Music

header ads

آبِ کثیر کے لئے جو مثل جاری نجاست قبول نہ کرے کتنا عمق درکار ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہاتھ سے پانی لینے میں زمین نہ کھُلے اس سے چُلّو مراد ہے یا لپ Aabe Kaseer Ke Aham Masail

 فتوٰی مسمّٰی بہ

ھبۃ الحبیر فی عمق ماء کثیر

ابرِ باراں کا عطیہ زیادہ پانی کی گہرائی میں (ت(

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

، نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم


مسئلہ ۵۴: ۴ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آبِ کثیر کے لئے جو مثل جاری نجاست قبول نہ کرے کتنا عمق درکار ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہاتھ سے پانی لینے میں زمین نہ کھُلے اس سے چُلّو مراد ہے یا لپ، بینّوا تو جّروا۔


الجواب

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم


اُس کے عُمق میں گیارہ قول ہیں:

)۱( کُچھ درکار نہیں صرف اتنا ہو کہ اُتنی مساحت میں زمین کہیں کھُلی نہ ہو۔

)۲( بڑا درہم کے ۰۴ ماشے ہوتا ہے اُس کے عرض سے کچھ زیادہ گہرا ہو۔

)۳( اُس میں سے پانی ہاتھ سے اُٹھائیں تو زمین کھُل نہ جائے۔

)۴( پانی لینے میں ہاتھ زمین کو نہ لگے۔

اقول یہ اپنے سابق سے زائد ہے کمالایخفی۔

)۵( ٹخنوں تک ہو۔

)۶( چار اُنگل کشادہ

اقول یہ تقریباً نو انگل یعنی تین گرہ ہوا۔

)۷( ایک بالشت

)۸( ایک ہاتھ

)۹( دو ہاتھ

)۱۰( سفید سکہ اس میں ڈال کر مرد کھڑے سے دیکھے تو روپیہ نظر نہ آئے۔

اقول: یعنی پانی کی کثرت سے نہ کہ اس کی کدرت سے۔

)۱۱( اپنی طرف سے کوئی تعیین نہیں ناظر کی رائے پر موقوف ہے۔

اقول: یعنی جو جتنے گہراؤ پر سمجھے کہ آبِ کثیر ہوگیا، اس کے حق میں وہ کثیر ہے دوسرا نہ سمجھے تو اس کیلئے قلیل ہے۔


اقول وھو غیر الاول فھو سلب التقدیر وھذا تفویضہ الٰی رأی المبتلی بہ وبالجملۃ فالاول حکم العدم وھذا عدم الحکم فانقلت انما التفویض فی ظاھر الروایۃ فی الطول والعرض اذبھما الخلوص وعدمہ وفیم یفوض الیہ النظر فی العمق۔


میں کہتا ہوں وہ اول کا غیر ہے تو وہ سلب تقدیر ہے، اور یہ اُسی شخص کی رائے کی طرف سپرد کرنا ہے جو اس میں مبتلا ہو، اور خلاصہ یہ ہے کہ پہلا حکمِ عدم ہے اور یہ عدم حکم ہے۔ تو اگر تم کہو کہ تفویض ظاہر روایت میں صرف طول و عرض میں ہے کیونکہ انہی دونوں سے خلوص اور عدمِ خلوص کا علم ہوتا ہے تو عمق میں اس کی رائے کی طرف کیونکر سپرد کیا جائے گا۔ (ت(


اقول اختلفوا فی معیار عدم الخلوص ھل ھو التحریک وھی الروایۃ المتفقۃ عن اصحابنا ام الصبغ وھو قول الامام ابی حفص الکبیر البخاری ام التکدیر وھو قول الامام ابی نصر محمد بن محمد بن سلام ام المساحۃ وھو قول الامام ابی سلیمٰن الجوزجانی الکل فی البدائع ولا شک ان التکدیر یختلف باختلاف العمق فلعل ھذا القائل قائل بھذا القول ففوضہ الی رای الناظر واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں عدمِ خلوص کے معیار میں اختلاف ہے کہ آیا وہ تحریک ہے اور یہی متفقہ روایت ہمارے اصحاب کی ہے، یا صرف رنگنا ہے اور یہی قول امام ابو حفص الکبیر بخاری کا ہے، یا گدلا کرنا ہے، اور یہ امام ابو نصر محمد بن محمد بن سلام کا ہے، یا مساحت ہے اور یہ امام ابو سلیمان الجوزجانی کا قول ہے۔ یہ تمام تفصیل بدائع میں ہے، اور اس میں شک نہیں کہ گدلا کرنا گہرائی کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے، اور غالباً یہ قائل اسی قول کی طرف۔مائل ہے اور اسی لئے انہوں نے اس معاملہ کو دیکھنے والوں کی رائے کی طرف سپرد کیا ہے۔ (ت(


ان میں قول سوم عامہ کتب میں ہے اور اوّل ودوم وہفتم وہشتم بدائع وتبیین وفتح میں نقل فرمائے اور چہارم خانیہ وغنیہ پنجم جامع الرموز ششم غنیہ نیز مثل نہم ویاز دہم قہستانی ونہم شرح نقایہ برجندی میں۔

ان میں صرف دو قول مصحح ہیں اوّل وسوم وبس۔


اما ما رأیت فی جواھر الاخلاطی من قولہ جمع الماء فی خندق لہ طول مثلا مائۃ ذراع وعرضہ ذراع اوذراعان فی جنس ھذہ المسألۃ اقوال فی قول یجوز التوضی منہ بغیر فصل وھو الماخوذ وفی قول لووقعت فیہ نجاسۃ یتنجس من طولہ عشرۃ اذرع وفی قول ان کان الماء مقدار مالوجعل فی حوض عرضہ عشرۃ فی عشرۃ ملیئ الحوض وصار عمقہ قدر شبر یجوز التوضی بہ والا فلا وھو الصحیح تیسیرا للامر علی الناس وقیل لایجوز التوضی فیہ وان کان من بخاری الی سمرقند ۱؎ اھ


جواہر الاخلاطی میں ہے کہ کسی شخص نے کسی خندق میں پانی جمع کیا جس کا طول سو ہاتھ اور چوڑائی ایک ہاتھ یا دو ہاتھ ہو، تو اس مسئلہ میں چند اقوال ہیں، ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے وضو مطلقاً جائز ہے اور یہی قول ماخوذ ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ اگر اس میں نجاست گر جائے تو وہ لمبائی میں دس ہاتھ ناپاک ہوگا، اور ایک قول یہ ہے کہ اگر اس میں اتنا پانی ہے کہ اگر اس کو ایک ایسے حوض میں کر لیا جائے جس کی چوڑائی دہ در دہ ہو تو حوض بھر جائے، اور اس کی گہرائی ایک بالشت ہو، تب تو اس سے وضو جائز ہے ورنہ نہیں اور یہی صحیح ہے کہ اس میں لوگوں پر آسانی ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے وضو جائز نہیں اگرچہ وہ بخارا سے سمرقند تک ہو اھ۔ (ت(


 (۱؎ جواہر الاخلاطی)


فاقول قولہ ھو الصحیح ناظر الی اعتبار المساحۃ وحدھا من دون اشتراط الامتدادین وبہ یوافق تصحیحہ الاول بقولہ ھو الماخوذ الی اشتراط عمق شبر والدلیل علیہ قول البرجندی،


میں کہتا ہوں ان کا قول ھو الصحیح صرف پیمائش کو دیکھتے ہوئے ہے، دونوں امتدادوں کی اس میں شرط نہیں، اور اسی کی وجہ سے یہ ان کی پہلی تصحیح کے مطابق ہوجائیگا، وہ فرماتے ہیں یہی ماخوذ ہے، اس میں ایک بالشت کی گہرائی کی شرط نہیں اور اس کی دلیل برجندی کا قول ہے


قال الامام ابو بکر الطرخانی اذ الم یکن لہ عرض صالح وکان طولہ من بخارٰی الی سمرقند لایجوز التوضی منہ وقال محمد بن ابرھیم المیدانی ان کان بحال لوجمع ماؤہ یصیر عشرا فی عشرو صار عمقہ بقدر شبرجاز التوضی بہ الکل فی الفتاوی الظھیریۃ وذکر فی الخلاصۃ ان الفقیہ ابا اللیث اخذ بہ وعلیہ اعتماد الصدر الشھید وفی الملتقط انکان عرض الغدیر ذراعین وبلغ طولہ فی عرضہ عشرا فی عشر فبال فیہ انسان فالماء طاھر ۱؎ اھ


''امام ابو بکر طرخانی نے فرمایا جب اس کی چوڑائی مناسب نہ ہو اور اس کی لمبائی خواہ بخاریٰ سے سمرقند تک ہو تو اُس سے وضو جائز نہیں''۔ اور محمد بن ابراہیم میدانی نے فرمایا اگر حوض اتنا بڑا ہو کہ اگر اس کا پانی اکٹھا کیا جائے تو وہ دہ در دہ ہوجائے اور اس کی گہرائی بقدر ایک بالشت ہو تو اس سے وضو جائز ہے، یہ سب فتاوٰی ظہیریہ سے ماخوذ ہے، اور خلاصہ میں ذکر کیا کہ فقیہ ابو اللیث نے اسی کو اختیار کیا ہے اور اسی پر صدر الشہید کا اعتماد ہے، اور ملتقط میں ہے کہ اگر تالاب کی چوڑائی دو ہاتھ ہو اور اس کی لمبائی چوڑائی میں دہ در دہ ہو اور اس میں کوئی انسان پیشاب کردے تو پانی پاک ہے اھ


 (۱؎ نقایۃ برجندی    کتاب الطہارت    نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۳)


فانما الضمیر فی قول اخذ بہ وقولہ علیہ اعتماد الی اعتبار المساحۃ ولو بالجمع والا لم تکن الحوالۃ رائجۃ لان عبارۃ الخلاصۃ فی جنس فی النھر ھکذا ان کان الماء لہ طول وعمق ولیس لہ عرض کانھار بلخ ان کان بحال لوجمع یصیر عشرا فی عشر یجوز التوضی بہ وھذا قول ابی سلیمان الجوزجانی وبہ اخذا لفقیہ ابو اللیث وعلیہ اعتماد الصدر الشھید وقال الامام ابوبکر الطرخانی لایجوز وان کان من ھنا الی سمرقند ۲؎ اھ


اور ضمیران کے قول اخذ بہ اور علیہ میں اعتبار مساحت کی طرف راجع ہے اگرچہ جمع کے اعتبار سے ہو ورنہ تو حوالہ رائج نہ ہوتا کیونکہ خلاصہ کی عبارت جنس فی النھر میں اس طرح ہے کہ اگر پانی کیلئے لمبائی گہرائی ہو اور چوڑائی نہ ہو جیسے بلخ کی نہریں، ان میں کا پانی اگر جمع کر لیا جائے تو وہ دہ در دہ ہوجائے تو اُس سے وضو جائز ہے اور یہ ابو سلیمان الجوزجانی کا قول ہے اور فقیہ ابو اللیث نے اسی کو اختیار کیا ہے اور اسی پر صدر الشہید کا اعتماد ہے، اور امام ابو بکر الطرخانی نے فرمایا جائز نہیں اگرچہ یہاں سے سمرقند تک ہو اھ


 (۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی    جنس فی الانہار  نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)


فلیس فیہ ذکر العمق اصلا فضلا عن تقدیرہ بشبر کیف والامام الجوزجانی اٰخذ فی العمق بالقول الاول وھو نفی التقدیر رأسا قال فی البدائع اما العمق فھل یشترط مع الطول والعرض عن ابی سلیمان الجوزجانی انہ قال ان اصحابنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اعتبروا البسط دون العمق ۱؎ اھ فالمیدانی اخذ بقولہ فی اعتبار المساحۃ دون الامتدادین وزاد من عند نفسہ قدر العمق فنقلاہ فی الجواھر وشرح النقایۃ وذکرا تصحیحہ باعتبار اصلہ مع قطع النظر عن الزیادۃ لان المحل محل الخلافیۃ الاصل لاخلافیۃ العمق واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اس میں گہرائی کا سرے سے کوئی ذکر نہیں۔ چہ جائیکہ ایک بالشت کے اندازے کا ذکر ہو پھر امام جوزجانی نے گہرائی کے بابت پہلا قول ہی اختیار کیا ہے، جس میں اندازہ کو مطلقاً ترک کیا گیا ہے، بدائع میں فرمایا کہ گہرائی کی بابت سوال یہ ہے کہ اس کو طول وعرض کے ساتھ مشروط کیا جائے گا، ابو سلیمان الجوزجانی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہمارے اصحاب نے چوڑائی کا اعتبار کیا ہے گہرائی کا نہیں، اھ تو میدانی نے پیمائش میں ان کے قول کو لیا ہے نہ کہ دو امتدادوں میں اور اپنی طرف سے انہوں نے گہرائی کی مقدار کا اضافہ کیا، تو ان دونوں نے اس کو جواہر اور شرح نقایہ میں ذکر کیا اور ان دونوں نے اس کی تصحیح اصل کے اعتبار سے کی ہے اور زیادتی سے قطع نظر کیا ہے، کیونکہ یہ محل ہے جس کے اصل میں اختلاف ہے نہ کہ جس کے عمق میں اختلاف ہے واللہ اعلم۔ (ت(


 (۱؎ بدائع الصنائع    المقدار الذی یصیربہ المحل نجساً    ایچ۔ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۳)



قول اول کی تصحیح امام زیلعی نے فرمائی:

قال فی التبیین والصحیح اذا اخذ الماء وجہ الارض یکفی ولا تقدیر فیہ فی ظاھر الروایۃ ۲؎۔


تبیین میں فرمایا صحیح یہ ہے کہ جب زمین کی سطح پر پانی پھیل جائے تو وہ کافی ہے ظاہر الروایۃ میں کسی مقدار کا ذکر نہیں۔ (ت(


 (۲؎ تبیین الحقائق    بحث عشر فی عشر        ببولاق مصر        ۱/۲۲)

بحرالرائق میں ہے:ھو الاوجہ لما عرف من اصل ابی حنیفۃ ۳؎۔ یہی اوجہ ہے جیسا کہ ابو حنیفہ کی اصل سے معلوم ہوا۔ (ت(


 (۳؎ بحرالرائق          بحث عشر فی عشر             ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۷)


محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اس تصحیح کی تضعیف کی فقال قیل والصحیح اذا اخذالماء الخ ۱؎  (وہ فرماتے ہیں کہ بعض نے کہا صحیح یہ ہے کہ جب پانی لے الخ۔ ت(


 (۱؎ فتح القدیر    بحث عشر فی عشر    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۷۱)


اقول یہاں دو نظریں ہیں ایک بظاہر قوی اس قول کی تزییف میں دوسری کمال ضعیف اس کی تایید میں اور شاید اسی لئے امام ابن الہمام نے اس تصحیح کو ضعیف کیا مگر نظر دقیق اس کی قوت پر حاکم وباللہ التوفیق


اما التائید فلعل زاعما یزعم ان الکثیر قدالحق بالجاری فی کل حکم کما حققہ فی الفتح والجاری لاتقدیر فیہ للعمق کما دلت علیہ فروع کثیرۃ منھا مسألۃ المطر النازل علی سطح فیہ نجاسات فکذا ھھنا۔


اور جہاں تک تائید کا تعلق ہے شاید کوئی گمان کرنے والا گمان کرے کہ کثیر کو جاری کے حکم میں کیا گیا ہے تمام احکام میں، جیسا کہ اس کی تحقیق فتح میں ہے اور جاری کی گہرائی میں کوئی مقدار نہیں ہے، اور اس پر فروع کثیرہ دلالت کرتی ہیں ایک فرع ان میں سے یہ ہے کہ بارش چھت پر ہو اور وہاں مختلف نجاستیں ہوں تو یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ (ت(


اقول ھب ان الکثیر ملحق بالجاری فی جمیع الاحکام لکن الکلام انہ متی یکون کثیرا فلا یمکن الالحاق قبل اثبات ان الکثرۃ لاتحتاج الی العمق الا تری ان الجاری لاتقدیر فیہ بشیئ من الطول ولا العرض کما دلت علیہ فروع جمۃ ذکرناھا فی رحب الساحۃ منھا الماء النازل من الابریق علی ید المستنجی قبل وصولہ الیھا ولا یلزم منہ عدم التقدیر بھما ھھنا ایضا فکذا العمق واللّٰہ تعالی اعلم۔


میں کہتاہوں مان لیا کہ کثیر تمام احکام میں جاری کے ساتھ ملحق ہے لیکن اصل گفتگو تو اس میں ہے کہ وہ کب کثیر ہوگا تو اس کو اس کے ساتھ ملحق کرنا اس وقت تک درست نہ ہوگا جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ کثرت گہرائی کی محتاج نہیں، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جاری میں طول وعرض کا کوئی اندازہ نہیں، اس پر بہت سی فروع دلالت کرتی ہیں جن کا ذکر ہم نے رحب الساحۃ میں کیا، ایک فرع یہ ہے کہ لوٹے سے پانی استنجاء کرنے والے کے ہاتھ پر گرے اس تک پہنچنے سے قبل اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان دونوں کا اندازہ نہ ہو یہاں بھی، تو عمق کا بھی یہی حال ہے واللہ تعالٰی اعلم۔


واما التزییف ففی الراکد الکثیر قولان معتمدان الاول ظاھر الروایۃ وھو اعتبار عدم الخلوص ظنا وتفویضہ الی رأی المبتلی بہ من دون تقدیر بشیئ ومعرّف ذلک التحریک عند ائمتنا الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھم وھو بالتوضی علی الاصح والثانی معتمد عامۃ المتأخرین وعلیہ الفتوی وھو التقدیر بعشر فی عشراعنی مساحۃ مائۃ علی الصحیح فعدم التقدیر الموافقُ لاصل الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ انما ھو علی الروایۃ الاولی اما الاٰن فالکلام علی تقدیر التقدیر فکیف یلاحظ فیہ اصل عدم التقدیر کما فعل البحرام کیف یراعی فیہ ظاھر الروایۃ کما فعل الامام الفخر ونفس العشر فی عشر لیست فی ظاھر الروایۃ۔


اور تزییف کا بیان یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں دو۲ معتمد قول ہیں پہلا ظاہر الروایۃ ہے اور وہ بطور گمان عدم خلوص کا اعتبار ہے اور اس میں کوئی مقدار نہیں بلکہ جو اس میں مبتلی ہے اس کی رائے پر چھوڑا گیا ہے اور اس کی پہچان ہمارے ائمہ ثلثہ کے نزدیک حرکت دینا ہے اور یہ حرکت اصح قول کے مطابق وضو سے ہوگی، اور دوسرا قول عام متأخرین کا مختار ہے اور اسی پر فتوٰی ہے، اور اس سے مراد دہ در دہ کی مقدار ہے، یعنی سو ہاتھ کی پیمائش صحیح قول پر ہے، اور اندازہ نہ ہونا جو امام کی اصل کے مطابق ہے وہ پہلی روایت کے مطابق ہے، اور اب گفتگو مقدار کی تقدیر پر ہے تو اس میں عدم تقدیر کی اصل کا لحاظ کیسے ہوگا جیسا کہ بحر نے کیا ہے یا اس میں ظاہر الروایۃ کی رعایت کیسے ہوگی؟ جیسا کہ امام فخر نے کیا ہے جبکہ دَہ در دہ ظاہر روایۃ میں کوئی قول نہیں۔ (ت(


اقول والتحقیق(۱) عندی ان التقدیر بعشر فی عشر لیس حکما منحازا برأسہ فیحتاج(۲) الی ابداء اصل لہ کما تجشمہ الامام صدر الشریعۃ ویطعن(۳) فیہ بانہ لایرجع الی اصل فی الشرع کما قالہ فی البحر وتبعہ فی الدر ویرد بمخالفتہ لقول الامام المصحح من کثیرین اعلام کما یتوھم بل ھو تقدیر منھم رحمنا اللّٰہ تعالی بھم لما فی ظاھر الروایۃ من عدم الخلوص وجدوا ھذا القدر لایخلص فحکموا بہ


میں کہتاہوں میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ دہ در دہ کا اندازہ مستقل حکم نہیں ہے کہ اس کیلئے کوئی اصل تلاش کرنا ہو، جیسا کہ صدر الشریعۃ نے اس کی کوشش کی ہے، اور  اس پر یہ اعتراض کہ یہ چیز شریعت کی کسی اصل پر متفرع نہیں، جیسا کہ بحر میں فرمایا اور دُر نے اس کی متابعت کی اور اس کو اس بنا پر رد کر دیا جائے کہ یہ قول اکثر علماء کے مطابق امام کے صحیح قول کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے جیسا کہ وہم ہوتا ہے بلکہ یہ اُن کی طرف سے اندازہ ہے، کیونکہ ظاہر روا یۃ میں عدم خلوص ہے اور اس مقدار میں انہوں نے خلوص نہ پایا تو انہوں نے اس پر یہ حکم لگایا۔


قال فی البدائع ذکر ابوداؤد لایکاد یصح لواحد من الفریقین حدیث عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی تقدیر الماء ولہذا رجع اصحابنا فی التقدیر الی الدلائل الحسیۃ دون السمعیۃ ثم اختلفوا فی تفسیر الخلوص فاتفقت الروایات عن اصحابنا انہ یعتبر بالتحریک وابو حفص الکبیر اعتبر الخلوص بالصبغ وابو نصر بالتکدیر والجوزجانی بالمساحۃ فقال ان کان عشرا فی عشر فھو مما لایخلص وان کان دونہ فھو مما یخلص ۱؎ اھ ۔فقد جعل ھذا تفسیر الما فی المذھب وقال فی الغنیۃ تحت قولہ الحوض اذا کان عشرا فی عشر المقصود من ھذا التقدیر حصول غلبۃ الظن بعدم خلوص النجاسۃ ۲؎ اھ۔


بدائع میں فرمایا ابو داؤد نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث جو پانی کے اندازہ سے متعلق ہے فریقین میں سے کسی کیلئے کوئی حدیث صحیح نہیں، اور اسی لئے ہمارے اصحاب نے اندازہ میں دلائل حسّیہ کی طرف رجوع کیا نہ کہ سمعیۃ کی طرف اب خلوص کی تفسیر میں اختلاف ہے تو ہمارے اصحاب کی متفقہ روایت میں ہلانے کا اعتبار ہے اور ابو حفص کبیر نے خلوص رنگنے کو کہا اور ابو نصر نے گدلا ہونے کو کہا اور جوزجانی نے پیمائش کو کہا، فرمایا کہ اگر وہ دہ در دہ ہو تو اس میں خلوص نہیں اور اگر اس سے کم ہے تو اس میں خلوص ہے اھ انہوں نے یہ مذہب کی تفسیر بنائی ہے غنیہ میں مصنف کے قول الحوض اذا کان عشر فی عشر کے تحت ہے کہ اس تقدیر سے مقصود نجاست کے عدم خلوص کی بابت ظن غالب کا حصول ہے اھ


 (۱؎ بدائع الصنائع    فصل فی بیان المقدار    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    )

(۲؎ غنیۃ المستملی    فصل فی احکام الحیاض    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۸)


فاذا کان ھذا تفسیر مافی ظاھر الروایۃ وجبت رعایتھا فیہ وبقی عمقہ علی اصل الامام لان ھذا انما ھو تقدیر ما لایخلص وما لایخلص لم یعتبر فیہ عمق فی ظاھر الروایۃ فلا داعی الی اعتبارہ ھنا اللھم الا ان یثبت ان للعمق مدخلا فی خلوص الحرکۃ وعدمہ ایضا فح یقال ان ظاھر الروایۃ حیث احالت الامر علیہ ارسلت الامتدادات ارسالا وکان ذلک الواجب حینئذ اما انتم فقدرتم الامتدادین ولیس ان کل عمق بعدھما سواء فیجب علیکم تقدیر عمق لایقبل معہ الامتدادان الخلوص فافہم۔


اور جب یہ ظاہر روایت کی تفسیر ہے تو اس کی رعایت اس میں لازم ہے، اور امام کی اصل کے مطابق عمق باقی رہا کیونکہ یہ اسکی تقدیر ہے جس میں خلوص نہ ہو اور جس میں خلوص نہ ہو ظاھر الروایۃ کے مطابق اس میں عمق معتبر نہیں، تو یہاں اس کے اعتبار کی کوئی وجہ نہیں، ہاں اگر عُمق کا دخل خلوص حرکت اور عدمِ خلوص میں ثابت کردیا جائے، تو اُس وقت کہا جائیگا کہ ظاہر روایت نے جہاں معاملہ کا دارومدار اس پر رکھا ہے تو امتدادات کو مطلق رکھا ہے اور اس وقت یہی لازم تھااور تم نے دونوں امتدادوں کی تقدیر کی ہے اور ان دونوں کے بعد ہر عمق برابر نہیں تو تم پر لازم ہے کہ ایک ایسے عمق کی تقدیر کرو کہ  اس کے ہوتے ہوئے دونوں امتداد خلوص کو قبول نہ کریں۔ فافہم،


وح لایضاد القول الحادی عشر للقول الاول اذ ترک التقدیر فی ظاھر الروایۃ لایکون اذن لنفیہ بل لعدم تعینہ واختلافہ باختلاف الامتدادات فیصح التفویض الی رأی الناظر لکنہ شیئ یحتاج الی ثبت ودونہ خرط القتاد بل یدفعہ ان لوکان کذلک لم یصح تعیین عشر فی عشر فانہ یختلف الامتدادان المانعان للخلوص علی ھذا باختلاف الاعماق فکیف یجوز التحدید علی شیئ منھا وھو عود علی المقصود بالنقض فترجح ان الاوجہ ھو ظاھر الروایۃ بل ھی الوجہ ھذا ماعندی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اس صورت میں گیارھواں قول پہلے قول کی ضد نہ ہوگا کہ ظاہر روایت میں تقدیر کا ترک کرنا اس کی نفی کیلئے نہ ہوگا بلکہ اس کی عدمِ تعیین کیلئے ہوگا اور اس کا اختلاف امتدادات کے اختلاف کی وجہ سے ہوگا تو دیکھنے والے کی رائے کی طرف اس کو سپرد کرنا صحیح ہوگا، مگر یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو دلیل کی ضرورت ہے حالانکہ اس کی دلیل مشکل ہے بلکہ اس کا رَد یہ ہے کہ اگر بات یہی ہوتی تو دہ در دہ کی تعیین صحیح نہ ہوئی، کیونکہ جو دو امتداد خلوص کے مانع ہیں اس بنا پر گہرائیوں کے اختلاف سے مختلف ہونگے تو ان میں سے کسی ایک کی تحدید کیونکر درست ہوگی اور یہ تو نقض کے سبب مقصود کی طرف عود کرنا ہے تو راجح یہی قرار پایا کہ ظاہر روایت ہی درست ہے بلکہ صرف ایک یہی وجہ ہے ھذا ماعندی الخ (ت(


اس قول کی تصحیح امام زیلعی کے سوا دوسرے سے نظر میں نہیں: اما ما فی البحر فی البدائع اذا اخذ ای الماء وجہ الارض یکفی ولا تقدیر فیہ فی ظاھر الروایۃ وھو الصحیح ۱؎ اھ اور جو بحر میں ہے کہ بدائع میں ہے جب پانی زمین کی سطح کو چھپا دے یہ اس کیلئے کافی ہے اور ظاہر الروایۃ میں کوئی تقدیر متعین نہیں، اور یہی صحیح ہے۔ (ت(


 (۱؎ بحرالرائق    بحث عشر فی عشر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۷)


فاقول ھذا کما تری کلام التبیین ولیس فی البدائع انما ذکر فیہ عن الجوزجانی ماتقدم ثم قال وعن الفقیہ ابی جعفرالھندوانی ان کان بحال لورفع انسان الماء بکفیہ انحسرا سفلہ ثم اتصل لایتوضؤ ۱؎ بہ ثم ذکر الزیادۃ علی عرض الدرھم والشبر والذراع ولم یصحح شیئا منھا نعم قال قبلہ فی الماء الجاری اختلف المشائخ فی حد الجریان قال بعضھم ھو ان یجری بالتبن والورق وقال بعضھم ان کان بحیث لووضع رجل یدہ فی الماء عرضا لم ینقطع جریانہ فھو جار والا فلا،


ہندوانی کہتے ہیں کہ اگر پانی ایسا ہے کہ آدمی اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے تو اس کی تہ کھل جائے پھر جُڑ جائے تو اُس سے وضو نہیں ہوسکتا ہے، پھر درہم، بالشت اور ایک ہاتھ سے زائد کی چوڑائی کا ذکر کیا اور ان میں سے کسی کی تصحیح کا ذکر نہیں کیا ہاں اس سے قبل جاری پانی کی بابت کہا کہ مشائخ کا حدِ جریان میں اختلاف ہے بعض نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ پانی میں چوڑائی میں ڈالے تو پانی کا جاری رہنا ختم نہ ہو تو وہ جاری ہے ورنہ نہیں (بعض نے فرمایا کہ اگر اس پانی میں کوئی تنکا ڈالا جائے یا پتّہ ڈالا جائے تو بہا لے جائے) ،


 (۱؎ بدائع الصنائع    فصل فی بیان المقدار    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۳)

وروی عن ابی یوسف ان کان بحال لواغترف انسان الماء بکفیہ لم ینحسر وجہ الارض بالاغتراف فھو جار والا فلا وقیل مایعدہ الناس جاریا فھو جار وما لا فلا وھو اصح الاقاویل ۲؎ اھ فقد افاد تصحیح(۱) عدم التقدیر بعمق لکنہ فی الجاری وھو کذٰلک فیہ بلاشک والکلام ھھنا فی الراکد الکثیر


اور ابو یوسف سے مروی ہے کہ وہ ایسا پانی ہو کہ اگر کوئی شخص اس میں سے چُلّو بھر کر پانی لے تو زمین کھلنے نہ پائے، ایسا پانی جاری ہے ورنہ نہیں، ایک قول ہے کہ جس کو لوگ جاری سمجھیں وہ جاری ہے اور جس کو جاری نہ سمجھیں وہ جاری نہیں اور سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے اھ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے گہرائی کا تعین نہیں فرمایا، لیکن یہ جاری پانی میں ہے اور اس میں شک نہیں، اور گفتگو یہاں ٹھہرے ہوئے کثیر پانی میں ہے۔


 (۲؎ بدائع الصنائع    فصل فی بیان المقدار    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی       ۱/۷۱)


اما قول البحر ھو الاوجہ فاقول ھو رحمہ اللّٰہ تعالٰی مع علو کعبہ الرجیح، لیس من ارباب الترجیح، کما یعرفہ من رزق حظا من النظر الصحیح، وخدمۃ ھذا الفن یفکر نجیح، وقال سیدی محمد بن عابدین رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی شرح منظومۃ عقود رسم المفتی بعد مانقل عن البحر فیما نقلوا عن اصحابنا انہ لایحل لاحدان یفتی بقولنا حتی یعلم من این قلنا ان ھذا الشرط کان فی زمانھم اما فی زماننا فیکتفی بالحفظ کما فی القنیۃ وغیرھا فیحل الافتاء بقول الامام بل یجب وان لم نعلم من این قال فینتج من ھذا انہ یجب علینا الافتاء بقول الامام وان افتی المشائخ بخلافہ ۱؎ اھ


لیکن بحر کا قول معقول تر ہے، میں کہتا ہوں وہ بلندی مقام کے باوجود اصحابِ ترجیح سے نہیں ہیں جیسا کہ صاحبِ نظر اور فن کا ماہر جانتا ہے، ابن عابدین نے اپنی منظوم کی شرح عقود رسم المفتی میں بحر سے نقل کے بعد جو اصحاب سے نقل کیا وہ یہ کہ کسی شخص کیلئے یہ حلال نہیں کہ وہ ہمارے قول پر فتوٰی دے تاوقتیکہ اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے کہاں سے یہ قول لیا، اس کے بعد فرمایا یہ اُن کے زمانہ میں تھا، مگر ہمارے زمانہ میں صرف یاد پر اکتفاء کرنا کافی ہے، جیسا کہ قنیہ وغیرہا میں ہے تو امام کے قول پر فتوٰی حلال ہے بلکہ واجب ہے خواہ یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے کہاں سے یہ قول لیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پر قول امام پر فتوٰی دینا واجب ہے خواہ یہ قولِ مشائخ کے خلاف ہو اھ


 (۱؎ شرح المنظومۃ المسماۃ بعقود رسم المفتی من رسائل ابن عابدین     سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/۲۸)


مانصہ یؤخذ من قول صاحب البحر یجب علینا الافتاء بقول الامام الخ انہ نفسہ لیس من اھل النظر فی الدلیل فاذ اصحح قولا مخالفا لتصحیح غیرہ لایعتبر فضلا عن الاستنباط والتخریج علی القواعد خلافا لما ذکرہ البیری عند قول صاحب البحر فی کتابہ الاشباہ النوع الاول معرفۃ القواعد التی تردُّ الیھا وفرعوا الاحکام علیھا وھی اصول الفقہ فی الحقیقۃ وبھا یرتقی الفقیہ الی درجۃ الاجتھاد ولوفی الفتوٰی واکثر فروعہ ظفرت بہ ۲؎ الخ فقال البیری بعد ان عرف المجتھد فی المذھب بما قدمناہ عنہ۔


صاحبِ بحر کا قول یہ ہے ''ہم پر قول امام پر فتوٰی واجب ہے الخ وہ خود دلیل میں غور وفکر کی اہلیت نہیں رکھتے، اب اگر وہ کسی قول کی تصحیح کریں جو غیر کی تصحیح کے خلاف ہو تو اعتبار نہ ہوگا چہ جائیکہ استنباط وتخریج جو قواعد کے مطابق ہو، بیری نے اس کے خلاف کیا ہے، یہ صاحب بحر کے اس قول کے پاس ہے جہاں وہ اپنی کتاب "الاشباہ" میں فرماتے ہیں، پہلی قسم اُن قواعد کی معرفت میں جن پر فقہاء نے احکام متفرع کئے ہیں، اور یہی حقیقۃ میں اصولِ فقہ ہیں، اور ان کے ذریعہ فقیہ درجہ اجتہاد تک پہنچتا ہے خواہ یہ اجتہاد فتوٰی میں ہو، اور اُس کی اکثر فروع پر مجھے کامیابی ہوئی ہے الخ بیری نے مجتہد فی المذہب کی تعریف کی جو ہم نے بیان کی


 (۲؎ الاشباہ والنظائر    بکون ہذا النوع الثانی منہا        ادارۃ القرآن کراچی    ۱/۱۵)


وفی ھذا اشارۃ الی ان المؤلف قدبلغ ھذہ المرتبۃ فی الفتوٰی وزیادۃ وھو فی الحقیقۃ قد من اللّٰہ تعالٰی علیہ بالاطلاع علی خبایا الزوایا وکان من جملۃ الحفاظ المطلعین انتھی اذ لایخفی ان ظفرہ باکثر فروع ھذا النوع لایلزم منہ ان یکون لہ اھلیۃ النظر فی الادلۃ التی دل کلامہ فی البحر علی انھا لم تحصل لہ وعلی انھا شرط الاجتھاد فی المذھب فتأمل ۱؎ اھ


پھر فرمایا کہ اس میں اشارہ ہے کہ مصنف فتوی میں خود اس مرتبہ پر فائز ہے، بلکہ اس سے زیادہ ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ان کو اسرار و رموز پر مطلع فرمایا تھا اور وہ حفاظ میں سے تھے انتہی، یہ مخفی نہ رہے کہ اُن کا اس کی اکثر فروع پر مطلع ہونا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ صاحبِ فکر ونظر بھی ہیں کہ یہ مقام ان کو حاصل نہیں، یہ مجتہد فی المذہب کی شرائط ہیں فتأمل اھ (ت(


 (۱؎ بیری زادہ)


اقول ای بالمعنی الذی عرفہ بل بیری زادہ شاملا للمجتھد فی المسائل واھل التخریج والمجتھد فی الفتوی حیث قال(۱) المجتھد فی المذھب عرف بانہ المتمکن من تخریج الوجوہ علی منصوص امامہ والمتبحر فی مذھب امامہ المتمکن من ترجیح قول لہ علی اٰخر ۲؎ اھ لا المجتھد فی المذھب الذی ھی الطبقۃ الثانیۃ الفائقۃ علی الثلثۃ الباقیۃ لقول البحر ولو فی الفتوی۔


میں کہتا ہوں، یعنی اُس معنی کے اعتبار سے جو بیری زادہ نے کیے ہیں یہ مجتہد فی المسائل کو بھی شامل ہے اور اہلِ تخریج اور مجتہد فی الفتوی کو بھی، انہوں نے فرمایا کہ مجتہد فی المذہب کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ وہ ایسا عالم ہوتا ہے جو اپنے امام کے بیان کردہ مسئلہ کی وجوہ کی تخریج پر قادر ہو، اور مذہب امام کا متبحر عالم ہو اس کے اقوال کو دوسروں کے اقوال پر ترجیح دے سکتا ہو، نہ کہ مجتہد فی المذہب، جو دوسرے طبقہ میں ہوتا ہے جو باقی تین پر فائق ہوتا ہے، کیونکہ بحر نے فرمایا ''اگرچہ فتوٰی میں''۔ (ت(


 (۲؎ بیری زادہ)


واقول لم یدع البحران من عرف الفروع ارتقی الی مرتبۃ الاجتھاد واین جمعھا من اھلیۃ النظر فی الدلیل والصیدلۃ من الطب وانما اراد ان تلک القواعد من ادرک حقائقھا وان الفروع کیف تستنبط منھا وتردُّ الیھا کان ذلک سلّما لہ یرتقی بھا الی ادنی درجات الاجتھاد ولم یدع ھذا لنفسہ انما ذکر الظفر باکثر الفروع فاین ھذا من ذاک والعجب(۱) کیف خفی ھذا علی العلامۃ بیری مع وضوحہ ثم ھو ایضا لم یشھد(۲) بحصول درجۃ الاجتھاد فی الفتوی لہ رحمھما اللّٰہ تعالی انما زعم ان فی کلام البحر اشارۃ الیہ وشھد بکونہ من الحفاظ المطلعین وھذا لاشک فیہ وقد قال السید ابو السعود الازھری فی فتح اللّٰہ المعین لایعتمد علی فتاوی ابن نجیم ولا علی فتاوی (عہ۱)الطوری ۱؎ اھ واقرہ ش فی غیر موضع من ردالمحتار،


میں کہتا ہوں بحر نے یہ دعوٰی نہیں کیا کہ جوشخص بھی فروع کو جانے گا وہ مرتبہ اجتہاد پر فائز ہوجائے گا، فروع کا یاد کرنا اور ہے اور فکر ونظر چیزے دگراست، یہ بالکل ایسا ہے جیسے دو افروش اور طبیب کا فرق ہوتا ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص ان قواعد کو پہچاننے لگے اور اُن سے استنباطِ مسائل کا طریقہ معلوم کرلے، تو یہ اجتہاد کے ادنیٰ درجہ تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے اور انہوں نے خود اپنے لئے اس مقام کا دعوٰی نہیں کیا ہے انہوں نے تو محض یہ کہا ہے کہ وہ اکثر فروع کو جاننے میں کامیاب ہوئے ہیں دونوں میں بڑا فرق ہے تعجب ہے کہ یہ حقیقت علامہ بیری پر کیسے مخفی رہی، حالانکہ بالکل واضح ہے، پھر اُنہوں نے اپنے لئے درجہ اجتہاد فی الفتوٰی کا دعوٰی بھی نہیں کیا ہے رحمہما اللہ تعالٰی، صرف یہ کہا ہے کہ بحر کے کلام میں اس طرف اشارہ ہے اور انہوں نے اس امر کی شہادت دی ہےکہ وہ حفاظ میں سے ہیں، اور اس میں شک کی گنجائش نہیں، ابو السعود الازہری نے فتح اللہ المعین میں فرمایا نہ تو ابن نجیم کے فتاوٰی پر اعتماد کیا جائے اور نہ ہی طوری کے فتاوی پر اھ اور اس کو "ش" نے برقرار رکھا یہ چیز ردالمحتار کے کئی مقامات پر مذکور ہے،


 (عہ۱) اقول کذا قال ولم اطلع علیھا لاعلم حالھا لکن قال فی کشف الظنون من الذال تحت ذخیرۃ الناظر فی الاشباہ والنظائر انھا للعالم الفاضل علی الطوری المصری الحنفی المتوفی ۱۰۰۴؁ اربع والف ثم قال قال الامینی فی خلاصۃ الاثر اخذ عن الشیخ زین الدین بن نجیم وغیرہ حتی برع وتفنن والف مؤلفات ورسائل فی الفقہ کثیرۃ کان یفتی وفتاواہ جیدۃ مقبولۃ و بالجملۃ فھو فی فقہ الحنفیۃ الجامع الکبیر لہ الشھرۃ التامۃ فی عصرہ والصیت الذائع انتھی ۱۲ منہ غفرلہ (م(

میں کہتا ہوں، انہوں نے یہی فرمایا ہے، لیکن میں اس پر مطلع نہیں ہوا، مگر کشف الظنون میں ذال کی تختی میں ذخیرۃ الناظر فی الاشباہ والنظائر کے تحت ہے کہ یہ کتاب عالم فاضل علی الطوری المصری الحنفی المتوفی ۱۰۰۴ھ کی ہے پھر انہوں نے کہا کہ امینی نے خلاصۃ الاثر میں کہا کہ انہوں نے شیخ زین الدین بن نجیم وغیرہ سے علم حاصل کیا یہاں تک کہ وہ عظیم المرتبت عالم ہوگئے اور علمِ فقہ میں بہت سی کتب ورسائل تصنیف کیے وہ فتوے دیتے تھے اور ان کے فتوے بہت عمدہ اور مقبول ہوتے تھے، خلاصہ یہ کہ یہ کتاب فقہ حنفی میں جامع ہے اور اسے اپنے زمانہ میں شہرت تامہ حاصل ہے۔ (ت(


 (۱؎ فتح المعین بحوالہ ردالمحتار    رسم المفتی    مصطفی البابی مصر    ۱/۵۲)


وفی ط عنہ سمعت کثیرا من شیخنا (یرید اباہ السید علیا رحمھما اللّٰہ تعالٰی) فتاوی الطوری کفتاوی الشیخ زین لایوثق بھما الا اذا تأیدت بنقل اخر ۲؎ اھ وکیف یصح لمجتھد فی الفتوی ان یمنع العمل بفتاواہ۔


اور "ط" میں انہی سے منقول ہے کہ ہم نے اپنے شیخ سے بکثرت سُنا ہے (اس سے مراد ان کے باپ سید علی ہیں) وہ فرماتے تھے فتاوٰی طوری شیخ زین کے فتاوٰی کی طرح ہیں، ان دونوں کا کوئی اعتبار نہیں، ہاں اگر کسی اور نقل سے ان کی تائید ہوجائے تو اور بات ہے، اور ایک مجتہد فی الفتوٰی کو یہ بات کب زیب دے سکتی ہے کہ وہ اپنے فتوی پر عمل کی مخالفت کردے۔ (ت(


 (۲؎ طحطاوی)


قول سوم کی ترجیح عامہ کتب میں ہے وقایہ(۱) ونقایہ(۲) واصلاح(۳) وغرر(۴) وملتقی متون (۵) ووجیز کردری (۶) وغیرہا میں اسی پر جزم فرمایا امام اجل قاضی خان(۷) نے اسی کو مقدم رکھا اور امام اعظم سے امام ابو یوسف کی روایت بتایا ہدایہ(۸) ودرر(۹) ومجمع الانہر(۱۰) ومسکین(۱۱) ومراقی الفلاح (۱۲) وہندیہ(۱۳) میں اسی کو صحیح او رذخیرہ العقبی (۱۴) میں اصح اور غیاثیہ(۱۵) وغنیہ(۱۶) وخزانۃالمفتین (۱۷) میں مختار کہا معراج(۱۸) الدرایہ وفتاوی ظہیریہ (۱۹) وفتاوی خلاصہ (۲۰) وجوہرہ نیرہ(۲۱) وشلبیہ(۲۲) وغیرہا میں علیہ الفتوٰی فرمایا اس قول میں عبارت علماء تین طور پر آئیں:

اول مطلق اغتراف یا غرف کہ ہاتھ سے پانی لینا ہے ایک سے ہو خواہ دونوں سے دونوں کو شامل ہے عام عبارات اسی طرح ہیں جیسے خانیہ وخزانہ کے سوا اکثر کتب مذکورہ اور بحر وشامی وغیرہا۔

دوم لفظ کف یا یدبصیغہ مفرد سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یوں ہی مروی ہوا ،


فتاوی امام قاضی خان میں ہے:ان کان بحال لو رفع الماء بکفہ لاینحسر ماتحتہ من الارض فھو عمیق رواہ ابویوسف عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما ۱؎۔


اگر پانی اس حال پر ہے کہ اگر ہتھیلی سے پانی اٹھائے تو زمین نیچے سے نہ کھلے تو وہ گہرائی والا ہے اس کو ابو یوسف نے ابو حنیفہ سے روایت کیا۔ (ت(


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل فی الماء الراکد    نولکشور لکھنؤ        ۱/۴)

خزانۃ المفتین میں ہے:وعمقہ بحال لو رفع الماء بکفہ لاینحسر ماتحتہ من الارض وھو المختار ۲؎۔ پانی کی گہرائی یہ ہے کہ اگر ہتھیلی سے پانی اٹھائے زمین نیچے سے نہ کھُلے یہی مختار ہے۔ (ت(


 (۲؎ خزانۃ المفتین)


چلپی علی صدر الشریعۃ میں ہے:والغرف اخذ الماء بالید للتوضی وھو الاصح ۳؎۔ غرف ہاتھ کے ذریعے وضو کیلئے پانی لینے کو کہتے ہیں اور یہی اصح ہے۔ (ت(


 (۳؎ ذخیرۃ العقبٰی    کتاب الطہارت    مطبعہ اسلامیہ لاہور    ۱/۶۸)


سوم کفین بصیغہ تثنیہ یہ امام ابو یوسف سے مروی آیا اور اسی کو امام فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے اختیار فرمایا زیلعی علی الکنز میں ہے: عن ابی یوسف اذا کان لاینحسر وجہ الارض بالاغتراف بکفیہ فھو جار ۴؎ اھ وقدمناہ عن ملک العلماء واذا کان ھذا فی الجاری حقیقۃ ففی الملحق(عہ۱)بہ بالاولی۔


اور ابو یوسف سے مروی ہے کہ جب دو چُلّو بھر کر پانی اٹھانے سے زمین کی سطح نہ کھلے تو یہ پانی جاری ہے اھ ہم اس کو ملک العلماء سے پہلے ہی نقل کر آئے ہیں، جب یہ بات حقیقی جاری پانی میں ہے تو جو جاری پانی سے ملحق ہوگا اس میں بطریق اولیٰ ہوگی۔ (ت(


 (عہ۱)اقول وھذا بخلاف مافعل فی البحر فان تصحیح الاطلاق فی الجاری لایستلزم تصحیحہ فی الملحق بہ واشتراط العمق فیہ یستلزم اشتراطہ فی الملحق بالاولی ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م(

میں کہتا ہوں یہ اس کے خلاف ہے جو بحر میں کیا ہے کیونکہ جاری میں اطلاق کی تصحیح سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو جاری سے ملحق ہو اس میں بھی یہی تصحیح ہوگی اور گہرائی کی شرط اس میں اس امر کو مستلزم ہے کہ یہی شرط ملحق میں بھی ہو۔ (ت(


 (۴؎ تبیین الحقائق  کتاب الطہارت       مطبعہ الازہریہ مصر    ۱/۳۳)


بدائع میں ہے:عن الفقیہ ابی جعفر الھندوانی ان کان بحال لو رفع انسان الماء بکفیہ انحسر اسفلہ ثم اتصل لایتوضؤ بہ وان کان لاینحسر اسفلہ لابأس بالوضوء منہ ۱؎۔


فقیہ ابو جعفر ہندوانی سے منقول ہے کہ وہ پانی ایسا ہو کہ اگر کوئی اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے تو اس کے نیچے زمین کھل جائے اور پھر مل جائے، ایسے پانی سے وضو نہیں ہوگا اور اگر اس کے نیچے سے زمین نہ کھلتی ہو تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت(


 (۱؎ بدائع الصنائع    فصل فی بیان مقدار الخ    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۳)


جامع الرموز میں ہے:بالغرفۃ ای برفع الماء بالکفین ۲؎۔ بالغرفۃ یعنی دو ہتھیلیوں سے پانی اٹھانا۔


 (۲؎ جامع الرموز    بحث عشر فی عشر    الکریمیہ قزان ایران    ۱/۴۸)


عبدالحلیم الدرر میں ہے:ای باخذ الماء بالکفین ۳؎۔ یعنی دو ہتھیلیوں میں پانی لینا۔


 (۳؎ حاشیۃ علی الدرر للعبد الحلیم        مطبعہ عثمانیہ مصر    ۱/۱۷)


طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:قولہ بالغرف منہ ای بالکفین کما فی القھستانی وفی الجوھرۃ علیہ الفتوی ۴؎۔ بالغرف منہ یعنی دو ہتھیلیوں سے جیسا کہ قہستانی میں ہے اور جوہرہ میں ہے کہ اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت(


 (۴؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح            نور محمد کتب خانہ کراچی    ص۱۶)


اقول ربما(۱) یتوھم منہ ان الفتوی علی الکفین ولیس کذلک فانما عبارۃ الجوھرۃ اما مقدار العمق فالاصح ان یکون بحال لاتنحسر الارض بالاغتراف وعلیہ الفتوی ۵؎ اھ فکان ینبغی ان یقدم عبارتھا ویقول قولہ بالغرف علیہ الفتوی جوھرۃ ای بالکفین قھستانی۔


میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے یہ وہم پیدا ہو کہ فتوی کفین پر ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جوہرہ کی عبارت یہ ہے ''اور گہرائی کی مقدار میں اصح یہ ہے کہ چُلّو بھرنے سے زمین نہ کھلتی ہو، اسی پر فتوٰی ہے اھ۔ تو ان کو جوہرہ کی عبارت پہلے لانی چاہئے تھی۔ اور یوں کہنا چاہئے تھا قولہ بالغرف علیہ الفتوی جوھرۃ یعنی بالکفین قھستانی۔ (ت(


 (۵؎ الجوہرۃ النیرۃ            مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱/۱۶)


علامہ برجندی نے کف واحد کو مرجح اور کفین کو محتمل رکھا: حیث قال بالکف الواحد علی ماھو المفہوم من اطلاقات الکتب ویحتمل ان یکون المراد بالغرف الاخذ بالکفین معاعلی ماھو المتعارف ۱؎ اھ اس لئے فرمایا کہ بالکف الواحد، یہی کتابوں کے اطلاقات سے مفہوم ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ بالغرف سے مراد دونوں چُلّوؤں سے لینا ہو، جیسا کہ متعارف ہے اھ (ت(


 (۱؎ قہستانی برجندی    کتاب الطہارۃ    نولکشور بالسرور    ۱/۳۳)


اقول وقد یؤخذ ترجیح لہ من فحوی الدرر فان نصہا الصحیح ان یکون بحیث لاتنکشف ارضہ بالغرف للتوضی وقیل للاغتسال ۲؎ اھ۔ وذلک لان المراد ھھنا الغرف بالایدی دون الاوانی ولا یظھر الفرق بین الغرف للوضوء والاغتسال بالایدی الا ان الاول بکف والاٰخر بالکفین کما ھو المعتاد فی الغسل وح یعود الیہ تصحیح ذخیرۃ العقبی المذکور ویزیدہ قوۃ انہ المروی عن الامام ھذا کلہ ظاھر النظر۔


میں کہتا ہوں کبھی اس کی ترجیح درر کے فحوی سے بھی معلوم ہوتی ہے اس کی عبارت یہ ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وضو کیلئے چُلّو سے پانی لیتے وقت اس کی زمین نہ کھلتی ہو، اور ایک قول یہ ہے کہ غسل کیلئے پانی لیتے ہوئے نہ کھلتی ہو اھ کیونکہ یہاں چُلّو سے مراد ہاتھ کا چلّو بھرنا ہے نہ کہ برتن کا چلّو، اور وضو کیلئے چلّو سے پانی لینے اور ہاتھ سے غسل کرنے میں صرف یہی فرق ہے کہ وضو ایک ہاتھ سے اور غسل دو ہاتھ سے ہوتا ہے، جیسا کہ عادتاً غسل میں کیا جاتا ہے اور اس وقت اس کیلئے ذخیرۃ العقبیٰ کی تصحیح ہوگی، اور اس کو مزید تقویت اس سے ہوتی ہے کہ یہ امام سے مروی ہے یہ جو کچھ ہے ظاہر نظر میں ہے۔ (ت(


 (۲؎ الدرر        فرض الغسل        دارالسعادۃ مصر    ۱/۲۲)


واقول وباللّٰہ التوفیق ترجیح علامہ برجندی میں نظر ہے، اولا اذ(۱) اعترف انہ المتعارف فلم لاینصرف المطلق الیہ۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہی متعارف ہے تو مطلق اسی کی طرف کیوں نہیں پھرتا۔ (ت(


ثانیا وہ عند التحقیق(۲) منعکس ہے اطلاقات متون وعامہ کتب سے اغتراف کفین ہی مستفاد، وذلک لان الغرف کما قلتم مطلق شامل باطلاقہ الغرفۃ بکف وکفین غیر انہ لیس ھھنا فی کلام موجب بل سالب والمطلق (۱) وان کان یوجد بوجود فرد لاینتفی الابانتفاء الافراد جمیعا فی التحریر ثم فوا تح الرحموت من بحث النکرۃ المنفیۃ نفی المطلق یوجب نفی کل فرد ۱؎ اھ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا آپ نے کہا غرف مطلق ہے خواہ ایک ہاتھ سے ہو یا دو ہاتھ سے، البتہ یہ کلام موجب میں نہیں ہے کلام سالب میں ہے، اور مطلق اگرچہ ایک فرد کے پائے جانے سے پایا جاتا ہے مگر اس کا انتفاء اسی وقت ہوگا جب تمام افراد کا انتفاء ہوگا تحریر میں پھر فواتح الرحموت میں نکرہ منفیہ کی بحث سے ہے کہ مطلق کی نفی ہر فرد کی نفی کو ثابت کرتی ہے۔ (ت(


 (۱؎ فواتح الرحموت    بحث النکرۃ المنفیۃ     مطبعۃ امیرقم    ۱/۲۶۱)


بل اقول اللام فی الغرف والاغتراف لیس للعھد ضرورۃ فان کان للاستغراق فذاک فانہ لکل فردلا لمجموع الافراد والا فللجنس وھو الوجہ المفھوم ونفی الجنس(۲) فی العرف واللغۃ لایکون الابنفی جمیع الافراد ۲؎ فواتح فافھم،


بلکہ میں کہتا ہوں لام ''الغرف'' اور ''الاغتراف'' میں عہد کیلئے نہیں، اور اگر یہ استغراق کیلئے ہو تو درست ہے کہ وہ ہر فرد کیلئے ہے مجموعہ افراد کیلئے نہیں، ورنہ یہ جنس کیلئے ہوگا، اور یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور جنس کی نفی عرف ولغت میں تمام افراد کی نفی سے ہی ہوتی ہے، فواتح فافہم،


 (۲؎ فواتح الرحموت    بحث النکرۃ المنفیۃ     مطبعۃ امیرقم      ۱/۲۶۰)


ولا شک ان من اغترف بکفیہ فانحسرت الارض یقول انھا ارض تنحسر بالغرف وان کانت لاتنحسر بکف واحدۃ واذا صدق بہ الانحسار لایصدق عدمہ الا اذالم تنحسر بشیئ من الغرفات وتوجیہ الدرر بما فیہ ان المعتاد فی الوضوء ایضا الاغتراف بالکفین فی غسل الوجہ مطلقا وفی غسل الرجلین اذالم یکن بالغمس لاجرم ان اطلق البرجندی تعارفہ علی انی لم ارمن(۱) فرق ھھنا بالوضوء والغسل انما المعروف ذلک فی معرفۃ الخلوص من جانب الی آخر بالتحریک ولم یتکلم علیہ محشوہ الشرنبلالی وعبدالحلیم والحسن العجیمی والخادمی رحمھم اللّٰہ تعالٰی و ردہ الثانی بقولہ ان کلامنھما (ای من الوضوء والغسل یحتاج الی اخذہ بھما (ای بالیدین) قال فظھران لاوجہ لتضعیف الثانی ۱؎ اھ


اور اس میں شک نہیں کہ جس نے دونوں ہتھیلیوں سے پانی لیا اور زمین کھلی تو یہی کہا جائیگا کہ چلّو بھرنے سے زمین کھلی ہے، اگرچہ ایک ہتھیلی سے نہ کھلے اور جب اس کی وجہ سے کھلنا صادق آگیا تو نہ کھلنا صادق نہیں آئے گا، صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ کسی چلّو سے زمین نہ کھلے اور درر میں یہ توجیہ ہے کہ وضو میں بھی عام طور پر دونوں ہاتھ سے چلّو بھرا جاتا ہے چہرے کے دھونے میں مطلقاً اور دونوں پیروں کے دھونے میں جبکہ ڈبو کر نہ دھویا جائے، برجندی نے تعارف کو مطلق رکھا ہے علاوہ ازیں میں نے نہیں دیکھا کہ یہاں کسی نے وضو اور غسل میں فرق کیا ہو، اس سلسلہ میں معروف یہ ہے کہ خلوص کی معرفت ایک جانب سے دُوسری جانب تک حرکت کے ذریعے ہوگی اس پر اس کے حاشیہ نگاروں، شرنبلالی، عبدالحلیم، حسن العجیمی اور خادمی رحمہم اللہ نے کلام نہیں کیا، اور دوسرے نے اس کی تردید اس طرح کی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک (یعنی غسل و وضوء میں سے) محتاج ہوتا ہے پانی کیلئے (دونوں ہاتھوں کی طرح) فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی تضعیف کی کوئی وجہ نہیں ہے اھ (ت(


 (۱؎ حاشیۃ علی الدرر للعبد الحلیم        بحث عشر فی عشر    عثمانیہ مصر        ۱/۱۷)

اقول والوجہ عندی ان یراد بالغرف للوضوء الغرف بالایدی وللغسل بالقصاع والاباریق واللّٰہ تعالٰی اعلم اما المروی عن الامام فلیس نصا فی الوحدۃ قال فی غمز العیون اطلق الید و اراد الیدین لانہ اذا کان(۲) الشیاٰن لایفترقان من خلق اوغیرہ اجزاء من ذکرھما ذکر احدھما کالعین تقول کحلت عینی وانت ترید عینیک ومثل العینین المنخران والرجلان والخفان والنعلان تقول لبست خفی ترید خفیک کذا فی شرح الحماسۃ ۲؎ اھ وقد بسطت الکلام علی ھذا فی رسالتی صفائح اللجین فی کون التصافح بکفی الیدین۔


میں کہتا ہوں میرے نزدیک وجہ یہ ہے کہ وضو کیلئے چلّو بھر لینے سے مراد ہاتھوں سے چلّو بھرنا مراد ہو اور غسل کیلئے پیالوں اور لوٹوں کے ذریعہ پانی کا لینا مراد ہو واللہ تعالٰی اعلم، اور جو چیز امام سے مروی ہے وہ وحدت میں نص نہیں ہے، غمز العیون میں فرمایا ید بول کریدین کا ارادہ کیا ہے، کیونکہ جو دو چیزیں پیدائشی طور پر جُڑی ہوئی ہوں یا کسی اور سبب سے تو ان میں سے ایک کا ذکر دوسری کے ذکر کو بھی کافی ہوگا، جیسے عین، کہا جاتا ہے کحلتُ عینی اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں میں سُرمہ لگایا اور آنکھ کی طرح نتھنے، پیر، موزے اور جُوتے ہیں لبست خفی کہا جاتا ہے اوراس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں نے دونوں موزے پہنے، کذا فی شرح الحماسۃ اھ، میں نے اس پر مکمل تفصیلی گفتگو اپنے رسالہ ''صفائح اللجین فی کون التصافح بکفی الیدین'' (چاندی کی تختیاں، اس مسئلے میں کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے ہوتا ہے۔ ت) میں کی ہے۔ (ت) تو راجح یہی ہے کہ دونوں ہاتھوں سے پانی لینا مراد ہے،


 (۲؎ غمز العیون مع الاشباہ        الفن الاول قواعد کلیۃ    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/۱۹)


اوّلاً یہی متون کا مفاد

ثانیا یہی عامہ کتب سے مستفاد 

ثالثاً کتب متعددہ میں اُس پر تنصیص اور کف واحد پر کوئی نص نہیں۔

رابعاً کف سے کفین مراد لے سکتے ہیں نہ بالعکس تو اس میں توفیق ہے اور وہ نصب خلاف سے اولیٰ۔

خامساً زمین نہ کھلنے سے مقصود یہ ہے کہ مساحت برقرار رہے ورنہ دو۲ پانی جُدا ہوجائیں گے۔


تبیین میں ہے:المعتبر فی العمق ان یکون بحال لاینحسر بالاغتراف لانہ اذا انحسر ینقطع الماء بعضہ عن بعض ویصیر الماء فی مکانین وھو اختیار الھندوانی ۱؎ اھ ثم ذکر التصحیح المار۔


گہرائی میں معتبر یہ ہے کہ وہ حوض ایسا ہو کہ چلّو بھرنے سے کھُل نہ جاتا ہو کیونکہ اگر کھلا تو پانی کا ایک حصہ دوسرے حصے سے جُدا ہوجائیگا، اور پانی دو جگہوں میں ہوجائیگا، ہندوانی نے اسی کو اختیار کیا ہے اھ پھر اس نے گزشتہ تصحیح کو ذکر کیا ہے۔ (ت(


 (۱؎ تبیین الحقائق    عشر فی عشر        بولاق مصر        ۱/۲۲)


مثلاً حوض پورا دہ در دہ ہے اُس کے وسط میں سے پانی اٹھایا اور زمین کھُل گئی تو اُس وقت وہ کسی طرف دس۱۰ ہاتھ نہیں بلکہ طول وعرض ہر ایک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ ہر ٹکڑا پانچ ہاتھ سے بھی قدرے کم تو آب قلیل ہوگیا لہٰذا لازم ہوا کہ پانی لینے سے زمین نہ کھلنے پائے اور اس کی ضرورت وضو وغسل دونوں کیلئے ہے بلکہ غسل کیلئے زائد۔


ہدایہ میں فرمایا:الحاجۃ الی الاغتسال فی الحیاض اشد منھا الی التوضی ۲؎۔ حوضوں میں نہانے کی ضرورت بہ نسبت وضو کے زیادہ ہوتی ہے۔ (ت(


 (۲؎ الہدایۃ        الغدیر العظیم        مکتبہ عربیہ کراچی    ۱/۲۰)


عنایہ میں فرمایا:لان الوضوء یکون فی البیوت عادۃ ۱؎۔ کیونکہ وضو عام طور پر گھر میں ہوتا ہے۔ (ت(


 (۱؎ العنایۃ علی حاشیۃ فتح القدیر    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۷۰)


اور شک نہیں کہ حوض یا تالاب میں نہاتے ہوئے پانی لپوں سے لیتے ہیں نہ چلّوؤں سے تو ضرور ہوا کہ دونوں ہی ہاتھ سے لینا مراد واللّٰہ تعالٰی اعلم بالحق والسداد۔

توفیق انیق وتحقیق دقیق بحسن التوفیق، والحمدللہ علے تیسرالطریق۔

اقول وباللہ استعین، وھو نعم المعین، یہ سب تنقید وتنقیح وتصحیح وترجیح اُس ظاہر خلاف پر تھی جو عبارات کتب سے مفہوم اور بعونہ عز جلالہ وعم نوالہ قلب فقیر پر القا ہوتا ہے کہ ان اقوال میں اصلا خلاف نہیں قول اول کی نسبت ہم بیان کر آئے کہ وہی ظاہر الروایۃ اور وہی اقوی من حیث الدرایۃ ہے اور مذیل بطراز تصحیح بھی اور ظاہر الروایۃ اوجہ ومصحح سے عدول کی کوئی وجہ نہیں قول دیگر کہ عامہ کتب میں مختار ومرجح ومفتی بہ ہے اسی ظاہر الروایۃ پر متفرع اور اُسی کے حکم کے تحفظ کو ہے ظاہر ہے کہ مساحت معینہ ہو مثلاً دہ در دہ یا عدمِ خلوص پر مفوضہ بہرحال اُتنی مقدار میں پانی کا اتصال ضرور ورنہ وہ مساحت نہ رہے گی ولہٰذا ظاہر الروایۃ نے فرمایا کہ کہیں سے زمین کھلی نہ ہو تو اُس قدر کا شرط کثرت ہونا بداہۃً ثابت، مگر کثرت(۲) وقت استعمال چاہئے پہلے کثیر تھا اور استعمال کرتے وقت قلیل ہوگیا تو کثرت سابقہ کیا مفید ہوگی اب اس میں پانی لیتے ہوئے زمین اگر کھُل گئی تو ظاہر الروایۃ نے جو امر کثرت کیلئے شرط کیا تھا کب باقی رہا اتنی دیر کو پانی قلیل ہوگیا پہلے سے اگر نجاست پڑی تھی اور بوجہ کثرت مؤثر نہ ہوئی تھی اب قلیل ہوتے ہی مؤثر ہوگئی اور پھر پانی مل جانا طاہر نہ کردیگا کہ آب نجس کثیر ہو کر پاک نہیں ہوجاتا اور جن کے نزدیک مائے مستعمل نجس ہے پہلے سے کسی نجاست پڑی ہونے کی حاجت نہیں پہلے لپ کا پانی بدن پر ڈالا یہ مستعمل ونجس ہو کر پانی میں گرا دوبارہ لپ لیا پانی قلیل ہو کر اسی مائے مستعمل سے نجس ہوگیا۔ یوں ہی جن کے نزدیک آب مستعمل اگرچہ پاک ہے مگر مائے مطلق سے اُس کا اختلاط مطلقاً اُسے ناقابلِ طہارت کردیتا ہے اگرچہ مغلوب ہو لہٰذا وقت اغتراف حفظ کثرت کیلئے یہ شرط لگائی کہ اغتراف آب کثیر سے ہو اُس وقت بھی ظاہر الروایۃ کا ارشاد یأخذ الماء وجہ الارض صادق ہو کہ زمین کہیں سے کھلی نہ ہو تو یہ عمق شرط کثرت نہیں بلکہ وقت اغتراف شرط بقائے کثرت۔

اس توفیق رفیق کے مؤیدات اقول اولا خود یہی تبیین مبین تعلیل تبیین کہ اتنا عمق اس لئے رکھا گیا کہ پانی لیتے وقت زمین کھُل کر دو پانی نہ ہو جائیں کہ مساحت نہ رہے گی قلیل ہوجائیگا معلوم ہوا کہ تابقائے مساحت کثیر ہے تفریق مساحت تقلیل کرے گی۔

ثانیاً اگر کثرت فی نفسہٖ اس پر موقوف ہو تو یہ شرط بھی کام نہ دے گی اور وقت اغتراف وہی دقّت پیش آئے گی۔ شرط ہے تو ساری مساحت میں نہ کہ بعض میں۔ غیاثیہ میں ہے:


المختار ان لاینحسر بالاغتراف مطلقا غیر مقید بکونہ من اعمق المواضع ۱؎۔


مختار یہ ہے کہ چُلّو لینے سے زمین نیچے سے نہ کھُلے مطلقاً ا س میں زیادہ گہرا ہونے کی کوئی قید نہیں ہے۔ (ت(


 (۱؎ فتاوٰی غیاثیہ    باب المیاہ    مکتبہ اسلامیہ، کوئٹہ    ص۵)

اب کہ پانی لیا اور زمین کھلی تو نہیں مگر اُتنی جگہ صرف جو بھی عرض کا پانی رہ گیا تو اب کیا آبِ قلیل نہ ہوگیا کہ اتنی دیر ساری مساحت میں اُتنا عمق نہیں۔ ظاہر ہوا کہ یہ عمق مطلوب نہ تھا بلکہ وہی زمین کا کہیں سے کھُلا نہ ہونا کہ وقت اغتراف یہی باقی رہے گا نہ وہ عمق۔

ثالثاً اسی پر شاہد ہے سیدنا امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی سے وہ روایت کہ بدائع وتبیین سے گزری کہ خود جاری پانی میں بھی اتنا عمق شرط فرماتے ہیں یہ ہرگز نفس جریان کی شرط نہیں ہوسکتا کون عاقل کہے گا کہ مینہ کا پانی جو چھت یا زمین پر بہ رہا ہے جاری نہ ہوگا جب تک چار پانچ انگل دَل نہ ہوجائے امام ابو یوسف کی شان اس سے ارفع واعلیٰ ہے وہ قطعاً عرفاً وشرعاً ہر طرح جاری ہے اگرچہ صرف جو بھر(عہ۱) دَل ہو لاجرم کوئی شبہ نہیں کہ یہ وقت اغتراف بقائے جریان کیلئے شرط فرمائی ہے کہ اگر پانی لیتے وقت زمین کھُل گئی دو پانی ہوگئے اور اس وقت جریان جاتا رہا کہ اُتنی دیر اُوپر کا پانی رک گیا اور نیچے کا مدد بالا سے منقطع ہوگیا،


 (عہ۱)بلکہ فتاوے امام قاضی خان میں ہے:


الجنب اذا قام فی المطر الشدید متجردا بعد ما تمضمض واستنشق حتی اغتسلت اعضاؤہ جاز لانہ جار

یعنی (ف۱) جنب اگر کُلی کرکے ناک میں پانی موضع فرض تک چڑھا کر زور کے مینہ میں ننگا کھڑا ہو کہ سارا بدن دُھل گیا غسل ہوگیا کہ مینہ جاری پانی ہے ظاہر ہے کہ مینہ کی دھاریں متفرق ہوتی ہیں اور اُن میں کوئی دھار آدھا انگل بھی دَل نہیں رکھتی بلکہ اکثر جَو بھر سے زیادہ نہیں ہوتا مگر وہ بلاخلاف جاری پانی ہے ۱۲ منہ غفرلہ (م(


اور ہم رسالہ رحب الساحۃ میں بیان کر چکے کہ جریان کیلئے مدد کا اشتراط بھی ایک قول مصح ہے امام ابن الہمام نے اس کو ترجیح دی اور یہی امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ کی کتاب تجنیس اور امام حسام الدین کے واقعات سے مستفاد یہ روایت امام ابو یوسف اسی قول پر مبنی تو یہ شرط اس لئے فرمائی کہ پانی لیتے وقت بھی جاری رہے نہ کہ ہر جاری میں یہ عمق درکار یوں ہی یہاں نفس کثرت اس سے مشروط نہیں بلکہ وقت اغتراف کثیر رہنا وللہ الحمد۔

رابعاً اسی کے مؤید ہے وہ کہ ہمارے رسالہ رحب الساحۃ میں کتب کثیرہ جلیلہ معتمدہ سے منقول ہوا کہ بڑے تالاب کے بطن میں نجاستیں پڑی ہیں بارش کا پانی آیا اگر ان نجاستوں تک پہنچنے سے پہلے یہ پانی تالاب کے اندر دہ در دہ ہوگیا اُس کے بعد نجاستوں کی طرف بڑھ کر اُن سے ملا ناپاک نہ ہوا یوں سارا تالاب پاک رہے گا۔ ظاہر ہے کہ بڑھتے وقت ساری مساحت میں پانچ انگل دل ہونا ضرور نہیں بلکہ نادر ہے جس کا بیان اُسی رسالہ میں گزرا مگر اس کا لحاظ نہ فرمایا اور مطلقاً حکمِ طہارت دیا اس کا وہی مبنی ہے کہ فی نفسہٖ کثرت کے لئے دَل کی حاجت نہیں بالجملہ روشن ہوا کہ کثرت کیلئے صرف اس قدر درکار کہ مساحت بھر میں کوئی جگہ پانی سے کھلی نہ ہو یہی ظاہر الروایۃ وتصحیح اول ہے اسی بنا پر پانی لیتے وقت کثرت باقی رہنے کیلئے لازم کہ اُس سے زمین کھل نہ جائے ورنہ قلیل ہوجائے گایہی مطلب عامہ کتب وتصحیح دوم ہے۔

ثم اقول یہ توفیق انیق بعض فیصلے اور کرے گی۔

اوّل اغتراف(۱) مطلق رہے گا جس طرح متون وہدایہ وعامہ کتب میں ہے کہ پانی فی نفسہٖ ہر طرح کثیر ہے مقصود اُس وقت زمین کا بالفعل نہ کھُلنا ہے نہ کوئی صلاحیت عامہ تو چلّو ہو یا لپ جس طرح پانی لیا اُس سے نہ کھلنا چاہئے اگرچہ دوسری طرح انکشاف ہوسکے بلکہ ہاتھ کی بھی تخصیص نہیں برتن سے لیں خواہ کسی سے اُس وقت زمین کھُلے نہیں۔

دوم ساری(۲) مساحت میں اس عمق کی حاجت نہیں صرف وہیں کافی ہے جہاں سے پانی لیا گیا۔

سوم یہ شرط دہ در دہ میں فرمائی ہے پانی اگر(۳) اس درجہ کثیر ہے کہ جہاں سے لیا گیا اگر زمین کھُل بھی جائے تو ہر طرف کا ٹکڑہ دہ در دہ رہے تو کھُلنا مضر نہ ہوگا کہ اگرچہ دو پانی ہوگئے مگر دونوں کثیر ہی ہیں۔ 

چہارم مذہب معتمد یہ ہے کہ آب مستعمل طاہر ہے اور آبِ مطلق میں اُس کا اختلاط مانع طہارت نہیں جب تک مقدار میں اُس سے زائد نہ ہوجائے اور آب قلیل کتنا ہی کثیر ہو بدن محدث اُس میں پڑنے سے سب مستعمل ہوجاتا ہے مگر بضرورتِ اغتراف ہاتھ ڈالنا معاف ہے یہ سب مسائل ہمارے رسائل الطرس المعدل والنمیقۃ الانقی میں مبرہن ہوچکے تو وہ پانی جس میں سے وقتِ اغتراف زمین کھل کر اُس کے ٹکڑے دہ در دہ نہ رہیں اگر اس میں پہلے سے نجاست موجود تھی اس کھلنے سے ضرور ناپاک ہوجائیگا 

یوں(عہ۱) ہی اگر ضرورت چُلّو کی تھی اور لپ سے لیا سب پانی مستعمل ہوجائیگا کہ دُوسرا بے دُھلا ہاتھ بے ضرورت پڑا عام ازیں کہ چلّو سے بھی زمین کھلتی یا نہیں اگر کہئے استعمال بعد انفصال ید ہوگا اور اس وقت اتصال آب ہو کر کثیر ہوجائیگا۔


 (عہ۱) اقول ظھر بھذا التحقیق ان مسألۃ الخانیۃ وغیرھا من الکتب المعتمدۃ ان خرج الماء من النقب وانبسط علی وجہ الجمد بقدر مالو رفع الماء بکفہ لاینحسر ماتحتہ من الجمد جاز فیہ الوضوء والا فلا اھ۔ نقلھا فی الغنیۃ بالمعنی فاقام مقام جواز الوضوء فیہ وعدمہ فسادہ بوقوع المفسد وعدمہ ولیس کذلک عند التحقیق فانہ اذا کان کثیرا لمساحۃ لایفسد بوقوع شیئ مالم یتغیر اوینحسر بوقوعہ فیبقی ماء ین قلیلین بخلاف الوضوء فیہ بغمس الاعضاء فانہ یفسد بہ مطلقا لان الفرض انہ ینحسر بالغرف فبالغمس اولی وبہ ظھر ان الاولی ترک النقل بالمعنی مطلقا فلربما یحصل بہ تغیر دقیق فی غایۃ الخفاء وباللّٰہ التوفیق اھ منہ غفرلہ۔ (م(

میں کہتا ہوں کہ ہماری اس تحقیق سے ظاہر ہوگیا کہ فتاوٰی خانیہ وغیرہ کتب معتبرہ میں جو یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر پانی سوراخ سے نکلا اور منجمد پانی پر اتنا پھیل گیا کہ اگر کوئی شخص ہاتھ سے پانی اٹھائے تو نیچے کا جامد پانی منکشف نہیں ہوتا اس صورت میں اس پانی میں وضو کرنا جائز ہے ورنہ اس سے وضو جائز نہیں (اھ) اس مسئلے کو غنیہ میں معنیً نقل کرتے ہوئے وضو کے جواز اور عدمِ جواز کی جگہ پلیدی کے واقع ہونے سے اس پانی کے پلید ہونے اور نہ ہونے کو رکھ دیا، حالانکہ تحقیق کی رُو سے اس طرح نہیں ہے، کیونکہ جب پانی کی پیمائش زیادہ ہو تو کسی چیز کے واقع ہونے سے وہ فاسد نہیں ہوگا جب تک اس میں تغیر نہ آئے یا پلیدی کے گرنے سے نیچے کی سطح منکشف نہ ہوجائے، اس صورت میں پانی دو تھوڑے حصّوں میں تقسیم ہوجائیگا برخلاف اس صورت کے کہ اس پانی میں اعضاء ڈبو کر وضو کیا جائے تو اس سے پانی مطلقاً فاسد ہوجائیگا کیونکہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ چُلّو میں پانی لینے سے نیچے کی سطح منکشف ہوجاتی ہے تو ڈبونے سے بطریقِ اولیٰ منکشف ہوجائیگی، اس بیان سے واضح ہوگیا کہ بہتر یہ ہے کہ مسئلہ معنیً مطلقاً نقل نہ کیا جائے، ورنہ اس سے بہت ہی پوشیدہ اور باریک فرق پیدا ہوجائیگا، اللہ تعالٰی ہی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔ (ت(

اقول انفصال سے استعمال کی بعدیت ذاتیہ ہے کہ وہ علت استعمال کا جزء اخیر ہے تو تخلف محال اور اتصالِ آب کی بعدیت زمانیہ ہے کہ جتنی جگہ کھلی تھی بعد انفصال ید حرکتِ آب سے بھرے گی اور حرکت تدریجیہ ہے تو بفور انفصال قبل اتصال حکم استعمال نازل ہوجائیگا فافہم اور اگر پہلے سے کوئی نجاست نہیں اور چلّو یا لپ حسبِ ضرورت لیا اور زمین کھل گئی مستعمل نہ ہوگا اگرچہ وسط حوض میں جاکر پانی لیا ہو کہ اگرچہ زمین کھُلنے سے پانی قلیل ہوگیا مگر ضرورت اغتراف تو مٹکے میں بھی معاف ہے جبکہ کوئی چھوٹا برتن پانی لینے کیلئے نہ ہو اور اس وقت اگرچہ اس کے پاؤں اُس قلیل پانی میں ہیں مگر اندر جاتے ہوئے دُھل چکے ہیں ہاں اُس زمین کے کھُلتے وقت اسے حدث واقع ہوتو ضرور پاؤں کی وجہ سے سارا پانی مستعمل ہوجائیگا ان وجوہ کی نظر سے وہ شرط کی گئی تو ظاہر الروایۃ اور یہ قول مفتی بہ دونوں متوافق اور باہم اصل وفرع ہیں وللہ الحمد۔


ھذا کلہ ماظھر لکثیرا لسیاٰت وبہ تجتمع الکلمات، وتندفع الشبھات، والحمدللّٰہ واھب المرادات، وصلی اللّٰہ تعالٰی وسلم وبارک علی مصحح الحسنات، مقیل العثرات، والہ وصحبہ الاکارم السادات، وابنہ وحزبہ الاجلۃ الاثبات،وعلینا معھم، وبھم ولھم، الی یوم یقوم حبیبنا فیہ بالشفاعات، علیہ وعلیھم الصلوات الزاکیات، والتسلیمات النامیات، والتحیات المبارکات، اٰمین، والحمدللّٰہ رب العٰلمین، ومع ذلک لااقول ان الحکم ھذا انما اقول ھذا ماظھر لی فان کان صوابا فمن الوھاب الکریم ولہ الحمد وان کان خطأ فمنی ومن الشیطان وانا ابرؤ الی اللّٰہ منہ والحمد للّٰہ رب العٰلمین واللّٰہ تعالی اعلم۔


یہ تمام وہ ہے جو اس کثیر المعاصی پر ظاہر ہوا اور اس سے ائمہ کے ارشادات جمع ہوجاتے ہیں اور شبہات دفع ہوجاتے ہیں، تمام تعریفیں مرادیں دینے والے اللہ تعالٰی کیلئے، اور اللہ تعالٰی رحمتیں نازل فرمائے نیکیوں کے صحیح کرنے والے اور غلطیوں کو معاف فرمانے والے پر اور آپ کی آل اور آپ کے صحابہ ساداتِ کرام پر، اور آپ کے بیٹے اور جلیل القدر راسخ علم والی جماعت پر اور ان کے ساتھ ہم پر، ان کی بدولت اور ان کے وسیلے سے اس دن تک جب ہمارے حبیب شفاعتوں کیلئے کھڑے ہوں گے، ان پر اور ان کے تمام متبعین پر پاکیزہ رحمتیں، نشوونما پانے والے سلام اور بابرکت تحفے، آمین، سب تعریفیں اللہ رب العٰلمین کیلئے، اس کے باوجود میں یہ نہیں کہتا کہ حکم یہ ہے، میں تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ حکم یہ ہے جو مجھے ظاہر ہوا، اگر درست ہے تو اللہ تعالٰی وہابِ کریم کی طرف سے اور اس کے لیےحمد ہے، اور اگر خطا ہے تو میری طرف سے اور شیطان سے ہے، میں اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں شیطان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ رب العٰلمین کیلئے، اللہ بہتر جانتا ہے۔


بشارۃ ماتقدم من قول البحران العمل والفتوی ابدا بقول الامام الاعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۔وان افتی المشائخ بخلافہ اقرہ الشامی فی مواضع ونازعہ فی مواضع وکنت اردت ان اذکر ھذا البحث ثمہ ثم رأیت ان الکلام یطول، ویقطع بالاجنبی الفصل الطویل، فطویتہ ثمہ، وافرزتہ بحمداللّٰہ تعالٰی رسالۃ مھمۃ، رأیت الحاقھا ھھنا اتماما للکلام، واسعافا با لمرام، وھاھی ذہ والحمدللّٰہ ولی الانعام۔


بشارت: اس سے پہلے بحر کا جو قول بیان ہوا کہ عمل اور فتوٰی ہمیشہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول پر ہے اگرچہ مشائخ اس کے خلاف پر فتوٰی دیں، علامہ شامی نے متعدد مقامات میں اس قول کی تائید کی اور کئی جگہوں میں اس سے اختلاف کیا، میرا ارادہ تھا کہ اس بحث کو اس جگہ ذکر کرتا، پھر خیال ہوا کہ کلام طویل ہوجائیگا، اور غیر متعلق گفتگو سے فاصلہ طویل ہوجائیگا، لہٰذا اس جگہ میں نے گفتگو سمیٹ لی اور بحمداللہ تعالٰی اسے اہم رسالے کی صورت میں الگ کردیا، گفتگو کی تکمیل اور مقصد کے پورا کرنے کیلئے اس جگہ اس کے لاحق کرنے کا فیصلہ کیا، اور وہ رسالہ یہ ہے، تمام تعریفیں اللہ تعالٰی مالک انعام کیلئے۔ (ت(

(نوٹ: اصل کتاب میں یہاں رسالہ ''اجلی الاعلام'' تھا جسے رسم المفتی کے طور پر جلد اول میں شامل کردیا گیا ہے(


فتوی مسمّٰی بہ

النور والنورق(عہ۱) لاسفار الماء المطلق

) آب مطلق کا حکم روشن کرنے کیلئے نور اور رونق (


 (عہ۱)اگرچہ تمام مطبوعہ نسخوں میں لفظ ''النورق'' ہے مگر کتب لُغت میں یہ لفظ نہیں ملا۔ میری رائے میں یہ ''الرونق'' ہونا چاہئے اس سے عدد اور معنیٰ دونوں درست رہتے ہیں۔ (دائم(


مسئلہ ۵۵ : ۲۴ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۴ھ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ط

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آب مطلق کہ وضو وغسل کیلئے درکار ہے اُس کی کیا تعریف ہے آبِ مقید کسے کہتے ہیں بینوا توجروا۔


الجواب

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط

الحمدللّہ الذی انزل من السماء ماء طھورا لیطھرنا بہ تطھیرا، حمدا مطلقاً غیر مقید بعدد اوامد دائما ابدا کثیرا کثیرا والصلاۃ والسلام علی الطیب الطاھر الطھور المطھر المفضل علی الخلق فضلا کبیرا، وعلیٰ اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ ماامطرت السحب ماء نمیرا امین اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔


تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جس نے آسمان سے پاک پانی اتارا کہ اس کے ذریعے ہمیں پاک صاف کرے مطلق تعریفیں بغیر کسی قید عددی اور غائی کے ہمیشہ ہمیشہ بہت زیادہ اسی کیلئے ہیں طیب، طاہر، پاک کرنے والے اور مخلوق پر فضیلت رکھنے والے پر اور آپ کے آل، اصحاب، بیٹے اور گروہ پر بے شمار صلوٰۃ وسلام ہوں جب تک بادل وافر پانی برساتے رہیں، آمین۔ اے اللہ ہمیں سچّے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما۔ (ت(


یہ سوال بظاہر چھوٹا اور اس کا جواب بہت طول چاہتا ہے یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآرا ہے۔ فقیر بتوفیق القدیر اول(۱) جزئیات منصوصہ ذکر کرے پھر(۲) تعریفِ مطلق ومقید کہ اصالۃً ضابطہ جامعہ کلیہ ہے اور دیگر ضوابط کے لئے معیار پھر(۳) ضوابط جزئیہ متون پھر(۴) ضوابط کلیہ متأخرین پھر(۵) جزئیات جدیدہ کے احکام وما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب۔

یوں یہ کلام پانچ فصل پر منقسم ہوا:

فصل اول جزئیات منصوصہ، اور وہ تین قسم ہیں:

قسم اول وہ پانی جن سے وضو صحیح(عہ۱) ہے:

)۱( مینہ، دریا، نہر، چشمے، جھرنے، جھیل، بڑے تالاب، کنویں کے پانی تو ظاہر ہیں بالخصوص قابلِ ذکر مائے مبارک زمزم شریف(عہ۲) ہے کہ ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک اُس سے وضو وغسل بلاکراہت جائز ہے اور ڈھیلے کے بعد استنجا مکروہ اور نجاست دھونا ممنوع۔


 (عہ۱)یعنی اُن سے طہارت کی جائے تو ہو جائے گی اور اس سے نماز صحیح ہوگی اگرچہ اُس پانی کا استعمال مکروہ بلکہ حرام ہو جیسا کہ مفصلاً بیان ہوگا ۱۲ (م(

(عہ۲)سب سے اعلیٰ سب سے افضل دونوں جہان کے سب پانیوں سے افضل، زمزم سے افضل، کوثر سے افضل وہ مبارک پانی ہے کہ بارہا براہِ اعجاز حضورانور سید اطہر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی انگشتانِ مبارک سے دریا کی طرح بہا اور ہزاروں نے پیا اور وضو کیا۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ وہ پانی زمزم وکوثر سب سے افضل مگر اب وہ کہاں نصیب اور آگے ہر قسم کے پانی مذکور ہوں گے اُن کے سلسلے میں بلا ضرورت اس کا نام لینا مناسب نہ جانا ۱۲ منہ غفرلہ (م(

تنویر ودرمختار میں ہے:

یرفع الحدث مطلقا بماء مطلق کماء سماء واودیۃ وعیون وابار وبحار وماء زمزم بلا کراھۃ وعن احمد یکرہ ۱؎۔ حدث مطلق پانی سے رفع ہوتا ہے جیسے آسمان کا پانی، وادیوں، چشموں، کنووں، نہروں، سمندروں اور زمزم کا پانی، زمزم کے پانی سے رفع حدث بلا کراہت ہوتا ہے جبکہ امام احمد کے نزدیک کراہت کے ساتھ ہوتا ہے۔ (ت(


 (۱؎ درمختار    باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)


نیز حج در میں ہے:یکرہ الاستنجاء بما زمزم لا الاغتسال ۲؎۔ زمزم کے پانی سے استنجا مکروہ ہے غسل کرنا مکروہ نہیں۔ (ت(


 (۲؎ درمختار    آخر کتاب الحج    مجتبائی دہلی        ۱/۱۸۴)


شامی میں ہے:وکذا ازالۃ النجاسۃ الحقیقیۃ من ثوبہ اوبدنہ حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک اھ ۳؎۔ اور اسی طرح بدن یا کپڑے سے نجاست حقیقیہ کا دور کرنا، یہاں تک بعض علماء نے تو اس کو حرام تک لکھ دیا ہے۔ (ت(


 (۳؎ ردالمحتار    آخر کتاب الحج    مصطفی البابی مصر    ۲/۲۷۸)


اقول مطلق(۱) الکراھۃ للتحریم واطلاق(۲) الحرام علی المکروہ تحریما غیر بعید فلاخلف(۳) نعم اذا(۴) استنجی بالمدر فالصحیح انہ مطھر فلا یبقی الا اساءۃ ادب فیکرہ تنزیھا بخلاف الاغتسال ففرق بیّن بین القصدی والضمنی ھذا ماظھرلی۔


میں کہتا ہوں مطلق کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہوتی ہے، اور حرام کا اطلاق مکروہ تحریمی پر کوئی بعید امر نہیں، تو کوئی مخالفت نہیں، ہاں اگر کسی نے ڈھیلے سے استنجا کرلیا تو صحیح یہ ہے کہ یہ پاک کرنے والا ہے تو ایسی صورت میں صرف سوءِ ادبی رہے گی اور مکروہِ تنزیہی ہوگا بخلاف غسل کے تو ارادی اور ضمنی کاموں میں واضح فرق ہوتا ہے ھذا ماظھرلی۔ (ت(


اقول یہ بھی دلیل واضح ہے کہ ہمارے ائمہ سے روایت صحیحہ طہارت مائے مستعمل ہے ورنہ غسل واستنجا میں فرق نہ ہوتا۔

)۲(  سمندر کا پانی بعض صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے منقول کہ اُس سے وضو ناجائز جانتے اور ہمارے اور جمہور امت کا اُس سے جواز وضو پر اجماع ہے،


فی البحر وفی قولہ والبحر رد قول من قال ان ماء البحر لیس بماء حتی حکی عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما انہ قال فی ماء البحر التیمم احب الی منہ کما نقلہ عنہ فی السراج الوھاج ۱؎ اھ


اور اس کے قول "والبحر"میں ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں ماء البحر پانی نہیں ہے یہاں تک کہ ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے سمندری پانی سے میرے نزدیک تیمم کرلینا زیادہ پسندیدہ عمل ہے، سراج الوہاج میں نقل کیا ہے،


 (۱؎ البحرالرائق        کتاب الطہارۃ بحث الماء    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۶)


وقال السید ط فی حاشیۃ المراقی قال ابن سیدہ فی المحکم البحر الماء الکثیر ملحا اوعذبا وغلب علی الملح فالتنصیص علیہ دفع لتوھم عدم جواز التطھیر بہ لانہ مرمنتن کما توھم بعض الصحابۃ ۲؎ اھ


اور "ط" نے حاشیہ مراقی الفلاح میں فرمایا کہ ابن سیدہ نے محکم میں فرمایا بحر سے مراد کثیر پانی ہے خواہ میٹھا ہو یا نمکین، لیکن عام طور پر اس کا استعمال نمکین کے لئے ہوتا ہے، اس کی تصریح اس وہم کو دفع کرنے کیلئے ہے کہ اس سے پاکی کا حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ کڑوا اور بدبودار ہوتا ہے جیسے کہ بعض صحابہ نے تو ہم کیا اھ ۔


 (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی        نور محمد کارخانہ تجارت کراچی    ص۱۳)


اقول ھذا(۵) اللفظ بعید عن الادب فلیجتنب قال وفی الخبر من لم یطھرہ ماء البحر فلا طھرہ اللّٰہ ۳؎ اھ


میں کہتا ہوں یہ لفظ بے ادبی کے ہیں، ان سے بچنا چاہئے، فرمایا ایک روایت میں ہے کہ جس کو سمندر کا پانی پاک نہ کرسکے تو خدا اسکو کبھی پاک نہ کرے۔ (ت(


 ( ۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی        نور محمد کارخانہ تجارت کراچی    ص۱۳)


قلت رواہ الدار قطنی والبیھقی کلاھما فی السنن بسند واہ بدون لفظ ماء عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فالاولی الاقتصار(۱) علی ماتمسک بہ شارحہ اعنی العلامۃ الشرنبلالی حیث قال لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ھو الطھور ماؤہ الحل میتتہ ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں اس کو دار قطنی اور بیہقی نے اپنی سنن میں کمزور سند سے روایت کیا، یہ ابو ہریرہ کی روایت نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے اور اس میں ماء کا لفظ نہیں ہے تو زیادہ بہتر ہے کہ اس پر اکتفاء کیا جائے جس سے اس کے شارح نے استدلال کیا ہے، یعنی علامہ شرنبلالی نے، انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ''سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مُردہ حلال۔ (ت(


 (۱؎ مراقی الفلاح    بحث الماء البحر    ص۱۳    مطبعہ ازہریہ مصر)


قلت رواہ احمد والاربعۃ وابن حبان والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند صحیح واحمد وابن ماجۃ والاخیران والدار قطنی والطبرانی فی الکبیر عن جابر وابن ماجۃ عن ابی الفراسی والدار قطنی والحاکم عن علی وعن ابی عمرو وعبدالرزاق عن انس والدار قطنی عنہ وایضا عن ابن عمر وایضا عن جابر عن ابی بکر الصدیق وابنا مردویہ والنجار عن ابی الطفیل عن الصدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہم کلھم عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وفی اخری لابن مردویہ کالدار قطنی عن ابی الطفیل عن الصدیق من قولہ ولعبد الرزاق وابی بکربن ابی شیبۃ عن عکرمۃ ان عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سئل عن الوضوء من ماء البحر فقال سبحٰن اللّٰہ فای ماء اطھر من ماء البحر وفی لفظ اطیب ۲؎


میں کہتا ہوں اس کو احمد اور چاروں نے اور ابن حبان، حاکم نے ابو ھریرہ سے بسند صحیح روایت کیا ہے، اور احمد ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، دار قطنی اور طبرانی نے کبیر میں جابر سے اور ابن ماجہ نے ابو الفراسی سے اور دارقطنی اور حاکم نے علی سے اور ابن عمرو سے اور عبدالرزاق نے انس سے اور دارقطنی نے انس سے اور ابن عمرو سے نیز جابر سے ابو بکر صدیق سے اور ابن مردویہ اور ابن نجار نے ابو الطفیل سے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم سے سب نے نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے، دوسری سند میں ابن مردویہ نے دارقطنی کی طرح ابو الطفیل سے ابو بکر صدیق سے ان کے قول سے۔ اور عبدالرزاق اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے عکرمہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سمندر سے وضو کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ، سمندر کے پانی سے زیادہ کون سا پاک ہے، اور ایک روایت میں اطیب کا لفظ ہے،


 (۲؎ مصنف عبدالرزاق    باب الوضوء من ماء البحر    ۱/۹۵    مکتبۃ الاسلامی بیروت)


ولھذا وابن عبد الحکم فی فتوح مصر والبیھقی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال اغتسلوامن ماء البحر فانہ مبارک ۱؎ اور ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں اور بیہقی نے اُن سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا سمندر کے پانی سے غسل کرو کیونکہ وہ مبارک ہے،


 (۱؎ بحوالہ کنز العمال    فصل فی المیاہ    مطبوعہ موسسۃ الرسا لۃ بیروت    ۹/۵۷۲)


قال ط ومن الناس من کرہ الوضوء من ۲؎ البحر الملح(۱) لحدیث ابن عمر انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال لایرکب البحر الا حاج او معتمر او غازی فی سبیل اﷲ فان تحت البحر ناراو تحت النار بحرا تفرد بہ ابو داؤد ۳؎ اھ


"ط" نے کہا کچھ لوگ نمکین سمندر سے وضو کو مکروہ قرار دیتے ہیں، ان کا استدلال ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث سے ہے کہ سمندر میں صرف حاجی یا عمرہ کرنے والا یا غازی سفر کرے غیر نہیں کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے، اس کی روایت میں ابو داؤد متفرد ہیں۔ (ت(


 (۲؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح    بحث الماء البحر    مطبعہ ازہریہ مصریہ        ص۱۳)

(۳؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح    بحث الماء البحر    مطبعہ ازہریہ مصریہ        ص۱۳)


اقول لم یتفرد بہ بل رواہ(۲) قبلہ سعید بن منصور فی سننہ واٰخرون الا ان یرید التفرد من بین الستۃ ثم لیس ھذا حدیث(۳) ابن عمر الفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم انما رواہ د عن مطرف ھو ابن طریف ثقۃ فاضل عن بشر ابی عبداللّٰہ ھو الکندی مجھول قال الذھبی لایکاد یعرف عن بشیر ۴؎ بن مسلم ھو ابو عبداللّٰہ الکندی الکوفی مجہول عن عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما یعنی ابن العاص قال خ لم یصح حدیثہ واوردہ ابن حبان علی قاعدتہ فی ثقات اتباع التابعین وقال روی عن رجل عن ابن عمرو واللّٰہ تعالٰی اعلم ۵؎


میں کہتا ہوں وہ متفرد نہیں ہیں بلکہ اُن سے قبل اسی کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں اور دوسرے محدثین نے روایت کیا ہے، ہاں چھ کے درمیان تفرد کا دعویٰ ہو تو درست ہے۔ پھر یہ حدیث ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما کی نہیں ہے اس کو ''د'' نے مطرف سے جو ابن ظریف ہیں روایت کیا اور وہ ثقہ ہیں فاضل ہیں، بشر ابو عبداللہ الکندی سے، یہ مجہول ہیں، ذہبی نے کہا کوئی نہیں جانتا بشیر بن مسلم سے وہ ابو عبداللہ الکندی الکو فی مجہول ہیں، عبداللہ بن عمرو سے یعنی ابن العاص سے، خ نے کہا ان کی حدیث صحیح نہیں اور اس کو ابن حبان نے اپنے قاعدہ کے مطابق اتباع تابعین کے ثقات میں ذکر کیا اور فرمایا ایک شخص سے مروی ہے ابن عمرو سے واللہ تعالٰی اعلم،


 (۴؎ میزان الاعتدال    بشر عبداللہ        بیروت            ۱/۳۲۷)

(۵؎ میزان الاعتدال        بشیر بن مسلم   بیروت             ۱/۳۲۹)

نعم فی مسند الفردوس عن ابن عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنھما رفعہ تحت البحر نار وتحت النار بحر وتحت البحر نار ۱؎ اھ ویمکن ان تکون فی قولہ تعالٰی والبحر المسجور اشارۃ الیہ واللّٰہ تعالٰی اعلم قال ط وکان ابن عمر لایری جواز الوضوء بہ ولا الغسل عن جنابۃ ۲؎ اھ


ہاں مسند فردوس میں ابن عمر سے مروی ہے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے اھ، اس کو انہوں نے مرفوعاً روایت کیا، اور ممکن ہے کہ اللہ کے قول والبحر المسجور میں اس طرف اشارہ ہو، واللہ تعالٰی اعلم ''ط'' نے فرمایا: ابن عمر سمندر سے وضو اور غسلِ جنابت کو جائز نہیں سمجھتے تھے اھ (ت(


 (۱؎ مسند فردوس)

(۲؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح بحث ماء البحر    ازہریہ مصر    ص۱۳)


اقول یذکر عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ قال ماء البحر لایجزئ من وضوء ولا جنابۃ ان تحت البحر نارا ثم ماء ثم نارا حتٰی عد سبعۃ ابحر وسبع انیار ۳؎ ولم اقف لہ علی اصل فاللّٰہ اعلم بہ


میں کہتا ہوں ابن عمر سے یہ روایت منسوب ہے کہ سمندر کا پانی وضو اور غسلِ جنابت کیلئے کافی نہیں بیشک سمندر کے نیچے آگ ہے پھر پانی پھر آگ ہے یہاں تک کہ انہوں نے سات سمندروں اور سات آگوں کا ذکر کیا، اور مجھے اس کی کسی اصل پر اطلاع نہیں واللہ اعلم،


 (۳؎ یذکر عن ابن عمر)


وانما الذی فی الحلیۃ ان کون الطھارۃ جائزا بھذہ المیاہ سواہ کانت عذبۃ اومالحۃ مما دل علیہ الکتٰب والسنۃ ولم یعرف فی شیئ منھا خلاف نعم نقل عن بعض الصحابۃ کراھۃ الوضوء بماء البحر منھم عبداللّٰہ بن عمر و الجمہور علی عدم الکراھۃ ۴؎ اھ


حلیہ میں یہ ہے کہ ان پانیوں سے طہارت جائز ہے خواہ میٹھے ہوں یا نمکین ہوں، اس پر کتاب وسنّت دلالت کرتے ہیں، اور اس میں کوئی خلاف معروف نہیں، ہاں بعض صحابہ سے کراہت منقول ہے کہ اِن سے وضو مکروہ ہے، اُن میں عبداللہ بن عمر بھی شامل ہیں، اور جمہور کا قول ہے کہ کراہت نہیں ہے اھ


 (۴؎ حلیہ)


وفی ھامش الا نقرویۃ عن مختارات النوازل حکی عن ابن عباس وابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم انھما قال الوضوء بماء البحر مکروہ ۵؎اھ۔ قال ط وکذا روی ابی ھریرۃ ۱؎ اھ


اور انقرویہ کے حواشی میں مختارات النوازل سے ہے کہ ابن عباس اور ابن عمر سے مروی ہے کہ دونوں حضرات نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ قرار دیا ہے اھ"ط" اسی طرح ابو ہریرہ سے مروی ہے اھ (ت(


 (۵؎ علی حاشیۃ فتاوٰی انقرویہ بحث ماء البحر    دار الاشاعۃ العربیہ قندھار    ۱/۲)

(۱؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح    بحث ماء البحر    ازہریہ مصر    ص۱۳)


اقول وھذا عجب مع ما صح عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ماسمعناک نعم فی البدائع روی عن ابی العالیۃ الریاحی انہ قال کنت فی جماعۃ من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی سفینۃ فی البحر فحضرت الصلاۃ قضی ماؤھم ومعھم نبیذ التمر فتوضأ بعضھم نبیذ التمروکرہ التوضؤ بماء البحر وتوضأ بعضھم بماء البحر ذکرہ التوضؤ بنبیذ التمرو(عہ۱) ،


میں کہتا ہوں یہ زیادہ عجیب ہے حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بروایت صحیح جو تھا وہ ہم نے نقل کیا، ہاں بدائع میں ابو العالیۃ الریاحی سے مروی ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سمندری سفر میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا کشتی والوں کے پاس پانی ختم ہوچکا تھا ان کے پاس شیرہ کھجور تھا تو بعض نے اسی سے وضو کرلیا اور سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ سمجھا اور بعض نے سمندر کے پانی سے وضو کرلیا،


 (عہ۱) اقول لم یبلغ فھمی القاصر کیف کان ھذا حکایۃ الاجماع علی جواز الوضوء بنبیذ التمر عند عدم الماء فان من توضأ بماء البحر جاز ان لم یر الوضوء بالنبیذ فی الحالۃ الراھنۃ لوجود الماء وجاز ان لم یرالوضوء بہ اصلا حتی لووجدہ وعدم الماء تیمم کما ھو المفتی بہ عندنا والکراھۃ فی عرف السلف لایدل علی الجواز ۱۲ منہ غفرلہ (م(

میں کہتا ہوں میری ناقص سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ یہ اجماع کیونکر ہوگیا کہ پانی نہ ہونے کے وقت نبیذ تمر سے وضو جائز ہے، کیونکہ جن حضرات نے سمندر کے پانی سے وضو کیا ممکن ہے کہ وہ موجودہ حالت میں نبیذ تمر سے وضو کو جائز نہ سمجھتے ہوں کیونکہ پانی موجود ہے اور یہ بھی ممکن ہے ہے کہ وہ نبیذ تمر سے وضو کو بالکل جائز نہ سمجھتے ہوں یہاں تک کہ اگر نبیذ موجود ہو اور پانی نہ موجود ہو تو وہ تیمم کے قائل ہوں جیسا کہ یہ ہمارے نزدیک مفتی بہ ہے اور سلف کی عرف میں کراہت جواز پر دلالت نہیں کرتی ہے۔ (ت(


وھذا حکایۃ الاجماع فان من کان یتوضؤ بماء البحر کان یعتقد جواز التوضؤ بماء البحر فلم یتوضأ بنبیذ التمر لکونہ واجد ا للماء المطلق ومن کان یتوضؤ بالنبیذ کان لایری ماء البحر طھورا اوکان یقول ھو ماء سخطۃ ونقمۃ کانہ لم یبلغہ قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی صفۃ البحر ھو الطھور ماؤہ الحل میتۃ فتوضأ بنبیذ التمرلکونہ عادما للماء(عہ۱) الطاھر ۱؎ اھ فھذا ما ابداہ احتمالا وانما لفظ الروایۃ ما سمعت۔


یہ اجماع کی حکایت ہے کیونکہ جو حضرات سمندر کے پانی سے وضو کر رہے تھے تو وہ اس کے پانی سے وضو کے جواز کے قائل تھے اور انہوں نے نبیذ تمر سے وضو اس لئے نہ کیا کہ انہوں نے ماء مطلق کو پایا اور جو نبیذ تمر سے وضو کر رہے تھے وہ سمندر کے پانی کو طہور نہیں سمجھتے تھے، یا وہ یہ کہتے تھے کہ یہ پانی ناراضگی اور عذاب کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوا ہے شاید ان کو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ سمندر کا پانی پاک کرنے والا اور اس کا مردہ حلال ہے تو پانی نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے نبیذ تمر سے وضو کیا اھ تو یہ انہوں نے بطور احتمال فرمایا ورنہ روایت کے الفاظ وہ ہیں جو آپ نے سُنے۔ (ت(


)عہ۱( ھکذا فی نسختی البدائع وکأنھا زلۃ من قلم الناسخ والوجہ الطھور ۱۲ منہ غفرلہ (م(

میرے پاس بدائع کا جو نسخہ ہے اس میں اسی طرح ہے شاید کاتب نے غلط لکھ دیا مناسب الطھور ہے۔ (ت(


 (۱؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۶)


اقول ویجوز ان یکونوا معتقدین جواز الوضوء بھما اذا کان الماء غالبا فی النبیذ کما سیأتی اِن شاء اللّٰہ تعالی فمن توضأ بہ کرہ التوضوء بماء البحر کراھۃ تنزیہ ولم یشک ان النبیذ الذی عندہ ماؤہ غالب ومن توضأ بماء البحر شک فی النبیذ الذی عندہ فکرہ التوضوء بہ کراھۃ امتناع وتوضأ بماء البحر واللّٰہ تعالی اعلم۔


میں کہتا ہوں یہ بھی جائز ہے کہ وہ دونوں سے وضو کے جواز کے قائل ہوں جبکہ نبیذ پر پانی غالب ہو، جیسا کہ اِن شاء اللہ آئے گا، تو جس نے اس سے وضو کیا اس نے سمندری پانی سے وضو کو مکروہ تنزیہی سمجھا اور اس میں شک نہیں جانا کہ جو نبیذ اس کے پاس ہے اس کا پانی غالب ہے اور جس نے سمندری پانی سے وضو کیا اس کو اس نبیذ میں شک تھا جو اُس کے پاس موجود تھا تو اس نے بطور کراہت تحریمی اس سے وضو نہ کیا اور سمندری پانی سے وضو کرلیا، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت(


)۳ و ۴) پالا اولے جب پگھل کر پانی ہوجائیں کہ یہ بھی وہی آسمانی پانی ہیں کہ کُرہ زمہریر کی سردی سے یخ بستہ ہوگیا،

فی الدر یرفع الحدث بماء مطلق کالثلج مذاب وبرد و جمد وندی ۱؎ اھ 

دُر میں ہے حدث کو دُور کیا جاسکتا ہے مطلق پانی سے جیسے برف یا اَولوں کا پگھلا ہوا پانی، منجمد پانی یا تری اھ


 (۱؎ الدرالمختار        باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)

وفی البحر والنھر وعن ابی یوسف یجوز وان لم یکن متقاطرا والصحیح ولفظ النھر الاصح قولھما ۲؎ اھ ونسبہ فی جامع الرموز للصاحبین حیث قال لایتوضوء بالثلج الا اذا تقاطر وعن الصاحبین انہ یتوضوء بہ والاول ھو الصحیح کما فی الظھیریۃ ۳؎اھ۔


اور بحر ونہر میں ابو یوسف سے منقول ہے کہ وضو جائز ہے اگرچہ ٹپکنے والا نہ ہو یہ صحیح ہے اور لفظ نہر اصح ہے ان دونوں کا قول اھ اور جامع الرموز میں اس کو صاحبین کی طرف منسوب کیا ہے، فرمایا کہ برف سے اس وقت تک وضو نہ کرے جب تک وہ ٹپکنے نہ لگے اور صاحبین سے مروی ہے کہ اس سے وضو کرے، اور پہلا ہی صحیح ہے جیسا کہ ظہیریہ میں ہے اھ


 (۲؎ بحرالرائق    آخر الماء البحر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۷)

(۳؎ جامع الرموز    بحث الماء السماء مطبعۃ کریمیہ قزان ایران    ۱/۴۶)


ورأیتنی کتبت علی ھامشہ  اقول لیس(۱) ھذا محل خلاف وتصحیح اذ لاوضوء الابالغسل ولا غسل الا بالاسالۃ ولا اسالۃ الا بالتقاطر فھو المراد اھ۔ ماکتبت علیہ اقول نعم یروی عن الثانی ان الغسل بل المحل وان لم  یسل۴؎ کما فی البحر وھذا لا یختص بالثلج والبرد وقدمنا فی تبیان الوضوء ان مرادہ سال من العضو قطرۃ اوقطرتان ولم یتدارک فلا خلاف ۵؎ قال ش الظاھر ان معنی لم یتدارک لم یقطر علی الفوربان قطر بعد مھلۃ ۶؎ اھ


میں نے اس کے حاشیہ پر یہ لکھا ہے کہ یہ محل خلاف اور تصحیح نہیں ہے کیونکہ دھوئے بغیر تو وضو ہو نہیں سکتا ہے اور دھونا بہائے بغیر نہ ہوگا اور بہانا بغیر تقاطر کے نہ ہوگا، اور یہی مراد ہے اھ۔ میں کہتا ہوں ہاں دوسرے امام سے یہ مروی ہے کہ دھونا جگہ کے تر کرنے کو کہتے ہیں خواہ نہ بہے، جیسا کہ بحر میں ہے اور یہ چیز برف اور اَولوں کے ساتھ خاص نہیں ہے اور ہم نے تبیان الوضوء میں بیان کیا کہ ان کی مراد یہ ہے کہ عضو سے ایک یا دو قطرے بہہ جائیں اور تدارک نہ ہو اس میں اختلاف نہیں ''ش'' نے فرمایا کہ لم یتدارک کے معنی یہ ہیں کہ فوراً قطرات نہ بہیں، بلکہ مہلت کے بعد قطرات بہیں اھ (ت(


 (۴؎ بحرالرائق    فرض الوضو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱)

(۵؎ ردالمحتار    فرض الوضو    البابی مصر        ۱/۷۱)

( ۶؎ ردالمحتار    فرض الوضو    البابی مصر        ۱/۷۱)


اقول بل الظاھر(۱) ان المعنی لم تتتابع القطر کثرۃ یقال تدارک القوم ای تلاحقوا ومنہ قولہ تعالٰی حتی اذا دارکوا فیھا کما فی الصحاح ۱؎ ومعلوم انہ لم یثبت الفور فی دخول طائفۃ منھم بعد اخری واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں بلکہ معنی یہ ہیں کہ قطرات کثرت سے نہ بہیں، کہتے ہیں ''تدارک القوم'' یعنی ایک دوسرے سے ملے اور اسی سے فرمان الٰہی ہے ''حتی اذا دارکوا فیھا'' صحاح میں بھی ایسا ہی ہے اور یہ معلوم ہے کہ ان میں سے ایک جماعت کا دوسری جماعت کے فوراً بعد داخل ہونا مراد نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت(


 (۱؎ صحاح الجوہری     د رک بیروت        ۴/۱۵۸۲)


)۵( یوں ہی کل کا برف جب پگھل جائے کہ وہ بھی پانی ہی تھا کہ گیس کی ہوا سے جم گیا ومر عن الدر وجمد وھو محرکا الماء الجامد ط عن ح عن القاموس (اور گزرا ہے کہ الْجَمَد حرکت کے ساتھ جما ہوا پانی (برف) ہے یہ ط سے ح سے قاموس سے ہے۔ ت(

)۶( شبنم

اقول یعنی جبکہ پتّوں پھُولوں پر سے یا پھیلے ہوئے کپڑے نچوڑ کر اتنی جمع کرلی جائے کہ کسی عضو یا بقیہ عضو کو دھو دے مثلاً روپے بھر جگہ پاؤں میں باقی ہے اور پانی ختم ہوگیا اور شبنم جمع کئے سے اتنی مل سکتی ہے کہ اُس جگہ پر بَہ جائے تو تیمم جائز نہ ہوگا یا اوس(۲) میں سر برہنہ بیٹھا اور اس سے سر بھیگ گیا مسح ہوگیا اگر ہاتھ نہ پھیرے گا وضو ہوجائیگا اگرچہ سنّت ترک ہوئی یوں ہی شبنم(۳) سے تر گھاس میں موزے پہنے چلنے سے موزوں کا مسح ادا ہوجائے گا جبکہ شبنم سے ہر موزہ ہاتھ کی چھنگلیا کے طول وعرض کے سہ چند بھیگ جائے،


ومر عن الدر وندا قال ش قال فی الامداد وھو الطل وھو ماء علی الصحیح وقیل نفس دابۃ ۲؎ اھ


اور دُر سے گزرا وندَّا "ش" نے امداد میں کہا یہ شبنم ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ پانی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ چو پائے کا سانس ہے۔ (ت(


 (۲؎ ردالمحتار        باب المیا ہ     البابی مصر         ۱/۱۳۲)


اقول لااعلم لہ اصلا ولو کان کذا لم یجز الوضوء بہ لانہ لیس بماء ولو جاز بہ لکان ریق الانسان وعرقہ احق بالجواز ثم رأیت فی مسح الخفین من الفتح ولا فرق بین حصول ذلک بیدہ اوباصابۃ مطر اومن حشیش مشی فیہ مبتل ولو بالطل علی الاصح وقیل لایجوز بالطل لانہ نفس دابۃ لاماء ولیس بصحیح ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں مجھے اس کی اصل معلوم نہیں اور اگر ایسا ہوتا تو اس کے ساتھ وضو جائز نہ ہوتا کیونکہ وہ پانی نہیں اور اگر اس سے وضو جائز ہوتا تو انسان کے تھوک اور پسینہ سے بطریق اولیٰ جائز ہوتا، پھر فتح کے مسح علی الخفین میں ہے کہ اس میں کچھ فرق نہیں کہ یہ ہاتھ سے ہو یا بارش کی وجہ سے ہو یا ترگھاس میں چلنے کی وجہ سے ہو یا شبنم سے ہو اصح قول کے مطابق، اور ایک قول یہ ہے کہ شبنم سے جائز نہیں کیونکہ وہ چوپائے کا سانس ہے پانی نہیں، اور یہ صحیح نہیں اھ (ت(

)۷( زلال

اقول لغۃً وعرفاً مشہور یہی ہے کہ زلال میٹھے ٹھنڈے ہلکے خوشگوار صاف خالص پانی کو کہتے ہیں،


 (۱؎ فتح القدیر            مسح الخفین    رضویہ سکھر        ۱/۱۳۲)


فی القاموس ماء زلال کغراب وامیر وصبور وعلابط سریع المرفی الحلق باردعذب صاف سھل ۲؎ سلس اھ۔ ولم یعرج علی معنی غیرہ وفی صحاح الجوھری ماء زلال ای عذب ۳؎ اھ وفی حیاۃ الحیوان الکبری المشہور علی الالسنۃ ان الزلال ھو الماء البارد ۴؎۔


قاموس میں ہے ماء زلال، زلال غراب کے وزن پر بھی آتا ہے اور امیر، صبور اور عُلابِط کے وزن پر بھی (یعنی زلیل زُلول زلازِل) اس پانی کو کہا جاتا ہے جو حلق سے بآسانی گزرے اور ٹھنڈا، میٹھا، صاف، لطیف اور رواں ہو اھ اور اس کے علاوہ کوئی معنٰی نہیں بتائے، اور صحاح جوہری میں ماء زلال یعنی میٹھا اھ اور حیوٰۃ الحیوان میں ہے زبانوں پر مشہور یہ ہے کہ زلال ٹھنڈے پانی کو کہتے ہیں (ت)


 (۲؎ القاموس المحیط (زللت)        مصطفی البابی مصر    ۳/ ۴۰۰)

(۳؎ صحاح الجوہری (زلل)         بیروت        ۴/ ۱۷۱۸)

(۴؎ حیاۃ الحیوان الکبرٰی (زلال)    مصطفی البابی مصر    ۱/ ۵۳۷)


اس تقدیر پر تو اس کے شمار کی کوئی وجہ نہیں مگر علامہ شامی نے امام ابن حجر مکی سے نقل کیا کہ برف میں ایک چیز جانور کی شکل پر ہوتی ہے اور حقیقۃ جانور نہیں اس کے پیٹ سے جو پانی نکلتا ہے وہ زلال ہے،


حیث قال عقیب ذکر الطل اقول وکذا الزلال قال ابن حجر وھو مایخرج من جوف صورۃ توجد فی نحوا الثلج کالحیوان ولیست بحیوان ۱؎۔


انہوں نے طل کے ذکر کے بعد فرمایا میں کہتا ہوں اور اسی طرح ''زلال'' ہے، ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ برف میں حیوانی شکل کی ایک چیز پائی جاتی ہے جو دراصل حیوان نہیں ہوتی ہے اس کے پیٹ سے جو پانی نکلتا ہے وہ زلال ہے۔ (ت)


 (۱؎ ردالمتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۲)


اقول:یہ اگر ثابت(۱) ہو تو اُس کے جانور ہونے سے انکار محتاج دلیل ہے اُس کی صورت جانور کی ہے اور کتابوں اور جخود ائمہ شافعیہ کی کتب میں اُسے حیوان کہا انگلی برابر قد سفید رنگ زرد چتّیاں اور خود اُس جانور ہی کا نام زلال بتایا تاج العروس میں ہے: الزلال بالضم حیوان صغیر الجسم ابیضہ اذا مات جعل فی الماء فیبردہ ومنہ سمی الماء البارد زلالا ۲؎۔ زُلال، پیش کے ساتھ سفید جسم کا ایک چھوٹا سا جانور ہے، جب مرجاتا ہے تو اس کو پانی میں ڈال دیتے ہیں یہ پانی کو ٹھنڈا کرتا ہے، اور اسی لئے ٹھنڈے پانی کو ماءِ زُلال کہتے ہیں۔ (ت)


 (۲؎ تاج العروس    فصل الزأ من باب الدم    مطبوعہ احیاء التراث العربی    ۷/ ۳۵۹)


حیاۃ الحیوان امام دمیری شافعی میں ہے:الزلال بالضم دود یتربی فی الثلج وھو منقط بصفرۃ یقرب من الاصبع یاخذہ الناس من اماکنہ لیشربوا مافی جوفہ لشدۃ بردہ ۳؎۔


زُلال پیش کے ساتھ، ایک کیڑا جو برف میں پلتا ہے اس پر پیلے رنگ کی چتیاں ہوتی ہیں، تقریباً ایک انگلی کے برابر ہوتا ہے لوگ اس کو پکڑتے ہیں تاکہ اس کے پیٹ میں سے جو نکلتا ہے وہ پی سکیں، کیونکہ یہ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے (ت)


(۳؎ حیاۃ الحیوان الکبرٰی (زلال)         البابی مصر        ۱/ ۵۳۶)


اُس کے حیوان ہونے کی تقدیر پر امام ابنِ حجر شافعی نے اُس پانی کو قے ٹھہرا کر ناپاک بتایا۔ قال ش عن ابن حجر بعد مامر فان تحقق (ای کونہ حیوانا) کان نجسا لانہ قیئ ۱؎۔ ش نے ابنِ حجر سے نقل کیا پس اگر متحقق ہو (یعنی اس کا حیوان ہونا ثابت ہوجائے) تو وہ نجس ہوگا اس لئے کہ وہ قے ہے۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ        البابی مصر        ۱/ ۱۳۲)


اقول:قے کی تعریف(۱) اس پر صادق آنے میں کلام ہے اور کتبِ شافعیہ میں اُس سے جوازِ وضو مصرح شرح وجیز ابو الفرج عجلی شافعی میں ہے: الماء الذی فی دود الثلج طھور ۲؎۔ وہ پانی جو برف والے کیڑے میں ہوتا ہے پاک طہور ہے۔ (ت)


 (۲؎ حیاۃ الحیوان الکبرٰی     (زلال)        البابی مصر        ۱/ ۵۳۶)

حیاۃ الحیوان میں ہے:الذی قالہ یوافق قول القاضی حسین فیما تقدم فی الدود ۳؎۔ جو انہوں نے کہا وہ قاضی حسین کے قول کے موافق ہے جیسا کہ دود کے ذکر میں پہلے گزرا۔ (ت)


 (۳؎ حیاۃ الحیوان الکبرٰی(زلال) البابی مصر۱/ ۵۳۶)


علامہ شامی نے جب تک اُس جانور کا دموی ہونا ثابت نہ ہو پانی پاک مگر ناقابلِ وضو بتایا۔ حیث قال نعم لایکون نجسا عندنا مالم یعلم کونہ دمویا اما رفع الحدث بہ فلا یصح وان کان غیر دموی ۴؎۔ انہوں نے فرمایا جب تک اس کا دموی ہونا معلوم نہ ہو ہمارے نزدیک نجس نہیں، رہا اس سے پاک حاصل کرنا تو یہ صحیح نہیں اگرچہ وہ غیر دموی ہو۔ (ت)


 (۴؎ ردالمحتار        باب المیاہ        البابی مصر        ۱/ ۱۳۲)


اقول: ظاہراً اُس پانی کی طہارت محلِ اشتباہ نہیں جیسے ریشم(۲) کا کیڑا کہ خود بھی پاک ہے اور اس کا پانی بلکہ بیٹ بھی پاک  علمگیریہ میں ہے: ماء دود القزو عینہ وخرؤہ طاھر کذا فی القنیۃ ۵؎۔ ریشم کا کیڑا اس کا پانی اور اس کی بیٹ پاک ہے جیسا کہ قنیہ میں ہے۔ (ت)


 (۵؎ فتاوٰی ہندیۃ الفصل الثانی فے الاعیان النجسۃ    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۴۶)


بلکہ خلاصہ میں ہے:الدودۃ(۳) اذا تولدت من النجاسۃ قال شمس الائمۃ الحلوائی انھا لیست بنجسۃ وکذا کل حیوان حتی لوغسل ثم وقع فی الماء لاینجسہ وتجوز الصلاۃ معھا ۱؎۔ کیڑا جو نجاست میں پیدا ہو تو شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ وہ ناپاک نہیں ہے اور یہی حال ہر حیوان کا ہے۔

تو اگر کسی حیوان کو دھویا جائے پھر وہ پانی میں گر جائے تو اس کو ناپاک نہیں کرے گا، اور اس کے ساتھ نماز جائز ہے۔ (ت)


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی    الفصل السابع فیما یکون نجساً الخ    نولکشور لکھنؤ        ۱/ ۴۴)


اور جب(۱) طاہر ہے تو جب تک ثابت نہ ہو کہ یہ پانی نہیں بلکہ اُس کیڑے ہی کے پیٹ کی رطوبت ہے یا اُس کی رطوبت اِس میں نصف یا زاید ملی ہوئی ہے ناقابلِ وضو ہونے کی کوئی وجہ نہیں ظاہراً وہ برف ہی کا پانی ہے کہ اس کے جوف میں ملتا ہے اور پاک پانی کے غیر طہور ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو خلط غیر سے مائے مطلق نہ رہے یا اسقاط فرض خواہ اقامت قربت سے مستعمل ہوجائے ثانی یہاں قطعاً منتفی اور اول کا ثبوت نہیں اور کوئی مطلق بلا ثبوت مقید نہیں ہوسکتا۔ الا تری ان النجاسۃ لاتثبت بالشک وھی تسلب الطھوریۃ والطھارۃ معا فضلا عن التقیید۔


نجاست شک سے ثابت نہیں ہوتی ہے اور یہ طہوریت کو سلب کرتی ہے اور طہارت کو بھی چہ جائیکہ تقیید۔ (ت)

(۸) گرم پانی


وھذا وفاق الا ما یحکی عن مجاھد من کراھۃ۔  (اس بات میں اتفاق ہے مگر وہ جو مجاہد سے اس کی کراہت منقول ہے۔ ت)

اقول: مگر اتنا گرم کہ(۱) اچھی طرح ڈالا نہ جائے تکمیل سنت نہ کرنے دے مکروہ ہے یونہی اتنا سرد اور اگر تکمیل فرض سے مانع ہو تو حرام اور وہ وضو نہ ہوگا وفی صحیح البخاری توضأ عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بالحمیم ۲؎ (صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گرم پانی سے وضو فرمایا۔ ت)

(۹) اُپلوں سے گرم کیا ہُوا اور بچنا بہتر، درمختار میں ہے: وکرہ احمد المسخن بالنجاسۃ ۳؎  (نجاست کے ذریعے گرم شدہ پانی کو امام احمد نے مکروہ گردانا ہے۔ ت)


 (۲؎ جامع للبخاری    باب وضؤ الرجل مع امرأتہٖ        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۳۲)

(۳؎ الدرالمختار        باب المیاہ            مجتبائی لاہور        ۱/ ۳۴)


 (۱۰)دھوپ کا گرم پانی مطلقا مگر گرم ملک(۲) گرم موسم میں جو پانی سونے چاندی کے سوا کسی اور دھات کے برتن میں دھوپ سے گرم ہوجائے وہ جب تک ٹھنڈا نہ ہولے بدن کو کسی طرح پہنچانا نہ چاہئے وضو سے غسل سے نہ پینے سے یہاں تک کہ جو کپڑا اس سے بھیگا ہو جب تک سرد نہ ہوجائے پہننا مناسب نہیں کہ اُس پانی کے بدن کو پہنچنے سے معاذ اللہ احتمالِ برص ہے اختلافات اس میں بکثرت ہیں اور ہم نے اپنی کتاب منتہی الآمال فے الاوفاق والاعمال میں ہر اختلاف سے قول اصح وارجح چنا اور مختصر الفاظ میں اُسے ذکر کیا اُسی کی نقل بس ہے


وھو ھذا قط (ای الدارقطنی) عن عامر والعقیلی عن انس مرفوعا قط والشافعی عن عمر الفاروق موقوفا لاتغتسلوا بالماء انشمس فانہ یورث البرص ۱؎ قط وابو نعیم عن ام المؤمنین انھا سخنت للنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ماء فی الشمس فقال لاتفعلی یاحیمراء فانہ یورث البرص ۲؎ وقیدہ العلماء بقیود ان یکون فی قطر ووقت حارین وقد تشمس فی منطبع صابر تحت المطرقۃ کحدید ونحاس علی الاصح الا النقدین علی المعتمد دون الخزف والجلود والا حجار والخشب ولا للشمس فی الحیاض والبرک قطعا وان یستعمل فی البدن ولو شربالا فی الثواب الا اذا لبسہ رطبا اومع العرق وان یستعمل حارا فلو برد لاباس علی الاصح وقیل لافرق علی الصحیح ووجہ ورد فالاول الاوجہ قیل وان لایکون الاناء منکشفا والراجح ولو فالحاصل منع ایصال الماء المشمس فی اناء منطبع من غیر النقدین الی البدن فی وقت وبلد حارین مالم یبرد واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


دارقطنی نے عامر سے اور عقیلی نے انس سے مرفوعاً روایت کی، دارقطنی اور شافعی نے عمر فاروق سے موقوفاً روایت کی کہ تم آفتاب سے گرم شدہ پانی سے غسل نہ کرو کہ اس سے برص پیدا ہوتا ہے، دارقطنی اور ابو نعیم نے ام المؤمنین سے روایت کی کہ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیلئے آفتاب سے پانی گرم کیا تو آپ نے فرمایا: آیندہ ایسا نہ کرنا اے حمیراء کیونکہ اس سے برص پیدا ہوتا ہے۔ اور علماء نے اس میں کچھ قیود لگائی ہیں مثلاً یہ کہ گرم پانی گرم علاقہ میں ہو، گرم وقت میں ہو، یہ کہ پانی کسی دھات کے بنے ہوئے برتن میں جیسے پانی لوہے تانبے کے برتن میں گرم ہوا ہو اصح قول کے مطابق مگر سونے چاندی کے برتن میں گرم نہ کیا گیا ہو معتمد قول کے مطابق مٹی کھال پتھّر اور لکڑی کے برتنوں کو دھوپ میں رکھ کر گرم نہ کیا گیا ہو۔ حوض اور گڑھے میں سورج کا گرم شدہ پانی قطعاً نہ ہو، یہ پانی بدن میں استعمال ہوا ہو، اگرچہ پی لیا تو بھی یہی خطرہ ہے، کپڑے دھوئے تو حرج نہیں، ہاں اگر کپڑا دھو کر تر ہی پہن لیا تو خطرہ ہے، یا کپڑا پہنا اور جسم پر پسینہ تھا، یہ پانی گرم استعمال کیا جائے اگر ٹھنڈا ہونے کے بعد استعمال کیا تو حرج نہیں، اصح قول یہی ہے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ فرق نہیں، اور یہی صحیح ہے، اس کی توجیہ بھی ہے اور اس پر رد ہے، تو اول کی وجہ زیادہ درست ہے، ایک قول یہ ہے کہ برتن کھُلا ہوا نہ ہو، اور راجح ولو کان الاناء منکشفاہے (یعنی اگرچہ برتن کھلا ہو) تو خلاصہ یہ ہے کہ دھوپ کے گرم پانی کا سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کے برتن سے جسم پر پہنچانا، گرم وقت میں اور گرم علاقہ میں بلا ٹھنڈا کیے ممنوع ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ سنن الدار قطنی    باب الماء المسخن    نشر السنۃ ملتان    ۱/ ۳۹)

(۲؎ سنن الدار قطنی    باب الماء المسخن    نشر السنۃ ملتان     ۱/ ۳۸)

اور تحقیق(۱) یہ ہے کہ ہمارے نزدیک بھی اُس پانی سے وضو وغسل مکروہ ہے کما صرح بہ فی الفتح والبحر والدرایۃ والقنیۃ والنھایۃ  (جیسا کہ فتح، بحر، درایہ، قنیہ اور نہایہ میں صراحت کی گئی ہے۔ ت)

اور یہ کراہت شرعی تنزیہی ہے


کما اشار الیہ فی الحلیۃ والامداد ھذا ماحققہ ش خلافا للتنویر والدر حیث نفیا الکراھۃ اصلا ویمکن حمل التنویر علی التحریم اما الدر فصرح انھا طبعیۃ عند الشافعیۃ وھو خلاف نصہم۔


جیسا کہ حلیہ اور امداد میں اشارہ کیا ''ش'' نے یہی تحقیق کی، تنویر اور دُر میں اس کے خلاف ہے، ان دونوں حضرات نے مطلقاً کراہت کا انکار کیا ہے، اور تنویر کی عبارت کو مکروہ تحریمی پر محمول کرنا ممکن ہے مگر در میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ شافعیہ کے نزدیک وہ کراہت طبعیہ ہے اور یہ ان کی تصریحات کے خلاف ہے۔ (ت)


اقول:وزیادۃ(۲) التنویر قید القصد حیث قال وبماء قصد تشمیسہ لیس اتفاقیا بل الدلالۃ علی الاول واشارۃ الی نفی ماوقع فی المعراج ان الکراھۃ مقیدۃ عند الشافعی بالقصد فافہم۔


میں کہتا ہوں تنویر میں ارادہ کی قید کا اضافہ ہے انہوں نے فرمایا ''اور اس پانی سے جس کو دھوپ میں قصداً گرم کیا گیا ہے، یہ قید اتفاقی نہیں ہے بلکہ پہلی پر دلالت کے لئے ہے اور جو معراج میں فرمایا ہے اسکی نفی کیلئے ہے کہ شافعیوں کے نزدیک کراہت اس وقت ہے جب بالقصد ہو فافہم۔ (ت)

(۱۱) عورت کی طہارت سے بچا ہوا پانی اگرچہ جنب یا حائض ہو اگرچہ اس پانی سے خلوتِ تامّہ میں اُس نے طہارت کی ہو، خلافا لاحمد والمالکیۃ (اس میں احمد اور مالکیہ کا اختلاف ہے۔ ت) ہاں مکروہ(۳) ضرور ہے۔


بل فی السراج لایجوز للرجل ان یتوضأ ویغتسل بفضل وضؤ المرأۃ ۱؎ اھ وھو نص فی کراھۃ التحریم واستظھرھا ط من قول الدر من منھیاتہ التوضی بفضل ماء ۱؎ المرأۃ قال وفیہ نظر واجاب ش بانہ یشمل المکروۃ تنزیھا فانہ منھی عنہ اصطلاحا حقیۃ کما قدمناہ عن التحریر ۲؎ اھ۔ وعللہ ط بخشیۃ التلذذ وقلۃ توقیھن النجاسات لنقص دینھن قال وھذا یدل علی ان کراھتہ تنزیہیۃ ۳؎۔


بلکہ سراج میں ہے کہ مرد کو جائز نہیں کہ وہ عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے اھ 

اور یہ مکروہ تحریمی میں نص ہے، اور طحطاوی نے اس پر دُر کے قول ''عورت کے باقیماندہ پانی سے وضوء نہ کیا جائے'' سے استدلال کیا ہے، فرمایا اس میں نظر ہے، اور 'ش' نے جواب دیا کہ یہ مکروہ تنزیہی کو شامل ہے کہ یہ منہی عنہ ہے اصطلاحی طور پر حقیقۃً جیسا کہ ہم نے تحریر سے نقل کیا اھ اور طحطاوی نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں ایک تو تلذذ کا خطرہ ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے دینی نقصان کی وجہ سے نجاستوں سے نہیں بچتی ہیں، فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد کراہت تنزیہی ہے اھ۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار         مکروہات الوضوء        مصطفی البابی مصر    ۱/ ۹۸)

(۱؎ طحطاوی علی الدرالمختار    مکروہات الوضوء   بیروت        ۱/ ۷۶)

(۲؎ ردالمحتار         مکروہات الوضوء        مصطفی البابی مصر    ۱/ ۹۸)

(۳؎ طحطاوی علی الدرالمختار مکروہات الوضوء       بیروت        ۱/ ۷۶)


اقول:علی الاول(۱) یعم النھی عکسہ اعنی توضوء المرأۃ من فضل طھورہ وفیہ کلام یاتی اما الثانی۔ میں کہتا ہوں پہلے قول کے مطابق نہی اُس کے عکس کو شامل ہے یعنی عورت کا مرد کے بچے ہوئے پانی سے وضؤ کرنا، اس میں کچھ بحث ہے جو آئے گی۔


فاولا:یقتضی تعمیمہ(۲) رجال البد و والعبید والجھلۃ واشد من الکل العمیان(۳) فلا تبقی خصوصیۃ للمرأۃ۔ رہا دوسرا قول تو اس میں پہلی چیز یہ ہے کہ یہ دیہاتی، غلام اور جاہل سب کو عام ہے، اور سب سے زیادہ نابینا لوگوں کو۔ تو اس میں عورت کی کوئی خصوصیت نہیں۔


وثانیا:لایتقید(۴) بطھورھا فضلا عن اختلائھا بہ بلک اذن یکفی مسھا۔ اور ثانیا، یہ قید نہیں کہ اس کا طہور ہو چہ جائیکہ عورت کا خلوت میں اس کو استعمال کرنا، بلکہ اس کا محض پانی کو چھُولینا بھی کافی ہوگا۔


وثالثا:فی قلۃ(۵) توقیھن النجاسات نظر ونقص دینھن ان احدٰھن تقعد شطر دھرھا لاتصوم ولا تصلی کما فی الحدیث وھذا لیس من صنعھا الا ان یعلل بغلبۃ الجھل علیھن فیشار کھن العبید والاعراب۔


اور تیسرا یہ کہ اُن کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ نجاستوں سے کم بچتی ہیں اس میں اعتراض ہے،اور ان کے دین کا نقص محض یہ ہے کہ وہ ایک زمانہ تک گھر بیٹھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، اور اس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں، ہاں اس کی تعلیل یہ ہوسکتی ہے کہ ان میں جہل کا غلبہ ہوتا ہے تو یہ بات غلاموں اور دیہاتی لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔


ورابعا: العلۃ(۱) توجد فی حق المرأۃ الاخری والکراھۃ خاصۃ بالرجل وجعل ش النھی تعبدیا۔ چوتھے، یہ علّت دوسری عورت کے حق میں بھی پائی جاتی ہے حالانکہ کراہت مرد کے ساتھ خاص ہے اور ''ش'' نے اس مخالفت کو محض تعبّدی امر قرار دیا ہے۔ (ت)


اقول: وھو الاولی لما عرفت عدم انتھاض العلل وبہ صرحت الحنابلۃ ولا بدلھم عن ذلک اذعدم الجواز لایعقل لہ وجہ اصلا وکونہ تعبدیا لما رواہ الخمسۃ ۱؎ انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نھی ان یتوضأ الرجل بفضل طھور المرأۃ ۲؎ ثم ذکر عن غرر الافکار نسخہ بحدیث مسلم ان میمونہ قالت اغتسلت من جفنۃ ففضلت فیھا فضلۃ فجاء النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یغتسل فقٰلت انی اغتسلت منہ فقال الماء لیس علیہ جنابۃ قال ش مقتضی النسخ انہ لایکرہ عندنا ولا تنزیھا وفیہ ان دعوی النسخ تتوقف علی العلم یتأخرا لناسخ ولعلہ ماخوذ من قول میمونۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھا انی قد اغتسلت فانہ یشعر بعلمھا بالنھی قبلہ


میں کہتا ہوں یہی بات بہتر ہے، کیونکہ دوسری علتیں درست نہیں ہے، اور حنبلی حضرات نے بھی یہ علت بیان کی ہے، اور ایسا کرنا ان کیلئے ضروری تھا، کیونکہ عدم جواز کی کوئی وجہ موجود نہیں، اور اس کے تعبدی ہونے پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو پانچوں محدثین نے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضوء کرنے کی ممانعت فرمائی، پھر غرر الافکار کے حوالہ سے اس کا منسوخ ہونا نقل کیا۔ اس میں مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک ٹب میں غسل کیا اس میں کچھ پانی بچ گیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے غسل کا ارادہ فرمایا'' تو انہوں نے عرض کی کہ ''ہم نے اس سے غسل کیا ہے''۔ آپ نے فرمایا ''پانی پر جنابت کا اثر نہیں ہوتا''۔ ش نے فرمایا نسخ کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نہ وہ مکروہ تحریمی ہے نہ مکروہِ تنزیہی، اس میں اعتراض ہے کہ نسخ کا دعوٰی اس پر موقوف ہے کہ ناسخ کے متأخر ہونے کا علم ہو، اور شاید یہ حضرت میمونہ کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ میں نے غسل کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اس سے قبل ہی نہی کا علم تھا،


عہ۱ : اقول المعروف فی اطلاق الخمسۃ ارادۃ الستۃ الا البخاری وھذا انما رواہ احمد والاربعۃ نعم ھو اصطلاح عبدالسلام ابن تیمیۃ فی المنتقی لانہ ادخل الامام احمد فی الجماعۃ فاذ ارادہ غیر الشیخین قال رواہ الخمسۃ منہ غفرلہ۔ (م)

میں کہتا ہوں عام طور پر خمسہ کا اطلاق بخاری کے علاوہ باقی اصحابِ ستّہ پر ہوتا ہے جبکہ اس کو امام احمد اور اربعہ نے روایت کیا ہے۔ ہاں منتقی میں عبدالسلام ابن تیمیہ کی یہ اصطلاح ہے کہ کیونکہ وہ امام احمد کو بھی اصحابِ صحاح کی جماعت میں داخل کرتے ہیں جس حدیث کو شیخین کے علاوہ باقی اصحابِ صحاح نے روایت کیا ہو تو کہتے ہیں رواہ الخمسۃ منہ غفرلہ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار    مکروہات الوضوء    البابی مصر    ۱/ ۹۸)


قال وقد صرح الشافعیۃ بالکراھۃ فینبغی کراھتہ وان قلنا بالنسخ مراعاۃ للخلاف فقد صرحوا بانہ یطلب مراعاۃ الخلاف وقد علمت انہ لایجوز التطھیر بہ عند احمد ۱؎ اھ۔


اور شافعیہ نے کراہت کی تصریح کی ہے تو چاہئے کہ یہ مکروہ ہو، اگرچہ ہم اختلاف کی رعایت کرتے ہوئے نسخ کا قول کریں، کیونکہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ خلاف کی رعایت کی جائے اور یہ تو آپ جان ہی چکے ہیں کہ احمد کے نزدیک اس پا نی سے طہارت جائز نہیں اھ۔(ت)


 (۱؎ ردالمحتار        مکروہات الوضوء   البابی مصر        ۱/۹۸)


اقول:ولاقرب الی الصواب ان لانسخ ولا تحریم بل النھی للتنزیہ والفعل لبیان الجواز وھو الذی مشی علیہ القاری فی المرقاۃ نقلا عن السید جمال الدین الحنفی وبہ اجاب الشخ عبدالحق الدھلوی فی لمعات التنقیح ان النھی تنزیہ لاتحریم فلا منافاۃ ۲؎


میں کہتا ہوں زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ نہ تو نسخ ہے اور نہ ہی تحریم ہے بلکہ نہی محض تنزیہی ہے اور فعل بیان جواز کے لئے ہے ملّا علی قاری نے بھی مرقاۃ میں سید جمال الدین حنفی سے یہی نقل کیا ہے اور لمعات التنقیح میں محدث عبدالحق دہلوی نے بھی یہی جواب دیا ہے کہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیںتو کوئی منافاۃ نہیں،


 (۲؎ لمعات التنقیح    باب مخالطۃ الجنب    المعارف العلمیہ لاہور    ۲/ ۱۲۲)


وقال فی الباب قبلہ اجیب ان تلک عزیمۃ وھذا رخصۃ ۱؎ اھ وبھذا جزم فی الاشعۃ من باب مخالطۃ الجنب وقال الامام العینی فی عمدۃ القاری اما فضل المرأۃ فیجوز عند الشافعی الوضوء بہ للرجل سواء خلت بہ اولاقال البغوی وغیرہ فلا کراھۃ فیہ للاحادیث الصحیحۃ فیہ وبھذا قال مالک وابو حنیفۃ وجمہور العلماء وقال احمد وداود لایجوز اذا خلت بہ و روی ھذا عن عبداللّٰہ بن سرجس والحسن البصری و روی عن احمد کمذھبنا وعن ابن المسیب والحسن کراھۃ فضلھا مطلقا ۲؎ اھ۔ واذ احملنا المنفیۃ علی کراھۃ التحریم لم یناف ثبوت کراھۃ التنزیہ وکیفما(۱) کان فما فی السراج غریب جدا ولم یستند لمعتمد وخالف المعتمدات ونقول الثقات ولا یظھر لہ وجہ وقد قال(۲) فی کشف الظنون السراج الوھاج عدہ المولی المعروف ببرکلی جملۃ الکتب المتداولۃ الضعیفۃ غیر المعتبرۃ اھ۔ قال چلپی ثم اختصر ھذا الشرح وسماہ الجوھر النیر ۳؎ اھ۔


اس پہلے باب میں فرمایا کہ ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ عزیمۃ تھی اور یہ رخصۃ ہے اھ اور اشعۃ اللمعات میں اسی پر جزم کیا ہے عینی نے عمدۃ القاری میں فرمایا ہے عورت کا بچے ہوئے پانی سے امام شافعی کے نزدیک مرد کیلئے وضو جائز ہے خواہ اُس عورت نے اس سے خلوت کی ہو یا نہ کی ہو بغوی وغیرہ نے فرمایا تو اس میں کراہت نہیں ہے کہ صحیح احادیث اس بارے میں موجود ہیں یہی قول مالک، ابو حنیفہ اور جمہور علماء کا ہے، اور احمد اور ابو داو،د نے فرمایا کہ جب عورت اس پانی کے ساتھ خلوت کرے تو جائز نہیں، یہ قول عبداللہ بن سرجس اور حسن بصری سے منقول ہے، اور احمد کی ایک روایت مذہب ابی حنیفہ کے مطابق ہے، اور ابن المسبّب اور حسن سے اس بچے ہوئے کی کہ کراہت مطلقاً منقول ہے اھ اور اگر ہم منفی کو کراہتِ تحریم پر محمول کریں تو اس سے کراہت تنزیہی کے ثبوت کی نفی لازم نہ آئے گی، بہرصورت جو سراج میں ہے وہ بہت ہی غریب ہے اور کسی معتمد کتاب کی سند اس پر موجود نہیں، بلکہ کتب معتمدہ اور نقول مستندہ کے صریح خلاف ہے، اور اس کی کوئی وجہ ظاہر نہیں ہوتی ہے، کشف الظنون میں ہے کہ سراج الوہاج کو مولی المعروف برکلی نے کتبِ متداولہ، ضعیفہ غیر معتبرہ میں شمار کیا ہے اھ اور چلپی نے فرمایا پھر اس کتاب کو مختصر کیا گیا اور اس کا نام جوہر نیر ہوا اھ (ت)


 (۱؎ لمعات التنقیح        باب الغسل    المعارف العلمیہ لاہور    ۲/ ۱۱۲)

(۲؎ عمدۃ القاری    وضوء الرجل مع امرأتہ        مصر    ۳/ ۸۳)

(۳؎ کشف الظنون     ذکر مختصر القدوری        بغداد    ۲ /۱۶۳)

اقول: بل الجوھرۃ النیرۃ وھی منالکتب المعتبرۃ کما نص علیہ فی ردالمحتار ونظیرہ(۱) ان مجتبی النسائی المختصر من سننہ الکبرٰی من الصحاح دون الکبری۔


میں کہتا ہوں بلکہ جوہرہ نیرہ ہے اور وہ کتب معتبرہ سے ہے جیسا کہ اس کی صراحۃ ردالمحتار میں موجود ہے اور اس کی نظیریہ ہے کہ نسائی کی مجتبٰی جو ان کی سنن کبرٰی سے مختصر ہے صحاح میں شمار ہوتی ہے جبکہ کبری صحاح میں شمار نہیں ہوتی۔ (ت)


ثم اقول ھھنا اشیاء یطول الکلام علیھا ولنشر الی بعضھا اجمالا منھا(۲) لاتبتنی کراھتہ مطلقا علی قول الامام احمد بعدم الجواز لانہ مخصوص عندہ بالاختلاء ومنھا(۳) ان مراعاۃ الخلاف انما ھی(۴) مندوب الیھا فیما لایلزم منھا مکروہ فی المذھب کما نص علیہ العلماء منھم العلامہ ش نفسہ وترک(۵) المندوب لایکرہ کما نصوا علیہ ایضا منھم نفسہ فی ھذا الکتاب فکیف تبتنی الکراھۃ علیھا لاسیما بعد تسلیم(۶) ان نسخ التحریم ینفی کراھۃ التنزیہ ایضا ومنھا(۷) ھل الحکم مثلہ فی عکسہ ای یکرہ لما ایضا فضل طھورہ ردی احمد وابو داو،د والنسائی عن رجل صحب النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اربع سنین وابن ماجۃ عن عبداللّٰہ بن سرجس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان تغتسل المرأۃ بفضل الرجل اویغتسل بفضل المرأۃ ۱؎


پھر میں کہتا ہوں یہاں بعض چیزیں ایسی ہیں جن سے کلام میں طوالت ہوگی تاہم کچھ کا ذکر اجمالی طور پر کیا جاتا ہے، کراہت کی بنیاد مطلقاً امام احمد کے عدمِ جواز کا قول نہیں، کیوں کہ اُن کے نزدیک یہ قول خلوت کے ساتھ مختص ہے، خلاف کی رعایت ایسے امور میں مندوب ہے جن میں اپنے مذہب کا کوئی مکروہ لازم نہ آئے جیسا کہ علماء نے اس کی صراحت کی ہے، خود علامہ 'ش' نے ایسا ہی کیا ہے اور مندوب کا ترک مکروہ نہیں جیسا کہ فقہا ء نے اس کی صراحت کی ہے خود 'ش' نے اس کتاب میں صراحت کی ہے، تو پھر کراہت اس پر کیسے مبنی ہوگی؟ خاص طور پر جبکہ اس امر کو تسلیم کرلیا گیا کہ تحریم کا منسوخ ہوجانا تنزیہی کراہت کی بھی نفی کرتا ہے، کیا اس کے عکس میں بھی ایسا ہی حکم ہوگا؟ یعنی عورت کیلئے بھی مرد کا چھوڑا ہوا پانی استعمال کرنا مکروہ ہوگا؟ تو احمد، ابو داو،د اور نسائی نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک صحابی جو چار سال تک آپ کے ساتھ رہے، سے روایت کی اور ابن ماجہ نے عبداللہ بن سرجس سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز سے منع کیا کہ عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے یا مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے۔


 (۱؎ مشکوٰۃ المصابیح    باب مخالطۃ الجنب    مجتبائی دہلی    ص۵۰)


لکن قال الشیخ ابن حجرالمکی فی شرح المشکوٰۃ لاخلاف فی ان لھا الوضوءبفضلہ ۱؎ اھ وقال ایضا ان احدالم یقل بظاھرہ ومحال ان یصح وتعمل الامۃ کلھا بخلافہ ۲؎ اھ وتعقبہ الشیخ المحقق الدھلوی فی اللمعات بقولہ قد قال الامام احمد بن حنبل مع مافیہ من التفصیل والخلاف فی مشایخ ۳؎ مذھبہ الی اخر ماذکر من خلافیاتھم۔


مگر شیخ ابن حجر مکّی نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ اس میں اختلاف نہیں کہ عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے وضوء کرسکتی ہے اھ۔ نیز فرمایا کہ کسی ایک نے بھی اس کے ظاہر کے خلاف نہیں فرمایا اور یہ محال ہے کہ ایک چیز صحیح بھی ہو اور تمام اُمّت اس کے خلاف عمل پیرا ہو اھ۔ اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لمعات میں اس پر رد کیا اور فرمایا احمد بن حنبل نے جو فرمایا ہے اس میں تفصیل ہے اور ان کے مذہب کے مشایخ میں بھی اختلاف رہا ہے، پھر وہ اختلاف ذکر کیا۔ (ت)


(۱؎ شرح المشکوٰۃ لابن حجر    )

(۲؎ شرح المشکوٰۃ لابن حجر)    

(۳؎ لمعات التنقیح باب مخالطۃ الجنب    المعارف العلمیہ لاہور    ۲/ ۱۳۰)


اقو ل: (۱) رحم اللّٰہ الشیخ ورحمنا بہ کلام ابن حجر فی وضوئھا بفضلہ وقول الامام احمد وخلافیات مشایخ مذھبہ فی عکسہ نعم قال الامام العینی فی العمدۃ حکی ابو عمر خمسۃ مذاہب الثانی یکرہ ان یتوضأ بفضلھا وعکسہ والثالث کراھتہ فضلھا لہ والرخصۃ فی عکسہ والخامس لاباس بفضل کل منھما وعلیہ فقہاء الامصار ۴؎ اھ ملتقطا فھذا یثبت الخلاف واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں اللہ رحم کرے شیخ پر اور ہم پر، ابن حجر نے مرد کے بچے ہوئے پانی سے عورت کے وضو کرنے کی بابت جو کلام کیا ہے اور امام احمد کا قول اور ان کے مشایخ مذہب کے اختلافات اس کے برعکس صورت میں ہیں، ہاں عینی نے عمدہ میں فرمایا کہ ابو عمر نے پانچ مذاہب گنائے ہیں، ان میں دوسرا یہ ہے کہ مرد کا عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے اور اس کا عکس بھی مکروہ ہے اور تیسرا یہ ہے کہ عورت کا بچا ہوا مرد کیلئے مکروہ ہے اور اس کے عکس میں رخصت ہے اور پانچواں یہ ہے کہ دونوں کے بچے ہوئے پانی میں کچھ حرج نہیں، اور اسی پر شہروں کے فقہاء ہیں اھ۔ ملتقطا، اس سے خلاف ثابت ہوتا ہے واللہ تعالٰی اعلم (ت)


 (۴؎ عمدۃ القاری باب وضؤ الرجل مع امرأتہ        مصر    ۳ /۸۵) (۱۲) اُس کنویں یا(۲) حوض کا پانی جس سے بچّے عورتیں گنوار جہّال فسّاق ہر طرح کے لوگ اپنے میلے کچیلی  گھڑے ڈال کر پانی بھریں جب تک نجاست معلوم نہ ہو فتح القدیر میں ہے:


یتوضوء من البئر التی یدلی فیہ الدلاء والجرار الدنسۃ یحملھا الصفار والعبید الذین لایعلمون الاحکام ویمسھا الرستاقیون بالایدی الدنسۃ مالم یتعلم نجاسۃ ۱؎۔


جس کو کنویں میں بچّے اور غلام میلے ڈولوں اور ٹھیلوں سے پانی بھرتے ہوں اور جن کو سقّے مَیلے ہاتھ لگاتے ہوں ایسے کنوؤں سے وضو کرنے میں حرج نہیں، ہاں اگر نجاست کا یقین ہو تو جائز نہیں (ت)


 (۱؎ فتح القدیر        غدیر عظیم                سکھر    ۱/ ۷۲)


اشباہ والنظائر میں ہے:قال الامام محمد حوض تملؤ منہ الصغار والعبید بالایدی الدنسۃ والجرار الوسخۃ یجوز الوضوءمنہ مالم تعلم نجاسۃ ۲؎۔


امام محمد نے فرمایا وہ حوض جس سے چھوٹے بچّے اور غلام پانی بھرتے ہوں، اُن کے ہاتھ اور ٹھلیاں مَیلی ہوں تو جب تک نجاست کا یقین نہ ہو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۲؎ الاشباہ والنظائر    الیقین لایزول بالشک        ادارۃ القرآن کراچی    ۱/۸۷)


وہ پانی(۱) جس میں ایسا برتن ڈالا گیا ہو جو زمین پر رکھا جاتا ہے جس کے پیندے کی طہارت پر یقین نہیں جب تک نجاست پر یقین نہ ہو فتح القدیر میں ہے:


قالوا ولاباس بالتوضی من حب یوضع کوزہ فی نواحی الدار ویشرب منہ مالم یعلم بہ قذر ۳؎۔ فقہاء نے فرمایا وہ تالاب جس کے کوزے گھر کے گوشے میں رکھے جاتے ہوں اور اس سے پانی پیا جاتا ہو تو اُس سے وضو کرنے میں حرج نہیں، جب تک اس کی گندگی کا علم نہ ہو۔ (ت)


 (۳؎ فتح القدیر        غدیر عظیم            سکھر    ۱/ ۷۲)


حدیقہ ندیہ میں جامع الفتاوٰی سے ہے:وکذا الکوز الموضوع فی الارض اذا ادخل فی الحب للشرب منہ یعنی یجوز مالم یعلم النجاسۃ ۴؎۔ اسی طرح وہ لوٹا جو زمین پر رکھا ہوا ہو جب اس کو تالاب میں ڈال کر اس سے پینے کیلئے پانی نکالا جائے تو اس سے وضو جائز ہے، یعنی جب تک نجاست کا علم نہ ہو۔ (ت)


 (۴؎ حدیقہ ندیہ    صنف ثانی من المصننفین    نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۶۶۷)


یہی حکم اُن(۲) لوٹوں کے پیندوں کا ہے جو زمین پر رکھے جاتے بلکہ بیت الخلاء میں لے جاتے ہیں جبکہ موضع نجاست سے جُدا ہوں۔

(۱۴) ہنود(۱) وغیرہم کفار کے کنووں یا برتنوں کا پانی اس سے طہارت ہوسکتی ہے جب تک نجاست معلوم نہ ہو مگر کراہت رہے گی جب تک طہارت نہ معلوم ہو کہ وہ مظنہئ ہر گونہ نجاست ہیں عینی شرح بخاری میں زیر اثر توضأ عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ من بیت نصرانیۃ (حضرت عمر نے ایک نصرانی عور ت کے گھر سے وضو کیا۔ ت) فرمایا:


الذی یدل ھذا الاثر جواز استعمال میاھھم ولکن یکرہ استعمال اوانیھم وثیابھم سواء فیہ اھل الکتاب وغیرھم وقال الشافعیۃ فان تیقن طہارتھا فلا کراھۃ ولا نعلم فیھا خلافا واذا تطھر من اناء کافر ولم یتیقن طہارتہ ولا نجاستہ فان کان من قوم لایتدینون باستعمالھا صحت طہارتہ قطعا والا وجہان اصحھما الصحۃ وممن کان لایری بأسا بہ الاوزاعی والثوری وابو حنیفۃ والشافعی واصحابھما وقال ابن المنذر لااعلم احداکرھہ الا احمد وابن اسحٰق قلت وتبعھما اھل الظاھر واختلف قول مالک ففی المدونۃ لایتوضوء بسؤر النصرانی ولا بمأ ادخل یدہ فیہ وفی العتبیۃ اجازہ مرۃ وکرھہ اخری ۱؎ اھ


اس اثر سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پانیوں کا استعمال جائز ہے لیکن ان کے برتنوں اور کپڑوں کا استعمال مکروہ ہے اس میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب برابر ہیں اور شافعی حضرات فرماتے ہیں اگر ان کی پاکی کا یقین ہو تو کراہت بھی نہیں، اور ہم اس میں کوئی اختلاف نہیں جانتے اور جب کسی برتن سے کسی کافر نے پاکی حاصل کی اور اس کی طہارت ونجاست میں سے کسی کا یقین نہیں، تو اگر وہ ایسے لوگوں کا برتن ہے جو نجاست کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے، تو اس کو طہارت قطعاً ثابت ہے ورنہ اس میں دو صورتیں ہیں، دونوں میں اَصَحّ صحت ہے، امام اوزاعی، ثوری، ابو حنیفہ، امام شافعی اور دونوں کے اصحاب اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، اور ابنِ منذر فرماتے ہیں میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس کو مکروہ سمجھا ہو سوائے احمد اور ابن اسحاق کے، میں کہتا ہوں اہلِ ظاہر نے ان دونوں کی متابعت کی اور مالک کے قول میں اختلاف پایا جاتا ہے، مُدَوّنہ میں ہے نصرانی کے جھُوٹے سے اور اُس پانی سے جس میں اُس نے اپنا ہاتھ ڈالا ہو وضو نہ کیا جائے، اور عتبیہ میں ایک قول جواز کا ہے اور ایک کراہۃ کا۔ (ت)


 (۱؎ عمدۃ القاری    باب وضؤ الرجل مع امرأتہٖ    مصر    ۳/ ۸۲)

اقول:افادکراھۃ التحریم لمقابلتھا بالاجازۃ وھی محمل قول احمد واسحٰق ونفی البأس مرجعہ الی خلاف الاول وقد بینا المسألۃ بابسط مماھنا فی فتاوٰنا۔


میں کہتا ہوں اس سے کراہت تحریمی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کا مقابلہ اجازت سے ہے، اور اسی پر احمد اور اسحاق کے قول کو محمول کیا گیا ہے اور جہاں بأس کی نفی ہے اس کا مطلب خلاف اولٰی ہے، ہم نے اس مسئلہ کو بہ نسبت اِس مقام کے اپنے فتاوٰی میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (ت)


ذخیرہ میں ہے: یکرہ الاکل(۱) والشرب فی اوانی المشرکین قبل الغسل لان الغالب الظاھر من حال اوانیھم النجاسۃ ۱؎۔ مشرکین کے برتنوں میں دھونے سے پہلے کھانا پینا مکروہ ہے کیونکہ ان کے برتن میں بظاہر ناپاک ہوتے ہیں۔ (ت)


 (۱؎ حدیقہ ندیۃ        نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۷۱۲)


(۱۵) جس پانی(۲) میں بچّہ نے ہاتھ یا پاؤں ڈال دیا یہاں بھی وہی حکم ہے کہ قابلِ طہارت ہے جب تک نجاست پر یقین نہ ہو مگر اولٰی احتراز ہے جب تک طہارت پر یقین نہ ہو۔


ہندیہ میں ہے: اذا ادخل الصبی یدہ فی کوزماء اورجلہ فان علم ان یدہ طاھرۃ بیقین یجوز التوضؤ بہ وان کان لایعلم انھا طاھرۃ اونجسۃ فالمستحب ان یتوضأ بغیرہ ومع ھذا لوتوضأ اجزأہ کذا فی المحیط ۲؎۔


بچّے نے پانی کے کُوزے میں اگر ہاتھ یا پیر ڈالا تو اگر یقین سے یہ معلوم ہے کہ اس کا ہاتھ یا پَیر پاک ہے تو اس سے وضو جائز ہے اور اگر معلوم نہیں کہ وہ پاک ہے یا ناپاک، تو مستحب یہ ہے کہ دوسرے پانی سے وضو کیا جائے، لیکن اگر وضو کر ہی لیا تو جائز ہے کذا فی المحیط۔ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ    فصل فیما لایجوزبہ التوضؤ    پشاور    ۱/ ۲۵)


(۱۶) یوں ہی(۳) جس میں مشکوک کپڑا گر گیا حتی کہ بچّے کے نہالچے کی روئی جبکہ نجاست معلوم نہ ہو مگر کراہت ہے کہ مظنہ زیادہ ہے، جواہر الفتاوٰی باب اول فتاوٰی امام رکن الدین ابو الفضل کرمانی میں ہے:


قطعۃ قطن من فراش صبی وقعت فی بئرولا یدری انھا نجسۃ ام طاھرۃقال لایحکم بکونھا نجسۃ بالشک والاحتمال ولو احتیط ونزح کان اولی ۱؎۔


.بچّے کے بچھونے سے رُوئی کا ایک ٹکڑا کُنویں میں گر گیا اور یہ معلوم نہیں کہ یہ پاک ہے یا ناپاک، تو محض شک اور احتمال کی بنا پر اس کی نجاست کا حکم نہیں دیا جائیگا اور اگر احتیاط سے کام لیا جائے اور تمام پانی نکال دیا جائے تو بہتر ہے۔ (ت)


 (۱؎ جواہر الفتاوٰی)


وہ پانی(۱) جس میں استعمال جُوتا گر گیا جبکہ نجاست نہ معلوم ہو یہاں پر بھی وہی حکم ہے تاتارخانیہ پھر طریقہ وحدیقہ میں ہے: سئل الامام الخجندی عن رکیۃ وھی البئر وجد فیھا خف ای نعل تلبس ویمشی بھا صاحبھا فی الطرقات لایدری متی وقع فیھا ولیس علیہ اثر النجاسۃ ھل یحکم بنجاسۃ الماء قال لا ۲؎ اھ ملخصا۔ امام خجندی سے ایسے کنویں کی بابت دریافت کیا گیا جس میں ایسا موزہ (ہلکا جوتا) پایا گیا جسے پہن کر عام راستوں پر چلا جاتا ہے، اور یہ معلوم نہیں کہ وہ کب گرا ہے، اور اس پر بظاہر نجاست کا اثر بھی نہیں تو کیا کنواں ناپاک ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں اھ (ت)


(۲؎ حدیقہ ندیۃ    صنف ثانی من الصنفین    نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۶۷۴)


 (۱۸ تا ۲۱) شکاری پرندوں اور حشرات الارض اور بلّی اور چھوٹی ہوئی مرغی کا جھوٹا جبکہ طہارت یا نجاست پر یقین نہ ہو یہ اُس وقت مکروہ ہے جبکہ دوسرا صاف پانی موجود ہو وقد بیناہ فی فتاوٰنا (ہمارے فتاوٰی میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ت)

(۲۲) اُس جانور کا جھوٹا جس میں خون سائل نہیں جیسے بچھّو وغیرہ اس میں کراہت بھی نہیں۔ درمختار میں ہے:


سؤر مالادم لہ طاھر طھور بلاکراھۃ ۳؎۔ اس جانور کا جھُوٹا جس میں خون سائل نہیں بلاکراہت پاک اور پاک کرنے والا ہے۔ (ت)


 (۳؎ الدرالمختار        فی البئر        مجتبائی دہلی        ۱/ ۴۰)


(۲۳) حوض(۲) کا پانی جس میں بدبُو آتی ہو جبکہ اُس کی بُو نجاست کی وجہ سے ہونا معلوم نہ ہو۔ خانیہ میں ہے: یجوز التوضوء فی الحوض الکبیر المنتن اذالم تعلم نجاسۃ لان تغیر الرائحۃقد یکون بطول المکث ۱؎ اھ بڑے حوض میں اگر بدبو ہو تو بھی اس سے وضو ء جائز ہے بشرطیکہ اس میں نجاست معلوم نہ ہو کیونکہ پانی کے ٹھہرے رہنے کی وجہ سے بھی کبھی بدبُو پیدا ہوجاتی ہے اھ (ت)


(۱؎ قاضی خان        الماء الراکد    نولکشور لکھنؤ    ۱/ ۴)


اقول:وکذا الصغیر وانما قید بالکبیر لاجل فی معناہ ان الکبیر اذا تغیر احد اوصافہ بنجس ینجس فالحوض الکبیر المنتن قدیتوقاہ الموسوس توھما ان نتنہ بالنجس فافادانہ وھم لایعتبر۔


میں کہتا ہوں چھوٹے حوض کا بھی یہی حکم ہے، بڑے کی قید محض اس لئے لگائی ہے کہ بڑے حوض کا پانی جب نجاست کی وجہ سے متغیر ہوجائے اور اس کا کوئی وصف بدل جائے تو نجس ہے اگر بڑے حوض میں بدبو پائی جائے تو وہمی شخص اس سے پرہیز کرسکتا ہے کہ شاید اس کی بدبو نجاست کے باعث ہے، لیکن اس عبارت سے یہ بتادیا کہ یہ وہم معتبر نہیں ہے۔ (ت)

(۲۴) مولٰی کریم رؤف رحیم عزجلالہ، اپنے حبیب اکرم رحمتِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وجاہت کریمہ کے صدقہ میں اپنے غضب سے دونوں جہان میں بچائے جس بستی پر(۱) عیاذاً باللہ عذاب اُترا اُس کے کُنوؤں تالابوں کا پانی کہ اُس کا استعمال کھانے پینے طہارت ہر شے میں مکروہ ہے یوں ہی اس کی مٹی سے تیمم، ہاں زمین(۲) ثمود کا وہ کُنواں جس سے ناقہئ صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام پانی پیتا اُس کا پانی مستشنٰی ہے، صحاح میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ہمراہ رکاب اقدس حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم زمین ثمود پر اُترے وہاں کے کنووں سے پانی بھرا اُس سے آٹے گوندھے، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ پانی پھینک دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلادیں چاہِ ناقہ سے پانی لیں۔ ردالمحتار میں ہے:


ینبغی کراھۃ التطھیر ایضا اخذا مما ذکرناہ وان لم ارہ لاحد من ائمتنا بماء وتراب من کل ارض غضب علیھا الا بئرالناقۃ بارض ثمود وقد صرح الشافعیۃ بکراھتہ ولا یباح عند احمد ثم نقل الحدیث عن شرح المنتھی الحنبلی وانہ قال ظاھرہ منع الطہارۃبہ قال وبئر الناقۃ ھی البئر الکبیرۃ التی یردھا الحجاج فی ھذہ الازمنۃ ۱؎ اھ۔ وقولہ اخذا مما ذکرنا یشیر الٰی ماقدم من تعلیل الکراھۃ بمراعاۃ الخلاف۔


جس زمین پر بھی غضب نازل ہوا ہو، اس کے پانی اور مٹّی سے طہارت حاصل کرنامکروہ ہونا چاہئے سوائے ناقہ کے کنویں کے جو زمین ثمود میں پایا جاتا ہے۔ یہ بات اس تحقیق سے معلوم ہوتی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے، اگرچہ میری نظر سے نہیں گزرا کہ ہمارے ائمہ میں سے کسی نے یہ بات کہی ہو، البتہ شافعیہ نے اس کے مکروہ ہونے کی تصریح کی ہے، اور امام احمد کے نزدیک مباح نہیں ہے، پھر حدیث نقل کی شرح منتہی حنبل سے، اور فرمایا اس سے بظاہر طہارت کا ممنوع ہونا مفہوم ہوتا ہے، فرمایا اونٹنی کے کنویں سے مراد وہ بڑا کُنواں ہے جس پر آج کل حاجی آتے ہیں اور اس کے قول اخذا مما ذکرنا سے مراد کراہت کی علّت ہے جو انہوں نے بیان کی کہ اختلاف کی رعایت مقصود ہے۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار    مکروہات الوضو ء    مصطفی البابی مصر    ۱/ ۹۸)


اقول وفیہ(۱) ماقدمنا لکن الکراھۃ ھھنا واضحۃ فقد کرہ الاٰجر فی القبر مما یلی المیت لاثر النار کما فی البدائع وغیرھا فھذا اولی بوجوہ کما لایخفی علی من اعتبر فجزاہ اللّٰہ تعالٰی خیرا کثیرا فی جنات الفردوس کمانبہ علی ھذہ الفائدۃ الفازۃ۔


میں کہتا ہوں اس پر وہ اعتراض ہے جو ہم نے ذکر کیا، لیکن کراہت یہاں واضح ہے، کیونکہ آگ میں پکی ہوئی اینٹ قبر میں میت سے لگا کر استعمال کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس میں آگ کا اثر ہوتا ہے، جیسا کہ بدائع وغیرہ میں ہے تو یہ بطریق اولی مکروہ ہے کئی وجوہ سے جیسا کہ عبرت حاصل کرنے والے پر مخفی نہیں اللہ تعالٰی اسے جنۃ الفردوس میں خیر کثیر عطا فرمائے جیسا کہ اس عمدہ فائدہ میں تنبیہ کی گئی ہے۔ (ت)

(۲۵) آبِ(۲) مغصوب۔ آبِ مغصوب میں تو کراہت ہی تھی آب مغصوب کا استعمال صرف کھانے پینے میں ہو خواہ طہارت میں محض حرام ہے مگر وضو وغسل صحیح ہوجائیں گے اور ان سے نماز ادا ہوجائے گی لان المنع للمجاور (یہ ممانعت ساتھ ملنے کی وجہ سے ہے۔ ت) ردالمحتار میں زیر قول شارح یجوز رفع الحدث بما ذکر (حدث کا دور کرنا جائز ہے ان چیزوں سے جو ذکر کی گئیں) فرمایا ای یصح وان لم یحل فی نحو الماء المغضوب ۲؎ (یعنی صحیح ہے اگرچہ حلال نہیں مغضوب پانی کی شکل میں۔ ت)


(۲۶) وہ(۳) پانی کہ کسی کے مملوک کنویں سے بے اس کی اجازت بلکہ باوصف ممانعت کے بھرا اس کا پینا وضو وغیرہ میں خرچ کرنا سب جائز ہے یہ مغضوب کی حد میں نہیں کہ کنویں(۴) کا پانی جب تک کُنویں میں ہے کسی کی مِلک نہیں آبِ باراں کی طرح مباح وخالص مِلک الٰہ عز جلالہ ہے۔ ردالمحتار میں ہدایہ سے ہے: الماء فی البئر غیر مملوک ۳؎ (کنویں کے اندر کا پانی کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ ت)


(۲؎ ردالمحتار    باب المیاہ         مصطفی البابی مصر       ۱/ ۱۳۵)

(۳؎ ردالمحتار    فصل الشرب      مصطفی البابی مصر        ۲/ ۱۸۶)


اُسی میں ولوالجیہ سے ہے:اونزح ماء بئر رجل بغیر اذنہ حتی یبست لاشیئ علیہ لان صاحب البئر غیر مالک للماء ۱؎۔ اگر کسی شخص کے کنویں کا پانی اس کی اجازت کے بغیر نکالا اور اتنا نکالا کہ وہ کنواں خشک ہوگیا تو اس شخص پر کوئی ضمان نہیں، کیونکہ وہ شخص پانی کا مالک نہیں۔ (ت)


(۱؎ فتاوٰی خیریہ    مسائل الشرب    بیروت        ۲/ ۱۸۶)

اُسی میں ذخیرہ سے ہے:الماء قبل الاحراز بالاوانی لایملک فقد اتلف مالیس بمملکوک لغیرہ ۲؎۔ پانی کو جب تک برتنوں میں نہ بھر لیا جائے مِلک ثابت نہیں ہوتی ہے، تو اس نے وہ چیز تلف کی ہے جو غیر کیمملوک نہیں۔ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار        فصل الشرب        مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۷)


اُسی میں درمختار سے ہے:الماء تحت الارض لایملک ۳؎۔ زمین کے نیچے جو پانی ہے اس پر کسی کی مِلک نہیں۔ (ت)


(۳؎ ردالمحتار        کتاب احیاء الموات   مصطفی البابی مصر         ۵/ ۳۰۸)


اسی طرح کُتب کثیرہ میں ہے:اقول:  والعبرۃ للمنقول وان بحث البحر تبعا للفتح لزوم کون ماء البئر مملوکا للحافر بناء علی احد قولین فی الکلائ۔ میں کہتا ہوں اعتبار منقول کو ہے، اگرچہ بحر نے اس پر فتح کی متابعت میں بحث کی ہے، اور فرمایا ہے کہ جس نے کنواں کھودا ہے پانی بھی اسی کی ملکیت میں ہے اس بناء پر کہ گھاس میں بھی ایک قول یہی ہے۔ (ت)


اقول وقد کان یخالج صدری نظر الی ان من نصب(۱) شبکۃ لیتعلق بھا صید ملکہ لا لونصبھا للجفاف تنویروغیرہ وان من وضع اناء لجمع ماء المطر ملکہ اما اذالم یضع٭ لذلک واجتمع٭ فالماء لمن رفع خیریۃ وغیرھا میں کہتا ہوں میرے دل میں یہ خلجان تھا کہ جس شخص نے جال لگایا کہ اس میں کوئی شکار پھنس جائے تو شکار اسی کی ملکیت ہوگا بشرطیکہ اس نے جال خشک کرنے کیلئے نہ لگایا ہو، تنویر وغیرہ۔ اور اگر کسی شخص نے برتن رکھا کہ اس میں بارش کا پانی جمع ہوجائے، پھر پانی جمع ہوا تو وہ اسی کی مِلک ہے،


وظھر الجواب بحمدہ تعالٰی ان ملک(۱) المباح بالاستیلاء والاستیلاء بالاحراز وقدتم فی الشبکۃ والانء بخلاف البئر ففی ش عن جامع الرموز ملاء الدلو من البئر ولم یبعدہ من رأسھا لم یملکہ عندالشیخین اذ الاحراز جعل الشیئ فی موضع حصین ۱؎ اھ۔اماما بحثہ الفتح فقد اجاب عنہ فی النھر فراجع ش من البیع الفاسد مسألۃ بیع المراعی۔


جب برتن پانی جمع ہونے کیلئے نہ رکھا ہو اور پانی جمع ہوجائے تو وہ پانی اس کی ملکیت میں ہوگا جس میں اٹھایا، خیریہ وغیرہ۔ اور یہ جواب معلوم ہوا کہ مباح چیز پر ملکیت استیلاء اور غلبہ سے ہوتی ہے اور استیلأ اس چیز کو قبضہ میں لے لینے سے ہوتی ہے، اور یہ چیز جال اور برتن کی شکل میں تو پائی جاتی ہے لیکن کنویں کی صورت میں نہیں "ش" میں جامع الرموز سے منقول ہے کہ اگر کسی شخص نے کنویں سے ڈول بھرا لیکن اس کو کنویں کے منہ سے دُور نہ کیا تو وہ اس کی ملک میں نہ ہوگا، یہ شیخین کے نزدیک ہے، کیونکہ احراز کسی چیز کو محفوظ جگہ رکھنے کو کہا جاتا ہے اھ اور جو بحث فتح میں ہے تو اس کا جواب نہر میں ہے اس سلسلہ میں بیع فاسد کا باب تحت مسئلہ چراگاہوں کے بیچنے 'ش' میں ملاحظہ کیجئے۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار        فصل الشرب            مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۷)


اقول: ویؤیدہ(۲) مافی الھندیۃ عن المبسوط ماانبتہ صاحب الارض بان(۳) سقی ارضہ وکربھا لینبت فیھا الحشیش لدوابہ فھو احق بذلک ولیس لاحدان ینتفع بشیئ منہ الابرضاہ لانہ کسبہ والکسب للمکتسب ۲؎ اھ فلا یقاس علیہ ماء البئر فانہ لیس من کسب حافرھا انما صنعہ فیہ رفع الحجاب کالفصاد۔


میں کہتا ہوں اس کی تائید ہندیہ کے اُس حوالہ سے ہوتی ہے جو انہوں نے مبسوط سے نقل کیا ہے، حوالہ یہ ہے کہ کسی شخص نے اپنی زمین میں جانوروں کو کھلانے کیلئے گھاس اگائی تو وہ اسی کی ہے اور کوئی شخص اُس سے اس کی مرضی کے بغیر استفادہ نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ اس کی کمائی ہے، اور ہر شخص کی کمائی اسی کی ہوتی ہے اھ مگر اس پر کنویں کے پانی کو قیاس نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ پانی کنویں کے کھودنے والے کی کمائی نہیں ہے اُس نے تو صرف اتنا کام کیا کہ پانی پر جو حجاب تھا وہ رفع کردیا،جیسے فصد کے عمل میں ہوتا ہے۔


(۲؎ الفتاوٰی الہندیۃ    الباب الاول من کتاب الشرب    پشاور         ۵/ ۳۹۲)


قال تعالٰی اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَائً فَسَلَکَہ، ینابِیع فِی الْاَرْضِ ۱؎ وتقریر الاٰیۃ فی میاہ الدر واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ فرمانِ الٰہی ہے: کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تو اللہ تعالٰی نے اس کو چشموں میں جاری کردیا، اس آیت کی تقریر در کے باب المیاہ میں ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


(۱؎ القرآن    ۳۹/۲۱)


یونہی(۱) کسی کا برتن صحن میں تھا، مینہ برسا، برتن بھر گیا، پانی بھی اس کی ملک نہ ہوا اپنی اصل اباحت پر باقی ہے اگرچہ برتن اور مکان اس کی ملک ہے جو اس پانی کو لے لے وہی اس کا مالک ہوجائے گا اگرچہ برتن کا مالک منع کرتا ہے ہاں اس کے برتن کا استعمال بے اجازت جائز نہ ہوگا۔


(۲۸) اگر(۲) اس نے برتن اسی نیت سے رکھا تھا کہ آبِ باراں اس میں جمع ہو تو اب وہ پانی اُس کی ملک ہے دوسرے کو بے اس کی اجازتِ صحیحہ کے حرام ہے ہاں طہارت یوں بھی ہوجائے گی گناہ کے ساتھ فتاوٰی کبری پھر ہندیہ میں ہے: وضع طستا علی سطح فاجتمع فیہ ماء المطر فجاء رجل ورفع ذلک فتنازعا ان وضع صاحب الطست الطست لذلک فھو لہ لانہ احرزہ وان لم یضعہ لذلک فھو للرافع لانہ مباح غیر محرز ۲؎۔ کسی شخص نے چھت پر پانی کا طشت رکھا تو اس میں بارش کا پانی جمع ہوگیا، اب ایک شخص نے آخر وہ طشت اٹھالیا، تو اگر طشت کے مالک نے یہ طشت اسی مقصد سے رکھا تھا تو وہ مالک کا ہی ہے اور اگر اس نے یوں ہی رکھ دیا تھا تو جس نے طشت اٹھایا پانی اسی کا ہوا کیونکہ احراز کا فعل اس کی طرف منسوب ہوگا۔ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی خیریۃ بالمعنی    مسائل الشرب    بیروت    ۲/ ۱۸۶)


(۲۹) سبیل(۳) جو پینے کیلئے لگائی گئی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اُس سے وضو، غسل اگرچہ صحیح ہوجائیں گے جائز نہیں یہاں تک کہ اگر اُس کے سوا اور پانی نہ ملے اور اسے وضو یا غسل کی حاجت ہے تو تمیم کرے اس سے طہارت نہیں کرسکتا۔


اقول: مگر جبکہ مالک(۴) آب کی اجازت مطلقاً یا اس شخص خاص کیلئے صراحۃً خواہ دلالۃً ثابت ہو، صراحۃًیہ کہ اُس نے یہی کہہ کر سبیل لگائی ہو کہ جو چاہے پئے وضوء کرے نہائے، اور اگر فقط پینے اور وضوء کے لئے کہا تو اس سے غسل روانہ ہوگا اور خاص اس شخص کیلئے یوں کہ سبیل تو پینے ہی کو لگائی مگر اُسے اُس سے وضوء یا غسل کی اجازت خود یا اس کے سوال پر دے دی اور دلالۃً یوں کہ لوگ اس سے وضوء کرتے ہیں اور وہ منع نہیں کرتا یا سقایہ قدیم ہے اور ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا چلا آیا ہے یا پانی اس درجہ کثیر ہے جس سے ظاہر ہے کہ صرف پینے کو نہیں مگر جبکہ ثابت ہوا کہ اگرچہ کثیر ہے صرف پینے ہی کی اجازت دی ہے فان الصریح یفوق الدلالۃ (کیونکہ صراحت کو دلالت پر فوقیت حاصل ہے۔ ت) اور شخص خاص کے لئے یوں کہ اس میں اور مالکِ آب میں کمال انبساط واتحاد ہے یہ اُس کے ایسے مال میں جیسا چاہے تصرف کرے اُسے ناگوار نہیں ہوتا۔


لان المعروف کالمشروط کما ھو معروف فی مسائل لاتحصی وفی الھندیۃ عن السراج الوھاج ان کان بینھما انبساط یباح والافلا ۱؎۔


کیونکہ معروف مشروط کی طرح ہے، اور یہ چیز بے شمار مسائل میں ہے، اور ہندیہ میں سراج الوہاج سے ہے کہ اگر ان دونوں کے درمیان بے تکلفّی کا رشتہ ہو تو یہ مباح ہے ورنہ نہیں۔ (ت)


 (۱؎ سراج الوہاج)


محیط وتجنیس ووالوالجیہ وخانیہ وبحر ودرمختار میں ہے:واللفظ لہ الماء المسبل فی الفلاۃ لایمنع التیمّم مالم یکن کثیرا فیعلم انہ للوضوء ایضا قال ویشرب ماللوضوء ۲؎۔


لفظ درمختار کے ہیں وہ پانی جو جنگل میں سبیل کے طور پر ہو مانع تیمم نہیں تاوقتیکہ کثیر نہ ہو، اگر کثیر ہو تو معلوم ہوگا کہ یہ وضوء کے لئے بھی ہے۔ نیز فرمایا: جو پانی وضوء کیلئے ہے وہ پیا جائیگا۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار        باب التمیم    مجتبائی دہلی    ۱/ ۴۵)


ردالمحتار میں ہے: قولہ المسبل ای الموضوع فی الحباب لابناء السبیل قولہ لایمنع التیمّم لانہ لم یوضع للوضوء بل للشرب فلا یجوز الوضوء بہ وان صح قولہ مالم یکن کثیرا قال فی شرح المنیۃ الاولی الاعتبار بالعرف لابالکثرۃ الا اذا اشتبہ ۳؎ اھ کلام ش ۔ اقول وانت(۱) تعلم ان ماذکر الفقیراجمع واشمل وانفع واکمل۔


ان کا قول مسبل یعنی وہ پانی جو مٹکوں میں ہو مسافروں کیلئے، ان کا قول ''لایمنع التیمم'' کیونکہ وہ وضوء کیلئے نہیں رکھا گیا ہے بلکہ پینے کیلئے ہے تو اس سے وضو کرنا جائز نہیں اگرچہ صحیح ہے ان کا قول مالم یکن کثیرا، شرح منیہ میں ہے بہتر یہ ہے کہ اعتبار عرف کا ہے نہ کہ کثرۃ کا، مگر جب مشتبہ ہو اھ کلام ش۔ (ت) میں کہتا ہوں جو کچھ فقیر نے ذکر کیا ہے وہ جامع، مانع، زیادہ مفید اور مکمل ہے۔ (ت)


(۳؎ ردالمحتار        باب التمیم    مصر    ۱/ ۱۸۵)


تنبیہ: یہ جو شخص خاص کی اجازت صراحۃً خواہ دلالۃً ہم نے ذکر کی اُس حالت میں ہے کہ پانی 

وقتِ اجازت بھی اجازت دہندہ کی مِلک ہو اور اگر وقف(۱) کا پانی ہے تو اس میں نہ کسی کو تغیر کا اختیار نہ کسی کی اجازت کا اعتبار،


فی البحر ثم الدر من الوضوء مکروھہ الاسراف فیہ لوبماء النھر والمملوک لہ اما الموقوف علی من یتطھر بہ ومنہ ماء(۲) المدارس فحرام ۱؎ اھ وفی ش عن الحلیۃ لانہ انما یوقف ویساق لمن یتوضوء الوضوء الشرعی ولم یقصد اباحتھا لغیر ذلک ۲؎ اھ وفی ط تحت عبارۃ الدر السابقۃ قولہ المسبل ای الموقوف الذی یوضع علی السبل قولہ مالم یکن کثیرا محل ذلک عنہ عدم التیقن بانہ للمشرب اما اذا تیقن انہ للشرب فیحرم الوضوء لان شرط الواقف کنص الشارع قولہ وشرب(۳) ماللوضوء ظاھرہ وان لم یکن للضرورۃ وفیہ انہ لایلزم مخالفۃ شرط الواقف ۳؎ اھ واشار'ش' الی الجواب عن ھذا بقولہ کأن الفرق ان الشرب اھم لانہ لاحیاء النفوس بخلاف الوضوء لان لہ بدلا فیاذن صاحبہ بالشرب منہ عادۃ ۴؎ اھ


بحر اور دُر کے باب الوضوء میں ہے وضوء میں پانی کا اسراف مکروہ ہے خواہ نہر کا پانی ہو یا اپنا مملوک پانی ہو، اور جو پانی پاکی حاصل کرنے والوں کیلئے وقف ہوتا ہے، جس میں مدارس کا پانی بھی شامل ہے، اس کا اسراف عام ہے اھ اور 'ش' میں حلیہ سے منقول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پانی انہی لوگوں کیلئے وقف ہے جو شرعی وضوء کرنا چاہتے ہیں، اور دوسروں کیلئے مباح نہیں ہے اھ اور 'ط' میں در کی سابقہ عبارت کے تحت فرمایا 'مسبل' وہ پانی جو راستوں میں وقف رکھا جاتا ہے اور اس کے قول مالکم یکن کثیرا اس کے مفہوم یہ ہے کہ جب یہ یقین نہ ہو کہ یہ پینے کیلئے ہے، اگر یہ یقین ہو کہ یہ پینے کیلئے ہے تو اس سے وضو حرام ہے کیونکہ شرط واقف نص شارع کی طرح ہوتی ہے۔ اور ان کا قول ''شرب ماللوضوء'' کا بظاہر یہ مفہوم ہے کہ اگرچہ وہ پانی ضرورت کیلئے نہ ہو، اور اس میں یہ قباحت ہے کہ اس میں شرط واقف کی مخالفت ہے اھ اور 'ش' نے اس کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا، غالباًاس میں فرق یہ ہے کہ پانی کا پینا اہم ہے کیونکہ اس میں زندگی بچانا ہے جبکہ وضوء میں یہ چیز نہیں، کیونکہ وضو کا متبادل ہوتا ہے اس لئے مالک عام طور پر پینے کی اجازت دے دیتا ہے اھ (ت)


(۱؎ الدرالمختار        مکروہات الوضوء   مجتبائی دہلی        ۱/۲ ۴)

(۲؎ ردالمحتار         مکروہات الوضوء        مصطفی ا لبابی مصر    ۱/ ۹۸)

(۳؎ طحطاوی علی الدر    باب التمیم        بیروت        ۱/۱۲ ۳)

(۴؎ ردالمحتار        باب التمیم        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۸ ۵)

اقول: ای یکون ذلک منویا عند الوقف بحکم العادۃ فلا یلزم خلاف الشرط ولیس المراد حدوث الاذن الاٰن کما یوھمہ تعبیر یاذن فان الوقف اذا تم خرج عن ملکہ فلا یعمل فیہ اذنہ کما ھو ظاھر لکن(۱) ھھنا تحقیق شریف للعبد الضعیف فی بحث صحۃ وقف الماء لابد من التنبہ لہ قال فی التنویر والدر (و) صح(۲) وقف کل (منقول) قصدا (فیہ تعامل) للناس (کفأس وقدوم) بل (ودراھم(۳) ودنانیر) ومکیل وموزون فیباع ویدفع ثمنہ مضاربۃ اوبضاعۃ فعلی ھذ لووقف(۴) کرا علی شرط ان یقرضہ لمن لابذر لہ لیزرعہ لنفسہ فاذا ادرک اخذ مقدارہ ثم اقرضہ لغیرہ وھکذا جاز خلاصۃ وفیھا(۵) وقف بقرۃ علی ان ماخرج من لبنھا اوسمنھا للفقراء ان اعتادوا ذلک رجوت ان یجوز (وقدر(۶) وجنازۃ) وثیابھا ومصحف وکتب لان التعامل یترک بہ القیاس ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں، یعنی یہ چیز عادۃً وقف کے وقت واقف کی نیت میں ہوتی ہے تو ایسی صورت میں شرط واقف کی خلاف ورزی لازم نہ آئے گی، یہ مراد نہیں کہ اب اجازت دی ہے، جیسا کہ ''یاذن'' کے لفظوں سے ظاہر ہے، کیونکہ وقف جب مکمل ہوجاتا ہے تو ملکِ واقف سے نکل جاتا ہے تو اس کی اجازت کا کوئی اثر نہ ہوگا، جیسا کہ ظاہر ہے میں نے پانی کے وقف کے سلسلہ میں ایک تحقیق کی ہے، اس کا جاننا ضروری ہے، تنویر اور دُر میں فرمایا (اور) صحیح ہے وقف ہر (منقول کا) قصدا جس میں لوگوں کا تعامل ہو (جیسے پھاؤڑا اور کلھاڑی) بلکہ (دراہم ودنانیر کا) اور ناپ تول والی چیز کا، تو اس کو بیچا جائے گا اور اس کی قیمت بطور مضاربت دی جائے گی یا بطور سامان۔ اس بنا پر اگر کسی شخص نے ایک بوری غلّہ اس شرط پر وقف کیا کہ یہ ایک شخص کو قرض دیا جائے جو اپنے لئے کاشت کرتا ہو، اور جب اس کی کھیتی پک جائے تو اُس سے یہ مقدار واپس لے لی جائے اور کسی دوسرے کو قرض دے دیا جائے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے تو یہ جائز ہے، خلاصہ اسی کتاب میں ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک گائے اس شرط پر وقف کی کہ اس کا دُودھ اور گھی فقراء کے استعمال میں لایا جائے، تو اگر یہ چیز ان کی عرف میں ہے تو امید ہے کہ جائز ہے (اور دیگ اور جنازہ کی چارپائی) اور جنازہ کی چادریں اور مصحف اور کتابیں، کیونکہ تعامل کے مقابلہ میں قیاس کو ترک کر دیا جاتا ہے اھ


(۱؎ الدرالمختار        باب الوقف    مجتبائی دہلی    ۱/ ۳۸۰)


قال ش قال الرملی لکن فی الحاقھا بمنقول فیہ تعامل نظراذھی مما لانتفع بھا مع بقاء عینھا وما استدل بہ فی المنح فی مسألۃ البقرۃ ممنوع بما قلنا اذینتفع بلبنھا وسمنھا مع بقاء عینھا اھ قلت ان الدراھم لاتتعین بالتعیین فھی وانکانت لاینتفع بھا مع بقاء عینھا لکن بدلھا قائم مقامھا لعدم تعینھا فکأنھا باقیۃ ثم قال عن الفتح عن الخلاصۃ عن الانصاری وکان من اصحاب زفر فیمن وقف الدراھم اوما یکال اویوزن ایجوز قال نعم قیل وکیف قال یدفع الدراھم مضاربۃ ثم یتصدق بھا فی الوجہ الذی وقف ۱؎ اھ ورأیتنی کتبت علیہ مانصہ ۔


''ش'' نے کہا کہ رملی نے فرمایا اس کو منقول سے ملانے میں جس میں تعامل ہو اعتراض ہے کہ اس کے عین کے باقی رہتے ہوئے اس سے انتفاع نہیں ہوتا ہے اور گائے کا مسئلہ جس سے منح میں استدلال کیا ہے ناقابلِ تسلیم ہے، کیونکہ اس کے دودھ اور گھی سے گائے کو باقی رکھتے ہوئے نفع حاصل کیا جاتا ہے اھ میں کہتا ہوں دراہم متعین کردینے سے متعین نہیں ہوتے ہیں، تو ان کو باقی رکھتے ہوئے اگرچہ ان سے نفع حاصل کرنا ممکن نہیں، لیکن ان کا بدل ان کے قائم مقام ہے کیونکہ یہ خود متعین نہیں، تو گویا کہ یہ باقی ہیں۔ پھر فتح سے خلاصہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ انصاری جو اصحاب زفر سے تھے ان سے پُوچھا گیا کہ اگر کسی شخص نے دراہم یا کیلی یا وزنی چیز وقف کی تو کیا جائز ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اُن سے دریافت کیا گیا کہ اس کی شکل کیا ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا دراہم مضاربت پر کسی کو دے دے پھر اُن کو اُس مقصد پر خرچ کرتا رہے جس کیلئے ان کو صدقہ کیا گیا تھا اھ میں نے ان کی بیان کردہ نصپر لکھا ہے


(۱؎ ردالمحتار    باب الوقف        مصطفی البابی مصر    ۳/ ۴۱۰)


اقول: ھذا التعلیل من العلامۃ الرملی لمنع وقف الدراھم وجواب المحشی بانھا لاتتعین فکانھا باقیۃ ببقاء بدلھا وما ذکر الامام الانصاری وتبعہ فی الخلاصۃ والفتح والدر وکثیر من الاسفار الغر من طریق الابقاء فی الدراھم والمکیل والموزون ومامر (ای فی ردالمحتار) من ان التأبید معنی شرط صحۃ الوقف بالاتفاق علی الصحیح وقد نص علیہ محققو المشایخ کل ذلک یقضی بان الماء المسبل لایکون وقفا لعدم امکان الانتفاع بہ الا باستھلاکہ فیکون من باب الاباحۃ دون الوقف نعم السقایۃ(۱) بناء تعورف وقفہ کالقنطرۃ فیصح ولا یقال ان فے السقایۃ الموقوفۃ یصیر الماء وقفا تبعا(۲) للسقایۃ وھو جائز وفاقا کما تقدم فے الشرح وذلک لان الماء ھو المقصود(۳) بالسقایۃ وھی تبع فلا یعکس الامر ولای شی تجعل السقایۃ وقفا مقصودا فیتبعہ الماء علا انہ ان تبع تبع مافیھا دون الابدال المتعاورۃ ولیس الماء مما لایتعین حتی یجعل بقاء الابدال بقاء ہ مع ان(۴) لی نظرا فے ھذا العذر فقد افاد ش فی فصل فی التصرف فی المبیع والثمن ان عدم تعین النقد لیس علی اطلاقہ بل ذلک فی المعا ۱؎ وضات الخ وذکر تفصیلا وقع فیہ خلط وخبط من الناسخین نبھت علیہ فیما علقت علیہ وقال قبلہ(۵) فی البیع الفاسد الدراھم والدنانیر تتعین فی الامانات والھبۃ والصدقۃ والشرکۃ والمضاربۃ والغضب ۲؎ اھ فالوقف اشبہ شیئ بالصدقۃ بل ھو منھا عند الامام ویظھرلے واللّٰہ تعالٰی اعلم ان النقدین والتجارات نامیات


اقول: عدم تسلیم کی یہ علت جو رملی نے بیان کی ہے دراہم کے وقف کے ممنوع ہونے کی بابت ہے اور محشی کا یہ جواب دینا کہ دراہم متعین نہیں ہوتے، تو اپنے بدل کے باقی رہنے کی وجہ سے باقی رہیں گے، اور جو امام انصاری نے ذکر کیا اور خلاصہ اور فتح اور در اور بہت سی کتب میں اس کی متابعت کی گئی ہے کہ کس طرح دراہم اور مکیل وموزون باقی رہتے ہیں اور جو گزرا (یعنی درمختار میں) یعنی صحت وقف کے شرائط میں سے اس کا ہمیشہ کیلئے ہونا ہے، یہی صحیح ہے اور اس پر اتفاق ہے اور محققین مشائخ نے اس پر نص کیا ہے، اور اس تمام بحث کا تقاضا یہی ہے کہ سبیل کا پانی وقف نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کو ختم کئے بغیر اس سے نفع حاصل کرنا ممکن نہیں، تو یہ اباحت قرار پائے گا نہ کہ وقف، ہاں سقایہ جو عمارت ہوتی ہے اس کا وقف کرنا متعارف ہوگیا ہے جیسا کہ پُل ہوتا ہے تو یہ صحیح ہے، اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ جب سقایہ وقف ہوا تو پانی بھی اس کی متابعت میں وقف ہوگیا، اور اس پر اتفاق ہے جیسا کہ شرح میں گزرا، کیونکہ سقایہ میں مقصود تو پانی ہی ہے اور سقایہ تو تابع ہے تو معاملہ برعکس نہیں کیا جائے گا،


