Music

header ads

نجس پانی دو تین گز بہنے سے یا ہوا لگنے سے پاک ہوجاتا ہے یہ کہیں مصرح ہے Najis Pani Do Teen Gaz Behne Se ya Hawa Lagne Se Paak Ho jata Hai

 مسئلہ ۳۹: مرسلہ شیخ ابراہیم صاحب مدرس مدرسہ فیض عام گردھر پور ضلع پنج محل ملک احمد آباد گجرات ۴جمادی الاولی ۱۳۳۲ ھ


نجس پانی دو تین گز بہنے سے یا ہوا لگنے سے پاک ہوجاتا ہے یہ کہیں مصرح ہے بینوا توجروا۔


الجواب: نجس پانی نہ ہوا لگنے سے پاک ہوسکتا ہے نہ خود بہنے سے، ہاں پاک پانی اگر بہتا ہوا آئے اور اسے بہا لیجائے تو پاک ہوجائیگا  فان الماء الجاری یطھر بعضہ بعضا واللّٰہ تعالٰی اعلم  (کیونکہ جاری پانی کا ایک حصہ دوسرے پانی کو پاک کردیتا ہے۔ ت)


مسئلہ ۴۰: ازموضع موہن پور تھانہ وڈاک خانہ دیورنیا مسئولہ محمد شاہ بروز شنبہ بتاریخ ۱۱ صفر المظفر ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ پانی مکروہ کس کس طرح سے ہوجاتا ہے بینوا توجروا۔


الجواب : عوام میں یہ مشہور ہے کہ بے وضو کا ناخن ڈوبنے سے پانی مکروہ ہوجاتا ہے اور مسئلہ ہے یوں کہ بے وضو کے اعضائے وضو میں جو کوئی بے دُھلا حصّہ سر کے سوا آبِ قلیل سے بے ضرورت مس کرے گا وہ پانی قابل وضو نہ رہے گا اور اس کا پینا مکروہ۔اسی طرح بلّی اور چھوٹی ہوئی مرغی اور حشرات الارض دموی جیسے سانپ، گرگٹ، چھپکلی، چُوہے، گھونس، چھچھوندر اور شکاری پرندوں جیسے باز، جرے، شکرے، بہری نیز چیل،کوّے اور ان کے امثال جانوروں کا جوٹھا بھی مکروہ ہے جو نجاست سے پرہیز نہیں کرتے جبکہ نہ بالفعل نجاست معلوم ہو جیسے بلّی نے اُسی وقت چوہا کھایا اور ہنوز اتنی دیر نہ گزری کہ لعاب سے لب و زبان صاف ہوجائے کہ اس صورت میں اُس کا جوٹھا مکروہ نہیں بلکہ نجس ہے نہ طہارت معلوم ہو جیسے بند مرغی کہ نجاست کے پاس جانے نہیں پاتی یا شکاری پرند جسے پاک گوشت کھلایا جاتا ہے اور مدت سے اُس نے شکار نہ کیا کہ اس صورت میں اس کاجوٹھا بلاکراہت پاک ہے نیز اجنبی عورت کا پیا ہوا پانی پینا مرد کو اور اجنبی مرد کا عورت کو بھی مکروہ ہے جبکہ مظنہ لذت نفسانی ہو نورالایضاح ومراقی الفلاح میں ہے:


الماء (طاھر مطھر مکروہ) استعمالہ تنزیھا علی الاصح وھو ماشرب منہ الھرۃ الاھلیۃ اذ الوحشیۃ سؤرھا نجس (ونحوھا) ای الاھلیۃ الدجاجۃ المخلاۃ وسباع الطیر والحیۃ والفأرۃ لانھا لاتتحامی عن النجاسۃ ۱؎۔


پانی (طاہر مطہر مکروہ ہے) اس کا استعمال مکروہ تنزیہی ہے،اصح یہی ہے ،یہ وہ پانی ہے جس سے بلّی نے پیا ہو یعنی پالتو بلّی نے،کیونکہ جنگلی بلّی کا پانی نجس ہے (اور اسی کی مثل) یعنی پالتو بلّی کی طرح کھُلی پھرنے والی مرغی، شکاری پرندے، سانپ اور چوہا کیونکہ وہ نجاست سے نہیں بچتی ہے۔ (ت)


 (۱؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارت    مطبع الامیر ببولاق مصر    ص۱۳)


حاشیہ طحطاویہ میں ہے:قولہ نجس ای اتفاقا لماورد السنور سبع فان المراد بہ البری ۲؎ اھ اس کا، قول نجس یعنی اس پر اتفاق ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ بلّی درندہ ہے، اس سے مراد جنگلی بلّی ہے اھ (ت)


 (۲؎ حاشیہ طحطاوی کتاب الطہارت    مطبع الامیر ببولاق مصر    ص۱۳)



اقول: ھذا عجب(۱) بل کان الکلام فی الاھلی کما فی الحدیث وقد بیناہ مع الکلام علیہ فی سلب الثلب نعم نجاستہ مصرح بھا فی جامع الرموز معزیا للکشف ونص فی الدر المختار انہ نجس مغلظ فالکلام فی التعلیل۔


میں کہتا ہوں یہ عجیب بات ہے گفتگو گھریلو بلّی میں تھی جیسا کہ حدیث میں ہے،ہم نے اس کو پوری بحث کے ساتھ ''سلب الثلب'' میں بیان کیا ہے، ہاں اس کی نجاست جامع الرموز میں مصرح ہے،اس کو کشف کی طرف منسوب کیا ہے، اور درمختار میں صراحت ہے کہ وہ نجاست غلیظہ ہے، تو گفتگو تعلیل میں ہے۔ (ت)


تین قسم کے پانی مکروہ ہوئے:

۱۔ مائے مستعمل یہ ہمیشہ مکروہ ہے،

۲۔ اور اجنبی کاجوٹھا، صرف بحالت لذّت،

۳۔ اور ان جانوروں کا جھوٹا جبکہ صاف پانی موجود ہو ورنہ نہیں۔


درمختار میں ہے: سؤرھرۃ ودجاجۃ مخلاۃ وسباع طیرلم یعلم ربھا طھارۃ منقارھا وسواکن بیوت طاھر مکروہ تنزیھا فی الاصح اذوجد غیرہ والالم یکرہ اصلا ۱؎۔


بلّی کا جھُوٹا، کھلی مرغی، پرندوں کے درندوں کا جوٹھا، جن کے بارے میں مالک کو معلوم نہیں کہ ان کی چونچ پاک ہے، گھر میں رہنے والے جانوروں (چوہا، چھپکلی وغیرہ) کا جوٹھا اصح قول کے مطابق مکروہ تنزیہی ہے یہ اس وقت ہے جبکہ دوسرا پانی موجود ہو ورنہ کراہت بھی نہ ہوگی۔ (ت)


 (۱؎ درمختار    فصل فے البئر    مجتبائی دہلی        ۱/۴۰)


جو جانور دموی نہیں یعنی خون سائل نہیں رکھتے خواہ حشرات الارض سے ہوں یا نہیں جیسے بچھو، مکھی، زنبور اور تمام دریائی جانور اُن کاجوٹھا مکروہ بھی نہیں۔ درمختار میں ہے :سؤر مالادم لہ طاھر طھور بلاکراھۃ ۲؎۔ جس جانور میں خُون نہ پایا جاتا ہو اس کا جُھوٹا بلاشبہ طاہر وطہور ہے بلاکراہت۔ (ت)


 (۲؎ درمختار    فصل فے البئر    مجتبائی دہلی        ۱/۴۰)


ردالمحتار میں ہے:سواء کان یعیش فی الماء اوفی غیرہ ط عن البحر ۳؎۔ عام ازیں کہ وہ پانی میں رہتا ہو یا نہ رہتا ہو، ط عن البحر۔ (ت)


 (۳؎ ردالمحتار  فصل فے البئر      مصطفی البابی مصر    ۱/۱۶۳)


اُسی میں زیرِ قول شارح وسواکن بیوت فرمایا۔ای ممالہ دم سائل کالفأرۃ والحیۃ والوزغۃ بخلاف مالادم لہ کالخنفس والصرصر والعقرب فانہ لایکرہ کمامرو تمامہ فی الامداد ۱؎ اھ۔


یعنی وہ جانور جن میں بہنے والا خون ہو جیسے چُوہا، سانپ، چھپکلی۔ بخلاف ان جانوروں کے جن میں خون نہ ہو جیسے خنفس (ہشت پا) صرصر (جھینگر، مجیرا) بچھّو، کیونکہ یہ مکروہ نہیں، جیسا کہ گزرا، اور مکمل بحث امداد میں ہے۔ ت


 (۱؎ ردالمحتار        فصل فے البئر    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۶۳)


اقول: فلایتجہ(۱) مازعم فی جامع الرموز من کراھۃ سؤر العقرب بالاتفاق ولم یعزہ لاحد واللّٰہ تعالی اعلم۔ میں کہتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ جامع الرموز میں ہے کہ بچھّو کا جُوٹھا مکروہ ہے بالاتفاق، اسکی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی، اس کو انہوں نے کسی کی طرف منسوب نہیں کیا واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے