Music

header ads

رسالہ الجود الحلوفی ارکان الوضو وضو میں کتنے فرائض اعتقادی اور کتنے فرض عملی اور کَے واجب اعتقادی اور کَے واجب عملی ہیں Wuzu ke Faraiz kitne hain

 مسئلہ۱ :  مسئولہ مولوی محمد ظفرالدین صاحب بہاری قادری ۱۰ شوال المکرم ۱۳۲۴ ھ

بحر العلوم النقلیۃ حبر الفنون العقلیۃ مجدد المائۃ الحاضرۃ متع اللّٰہ المسلمین بطول بقائکم۔ وضو میں کتنے فرائض اعتقادی اور کتنے فرض عملی اور کَے واجب اعتقادی اور کَے واجب عملی ہیں؟ اور ہر ایک کی تعریف کیا ہے؟ مدلل ارشاد ہو۔ جزاکم اللّٰہ تعالٰی من افضل ماجازی علماء امۃ حبیبہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔  (اللہ تعالٰی آپ کو وہ افضل ترین جزا عطا فرمائے جو اس نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امت کے علماء کو عطا فرمائی ۔ت )


الجواب

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

اللھم لک الحمد فرضا لازماصل علی افضل ارکان الایمان وسلّم دائماً، ایھا السائل الفاضل رزقک اللّٰہ علما نافعا ھذا سوال لا یھتدی الیہ الا من وفقہ اللّٰہ واللّٰہ یختص برحمتہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم ۱؂۔ اے اللہ! تیرے لیے فرض لازم کے طور پر حمد ہے ، ایمان کے سب سے افضل رکن پر ہمیشہ درود وسلام نازل فرما ، سائل فاضل ! خدا تمہیں علم  نافع بخشے . یہ ایسا سوال ہے کہ جس کی ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے جسے خدا اپنی توفیق سے نوازے اور اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے خاص فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے . (ت)


 (۱؂القرآن الکریم ۳/ ۷۴  )


مجتہد(ف۱)  جس شے کی طلب جزمی حتمی اذعان (عہ۱)کرے ، اگر وہ اذعان(عہ۲) بدرجہ یقین معتبر فی اصول الدین ہو ( اور اس تقدیر پر مسئلہ نہ ہوگا مگر مجمع علیہ ائمہ دین (عہ۱)) تو وہ فرض اعتقادی (عہ۲) ہے جس کا منکر عند الفقہاء مطلقا کافر(عہ۱)، اور متکلمین کے نزدیک ( منکر اس وقت کافر ہے ) جنکہ مسئلہ ضروریات دین سے ہو اور یہی عند المحقیقن احوط و اسدّ ( زیادہ احتیاط والا اور زیادہ درست ۔ت)۔


 (ف۱)فرض اعتقادی وفرض عملی وواجب اعتقادی وواجب عملی کی تعریفیں جلیل تحقیقیں ۔


 (عہ۱) اقول: والاذعان (ف۲) یعم الظن الغالب واکبر الرأی الملتحق فی الفقہیات بالیقین والیقین بالمعنی الاعم والمعنی الاخص المعتبرین فی العقائد۔ ۱۲م اقول : (میں کہتا ہوں) اذعان درج ذیل چیزوں کو شامل ہے (۱)ظنِ غالب اور راجح رائے جو فقہی مسائل کے اندر یقین میں شامل ہے (۲) یقین بمعنی اعم (۳) یقین بمعنی اخص ۔ یہ دونوں باب عقائد میں معتبر ہوتے ہیں (ت)


 (ف۲ )معنی الاذعان ۔


 (عہ۲) اذا اذعنّا بشیئ فان لم یحتمل خلافہ اصلا کوحدانیۃ اللّٰہ تعالی وحقانیۃ محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فیقین بالمعنی الاخص وان احتمل احتمالا ناشئا لا عن دلیل کامکان ان یکون الذی نراہ زیدا جنّیا تشکل بشکلہ فبا لمعنی الاعم ومثل ھذا الاحتمال لانظر الیہ اصلا ولا ینزل العلم عن درجۃ الیقین اما الناشیئ عن دلیل فیجعلہ ظنا والکل داخل فی الاذعان ۱۲منہ۔

جب ہمیں کسی بات کا اذعان حاصل ہو تو اگر۱(۱) اس کے خلاف کا بالکل احتمال نہ ہو جیسے اللہ تعالی کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت. تو یہ یقین بمعنی اخص ہے ۔ اور اگر (۲)احتمال ہو مگر ایسا احتمال جو بغیر کسی دلیل کے پیدا ہوا ہو تو یہ یقین بمعنی اعم ہے ۔ جیسے وہ جسے ہم زید یقین کر رہے ہیں اس کے بارے میں یہ احتمال ہو سکتا ہے یہ کوئی جن ہو جس نے زید کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ ایسا احتمال ذرا بھی قابل لحاظ نہیں ہوتا ۔ نہ ہی یہ علم کو درجہ یقین سے نیچے لا سکتا ، مگر جو احتمال کسی دلیل سے پیدا ہوا ہو ، وہ یقین کو ظن بنا دیتا ہے ۔ اور یہ تینوں ہی اذعان کے تحت داخل ہیں (ت) 

(عہ۱) لان مافیہ خلاف ولو مرجوحا لا یصل الٰی درجۃ ھذا الیقین۔

اس لئے کہ جس میں ائمہ دین کا اختلاف ہے ، اگرچہ خلافِ مرجوح ہی ہو ۔ وہ اس یقین کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا.(ت)

(عہ۲) اقول والاعتقاد (ف۱) وان ساوی الاذعان فی اصل وضعہ فالمراد بہ ھھنا ھو العلم بالمعنی الاخص المختص بالیقین الاعم والاخص ومنہ قولھم حدیث الاٰحادلا یفید الاعتماد فی باب الاعتقاد۔

اقول: ( میں کہتا ہوں) لفظ اعتقاد اصل وضع کے اعتبار سے اگرچہ اذعان کا مساوی ہے مگر یہاں اس سے مراد علم بمعنی اخص ہے جو یقین بمعنی اعم و یقین بمعنی اخص ہے ۔ اس اصطلاح کے تحت علماء کا یہ ارشاد آتا ہے کہ باب ''اعتقاد '' میں خبر آحاد مفید اعتماد نہیں. (ت)

(ف۱)معنی الاعتقاد ۔

(عہ۱) ای عند عامۃ مصنفیہم من اصحاب الفتاوی وغیرھم من المتاخرین اما ائمتنا الاقدمون فعلی ما علیہ المتکلمون کما حققہ خاتم المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد فی بعض فتاواہ۔

اقول : ( میں کہتا ہوں)یعنی فقہائے متاخّرین میں سے اکثر مصنفین ، اصحابِ فتاوٰی و غیرہم کے نزدیک (وہ مطلقا کافر ہے )اور ہمارے  ائمہ متقدمین کا مسلک وہی ہے جس پر متکلمین ہیں جیسا کہ خاتم المحققین ہمارے والد ماجد قدس سرہ نے اپنے بعض فتاوٰی میں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔(ت)


اور ہمارے اساتذہ کرام کا معول و معتمد ( وثوق اور اعتماد والا ۔ ت) ہے(عہ۲) ورنہ ( یعنی اگر اس مسئلہ پر تمام ائمہ کا اتفاق نہیں ہے تو واجب اعتقادی ہے ،


 (عہ۲) وفسرت (ف۲) الضروریات بما یشترک فی علمہ الخواص والعوام اقول المراد العوام الذین لھم شغل بالدین واختلاف بعلمائہ والا فکثیر من جہلۃ الاعراب لاسیما فی الھند والشرق لایعرفون کثیرا من الضروریات لابمعنی انھم لہا منکرون بل ھم عنھا غافلون فشتان ماعدم المعرفۃ ومعرفۃ العدم وانکان جہلا مرکبا فلا تجھل والتحقیق عندی ان الضرورۃ ھھنا بمعنی البداھۃ وقد تقرر ان البداھۃ والنظریۃ تختلف باختلاف الناس فرب مسألۃ نظریۃ مبنیۃ علی نظریۃ اخری اذا تبین المبنی عند قوم حتی صاراصلا مقررا وعلما ظاھرا فالاخری التی لم تکن تحتاج فی ظھورھا الا الٰی ظھور الاولی تلتحق عندھم بالضروریات وانکانت نظریۃ فی نفسھا الاتری ان کل قوس لم تبلغ ربعا تاما من اربعۃ ارباع الدور وجود کل من القاطع والظل الاول لھا بدیھی عندالمھندس لایحتاج اصلا الی اعمال نظر وتحریک فکر بعد ملاحظۃ المصادرۃ المشھورۃ المسلمۃ المقررۃ وانکان ھو والمصادرۃ کلاھما نظرمابین فی انفسھا ھکذا حال ضروریات الدین۔


ضروریاتِ دین کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ دینی مسائل جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں اقول عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کی صحبت سے فیضیاب ہوں...ورنہ بہت سے اعرابی جاہل ... خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ...ایسے ہیں جو بہت سے ضروریاتِ دین سے آشنا نہیں .. اس معنی میں نہیں کہ ضروریاتِ دین کے منکر ہیں بلکہ وہ ان سے غافل ہیں ۔ بڑا فرق ہے عدمِ علم او ر علمِ عدم میں ۔ خواہ یہ جہلِ مرکب ہی ہو . تو اس فرق سے بے خبری نہ رہے، اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ ضرورت یہاں بداہت کے معنی میں ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ مختلف لوگوں کے اعتبار سے بداہت و نظریت بھی مختلف ہوتی ہے ۔ بہت سے نظری مسائل کی بنیاد کسی اور نظری مسئلہ پر ہوتی ہے ۔ اگر وہ بنیاد کسی طبقہ کے نزدیک روشن و واضح ہو کر ایک مقررہ قاعدہ اور واضح علم کی حیثیت اختیار کر لے تو دوسرا مسئلہ جس کے واضح ہونے کے لئے بس اسی پہلے مسئلہ کے واضح ہونے کی ضرورت تھی، اس طبقہ کے نزدیک ضروریات کی صف میں آ جاتا ہے اگرچہ وُہ بذات خود نظری تھا . دیکھیے ہندسہ داں (جیومیٹری والے) کے نزدیک یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ہر وُہ قوس جو دَور کے چار ربع میں سے ایک کامل ربع کے برابر نہ پہنچے اس کے لئے قاطع اور ظل اول ہونا ضروری ہے .۔اس میں کسی نظر کے استعمال اور فکر کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں جب کہ مشہور مسلّم مقرر مصادرہ ملحوظ ہو اگرچہ یہ کلیہ اور وہ مصادرہ بذاتِ خود دونوں ہی نظری ہیں ۔یہی حال ضروریاتِ دین کا ہے (کہ بعض لوگوں کے لئے بدیہی ، بعض کے لئے نظری اور بعض کے لئے نامعلوم۔ ۱۲ مترجم ) (ت)

(ف۲)معنی ضروریات الدین ۔

پھر اگر مجتہد کو بنظر دلائل شرعیہ جو اس پر ظاہر ہوئے اس طلب جزمی میں اصلا شبہ نہیں(عہ۱) ، بایں وجہ اس کی نظر میں اس شے کا وجود شرط صحت و براء ت ذمہ بمعنی عدم بقائے اشتغال قطعی ہے(عہ۱) ، یعنی اگر وہ کسی عمل میں فرض ہو تو بے اس کے وہ عمل باطل محض ہو۔ اور مستقل مطلوب ہے تو بے اس کی براء ت ذمہ  نہ ہونے پر اسے جزم ہو تو فرض عملی ہے ۔اور اگر خود اس کی رائے میں بھی طلب جزمی جزمی نہیں تو واجب عملی ، کہ بغیر اس کے حکم صحت حاصل اور براء ت ذمہ محتمل ۔ وقد علم بذلک حد کل واحد منہا  ( اس بیان سے ان میں سے ہر ایک کی تعریف معلوم ہوگئی ۔ ت


 (عہ۱) وانکان عارفا بخلاف ما فان سطوع (ف)انوار الحجج الالھیۃ ربما یبلغ عندہ مبلغا یقول اذا جاء نھر اللّٰہ بطل نھر معقل وعن ھذا ربما اول القطعیات الاٰتیۃ علی خلاف ما عن لہ کما وقع لسیدنا ابی ذر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی مسئلۃ الکنز وقولہ فی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ما قال مع القطعیات الواردۃ فی حق بدریین عموما والعشرۃ خصوصا رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم احسن الرضا وعن ھذا تری ائمتنا وغیرھم قائلین فی کثیر من الاجتھادیات المختلف فیھا بین الائمۃ ان ھذا مما لایسوغ الاجتھاد فیہ حتی ینقض القضاء بہ کحل متروک التسمیۃ عمدا وغیر ذلک فھومع علم الخلاف جازم بالحکم ومع جزمہ بہ منکر للا کفار بالخلاف والانکار وھذا الذی اشرت الیہ علم عزیز علیک ان تحتفظ بہ فانہ یحل باذن اللّٰہ تعالٰی عقد حار فی حلھا حائرون وبار بجھلہا بائرون واللّٰہ یھدی من یشاء الٰی صراط مستقیم۱؂۔


اگرچہ وہ جانتا ہو کہ اس میں کوئی خلاف بھی ہے اس لئے کہ خدا کی حجتوں کے انوار کی تابندگی بعض اوقات اس کی نظر میں اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ وہ کہتا ہے ''جب خدا کی نہر آ گئی تو معقل کی نہر بیکار ہو گئی '' یہی سبب ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ ان قطعیات کی بھی تاویل کرتا ہے جو اس پر ظاہر شدہ مسئلہ کے خلاف آئے ہیں جیسے سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مسئلہ کنز میں ہوا ( جمہور صحابہ کرام کے نزدیک کنز وہ ما ل ہے جس میں فرض زکوۃ کی ادائیگی نہ ہوتی ہو ، اور حضرت ابو ذر کا قول یہ ہے کہ حاجت سے زیادہ جو بھی مال ہے وہ کنز ہے اسے رکھنے پر عذاب ہو گا، اس قول کے خلاف جو قطعیات وارد ہیں وُہ ان کی تاویل کرتے ہیں۔۱۲ مترجم) اور ( مالدار صحابی) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں انہوں نے بہت کچھ کہہ ڈالا باوجودیکہ اصحابِ بدر کے بارے میں عموماً اور عشرہ مبشرہ کے بارے میں خصوصاً بہت سی قطعی احادیث وارد ہیں ، انہیں خدا برتر کی بہترین رضا و خوشنودی حاصل ہو ۔ اور اسی وجہ سے آپ ہمارے ائمہ اور دوسرے حضرات کو دیکھیں گے کہ وہ ائمہ کے درمیان بہت سے اختلافی اجتہادی مسائل میں کہتے ہیں کہ یہ ان احکام میں سے ہیں جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں یہاں تک کہ ان کے متعلق قضا باطل ہے جیسے اس مذبوح جانور کی حلت جسے ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا قصداً ترک کر دیا گیا ہو ۔ اور ایسے ہی دیگر مسائل تو مجتہد اختلاف کے باوجود حکم پر جزم رکھتا ہے اور جزم کے باوجود اس کے مخالف اور منکر کی تکفیر سے انکار کرتا ہے . یہ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا بہت نادر اور وقیع علم ہے جسے محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔اس سے باذنِ الٰہی ایسے بہت عقدے حل ہو جاتے ہیں جن میں کچھ لوگ حیرت زدہ ہیں اور جن سے نا آشنائی کے باعث کچھ لو گ ہلاکت میں پڑے ۔اور خدا جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔(ت)


 (۱؂القرآن الکریم  ۲ /۲۱۳ )


 (ف) جلیلہ :ربما یحصل للمجتھد القطع بما یری مع علم الخلاف ۔

 (عہ۱) اقول:  وزدت ھذا لان قولھم (ف۱) مایفوت بفوتہ الجواز المراد فیہ بالجواز الصحۃ لاالحل لفوتہ بفوت کل واجب ولو عملیا والشیئ قد یکون فرضا براسہ وفوات الصحۃ انما کان یشمل الاول فزدت الاٰخر وفسرتہ بما مر لاخراج الواجب العملی فافھم۔


اقول ( میں کہتا ہوں) یہ اضافہ میں نے اس لئے کیا کہ علماء کے قول ''فرض وہ ہے جس کے نہ ہونے سے جواز نہ ہو '' میں جواز سے مراد صحت ہے حلّت نہیں کیونکہ حلت تو کسی بھی واجب کے فقدان سے مفقود ہو جاتی ہے خواہ واجب عملی ہی ہو ، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ عمل خود مستقلاً فرض ہو جاتا ہے اور یہ کہنا کہ جس کے نہ ہونے سے عمل کی صحت نہ ہو صرف اس فرض کو شامل ہے جو دوسرے عمل میں فرض ہو اس لئے میں نے ''برأت ذمہ'' کا اضافہ کیا (تا کہ فرض مستقل بھی تعریف میں داخل ہو جائے ) اور اس کی تفسیر ''عدم بقائے اشتغال '' سے کی تاکہ واجب عملی اس تعریف سے نکل جائے . تو اسے سمجھئے . (مزید توضیح آگے خود عبارتِ مصنّف میں موجود ہے.۱۲ مترجم۔(ت)

 (ف۱) تطفل علی الکافی وغیرہ کثیر من المعتبرات ۔


بحرالرائق میں ہے : فی التحریر الفرض ما قطع بلزومہ اھ وعرفہ فی الکافی بما یفوت الجواز بفوتہ وھو یشمل کل فرض بخلاف الاوّل اذ یخرج عنہ المقدار فی مسح الرأس فانہ فرض مع انہ ثبت بظنی لکنہ تعریف بالحکم موجب للدور۔ والظاھر من کلامھم فی الاصول والفروع ان المفروض علی نوعین: (۱) قطعی و(۲) ظنّی ھوفی قوۃ القطعی فی العمل بحیث یفوت الجواز بفوتہ فالمقدر فی مسح الرأس من الثانی وعند الاطلاق ینصرف الی الاول لکمالہ والفارق بین الظنی القوی المثبت للفرض والظنی المثبت للواجب خصوص المقام ولیس اکفار جاحدالفرض لازمالہ وانما ھو حکم الفرض القطعی المعلوم من الدین بالضرورۃ۔ وذکر فی النھایۃ انہ یجوزان یکون الفرض فی مقدار المسح بمعنی الواجب لالتقائھما فی معنی اللزوم وتعقب بانہ مخالف لما اتفق علیہ الاصحاب اذ لاواجب فی الوضوء وقد یدفع بان الذی وقع الاتفاق علیہ ھوالواجب الذی لایفوت الجواز بفوتہ بل یحصل بترکہ النقصان والکلام ھنا فی الواجب الذی یفوت الجواز بفوتہ فلا مخالفۃ اھ مختصرا۔ ۱؎


تحریر میں ہےفرض وہ ہے جس کا لازم ہونا قطعی ہو.ا ھ اور کافی میں اس کی یہ تعریف کی ہے کہ جس کے نہ ہونے سے عمل کا جواز نہ ہو . اور یہ تعریف ہر فرض کو شامل ہے بخلاف تعریفِ اوّل کے ، اس لئے کہ اس تعریف سے مسحِ سر کی مقدار خارج ہو جاتی ہے کیونکہ وہ فرض تو ہے مگر اس کا ثبوت دلیلِ قطعی سے نہیں بلکہ ظنی سے ہے . لیکن دوسری تعریف حکم کے ذریعہ تعریف ہے جو دَور کا باعث ہے اور اصول و فروع میں کلامِ عُلماء سے ظاہر یہ ہے کہ فرض کی دو قسمیں ہیں.   (۱)  قطعی     (۲) ظنی


ایسا ظنی جو عمل میں قطعی کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح کہ اس کے نہ ہونے سے بھی جوازِ عمل نہیں ہوتا . تو مسحِ سر کی مقررہ مقدار قسمِ دوم کے تحت ہے . اور فرضِ مطلق بولا جائے تو قسمِ اوّل کی طرف راجع ہوتا ہے اس لئے کہ کامل وہی ہے . اور دلیلِ ظنی قوی جس سے فرض کا ثبوت ہوتا ہے اور دلیلِ ظنی جس سے واجب کا ثبوت ہوتا ہے دونوں میں فرق خصوصیتِ مقام سے ہوتا ہے . اور منکر کی تکفیر ہر فرض کا حکمِ لازم نہیں بلکہ یہ صرف فرض  قطعی کا حکم ہے جس کا دین میں ہونا بالضرورۃ معلوم ہے.نہایہ میں مذکور ہے کہ ہو سکتا ہے مقدار مسح میں فرض بمعنی واجب ہو اس مناسبت سے کہ لزوم کا معنٰی دونوں ہی کو شامل ہے . اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ بات حنفیہ کے اس متفقہ قول کے بر خلاف ہے کہ ''وضو میں کوئی واجب نہیں ''اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ جس کے نہ ہونے پر اتفاق ہے وہ واجب ، وہ ہے جس کے فقدان سے صحت وجواز مفقود نہ ہو بلکہ جس کے ترک سے عمل میں نقص و کمی آ جائے اور یہاں اس واجب سے متعلق گفتگو ہے جس کے فقدان سے جواز مفقود ہو جائے . لہٰذاکلامِ نہایہ اتفاقِ حنفیہ کے خلاف نہیں اھ مختصراً.


 (۱؂البحر الرائق      کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی       ۱ /۱۰)


علامہ سید طحطاوی نے حاشیہ در مختار میں عبارت مذکور لفظ خصوص المقام تک نقل کرکے فرمایا : وفی النھر ما یفیدان دلیل الفرض العملی اقوی اھ ۱؎ اور نہر سے مستفاد ہوتا ہے کہ فرض عملی کی دلیل (واجب کی بہ نسبت)زیادہ قوی ہوتی ہے  اھ


 (۱؂حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار  کتاب الطہارۃ   المکتبہ العربیہ کوئٹہ    ۱/۶۱ )


اقول ؛ ھذا (ف۱) مستفاد من البحر ایضا لقولہ والفارق بین الظنی القوی المثبت للواجب فوصف الاول بالقوی دون الاٰخر ولم یرد ان الدلیلین لایکون الاعلی حد سواء فی القوۃ ثم یظھرافادۃ الافتراض بخصوص المقام وای خصوص یفیدہ بعد مالم یظھر فی الدلیل قوۃ فوق مایفید الوجوب وانما اراد ان بخصوص المقام وحفوف القرائن وامور تظھر للمجتھد یتقوی الظنی قوۃ تکاد تبلغہ درجۃ القطعی فھذا الدلیل الا قوی یثبت الفرض العملی ھذا تقریر کلامہ۔


اقول:  ( میں کہتا ہوں) یہ بھی بحر ہی سے ہی سے مستفاد ہے ، اس لئے کہ اس میں لکھا ہے :'' فرض کو ثابت کرنے والی دلیل ظنی قوی اور واجب کو ثابت کرنے والی دلیل ظنی میں فرق خصوصیتِ مقام سے ہوتا ہے ''  تو اوّل کو قوی سے موصوف کیا اور دوم کو نہ کیا . اور ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قوت میں دونوں دلیلیں بالکل برابر ہوں گی پھر مقام کی خصوصیت سے فرضیت مستفاد ہو گی . جب دلیل میں افادہ وجوب کرنے والی دلیل سے زیادہ کوئی قوت ہی نہ ہو تو پھر کون سی خصوصیت رہ جاتی ہے جس سے فرضیت مستفاد ہو ان کی مراد یہی ہے کہ مقام کی خصوصیت ، قرائن کے ہجوم اور مجتہد پر منکشف ہونے والے امور سے دلیل ظنی کو ایسی قوت مل جاتی ہے کہ وہ تقریباً قطعی کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے . اسی قوی تر دلیل سے فرض عملی کا ثبوت ہوتا ہے . یہ کلام بحر کی تقریر ہوئی.


 (ف۱)معروضۃ علی السید الطحطاوی ۔؂


وانا (ف۱) اقول وباللّٰہ التوفیق بل القطع(ف۲) علی ثلثۃ اوجہ:قطع عام یشترک فیہ الخواص والعوام وھو الحاصل فی ضروریات الدین۔ وخاص یختص بمن مارس العلم وھو الحاصل فی سائر الفرائض الاعتقادیۃ المجمع علیہا۔

الثالث قطع اخص یختلف فی حصولہ العلماء۔کما اختلف فی حصول الثانی العوام والعلماء فربما یؤدی ذھن عالم الی قرائن ھجمت وحفت فرفعت عندہ الظنی الی منصۃ الیقین ولا تظھر ذلک لغیرہ او تظھر فتظھرلہ معارضات تردھا الی المرتبۃ الاولٰی من الظن واعتبرہ بمسئلۃ سمعھا صحابی من النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم شفاھا وبلغ غیرہ باخبارہ فھو قطعی عندہ ظنی عندھم۔فالمجتھد لایثبت الافتراض الابما حصل لہ القطع بہ فانکان العلماء کلھم قاطعین بہ کان فرضا اعتقادیا وانکان قطعاً خاصاً بھذا المجتھد کان فرضا عملیا ھذا ماظھرلی وارجو ان یکون صوابا ان شاء اللّٰہ تعالٰی والیہ اشرت فیما قررت فاعرف۔


اور میں کہتا ہوں . و باللہ التوفیق ۔

بلکہ قطعیت کی تین صورتیں ہیں (۱)عام قطعیت جس میں عوام و خواص سب شریک ہوں ، یہ ضروریاتِ دین میں ہوتی ہے ۔(۲)خاص قطعیت جو علم سے شغف رکھنے والوں کے ساتھ خاص ہے ، یہ وہ ہے جو دیگر اجماعی فرائضِ اعتقادیہ میں ہوتی ہے ۔(۳)اخص قطعیت ، جس کا حصول عُلماء میں کسی کو ہوتا ہے کسی کو نہیں ہوتا ،

اس لحاظ سے ان کے درمیان باہم فرق ہوتا ہے ، جیسے قسم دوم کے حاصل ہونے میں عوام اور علماء کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک عالم کا ذہن کچھ ایسے قرائن پا لیتا ہے جو دلیل کے گرد احاطہ و ہجوم کئے ہیں جن کے باعث اس کے نزدیک وہ دلیل ظنی درجہ یقین تک پہنچ جاتی ہے اور وہ قرائن دوسرے عالم پر عیاں نہیں ہوتے یا عیاں ہوتے ہیں تو ان کے کچھ معارض قرائن بھی اس کے سامنے جلوہ نماہوتے ہیں جو دلیل کو پھر اسی درجہ ظن پر لوٹا دیتے ہیں۔اسے یوں سمجھئے کہ ایک مسئلہ ہے جسے کسی صحابی نے خود زبان  رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سُنا اور دوسروں کو اس صحابی کے بتانے سے معلوم ہوا تو اس صحابی کے نزدیک وہ قطعی ہے اور دوسروں کے نزدیک ظنی ہے ۔تو مجتہد فرضیت کا اثبات اسی دلیل سے کرتا ہے جس کے متعلق اسے قطعیت حاصل ہو چکی ہے ۔ اگر یہی قطعیت تمام علماء کے نزدیک حاصل ہے تو وہ فرضِ اعتقادی ہے اور اگر یہ قطعیت خاص اسی مجتہد کو حاصل ہے تو اس کے نزدیک وہ فرضِ عملی ہے ۔ یہ وہ ہے جو مجھ پر منکشف ہوا ، اور امید رکھتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالٰی درست ہو گا ، اسی کی طرف میں نے اپنی تقریر بالا میں اشارہ کیا ہے۔ تو اس سے با خبر رہیے۔ (ت)


 (ف۱) تطفل علی الکافی وغیرہ کثیر من المعتبرات ۔

(ف۲)تحقیق المصنف ان القطع علی ثلثۃ اقسام۔


علامہ شامی نے منحۃ الخالق میں کلام مذکور بحر کے مؤیدات عبارات نہایہ و شرح قہستانی سے نقل کرکے فرمایا : ولا یخفی مخالفتہ لما اطبق علیہ الاصولیون من ان الفرض ماثبت بدلیل قطعی لاشبہۃ فیہ ۱؎ مخفی نہیں کہ یہ اس کے بر خلاف ہے جس پر اہلِ اصول کا اتفاق ہے کہ ''فرض وُہ ہے جو ایسی دلیلِ قطعی سے ثابت ہو جس میں کوئی شبہہ نہ ہو۔ (ت)

پھر اصول بزدوی کی عبارت ذکر کی اور مغنی و منتخب و تنقیح و تلویح وتحریر و منار وغیرہا کا حوالہ دیا ہے۔


 (۱؂منحۃ الخالق علی البحر الرائق      کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی       ۱ /۱۰)


اقـول وھذا (ف) بعید من مثلہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فھٰذا اصطلاح فقھی ولایقضی علیہ اصطلاح خاص اصولی مع انہ ھوالناقل  ھٰھناوفـی ردالمحتار عن التلویح ان استعمال الفرض فیما ثبت بظنی والواجب فیما ثبت بقطعی شائع مستفیض کقولھم الوتر واجب فرض وتعدیل الارکان فرض ونحو ذلک یسمی فرض عملیا فلفظ الواجب یقع علی ما ھو فرض علما وعملا کصلاۃ الفجر وعلی ظنی ھو فی قوۃ الفرض فی العمل کالوترحتی یمنع تذکرہ صحۃ الفجر کتذکر العشاء وعلی ظنی ھو دون الفرض فی العمل وفوق السنۃ کتعیین الفاتحۃ حتی لا تفسد الصلاۃ بترکہا لکن تجب سجدۃ السہواھ ۱؎


اقول:  ایسا اعتراض علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جیسی شخصیت سے بعید ہے ۔ کیونکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے خلاف خاص اصولی اصطلاح سے فیصلہ نہیں ہو سکتا ، باوجودیکہ خودعلامہ شامی ہی یہاں (منحۃالخالق میں) اور ردالمحتار میں تلویح سے ناقل ہیں کہ دلیل ظنی سے ثابت شدہ میں فرض ، اور قطعی سے ثابت شدہ میں واجب کا استعمال رائج اور مشہور ہے جیسے کہتے ہیں : وتر واجب فرض ہے ، تعدیلِ ارکان فرض ہے اور اس کے مثل کو فرضِ عملی کہا جاتا ہے ۔ تو لفظ واجب کا اطلاق ایک تو اس چیز پر ہوتا ہے ۔ جو اعتقاد اور عملا دونوں طرح فرض ہے جیسے نمازِ فجر ، اور اس ظنی پر بھی ہوتا ہے جو عمل میں فرض کی حیثیت رکھتا ہے جیسے نمازِ وتر یہاں تک کہ یاد آ جائے کہ وتر نہ پڑھے تھے تو اسے ادا کئے بغیر فجر پڑھنا درست نہیں جیسے عشاء نہ پڑھنا یاد آ جائے تو فجر نہیں ہو سکتی ۔ اور (واجب کا اطلاق) اس ظنی پر بھی ہوتا ہے جو عمل میں فرض سے فر و تر اور سنّت سے بالاتر ہے جیسے قرأت  نماز میں سورہ فاتحہ کی تعیین کہ اسکے ترک سے نماز فاسد نہیں ہوتی مگر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔ ا ھ


 (ف)معروضۃ علی منحۃ الخالق ۔


 (۱؂منحۃ الخالق علی البحر الرائق      کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی       ۱ /۱۰)

(ردالمحتار کتاب الطہارۃ  مطلب فی الفرض القطعی والظنی  داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۴)


ثم لعلہ لامساغ للشبھۃ اصلا فیما قررت فان الفرض لم یثبت عن المجتہد الا بدلیل قطعی عندہ وان لم یکن کذلک عند غیرہ فافھم۔ علاوہ ازیں امید ہے کہ میری تقریر میں اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ (تقریر مذکور کے مطابق) مجتہد کے نزدیک فرض کا ثبوت ایسی ہی دلیل سے ہے جو اس کے نزدیک قطعی ہے اگرچہ دوسرے کے نزدیک وہ دلیل ایسی نہ ہو تو اسے سمجھئے۔(ت)

درمختار میں ہے : الفرض ما قطع بلزومہ حتی یکفر جاحدہ کاصل مسح الرأس وقد یطلق علی العملی وھو ماتفوت الصحۃ بفواتہ کالمقدار الاجتھادی فی الفروض  فلا یکفر جاحدہ۱؂۔ فرض وہ ہے جس کا لازم ہونا قطعی ہو یہاں تک کہ اس کا منکر کافر ہو جائے گا جیسے اصل مسحِ سر اور فرض کبھی عملی کو بھی کہا جاتا ہے اور یہ وہ ہے جس کے نہ ہونے سے صحت نہ ہو جیسے فرائض میں اجتہاد سے مقرر شدہ مقدار میں ، تو اس کا منکر کافر نہ ہوگا ۔ (ت)


 (۱؂الدرالمختار   کتاب الطہارۃ   مطبع مجتائی دہلی     ۱ /۱۸)


اقول بیان ذلک ان الادلۃ السمعیۃ اربعۃ:

الاول قطعی الثبوت والدلالۃ کنصوص القراٰن المفسرۃ والمحکمۃ والسنۃ المتواترۃ التی مفھومھا قطعی۔ میں کہتا ہوں اس کا بیان یہ ہے کہ سمعی دلیلیں چار قسم کی ہیں ۔ 

(۱) وہ دلیل جو ثبوت اور دلالت دونوں میں قطعی ہو (ایک توخود وہ یقینی طور پر ثابت ہو ، دوسرے یہ کہ معنی مطلوب پر 

اس کی دلالت اور اس سے مقصود کا اثبات بھی قطعی و یقینی ہو ) جیسے قرآنِ کریم کے مفسَّر محکم نصوص اور وہ حدیث متواتر جس کا معنی قطعی ہے۔


الثانی قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ کالاٰیات المؤولۃ۔


 (۲) وہ دلیل جو ثبوت میں قطعی اور دلالت میں ظنی ہو ۔ جیسے وہ آیات جن کے معنی میں تاویل کی گئی ہے


الثالث عکسہ کاخبار الاٰحادالتی مفھومھا قطعی۔


 (۳) اس کے بر عکس ( وُہ دلیل جو ثبوت میں ظنی اور دلالت میں قطعی ہو) جیسے وہ احادیثِ آحاد جن کا معنی قطعی ہے۔


الرابع ظنیھما کاخبار الاٰحادالتی مفھومھا ظنی۔


 (۴) وہ دلیل جو ثبوت و اثبات دونوں میں ظنی ہو ، جیسے وہ اخبار آحاد جن کا معنی ظنی ہے ۔


فبالاول یثبت الفرض والحرام، وبالثانی والثالث الواجب وکراھۃ التحریم وبالرابع السنت والمستحب۔ثم ان المجتہد قد یقوی عندہ الدلیل الظنی حتی یصیر قریبا عندہ من القطعی فما ثبت بہ یسمیہ فرضا عملیا لانہ یعامل معاملۃ الفرض فی وجوب العمل ویسمی واجبا نظر ا الٰی ظنیۃ دلیلہ فھو اقوی نوعی الواجب واضعف نوعی الفرض بل قد یصل خبرالواحد عندہ الٰی حد القطعی ولذا قالوا انہ اذا کان متلقی بالقبول جاز اثبات الرکن بہ حتی تثبت رکنیۃ الوقوف بعرفات بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الحج عرفۃ۱؂۔


قسم اوّل سے فرض و حرام ، دوم و سوم سے واجب وکراہت تحریم اور چہارم سے سنّت و مستحب کا ثبوت ہوتا ہے ۔ پھر  مجتہد کی نظر میں دلیل ظنی کبھی اتنی قوی ہو جاتی ہے کہ اس کے نزدیک وہ قطعی کے قریب پہنچ جاتی ہے تو ایسی دلیل سے جو حکم ثابت ہوتا ہے اسے وہ ''فرض عملی'' کہتا ہے۔کیونکہ وجوبِ عمل کے بارے میں اس کے ساتھ فرض کا معاملہ ہوتا ہے ۔ اور اسے اس کی دلیل کی ظنیت کا لحاظ کرتے ہوئے واجب بھی کہا جاتا ہے ۔ تو یہ واجب کی دونوں قسموں(اعتقادی وعملی) میں سے اقوی اور فرض کی دونوں قسموں ( اعتقادی و عملی ) میں سے اضعف ہے۔ بلکہ مجتہد کے نزدیک کبھی خبرِ واحد بھی قطعی کی حد تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی لئے علماء نے فرمایا ہے کہ خبرِ واحد جب قبول مجتہدین سے سرفراز ہو تو اس سے رکنیت کا بھی اثبات ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عرفات میں وقوف کی رکنیت حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد '' الحج عرفۃ'' ( حج وقوفِ عرفہ ہے) سے ثابت ہوئی ۔ (ت)


 (۱؂ردالمحتار کتاب الطہارۃ  مطلب فی الفرض القطعی والظنی  داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۴)


اس کے بعد عبارۃ مذکورہ تلویح نقل فرمائی ۔


اقول: ھذا الکلام کلہ مذکور فی الطحطاوی عن النھر بمحصلہ سوی ما افاد بقولہ بل قد یصل الخ وھو کلام کاف من ابداء الفرق فی الفرض والواجب العملیین وصدرہ وانکان علی سنن ما قالہ البحر حیث قال قریبا من القطعی فاٰخرہ وذکر حدیث عرفۃ ناظر الی التحقیق الذی نحوت الیہ وباللّٰہ التوفیق۔


اقول :اس پورے کلام کا مضمون اور حاصل حاشیہ طحطاوی میں النہر الفائق کے حوالے سے مذکور ہے سوا اس مضمون کے جو آخر میں ان الفاظ سے بیان کیا ہے کہ ''بلکہ مجتہد کے نزدیک کبھی خبر واحد بھی قطعی کی حد تک پہنچ جاتی ہے '' الخ ۔ یہ کلام فرضِ عملی اور واجبِ عملی کے فرق کی وضاحت کے لئے کافی ہے ۔ اور اس کا ابتدائی حصّہ اگرچہ کلامِ بحر ہی کے طرز پر ہے کہ یہ کہا کہ '' مجتہد کے نزدیک کبھی دلیل ظنی قطعی کے قریب''پہنچ جاتی ہے مگر آخری حصّہ اور حدیث عرفہ کا تذکرہ اسی تحقیق کی طرف ناظر ہے جو میں نے اختیار کی ۔ اور توفیق خدا ہی کی جانب سے ہے۔


لکن فی مطاویہ ابحاث طوال یخرج الا ستر سال فیہ عن قصدالمقال بیدانہ (ف۱) لاینبغی اخلاء المقام عن افادۃ ان ماذکر تبعا للطحطاوی والنھر وکثیرین من الفارق بین الوجوب وبین السنیۃ والاستحباب من ان ثبوت الاول بما فیہ ظنیۃ فی احد طرفی الثبوت والاثبات والاخرین بما فیہ ظنیۃ فی کلیھما غیر مسلم ولا صواب کیف (ف۲) وحفوف الظن بکلا الطرفین لاینزل الطلب عن المظنونیۃ والرجحان وھو ملاک امر الوجوب لاغیر وانما الفرق بین الفریقین بنفس الطلب فقد یکون حتمیا ویفیدا الوجوب عندالظنیۃ ثبوتا اواثباتا اومعاوقد یکون ندبیا ترغیبیا فیفید السنیۃ اوالاستحباب ولو کان قطعیا یقینیا ثبوتا واثباتا فان القطع انما حصل علی الترغیب والارشاد دون الطلب الجازم من غیران یبقی فیہ للمکلف خیار وھذا ظاھر جدا ھذا ما ظھر للعبد الضعیف۔


لیکن اس کلام کی تَہ میں کچھ ایسی لمبی بحثیں ہیں جن میں عنانِ قلم کو آزادی ملے تو ہم اصل مقصود سے دُور نکل جائیں مگر اس جگہ کم از کم اتنا بتا دینا نا مناسب نہ ہو گا کہ علامہ شامی نے طحطاوی اورصاحبِ نہر کی تبعیت میں وجوب کے درمیان اور سنیت واستحباب کے درمیان جو فرق ذکر کیا ہے کہ وجوب کا ثبوت ایسی دلیل سے ہوتا ہے جس کے ثبوت یا اثبات کسی ایک میں ظنیت ہو اور سنیت و استحباب کا ثبوت ایسی دلیل سے ہوتا ہے جس کے ثبوت اور اثبات دونوں میں ظنیت ہو ، یہ فرق نہ تو قابل تسلیم ہے نہ بجائے خود صحیح و درست ہے اور یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے جب کہ ثبوت و اثبات دونوں کو اگر ظن نے احاطہ کر رکھا ہے تو اس کی وجہ سے طلب ( بجا آوری کا مطالبہ)تو مظنونیت اور رجحان کے درجہ سے فروتر نہیں ہو جاتی ۔ اور وجوب کا مدار اسی پر ہے کسی اور پر نہیں ۔ دونوں فریقوں ( ایک واجب اور دوسرا سنیت و استحباب)میں فرق صرف ''طلب''سے ہوتا ہے ۔ طلب کبھی حتمی ہوتی ہے اور وجوب کا افادہ کرتی ہے اگر ثبوت یا اثبات دونوں ظنی ہوں اورکبھی ندبی اور ترغیبی ہوتی ہے تو سنیت یا استحباب کا افادہ کرتی ہے اگرچہ ثبوت اور اثبات دونوں میں قطعی و یقینی ہوں۔ اس لئے کہ قطعیت ترغیب و ارشاد ہی سے متعلق حاصل ہوئی ہے ۔ طلب جزمی سے متعلق نہیں کہ اس میں مکلف کے لئے کوئی اختیار باقی نہ رہ جائے۔ اور یہ بہت واضح ہے ۔ یہ بندہ ضعیف پر ظاہر ہوا۔


 (ف۱)تطفل علی النہر الفائق والطحطاوی و رد المحتار وکثیرین۔

(ف۲) تحقیق ان الدلیل الظنی والاثبات معا ھل یثبت الوجوب ام الاستنان ۔

ثــم رأیت المحقق حیث اطلق افاد فی الفتح ماجنحت الیہ واومی الی ماعولت علیہ حیث قال بعدما بحث وجوب التسمیۃ فی الوضوء فان قیل یرد علیہ ما قالوہ من ان الادلۃ السمعیۃ علٰی اربعۃ اقسام الرابع ماھو ظنی الثبوت والدلالۃ وحکمہ افادۃ السنیۃ والاستحباب وجعلوا منہ خبرالتسمیۃ (یعنی قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاوضوء لمن لم یذکراسم اللّٰہ علیہ ۱؂ فانہ مع اٰحادیثہ یحتمل نفی الفضیلۃ قال) وصرح بعضھم بان وجوب الفاتحۃ لیس من قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاصلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب بل بالمواظبۃ من غیر ترک لذلک فـالجواب ان ارادوا بظنی الدلالۃ مشترکھا سلمنا الاصل المذکور۔


پھر میں نے دیکھا کہ فتح القدیر میں محقق علی الاطلاق (علامہ ابن ہمام) نے اس بات کا افادہ فرمایا ہے جس کی طرف میرا رجحان ہوا اور اسی کی طرف اشارہ کیا ہے جس پر میں نے اعتماد کیا۔ انھوں نے وضو میں وجوبِ تسمیہ کی بحث کرنے کے بعد لکھا ہے: اگر کہا جائے کہ اس پر اس سے اعتراض ہوتا ہے جو علماء نے فرمایا ہے کہ دلائل سمعیہ کی چار قسمیں ہیں ، چوتھی قسم وہ دلیل جو ثبوت اور دلالت دونوں میں ظنی ہو اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے سنیت اور استحباب کا افادہ ہوتا ہے اور علماء نے حدیثِ تسمیہ کو بھی اسی قسم سے قرار دیا ہے ( یعنی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اس کا وضو نہیں جس نے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی۔ اس لئے کہ اس حدیث کا ثبوت ظنی ہے کیونکہ خبر واحد ہے اور وجوب پر اس کی دلالت بھی ظنی ہے اس لئے کہ اس مضمون میں اس معنٰی کا احتمال ہے کہ اس کا وضو کامل و افضل نہیں جس نے تسمیہ نہ پڑھی) اور بعض حضرات نے صراحت کی ہے کہ نماز میں قرأتِ فاتحہ کا وجوب سرکارِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد '' لا صلوٰۃ الابفاتحۃ الکتاب''  ( نماز نہیں مگر فاتحۃ الکتاب سے ) سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس پر سرکار نے مداومت فرمائی اور نماز میں اس کی قرأت کبھی ترک نہ کی ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قاعدہ ہمیں تسلیم ہے اگر ظنی الدلالۃ سے مراد مشترک الدلالۃ ہو ۔ (یعنی یہ کہ دلیل میں دو یا زیادہ معانی نکلتے ہیں اور کسی معنی کی تعیین نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک میں شک ہے۔ ۱۲ مترجم)


 (۱؂الجامع الترمذی باب ماجاء فی التسمیۃ عند الوضوء حدیث ۲۵   دارالفکر  بیروت   ۱ / ۱۰۱)


 (ای فان الوجوب لایثبت بالشک )اقول بل لو کان الشک فی احد طرفی الثبوت و الاثبات لکفی لتنزیلہ عن مرتبۃ اثبات الایجاب۔  (یعنی اس لئے کہ وجوب شک سے ثابت نہیں ہوتا۔)اقول بلکہ شک اگر ثبوت اور اثبات دونوں میں سے ایک ہی میں ہو تو بھی وہ دلیل کو اثبات وجوب کے درجہ سے نیچے لانے کے لئے کافی ہے۔


ثــم اقول: غیر ان ھذا(ف۱) الاحتمال لامساغ لہ فی کلامھم بعد ملاحظۃ المقابلات اعنی ان ظنی الثبوت قطعی الدلالۃ والعکس یثبتان الوجوب فلیس المراد بالظن الاالمصطلح۔(قال) ومنعنا کون الخبرین من ذلک بل نفی الکمال فیھما احتمال یقابلہ الظھور (ای فلیس مشکوکا بل موھوما قال) فان النفی (ف۲) متسلط علی الوضوء والصلاۃ فیھما فان قلنا النفی لایتلسط علی نفس الجنس بل ینصرف الی حکمہ وجب اعتبارہ فی الحکم الذی ھوالصّحۃ فانہ المجاز الاقرب الی الحقیقۃ وان قلنا یتسلط ھنا علی الجنس لانھا حقائق شرعیۃ فینتفی شرعا بعدم الاعتبار شرعا وان وجدت حسا فاظھر فی المراد فنفی الکمال علی کلا الوجھین احتمال خلاف الظاھر لایصار الیہ الابدلیل۔


ثم اقول: مگر فقہاء کے کلام میں ظنی الدلالۃ بمعنی مشترک الدلالۃ ہونے کا کوئی احتمال نہیں ہو سکتا جب کہ یہ ملاحظہ کر لیا جائے کہ وہ ظنی بمقابلہ قطعی بول رہے ہیں ۔دیکھئے وہ یوں کہتے ہیں : دلیل ثبوت میں ظنی ، دلالت میں قطعی ہو یا اس کے بر عکس ثبوت میں قطعی ، دلالت میں ظنی ہو تو اس سے وجوب ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ظن سے مراد وہی ظنِّ اصطلاحی ہے ۔ آگے فرماتے ہیں مگر ہمیں یہ تسلیم نہیں کہ تسمیہ اور فاتحہ سے متعلق دونوں حدیثیں ظنی بمعنی مشترک ہیں ( اور ان میں نفی  صحت اور نفیِ کمال دونوں معنی پر یکساں دلالت ہونے اور کسی کی تعیین نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک میں شک ہے ۔ ۱۲ م ) بلکہ ( نفی صحت کامعنی ظاہر و متبادر ہے ۔ ۱۲ م) نفیِ کمال کا احتمال ایسا ہے کہ ظاہر اس کی مخالفت کر رہا ہے ( مقصد یہ ہے کہ اب یہ احتمال مشکوک نہیں بلکہ اس سے بھی فر وتر محض موہوم ہو گا) اس لئے کہ حدیث ''لا وضوء'' اور حدیث ''لا صلوٰۃ '' میں نفی وضو اور نماز پر وارد ہے ۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ نفی خود جنس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے حکم کی ہوتی ہے تو نفی اس کے حکم یعنی صحّت میں ماننا ہو گا کیونکہ نفی صحت ہی وہ مجاز ہے جو حقیقت سے قریب تر ہے ( اب حاصل یہ ہو گا کہ بغیر تسمیہ وضو نہیں یعنی صحتِ وضو نہیں اور بغیر فاتحہ نماز نہیں یعنی صحتِ نماز نہیں ۱۲ م ) اور اگر ہم یہ کہیں کہ نفی یہاں خود جنس کی ہو رہی ہے اس لئے کہ وضو اور نماز یہ سب حقائق شرعیہ ہیں اور جب شرعاً ان کا اعتبار نہ ہو گا تو یہ شرعی طور پر بے ثبوت اور معدوم ہونگی اگرچہ حسّی طور پر موجود ہوں ( اب معنی یہ ہو گا کہ بے تسمیہ کے وضو کا اور بے فاتحہ کے نماز کا، شریعت میں وجود و ثبوت ہی نہیں ۱۲ م) تو اس تقدیر پر مراد اور زیادہ ظاہر واضح ہے۔اور دونوں تقدیروں پر نفی کمال کا احتمال خلافِ ظاہر ہے جس کی طرف بغیر کسی دلیل کے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔


 (ف۱)تطفل علی فتح القدیر ۔

(ف۲) نحوہ لاصلٰوۃ ظاھرہ نفی الصحۃ لا الکمال ۔


وان ارادو بہ مافیہ احتمال ولو مرجوحا منعنا صحۃ الاصل المذکور (ای اثباتہ ح السنیۃ والندب لاالوجوب بل یثبت الوجوب لحصول الترجیح وان تطرق الظن الی الطرفین جمیعا قال) واسندناہ بان الظن واجب الاتباع فی الادلۃ الشرعیۃ الاجتھادیۃ وھو متعلق بالاحتمال الراجح فیجب اعتبار متعلقہ وعلی ھذا مشی المصنّف رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی خبر الفاتحۃ حیث قال بعد ذکـرہ من طرف الشافعی رحمہ اللّٰہ تعالٰی ولنا قولہ تعالٰی فاقرء واما تیسر من القراٰن والزیادۃ علیہ بخبر الواحد لاتجوز لکنہ یوجب العمل فقلنا بوجوبھا وھذا ھو الصواب ۱؂اھ مزیدا منا مابین الاھلۃ۔


اور اگر ظنی الدلالۃ سے یہ مراد ہے کہ وہ دلیل جس میں کوئی بھی احتمال ہو ، خواہ وہ مرجوح ہی ہو تو ہمیں قاعدہ مذکور تسلیم نہیں ( یعنی یہ کہ ایسی دلیل سے صرف سنیت اور استحباب کا ثبوت ہو گا ، وجوب کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ اس سے وجوب ہی کا ثبوت ہو گا کیونکہ ترجیح حاصل ہے اگرچہ ثبوت اور دلالت دونوں میں ظن کا دخل ہو گیا ہے ۔ آگے فرماتے ہیں : ) اور اس کی سند میں ہم یہ کہیں گے کہ شریعت کے اجتہادی دلیلوں میں ظن کا اتباع واجب ہے ۔ وہ احتمالِ راجح سے متعلق ہوتا ہے توا س کے متعلق ( احتمال راجح ) کو ماننا واجب ہے اسی کو مصنف ( صاحبِ ہدایہ ) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حدیث  فاتحہ میں اختیار کیا ہے اس طرح کہ اس حدیث کے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے طرق سے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اور ہماری دلیل باری تعالٰی کا یہ ارشاد ہے کہ ''قرآن سے جو میسر آئے پڑھو '' اس پر خبرِ واحد سے اضافہ نہیں ہو سکتا لیکن خبرِ واحد سے عمل کا وجوب ثابت ہوتا ہے اس لئے ہم نماز میں قرأتِ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہوئے اور یہی صحیح ہے ۔ ا ھ ۔ فتح القدیر کی عبارت قوسین کے درمیان ہمارے (امام احمد رضا بریلوی ) اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی ۔ ( اور جہاں مترجم کا اضافہ ہے وہاں یہ علامت بنا دی گئی ہے : ۱۲ م)


 (۱؂فتح القدیر   کتاب الطہارۃ   دارالکتب العلمیہ بیروت     ۱ / ۲۱)


اقول: وتحرر(ف) مما تقرران الادلۃ السمعیۃ تسعۃ اقسام لان لہا طرفین الثبوت والاثبات وکل علی ثلثۃ وجوہ القطع والظن والشک۔


اقول :گزشتہ تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دلائل سمعیہ کی نو قسمیں ہیں ۔ اس لئے کہ ان میں دو جانب ہیں : (۱) ثبوت (۲) اثبات ۔ اور ہر ایک میں تین صورتیں ہیں : (۱) یقین (۲) ظن (۳) شک ۔ ( اس طرح کل نو صورتیں ہوئیں ۔ ثبوت قطعی ہو اور اثبات قطعی یا ظنی یا شکی ۔ ثبوت ظنی ہو اور اثبات قطعی یا ظنی یا شکی ۔ ثبوت شکّی ہو اور اثبات قطعی یا ظنی یا شکی ۔ ۱۲م )


 (ف)التحقیق الاجمالی للمصنف ان الادلۃ فی اثبات الفرض وما دونہ تسعۃ اقسام ۔


خمسۃ منھا وھی ما فی احد طرفیھا شک لایثبت فوق سنیۃ اوندب وان اشتملت علی طلب جازم والاربعۃ البواقی کذلک ان اشتملت علی طلب غیر جازم و الا فانکان کلا الطرفین قطعیا ثبت الافتراض والا فالوجوب۔


ان میں پانچ صورتیں ہیں جن سے سنّیت یا ندب سے زیادہ ثابت نہیں ہوتا ۔ یہ وہ ہیں جن کے ثبوت یا اثبات کسی ایک میں شک ہو اگرچہ وہ طلب جزمی پر مشتمل ہوں۔ اور باقی چار صورتوں کا بھی یہی حال ہے اگر وہ طلب غیر جزمی پر مشتمل ہوں ۔ اور اگر ایسا نہ ہو ( بلکہ طلب جزمی پر مشتمل ہوں) تو اگر ثبوت و اثبات دونوں قطعی ہیں تو اس سے فرضیّت ثابت ہو گی ورنہ وجوب ثابت ہو گا۔

ثــم الـظـاھـر( ف) ان السنیۃ لاتثبت بالشک بل ھو المتعین والالزم التقول علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بمجرد شک واحتمال ولذا افاد المحقق فی الفتح وتلمیذہ فی الحلیۃ ان الاستنان لایثبت بالحدیث الضعیف حیث حقق فی الفتح ان غسل الجمعۃ مستحب لاسنۃ ثم قال یقاس علیہ باقی الاغتسال (ای غسل العیدین والعرفۃ والاحرام) وانما یتعدی الی الفرع حکم الاصل وھو الاستحباب اما ماروی ابن ماجۃ کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یغتسل یوم العیدین و عن الفاکہ بن سعد الصحابی انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان یغتسل یوم عرفۃ ویوم النحر ویوم الفطر فضعیفان قالہ النووی وغیرہ ۱؂اھ۔


پھر ظاہر ۔ بلکہ متعین ۔ یہ ہے کہ سنیت شک سے ثابت نہیں ہوتی ، ورنہ محض شک و احتمال کی وجہ سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف زبردستی کسی قول کا انتساب لازم آئے گا۔ اسی لئے حضرت محقق نے فتح القدیر میں اور ان کے تلمیذ سے حلیہ میں افادہ کیا ہے کہ سنیت حدیث ضعیف سے ثابت نہیں ہوتی ۔ اس طرح کہ فتح القدیر میں یہ تحقیق فرمائی ہے کہ غسلِ جمعہ مستحب ہے ، سُنت نہیں ۔ پھر آگے لکھا ہے : اسی پر باقی غسل ( یعنی عیدین ، عرفہ اور احرام کے غسل کا قیاس ہو گا) اور فرع کی جانب اصل ہی کا حکم آئے گا اور وہ استحباب ہے ۔ رہی وہ حدیث جو ابنِ ماجہ نے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عید کے دن غسل فرماتے تھے ،اور فاکِہ بن سعد صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روزِ عرفہ ، روزِ عید قربان اور روزِ عید الفطر غسل فرماتے تھے۔ تو یہ حدیثیں ضعیف ہیں ، جیسا کہ امام نووی وغیرہ نے فرمایا ، ا ھ۔


 ( ف)بالحدیث الضعی ف یثبت الاستحباب دون الاستنان ۔


 (۱؂فتح القدیر   کتاب الطہارۃ         فصل فی الغسل  دارالکتب العلمیہ بیروت     ۱ / ۷۰)


فافادان ضعفھما یقعدھما عن افادۃ الاستنان وکذالک قال فی الحلیۃ بعد ماذکر استنان غسل الجمعۃ مانصہ واستنان غسل العیدین ان قلنا بان تعدد الطرق الواردۃ فیہ تبلغ درجۃ الحسن والا فالندب ۲؂اھ


حضرت محقق کے اس کلام سے مستفاد ہوا کہ دونوں حدیثیں چونکہ ضعیف ہیں اس لئے افادہ سنیت سے قاصر ہیں ۔ اسی طرح حلیہ میں غسلِ جمعہ کا مسنون ہونا ذکر فرمانے کے بعد لکھتے ہیں '' اور غسل عیدین کا سنت ہونا ثابت ہو گا اگر ہم یہ کہیں کہ اس بارے میں حدیث کے جو متعدد طرق وارد ہیں وہ اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں ورنہ وہ مندوب ہو گا، ۱ ھ ۔


 (۲؂حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


وقد الممنا بطرف من تحقیق ھذا فی رسالتنا (ف)الھاد الکاف فی حکم الضعاف وایضاً حققنا فیھا بمالا مزید علیہ ان الاستحباب یثبت بالحدیث الضعیف۔ ہم نے اس کی کچھ تحقیق اپنے رسالہ '' الھاد الکاف فی حکم الضعاف'' میں رقم کی ہے ۔ اور اس میں حدیث ضعیف سے استحباب ثابت ہونے کی ایسی تحقیق کی ہے جس پر اضافے کی گنجائش نہیں۔


 (ف) رسالہ ہذا فتاوی رضویہ جلد پنجم مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور میں موجود ہے ، اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے اپنے رسالہ "منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین "میں افادہ شانزدہم سے افادہ بست وسوم ( آٹھ افادات ) کو "الھاد الکاف فی حکم الضعاف "سے موسوم کیا ہے ۔


ثــم اقــول: الشک فی الاثبات مثل الشک فی الثبوت فاذن الاوضح (ف۱) الاجمع الاشمل الاکمل ان نقول النصوص الطلبیۃ علی ثلثۃ اقسام:  (۱) مافیہ طلب ترغیب مجرداً  (۲) اومع تاکید   (۳) اوطلب جازم۔


ثم اقول:   اثبات میں شک بھی ویسے ہی ہے جیسے ثبوت میں شک ۔ تو اب زیادہ واضح ، جامع ، کامل اور ہمہ گیر تقسیم یُوں ہو گی کہ ہم کہیں : وہ نصوص جو کسی عمل کی طلب پر مشتمل ہیں ان کی تین قسمیں ہیں : 

(۱) وہ جن میں بلا تاکید صرف ترغیباً مطالبہ ہو۔   (۲) وہ جن میں ترغیب کے ساتھ تاکید بھی ہو ۔  (۳) وہ جن میں طلب جزمی ہو۔


 (ف۱)التحقیق التفصیلی للمصنف ان الادلۃ فی اثبات الفرض وما دونہ علی سبعۃ وعشرین قسما۔


وکل منھا علیٰ تسعۃ اقسام کما قدمت فھی سبعۃ وعشرون قسما لا یثبت الافتراض منھا الاواحد وھو یقینی الثبوت والاثبات مع الطلب الجازم وثلثۃ تفید الوجوب وھو ظنی الثبوت اوالاثبات اوکلیھما مع الطلب الجازم فی الکل واربعۃ تفیدالاستنان وھی نظائر ماتفید الفرضیۃ والوجوب فی الثبوت والاثبات بیدان الطلب فیھا مؤکد غیر جازم والبواقی وھی تسعۃ عشر تفید الندب وھی التی فی احد طرفیھا شک ولوالطلب جازما اوکان الطلب فیھا طلب ترغیب مجرد ولو قطعی الطرفین وقس علی ھذا فی جانب الکف الحرام والمکروہ تحریما وتنزیھا وخلاف الاولی ولا تذھلن عن مقام الاحتیاط واللّٰہ الھادی الی سواء الصراط ھذا ھوالتحقیق الساطع اللامع النور فاحفظہ فلعلک لاتجدہ فی غیر ھذہ السطور۔


اور ان میں سے ہر ایک کی نو قسمیں ہیں ، ایسے ہی جیسے پہلے بیان ہوئیں ۔ تو یہ کل ستائیس ۲۷ قسمیں ہوئیں ( ہر قسم کی تفصیل یوں کر لیں مثلا (۱) طلب صرف ترغیبی ہے اور ثبوت قطعی ہو ، اثبات قطعی یا ظنی یا شکّی ۔ یا ثبوت ظنی ہے ، اثبات قطعی یا ظنی یا شکی ۔ یا ثبوت شکی ہے ، اثبات قطعی یا ظنی یا شکی ۔ ۱۲ م ) ان میں صرف ایک قسم وہ ہے جس سے فرضیت ثابت ہوتی ہے ۔ یہ وہ ہے جس میں طلب جزمی ہو اور ثبوت و اثبات دونوں قطعی ہوں۔ اور تین قسمیں وہ ہیں جن سے وجوب کا افادہ ہوتا ہے ۔ یہ وہ ہیں جن میں طلب جزمی ہو اور ثبوت یا اثبات یا دونوں ظنی ہوں۔ اور چار وہ ہیں جو سنیت کا افادہ کرتی ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن میں طلب غیر جزمی مؤکد ہے اور ثبوت و اثبات کی صورتیں ویسے ہی جیسے فرضیت اور وجوب کا افادہ کرنے والی قسموں میں بیان ہوئیں یعنی دونوں قطعی یا دونوں ظنی یا ایک ظنی ۔ اور باقی انیس ۱۹ قسمیں مندوب و مستحب ہونے کا افادہ کرتی ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن کے ثبوت یا اثبات کسی ایک میں شک ہو اگرچہ طلب جزمی ہو ( یہ دس ۱۰ صورتیں ہوئیں طلب جزمی ہے اور ثبوت شکی ہے ، اثبات قطعی یا ظنی یا شکی ۔ یا ثبوت ظنی ہے اثبات شکی ۔ یا ثبوت قطعی ہے اثبات شکی ۔ طلب غیر جزمی مؤکد ہے اور وہی پانچ صورتیں ۱۲ م ) یا ان میں طلب صرف ترغیبی ہو اگرچہ ثبوت اور اثبات دونوں قطعی ہوں ( یہ نو صورتیں ہوئیں وہی جو چند سطور پہلے توضیح میں لکھی گئیں ، کُل ۱۹ ہو گئیں ۔ ۱۲ م) اسی پر جانب کف میں حرام ،مکروہ تحریمی اور خلاف اولی اور قیاس کرلیں اور مقام احتیاط سے غفلت ہرگز نہ ہو ۔۔۔۔۔اور خدا ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ تابندہ ودرخشندہ تحقیق ہے جو ان سطور کے سوا شائد کہیں نہ ملے ۔۔۔۔۔تو اسے حفظ رکھئے (ت)


یہاں سے ظاہر ہوا(ف) کہ فرض اعتقادی سب سے اعظم و اعلیٰ اور دونوں قسم واجب اعتقادی کا مباین ہے اور فرض عملی واجب اعتقادی سے خاص مطلقا کہ ہر فرض عملی واجب اعتقادی ہے ولاعکس اور واجب عملی ہر دوقسم فرض کا مباین اور واجب اعتقادی سے خاص مطلقًا ہےکہ ہر  واجب عملی واجب اعتقادی ہے ولا عکس ۔


 (ف)فرض واجب اعتقادی وعملی چاروں کی نسبتیں ۔


ثم اقول : ( پھر میں کہتا ہوں ۔ت) یہ اس تقدیر پر ہے کہ قسمین عملی بشرط لاہوں کماھو المتعارف عند علمائنا  ( جیسا کہ یہی ہمارے علماء کے ہاں متعارف ہے ۔ت) ولابشرط لیں تو فرض عملی فرض اعتقادی سے عام مطلقا اور واجب اعتقادی سے عام من وجہ ہوگا کہ فرض اعتقادی فرض عملی ہے نہ واجب اعتقادی ، اور واجب عملی بالمعنی الاول واجب اعتقادی ہے نہ فرض عملی ، اور فرض عملی بالمعنی الاول میں دونوں مجتمع ہیں ۔ اور واجب عملی بالمعنی الثانی واجب اعتقادی کا مساوی کہ اعتقاد وجوب موجب وجوب عمل اور ایجاب عمل بے اعتقاد وجوب نامحتمل کلام آتی میں معنی اولی ہی مراد ہونگے کہ وہی شائع بین العلماء ہیں ۔ وباللہ التوفیق ۔



وضو میں فــــ۱ فرض اعتقادی یعنی ارکان اعتقادیہ


فــان فــــ۲ الفرض یطلق علی الرکن وعلی الشرط کما فی الدر ۱؎ وعلی ما لیس برکن ولاشرط کترتیب ما شرع غیر مکرر فی رکعۃ کترتیب القعدۃ علی السجود والسجود علی الرکوع والرکوع علی القراء ۃ والقراء ۃ علی القیام فانھا فروض لیست بارکان ولا شروط کمافی ۲؎ الشامی عن الغنیۃ۔اقــول: وکانہ فــــ ۳ نظر الی انھا برزخ بین الدخول والخروج والاففیہ کلام لمن تأمل فلیتأمل۔


 ( اس لئے کہ فرض کا اطلاق رکن پر بھی ہوتا ہے اور شرط پر بھی، جیسا کہ در مختار میں ہے ۔ اور اس پر بھی جونہ رکن ہے نہ شرط ہے ، جیسے ان امور میں ترتیب جو ایک رکعت میں بلا تکرار مشروع ہوئے ہیں جیسے قعدہ کی ترتیب سجدہ پر ، سجدہ کی رکوع پر ، رکوع کی قرأت پر ، قرأت کی قیام پر ۔ کہ یہ سب ترتیبیں فرض ہیں ، نہ رکن ہیں نہ شرط۔ جیسا کہ شامی میں غنیہ سے نقل ہے۔ اقول شاید انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ ترتیبیں تو رکن کی طرح داخلِ نماز ہیں نہ شرط کی طرح خارج نماز ہیں بلکہ دونوں کے درمیان  برزخ ہیں ۔ ورنہ اس میں صاحبِ تأمل کے لئے کلام کی گنجائش ہے ۔ تو اس میں تأمل کرنا چاہیے۔ (ت)


فــــــ :۱ وضو میں چار فرض اعتقادی ہیں ۔ فــــــ :۲ الفرض یطلق علی الرکن والشرط وما سوا ھما ۔ فــــــ :۳ تطفل علی الغنیۃ و ردالمحتار


 (۱؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱ / ۱۸

ردالمحتار کتاب الطہارۃ قد یطلق الفرض ما لیس برکن ولا شرط داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۴)

(۲ ؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ قد یطلق الفرض ما لیس برکن ولا شرط داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۴)


چارہیں اول منہ دھونا یعنی علاوہ مستثنیات کے طول میں شروع سطح پیشانی سے نیچے کے دانت جمنے کی جگہ تک اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک ۔ اس میں دس استثناء ہیں۔ 

(۱) آنکھوں کے ڈھیلے (۲) پپوٹوں کی اندرونی سطح کہ ان دونوں مواضح کا دھوناباجماع معتد بہ اصلا فرض کیا مستحب بھی نہیں ۔


وبالغ الامامان عبداللّٰہ بن عمروعبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم فکف بصرھما۔ دو اماموں حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھم نے ان کے دھونے میں مبالغہ سے کام لیا تو ان کی بینائی جاتی رہی ۔ (ت)

(۳) آنکھیں خوب فــــ ۱ زور سے بند کرنے میں جو حصہ بند ہوجاتا ہے کہ نرم بند کرے تو ظاہر رہتا اتنا حصہ دھلنا مختلف ہی ہے ، ظاہر الروایہ یہ ہے کہ اس کا دھلنا بھی واجب نہیں یہاں تک خوب آنکھیں بند کرکے وضو کیا وضو ہوجائے گا اور بعض نے کہا  نہ ہو ۔


فــــــ :۱:مسئلہ: وضو میں آنکھیں زور سے نہ بند کرے مگر وضو ہوجائے گا ۔


ردالمحتار میں ہے : لوغمض عینیہ شدیدا لایجوز ، بحر، لکن نقل العلامۃ المقدسی فی شرحہ علی نظم الکنز ان ظاھر الروایۃ الجواز واقرہ فی الشر نبلالیۃ تأمل ۱؎ اھ کلام الشامی۔ اگر آنکھیں زور سے بند کر کے دھوئیں تو وضو نہ ہو گا ۔ بحر ۔ لیکن علامہ مقدسی سے نظم کنز پر اپنی شرح میں نقل کیا ہے کہ ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ وضو ہو جائیگا اور شرنبلالیہ میں اسے برقرار رکھا ہے ۔ تأمل کرو۔ ۱ ھ شامی کی عبارت ختم ہوئی ۔


 (۱؎ کتاب الطہار ۃ مطلب فی معنی الاشتقاق و نسمیہ الخ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۶)


اقول:فـــ ۲ رحم اللّٰہ العلامۃ السید انما عبارۃ البحر ھکذا ذکر فی المجتبٰی لاتغسل العین بالماء ولا باس بغسل الوجہ مغمضا عینیہ وقال الفقیہ احمد بن ابراھیم ان غمض عینیہ شدیدا لایجوز ۲؎ اھ فمفادہ ایضا لیس الا ان المذھب الجواز وعدمہ قول احمد بن ابرھیم فلیتنبہ۔


اقول: علامہ شامی پر خدا کی رحمت ہو ، بحر کی عبارت اس طرح ہے : مجتبٰی میں ذکر کیا ہے کہ آنکھ پانی سے نہ دھوئی جائے ، اور آنکھیں بند کر کے چہرہ دھونے میں حرج نہیں ۔ اور فقیہ احمد بن ابراھیم نے فرمایا کہ ــ اگر آنکھیں زور سے بند کر لیں تو وضو نہ ہو گا ۱ ھ ۔ توعبارتِ بحر کا مفاد بھی یہی ہے کہ اس صورت میں وضو ہو جانا ہی مذہب ہے اور نہ ہونا احمد بن ابراہیم کا قول ہے ۔ تو اس پر متنبہ رہنا چاہئے (ت)


فــــــ :۲ معروضۃ علی رد المحتار


 (۲؎ البحرالرائق کتاب الطہار ۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۱۱)


 (۴) دونوں لب کہ بعض نے کہا وہ تابع دہن ہیں اور وضو میں دہن کا دھونا صرف سنت ہے


بحرالرائق میں ہے : اما الشفۃ فقیل تبع للفم ۱؎ مگر ہونٹ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ منہ کے تابع ہے۔ (ت)


 (۱؎ البحرالرائق کتاب الطہار ۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۱۱)


 (۵،۶،۷)ابروؤں اور مونچھوں اور اور بچی کے نیچے کی کھال کہ بعض نے کہا کہ اگرچہ بال چھدرے ہوں کھال نظر آتی ہو اس کا دھونا ضرور نہیں ۔


درمختار میں ہے : فی البرھان یجب غسل بشرۃ لم یسترھا الشعر کحاجب وشارب وعنفقۃ فی المختار۔ ۲؎ برہان میں ہے کہ قولِ مختار پر اس جلد کا دھونا ضروری ہے جو بالوں مثلاً ابرو ، مونچھ ، بچّی، سے چھپی ہوئی نہ ہو ۔ (ت)


 (۲؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۱۹)


 (۸) گھنی داڑھی کے نیچے کی کھال کہ اس کا دھونا اصلا ضرور نہیں : (۹) داڑھی مطلقا کہ اس کے باب میں نو قول ہیں : فقیل یفترض مسحہ اوغسلہ کل منھما کلا اوثُلُثا او ربعا اولما یلاقی البشرۃ فقط اولا شیئ کما فی ردالمحتار۔ ۳؎ کہا گیا کہ پوری داڑھی ، یا تہائی ، یا چوتھائی یا صرف جلد سے متصل حصہ کا مسح یا دھونا فرض ہے اور نواں قول یہ کہ کسی حصہ کا مسح دھونا کچھ بھی فرض نہیں جیسا کہ ردالمحتار میں ہے۔ (ت)


 (۳؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۸)


کنپٹیاں کہ جب داڑھی کے بال ہوں تو امام ابو یوسف سے ایک روایت آئی کہ ان کا دھونا ضرور نہیں ۔


درمختار میں ہے : یجب غسل مابین العذار والاُذن بہ یفتی۔ ۱؎ رخسار اور کان کے درمیان والے حصّے کو دھونا ضروری ہے ، اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت)


 (۱؎ الدر المحتار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۱۹)


قال فی البدائع وعن ابی یوسف عدمہ وظاھرہ ان مذھبہ بخلافہ بحر والخلاف فی الملتحی اما المرأ ۃ والامرد والکوسج فیفترض الغسل اتفاقا۔ ۲؎ بدائع میں کہا کہ امام ابو یوسف سے ایک روایت یہ ہے کہ اس حصّہ کا دھونا ضروری نہیں ۔ اس عبارتِ بدائع کا ظاہر یہ ہے کہ امام ابو یوسف کا مذہب اس کے بر خلاف ہے ( بحر)اور یہ اختلاف داڑھی والے سے متعلق ہے ۔ عورت ، کم عمر بے ریش ، اور وہ سِن رسیدہ جسے داڑھی آتی ہی نہیں ان سب پر اس حصہ کو دھونا بالاتفاق فرض ہے۔ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مطلب فی معنی الاشتقاق الخ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۶)

تنبیہ: اس روایت پر خلاف امام ابو یوسف اگرچہ اس صورت سے خاص ہے کہ وہاں داڑھی کے بال ہوں مگر یہ مراد نہیں کہ خاص اُس حصہ بدن پر بال ہوں۔ حتی یدخل فی بشرۃ ماتحت اللحیۃ کماظن۔  (حتی کہ یہ اس جلد کے شمارمیں آجائے جو داڑھی کے نیچے ہوتی ہے جیسا کہ بعض کو گمان ہوا ت )بلکہ داڑھی کا بالائی حصہ جو کانوں کے محاذی ہوتا ہے جسے عربی میں عذار کہتے ہیں، اس حصّے اور کان کے بیچ میں جلد کی ایک صاف سطح ہوتی ہے جس پر بال نہیں نکلتے۔ یہاں اس سطح خالی میں خلاف ہے کہ عِذار والے کیلئے اس روایت پر اس کا دھونا ضروری نہیں، اور ظاہر الروایۃ ومذہب معتمد میں مطلقا فرض ہے۔


امامِ اجل ابو البرکات عبداللہ نسفی، کافی شرح وافی میں فرماتے ہیں: البیاض الذی بین العذاروشحمۃ الاذن من الوجہ حتی یجب غسلہ عندھما خلافالا بی یوسف لان البشرۃ التی ینبت علیھا الشعر لایجب ایصال الماء الیھا فما ھوا بعد اولی وقالا انما لم یجب ثم لانہ استتر بالشعر ولا شعرھنا فبقی علی ماکان اھ۔ ۱؎ جو سپیدی رخسار اور کان کی لو کے مابین ہوتی ہے وہ چہرے میں شامل ہے ، اسی لئے طرفین کے نزدیک اسے دھونا ضروری ہے ، اس میں امام ابو یوسف کا اختلاف ہے ، ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ جلد جس پر بال اگے ہوئے ہیں اس تک پانی پہنچا نا ضروری نہیں تو جو حصہ اس سے دور ہے اس تک پہنچا بدرجہ اولی ضروری نہ ہوگا۔ اورطرفین کہتے ہیں کہ وہاں اس لئے ضروری نہ ہو اکہ وہ جلد بالوں سے چھپی ہوئی ہے اور یہاں بال نہیں ہیں تو اس کا حکم وہی رہا جو پہلے تھا کہ دھونا ضروری ہے اھ ۔(ت)


  (۱؎ الکافی شرح الوافی )


اور امام دارالہجرہ سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہوا کہ ان کا دھونا مطلقا ضرور نہیں میزان الشریعہ الکبری للعارف الربانی سیدی عبدالوھاب الشعر انی میں ہے : قـول الائمۃ الثلثۃ ان البیاض الذی بین الشعرا لاذن واللحیۃ من الوجہ مع قول مالک وابی یوسف انہ لیس من الوجہ فلایجب غسلہ مع الوجہ فی الوضوء ۲؎۔ تینوں ائمہ کا قول یہ ہے کہ جو سپیدی کان او ر داڑھی کے درمیان ہے وہ چہرے میں شامل ہے ، اور امام مالک و امام ابویوسف کا قول یہ ہے کہ وہ چہرے میں نہیں ہے تو وضو میں اسے دھونا واجب نہیں۔(ت)


 ( ۲؎ میزان الشریعہ الکبرٰی   کتاب الطہارۃ باب الوضوء  دار الکتب العلمیہ بیروت    مصر    ۱/۱۵۰ )


اسی طرح رحمۃ الامہ میں اختلاف الامہ میں ہے : اقول: اما ابو فـــــــــ یوسف فقد علمت ان قولہ کقول الجمھور والروایۃنادرۃ عنہ ایضا مفصلۃ لامرسلۃ واھل البیت ادری بما فی البیت واما مالک فالذی رأیتہ من کتب مذھبہ فی شرح المقدمۃ العشما ویۃ لابن ترکی ان الوجہ حدہ طولا من منابت شعرالراس المعتاد الی اٰخرالذقن وحدہ عرضا من الاذن الی الاذن ۱؎ اھ وفی حاشیۃ للسفطی مابین العذارین والاذن وھو البیاض الذی تحت الوتد (ای وتد الاذن) اوالمسامت لہ یجب غسلہ لانہ من الوجہ ۲؎ اھ فاللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اقول:امام ابو یوسف سے متعلق تو واضح ہوچکا کہ ان کا قول ۔ قول جمہور کے مطابق ہے ۔ اور ان سے جو روایت نادرہ آئی ہے اس میں بھی تفصیل ہے ،اطلاق نہیں اور اہل خانہ کو اشیائے خانہ کا زیادہ علم ہوتا ہے ۔اب رہا امام مالک کا قول تو ان کے مذہب کی کتابوں میں سے ابن ترکی کی شرح مقدمہ عشماویہ میں جو حکم میں نے دیکھا وہ یہ ہے کہ طول میں چہرے کی حد عا دۃ سر کے بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے آخری حصہ تک ہے اور عرض میں اس کی حد ایک کان سے دوسرے کان تک ہے اھ ۔ اس شرح کے حاشیہ سفطی میں ہے کہ جو حصہ دونوں رخساروں او رکان کے درمیان ہے یعنی وہ سپیدی جو جان کی ابھری ہوئی لو کے نیچے یا اس کی سمت مقابل میں ہوتی ہے ،اسے دھونا واجب ہے اس لئے کہ وہ چہرے میں شامل ہے اھ ۔ تو خدائے بر تر ہی کو خوب علم ہے ۔(ت)


فـــــــ : تطفل علی الامام الشعرانی


 (۱؎ شرح المقدمۃ العشماویۃ لابن ترکی )

(۲؎ حاشیہ شرح المقدمۃ العشماویہ للسفطی )


تنبیہ : یہاں ایک ا ستثنائے عام اور بھی ہے کہ فر ض دوم کے استثنا ئے ثانی میں مذکور ہوگا  دو م  دونوں ہاتھ ناخنوں سے کہنیوں تک دھونا ، اس میں تین استثناء ہیں 

(۱) خود کہنیاں دھونا ، امام زفر رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک ضرور نہیں۔

(۲) جس فـــــــ چیز کی آدمی کو عموما یا خصوصا ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کے ملاحظہ واحتیاط میں حرج ہے اس کا ناخنوں کے اندر یا اوپر یا اور کہیں لگا رہ جانا اگر چہ جرم دار ہو اگر چہ پانی اس کے نیچے نہ پہنچ سکے ، جیسے پکانے گوندھنے والوں کے لئے آٹا، رنگریز کے لئے رنگ کا جرم ، عورات کے لئے مہندی کا جرم ، کاتب کے لئے روشنائی ، مزدور کے لئے گارا مٹی ، عام لوگو ں کے لئے کوئے یا پلک میں سرمہ کا جرم ، بد ن کا میل مٹی غبار ، مکھی مچھر کی بیٹ وغیرہا کہ ان کا رہ جانا فر ض اعتقادی کی ادا کو مانع نہیں ۔


فـــ مسئلہ : کن چیزوں کا بدن پر لگارہ جانا وضو و غسل کا مانع نہیں


در مختار میں ہے: لایمنع الطہارۃ خر ء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ وحناء فـــــ ۱ ولو جرمہ بہ یفتی ودرن ودھن ودسومۃ وتراب وطین ولو فی ظفر مطلقا ای قرویا اومدنیا فی الاصح بخلاف نحوعجین ولایمنع ماعلی ظفر صباغ۔ ۱؎ طہارت سے مانع نہیں مکھی اور پسو کی بیٹ جس کے نیچے پانی نہ پہنچا ، اور مہندی اگر چہ جرم دار ہو ، اسی پر فتوی ہے ، اورمیل، تیل ، چکنائی ، مٹی ، گارا اگر چہ ناخن میں ہو ۔ قول اصح پر مطلقا یعنی دیہاتی ہو یا شہری ، بخلاف گندھے ہوئے آٹے کے ، اور رنگر یز کے ناخن پر جو رنگ ہوتا ہے وہ مانع نہیں۔


 (۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۶۹)


فـــــــ : مسئلہ : عورت کے ہاتھ پاؤں پر مہندی کا جرم لگا رہ گیا اور خبر نہ ہوئی تو وضو و غسل ہوجائے گا ہاں جب اطلاع ہو چھڑا کر وہاں پانی بہائے ۔


ردالمحتار میں ہے: لکن فی النھر لوفی اظفارہ عجین فالفتوٰی انہ مغتفر اھ ۲؎۔ لیکن النہر الفائق میں ہے کہ اگر ناخنوں کے اندر خمیر رہ گیا ہو تو فتوی اس پر ہے کہ وہ معاف ہے اھ۔


 (۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۱۰۴)


ورأیتنی کتبت فیما علقت علی ردالمحتار علی قولہ وحناء ولوجرمہ بہ یفتی اقول وبہ یظھر بحکم بعض اجزاء فـــــ۲ کحل تخرج فی النوم وتلتصق ببعض الجفون اوتستقر فی بعض الماٰقی و ربما تمر الید علیھما فی الوضوء والغسل ولا یعلم بھا اصلا فلا یکفی فیہ التعاھد المعتاد ایضا الا بتیقظ خاص وتفحص مخصوص فذلک کجرم الحناء لابالقیاس بل بدلالۃ النص فان الحاجۃ الی الکحل اشدو اکثر۔ولیعلم ان ظھورہ فی مؤق بعدما یمرعلی الطہارۃ شیئ من زمان کما یراہ بعد ما صلی مایلتفت الیہ اصلا فانہ ربما ینتقل بعد التطھر من داخل العین الی الماقی والحادث یضاف الی قرب الاوقات اما الملتزق بالجفن فلعل فیہ الوجہ الاول لاغیرھذا کلہ ماظھر لی ولیحرر۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں نے دیکھا کہ رد المحتار پر جو حواشی میں نے لکھے ہیں ان میں درمختار کی عبارت اور مہندی اگر چہ جرم دار ہو ، اسی پر فتوی ہے پر میں نے یہ لکھا ہے ، اقول اس سے سرمہ کے ان ریزوں کا حکم ظاہر ہوجاتا ہے جو سوتے وقت نکل کر پلک میں چپک جاتے ہیں یا آنکھ کے کوئے میں بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی وضووغسل میں ان پر ہاتھ بھی گزرتا ہے اور ان کا پتہ نہیں چلتا ، کیونکہ اس کے لئے الگ سے خاص دھیان دئیے اور مخصوص جستجو کئے بغیر معمولی توجہ سے کام نہیں بن سکتا ۔ تو وہ مہندی کے جرم کا حکم رکھتے ہیں ، قیاس سے نہیں بلکہ دلالۃ النص سے اس لئے کہ سرمہ کی حاجت زیادہ شدت وکثرت سے ہوتی ہے او ریہ بھی واضح رہے کہ طہارت پر کچھ دیر گزرجانے کے بعد اگر سرمہ آنکھ کے کوئے میں نمودار ہوا جیسے اسے نماز پڑھنے کے بعد محسوس ہو تو وہ ذرا بھی قابل التفات نہیں اس لئے کہ یہ احتمال ہے کہ وہ طہارت حاصل کرنے کے بعد آنکھ کے اندر سے کوئے میں آگیا ہو ایسا ہوتا رہتا ہے ، اور نو پیدا چیز قریب تر وقت کی جانب منسوب ہوتی ہے لیکن جو پلک سے چپکا ہوا ہو تو امید یہ ہے کہ اس میں مناسب وہی پہلی صورت ہے دو سری نہیں   ( یعنی وہ وضو کے پہلے سے لگا ہوا ہے او رگرفت میں نہ آیا ) یہ سب وہ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوا، اس کی تنقیح کرلی جائے ، واللہ تعالی اعلم


فــــــ ۲: مسئلہ : سرمہ آنکھ کے کوئے یا پلک میں رہ گیااور اطلاع نہ ہوئی تو ظاہرا حرج نہیں اور بعد نماز کوئے میں محسوس ہوا تو اصلاباک نہیں۔


و رأیتنی کتبت فیہ علی قولہ لایمنع ما علی ظفر صباغ اقول ویعلم فـــــ ۱ منہ حکم المداد علی ظفرا لکاتب فانہ یضع القلم علی ظفر ابھامہ الیسری ویغمزہ لینفتح فیصیب الظفر جرم من المداد و ربما ینسی فیتو ضأ ویمر الماءفوق المداد ولا یزیلہ فمفاد ماھنا الجواز و رأیت التنصیص بہ فی حاشیۃ العشماویۃ من کتب السادۃ المالکیۃ حیث قال تجب ازالۃ مایمنع من وصول الماء کعجین وشمع وکذلک الحبر المتجسد لغیر کاتبہ ونحوہ کبائعہ وصانعہ واما الکاتب ونحوہ ان راٰہ بعد ان صلی فلا یضراذا مریدہ علی المداد لعسر الاحتراز منہ لاان راٰہ قبل الصلاۃ وامکنہ ازالتہ اھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وھو کلہ واضح موافق لقواعدنا الا قولہ اذا مریدہ علی المداد فانما شرطہ لان الدلک فرض عندھم واما علی مذھبنا فیقال اذامرالماء علی المداد والذی ذکرہ ھوعین ماکنت بحثتہ فی فتاوی ان الذی لاحرج فی ازالتہ بل فی مقاصدہ اذا اطلع علیہ یجب ازالتہ ولایجوز ترکہ کالحناء والکحل والونیم ونحوھا وللّٰہ الحمد۱؎۔


اور میں نے دیکھا کہ اس میں درمختار کی عبارت '' رنگریز کے ناخن پر جو رنگ ہوتا ہے وہ مانع نہیں'' کے تحت میں نے یہ لکھا ہے اقول اس سے اس روشنائی کا حکم معلوم ہوجاتا ہے جوکاتب کے ناخن پرلگی ہوتی ہے،اس لئے کہ وہ اپنے بائیں انگوٹھے کے ناخن پر قلم رکھ کر دباتا ہے تا کہ اس کا شگاف کشادہ ہوجائے اس طر ح سے روشنائی کا جرم ناخن پر لگ جاتا ہے اوربسا اوقات اسے بھول جاتا ہے اور وضوکرتا ہے تو رو شنائی کے اوپر سے پانی گزاردیتا ہے اسے چھڑاتا نہیں ہے تو یہاں جو حکم ہے اس کا مفادیہ ہے کہ وضو ہوجائے ۔ اور اس کی تصریح میں نے حضرات مالکیہ کی کتابوں میں سے حاشیہ عشماویہ میں دیکھی ، اس میں لکھا ہے اس چیز کو دور کرنا ضروری ہے جو پانی کے پہنچنے سے مانع ہو جیسے خمیر ، موم،اور ایسے ہی جرم دارروشنائی اس کے لئے جو کاتب اور اس کے مثل، جیسے روشنائی بیچنے یا بنانے والا نہ ہو ، رہاوہ جو کاتب ہے یااس کے مثل ہے تو اس نے اگر نماز پڑھ لینے کے بعد دیکھا تو حرج نہیں بشرطیکہ روشنائی پر اس کا ہاتھ پھر گیا ہو اس لئے کہ اس سے بچنا مشکل ہے ، اور اس صورت میں یہ حکم نہیں جب کہ اس نے نماز سے پہلے دیکھ لیا ہو اور اسے چھڑاسکتا ہواھ ۔ یہ سب واضح اور ہمارے قواعد کے مطابق ہے سوا اس بات کے کہ بشرطیکہ روشنائی پر اس کا ہاتھ پھر گیا ہو ، یہ شرط اس لئے لگائی کہ مالکیہ کے نزدیک دلک (ہاتھ پھیرنا) فرض ہے ، او رہمارے مذہب کی رو سے یوں کہا جائے گا کہ بشرطیکہ پانی روشنائی پر گزر گیا ہو ، او رجوانہوں نے ذکر کیا بعینہ یہی میں نے اپنے فتا وی میں بحث کی ہے کہ جس کے چھڑانے میں حرج نہیں بلکہ اس کا دھیان رکھنے میں دشواری ہے جب اس پر مطلع ہو تو اسے چھڑانا ضروری ہے اور چھوڑنا جائز نہیں جیسے مہندی ، سرمہ ، مکھی کی بیٹ اور ان کے مثل۔ وللہ الحمد۔


فـــــ ۱ : مسئلۃ : کاتب کے ناخن پر روشنائی کا جرم رہ گیا اور خبر نہ ہوئی تو ظاہرا حرج نہیں ۔


 (۱؎ جدالممتار علی رد المحتار کتاب الطہارت فصل فی الوضوء مکتب المجمع الاسلامی مبارکپورانڈیا  ۱ / ۱۱۰)

 (۳)مالکیہ کے نزدیک مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی بقدر جائز کہ ان کے مذہب میں دو درم شرعی ہے اور عورت کے لئے سونے چاندی کے مطلقا گہنے ، چھلے ، انگوٹھیاں ، علی بند ، حسین بند ، آرسی ، پہنچیاں ،کنگن ، چھن بتانے ، چوہے دتیا ں ۔یونہی چوڑیاں اگرچہ کانچ یا لاکھ وغیرہ کی ہوں ، اور ریشم کے لچھے ، غرض جتنے گہنے سنگارشرعاجائز ہیں کسی قدرتنگ اور پھنسے ہوئے ہوں کہ پانی بہنے کو روکیں ان کے مذہب میں سب معاف ہیں ، ہاں لوہے ، تا نبے ، رانگ وغیرہا کے مکروہ گہنے یا مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی کہ شرعا جائز نہیں ، ان میں وہ بھی اجازت نہیں مانتے ۔


اقــول: وکانھم قاسوہ علی ضفیرۃ المرأۃ حیث لم تؤمرفــــــــ بنقضھا فی الغسل عندنا الااذالم یصل الماء الی الاصول وفی الغسل والوضوء جمیعا عندھم الا اذا اشتدت اوکانت مفتولۃ بثلثلۃ خیوط فاکثر عندھم۔


اقــول شاید اسے ان حضرات نے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی پر قیاس کیا ہے کہ ہمارے نزدیک غسل میں اسے چوٹی کھولنے کاحکم نہیں مگر اس صورت میں جب کہ پانی اس کی جڑوں تک نہ پہنچتاہو اور ان حضرات کے نزدیک غسل اور وضو دونوں میں اسے کھولنے کا حکم نہیں مگر جب کہ سخت بندھی ہو یا دو یا دو سے زیادہ دھاگوں سے بٹی ہو ، یہ ان کے یہاں ہے ۔(ت)


ف : مسئلہ عورت کو غسل میں گندھی چوٹی کھولنی ضرور نہیں بالوں کی جڑیں بھیگ جانا کافی ہے ہاں چوٹی اتنی سخت گندھی ہو کہ جڑوں تک پانی نہ پہنچے گا تو کھولنا ضرور ہے ۔


حاشیہ سفطی میں ہے: لایجب نزع خاتم الفضۃ الماذون فیہ ولا تحریکہ سواء کان واسعا اوضیقا واما المحرم کخاتم الذھب للرجل والمکروہ کخاتم الحدید والنحاس والرصاص فیجب نزعہ اذاکان ضیقا ویکفی تحریکہ ان کان واسعا علی المعتمد وکذا ماتجعلہ الرماۃ فی ایدیھم من عظم ونحوہ ومحل الکراھۃ فی خاتم الحدید مالم یکن لدواء ویدخل فی المأذون فیہ خاتم الذھب بالنسبۃ للمرأۃ والاساور والحدائد التی تلبسھا المرأۃ بمنزلۃ الخاتم علی المعتمد فلا یجب تحریکھا لانھا ماذون لھا فی ذلک ۱؎ کلہ کمافی حاشیۃ الخرشی واعتمدہ شیخنا فی تقریر الخرشی خلافالما فی شرح الاصیلی وزنۃ الخاتم الذی یجوز لبسہ للرجال من الفضۃ درھمان بالدرھم الشرعی اھ ۱؎۔


 جس انگوٹھی کے پہننے کی اجازت ہے اسے اتارنایاحرکت دینا واجب نہیں خواہ کشادہ ہو یا تنگ اور جو حرام ہے جیسے مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی ، اور جو مکروہ ہے جیسے لوہے ، تا نبے ، رانگ کی انگوٹھی اسے اتارنا واجب ہے جب کہ تنگ ہو اور کشادہ ہو تو قول معتمد پر اسے حرکت دینا کافی ہے ، اسی طر ح تیرا انداز اپنے ہاتھوں میں جوہڈی وغیرہ لگا رکھتے ہیں اس کا بھی یہی حکم ہے ، اور لوہے کی انگوٹھی میں کراہت اس وقت ہے جب علاج کے لئے نہ ہو ، او راجازت یافتہ ہی میں عورت کے لئے سونے کی انگوٹھی داخل ہے اور وہ کنگن اور چھلے بھی جنہیں عورت انگوٹھی کی جگہ پہنتی ہے یہی قول معتمد ہے تو ان سب کو حرکت دینا واجب نہیں کیونکہ عورت کے لیے ان سب کی اجازت ہے جیسا کہ حاشیہ خرشی میں ہے اور اسی پر ہمارے شیخ نے تقریر خرشی میں اعتماد کیا ہے اس کے بر خلاف جو شر ح اصیلی میں ہے اور مرد کے لئے چاندی کی جس انگوٹھی کا پہننا جائز ہے اس کا وزن دودرم شرعی ہے اھ۔


 (؎۱ حاشیہ سفطی علی مقدمہ عشماویہ)


اقول۲۲: وعندنا مادون مثقال لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولا تتمہ مثقالا۱؎۔ کما بیناہ فی محلہ من فتاوٰنا۔


اقول : اور ہمارے نزدیک وہ جو ایک مثقال (ساڑھے چار ماشہ) سے کم ہو  اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ''اور اسے پورا ایک مثقال نہ کرو ''جیسا کہ اسے ہم نے اپنے فتاوی میں اس کے مقام پر بیان کیا ہے ۔(ت)


 (۱؎ سنن الترمذی کتاب اللباس حدیث ۱۷۹۲ دارالفکر بیروت ۳ / ۳۰۵

سنن ابی داؤد باب ماجاء فی خاتم الحدید آفتاب عالم پریس لاہور ۲ / ۲۲۴)


سوم۔ سرکا مسح یعنی اس کے کسی جز کھال یا بال یا نائب شرعی پر نم پہنچ جانا ، فرض اعتقادی اسی قدر ہے کتاب الانوار لاعمال الابرار امام یوسف ارد بیلی شافعی میں ہے : الفرض الرابع مسح الرأس بما شاء اما علی البشرۃ ولو قدر ابرۃ اوعلی شعر ولو واحد ان لم یخرج الممسوح من حدہ ۲؎۔ چوتھا: فر ض سرکا مسح جس قدر چاہے ،یا تو جلد پر ہواگر چہ سوئی برابر ، یا بال پر ہوا گر چہ ایک ہی بال پر بشرطیکہ بال کے جس حصے پر مسح ہو وہ سر کی حد سے باہر نہ ہو ۔(ت)


 (۲؎ الانوار لاعمال الابرار کتاب الطہارۃ فصل فروض الوضوء مطبع جمالیہ مصر۱ / ۲۳)


قرۃ العین علامہ زین تلمیذ امام ابن حجر مکی شافعی میں ہے : ولـو شعر ۃ واحدۃ اھ ۳؎ اگر چہ ایک بال کے کسی حصے پر ہواھ ۔


 (۳؎ فتح المعین شرح قرۃ العین فروض الوضوء عامر الاسلام پریس کیبرص ص ۱۴)


اقـول: وعبرت انا بوصول البلل لانہ فــــ الفرض عندنا دون الایصال حتی لواصابہ مطر اجزأہ ۴؎ کما فی الدر المختار وزدت النائب الشرعی لقول الامام احمد بن حنبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ علی ما فی میزان الشعرانی حیث قال قول الائمۃالثلثۃ ان المسح علی العمامۃ لایجزیئ مع قول احمد بانہ یجزیئ لکن بشرط ان یکون تحت الحنک منھا شیئ روایۃ واحدۃ وعنہ فی مسح المرأۃ علی قناعھا المستدیر تحت حلقھا روایۃ وھل یشترط ان یکون لبس العمامۃ علی طھرروایتان اھ ۱؎۔


میں نے '' نم پہنچ جانا '' کہا اس لئے کہ ہمارے نزدیک یہی فرض ہے ، پہنچا نا فرض نہیں ، اگر بارش سے بھیگ گیا تو بھی کافی ہے جیساکہ درمختار میں ہے اور میں نے '' نائب شرعی '' کا اضافہ کیا اس لئے کہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ '' عمامہ پر بھی مسح ہوسکتا ہے ، جیسا کہ میزان امام شعرانی میں یہ لکھا ہے کہ '' تینوں ائمہ کا قول ہے کہ عمامہ پر مسح کافی نہیں ، جبکہ امام احمد کا قول ہے کہ کافی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس عمامہ کا کچھ حصہ ٹھوڑی کے نیچے بھی ہو ۔ اس بارے میں ان سے یہی ایک روایت ہے اور عورت کا دوپٹہ جو اس کے گلے کے نیچے گھیرے ہوئے ہو اس پر عورت کے مسح سے متعلق ان سے ایک روایت ہے ۔ عمامہ کا طہارت پر پہنے ہونا شرط ہے یا نہیں اس بارے میں دو روا یتیں ہیں۔''


فــــــ. مسئلہ: وضو وغسل میں پانی پہنچنا فر ض ہے اگر چہ اپنے فعل سے نہ ہو مثلاپھوہار بر سی اور چوتھائی سرکو نم پہنچ گئی مسح سرکا فرض اتر گیا۔


 (۴؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۹)

(۱؎ المیزان الشریعۃ الکبری کتاب الطہارۃ باب الوضوء دار الکتب العلمیہ بیروت     ۱ /۱۵۱)


قلت: وکلامہ شیخہ الذی صحبہ الامام الشعرانی عشر سنین وقال لم ارہ یغضب فی سفر ولا حضرا عنی محقق عصرہ العلامۃ زین بن ابراھیم بن نُجَیم المصری رحمھما اللّٰہ تعالٰی فی البحر الرائق اتم وانفع حیث قال اما علی العمامۃ فاجمعوا علی عدم جوازہ الا احمد فانہ اجازہ، بشرط ان تکون ساترۃ لجمیع الرأس الاماجرت العادۃ بکشفہ وان یکون تحت الحنک منھا شیئ سواء کانت لھا ذؤابۃ اولم تکن وان لا تکون عمامۃ محرمۃ فلا یجوز المسح علی العمامۃ المغصوبۃ ولا یجوز للمرأہ اذا لبست عمامۃ للرجل ان تمسح علیھا والاظھر عند احمد وجوب استیعابھا والتوقیت فیھا کالخف ویبطل بالنزع والانکشاف الا ان یکون یسیرا مثل ان یحک رأسہ اویرفعھا لاجل الوضوء فی اشتراط لبسھا علی طھارۃ روایتان اھ ۱؎


قلت:امام شعرانی کے شیخ جن کی صحبت میں وہ دس سال تک رہے اور بتایاکہ میں نے انہیں سفر یا حضرمیں کبھی غصہ ہوتے نہ دیکھا یعنی محقق عصر علامہ زین بن ابراہیم بن نجیم مصری رحمہما اللہ تعالی ، بحر الرائق میں ان کا کلام اس سلسلہ میں زیادہ کامل ونافع ہے وہ فرماتے ہیں اور عمامہ پر مسح کے عدم جواز پر سوا امام احمد کے تمام ائمہ کا اجماع ہے امام احمد نے اسے جائز کہا ہے بشرطیکہ اس سے پورا سر چھپاہوا ہو مگر اس قدر جو عادۃ کھلا رہتا ہے اور ٹھوڑی کے نیچے بھی اس کا کچھ حصہ ہو خواہ اس میں شملہ ہو یا نہ ہو او روہ عمامہ حرام نہ ہو تو غصب کئے ہوئے عمامہ پر مسح جائز نہیں ، اور عورت اگر مرد کا عمامہ پہنے تو اس کے لئے اس پر مسح جائز نہیں ، اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا استیعاب ( پورے عمامہ پر مسح) واجب ہے او راس میں مدت مسح کی تجدید موزے کی طر ح ہے اور عمامہ اتارنے یا سر کھل جانے سے مسح باطل ہوجاتا ہے مگر یہ کہ تھوڑا سا کھل جائے مثلا سر کھجلائے یا وضو کے لئے کچھ اٹھائے ، او راسے طہارت پر پہننے کی شرط ہو نے سے متعلق دو روایتیں ہیں اھ(ت)


 (۱؎ البحرالرائق کتاب الطہار ۃ باب مسح علی الخفین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۱۸۴)

چہارم :  پاؤں کہ بشرائط شرعیہ موزہ شرعی کے اندر نہ ہو ں انہیں ناخنوں سے پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ تک جو وسط قدم میں چار طر ف جدا گانہ تحریر سے ممتاز ہے جہاں عربی نعال کا دوال باندھا جاتا ہے اور نیچے کروٹو ں او رایڑیوں سب پر پانی پہنچنا فر ض اعتقادی اسی قدر ہے او رموزے بشرائط ہوں تو مدت معلوم تک مسح کا فی، اوریہاں بھی ہاتھوں کی طر ح تین استثناء :

(۱)گٹوں سے تحریر مذکور تک کہ اس قدر کا دھونا بروایت ہشام عن محمد ضرور نہیں اور نفس کعبین مثل مرفقین امام زفر کے نزدیک خارج ہیں کافی میں ہے :


وغسل یدیہ مع مرفقیہ ورجلیہ مع کعبیہ خلافالزفر فی الغایتین۔ ۲؎ اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور دو نوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھونا دونوں حدود (کہنیوں او رٹخنوں) میں امام زفر کا اختلاف ہے ۔(ت)


(۲؎ الکافی شرح الوافی )


بحر میں ہے: الکعبان العظمان الناشزان من جانبی القدم صححہ فی الہدایۃ وغیرھا وروی ھشام عن محمد انہ فی ظھر القدم معقد الشراک قالو اھو سھو من ھشام ۱؎ الخ۔


کعبین وہ دو ہڈیاں ہیں جو قدم کی دو نوں جانب ابھری ہوئی ہیں ، اسی کو ہدایہ وغیرہا میں صحیح کہا اور ہشام نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ کعب پشت قدم میں عربی جوتو ں کے تسمے باندھنے کی جگہ ہے ، مشائخ نے فرمایا یہ ہشام کا سہو ہے ۔(ت)


 (۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی   ۱ /۱۳)


ردالمحتار میں ہے: قدمنا عن شرح المنیۃ ان غسل المرفقین والکعبین لیس بفرض قطعی بل ھو فرض عملی ۲؎۔ ہم شرح منیہ کے حوالے سے سابقا لکھ آئے ہیں کہ کہنیوں اور ٹخنوں کا دھونا فرض قطعی نہیں بلکہ فرض عملی ہے ۔ (ت)


(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہار ۃ فی معنی الاجتہاد الخ داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۷)


 (۲) عورتوں کے لئے چھلے وغیرہ جائز گہنوں کے نیچے کہ مالکیہ عفو کرتے ہیں۔

(۳) میل ، مکھی مچھر کی بیٹ کہ سارے ہی بدن میں معاف ہیں او رمہندی ، مٹی ، گارا جس طر ح ہاتھوں میں گزرا۔


اقــول: وعبرت بوصول الماء لما عبر ولرعایۃ مافی المیزان اتفاق الائمۃ علی ان غسل القدمین فی الطہارۃ مع القدرۃ فرض اذا لم یکن لابسا للخف مع ماحکی احمد والاوز اعی والثوری وابن جریر من جواز مسح جمیع القدمین وان الانسان عندھم مخیربین الغسل والمسح وقد کان ابن عباس یقول فرض الرجلین المسح لاالغسل اھ ۳؎


میں نے '' پانی پہنچنا '' کہا اس کی وجہ گزر چکی ( کہ ہمارے نزدیک پہنچانا فر ض نہیں ، اور پانی بہہ جانا کے بجائے صرف پہنچنا )اس کی رعایت کے پیش نظر جو میزان میں ہے کہ ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قدرت کی حالت میں وضو کے اندر دونوں پیروں کا دھونا فرض ہے جبکہ موزہ نہ پہنے ہو ، اس کے ساتھ امام احمد ، اوزاعی ، ثوری اور ابن جریر سے حکایت کی گئی ہے کہ پورے دونوں قدموں پر مسح کرنا جائز ہے اور ان کے نزدیک انسا ن کو اختیار ہے کہ دھوئے یا مسح کرلے۔ او رحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے تھے کہ پیروں پر مسح فرض ہے دھونا نہیں اھ۔


 (۳؎ المیزان الشریعۃ کتاب الطہارۃ باب الوضوء دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۵۲)


واللّٰہ اعلم بصحۃ ھذہ الحکایات فقد فـــــــ قال فی البحر الرائق ان الاجماع انعقد علی غسلھما ولا اعتبار بخلاف الروافض اھ۴؎ وکذا قال الامام النووی اجمع علیہ الصحابۃ والفقہاء اھ ۔


خدا جانے یہ حکایات کہاں تک صحیح ہیں ۔ البحر الرائق میں تو یہ کہا ہے کہ دونوں پیروں کے دھونے پر اجماع ہوچکا ہے اور روافض کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں اھ ، اور اسی طر ح امام نووی نے فرمایا ہے کہ اس پر صحابہ اور فقہاء کا اجماع ہے اھ ۔


ف: تحقیق ان غسل الرجلین مجمع علیہ و انہ لم یقل بالمسح الا شرذمۃ قلیلۃ قد رجعو ا عنہ۔


 (۴؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی     ۱ /۱۴)


قـلت: واخرج سعید بن منصور فی سننہ عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلی قال اجتمع اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم علی غسل القدمین۲؎ نعم روی ابن ماجۃ وغیرہ من طریق عبداللّٰہ بن محمد بن عقیل مختلف فیہ کثیرا وقال الحافظ فی التقریب صدوق فی حدیثہ لین ویقال تغیر باٰخرہ ۳؎ عن الربیع رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا قالت اتانی ابن عباس فسألنی عن ھذا الحدیث تعنی حدیثھا الذی ذکرت ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم توضّأ وغسل رجلیہ فقال ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما ان الناس ابوا الا الغسل ولا اجد فی کتاب اللّٰہ الاالمسح ۱؎۔


قـلت: (میں نے کہا) سعید بن منصور نے اپنی سنن میں عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ، دونوں پیر دھونے پر اصحاب رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا اجماع ہے ہاں ابن ماجہ وغیرہ نے بطریق عبداللہ بن محمد بن عقیل ، روایت کیا کہ ان کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے اور حافظ ابن حجر نے تقریب میں کہا کہ صدوق (راست گو) ہیں ان کی حدیث میں کچھ لین(نرمی) ہے اور کہا جاتا ہے کہ آخر عمر میں ان کے اندر تغیر آگیا تھا حضرت ربیع رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں میرے یہاں ابن عباس آئے تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا ، اس سے اپنی وہ حدیث مراد لے رہی ہیں جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا اوردونوں قد م مبارک دھوئے ، تو ابن عباس رضی اللہ عالی عنہما نے فرمایا ، لوگ تو دھونے کے سوا کچھ مانتے نہیں میں کتا ب اللہ میں مسح کے سوا کچھ پاتا نہیں ۔


 (۲؎الدر منثور بحوالہ سعید بن منصور تحت الآیہ ۵ / ۶ دار احیاء التراث العربی بیروت ۳ / ۳۰)

(۳؎ تقریب التہذیب، حرف العین ذکر من اسمہ عبداللہ بن محمد عقیل دارا لکتب العلیمہ بیروت ۱ /۵۳۰)

(۱؎سنن ابن ماجہ، ابواب الطہارۃ وسننہا باب ماجاء فی غسل القدمین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۶)


اقـــول: وکفٰی حجۃ لنا قول نفسہ ان الناس ابوا الاالغسل فابی الحق الا ان یکون مع الجماعۃ وقد ثبت عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ما یعارضہ اخرج سعید بن منصور وابن ابی شیبۃ وعبدالرزاق وعبد بن حمید والطبرانی فی الکبیر وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والنحاس عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما انہ قرأھا وارجلکم بالنصب یقول رجعت الی الغسل ۲؎ وقـد اخرج ابن جریر عن عطاء قال لم ار احدا یمسح علی القدمین۳؎


اقـــول: (میں کہتا ہوں ) ہماری دلیل کے لئے خود انہی کا یہ کہنا کافی ہے کہ '' ان الناس ابواالاالغسل'' لوگو ں کو دھونے کے سوا کچھ منظور نہیں ''اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اس کے معارض بھی ثابت ہے سعید بن منصور ، ابن ابی شیبہ ، عبدالرزاق ، عبد بن حمید ، معجم کبیر میں طبرانی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم اور نحاس ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ہیں کہ انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ میں نے دھونے کی جانب رجوع کرلیا ، آیت کریمہ میں'' وارجلکم '' نصب کے ساتھ پڑھا اور ابن جریر نے عطا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ، میں نے کسی کو پیرو ں پر مسح کرتے نہ دیکھا ،


 (۲؎ الدر منثور بحوالہ سعید بن منصور تحت الآیہ ۵ / ۶ دار احیاء التراث العربی بیروت ۳ / ۲۹

جامع البیان (التفسیر الطبری ) بحوالہ سعید بن منصور تحت الآیہ ۵ / ۶ دار احیاء التراث العربی بیروت ۶ / ۱۵۴ )

(۳؎ جامع البیان (التفسیر الطبری ) بحوالہ سعید بن منصور تحت الآیہ ۵ / ۶ دار احیاء التراث العربی بیروت ۶ / ۱۵۵)


فھذا من اخص تلامذۃ ابن عباس یقول ماتسمع فلا جرم رجع ابن عباس عن ھذا کمارجع عن قولہ فی المتعۃ وتلا الایۃ الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم وقال کل فرج سواھما حرام ۱؎ وکذلک ثبت الرجوع عن کل من نقل عنہ المسح وھم شرذمۃ قلیلۃ فلا شک فی استقرارا لاجماع علی الغسل کما قال التابعی الجلیل الکبیر الشان عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما واللّٰہ الھادی،


یہ حضرت ابن عباس کے مخصوص ترین تلامذہ سے ہو کر یہ بات فرمارہے ہیں تو قطعی بات ہے کہ حضرت ابن عباس قول مسح سے رجوع کر چکے ہیں جیسے متعہ کے بارے میں اپنے قول سے انہوں نے رجوع کرلیا اور آیت کریمہ '' الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم''( مگراپنی بیویوں یا اپنی باندیوں پر) تلاوت کی اور فرمایا : ان دو نوں کے سوا ہر فرج حرام ہے ، اسی طر ح جن سے بھی مسح منقول ہے ان میں ہر ایک سے رجوع ثابت ہے اور وہ محض چند افراد ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دھونے پر اجماع ہوچکا ہے جیسا کہ جلیل الشان تا بعی بزرگ عبدالرحمن بن ابی لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا اور خداہی ہدایت دینے والا ہے ۔


 (۱؎ الدر منثور بحوالہ ابن عباس تحت الآیہ ۴ / ۲۴ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲ / ۴۵۳)

فر ض عملی : فــــــ ۱ ہر مذہب میں جدا ہوتے ہیں ، ہمارے مذہب صحیح معتمد مفتی بہ پر وضو میں فر ض عملی بمعنی مذکور اعنی ارکان عملیہ کہ یہاں وہی واجب اعتقادی ہیں بارہ ہیں جن میں اکثر کا استخراج متامل پر ہمارے بیان سابق سے دشوار نہیں کہ مفتی بہ کی غیر ماخوذ سے تمیز صریح اور اپنے کم علم بھائیوں کی تفہیم کے لئے صاف تصریح بہتر ہے ۔

 ( ۱) دونوں لب ، حق یہ ہے کہ ان کا دھونا فرض ہے یہاں تک کہ اگر لب فــــــ۲ خوب زور سے بند کرلئے کہ ان کی کچھ تحریر جو عادی طور پر بند کرنے میں کھلی رہتی اب چھپ گئی اور اس پر پانی نہ بہا نہ کلی کی وضونہ ہوگا ، ہاں عادی طور پر خاموش بیٹھنے کی حالت میں لبو ں کا جتنا حصہ باہم مل کر چھپ جاتا ہے وہ دہن کا تا بع ہے کہ وضو میں اس کا دھونا فر ض نہیں ،


فــــ ۱ :مسئلہ: وضو میں بارہ فرض عملی ہیں۔

فــــ ۲ :مسئلہ: اگر لب خوب زور سے بند کر کے وضو کیا اور کلی نہ کی وضو نہ ہوگا ۔


درمختار میں ہے۔ یجب غسل مایظھر من الشفۃ عند انضما مھا ۱؎۔ لب بند ہونے کے وقت اس کا جو حصّہ کھلا رہتا ہے اسے دھونا واجب ہے ۔(ت)


 (۱؎ الدر المختار کتاب الطہار ۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۱۹)


ردالمحتار میں ہے: ای یفترض کما صححہ فی الخلاصۃ والمراد مایظھر عند انضمامھا الطبیعی لاعند انضمامھا بشدۃ وتکلف اھ ح۲؎ یعنی فرض ہے ۔ جیسا کہ خلاصہ میں اسے صحیح کہا اور مراد وہ حصہ ہے جو لب کے طبعی طور پر بند ہونے کے وقت کھلارہتا ہے صرف وہ نہیں جو شدّت اور تکلیف سے بند ہونے کے وقت کھلا رہتا ہے ۔ ا ھ حلبی


 (۲ رد المحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۶)


 ( ۲، ۳ ، ۴)بھوؤں ،فـــــ ۱ مونچھوں ، بچّی کے نیچے کی کھال جب کہ بال چھدرے ہوں کھال نظر آتی ہو وضو میں دھونا فرض ہے ، ہاں گھنے ہوں کہ کھال بالکل نہ دکھائی دے تو وضو میں ضرور نہیں ، غسل میں جب بھی ضرور ہے ۔

(۵) داڑھی فـــــ ۲ چھدری ہو تو اس کے نیچے کی کھال دُھلنا فرض اور گھنی ہو تو جس قدر بال دائرہ رُخ میں داخل ہیں ان سب کا دھونا فرض ہے ، یہی صحیح و معتمد ہے ، ہاں جو بال نیچے چھوٹے ہوتے ہیں اُن کا مسح سنّت ہے اور دھونا مستحب ، اور نیچے ہونے کے یہ معنی کہ داڑھی کو ہاتھ سے ذقن ( ٹھوڑی) کی طرف دبائیں تو جتنے بال مُنہ کے دائرہ سے نکل گئے اُن کا دھونا ضروری نہیں باقی کا ضرور ہے ، ہاں خاص جڑیں اُن کی بھی دھونی ضرور کہ اُن کا دھونا بعینہٖ کھال کا دھونا ہو گا اور گھنی داڑھی میں اس کا دھونا ساقط ہو چکا ہے ۔


ف ۱ : مسئلہ: بھویں مونچھیں بچی کے بال چھدرے ہوں تو ان کا اور ان کے نیچے کی کھال سب کا دھونا وضو میں فرض ہے 

ف ۲ :مسئلہ: کتنی داڑھی کا دھونا وضو میں فر ض ہے کتنی کا مستحب۔


در مختار میں ہے : غسل جمیع اللحیۃ فرض عملیا علی المذھب الصحیح المفتی بہ المرجوع الیہ بدائع ثم لاخلاف ان المسترسل لایجب غسلہ ولا مسحہ بل یسن وان الحنفیۃ التی تری بشرتھا یجب غسل ماتحتھا نھر ۱؎۔ پوری داڑھی کا دھونا فرض عملی ہے ۔ مذہب صحیح مفتٰی بہ پر جس کی طرف رجوع ہو چکا ہے ، بدائع ۔ پھر اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ داڑھی کے جو بال لٹکے ہوئے ہیں انھیں دھونا ضروری نہیں انکا مسح بھی ضروری نہیں بلکہ مسنون ہے اور اس میں بھی اختلاف نہیں کہ خفیف داڑھی جس کی جلد دکھائی دیتی ہے اس کے نیچے کی جلد دھونا ضروری ہے ۔ نہر (ت)


 (۱؎ الدر المختار کتاب الطہار ۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۱۹)


اُسی میں ہے: لاغسل باطن العینین والانف والفم واصول شعرالحاجبین واللحیۃ والشارب ۲؎۔ آنکھ ، ناک اور دہن کے اندونی حصّے اور بھوؤں ، داڑھی اور مونچھ کے بالوں کی جڑیں دھونا فرض نہیں ۔ (ت)


 (۲؎ الدر المختار کتاب الطہار ۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۹)


ردالمحتار میں ہے : قولہ واصول شعرالحاجین یحمل علی مااذا کانا کثیفین اما اذا بدت البشرۃ فیجب کما یاتی لہ قریبا عن البرھان وکذا یقال فی اللحیہ والشارب ونقلہ ح عن عصام الدین شارح الھدایۃ ط ۳؎ شرح کی عبارت ''بھووں کے بالوں کی جڑیں الخ '' اس صورت پر محمول ہے جب بھووں کے بال گھنے ہوں اور اگر جِلد دکھائی دیتی ہو تو جِلد دھونا ضروری ہے جیسا کہ آگے شرح ہی میں برہان کے حوالہ سے آ رہا ہے ۔ اسی طرح داڑھی اور مونچھ کے بارے میں بھی کہا جائے گا اور اسے حلبی نے عصام الدین شارح ہدایہ سے نقل کیا ہے ۔ طحطاوی ۔ (ت)


 (۳؎ رد المحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۶)


اُسی میں ہے: قـولہ لاخلاف ای بین اھل المذھب علی جمیع الروایات ط اھ ۱؎ عبارت نہر ''کوئی اختلاف نہیں '' یعنی اہلِ مذہب کے درمیان تمام روایات پر کوئی اختلاف نہیں ، طحطاوی، ا ھ ۔ (ت)


 (۱؎ رد المحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۸)


اقـــول: فلا ینافی ما قدمنا لثبوت الخلاف من غیرنا۔


اقول: تو اس کے منافی نہیں جو پہلے ہم نے ذکر کیا کیونکہ غیر حنفیہ کا اس میں اختلاف موجود ہے ۔ (ت)


اُسی میں ہے: قولہ المسترسل ای الخارج عن دائرۃ الوجہ وفسرہ ابن حجر فی شرح المنہاج بما لومد من جہۃ نزولہ لخرج عن دائرۃ الوجہ ۲؎۔ عبارتِ نہر ''داڑھی کے لٹکے ہوئے بال '' یعنی وہ جو چہرے کے دائرے سے خارج ہیں اور ابنِ حجر نے شرح منہاج میں اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ وہ حصہ جسے نیچے کو پھیلایا جائے تو دائرہ رخ سے باہر ہو جائے ۔ (ت)


 (۲؎ رد المحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۶)


اُسی میں ہے: قــولــہ بل یسن ای المسح لکونہ الاقرب لمرجع الضمیر وعبارۃ المنیۃ صریحۃ فی ذلک ح ۳؎ عبارتِ نہر ''بلکہ مسنون ہے '' یعنی مسح ، اس لئے کہ ضمیر کا قریب تر مرجع وہی ہے ، اور منیہ کی عبارت اس بارے میں صریح ہے ۔ حلبی ۔ (ت)


 (۳؎ رد المحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۶۹)

 (۶) کنپٹیاں فـــــ ، کان اور رخسار کے بیچ میں جو حصّہ ہے اس کا دھونا واجب ہے جتنا حصہ داڑھی اور کان کے بیچ میں ہے وہ مطلقاً اور جتنا بالوں کے نیچے ہے اگر بال چھدرے ہوں تو وہ بھی ، ہاں گھنے ہوں تو اس کا فرض بالوں کی طرف منتقل ہو جائے گا ، و قد تقدم ما یکفی لافادتہ  ( اس کے افادہ کے لئے بقدرِ کفایت عبارتیں گزر چکی ہیں ۔ (ت)


فــــــ :مسئلہ : وضو میں کنپٹیوں پر بھی پانی بہانا فرض ہے ۔


 (۷) دونوں کہنیاں تمام و کمال ۔ (۸) انگوٹھی فـــــ، چھلّے وغیرہا جائز ، ناجائز ہر قسم کے گہنے مرد ، عورت سب کے لئے جب کہ تنگ ہوں کہ بے اُتارے اُن کے نیچے پانی نہ بہے گا اُتار کر دھونا فرض ہے ورنہ ہلا ہلا کر پانی ڈالنا کہ ان کے نیچے بَہہ جائے مُطلقاً ضرور ہے ۔


فــــــ ۱ :مسئلہ: وضو میں انگوٹھی چھلوں چوڑیوں وغیرہ گہنوں کا حکم۔


در مختار میں ہے: لو خاتمہ ضیقا نزعہ اوحرکہ وجوبا ۱؎۔ اگر انگوٹھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اُسے اتار دے یا حرکت دے ۔ (ت)


 (۱؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی  ۱ /۱۸۴)


 (۹) مسح کی نم سر کی کھال یا خاص سر پر جو بال ہیں ( نہ وہ کہ سرفـــــ ۲ سے نیچے لٹکے ہیں) اُن پر پہنچنا فرض ہے ، عمامے ، دوپٹے وغیرہ پر مسح ہرگز کافی نہیں مگر جب کہ کپڑا فـــــ ۳ اتنا باریک اور نم اتنی کثیر ہو کہ کپڑے سے پھوٹ کر سر یا بالوں کی مقدار شرعی پر پہنچ جائے ۔


فــــــ ۲:مسئلہ :سر کے نیچے جو بال لٹکتے ہیں ان کا مسح کا فی نہیں۔

فـــــ ۳ : مسئلہ: ٹوپی یا دو پٹہ اگر ایسا ہو کہ اس پر سے نم سر کے چوتھائی حصہ پر یقینا پہنچ جائے تو کافی ہے ورنہ نہیں۔


بحر میں ہے : فـی معراج الدرایۃ لومسحت علی خمارھا ونفذت البلۃ الی رأسھا حتی ابتل قدر الربع منہ یجوز قال مشائخنا اذا کان الخمار جدیدا یجوز لان ثقوب الجدید لم تسد بالاستعمال فتنفذ البلۃ اما اذا لم یکن جدید الا یجوز لانسداد ثقوبہ ۲؎ اھ۔


معراج الدرایہ میں ہے کہ عورت نے اگر دوپٹے پر مسح کیا اور تری نفوذ کر کے سر تک پہنچی یہاں تک کہ سر کا چوتھائی حصہ نم ہو گیا تو جائز ہے ۔ہمارے مشائخ فرماتے ہیں ، جب دو پٹہ نیا ہو تو جائز ہے اس لئے کہ نئے کپڑے کے سوارخ استعمال کی وجہ سے بند نہ ہوئے ہوں گے تو تری نفوذ کر جائیگی، لیکن اگر نیانہ ہو تو جائز نہیں کیونکہ اس کے سوارخ بند ہوچکے ہوں گے ۔(ت)


 (۲؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ باب المسح علی الخفین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۱۸۳ و۱۸۴)


اقــول: جرت فــــــــ عادتہم رحمہم اللّٰہ باحالۃ الامور علی مظانھا الا غلبیۃ کقولھم فی شرب الجنب ماء یجزیئ عن المضمضۃ ان جاھلا لعبہ لاعالما لمصہ وفی عض الکلب علی ثوب ینجس فی الرضا لسیلان لعابہ دون الغضب لجفافہ ووقوع الفارۃ حیۃ فی البئر ینجس لوھاربۃ من ھرۃ لبولہ والا لاونظائرہ لاتحصی والذی یعرف المناط یعرف المقصود فالمناط نفوذ البلۃ الی قدر الفرض فان علم اجزأ ولو الثوب خلقا والا لاولو جدیدا کما لایخفی۔


اقــول: حضرات مشائخ رحمہم اللہ تعالی کی عادت یہ ہے کہ معاملات کو غالب گمان کی جگہوں کے حوالے کرتے ہیں جیسے جنب کے پانی پینے سے متعلق کہتے ہیں کہ اگر وہ جاہل ہے تو اس کا پینا کلی کی جگہ کام دے گا کیونکہ وہ منہ بھر کر بڑے بڑے گھونٹ پئے گا اور عالم ہے تو کافی نہ ہوگا کیونکہ وہ چوس چوس کر پئے گا ، اورکپڑے پر کتے کے دانت کاٹنے سے متعلق کہتے ہیں کہ اگر وہ رضا کی حالت میں ہو توکپڑا نا پاک ہوجائے گا کیونکہ اس کا لعاب بہتا ہوگا اور غصے میں ہو تو ناپاک نہ ہوگا کیونکہ اس کاتھوک خشک ہوچکا ہوگا اور کنویں میں چوہے کے زندہ گر نے سے متعلق کہتے ہیں اگربلی سے بھاگتے ہوئے گر ا تو کنواں ناپاک ہوجائے گا کیونکہ اس کا پیشاب نکلتا ہوگا ،ورنہ ناپاک نہ ہوگا ، اور اس کی بے شمار نظیریں ہیں جو مدار کا ر سے آشنا ہے وہ مقصد پہچان لیتا ہے تو یہاں مدار اس پر ہے کہ تری مقدار فرض تک نفو ذ کر جائے اگر نفوذ معلوم ہے تو یہ کافی ہے اگرچہ کپڑا پرانا ہے ورنہ کافی نہیں اگر چہ کپڑا نیا ہو ، جیسا کہ واضح ہے۔(ت)


فـــ : مسئلہ : عادۃ الفقہاء بناء الامر علی المظنۃ الغالیۃ ویعرف المراد من عرف المناط ۔


(۱۰) نم کم ازکم چوتھائی سرکو استیعاب کرلے ھوا لصحیح المفتٰی بہ الماخوذ وان قیل وقیل وقداشتھرت المسألۃ متونا وشروحا  (یہی صحیح ،مفتی بہ ، ماخوذ ہے ۔ اگر چہ ضعیف اقوال متعدد ہیں اور یہ مسئلہ متون وشروح میں معروف ومشہورہے (ت)


 (۱۱) کعبین گٹوں یعنی ٹخنوں کا نام ہے اُن کے بالائی کناروں سے ناخنوں کے منتہی تک ہر حصے پرزے ذرّے ذرّے کا دُھلنا فرض ہے اُس میں سے سرِ سوزن برابر اگر کوئی جگہ پانی بہنے سے رہ گئی وضو نہ ہوگا، ہاں پاؤں میں تیسرا استثناء جو گزرا اپنے محل پر مسلم ہے جس کی تحقیق فقیر کے فتاوٰی بیان غسل میں ملے گی، چھلّے اور سب گہنے کہ گٹوں پر یا اُن سے نیچے ہوں اُن کا حکم وہی ہے جو فرض ہشتم میں گزرا ۔


 (۱۲) مُنہ، فـــــ ہاتھ، پاؤں(۱) تینوں عضوؤں کے تمام مذکور ذرّوں پر پانی کا بہنا فرض ہے فقط بہے گا ہاتھ پھر جانا یا تیل کی طرح پانی چُپڑ لینا تو بالاجماع کافی نہیں اللھم الامامر فی الرجلین  (مگر وہ جو پیروں سے متعلق گزار۔ت)اور صحیح مذہب میں ایک بوند ہرجگہ سے ٹپک جانا بھی کافی نہیں کم سے کم دو بوندیں ہر ذرہ ابدان مذکورہ پر سے بہیں۔


ف :مسئلہ ضروریہ:منہ، ہاتھ ،پاؤں کے ذرے ذرے پر پانی بہنا فرض ہے فقط بھیگا ہاتھ پہنچنا کافی نہیں کم از کم ہر پرزے پر سے دو قطرے ٹپکے ۔


درمختار میں ہے: غسل الوجہ ای اسالۃ الماء مع التقاطر ولو قطرۃ وفی الفیض اقلہ قطرتان فی الاصح اھ ۱؎ چہرے کا دھونا یعنی '' تقاطر''کے ساتھ پانی بہانا اگر چہ ایک ہی قطرہ ٹپکے ، اور فیض میں ہے کہ اصح یہ ہے کہ کم از کم دو دو قطرے ٹپکیں اھ


 (۱؎ الدرالمختار، کتاب الطہار ۃ مطبع مجتبائی دہلی  ۱ /۱۹)


قــال ح ثم ط ثم ش کلھم فی حواشی الدر یدل علیہ صیغۃ التفاعل اھ ۲ ؎ اماما عن ابی یوسف ان الغسل مجرد بلّ المحل بالماء سال اولم یسل۳؎ ولاجلہ جعل فی البحر الاسالۃ مختلفا فیھا بینہ وبین الطرفین و زعم ان اشتراطھا ھو ظاھر الروایۃ رمختار کے حواشی میں حلبی پھر طحطاوی پھر شامی لکھتے ہیں ، اس پر تفاعل کا صیغہ (تقاطر) دلالت کر رہا ہے اھ لیکن وہ جو امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ دھونا ، اعضاء وضو کو پانی سے صرف تر کر لینے کا نام ہے پانی بہے یا نہ بہے ، او راسی وجہ سے بحر میں بہانے کو امام ابو یوسف اور طر فین کے درمیان مختلف فیہ ٹھہرایا ہے اور ان کا خیال ہے کہ بہانے کا شرط ہونا یہ ظاہر الروایہ ہے۔


 (۲؎ ردالمحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۵)

(۳؎ ردالمحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۵)


فالحق الذی لامحید عنہ ولا یحل المصیر الا الیہ ان تأویلہ مافی حلیۃ عن الذخیرۃ انہ سال من العضو قطرۃ اوقطرتان ولم یتدارک ۱؎کیف ولولا ذلک لکان ھذا والعیاذ باللّٰہ تعالٰی انکار اللنّص وتبدیلا للشرع فان اللّٰہ تعالٰی امر بالغسل وھذا لیس بغسل لالغۃ ولا عرفا وقد قال فی البحر نفسہ الغسل بفتح الغین ازالۃ الوسخ عن الشیئ ونحوہ باجراء الماء علیہ لغۃ اھ ۲؎ وھل الاجراء الا الاسالۃ وقد فرق المولی سبحنہ وتعالٰی بین الاعضاء فجعل وظیفۃ بعضھا الغسل وبعضھا المسح فانہ اذالم یسل الماء لم یکن الا اصابۃ بلل وھو المسح۔


تو حق جس سے انحراف نہیں اور جس کی طر ف رجوع کے سوا کچھ روا نہیں وہ یہ ہے کہ اس روایت کی تا ویل وہ ہے جو حلیہ میں ذخیرہ سے منقول ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عضو سے قطرہ دو قطرہ بہ جائے اور تسلسل کے ساتھ نہ گرے ۔ یہ حق کیوں نہ ہو اگر اس کا یہ مطلب نہ لیں تو معاذاللہ یہ نص کا انکار اور شر ع کی تبدیلی ہوگی اس لیے کہ اللہ تعالٰی نے دھونے کا حکم دیا ہے اور یہ لغۃ عرفا کسی طر ح بھی دھونا نہیں ۔ اور خود بحر میں لکھا ہے کہ غسل بفتح غین (دھونا)لغت میں کسی پر پانی بہاکر اس سے میل وغیرہ دو ر کرنے کا نام ہے اھ۔ اجرا ، اسالہ ، بہنا ایک ہی چیز ہے مولی سبحنہ وتعالی نے اعضاء کے درمیان فر ق رکھا ہے کہ کسی میں دھونے کا عمل مقرر فرمایا ہے او رکسی میں مسح رکھا ہے ، اگریہ مان لیں کہ بہنا ضروری نہیں تو تمام اعضاء میں مسح ہی کا عمل رہ جائے گا ، اس لئے کہ پانی جب بہے گا نہیں تو صرف یہ ہوگا کہ تری پہنچ گئی اور یہی مسح ہے


 (۱؎ ردالمحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۵)

(۲؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۱۱)


اقــول: فما کان فـــــ ینبغی لمثل ھذا المحقق البحران یجعلہ مختلفا فیہ کی یجترئ علیہ الجاھلون کما نشاھد الاٰن من کثیر منھم انہ لایزید فی جبہتہ وعارضیہ وغیرھا علی اصابۃ ید مبتلۃ من دون سیلان ولا تقاطر اصلا واذا اخبران قد بقی لمعۃ مثلا فی مرفقہ او ا خمصہ اوعقبہ امر علیہ یدہ الباقی فیھابلل الماء من دون ان یأخذ ماء جدیدا فضلا عن الاسالۃ فالی اللّٰہ المشتکی ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔


اقــول:تو محقق بحر جیسی شخصیت کو یہ نہ چاہئے تھا کہ اسے مختلف فیہ ٹھہرائیں کہ جاہلوں کو اس کی جسارت ہو جیسا کہ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں کتنے ایسے ہیں کہ پیشانی اور رخسار وغیرہ میں اس سے زیادہ نہیں کرتے کہ بھیگا ہوا ہاتھ لگادیتے ہیں نہ پانی بہتا ہے نہ کوئی قطرہ ٹپکتا ہے اگر کسی کو بتا یا جائے کہ دیکھو کہنی یا تلوے یا ایڑی میں تھوڑی سی جگہ خشک رہ گئی تو بس ہاتھ اس جگہ پھیر دے گا اور اس میں پانی کی باقیماندہ تری کو کافی سمجھے گا از سر نو دو سرا پانی بھی نہ لے گا ، پانی بہانا تو دور کی بات ہے ، تو خدا ہی کی بارگاہ میں شکایت ہے اور کوئی طاقت وقوت نہیں مگر عظمت والے خدائے بر ترہی سے ۔(ت)


فـــــ : تطفل علی البحر

تنبیہ جلیل: 

متعدد کتب فــــــ معتمد ہ مثلا خلاصہ وجوہر ہ نیرہ وحلیہ وغنیہ ودر مختار وغیرہا میں وہ استثنا کہ ہاتھوں میں دوسرا اور پاؤں میں تیسرا تھا اس میں یہ قید لگائی کہ وہ چیز ایسی نرم ہو جس میں پانی سرایت کر سکے جیسے مٹی گار انہ سخت اور نفوذ کو مانع جیسے آٹا ، موم ، چربی ، جما ہو اگھی ، مچھلی کا سنا ، چبائی ہوئی روٹی ،


ف : مسئلہ : تحقیق جلیل کہ مواضع ضرورت میں جس طرح بے اطلاع مٹی گارے کا لگا رہ جانا مانع وضو و غسل نہیں ، یونہی سب چیزوں مثلا آٹے وغیرہ کا بھی ۔۔۔


درمختار سے گزرا۔ بخـلاف نحوعجین۱؎ گندھے ہوئے آٹے جیسی چیز کے بر خلاف(ت)


(۱؎ الدر المختار کتاب الطہار ۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۲۹)


ردالمحتار میں قول شارح لایمنع دھن (مانع نہیں تیل، ت) کے تحت میں ہے : ای کزیت وشیرج بخلاف نحوشحم وسمن جامد ۲؎  (یعنی جیسے زیتو ن کا اورتلوں کا تیل ، چربی اور جمے ہوئے گھی کے بر خلاف۔ت)


 (۲؎ ردالمحتار کتاب الطہار ۃ دار احیاء التراث بیروت ۱ / ۱۰۴)


اُسی میں بخلاف نحو عجین کے نیچے ہے ای کعلک وشمع وقشر سمک وخبز ممضوغ متلبد جوھرۃ ۳؎  (یعنی جیسے گوند ، موم ، مچھلی کا سنا ، چبائی ہوئی چپکنے والی روٹی ۔ جوہرہ۔ت)


 (۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۴)


در مختار میں ہے: لایمنع طعام بین اسنانہ اوفی سنہ المجوف بہ یفتی وقیل ان صلبا منع وھو الاصح ۲؎ کھانے کا ٹکڑا جو دانتوں کے درمیان یا جوف کے اندر رہ جائے وہ مانع نہیں ، اسی پر فتوی ہے اور کہا گیا کہ اگر سخت ہو تو مانع ہے ، اور وہی اصح ہے ۔ت)


 (۲؎الدرالمختار کتاب الطہار ۃ      مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۹)


رد المحتار میں ہے: صرح بہ فی الخلاصۃ وقال لان الماء شیئ لطیف یصل تحتہ غالبا اھ ومفادہ عدم الجواز اذا علم انہ لم یصل انماء تحتہ قال فی الحلیۃ وھو اثبت ۳؎


اسی کی تصریح خلاصہ میں فرمائی ہے اور کہا ہے ، اس لئے کہ پانی لطیف ہوتا ہے غالب گمان یہی ہے کہ اس کے نیچے پہنچ جائے گا اھ


 (۳؎ردالمحتار         کتاب الطہارۃ      دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۰۴)


قولہ وھو الاصح صرح بہ فی شرح المنیۃ وقال لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج ۴؎۔ اور اس کا مفادیہ ہے کہ جائز نہ ہوگا اگر یہ معلوم ہو کہ پانی اس کے نیچے نہ پہنچا حلیہ میں کہا ، یہ ا ثبت ہے قول در مختار وہی اصح ہے منیہ میں اس کی تصریح کی ہے اور کہا ہے ، اس لئے کہ پانی نفوذ نہ کرسکے گا اور ضرورت وحرج بھی نہیں۔(ت)


 (۴؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ      دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۰۴)


تو اس کا لحاظ مناسب ہے اگر چہ تحقی (ف) یہ ہے کہ مدار کا ر ضرورت وحرج عام یا خاص پر ہے اگر حرج نہیں طہارت نہ ہوگی اگر چہ پانی سرایت کرے کہ مجرد تری پہنچنا کافی نہیں بہنا شر ط ہے ، اور وہ قطعا گارے وغیرہ جرم دار چیزوں میں بھی نہ ہوگا جب تک ان کا جرم زائل نہ ہو تو نرمی وسختی کا فر ق بیکار ہے اور حرج وضرورت ہو اور طہارت کرلی اور ایسی چیز لگی رہ گئی اور نماز پڑھ لی تومعافی ہے اگر چہ سخت ومانع نفوذ ہو آخر مکھی مچھر کی بیٹ پر خود درمختار میں لم یصل الماء تحتہ  (اس کے نیچے پانی نہ پہنچا ۔ت)فرما کر حکم دیا کہ لایمنع الطہارۃ  (طہارت سے مانع نہیں ہے ۔ت) اور مہندی کے جرم کو بھی مانع نہ مانا اور فرمایا بہ یفتی۱؎ (اسی پر فتوی ہے ۔ت)حالانکہ اس کا جرم خصوصا بعد خشکی یقینا نفوذ آب کو مانع ہے ۔


(۱؎الدرالمختار  کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی۱ /۲۹)


ف:تطفل۱۱؎ علی الغنیۃ و الدروغیرھما


ولہذا رد المحتار میں فرمایا۔ قولہ بہ یفتی صرح بہ فی المنیۃ عن الذخیرہ فی مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ قال فی شرحہا لان الماء ینفذ لتخللہ وعدم لزوجتہ وصلابتہ والمعتبر فی جمیع ذلک نفوذ الماء و وصولہ الی البدن اھ لکن یرد علیہ ان الواجب الغسل وھو اسالۃ الماء مع التقاطر کما مرفی ارکان الوضوء والظاھر ان ھذہ الاشیاء تمنع الاسالۃ فالاظھر التعلیل بالضرورۃ ۲؎۔


اس کی تصریح منیہ میں ذخیرہ کے حوالہ سے مہندی ، مٹی ، گار ے اور میل کے مسئلہ میں ضرورت سے بیان علت کے ساتھ ہے ۔ اسی کی شرح میں کہا ، اس لئے کہ پانی نفوذ کر جائے گا کیونکہ اس میں تخلل ہوتا ہے اور لزوجت وصلابت نہیں ہوتی ۔ اور ان سب میں پانی کے نفو ذ کرجانے اور بدن تک پہنچ جانے ہی کا اعتبار ہے اھ، لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ واجب دھونا ہے اور وہ تقاطر کے ساتھ پانی بہانے کا نام ہے جیسا کہ ارکان وضو میں گزرا اور ظاہر یہ ہے کہ یہ چیزیں پانی بہنے سے مانع ہیں تو زیادہ ظاہر ضرورت سے بیان علت ہے ۔(ت)


 (۲؎ ردالمحتار   فرائض الغسل      دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۰۴)


 قول مذکور خلاصہ لان الماء شیئ لطیف الخ  ( اس لئے کہ پانی لطیف چیز ہے الخ۔ت)نقل کر کے فرمایا: یرد علیہ ماقد مناہ اٰنفا۳؎ اس پر وہ اعتراض وارد ہوتا ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں۔(ت)


 (۳؎ردالمحتار   فرائض الغسل      دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۰۴)


لاجرم بعض مشائخ نے کہ ناخنوں کے میل میں فر ق کیا کہ دیہاتی کے لئے اجازت ہے کہ اس کا میل خاک مٹی سے ہوگا اس میں پانی سرایت کرجائے گا اور شہری کو نہیں کہ اس کا میل چکنائی سے ہوگا ، انہیں اکابر نے اس تفرقہ کو رد کردیا ، اور فرمایا ، اصح یہ کہ دنوں یکساں ہیں ۔


درمختار سے گزرا قرویا اومدنیا فی الاصح ۱؎ خواہ دیہاتی ہو یا شہری، یہی اصح قول ہے۔(ت) جب یہی قضیہ نظراور یہی مفتی بہ تو اسی پر عمل اور یہی معول۔


 (۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ  مطبع مجتبائی دہلی۱ /۲۹)

اقول :۳۱؎: وکانّ مراد العلامۃ الشامی بقولہ بخلاف نحوشحم وسمن جامد ۲؎حیث لاحرج ولا ضرورۃ فان مسألۃ الدھن والشبرج عامۃ لاتقتصر علی الضرورۃ فافادان الشحم لیس کمثلہ لکن ف العجب انہ ذکرمامر عن الجوھرۃ ثم استدرک علیہ بالفتویٰ المذکورۃ فی النھر ثم عقبھا بقولہ نعم وذکر الخلاف فی شرح المنیۃ فی العجین واستظھر المنع لان فیہ لزوجۃ وصلابۃ تمنع نفوذ الماء اھ ۳؎ وکانہ سکت علیہ اکتفاء بما قدمہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اقول: ''بخلاف چربی اور جمے ہوئے گھی کے مثل '' کہنے سے غالبا علامہ شامی کی مراد یہ ہے کہ جہاں حرج اور ضرورت نہ ہو ۔اس لئے کہ رو غن اور تلوں کے تیل کا مسئلہ عام ہے صرف ضرورت پر محدود نہیں تو یہ افادہ کیا کہ چربی اس طر ح کی نہیں ۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ انہوں نے پہلے جوہرہ سے گزشتہ عبارت نقل کی پھر النہر الفائق میں مذکورہ فتوی سے اس پر استدراک کیا (کہ لیکن نہر میں ہے کہ ناخنوں میں خمیرہو تو فتوی یہ ہے کہ وہ معاف ہے ) پھرا س کے بعد یہ لکھا کہ ہاں شرح منیہ میں خمیرسے متعلق اختلاف ذکر کیا ہے اور مانع ہونے کو ظاہر کیا ہے کیونکہ اس میں لزوجت اور صلابت ہوتی ہے جو پانی کے نفو ذ سے مانع ہوتی ہے اھ، شاید انہوں نے ما سبق پر اکتفا کرتے ہوئے یہاں سکوت کیا ۔ واللہ تعالی اعلم( ت)۔


 (۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ      دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۰۴)

 (۳؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ      دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۰۴)


ف :معروضۃعلی رد المحتار


رہا واجب، عملی ف۱ وہ وضو میں کوئی نہیں، بحرالرائق سے گزرا ا تفق الاصحاب انہ لاواجب فی الوضوء ۱؎  ( ہمارے ائمہ کا اتفاق ہے کہ وضو میں کوئی واجب نہیں ۔ت)


(۱؎ بحرالرائق قبیل سنن الوضو،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ، ۱ /۱۱ )


فائدہ ۱مسئلہ :وضو وغسل میں ایسا واجب کوئی نہیں جس کے نہ کرنے سے گناہگا ر ہو مگرطہارت ادا ہو جائے۔


درمختار میں ہے افاد انہ لاواجب للوضوء ولا للغسل ۲؎  (وضو وغسل میں ارکان کے بعد واجب چھوڑکر سنتوں کا ذکر لاکر یہ افادہ فرمایا کہ وضو وغسل میں کوئی واجب نہیں۔ت)


 (۲؎ الدرالمختار  کتاب الطہارۃ،مطبع مجتبائی دہلی۱ /۲۰)


اسی طرح کتب کثیرہ میں ہے اور خود بعد نقل اتفاق اصحاب کیا حاجت اطناب واسہاب مگر محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اپنی بحث سے وضو کیلئے بسم اللہ ف۲ وذکر الٰہی سے ابتدا کرنا برخلاف مذہب واجب ٹھہرایا اور اس مسئلہ متفق علیہا کے جواب میں فرمایا: ماقیل انہ لامدخل للوجوب فی الوضوء لانہ شرط تابع فلوقلنا بالوجوب فیہ لساوی التبع الاصل غیر لازم اذا شتراکہما بثبوت الواجب فیھما لایقتضیہ لثبوت عدم المساواۃ بوجہ اٰخرنحو انہ لایلزم بالنذر بخلاف الصلاۃ مع انہ لامانع من الحکم بان واجبہ احط رتبۃ من واجب الصلاۃ کفرضہ بالنسبۃ الی فرضھا ۱؎ اھ کلامہ الشریف۔


 کہا گیا کہ وضو میں ثبوت واجب کا کوئی دخل نہیں اس لئے کہ وضو نماز کی ایک شرط تابع ہے اگراس میں بھی ہم وجوب کے قائل ہوں تو تا بع واصل میں برابری ہوجائے گی ، مگر ہم کہتے ہیں کہ برابر ہونا لازم نہ آئے گا اس لئے کہ اگر نماز و وضو دونوں میں واجب کا ثبوت ہو تو اس کا مقتضایہ نہیں کہ دونوں میں مساوات ہو کیوں کہ عدم مساوات دوسرے طریقہ سے ثابت ہوسکتی ہے مثلا یہ کہ نذر ماننے سے وضو لازم نہیں اور نماز لازم ہے اور برابری دفع کرنے کے لئے یہ حکم بھی کیا جاسکتاہے کہ واجب وضو، واجب نماز سے کم رتبہ ہوگا جیسے فر ض وضو ، فر ض نماز سے کم رتبہ ہے اھ ان کا کلام ختم ہوا ۔(ت)


(۳؎ فتح القدیر کتاب الطہارات   نوریہ رضویہ سکھر۱ /۲۱)


ف۲مسئلہ:ہمارے مذہب میں بسم اللہ سے وضو کی ابتدا صرف سنت ہے واجب نہیں اگرچہ امام ابن الہمام کا خیال وجوب کی طرف گیا۔


اقول۳۲: لم یأت ف ۱ المستدل بشیئ حتی سمع ماسمع واذا لم یمنع تبعیۃ الوضوء ثبوت الفرائض فیہ فلم یمنع ثبوت الواجبات والرواتب توابع للفرائض انماشرعت مکملات لامحصلات لہا فلیست فی مرتبۃ الوضوء ایضا ثم لا یقعدھا ذلک عن ان یکون لھا کل من الفروض والواجبات والسنن والمستحبات کماللاصول۔ولم نعن ان الوضوء لایستاھل فی نفسہ ان یکون لہ واجب حتی نحتاج الٰی ماذکر المستدل وانما عنینا ان لیس فی مذھبنا واجب فی الوضوء لایجوز ترکہ ویصح بدونہ وھذا ظاھر لایفتاق الی اظھار وثابت لایصلح للانکار۔


اقول:  مستدل نے کوئی مضبو ط بات نہ کی جس کے نتیجے میں اسے یہ سب سننا پڑا ۔ مزید ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جب وضو کا تا بع نماز ہونا وضو میں فرائض کے ثبوت سے مانع نہ ہوا تو واجبات ثابت ہونے سے مانع کیوں ہوگا ؟ سنن رواتب، فرائض کے تابع ہیں ، وہ فرائض کو حاصل کرانے والی اور ان کے وجود وثبوت کا ذریعہ بھی نہیں صرف ان کی تکمیل کرنے والی ہو کر مشروع ہوئی ہیں تو یہ وضو کے درجہ میں بھی نہیں مگر ان کی یہ تبعیت اس سے مانع نہ ہوئی کہ ان میں بھی فرائض و واجبات او رسنن ومستحبات ہوں جیسے ان کی اصل یعنی فرائض میں ہیں '' وضو میں کوئی واجب نہیں'' سے یہ مراد نہیں کہ وضو اس قابل نہیں کہ اس کے اندر کوئی واجب ہوا ور ہمیں وہ بات کہنے کی ضرورت ہو جو مستدل نے ذکر کی ، اسی سے ہماری مراد صرف یہ ہے کہ ہمارے مذہب میں وضو کا کوئی واجب نہیں ، جس کا ترک جائز نہ ہو اور جس کے بغیر نفس وضو کی صحت حاصل ہوجائے او ریہ بالکل واضح ہو جس کے اظہار کی ضرورت نہیں ،اور ثابت ہے جس کے انکار کی گنجائش نہیں۔ ت)


ف: تطفل ۱۳ علی الفتح وعلی ۱۴ من نقل عنہ فی الفتح


اور مسئلہ تسمیہ اولا تنہا محقق کی اپنی بحث ہے کہ نہ ائمہ مذہب سے منقول نہ محققین مابعد میں مقبول، خود ان کے تلمیذ علاّمہ قاسم بن قطلو بغا نے ف فرمایا: ہمارے شیخ کی جو بحثیں خلافِ مذہب ہیں اُن کا اعتبار نہ ہوگا۔


ف:ضروریہ خلاف مذہب بحثیں اگرچہ امام ابن الہمام کی ہوں مقبول نہیں جبکہ خلاف اختلاف زمانہ سے ناشی نہ ہو۔


اقول:  یعنی جب کہ خلاف، اختلافِ زمانہ سے ناشی نہ ہو، کماافتو بجواز الا جارۃ علی التعلیم والاذان والامامۃ وباخذ صاحب الحق من خلاف جنسہ اذظفر الی نظائر کثیرۃ۔ جیسے علماء نے تعلیم ، اذان اور امامت پر اجارہ کے جواز کا فتوی دیااور یہ فتوی دیا کہ صاحب حق اپنے حق سے مختلف جنس پاجائے تو اسے لے سکتا ہے (یعنی لینے والامثلا ظالم ہے اور صاحب حق کو ا پنی چیز ملنے کی امید نہیں تو اس کی قیمت کے مساوی ظالم کے مال سے جو ہاتھ لگے لے کر رکھ سکتاہے۔ ) اس کی بہت سی نظیریں ہیں۔(ت)

ردالمحتار جنایات الحج میں ہے: قد قال تلمیذہ العلامۃ قاسم ان ابحاثہ المخالفۃ للمذھب لاتعتبر۱؎ ان کے شاگرد علامہ قاسم نے کہا کہ حضرت محقق کی خلاف مذہب بحثوں کا اعتبار نہیں(ت)


 (۱؎ ردالمحتار  کتاب الحج  باب الجنایات      دار احیاء التراث العربی بیروت     ۲/ ۲۰۶)


اور خاص اس مسئلہ میں ان کے تلمیذ ارشد امام محمد محمد محمد ابن امیر الحاج نے بحثِ محقق پر تعویل درکنار سُنّیت بھی نہ مانی، صرف استحباب کو مرجح قرار دیا جسے خلاصہ میں مفاد ظاہر الراویۃ اور ھدایہ میں اصح فرمایا، حلیہ میں فرماتے ہیں: وانی لمتعجب ممن استدل بہ وحدہ علی الاستنان۱؂ (یرید حدیث انس قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ھل مع احد منکم ماء فوضع یدہ فی الاناء وقال توضوا بسم اللّٰہ قال فرأیت الماء یخرج من بین اصابعہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حتی توضوا من عند اٰخرھم وکانوا نحوا من سبعین اخرجہ النسائی۲؎ وابن خزیمۃ والبیھقی وقال انہ اصح مافی التسمیۃ ۳؎ وقال النووی اسنادہ جید۔ '' مجھے تو اس پرتعجب ہے جس نے صرف اس حدیث سے وضو میں تسمیہ کے مسنون ہونے پر استدلال کیا ''( اس سے مراد حضرت انس رضی اللہ علی عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ پانی ہے ؟ پھر دست مبارک برتن میں رکھا اور فرمایا اللہ کے نام سے وضو کرو ، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے لگا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کرلیا اور یہ ستر کے قریب تھے ۔ اسے نسائی ، ابن خزیمہ اور بیہقی نے روایت کیا اور بیہقی نے کہا ، یہ تسمیہ میں سب سے صحیح حدیث ہے ۔ اور نووی نے کہا اس کی سند جید ہے )


 (۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی ) 

(۲؎سنن نسائی     باب تسمیۃعند الوضوء      نور محمدکار خانہ تجارت کتب کراچی     ۱ /۲۵ )

(صحیح ابن خزیمہ     باب ذکر تسمیۃ اللہ عزوجل عند وضوء حدیث ۱۴۴  المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۴۷)

(السنن الکبریٰ     کتاب الطہارۃ باب تسمیۃ علی الوضوء      دار صادر بیروت ۱ /۴۳)

(۳؎ السنن الکبریٰ     کتاب الطہارۃ باب تسمیۃ علی الوضوء      دار صادر بیروت ۱ /۴۳)


اقول: وضعف دلالتہ علی استنان التسمیۃ لکل وضوء ظاھر فالظاھر انہ ھھنا لاستجلاب البرکۃ فی الماء القلیل واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اقول:  ہر وضو کے لئے تسمیہ کے مسنون ہونے پر اس حدیث کی دلالت کا کمزور ہونا واضح ہے اس لئے کہ ظاہر یہ ہے کہ یہاں پر بسم اللہ تھوڑے پانی میں برکت حاصل کرانے کیلئے ہے اور خدائے بر ترہی کو خوب علم ہے ۔


قال فی الحلیہ وکذلک غایۃ مایفیدہ الاستدلال الماضی بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولا وضوءلمن لم یذکر اسم اللّٰہ علیہ الاستحباب فانہ کما یثبت نفی الفضیلۃ والکمال بترک السنۃ  یثبت بترک المستحب فی الجملۃ فیترجح بھذا البحث القول بالاستحباب واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم بالصواب اھ ۱؎


آگے حلیہ میں فرمایا )'' اسی طر ح حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد'' اس کا وضو نہیں جس نے وضو پر خدا کا نام نہ ذکر کیا '' سے سابقا جو استدلال ہے اس سے زیادہ سے زیادہ استحباب مستفاد ہوتا ہے اس لئے کہ کامل وافضل وضو ہونے کی نفی جیسے ترک سنت سے ثابت ہوتی ہے فی الجملہ ترک مستحب سے بھی ثابت ہوتی ہے تو اس بحث سے اس کے استحباب ہی کا قول ترجیح پاتا ہے ، اور خدائے بزرگ و بر تر ہی صواب ودرستی کو خوب جانتا ہے اھ ۔(ت)


 ( ؎۱ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

ثانیا کہا گیا کہ خود امام محقق علی الاطلاق نے اسی کتاب کے باب شروط الصّلاۃ میں اپنی اس بحث سے رجوع کی اور فرمادیا کہ حق وہی ہے جو ہمارے علماء کا مذہب ہے کہ وضو میں بسم اللہ صرف مستحب ہے۔ردا لمحتار میں ہے۔


تعجب صاحب البحرمن المحقق ابن الہمام حیث رجح ھنا وجوبھا ثم ذکر فی باب شروط الصلاۃ ان الحق ما علیہ علماؤنا من انھا مستحبۃ کیف وقد قال الامام احمد لااعلم فیھا حدیثا ثابتا اھ ۲؎


صاحب بحر نے محقق ابن ہمام پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ یہاں تو انہوں نے وجوب تسمیہ کو ترجیح دی پھر شرائط نماز کے باب میں یہ ذکر کیا کہ حق اس کا استحباب ہی ہے جس پر ہمارے علماء ہیں ، اور کیوں نہ ہو جب کہ امام احمد نے فرمایا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثابت حدیث میرے علم میں نہیں اھ ۔ت)


 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الطہارت      دار احیا التراث العربی بیروت  ۱ /۷۵)


اقول :اللھم غفر ا  ( میں کہتا ہوں اے اللہ ! مغفرت فرما۔ ت)یہ سخت تعجب کا محل ہے فقیر نے رد المحتار پر جو حواشی لکھے ہیں ان میں اس قول پر لکھا،


اقول:  سبحن ف۱ من تنزہ عن النسیان والخطأ انما عبارۃ المحقق فی شروط الصلاۃ (فی الکلام علی الاستدلال بقولہ تعالٰی خذوا زینتکم عند کل مسجد علی لزوم سترالعورۃ فی الصلاۃ) بھذا القدر الحق ان الاٰیۃ ظنیۃ الدلالۃ فی سترالعورۃ فمقتضاھا الوجوب فی الصلاۃ ومنھم من اخذ منھا قطعیۃ الثبوت ومن حدیث ''لاصلاۃ لحائض الابخمار'' قطعیۃ الدلالۃ فی سترالعورۃ فیثبت الفرض بالمجوع وفیہ مالایخفی بعد تسلیم قطعیۃ الدلالۃ فی الحدیث والا فھو قداعترف فی نظیرہ من نحو ''لاوضوء لمن لم یسم ولاصلاۃ لجار المسجد'' انہ ظنی الدلالۃ ولاشک فی ذلک لان احتمال نفی الکمال قائم ۱؎


اقول:  پاکی ہے اسے جو خطا ونسیان سے منزہ ہے باری تعالی کا ارشاد ہے ، تم ہر نماز کے وقت اپنی آرائش اختیار کرو '' اس سے نماز کے اندرستر عورت کی فر ضیت کے استدلال پر ، کلام کرتے ہوئے شرا ئط نماز کی بحث میں محقق علی الاطلاق کی عبارت صرف اس قدر ہے ، حق یہ ہے کہ ستر عورت کے بارے میں اس آیت کی دلالت ظنی ہے اس لئے اس کا مقتضابس وجوب ہوگا نماز میں ۔ اور بعض حضرات نے ستر عورت کے بارے میں اس آیت سے قطعیت ثبوت لی اور حدیث '' لا صلوۃ الحائض الا بخمار ''  ( بالغہ کے لئے اوڑھنی کے بغیر نماز نہیں )سے قطعیت اثبات ودلالت لی اور دونوں کے مجموعے سے ستر کی فرضیت ثابت کی ، حالانکہ حدیث میں ستر پر دلالت کی قطعیت اگر مان لی جائے تب بھی اس استدلال پر جو کلام ہے وہ محتاج بیان نہیں ، ورنہ اس مستدل نے تو خود حدیث مذکور کی نظیر '' لا وضوء لمن لم یسم''  (جس نے بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں)اور '' لا صلوۃ لجار المسجد الا فی المسجد"  ( مسجدکے پڑوسی کے لئے نماز نہیں مگر مسجد ہی میں) وغیرہ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ وجوب پر ان سب کی دلالت ظنی ہے ۔ اور واقعۃ وجوب پر ان سب کی دلالت کے ظنی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ اس لئے کہ یہ احتمال موجود ہے کہ ان سب میں وضو ونماز کے کامل ہونے کی نفی ہو (اور لاصلوۃ ، لاوضوء کہہ کر حقیقت نماز اور حقیقت وضو کی نفی مقصودنہ ہو)


 (۲؎جد الممتار علٰی ردالمحتار     کتاب الطہارۃ      المجمع السلامی مبارک پور انڈیا        ۱/ ۹۶)


ف۱:معروضۃ۱۵علٰی ردالمحتار


والاوجہ الاستدلال بالاجماع علی الافتراض فی الصلاۃ کما نقلہ غیر واحد من ائمۃ النقل الی ان حدث بعض المالکیۃ فخالف فیہ کالقاضی اسمٰعیل وھو لایجوز بعد تقرر الاجماع اھ ۱؎ بلفظہ الشریف۔


اوجہ او رزیادہ مناسب یہ ہے کہ نماز میں فرضیت ستر پر اجماع کو دلیل میں پیش کیا جائے جیسا کہ متعدد ائمہ نقل نے اس پر اجماع نقل کیا ہے یہاں تک کہ مالکیہ میں بعض افراد ، جیسے قاضی اسمعیل ، پیدا ہوئے اور اس اجماع کی مخالفت کی جب کہ اجماع ثابت و مقرر ہوجانے کے بعد اس مخالفت کا کوئی جواز نہیں'' اھ بلفظہ الشریف


 (۱؎ فتح القدیر    باب شروط الصلوۃالتی تتقدمہا مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱ /۲۲۴)


ولیس فیہ من قولہ فالحق ماعلیہ وعلماؤنا الخ عین ولا اثر وانما ھومن کلام البحر حیث قال والعجب من الکمال ابن الھمام انہ فی ھذا الموضع نفی ظنیۃ الدلالۃ عن حدیث التسمیۃ بمعنی مشترکھا واثبتھا لہ فی باب شروط الصلاۃ بابلغ وجوہ الاثبات بان قال ولا شک فی ذلک لان احتمال نفی الکمال قائم فالحق ماعلیہ علماؤناالی اٰخر( مانقل الشامی۔فالعلامۃ الشامی رحمہ اللّٰہ تعالٰی لم یراجع ھھنا الی الفتح وظن ان الکلام کلہ منقول عنہ ''وانما ھو عنہ الی قولہ قائم وما بعدہ فمن البحر''۔)


اس میں بحر کے حوالے سے شامی کی بیان کردہ عبارت '' فالحق ماعلیہ علما ء و نا الخ ''  ( تو حق وہی ہے جس پر ہمارے علماء ہیں کہ وضو میں تسمیہ مستحب ہے ) کا کوئی نام ونشان نہیں دراصل وہ بحر کی عبارت ہے ، ان کے الفاظ اس طرح ہیں '' کمال ابن ہمام پر تعجب ہے کہ یہاں تو انہوں نے حدیث تسمیہ کے ظنی الدلالۃ بمعنی مشترک الدلالۃ ہونے کی نفی کی اور شرائط نماز کے باب میں بڑے شدومد کے ساتھ اس کا اثبات کیااور کہا : ولا شک فی ذالک لان احتمال نفی الکمال قائم، '' یعنی واقعۃ'' ان سب کی دلالت کے ظنی ہونے میں کوئی شک نہیں ، اس لئے کہ یہ احتمال موجود ہے کہ ان سب میں وضو ونماز کے کامل ہونے کی نفی ہو ، تو حق وہی ہے جس پر ہمارے علماء ہیں ، اس عبارت کے آخر تک جو علامہ شامی نے نقل کی ، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں فتح القدیر کی مراجعت نہ کی اور یہ خیال کرلیا کہ بحر کی ساری عبارت فتح ہی سے منقول ہے، حالانکہ اس میں فتح سے صرف لفظ ''قائم '' تک نقل ہے اس کے بعد کا کلام خود بحر کا ہے ،

ثم اقول:  العجب ف کل العجب من المحقق صاحب البحر کیف نسب ھھنا الی المحقق مالم یقلہ ولم یرِدہ فانہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی انما نفی ھھنا عن خبر التسمیۃ الظنیۃ بمعنی الاشتراک اعنی تساوی الاحتمالین کما یتساوی معنیا المشترک مالم تقم علی احدھما قرینۃ ولم یقل مکان قولہ مشترکھا، مشکوکہا اذلا شک فی الدلالۃ انما الشک فی تعیین المدلول ولم یعترف بھذا فی شروط الصّلاۃ انما اعترف بقیام الاحتمال ولم ینکرہ ھھنا بل قدصرح بہ( حیث قال نفی الکمال فیھما احتمال یقابلہ الظہور اھ ۱؎ ولاجل کونہ مرجوحاً لم یستنزل الحدیث عن افادۃ الوجوب کما قدمنا نقل کلامہ وھو بمرأی منک فلاتعارض بین کلامیہ اصلاً وباللّٰہ التوفیق۔۲؎


ثم اقول : سخت تعجب محقق صاحب بحر پر ہے کہ انہوں نے یہا ں محقق علی الاطلاق کی جانب ایک ایسی بات کیسے منسوب کردی جو نہ انہوں نے کہی ، نہ ہی وہ ان کا مقصود ہے اس لئے کہ حضرت محقق رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہاں جس بات کا انکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ حدیث تسمیہ میں ظنیت اثبات بمعنی اشتراک ہو ۔ اشتراک کا مطلب یہ کہ دونوں احتمال برابر ہوں جیسے مشترک کے دونوں معنی برابر ہوتے ہیں جب تک کہ کسی ایک پر کوئی قرینہ نہ قائم ہو ، اور انہوں نے لفظ مشترک الدلالۃ کے بجائے مشکوک الدلالۃ نہ کہا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ( دلالت تو دونوں معنوں پر موجود ہے ۱۲م) دلالت میں کوئی شک نہیں ، صرف مدلول کی تعیین میں شک ہے ، او رشرائط نماز میں اعتراف اس بات کا نہیں ، وہاں انہوں نے بس احتمال موجود ہونے کا اعتراف کیا ہے اس کا انکار یہا ں بھی نہیں ، بلکہ اس کی تو صراحت فرمائی ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں '' ان دونوں حدیثوں میں نفی کمال ایک ایسا احتمال ہے کہ ظاہر اس کی مخالفت کر رہا ہے اھ ''یعنی احتمال ہے مگر چونکہ مرجوع ہے اس لئے وہ حدیث کو افادہ وجوب کے درجے سے نیچے نہ لاسکے گا ، جسیا کہ ہم ان کی پوری عبارت پہلے نقل کر آئے ہیں ، اور وہ آپ کے سامنے ہے اس سے ثابت ہوا کہ ان کی دونوں مقام کی عبارتوں میں بالکل کوئی تعارض نہیں وباللہ التو فیق۔


ف: تطفل ۱۶ علی البحر الرائق


 (۱؎فتح القدیر     کتا ب الطہارات      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱ /۲۱)    

( ۲؎جد الممتار علی ردالمحتار     کتاب الطہارۃ      المجمع الاسلامی مبارکپور(الہند)     ۱ /۹۶)


ثمّ اشد العجب ف العجب علی العجب ان المحقق صاحب البحر فھم من کلام المحقق حیث اطلق رحمہما اللّٰہ تعالی انہ یدعی قطعیۃ دلالۃ الحدیث علی ایجاب التسمیۃ للوضوء حیث قال وقد اجاب (ای فی الفتح) عن قولھم لاواجب فی الوضوء بما حاصلہ ان ھذا الحدیث لما کان ظنی الثبوت قطعی الدلالۃ ولم یصرف صارف افاد الوجوب اھ ۱؎


پھر سخت حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ محقق صاحب بحر نے محقق علی الاطلاق رحمہما اللہ تعالی کے کلام سے یہ سمجھ لیا کہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ وضو کے لئے وجوب تسمیہ پر حدیث کی دلالت قطعی ہے ، بحر کے الفا ظ یہ ہیں فقہا نے فرمایا کہ وضو میں کوئی واجب نہیں ، اس کا فتح القدیر میں جو جواب دیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث جب ثبوت میں ظنی ، دلالت میں قطعی ہے اور اسے اس معنی سے پھیرنے والی کوئی چیز نہیں تو وہ وجوب کا افادہ کرے گی اھ ( اور وضو میں یہ واجب ( تسمیہ) اس حدیث کے پیش نظر ثابت ہوجائے گا ۱۲م)


ف: تطفل ۱۷آخرعلی البحر الرائق


 (۱؎ البحرا لرائق     کتا ب الطہارۃ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۱۹)


 اقول: ھذا نقیض ماصرح بہ المحقق فانہ انما قرر ان الحدیث ظنی الثبوت والدلالۃ جمیعا وحقق ان الثابت بمثلہ الوجوب دون الاستنان ا ذاکان احتمال الخلاف مرجوحا وقال ان الظن واجب الاتباع فی الادلۃ الشرعیۃ الاجتھادیۃ وھو متعلق بالاحتمال الراجح فیجب اعتبار متعلقہ ۲؎ اھ


اقول :یہ اس کے بالکل بر عکس ہے جس کی حضرت محقق نے صراحت فرمائی ، کیونکہ انہوں نے تو یہی تقریر فرمائی ہے کہ حدیث ، ثبوت اور دلالت دونوں میں ظنی ہے اور یہ تحقیق کی ہے کہ ایسی حدیث سے سنیت نہیں ،وجوب ثابت ہوتا ہے بشرطیکہ احتمال مخالف مرجوح ہو۔ اور انہوں نے فرمایا ہے کہ شریعت کی اجتہادی دلیلوں میں ظن کا اتباع واجب ہے اور ظن (احتمال راجح )کو ماننا واجب ہے اھ ،


 (۲؎ فتح القدیر،کتاب الطہارات، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھ ۱ /۲۱)


کما تقدم وقد نقلہ المحقق صاحب البحر بقولہ ان ارید بظنیھا مافیہ احتمال ولو مرجوحا فلا نسلم انہ لایثبت بہ الوجوب لان الظن واجب الاتباع وانکان فیہ احتمال ۱؎ اھ فسبحن من لایزل ولا ینسٰی۔


جیسا کہ پہلے ان کی یہ عبارت گزری ، اور اسے صاحب بحر نے بھی اپنے ان الفاظ میں نقل کیا ہے اگر ظنی الدلالۃ کا یہ مطلب لیا گیا ہے کہ وہ دلیل جس میں کوئی بھی دوسرا احتمال ہو اگر چہ مرجوح سہی ، تو ہم یہ نہیں مانتے کہ ایسی دلیل سے وجوب ثابت نہ ہوگا ، اس لئے کہ ظن کا اتباع واجب ہے اگر چہ اس میں کوئی اور احتمال موجود ہے اھ ، تو پاکی ہے اس ذات کے لئے جسے لغزش اور فراموشی نہیں۔


 (۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹)


ثم حاول المحقق ف صاحب البحر الرد علی المحقق حیث اطلق باختیار الشق الاول فقال مرادھم من ظنی الدلالۃ مشترکھا ولا شک انہ مشترک شرعی اطلق تارۃ وارید بہ نفی الحقیقۃ نحولا صلوۃ لحائض الابخمار ولا نکاح الابشھود واطلق تارۃ مراد بہ نفی الکمال نحولا صلاۃ للعبد الاٰبق ولا صلاۃ لجار المسجد الافی المسجد ۲؎ اھ


پھر محقق صاحب بحر نے پہلی شق اختیار کر کے محقق علی الاطلاق کی تردید کر نے کی کوشش کی ہے ، کہتے ہیں '' ظنی الدلالۃ سے علماء کی مراد مشترک الدلالۃ ہے ، اور اس میں شک نہیں کہ یہ مشترک شرعی ہے ، کبھی اس کا اطلاق ہوا اور اس سے نفی حقیقت مقصود ہوئی جیسے '' بالغہ کے لئے اوڑھنی کے بغیر نماز نہیں''اور گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ''اور کبھی اس کا ا طلاق ہوا اور نفی کمال مقصود رہی جیسے ''آقا کے پاس سے بھاگئے ہوئے غلام کی نماز نہیں'' اور مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں مگر مسجد میں، اھ


( ۲؎ بحرالرائق،کتاب الطہارۃ،  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹)


ف :تطفل ثالث علی ا لبحرالرائق وانتصارللامام ابن الہمام


اقول: المحقق لاینکر انہ یاتی لہذا وھذا کیف وقد نص بقیام احتمال نفی الکمال فی الموضعین من کلامہ انما یقول ان الاصل نفی الاصل ونفی الکمال خلاف الظاھر ولا ینفیہ ارادتہ حیث دعا الیہ الدلیل ومجرد استعمال لفظ فی معنیین لایجعلہ مشترکا فیھما متساوی الدلالۃ علیھما والا لارتفع المجاز من البین۔


اقول :حضرت محقق کو اس سے انکار نہیں کہ وہ اس کے لئے بھی آتا ہے اور اس کے لئے بھی (یعنی لائے نفی جنس کی نفی حقیقت اور نفی کمال دونوں معنی میں مستعمل ہونے سے انہیں انکار نہیں۱۲م) انکار کیسے ہوگا جبکہ اپنے کلام کے دونوں مقام پر انہوں نے نفی کمال کا احتمال موجود ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور وہ تو صرف یہ فرمارہے ہیں کہ اصل یہی ہے کہ اصل اور حقیقت کی نفی ہو ۔ اور کمال کی نفی خلاف ظاہر ہے اس کی تردید اس سے نہیں ہوسکتی کہ نفی کمال اس سے کسی ایسے مقام میں مراد لی گئی ہے جہاں دلیل اسی کی مقتضی ہے اور دومعنوں میں کسی لفظ کا محض مستعمل ہوجانا اسے ان دونوں میں مشترک اور دونوں پر برابر برابر دلالت کرنے والا نہیں بنا دیتا ورنہ مجاز کا وجود ہی ختم ہوجائے ۔


والعجب ف۱ من المحقق صاحب البحر نسی ھھنا ان مذھب ف۲ الحنفیۃ والجمہور ان لا اجمال فی نحولا صلاۃ الا بطھور انما ادعی الاشتراک القاضی ابو بکر البا قلانی من الشافعیۃ وقد تکفل بردہ علماؤنا فی کتبھم الزکیۃ۔ اورمحقق صاحب بحر پر تعجب ہے کہ وہ یہاں یہ بھول گئے کہ حنفیہ اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ '' لاصلوۃ الابطہور''     ( بغیر طہارت کے نماز نہیں) کے مثل میں کوئی اجمال نہیں ( یہاں صرف نفی حقیقت کا معنی ہے ، ایسا نہیں کہ دوسرے معنی کابھی احتمال مساوی موجود ہو اورتعیین کے لئے بیان متکلم کی حاجت ہو ۱۲م) اشتراک کے مدعی تو صرف قاضی ابوبکر باقلانی شافعی ہیں جن کی تردید کی ذمہ داری ہمارے علماء اپنی پاکیزہ کتا بوں میں پورے طور سے ادا کر چکے ہیں ۔


ف۱: تطفل۹ ۱رابع علی البحر۔ 

ف۲: لااجمال فی نحو لا صلوۃ الا بطہور ۔


ثم قال المحقق صاحب البحر فتعین نفی الحقیقۃ فی الاولیٰ بالاجماع وفی الثانی لانہ مشہور تلقتہ الامۃ بالقبول فتجوز الزیادۃ بمثلہ علی النصوص المطلقۃ کانت الشہادۃ شرطا  ۱؎ اھ


پھر محقق صاحب بحر لکھتے ہیں ، تو پہلی حدیث میں نفی حقیقت اجماع سے متعین ہوئی اور دوسری میں اس لئے کہ یہ حدیث مشہور ہے جو امت کے قبول عام سے سرفراز ہے ، ایسی حدیث سے نصوص مطلقہ پر کسی قید کا اضافہ ہوسکتا ہے اس لئے نکاح میں شہادت شرط ہوئی ۔''


 (۱؎ البحرالرائق ، کتاب الطہار ۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۱/۱۹)

اقول اولا ۳۹ مبنی ف۱ علی الاشتراک ونفی الحقیقۃ متعین بظہورہ وان اکتسب القطع بالاجماع۔


ا قول اولا: یہ ساری گفتگو (لائے نفی جنس کی مذکورہ دو معنوں میں ) مشترک ماننے کی بنیاد پر ہے (حالاں کہ اس کا اصلی معنی صرف ایک ہے نفی حقیقت اور دوسرا معنی مجازی ہے جس کے قرینے کی حاجت ہوتی ہے ۱۲م) اور پہلی حدیث میں نفی حقیققت متعین ہے اس لئے کہ وہی ظاہر ہے اگر چہ اس معنی کو اجماع کے باعث قطعیت بھی حاصل ہوگئی ہے ۔ (ورنہ معنی حقیقی متعین ہونے کے لئے ظہور اور تبادر ذہنی کافی ہوتا ہے ۱۲م)


ف۱ : تطفل ۲۰خامس علی البحر


وثانیا۴۰ف۲ ماذکر فی الثانی ان حققت یکن حجۃ علیہ فان تلقی الامۃ بالقبول بمعنی نفی الصحۃ غیر مسلم لخلاف امام دار الہجرۃ ومن معہ فلم یبق الاتلقی الحدیث بالقبول فیفید قطعیۃ الثبوت فقط فلوکان مشترک الدلالۃ  تقاعد عن صلوح الزیادۃ بہ علی الکتاب من قبل الدلالۃ وان تکامل من جہۃ الثبوت۔


ثانیا :حدیث ثانی کے بارے میں جو بیان کیا اگر اس کی تحقیق کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ تو ان کے خلاف حجت ہے اس لئے کہ اس سے اگر یہ مراد ہے کہ اس حدیث میں گواہوں کے بغیر نکاح کے عدم جواز کا معنی امت کے قبول عام سے سر فراز ہے تو یہ تسلیم نہیں اس لئے کہ امام مالک اور ان کے موافق حضرات اس کے خلاف ہیں (وہ بغیر شہادت کے بھی نکاح جائز مانتے ہیں ۱۲م) اور اگر یہ مراد ہے کہ یہ حدیث قبول عام سے سر فراز ہے یعنی امت نے اسے حدیث رسول مانا ہے اور اس کے ثبوت سے کسی کو انکار نہیں تو اس کا مفاد بس اتنا ہوا کہ حدیث قطعی الثبوت ہے ۔ اب اگر (بقول بحر کے ) اثبات اور دلالت کے معاملے میں یہ ظنی اور مشترک ہے تو ثبوت کی جہت سے کامل اور بلند پایہ ہو کر بھی دلالت کی جہت سے قاصر اور فروتر ہوگی جس کے با عث وہ اس قابل نہ رہ جائے گی کہ اس سے قرآن پر زیادتی ہوسکے


ف ۲تطفل۲۱ سادس۔


وثالثاف۳ اشتراط الشہادۃ للصحۃ لایقضی بنفی الحقیقۃ بدونھا فان الحق کما حققت فیما علقت علی ردالمحتار الفرق بین باطل النکاح وفاسدہ وقد قال فی الدر المختار یجب مھر المثل فی نکاح فاسد وھوالذی فقد شرطا من شرائط الصحۃ کشھود ۱؎ اھ


ثالثا :صحت نکاح کے لئے شرط شہادت کا تقاضا یہ نہیں کہ اس کے بغیر حقیقت نکاح کا وجود ہی نہ ہوسکے ، اس لئے کہ حق یہ ہے کہ نکاح باطل اور نکاح فاسد میں فر ق ہے جیسا کہ میں نے اس کی تحقیق رد المحتار پر اپنے رقم کردہ حواشی میں کی ہے اور درمختار میں ہے نکاح فاسد میں مہر مثل واجب ہے ، نکاح فاسد وہ ہے جس میں صحت نکاح کی کوئی شرط مفقود ہو ، جیسے گواہوں کا ہونا اھ ،


 (۱؎ الدرالمختار، کتاب النکاح، باب المہرمکتبہ مجتبائی دہلی ، ۱ /۲۰۱)


ف :۳تطفل۲۲ سابع۔


بہ صرح فی النھر بل قد نقل البحر مقرا ان کل نکاح اختلف العلماء فی جوازہ کالنکاح بلا شہود فالد خول فیہ یوجب العدۃ اما نکاح منکوحۃ الغیر فلم یقل احد بجوازہ فلم ینعقد اصلا اھ ۱؎


او رالنہر الفائق میں بھی اسی کی تصریح ہے بلکہ خود صاحب بحر نے درج ذیل عبارت نقل کر کے بر قرار رکھی ہے ،ہر وہ نکاح جس کے جائز ہونے میں علماء کا اختلاف ہوا س میں مباشرت سے عدت واجب ہوجاتی ہے جیسے بغیر گواہوں کے نکاح لیکن دوسرے کی منکوحہ سے نکاح تو کوئی بھی اس کے جواز کا قائل نہیں اس لئے تو وہ سر ے سے منعقد ہی نہ ہوا ۔ اھ۔


 ( ۱؎ البحرالرائق کتاب الطلاق باب العدۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۴ /۱۴۴)


ثم قال فعند عدم المرجح لاحد المعنیین کان الحدیث ظنیا وبہ تثبت السنۃ ومنہ حدیث التسمیۃ اھ ۲؎


پھر فرماتے ہیں تو جب دومعنوں میں سے کسی کو تر جیح دینے والا کوئی امر نہ ہو توحدیث ظنی ہوگی اور اسی سے سنت ہونا ثابت ہوتا ہے حد و ضو میں تسمیہ والی حدیث بھی ایسی ہے اھ ۔


 (۲؎ البحرالرائق،کتاب الطہارۃ      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۱ /۱۹)


اقول:  اولاف۱ اکفی بالظھور مرجحا۔ اولا ترجیح کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ معنی ظاہر ہو ۔


ف۱ تطفل۲۳ ثامن ۔


وثانیا: مبنی ف۲ علی ماسبق الیہ ذھنہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی من ان المحقق یدعی الوجوب بناء علی ادعاء قطعیہ الدلالۃ وقد علمت انہ ضدما صرح المحقق۔


ثانیا :اس گفتگو کی بنیاد بھی اسی خیال پر ہے جس کی طر ف صاحب بحر رحمہ اللہ تعالی کا ذہن پہلے جاچکا کہ حضرت محقق وجوب تسمیہ کے مدعی اس بنیاد پر ہیں کہ وہ وجوب پر دلالت حدیث کے قطعی ہونے کا دعوی رکھتے ہیں ، حالاں کہ واضح ہوچکا کہ یہ خیال خود حضرت محقق کی تصریحات کے بر عکس ہے ۔


ف ۲تطفل۲۴ تاسع۔


وثالثا : ف قولہ بہ تثبت السنۃ ذھول عما حقق المحقق من ان الظنیۃ ولو فی جانبی الثبوت والاثبات لایقعد الطلب الجازم عن افادۃ الایجاب کما قدمنا تحقیقہ ھذا مامست الحاجۃ الیہ للاحقاق والانتصار للمحقق علی الاطلاق ولنرجع الی ماکنا فیہ۔


ثالثا :صاحب بحر نے کہا ، اس سے (یعنی ظنی الدلالۃ حدیث سے ) سنت ہونا ثابت ہوتا ہے اس میں اس تحقیق سے ذہول ہے جو حضرت محقق نے رقم فرمائی کہ ظنیت طلب جزمی کو افادہ وجوب کے مرتبے سے نیچے نہیں لاتی اگرچہ ثبوت اور اثبات دونوں ہی جانب ظنیت ہو ، جیسا کہ ہم اس کی تحقیق پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ یہ وہ کلام تھا جو احقاق حق اور حضرت محقق علی الاطلاق کی حمایت اور دفاع کی حاجت کے با عث قلم بند ہوا ۔ اب پھر ہم اپنی سابقہ گفتگو پر لوٹ آئیں ۔(ت)


ف: تطفل۲۵ عاشر


ثالثا :اگر اس بحث محقق پر لحاظ بھی ہو تو بسم اللہ واجب للوضوء ہوگی نہ کہ فی الوضوء، اور ہمارا کلام افعال داخلہ فی الوضوء میں ہے کماعلمت (جیسا کہ واضح ہوا۔ ت)


ھذا والکلام وان افضی الی قلیل تطویل فقد اتی بحمد اللّٰہ بجزیل تحصیل والحمد للّٰہ علی ماعلم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا واٰلہ وصحبہ وسلم واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم ،واذ خرجت العجالۃ فی صورۃ الرسالۃ سمیتھاالجود الحلو فی ارکان الوضوء ۱۳۲۴ھ ،والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔


یہ بحث تمام ہوئی ، اور کلام  اگرچہ ذرا طویل ہوگیا مگر بحمدہ تعالی بہت مفید ہوا------ اور تمام تعریف خدا ہی کے لئے ہے اس پر جو اس نے علم دیا اور ہمارے آقا اور ان کی آل واصحاب پر خدائے بر تر کا درودو سلام ہو------- اور خدائے پاک وبر تر کو ہی خوب علم ہے ------ اور جب یہ عجالہ (عجلت میں لکھا جانے والا مضمون) ایک رسالہ کی صورت اختیار کر گیا تو میں نے اس کا نام یہ رکھا ۔الجود الحلو فی ارکان الوضوء ۱۳۲۴ھ( ارکان وضو کے بیان میں باران شیریں) اور تمام ستائش خدا کے لئے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔


 (رسالہ الجود الحلوفی ارکان الوضوء ختم ہوا )


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے