الملح والنورۃ ونحوھا جاز ال وضو بہ لعدم امکان صون الماء عنہ وانکان مما یمکن حفظہ عنہ فان کان ترابا طرح فیہ فکذالک لانہ یوافق الماء فی کونہ مطھرا فھو کما لوطرح فیہ ماء اٰخر فتغیر بہ وانکان شیئا سوی ذلک کالزعفران والطحلب اذادق وطرح فیہ وغیر ذلک مما یتغیر الماء منہ لم یجز ال وضو بہ لانہ زال اطلاق اسم الماء بمخالطۃ مالیس بطھور والماء مستغن عنہ فصارکاللحم والمائع المخالط بالماء ان قل جازت الطہارۃ بہ والافلا وبما ذا تعرف القلۃ والکثرۃ ینظر فان خالفہ فی بعض الصفات فالعبرۃ بالتغیر فان غیرہ فکثیروالا فقلیل وان وافقہ فی صفاتہ کماء ورد انقطعت رائحتہ ففیمایعتبر بہ القلۃ والکثرۃ فیہ وجھان احدھماان کانت الغلبۃ للماء جازت الطھارۃ بہ وانکانت للمخالط لم یجزومنھم من قال اذا کان ذلک قدرا لوکان مخالف الماء فی صفاتہ لم یغیرہ لم یمنع ولوخالط الماء المطلق ماء مستعمل فطریقان اصحھماکالمائع وفیہ وجھان وبھذا قطع جمھورھم وصححہ الرافعی ۱؎ الخ۔۔۔


امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک جو ضبط میں لایا گیا وہ یہ ہے کہ پانی کے ایک وصف کو جب ایسی شیئ بدل دے جس سے پانی کا محفوظ رکھنا ممکن نہیں مثلاً پانی پر پیدا شدہ جالا اور پانی پر جو نمک چُونہ وغیرہ نظر آتا ہے تو اس سے وضو جائز ہوگا کیونکہ پانی کو اس سے بچایا نہیں جاسکتا اگر پانی کو اس شیئ سے بچانا ممکن ہے پھر اگر وہ مٹی ہو جو پانی میں ڈال دی گئی ہو تو اس کیلئے حکم پانی کا ہے کیونکہ یہ پاک کرنے کی صفت میں پانی کے موافق ہے تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ پانی میں دوسرا پانی ڈال دیا جائے تو اس سے پانی کا رنگ بدل جائے اگر کوئی شے مٹی کے علاوہ ہو جیسے زعفران اور پانی کا خشک جالا جب باریک پیس کر اس میں ڈال دئے جائیں یا اس کے علاوہ کچھ ایسی اشیئاء ہوں جو پاک ہونے کے باوجود پاک کنندہ نہیں جس سے پانی تبدیل ہوجاتا ہو تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ غیر طہور شیئ کے ملنے سے پانی کا نام زائل ہوجاتا ہے تو یہ ایسے ہوگیا گویا گوشت مل گیا ہو، بہنے والی شیئ اگر پانی میں تھوڑی ہو تو وضو جائز ورنہ ناجائز ہوگا، قلّت اور کثرت کی پہچان کیونکر ہوگی، تو دیکھا جائےگا کہ اگر وہ چیز بعض صفات میں پانی کے موافق ہو جیسا کہ عرق گلاب جس کی خوشبو نہ ہو تو قلت وکثرت دو طریقوں سے معلوم ہوگی ایک یہ کہ اگر پانی کو غلبہ ہو تو اس کے ساتھ وضو جائز ہوگا اگر ملنے والی شے کا غلبہ ہو تو وضو جائز نہ ہوگا ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ شیئ اتنی مقدار میں ہو کہ وہ اوصاف میں مختلف ہونے کے باوجود پانی کو متغیر نہ کرے تو وضو سے مانع نہ ہوگی اگر مطلق پانی کے ساتھ مستعمل پانی مل جائے تو اس کے دو۲ طریقے ہیں، صحیح ترین طریقہ یہ ہے کہ مائع کی طرح اس میں بھی دو وجہیں ہوں گی اس طریقہ پر ان کے جمہور علماء نے یقین کیا ہے اور رافعی نے اسے صحیح قرار دیا ہے الخ...


 ( ۱؎ البنایۃ شرح الہدایۃ        الماء الذی یجوزبہ ال وضو    ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۹۱)


وحاصلہ ان العبرۃ بالاجزاء انما ھی فی المائع الموافق للماء فی جمیع الصفات والا فبالاوصاف وھذا ماوزع بہ فی الضابطۃ وان زاد التفصیل بالخلاف فی جمیع الاوصاف فیعتبر وصفان اوبعضھا فواحد واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم،صلی اللّٰہ تعالٰی وبارک وسلم، علٰی سیدنا ومولٰینا الارأف الارحم، شفیع الامم، واٰلہٖ وصحبہ وابنہ الکریم الغوث الاعظم، اٰمین۔


خلاصہ یہ کہ مائع جب تمام صفات میں پانی کے موافق ہو تو اعتبار اجزاء کا ہوگا ورنہ صفات کا یہی تقسیم ضابطہ میں کی گئی ہے اگرچہ اختلاف کی صورت میں زیادہ تفصیل کی ہے کہ تمام اوصاف مختلف ہوں تو دو صفات کا، ورنہ ایک کا اعتبار ہوگا، واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وصلی اللہ تعالٰی وبارک وسلم علٰی سیدنا ومولٰنا الارأف الارحم، شفیع الامم، وآلہٖ وصحبہ وابنہ الکریم الغوث الاعظم، آمین (ت)

پنجم ضابطہ نسفیہ کہ جس پانی میں اس کا غیر ایسا مل جائے کہ تمیز نہ رہے اور وہ پانی پر غالب ہو تو پانی قابلِ وضو نہ رہا آب مقید ہوگیا ورنہ نہیں اور اس کا غلبہ دو طور پر ہے یا تو اجزاء سے کہ اُس کے اجزاء پانی سے زائد[یعنی یابرابرہوں


فان المساوی کالزائد احتیاطا کمامر عن البدائع۲؎ (کیونکہ مساوی احتیاطاً زائد کی طرح ہے جیسا کہ بدائع سے گزرا۔ ت)] یاکمال امتزاج سے اور یہ بھی دو طور پر ہے یادرختوں کے پی لینے سے یا پانی میں کوئی پاک چیز پکانے سے، جیسے شوربا اور آبِ باقلا مگر یہ کہ اُس سے زیادت نظافت مقصود ہو جیسے اُشنان وصابون کہ ان کا پکانا مضر نہیں جب تک گاڑھا نہ کردے ۔


(۲؎ بدائع الصنائع    الماء المقید        سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


امام اجل ابو البرکات نسفی نے کافی شرح وافی میں فرمایا: بطلان صفۃ الاطلاق بغلبۃ الممتزج وھی بکثرۃ الاجزاء اوبکمال الامتزاج وھو یطبخ الماء بخلط الطاھرکماء الباقلی والمرق اوبتشرب النبات الماء حتی یبلغ الامتزاج مبلغا یمتنع خروج الماء عنہ الابعلاج والامتزاج بالطبخ انما یمنع الوضو بہ ان لم یکن مقصود ا للغرض المطلوب من الوضو وھوالتنظیف کالاشنان والصابون اذاطبخا بالماء الا اذاغلب ذلک علی الماء فیصیرکالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ والامتزاج الاختلاط بین الشیئین حتی یمتنع التمیز ۱؎ اھ۔


پانی کے مطلق ہونے کی صفت کسی ملنے والی شیئ کے غلبہ سے باطل ہوگی غلبہ یا تو اجزاء بڑھ جانے سے ہوگا یا کامل طور پر گھُل مل جانے سے اور وہ یوں کہ پانی کو کسی پاکیزہ چیز کے ساتھ ملا کر پکایا جائے مثلاً لوبیا کا پانی یا شوربا یا یہ امتزاج جڑی بُوٹیوں کے پانی کو یوں جذب کرلینے کے بعد ہوگا کہ ان سے بغیر مشقت کے پانی کو الگ نہ کیا جاسکے، پکانے سے امتزاج وضو سے اس وقت مانع ہوگا جب اس کے ملانے سے وضو کی کوئی غرض وابستہ نہ ہو مثلاً صابون یا اشنان کو جب پانی میں پکایا جائے البتہ یہ بھی اگر پانی پر یوں غالب آجائیں کہ مخلوط ستّو کی مثل شیئ بن جائیں تو پھر اس پانی سے بھی وضو جائز نہ ہوگا کیونکہ اس پر پانی کا نام نہیں بولاجائےگا امتزاج دو اشیئاء کا یوں یکجان ہونا کہ انہیں جدا کرنا ممکن نہ ہو۔ (ت)


 (۱؎ کافی شرح وافی للنسفی)


بعینہ اسی طرح کفایہ امام جلال الدین شرح ہدایہ میں ہے اقول غلبہ ممتزج وکمال امتزاج اور اس کے اسباب طبخ وتشرب نبات یہ سب مضمون امام زیلعی نے یہیں سے اخذ فرمائے امام اجل نسفی نے غلبہ ممتزج صرف کثرت اجزاء سے لیا تھا انہوں نے اس میں سخن اوصاف اپنی طرف سے اضافہ فرمایا یہاں(۱)سے بھی واضح ہوا کہ کافی وکفایہ تک جو ضابطہ مذہب حنفی میں تھا اس میں اس تفصیل کا پتا نہیں۔


ثم اقول: ضابطہ نسفیہ وہی مذہب امام ابویوسف ہے۔ ضابطہ چہارم بحث دہم میں گزرا کہ اس مذہب معتمد میں مانع چار بلکہ تین ہی ہیں کثرت(۱)اجزائے مخالط جس میں حکماً تساوی بھی داخل اور(۲) زوال رقت کہ زوال سیلان کو بالاولیٰ شامل اور(۳) زوال اسم یہاں کثرت اجزاء تووہی ہے اور کمال امتزاج بطبخ وتشرب باقی دو کی صور سے ہیں تو یہ ضابطہ بظاہر مثل عبارات متون ضابطہ جزئیہ ہے کہ ضابطہ یوسفیہ سے باہر نہیں اگرچہ سب صور کو محیط بھی نہیں۔

اقول: مگر حقیقۃً وہ کلیہ ہے بلاشبہ غلبہ ممتزج وکمال امتزاج بلکہ صرف غلبہ ممتزج سے باہر کوئی سبب نہیں، وانما(۲)جعلھاجزئیۃ تفسیرھماببعض صورھمافلوجعل التفسیر تصویر الاستقام٭وتم الکلام٭ وھھنا مباحث کثیرۃ لاتخفی علی من احاط بماقدمنامن النقض والابرام٭واللّٰہ سبحٰنہ ولی الالھام٭


اس کو ان کی بعض صورتوں کی تفسیر کا جزو قرار دیا ہے حالانکہ اگر اسے تفسیر بنانے کے بجائے تصویر بناتاتو درست ہوتا یہاں بہت سی ایسی مباحث ہیں کہ جو ان اعتراضات وجوابات کو مکمل پڑھنے سے مخفی نہیں رہ سکتیں جو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں اللہ الہام کرنے والا ہے۔ (ت)


ششم ضابطہ رضویہ سبحٰن اللہ فقیر بھی کوئی شیئ ہے کہ احکام میں زبان کھول سکے حاشا ضابطہ وہی ضابطہ امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے۔ باتباع علماء اس کے اجمال کو مفصل کردیا ہے۔تفاصیل میں خدمت گاری کلام اکابر کے صدقہ سے جن تحقیقات کاافاضہ ہوا اُن پر ابتنائے شقوق کیا ہے جملہ ضوابط صحیحہ مذکورہ کو ایک دائرے کے احاطہ میں لیا ہے اس نے بیان کو اظہر واجمع وانور وانفع کرکے ضابطہ کے لئے خلعت جدت سیا ہے۔


فاقول: وباللّٰہ التوفیق(۱)دریانہر چشمےچاہ باران کا پانی حتی کہ شبنم اپنی حد ذات میں آب مطلق ہے جو کچھ ان کی جنس سے نہیں اگرچہ ان کی شکل ان کے اوصاف ان کے نام پر ہوپانی نہیں اُس سے وضو وغسل نہیں ہوسکتا جیسے ماء الجبن دہی کا پانی درختوں پتھروں کامد مٹی کا تیل سیندھی تاڑی ناریل کدو تربوز کا پانی اگرچہ اس میں صرف پانی ہی ہو یوہیں جو کچھ پتّوں شاخوں پھلوں پھُولوں سے نکالا جائے یا کافور کے درخت انگور کی بیل کی طرح کاٹے سے یا آپ ہی ٹپکے یا نمک نوشادر کا فور وغیرہا کے پگھلنے یا سونے چاندی رانگ وغیرہا کے گلنے سے حاصل ہو ۔


 (۲) جو کچھ حقیقۃً پانی ہے (اگرچہ بیچ میں پانی نہ رہا تھا جیسے اولے یاآسمانی برف یا کل کا جب پگھل جائے) یا تو اُس میں کوئی اور چیز (اگرچہ اُسی کی جنس سے ہو) داخل ہوگی یا نہیں، اگر نہیں تو وہ مطلقاً آب مطلق ہے لیکن اگر مائے مستعمل ہے جس کا بیان الطرس المعدل میں مفصل گزرا تو اُس سے وضو وغسل جائز نہیں ورنہ مطلقاً صحیح ہے اگرچہ بوجہ ملک غیر یا وقف یا کسی حاجت ضرور یہ کی طرف مصروف ہونے یا اور عوارض کے سبب جن کا بیان فصل اول میں گزرا اس سے وضو حرام یا مکروہ ہو اگرچہ بچّوں کا ہاتھ پڑنے یا کافر کے چھونے یا کسی مشکوک شے کے گرنے سے اس کی طہارت میں اوہام پیدا ہوں جب تک نجاست ثابت نہ ہوجائے اگرچہ دیر تک بند رہنے سے اُس کا رنگ بُو مزہ بدل جائے یا ابتداء ہی سے بدلا ہوا ہو اگرچہ کسی تیز خوشبو یا بدبو شیئ کے قرب سے اس میں کتنی ہی بُوئے خوش یا ناخوش پیدا ہوجائے، ہاں اگر سردی سے جم جائے یا رقیق نہ رہے جیسے اولے برف اس سے وضو ناجائز ہوگا جب تک پگھل کر پھر اصلی رقت پر نہ آجائے۔


 (۳) اگر داخل ہوگی تو دو صورتیں ہیں یا تو پانی سے جُدا رہے گی یعنی اس میں سرایت نہ کرے گی یا خلط ہوجائےگی

اگر جدا رہے (اور یہ نہ ہوگا کہ شیئ جامد میں جیسے کنکر وغیرہ پانی میں ڈال دئے جائیں) تو اگر وہ شیئ نجس نہیں یا پانی دہ در دہ ہے مطلقاً مطلق وقابل وضو (عـہ۱) ہے اور اگر نجس ہے اور پانی کم تو مطلق ہے مگر لائقِ استعمال نہ رہے گا۔


 (عـہ۱) آبِ کثیر نجاست کے پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک اُس کا کوئی وصف نہ بدلے اور ظاہر ہے کہ رنگ یا مزہ اُسی وقت بدلیں گے جب اُس نجس کے اجزاء پانی میں خلط ہوں اور یہاں وہ صورت مفروض ہے کہ خلط نہ ہو، ہاں اگر کوئی نجس چیز اس درجہ قوی الرائحہ ہو کہ صرف اس کی مجاورت بلاخلط سے آبِ کثیر کی بُو بدل جائے تو نجس ہونا چاہئے۔ واللہ تعالٰی اعلم منہ غفرلہ۔ (م)


 (۴) اگرپانی میں خلط ہوگی تو دو صورتیں ہیں وہ ملنے والی شیئ بھی اصل میں صرف پانی ہے یا اس کا غیر اگر صرف پانی ہے تو پھر دو صورتیں ہیں اب بھی پانی ہی ہے یا نہیں اگر اب بھی پانی ہی ہے تو اس کے ملنے سے پانی مطلق تو مطلقا رہے گا ہی اُس سے وضو بھی روا ہوگا مگر دو صورتوں میں ایک یہ کہ آب مستعمل اس میں مل جائے اور یہ مقدار میں اس سے زائد نہ ہو، دوسرے یہ کہ نجس پانی پڑ جائے اور یہ دہ در دہ نہ ہو اور یہ وہیں ہوگا کہ وہ پانی بے کسی دوسری شیئ کے مختلط ہوجانے کے ناپاک ہوگیا جیسے آب قلیل میں خنزیر کا پاؤں یا بال پڑ گیا اور نکل گیا کہ پانی خالص ہی رہا خلط نہ ہوا اور ناپاک ہوگیا ورنہ جو خلط نجس سے نجس ہو اُس کا ملنا اس قسم سے خارج ہوگا کہ یہ صرف پانی کا ملنا نہ ہوا۔

 (۵) اگر وہ ملنے والی شیئ اب پانی نہیں (اور یہ نہ ہوگا مگر اولے یا برف میں کل کاہو خواہ آسمانی کہ یہی وہ صورت ہے کہ پانی بے خلط غیر پانی نہ رہے) تو اگر پانی کی رقت زائل کردے قابلِ وضو نہ رہے گا جب تک وہ شیئ پگھل کر پھر پانی نہ ہوجائے اور اگر رقت باقی ہے نہ یوں کہ اولے برف ابھی گھل کر پانی میں مخلوط نہ ہوئے پتھر کنکر کی طرح تہ میں پڑے ہیں کہ یہ تو تیسرا نمبر تھا بلکہ یوں کہ مقدار میں اتنے کم تھے جن کے خلط سے رقت آب میں فرق نہ آیا تو اُس سے وضو جائز ہے۔


 (۶) اگر وہ شیئ غیر آب ہے اور پانی میں اتنی خلط ہوگئی کہ پانی اُس سے مقدار میں زائد نہیں تو مطلقاً قابلِ وضو نہیں۔

(۷) اگر پانی مقدار میں زیادہ ہے تو وہ شیئ نجس ہے یا طاہر اگر نجس ہے اور پانی دہ در دہ نہیں یا ہے تو نجاست سے اس کے رنگ یا مزے یا بُو میں فرق آگیا تو پانی اگرچہ مطلق رہے قابلِ وضو درکنار بدن میں جائز الاستعمال رہا۔


 (۸) اگر وہ دہ در دہ ہے اور کسی وصف میں تغیر نہ آیا تو نجاست کا حکم ساقط اور احکام بعض احکام آئندہ ہوں گے۔

(۹) اگر طاہر ہے تو پھر دو صورتیں ہیں اس کا خلط آگ پر ہوا یا الگ۔ اگر آگ سے الگ ہوا اور وہ شیئ جامد ہے تو ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے اجماع سے اور مائع ہے تو مذہب صحیح معتمد میں پانی مطلقاً آب مطلق ولائق وضو رہے گا اگرچہ رنگ، مزہ، بُو سب بدل جائیں گے مگر دو صورتوں میں، ایک یہ کہ پانی رقیق ترہے،اور ہم تحقیق کر آئے ہیں کہ یہ کچھ جامد ہی سے خاص نہیں بہت مائعات بھی مانعاتِ رقّت آب ہوتے ہیں دوسرے یہ کہ شربتِ شہد یا شربتِ شکر یا نبیذ و رنگ کی طرح مقصد دیگر کیلئے شیئ دیگر ہوجائے۔


 (۱۰) اگر خلط آگ پر ہوا تو دو صُورتیں ہیں اگر ہنوز وہ چیز پکنے نہ پائی کہ مقصد دیگر کیلئے شے دیگر کردے پانی سے امتزاج کامل نہ ہونے پایا کہ سرد ہونے پر گاڑھا کردے اس حالت کے قبل اتارلی تو پانی مطلقاً آبِ مطلق وقابلِ وضو ہے۔

(۱۱) اگر وہ شے پک گئی تو تین صورتیں ہیں پکانے میں صرف پانی مقصود ہے یا صرف وہ شے یا دونوں، پہلی دو صورتوں میں آب مطلق رہے گا جب تک اس قابل نہ ہوجائے کہ سرد ہو کر زوال رقّت ہو، صورت دوم کی مثالیں بحث اول طبخ میں شنجرف ونشاستہ وآش جو سے گزریں اور صورت اول کا بیان فصل خامس میں آتا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔


 (۱۲) صورت سوم میں اگر پانی اس قدر کثرت سے ڈال دیا کہ نہ مقصود دیگر کیلئے ہوسکے گا نہ اُس سے دَلدار ہوگا تو مطلقاً مطلق ولائق طہارت ہے۔

(۱۳) اگر اتنا کثیر نہ تھا مگر دَلدار نہ ہوسکے گا تو جب مقصود دیگر کیلئے ہوجائےگا قابلِ وضو نہ رہے گا۔

(۱۴) اگر پانی دَلدار ہوسکتا ہے تو اگر بالفعل گاڑھا ہوگیا کہ بہانے میں پُورا نہ پھیلے گا مطلقاً لائق وضو نہ رہا اگرچہ اس میں صابون ہی پکایا ہو جس سے زیادت نظافت مقصود ہوتی ہے۔

(۱۵) اگر بالفعل گاڑھا نہ ہوا مگر ٹھنڈا ہوکر ہوجائے گا تو دو صورتیں ہیں اگر وہ شے مثل صابون وغیرہ زیادت نظافت کیلئے ہے فی الحال اُس سے وضو جائز ٹھنڈا ہونے کے بعد صحیح نہیں۔

(۱۶) اگر زیادت نظافت کیلئے نہیں تو اس سے فی الحال بھی وضو جائز نہیں۔


یہ ہے وہ تحقیق انیق کہ جمیع نصوص صحاح کو متناول اور جملہ ارشادات متون کو حاوی وشامل اور تمام تحقیقات سابقہ پر مشتمل اور سب فروع ممکنہ کے حکم صحیح کو بعونہٖ تعالٰی کافی وکافل والحمدللّٰہ رب العٰلمین، وافضل الصلوۃ واکمل السلام علی خاتم النبیین، سید المرسلین، وعلیھم جمیعا وعلی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین، اٰمین والحمدللہ رب العٰلمین (حمد اللہ رب العالمین کیلئے ہے اور افضل الصلٰوۃ واکمل السلام خاتم النبیین سید المرسلین پر اور تمام انبیاء پر، اور آپ کے آل واصحاب، اولاد اور گروہ سب پر، آمین، والحمدللہ رب العٰلمین)


فصل خامس بعض جزئیات جدیدہ میں۔ بحمدہ تعالٰی کتاب میں تین سو سات (۳۰۷) جزئیات مذکور ہوئے۔

(۳۰۸) آب مقطر یعنی قرع انبیق میں ٹپکایا ہوا پانی کہ اجزائے ارضیہ وغیرہا کثافتوں سے صاف کرنے کیلئے سادہ پانی رکھ کر آنچ کریں کہ بخارات اُٹھ کر اوپر کے پانی کی سردی پاکر پھر پانی ہو کر ٹپک جائیں یہ پانی کہ محض پانی کی بھاپ سے حاصل ہُوا اس کا صریح جزئیہ اپنی کتب میں نظر فقیر سے نہ گزرا،


الا ماقدمنا فی ۱۹۰عن ھذا الفاضل المتأخر محشی الدرر الخادمی فی بحث وجدل اذقال فی الدرر معللا لعدم جواز الطہارۃ بماء حصل بذوبان الملح انہ انقلب الی طبیعۃ اخری فقال اورد الجمد والبخار واجیب المراد طبیعۃ غیر ملائمۃ للمائیۃ ۱؎ اھ فافاد السؤال والجواب الجواز بماء یتکون من البخار ولایبعدان المراد ماء المطر والبئر فماھما الاابخرۃ تستحیل ماء۔


مگر صرف وہی جو ہم نے نمبر ۱۹۰ میں بیان کیا اور وہ الدرر کے ایک فاضل محشی خادمی صاحب کے اس قول سے حاصل ہوا جس کو انہوں نے ایک بحث مباحثہ میں ذکر کیا جبکہ دُرر میں کہا نمک کے پگھلنے سے جو پانی بنا اس سے طہارت کے ناجائز ہونے کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پانی ایک طبیعت کے انقلاب سے حاصل ہوا ہے، تو اس پر علامہ خادمی نے اعتراض کرتے ہو ئے برف اور بخار کا حوالہ دیا (کہ اس سے جو پانی بنتا ہے وہ بھی تو طبیعت بدلا ہوا ہوتا ہے حالانکہ اس سے وضو جائز ہے)اس کے جواب میں کہا گیا کہ طبیعت سے مراد ایسی طبیعت ہے جو پانی کے مناسب نہ ہو اھ تو اس سوال وجواب نے بخار سے بنے ہوئے پانی سے وضو کاجواز بیان کردیا۔ کوئی بعید نہیں کہ اس سے مراد بارش اور کُنویں کا پانی ہو کیونکہ یہ دونوں پانی بخارات کی تبدیلی سے بنتے ہیں۔ (ت)


 (۱؎ حاشیۃ علی الدرر    لابی سعید الخادمی     کتاب الطہارت    مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۲۰)


اقول: مگر بعونہ تعالٰی حکم ظاہر ہے کہ وہ مائے مطلق اور اس سے طہارت جائز ہے کہ سمندر کے سوا آسمان وزمین کے عام پانی بخارات ہی سے بنتے ہیں اور گلاب وعرق گاؤ زبان وغیرہ وارد نہ ہوں گے کہ وہ بھی اگرچہ پانی ہی کے بخار ہیں مگر وہ سادہ پانی سے نہ اُٹھے بلکہ جس میں دوسری شے بھگوئی گئی ہے جس نے ان بخارات مستحیلہ کو مقصد دیگر کیلئے چیز دیگر کردیا لہٰذا زوال اسم ہوگیا انہیں پانی نہیں کہا جاتا بلکہ گلاب وعرق بخلاف آب تقطیر کہ پانی ہی ہے اور پانی ہی کہا جائےگا نہ مقصود بدلا نہ نام۔


اقول:(۱) البتہ ضابطہ امام زیلعی پر گلاب اور سب عرق وارد ہوں گے کہ جامد ہی چیزیں ملیں تو مدار بقائے رقّت پر ہُوا اور وہ باقی ہے تو یہ بخارات ازروئے ضابطہ آبِ مطلق ہی سے اُٹھے اور پانی ہی ہوکر ٹپکے اس کے بعد کوئی بات انہیں وہ عارض نہ ہوئی جو بربنائے ضابطہ اُنہیں آب مقید کردے کہ مقصد دیگر کیلئے چیز دیگر ہوجانا ضابطہ میں نہیں تو بحکم ضابطہ گلاب وہر عرق سے وضو ہوسکنا چاہئے حالانکہ بالاجماع جائز نہیں۔


ثم رأیت التصریح بھذا الفرع فی کتب السادۃ الشافعیۃ قال العلامۃ زین المیلباری تلمیذ الامام ابن حجر المکی فی فتح المعین الماء المطلق مایقع علیہ اسم الماء بلاقید وان رشح من بخار الماء الطھور المغلی ۱؎ اھ وفی الفتاوٰی الکبری الفقھیۃ لشیخہ الامام رحمھما اللّٰہ تعالٰی سئل عن شجر بارض الحبشۃ یخرج منہ عند انتشار الریاح بخار کالدخان ویرشح مائعاکالماء سواء بسواء فھل لہ حکم الماء فی الطھوریۃ فاجاب لیس حکمہ حکمہ بل ھو کالمائع جزماوفارق بخار الطھور المغلی بان ذلک من الماء بخلاف ھذا اذھو کماء الشجر وھو لیس بطھور قطعا ۲؎۔


پھر میں نے اس فرع کی تصریح شافعی مسلک کے علماء کی کتب میں دیکھی، امام ابن حجر مکی کے شاگرد علامہ زین ملیباری نے فتح المعین میں کہا کہ مطلق پانی وہ ہوتا ہے جس کو کسی قید کے بغیر پانی کہا جاسکے اگرچہ وہ اُبلنے والے پاک پانی کی بھاپ سے بنا ہو اھ اور ان کے استاد وشیخ کے فتاوی کبرٰی فقہیہ میں ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ افریقہ میں ایک ایسا درخت ہے جو ہواؤں کے چلنے پر دُھوئیں کی طرح ایک گیس چھوڑتا ہے اور وہ گیس بعد میں پانی کی طرح بہنے والی صورت اختیار کرلیتی ہے جو بالکل پانی معلوم ہوتی ہے۔ تو کیا درخت کی اس گیس کے پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کا حکم پانی والا نہیں ہے بلکہ وہ بہنے والا مادہ ہے جو ابلنے والے پانی کے بخارات سے مختلف ہے کیونکہ یہ تو پانی سے بنتا ہے۔ اور وہ درخت کے پانی کی طرح ہے جس سے طہارت کا حصول بالکل جائز نہیں۔ (ت)


 (۱؎ فتح المعین بشرح قرۃ العین     فصل فی شروط الصلوۃ         مطبع عامر الاسلام     ترور نگاڈی کیرلہ ص ۸)

(۲؎ فتاوٰی کبرٰی    کتاب الطہارۃ    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱/۱۲)


اقول: یہ اگر آب مطلق طاہر کے بخارات سے ہے قابلِ طہارت ہے۔

(۳۰۹) کبھی حمام کی چھت اور دیواروں سے پانی ٹپکتا ہے۔

(۳۱۰) آب غطا پانی گرم کیا بھاپ اُٹھ کر سرپوش پر اندر کی جانب پانی کے کچھ قطرے بنے ہوئے ملتے ہیں۔ اقول وہ بدستور آبِ طہور ہے اُس سے سریا موزوں کا مسح جائز ہے،


لماعلمت انہ لیس الا من اجزاء الماء المطلق وتخلل الاستحالۃ الی البخار لایمنع کمیاہ الابأر والامطار۔ کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ مطلق پانی کے اجزاء سے بنا ہے اور درمیان میں بخارات کی صورت اختیار کرنا، اس کیلئے مانع نہیں ہے جس طرح کنوؤں اور بارشوں کے پانی کہ وہ بھی پہلے بخارات کی صورت میں تھے۔ (ت)


(۳۱۱) کوئی اور چیز پکانے میں جو قطراتِ بخار چپن (ڈھکنا) پر ملیں۔


اقول: اس کا حکم مسائل طبخ کی طرف رجوع سے واضح ہوگا اگر وہ شے زیادت نظافت کیلئے ہے اور پانی بالفعل گاڑھا نہ ہوگیا یا اور کوئی چیز ہے اور پانی ابھی اس قابل نہ ہوا کہ سرد ہوکر رقیق نہ رہے نہ وہ مقصود دیگر کیلئے چیز دیگر ہوگیا اس حالت میں جو بخار اُٹھے آبِ مطلق ہیں کہ آبِ مطلق کے اجزاء سے ہیں ورنہ مقید کہ مقید سے ہیں۔


 (۳۱۲) اصطبل وغیرہ محل نجاسات سے بخارات اُٹھ کر ٹپکے پاک تو مطلقاً ہیں جب تک ان میں اثرِ نجاست ظاہر نہ ہو،

فی ردالمحتار فی الخانیۃ ماء الطابق(عـہ) نجس قیاسالا استحسانا وصورتہ اذا احرقت العذرۃ فی بیت فاصاب ماء الطابق ثوب انسان لایفسدہ استحسانا مالم یظھر اثر النجاسۃ فیہ وکذا الاصطبل اذا کان حارا وعلی کوتہ طابق اوکان فیہ کوز معلق فیہ ماء فترشح وکذا الحمام فیھا نجاسات فعرق حیطانھا وکواتھا وتقاطر قال فی الحلیۃ والظاھر العمل بالاستحسان ولذا اقتصر علیہ فی الخلاصۃ والطابق الغطاء العظیم من الزجاج اواللبن ۱؎ اھ


ردالمحتار میں خانیہ سے ہے ڈھکنے (سرپوش) کا پانی قیاس کے طور پر نجس ہے استحسان کے طور پر نجس نہیں، اس کی صورت یوں ہوگی کہ کسی کمرے میں نجاست کو آگ سے جلانے کی بنا پر حرارت (سے مرطوب بخارات بن کر ڈھکنے پر جمع ہوکر ٹپکنے) پر وہ قطرے کسی کے کپڑوں کو لگے تو استحسان کے طور پر کپڑے ناپاک نہ ہوں گے جب تک ان قطرات میں نجاست کے اثرات ظاہر نہ ہوں، اسی طرح اصطبل میں حرارت اور چھت پر ڈھکنا ہونے کی صورت میں یا وہاں کوئی پانی کا مٹکا ہونے کی صورت میں پانی ٹپکنا شروع کردے۔ اسی طرح کسی حمام میں اگر مختلف نجاستیں ہوں تو وہاں دیواروں اور چھت پر قطرے بن کر ٹپکنے لگیں حلیہ میں کہا تو ظاہر یہی ہے کہ استحسان پر عمل کیا جائےگا اسی لئے خلاصہ میں صرف استحسان والے حکم (طہارت) کو ذکر کیا گیا ہے اور طابق شیشے یا مٹی کے بڑے ڈھکنے کو کہتے ہیں۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار    باب الانجاس        مصطفی البابی مصر    ۱/۲۳۸)


(عـہ)طابق شیشے یا مٹی کے بڑے ڈھکنے کو کہتے ہیں۔ (م)


اقول: مگر طہور وقابلِ طہارت نہیں اگر آب مطلق کے سوا اور رطوبتوں سے ہوں کمالایخفی۔

(۳۱۳) سونٹھ کا پانی جنجریٹ۔

(۳۱۴) میٹھا پانی لیمینیڈ ان کا آب مطلق تو نہ ہونا صاف ظاہر۔

(۳۱۵) کھاری پانی سوڈا واٹر بھی قابلِ طہارت نہیں اگرچہ اُس میں کوئی جُز نہ ڈالا صرف گیس کی ہوا سے بنایا ہو، فانہ لاشک فی سرایۃ الھواء المذکور فی الماء عند فورانہ وتغییرہ طعمہ وجعلہ شیئا اٰخر لمقصود اٰخر۔


کیونکہ بلاشبہ مذکور ہوا (گیس سوڈا) پانی میں سرایت کرتی ہے جس سے پانی ابلتا ہے اور ذائقہ تبدیل ہوجاتا ہے اور یہ (سوڈا گیس) پانی کو کسی اور مقصد کیلئے دوسری چیزبنادیتا ہے۔ (ت)


اقول: یہ تینوں(۱)پانی بھی ضابطہ پر وارد ہیں جبکہ ان کا اصطناع جامدات سے ہوکہ رقّت ضرور باقی ہے،


الا ان یدعی فی الثالث ان الھواء من المائعات لجریانہ منبسطاعلی ھینۃ بل ھو ابلغ فیہ من الماء لکونہ الطف منہ فھذا مائع یخالف الماء فی الطعم وقد غیرہ فتقید فلایخرج الفرع عن الضابطۃ۔


مگر تیسرے میں یہ دعوی کیا جائے کہ ہوا پُرسکون طور پر پھیلتی چلی جاتی ہے لہٰذا ہوا بھی بہنے والی چیزوں میں سے ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ہوا زیادہ لطیف ہونے کی وجہ سے زیادہ پھیلتی ہے تو پھر ہوا پانی سے علیحدہ ایک بہنے والی چیز ہے جو اس سے ذائقہ میں مختلف ہے یوں ہوا نے پانی کو متغیر کردیا اور پانی مقید ہوگیا لہذا یہ فرع ضابطہ سے خارج نہ ہوگی۔ (ت)


 (۳۱۶ و ۳۱۷)یونہی آبِ افیون وبھنگ اگرچہ رقیق رہیں ناقابلِ وضو ہیں لغلبۃ الاجزاء بالمعنی الثالث  (تیسرے معنیٰ کے اعتبار سے اجزاء کا غلبہ ہے۔ ت) ضابطہ پر(۲) وارد کہ جامدات ہیں اور رقّت باقی۔


 (۳۱۸) اقول: بلکہ رقیق(۳) چائے بھی خصوصاً اُس صورت میں کہ پانی کے جوش میں نہ ڈالیں بلکہ آگ سے اُتار کر اور رہنے دیں یہاں تک کہ اپنا عمل کرے اور اب وہ پانی چائے کہلائے کہ یہ صورت طبخ سے جُدا اور اب بنصِ ضابطہ محض رقت پر مدار بلکہ اگر اسے معنیً طبخ میں داخل کریں کہ حرارتِ آب نے اُس میں عمل کیا جب بھی ضابطہ پر وارد رہے گی کہ بتصریح امام ضابط وغیرہ ائمہ طبخ میں وجہ منع کمال امتزاج ہے اور ہم تحقیق کر آئے کہ مانع وہی ہے کہ موجب زوال رقت ہو اگرچہ سرد ہو کر توجب رقت باقی بروئے ضابطہ ہر طرح جواز چاہئے حالانکہ بلاشبہ بالاتفاق ناجائز ہے،


لزوال الاسم وھو المعتبر فی الباب بتصریح الامام الضابط وسائر الائمۃ کیف وقد صار شیئا اٰخر لمقصود اٰخر۔ کیونکہ نام ختم ہوگیا ہے جو اس باب میں معتبر ہے اس کی تصریح امامِ ضابط اور باقی ائمہ نے کی ہے، ایسا کیوں نہ ہوگا حالانکہ دوسرے مقصد کیلئے شَے تبدیل ہوچکی ہے۔ (ت)


 (۳۱۹ و ۳۲۰) شلجم گاجر کے اچار کا تہ نشین پانی کہ گاڑھا ہوتا ہے وہ تو ظاہر اوپر کا رقیق پانی بھی اُسی وجہ سے ہرگزقابل طہارت نہیں اور ضابطہ(۱) پر وارد۔

(۳۲۱) گلاسوں میں زیادہ مقدار تک پانی بھر کر اوپر سے تیل ڈال کر روشن کرتے ہیں اقول ظاہر ہے کہ یہاں اسباب ثلٰثہ سے کوئی سبب مانع نہ پایا گیا، جب تیل جل جائے یا نکل جائے آبِ خالص کے سوا کچھ نہ رہے گا تو اُس سے طہارت جائز ہے۔



یہ قید درحقیقت غالب کیلئے قید نہیں ہے تو معنیٰ یہ ہوگا کہ ہم اس پانی سے وضو کی اجازت دیتے ہیں جو اس شیئ پر غالب ہو جس نے پانی کے بعض اوصاف کو تبدیل کیا ہو، نہ اس پانی سے جس نے اس شیئ پر غلبہ حاصل کیا ہو جس نے پانی کے جملہ اوصاف میں تبدیل کردئے ہوں نہ ہی مغلوب کیلئے یہ قید ہے تو معنیٰ یہ ہوا کہ ہم اس پانی سے وضو کو جائز رکھتے ہیں جس میں کوئی مغلوب شے مل کر اس کے بعض اوصاف کو تبدیل کردے نہ اس پانی کے ساتھ جس میں مغلوب ملے اور اس کے جملہ اوصاف کو بدل دے کیونکہ ان دونوں کا فساد ظاہر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب دونوں صورتوں میں پانی غالب اور مخالط مغلوب ہے، تو بغیر کسی قید کے اس سے وضو جائز ہوگا تو یہ دراصل مغلوب کی وضاحت ہوگی اور غلبہ کا اطلاق ہوتا ہی تب ہے جب مرجوع کا عمل بھی کسی حد تک باقی ہو کیونکہ بالکل عمل نہ ہونے کی صورت میں وہ نہ ہونے کے برابر ہوگا جو مضمحل کہلائے گا مغلوب نہیں کہلائے گا اور پتلے پن میں عمل پانی کے غلبہ کی نفی کردیتاہے تو پانی کے صرف اوصاف ہی رہ جائیں گے مگر یہ کہ جامد چاہے پانی کے تمام اوصاف میں بھی عمل کرے مغلوب ہی رہتا ہے جب تک پانی پتلا رہے گا، تو اگر یہی جامد خصوصی طور پر اس کی مراد تھا، تو اتنا کہنا ہی کافی تھا کہ اوصاف کو بدل دے۔ بعض کی قید لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ تو معلوم ہوا کہ صاحبِ مجمع دونوں کی اکٹھی تصویر بتانا چاہتے ہیں اور اس پانی میں عمل جس میں مغلوب جامد اور مائع دونوں کے ساتھ آئے۔ ایک وصف میں عمل کے سوا کچھ نہیں کہ جامد تمام اوصاف میں بھی عمل کرکے مغلوب رہتا ہے جبکہ مائع دو اوصاف میں عمل کرکے غالب ہوجاتا ہے تو یہ ضروری ہوا کہ واحد سے مراد بعض ہوتا کہ مغلوبیت عامۃ للصنفین کی تصویر درست ہو، اور یہ مغلوبیت عامہ جامد میں مطلقاً ہوتی ہے جبکہ مائع میں جملہ اوصاف میں مخالف ہونے پر ہوتی ہے تو اس پر غیر موافق مائع کا اعتراض وارد نہیں ہوگا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، کیونکہ اُن کی متعین کردہ راہ کے مخالف ہے۔ اور خود تم نے اور دیگر لوگوں نے بھی اس کو ہر جگہ قبول کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تصویر ہے جہاں وجودِ صورت ضروری ہے تاکہ جہاں جس کی تصویر بیان کی گئی ہے وہ صادق آسکے وہ تمام افراد کے احاطہ کو نہیں چاہتی، بحرالرائق کے کلام کی میرے نزدیک یہی توجیہ ہے۔ (ت)

 (۳۲۲) کبھی خوب صورتی کیلئے وہ پانی رنگین کرکے بھرتے ہیں اگر تغیرِ لَون اتنا ہوا کہ رنگ ہوگیا تو اس سے وضوناجائز ہونا ظاہر اقول وھو عندی محمل مایاتی عن العلامۃ السید ط  (میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک یہ علّامہ سید طحطاوی کے آئندہ بیان کا محمل ہے۔ ت) اور اب(۲) ضابطہ پر وارد جبکہ یہ رنگ جامدات سے ہوا ہو، ہاں اگر یہ حالت نہیں تو قضیہ اصولِ معتمدہ یوسفیہ جواز ہے واللہ تعالٰی اعلم۔


 (۳۲۳) قدس شریف ملک شام میں بعض لکڑیوں کے ریشے زمین سے نکال کر پانی میں بھگوتے ہیں جس سے پانی سرخ ہوجاتا ہے اور دباغت یعنی چمڑا پکانے کے کام آتا ہے اُس سے وضو جائز نہ ہونا چاہے اگرچہ رقیق رہے لصیرورتہ شیئا اٰخر لمقصد اٰخر  (کیونکہ اب یہ دوسری چیز کسی اور مقصد کیلئے ہوچکی ہے۔ ت) اقول مگر اس(۳) صورت میں ضابطہ پر وارد درمختار میں تھا کذا ماء الدابوغۃ  (دباغت کا پانی بھی ایسے ہے۔ ت) علّامہ سید طحطاوی نے فرمایا:


ای مثل ماء الکرم فی ان الاظھر عدم جواز رفع الحدث بہ واخبر بعض من یسکن بلد الخلیل علیہ الصلاۃ والسلام انھم یخرجون عروق حطب من الارض یضعونھا فی الماء فیحمّر فیدبغون بہ الجلد ویسمونہ ھذا الاسم ونحوہ ماء الدبغۃ الاحمر الذی یضعونہ فی القنادیل بمصر للزینۃ ۱؎۔


یعنی انگور کے درخت کے پانی کی طرح اظہر، اس سے طہارت کے بارے میں عدم جواز ہے۔ خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے شہر میں رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ ہم زمین سے ایک لکڑی کی جڑیں نکال کر پانی میں ڈالتے ہیں جس سے وہ پانی سرخ ہوجاتا ہے پھر اس سے چمڑے کو رنگتے ہیں اس کا نام ماء الدابوغہ ہے، اور اسی طرح مصر میں خوبصورتی کیلئے قندیلوں میں سُرخ پانی رکھتے ہیں جس کو ماء الدبغہ کہتے ہیں۔ (ت)


 (۱؎ طحطاوی علی الدر المختار        باب المیاہ        بیروت        ۱/۱۰۳)


 (۳۲۴) تتہڑے میں دو چار پان خصوصاً بنے ہوئے اگر پڑ جاتے ہیں سارا پانی رنگین کردیتے ہیں  اقول: اُس سے وضو میں حرج نہیں کہ طبخ میں وہ امتزاج مانع جو اُسے گاڑھا ہونے کے قابل کردے۔ ہاں ضابطہ(۱) برجندیہ پر یہ ضرور وارد کہ تغیر تو ہوگیا۔


(۳۲۵) پان کھایا اور مُنہ میں اس کا معتدبہ اثر باقی ہے کُلّیاں کرکے منہ صاف کیا مشاہدہ ہے کہ ان کلّیوں کا پانی اتنا رنگین ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد اسی لگن میں پُورا وضو کیا جائے تو سارا پانی رنگ جاتا ہے اگر یہ وضو طاہر نے نہ بہ نیت قربت بلکہ مثلاً محض تبرید کیلئے کیا پانی قابلِ وضو رہے گا کہ اسباب ثلٰثہ منع سے کوئی سبب نہیں۔

اقول: اور ضابطہ(۲) پر وارد جبکہ پان خوشبودار نہ ہو کہ ان کُلّیوں کا پان وہ مائع ہے کہ آب مطلق سے رنگ ومزہ دو وصفوں میں مخالف ہے اور ایک بدل دیا۔

(۳۲۶) جس گھڑے میں گنّے کا رس تھا رس نکال کر پانی بھرا جائے بلاشُبہ اس کا مزہ وبُو بدل جاتے ہیں اور اُس سے جوازِ وضو میں شک نہیں کہ وہ یقینا پانی ہی ہے۔

اقول: مگر ضابطہ(۳) پر وارد کہ رس کے جو اجزاء گھڑے کی سطح اندرونی میں لگے رہ گئے تھے ضرور اجزائے مائع ہیں اور اُن سے دو وصف بدل گئے۔

(۳۲۷) اسی گھڑے میں اگر پانی گرم کیا تو تغیر اور زیادہ ہوجائےگا اور ضابطہ(۴) برجندیہ پر ناقض آئےگا۔

(۳۲۸) زخم دھونے کیلئے پانی میں نیم کے پتّے ڈال کر جوش دیتے ہیں ان سے اس کا رنگ، مزہ، بُو سب بدل جاتا ہے مگر رقّت میں فرق نہیں آتا۔

اقول: مقتضائے اصول معتمدہ یوسفیہ اُس سے وضو کا جواز ہے یہاں تک کہ اگر زخم اعضائے وضو پر تھا اُس پانی سے دھونے کے بعد اُسے دوسرے پانی سے دھونے یا مسح کی حاجت نہیں کہ یہاں غلبہ اجزا وغلبہ طبع نہ ہونا تو بدیہی اور زوال اسم بھی نہیں کہ وہ پانی ہی ہے اور پانی ہی کہا جائےگا کوئی دوسری چیز دوسرے مقصد کیلئے نہ ہوگیا مقصود زخم دھونا ہے اور یہ کام خود پانی کا ہے نیم کے پتے اس کے رفع غائلہ ودفع ضررکیلئے شامل کئے گئے تھے کہ سادے پانی کو زخم چرالے تو نقصان پہنچے ولہذا پتوں کے پکنے نہ پکنے پر یہاں نظر نہیں ہوتی کہ مقصود پانی ہے نہ پتّے مگر ضابطہ برجندیہ پر صراحت(۵) وارد کہ پانی طبخ میں متغیر ہوگیا۔

(۳۲۹ و ۳۳۰) اقول: بعینہ اسی دلیل سے نطول وپاشویہ کا پانی بھی بحکم اصول معتمدہ قابل طہارت ہے یہاں تک کہ پاشویہ کے بعد پاؤں یا نطول کے بعد غسل میں سر یا اُس موضع کا جہاں وہ پانی دھار نے میں پہنچا دوسرے پانی سے دھونا ضرور نہ رہا واللہ تعالٰی اعلم یہ صورتیں بھی وہی ہیں کہ مقصود صرف پانی ہے دھار نے امالہ میں تنہا گرم پانی بھی کام دیتا ہے دوائیں زیادت قوت کیلئے ہیں۔

اقول: یہ دونوں(۶) بھی ضابطہ برجندیہ پر ظاہر الورود۔


 (۳۳۱) حُقّے کا پانی اگرچہ دھوئیں کے سبب اُس کا رنگ، مزہ، بُو سب بدل جائیں قابل طہارت ہےاُس کے ہوتے تمیم کی اجازت نہیں ہوسکتی کمابیناہ فی فتاوٰنا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں بیان کیا ہے۔ت) اگر کہئے اس میں اور سوڈا واٹر میں کہ صرف گیس کی ہوا سے بنایا گیا کیا فرق ہے وہاں ہوا اور یہاں دُھوئیں نے اوصاف بدل دیے اور پانی میں باقی دونوں نہ رہے۔ وقد مر فی ۸۱ (ہدایہ وغیرہ اور ہدایہ ۸۱ میں گزرا ہے۔ت) اور دوم سے ناروا جبکہ رنگنے کے قابل ہوجائے اگرچہ رقّت باقی رہے کماتقدم تحقیقہ فی ۱۲۲ (جیسا کہ اس کی تحقیق ۱۲۲ میں گزر گئی ہے۔ت)


اقول: وباللہ التوفیق اسے روشن تر کرے گا یہ کہ شوربا دار گوشت پکایا اگر قسم کھائی کہ گوشت نہ کھائےگا اس گوشت کے کھانے سے حانث ہوگا کہ اس امتزاجِ آب سے گوشت اپنی ذات میں نہ بدلا کہ اس کا مقصود بحالہ باقی لیکن اگر قسم کھائی پانی نہ پئے گا تو شوربا پینے سے حانث نہ ہوگا کہ اس امتزاج گوشت سے پانی بدل گیا کہ مقصود جدید کیلئے ہوگیا۔ یونہی دُودھ میں شکر شہد بقدر شیرینی ملائی وہ دودھ ہی رہے گا سب اُسے دودھ ہی کہیں گے لیکن پانی میں اس قدر ملائی اب اُسے پانی کوئی نہ کہے گا شربت کہیں گے الی غیر ذلک مما یعلمہ المتفطن بالمقایسۃ  (اس کے علاوہ دوسری چیزیں جن کو ایک ذہین آدمی قیاس کے ذریعے سمجھ سکتا ہے۔ت)


 (۳۳۲) زمین حبش میں ایک درخت ہے کہ جب ہوائیں چلتی ہیں اُس سے دُھواں سا نکلتا ہے اور مینہ کی طرح برس جاتا ہے بعینہ مثل پانی کے ہوتا ہے امام ابن حجر مکی نے فرمایا کہ اُس سے وضو جائز نہیں کہ وہ پانی نہیں بلکہ درختوں کی اور رطوبتوں کے مثل ہے کماتقدم


اقول: وقواعدنا لا تأباہ حتی عند من یجوز بقاطر الکرم فانہ عندہ ماء تشربہ حتی اذا ارتوی رد الفضل بخلاف ھذا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں کہ ہمارے قواعد اس حقیقت کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ جن لوگوں نے انگور کے پودے سے ٹپکنے والے پانی سے وضو کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ پودا خود پانی پیتا ہے اور جب وہ سیر ہوجاتا ہے تو وہ زائد پانی کو واپس پھینکتا ہے بخلاف اس کے۔ (ت)


(۳۳۳) نیز صحرائے حبش میں جہاں  پانی نہیں ملتا اہلِ قافلہ زمین میں گڑھا کھودتے اور بعض درختوں کی شاخوں سے اُسے چھپا دیتے ہیں کچھ دیر بعد اُس غار کے اندر سے بخارات اُٹھ کر اُن شاخوں سے لپٹتے اور پانی ہو کر ٹپک جاتے ہیں جس سے گڑھے میں اتنا پانی جمع ہوجاتا ہے کہ قافلے کو کفایت کرتا ہے  فسبحٰن الرحمٰن الرحیم الرزاق ذی القوۃ المتین  (مہربان رحم کرنے والا، رزق دینے والا، مضبوط قوۃ والا پاک ہے۔ت) امام موصوف فرماتے ہیں اس سے بھی وضو جائز نہیں کہ درخت کا عرق ہے نہ پانی۔


قال بعد مامر و بلغنی ان القوافل بارض الحبشۃ اذا عدموا الماء حفر واحفرۃ ثم ستروھا بشیئ من الشجر وترکوھا مدۃ ثم یصعد بخار من الحفرۃ یعلق بالشجرۃ ثم یرشح مائعا علی ھیاۃ الماء ویجتمع منہ فی الحفرۃ مایکفیھم وھو غیر طھور کماھو ظاھر اذ ھو ماء شجر  ایضا ۱؎ اھ۔


اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ صحرائے حبش میں جہاں پانی نہیں ملتا قافلہ والے زمین میں ایک گڑھا کھودتے ہیں اور بعض درختوں کی شاخوں سے گڑھے کو ڈھانپ دیتے ہیں اور کچھ مدّت کے بعد گڑھے سے اُٹھنے والے بخارات اٹھ کر ان شاخوں کو مرطوب کردیتے ہیں جن سے پانی ٹپکنے لگتا ہے اور وہ گڑھا پانی سے بھرجاتا ہے جس سے قافلے والے اپنی ضرورت کو  پُورا کرتے ہیں یہ پانی بھی پاک کرنے والا نہیں کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ یہ بھی درخت کا پانی ہے اھ (ت)


اقول: ظاہراً یہ محل نظر ہے وہ بخارات درخت کے نہیں زمین ہی سے اُٹھے اگر اُن شاخوں کا اثر اُن کو سردی پہنچاکر ٹپکا دینے میں ہے تو بظاہر وہ پانی ہی ہوئے شاخوں نے صرف وہ کام دیا جو آبِ باراں میں کرہ زمہریر کی ہوا دیتی ہے یا آب چاہ میں زمین کی سردی، ہاں اگر ان کے لپٹنے سے ان شاخوں سے کوئی رطوبت نکل کر ٹپکتی ہے تو بیشک اُس سے وضو جائز نہیں کہ وہ درخت کی تری ہے اور جب تک امر مشکوک رہے حکم عدم جواز ہی ہونا چاہئے کہ مامور بہ پانی سے طہارت ہے اور شک سے ماموربہ ادا نہیں ہوتا واللہ تعالٰی اعلم۔


 (۳۳۴) ماء القطر پانی کی مٹی کے برتن سے رسے محمود ومصفّٰی پانیوں میں ہے۔

(۳۳۵) یوں ہی پانی کہ ہڈّیوں، گولوں، ریتے پر گزار کر ٹپکایا صاف کیا جاتا ہے۔

(۳۳۶) نشاستہ کا پانی جس کا بیان اواخر رسالہ الرقۃ والتبیان میں گزرا جب اجزائے گندم تہ نشین ہوکر نتھرا پانی رہ جائے یا خلط رہے تو اتنا کہ پانی کو دلدار نہ کرے وہ آبِ مطلق ہے اُس سے وضو جائز ہے جبکہ بے وضو ہاتھ نہ لگاہو۔

(۳۳۷) آش جو کا پانی کہ بار بار بدلا جاتا ہے اگر ٹھنڈا ہوکر دلدار ہونے کے قابل نہ ہو آب مطلق ہے ورنہ نہیں۔


 (۱؎ فتاوٰی کبرٰی        کتاب الطہارۃ    دار الکتب العلمیہ بیروت    ۱/۱۲)

 (۳۳۸) ماء العسل کہ شہد میں دو چند پانی ملاکر جوش دیں یہاں تک کہ دو ثلث جل جائے پانی نہ رہا۔

(۳۳۹) یوں ہی ماء الشعیر کہ جَو جوش دیں یہاں تک کہ کھل کر مہرا ہوجائیں صاف کرکے مستعمل ہوتا ہے بوجہ کمال امتزاج پانی نہ رہا۔


 (۳۴۰ و ۳۴۱) یوں ہی ماء الاصول وماء البزور جڑوں اور تخموں کے جوشاندے۔


 (۳۴۲) یوں ہی ماء الرماد کہ پانی میں بار بار راکھ ڈال کر ہر بار جوش دیتے ہیں پھر صاف کرتے ہیں مثل جوشاندہ دوا ہے۔

(۳۴۳) ماء النون کہ ماہی نمکسود سے پانی سا ٹپکتا ہے۔

(۳۴۴) ماء الجُمّہ بضم جیم وتشدید میم مفتوح کہ فارسی میں آبکُمہ بسکون باوضم کاف وفتح میم مخفف کہتے ہیں دریائے چین وہرموز میں ایک قسم کی مچھلی کے پیٹ سے خاکستری رنگ پانی نکلتا ہے یہ دونوں سرے سے پانی نہیں۔


 (۳۴۵ تا ۳۵۰) سونے، چاندی، تانبے، رانگ، لوہے، سیسے کے پانی کہ ماء الذہب، ماء الفضہ، ماء النحاس، ماء الرصاص، ماء الحدید، ماء الاسرب اور سب کو ماء المعدن کہتے ہیں، اس کے تین معنی ہیں:


ایک یہ کہ انہیں آگ میں سُرخ کرکے پانی میں بجھائیں جسے زرتاب، آہن تاب وغیرہ کہتے ہیں۔یہ ۱۳۶ میں گزرا۔

دوم: ان کا گداختہ جسے محلول زر وغیرہ کہتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ جنس آب ہی سے نہیں اس کا اشارہ فصل ثانی صدر بیان اضافات میں اور جزئیہ حاشیہ ۱۹۰ میں ازہری و وافی سے گزرا۔

سوم: وہ پانی کہ ان کی معاون میں ملتا ہے۔


اقول: ان کا تکوُّن پارے اور گندھک سے ہوتا ہے اور ان کا دخان وبخار سے اور اس کا اجزائے مائیہ وہوائیہ سے اگر یہ وہ پانی ہے جس کے بعض سے بخار بناکہ دھوئیں سے مل کر زیبق ہوا اور وہ کبریت سے مل کر معدن یا اُس بخار کا حصّہ ہے کہ سردی پاکر پانی ہوگیا تو آبِ مطلق ہے اور اگر یہ وہ مادہ زیبق ہے جس کی مائیت میں کبریتی دخان ملا اور پارا بننے کیلئے مہیا کیا اور ہنوز قلّتِ یبوست نے شکلِ آب پر رکھا تو آبِ مقید ہے یا پانی ہی نہ رہا واللہ تعالٰی اعلم۔


فوائد منثورۃ

متفرق فائدے


 (۱) لما اصلح المدقق العلائی فی الدر مغترفامن البحر ضابطۃ الامام الفخر لابل حکمھا کمااعلمناک فی ۲۸۷ بزیادۃ ید مالم یزل الاسم کنبیذ تمر اعترضہ العلامۃ ش بانہ یرد علیہ ماقدمناہ عن الفتح تأمل ۱؎ ای ماذکرہ المحقق فی الفتح علی ذکر زوال الرقۃ فی الاقسام ان الکلام فی الماء وھذا قدزال عنہ اسم الماء۔


 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۳)


 (۱) امام علائی نے در میں بحر سے اخذ کرکے امام فخرکے ضابطہ کی جب اصلاح کی بلکہ اس کو نافذ کیا جیسا کہ ہم نے ۲۸۷ میں بیان کیا ہے کہ اس میں پانی کا نام باقی نہ رہنے کی قید زیادہ کرنی ہوگی جیسے نبیذتمر۔ تو علامہ شامی نے امام علائی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس پر فتح القدیر سے ہمارا پہلے نقل ہوا کلام وارد ہوگا، غور چاہئے اھ یعنی اس سے محقق صاحبِ فتح القدیر کا وہ کلام مراد ہے جو انہوں نے پانی کے اقسام میں رقّت کے زائل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے کہ رقّت کے ختم ہوجانے پر اس کو پانی نہیں کہا جاتا جبکہ یہ بحث پانی کے بارے میں ہے۔(ت)


اقول: مع(۱) قطع النظر عما قدمنا علی الفتح بینھما(۲) لون بعید فزائل الرقۃ لم یبق ماء عرفا ولا لغۃ بخلاف ھذا کماذکرنا فی الفصل الثانی قبیل الاضافات ولوسلم (۳) ھذا سقطت الاقسام کلھا علی التحقیق فان الاسباب ثلثۃ کثرۃ اجزاء المخالط و زوال الطبع والاسم وقد انکر المحقق الثانی وانتم الثالث والاول احق بالانکار منہ فما فیہ ماء ومثلہ اواکثر منہ لبن لیس ماء قطعا وانکان فیہ ماء۔


میں کہتا ہوں کہ فتح پر ہماری بیان کردہ بحث سے قطع نظر، دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے کہ فتح میں جس کو بیان کیا ہے وہ خالی از رقّت چیز ہے جس کو لغت اور عرف میں پانی نہیں کہا جاتا اور یہ جس کو علامہ علائی نے بیان فرمایا ہے اور اگر یہ (رقّت ختم ہوگی تو پانی کا نام زائل ہوگا ورنہ نہیں) تسلیم کرلیا جائے تو پھر (پانی سے طہارت کے حصول منافی) تمام اقسام ساقط قرار پائیں گے،کیونکہ(منافی) اسباب تین ہیں،پانی میں ملنے والی چیز کے اجزاء کا غلبہ،پانی کی طبیعت(رقّت)کا زوال اور نام کی تبدیلی۔ان میں سے محقق نے دوسرے اور تم نے تیسرے کا انکار کردیا اور پہلے کا انکار بطریق اولیٰ ہوجائے گا، پس جب پانی اور دودھ برابر ہوں یا دودھ زیادہ ہو تو اس کو پانی نہیں کہا جاتا حالانکہ اس میں پانی ہے (یعنی نام تبدیل ہوگیا حالانکہ اس کی رقّت باقی ہے)۔(ت)


 (۲) وقع فی شرح النقایۃ العلامۃ البرجندی بعد مانقل عن الھدایۃ ماقدمنا فی سادس ضوابط الفصل الثالث مانصہ وفیھا  ایضا ان الثمار الیابسۃ اذا وقعت فی الماء فان کان الغالب طعم ذلک الشیئ لایجوز التوضی منہ ۱؎ اھ۔


 (۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    ابحاث الماء    نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۲)


 (۲) علامہ برجندی نے نقایہ کی اپنی شرح میں ہدایہ کے اس مضمون کو جسے ہم نے تیسری فصل کے چھٹے ضابطہ میں بیان کیا ہے، نقل کرنے کے بعد کہا، جو یہ ہے۔ اور ہدایہ میں بھی ہے کہ اگر پانی میں خشک پھل پڑ جائے اور پانی پر اس پھل کا ذائقہ غالب ہوجائے تو اس پانی سے  وضو جائز نہیں ہے اھ (ت)

اقول: ولیس  ایضا فی الھدایۃ ثم ھو خلاف امامی (۱) المذھب لما اعلمناک ھناک ان اعتبار الاجزاء دون الاوصاف مجمع علیہ فی الجامد وانما الخلف فی المائع ثم قید الیابسۃ(۲) لایظھر لہ فائدۃ الا ان یقال ان الیابس ابطأ تحللا من الرطب فیدل علی طول مکثہ فی الماء فیکثر عملہ وفیہ ان العمل بالتحلل فالرطب اسرع عملا ولانظر الی مدۃ المکث واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں کہ ہدایہ میں بھی نہیں اور اس کے علاوہ وہ مذہب کے ائمہ کے بھی خلاف ہے جیسا کہ ہم نے آپ کو وہاں بتایا ہے کہ (جامد چیز کے ملنے سے) بالاتفاق غلبہ میں اجزاء کا اعتبار ہے۔ اختلاف تو صرف بہنے والی چیز کے ملنے میں ہے، پھر خشک کی قید بھی بے فائدہ ہے، ہاں اگر یوں کہا جائے کہ خشک دیر سے گھُلتا ہے اس لئے زیادہ دیر پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کی تاثیر زیادہ ہوتی ہے لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ (ذائقہ کے معاملہ میں) پھل کے گھُلنے کا دخل ہے جبکہ پانی میں تازہ سبز پھل جلدی گھُل جاتا ہے اس معاملہ میں پانی پڑے رہنے کا کوئی دخل نہیں ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)


 (۳) اثبتنا(۳) وللّٰہ الحمد عرش التحقیق علی ان العبرۃ فی الطبخ بزوال الطبع ولوماٰلا او الاسم بالمعنی الثالث لابتغیر وصف او اوصاف وان محمدا  ایضا لایعتبرھا فی الجامد واذا اعتبرھا فی المائع لایرسل ارسالا بل یرتب فیقدم اللون ثم الطعم ولایعتبر الریح اصلا کما بیناہ بکلام الامام ملک العلماء۔


 (۳) اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ ہم نے پوری تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ پانی میں پکانے کی صورت میں(ملنے والی چیز کے غلبہ کیلئے) پانی کے ایک وصف یا تمام اوصاف کی تبدیلی کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اس صورت میں پانی کی طبیعت یا نام کے زوال کا اعتبار ہے اگرچہ بعد میں ہو نیز امام محمد رحمہ اللہ بھی جامد چیز میں اس کا اعتبار نہیں کرتے وہ صرف بہنے والی چیز میں اس (وصف کی تبدیلی) کا اعتبار کرتے ہیں وہ بھی ہر طرح نہیں بلکہ اوصاف کی ترتیب کے لحاظ سے، پہلے رنگ پھر ذائقہ (کی تبدیلی) کا اعتبار کرتے ہیں جبکہ بُو کی تبدیلی کا وہ بالکل اعتبار نہیں کرتے جیسا کہ امام ملک العلماء کے کلام سے ہم نے واضح کیا ہے۔ (ت)


فایاک ان تتوھم مما قدمنا من کلامہ ثمہ اذ قال مجیبا للامام الکرخی عن الامام ابی طاھر الدباس فی النبیذ المطبوخ ان المائع الطاھر اذا اختلط بالماء لایمنع التوضو اذا لم یغلب علی الماء اصلا اما اذا غلب بوجہ من الوجوہ فلا وھھنا غلب من حیث الطعم واللون وان لم یغلب من حیث الاجزاء ۱؎ اھ۔ ان العبرۃ ھھنا للوصف وان الریح  ایضا معتبرۃ وان لاترتیب فی اعتبارھا لقولہ اذاغلب بوجہ من الوجوہ فیصدق بغلبۃ الریح دون الباقیین وبغلبۃ الطعم دون اللون فی ذی اللون بل المراد الغلبۃ بحیث یزول الاسم،


ہم نے ملک العلماء کا کلام پہلے ذکر کیا ہے جہاں انہوں نے امام ابوطاہر کی طرف سے امام کرخی کو جواب دیتے ہوئے پکے ہوئے نبیذ کے بارے میں فرمایا کہ پانی میں بہنے والی کسی پاک چیز کے ملنے سے وضو جائز ہے بشرطیکہ وہ چیز پانی پر غالب نہ ہو اور اگر کسی وجہ سے وہ چیز غالب ہوجائے تو پھر وضو جائز نہ ہوگا اور یہاں (پکے ہوئے نبیذ) میں ذائقہ اور رنگ کے لحاظ سے غلبہ ہوا ہے اگرچہ اجزاء کے لحاظ سے غلبہ نہیں ہے اھ۔ اس کلام سے آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو (کہ یہ ہماری مذکورہ بالاتحقیق کے خلاف ہے) کیونکہ نبیذ مذکور میں(جامد چیز ملنے اور پکے ہونے کے باوجود) وصف کا اور بدبُو بدلنے کا اور اوصاف میں ترتیب نہ ہونے کا اعتبار ہے کیونکہ انہوں نے کسی طرح سے غلبہ کہا ہے جو صرف بُو تبدیل ہونے اور رنگ والی چیز میں صرف ذائقہ بدلنے، والی صورت کو بھی شامل ہے۔یہ اس لئے(کہ ملک العلماء کے مذکور کلام میں غلبہ اجزاء یا زوالِ طبیعت کی بجائے کسی دوسرے مقصد کیلئے) نام کی تبدیلی والا غلبہ مراد ہے۔


 (۱؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)


الا تری الی قولہ فی صدر المبحث اذاخالطہ علی وجہ زال عنہ اسم الماء ۲؎ وقال فیما یقصدبہ التنظیف یجوز  وان تغیر لون الماء اوطعمہ او ریحہ لان الاسماءباق ۳؎  وقال الا اذاصار کالسویق لانہ حینئذ یزول اسم الماء ۴؎  وقال لوتغیر بالطین اوالاوراق اوالثماریجوز لانہ لم یزل اسم الماء ۵؎


اس بحث کی ابتداء میں ان کے حسب ذیل اقوال کو غور سے دیکھیں ''جب کوئی چیز اس طرح ملے کہ پانی کہنا درست نہ ہو'' اور کہا زیادہ صفائی کی غرض سے اگر کوئی چیز ملائی تو اس سے وضو جائز ہے اگرچہ پانی کا رنگ، بُو اور ذائقہ تبدیل ہوجائے، کیونکہ ابھی اس کا نام باقی ہے۔ اور کہا مگر جب وہ ستّو کی طرح گاڑھا ہوجائے (توجائز نہیں) کیونکہ اب پانی نہیں کہا جائےگا'' اور کہا ''اگر پانی میں مٹی یا پتّے یا پھل گرنے سے تبدیلی آئے تو  وضو جائز ہے کیونکہ ابھی اس کا نام پانی ہے''


 (۲؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)

(۳؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)

(۴؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)

(۵؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


وقال قیاس ماذکرنا ان لایجوز بنبیذ التمر لتغیر اسم الماء وصیرورتہ مغلوبا بطعم التمر ۱؎ ثم ذکر مسئلۃ المطبوخ وان الکرخی جوزہ لان اجزاء الماء غالبۃ واجاب عن ابی طاھر بما مرفانما اراد رحمہ اللہ تعالی اذاغلب علی الماء بوجہ من الوجوہ بحیث ازال اسمہ۔


اور کہا ''ہمارے مذکورہ قاعدے پر نبیذ تمر سے  وضو جائز نہیں کیونکہ اس کا نام تبدیل ہوگیا ہے اور وہ کھجور کے ذائقہ سے مغلوب ہوگیا ہے''۔ ان اقوال کے بعد انہوں نے پکے ہوئے پانی میں ملاوٹ کا مسئلہ ذکر کیا ہے اور کہا کہ امام کرخی نے اس سے وضو کو جائز کہا ہے کیونکہ ان کے خیال میں ابھی پانی کے اجزاء غالب ہیں اس کا جواب امام ابوطاہر کی جانب سے ملک العلماء نے دیتے ہوئے مذکور کلام کیا ہے جس میں انہوں نے کسی وجہ سے پانی پر غلبہ کا ذکر کرکے نام بدلنے والا غلبہ مراد لیا ہے۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)

وقد اعلمناک انہ لایکون ذلک بالریح المجردۃ وانہ لایکون فی الجامد الا اذاصار شیئا اٰخر لمقصد اٰخر ولایکون ھذا ھھنا الا اذا غلب الطعم بحیث یجعلہ نبیذا کما قال نبیذ التمر الذی فیہ الخلاف ھو ان یلقی شیئ من التمر فی الماء فتخرج حلاوتہ الی الماء وقال فیحمل علی ماحلا وخرج عن الاطلاق کماقدمناہ فی ۱۱۶ فعلی الطعم المدار ھھنا۔


اور ہم آپ کو پہلے بتا چکے ہیں کہ پانی کا نام نہ تو صرف بُو کی تبدیلی سے زائل ہوتا ہے اور نہ ہی جامد چیز کے ملنے سے پانی سے اس کا نام زائل ہوتا ہے، جب تک وہ کسی دوسرے مقصد کیلئے دوسری چیز نہ بن جائے اور یہاں نبیذ کے متعلق نام کی تبدیلی ذائقہ کی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوتی جس کے سبب نبیذ بنتا ہے، جیسے کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ نبیذ جس میں اختلاف ہے وہ پانی میں کھجوریں ڈالنے پر مٹھاس جب پانی میں منتقل ہوجائے اور کہا کہ نبیذ میٹھا ہوگا اور یہ پانی کے اطلاق سے خارج ہوگا جیسا کہ ہم بحث ۱۱۶ میں پہلے بیان کرچکے ہیں، اسی لئے نبیذ بننے کا دارومدار ذائقہ پر ہے۔(ت)


ولیس مما فیہ الترتیب لان اعتبارہ لیس من حیث انہ وصف تغیر بل لانہ تغیر فغیر الماء وصیرہ نبیذا الاتری الی ادارتہ الامر علی خروج حلاوتہ الی الماء والی قولہ لتغیر اسم الماء وصیرورتہ مغلوبا بطعم التمر فلم یذکر اللون ولوکان یکفی الغلبۃ بوجہ من الوجوہ علی معنی توھم لکان الوجہ ذکر اللون لانہ اسبق تغیرا فیہ من الطعم فکان ھو العلۃ للغلبۃ دون الطعم الحادث بعدما صار مغلوبا فانما ترکہ لان المراد الغلبۃ المخرجۃ عن اسم الماء الجاعلۃ لہ نبیذا وانما یکون ذلک بالطعم من دون حاجۃ الی تغیر اللون حتی لوفرض ان من التمر اوشیئ من الثمر مایغیر طعم الماء فیجعلہ نبیذا ولا یغیر لونہ لکان الحکم المنع وذکرہ فی الجواب عن الدباس بیان للواقع فان الطعم لایتغیر بہ الا وقد تغیر قبلہ اللون فافھم وتثبت ھکذا ینبغی ان تفھم نفائس کلام العلماء واللّٰہ تعالٰی الموفق۔


اور اس تبدیلی میں اوصاف کی ترتیب کا دخل نہیں ہے کیونکہ نبیذ میں کسی وصف کی تبدیلی کی بجائے یہ خود ایسی تبدیلی ہے جس نے پانی کو تبدیل کرکے نبیذ کی حقیقت میں بدل دیا ہے۔ کیا آپ نے نبیذ کیلئے کھجور کی مٹھاس کے منتقل ہونے کو بنیاد قرار دینے اور یہ کہنے پر کہ پانی کا نام تبدیل ہونے اور کھجور کے ذائقے سے مغلوب ہونے اور رنگ کی تبدیلی کا ذکر نہ کرنے پر غور نہیں کیا، اگر صرف کسی وجہ سے غلبہ کافی ہوتاجیسا کہ غلط فہمی ہورہی ہے تو پھر وجہ میں رنگ کو ذکر کیا جاتا کیونکہ کھجوروں کے ذائقے سے قبل پانی کا رنگ تبدیل ہوتا ہے، تو چاہئے تھا کہ رنگ کی تبدیلی کو غلبہ کی وجہ بتایا جاتا اور ذائقہ جو بعد میں پیدا ہوا اس کو وجہ نہ بنایا جاتا اس کا ترک اس لئے کیا ہے کہ غلبہ سے مراد وہ ہے جو پانی کے نام کو ختم کرکے اس کو نبیذ بنادے یہ سب اس لئے کہ پانی کا نام بدلنے اور نبیذ بنانے میں صرف ذائقہ کی ضرورت ہے لہٰذا فرض کریں کہ اگر کھجور یا کوئی پھل ایسا ہو جس سے صرف ذائقہ تبدیل ہو اور پانی کو نبیذ بنادے تو اس کا حکم منع ہے (باقی رہا یہ سوال) کہ ملک العلماء نے ابو طاہر الدباس کی طرف سے جواب میں ذائقہ کے ساتھ رنگ کی تبدیلی کا ذکر کیوں کیا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بطور حقیقت واقعہ بیان کیا ہے کہ ذائقہ کی تبدیلی سے قبل رنگ کی تبدیلی ضرور ہوتی ہے، سمجھو اور اثبات کرو، علماء کے نفیس کلام کو یوں سمجھنا چاہئے، اور اللہ تعالٰی ہی توفیق دینے والا ہے۔(ت)


 (۴) اکمال الکلام فی توجیہ قول محمد بالترتیب اقول: وباللّٰہ التوفیق لارب سواہ ان اضعف وصف فی الماء ریحہ بل لاریح لہ حقیقۃ کما اشار الیہ ابن کمال الوزیر اذقال فی الایضاح اوصافہ الطعم واللون والرائحۃ والتغیر علی الحقیقۃ فی الاولین دون الاخیر فلابد من المصیر الی عموم المجاز اھ۔ ثم لونہ حتی قیل لا لون لہ کماسیاتی واقواھا طعمہ۔


 (۴) ''اوصاف کی ترتیب کے بارے میں امام محمدرحمہ اللہ تعالٰی کے قول کی توجیہ میں کلام کو مکمل کرنا'' میں کہتا ہوں اللہ کے بغیر کوئی رب نہیں ہے اور وہی توفیق دینے والا ہے، بلاشبہ پانی کا سب سے کمزور وصف اس کی بُو ہے بلکہ حقیقت میں اس کی بُو نہیں ہے، جیسا کہ ابن کمال وزیرنے اشارہ دیا ہے، کیونکہ انہوں نے  ایضاح میں کہا ہے کہ پانی کے اوصاف تین ہیں: ذائقہ، رنگ اور بُو ۔ تبدیلی پہلے دونوں وضعوں میں حقیقتاً ہوتی ہے اور تیسرے میں نہیں ہوتی، لہٰذا تبدیلی کا اطلاق مجاز کے عموم کے طور پر ہے اھ۔ اور دوسرے نمبر کا کمزور وصف پانی کا رنگ ہے حتی کہ بعض نے کہا کہ پانی کا رنگ نہیں ہے جیسا کہ آئندہ بحث آئے گی، اور پانی کا سب سے قوی وصف اس کا ذائقہ ہے۔(ت)


ثم ھو شیئ لطیف رطب سریع الانفعال فماخالفہ فی شیئ من اوصافہ اثر فیہ قبل ان یبلغ الماء قدرا فلایتوقف تغیر الوصف علی تساوی القدر قط والتغیر فی الاضعف اسبق فماخالفہ فی اللون والطعم یکون تغییرہ اللون قبل ان یتغیر الطعم کماھو مشاھد فی النبیذ وغیرہ فمن قبل ھذا جاء الترتیب ان مایخالفہ لونا لایعتبر فیہ الا اللون لانہ ان غلب سلب لونہ اولا فاذا لم یسلبہ لم یسلب الطعم بالاولی واذا لم یغیرھما فکیف یساوی الماء قدرا فان تغیر الاوصاف اسبق بکثیر من تساوی المقدار فبعدم التغیر فی اللون یعلم انتفاء الاسباب جمیعا اعنی الغلبۃ من حیث اللون ومن حیث الطعم ومن حیث الاجزاء ویعلم ان المخالط مغلوب فلذا نیط الامر فیہ علی تغیر اللون وحدہ فان تغیر الطعم بعدہ فذاک والا فلا حاجۃ لحصول الغلبۃ باللون نعم مالایخالفہ فی اللون لایغیرہ وان غلب علیہ قدرا فیعتبر فیہ تغیر الطعم لکونہ اسبق من تساوی القدر فان لم یتغیر علم انتفاء التساوی بالاولی وثبت ان المخالط مغلوب وان تغیر فقد غلب وان لم یساو قدرا اما مالایغیر لونا ولاطعما وانما یکون اذالم یخالف فی شیئ منھما اذلو خالف لسبق التغیر تساوی القدر فھذا الذی تعتبر فیہ الغلبۃ بالاجزاء۔


پھر پانی ایک لطیف چیز ہے جو تیزی سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا جو چیز پانی کے اوصاف کے خلاف ہوگی وہ مقدار میں پانی کے مساوی ہونے سے قبل ہی پانی پر اثر انداز ہوجاتی ہے اور پانی کے اوصاف کی تبدیلی کیلئے پانی کی مقدار کے برابر ہونا ضروری نہیں، نیز تبدیلی کا عمل سب سے پہلے پانی کے کمزور وصف میں ہوگا لہٰذا جو چیز رنگ اور ذائقہ میں پانی کے مخالف ہوگی وہ پہلے پانی کے رنگ کو اور اس کے بعد ذائقہ کو تبدیل کرے گی جیسا کہ نبیذ وغیرہ میں اس بات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔پانی کے اوصاف میں ترتیب کی بنیاد یہی چیز ہے، لہٰذا اگر پانی میں ملنے والی چیز صرف رنگ میں مخالف ہے تو پانی پر اس کا غلبہ صرف رنگ کے تبدیل ہونے سے ظاہر ہوجائےگا اور اگر وہ چیز غلبہ کی صورت میں پانی کا رنگ تبدیل نہ کرسکے تو ذائقہ کو ہرگز تبدیل نہ کرسکے گی، اور جب یہ چیز ابھی تک پانی کے اوصاف کو تبدیل نہیں کرسکی تو مقدار میں برابر ہونا دُور کی بات ہے کیونکہ مقدار میں مساوی ہونے سے قبل اوصاف میں تبدیلی ہوا کرتی ہے، لہٰذا جب پانی کا رنگ تک تبدیل نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک پانی میں تبدیلی کا کوئی سبب نہیں پایا گیا یعنی رنگ کی تبدیلی، ذائقہ کی تبدیلی اور پانی کے اجزاء کے اعتبار سے تبدیلی یعنی اس کے اجزاء کم ہوگئے اور ملنے والی چیز کے اجزاء غالب ہوگئے اور جب تبدیلی کا کوئی عمل ظاہر نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ چیز مغلوب ہے اور پانی غالب ہے، اس لئے تبدیلی کے ظہور کے لئے صرف رنگ کو معیار قرار دیا گیا ہے کیونکہ باقی تبدیلیاں اس کے بعد ہوتی ہیں ورنہ رنگ میں تبدیلی کی کوئی حاجت نہیں ہے ہاں اگر کوئی چیز رنگ میں پانی کے مخالف نہ ہو تو اجزاء میں غلبہ کے باوجود اس کے ملنے پر پانی کا رنگ نہیں بدلے گا۔ تو اس صورت میں ذائقہ کا اعتبار ہوگا کیونکہ اجزاء کی تبدیلی (غلبہ) سے قبل ذائقہ کی تبدیلی معیار ہے اور جب ذائقہ کے لحاظ سے تبدیلی نہ ہوئی تو معلوم ہوجائےگا کہ اجزاء کے لحاظ سے بھی تبدیلی نہیں ہوئی (اگرچہ یہ چیز مقدار میں پانی کے مساوی یا غالب بھی ہوجائے) اور ثابت ہوگیا کہ ملنے والی چیز مغلوب ہے اگر ذائقہ تبدیل ہوگیا تو وہ غالب ہوگی اگرچہ مقدار میں برابر نہ ہو، اگر ملنے والی چیز رنگ و ذائقہ دونوں تبدیل نہ کرے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ دونوں میں سے کسی کے مخالف نہ ہو کیونکہ اگر وہ مخالف ہوتی تو مساوی المقدار میں تبدیلی آجاتی، تو ایسی صورت میں پانی پر غلبہ کا معیار اجزاء کے اعتبار سے ہوگا(یعنی ملنے والی چیز کی مقدار پانی کے برابر یا زیادہ ہوجانے کو معیار قرار دیا جائےگا)۔ (ت)


فالحاصل ان ماخالفہ لونا اوطعما لاعبرۃ فیہ بغلبۃ الاجزاء لابمعنی انھا توجد ولا تعتبر مالم  یتغیر لون اوطعم فانہ باطل بداھۃ وفیم ینتظر الاوصف مع ثبوت الخروج عن المائیۃ للمرکب قطعا بل بمعنی انھا لایحتاج الیھا لتعرف الغلبۃ لانھا لاتحصل ھھنا الاوقد غلب المخالط قبلھا وکذلک ماخالفہ لونا لاعبرۃ فیہ للطعم بالمعنی المذکور وھذا معنی مانص علیہ الرواۃ الثقاۃ فقصروا اعتبار الطعم علی مایوافقہ لونا واعتبار الاجزاء علی مایوافقہ فیھما ومثلوا لکل قسم باشیئاء علی حدۃ ،


الحاصل جب رنگ اور ذائقہ کو تبدیل کرنے والی چیز پانی میں ملے گی تو پہلے رنگ دوسرے نمبر پر ذائقہ کو معیارِ غلبہ قرار دیا جائےگا ایسی صورت میں غلبہ کا معیار اجزاء کی مقدار کو نہیں بنایا جائے گا، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رنگ اور ذائقہ میں مخالف چیز اگر مقدار کے لحاظ سے پانی کے مساوی یا زیادہ ہوجائے تب بھی غلبہ نہیں مانا جائےگا کیونکہ یہ واضح طور پر غلط ہے اس لئے کہ اجزاء کے غلبہ سے پانی مغلوب ہوکر اپنی طبع سے خارج ہوجاتا ہے اور وہ پانی نہیں رہتا بلکہ وہ ایک مرکّب چیز بن جاتا ہے بلکہ ابھی اس معیار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ غلبہ کی پہچان ابھی اس سے کم درجہ کی تبدیلی سے ہوسکتی ہے، رنگ کے لحاظ سے مخالف چیز کی موجودگی میں ذائقہ کے معتبر نہ ہونے کا بھی یہی مقصد ہے (یعنی تبدیلی کی پہچان کے لئے پہلے معیار کی موجودگی میں دوسرے نمبر کے معیار کی ضرورت نہیں،لیکن بعد کے نمبر والے معیار کے پائے جانے پر نچلے معیار کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے) ثقہ راویوں نے جو بیان کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ پانی میں ملنے والی چیز اگر رنگ میں موافق ہو تو ذائقہ اور اگر ذائقہ میں بھی موافق ہو تو پھر غلبہ کیلئے اجزاء اور مقدار کا اعتبار ہوگا۔اور انہوں نے معیار کی ہر صورت کی مثال علیحدہ دی ہے۔

وھذہ عبارۃ زاد الفقھاء ثم البنایۃ وغیرھما تعتبر الغلبۃ اولا من حیث اللون ثم الطعم ثم الاجزاء فانکان لونہ مخالف لون الماء کاللبن والعصیر والخل وماء الزعفران فالعبرۃ باللون فان توافقا لونا لکن تفاوتا طعما کماء البطیخ والشمس والانبذۃ فالعبرۃ للطعم وان توافقا لونا وطعما کماء الکرم فالعبرۃ للاجزاء ۱؎ اھ۔ وعبارۃ ملک العلماء ان کان یخالف لونہ لون الماء کاللبن وماء العصفر والزعفران تعتبر الغلبۃ فی اللون وان کان لایخالف الماء فی اللون ویخالفہ فی الطعم کعصیر العنب الابیض وخلہ تعتبر فی الطعم وان کان لایخالفہ فیھما تعتبر فی الاجزاء ۲؎ اھ۔ وعبارۃ خزانۃ المفتین ینظر ان کان یخالف لونہ لون الماء کاللبن والعصیر والخل والزعفران فالعبرۃ باللون وان کان یوافق لونہ لون الماء نحو ماء الثمار والاشجار والبطیخ فالعبرۃ للطعم ان کان شیئا یظھرلہ طعم فی الماء وذلک نحونقیع الزبیب وسائر الانبذۃ وان کان شیئا لایظھر طعمہ فی الماء فالعبرۃ لکثرۃ الاجزاء ۳؎ اھ۔ وعبارۃ الحلیۃ ان کان المخالط شیئا لونہ یخالف لون الماء مثل اللبن والخل وماء الزعفران ثم قال وان کان لایخالف فی اللون ویخالف فی الطعم نحوماء البطیخ وعصیر العنب الابیض وخلہ ثم قال وانکان لایخالفہ فیھما تعتبر الغلبۃ فی الاجزاء ۱؎ اھ۔ وعبارۃ البرجندی ان خالف لونہ لون الماء کاللبن والزعفران فالعبرۃ لغلبۃ اللون وان توافقا فیہ فللطعم وان لم یکن لہ طعم  ایضا فللا جزاء ۲؎ اھ۔ وھکذا لخصہ البحر کمامر و ان زاد الریح من عند نفسہ اذقال مرادہ ان المخالط المائع ان کان لونہ مخالفا تعتبر اللون وان کان لونہ لون الماء فالطعم وان کان لایخالفہ فی اللون والطعم فالاجزاء ۳؎ اھ۔


چنانچہ زاد الفقہاء اور بنایہ وغیرہا کتب میں مذکورہ بیان کی وضاحت یوں کی کہ غلبہ پہلے رنگ کے اعتبار سے ہوگا پھر ذائقہ پھر اجزاء کے اعتبار سے ہوگا اس کے ساتھ صرف رنگ میں تبدیلی ظاہر کرنے والی چیزوں کی مثال دُودھ، پھلوں کا جوس، سرکہ اور زعفران کا پانی، ذکر کی ہے۔اور کہا کہ ان چیزوں کی وجہ سے جب پانی کا رنگ بدل جائے تو پانی کو مغلوب اور ان چیزوں کو غالب قرار دیا جائےگا اور انہوں نے رنگ میں موافق اور ذائقہ میں مخالف چیز جو پانی میں مل کر پانی کے ذائقہ کی تبدیلی کو ظاہر کردے کے بارے میں فرمایا اس میں ذائقہ معیار ہوگا،اس کی مثال میں انہوں نے تربوز کا پانی، دھوپ والا پانی اور نبیذ وں کو ذکر کیا ہے، اور انہوں نے رنگ اور ذائقہ دونوں میں موافق چیزوں کی مثال میں انگور کے پودے کا پانی ذکر کیا ہےجو پانی میں مل جائے تو پانی پر غلبہ کا اعتبار اجزاء کے لحاظ سے ہوگا (یعنی پانی کی مقدار کے مساوی یا زیادہ ہونے پر پانی کو مغلوب اور انگور کے پودے کے پانی کو غالب قرار دیا جائےگا) اسی طرح ملک العلماء، خزانۃ المفتین، حلیہ، برجندی کی عبارتوں میں یہی مضمون مثالوں میں جزوی اختلاف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ بحرالرائق نے اگرچہ اپنی طرف سے بُو کو بھی ذکر کیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سب کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔


 (۱؎ البنایۃ شرح الہدایۃ    الماءیجوزبہ الوضوء    ملک سنز فیصل آباد    ۱/۱۸۹)

(۲؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)

(۳؎ خزانۃ المفتین)

(۱؎ حلیہ)

(۲؎ نقایہ للبرجندی    ابحاث الماء     نولکشور لکھنؤ        ۱/۳۲)

(۳؎ بحرالرائق    ابحاث الماء    سعید کمپنی کراچی        ۱/۷۰)


فماقدمنا من عبارۃ الامام الاسبیجابی ان غیر لونہ فالعبرۃ لللون وان لم یغیر لونہ بل طعمہ فللطعم وان لم یغیر لونہ وطعمہ فللاجزاء اھ۔ علی الصلوح دون الفعلیۃ ای ماصلح لتغیر اللون وھو الذی یخالفہ لونا فالعبرۃ فیہ لللون وان لم یصلح لہ بل لتغیر طعمہ بان وافقہ لونا وخالفہ طعما فللطعم وھکذا لا ان المخالط ان غیر اللون فذاک والاینظر الی تغییرہ طعمہ فان حصل والا عدل الی الاجزاء وذلک لماعلمت ان ما صلح لتغییر اللون والطعم جمیعا ان لم یغیر اللون لم یغیر الطعم  ایضا وما صلح لتغییر ھما اواحدھما لایمکن ان یکون مغلوبا فیھما غالبا اومساویا فی القدر وان امکن ھذا بطل الحکم بالترتیب و وجب القول باعتبار الثلثۃ مجملا ایھا حصل حصلت الغلبۃ اذا عرفت ھذا فاعلم ان اھل الضابطۃ لم یراعوا ھذا الترتیب بل قالوا ما خالف فی وصفین فایھما تغیر غیر وما خالف فی الثلثۃ فایّ اثنین تبدلا بدّلا وبھذا الوجہ اوردنا علیھم مافیہ سبق الطعم اللون وان کان غیر واقع علی مسلک الضابطۃ الشیبانیۃ کما اوردنا علیھم مافیہ تغیرالریح وان کان ساقط النظر عندھا وحکما بخلاف الضابطۃ الزیلعیۃ ظاھر فی ذوات الریح واما فی سبقۃ الطعم فالقصرھا الحکم علی اللون فی ذی اللون فان وقع سبق الطعم ثبت الحکم وان لم یکن واقعا فی نظرھا۔


اور ہم نے قبل ازیں امام اسبیجابی کا جو کلام نقل کیا ہے کہ وہ چیز رنگ تبدیل کردے تو رنگ کا اعتبار اور رنگ کو تبدیل نہ کرے تو پھر ذائقہ کا اعتبار اور اگر رنگ اور ذائقہ دونوں کو تبدیل نہ کرے تو پھر اجزاء اور مقدار کا اعتبار ہوگا اھ تو اس ترتیب کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز میں تبدیلی مذکورہ کی صلاحیت ہو، ورنہ فعلیت کے لحاظ سے پانی میں ملی ہوئی چیز میں اگر اوپر والا معیار پایا جائے گا تو نیچے والا ضرور پایا جائے گا۔یہ ممکن نہیں اوپر والا معیار پایا جائے اور نیچے والا نہ پایا جائے۔ مثلاً جب پانی میں ملنے والی چیز اپنی مقدار میں پانی کی مقدار کے برابر یا زیادہ ہوگی تو نچلے دونوں معیار یعنی ذائقہ اور رنگ والا معیار ضرور تبدیل ہوگا، اور یوں ہی اگر وہ چیز ذائقہ والا معیار رکھتی ہے تو اس کے پائے جانے پر رنگ والا معیار ضرور پایا جائےگا، یہ اس صورت میں جبکہ اوپر والے اور نیچے والے معیار میں موافقت ہو، ورنہ اگر موافقت نہ ہوگی تو پھر تینوں معیاروں میں ترتیب لازمی نہ ہوگی بلکہ پھر مجمل طور تینوں کو معیار قرار دیں گے اور کہیں گے کہ جو بھی پایا جائےگا غلبہ پایا جائےگا۔ اس وضاحت کے بعد معلوم ہونا چاہئے کہ ضابطہ کو بیان کرنے والوں میں سے بعض نے ان معیاروں کی ترتیب کی رعایت نہیں کی اور انہوں نے یوں کہا کہ جو چیز پانی سے دو وصفوں میں مختلف ہے ان دو میں سے جو بھی تبدیل ہوگا تو پانی متغیر ہوجائےگا، اور جو چیز تین اوصاف یعنی رنگ، بُو اور ذائقہ میں پانی سے مختلف ہو ان میں سے دو وصفوں میں تبدیلی ہوجانے سے پانی کو متغیر قرار دیں گے تو ان کی اس انداز کی تقریر پر میں نے ترتیب کو بیان کیا اور کہا تھا سب سے پہلے رنگ کی تبدیلی ہوگی، اگرچہ ضابطہ شیبانیہ پر یہ اعتراض نہیں ہوتا جیسا کہ بُو کی تبدیلی کے بارے میں ہم نے ان پر اعتراض کیا اگرچہ وہ ضابطہ شیبانیہ پر وارد نہیں ہوتا، اس ضابطہ کا حکم زیلعیہ کے برخلاف بُو والی چیزوں میں ظاہر ہے لیکن ذائقہ والی صورت کا پہلے ہونا اس لئے ہے کہ ضابطہ زیلعیہ نے رنگ والی چیز میں حکم کو رنگ کے ساتھ خاص کردیا تاہم اگر ذائقہ پہلے ہو تو حکم ثابت ہوگا اگرچہ اس ضابطہ کے تحت ذائقہ پہلے نہیں ہوگا۔(ت)


واقول:من قبل الامام ابی یوسف ان اردتم تغیر وصف بدون زوال الاسم فممنوع کماعلم او ما یزیلہ فنعم ولم قلتم یقدم اللون فان الاسم بای شیئ زال زال اما قولکم ھو اضعف فیسبق فی التغیر الطعم ولاعکس قلنا سبقۃالفعل کما یکون بضعف المنفعل فلایقاوِم بالکسر کذلک یکون بقوۃ الفاعل فلایقاوَم بالفتح وما المانع ان یکون شیئ طعمہ اقوی شدیدا من لونہ فیعمل فی طعم الماء القوی قبل ان یعمل لونہ فی لونہ الضعیف وعن ھذا اقول:ان الضابطۃ الزیلعیۃ اصابت فی تجویزھا غلبۃ غیر اللون قبل اللون والضابطۃ الشیبانیۃ اصابت فی صورھا فی الحکم فانھا لاتسلم تقید الماء فیھا وان کان بناء علی انھا لاتقع وعلی ھذا التحقیق والتنقیر یبتنی کلام الفقیر فی التطفلات علی الضابطۃ الزیلعیۃ وعلی البحر وفی ابداء المخالفات بینھا وبین الحکم المنقول،علی ضابطۃ محمد سید الاکابر الفحول، فاعلم ذلک، والحمدللّٰہ خیر مالک۔


میں کہتا ہوں، کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ اعتراض کرتا ہوں اگر پانی کا نام تبدیل ہوئے بغیر کسی وصف کی تبدیلی مراد لیتے ہو تو یہ تسلیم نہیں ہے جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے یا وصف کی تبدیلی سے پانی کے نام کی تبدیلی بھی مراد ہے تو یہ تسلیم ہے، لیکن پھر رنگ کی تبدیلی کو مقدم کیوں کہتے ہو حالانکہ نام کی تبدیلی جس وصف سے ہوجائے وہی مؤثّر ہوگا (اور رنگ کے اعتبار کو مفہوم قرار دینے کی وجہ میں) آپ کا یہ کہنا کہ چونکہ رنگ ایک کمزور  وصف ہے اس لئے وہ ذائقہ کی نسبت پہلے متغیر ہوجاتا ہے اس لئے ذائقہ کی تبدیلی اس سے پہلے نہیں ہوتی، تو اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جس طرح اثر کو قبول کرنے والی چیز کی کمزوری کے سبب فعل کی تاثیر جلدی ہوتی ہے کیونکہ وہ چیز رکاوٹ نہیں بنتی اسی طرح اگر فاعل قوی ہو تو بھی تاثیر جلدی ہوسکتی ہے کیونکہ فاعل کو روکا نہیں جاسکتا اور یوں ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کا ذائقہ اتنا شدید ہو کہ وہ رنگ کے مقابلہ میں پانی پر پہلے اثر انداز ہو جائے اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ضابطہ زیلعیہ رنگ سے قبل دوسرے کسی وصف کے موثر ہونے کو جائز قرار دینے میں درست ہے، اور ضابطہ شیبانیہ حکم کے بارے میں تبدیلی کی صورتوں میں درست ہے کیونکہ یہ ضابطہ ان اوصاف کی تبدیلی کی صورتوں میں پانی کو مقید تسلیم نہیں کرتا خواہ یہ صورتیں واقع نہ ہوں، تطفلات میں اس فقیر کے کلام کی یہ تحقیق ضابطہ زیلعیہ اور بحر کے بیان پر مبنی ہے، اور حکم اور ضابطوں کے درمیان مخالفت کا اظہار امام محمدکے ضابطہ پر مبنی ہے کیونکہ عظیم اکابر کے سردار ہیں، اس کو سمجھو اور اللہ تعالٰی کی حمد تیرا بہترین مال ہے۔ (ت)


 (۵) بمابینا ان تغیر اللون یسبق مساواۃ القدر یندفع مایتوھم علی ضابطۃ البرجندی اذ قال فی المخالط بلاطبخ معنی غلبتہ ان یغلب لونہ لون الماء عند محمد والاجزاء  عند ابی یوسف ۱؎ اھ۔ ان محمدا لا یعتبر الاجزاء وھو باطل قطعا کمانبھنا علیہ فی الفصل الثالث اول ابحاث غلبۃ الغیر وذلک لان من اعتبر اللون فقد ضیق لان تغیرہ اسبق ولمثل ھذا لم اذکر کثرۃ الاجزاء فی الضابطۃ الشیبانیۃ الا فی جھۃ المائع واطلقت القول بالجواز فی الجامد مادامت الرقۃ باقیۃ ولم یصرشیئا اٰخر لمقصد اٰخر وذلک لان الرقۃ تزول بالجامد قطعا بل تساوی القدر بکثیر وھذا ملحظ مامر فی البحث المذکور عن البحر عن الحدادی ان غلبۃ الاجزاء فی الجامد ۲؎ بالثلث کماقدمت ثمہ۔


 (۵) رنگ کی تبدیلی، اجزاء اور مقدار کے لحاظ سے تبدیلی اور غلبہ پر مقدم ہے۔ ہمارے اس بیان سے علامہ برجندی کے ضابطہ پر ایک اعتراض ختم ہوجاتا ہے، علامہ برجندی نے کہا ہے کہ پانی میں ملی ہُوئی چیز جو پکائے بغیر ملی ہو، اس کے پانی پر غالب ہونے کا معیار امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک رنگ کی تبدیلی ہے، اور امام یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اجزاء کا غالب ہونا ہے۔اس سے بعض نے یہ اعتراض اٹھایا کہ امام محمدرحمہ اللہ اجزاء کے غلبہ کا اعتبار نہیں کرتے، اور یہ اعتراض غلط ہے جیسا کہ ہم نے تیسری فصل میں پانی پر غیر چیز کے غلبہ کی اول بحث میں واضح کردیا ہے وہ یہ کہ جس نے رنگ کی تبدیلی کو غلبہ کا معیار بنایا ہے اس نے یہ پابندی لگائی ہے کہ رنگ کی تبدیلی پہلے ہو۔اسی طرح میں نے ضابطہ شیبانیہ میں اجزاء کی کثرت اور غلبہ کو صرف بہنے والی چیز کے بارے میں کہا ہے اور جامد کے بارے میں جب تک پانی کی رقت باقی ہو تو اس سے وضو کے جواز کو میں نے مطلق ذکر کیا ہے اور رقّت کی بقاء کے ساتھ یہ بھی ملحوظ ہے کہ کسی دوسرے مقصد کیلئے دوسری چیز نہ بن چکی ہو، اور یہ اس لئے ہے کہ جامد کی وجہ سے پانی کی رقّت اجزاء کے مساوی ہونے سے بہت پہلے ختم ہوجاتی ہے، اور بحر سے حدادی سے مذکور بحث میں جو گزرا کہ جامد کی وجہ سے پانی کی رقت تہائی مقدار سے بھی قبل ختم ہوجاتی ہے یہ اس کا خلاصہ ہے جیسا کہ میں نے وہاں بیان کردیا ہے۔(ت)


 (۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    ابحاث الماء    نولکشور لکھنؤ        ۱/۳۲)

(۲؎ بحرالرائق         ابحاث الماء     سعید کمپنی کراچی        ۱/۷۰)

 (۶) بعض(۱) علماء کا خیال ہے کہ پانی بے لَون ہے خود کوئی رنگ نہیں رکھتا، حتی عرفہ الفاضل احمد بن ترکی المالکی فی الجواھر الزکیۃ شرح المقدمۃ العشماویۃ بقولہ الماء جوھر لطیف سیال لالون لہ یتلون بلون انائہ ۳؎ اھ۔


حتی کہ فاضل احمد بن ترکی المالکی نے مقدمہ عشماویہ کی شرح جواہر زکیہ میں اس کی یہ تعریف کی ہے کہ پانی ایسا لطیف بہنے والا جوہر ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہیں بلکہ برتن کے رنگ سے رنگدار دکھائی دیتا ہے اھ۔(ت)


 (۳؎ جواہر زکیۃ)


اقول:کان علیہ (۱) ان یقول یتلون بلون ما یخالطہ فان بعد الجملۃ الاخیرۃ غنی عن البیان ولذا قال محشیہ السفطی المالکی انہ لکونہ شفافا یظھر فیہ لون انائہ فاذا وضع فی اناء اخضر فالخضرۃ لم تقم بالماء و انما ھو لرقتہ لا یحجب لون الاناء ۱ج؎ اھ۔


میں کہتا ہوں کہ ان پر لازم تھا کہ وہ یوں تعریف کرتے کہ اس میں ملنے والی چیز سے رنگدار ہوتا ہے کیونکہ آخری جملہ بیان کا محتاج رہتا ہے اسی لئے اس کے محشی سفطی مالکی نے کہا ہے کہ شفاف ہونے کی وجہ سے برتن کا رنگ اس میں ظاہر ہوتا ہے جب سبز برتن میں ڈالیں اور سبزی پانی کو نہیں لگتی بلکہ وہ رقت کی بنا پر برتن کے رنگ کیلئے حاجب نہیں بنتا اھ۔(ت)


 (۱؎ حاشیہ سفطی علی مقدمۃ عشماویۃ)


اقول: و وقع(۲) فی صدر شرح المواقف بحث العلم بالحس الثلج مرکب من اجزاء شفافۃ لالون لھا وھی الاجزاء المائیۃ الرشیۃ ۲؎ اھ۔ وھو ظاھر فی نفی اللون عن الماء فان قلت منشأ النفی کونھا صغیرۃ جدا فلا یظھر لھا لون۔اقول:کلا الا تری ان البخار یری لہ لون وما ھو الا لون الاجزاء المائیۃ وھی فیہ الطف منھا فی الثلج ولذا ینزل ذاک وھذا یعلو والصغیر جدا اذا انفرد لایری فلا یری لونہ واذا اجتمعت الصغار بنت ورئ لونھا کمافی البخار والد خان بل والھباء کماذکرناہ فی بعض حواشی اواخر الفصل الاول من رسالتنا النمیقۃ الانقی۔


میں کہتا ہوں کہ شرح مواقف میں علم بالحس کی بحث میں موجود ہے کہ برف شفاف اجزاء سے مرکب ہے اس کا کوئی رنگ نہیں ہے بلکہ وہ پانی کے باریک اجزا ہیں اھ۔پانی کے رنگ کی نفی میں یہ عبارت ظاہر ہے۔ اگر تو کہے ہوسکتا ہے کہ اجزاء باریک ہونے کی وجہ سے رنگ ظاہر نہ ہوتا ہو۔میں کہتا ہوں کہ ایسے ہرگز نہیں، کیونکہ آپ دیکھتے ہیں کہ بادل کے بخارات میں رنگ ظاہر ہوتا ہے اور یہ رنگ پانی کے اجزاء کا رنگ ہیں حالانکہ یہ اجزاء برف کے اجزاء سے زیادہ باریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برف اوپر سے گرتی ہے اور بخارات اوپر کو اُٹھتے ہیں اور باریک اگر علیحدہ ہو تو وہ نظر نہیں آتا تو اس کا رنگ کیسے نظر آئےگا اور چھوٹے اجزاء جب جمع ہوں تو نظر آتے ہیں تو ان کا رنگ بھی نظر آئےگا جیسا کہ بخارات اور دھوئیں میں بلکہ ذرات میں ایسا ہے جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ النمیقۃ الانقی کی پہلی فصل کے اواخر کے حواشی میں ذکر کیا ہے۔(ت)


 (۲؎ شرح المواقف    المرصد الرابع فی علوم الضروریۃ    مطبعۃ السعادۃ مصر    ۱/۱۴۳)


اور صحیح یہ کہ وہ ذی لون ہے، یہی امام فخر رازی وغیرہ کا مختار ہے جو کلام فقہا مسائل آب کثیر و آب مطلق وغیرہما میں ذکر لون متواتر ہے اور ابن ماجہ نے ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں ان الماء طھور لاینجسہ الا ماغلب علی ریحہ وطعمہ ولونہ ۱؎۔ بےشک پانی پاک ہے اسے کوئی چیز نجس نہیں بناتی مگر وہ چیز جو پانی کی بُو اور ذائقہ اور رنگ پر غالب ہوجائے۔ (ت)


 (۱؎ سنن ابن ماجہ        باب الماء الذی لاینجس    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۴۰)


سنن دار قطنی میں ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الماء طھور الاماغلب علی طعمہ او ریحہ اولونہ ۲؎۔ ہر پانی پاک کرنے والا ہے ماسوائے اس کے جس کے ذائقہ، بُو اور رنگ مغلوب ہوچکے ہوں۔(ت)


 (۲؎ سنن الدار قطنی        باب الماء المتغیر        مدینہ منورہ حجاز        ۱/۲۸)


امام طحاوی مرسل راشد بن سعدسے راوی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: الماء لاینجسہ شیئ الا ماغلب علی ریحہ اوطعمہ اولونہ ۳؎۔ پانی کو کوئی چیز نجس نہیں بناتی مگر وہ چیز جو پانی کے رنگ، بُو یا ذائقہ پر غالب ہوجائے۔(ت)


 (۳؎ شرح معانی الآثار        باب الماء یقع فیہ النجاسۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۸)


اقول: اور اصل حقیقت ہے فلا ترد الریح  (تو ریح کا ورود نہ ہوگا۔ت) معہذا مقرر ہو چکا کہ ابصار عادی دنیاوی کیلئے مرئی کا ذی لون ہونا شرط ہے بلکہ مرئی نہیں مگر لون وضیا تو پانی بے لون کیونکر ہوسکتا ہے ولہذا ابن کمال پاشانے اُس کے حقیقۃً ذی لون ہونے پر جزم کیا کمامر اٰنفا  (جیسا کہ ابھی گزرا۔ت) پھر اُس(۱) کے رنگ میں اختلاف ہوا بعض نے کہا سپید ہے فاضل یوسف بن سعید اسمٰعیل مالکی نےحاشیہ عشماویہ میں یہی اختیار کیا اور اس پر تین دلیلیں لائے:


اول: مشاہدہ۔

دوم: حدیث کہ پانی کو دُودھ سے زیادہ سپید فرمایا۔ 

سوم: برف جم کر کیسا سپید نظر آتا ہے۔


حیث قال فان قلت ما لون الماء الذی ھو قائم بذاتہ قلت المشاھد فیہ البیاض ویشھد لہ ماورد فی بعض الاحادیث فی وصف الماء من کونہ اشدبیاضا من اللبن ومما یدل علی ان الماء لونہ ابیض مشاھدۃ البیاض فی الثلج حین جمودہ وانعقادہ علی وجہ الارض ۱؎ اھ۔


جب کہا اگر تو کہے کہ پانی کا رنگ جو پانی میں پایا جاتا ہے وہ کیا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ جو رنگ نظر آتا ہے وہ سفید ہے اور اس کی شہادت اس ایک حدیث سے بھی ملتی ہے جس میں پانی کی صفت میں کہا گیا ہے کہ وہ دُودھ سے زیادہ سفید ہے اور اس حقیقت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ پانی جم کر جب برف کی صورت زمین پر گرتا ہے تو اس کا رنگ انتہائی سفید نظر آتا ہے اھ۔(ت)


 (۱؎ حاشیۃ مقدمۃ عشماویۃ)


اقول: اوّلاً بلکہ(۱) مشاہدہ شاہد کہ وہ سپید نہیں ولہذا آبی اُس رنگ کو کہتے ہیں کہ نیلگونی کی طرف مائل ہو۔

ثانیا سپید(۲) کپڑے کا کوئی حصہ دھویا جائے جب تک خشک نہ ہو اس کا رنگ سیاہی مائل رہے گا،یہ پانی کا رنگ نہیں تو کیا ہے۔

ثالثاً دُودھ(۳) جس میں پانی زیادہ ملا ہو سپید نہیں رہتا نیلا ہٹ لے آتا ہے۔ 

رابعاً بحرِ(۴) اسود واخضر واحمر مشہور، اور اسی طرح ان کے رنگ مشہور ہیں اسود تو سیاہی ہے اور سبزی بھی ہلکی سیاہی ولہذا آسمان کو خَضرا اور چرخِ اخضر کہتے ہیں اور خط کو سبزہ۔سانولی رنگت کو حسن سبز اور سرخی بھی قریب سواد ہے اگر حرارت زیادہ عمل کرے سیاہ ہوجائے جس طرح بعد خشکی خون۔گہری سرخی میں بالفعل سیاہی کی جھلک ہوتی ہے انگور سبز پھر سُرخ پھر سیاہ ہوجاتا ہے۔

خامساً حدیث(۵) مبارک دربارہ کوثر اطہر ہے۔


سقانا اللّٰہ تعالٰی منہ بمنہ ورأفتہ، وکرم حبیبہ وقاسم نعمتہ، صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وعلی اٰلہ وصحبہ وامتہ، اٰمین۔


اللہ تعالٰی اپنے احسان اور مہربانی اور اپنے حبیب اور قاسمِ نعمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے آل واصحاب اور اُمت پر کرم سے ہمیں حوضِ کوثر سے سیراب فرمائے۔ آمین ۔(ت)

اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلق پانی کا رنگ سپید ہو، اُسی حدیث(۶) میں اس کی خوشبو مشک سے بہتر فرمائی ۔ صحیحین میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: حوضی مسیرۃ شھر ماؤہ ابیض من اللبن و ریحہ اطیب من المسک ۲؎۔ میرا حوض ایک مہینے کی راہ تک ہے اُس کا پانی دُودھ سے زیادہ سپید ہے اور اس کی خوشبو مشک سے بہتر۔


 (۲؎ جامع للبخاری    کتاب الحوض    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۹۷۴)


اور دوسری روایت میں فرمایا : ابیض من الورق چاندی سے بڑھ کر اُجلا۔حالانکہ پانی اصلاً بُو نہیں رکھتا، خود حاشیہ فاضل سفطی میں دو  ورق بعد ہے: قولہ او ریحہ قال ابن کمال باشا لابد من التجوز فی قولھم تغیر ریح الماء لان الماء لیس لہ رائحۃ ذاتیۃ فالمراد طرأفیہ ریح لم یکن افادہ شیخنا الامیر ۱؎ اھ۔ وقد اسمعناک نص العلامۃ الوزیر۔


ابن کمال پاشا نے کہا، پانی کی بُو بدلنے والے قول میں مجاز ماننا ضروری ہے کیونکہ اس کی اپنی کوئی بُو نہیں ہے لہٰذا اس قول سے وہ بُو مراد ہوتی ہے جو پانی پر طاری ہوتی ہے۔ہمارے شیخ امیر صاحب نے یہ نہیں بتایا حالانکہ ہم نے آپ کو علّامہ وزیر صاحب کی تصریح بتادی ہے۔(ت)


 (۱؎ حاشیۃ فاضل سفطی)


اس کی ضد جہنّم ہے والعیاذ(۱) باللہ تعالٰی منہا جس کی آگ اندھیری رات کی طرح کالی ہے مالک وبیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ا ترونھا حمراء کنارکم ھذہ لھی اشد سواد من القار ۲؎۔ کیا تم اُسے اپنی اس آگ کی طرح سرخ سمجھتے ہو بےشک وہ تو تار کول سے بڑھ کر سیاہ ہے۔


 (۲؎ موطا امام مالک    ماجاء فی صفۃ جہنم    میر محمد کتب خانہ کراچی    ص۷۳۳)


اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آگ کا اصل رنگ سیاہ ہو یا ہر آگ ایسی ہی ہو خود حدیث کا ارشاد ہے کہ اُسے اس آگ سا سُرخ نہ جانو۔

سادساً بعد انجماد(۲) کوئی نیا رنگ پیدا ہونا اس پر دلیل نہیں کہ یہ اُس کا اصلی رنگ ہے خشک ہونے پر خُون سیاہ ہوجاتا ہے اور مچھلی کی سرخ رطوبت سپید۔ اسی سے اُس پر استدلال کیا گیا کہ وہ خون نہیں۔

سابعاً(۳) ہوا کہ ضیا سے(۴) مستنیر ہورہی ہے جب جسم شفاف کے اندر داخل ہوتی ہے اُس کے شفاف اور اس کے چمکدار ہونے سے وہاں ایک ہلکی روشنی پیدا ہوتی ہے جس سے سپیدی نظر آتی ہے جیسے موتی یا شیشے یا بلور کو خوب پیسیں تو اجزاء باریک ہوجانے سے ضیاء اُن کے مابین داخل ہوگی اور دقّتِ فصل کے باعث اُن باریک باریک اجزاء اور اُن میں ہر دو کے بیچ میں اجزائے ضیا کا امتیاز نہ ہوگا اور ایک رنگ کہ دھوپ سے میلا اور اُن کے اصلی رنگ سے اُجلا ہے محسوس ہوگا یہ وہ سپیدی وبراقی ہے کہ اُن میں نظر آتی ہے یوں ہی(۵) دریا کے جھاگ بلکہ پیشاب کے بھی حالانکہ وہ یقینا سپید نہیں اس کی سپیدی تو مرض ہے بلکہ آئینہ(۱) میں اگر درز پڑ جائے وہاں سپیدی معلوم ہوگی کہ اب تابندہ ہوا عمق میں داخل ہوئی یہی وجہ(۲) جمی ہُوئی اوس کے سپید نظر آنے کی ہے کہ شفاف ہے اور اجزاء باریک اور چمکدار ہوا داخل۔


ثامنا(۳) شفیف(۴) اجرام کا قاعدہ ہے کہ شعاعیں اُن پر پڑ کر واپس ہوتی ہیں ولہذا آئینہ میں اپنی اور اپنے پس پشت چیزوں کی صورت نظر آتی ہے کہ اس نے اشعہ بصر کو واپس پلٹایا واپسی میں نگاہ جس جس چیز پر پڑی نظر آئی گمان ہوتا ہے کہ وہ صورتیں آئینے میں ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ہیں نگاہ نے پلٹتے میں انہیں دیکھا ہے ولہذا(۵) آئینے میں دہنی جانب بائیں معلوم ہوتی ہے اور بائیں دہنی(۶) ولہذا شے آئینے سے جتنی دُور ہو اُسی قدر دُور دکھائی دیتی ہے اگرچہ سوگز فاصلہ ہو حالانکہ آئینہ کا دَل جَو بھر ہے سبب وہی ہے کہ پلٹتی نگاہ اُتنا ہی فاصلہ طے کرکے اُس تک پہنچتی ہے اب برف(۷) کے یہ باریک باریک متصل اجزا کہ شفاف ہیں نظر کی شعاعوں کو انہوں نے واپس دیا پلٹتی شعاعوں کی کرنیں اُن پر چمکیں اور دھوپ کی سی حالت پیدا کی جیسے پانی یا آئینے پر آفتاب چمکے اُس کا عکس دیوار پر کیسا سفید براق نظر آتا ہے زمین(۸) شور میں دُھوپ کی شدت میں دُور سے سراب نظر آنے کا بھی یہی باعث ہے خوب چمکتا جنبش کرتا پانی دکھائی دیتا ہے کہ اُس زمین میں اجزائے صقیلہ شفافہ دُور تک پھیلے ہوتے ہیں نگاہ کی شعاعیں اُن پر پڑ کر واپس ہوئیں اور شعاع(۹) کا قاعدہ ہے کہ واپسی میں لرزتی ہے جیسے آئینے پر آفتاب چمکے دیوار پر اُس کا عکس جھل جھل کرتا نظر آتا ہے اور شعاعوں کے زاویے یہاں چھوٹے تھے کہ اُن کی ساقیں طویل ہیں کہ سراب دور ہی سے متخیل ہوتا ہے اور وتر اُسی قدر ہے جو ناظر کے قدم سے آنکھ تک ہے اور چھوٹے وتر پر ساقیں جتنی زیادہ دُور جاکر ملیں گی زاویہ عـہ خورد تر  بنے گا اور زوایائے(۱۰) انعکاس ہمیشہ زوایائے شعاع کی برابر ہوتے ہیں اشعہ بصریہ اُتنے ہی زاویوں پر پلٹتی ہیں جتنوں پر گئی تھیں ان دونوں امر کے اجتماع سے نگاہیں کہ اجزائے بعیدہ صقیلہ پر پڑی تھیں لرزتی جھل جھل کرتی چھوٹے زاویوں پر زمین سے ملی ملی پلٹیں لہذا وہاں چمکدار پانی جنبش کرتا متخیل ہوا واللہ تعالٰی اعلم۔


 


(عہ )مثلاً ا ح ب۔ ا ع ب۔ ا ہ ب۔ ا ر ب مثلثوں میں زاویہ قائمہ اور سب میں مشترک ہے تو ہر ایک کے باقی دو زاویے ایک قائمہ کے برابر ہیں لیکن زوایائے ح ا ب۔ ع ا ب۔ ح ا ب۔ ر ا ب علی الترتیب بڑھتے گئے ہیں کہ ہر پہلا دوسرے کا جز ہے تو واجب کہ زوایائے ح۔ ع۔ ہ۔ ر اُسی قدر چھوٹے ہوتے جائیں کہ ہر ایک اپنے زاویہ کا قائم تک تمام ہے چھوٹے کا تمام بڑا ہوگا بڑے کا چھوٹا ۱۲ منہ غفرلہ (م)


اقول: ھذا طریق وان شرط ۱۲ اخترنا طریق العضد الذی قال انہ الحق واقرہ السید وھو منع ان لابیاض فی الثلج وماذکر معہ والقول بان اختلاط الھواء المضیئ بالاجزاء الشفافۃ احد اسباب حدوث البیاض وان لم یکن ھناک مزاج یتبعہ حدوث اللون قالا ولیس ذلک ابعد مما یقولہ الحکماء۔


میں کہتا ہوں یہ ایک راستہ ہے، اور اگرعضد صاحب کا راستہ اختیار کریں جنہوں نے کہا کہ یہ حق ہے اور سید صاحب نے بھی اس کی تائید کی وہ یہ کہ برف میں سفیدی نہ ہونے کا انکار ہے اور اس کے ساتھ مزید یہ قول کہ ہوا کی روشنی شفاف اجزاء میں سفیدی پیدا کرنے کا ایک سبب ہے اگرچہ یہاں کوئی ایسا مزاج نہیں جس کے بعد رنگ پیدا ہوتا ہو ان دونوں نے کہا کہ یہ بات حکماء کے قول سے بعید نہیں ہے۔ (ت)


 (اقول ای السفھاء من بعض القدماء کماقدّم وتبعھم ابناسینا والھیثم کمافی طوالع الانوار وشرح التجرید) فی کون الضوء شرطا لحد وث الالوان کلھا فاذا اخرج المصباح مثلا عن البیت المظلم انتفی الوان الاشیئاء التی فیھا واذا اعیدت صارت ملونۃ بامثالھا لاستحالۃ اعادۃ المعدوم عندھم ولاشک ان ھذا ابعد من حدوث البیاض فی الاجزاء الشفافۃ بمخالطۃ الھواء من غیر مزاج ۱؎ اھ۔


 (میں کہتا ہوں کہ حکماء سے مراد قدماء میں سے بعض بیوقوف ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے جن کی پیروی ابن سینا اور ابن ہیثم نے کی ہے، جیسا کہ طوالع الانوار اور شرح تجرید ہے) یہ پیروی حکماء کے اس قول میں ہے جس میں حکماء نے تمام رنگوں کے پیدا ہونے میں روشنی کو شرط قرار دیا ہے مثلاً اگر رات کو اندھیرے میں کمرے سے چراغ کو نکال لیا جائے تو کمرے میں موجود تمام رنگ دار چیزوں کا رنگ ختم ہوجائےگا اور جب دوبارہ چراغ کو کمرے میں داخل کیا جائے تو کمرے کی چیزیں پہلے رنگوں کی ہم مثل رنگ دار ہوں گی، یہ اس لئے کہ ان کے نزدیک معدوم ہونے کے بعد کسی چیز کا اعادہ محال ہے (لہذا پہلا رنگ دوبارہ عود نہیں کرے گا بلکہ اس کی مثل نیا رنگ پیدا ہوگا) اور بےشک یہ بات شفاف اجزاء میں ہوا کے ملنے سے کسی مزاج کے بغیر سپید پیدا ہونے سے بھی زیادہ بعید ہے اھ۔ (ت)

اقول وقولھم(۱) مردود بحدیث(۲) البزار والحاکم وصححہ عن انس رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی(۳) صلی اللہ علیہ وسلم قال نار جہنم عــہ سوداء مظلمۃ ۱؎ وروی البیھقی فی البعث وابو القاسم الاصبھانی عنہ قال تلا رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھذہ الاٰیۃ وقودھا الناس والحجارۃ فقال اوقد علیھا الف عام حتی احمرت والف عام حتی ابیضت والف عام حتی اسودت فھی سوداء مظلمۃ لایضیئ لھبھا ۲؎


میں کہتا ہوں کہ اُن کا یہ قول مردود ہے ایک حدیث کی بنا پر جس کو بزار اور حاکم نے صحیح طور پر روایت کیا ہے وہ یہ کہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جہنم کی آگ انتہائی سیاہ ہے۔ اور بیہقی نے بعث میں روایت کیا جس کو ابو القاسم اصبہانی نے ان سے روایت کیا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے آیہ کریمہ وقودھا الناس والحجارۃ (جہنم کا ایندھن کافر لوگ اور پتّھر ہیں) تلاوت فرمائی اور اس پر آپ نے فرمایا کہ جہنم میں ایک ہزار سال آگ جلائی گئی تو سُرخ ہوئی پھر ایک ہزار سال حتی کہ سفید ہوئی پھر ایک ہزار سال حتی کہ سیاہ ہوگئی۔ پس جہنم کی آگ انتہائی سیاہ ہے جس کا شعلہ روشن نہ ہوگا۔


عــہ مسلمان کہ سرورِ ولادت اقدس حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں روشنی کرتے ہیں اُس کی بحث میں''براہین قاطعہ'' میں یہ(۱) عبارت مولوی گنگوہی کی ''جو روشنی زائد از حاجت ہے وہ نار جہنم کی روشنی دکھانے والی ہے'' محض جہل وگزاف اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو فرمائیں کہ وہ کالی رات کی طرح اندھیری ہے مگر اس کو اس میں روشنی سُوجھی۔ (م)


 (۱؎ شرح التجرید و طوالع الانوار )

 (۱؎ کشف الاستار عن زوائد البزار    کتاب صفۃ جہنم    موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۴/۱۸۰)

(۲؎ شعب الایمان        حدیث ۷۹۹    دار الکتب العلمیہ بیروت    ۱/۴۸۹)


و روی الترمذی وابن ماجۃ والبیھقی عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مثلہ وفی اٰخرہ فھی سوداء مظلمۃ کاللیل المظلم ۳؎ جعل الترمذی وقفہ اصح۔


اسی حدیث کو ترمذی، ابنِ ماجہ اور بیہقی نے ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا لیکن اس کے آخری جُملے میں ہے کہ وہ آگ انتہائی سیاہ جیسے اندھیری رات ہے ترمذی نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو اصح کہا ہے۔ (ت)


 (۳؎ جامع للترمذی        ابواب صفۃ جہنم    امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/۸۳

سنن ابن ماجہ        باب صفۃ النار    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۳۳۰)


اقول: والوقف فیہ کالرفع اذا لم یکن اٰخذ عن الاسرائیلیات فقد اثبت لھا اللون مع الظلمۃ وعدم الضوء فاذن(۲) جوابنا (خبر ۱۲) اظھر لثبوت بیاض الثلج حادث لم یکن فی الماء واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں کہ اس معاملہ میں یہ حدیث موقوف بھی مرفوع کی طرح ہے بشرطیکہ اسرائیلیات سے ماخوذ نہ ہو۔ اس حدیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جہنّم کی آگ کیلئے اندھیری اور روشن نہ ہونے کے باوجود رنگ کا اثبات فرمایا۔ پس اب برف کی سفیدی کے ثبوت کیلئے جو کہ پانی میں نہ تھا، ہمارا جواب واضح ہے (ت)


اور بعض نے  پانی کا رنگ سیاہ بتایا اور اس پر اس حدیث سے سند لائے کہ ام المومنین(۱) صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے فرمایا:


واللّٰہ یاابن اختی ان کنا لننظر الی الھلال ثم الھلال ثم الھلال ثلثۃ اھلۃ فی شھرین وما اوقد فی ابیات النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نار قلت یاخالۃ فما کان یعیشکم قالت الاسود ان التمر والماء ۱؎۔ رواہ الشیخان فی صحیحھما عن عروۃ عن ام المؤمنین رضی اللّٰہ عنھا۔


اے میرے بھانجے خدا کی قسم ہم ایک ہلال دیکھتے  پھر دوسرا تیسرا دو مہینوں میں تین چاند اور کاشانہ ہائے نبوت میں اگ روشن نہ ہوتی عروہ نے عرض کی اے خالہ پھر اہلِ بیت کرام مہینوں کیا کھاتے تھے؟ فرمایا: بس دو سیاہ چیزیں چھوہارے اور پانی (شیخین نے اپنی صحیحین میں عروہ سے ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت کیا۔ ت)


 (۱؎ صحیح للبخاری    کتاب الھبۃ        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۴۹)


اقول:  وقد کثر ذلک فی الاحادیث وکلام العرب ومنھا الحدیث المسلسل بالاضافۃ قال السفطی بعد ماذکر حدیث ام المومنین بلفظ کنا نمکث لیالی ذوات العدد لانوقد نارا فی حجر رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم وماھو الا الاسودان الماء والتمر اجیب بانھا رضی اللہ تعالی عنھا جعلت الماء اسود تغلیبات للتمر علی الماء لان التمر مطعوم والماء مشروب والمطعوم اشرف من المشروب اوان اٰنیۃ مائھم اذذاک کان یغلب علیھا السوادلکثرۃ دباغھا افاد جمیع ذلک شیخنا العیدروس و قررہ شیخنا  ایضا ومثلہ فی حاشیۃ شیخنا  الامیر وقال بعض شیوخنا ان لونہ اسود مستدلا بظاھر ھذا الحدیث لکن الاول ھو المتجہ فتأمل ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں کہ احادیث اور عربوں کے کلام میں یہ مضمون بکثرت موجود ہے، اسی سلسلہ میں ایک حدیث جو مسلسل بالاضافت ہے سفطی نے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ کہ ہم کئی راتیں بسر کرتے در انحالیکہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حجروں میں آ گ روشن نہ ہوتی اور (وہ خوراک) صرف دو سیاہ چیزیں پانی اور کھجور تھیں کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کھجور کو غالب قرار دے کر پانی کو سیاہ فرمایا کیونکہ کھجور خوراک ہے اور پانی مشروب ہے اور خوراک کو مشروب پر فضیلت ہونے کی وجہ سے کھجور کو پانی پر غلبہ ہے، یا اس لئے  پانی کو سیاہ فرمایا کہ اس وقت ان کے پانی والے برتن گہرے رنگ دار ہونے کی بنا پر غالب طور پر سیاہ ہوتے تھے اور کہا کہ یہ ساری بحث ہمیں شیخ عیدروس سے حاصل ہوئی اور اس کی ہمارے شیخ نے توثیق بھی کی اور اس طرح ہمارے شیخ امیر کے حاشیہ میں بھی اور ہمارے بعض شیوخ نے فرمایا کہ پانی کا رنگ سیاہ ہے انہوں نے اس حدیث کے ظاہر کو دلیل بنایا ہے۔ لیکن پہلی توجیہ ہی صحیح ہے غور کرو اھ (ت)


 (۱؎ حاشیۃ فاضل سفطی)


اقول: اولاً(۱) التغلیب تجوز(۲) فلایصار الیہ مالم یثبت ان الماء لاسواد لہ وثانیا(۳) التغلیب(۴) فی الاسماء کالعمرین والقمرین دون وصفین متضادین فیقال لجید و ردی جیدان وطویل وقصیر طویلان وعالم وجاھل عالمان وھل یستحسن لمن اکل لحما وشرب ماء ان یقول ماھما الا الاحمران اللحم والماء ومن تناول تمرا ولبنا یقول ماھما الا الاسودان التمر واللبن وثالثا قد(۵) قلتم ان الماء اذا وضع فی اناء اخضر فالخضرۃ لم تقم بالماء فکذلک سواد الشن ففیم التجوز بلادلیل۔


میں کہتا ہوں کہ اولاً تغلیب اگرچہ جائز ہے مگر جب تک کہ پانی کا سیاہ نہ ہو نا واضح نہ ہوجائے اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہے اور ثانیا تغلیب کا عمل ناموں (اسماء) جیسے قمرین (سورج اور چاند) اور عمرین (عمر فاروق اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما) میں جاری ہوتا ہے لیکن متضاد اوصاف میں جاری نہیں ہوتا تاکہ جیدان کہہ کر جیداور ردی مراد لیا جائے اور طویلان کہہ کر طویل اور چھوٹا مراد لیا جائے، اور عالمان کہہ کر عالم اور جاہل مراد لیا جائے۔ کیا گوشت کھانے اور پانی پینے والے کو یہ کہنا مناسب ہوگا وہ صرف احمران (دو سرخ) ہیں یا کھجور اور دُودھ تناول کرنے پر یہ کہنا مناسب ہوگا، وہ صرف اسودان (دو سیاہ) ہیں۔ اور ثالثاً تم نے خود کہا ہے کہ جب پانی سبز برتن میں رکھا جائے تو سبزی پانی کو نہیں لگتی پس اسی طرح مشکیزہ کا سیاہ رنگ ہو تو اس میں پانی کو کیونکر سیاہ کہا جاسکتا ہے بغیر دلیل مجاز کیسے ہوسکتا ہے۔ (ت)


اقول: حقیقت امر یہ ہے کہ پانی خالص سیاہ نہیں مگر اُس کا رنگ سپید نہیں میلا مائل بیک گونہ سواد خفیف ہے اور وہ صاف سپید چیزوں کے بمقابل آکر کھل جاتا ہے جیسا کہ ہم نے سفید کپڑے کا ایک حصہ دھونے اور دودھ میں پانی ملانے کی حالت بیان کی واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔


 (۷) علماء کو(۱) اس اجماع اعنی قول متیقن ناصالح نزاع کے بعد کہ سب پانیوں میں افضل وہ پانی ہے جو اُس بحر بے پایاں کرم ونعم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی انگشتانِ مبارک سے بارہا نکلا اور ہزاروں کو سیراب وطاہر کیا زمزم افضل ہے یا کوثر؟ شیخ الاسلام سراج الدین بلقینی شافعی نے فرمایا کہ زمزم افضل ہے کہ شبِ اسرا ملائکہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دِل مبارک اُس سے دھویا حالانکہ وہ آبِ کوثر لاسکتے تھے اور اللہ عزو جل نے ایسے مقام پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اختیار نہ فرمایا مگر افضل شمس نے اس میں سراج کا اتباع کیا فتاوٰی علامہ شمس الدین محمد رملی شافعی میں ہے:


افضل المیاہ مانبع من بین اصابعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم وقد قال البلقینی ان ماء زمزم افضل من الکوثر لان بہ غسل صدر النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولم یکن یغسل الابافضل المیاہ ۱؎ اھ


افضل ترین پانی وہ ہے جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی انگلیوں سے نکلا اور بلقینی نے فرمایا کہ زمزم کا پانی کوثر سے افضل ہے کیونکہ اس سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا سینہ مبارک دھویا گیا ہے اور اس کا دھونا افضل پانی سے ہی ہوسکتا تھا اھ (ت)


اس پر اعتراض ہوا کہ زمزم تو سیدنا اسمٰعیل علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوا اور کوثر ہمارے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تو لازم کہ کوثر ہی افضل ہو امام ابن حجر مکی نے جواب دیا کہ کلام دنیا میں ہے آخرت میں بےشک کوثر افضل ہے۔


 (۱؎ فتاوٰی علامہ شمس الدین رملی علی الفتاوی الکبری    کتاب الطہارۃ     دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۱۵)

اقول: تو یہ قول ثالث یا دونوں قولوں کی توفیق ہوا۔ فتاوٰی فقہیہ کی عبارت یہ ہے:


 (سئل) ایما افضل ماء زمزم اوالکوثر (فاجاب) قال شیخ الاسلام البلقینی ماء زمزم افضل لان الملٰئکۃ غسلوا بہ قلبہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حین شقوہ لیلۃ الاسراء مع قدرتھم علی ماء الکوثر فاختیارہ فی ھذا المقام دلیل علی افضلیتہ ولا یعارضہ  انہ عطیۃ اللّٰہ تعالٰی لاسمٰعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام والکوثر عطیۃ اللّٰہ تعالی لنبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لان الکلام فی عالم الدنیا لاالاٰخرۃ ولامریۃ ان الکوثر فی الاٰخرۃ من اعظم مزایا نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ومن ثم قال تعالٰی انا اعطینٰک الکوثر بنون العظمۃ الدالۃ علی ذلک وبما قررتہ علم الجواب عما اعترض بہ علی البلقینی ۱؎ اھ


آپ سے پُوچھا گیا کہ کیا آبِ زمزم افضل ہے یا کوثر؟ تو اس کے جواب میں فرمایا: شیخ الاسلام بلقینی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آبِ زمزم افضل ہے کیونکہ معراج کی رات اس سے فرشتوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قلبِ مبارک کو کھول کر غسل دیا، تو کوثر کے استعمال پر قدرت کے باوجود زمزم کو ترجیح دینا اس کی افضلیت کی دلیل ہے۔ زمزم کا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اور کوثر کا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی کی طرف سے عطیہ ہونا اس کو معارض نہیں کیونکہ کلام دنیاوی فضیلت میں ہے اور آخرت کے لحاظ سے بلاشبہ کوثر کو بہت بڑا اعزاز ہے جو ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے گا اسی لئے اللہ تعالٰی نے انا اعطینٰک الکوثر کو اپنے لئے منسوب فرمایا جس پر نون متکلم دلالت کرتا ہے اور یہ بڑی عظمت ہے، اور میری تقریر سے بلقینی پر وارد ہونے والے اعتراض کا جواب بھی معلوم ہوگیا اھ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی کبرٰی    کتاب الطہارۃ    دار الکتب العلمیہ بیروت    ۱/۲۵)


اس وقت اس مسئلہ پر کلام اپنے علما سے نظر فقیر میں نہیں اور وہ کہ فقیر کو ظاہر ہوا تفضیل کوثر ہے۔ 

فاقول وباللہ التوفیق الافضل معنیان الاکثر ثوابا وھو فی المکلفین من یثاب اکثر وفی الاعمال ماالثواب علیہ اکبر ولامدخل لھذین فی زمزم والکوثر وان اول بالتعاطی ای ماتعاطیہ اکثر ثوابا فالکوثر غیر مقدور لنا فلایتأتی التفاضل من ھذا الوجہ ایضا ولا معنی لان یقال ان ثوابہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان اکثر فی غسل الملٰئکۃ قلبہ الکریم باحدھما۔


پس میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے ہی توفیق حاصل ہے۔ افضل کے دو معنی ہیں، ایک ثواب کے لحاظ کثرت ہے یہ معنی انسانوں میں جس کو ثواب حاصل ہو، اور اعمال میں وہ عمل جس پر ثواب زیادہ مرتب ہو، اس معنی کی دونوں مذکورہ صورتیں زمزم اور کوثر میں نہیں پائی جاسکتیں اور اگر اس معنی کی یہاں یہ تاویل کی جائے کہ ان کے لین دین میں زیادہ ثواب ہے تو پھر کوثر میں یہ معنی نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ ہماری قدرت سے باہر ہے اسلئے دونوں میں افضلیت کا تقابل نہیں پایا جاسکتا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ فرشتوں کا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قلب مبارک کو دھونا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لئے زیادہ ثواب ہے۔ (ت)


فاذن لاکلام فیہ الابمعنی الاعظم شانا والارفع مکانا عنداللّٰہ تعالٰی و حینئذ(۱) لایتم استدلال الامام البلقینی رحمہ اللہ تعالٰی الا اذا احطنا بالحکم الا لٰھیۃ فی غسل قلبہ الکریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم وعلمنا انھما کان سواء فی تحصیلھا ثم اللّٰہ سبحنہ اختار ھذا فکان افضل اما ان یکون شیئ اوفق واصلح العمل من غیرہ فلایستلزم کونہ اجل قدرا واعظم فخرا منہ بالفضل الکلی علی انہ(۲) صلی اللہ تعالی علیہ(۳) وسلم لایتشرف بغیرہ بل الکل انما یتشرفون بہ واللہ(۴) تعالی یصیب برحمتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مایشاء من خلقہ لیرزقہ فضلا کما اختار لولادتہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم شھر ربیع الاول دون شھر رمضان ویوم الاثنین دون الجمعۃ ومکان مولدہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دون الکعبۃ  والفضل بیداللّٰہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل ۱؎ العظیم  اما جواب الامام ابن حجر فغایۃ مایظھر فی توجیھہ ان زمزم افضل فی الدنیا لانہ مقدورلنا فنثاب علیہ فیترتب علیہ الفضل لنا بخلاف الکوثر ان رزق اللہ تعالٰی منہ احدنا فی الدنیا فلفضل فیہ اولتفضل من المولی سبحنہ وتعالٰی فھو یترتب علی الفضل ومایورث الفضل افضل اما الاٰخرۃ فلیست دار عمل فیذھب ھنالک ھذا الوجہ ویظھر فضل الکوثر لانہ من اعظم مامن اللہ تعالٰی بہ علی نبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔


اب صرف افضل کے دوسرے معنی میں بات ہوسکتی ہے اور وہ عنداللہ عظمتِ شان اور رفعتِ مقام ہے اور اس معنی پر امام بلقینی کا استدلال تب ہی صحیح ہوسکتا ہے جب ہم حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قلب مبارک دھونے کے بارے میں اللہ تعالٰی کی حکمتوں کو پیشِ نظر رکھیں اور یہ معلوم کرلیں کہ ان کے حاصل کرنے میں دونوں پانی زمزم اور کوثر مساوی ہیں اس کے باوجود اللہ تعالٰی نے زمزم کو پسند فرمایا لہٰذا افضل ہوا، اس لئے کہ یہ اس کارروائی کیلئے زیادہ موافق اور زیادہ صلاحیت والا تھا، اس لحاظ سے زمزم کا قدر ومنزلت کے اعتبار سے کلی طور پر اعظم ہونا لازم نہیں آتا۔ علاوہ ازیں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو کسی دوسرے سے شرف حاصل نہیں ہُوا بلکہ دوسروں نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے شرف پایا ہے اللہ تعالٰی اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمت سے نوازتا ہے تاکہ اس کو فضیلت دے جیسا کہ آپ کی ولادت پاک کیلئے رمضان کی بجائے ربیع الاول کو اور جمعہ کی بجائے سوموار کے دن کو اور کعبہ کی بجائے آپ کی جائے ولادت کو مشرف فرمایا۔ فضیلت کا مالک اللہ تعالٰی ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے وہ بڑے فضل والا ہے۔ لیکن امام ابنِ حجر کا جواب فضیلت کی توجیہ میں بہت واضح ہے کہ زمزم دنیا میں افضل ہے کیونکہ وہ ہمارے زیر تصرف ہے اور ہمیں اس پر ثواب ملتا ہے جس سے ہمیں فضیلت میسر ہوتی ہے اور کوثر کا معاملہ اس کے خلاف ہے اگر دنیا میں کسی کو وہ نصیب ہوجائے تو وہ پانے والے کی فضیلت ہوگی یا اللہ تعالٰی کی طرف سے فضل ہوگا لامحالہ کوثر کسی فضیلت پر مرتب ہوگا، اور فضیلت دینے والا (زمزم) افضل ہوتا ہے، اور آخرت دارالعمل نہیں ہے تاکہ وہاں یہ وجہ پائی جائے اور وہاں کوثر کی فضیلت ظاہر ہوگی کیونکہ وہاں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پر انعامات سے یہ بڑا انعام ہوگا۔ (ت)


 (۱؎ القرآن    ۳/۷۳)


اقول: لو تم ھذا لکان کل ماء فی الدنیا افضل من الکوثر بعین الدلیل وھو کما تری بل الکلام کما(۱) علمت فی الارفع قدرا والاعظم فخرا وھذا لایختلف باختلاف الدار حتی یکون شیئ اجل قدرا عند اللہ تعالٰی من اٰخر فی الدنیا فاذا جاء ت الاٰخرۃ انعکس الامر کلا بل لا(۲) یظھر فی الاٰخرۃ الا ماھو عندہ تعالٰی ھھنا فما کان افضل فی الاٰخرۃ کان افضل فی نفسہ وماکان افضل فی نفسہ کان افضل حیث کان وقد اعترفتم ان الکوثر افضل فی الاٰخرۃ فوجب ان یکون لہ الفضل دنیا واخری کیف و زمزم(۳) من میاہ الدنیا وھو من میاہ الاٰخرۃ وللاٰخرۃ اکبر درجٰت واکبر تفضیلا ۱؎ وایضا ماؤہ(۴) من الجنۃ ۔


میں کہتا ہوں کہ اگر امام ابن حجر کی دلیل درست ہو تو اس سے لازم آئےگا کہ دنیا کے تمام پانی کوثر سے افضل ہوجائیں کیونکہ وہی دلیل یہاں پائی جاتی ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے بلکہ یہاں فضیلت قدر و فخر کی عظمت وبلندی مراد ہے اور فضیلت کا یہ معنی دنیا یا آخرت کے لحاظ سے نہیں بدلتا تاکہ دنیا میں ایک چیز دوسری کے مقابلہ میں عنداللہ بڑی قدر والی ہو اور جب آخرت برپا ہو تو معاملہ الٹ ہوجائے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ آخرت میں عنداللہ وہی چیز قدر ومنزلت والی ظاہر ہوگی جو یہاں دنیا میں بھی ایسی ہوگی۔ اور جو چیز آخرت میں افضل ہوگی وہ ہر جگہ افضل ہوگی اور جب آپ نے آخرت میں کوثر کے افضل ہونے کا اعتراف کرلیا تو ضروری ہے کہ وہ دنیا وآخرت دونوں میں افضل ہو، اور کیوں نہ ہو کہ زمزم دنیا کا پانی ہے اور کوثرآخرت کا پانی ہے اور آخرت کا درجہ اور فضیلت بڑی ہے، نیز کوثر کا پانی جنّت سے نکلتا ہے۔


 (۱؎ القرآن    ۱۷/۲۱)


قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یغثُّ فیہ میزابان یمد انہ من الجنۃ احدھما من ذھب والاٰخر من  ورق۱؎ رواہ مسلم عن ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ وقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الا ان سلعۃ اللّٰہ غالیۃ الا ان سلعۃ اللّٰہ الجنۃ ۲؎ ثم ھو انفع(۱) لامتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من شرب منہ لم یظمأ ابدا ولم یسود وجہہ ابدا وقد(۲) امتن اللہ سبحنہ بہ علی افضل انبیائہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکان افضل رزقنا المولی سبحنہ وتعالی الورود علیہ، والشرب منہ بید احب حبیب الیہ، صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ومجد وشرف وعظم وکرم، وعلی الہ الکرام، وصحبہ العظام، وابنہ الکریم وامتہ الکریمۃ خیر الامم، وعلینا بھم ولھم وفیھم ومعھم یامن من علینا بارسالہ وانعم، والحمد للہ رب العٰلمین حمدا یدوم بدوامہ الادوم، واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم، وعلمہ جل مجدہ اتم، وحکمہ عزشانہ احکم۔


حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کوثر میں دو میزاب (نالے) گرتے ہیں دونوں جنّت سے آکر گرتے ہیں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا ہے۔ اس حدیث کو حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مسلم نے روایت کیا ہے، اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا غور کرو اللہ تعالٰی کا سامان گراں قیمت والا ہے اور اللہ تعالٰی کا سامان جنّت ہے پھر کوثر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اُمت کیلئے وہاں زیادہ نفع مند ہے جو بھی اسے نوش کرے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا چہرہ کبھی سیاہ ہوگا، اور اللہ تعالٰی نے کوثر حضور افضل الانبیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر احسان فرمایا ہے لہذا کوثر ہی سب سے افضل ہے۔ دعا ہے ہمیں اللہ تعالٰی اپنے حبیب علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دستِ مبارک سے پلائے اور اس کوثر پر ورود ہمیں نصیب فرمائے۔ حضور پر اللہ تعالٰی کی رحمتیں، سلامتی، بزرگی، شرف وکرم نازل ہو اور آپ کی برگزیدہ آل پر اور بزرگو ارصحابہ پر اور آپ کے سخی صاحبزادے اور آپ کی بہترین اُمّت پر اور اُن کی معیت اور صدقے اور سبب سے ہم پر بھی، اے ہم پر اُن کو بھیج کر احسان فرمانے والے، الحمدللہ رب العٰلمین۔ (ت)


 (۱؎ صحیح للمسلم    کتاب الفضائل    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۲۵۱)

(۲؎ جامع للترمذی    باب من ابواب القیمۃ    امین کمپنی دہلی        ۲/۶۸)



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے