خُطبۃ الکتاب
فتاوی رضویہ جلد اول
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحمدہ ونصَلی علٰی رسوُلہ الکریم
الحمد للّٰہ ھو الفقہ الاکبر÷ والجامع الکبیر لزیادات فیضہ المبسوط الدرر والغرر÷ بہ الھدایۃ÷ ومنہ البدایۃ÷ والیہ النھایۃ÷ بحمدہ الوقایۃ÷ ونقایۃ الدرایۃ÷ وعین العنایۃ÷ وحسن الکفایۃ÷ والصّلاۃ والسلام علی الامام الاعظم للرسل الکرام÷ مالکی وشافعی احمد الکرام÷ یقول الحسن بلاتوقف÷ محمد الحَسَنُ ابویوسف÷ فانہ الاصل المحیط÷ لکل فضل بسیط÷ ووجیز ووسیط÷ البحرالزخار÷ والدر المختار÷ وخزائن الاسرار÷ وتنویر الابصار ÷ وردالمحتار÷ علٰی منح الغفار÷ وفتح القدیر÷ وزاد الفقیر÷ وملتقی الابحر÷ ومجمع الانھر÷ وکنز الدقائق÷ وتبیین الحقائق÷ والبحرالرائق÷ منہ یستمد کل نھرفائق÷فیہ المنیۃ÷ وبہ الغنیۃ÷ ومراقی الفلاح÷ وامداد الفتاح÷ وایضاح الاصلاح÷ ونور الایضاح÷ وکشف المضمرات÷ وحل المشکلات÷ والدرر المنتقی÷ وینابیع المبتغی÷ وتنویر البصائر÷ وزواھر الجواھر÷ البدائع النوادر÷ المنزہ وجوبا عن الاشباہ والنظائر÷ مغنی السائلین÷ ونصاب المساکین÷ الحاوی القدسی÷ لکل کمال قد سی وانسی÷ الکافی الوافی الشافی÷ المصفی المصطفی المستصفی المجتبی المنتقی الصافی÷ عُدۃ النوازل÷وانفع الوسائل÷ لاسعاف السائل÷ بعیون المسائل÷ عمدۃ الاواخر وخلاصۃ الاوائل÷ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ÷وحزبہ÷مصابیح الدّجی÷ ومفاتیح الھدی÷ لاسیما الشیخین الصاحبین÷ الاٰخذین من الشریعۃ والحقیقۃ بکلا الطرفین÷ والختنین الکریمین÷ کل منھا نورالعین÷ ومجمع البحرین÷ وعلٰی مجتھدی ملتہ÷ وائمۃ امتہ÷ خصوصا الارکان الاربعۃ÷ والانوار اللامعۃ÷ وابنہ الاکرم÷ الغوث الاعظم÷ ذخیرۃ الاولیاء÷ وتحفۃ الفقھاء÷ وجامع الفصولین÷ فصول الحقائق والشرع المھذب بکل زین÷ وعلینا معھم÷ وبھم ولھم÷ یاارحم الرحمین÷ اٰمین اٰمین÷ والحمدللّٰہ رب العٰلمین÷
ترجمہ: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔
ہم اس کی حمد کرتے اور اس کے کرم والے رسول پر درود بھیجتے ہیں سب خوبیاں خدا کو ہیں یہی سب سے بڑی فقہ ودانشمندی ہے اور اللہ تعالٰی کے فیض کشادہ کی افزائیشیں کہ نہایت روشن موتی ہیں اُن کے لیے بڑی جامع ہے ، اللہ ہی سے آغاز ہے اور اسی کی طرف انتہا، اسی کی حمد سے حفظ ہے اور عقل کی پاکیزگی اورعنایت کی نگاہ اور کفایت کی خوبی، اور درود وسلام ان پر جو تمام معزز رسولوں کے امام اعظم ہیں، میرے مالک اور میرے شافع احمد کمال کرم والے، حسن بے توقف کہتا ہے کہ حسن والے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم یوسف علیہ الصّلوٰۃ والسلام کے والد ہیں کیونکہ وہی اصل ہیں جو ہر فضیلت کبیرہ وصغیرہ ومتوسط کو محیط ہیں، نہایت چھلکتے دریا ہیں اور چُنے ہوئے موتی، اور رازوں کے خزانے، اور آنکھیں روشن کرنے والے، اور حیران کو اللہ غفار کی عطاؤں کی طرف پلٹانے والے، قادرمطلق کی کشائش ہیں، اور محتاجوں کے توشے، تمام کمالات کے سمندر انہیں میں جاکر ملتے ہیں اور سب خوبیوں کی نہریں انہیں میں جمع ہیں، باریکیوں کے خزانے ہیں، اور تمام حقائق کے روشن بیان، اور خوشنما صاف شفاف سمندر کہ ہر فوقیت والی نہر انہیں سے مدد لیتی ہے، انہیں میں آرزو ہے اور انہیں کے سبب باقی سب سے بے نیازی،اور مراد پانے کے زینے اور تمام ابواب خیر کھولنے والے کی مدد، اور آراستگی کی روشنی، اور اس روشنی کے لئے نور، اور غیبوں کاکھلنا، اور مشکلوں کاحل ہونا، اور چُنا ہُوا موتی، اور مراد کے چشمے، اور دلوں کی روشنیاں، اور نہایت چمکتے جواہر عجب ونادر، وہ مثل ونظیر سے ایسے پاک ہیں کہ ان کا مثل ممکن نہیں، سائلوں کو غنی فرمانے والے ہیں، اور مسکینوں کی تونگری، ہرکمال ملکوتی وانسانی کے پاک جامع ہیں، تمام مہمات میں کافی ہیں، بھرپور بخشنے والے ، سب بیماریوں سے شفادینے والے، مصفی برگزیدہ پاکیزہ چُنے ہوئے، ستھرے صاف، سب سختیوں کی دقت کے لئے سازوسامان ہیں، سائل کو نہایت عمدہ منہ مانگی مرادیں ملنے کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش وسیلے ہیں، پچھلوں کے تکیہ گاہ اور اگلوں کے خلاصے، اور ان کے آل واصحاب اور ازواج وگروہ پر درود وسلام جو ظلمتوں کے چراغ اور ہدایت کی کنجیاں ہیں، خصوصاً اسلام کے دونوں بزرگ مصطفی کے دونوں یار کہ شریعت وحقیقت دونوں کناروں کے حاوی ہیں، اور دونوں کرم والے شادیوں کے سبب فرزندی اقدس سے مشرف کہ اُن میں ہرایک آنکھ کی روشنی اور دونوں سمندروں کامجمع ہے، اور ان کے دین کے مجتہد ولی امت کے اماموں پرخصوصاً شریعت کے چاروں رکن چمکتے نور، اور ان کے نہایت کریم بیٹے غوثِ اعظم پر کہ اولیاء کے لئے ذخیرہ ہیں، اور فقہا کے لئے تحفہ، اور حقیقت اور وہ شریعت کہ ہرزینت سے آراستہ ہے دونوں کی فصول کے جامع، اور ہم سب پر اُن کے ساتھ ان کے صدقہ میں اُن کے طفیل اے سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان سن لے قبول کر۔
صفۃ الکتاب
امابعد فہذہ بحمداللّٰہ÷ ورفداللّٰہ÷ وعون اللّٰہ÷ وصون اللّٰہ÷ تبارک تعالٰی ÷ وبارک اللّٰہ÷ ماشاء اللّٰہ÷ لاقوّۃ الاباللّٰہ÷ وحسبنااللّٰہ ونعم الوکیل÷ نعم المولٰی ونعم النصیر÷ جنات عالیۃ÷ قطوفہادانیۃ÷ فیہا سررمرفوعۃ÷ واکواب موضوعۃ÷ ونمارق مصفوفۃ÷ وزرابی مبثوثۃ÷ من مسائل الدین الحنیفی÷ والفقہ الحنفی÷ تجدفیھا ان شاء اللّٰہ عینا جاریۃ من عیون تحقیقات السلف الکرام÷ مع رفرف خضروعبقری حسان من تمھیدات الخلف الاعلام÷وعرائس نفائس کانھن الیاقوت والمرجان÷ لم یطمثھن قبلی انس ولاجان÷ من احکام حوادث جدیدۃ÷ وتحقیقات مدیدۃ÷ وتنقیحات سدیدۃ÷ وتدقیقات مجیدۃ÷ وتوثیقات فریدۃ÷ و اِحکام الاَحکام÷ والنقض والابرام÷ مماالھمنی الملک العلام÷ ببرکۃ خدمۃ علوم الاعلام÷ مع الوف التبری÷ من حولی وقدری÷ وصنوف الالتجاء الی الحول العظیم÷ والطول القدیم÷ والف الف شھادۃ ان لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العزیز الحکیم÷ وماابرئ نفسی ان النفس لکثیرۃ الخُطا÷الی الزلۃ والخطا÷ فکیف مثلی÷ فی ظلمی وجہلی÷ وقلۃ الطاعۃ÷ وذلۃ البضاعۃ÷ و کثرۃ الذنوب÷ وسورۃ العیوب÷ ولکن اللّٰہ یفعل مایرید÷ فضلہ اوسع ولدیہ المزید لیس علی اللّٰہ بمستنکر÷ ان یلحق العاجز بالقادر÷ فما کان فیھا من الصواب÷ وھوالرجاء من الوھاب÷ فمن ربّی وحدہ وانا احمدہ علیہ÷ وماکان فیھا من الخطا فمنی ومن الشیطان وانا اعوذ بربی واعود الیہ÷ اَلاَ واَنا احمدُ رِضًا لربّی÷ وھو حسبی÷ ان لم یخطر ببالی قط انی من العلماء÷ اوزمرۃ الفقہاء÷ اوان لی بجنب الائمۃ مقالا÷ اوفی الحُکم و الحِکَم معہم مجالا÷ وانما انا منتم الیہم÷ متطفل علیھم÷ فعنھم اٰخذومنھم استفیض÷ ومنھم یفیض علی مایفیض÷ فببرکۃ ھذا فتح المولٰی علیّ الابواب÷ ویسرالاسباب وھدی للصواب÷ ان شاء اللّٰہ فی کل باب÷ وانا اعرف حیث یحل للمقلدان یقول اقول÷ ففی میدانی اجول÷ والیہ احول÷ وما عونی وصونی الاباللّٰہ ثم بالرسول÷ثم بالسادۃ القادۃ الفحول÷ علیہ وعلیھم صلوات لاتزول÷ فھاک بحمداللّٰہ تعالٰی جناتٍ لاولی الاباب÷مفتحۃ لھم الابواب÷ حتی اذاجاؤھا وفتحت ابوابھا وقال لہم خزنتہا سلٰم علیکم طبتم فادخلوھا اٰمنین÷ ومن کِرامِ کُروم ریاضہا مجتنین÷ ومن بلال زُلال حیاضھا مرتوین÷ وفی ظلال جلال غیاضہا ساکنین÷ فقد رتبت علی الکتب والابواب÷ فسھل التناول وحق التداول بین الاصحاب÷ وستراھا محذوفۃ الکترار÷ محفوظۃ الذمار÷ عن الاکثار والاکبار÷ بنقل فتاوٰی بنی الاعصار÷ بل ماھی من فتاوی الفقیر÷ الاالنصف اوازید بیسیر÷ اوقلت الثلث والثلث کثیر÷ وذٰلک ان سیّدی وابی÷ وظل رحمۃ ربّی÷ ختام المحققین و امام المدققین÷ ماحی الفتن÷ وحامی السنن÷ سیدنا ومولٰینا المولوی محمد نقی علی خان القادری البرکاتی÷ امطراللّٰہ تعالیٰ علٰی مرقدہ الکریم شاٰبیب رضوانہ فی الحاضر والاٰتی÷ اقامنی فی الافتاء للرابع عشر÷ من شعبان الخیر والبُشر÷ ۱۲۸۶ھ ست وثمانین والف ومائتین÷ من ھجرۃ سیدالثقلین÷ علیہ وعلٰی اٰلہ الصلوات من رب المشرقین÷ ولم تتم لی اذا ذاک اربعۃ عشرعا مامن العُمُر÷ لان ولادتی عاشر شوالِ ۱۲۷۲ اثنتین وسبعین من سنی الھجرۃ الاطائب الغُر÷ فجعلت اُفتی÷ ویھدینی قدس سرہ فیما اُخطی÷ فبعد سبع سنین اذن لی÷ عطر اللّٰہ تعالٰی مرقدہ النقی العلی÷ ان اُفتی واعطی ولا اعرض علیہ÷ ولکن لم اجترئ بذلک حتّی قبضہ الرحمٰن الیہ÷ سلخ ذی القعدہ عام سبع وتسعین ۱۲۹۷÷ فلم الق بالی الی جمع ماافتیت فی تلک السنین÷ نحواثنتی عشرۃ سنۃ÷ قرنا کاملا فی الازمنۃ÷ وبعد ذلک ان اتی السؤال من بلاد قریبۃ دانیۃ÷ ومما لک بعیدۃقاصیۃ÷ عشر مرات فصاعدا÷ لم اثبت فی الکتاب الاجوابا واحدا÷ الا لفائدۃ÷ اوعائدۃ زائدۃ÷ اوطروء نسیان÷وقلما یسلم منہ انسان÷ ومع فوات الکثیرۃ وروم الاختصار÷ قد بلغت الی الان سبع مجلدات کبار÷ کل مجلد مابین سبعین÷ کُرّاسا کبیرا الٰی ثمانین÷ والاٰن ھی فی ازدیاد÷ الی مایشاء الکریم الجواد فاستثقل الاحباب حجم المجلدات وجزّؤھا علی اثنی عشر÷ ومایرزق المولی من بعد ذٰلک فسیکون ذیلا بعونہ الاکبر÷ وسمیتھا بالعطایا النبویۃ÷ فی الفتاوی الرضویۃ÷ جعلھا اللّٰہ÷ وسیلۃ لرضاہ÷ ونافعۃ فی الدارین لی ولعبادہ÷ وجَوداجائدا علٰی جمیع بلادہ÷ واھب واھُب المراد قبول القبول÷ علیھا وصانھا من کل لدود جھول÷ فقد عذت برب الفلق÷ من شرماخلق÷ ومن شرّحاسد اذاحسد÷ ومن ضرحاقداذ احقد÷ اللھم من استعاذ بک فقد استعاذ بعظیم÷ عزّجارک وجل ثناؤوجہک الکریم÷ صل وسلم وبارک علی ھذا الحبیب الرؤوف الرحیم÷ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ واولیائہٖ وعلمائہٖ بالوف التکریم÷ واشھد ان لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ÷ واشھد ان سیّدنا ومولٰینا محمدًا عبدہ ورسولہ بالھدیٰ ودین الحق ارسلہ÷ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم علیہ÷ وعلٰی کل من ھو مرضی لدیہ÷ وعلٰی کل مسلم ملتجیئ الیہ÷ فی کل اٰن دائما ابدا÷ مالایحصیہ احد عددا اٰمین۔
( صفۃ الکتاب)
بعدازاں یہ اللہ کی حمد اللہ کی عطااللہ کی مدد اللہ کی حفاظت سے (بڑی برکت والا ہے اللہ ،اور برکت دے اللہ، جو چاہے اللہ، قوت نہیں مگر منجانب اللہ، ہمیں اللہ کافی ہے اور اچھا کام بنانے والا، کیا اچھا مولا اور کیا اچھا مددگار) بلند باغ ہیں جن کے انگوروں کے گچھے بوجھ کے سبب جُھک کرنزدیک آگئے ہیں اُن میں بلند تخت ہیں، اور رکھے ہوئے کوزے، اور قالینوں کی قطاریں، اور جابجارکھی ہوئی مسندیں دین ابراہیمی اور فقہ حنفی کے مسائل سے، اللہ چاہے تو تُو اس میں بہتا چشمہ پائے گا اگلے کریموں کی عمدہ تحقیقات سے، اور اُن کے ساتھ سبز غالیچے، اور منقش رنگین خوب صورت فرش پچھلے مشاہیر کی آرائشوں سے، اور ستھری دُلہنیں گویا وہ یاقوت ومرجان ہیں جن کو مجھ سے پہلے کسی آدمی یاجن نے ہاتھ نہ لگایا، نوپیدا چیزوں کے احکام، اور مفصل تحقیقوں، اور صحیح تنقیحوں، اور شاندار تدقیقوں، اور یکتا تائیدوں، اور احکام کی مضبوطیوں، اور اعتراضوں جوابوں سے جو بڑے علم والے بادشاہ نے مجھے الہام کیے علوم اکابر کی خدماگاری کی برکت سے، یہ جو میں کہہ رہاہوں اس کے ساتھ ہزاروں بیزاریاں ہیں اپنی قوت وطاقت سے، اور قسم قسم کی التجائیں ہیں عظمت والی قوت اور ازلی فضل ومنت کی طرف، اور ہزارہزار گواہیاں کہ قوت وقدرت نہیں مگر اللہ غالب والے کی عطا سے اور میں اپنے نفس کو بری نہیں بتاتا بیشک نفس لغزش وخطا کی طرف بکثرت گامزن ہوتا ہے تو اس کا کیاپوچھنا جو مجھ جیسا ہو میرے ظلم وجہل وکمی طاعت وخواری مایہ وکثرت گناہ، اور غلبہ عیوب میں مگر ہے یہ کہ اللہ جو چاہے کرتاہے اس کافضل بڑی گنجائش والا اور اس کے پاس زیادہ ہے، اللہ سے کچھ دور نہیں کہ عاجز کو قادر سے ملادے، توجوکچھ ان میں ٹھیک ہے (اور بڑے بخشنے والے سے اسی کی امید ہے) وہ صرف میرے رب کی طرف سے ہے اور میں اس پر اس کی حمد کرتاہوں اور جو غلطی ہو وہ مجھ سے اور شیطان کی طرف سے ہے، اور میں اپنے رب کی پناہ مانگتا اور اس کی طرف رجوع لاتا ہوں ہاں ہاں مَیں اپنے رب کی رضا کے لئے اس کی حمد کرتاہوں (اور وُہ مجھے کافی ہے) کہ کبھی میرے دل میں یہ خطرہ نہ گزرا کہ میں عالم ہوں یا فقہاء کے گروہ سے ہوں یا اماموں کے مقابل مجھے کوئی لفظ کہنا پہنچتا ہے یاحکم وحکمت شرع میں مجھے ان کے ساتھ کچھ مجال ہے میں تو اُن کانام لیواہوں اور ان کاطفیلی، انہیں سے لیتا اور فائدے پاتاہوں مجھ پر جو فیض آتاہے انہیں سے آتاہے۔ اس کی برکت سے مولانے مجھ پر دروازے کھول دئیے اور اسباب آسان کیے اور خداچاہے توہرمسئلہ میں حق کی طرف ہدایت فرمائے اور میں پہچانتا ہوں کہ مقلد کو کس جگہ اقول کہنا روا ہے تو میں اپنے ہی میدان میں جولان کرتا اور اُسی کی طرف پھرتاہوں اور میری مدد اور میری حفاظت نہیں مگر اللہ سے پھر نبی سے پھر ہمارے اماموں سرداروں مردان میدان علم سے، نبی پر اور ان پر وہ درودیں کہ کبھی زائل نہ ہوں توتواللہ تعالٰی کے شکر کے ساتھ وہ بہشتیں لے جن کے دروازے عقل والوں کے لئے کشادہ ہیں یہاں تک کہ جب وہ اُن تک آئے اور ان کے دروازے کھولے گئے اور ان سے ان بہشتوں کے خزانچیوں نے کہا تم پرسلامتی تم خوش رہو ان جنتوں میں آؤ امن پاتے، اور ان کے باغوں کے معزز انگورچُنتے، اور ان کے حوضوں کے نتھرے پانیوں سے سیراب ہوتے، اور ان کے گنجان درختوں کے سایہ عزت میں راحت لیتے اس وقت اُن اربابِ دانش کی خوشی بیان سے باہر ہے، بات یہ ہے کہ یہ فتاوے فقہ کی کتابوں اور بابوں پر مرتب کردئیے گئے ہیں تو ان سے مسئلہ نکالنا آسان اور احباب میں ان کا دست بدست دورہ رکھنا سزا وار ہو ا،اور عنقریب تو انھیں دیکھے گا کہ مکرر فتوے ان میں نہیں اُن کی حریم اس سے محفوظ رکھی گئی ہے کہ اور اہل زمانہ کے فتوے نقل کرکے گنتی اور کتاب کا حجم بڑھائیں بلکہ اُن میں خود میرے ہی فتوے پورے درج نہ ہوپائے آدھے ہوں گے یاکچھ زیادہ یاتہائی کم ہوگئے اور تہائی بہت ہوتی ہے، اور اُس کا سبب یہ ہے کہ میرے آقااور والد سایہ رحمت الٰہی، خاتمہ محققین، امام مدققین، فتنوں کے مٹانے والے، سنتوں کی حمایت فرمانے والے، ہمارے سردار ومولٰی حضرت مولوی محمدنقی علیخان صاحب قادری برکاتی نے (کہ اللہ عزوجل اُن کے مرقد کریم پر اب سے ہمیشہ تک اپنی رضا کے مینہ برسائے) مجھے چاردہم شعبان خیروبشارت کو فتوے لکھنے پرمامور فرمایا جب کہ سیّدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ۱۲۸۶ھ سال تھے اور اس وقت میری عمر کے چودہ برس پورے نہ ہوتے تھے کہ میری پیدائش ہجرت کے پاکیزہ روشن برسوں سے دہم شوال ۱۲۷۲ھ میں ہے تو میں نے فتوے دینا شروع کیا اور جہاں میں غلطی کرتا حضرت قدس سرہ اصلاح فرماتے اللہ عزوجل اُن کے مرقد پاکیزہ بلند کو معطرفرمائے، سات برس کے بعد مجھے اذن فرمادیا کہ اب فتوے لکھو اور بغیر حضور کو سنائے سائلوں کو بھیج دیاکروں، مگر میں نے اس پر جرأت نہ کی یہاں تک کہ رحمن عزوجل نے حضرت والا کوسلخ ذی القعدہ ۱۲۹۷ھ میں اپنے پاس بلالیا تو ان برسوں میں جوفتوے تقریباً ایک قرن کامل یعنی بارہ سال تک لکھے اُن کے جمع کرنے کاخیال نہ آیا اور اُس کے بعد پاس پاس کے شہروں اور دُور دراز کے ملکوں سے اگرسوال دس یازیادہ بارآیا توکتاب میں ایک ہی بار کاجواب درج کیا مگر کسی فائدے یازیادہ نفع کے لئے یابھول کر کہ آدمی بھول سے کم خالی ہوتا ہے، اور باآنکہ اتنے کثیر فتاوے جاتے رہے اور باقیوں میں اس قدر اختصار منظور رہا اب تک میرے فتاوے سات مجلد کبیر تک پہنچ گئے ہرجلدچودہ سوصفحہ کلاں سے سولہ سوکے اندر تک اور ہنوز جہاں تک وہ جُودوکرم والا چاہے افزائش ہی ہے، پس احباب نے مجلدات کاحجم بھاری دیکھ کر فتاوے کو بارہ جلدوں پر تقسیم کیا اور جو کچھ مولاتعالٰی اس کے بعد عطافرمائے گا وہ اس کی مدد اکبر سے عنقریب ذیل فتاوٰی ہوجائے گا اور میں نے اس کانام العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا اللہ اسے اپنی رضاکاوسیلہ بنائے اور دونوں جہان میں مجھے اور اپنے بندوں کو اس سے نفع پہنچائے اور اسے اپنے سب شہروں پرنفع رسانی کے لئے برسنے والے عظیم باران بنائے، مرادیں دینے والا، اس پرقبول کی نسیم چلائے اور ہرسخت جاہل جھگڑالوسے اسے بچائے، اس لئے کہ میں پروردگار صبح کی پناہ میں آیا اس کی تمام مخلوقات کے شر سے حاسد کی برائی سے جب وہ حسد کرے اور کینہ پر ور کے ضرر سے جب وہ کینہ رکھے، اے اللہ! جس نے تیری پناہ لی اُس نے بڑی عظمت والے کی پناہ لی، عزّت والا وہ ہے جسے توپناہ بخشے تیرے وجہ کریم کی تعریف کمال بزرگ ہے اس رافت ورحمت والے پیارے پر در ود وسلام وبرکت اتار اور ان کے آل واصحاب اور ان کے اولیاء وعلماء پر ہزاروں تعظیم کے ساتھ، اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچّا معبود نہیں، ایک اکیلا کوئی اس کا ساجھی نہیں، اور میں گواہی دیتاہوں کہ ہمارے مالک ہمارے مولٰی محمد اس کے بندے اُس کے رسول ہیں کہ اس نے انہیں رہنمائی اور سچے دین کے ساتھ بھیجا، اللہ تعالٰی ان پر درود وسلام نازل فرمائے اور اُن سب پر جو اُن کو پسند ہیں اور ہراس مسلمان پر جو اُن کی طرف التجالے جائے ہرآن ہمیشہ ہمیشہ اتنی کہ کوئی گن نہ سکے الہی قبول فرما۔
0 تبصرے