اور پھر سقایہ کیونکر وقف مقصود ہوسکتا ہے تاکہ پانی اس کا تابع ہوعلاوہ ازیں یہ کہ اگر پانی تابع ہو بھی تو اسی قدر تابع ہوگا جو سقایہ میں موجود ہے نہ کہ اس کے بدل جو بار بار لوٹ کر آرہے ہیں اس کے تابع ہوں، اور پانی ایسی چیز نہیں جو متعین نہ ہوتا کہ بدل کے باقی رہنے کو اس کی بقاء قرار دیا جائے۔ مجھے اس عذر پر اعتراض ہے ''ش'' نے ''تصرف فی المبیع والثمن'' کی بحث میں فرمایا کہ نقود کا غیر متعین ہونا مطلق نہیں، یہ صرف معاوضات میں ہے الخ پھر انہوں نے اس میں ایک تفصیل ذکر کی جس میں ناقلین سے کچھ خلطِ مبحث ہوگیا، میں نے اس پر جو تعلیقات کی ہیں ان میں اس پر تنبیہ کی ہے، اور اس سے قبل باب 'بیع فاسد' میں فرمایا: اوردراہم ودنانیر، امانات، ہبہ، صدقہ، شرکۃ، مضاربۃ اور غصب میں متعین ہوجاتے ہیں اھ۔ وقف صدقہ سے بہت مشا بہ چیز ہے بلکہ امام کے نزدیک صدقہ ہی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں (واللہ تعالٰی اعلم)


(۱؎ ردالمحتار    فصل فی التصرف فی البیع        البابی مصر    ۴/ ۱۸۵)

(۲؎ ردالمحتار    فصل فی التصرف فی البیع        البابی مصر    ۴/ ۱۸۵)


شرعا وحسا فبقاؤھا بنماء ھا اذھی الاصل المتولد منہ فتشبہ مالیتھا شجرۃ تبقی فتؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا وکیفما کان لایقاس علیھا الماء وقد عللوا مااذا ملأ صبی کوزا من حوض ثم صبہ فیہ لایحل لاحد شربہ بان الصبی ملک مااخذہ من ماء الحوض المباح فاذاصبہ فیہ اختلط ملکہ بہ فامتنع استعمالہ ۱؎ کما فی الحدیقۃ الندیۃ اخر نوع العشرین من اٰفات اللسان وغمز العیون من احکام الصبیان والطحطاوی من فصل فی الشرب وفی ھذا الکتاب اعنی ش من الفصل المذکور عن ط عن الحموی عن الدرایۃ عن الذخیرۃ والمنیۃ وقد جعلوا ماء الحوض مباحا ولو کان وقفا لم یملکہ الصبی باخذہ فی کوزہ فان الوقف(۱) لایملک وقد عرفہ شمس الائمۃ السرخسی بانہ حبس المملوک عن التملیک عن الغیر ۲؎ اھ کما فی ش بخلاف غلۃ ضیعۃ موقوفۃ علی الذراری فانھم یملکونھا عند ظھورھا فمن مات منھم بعدہ یورث عنہ قسطہ کما یاتی فی الکتاب فان الوقف ھی الضعیفۃ وھذہ نماؤھا۔


کہ سونا چاندی اور تجارتی معاملات شرعاً اور حساناً نامی چیزیں ہیں تو ان کی بقاء ان کی نماز کے باعث ہوگی، کیوں کہ ان سے جو چیز متولد ہوتی ہے وہ یہی ہے، تو ان کی مالیت اُس درخت کی طرح ہوگی جو باقی رہتا ہے

اور موسم پر اس کا پھل آتا رہتا ہے اور جو بھی صورت ہو بہرحال اس پر پانی کو قیاس نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر کسی بچّے نے ایک حوض سے پانی کا ایک کوزہ بھراپھر اس کو اس میں انڈیل دیا، تو اب اس حوض کا پانی کسی کو پینا جائز نہیں اور اس کی علّت فقہاء نے یہ بیان کی ہے کہ بچّے نے مباح حوض سے جو پانی لیا، وہ پانی اس کی ملکیت میں آگیا، اور پھر اُس پانی کو جب اسی حوض میں ڈال دیا تو اس کی ملک اس کے ساتھ مخلوط ہوگئی تو اب اس کا استعمال ممنوع ہوگیا، حدیقہ ندیہ آفات اللسان، بیسویں نوع کا آخر۔ غمز العیون، بچّوں کے احکام۔ طحطاوی، فصل شرب۔ اور 'ش' میں، مذکور فصل میں 'ط' سے 'حموی' سے 'درایہ' سے 'ذخیرہ سے' اور منیہ سے ہے کہ فقہاء نے حوض کے پانی کو مباح قرار دیا ہے، اگر یہ پانی وقف ہوتا تو بچہ اس کو کوزہ میں لینے سے اس کا مالک نہ ہوجاتا، کیونکہ وقف پر ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ شمس الائمہ سرخسی نے وقف کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ مملوک کو تملیک سے روکنا ہے، یعنی غیر اس کا مالک نہیں ہوسکتا اھ جیسا کہ ''ش'' میں ہے، یہ اس کے خلاف ہے کہ کوئی شخص ذرّیت پر کسی زمین کی آمدنی وقف کردے، کیونکہ جب یہ آمدنی ظاہر ہوگی تو ذرّیت اس کی مالک ہوجائے گی، ذریت میں سے جو اس کے بعد وفات پائے گا اس کی میراث جاری ہوگی، جیسا کہ کتاب میں آئے گا ، کیونکہ وقف تو زمین ہے اور یہ اس کا ''نماء'' ہے۔ (ت)


(۱؎ الحدیقۃ الندیۃ     النوع العشرین من آفات اللسان    رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۲۶۹)

(۲؎ ردالمحتار        کتاب الوقف        البابی مصر        ۳/ ۳۹۲)


فان قلت الیس قد تقدم فی وضؤ الکتاب مانصہ مکروھہ الاسراف فیہ الٰی آخر مامر نقلہ اقول:وباللّٰہ التوفیق المراد(۱) بہ الماء المسبل بمال الوقف کماء المدارس والمساجد والسقایات التی تملؤ من اوقافھا فان ھذا الماء لایملکہ احد ولا یجوز صرفہ الا الی جھۃ عینھا الواقف وھذا ھو حکم الوقف اما(۲ الماء الذی یسلبہ المرء من ملکہ فلا یصیر وقفا سواء کان فی الحباب اوالجرار اوالحیاض اوالکسقایات انما غایتہ الاباحۃ یتصرف فیھا الناس وھو علی ملکہ فلا تتأتی فیہ مسألۃ کوزا لصبی المذکورۃ ھذاماظھرلی وارجوان یکون ھو الصواب٭ باذن الملک الوھاب٭ ولہ الحمد وعلی حبیبہ الکریم والاٰل والاصحاب، صلاۃوسلام یدومان بلاعدد ولاحساب اٰمین۔


اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کتاب کے وضو کی بحث میں گزرا ہے، اس وضوء کے مکروہات میں اسراف ہے الٰی آخر مانقلہ میں کہتا ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد سبیل کا پانی ہے جو وقف ہو، جیسا کہ مدارس، مساجد، سقایات کا پانی جو ان کے اوقاف کی آمدنی سے بھرا جاتا ہے، کیونکہ اس پانی کا کوئی مالک نہیں، اور اس کو فقط اُسی جہت میں صَرف کیا جاسکتا ہے جو اُس کے واقف نے اس کیلئے متعین کی ہے، اور یہی وقف کا حکم ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنی مِلک سے پانی کی سبیل لگائے تو وہ وقف نہ ہوگی، خواہ وہ مٹکوں میں ہویا چھوٹے گھڑوں میں یا حوضوں اور سقایوں میں، کیونکہ اُس سے تو صرف اتنا مقصود ہے کہ پانی مالک کی مِلک میں رہتے ہوئے لوگوں کیلئے مباح کردیا جائے تو اس میں بچّے کے کوزہ کا مذکورہ مسئلہ نہیں چلے گا، مجھ پر یہی ظاہر ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہی صحیح ہوگا.... (ت)


(۳۰) اقول: یوں ہی مسجد کے سقائے(۱) یا حوض جواہلِ جماعتِ مسجد کی طہارت کو بھرے جاتے ہیں اگر مالِ وقف سے بھرے گئے ہوں تو مطلقاً جب تک ابتدا سے واقف کی اجازت ثابت نہ ہو اور کسی نے اپنی مِلک سے بھروائے ہوں تو بے اس کی اجازت قدیم خواہ جدید کے گھروں میں اُن کا پانی اگرچہ طہارت ہی کیلئے لیجانا روا نہیں طہارت ہوجائیگی مگر گناہ ہوگا اجازت واقف ومالک کی وہی تفصیل ہے جو آبِ سبیل میں گزری والدلیل الدلیل (اور دلیل بھی وہی ہے جو پہلے گزر چکی ہے) جاڑوں(۲) میں کہ سقائے گرم کئے جاتے ہیں بعض لوگ گھروں میں پانی لے جاتے ہیں اس میں بہت احتیاط چاہئے کہ غالباً بے صورتِ جواز واقع ہوتا ہے۔


اماما فی الخانیۃ ثم الھندیۃ من کتاب الشرب یجوز ان یحمل ماء السقایۃ الی بیتہ لیشرب اھلہ اھ۔ فھو فی المعد للشرب بدلیل اٰخرہ وصدرہ اختلفوا فی التوضی بماء السقایۃ جوز بعضھم وقال بعضھم ان کان الماء کثیرا یجوز والا فلا وکذا کل ماء اعد للشرب حتی قالوا فی الحیاض التی اعد للشرب لایجوز فیہ التوضی ویمنع منہ وھو الصحیح ویجوز ان یحمل ۱؎ الخ بناء علی ان الذی یعد(۳) للشرب لایمنع منہ مخدرات الحجال وبالجملۃ لاشک ان المبنی العرف فان علمنا(۴) ان المسبل للشرب خص بہ الواردین ولا یرضی بحملہ الی البیوت لم یجز ذلک قطعا بل لوعلم خصوص فی المارۃ لم یجز لغیرھم من الواردین کما یفعلہ بعض الجھلۃ فی عشرۃ المحرم بسبل الماء والشربۃ لمن مع الضریح المختلق بدعۃ محدثۃ یسموھا تعزیۃ فلا یجوز شربہ لغیرھم وان جعلوہ لمن مع الضریح الفلانی لم یجز لاھل ضریح وغیرہ واللّٰہ تعالٰی اعلم لاجرم ان قال فی متفرقات کراھیۃ البزازیۃ حمل ماء السقایۃ الی اھلہ ان مادونا للحمل یجوز والالا ۱؎ اھ۔ وھذا عین ماقررت وللّٰہ الحمد۔


پھر خانیہ اور ہندیہ کے کتاب الشرب میں ہے کہ اگر کوئی شخص سقایہ کا پانی اپنے گھر بیوی بچّوں کو پلانے کیلئے لے جائے تو جائز ہے اھ تو اس سے مراد وہ پانی ہے جو خاص پینے ہی کیلئے رکھا گیا ہو، عبارت کا اوّل وآخر یہی بتاتا ہے۔ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ ''سقایہ'' کے پانی سے وضوء جائز ہے یا نہیں، بعض نے جواز کا قول کیا، اور بعض نے کہا کہ اگر پانی زائد ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ اور یہی حکم ہر اُس پانی کیلئے ہے جو پینے کیلئے رکھا گیا ہو، یہاں تک فقہاء نے اُس حوض کی بابت بھی یہی فرمایا ہے جو پینے کیلئے بنایا گیا ہو کر اُس میں وضوء جائز نہیں، اور اگر کوئی کرے تو اس کو منع کیا جائیگا، اور یہی صحیح ہے۔ اور یہ جائز ہے کہ وہ پانی گھر لے جائے الخ اس کی بنیاد یہ ہے کہ جو پانی پینے کیلئے رکھا جائے اس سے پردہ نشینوں کو محروم نہ رکھا جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ اصل دارومدار عُرف پر ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ سبیل کا پانی پینے کیلئے ہے اور وہی لوگ اس سے  استفادہ کرسکیں گے جو اس پر وارد ہوں تو ایسے پانی کو گھر نہیں لے جایا جاسکتا ہے بلکہ اگر بطور خاص گزرنے والوں کیلئے ہے تو دوسرے وارد ہونے والوں کو اُس کا استعمال جائز نہ ہوگا، چنانچہ بعض جاہل محرّم کے عشرہ میں پانی یا دُودھ کی سبیل تعزیہ کے ساتھ گزرنے والوں کے لئے بطور خاص لگاتے ہیں، یہ بدعث محدثہ ہے، اس کا استعمال دوسروں کو جائز نہیں بلکہ اگر ایک تعزیہ کے لئے جائز ہے تودوسرے تعزیہ کے شرکاء کو اس کا استعمال جائز نہیں واللہ تعالٰی اعلم۔ بزازیہ میں ہے (متفرقات کراہیۃ میں) (ت) سِقایہ کا پانی گھر والوں کیلئے لے جانا اگر اُس کی اجازت ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں اھ اور یہ بعینہٖ وہی ہے جو میں نے کہا ہے وللہ الحمد (ت)


(۱؎ ہندیۃ    الباب الاول     من کتاب الشرب    پشاور    ۵/ ۳۹۱)

(۳۱) سفر میں(۱) طہارت کو پانی پاس ہے مگر اس سے طہارت کرتا ہے تو اب یا بعد کو یہ یا اور کوئی مسلمان یا اُس جانور اگرچہ وہ کُتّا جس کا پالنا جائز ہے پیاسا رہ جائے گا یا آٹا گوندھنے یا اتنی نجاست پاک کرنے کو جس سے مانع نماز نہ رہے پانی نہ ملے گا تو ان صورتوں میں اُس پانی سے طہارت اگرچہ ہوجائے گی منع ہے بلکہ اپنے یا دُوسرے مسلمان کے ہلاک کا خوف غالب ہو تو سخت حرام ہے ان سب صور میں تیمم کرے اور پانی محفوظ رکھے ہاں(۲) جانوروں کی پیاس کیلئے اگر وضو یا غسل کا پانی کس برتن میں رکھ سکتا ہے تو طہارت فرض ہے اور تیمم باطل۔


اقول: یوں(۳) ہی اگر طہارت اس طرح ممکن ہو کہ پانی مستعمل نہ ہونے پائے جس کا طریقہ پرنالے وغیرہ میں وضو کرنے کا ہم نے رحب الساحہ میں بیان کیا تو اعذار مذکورہ سے کوئی عذر مبیح تیمم نہ ہوگا اور طہارت فرض ہوگی کمالا یخفی۔ بحرالرائق ودُرمختار میں ہے:


والنظم للدر (من عجز عن استعمال الماء لخوف عدو اوعطش) ولو لکلبہ اورفیق القافلۃ حالا اوماٰلا وکذا لعجین اوازالۃ نجس وقید ابن الکمال عطشدوابہ بتعذر حفظ الغسالۃ لعدم الاناء (تیمم ۱؎)۔


عبارت دُرکی ہے (جو شخص بوجہ خوفِ دشمن یا پیاس پانی کے استعمال سے عاجز ہو) خواہ اپنے کُتّے یا رفیق قافلہ کیلئے، اب یا آیندہ، اور اسی طرح آتا گوندھنے کیلئے یا نجاست دور کرنے کیلئے، اور ابن الکمال نے یہ قید لگائی کہ اس کے جانور پیاسے رہ جائیں گے کہ برتن نہ ہونے کی وجہ سے وہ دھوون کو محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے (تو ایسی صورتوں میں وہ تیمم کرے)۔ (ت)


(۱؎ بزازیۃ الہندیۃ    التاسع فی المتفرقات من الکراہیۃ    پشاور    ۶/ ۳۷۲)


ردالمحتار میں ہے: قولہ ولو لکلبہ قیدہ فی البحر والنھر بکلب الماشیۃ والصید ومفادہ انہ لولم کذلک لایعطی ھذا الحکم والظاھر ان کلب الحراسۃ للمنزل مثلھما ط قولہ اورفیق القافلۃ سواء کان رفیقہ المخالط لہ اواٰخر من اھل القافلۃ بحرو عطش دابۃ رفیقہ کعطش دابتہ نوح قولہ حالا اوماٰلا ظرف لعطش اولہ ولرفیق علی التنازع کما قال ح ای الرفیق فی الحال اومن سیحدث لہ قال سیدی عبدالغنی فمن عندہ ماء کثیر فی طریق الحاج اوغیرہ وفی الرکب من یحتاج الیہ من الفقراء یجوز لہ التیمم بل ربما یقال اذا تحقق احتیاجھم یجب بذلہ الیہم لاحیاء مھجھم قولہ وکذا لعجین فلو احتاج الیہ لاتخاذ المرقۃ لایتمم لان حاجۃ الطبخ دون حاجۃ العطش بحر قولہ اوازالۃ نجس ای اکثر من قدرا لدرھم وفی الفیض لومعہ مایغسل بعض النجاسۃ لایلزمہ اھ۔ قلت وینبغی تقییدہ بما اذالم تبلغ اقل من قدرالدرھم فاذا کان فی طرفی ثوبہ نجاسۃ وکان اذاغسل احد الطرفین بقی مافی الطرف الاٰخر اقل من قدر الدرھم یلزمہ ۱؎ اھ


اس کا قول اور اگرچہ اپنے کُتے کیلئے، اس کتے کو بحر ونہر میں، اُس کُتّے سے مقید کیا گیا ہے جو مویشی کی حفاظت یا شکار کیلئے رکھا گیا ہو، اُس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسا نہ ہو تو اس کا یہ حکم نہ ہوگا اور ظاہر یہ ہے کہ گھر کی حفاظت کیلئے جو کتا پالا جائے اس کا بھی یہی حکم ہے ط، اس کا قول یا رفیق قافلہ کیلئے عام ازیں کہ وہ اس کا اپنا شریک رفیق ہو یا دوسرا ہو اہل قافلہ سے (بحر) اور اس کے ساتھی کی سواری کے پیاسا رہ جانے کا خطرہ ایسا ہی ہے جیسا کہ خوداس کی اپنی سواری کے پیاسا رہ جانے کاخطرہ ہے (نوح) اس کا قول حالاً او ماٰلاً، عطش کا ظرف ہے یا اس کا اور رفیق کا برسبیل تنازع ہے جیسا کہ ''ح'' نے فرمایا یعنی رفیق فی الحال یامن سیحدث لہ، عبدالغنی نے فرمایا جس کے پاس حاجیوں وغیرہ کے راستے میں زائد پانی ہو، اور قافلہ میں کوئی فقیر پانی کا ضرورت مند ہو، تو اس کو تیمم جائز ہے، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اُس پانی کی ضرورت واقعی اہلِ قافلہ کو ہو تو ان کی زندگیاں بچانے کیلئے پانی صرف کرنا واجب ہے قولہ وکذا العجین، تو اگر کسی کو شوربہ بنانے کیلئے پانی کی ضرورت ہو تو تیمم جائز نہ ہوگا کیونکہ کھانا پکانے میں جو ضرورت ہے وہ پیاس سے کم ہے، بحر، قولہ اوازالۃ نجس، اس سے مراد نجاست ہے جو ایک درہم سے زاید ہو، اور فیض میں ہے، اگر اس شخص کے پاس اتنا پانی موجود ہو کہ کچھ نجاست کو دھو لے گا تو دھونا لازم نہیں اھ میں کہتا ہوں اس میں یہ قید لگانی چاہئے کہ یہ نجاست درہم سے کم نہ ہو، تو اگر اس کے کپڑے کے دونوں جانب نجاست ہو، اور ایک طرف دھونے سے دوسری طرف باقی رہتی ہو، مگر ایک درم سے کم رہتی ہے تو اس کا دھونا لازم ہے اھ۔ (ت)


(۱؎ الدرالمختار        باب التیمم         مجتبائی دہلی        ۱/ ۴۱)


اقول: ھھنا ابحاث الاول کلب حراسۃ المنزل مساو لکلب الماشیۃ بل اولی ولکلب الصیدان کان الحاجۃ الیہ للاکل فان المال شقیق النفس والافاولی وعلی کل ھو ثابت منھما بالفحوی فلیس ھذا(۱) محل الاستظھار ولذا عبرت بکلب یحل اقتناؤہ وفی الحدیث الصحیح الا کلب صید اوزرع اوماشیۃ ۲؎ الثانی قید رفیق(۲) القافلۃ وفاقی فربما تسایر قافلتان اواکثر ولا یعد من فی احدھما رفیق من فی الاخری والحکم لایختص بمن فی قافلتہ فان احیاء مھجۃ المسلم فریضۃ علی الاطلاق فلذا غیرتہ وبمسلم عبرتہ۔


میں کہتا ہوں یہاں کئی بحثیں ہیں:

پہلی بحث: گھر کی حفاظت کیلئے جو کتا پالا گیا وہ ریوڑ کی حفاظت کے کتے کے برابر بلکہ اُس سے اولٰی ہے، اسی طرح شکار کے کتے کی مانند ہے، جبکہ شکار کھانے کی ضرورت ہو کیونکہ مال جان کا ہم پلہ ہے ورنہ تو وہ اولٰی ہے، اور بہرصورت یہ چیز دونوں کے منطوق سے ثابت ہے، اور یہ محل استظہار نہیں اور اس لئے میں نے کہا ہے، وہ کتا جس کا پالنا جائز ہو، اور حدیث صحیح میں ہے مگر شکار، کھیتی یا جانوروں کا کتّا۔

دوسری بحث: ''رفیق قافلہ'' کی قید اتفاقی ہے کیونکہ عام طور پر دو یا دو سے زیادہ قافلے چلتے ہیں اور ایک قافلے کا آدمی دوسرے کا رفیق شمار نہییں ہوتا، اور یہ حکم اس کے ساتھ خاص نہیں جو اُس کے قافلہمیں ہو، کیونکہ مسلمان کی جان بچانا علی الاطلاق فرض ہے اس لئے اس کو بدل کر وبمسلم کردیا۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    باب التیمم        البابی مصر        ۱/ ۱۷۳)

(۲؎ صحیح للمسلم    باب الامر یقتل الکلاب    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۱)


اقول: ویدخل(۱) فی الحکم الذمی فیما یظھر فان لھم مالنا وعلیھم ماعلینا نعم الحربی لاحرمۃ لروحہ بل امرنا بافنائہ فکیف یلزمنا السعی فی ابقائہ ولذا صرحوا(۲) ان لووجد فی بریۃ کلبا وحربیا یموتان عطشا ومعہ ماء یکفی لاحدھما یسقی الکب ویخلی الحربی یموت ومن الحربیین(۳) کل رجل یدعی الاسلام وینکر شیاا من ضروریات الدین لان المرتد حربی کما نصوا علیہ وھم مرتدون کما حققناہ فی المقالۃ المسفرۃ۱۲۹۹ھعن حکم البدعۃ المکفرۃ۔


میں کہتا ہوں، بظاہر اس میں ذمی بھی شامل ہے، کیونکہ جو حقوق ہمارے لئے ہیں وہی ذمیوں کیلئے بھی ہیں، اور جو فرائض ہم پر ہیں وہ ذمیوں پر بھی ہیں، ہاں حربی کی جان کی کوئی حرمت نہیں ہے، بلکہ ہمیں اُس کے فنا کردینے کا حکم ہے، تو ہم پر اس کی زندگی بچانے کی سعی کیونکر لازم ہوگی؟ اس لئے فقہاء نے یہ تصریح کی ہے کہ اگر کسی جنگل میں ایک کتا اور ایک حربی ملے اور دونوں پیاس سے مر رہے ہیں اور اس کے پاس صرف اتنا پانی ہو کہ ایک بچ سکتا ہو تو کتے کو پلا دے او رحربی کو مرنے کیلئے چھوڑ دے، اور جو شخص ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرتا ہو وہ حربی ہے، کیونکہ فقہاء کی تصریح کے مطابق مرتد حربی ہے، اور یہ سب حربی ہیں ہم نے اس کی تصریح المقالۃ المسفرۃ عن حکم البدعۃ المکفرۃ میں کردی ہے۔


الثالث التیمم لعطش رفیق سیحدث یجب تقییدہ بما اذا تیقن لحوقہ وانہ لاماء معہ والا فلا یجوز التیمم للتوھم الرابع تحقق(۴) الاحتیاج بمعنی ثبوتہ عینا لایتوقف علیہ وجوب البذل الا تری الی قولھم لخوف عطش وبعمنی ثبوتہ ذھنا ان ارید بہ الیقین فکذا فان(۵) الظن الغالب ملتحق بہ فی الفقہ اومایشملہ فلا محل للترقی اذعلیہ یدورالحکم والظن المجرد مثل الوھم الخامس حاجۃ(۶) الطبخ لیست دون حاجۃ العطش اذالم یتأت الاکل الا بالطبخ الاتری ان حاجۃ العجن ساوت حاجۃ العطش لان عامۃ الناس لایمکنھم التعیش باستفاف الدقیق فما العجن الا للخبز وما ھو الامن الطبخ فالاولی ان یقال ان حاجۃ المرقۃ دون حاجۃ العطش السادس قید(۱) الزیادۃ علی درھم مساحۃ اومثقال زنۃ فی النجاسۃ الغلیظۃ اما الخفیفۃ فمقدرۃ بالربع فلذا عبرت بالقدر المانع السابع مابحث السید ش فی تقلیل النجاسۃ حسن وجیہ فلذا عبرت بمالا یبقیھا مانعۃ۔


تیسری بحث: کسی دوست کی پیاس کیلئے تیمم کرنا جس کی ملاقات متوقع ہو، اس میں یہ قید لگانا ضروری ہے کہ اس دوست کے قافلے کے ساتھ ملنا یقینی ہو، اور اس کے پاس پانی نہ ہو، ورنہ محض وہم کی بنیاد پر تیمم جائز نہیں۔


چوتھی بحث: ضرورت کا یہ مفہوم لینا کہ وہ وقت محسوس طور پر موجود ہو، درست نہیں، اور نہ ہی اس پر پانی کا خرچ کرنا موقوف ہے، چنانچہ فقہاء کا قول ہے ''لخوف عطش'' اور اس کا ذہناً ثابت ہونا، اگر اس سے یقین مراد ہو تو ایسا ہی ہے، کیونکہ فقہ میں ظن غالب کا حکم وہی ہے جو یقین کا ہے یا جو یقین کو شامل ہو، تو ترقی کا کوئی محل نہیں، کیونکہ حکم کا دارومدار اسی پر ہے اور محض ظن تو وہم کے حکم میں ہے۔

پانچویں بحث: پکانے کی حاجت پیاس کی حاجت سے کم نہیں جبکہ وہ چیز بلا پکائے نہ کھائی جاسکتی ہو، مثلاً آٹا گوندھنا پیاس کے برابر ہے، کیونکہ عام لوگ آٹا پھانک کر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں، تو آٹا گوندھنا روٹی پکانے کیلئے ہے اور یہ بھی پکانے کا ایک حصہ ہے تو اولٰی یہ ہے کہ کہا جائے کہ شوربہ کی ضرورت پیاس کی ضرورت سے کم ہے۔


چھٹی بحث: ایک درہم سے زیادہ ہونے کی قید پیمائش میں اور ایک مثقال سے زیادہ کی قید وزن میں، نجاست غلیظہ میں ہے اور خفیفہ میں اس کی تقدیر چوتھائی سے ہے اسی لئے میں نے یہ تعبیر کی ہے کہ ''جس سے مانع نماز نہ رہے۔''


ساتویں بحث: سید 'ش' نے نجاست کی کمی میں جو بحث کی ہے وہ بہت اچھی ہے اس لئے میں نے اس کی تعبیر ''مالا یبقیھا مانعۃ'' سے کی ہے۔ (ت)



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے