Music

header ads

بے جا پانی خرچ کرنے کے حکم کے بار ے میں آسمانی برکات Pani Fuzool Kharch karne ke bare me hukm

 رسالہ برکات السماء فی حکم اسراف الماء

(بے جا پانی خرچ کرنے کے حکم کے بار ے میں آسمانی برکات )


امر پنجم  : طہارت فــــ میں بے سبب پانی زیادہ خرچ کرنا کیا حکم رکھتا ہے۔


فــــ:مسئلہ وضو یا غسل میں بے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے کا کیا حکم ہے اور اس باب میں مصنف کی تحقیق مفرد ۔


اقول :  ملاحظہ کلمات علما ء سے اس میں چار قول معلوم ہوتے ہیں، ان میں قوی تر دو ہیں اور فضلِ الٰہی سے امید ہے کہ بعد تحقیق وحصول توفیق اختلاف ہی نہ رہے وباللہ التوفیق۔


 (۱) مطلقاً حرام وناجائز ہے حتی کہ اگر نہر جاری میں وضو کرے یا نہائے اُس وقت بھی بلاوجہ صرف گناہ وناروا ہے یہ قول بعض شافعیہ کا ہے جسے خود شیخ مذہب شافعی سیدنا امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں نقل فرماکر ضعیف کردیا اور اسی طرح دیگر محققین شافعیہ نے اُس کی تضعیف کی۔


 (۲) مکروہ ہے اگرچہ نہر جاری پر ہو اور کراہت صرف تنز یہی ہے۔ اگرچہ گھر میں ہو یعنی گناہ نہیں صرف خلاف سنت ہے حلیہ وبحرالرائق میں اسی کو اوجہ اور امام نووی نے اظہر اور بعض دیگر ائمہ شافعیہ نے صحیح کہا اور حکم آب جاری کو عام ہونے سے قطع نظر کریں تو کلام امام شمس الائمہ حلوانی وامام فقیہ النفس سے بھی اُس کا استفادہ ہوتا ہے ہاں شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں عموم کی طرف صاف اشارہ کیا،


اور امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں فرمایا: اجمع العلماء علی النھی عن الاسراف فی الماء ولوکان علی شاطیئ البحر والاظھر انہ مکروہ کراھۃ تنزیہ وقال بعض اصحابنا الاسراف حرام ۱؎۔


اس پر علماء کا اجماع ہے کہ پانی میں اسراف منع ہے اگرچہ سمندرکے کنارے پرہو،اوراظہریہ ہے کہ مکروہِ تنزیہی ہے ،اورہمارے بعض اصحاب نے فرمایاکہ اسراف حرام ہے۔(ت)


(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی کتا ب الطہارۃ     باب القدر المستحب من الماء الخ    دارالفکر بیروت     ۲ /۱۳۷۴)


منیہ وحلیہ میں فرمایا: م  ولا یسرف فی الماء ۲؎   ش   ای لا یستعمل منہ فوق الحاجۃ الشرعیۃ ۳؎ م


(م کے تحت متن کے الفاظ ہیں ش کے تحت شرح کے۱۲م) م پانی میں اسراف نہ کرے ش یعنی حاجتِ شرعیہ سے زیادہ پانی استعمال نہ کرے۔


(۲؎ منیۃ المصلی    آداب الوضوء        مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۲۹)

(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)


وان کان علی شط نھر جار ۱؎ ش ذکر شمس الائمۃ الحلوانی انہ سنۃ وعلیہ مشی قاضی خان وھو اوجہ کما ھو غیر خاف فالاسراف یکون مکروھا کراھۃ تنزیہ وقد صرح النووی انہ الاظھر وحکی حرمۃ الاسراف عن بعض اھل مذھبہ وعبارۃ بعض المتأخرین منھم والزیادہ فی الغسل علی الثلث مکروہ علی الصحیح وقیل حرام وقیل خلاف الاولی ۲؎


م اگرچہ بہتے دریاکے کنارے ش شمس الائمہ حلوانی نے ذکرکیا کہ یہ سنت ہے۔اسی پر قاضی خاں چلے اور یہ اَوجہ ہے جیساکہ پوشیدہ نہیں۔تواسراف مکروہ تنزیہی ہوگا۔ اور امام نووی نے اس کے اظہر ہونے کی تصریح کی اوراسراف کا حرام ہونا اپنے بعض اہل مذہب سے حکایت کیا اوران حضرات شافعیہ کے بعد متاخرین کی عبارت یہ ہے : تین بار سے زیادہ دھونا صحیح قول پر مکروہ ہے او ر کہا گیا کہ حرام ہے اور کہا گیا کہ خلاف اولٰی ہے (ت)


(۱؎ منیۃ المصلی    آداب الوضوء        مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۲۹)

(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)


بحرالرائق میں ہے: الاسراف ھو الاستعمال فوق الحاجۃ الشرعیہ وان کان علی شط نھر وقد ذکر قاضی خان ترکہ من السنن ولعلہ الاوجہ فیکون مکروھا تنزیھا۳؎۔


اسراف یہ ہے کہ حاجت شرعیہ سے زیادہ استعمال کرے اگرچہ دریاکے کنارے ہو، اور قاضی خاں نے ذکرکیا ہے کہ اس کا ترک سنت ہے اور شاید یہی اَوجہ ہے تواسراف مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)


(۳؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)


(۳) مطلقا مکروہ تک نہیں نہ تحریمی نہ تنزیہی صرف ایک ادب وامر مستحب کے خلاف ہے بدائع امام ملک العلما ابو بکر مسعود وفتح القدیر امام محقق علی الاطلاق ومنیۃ المصلی وغیرہا میں ترک اسراف کو صرف آداب ومستحبات سے شمار کیا سنت تک نہ کہا اور مستحب کا ترک مکروہ نہیں ہوتا بلکہ سنت کا۔


حلیہ میں ہے : قال فی البدائع والادب فیما بین الاسراف والتقتیر اذالحق بین الغلو والتقصیر قال النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خیر الامور اوسطہا انتھی وذکر الحلوانی انہ سنہ فعلی الاول یکون الاسراف غیر مکروہ وعلی الثانی کراھۃ تنزیہ ۱؎۔


بدائع میں فرمایا ادب اسراف اور تقتیر(زیادتی اورکمی) کے درمیان ہے اس لئے کہ حق ،غلو اور تقصیر(حد سے تجاوز اور کوتاہی)کے مابین ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:کاموں میں بہتر درمیانی ہیں، انتہی۔اور امام حلوانی نے ذکرفرمایاکہ ترکِ اسراف سنّت ہے توقول اول کی بنیاد پر اسراف مکروہ نہ ہوگا اورثانی کی بنیاد پر مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)


(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


بحر میں ہے  : فی فتح القدیر ان المندوبات نیف وعشرون ترک الاسراف والتقتیر وکلام الناس ۲؎ الخ فعلی کونہ مندوبا لایکون الاسراف مکروھا وعلی کونہ سنۃ یکون مکروھا تنزیھا۔


فتح القدیر میں ہے کہ مندوباتِ وضو بیس(۲۰) سے زیادہ ہیں۔اسراف وتقتیر اورکلام دنیاکاترک الخ۔توترک مندوب ہونے کی صورت میں اسراف مکروہ نہ ہوگااورسنّت ہونے کی صورت میں مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)


(۲؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۸)


غنیہ میں ہے:  (و) من الاداب (ان کان یسرف فی الماء) کان ینبغی ان یعدہ فی المناھی لان ترک الادب لاباس بہ ۳؎۔


 (اور)آداب میں سے یہ ہے کہ (پانی میں اسراف نہ کرے) اسے ممنوعات میں شمارکرناچاہئے تھا اس لئے کہ ترکِ ادب میں توکوئی حرج نہیں۔(ت)


 (۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک     سہیل اکیڈمی لاہور    ص۳۴)


اقول : طہارت فـــــــ میں ترک اسراف کا صرف ایک ادب ہونا مذہب وظاہر الروایۃ ونص صریح محرر المذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے، امام بخاری نے خلاصہ فصل ثالث فی الوضوء میں ایک جنس سنن وآداب وضو میں وضع کی اُس میں


فرمایا:فــ : تطفل علی الغنیۃ ۔


اما سنن الوضوء فنقول من السنۃ غسل الیدین الی الرسغین ثلثا ۱؎الخ


لیکن وضو کی سنتیں،توہم کہتے ہیں سنت ہے دونوں ہاتھ گٹوں تک تین بار دھونا الخ۔(ت)


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی      کتاب الطہارۃ الفصل الثالث     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۲۱)


پھر سُنتیں گنا کر فرمایا: واما اداب الوضوء فی الاصل من الادب ان لایسرف فی الماء ولا یقتر ان یشرب فضل وضوئہ اوبعضہ قائما اوقاعدا مستقبل القبلۃ ۲؎ الخ


رہے آدابِ وضو، تو اصل(مبسوط) میں ہے کہ ادب یہ ہے کہ پانی میں نہ اسراف کرے نہ کمی کرے اور اپنے وضو کا بچا ہوا کُل یا کچھ پانی کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر قبلہ رُوپی جائے الخ۔(ت)


(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی      کتاب الطہارۃ الفصل الثالث     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۲۵)


اُسی کا بدائع وفتح القدیر ومنیہ وخلاصہ وہندیہ وغیرہا میں اتباع کیا اور اُس سے زائد کس کا اتباع تھا تو اُس پر مواخذہ محض بے محل ہے واللہ الموفق۔

(۴) نہر جاری میں اسراف جائز کہ پانی ضائع نہ جائے گا اور اس کے غیر میں مکروہ تحریمی۔ مدقق علائی نے درمختار میں اسی کو مختار رکھا علامہ مدقق عمر بن نجیم نے نہر الفائق میں کراہت تحریم ہی کو ظاہر کہا اور اُسی کوامام قاضی خان وامام شمس الائمہ حلوانی وغیرہما اکابر کا مفاد کلام قرار دیا کہ ترک اسراف کو سنّت کہنے سے اُن کی مراد سنتِ مؤکدہ ہے اور سنتِ مؤکدہ کا ترک مکروہ تحریمی، نیز مقتضائے کلام امام زیلعی کہ مطلق مکروہ سے غالباً مکروہ تحریمی مراد ہوتا ہے۔ اور بحرالرائق میں اسے قضیہ کلام منتقٰی بتایا کہ اُس میں اسراف کو منہیات سے شمار فرمایا اور ہر منہی عنہ کم ازکم مکروہ تحریمی ہے۔


اقول :  اور یہی عبارت آئندہ جواہر الفتاوٰی سے مستفاد


لفحوٰھا اذا لمفاھیم فـــ معتبرۃ فی الکتب کما فی الدر والغمز والشامی وغیرھا والقضیۃ دلیلہا ایضا کما لایخفی۔


اس کے مضمون وسیاق کے پیش نظر کیونکہ کتابوں میں مفہوم معتبرہوتاہے جیسا کہ درمختار،غمز العیون اورشامی وغیرہا میں ہے۔اوراس کے مقتضائے دلیل کے پیش نظر بھی، جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔(ت)


فـــ :المفاہیم معتبرۃ فی الکتب بالاتفاق۔


شرح تنویر میں ہے: بل فی القہستانی معزیا للجواھر الاسراف فی الماء الجاری جائز لانہ غیر مضیع فتامل ۱؎۔


بلکہ قہستانی میں جوہر کے حوالے سے ہے کہ بہتے پانی میں اسراف جائز ہے اس لئے کہ پانی بے کار نہ جائے گا، تو تامل کرو۔(ت)


(۱؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ      مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۲)


پھر فرمایا: مکروھہ الاسراف فیہ تحریما لوبماء النھر ولمملوک لہ اما الموقوف علی من یتطھر بہ ومنہ ماء المدارس فحرام ۲؎۔


پانی میں اسراف مکروہ تحریمی ہے اگر دریاکاپانی یااپنی ملکیت کاپانی استعمال کرے لیکن طہارت حاصل کرنے والوں کے لئے وقف شدہ پانی ہوجس میں مدارِس کا پانی بھی داخل ہے تواسراف حرام ہے۔(ت)


(۲؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ          مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۴)


بحر میں ہے: صرح الزیلعی بکراھتہ وفی المنتقی انہ من المنھیات فتکو ن تحریمیۃ ۳؎۔


امام زیلعی نے اس کے مکروہ ہونے کی صراحت فرمائی اورمنتقٰی میں اسے منہیات سے شمار کیا تویہ مکروہِ تحریمی ہوگا۔(ت)


(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۲۹)


منحۃ الخالق میں نہر سے ہے: الظاھر انہ مکروہ تحریما اذ اطلاق الکراھۃ مصروف الی التحریم فما فی المنتقی موافق لما فی السراج عـــہ والمراد بالسنۃ المؤکدۃ لاطلاق النھر عن الاسراف وبہ یضعف جعلہ مندوبا ۱؎۔


ظاہریہ ہے کہ اسراف مکروہِ تحریمی ہے اس لئے کہ کراہت مطلق بولی جائے تو تحریمی کی جانب پھیری جاتی ہے تو منتقٰی کا کلام سراج کے مطابق ہے اورسنت سے مراد سنتِ مؤکدہ ہے اس لئے کہ اسراف سے مطلقاً نہی ہے اور اسی سے اُسے مندوب قراردیناضعیف ہوجاتا ہے۔(ت)


( ۱ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق     کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)


عـــہ: قال فی المنحۃ صوابہ لما فی الخانیۃ کما لایخفی اذلا ذکر للسراج فی قولہ ولافی الشارح ۱؎ ای صاحب البحر


وانا اقول :  ھذا بعید خطا ومعنی اما الاول فظاھر اذ لامناسبۃ بین لفظی السراج والخانیۃ واما الثانی ف فلان النھر فرع موافقۃ المنتقی المصرح بکونہ من المنھیات علی اطلاق الکراھۃ فان مطلقھا یحمل علی التحریم ولا ذکر للکراھۃ فی عبارۃ الخانیۃ نعم اراد توجیہ ما فی الخانیۃ الی مااستظھرہ بقولہ بعد والمراد بالسنۃ ۲؎الخ واقرب خطا ومعنی بل الذی یجزم السامع بانہ ھو الواقع فی اصل نسخۃ النھر فحرفہ الناسخ ان نقول صوابہ لمافی الشرح والمراد بالشرح التبیین فی شرح مشروح البحر والنھر الکنز للامام الزیلعی فانہ ھو الذی صرح بالکراھۃ واطلقہا ونقلہ البحر وقرنہ بکلام المنتقی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ اھ عفی عنہ


منحۃ الخالق میں ہے صحیح یہ کہنا ہے کہ ''خانیہ کے مطابق'' جیسا کہ پوشیدہ نہیں اس لئے کہ سراج کا کوئی تذکرہ نہ تو کلامِ نہر میں ہے نہ کلامِ شارح یعنی کلامِ بحر میں ہے۔


اقول :  یہ خط اورمعنی دونوں اعتبار سے بعید ہے اول توظاہر ہے اس لئے کہ لفظ''سراج'' اورلفظ ''خانیہ'' میں کوئی مناسبت نہیں۔ اورثانی اس لئے کہ کلام منتقی جس میں اسراف کے منہیات سے ہونے کی تصریح ہے اس کی کلام دیگرکے ساتھ مطابقت کی تفریع صاحبِ نہر نے اس پرفرمائی ہے کہ کراہت مطلق بولی جاتی ہے تو کراہت تحریم پرمحمول ہوتی ہے اور عبارت خانیہ میں کراہت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ہاں انہوں نے کلام خانیہ کی توجیہ اس عبارت سے کرنی چاہی ہے جو بعد میں لکھی ہے کہ سنت سے مراد سنتِ مؤکدہ ہے الخ۔رسم الخط اورمعنی دونوں لحاظ سے قریب تربلکہ جسے سننے کے بعد سامع جزم کرے کہ یقینا نہر کے اصل نسخہ میں یہی ہوگا اور کاتب نے تحریف کردی ہے یہ ہے کہ ہم کہیں صحیح عبارت ''موافق لمافی الشرح'' ہے، یعنی کلام منتقی اس کے مطابق ہے جوشرح میں ہے۔ اورشرح سے مرادامام زیلعی کی تبیین الحقائق ہے جو البحر الرائق اور النہر الفائق کے متن کنزالدقائق کی شرح ہے۔اسی میں کراہت کی صراحت اور اطلاق ہے اسی کوصاحبِ بحر نے نقل کیا اور اس کے ساتھ منتقٰی کا کلام ملادیا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)


فــ: معروضۃ علی العلامۃ ش۔


( ۱ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق     کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)

(۲ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق     کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)


التنبیہ الاول : عرض العلامۃ الشامی نورقبرہ السامی بالمحقق صاحب البحر انہ تبع قولا لیس لاحد من اھل المذھب حیث قال ''قولہ تحریما الخ نقل ذلک فی الحلیۃ عن بعض المتاخرین من الشافعیۃ وتبعہ علیہ فی البحر وغیرہ ۲؎الخ


تنبیہ(۱) علامہ شامی'' نور قبرہ السامی''نے محقق صاحبِ بحرپرتعریض فرمائی کہ انہوں نے ایک ایسے قول کااتباع کر لیا جو اہل مذہب میں سے کسی کانہیں،اس طرح کہ وہ درمختار کے قول تحریماالخ کے تحت لکھتے ہیں: اسے حلیہ میں بعض متاخرین شافعیہ سے نقل کیا ہے جس کی پیروی صاحبِ بحر وغیرہ نے کرلی ہے الخ۔


(۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ             دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۹)


اب بتوفیق اللہ تعالٰی یہاں تحقیق مقام وتنقیح مرام وتصحیح احکام ونقض وایرام کیلئے بعض تنبیہات نافعہ ذکر کریں۔


اقول :  لم یتبعہ فـــ البحر بل استوجہ کراھۃ التنزیہ ثم نقل عن الزیلعی کراھتہ وعن المنتقی النھی عنہ وافاد ان مقتضاہ کراھۃ التحریم وھذا لیس اختیار الہ بل اخبار عما یعطیہ کلام المنتقی کما اخبر اولا ان قضیۃ عدم الفتح ترکہ من المندوبات عدم کراھتہ اصلا فلیس فیہ میل الیہ فضلا عن الاتباع علیہ ولا سیما لیس فی کلامہ التنصیص بجریان الحکم فی الماء الجاری والاطلاق لایسد ھھنا مسد الفصاح بالتعمیم للفرق البین بالتضییع وعدمہ فکیف یجعل متابعا للقول الاول وعن ھذا ذکرنا کل من قضیۃ کلام المنع فی القول الرابع دون الاول اذلا ینسب الا الی من یفصح بشمول الحکم النھر ایضا نعم تبعہ علیہ فی الغنیۃ اذقال الاسراف مکروہ بل حرام وان کان علی شط نھر جار لقولہ تعالی ولا تبذر ۱؎ تبذیرا اھ


    اقول :  صاحبِ بحر نے ا س کی پیروی نہیں کی بلکہ انہوں نے مکروہ تنزیہی ہونے کو اَوجَہ کہا پھر امام زیلعی سے اس کا مکروہ ہونا اور منتقی سے منہی عنہ ہونانقل کیا اور افادہ کیا کہ اس کا مقتضاکراہت تحریم ہے۔یہ اس قول کواختیار کرنا نہ ہوا بلکہ منتقٰی سے جو مفہوم اخذ ہوتا ہے اسے بتانا ہوا جیسے اس سے پہلے انہوں نے بتایاکہ صاحبِ فتح کے ترک اسراف کومندوبات سے شمارکرنے کا مقتضایہ ہے کہ اسراف بالکل مکروہ نہ ہوتواس میں اس کا اتباع درکناراس کی جانب میلان بھی نہیں ،خصوصاً جبکہ ان کے کلام میں آبِ رواں کے اندرحکمِ اسراف جاری ہونے کی تصریح بھی نہیں۔اورمطلق بولنا اس مقام پرحکم کوصاف صریح طورپرعام قراردینے کے قائم مقام نہیں ہوسکتااس لئے کہ پانی کوضائع کرنے اور نہ کرنے کا بیّن فرق موجود ہے توانہیں قول اول کا متبع کیسے ٹھہر ایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے جن حضرات کے کلام کامقتضا ممانعت ہے انہیں ہم نے قول چہارم میں ذکر کیا،قول اول کے تحت ذکر نہ کیا اس لئے کہ قولِ اوّل اسی کی جانب منسوب ہوسکتا ہے جو صاف طور پر اس کا قائل ہوکہ اسراف کاحکم دریا کوبھی شامل ہے۔ہاں اس قول کی پیروی غنیہ میں ہے کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں: اسراف مکروہ بلکہ حرام ہے اگرچہ نہر جاری کے کنارے ہو اس لئے کہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے ولا تبذر تبذیرا اور فضول خرچی نہ کر اھ۔(ت)


فـــ: معروضۃ ثالثۃ علیہ ۔


(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک     سہیل اکیڈمی لاہور    ص۳۵۔۳۴)

التنبیہ الثانی  : کان عرّض علی البحر واتی بالتصریح علی الدر فقال ماذکرہ الشارح ھنا قد علمت انہ لیس من کلام مشائخ المذھب ۲؎ اھ


    تنبیہ(۲): صاحبِ بحر پر تو تعریض کی تھی اورصاحبِ درمختار کے معاملہ میں توتصریح کردی اور لکھا کہ:''شارح نے یہاں جو بیان کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ مشائخ مذہب میں سے کسی کاکلام نہیں''اھ


(۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ             دار ا حیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۹۰)


اقول :  والدر فــ ایضا مصفی عن ھذا الکدر کدر مکنون وانما اغتر المحشی العلامۃ بقولہ لوبماء النھر ولم یفرق بین تعبیری التوضی من النھر وبماء النھر ورأیتنی کتبت ھھنا علی الدر قولہ لوبماء النھر۔


    اقول :  اس کدورت سے دُربھی کسی دُرِّ مکنون کی طرح صاف ہے۔ علامہ محشی کو درمختار کے لفظ''لوبماء النھر''سے دھوکا ہوا اور التوضّی من النھراور التوضّی بماء النھر(دریا سے وضو کرنا اوردریا کے پانی سے وضو کرنا)کی تعبیروں میں فرق نہ کرسکے۔یہاں دُرِ مختار کے قول ''لو بماء النھر'' پردیکھا کہ میں نے یہ حاشیہ لکھا ہے:


 فـــ: معروضۃ رابعۃ علیہ


اقول :  ای فی الارض لافی النھر واراد تعمیم الماء المباح والمملوک اخراجا للماء الموقوف فلا ینافی ماقدمہ عن القھستانی عن الجواھر ۳؎ ماکتبت علیہ۔


    اقول :  (پانی میں اسراف مکروہ تحریمی ہے اگر نہر کے پانی سے طہارت حاصل کرے) یعنی نہر کے پانی سے زمین میں (وضوکرے) نہر کے اندرنہیں انہوں نے وقف شدہ پانی کو خارج کرنے کے لئے حکم آب مباح اورآب مملوک کو عام کرنا چاہا ہے تو یہ اس کے منافی نہیں جو وہ قہستانی کے حوالے سے جواہر سے سابقاً نقل کرچکے۔ اھ۔میرا حاشیہ ختم ہوا۔


(۳؎جد الممتار علی رد المحتا ر کتاب الطہارۃ المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ (ہند )۱ /۹۹)


ومما اکد الاشتباہ علی العلامۃ المحشی ان المحقق الحلبی فی الحلیۃ نقل مسألۃ الماء الموقوف وماء المدارس عن عبارۃ الشافعی المتأخر۔فتمامھا بعد قولہ مکروہ علی الصحیح وقیل حرام وقیل خلاف الاولی ومحل الخلاف مااذا توضا ء من نھر اوماء مملوک لہ فان توضأ من ماء موقوف حرمت الزیادۃ والسرف بلا خلاف لان الزیادۃ غیر ماذون فیھا وماء المدارس من ھذا القبیل لانہ انما یوقف ویساق لمن یتوضؤ الوضوء الشرعی ولم یقصدا باحتہا لغیر ذلک ۱؎اھ


    اور علامہ شامی کے اشتباہ کو تقویت اس سے بھی ملی کہ محقق حلبی نے آب موقوف اور آب مدارس کا مسئلہ شافعی متاخر کی عبارت سے نقل کیا کیونکہ ان شافعی کے قول'' مکروہ برقولِ صحیح ،اور کہا گیا حرام اورکہاگیا خلافِ اولٰی'' کے بعد ان کی بقیہ عبارت یہ ہے: اورمحلِ اختلاف وہ صورت ہے جب نہرسے وضوکیاہویااپنی ملکیت کے پانی سے کیا ہوتوزیادتی واسراف بلا اختلاف حرام ہے اس لئے کہ زیادتی کی اجازت نہیں اور مدارِس کاپانی اسی قبیل سے ہے اس لئے کہ وہ ان لوگوں کے لئے وقف ہوتا اورلایا جاتا ہے جو اس سے وضو ئے شرعی کریں اور ان کے علاوہ کے لئے اس کی اباحت مقصود نہیں ہوتی اھ۔


(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)


ثم رأی المسألتین فی عبارتی البحر والدر ورأی الحکم فیھما بکراھۃ التحریم فسبق الی خاطرہ انھما تبعا قیل التحریم العام ولیس کذلک فان حرمۃ الاسراف فی الاوقاف مجمع علیھا وقد غیرا فی التعبیر بما یبرئھما عن تعمیم التحریم فلم یقولا توضأ من نھر بل قال البحر ھذا اذا کان ماء نھر۱؎ وقال الدر لوبماء النھر ۲؎والفرق فی التعبرین لایخفی علی المتأمل ۔


    پھرعلامہ شامی نے یہ دونوں مسئلے بحر اوردرکی عبارتوں میں بھی دیکھے یعنی یہ کہ ان دونوں میں کراہت تحریم کا حکم موجود ہے۔تو ان کاذہن اس طرف چلاگیا کہ دونوں نے تحریم عام کے قول کی پیروی کرلی ہے۔حالاں کہ ایسا نہیں۔ اس لئے کہ اوقاف میں اسراف کی حرمت اجماعی ہے اوردونوں حضرات نے تعبیر میں اتنی تبدیلی کردی جس کے باعث تحریم کوعام قرار دینے سے بری ہوگئے۔ توان حضرات نے ''توضّأ من نھر''  (دریا سے وضو کیا)نہ کہابلکہ بحرنے کہا: ھذا اذا کان ماء نھر ( یہ حکم اس وقت ہے جب دریا کا پانی ہوالخ) اورصاحب درمختارنے کہا:لوبماء النھر (اگردریا کے پانی سے وضو کرے الخ)اور تأمل کرنے والے پردونوں تعبیروں کافرق مخفی نہیں۔


(۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)

(۲؎ الدر المختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۲۴)


وبیان ذلک علی مااقول :  ان المتوضیئ من النھر وان لم یدل مطابقۃ الا علی التوضی بالاغتراف منہ لکن یدل عرفا علی نفی الواسطۃ فمن ملأکوزا من نھر واغترف عند التوضی من الکوز لایقال توضأ من النھر بل من الکوز الاعلی ارادۃ حذف ای بماء ماخوذ من النھر والتوضی من نھر بلا واسطۃ انما یکون فی متعارف الناس بان تدخل النھر اوتجلس علی شاطئہ وتغترف منہ بیدک وتتوضأ فیہ فوقوع الغسالۃ فی النھر ھو الطریق المعروف للتوضی من النھر فیدل علیہ دلالۃ التزام للعرف المعہود بخلاف التوضی بماء النھر فلا دلالۃ لہ علی وقوع الغسالۃ فی شیئ اصلا الاتری ان من توضأ فی بیتہ بماء جُلب من النھر تقول توضأ بماء النھر لامن النھر ھذا ھو العرف الفاشی والفرق فی الاسراف بین الماء الجاری وغیرہ بانہ تضییع فی غیرہ لافیہ انما یبتنی علی وقوع الغسالۃ فیہ ولا نھر وسکبہا علی الارض من دون نفع فقد ضیع وان افرغ جرۃ عندہ فی نھر لم یضیع والدال علی ھذا المبنی ھو لفظ من نھر لالفظ بماء النھر کما علمت ففی الاول تکون دلالۃ علی تعمیم التحریم لافی الثانی ھذا ھو الفارق بین تعبیر ذلک الشافعی وتعبیر البحر والدر وحینئذ وغیرھا فلا یکون متبعا لقیل فی غیر المذھب۔


اقول :  اس کی توضیح یہ ہے کہ التوضی من النھر(دریاسے وضوکرنا)اگرمعنی مطابقی کے لحاظ سے یہی بتاتا ہے کہ اس سے ہاتھ یا برتن میں پانی لے کروضوکرنا لیکن عرفاً اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس سے بغیرکسی واسطہ کے وضو کرنا تواگر کسی نے برتن میں دریا سے پانی بھر لیا اور وضو کے وقت برتن سے ہاتھ میں پانی لے کر وضو کیا تو یہ نہ کہا جائے گا کہ اس نے دریا سے وضو کیا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ برتن سے وضوکیا۔ مگر خذف مراد لے کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ دریا سے۔ یعنی دریا سے لئے ہوئے پانی سے وضو کیا۔ اورنہر سے بلا واسطہ وضو کرنے کی صورت لوگوں کے عرف میں یہ ہوتی ہے کہ کوئی دریا کے اندر جا کر۔یا اس کے کنارے بیٹھ کر اس سے ہاتھ میں پانی لیتے ہوئے اسی میں وضوکرے کہ غُسالہ دریاہی میں گرے یہی نہرسے وضو کا معروف طریقہ ہے کہ غُسالہ اسی میں گرتا ہے تو عرف معلوم کے سبب اس پراس لفظ کی دلالت التزامی پائی جائے گی۔اور التوضی بماء النھر(دریا کے پانی سے وضوکرنے) کا مفہوم یہ نہیں ہوتا اس لفظ کی دلالت کسی چیز کے اندر غسالہ کے گرنے پر بالکل نہیں ہوتی۔دیکھئے اگر کسی نے اپنے گھر میں اُس پانی سے وضو کیاجودریاسے لایاگیاتھا تویہ کہاجائے گا کہ اس نے دریاکے پانی سے وضو کیااوریہ نہ کہاجائے گا کہ اس نے دریاسے وضوکیا۔ یہی عام مشہور عرف ہے۔ آبِ رواں اورغیر رواں کے درمیان اسراف میں یہ فرق کہ غیر جاری میں پانی برباد ہوتا ہے اورجاری میں برباد نہیں ہوتا، اس کی بنیادغسالہ کے اس کے اندر گرنے ہی پرہے۔اور اس فرق میں ہاتھ یا برتن سے پانی لینے کوکوئی دخل نہیں کیوں کہ اگرکسی نے دریا سے گھڑا بھر کر زمین پر بے فائدہ بہادیاتو اس نے پانی بربادکیا۔ا ور اگر اپنے  پاس کا بھرا ہوا گھڑادریا میں اُنڈیل دیا تو اس نے پانی برباد نہ کیا اور اس بنیاد کو بتانے والالفظ وہی''من نھر'' (دریاسے) ہے'' بما النھر'' (دریا کے پانی سے)نہیں جیسا کہ واضح ہوا۔ تو من نھر کہنے میں اس پر دلالت ہوتی ہے کہ حکم تحریم دریا سے وضو کوبھی شامل ہے اور بماء النھر کہنے میں یہ دلالت نہیں ہوتی ۔ یہی فرق ہے ان شافعی کی تعبیر میں اور بحر ودر کی تعبیر میں۔اورجب ایسا ہے تو صاحبِ دُر اپنے ساتھ جو اہر کو بھی پائیں گے اور منتقی ونہروغیرہا کو بھی۔تووہ غیر مذہب کے کسی قولِ ضعیف کی پیروی کرنے والے نہ ہوں گے۔


اقول :  فـــ بتحقیقنا ھذا ظھر الجواب عما اخذ بہ الامام المحقق الحلبی فی الحلیۃ علی المشائخ حیث یطلقون ھھنا من مکان فی یقولون توضا من حوض من نھر من کذا ویریدون وقوع الغسالۃ فیہ قول فی المنیۃ اذا کان الرجال صفوفا یتوضوء ن من الحوض الکبیر جاز ۱؎ قال فی الحلیۃ التوضی منہ لایستلزم البتۃ وقوع الغسالۃ فیہ بخلاف التوضی فیہ ووقوع غسالاتھم فیہ ھو مقصود الافادۃ ۲؎ واطال فی ذلک وکررہ فی مواضع من کتابہ وھو من باب التدنق والمشائخ یتساھلون باکثر من ھذا فکیف وھو المفاد من جہۃ المعتاد۔


اقول :  ہماری اسی تحقیق سے اس کا جواب بھی واضح ہوگیا جو امام محقق حلبی نے حلیہ میں حضرات مشائخ پرگرفت کی ہے اس طرح کہ وہ حضرات یہاں''فی''(میں) کی جگہ''من''(سے) بولتے ہیں کہتے ہیں توضأ من حوض، من نھر، من کذا (حوض سے ،دریا سے، فلاں سے وضو کیا)اور مراد یہ لیتے ہیں کہ غسالہ اسی میں گرا۔ منیہ میں لکھا:جب بہت سے لوگ قطاروں میں کسی بڑے حوض سے وضوکرنا جائز ہے ۔اس پر حلیہ میں لکھا:حوض سے وضو کرناقطعی طورپراس بات کو مستلزم نہیں کہ غسالہ اسی میں گرے بخلاف حوض میں وضو کرنے کے۔ اورلوگوں کاغسالہ اس میں گرتا ہوسے یہی بتانا مقصود ہے۔اس اعتراض کو بہت طویل بیان کیا ہے اور اپنی کتاب کے متعددمقامات پر باربار ذکرکیاہے حالاں کہ یہ عبارت میں بے جا تدقیق کے باب سے ہے۔ حضرات مشائخ تواس سے بہت زیادہ تسامح سے کام لیتے ہیں پھراس میں کیا جب کہ عرف عام اور طریق معمول کا مفاد بھی یہی ہے۔(ت)


فـــ:تطفل علی الحلیۃ ۔


(۱؎ منیۃ المصلی فصل فی الحیاض مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۶۷)

(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

تنبیہ(۳) : علامہ عمر بن نجیم نے نہر الفائق میں قول سوم کو دوم کی طرف راجع کیا اور اپنے شیخ اکرم واخ اعظم محقق زین رحمہما اللہ تعالٰی کی تقریر سے یہ جواب دیا کہ ترک اسراف کو ادب یا مستحب گننا اسے مقتضی نہیں کہ اسراف مکروہ تنزیہی بھی نہ ہوا کہ آخر خلاف مستحب ہے اور خلاف مستحب خلاف اولی اور خلاف اولی مکروہ تنزیہی۔


قال فی المنحۃ قال فی النھر لانسلم ان ترک المندوب غیر مکروہ تنزیھا لما فی فتح القدیر من الجنائز والشہادات ان مرجع کراھۃ التنزیہ خلاف الاولی ولا شک ان تارک المندوب اٰت بخلاف  الاولٰی۱؎۔ اھ


منحۃ الخالق میں ہے نہر میں کہا:ہم اسے نہیں مانتے کہ ترک مندوب،مکروہ تنزیہی نہیں اسلئے کہ فتح القدیر میں جنائز اورکتاب الشہادات میں لکھا ہے کہ کراہت تنزیہ کامآل خلافِ اولٰی ہے اور مندوب کوترک کرنے والا بلاشبہ خلافِ اولٰی کا مرتکب ہے اھ۔(ت)


(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱ /۲۹)


یہی جواب کلام بدائع پر محقق حلبی کی تقریر سے ہوگا۔ علّامہ شامی نے یہاں اُسے مقرر رکھا اور ردالمحتار میں صراحۃً اس کا اتباع کیا حیث قال مامشی علیہ فی الفتح والبدائع وغیرھما من جعل ترکہ مندوبا فیکرہ تنزیھا ۲؎ اھ (اس طرح کہ وہ لکھتے ہیں:جس پرفتح ،بدائع وغیرہما میں گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ترک اسراف کو مندوب قراردیاہے تووہ اسراف تنزیہی ہوگا اھ۔(ت)


(۲؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ مطلب فی الاسراف فی الوضوء دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۹۰ )


اقول :  وباللّٰہ استعین ( میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں ) اولا فــ  : یہ معلوم کیجئے کہ مکروہ تنزیہی کی تحدید میں کلمات علما ء مختلف بھی ہیں اور مضطرب بھی، فتح القدیر کی طرح نہ ایک کتاب بلکہ بکثرت کتب میں ہے کہ کراہت تنزیہ کا مرجع خلاف اولی ہے اس طور پر ہر مستحب کا ترک بھی مکروہ تنزیہی ہونا چاہئے۔


فــ  : مکروہ تنزیہی کی تحدید میں علماء کا اختلاف اورعبارات میں اضطراب۔


درمختار آخر مکروہاتِ نماز میں ہے : یکرہ ترک کل سنۃ ومستحب ۳؎


ہر سنت اور مستحب کا ترک مکروہ ہے۔ (ت)


(۳؎ الدر المختار کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکر ہ فیہا مطبع مجتبائی دہلی۱ /۹۳)


اور بہت محققین کراہت کیلئے دلیل خاص یا صیغہ نہی کی حاجت جانتے ہیں یعنی جبکہ فعل سے باز رہنے کی طلب غیر حتمی پر دال ہو۔


اقول :  ولو قطعی فـــ۱ الثبوت فان المدار علی ماذکرنا من حال الطلب کما قدمنا تحقیقہ فی الجود الحلووان قال فی الحلیۃ من صدر الکتاب المنہی خلاف المامور فان کان النھی المتعلق بہ قطعی الثبوت والدلالۃ فحرام وان کان ظنی الثبوت دون الدلالۃ اوبالعکس فمکروہ تحریما وان کان ظنی الثبوت والدلالۃ فمکروہ تنزیہا ۱؎ اھ


اقول :  اگرچہ دلیل قطعی الثبوت ہواس لئے کہ مداراسی پر ہے جسے ہم نے ذکرکیا یعنی یہ کہ طلب کاحال کیا ہے حتمی ہے یا غیر حتمی،جیساکہ اس کی تحقیق الجَود الحَلُو میں ہم کر چکے ۔اگرچہ حلیہ کے اندر شروع کتاب میں یہ لکھا ہے :منہی،مامور کامخالف ہے۔اگراس سے تعلق رکھنے والی نہی ثبوت اوردلالت میں قطعی ہوتووہ حرام ہے۔اور اگرثبوت میں ظنی ہودلالت میں نہیں،یا برعکس صورت ہوتومکروہِ تحریمی ہے۔اوراگر ثبوت ودلالت میں ظنی ہوتومکروہ  تنزیہی ہے اھ۔(ت)


فـــ۱ :تطفل علی الحلیۃ۔


( ۱؎ حلیۃ ا لمحلی شرح منیۃ المصلی )


اور شک نہیں کہ اس تقدیر پر ترکِ مستحب مکروہ نہ ہوگا، مجمع الانہر باب الاذان میں ہے: لاکراھۃ فی ترک المندوب ۲؎ (ترکِ مندوب میں کوئی کراہت نہیں۔(ت)


(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر      کتاب الصلوۃ باب الاذان     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۷۵)


اضطراب یہ کہ جن صاحب فــ۲ فتح قدس سرہ نے جابجا تصریح فرمائی کہ خلاف اولٰی مکروہ تنزیہی ہے اور اوقاتِ مکروھہ نماز میں فرمایا کہ جانب ترک میں مکروہ تنزیہی جانب فعل میں مندوب کے رتبہ میں ہے


فـــ۲ تطفل ما علی الفتح ۔


حیث قال التحریم فی مقابلۃ الفرض فی الرتبۃ وکراھۃ التحریم فی رتبۃ الواجب والتنزیہ برتبہ المندوب ۳؎


(ان کے الفاظ یہ ہیں: تحریم رتبہ میں فرض کے مقابل ہے اورکراہت تحریم رتبہ میں واجب کے مقابل اورکراہت تنزیہ مندوب کے رتبہ میں ہے۔(ت)


(۳؎ فتح القدیر    کتاب الصلوٰۃ باب المواقیت فصل فی اوقات المکروھۃ      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۰۲)


اُنہی نے تحریر الاصول میں تحریر فرمایا کہ مکروہ تنزیہی وہ ہے جس میں صیغہ نہی وارد ہوا جس میں نہی نہیں وہ خلاف اولی ہے اور کراہت تنزیہ کا مرجع خلاف اولی کی طرف ہونا ایک اطلاق موسع کی بنا پر ہے


حیث قال فی الباب الاول من المقالۃ الثانیۃ من التحریر مسألۃ اطلاق المامور بہ علی المندوب مانصہ ''المکروہ منھی ای اصطلاحا حقیقۃ مجاز لغۃ والمراد تنزیھا ویطلق علی الحرام وخلاف الاولی مما لاصیغۃ فیہ والا فالتنزیھیۃ مرجعہا الیہ۱؎۔


اس طرح کہ تحریر الاصول مقالہ دوم کے با ب اول مسألہ اطلاق الماموربہ علی المندوب کے تحت لکھا: مکروہ اصطلاح میں حقیقۃً منہی ہے اور لغت میں مجازاً۔۔۔ اورمکروہ سے مراد تنزیہی ہے اور اس کا اطلاق حرام پر بھی ہوتاہے اور اس خلافِ اولٰی پربھی جس سے متعلق صیغہ نہی وارد نہیں ورنہ کراہت تنزیہ کامرجع وہی ہے (جس میں صیغہ نہی وارد ہو)۔(ت)


(۱؎ التحریر فی الاصول الفقہ     المقا لۃ الثا نیۃ البا ب الاول مصطفی البابی مصر     ص۲۵۷۔۲۵۶)


جس حلیہ فــ۱ میں یہ فرمایا کہ: علی الاول یکون الاسراف غیر مکروہ ۲؎ (اسراف کو خلاف ادب ٹھہرانے والے قول پر اصراف مکروہ نہ ہوگا (ت)


 فـــ۱ تطفل علی الحلیۃ


(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )


اُسی کے صدر میں ہے : المکروہ تنزیھا مرجعہ الی خلاف الاولی والظاھر انھما متساویان ۳؎


مکروہ تنزیہی کا مرجع خلاف اولٰی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں میں تساوی ہے۔(ت)


(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )


جس غنیہ فـــ۲ کے اوقات میں باتباع فتح تصریح فرمائی کہ: التنزیھیۃ مقابلۃ المندوب ۴؎ (کراہت تنزیہیہ بمقابلہ مندوب ہے۔ ت)


(۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی الشرط الخامس         سہیل اکیڈمی لاہور         ص۲۳۶)


فـــ۲ تطفل علی الغنیۃ ۔


اُسی کے مکروہات صلوٰۃ میں فرمایا: الفعل ان تضمن ترک واجب فھو مکروہ کراھۃ تحریم وان تضمن ترک سنۃ فھو مکروہ کراھۃ تنزیہ ولکن تتفاوت فی الشدۃ والقرب من التحریمیۃ بحسب تاکد السنۃ ۱؎۔


فعل اگر ترکِ واجب پرمشتمل ہوتو مکروہِ تحریمی ہے اور ترکِ سنّت پر مشتمل ہوتومکروہِ تنزیہی،لیکن یہ شدّت اورمکروہِ تحریمی سے قرب کے معاملہ میں سنّت کے تاکید پانے کے لحاظ سے تفاوت رکھتاہے۔(ت)


(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل مکروہا ت الصلوۃ         سہیل اکیڈمی لاہور         ص۳۴۵)

نیز صدر کتاب میں فرمایا: (اعلم ان للصلاۃ سننا) وترکھا یوجب کراھۃ تنزیہ (وادبا) جمع ادب ولا باس بترکہ ولا کراھۃ (وکراھیۃ) والمراد بھا ما یتضمن ترک سنۃ وھو کراھۃ تنزیہ اوترک واجب وھو کراھۃ التحریم۲؎۔


(واضح ہوکہ نماز کی کچھ سنتیں ہیں) اور ان کا ترک کراہت تنزیہ کا موجب ہے(اورکچھ آداب ہیں) یہ ادب کی جمع ہے اوراس کے ترک میں کوئی حرج اورکراہت نہیں(اور کچھ مکروہات ہیں)ان سے مرادوہ جو ترکِ سنت پرمشتمل ہویہ مکروہ تنزیہی ہے یا وہ جو ترک واجب پر مشتمل ہویہ مکروہ تحریمی ہے۔(ت)


(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مقدمۃ الکتاب         سہیل اکیڈمی لاہور         ص۱۳)


جس بحر فــ کے اوقات(نماز ) میں تھا التنزیہ فی رتبۃ المندوب ۳؎ (کراہت تنزیہی مندوب کے مقابل مرتبہ میں ہے۔ ت)


فــ:تطفل علی البحر۔


(۳؎ البحرالرائق    کتاب الصلوٰۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴۹)


اسی کے باب العیدین میں فرمایا : لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذ لابدلھا من دلیل خاص فلذا کان المختار عدم کراھۃ الا کل قبل الصلاۃ ۴؎ اھ ای صلاۃ الاضحٰی۔


ترک مستحب سے کراہت لازم نہیں اس لئے کہ کراہت کے لئے دلیل خاص ضروری ہے۔اسی لئے مختاریہ ہے کہ نمازعید قرباں سے پہلے کھالینا مکروہ نہیں۔(ت)


(۴؎ البحرالرائق     کتاب الصلوۃ     باب العیدین         ایچ ایم سعید کمپنی     ۲ /۱۶۳)


اور دربارہ عـــــہ ترک اسراف ان کا کلام گزرا اُسی کے مکروہات نماز میں ایسی ہی تصریح فرما کر پھر خود اُس پر اشکال وارد کردیا کہ ہر مستحب خلافِ اولی ہے اور یہی کراہت تنزیہ کا حاصل۔


عـــہ نیز ثانیا میں ان کا کلام آتا ہے کہ امام زیلعی نے لطم وجہ کو مکروہ لکھا تو اس کا ترک سنت ہوگا نہ کہ مستحب ۱۲ منہ غفرلہ ۔


حیث قال السنۃ ان کانت غیر مؤکدۃ فترکہا مکروہ تنزیھا وان کان الشیئ مستحبا او مندوبا ولیس بسنۃ فینبغی ان لایکون ترکہ مکروھا اصلا کما صرحوا بہ انہ یستحب یوم الاضحٰی ان لایاکل قالوا ولو اکل فلیس بمکروہ فلم یلزم من ترک المستحب ثبوت کراھتہ الا انہ یشکل علیہ ماقالوہ ان المکروہ تنزیھا خلاف الاولی ولا شک ان ترک المستحب خلاف الاولی ۱؎ اھ


ان کے الفاظ یہ ہیں:سنت اگرغیر مؤکدہ ہوتواس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے اور کوئی شی مستحب یامندوب ہے اورسنت نہیں ہے تواس کا ترک مکروہ بالکل نہ ہوناچاہئے جیسے علماء نے تصریح فرمائی کہ عیدا ضحٰی کے دن نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر کھالیاتومکروہ نہیں تو ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت لازم نہ ہوامگر اس پر اشکال علماء کے اس قول سے پڑتا ہے کہ مکروہ تنزیہی خلاف اولٰی ہے اور اس میں شک نہیں کہ ترکِ مستحب خلافِ اولٰی ہے اھ۔


(۱؎ البحرالرائق     کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۲)


اما العلامۃ الشامی فاضطراب اقوالہ ھھنا اکثروا وفرففی مستحبات فــ الوضوء نقل مسألۃ الاکل یوم الاضحی واستظھر ان ترک المستحب لایکرہ حیث قال ''اقول :  وھذا ھو الظاھر ان النوافل فعلہا اولی ولا یقال ترکہا مکروہ ۲؎ اھ


لیکن علامہ شامی توان کے اقوال کا اضطراب یہاں بہت بڑھا ہوا ہے مستحباتِ وضومیں روزاضحی کھانے کامسئلہ نقل کیااورترکِ مستحب کے مکروہ نہ ہونے کوظاہر کہاعبارت یہ ہے: میں کہتاہوں یہی ظاہر ہے اس لئے کہ نوافل کی ادائیگی اولٰی ہے او ریہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان کا ترک مکروہ ہے اھ۔


فــ : معروضۃ علی العلا مۃ ش۔


(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مستحبات الو ضو دار احیا ء التراث العربی بیروت ۱ /۸۴ )


ثم بعد صفحۃ رجع وقال قدمنا ان ترک المندوب مکروہ تنزیھا ۱؎ اھ


پھر ایک صفحہ کے بعدرجوع کیااورکہا:ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ترکِ مندوب مکروہِ تنزیہی ہے اھ


(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مستحبات الو ضو دار احیا ء التراث العربی بیروت ۱ /۸۵ )


وقال فی مکروھات الوضوفـــ۱ المکروہ تنزیھا یرادف خلاف الاولی۲؎ اھ


مکروہاتِ وضو میں کہا: مکروہِ تنزیہی خلافِ اولٰی کا مرادف ہے اھ۔


فــــ۱ :    معروضۃ اخری علیہ ۔


(۲؎ردا لمحتار کتاب الطہارۃ      مکروہات الوضو     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۸۹)


ورجع آخر مکروھات الصلاۃ فقال الظاھر ان خلاف الاولی اعم فقد لایکون مکروھا حیث لادلیل خاص کترک صلاۃ الضحٰی ۳؎ اھ


اور مکروہاتِ نماز کے آخر میں رجوع کرکے کہا: ظاہر یہ ہے کہ خلافِ اولٰی اعم ہے بعض اوقات یہ مکروہ نہیں ہوتا یہ ایسی جگہ جہاں کوئی دلیل خاص نہ ہوجیسے نماز چاشت کا ترک اھ۔


(۳؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۴۳۹)


وقال فی صدرھافــ۲قلت ویعرف ایضا بلا دلیل نھی خاص بان تضمن ترک واجب اوسنۃ فالاول مکروہ تحریما والثانی تنزیھا ۴؎ اھ


مکروہاتِ نماز کے شروع میں کہا:میں کہتا ہوں اس کی معرفت نہی خاص کی دلیل کے بغیر بھی ہوتی ہے اس طرح کہ کسی واجب یا سنت کے ترک پر مشتمل ہو ۔اوّل مکروہ تحریمی ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی اھ۔


فــ۲ـــ :معروضۃ ثالث علیہ۔


(۴؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۴۲۹)


ورجع فی اخرھا فقال بعد ما مرو بہ یظھر ان کون ترک المستحب راجعا الی خلاف الاولی لایلزم منہ ان یکون مکروھا الا بنھی خاص لان الکراھۃ حکم شرعی فلا بدلہ من دلیل ۵؎ اھ


اور مکروہاتِ نمازکے آخرمیں رجوع کیا اس طرح کہ مذکورہ بالاعبارت کے بعدکہا:اوراسی سے ظاہر ہوتاہے کہ ترک مستحب خلافِ اولٰی کی طرف راجع ہونے سے مکروہ ہونا لازم نہیں مگر یہ کہ خاص نہی ہواس لئے کہ کراہت ایک حکم شرعی ہے تو اس کے لئے کوئی دلیل ضروری ہے۔اھ۔


(۵؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۴۳۹)


ثم بعدفــ۱ ورقۃ رجع عن ھذا الرجوع فقال فی مسألۃ استقبال النیرین فی الخلاء الظاھر ان الکراھۃ فیہ تنزیہیۃ مالم یرد نھی خاص ۱؎ اھ


پھر ایک ورق کے بعد بیت الخلا میں سورج اور چاندکے رُخ پر ہونے کے مسئلہ میں اس سے رجوع کیا اورکہا :ظاہر یہ ہے کہ کراہت اس میں تنزیہی ہے جب تک کہ کوئی خاص نہی وارد نہ ہواھ۔


فـــ۱ معروضۃ رابعۃ علیہ ۔


(۱؎ ردالمحتار     کتاب الصلوٰہ     با ب یفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۴۰)


وقال فی فــــــــ۲المنحۃ عند قول البحر قد صرحوا بان التفات فــــ۳البصر یمنۃ ویسرۃ من غیر تحویل الوجہ اصلا غیر مکروہ مطلقا والاولی ترکہ لغیر حاجۃ مانصہ ای فیکون مکروھا تنزیھا کما ھو مرجع خلاف الاولی کمامرعــہ۱


بحر کی عبارت ہے: علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ ذرا بھی چہرہ پھیرے بغیر نگاہ سے دائیں بائیں التفات مطلقاً مکروہ نہیں اوراولٰی یہ ہے کہ کوئی حاجت نہ ہو تواس سے بازر ہے۔اس پر منحۃ الخالق میں لکھا: یعنی ایسی صورت میں یہ مکروہ تنزیہی ہو گا جیسا کہ یہ خلافِ اولٰی کا مآل ہے ۔جیساکہ گزرا۔


فــ۲ معروضۃ خامسۃ علیہ۔

فــ۳ مسئلہ:نماز میں اگر کن انکھیوں سے بے گردن پھیرے ادھر ادھر دیکھے تو مکروہ نہیں ہاں بے حاجت ہوتو خلاف اولٰی ہے ۔ 

عـــہ۱ای فی البحر صدر المکروہات ان المکروہ تنزیہا ومرجعہ الی ما ترکہ اولی ۲؎اھ منہ

عــہ۱ یعنی بحر کے اندرمکروہات نماز کے شروع میں گزرا کہ مکروہ تنزیہی کا مرجع ترک  اولٰی ہے ۱۲منہ (ت)


(۲؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ باب یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۹ )


و بہ صرح فی النھر وفی الزیلعی وشرح الملتقی للباقانی انہ مباح لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یلاحظ اصحابہ فی صلاتہ بموق عینیہ ولعل المراد عند عدم الحاجۃ عـــہ۲ فلا ینافی ماھنا ۱؎ اھ


اور نہر میں بھی اسی کی تصریح کی ہے۔ زیلعی میں اور باقانی کی شر ح ملتقی میں ہے کہ یہ مباح ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز میں گوشہ چشم سے ملاحظہ کیاکرتے تھے۔اور شاید مراد عدم حاجت کی حالت ہے تو یہ اس کے منافی نہیں جویہاں ہے اھ۔


عــہ ۲ اقول :  لعل لفظۃ عدم وقعت زائدہ من قلم الناسخ فالصواب عدم العدم اھ منہ (م)

عــہ ۲ اقول :  شاید لفظ'' عدم ''کاتب کے قلم سے سہوازائد ہوگیا ہے کیونکہ صحیح عدم عدم ہے(یعنی یہ کہ مراد وقت حاجت ہے )۱۲منہ ۔ (ت)


(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلوۃ     باب ما یفسدالصلوۃ وما یکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۱)


ثم رجع عما قریب فقال خلاف الاولی اعم من امکروہ تنزیھا دائما بل قد یکون مکروھا ان وجد دلیل الکراھۃ والافلا ۲؎ اھ


پھرکچھ ہی آگے جاکر اس سے رجوع کرکے کہا:خلافِ اولٰی مکروہ تنزیہی سے اعم ہے اور ترکِ مستحب ہمیشہ خلافِ اولٰی ہوتا ہے ،ہمیشہ مکروہ تنزیہی نہیں ہوتا بلکہ کبھی مکروہ ہوتا ہے اگردلیل کراہت موجود ہوورنہ نہیں۔


( ۲؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلوۃ     باب ما یفسدالصلوۃ وما یکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۲)

اقول :  ومن العجب فـــ۱ ان البحر کان صرح فی الالتفات بنفی الکراھۃ مطلقا وان الاولی ترکہ لغیر حاجۃ فکان نصافی نفی الکراھۃ رأسا مع کونہ ترک الاولی فی بعض الصور ففسرہ بضدہ اعنی اثبات الکراھۃ لکونہ ترک الاولی مع نقلہ عن الزیلعی والباقانی انہ مباح وظاھرہ الاباحۃ الخالصۃ بدلیل الاستدلال بالحدیث فلم یتذکر ھناک ان خلاف الاولی لایستلزم الکراھۃ مالم یرد نھی۔


اقول :  اور تعجب یہ ہے کہ بحر نے تصریح کی تھی کہ التفات میں کوئی بھی کراہت نہیں اوراولٰی یہ ہے کہ حاجت نہ ہوتواسے ترک کرے یہ اس بارے میں نص تھا کہ ذرا بھی کراہت نہیں باوجودیکہ یہ بعض صورتوں میں ترک اولٰی ہے۔ علامہ شامی نے اس کی تفسیر اس کی ضد سے کی یعنی چُوں کہ یہ ترک اولٰی ہے اس لئے مکروہ ہے باوجودیکہ زیلعی اور باقانی سے اس کامباح ہونا بھی نقل کیاہے اوراس کا ظاہر یہ ہے کہ مباح خالص ہے جس کی دلیل حدیث سے استدلال ہے توانہیں وہاں یہ یاد نہ رہا کہ خلاف اولٰی کراہت کو مستلزم نہیں جب تک کوئی نہی واردنہ ہو۔


فــــ۱: معرو ضۃ سادسۃ علیہ ۔


بااینہمہ اس میں شک نہیں کہ فتح القدیر میں محقق علی الاطلاق کی تصریحات اسی طرف ہیں کہ ترک مستحب بھی مکروہ تنزیہی ہےتو ان کا فــ ۲آداب میں گننا نفی کراہت تزیہہ پر کیونکر دلیل ہو خصوصاً اسی بحث کے آخر میں وہ صاف صاف کراہت اسراف کی تصریح بھی فرماچکے۔


فــ۲تطفل علی البحر ۔


حیث قال یکرہ الزیادۃ علی ثلث فی غسل الاعضاء ۱؎ ا ھ ان کے الفاظ یہ ہیں: اعضاء کو تین بار سے زیادہ دھونا مکروہ ہے اھ۔(ت)


( ۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر    ۱ /۳۲)


ثانیا ،اقول :   اور خود علامہ صاحب بحر نے بھی اسے اُن سے نقل فرمایا تو اُس حمل پر باعث کیا رہا۔


اس سے قطع نظر بھی ہو تو محقق نے انہیں آداب میں یہ افعال بھی شمار فرمائے، نزع خاتم علیہ اسمہ تعالی واسم نبیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم حال الاستنجاء وتعاھد ماتحت الخاتم وان لایلطم وجہہ بالماء والدلک خصوصا فی الشتاء وتجاوز حدود الوجہ والیدین والرجلین لیستیقن غسلہما ۲؎۔


استنجاء کے وقت اس انگوٹھی کو اتارلینا جس پر باری تعالٰی کا یا اس کے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کانام ہو۔


اورانگشتری کے نیچے والے حصہ بدن دھونے میں خاص خیال رکھنا۔چہرے پر پانی کا تھپیڑا نہ مارنا۔اعضاء کو ملنا خصوصاً جاڑے میں۔چہرے،ہاتھوں اور پیروں کی حدوں سے زیادہ پانی پہنچانا،تاکہ ان حدوں کے دُھل جانے کا یقین ہوجائے۔(ت)


(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر    ۱ /۳۲)


اور شک ف۱ نہیں کہ وقت استنجاء اُس انگشتری کا جس پر اللہ عزّوجل یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک یا کوئی متبرک لفظ ہو اُتار لینا صرف مستحب ہی نہیں قطعا سنّت اور اُس کا ترک ضرور مکروہ بلکہ اسأت ہے بلکہ مطلقا ف۲کچھ لکھا ہو حروف ہی کا ادب چاہئے بلکہ ف ۳ایسی انگوٹھی پہن کر بیت الخلا میں جانا ہی مکروہ ہے ولہٰذا ف ۴تعویذ لے جانے کی اجازت اُس وقت ہوئی کہ خلاف مثلاً موم جامہ میں ہو اور پھر بھی فرمایا کہ اب بھی بچنا ہی اولی ہے اگرچہ غلاف ہونے سے کراہت نہ رہی۔


ف۱:مسئلہ جس انگشتری پر کوئی متبرک نا م لکھا ہوو قت استنجا ء اس کا اتار لینا بہت ضرور ہے ۔

ف۲:مسئلہ مطلقا حروف کی تعظیم چاہیے کچھ لکھا ہو ۔ 

ف۳:مسئلہ جس انگشتری پر کچھ لکھا ہواسے پہن کر بیت الخلا میں جانا مکروہ ہے ۔

ف۴:مسئلہ تعویذ اگر غلاف میں ہو تو اسے پہن کربیت الخلا میں جانا مکروہ نہیں پھر بھی اس سے بچنا افضل ہے ۔


ردالمحتار میں ہے : نقلوا فـــ عندنا ان للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ وذکر بعض القراء ان حروف الھجاء قران نزل علی ھود علیہ الصلاۃ والسلام ۱؎ الخ


منقول ہے کہ ہمارے نزدیک حروف کی بھی عزت ہے اگرچہ الگ الگ کلمے ہوں۔اوربعض قرأ نے ذکرکیا کہ حروفِ تہجی وہ قرآن ہیں جس کا نزول حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہوا الخ۔(ت)


ف: حروف ہجا ایک قرآن ہے کہ سیدنا ہود علیہ الصلوۃ والسلام پر اترا ۔


( ۱؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ فصل الاستنجاء    داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۲۷)


اُسی میں عارف باللہ سیدی عبدالغنی قدس سرہ القدسی سے ہے :


حروف الھجاء قران انزلت علی ھود علیہ الصلاۃ والسلام کما صرح بذلک الامام القسطلانی فی کتابہ الاشارات فی علم القراء ات ۲؎۔


حروف تہجی قرآن ہیں یہ حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئے جیسا کہ امام قسطلانی نے اپنی کتاب''الاشارات فی القرأ ت'' میں اس کی تصریح کی ہے۔(ت)


( ۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ قبیل باب المیاہ    داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۱۲۰)


بحرالرائق میں ہے: یکرہ ان یدخل الخلاء ومعہ خاتم مکتوب علیہ اسم اللّٰہ تعالی اوشیئ من القران ۳؎۔ خلا میں ایسی انگوٹھی لے کر جانا مکروہ ہے جس پر اللہ تعالی کانا م یا قرآن سے کچھ لکھا ہو اہو۔ (ت)


(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ باب الانجاس         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴۳)


دُر مختار میں ہے : رقیۃ فی غلاف متجاف لم یکرہ دخول الخلاء بہ والاحتراز افضل۴؎۔ ایسا تعویذ خلاء میں لے کر جانا مکروہ نہیں جوالگ غلاف میں ہو اور بچنا افضل ہے۔ ت


(۴؎ الدرالمختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۴)


یونہی انگشتری فـــ۱ڈھیلی ہو تو اُسے جنبش دینی وضو میں سنّت ہے اور تنگ ہو کہ بے تحریک پانی نہ پہنچے گا تو فرض۔ ف۱:مسئلہ انگوٹھی ڈھیلی ہو تو وضو میں اسے پھرا کر پانی ڈالناسنت ہے اورتنگ ہو کہ بے جنبش دئے پانی نہ پہنچے تو فرض ہے یہی حکم بالی وغیرہ کا ہے ۔


خلاصہ میں ہے: فی مجموع النوازل تحریک الخاتم سنۃ ان کان واسعا وفرض ان کان ضیقا بحیث لم یصل الماء تحتہ ۱؎۔


مجموع النوازل میں ہے: انگوٹھی کو حرکت دینا سنت ہے اگرچہ کشادہ ہو اور فرض ہے اگر اتنی تنگ ہوکہ اس کے نیچے پانی نہ پہنچے تو فرض ہے۔ ت


(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارات الفصل الثالث سنن الوضو مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ         ۱ /۲۳)


یونہی ف۲ وضومیں منہ پر زور سے چھپا کا مارنا مکروہ اور اس کا ترک مسنون۔


ف۲:مسئلہ وضومیں منہ پر زور سے چھپا کا مارنا مکروہ ہے بلکہ کسی عضو پر اس زور سے نہ ڈالے کہ چھینٹیں اڑ کر بدن یا کپڑوں پر جائیں ۔


درمختار میں ہے : مکروھہ لطم الوجہ اوغیرہ بالماء تنزیھا ۲؎۔ چہرے یا کسی اور عضو پر پانی کا تھپیڑا مارنا مکروہ تنزیہی ہے ۔( ت)


(۲؎ الدرمختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی۱ /۲۴)


بحر میں ہے: ان الزیلعی صرح بان لطم الوجہ بالماء مکروہ فیکو ن ترکہ سنۃ لاادبا ۳؎۔


اما م زیلعی نے تصریح فرمائی ہے کہ چہرے پرپانی کا تھپیڑا مارنا مکروہ ہے تو اس کا ترک صرف ادب نہیں بلکہ سنت ہوگا ۔(ت)


(۳؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)


یونہی اعضا ء کا ملنا ف ۳بھی مثل غسل سنّتِ وضو بھی ہے۔


ف۳:اعضا کا مل مل کر دھونا وضو اور غسل دونوں میں سنت ہے ۔


درمختار میں ہے : من السنن الدلک وترک الاسراف وترک لطم الوجہ بالماء ۴؎۔ سُنّتوں سے ہے اعضاء کو ملنا ، اسراف کا ترک کرنا، چہرے پرپانی کا تھپیڑا لگانے کو ترک کرنا ۔ (ت)


(۴؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۲)


خلاصہ فصل وضو جنس آخر صفتِ وضو میں ہے : وَالدَّلۡکُ عندنا سنۃ ۱؎ اعضاء کو ملنا ہمارے نزدیک سنّت ہے۔ (ت) رہا اعضا ء ف۱ میں حدودِ شرعیہ سے اتنا تجاوز جس سے یقین ہوجائے کہ حدود فرض کا استیعاب ہو لیا۔


(۱؎خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارات الفصل الثالث جنس آخرفی سنن الوضو مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ۱/ ۲۲ )


ف۱ اعضاء وضو دھونے میں حدشرعی سے اتنی خفیف تحریر بڑھانا جس سے حد شرعی تک استیعاب میں شبہہ نہ رہے واجب ہے ۔

اقول :  اگر یقین ف۲ سے یقین فقہی مراد ہو جیسا کہ کتبِ فقہیہ میں وہی متبادر ہے تو یہ ادب وسنت درکنار خود واجب ولابدی ہے، ہاں یقین کلامی مراد ہو تو ادب کہنا عجب نہیں


ف۲ : تطفل ما علی الفتح ۔


ھذا وقدنبہ من ھٰذہ الافعال الاربعۃ علی سنیۃ الاخیرین فی البحر ۔


یہ ذہن نشین رہے،ان چار افعال میں سے آخری دو کے مسنون ہونے پر بحر میں تنبیہ کردی ۔ (ت)


اقول :  والعجب فــ۳ ترک الاولین مع نقلہ ایاھما ایضا عن الفتح فالسکوت یکون اشد ایھامامما لولم یاثرھما ولا شک ان الثانی مثل الرابع الذی استند فیہ البحر الی ان الخلاصۃ جعلہ سنۃ فکذلک نص فیھا علی سنیۃ الثانی ایضا اما فــ۴ الاول فاھم الکل واحقہا بالتنبیہ والبحر نفسہ صرح فی الاستنجاء بما سمعت ولکن جل من لا یغیب عن علمہ شیئ قط۔


اقول اور تعجب ہے کہ پہلے دونوں کوترک کر دیا حالانکہ ان دونوں کو بھی فتح القدیر سے نقل کیا ہے اس لیے یہاں سکوت اس صورت سے زیادہ ایہام خیز ہے جبکہ ان دونوں کو نقل ہی نہ کیا ہوتااورچہارم (اعضا ء کو ملنا ) سے متعلق تو بحر نے خلاصہ کی سند پیش کی کہ اس میں اسے سنت قرار دیا ہے جبکہ بلاشبہ دوم (انگشتری کوحرکت دینا) بھی اسی کی طرح ہے کہ اس سے متعلق بھی خلاصہ میں مسنون ہونے کی تصریح ہے،رہا اول (جس انگشتری پر خدا ورسول کا نام ہو اسے اتار لینا ) تو وہ سب سے اہم اور سب سے زیادہ مستحق تنبیہ ہے اورخودبحر نے بیان استنجا میں وہ تصریح کی ہے جو پیش ہوئی لیکن بزرگ ہے وہ جس کے علم سے کوئی شے کسی وقت اوجھل نہیں ہوتی ۔(ت)


فــ۳: تطفل علی البحر۔

فــ۴: تطفل اخر علیہ ۔


یہاں سے واضح ہوا کہ محقق کا اس عبارت میں ترک اسراف (ادب)شمار فرمانا نفی کراہت پر حاکم نہیں ۔


اقول وکان من فــ۱احسن الاعذار عن المحقق رحمہ اللّٰہ تعالی انہ تجوز فاطلق الادب علی مایعم السنن لکنہ ھھنا قدمیز السنن من الاداب کما میز فی الخلاصۃ واخذفــ۲ علی الکتاب فی جعلہ التیا من واستیعاب الرأس بالمسح مستحبین وقال بعد اقامۃ الدلیل فالحق عــــہ ان الکل سنۃ ومسح الرقبۃ مستحب ۱؎اھ


اقول محقق کی جانب سے بہتر عذر یہ تھا کہ انہوں نے مجازالفظ ادب کا اطلاق اس پر کیا ہے جو سنتوں کو بھی شامل ہو لیکن انہوں نے یہاں سُنتوں کوآداب سے الگ رکھا ہے جیسے خلاصہ میں الگ الگ رکھا ہے،اور حضرت محقق نے کتاب (ہدایہ) پر داہنے سے شروع کرنے اور مسح کے پورے سر کے احاطہ کو مستحب قرار دینے پر گرفت کی ہے اوردلیل قائم کرنے کے بعد لکھا ہے : تو حق یہ ہے کہ سب سنت ہے اور گردن کا مسح مستحب ہے ۔


فــ۱:تطفل علی الفتح۔

فــ۲ مسئلہ وضومیں ہاتھ اور یوں ہی پاوں بائیں سے پہلے داہنا دھونا یعنی سیدھے سے ابتدا کرنا سنت ہے اگر چہ بہت کتب میں اسے مستحب لکھا ۔

عـــہ تبعہ علی الاول فی البرھان ثم الشرنبلالی وغیرھما وعلی الثانی من لایحصی اھ منہ

عــہ اول پر حضرت محقق کا اتبا ع برہان پھر شرنبلالی وغیرہما میں ہے اور ثانی پر بے شمار لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اھ منہ (ت)


(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ         مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۱)


ثالثا اقو ل  : عبارت ف۲ بدائع میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امام ملک العلماء رحمہم اللہ تعالی نے ترک اسراف کو صرف ادب ہی نہ فرمایا بلکہ حق بتایا تو اسراف خلاف حق ہوا باطل ہوا اور اس کاادنی درجہ کراہت وماذابعد الحق الاالضلال ۲؎ (پھر حق کے بعد کیا ہے مگر گمراہی۔ ت) بلکہ اسراف کو غلو کہا اور دین میں غلو ممنوع ،  لاتغلو فی دینکم ۳؎  (اپنے دین میں زیادتی نہ کرو ۔ت)


ف۲: تطفل علی الحلیۃ۔


(۲؎ القرآن ۱۰ /۱۳۲)

(۳؎ القرآن ۴ /۱۷۱)


رابعا اقول: ان تمام تا ئیدات فـــ ۳کے بعد بھی نہر و ردالمحتار کا مطلب کہ قو ل سوم اور دوم کی طرف راجع کرنا ہے تمام نہیں ہوتا ۔مانا کہ بدائع وفتح کی عبارات نفی نہ کریں مانا کہ فتح کی رائے میں ترک ادب بھی مکروہ ہو مگرنص امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ کا کیا جواب ہے جس میں اس کے ادب ہونے کی تصریح فرمائی اور مستحبات محضہ کے ساتھ اس کی گنتی آئی، اب اگر تحقیق یہ ہے کہ ترک مندوب مکروہ نہیں تو ضرور کلام امام کہ امام کلام ہے نفی کراہت کا اشعار فرمائے گا اس بارہ میں کلمات علماء کا اختلاف و اضطراب سن چکے۔


فـــ۳:تطفل علی النہر وش ۔


وانا اقول وبا للہ التوفیق اولاف۴ حب وکراہت میں میں تناقض نہیں کہ ایک کا رفع دوسرے کے ثبوت کو مستلزم ہو۔دیکھومباح سے دونوں مرتفع ہیں تو ترک مستحب مطلقامستلزم کراہت کیوں ہوا ۔


ف۴:فائدہ جلیلہ دربارہ مکروہ تنزیہی وتحریمی واساء ت وخلاف اولٰی مصنف کی تحقیق نفیس فوائدکثیرہ پر مشتمل اور واجب و سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ کے فرق احکام ۔


ثانیا،اقول اگر ترک مستحب موجب کراہت ہو تو آدمی جس وقت خالی بیٹھا ہو اور کوئی مطالبہ شرعیہ اس وقت اس پر لازم نہ ہو لازم کہ اس وقت لاکھوں مکروہ کا مرتکب ٹھہرے کہ مندوبات بے شمار ہیں اور وہ اس وقت ان سب کا تارک۔


ثالثا ، اقو ل کراہت کا لفظ ہی بتارہاہے کہ وہ مقابل سنت نہ مقابل مندوب جو بندہ ہو کر بلا وجہ وجیہ ایسی چیز کا ارتکاب کرے جسے اس کا مولٰی مکروہ رکھتا ہے وہ کسی ملامت و سرزنش کا بھی مستحق نہ ہو تو مولٰی کے نزدیک مکروہ ہونے کا کیا اثر ہوا اور جب فعل پرسرزنش چاہئے تواس کا مرتبہ جانب ترک میں وہی ہوا جو جانب فعل میں سنت کاہے کہ اس کے تر ک پر ملامت ہے نہ کہ مندوب کا جس کے ترک پر کچھ نہیں، ظاہر ہے کہ کراہت کچھ ہے کی مقتضی ہے اورترک مستحب پر کچھ نہیں ،اور کچھ نہیں کچھ ہے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔

رابعاً، اقول وباللہ التوفیق : تحقیق بالغ وتنمیق بازغ یہ ہے کہ فعل مطلوب شرعی کاترک نادراًہوگا یا عادۃً، اور ہر ایک پر سزاکا استحقاق ہوگا یا سرزنش کا ، یا کچھ نہیں تو دونوں ترک تین قسم ہوئے ہیں ،اور تین کو تین میں ضرب دئیے سے نو قسمیں عقلی پیدا ہوئیں ان میں تین بداہۃًباطل ہیں : 

(۱)ترک عادی پر کچھ نہ ہو اور نادر پر عذاب یا عتاب(۲)، سوم(۳) ترک عادی پر عتاب اور نادر پر عقاب۔ اور دو قسمیں شرعاً وجود نہیں رکھتیں ترک عادی پر عقاب یا عتاب اور نادر پر کچھ نہیں کہ شرعاً مستحب کے ترک نادر پر کچھ نہیں تو عادی پر بھی کچھ نہیں اور سنّت کے ترک عادی پر عتاب ہے تو نادر پر بھی ہے کہ وہ حکم سنّت ہے اور حکم شے کو شے سے انفکاک نہیں۔


اصول امام فخرالاسلام وامام حسام الدین وامام نسفی میں ہے: حکم السنۃ ان یطالب المرء باقامتھا من غیر افتراض ولا وجوب لانھا طریقۃ امرنا باحیائھا فیستحق اللائمۃ بترکہا ۱؎۔


سنت کا حکم یہ ہے کہ آدمی سے اسے قائم کرنے کا مطالبہ ہو بغیر اس کے کہ اس پر فرض یا واجب ہو ۔ کیونکہ یہ ایسا طریقہ ہے جسے زندہ کرنے کاہمیں حکم دیا گیا تو اس کے ترک پر ملامت کا مستحق ہوگا ۔(ت)


( ۱؎ اصول البزدوی     باب العزیمۃ والرخصۃ         نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی        ص۱۳۹)


لا جرم چار قسمیں رہیں:

(۱) ترک عادی ہونا یا نادر مطلقا موجب استحقاق عذاب ہو یہ بحال قطعیت فرض ورنہ واجب ہے۔

(۲) عادی پر عذاب اور نادر پر عتاب۔ یہ سنت مؤکدہ ہے کہ اگر نادر پر بھی عذاب ہو تو اُس میں اورواجب میں فرق نہ رہے گا اور عادی پر بھی عتاب ہی ہو تو اُس میں اور سنت مؤکدہ میں تفاوت نہ ہوگا حالانکہ وہ ان دونوں میں برزخ ہے۔

(۳) عادی ہو یا نادر مطلقا مورث عتاب ہو۔ یہ سنتِ زائدہ ہے۔

(۴) مطلقا عذاب وعتاب کچھ نہ ہو۔ یہ مستحب ومندوب وادب ہے۔


پھر ازا نجا کہ فعل وترک میں تقابل ہے بغرض تعادل واجب ہے کہ ایسی ہی چار قسمیں جانب ترک نکلیں یعنی جس کا ترک مطلوب ہے:


 (۱) اس کا فعل عادی ہو یا نادر مطلقا موجب استحقاق عذاب ہو یہ بحال قطعیت حرام ورنہ مکروہ تحریمی ہے۔

(۲)فعل عادی پر عذاب اور نادر پر عتاب یہ اساء ت ہے جس کی نسبت علماء نے تحقیق فرمائی کہ کراہت تنزیہی سے افحش اور تحریمی سے اخف ہے۔

(۳) مطلقا مورث عتاب ہی ہو یہ کراہت تنزیہی ہے۔

(۴) مطلقا کچھ نہ ہو یہ خلافِ اولٰی ہے۔


تنویر: اس تقریر منیر سے چند جلیل فائدے متجلی ہوئے:


 (۱) سنتِ مؤکدہ کا ترک مطلقا گناہ نہیں بلکہ اُس کے ترک کی عادت گناہ ہے۔

(۲) اساء ت کے بارے میں اگرچہ کلماتِ علماء مضطرب ہیں کوئی اسے کراہت سے کم کہتا ہے۔


کما فی الدر۱؎ صدر سنن الصلاۃ وبہ نص الامام عبدالعزیز فی الکشف وفی التحقیق۔


جیسا کہ درمختار میں سنن نماز کے شروع میں ہے اور امام عبدالعزیز بخاری نے کشف میں اور تحقیق میں اسی کی تصریح کی ہے۔ (ت)


 (۱؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی۱ /۷۳)


کوئی زائد ،کما فی الشامی۲؎ عن شرح المنار للزین (جیسا کہ شامی میں محقق زین بن نجیم کی شرح منار سے نقل ہے ۔ ت)


 (۲؎ردا لمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ دار احیاء التراث العربی بیروت۱ /۳۱۸)


کوئی مساوی کما فی الطحطاوی۱؎ ثمہ وفی ادراک الفریضۃ عن الحلبی شارح الدر  (جیسا کہ طحطاوی نے سنن نمازاور باب ادراک الفریضہ میں حلبی شارح دُر مختار نقل ہے ۔ ت)


 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الد ر المختار کتاب الصلوٰ ۃ باب صفۃ الصلوٰۃ المکتبۃ ا لعربیہ کوئٹہ ۱ /۲۱۳)


مگر عندالتحقیق اُس کا مقابل سنتِ مؤکدہ ہونا چاہئے کہ جس طرح سنتِ مؤکدہ واجب وسنت زائدہ میں برزخ ہے یوں ہی اساء ت کراہت تحریم وکراہت تنزیہ میں کما فی الشامی۲؎  (جیسا کہ شامی میں ہے۔ ت)


 ( ۲؎ردا لمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ دار احیاء التراث العربی بیروت۱ /۳۱۹)


عٰلمگیریہ ف میں سراج وہاج سے ہے: ان ترک المضمضۃ والاستنشاق اثم علی الصحیح لانھا من سنن الھدی وترکھا یوجب الاساء ۃ بخلاف السنن الزوائد فان ترکھا لایوجب الا ساء ۃ ۳؎ اھ


اگرمضمضہ واستنشاق کا تارک ہو تو بر قول صحیح گنہگار ہوگا اس لیے کہ یہ سنن ہدٰی سے ہے اور ان کا ترک موجب اساء ت ہے بخلاف سنن زوائد کے کہ ان کا ترک موجبِ اساء ت نہیں اھ۔ت


 (۳؎الفتاو ی الہندیہ بحوالہ السراج الوہاج کتاب الطہارۃ الباب الاول الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۶،۷ )


ف: مسئلہ وضو میں کلی یا ناک میں پانی ڈالنے کا ترک مکروہ ہے اور اس کی عادت ڈالے توگناہگارہوگایہ مسئلہ وہ لوگ خوب یاد رکھیں کہ جو کلیاں ایسی نہیں کرتے کہ حلق تک ہر چیز کو دھوئیں اور وہ کہ پانی جن کی ناک کو چھو جاتا ہے سونگھ کر اوپر نہیں چڑھاتے یہ سب لوگ گنہگا ر ہیں اور غسل میں ایسا نہ ہو تو سرے سے غسل نہ ہوگا نہ نماز۔


اقول قولہ اثم ای ان اعتاد کما ھو معروف فی محلہ فیہ وفی نظائرہ۔


اقول قول مذکور ''گنہگار ہوگا'' یعنی اگر ترک کا عادی ہو جیساکہ یہ معنی اپنی جگہ اس بارے میں اور اس کی نظیروں میں معروف ہے ۔(ت) اصول امام فخر الاسلام وامام حسام الدین وامام نسفی میں ہے: والسنن نوعان سنۃ الھدی وتارکھا یستوجب اساء ۃ وکراھیۃ والزوائد وتارکھا لایستوجب اساء ۃ ۱؎۔


سنت کی دو قسمیں ہیں،(۱) سنّت ہدٰی ،اس کا تارک اسا ء ت وکراہت کا مستحق ہے(۲) سنّتِ زائدہ، اس کا تارک اسا ءت کا مستحق نہیں ۔ (ت)


(۱؎ اصول البزدوی    باب العزیمۃ والرخصۃ    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۳۹)


ردالمحتار فـ صدر سنن الوضوء میں ہے:


مطلق السنۃ شامل لقسمیہا وھما السنۃ المؤکدۃ المسماۃ سنۃ الھدی وغیر المؤکدۃ المسماۃ سنۃ الزوائد ۲؎۔


مطلق لفظ سنّت دونوں قسموں کو شامل ہے دونوں قسمیں یہ ہیں:(۱) سنّتِ مؤکدہ جس کا نا م سنّتِ ہدٰی ہے (۲) سنت غیرمؤکدہ جس کانا م سنّتِ زائدہ ہے ۔ ت


ف:سنت ہدی سنت مؤکدہ کا نام ہے اور سنت زائدہ سنت غیر مؤکدہ کا ۔


( ۲؎ ردا لمحتارکتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۱)


بحرالرائق سنن نماز مسئلہ رفع یدین للتحریمہ میں ہے :


انہ من سنن الھدی فھو سنۃ مؤکدۃ ۳؎۔


وہ سنن ہدٰی سے ہے تو وہ سنّتِ مؤکدہ ہے۔ (ت)


(۳؎ البحرالرائق    کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱ /۳۰۲)


(۳) کراہت تنزیہ نہ مستحب کے مقابل ہے نہ سنّتِ مؤکدہ کے ،بلکہ سنّتِ غیر مؤکدہ کے مقابل ہے ، اُسے مستحب کے مقابل کہنا خلافِ تحقیق ہے اور مطلق سنّت کے مقابل بتانا اعم ہے جبکہ اُسے اساء ت کو بھی شامل کرلیا جائے جس طرح کبھی اسا ء ت کو اعم لے کر سنّتِ زائدہ کے مقابل بولتے ہیں جس طرح اطلاق موسع میں خلافِ اولی کو مکر وہ تنزیہی کہہ دیتے ہیں۔

(۴) خلاف اولی مستحب کا مقابل ہے اور معنی خاص پر مکروہ تنزیہی سے بالکل جدا بمعنی اعم اُسے بھی شامل اور کراہت تنزیہ کا اُس کی طرف مرجع ہونا اسی معنی پر ہے۔ بحر کے اشکال مذکور


یشکل علیہ ما قالوہ ان المکروہ تنزیھا مرجعہ الی خلاف الاولی۴؎


    (اس پر علماء کے اس قول سے اشکال وارد ہوتا ہے کہ اس کا مرجع خلاف اولٰی ہے۔ ت)


 (۴؎ البحرالرائق    کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۲)


منحۃ الخالق میں فرمایا: الکراھۃ لابدلھا من دلیل خاص وبذلک یندفع الاشکال لان المکروہ تنزیھا الذی ثبتت کراھتہ بالدلیل یکون خلاف الاولی ولا یلزم من کون الشیئ خلاف الاولی ان یکون مکروھا تنزیھا مالم یوجد دلیل الکراھۃ ۱؎۔


کراہت کیلئے دلیل خاص ضروری ہے ۔ اسی سے اشکال دفع ہوجاتا ہے اس لئے کہ مکروہ تنزیہی جس کی کراہت دلیل سے ثابت ہے وہ خلاف اولٰی ہے اور کسی شے کے خلاف اولٰی ہونے سے یہ لازم نہیں کہ وہ مکروہ تنزیہی ہو جب تک کہ دلیل کراہت دستیاب نہ ہو۔ ( ت)


(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲ /۳۲)


(۵) کراہت کیلئے اگرچہ تنزیہی ہو ضرور دلیل کی حاجت ہے


کما نص علیہ فی الحدیقۃ الندیۃ وغیرھا وبیناہ فی رشاقۃ الکلام


(جیسا کہ اس پر حدیقۃ الندیہ وغیرہ کی صراحت موجود ہے اور ہم نے اس کواس کو رسالہ رشاقۃ الکلام میں بیان کیا ہے۔ ت)


اقول : خلافِ سنت ف ہونا خود کراہت پر دلیل شرعی ہے۔


فـــ :معروضۃ علی العلامۃ ش ۔


لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من رغب عن سنتی فلیس منی ۲؎ رواہ الشیخان عن انس ۔


کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو میری سنّت سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں ، اسے بخاری ومسلم نے حضرت انس سے روایت کیا۔


(۲؎ صحیح البخاری    کتاب النکاح با ب الترغیب فی النکاح     قدیمی کتب خانہ کراچی۲ /۷۵۷،۷۵۸)

(صحیح مسلم کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۴۴۹)


ولا بن ماجۃ عن ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی۳؎


اور ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ابن ماجہ کی روایت میں ہے جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں۔


(۳؎ سنن ابن ماجہ     ابواب النکاح     باب ماجاء فی فضل النکاح ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۱۳۴)


فما مر عن العلامۃ الشامی من انھا قد یعرف بلا دلیل خاص کان تضمن ترک واجباو سنۃ ۱؎ لیس کما ینبغی ولا نعنی بالخاص خصوص النص فی الجزئی المعین اذلا حاجۃ الیہ قطعا لصحۃ الاحتجاج بالعمومات والقواعد الشرعیۃ الکلیۃ قطعا۔


تو و ہ کلام جوعلامہ شامی سے نقل ہوا مناسب نہیں (وہ کہتے ہیں )کراہت کی معرفت کبھی دلیل خاص کے بغیر ہوتی ہے جیسے یہ کہ وہ کسی واجب یا سنت کے ترک پر مشتمل ہو ''دلیل خاص سے ہماری مراد یہ نہیں کہ اس معینہ جزئیہ میں کوئی خاص نص ہو اس لئے کہ اس کی حاجت قطعا نہیں کیونکہ شریعت کے عمومی احکام اور قوائد کلیہ سے بھی استدلال بلاشبہ درست ہے۔


(۱؎ ردالمحتار     کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۲۹)


(۶) یہ نفیس ف۱ جلیل تفرقے مقتضائے تقسیم عقلی واقتضائے نفس لفظ کراہت وقضیہ تفرقہ احکام ہیں نہ کہ نری اصطلاح اختیاری کہ جس کا جو چاہا نام رکھ لیا،


ف۱:تطفل علی الحلیۃ وش ۔


کما قالہ المحقق فی الحلیۃ ان ھذا امر یرجع الی الاصطلاح والتزامہ لیس بلازم ۲؎ اھ


جیسا کہ محقق نے حلیہ میں لکھا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا مرجع اصطلاح ہے اور اس کا التزام کوئی ضروری نہیں اھ۔


(۲؎ ردالمحتار بحوالہ الحلیہ کتاب الطہارۃ مستحبات الوضوء     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۴)


ونقل قبیلہ عن اللامشی فی حد المکروہ وھو مایکون ترکہ اولی من فعلہ وتحصیلہ اھ ثم قال اعلم ان المکروہ تنزیھا مرجعہ الی ماھو خلاف الاولی والظاھر انھما متساویان کما اشار الیہ اللامشی ۳؎ اھ وتبعہ فی ردالمحتار۔


اور اس سے کچھ پہلے لامشی سے تعریف مکروہ میں نقل کیا کہ یہ وہ ہے جس کا نہ کرنا اس کے کرنے سے بہتر ہے اھ۔ پھر لکھا کہ واضح ہو کہ مکروہ تنزیہی کامرجع خلاف اولٰی ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں میں تساوی ہے جیسا کہ لامشی نے اس کی طرف اشارہ کیا اھ اس کلام پر علامہ شامی نے بھی ردالمحتار میں ان کا اتباع کیا ۔(ت)


(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


 (۷) مشہور ف۲ احکام خمسہ ہیں ۱واجب،۲ مندوب، ۳مکروہ،۴ حرام، ۵مباح


وبہ بدء فی مسلم الثبوت (اسی کو مسلم الثبوت میں پہلے نمبر پر بیان کیا ۔ ت) یہ مذہب شافعیہ سے الیق ہے کہ اُن کے یہاں واجب وفرض میں فرق نہیں


والیہ اشارتبعا للتحریر فی التحریر بقولہ بعدہ والحنفیۃ لاحظوا حال الدال الخ ۱؎

ۤ


اور اسی کی طرف مسلم میں اس کے بعد محقق ابن الہمام کی تحریر الاصول کی تبعیت میں یہ کہہ کر اشارہ کیا کہ حنفیہ نے دلیل کی حالت کا اعتبار کیا ہے الخ۔


 ( ۱؎ مسلم الثبوت     الباب الثانی فی الحکم مطبع مجتبائی دہلی     ص۱۳)


اور بعض نے برعایت مذہب حنفی فرض وواجب اور حرام ومکروہ تحریمی کو تقسیم میں جدا جدا اخذ کرکے سات قرار دئے وبہ ثنی فی المسلم (اور اسی کو مسلم الثبوت میں دوسرے نمبرپر بیان کیا (ت) بعض نے فرض، واجب، سنّت، نفل، حرام، مکروہ، مباح یوں سات گنے۔


وعلیہ مشی فی التنقیح وتبعہ مولی خسرو فی مرقاۃ الوصول والعلامۃ الشمس محمد بن حمزۃ الفناری فی فصول البدائع۔


اسی پر صدر الشریعہ تنقیح میں چلے ہیں اور ملاّ خسرو نے مرقاۃ الوصول میں اور علامہ شمس الدین محمد بن حمزہ فناری نے اصول  البدائع میں تنقیح کی پیروی کی ہے ۔


بعض نے سنت میں سنت ہدی و سنت زائدہ اور مکروہ میں تحریمی وتنزیہی قسمیں کر کے نو شمار کیے۔


کمانص علیہ الفناری فی اخر کلامہ ویشیر الیہ کلام التوضیح ۔


جیساکہ فناری نے آخر کلام میں اس کی صراحت کی ہے اور کلام توضیح میں اس کی جانب اشارہ ہے۔ (ت)

اقول :  تقسیم ف۱ اول میں کمال اجمال اور مذہب شافعی سے الیق ہونے کے علاوہ صحت مقابلہ اس پر مبنی کہ ہر مندوب کا ترک مکروہ ہو وقد علمت انہ خلاف التحقیق (تُو نے جان لیا یہ خلافِ تحقیق ہے۔ ت) نیز سنّت ومندوب ف۲ میں فرق نہ کرنا مذہب حنفی وشافعی کسی کے مطابق نہیں۔ یہی ف۳ دونوں کمی تقسیم دوم میں بھی ہیں، سوم وچہارم میں عدم مقابلہ بدیہی کہ سوم ف۴ میں جانبِ فعل چار چیزیں ہیں ا ور جانبِ ترک دو۔ چہارم ف۵ میں جانبِ فعل پانچ ہیں اور جانب ترک تین۔


ف۱:تطفل علی المشہور۔

ف۲:تطفل اٰ خرعلیہ ۔

ف۳:معروضتان علی مسلم الثبوت ۔

ف۴:تطفل علی التوضیح والمولٰی خسرو ۔

ف۵:تطفل علی الشمس الفناری ۔


پھر جانب ترک بسط ف۱ اقسام کرکے تصحیح مقابلہ کیجئے تو اُسی مقابلہ نفل وکراہت سے چارہ نہیں مگر بتوفیق اللہ تعالٰی تحقیق فقیر سب خللوں سے پاک ہے ،اُس نے ظاہر کیا کہ بلکہ احکام گیارہ ہیں پانچ جانبِ فعل میں متنازلاً فرض(۵) واجب(۴) سنّت مؤکدہ (۳) غیرمؤکدہ (۲) مستحب(۱) اور پانچ جانبِ ترک میں متصاعداً خلاف(۱) اولی (۲) مکروہ تنزیہی  (۳) اساءت(۴) مکروہ تحریمی  (۵) حرام جن میں میزان مقابلہ اپنے کمال اعتدال پر ہے کہ ہر ایک اپنے نظیر کا مقابل ہے اور سب کے بیچ میں گیارھواں مباح خالص۔اس تقریر منیر کو حفظ کرلیجئے کہ ان سطور کے غیر میں نہ ملے گی اورہزار ہا مسائل میں کام دے گی اور صد ہا عقدوں کو حل کرے گی کلمات اس کے موافق مخالف سب طرح کے ملیں گے مگر بحمداللہ تعالٰی اس سے متجاوز نہیں فقیر طمع رکھتا ہے کہ اگر حضور سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور یہ تقریر عرض کی جاتی ضرور ارشاد فرماتے کہ یہ عطر مذہب وطراز ومُذَہَّب ہے والحمدللّٰہ ربّ العٰلمین۔ اس تحقیق انیق کے بعد قول سوم ہرگز دوم کی طرف راجع ہوکر منتفی نہیں بلکہ وہی من حیث الروایۃ سب سے اقوی ہے کہ خاص نص ظاہر الروایۃ کا مقتضی ہے۔


ف۱:تطفل اٰ خرعلی ھٰؤلاء الثلثۃ ۔


تنبیہ(۴) علامہ عمر نے جبکہ قول چہارم اختیار فرمایا امام اجل قاضی خان وغیرہ کا ترک اسراف کو سنّت فرمانا بھی اسی طرف راجع کرنا چاہا کہ سنّت سے مراد مؤکدہ ہے اور اُس کا ترک مکروہ تحریمی۔


اقول : اقوال بعض متاخرین میں ف۲ اُس کی تائیدوں کا پتا چلے گا ۔


ف ۲:تطفل علی النہر ۔


بحرالرائق ف۳ آخر مکروہات الصلوٰۃ پھر ردالمحتار میں ہے: السنۃ اذا کانت مؤکدۃ قویۃ لایبعد ان یکون ترکہا مکروھا کراھۃ تحریم کترک الواجب ۱؎۔


سنّت جب مؤکدہ قوی ہو تو بعید نہیں کہ اس کا ترک واجب کی طرح مکروہ تحریمی ہو۔ (ت)


ف۳:مسئلہ سنت مؤکدہ کا ترک ایک آدھ بار مورث عتاب ہے مگر گناہ نہیں ہاں ترک کی عادت کرے تو گناہ گار ہوگا اور اس بارے میں دفع اوہام وتوفیق اقوال علماء کرام ۔


(۱؎البحرالرائق کتاب الصلوۃ با ب ما یفسد الصلوٰ ۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۳۲)

ردالمحتار     کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۹)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۲۷۶)


ابو السعود علی مسکین پھر طحطاوی علی الدرالمختار صدر مکروہاتِ نماز میں ہے: الفعل اذا کان واجبا اومافی حکمہ من سنۃ الھدٰی ونحوھا فالترک یکرہ تحریما وان کانت سنۃ زائدۃ اومافی حکمہا من الادب ونحوہ یکرہ تنزیھا ۱؎ اھ


فعل جب واجب ہو یا واجب کے حکم میں ہو جیسے سنتِ ہدٰی وغیرہا تو اس کا ترک مکروہ تحریمی ہے اور اگر سنت زائدہ ہو یا وہ ہو جو اُس کے حکم میں ہے یعنی ادب اوراس کی مثل تو اس کا تر ک مکروہ تنزیہی ہے۔ (ت)


( ۱؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۲۶۹،۲۷۰)

(فتح المعین کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۴۱)


اقول اوّلا : تبعاف۱ القھستانی فانہ ذکرہ ثمہ ولم ینقلہ عن احد بل زعم ان کلامھم یدل علیہ فما کان للسید الازھری ان یسوقہ مساق المنقول۔


ان دونوں حضرات (ابو سعود و طحطاوی ) نے قہستانی کی پیروی کی ہے ۔قہستانی نے یہ بات مکروہات نماز کے شروع میں ذکر کی اور اسے کسی سے نقل نہ کیا بلکہ یہ دعوی کیاکہ کلام علماء اس پر دلالت کرتا ہے۔تو سید ازہری کو یہ نہ چاہیے تھا کہ اسے اس طرح ذکر کریں جیسے وہ کوئی منقول قاعدہ ہے۔


ف۱:معروضۃ علی السید ابی السعود۔


وثانیا لا یدری ف۲ ماذا اراد بنحوھا فالحکم لایسلم لہ فی السنۃ المؤکدۃ مالم یتعود بالترک ففیم یثبت بعدھا وھل تری قائلا بہ احدا۔


ثانیا : سنت ہدی کے بعد :''اور اس کے مثل'' کہا پتا نہیں اس سے کیا مراد ہے خود سنت موکدہ کو واجب کا حکم نہیں ملتاجب تک کہ اس کے تر ک کی عادی نہ ہو پھر اس کے بعد کس چیز میں وہ حکم ثابت ہوگا کیا اس کا بھی کوئی قائل مل سکتا ہے؟


ف۲ معروضۃ علی القہستانی والسیدین ابی السعود وط۔


کشف بزدوی وتحقیق علی الحسامی بحث عزیمت ورخصت میں اصول امام ابو الیسر فخر الاسلام بزدوی سے ہے: حکم السنۃ ان یندب الی تحصیلہا ویلام علی ترکہا مع لحوق اثم یسیر ۱؎۔


سنت کاحکم یہ ہے کہ اس کی بجا آوری کی دعوت ہو اور اس کے ترک پر ملامت ہو ساتھ میں کچھ گناہ بھی لاحق ہو ۔(ت)


(۱؎کشف الاسرارعن اصول البزدوی باب العزیمۃ والرخصۃ دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۳۰۸)


درمختار صدرحظر میں ہے: یاثم بترک الواجب ومثلہ السنۃ المؤکدۃ ۲؎۔


ترک واجب سے گناہگا ر ہوگا اوراسی کے مثل سنت مؤکدہ بھی ہے ۔(ت)


 ( ۲؎الدرالمختار     کتاب الحظر والاباحۃ         مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۵ )


مگر صحیح وہی ہے جو ہم اوپر بیان کر آئے کہ سنتِ مؤکدہ کا ایک آدھ بار ترک گناہ نہیں ہاں بُرا ہے اور عادت کے بعد گناہ وناروا ہے۔

اقول : وھذا ان شاء اللّٰہ تعالی سرقول الامام الاجل فخرالاسلام ان تارک السنۃ المؤکدۃ یستوجب اساء ۃ ۳؎ای بنفس الترک وکراھۃ ای تحریمیۃ ای عند الاعتیاد اذھی المحل عند الاطلاق ولھذا قال الامام عبدالعزیز فی شرحہ ان الاساء ۃ دون الکراھۃ۴؎ واکتفی فی السنۃ الزائدۃ بنفی الاساء ۃ لان نفی الادنی یدل علی نفی الاعلی بالاولی وحیث ان الکراھۃ التنزیھیۃ ادنی من الاساء ۃ فنفی الاعلی لایستلزم نفی الادنی ولذا ذکر توجہ اللائمۃ حکم ترک مطلق السنۃ ثم قسمھا قسمین وفرق بلزوم الاساء ۃ وعدمہ فتحصل ان المؤکدۃ وغیرھا تشتر کان فی توجہ الملام علی الترک وتتفار قان فی ان ترک المؤکدۃ اساءۃ  وبعد التعود کراھۃ تحریم ولیس فی ترک غیرھا الاکراھۃ التنزیہ ولعمری ان اشارات ھذا الامام الھمام ادق من ھذا حتی لقبوہ ابا العسر واخاہ الامام صدر الاسلام ابا الیسر۔


اقول: اور یہی ان شاء اللہ تعالی امام الاجل فخر الاسلام کے اس ارشاد کارمز ہے کہ ''سنت مؤکدہ کا تارک اساء ت کا مستحق ہے ''یعنی نفس ترک سے '' اور کراہت کا '' مستحق ہے یعنی کراہت تحریمیہ کا، جب کہ عادت ہو اس لئے کہ مطلق بولنے کے وقت کراہت تحریمیہ ہی مراد ہوتی ہے ۔ اس لئے امام عبد العزیز بخاری نے اپنی شرح میں فرمایا کہ :اساء ت کا درجہ کراہت سے نیچے ہے اور سنت زائدہ میں نفی اسا ء ت پر اکتفا کی اس لئے کہ ادنی کی نفی سے اعلٰی کی نفی بدرجہ اولٰی معلوم ہوجائے گی۔اور چونکہ کراہت تنزیہیہ اساء ت سے ادنٰی ہے تو اعلی ٰ کی نفی سے ادنٰی کی نفی لازم نہ آئے گی اس لئے مستحق ملامت ہونا مطلق سنت کے ترک کا حکم بتایا پھرسنت کی دوقسمیں کیں اور اساء ت لازم آنے اور نہ لازم آنے سے دونوں میں فرق کیا تو حاصل یہ نکلا کہ سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ دونوں اس حکم میں مشترک ہیں کی ترک پر ملامت ہوگی اوردونوں آپس میں یوں جداجدا ہیں کہ مؤکدہ کا ترک اسا ء ت اورعادت کے بعد کراہت تحریم ہے اور غیر مؤکدہ کے ترک میں صرف کراہت تنزیہ ہے بخدا اس امام ہمام کے ارشادات اس سے بھی زیادہ دقیق ہوتے ہیں یہاں تک کہ علماء نے انہیں ''ابو العسر''اور ان کے برادر امام صدرالاسلام کو ''ابوالیسر'' کا لقب دیا ۔(ت)


(۳؎اصول البزدوی باب العزیمۃ والرخصۃ نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی ص۱۳۹)

(۴؎کشف الاسرارعن اصول البزدوی باب العزیمۃ والرخصۃ دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۳۱۰)


جہاں جہاں کلمات علما ء میں اُس پر حکم اثم ہے اُس سے مراد بحال اعتیاد ورنہ اُس میں اور واجب میں فرق نہ رہے۔


اقول ف۱ : والفرق بتشکیک الاثم کما لجاء الیہ فی البحر لایجدی لان التشکیک حاصل فی الواجبات انفسھا۔


اقول : اور گناہ کی تشکیک سے فرق جیسا کہ بحر میں اس کا سہارا لیا ہے کارآمد نہیں اس لئے کہ تشکیک تو خو د واجبات میں بھی حاصل ہے(اسی میں کم درجہ کا گناہ ہے اسی میں اس سے سخت ) ۔ت


فـــ۱:تطفل علی البحر ۔


اور جب اُس کا مطلق ترک گناہ نہیں تو مکروہ تحریمی بے عادت نہیں ہوسکتا کہ ہر مکروہ تحریمی ف۲ گناہ ومعصیت صغیرہ ہے ۔


ف: مکروہ تحریمی گناہ صغیرہ ہے ۔


ردالمحتار صدر واجبات صلوٰۃ میں ہے: صرح العلامۃ ابن نُجیم فی رسالتہا المؤلفۃ فی بیان المعاصی بان کل مکروہ تحریما من الصغائر ۱؎۔


علامہ ابن نُجیم نے بیان معاصی سے متعلق اپنے رسالہ میں تصریح فرمائی ہے کہ ہر مکروہ تحریمی گناہ صغیرہ ہے۔(ت)


( ۱ ؎رد المحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ دار احیاء التراث العربی بیروت۱ /۳۰۶ )


منیہ میں ہے: لایترک ف۳ رفع الیدین ولو اعتاد یاثم ۲؎۔


تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا ترک نہ کرے اگر ترک کی عادت کرے تو گنہگا رہوگا (ت)


(۲؎منیۃ المصلی فصل فی صفۃ الصلوۃ مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۲۷۸)


ف :۳ مسئلہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین سنت مؤکدہ ہے ترک کی عادت سے گناہ گار ہوگا ورنہ مکروہ ضرور۔


غنیہ میں ہے: لانہ سنۃ مؤکدۃ اما لو ترکہ بعض الاحیان من غیر اعتیاد لایاثم وھذا مطرد فی جمیع السنن المؤکدۃ ۳؎۔


اس لئے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے لیکن اگر بغیر عادت کے کسی وقت ترک کر دیا تو گناہگارنہ ہوگا اور یہ حکم تمام سنن مؤکدہ میں ہے ۔(ت)


(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی صفۃ الصلوۃ سہیل اکیڈمی لاہور    ص۳۰۰)


حلیہ میں کلام مذکور امام الیسر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: وھو حسن لکن بعد وجود الدلیل الدال علی لحوق الاثم لتارک السنۃ بمجرد الترک لھا ولیس ذلک بالسھل الواضح ۴؎۔


یہ کلام عمدہ ہے مگراس کے بعد تارک سنت کے لئے محض ترک سے ہی گناہ لاحق ہونے پر دلالت کرنے والی دلیل مل جائے اور یہ بہت آسان نہیں ۔(ت)


(۴؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

ردالمحتار سُنن صلاۃ میں نہرالفائق سے بحوالہ کشف کبیر کلام امام ابی الیسر نقل کرکے فرمایا: فی شرح التحریر المراد الترک بلا عذر علی سبیل الاصرار وفی شرح الکیدانیۃ عن الکشف قال محمد فی المصرین علی ترک السنۃ بالقتال وابو یوسف بالتادیب اھ فیتعین حمل الترک علی الاصرار توفیقا بین کلامھم ۱؎۔


شرح تحریر میں ہے کہ ترک سے مراد بلا عذر ترک بطور اصرار ترک کرنا اور شرح کیدانیہ میں کشف سے ہے امام محمد نے ترک سنت پر قتال کااور امام ابو یوسف نے تادیب کا حکم دیا اھ متین ہے کہ ترک کو اصرار پر محمول کیا جائے تاکہ ان حضرات کے کلام میں تطبیق ہوجائے (ت)


(۱؎رد المحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃالصلوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۱۹)


اُسی میں ہے: کونہ سنۃ مؤکدۃ لایستلزم الا ثم بترکہ مرۃ واحدۃ بلا عذر فیتعین تقیید الترک بالاعتیاد ۲؎۔


اُس کا سنّت مؤکدہ ہونا اسے مستلزم نہیں بلا عذر ایک بار ترک سے بھی گناہ گار ہوجائے گاتو متعین ہے کہ ترک کے ساتھ عادت کی قید لگائی جائے۔ (ت)


(۲؎رد المحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃالصلوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۱۹)


اُسی کے ف۱ سنن وضؤ میں دربارہ نیت ہے : یاثم بترکہا اثما یسیرا کما قدمنا عن الکشف والمراد الترک بلا عذر علی سبیل الاصرار کما قدمنا عن شرح التحریر وذلک لانھا سنۃ مؤکدۃ کما حققہ فی الفتح ۳؎۔


نیت وضو کے ترک سے کچھ گناہ گار ہوگا جیسا کہ کشف کے حوالے سے ہم نے سابقا نقل کیا اور مراد یہ ہے کہ بلاعذر بطور اصرار ترک کرے جیساکہ شرح التحریر کے حوالے سے ہم نے پہلے لکھا یہ اس لئے جیساکہ فتح القدیر میں تحقیق کی کہ وضومیں نیت سنت مؤکدہ ہے ۔( ت)


ف ۱ :مسئلہ وضومیں نیت نہ کرنے کی عادت سے گناہ گار ہو گا اس میں نیت سنت مؤکدہ ہے ۔


(۳؎رد المحتار کتاب االطہارۃ سنن الوضو داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۳)


فتح القدیر میں ہے : حکی فی الخلاصۃ خلافافی ترکہ (ای ترک رفع الیدین عند التحریمۃ) قیل یاثم وقیل لاقال والمختار ان اعتادہ اثم لاان کان احیانا انتھی وینبغی ان نجعل شقی ھذا القول محمل القولین فلا اختلاف ولا اثم لنفس الترک بل لان اعتیادہ للاستخفاف والا فمشکل اویکون واجبا ۱؎۔


خلاصہ میں اس کے ترک پر اختلاف منقول ہے (یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع بدین کے ترک پر) ایک قول ہے گنہگار ہوگا اور ایک ہے کہ نہیں ہوگا، اور مختار یہ ہے کہ اگر عادت بنالی ہے تو گنہگار ہوگا۔ اگر احیانا ہو تو نہ ہوگا انتہی اور مناسب ہے کہ اس قول کی دونوں شقوں کو دونوں قولوں کا محمل بنا لیا جائے تو نہ تو اختلاف ہوگا اور نہ ہی گناہ ہوگا نفس ترک میں، بلکہ صرف عادت بنالینے کی صورت میں ہوگا کہ اس میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے ورنہ مشکل ہے، یا پھر وہ چیز واجب ہو۔ (ت)


( ۱؎فتح القدیر کتاب الصلوۃ     باب صفۃ الصلوۃ     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۲)


دُرمختار میں ہے: الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال وقیل واجبۃ وعلیہ العامۃ ثمرتہ تظھر فی الاثم بترکہا مرۃ ۲؎۔


جماعت مردوں کیلئے سنت مؤکدہ ہے، اور کہا گیاواجب ہے، اور عامہ علماء اور ثمرہ اختلاف ایک بار ترک سے گنا ہگار ہونے سے حکم میں ظاہر ہو گا ۔(ت)


( ۲ ؎الدرالمختار     کتاب الصلوٰۃ     باب الامامۃ     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۲)


اُسی کے سُننِ وضو میں ہے: وتثلیث ف۱الغسل المستوعب ولا عبرۃف۲ للغرفات ولو اکتفی بمرۃ ان اعتادہ اثم والالا ۱؎۔


تین بار اس طرح دھونا کہ ہر مرتبہ پورے عضو کا احاطہ ہو جائے اس میں چُلوؤں کی تعداد کا اعتبار نہیں اگرایک بار دھونے پر اکتفا کی توبصورت عادت گنہگار ہے ا ورعادت نہ ہو تو نہیں۔( ت)


ف۱ :مسئلہ طہارت میں ہر عضو کا پورا تین بار دھونا سنت موکدہ ہے ترک کی عادت سے گناہ گار ہوگا


ف۲مسئلہ پانی ڈالنے کی گنتی معتبر نہیں جتنا دھونے کا حکم ہے اس پر پورا پانی بہہ جانا معتبر ہے مثلا ہاتھ پر ایک بار پانی ڈالا کہ تہائی کلائی پر بہا باقی پر بھیگا ہاتھ پھیرا دوبارہ دوسری تہائی دھلی سہ بارہ تیسری ۔تو یہ ایک ہی بار دھونا ہوا ہر بار پورے ہاتھ پر کہنی سمیت پانی ذرہ ذرہ پر بہتا تو تین بار ہوتا اس طرح دھونے کی عادت سے گناہ گار ہوگا اور اگر سو بار پانی ڈالا اور ایک ہی جگہ بہا کچھ حصے کسی دفعہ نہ بہا اگرچہ بھیگا ہاتھ پھیرا تو وضو ہی نہ ہو گا ۔


( ۱؎ الدر المختار     کتاب الطہارات     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۲)


خلاصہ میں ف۱ ہے: ان توضأ مرۃ مرۃ ان فعل لعزۃ الماء لعذر البرد اولحاجۃ لایکرہ وکذا ان فعلہ احیانا اما اذا اتخذ ذلک عادۃ یکرہ ۲؎ اھ


اگر ایک بار وضو کیا اس وجہ سے کہ پانی کم یاب ہے یا ٹھنڈک لگنے کا عذر یا کوئی حاجت ہے تو مکروہ نہیں اسی طرح اگر احیانا ایساکیا لیکن جب اسے عادت بنالے تو مکروہ ہے اھ ۔


ف۱  اگر پانی کم ہے یا سردی سخت ہے اور کسی ضرورت کے لئے پانی درکار ہے اس وجہ سے اعضا ایک ایک بار دھوئے تو مضائقہ نہیں ۔


(۲؎خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارات الفصل الثالث         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۲۲ )


اقول : ای تحریما لانہ سنۃ مؤکدۃ وھی محمل الاطلاق والمنفیۃ عن فعلہ احیانا من دون عذر۔


اقول  : یعنی مکروہ تحریمی ہے اس لئے کہ وہ سنت مؤکدہ ہے اورکراہت مطلق بولنے سے یہی مراد ہوتی ہے اور بلا عذر احیا نا کرنے سے جس کراہت کی نفی کی گئی ہے اس سے بھی یہی تحریمی مراد ہے (ت)


اس کے نظائر کثیروافر ہیں،


فلا نظر الی ماوقع فی البحر صدر سنن الصلاۃ وقدردہ فی ردالمحتار ببعض ماذکرنا ھنا وباللّٰہ التوفیق۔


تو وہ قابل توجہ نہیں جو بحر میں سنن نماز کے شروع میں تحریرہے اور ردالمحتار میں یہاں ہمارے ذکر کردہ بعض کلام کے ذریعہ اس کی تر دید بھی کردی ہے ، اور توفیق خدا ہی سے ہے ۔ (ت)


خُوب تریہ ف۱ ہے جب ہمارے مشایخ عراق نے جماعت کو واجب اور مشائخ خراسان نے سنتِ مؤکدہ فرمایا اور مفیدمیں یوں تطبیق دی کہ واجب ہے اور اُس کا ثبوت سنت سے خود علامہ عمر نے نہر میں اسے نقل کرکے فرمایا: ھذا یقتضی الاتفاق علی ان ترکہا (مرۃ) بلا عذر یوجب اثما مع انہ قول العراقیین والخراسانیین علی انہ یاثم اذا اعتاد الترک کما فی القنیۃ ۱؎ اھ


اس کا مقتضا یہ ہے بلاعذر ایک بار ترک کرنے سے گناہ گار ہونے پراتفاق ہو حالاں کہ یہ مشائخ عراق کا قول ہے،اور اہل خراسان یہ کہتے ہیں کہ جب ترک کی عادت ہو تو گناہ گار ہوگا جیسا کہ قنیہ میں ہے۔(ت)


 ( ۱؎النہرالفائق کتاب الصلوٰۃ باب ا لامامۃ والحدث فی الصلوٰۃ قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۲۳۸)


فائدہ: اس مسئلہ پر باقی کلام اور سنت کی تعریف واقسام اور سنّت غیر مؤکدہ کی تحقیق احکام اور اُس کا مستحب سے فرق اور مکروہ تحریمی وتنزیہی کی بحث جلیل اور یہ کہ مکروہ تنزیہی اصلاً گناہ نہیں اور یہ کہ مکروہ تحریمی مطلقاً گناہ ہے اور یہ کہ وہ بے اصرار ہرگز کبیرہ نہیں اور ان مسائل میں فاضل لکھنوی کی لغزشوں کا بیان یہ سب ہمارے رسالہ "۲۷بسط الیدین فی السنۃ والمستحب والمکروھین" میں ہے وباللہ التوفیق۔

تنبیہ  ۵ : جبکہ علّامہ عمر نے کراہت تحریم کا استظہار کیا علامہ شامی نے منحۃ الخالق میں تو اُن کا کلام مقرر رکھا مگر ردالمحتار میں رائے جانب کراہت تنزیہ گئی لہٰذا دلائل تحریم کا جواب دینا چاہا۔ علامہ عمر نے تین دلیلیں پیش فرمائی تھیں:

(۱) کلامِ امام زیلعی میں کراہت کو مطلق رکھنا۔

(۲) اسراف سے نہی کی حدیثوں کا مطلق یعنی بے قرینہ صارفہ ہونا۔

(۳) منتقٰی میں اُسے منہیات سے گننا۔

علّامہ شامی نے اول کا یہ جواب دیا کہ مطلق کراہت ہمیشہ تحریم پر محمول نہیں کما ذکرنا انفا ۲؎اھ جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا اھ


 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     مکروہات الوضو         داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۹۰)


واشاربہ الی ماقدمہ قبل ھذا بصفحۃ عن البحران المکروہ نوعان احدھما ماکرہ تحریما وھو المحمل عند اطلاقھم الکراھۃ کما فی زکاۃ فتح القدیر ثانیھما المکروہ تنزیھا وکثیرا مایطلقونہ کما شرح المنیۃ۔۱؎


 (ردالمحتار) اس سے ان کا اشارہ اس کلام کی طرف ہے جو اس سے ایک صفحہ پہلے بحر کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ مکروہ کی دو قسمیں ہیں ایک مکروہ تحریمی۔۔۔یہی مطلق کراہت بولنے کے وقت مراد ہوتا ہے جیسا کہ فتح القدیر میں کتاب الزکوٰۃ میں ہے۔۔۔ اور دوسری قسم مکروہ تنزیہی۔۔۔۔ اوربار ہا اسے بھی مطلق بولتے ہیں جیسا کہ منیہ کی شرح میں ہے۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     مکروہات الوضو         داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۸۹)


اقول ف۱: اس میں کلام نہیں کہ فقہا ء بارہا ف۲ کراہت مطلق بولتے اور اُس سے خاص مکروہ تنزیہی یا تنزیہی وتحریمی دونوں کو عام مراد لیتے ہیں مگر یہ وہاں ہے کہ ارادہ کراہت تحریم سے کوئی صارف موجود ہو مثلاً دلیل سے ثابت یا خارج سے معلوم ہو کہ جسے یہاں مطلق مکروہ کہا مکروہ تحریمی نہیں یا جو افعال یہاں گنے اُن میں مکروہ تنزیہی بھی ہیں کما یفعلونہ فی مکروھات الصلاۃ (جیسے مکروہات نماز میں ایسا کرتے۔ ت) بے قیام دلیل ہمارے مذہب میں اصل وہی ارادہ کراہت تحریم ہے کما مرعن نص المحقق علی الاطلاق وکتب المذ ھب طافحۃ بذلک (جیسا کہ نص محقق علی الاطلاق کی تصریح گزری اور کتب مذہب اس کے بیان سے لبریز ہیں۔ ت) تو کراہت تنزیہ کی طرف پھیرنا ہی محتاج دلیل ہے ورنہ استدلال نہر تام ہے اب یہ جواب دلیل دوم کی جواب سے محتاج تکمیل ہوا اور اُسی کی تضعیف بھی جلوہ نما۔دوم سے یہ جواب دیا کہ صارف موجود ہے مثلاً جس نے آبِ نہر سے وضو میں اسراف کیا اگر اُسے سنت نہ جانا تو ایسا ہوا کہ نہر سے کوئی برتن بھر کر اُسی میں اُلٹ دیا اس میں کیا محذور ہے سوا اس کے کہ ایک عبث بات ہے۔


ف۱:معروضۃ علی العلامۃ ش۔


ف۲:اگر فقہا خاص مکروہ تنزیہی یا تنزیہی و تحریمی دونوں سے عام پر اطلاق کراہت فرماتے ہیں مگر اصل یہی ہے کہ اس کے مطلق سے مراد کرا ہت تحریمی ہے جب تک دلیل سے اسکا خلاف نہ ثابت ہو ۔


اقول ف۳ : اس کا مبنٰی اُسی خیال پر ہے کہ علّامہ نے قول اول وچہارم کو ایک سمجھا ہے ورنہ قول چہارم میں لب نہراسراف کی تحریم کہاں اور ماورا میں کہ پانی کی اضاعت ہے صارف کیا۔


ف۳:معروضۃ اخری علیہ ۔


وقد قدمنا مایکفی ویشفی ومنہ ف۴ تعلم مافی تعبیرہ بالوضوء بماء النھر اما استنادہ الی ان حدیث فمن زاد علی ھذا ونقص فقد تعدی وظلم محمول علی الاعتقاد عندنا کما فی الھدایۃ وغیرھا قال فی البدائع انہ الصحیح حتی لوزاد اونقص واعتقد ان الثلاث سنۃ لایلحقہ الوعید قال وقدمنا انہ صریح فی عدم کراھۃ ذلک یعنی کراھۃ تحریم ۱؎ اھ


اس پر ہم کافی وشافی بحث کر چکے ہیں ۔ اسی سے وہ نقطہ بھی معلوم ہوم جاتا ہے جو ''وضو بماء النہر ''سے تعبیر میں ہے رہاان کایہ اسناد کہ حدیث ''جس نے اس پر زیادتی یا کمی کی تو اس نے حد سے تجاوز اور ظلم کیا ''ہمارے نزدیک اعتقاد پر محمول ہے جیساکہ ہدایہ وغیرہا میں ہے اور بدائع میں فرمایا کہ یہی صحیح ہے یہاں تک کہ اگر کمی بیشی کی اور اعتقاد یہ ہے کہ تین بار دھونا ہی سنت ہے تو وعید اس سے لاحق نہ ہوگی۔علامہ شامی نے کہا اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ اس بارے میں صریح ہے کہ ا س میں کراہت یعنی کراہت تحریم نہیں اھ۔


ف۴: معروضۃ ثالثۃ علیہ۔


(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     مکروہات الوضو         داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۹۰)


فاقول  : لایفید فـــ ماقصدہ من قصر الحکم علی کراھۃ التنزیہ مطلقا مالم یعتقد خلاف السنۃ کیف ولو کان ترک الاسراف سنۃ مؤکدۃ کما یقولہ النھر کان تعودہ مکروھا تحریما ووقوعہ احیانا تنزیھا والحدیث حاکم علی من زاد مطلقا ای ولو مرۃ بانہ ظالم فلزم تاویلہ بما یجعل الزیادۃ ممنوعۃ مطلقا فحملوہ علی ذلک فمن زاد اونقص مرۃ ولم یعتقد لم یلحقہ الوعید ،الا تری انھم ھم الناصون بان من غسل الاعضاء مرۃ ان اعتاد اثم کما قدمناہ عن الدر ومعناہ عن الخلاصۃ وقد صرح بہ فی الحلیۃ وغیرما کتاب ۔


فاقول : اس سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو ان کامقصد ہے کہ اسراف بہرحال مکروہ تنزیہی ہے جب تک مخالف سنت کا اعتقاد نہ ہو ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟اگر ترک اسراف سنت مؤکدہ ہے۔ جیساکہ صاحب نہر اس کے قائل ہیں تو اس کی عادت بنا لینا مکروہ تحریمی ، اور احیانا ہونا مکروہ تنزیہی ہوگا اور حدیث یہ حکم کرتی ہے کہ مطلقاجو زیادتی کرے خواہ ایک ہی بار وہ ظالم ہے تو اس کی تاویل اس امر سے ضروری ہوئی جوزیادتی کو مطلقا ممنوع قرار دے دے اس لیے علما  نے اسے اس معنٰی پر محمول کیا ۔۔۔اب جو ایک بار زیاتی یا کمی کرے اور مخالفت کا اعتقاد نہ رکھے تو وعید اسے شامل نہ ہوگی کیا یہ پیش نظر نہیں کہ علما ء اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ جو اعضا ء ایک بار دھوئے اگر اس کا عادی ہوتو گناہ گارجیسا کہ درمختار کے حوالے سے ہم نے بیان کیا اور اسی کے ہم معنی خلاصہ سے نقل کیا اور اس کی تصریح حلیہ وغیرہامتعدد کتابوں میں موجود ہے۔


ف: معروضۃ رابعۃ علیہ ۔

ثم ف العجب انی رأیت العلامۃ نفسہ قدصرح بھذا فی سنن الوضوء فقال'' لایخفی ان التثلیث حیث کان سنۃ مؤکدۃ واصر علی ترکہ یاثم وان کان یعتقدہ سنۃ واما حملھم الوعید فی الحدیث علی عدم رؤیۃ الثلث سنۃ کما یاتی فذلک فی الترک ولو مرۃ بدلیل ماقلنا (قال) وبہ اندفع مافی البحر من ترجیح القول بعدم الاثم لواقتصر علی مرۃ بانہ لواثم بنفس الترک لما احتج الی ھذا الحمل اھ واقرہ فی النھر وغیرہ وذلک لانہ مع عدم الاصرار محتاج الیہ فتدبر ۱؎ اھ


پھر حیرت یہ ہے کہ میں نے دیکھا علامہ شامی نے سنن وضو کے باب میں خود اس کی تصریح کی ہے وہ لکھتے ہیں مخفی نہیں کہ تین بار دھونا جب بھی ہو سنت مؤکدہ ہے اور جو اس کے تر ک پر اصرار کرے گناہ گار ہے اگرچہ اس کے سنت ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو۔اور علماء کا وعید حدیث کو تثلیث کے سنت نہ ماننے پرمحمول کر نا جیسا کہ آرہا ہے یہ تو ایک بار تر ک کرنے میں بھی ہے جس کی دلیل وہ ہے جو ہم نے بیان کی ۔۔۔۔آگے لکھا :اسی سے وہ دفع ہو جاتا ہے جو بحر میں صرف ایک با ر ترک تثلیث سے گناہگار نہ ہونے کے قول کو یہ کہہ کر ترجیح دی ہے کہ اگر نفس ترک سے گنا ہ گار ہوجاتا تو حدیث کی یہ تعبیر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی ا ھ اس کلام کو نہر وغیرہ میں برقرار رکھا ہے یہ کلام دفع یوں ہوجاتا ہے کہ عدم اصرار کے باوجود تاویل حدیث کی ضرورت ہے تو اس پر غور کرو ا ھ۔


ف:معروضۃ خامسۃ علیہ ۔


(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     سنن الوضو     داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۸۰،۸۱)


وقال بعیدہ صریح مافی البدائع انہ لاکراھۃ فی الزیادۃ والنقصان مع اعتقاد سنیۃ الثلٰث وھو مخالف لمامر من انہ لواکتفی بمرۃ واعتادہ اثم ولما سیاتی ان الاسراف مکروہ تحریما ولھذا فرع فی الفتح وغیرہ علی القول بحمل الوعید علی الاعتقاد بقولہ فلوزاد لقصد الوضوء علی الوضوء اولطمانیۃ القلب عند الشک اونقص لحاجۃ لاباس بہ فان مفاد ھذا التفریع انہ لو زاد اونقص بلا غرض صحیح یکرہ وان اعتقد سنیۃ الثلث، وبہ صرح فی الحلیۃ فیحتاج الی التوفیق بین مافی البدائع وغیرہ ویمکن التوفیق بما قدمنا انہ اذا فعل ذلک مرۃ لایکرہ مالم یعتقدہ سنۃ وان اعتادہ یکرہ وان اعتقد سنیت الثلث الا اذا کان لغرض صحیح ۱؎ اھ ولکن سبحن من لاینسی۔


اس کے کچھ آگے لکھاہے بدائع کی تصریح یہ ہے کہ تثلیث کو سنت مانتے ہوئے کم وبیش کر دینے میں کوئی کراہت نہیں ہے، اور یہ اس کے مخالف ہے جو بیان ہوا کہ اگرایک بار دھونے پر اکتفاء کرے اور اس کا عادی ہو تو گنہگار ہو گا اور اس کے بھی خلاف ہے جو آگے آرہا ہے کہ اسراف مکروہ تحریمی ہے اور اسی لئے فتح القدیر وغیرہ میں وعید کو اعتقاد پر محمو ل کرنے کے قول پر یہ تفریع کی ہے کہ اگر وضوپر وضو کے ارادے سے یا شک کی حالت میں اطمینان قلب کے لئے زیادتی کی یاکسی حاجت کی وجہ سے کمی کی توکوئی حرج نہیں کیوں کہ اس تفریع کامفاد یہ ہے کہ اگر کسی غرض صحیح کے بغیر کمی بیشی کی تومکروہ ہے اگرچہ تثلیث کے مسنون ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو اور حلیہ میں اسکی تصریح کی ہے۔توبدا ئع اوردوسری کتابوں میں جو مذکور ہے اس کی تطبیق دینے کی ضرورت ہے اوریہ تطبیق اس کلام سے ہو سکتی ہے جو ہم نے پہلے تحریر کیا کہ جب ایک بار ایسا کرے تو مکروہ نہیں جبکہ اسے سنت نہ سمجھے اور اگر اس کا عادی ہوتو مکروہ ہے اگر چہ تثلیث کو سنت مانے مگر جب کسی غرض صحیح کے تحت ہو اھ۔لیکن پاک ہے وہ جسے نسیان نہیں ۔


(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     سنن الوضو     داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۸۱،۸۲)


اقول : وانت تعلم ان الکراھیۃ المنفیۃ فیما اذا نقص مرۃ ھی التحریمیۃ کما قدمنا لان ترک السنۃ المؤکدۃ مرۃ واحدۃ ایضا مکروہ ولولم یکن تحریما وعلی التعود یحمل التفریع المذکور فی الفتح والکافی والبحر وعامۃ الکتب فان نفی الباس یستعمل فی کراھۃ التنزیہ کما نصوا علیہ فاثباتہ المستفاد ھھنا بالمفھوم المخالف یفید کراھۃ التحریم۔


اقول  : ناظر کومعلوم ہے کہ کبھی ایک بارکمی کردینے پر کراہت کی جو نفی کی گئی ہے اس سے کراہت تحریم مراد ہے جیساکہ ہم نے سابقا بیان کیا اسلئے کہ سنت مؤکدہ کا ایک بار بھی ترک مکروہ ہے اگرچہ مکروہ تحریمی نہ ہو اور عادت ہونے کی صورت پر وہ تفریع محمول ہوگی جو فتح ،کافی ، بحر میں مذکور ہے اس لئے کہ'' لابأس بہ'' (اس میں حرج نہیں ) کراہت تنزیہ میں استعمال ہوتاہے جیسا کہ علماء نے اس کی تصریح کی تو''بأس''(حرج ) جو یہاں مفہوم مخالف سے مستفادہے وہ کراہت تحریم کا افادہ کررہا ہے۔


ھذا الکلام معہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی بما قرر نفسہ وعند العبد الضعیف منشؤ اخر لحمل العلماء الحدیث علی الاعتقاد کما سیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔


یہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ خود انہی کی تقریر وتحریر سے کلام ہوا اور بندہ ضعیف کے نزدیک حدیث کو اعتقاد پر محمول کیے جانے کامنشا دوسرا ہے جیساکہ آ ۤگے ان شاء اللہ تعالٰی ذکرہوگا۔


سوم سے یہ جواب دیا کہ مکروہ تنزیہی بھی حقیقۃً اصطلاحا منہی عنہ ہے اگرچہ لغتا اسے منہی عنہ کہنا مجاز ہے کما فی التحریر (ت)


اقول ف ۱اولا : رحمہ اللہ تعالی العلامۃ یہاں تحریرمیں اصطلاح سے امام محقق علی الاطلاق کی مراداصطلاح نحویاں ہے نہ کہ اصطلاح شرح یا فقہ یعنی جب کہ مکروہ تنزیہی میں صیغہ نہی اور بعض مندوبات میں صیغہ امرہوتا ہے اور نحوی صیغہ ہی کودیکھتے ہیں اختلاف معانی سے انہیں بحث نہیں کہ یہاں فعل یا ترک طلب حتمی ہے یا غیر حتمی تو ان کی اصطلاح میں حقیقۃ مندوب مامور بہ ہوگا اور مکروہ تنزیہی منہی عنہ مگرلغۃ ف۲ ان کو مامور بہ اور منہی عنہ کہنا مجاز ہے کہ لغت میں ما مور بہ واجب اور منہی عنہ نا جائز سے خاص ہے اوریہی عرف شرع واصطلاح فقہ ہے تو نحویوں کے طور پر لا تفعل کا صیغہ ہونے سے فقہاکیوں کر منہیات میں داخل ہونے لگا تحریر کی عبارت محل مذکور سابقاملخصا یہ ہے


ف۱:معروضۃ ثالثہ علیہ ۔

ف۲:مکروہ تنزیہی لغتا و شرعا منہی عنہ نہیں اگرچہ نحویوں کے طور اس میں صیغہ نہی ہو ۔


مسئلۃ   : اختلف فی لفظ المامور بہ فی المندوب قیل عن المحققین حقیقۃ والحنفیۃ وجمع من الشافعیۃ مجاز ویجب کون مراد المثبت ان الصیغۃ فی الندب یطلق علیھا لفظ امر حقیقۃ بناء علی عرف النحاۃ فی ان الامر للصیغۃ المقابلۃ للماضی واخیہ مستعملۃ فی الایجاب اوغیرہ فالمندوب مامور بہ حقیقۃ والنافی علی ماثبت ان الامر خاص فی الوجوب والاول (ای نفی الحقیقۃ) اوجہ لابتنائہ علی الثابت لغۃ وابتناء الاول علی الاصطلاح (للنحویین) ومثل ھذہ المکروہ (تنزیھا) منھی (عنہ) اصطلاحا (نحویا) حقیقۃً مجاز لغۃ (لان النھی فی الاصطلاح یقال علی لاتفعل استعلاء سواء کان للمنع الحتم اولا اما فی اللغۃ فیمتنع ان یقال حقیقۃ نہی عن کذا الا اذا منع منہ ) ۱؎اھ مزیدا مابین الاھلۃ من شرحہ التقریر والتحبیرلتلمیذہ المحقق ابن امیر الحاج رحمھما اللّٰہ تعالٰی۔


مندوب کے بارے میں لفظ ماموبہ کے بارے میں اختلاف ہے کہا گیا کہ محققین سے منقول ہے کہ وہ حقیقۃ مامور بہ ہے.اورحنفیہ اورایک جماعت شافعیہ سے منقول ہے کہ مجازاًہے۔ ضروری ہے کہ مثبت کی مرادیہ ہوکہ ندب میں جو صیغہ ہوتا ہے اس پر لفظ امر حقیقتاًبولا جاتا ہے اس بنیاد پر کہ نحویوں کاعرف یہ ہے کہ امر اس صیغہ کو کہتے ہیں جو ماضی ومضارع کے مقابلے میں ہوتاہے یہ ایجاب یا غیرایجاب میں استعمال ہوتا ہے تو مندوب بہ حقیقۃ ما مور بہ اور نافی اس پر ہے جو ثابت ہوا کہ امر وجوب میں خاص ہے اوراول ( یعنی نفی حقیقت) اوجہ ہے اسلئے کہ وہ اس پر مبنی ہے جو لغتا ثابت ہے اور پہلے کی بنیاد (نحویوں کی )اصطلاح پر ہے اوراسی کی طرح مکروہ(تنزیہی )بھی(نحوی)اصطلاح میں حقیقتا منہی عنہ ہے اور لغت میں مجازااس لئے کہ اصطلاح میں نہی کا اطلاق بطور استعلاء''لاتفعل''(مت کر) پرہوتا ہے خواہ منع حتمی ہو یا نہ ہولیکن لغت میں حقیقتا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں کام سے نہی کی مگراسی وقت جب کہ اس سے اسی وقت منع کردیا ہو۔ اھ ہلالین کے درمیان اضافہ محقق علی الاطلاق کے شاگرد (یعنی محقق ابن امیر الحاج) کی شرح التقریروالتحبیرسے ہیں۔


(۱؎التحریر فی اصول الفقہ       المقالۃ الثانیۃ       الباب الاول مصطفٰی البابی مصر     ص۲۵۵تا۲۵۷ )

(التقریر والتحبیر      المقالۃ الثانیۃ      الباب الاول      دار الفکر بیروت        ۲ /۱۹۱۔۱۹۰)

ثانیا اقول  : اگر مکرو ہ فــ۱ تنزیہی شرعاً حقیقۃً منہی عنہ ہوتا واجب الاحتراز ہوتا لقولہ تعالی وما نھٰکم عنہ فانتھوا۱؎ (کیونکہ باری تعالی ٰ کا ارشاد ہے اورتمہیں جس چیز سے روکیں اس سے باز آجاؤ۔)تو مکروہ تنزیہی نہ رہتا بلکہ حرام یا تحریمی ہوتا اور ہم نے اپنے رسالہ جمل مجلیۃ ان المکروہ۱۳۰۴ھ تنزیھا لیس بمعصیۃ میں دلائل قاہرہ قائم کئے ہیں کہ وہ ہرگز شرعاً منہی عنہ نہیں۔


فــ۱:معروضۃ سابعۃعلیہ۔


(۱؎القرآن الکریم ۵۹ /۷)


ثالثا  : خود علّامہ فــ۲ شامی کو جابجا اس کا اعتراف ہے کلام حلیہ الظاھر ان السنۃ فعل المغرب فورا وبعدہ مباح الی اشتباک النجوم (ظاہر یہ ہے کہ مغرب کی ادائیگی فوراً مسنون اوراسکے بعدستاروں کے باہم مل جانے تک مباح ہے ۔ ت) نقل کرکے فرمایا : الظاھر انہ اراد بالمباح مالایمنع فلا ینافی کراھۃ التنزیہ ۲؎۔


ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے مباح سے وہ مراد لیا ہے جو ممنوع نہ ہو تویہ مکروہ مکروہ تنزیہی ہونے کے منافی نہیں ۔( ت)


فــ۲:معروضۃثامنۃ علیہ ۔


(۲؎ رد المحتار کتاب الصلوۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۴۶)


آخر کتاب الاشربہ میں سید علاّمہ ابو السعود سے نقل کیا: المکروہ تنزیھا یجامع الاباحۃ ۳؎ اھ


(مکروہ تنز یہی مباح کے ساتھ جمع ہوتا ہے۔ ت)


(۳؎رد المحتار کتاب الاشربہ     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۹۶)


 رابعا وخامسا اقول فــ۳ : عجب تریہ کہ صدر حظر میں ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اجماع بتایا کہ مکروہ تنزیہی ممنوع نہیں۔


فــ۳ معروضۃ تاسعۃ علیہ۔


ثم ادعی فــ۴ تبعا لزلۃ وقعت فی التلویح واقمنا فی رسالتنا بسط الیدین الدلائل الساطعۃ علی بطلانھا ونقلنا مائۃ نص من ائمتنا وکتب مذھبنا متونا وشروحا وفتاوی منھا کتب نفس الشامی کردالمحتار ونسمات الاسحار علی خلافھا ان المکروہ تحریما ایضا غیر ممنوع عند الشیخین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما وسبحن اللّٰہ ای ا عجب اعجب منھذا ان یکون المکروہ تنزیھا منھیا عنہ والمکروہ تحریما غیر ممنوع۔


پھر تلویح میں واقع ہونے والی ایک لغزش کی تبعیت میں یہ دعوی کر دیا کہ شیخین (امام اعظم وامام ابو یوسف ) رضی اللہ تعالی عنہما کے نزدیک مکروہ تحریمی بھی ممنوع نہیں خداہی کے لئے پاکی ہے اس سے زیادہ عجیب کون سا عجب ہوگا کہ مکروہ تنزیہی تو منہی عنہ ہو اور مکروہ تحریمی ممنوع نہ ہو ہم نے اس کے بطلان پر اپنے رسالہ بسط الیدین میں روشن دلائل قائم کیے ہیں اوراسکے خلاف سو ۱۰۰نصوص اپنے آئمہ اور اپنے مذہب کی کتب متون وشروح وفتاوی سے نقل کیے ہیں جن میں خودعلامہ شامی کی کتابیں رد المحتا ر،نسمات الاسحار وغیرہ بھی ہیں۔(ت)


فــ۴:معروضۃ عاشر ۃ علیہ ۔


سادسا : عجب تر یہ کہ جب شارح نے جواہر سے آب جاری میں اسراف جائز ہونا نقل فرمایا علامہ محشی نے قول کراہت کے خلاف دیکھ کر اس کی یہ تاویل فرمائی کہ جائز سے مراد غیر ممنوع ہے۔ ففی الحلیۃ عن اصول ابن الحاجب انہ قدیطلق ویراد بہ مالایمتنع شرعا وھو یشمل المباح والمکروہ والمندوب والواجب ۱؎۔


کیونکہ حلیہ میں اصول ابن حاجب سے نقل ہے کہ کبھی جائز بولا جاتا ہے اوراس سے وہ مراد ہوتا ہے جو شرعا ممنوع نہ ہویہ مباح، مکروہ، مندوب اور واجب سب کو شامل ہے۔(ت) یعنی اب کراہت کے خلاف نہ ہوگا مکروہ تنزیہی بھی شرعاً ممنوع نہیں۔


(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


اقول فــ۱ :یہ ایک تو اُس دعوے کا رد ہوگیا کہ مکروہ تنزیہی بھی حقیقۃً منہی عنہ ہے۔


فـــ۱: المعروضۃ الحادیۃ عشرۃعلیہ ۔


سابعا فــ۲ : اصل تحقیق علّامہ محشی کے خلاف خود قول صاحب نہر کی تسلیم ہوگئی خود علامہ نے جابجا تصریح فرمائی کہ کتب میں مفہوم مخالف معتبر ہے جب عبارت جواہر کے معنے یہ ٹھہرے کہ جاری پانی میں ممنوع نہیں صرف مکروہ تنزیہی ہے تو صاف مستفاد ہوا کہ آب غیر جاری میں ممنوع ومکروہ تحریمی ہے اور یہی مدعائے صاحبِ نہر تھا بالجملہ نہر کی کسی دلیل کا جواب نہ ہوا۔ رہا یہ کہ پھر آخر حکم منقح کیا ہے اس کیلئے اولا تحقیق معنی اسراف کی طرف عود کریں پھر تنقیح حکم وباللہ التوفیق۔


ف۲: المعروضۃا لثانیۃ عشرۃ علیہ۔

تنبیہ۶: اسراف بلاشبہ ممنوع وناجائز ہے، قال اللہ تعالٰی: ولا تسرفوا انہ لایحب المسرفین ۱؎ بیہودہ صرف نہ کرو بیشک اللہ تعالٰی بیہودہ صرف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔


( ۱؎القرآن الکریم ۶ /۱۴۱و۷ /۳۱)


قال اللہ تعالٰی : ولا تبذر تبذیراo ان المبذرین کانوا اخوان الشٰیطین وکان الشیطن لربہ کفورا ۲؎o مال بیجا نہ اُڑا بیشک بیجا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شکرا۔


(۲؎ القرآن الکریم    ۱۷ /۲۶، ۲۷)


اقول  : اسراف فــ کی تفسیر میں کلمات متعدد وجہ پر آئے:


فــ:اسراف کے معنی کی تفصیل وتحقیق۔


(۱) غیر حق میں صرف کرنا۔ یہ تفسیر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمائی۔


الفریابی وسعید بن منصور وابو بکر بن ابی شیبۃ والبخاری فی الادب المفرد وابنا جریر والمنذر وابی حاتم والطبرانی والحاکم وصححہ والبیھقی فی شعب الایمان واللفظ لابن جریر کلھم عنہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی قولہ تعالی "ولا تبذر تبذیرا " قال التبذیر فی غیر الحق وھو الاسراف ۳؎۔


فریابی ، سعید بن منصور، ابو بکر بن ابی شیبہ ادب المفرد میں،بخاری ، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم بافادہ تصحیح، شعب الایمان میں بیہقی اور ا لفاظ ابن جریر کے ہیں۔ یہ سب حضرات عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ارشاد باری تعالٰی '' ولا تبذر تبذیرا'' کے تحت راوی ہیں کہ انہوں نے فرمایا تبذیر غیرحق میں صرف کرنا اور یہی اسراف بھی ہے۔ (ت)


 (۳؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر )  تحت الآیۃ   ۱۷/ ۲۶ دار احیا ء التراث العربی بیروت       ۱۵ /۸۵ )


اور اسی کے قریب ہے وہ کہ تاج العروس میں بعض سے نقل کیا : وضع الشیئ فی غیر موضعہ ۱؎ یعنی بیجا خرچ کرنا۔


 ( ۱؎تاج العروس باب الفا فصل السین دار احیاء التراث العربی بیروت ۶/ ۱۳۸)


ابن ابی حاتم نے امام مجاہد تلمیذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کی: لوانفقت مثل ابی قبیس ذھبا فی طاعۃ اللّٰہ لم یکن اسرا فاولو انفقت صاعا فی معصیۃ اللّٰہ کان اسرافا ۲؎۔


اگر تو پہاڑ برابر سونا طاعت الہی میں خرچ کردے تو اسراف نہیں اور اگر ایک صاع جو گناہ میں خرچ کرے تو اسراف ہے۔


(۲؎ تفسیر ابن ابی حاتم تحت الآیہ ۶ /۱۴۱ مطبع نزا رمصطفی الباز مکۃ المکرمہ)

(مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) بحوالہ مجاہد تحت الآیہ۶ /۱۴۱ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۳ /۱۷۶)


کسی نے حاتم کی کثرت داد ودہش پر کہا: لا خیر فی سرف اسراف میں خیر نہیں۔ اُس نے جواب دیا: لاسرف فی خیر ۳؎ خیر میں اسراف نہیں۔


(۳؎مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) بحوالہ مجاہد تحت الآیہ۶ /۱۴۱ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۳ /۱۷۶)


اقول  : حاتم کا مقصود تو خدا نہ تھا نام تھا کمانص علیہ فی الحدیث (جیسا کہ حدیث میں نص وارد ہے۔ ت) تو اس کی ساری داد ودہش اسراف ہی تھی مگر سخائے خیر میں بھی شرع مطہر فــ اعتدال کا حکم فرماتی ہے۔


فــ:مصارف خیر میں اعتدال چاہیے یا اپنا کل مال یک لخت راہ خدا میں دے دینے کی بھی اجازت ہے اس کی تحقیق ۔


قال اللّٰہ تعالی  : ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا ۴؎o باری تعالی کا ارشادہے اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا نہ رکھ اورنہ پور اکھول دے کہ تو بیٹھا رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔( ت)


( ۴؎ القرآن الکریم    ۱۷/ ۱۹)


وقال تعالٰی: والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقترو اوکان بین ذلک قواما ۱؎ o اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (ت)


( ۱؎القرآن الکریم۲۵ /۶۷)


آیہ کریمہ واٰتوا حقہ یوم حصادہ ولا تسرفوا ۲؎ (اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو اور بے جا خرچ نہ کرو۔ت)کی شانِ نزول میں ثابت عــــہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قصہ معلوم ومعروف ہے۔ رواھا ابن جریر وابن ۳؎ابی حاتم عن ابن جریج۔


 ( ۲ ؎القرآن الکریم ۶ /۱۴۱) 

(۳؎الدر المنثور بحوالہ ابن ابی حاتم تحت الآیہ ۶/۱۴۱ دارا حیاء التراث العربی بیروت۳ /۳۳۱)

(جامع البیان (تفسیر ابن جریر ) تحت الآیۃ۶/۱۴۱ دار احیا ء التراث العربی بیروت۸ /۷۴ )


عـــہ: نیز ایک صاحب انڈے برابر سونا لے کر حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک کان میں سے پایا میں اسے تصدق کرتا ہوں اس کے سوا میری ملک میں کچھ نہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض فرمایا، انہوں نے پھر عرض کی، پھر اعراض فرمایا۔ پھر عرض کی پھر اعراض فرمایا۔ پھر عرض کی، حضور نے وہ سونا ان سے لے کر ایسا پھینکا کہ اگر ان کے لگتا تو درد پہنچاتا یا زخمی کرتا اور فرمایا تم میں ایک شخص اپنا پورا مال لاتا ہے کہ یہ صدقہ ہے پھر بیٹھا لوگوں سے بھیک مانگے گا خیر الصدقۃ ماکان عن ظھر غنی۔ بہتر صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے رواہ ابو داؤد۴؎ وغیرہ عن جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ (اس کو ابو داؤد وغیرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ت) (منہ)


(۴؎سنن ابی داؤد کتاب الزکاۃ باب الرجل یخرج من مالہ آفتاب عالم پریس لاہور۱ /۳۶،۲۳۵)


اُدھر صحاح کی حدیث جلیل ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدق کا حکم فرمایا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ خوش ہوئے کہ اگر میں کبھی ابو بکر صدّیق پر سبقت لے جاؤں گا تو وہ یہی بار ہے کہ میرے پاس مال بسیا رہے اپنے جملہ اموال سے نصف حاضرِ خدمت اقدس لائے۔ حضور نے فرمایا: اہل وعیال کیلئے کیا رکھا؟ عرض کی اتنا ہی۔ اتنے میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے اور کل مال حاضر لائے گھر میں کچھ نہ چھوڑا۔ ارشاد ہوا: اہل وعیال کیلئے کیا رکھا؟ عرض کی: اللہ اور اس کا رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں میں وہی فرق ہے جو تمہارے ان جوابوں میں۔ اور تحقیق یہ ہے کہ عام کیلئے وہی حکم میانہ روی ہے اور صدق عـــہ توکل وکمال تبتُّل والوں کی شان بڑی ہے۔


عــــہ  : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا:


انفق بلالا ولا تخشی من ذی العرش اقلالا ۔رواہ البزار عن بلال وابو یعلی والطبرانی فی الکبیر۱؎ 

والاوسط والبیہقی فی شعب الایمان عن ابی ہریرۃوالطبرانی فی الکبیرکالبزارعن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم باسانید حسان۔


اے بلال! خرچ کر اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کر۔( بزاز نے حضرت بلال سے اور ابو یعلی اور طبرانی نے کبیر میں ،اور اوسط اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابو ہریرہ سے ،اور طبرانی نے کبیر میں، جبکہ بزاز نے ا بن مسعود رضی اللہ عنہم سے حسن سندوں کے ساتھ روایت کیا۔ت)


(۱؎ المعجم الکبیرحدیث۱۰۲۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۱ /۳۴۰)

(الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی وابی یعلی والبزارالترغیب فی الانفاق مصطفی البابی مصر۲ /۵۱)

(کشف الخفاء حدیث۶۳۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت۱ /۱۹۰)

(کنز العمال حدیث ۱۶۱۸۵و۱۶۱۸۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۳۸۷ )


اس حدیث کا موردیوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خرمنِ خرمہ ملاحظہ فرمایا، ارشاد ہوا:بلال ! یہ کیا ہے؟ عرض کی: حضورکے مہمانوں کیلئے رکھ چھوڑاہے۔ فرمایا :


اما تخشی ان یکون لک دخان فی نار جہنم ۲؎


کیا ڈرتا نہیں کہ اس کے سبب آتشِ دوزخ میں تیرے لئے دُھواں ہو، خرچ کر، اے بلال !اور عرش کے مالک سے کمی کا خوف نہ کر۔ بلکہ خود انہی بلال سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: اے بلال! فقیر مرنا اور غنی نہ مرنا۔ عرض کی اس کیلئے کیا طریقہ برتوں ؟ فرمایا:


مارزقت فلاتخباء وما سئلت فلا تمنع


جو تجھے ملے اُسے نہ چُھپا اور جو کچھ تجھ سے مانگا جائے انکار نہ کر۔ عرض کی یا رسول اللہ! یہ میں کیونکر کرسکوں۔  فرمایا :


ھوذاک اوالنار یا یہ یا نار۔


(۲؎ الترغیب والترھیب الترغیب فی الانفاق مصطفی البابی مصر۲ /۵۱)


رواہ الطبرانی فی الکبیر و ابو الشیخ فی الثواب والحاکم ۱؎ وقال صحیح الاسناد


(اسے طبرانی نے کبیر میں اور ابو شیخ نے ثواب میں اور حاکم نے روایت کیا اور فرمایا یہ صحیح الاسناد ہے۔ت)


(۱؎ المعجم الکبیرحدیث۱۰۲۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۱ /۳۴۱)

(المستدرک لحاکم کتاب الرقاق دار الفکربیروت۴ /۳۱۶ )

(۲؎ الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی وابی الشیخ والحاکم الخ الترغیب فی الانفاق الخ مصطفی البابی مصر۲ /۵۲)


اگر کہیے ان پر تاکید اس لئے تھی کہ وہ اصحابِ صُفّہ سے تھے اور ان حضرات کرام کا عہد تھا کہ کچھ پاس نہ رکھیں گے۔


اقول  :


(میں کہتا ہوں) ہاں، اور ہم بھی نہیں کہتے کہ ایسا کرنا ہر ایک پر لازم ہے مگر ان حضرات پر اس کے لازم فرمانے ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام فی نفسہٖ محمود ہے اور ہر صادق التوکل کو اس کی اجازت ، ورنہ ان کو بھی منع کیا جاتاجیسے ایک صاحب نے عمر بھر رات کو نہ سونے کا عہد کیا اور ایک نے عمر بھر روزے رکھنے کا، ایک نے کبھی نکاح نہ کرنے کا۔ اس پر ناراضی فرمائی، اور ارشاد ہوا :میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور شب کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور نکاح کرتا ہوں


فمن رغب عن سنتی فلیس منی


تو جو میری سنّت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں،رواہ عن حضرت انس رضی اللہ عنہ ۲؎ ۔


(۲؎صحیح البخاری     کتاب النکاح ۲ /۷۵۷        و صحیح مسلم     کتاب النکاح         ۱ /۴۴۹)


ایک شخص نے پیادہ حج کرنے کی منّت مانی، ضُعف سے دو۲ آدمیوں پر تکیہ دیے کر چل رہا تھا، اُسے سوار ہونے کا حکم دیا اور فرمایا :


ان اللہ تعالٰی عن تعذیب ھذانفسہ لغنی ۔ رویاہ۳؎ عنہ رضی اللہ عنہ ۱۲منہ


اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنی جان کو عذاب میں ڈالے۔( اس کوشیخین نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔۲۱منہ۔ت)


(۳؎صحیح البخاری ابواب العمرۃ ۱ /۲۵۱ وصحیح مسلم کتاب النذر۲/ ۴۵ قدیمی کتب خانہ کراچی )

(۲) حکمِ الٰہی کی حد سے بڑھنا۔ یہ تفسیر ایاس بن معٰویہ بن قرہ تابعی ابن تابعی ابن صحابی کی ہے۔ ابن جریر وابو الشیخ عن سفین عــــہ بن حسین عن ابی بشر قال اطاف الناس بایاس بن معویۃ فقالوا ما السرف قال ماتجاوزت بہ امر اللّٰہ فھو سرف ۱؎۔


ابن جریر اور ابو الشیخ سفیان بن حسین سے راوی ہیں وہ ابو البشر سے، انہوں نے کہا اِیاس بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہوکرلوگوں نے ان سے پوچھا : اسراف کیا ہے ؟ فرمایا جس خرچ میں تم امر الہی سے تجاوز کر جاؤ وہ اسراف ہے ۔ (ت)


عــــہ وقع فی نسخۃ الدرالمنثور المطبوعۃ بمصرسعید بن جبیروھو تصحیف اھ منہ عفی عنہ۔

در منثورمطبوعہ مصر کے نسخہ میں سعید بن جبیر واقع ہوا ہے یہ تصحیف ہے اھ منہ عفی عنہ


( ؎۱ جامع البیان (تفسیرابن جریر ) تحت الآیۃ۶/۱۴۱ دار احیاء التراث العربی بیروت۸ /۷۴ )

(الدرالمنثور بحوالہ ابی الشیخ تحت الآیۃ۶/۱۴۱ دار احیاء التراث العربی بیروت۳ /۳۳۲)


اور اسی کی مثل اہل لغت سے ابن الاعرابی کی تفسیر ہے کما سیاتی من التفسیر الکبیر (جیسا کہ تفسیر کبیر سے ذکر آئے گا۔ ت) تعریفات السید میں ہے : الاسراف تجاوز الحد فی النفقۃ۲؎ (نفقہ میں حد تجاوز کرنا اسراف ہے۔ ت)


(۲؎التعریفات للسیدالشریف     انتشارات ناصر خسرو تہران ایران     ص۱۰)


اقول  : یہ تفسیر مجمل ہے حکم الٰہی وضو میں کُہنیوں تک ہاتھ، گِٹّوں تک پاؤں دھونا ہے، مگر اس سے تجاوز اسراف نہیں بلکہ نیم بازو ونیم ساق تک بڑھانا مستحب ہے جیسا کہ احادیث سے گزرا تو امر سے مراد تشریع لینی چاہئے یعنی حدِ اجازت سے تجاوز، اور اب یہ تفسیر ایک تفسیر تبذیر کی طرف عود کرے گی۔


(۳) ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مطہر یا مروّت کے خلاف ہو اول حرام ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی۔

طریقہ محمدیہ میں ہے :


الاسراف والتبذیر ملکۃ بذل المال حیث یجب امساکہ بحکم الشرع اوالمرؤۃ بقدر مایمکن وھما فی مخالفۃ الشرع حرامان وفی مخالفۃ المروء ۃ مکروھان تنزیھا ۳؎ اھ


اسراف اور تبذیر:  اس جگہ مال خرچ کرنے کا ملکہ(نفس کی قوت راسخہ ) جہاں شریعت یا مروت روکنا لازم کرے اور مروت امکانی حد تک پہنچانے کے کام میں نفس کی سچی رغبت کو کہتے ہیں اسراف وتبذیر شریعت کی مخالف میں ہوں تو حرام ہیں اور مروت کی مخالف میں ہوں تومکروہ تنزیہی ہیں اھ


(۳؎طریقہ محمدیہ السابع والعشرون الاسراف والتبذیر مکتبہ حنفیہ کوئٹہ ۱ /۱۵و۱۶)


اقول  : وزاد ملکۃ لیجعلھما من منکرات القلب لانہ فی تعدیدھا ومثل الشارح العلامۃ سیدی عبدالغنی النابلسی قدس سرہ القدسی مخالفۃ المروء ۃ بدفعہ للا جانب والتصدق بہ علیھم وترک الاقارب والجیران المحاویج ۱؎ اھ


اقول: ان دونوں کو منکرات قلب سے قرار دینے کے لئے لفظ ملکہ کا اضا فہ کر دیا کیونکہ یہاں وہ دل کی برائیاں ہی شمار کرا رہے ہیں ۔اور شارح علامہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے مخالفت مروت کی مثال یہ پیش کی ہے کہ حاجت مندوں قرابت داروں اورہمسایوں کو چھوڑ کر دور والوں کو مال دے اوران پر صدقہ کرے اھ


(۱؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ السابع والعشرون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۲۸)


اقول  : اخرج الطبرانی فــــ۱ بسند صحیح عن ابی ھریرۃفـــ۲ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یا امۃ محمد والذی بعثنی بالحق لایقبل اللّٰہ صدقۃ من رجل ولہ قرابۃ محتاجون الی صلتہ ویصرفہا الی غیرھم والذی نفسی بیدہ لاینظر اللّٰہ الیہ یوم القیمۃ ۲؎ اھ فھو خلاف الشرع لامجرد خلاف المروء ۃ واللّٰہ تعالی اعلم۔


اقول  : طبرانی نے بسند صحیح حضرت ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :اے امت محمد (علیہ الصلوۃ والسلام ) اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا خدااس شخص کا صدقہ قبول نہیں فرماتا جس کے کچھ ایسے قرابت دارہوں جواس کے صلہ کے محتاج ہوں اور وہ دوسروں پرصرف کرتا ہو اس کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے خدا اسکی طرف روز قیامت نظر رحمت نہ فرمائے گا اھ تو یہ (حاجت مند اقارب کو چھوڑ کر اجانب کو دینا ) صرف مروت ہی کے خلاف نہیں شریعت کے بھی خلاف ہے اورخدائے برتر ہی کو خوب علم ہے ۔( ت)


ف۱ تطفل علی المولی النابلسی ۔

ف۲مسئلہ جس کے عزیز محتا ج ہوں اسے منع ہے کہ انہیں چھوڑ کر غیروں کو اپنے صدقات دے حدیث میں فرمایا ایسے کا صدقہ قبول نہ ہوگا اور اللہ تعالی ٰ روزقیامت اس کی طرف نظرنہ فرمائے گا ۔


(۲؎مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ علی الاقارب دارلکتاب بیروت ۳ /۱۱۷)

انااقول وباللہ التوفیق : آدمی کے پاس جو مال زائد بچا اور اُس نے ایک فضو ل کام میں اُٹھا دیا جیسے بے مصلحت شرعی مکان کی زینت وآرائش میں مبالغہ، اس سے اُسے تو کوئی نفع ہوا نہیں اور اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو دیتا تو اُن کو کیسا نفع پہنچتا تو اس حرکت سے ظاہر ہوا کہ اس نے اپنی بے معنی خواہش کو اُن کی حاجت پر مقدم رکھا اور یہ خلافِ مروت ہے۔


(۴) طاعتِ الٰہی کے غیر میں اٹھانا۔ قاموس میں ہے : الاسراف التبذیر اوما انفق فی غیر طاعۃ ۱؎ اھ


اسراف تبذیریا وہ جو غیر طاعت میں خرچ ہو ۔ (ت)


( ۱؎القاموس المحیط باب الفاء فصل السین تحت السرف مصطفی البابی مصر ۳ /۱۵۶)


ردالمحتار میں اسی کی نقل پر اقتصار فرمایا۔


اقول  : ظاہرف ہے کہ مباحات نہ طاعت ہیں نہ اُن میں خرچ اسراف مگر یہ کہ غیر طاعت سے خلاف طاعت مراد لیں تو مثل تفسیر دوم ہوگی اور اب علّامہ شامی کا یہ فرمانا کہ: لایلزم من کونہ غیر طاعۃ ان یکون حراما نعم اذا اعتقد سنیتہ (ای سنیۃ الزیادۃ علی الثلث فی الوضوء) یکون منھیا عنہ ویکون ترکہ سنۃ مؤکدۃ ۲؎۔


اس کے غیر طاعت ہونے سے حرام ہونا لازم نہیں آتا، ہاں( وضوء میں تین بار سے زیادہ دھونے کے) مسنون ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو تو وہ منہی عنہ ہے اور اس کا ترک سنّتِ مؤکدہ ہوگا۔( ت)


ف: معروضۃ علی العلامۃ ش والقاموس المحیط۔


(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مکروہات الوضو     داراحیاء التراث العربی ۱ /۹۰)


(۵) حاجتِ شرعیہ سے زیادہ استعمال کرنا کما تقدم فی صدر البحث عن الحلیۃ والبحروتبعھما العلامۃ الشامی ( جیسا کہ اس مبحث کے شروع میں حلیہ وبحر کے حوالے بیان ہوااور علامہ علامہ شامی نے ان دونوں کا اتبا ع کیا ۔ ت)


اقول اولا  : مراتب ف۱ خمسہ کہ ہم اوپر بیان کر آئے اُن میں حاجت کے بعد منفعت پھر زینت ہے اور شک نہیں کہ ان میں خرچ بھی اسراف نہیں جب تک حدِ اعتدال سے متجاوز نہ ہو، قال اللہ تعالٰی قل من حرم زینۃ اللّٰہ التی اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق ۱؎ اے نبی! تم فرمادو کہ اللہ کی وہ زینت جو اُس نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کی اور پاکیزہ رزق کس نے حرام کئے ہیں۔(ت) مگر یہ تاویل کریں کہ حاجت سے ہر بکار آمد بات مراد ہے۔


ف۱: تطفل علی الحلیۃ والبحروش۔


( ۱ ؎ القرآن الکریم۷ /۳۲)


ثانیا : شرعیہ ف۲ کی قید بھی مانع جامعیت ہے کہ حاجت دنیویہ میں بھی زیادہ اڑانا اسراف ہے مگر یہ کہ شرعیہ سے مراد مشروعہ لیں یعنی جو حاجت خلافِ شرع نہ ہو تو یہ اُس قول پر مبنی ہوجائے گا جس میں اسراف وتبذیر میں حاجت جائزہ وناجائز ہ سے فرق کیا ہے۔ اگر کہیے ان علماء کا یہ کلام دربارہ  وضو ہے اُس میں تو جو زیادت ہوگی حاجت شرعیہ دینیہ ہی سے زائد ہوگی۔


ف۲: تطفل اخر علیہم۔


اقول  : اب مطلقاً حکم ممانعت مسلم نہ ہوگا مثلاً میل چھڑانے یا شدّت گرما میں ٹھنڈ کی نیت سے زیادت کی تو اسراف نہیں کہہ سکتے کہ غرض صحیح جائز میں خرچ ہے۔ شاید اسی لئے علّامہ طحطاوی نے لفظ شرعیہ کم فرما کر اتنا ہی کہا الاسراف ھو الزیادۃ علی قدر الحاجۃ ۲؎


(ضرورت سے زیادہ خرچ اسراف ہے۔ ت)


(۲؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار    کتاب الطہارۃ     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ    ۱ /۷۶)


اقول: مگر یہ تعریف اگر مطلق اسراف کی ہو تو جامعیت میں ایک اور خلل ہوگا کہ قدر حاجت سے زیادت کیلئے وجود حاجت درکار اور جہاں حاجت ہی نہ ہو اسراف اور زائد ہے ہاں حلیہ واتباع کی طرح خاص اسراف فی الوضوء کا بیان ہوتو یہ خلل نہ ہوگا۔


(۶) غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ نہایہ ابن اثیر ومجمع بحار الانوار میں ہے: الاسراف والتبذیر فی النفقۃ لغیر حاجۃ اوفی غیر طاعۃ اللّٰہ تعالٰی ۳؎۔


اسراف اور تبذیر: بغیر حاجت یا غیرطاعت الہی میں خرچ کرنا ہے ۔ (ت)


(۳؎النہایۃ لابن اثیر فی غریب الحدیث واثر تحت الفظ'' سرف '' دار الکتب العلمیہ بیروت ۲ /۳۲۵)

(مجمع بحار الانوارتحت الفظ سرف مکتبہ دار ایمان مدینۃ المنورۃ السعودیہ ۳ /۶۶ )


یہ تعریف گویا چہارم وپنجم کی جامع ہے۔


اقول اولا فــ۱: طاعت میںوہی تاویل لازم جو چہارم میں گزری۔


فــ۱: تطفل علی ابن الاثیر والعلامۃ طاہر ۔


ثانیا : حاجت فــ۲میں وہی تاویل ضرور جو پنجم میں مذکور ہوئی۔


فــ۲:تطفل آخر علیہما ۔


(۷) دینے میں حق کی حد سے کمی یا بیشی۔


تفسیر ابنِ جریر میں ہے: الاسراف فی کلام العرب الاخطاء باصابۃ الحق فی العطیۃ اما بتجاوزہ حدہ فی الزیادۃ واما بتقصیر عن حدہ الواجب ۱؎۔


کلامِ عرب میں اسراف اسے کہتے ہیں کہ دینے میں حق کے حصول سے خطا کر جائے یا تو حق کی حد سے آگے بڑھ جائے یا اس کی واجبی حد سے پیچھے رہ جائے ۔(ت)


(۱؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر )تحت الآیۃ ۶ /۱۴۱ دار احیاء التراث العربی بیروت ۸ /۷۵)


اقول  : یہ عطا کے ساتھ خاص ہے اور اسراف کچھ لینے دینے ہی میں نہیں اپنے خرچ کرنے میں بھی ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فی الوضوء  اسراف وفی کل شیئ اسراف ۲؎ رواہ سعید بن منصور عن یحیی بن ابی عمر والسَّیبانی الثقۃ مرسلا


وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے اور ہر کام میں اسراف کو دخل ہے اسے سعید بن منصور نے یحیٰی بن ابی عمرو سیبانی ثقہ سے مرسلاً روایت کیا ہے ۔ (ت)


(۲؎ کنزا لعمال بحوالہ ص عن یحٰیی بن عمرو حدیث۲۶۲۴۸ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت۹ /۳۲۵ )


(۸) ذلیل غرض میں کثیر مال اُٹھادینا۔تعریفات السید میں ہے: الاسراف انفاق المال الکثیر فی الغرض الخسیس ۳؎ اھ قدمہ ھھنا واقتصر علیہ فی المسرف۔


اسراف گھٹیا مقصد میں زیادہ مال خرچ کردینا اھ بیان اسرا ف میں اس  تعریف کو مقدم رکھا اور مُسِرف کی تعریف میں صرف اسی کو ذکر کیا ۔ (ت)


(۳؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۱۰)


اقول  : یہ بھی جامع فــ۴ نہیں بے غرض محض تھوڑا مال ضائع کردینا بھی اسراف ہے۔


فــ ۴: تطفل علی العلامۃ ا لسیدالشریف۔


(۹) حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا حکاہ السید قیلا ۱؎


( تعریفات میں سید شریف نے اسے بطور قیل حکایت کیا ۔(ت) اقول یہ کھانے فــ سے خاص ہے۔


(۱؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۱۰)


ف: معروضۃ علی من نقل عنہ السید ۔


(۱۰) لائق وپسندیدہ بات میں قدر لائق سے زیادہ اُٹھادینا ۔


تعریفات علّامہ شریف میں ہے: الاسراف صرف الشیئ فیما ینبغی زائداعلی  ماینبغی بخلاف التبذیر فانہ صرف الشیئ فیما لاینبغی ۲؎۔


اسراف: مناسب کام  میں حد مناسب سے زیادہ خرچ کرنا ،بخلاف تبذیر کے کہ وہ نا مناسب امر میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ (ت)


(۲؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۱۰)

اقول  : ینبغی کا اطلاق کم از کم مستحب پر آتا ہے اور اسراف مباح خالص میں اُس سے بھی زیادہ ہے


مگر یہ کہ جو کچھ لاینبغی نہیں سب کو ینبغی مان لیں کہ مباح کاموں کو بھی شامل ہوجائے ولیس ببعید (اور یہ بعید نہیں۔ ت) اور عبث محض اگرچہ بعض جگہ مباح بمعنی غیر ممنوع ہو مگر زیر لاینبغی داخل ہے تو اس میں جو کچھ اُٹھے گا اس تفسیر پر داخل تبذیر ہوگا۔


(۱۱) بے فائدہ خرچ کرنا۔ قاموس میں ہے: ذھب ماء الحوض سرفا فاض من نواحیہ ۳؎۔


حوض کا پانی اسکے کناروں سے بہ گیا ۔ (ت)


(۳؎القاموس المحیط باب الفاء فصل السین مصطفی البابی مصر ۳/۱۵۶)


تاج العروس میں ہے: قال شمر سرف الماء ماذھب منہ فی غیر سقی ولا نفع یقال اروت البئر النخیل وذھب بقیۃ الماء سرفا۔۴؎


شمر نے کہا سَرف الماء کے معنی وہ پانی جوسینچائی یا کسی فائدہ کے بغیر جاتا رہاکہا جاتا ہے کنویں نے کھجوروں کو سیراب کر دیا اور باقی پانی سرف (بے کار ) گیا ۔(ت)


(۴؎ تاج العروس باب الفاء فصل السین داراحیاء التراث العربی بیروت۶ /۱۳۸)


تفسیر کبیر وتفسیر نیشا پوری میں ہے: اعلم ان لاھل اللغۃ فی تفسیر الاسراف قولین الاول قال ابن الاعرابی السرف تجاوز ماحد لک الثانی قال شمر عـــــہ۱ سرف المال عـــــہ ۲ماذھب منہ فی غیر منفعۃ ۱؎۔


واضع ہو کہ اسراف کی تفسیر میں اہل لغت کے دوقول ہیں : اول ،ابن الاعرابی نے کہا سرف کام معنی مقررہ حد سے تجاوز شمر نے کہا سرف الما ل وہ جو بے فا ئدہ چلا جائے(ت)


عـــہ۱ وقع ھھنا فی نسخۃ النیسا بوری المطبوعۃ بمصر عمر بالعین وھو تحریف منہ۔ (م)


یہاں تفسیر نیشاپوری کے مصری مطبوعہ نسخہ میں شمر کے بجائے عین سے عمر چھپ گیا ہے ،یہ تحریف ہے ۱۲ منہ (ت)


عــــہ۲ ھکذا ھو المال باللام فی کلا التفسیرین وقضیۃ التاج انہ الماء بالھمزۃ منہ۔ (م)

یہ دونوں تفسیروں میں اسی طرح "لام" سے مال لکھا ہوا ہے اور تا ج العروس کا تقاضہ ہے کہ یہ ہمزہ سے ''ماء''ہو ۱۲منہ(ت)


( ۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر ) تحت الآیۃ ۶ /۱۴۱ دار الکتب العلمہ بیروت ۱۳ /۱۷۵،۱۷۶ )


اقول :  منفعت کے بعد بھی اگرچہ ایک مرتبہ زینت ہے مگر ایک معنی پر زینت بھی بے فائدہ نہیں۔ ہمارے کلام کا ناظر خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبداللہ کی تعریف ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم کی گٹھری فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بعد تمام جہان سے علم میں زائد ہے اور ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورث علم ہے رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہ وعنہم اجمعین۔ تبذیر ف کے باب میں علما ء کے دو قول ہیں:


ف :تبذیر و اسراف کی معنی میں فرق کی بحث ۔


 (۱) وہ اور اسراف دونوں کے معنی ناحق صرف کرنا ہیں۔


اقول : یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت عبداللہ بن عباس وعامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا ہے، قول  اول کی حدیث میں اس کی تصریح گزری اور وہی حدیث بطریق آخر ابن جریر نے یوں روایت کی: کما اصحاب محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نتحدث ان التبذیر النفقۃ فی غیر حقہ ۲؎۔


ہم اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان کرتے تھے تبذیر غیر حق میں خرچ کرنے کا نا م ہے۔( ت)


 (۲؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷ /۲۶،۲۷ داراحیاء التراث ا لعربی بیروت ۱۵ /۸۶)


سعید بن منصور سنن اور بخاری ادب مفرد اور ابن جریر وابن منذر تفاسیر اور بیہقی شعب الایمان میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: المبذر المنفق فی غیر حقہ ۔۱؎ (مبذر وہ جو غیرحق میں خرچ کرے ۔ت)


 (۱؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷/۲۶و۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۵ /۸۶)

(الدر المنثور بحوالہ سعید بن منصور والبخاری فی الادب و ابن المنذر ولبیہقی شعب الایمان دار احیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۳۹)


ابن جریرکی ایک روایت اُن سے یہ ہے: لاتنفق فی الباطل فان المبذر ھو المسرف فی غیر حق وقال مجاھد لوانفق انسان مالہ کلہ فی الحق ماکان تبذیرا ولو انفق مدا فی الباطل کان تبذیرا ۲؎۔


باطل میں خرچ نہ کر کہ مُبذّر وہی ہے جو ناحق میں خرچ کرتا ہو۔مجاہد نے کہا:کہ اگر انسان اپنا سارا مال حق میں خرچ کردے توتبذیر نہیں اور اگر ایک مُد بھی باطل میں خرچ کردے توتبذیر ہے۔(ت)


(۲؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷ /۲۶و۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۵ /۸۷)


نیز قتادہ سے راوی: التبذیر النفقۃ فی معصیۃ اللّٰہ تعالی وفی غیر الحق وفی الفساد۳؎۔


تبذیر:اللہ کی معصیت میں غیر حق میں اورفساد میں خرچ کرناہے۔ (ت)


(۳؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷/ ۲۶و۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۵ /۸۷)


نہایہ ومختصر امام سیوطی میں ہے : المباذر والمبذر المسرف فی النفقۃ ۴؎۔


مباذر و مبذر:خرچ میں اسراف کرنے والا۔ (ت)


(۴؎ النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثرباب الباء مع الذال،تحت لفظ بذر دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۱۰مختصر احیاء العلوم)


نیز مختصر میں ہے: الاسراف التبذیر۵؎


(اسراف کا معنی تبذیر ہے۔ت)


(۵؎ مختصر احیاء العلوم)


قاموس میں ہے: بذرہ تبذیرا خربہ و فرقہ اسرافا۱؎


بذرہ تبذیرا اسے خراب کیا اور بطور اسراف بانٹ دیا۔(ت)


( ۱؎ قاموس المحیط    باب الراء فصل الباء    مصطفی البابی مصر    ۱ /۳۸۳)


تعریفات السید میں ہے : التبذیر تفریق المال علی وجہ الاسراف ۲؎


تبذیر:بطور اسراف مال بانٹنا۔(ت)


(۲؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۲۳)


اسی طرح مختار الصحاح میں اسراف کو تبذیر اور تبذیر کو اسراف سے تفسیر کیا۔


(۲) اُن میں فرق ہے تبذیر خاص معاصی میں مال برباد کرنے کا نام ہے ابنِ جریر عبدالرحمن بن زید بن اسلم مولائے امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:


لاتبذر تبذیرا لا تعط فی المعاصی۳؎


''لاتبذر تبذیرا'' کا معنی''معاصی میں نہ دے''۔(ت)


(۳؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷/ ۲۶و۲۷     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱۵ /۸۷)


اقول اس تقدیر پر اسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عبث میں صرف کو بھی شامل اور عبث مطلقاً گناہ نہیں تو از انجا کہ اسراف ناجائز ہے یہ صرف معصّیت ہوگا مگر جس میں صرف کیا وہ خود معصیت نہ تھا اور عبارت ''لاتعط فی المعاصی''(اس کی نافرمانی میں مت دے۔ت) کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو بالجملہ تبذیر کے مقصود وحکم دونوں معصیت ہیں اور اسراف کو صرف حکم میں معصیت لازم، وھذا ھو المشتھر الیوم و وقع فی التاج عن شیخہ عن ائمۃ الاشتقاق ان التبذیر یشمل الاسراف فی عرف اللغۃ اہ۴؎ ،وبہ صرح العلامۃ الشہاب فی عنایۃ القاضی ومفادہ ان التبذیر اعم ولم یفسراہ۔


اوراس وقت یہی مشہور ہے،اور تاج العروس میں اپنے شیخ کی روایت سے اشتقاق سے نقل کیا ہے کہ لغت کے عرف میں تبذیر،اسراف کوشامل ہے اھ-اسکی صراحت علّامہ شہاب خفاجی نے عنایۃ القاضی میں کی ہے اور اس کا مفاد یہ ہے کہ تبذیر اعم ہے اور دونوں نے اس کی تفسیر نہ کی ہے۔(ت)


(۴؎تاج العروس    باب الراء،فصل الباء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۳۶)


بعض نے یوں فرق کیا کہ مقدار میں حد سے تجاوز اسراف ہے اور بے موقع بات میں صرف کرنا تبذیر، دونوں بُرے ہیں اور تبذیر بدتر۔ قال الخفاجی وفرق بینھما علی مانقل فی الکشف بان الاسراف تجاوز فی الکمیۃ وھو جہل بمقادیر الحقوق والتبذیر تجاوز فی موقع الحق وھو جہل بالکیفیۃ وبمواقعھا وکلاھما مذموم والثانی ادخل فی الذم ۱؎۔


خفاجی نے فرمایا:جیساکشف میں نقل کیا ہے ان دونوں میں یہ فرق کیا گیاہے کہ اسراف مقدار میں حد سے آگے بڑھنا اور یہ حقوق کی قدروں سے نا آشنائی ہے - اور تبذیر حق کی جگہ سے تجاوز کرنا اور یہ کیفیت ہے اور اس کے مقامات سے نا آشنائی ہے،اور دونوں ہی مذموم ہیں اورثانی زیادہ براہے۔(ت)


( ۱؎ عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی    تحت الآیۃ ۲۷ /۲۶    دار الکتب العلمیۃبیروت    ۶ /۴۲)


اس تقدیر پر دونوں متباین ہوں گے۔


اقول : اگرچہ مقدار سے زیادہ صرف بھی بے موقع بات میں صرف ہے کہ وہ مصرف اس زیادت کا موقع ومحل نہ تھا ورنہ اسراف ہی نہ ہوتا مگر بے موقع سے مراد یہ ہے کہ سرے سے وہ محل اصلا مصرف نہ ہو۔


بالجملہ احاطہ کلمات فــ سے روشن ہوا کہ وہ قطب جن پر ممانعت کے افلاک دورہ کرتے ہیں دو ہیں ایک مقصدمعصیت  دوسرا بیکار اضاعت اور حکم دونوں کا منع وکراہت۔


فـــ:مسئلہ اسراف کہ ناجائز و گناہ ہے صرف دو صورتوں میں ایسا ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی گناہ میں صرف و استعمال کریں دوسرے بیکار محض مال ضائع کریں۔

اقول  : معصیت تو خود معصیت ہی ہے ولہٰذا اُس میں منع مال ضائع کرنے پر موقوف نہیں اور غیر معصیت میں جبکہ وہ فعل فی نفسہٖ گناہ نہیں لاجرم ممانعت میں اضاعت ملحوظ ولہٰذا عام تفسیرات میں لفظ انفاق ماخوذ کہ مفید خرچ واستہلاک ہے کہ اہم بالافادہ یہی ہے معاصی میں صرف معصیت ہونا تو بدیہی ہے زید نے سونے چاندی کے کڑے اپنے ہاتھوں میں ڈالے یہ اسراف ہوا کہ فعل خود گناہ ہے اگرچہ تھوڑی دیر پہننے سے کڑے خرچ نہ ہوجائیں گے اور بلا وجہ محض اپنی جیب میں ڈالے پھرتا ہے تو اسراف نہیں کہ نہ فعل گناہ ہے نہ مال ضائع ہوا اور اگر دریا میں پھینک دیے تو اسراف ہوا کہ مال کی اضاعت ہوئی اور اضاعت کی ممانعت پر حدیث صحیح ناطق صحیح بخاری وصحیح مسلم میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان اللّٰہ تعالی کرہ لکم قیل وقال وکثرۃ السؤال واضاعۃ المال ۱؎۔


بے شک اللہ تعالٰی تمہارے لئے مکروہ رکھتا ہے فضول بک بک اور سوال کی کثرت اور مال کی اضاعت۔


(۱؎ صحیح البخاری کتاب فی الاستقراض الخ باب ما ینہی عن اضاعت المال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۴)

(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نہی عن کثر ۃ المسائل الخ قدیمی کتب خا نہ کراچی ۲ /۷۵ )


یہ تحقیق معنی اسراف ہے جسے محفوط وملحوظ رکھناچاہئے کہ آئندہ انکشاف احکام اسی پر موقوف وباللہ التوفیق۔


فائدہ ـ: فــ یہاں سے ظاہر ہوا کہ وضو وغسل میں تین بار سے زیادہ پانی ڈالنا جبکہ کسی غرض صحیح سے ہو ہرگز اسراف نہیں کہ جائز غرض میں خرچ کرنا نہ خود معصیت ہے نہ بیکار اضاعت۔ اس کی بہت مثالیں اُن پانیوں میں ملیں گی جن کو ہم نے آب وضوء  سے مستثنٰی بتایا نیز تبرید وتنظیف کی دو مثالیں ابھی گزریں اور ان کے سوا علماء کرام نے دو صورتیں اور ارشاد فرمائی ہیں جن میں غرض صحیح ہونے کے سبب اسراف نہ ہوا:

 (۱) یہ کہ وضو علی الوضوء  کی نیت کرے کہ نور علٰی نور ہے۔

(۲) اگر وضو کرتے میں کسی عضو کی تثلیث میں شک واقع ہو تو کم پر بنا کرکے تثلیث کامل کرلے مثلاً شک ہوا کہ منہ یا ہاتھ یا پاؤں شاید دو ہی بار دھویا تو ایک بار اور دھولے اگرچہ واقع میں یہ چوتھی بار ہو اور ایک بار کا خیال ہوا تو دوبار، اور یہ شک پڑا کہ دھویا ہی نہیں تو تین بار دھوئے اگرچہ واقع کے لحاظ سے چھ بار ہوجائے یہ اسراف نہیں کہ اطمینانِ قلب حاصل کرنا غرض صحیح ہے۔


فــ:مسئلہ ان صحیح غرضوں کا بیان جن کے لئے وضو و غسل میں تین تین با ر سے زیادہ اعضاء کا دھونا داخل اسرف نہیں بلکہ جائز وروا یا محمود و مستحسن ہے ۔


ہم امر چہارم میں ارشاد اقدس حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر آئے کہ: دع ما یریبک الی مالا یریبک ۲؎ شک کی بات چھوڑ کروہ کر جس میں شک نہ رہے۔


(۲؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب تفسیر المشتبہات     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۷۵)


کافی امام حافظ الدین نسفی میں ہے  : ھذا (ای وعید الحدیث من زاد علی ھذا اونقص فقد تعدی وظلم) اذا زادہ معتقدا ان السنۃ ھذا فاما لو زاد لطمانیۃ القلب عند الشک اونیۃ وضوء  اخر فلا باس بہ لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم امر بترک مایریبہ الی مالا یریبہ ۱؎۔


حدیث پاک '' جس نے اس سے زیادتی یا کمی کی وہ حد سے بڑھا اور ظلم کیا '' کی وعید اس صورت میں ہے کہ جب یہ اعتقاد رکھتے ہوئے زیادہ کرے کہ زیادہ کرناہی سنت ہے لیکن شک کے وقت اطمینان قلب کے لئے زیادہ کرے یادوسرے وضو کی نیت ہو تو کوئی حرج نہیں ا س لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم دیا ہے کہ شک کی حالت چھوڑ کر وہ صورت اختیار کرے جس میں شک نہ رہے ۔(ت)


(۱؎الکافی شرح الوافی)


فتح القدیر میں قولِ ہدایہ : الوعید لعدم رویتہ سنۃ (وعید اس لئے ہے کہ وہ سنت نہیں سمجھتا ہے۔ ت) کے تحت میں ہے: فلو راٰہ و زاد لقصد الوضوء  علی الوضوء  اولطمانیۃ القلب عند الشک اونقص لحاجۃ لاباس بہ ۲؎۔


تو اگر تثلیث کو سنت مانا اور وضو پر وضو کے ارادے یا شک کے وقت اطمینان قلب کے لئے زیادہ کیا یاکسی حاجت کی وجہ سے کمی کی تو کوئی حرج نہیں(ت)


(۲؎ فتح القدیر        کتا ب الطہارت    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۷)


عنایہ میں ہے : اذا زاد لطمانیۃ القلب عند الشک اوبنیۃ وضوء  اخر فلا باس بہ فان الوضوء علی الوضوء نور علی نور وقد امر بترک مایریبہ الی مالا یریبہ ۳؎۔


شک کے وقت اطمینان قلب کے لئے یا دوسرے وضو کی نیت سے زیادہ کیا تو حرج نہیں اس لئے کہ وضو پر وضو نور علٰی نور ہے اور اسے حکم ہے کہ شک کی صورت چھوڑ کر وہ راہ اختیار کرے جس میں اسے شک نہ ہو (ت)


(۳؎ عنایہ مع الفتح القدیر علی الہدایۃ    کتاب الطہارت    نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۷)


حلیہ میں ہے : الوعید علی الاعتقاد المذکور دون نفس الفعل وعلی ھذا مشی فی الھدایۃ ومحیط رضی الدین والبدائع ونص فی البدائع انہ الصحیح لان من لم یرسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فقد ابتدع فلیحقہ الوعید وان کانت الزیادۃ علی الثلاث لقصد الوضو علی الوضوء اولطمانینۃ القلب عند الشک فلا یلحقہ الوعید وھو ظاھر وھل لو زاد علی الثلث من غیر قصد لشیئ مما ذکر یکرہ الظاھر نعم لانہ اسراف ۱؎۔


وعید اعتقاد مذکور پر ہے خود فعل پر نہیں ۔ اسی کو ہدایہ، محیط رضی الدین اور بدائع میں بھی اختیار کیا ہے ، اور بدائع میں صراحت کی ہے کہ یہی صحیح ہے اس لئے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سنت کو نہ مانے وہ بد مذہب ہے اسے وعیدلاحق ہوگی۔اگر تین پراضافہ وضو علی وضو کے ارادے سے ہے یا شک کے وقت اطمینان قلب کے لئے تو اسے وعید لاحق نہ ہوگی اوریہ ظاہرہے۔سوال یہ ہے کہ اگرمذکورہ با توں میں سے کسی کا قصد ہوئے بغیراس نے تین بار سے زیادہ دھویا مکروہ ہے یانہیں ،ظاہریہ ہے کہ مکروہ ہے کیونکہ یہ اسراف ہے ۔( ت)


( ۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


اسی طرح نہایہ ومعراج الہدایہ ومبسوط وسراج وہاج وبرجندی ودرمختار وعالمگیری وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے مگر بعض متاخرین شراح کو ان صورتوں میں کلام واقع ہوا:

صُورتِ اولٰی میں تین وجہ سے :


وجہ اول  :


وضو عبادت ف مقصودہ نہیں بلکہ نماز وغیرہ کیلئے وسیلہ ہے ہمارے علماء کا اس پر اتفاق ہے تو جب تک اُس سے کوئی فعل مقصود مثل نماز یا سجدہ تلاوت یا مس مصحف واقع نہ ہولے اُس کی تجدید مشروع نہ ہونی چاہئے کہ اسراف محض ہوگی۔ یہ اعتراض محقق ابراہیم حلبی کا ہے۔


فــ:مسئلہ بعض نے فرمایا کہ وضو پر وضو اسی وقت مستحب ہے کہ پہلے سے وضو کوئی نمازیا سجدہ تلاوت وغیرہ کوئی فعل جس کے لئے با وضو ہونے کا حکم ہے ادا کر چکا ہوبغیر اس کے تجدید وضو مکروہ ہے ۔ بعض نے فرمایا کہ ایک بار تجدید تو بغیر اس کے بھی مستحب ہے،ایک سے زیادہ بے اسکے مکروہ ہے اور مصنف کی تحقیق کہ ہمارے ائمہ کا کلام اور نیز احادیث خیر الانام علیہ افضل الصلوۃ السلام مطلقا تجدید وضو کو مستحب فرماتی ہیں اوران قیدوں کا کوئی ثبوت ظاہر نہیں ۔


خلاصہ میں اعضائے وضو چار بار دھونے کی کراہت میں دو قول نقل کرکے فرمایا تھا: ھذا اذالم یفرغ من الوضوء فان فرغ ثم استأنف الوضوء لایکرہ بالاتفاق ۱؎۔


یہ اس صورت میں ہے کہ ابھی وضو سے فارغ نہ ہواہو اگرفارغ ہوگیا پھرازسر نو وضو کیا تو بالاتفاق مکروہ نہیں ۔( ت )


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارۃ     سنن الوضوء مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۲)


اسی طرح تاتارخانیہ میں امام ناطفی سے ہے کما فی ش اس سے ثابت کہ ایک وضو سے فارغ ہو کر معاً بہ نیت وضو علی الوضو شروع کردینا ہمارے یہاں بالاتفاق جائز ہے اور کسی کے نزدیک مکروہ نہیں۔ اس پرعلامہ حلبی نے وہ اشکال قائم کیا اور علامہ علی قاری نے مرقات باب السنن الوضوء فصل ثانی میں زیر حدیث فمن زاد علی ھذا فقد  اساء وتعدی ۲؎ (جس نے اس پر زیادتی کی اس نے برا کیا اور حد سے آگے بڑھا۔ت) اُن کی تبعیت کی۔


 (۲؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب سنن الوضو تحت الحدیث۴۱۷ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ۲ /۱۲۴)


اقول اولا فــــ۱ : جب ائمہ ثقات نے ہمارے علماء کا اتفاق نقل کیا اور دوسری جگہ سے خلاف ثابت نہیں تو بحث کی کیا گنجائش۔


فــ۱ تطفل علی الغنیۃ وعلی القاری ۔


ثانیا فــ ۲: عبادت غیر مقصودہ بالذات ہونے پر اتفاق سے یہ لازم نہیں کہ وہ وسیلہ ہی ہو کر جائز ہو بلکہ فی نفسہ بھی ایک نوع مقصودیت سے حظ رکھتا ہے ولہٰذا اجماع ہے کہ ہر وقت باوضو رہنا فــ۳ ہر حدث کے بعد معاً وضوء کرنا مستحب ہے۔


فـــ۲ :تطفل اٰخر علیہما۔

فــ۳ مسئلہ ہروقت با وضو رہنا مستحب ہے اور اس کے فضائل۔


فتاوٰی قاضی خان وخزانۃ المفتین وفتاوٰی ہندیہ وغیرہا میں وضوئے مستحب کے شمار میں ہے: ومنھا المحافظۃ علی الوضوء وتفسیرہ ان یتوضأ کلما احدث لیکون علی الوضوء فی الاوقات کلھا ۳؎۔


اسی میں سے وضو کی محافظت یہ ہے کہ جب بے وضو ہو وضو کر لے تاکہ ہمہ وقت با وضورہے وضو کی محافظت اسلام کی سنت ہے۔(ت)


 (۳؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الباب الاول الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۹)


بلکہ امام رکن الاسلام محمد بن ابی بکر نے شرعۃ الاسلام میں اُسے اسلام کی سُنّتوں سے بتایا فرماتے ہیں: المحافظۃ علی الوضوء سنۃ الاسلام ۱؎


(ہمیشہ باوضو رہنا اسلام کی سنّت ہے۔ ت)


 ( ۱؎ شرعۃ الاسلام مع شرح مفاتیح الجنان فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۸۲)


اُس کی شرح مفاتیح الجنان ومصابیح الجنان میں بستان العارفین امام فقیہ ابو اللیث سے ہے : بلغنا ان اللّٰہ تعالٰی قال لموسٰی علیہ الصلاۃ والسلام یا موسٰی اذا اصابتک مصیبۃ وانت علی غیر وضوء فلا تلو من الانفسک ۲؎۔


یعنی ہم کو حدیث پہنچی کہ اللہ عزّوجل نے موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا اے موسٰی! اگر بے وضو ہونے کی حالت میں تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو خود اپنے آپ کو ملامت کرنا۔


( ۲؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۸۲)


اُسی میں کتاب خا لصۃ الحقائق ابو القاسم محمود بن احمد فارابی سے ہے: قال بعض اھل المعرفۃ من داوم علی الوضوء اکرمہ اللّٰہ تعالی بسبع خصال ۳؎ الخ


یعنی بعض عارفین نے فرمایا جو ہمیشہ باوضو رہے اللہ تعالٰی اُسے سات۷ فضیلتوں سے مشرف فرمائے:


(۳؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۸۲)


(۱) ملائکہ اس کی صحبت میں رغبت کریں۔

(۲) قلم اُس کی نیکیاں لکھتا رہے۔

(۳) اُس کے اعضاء تسبیح کریں۔

(۴) اُسے تکبیر اولٰی فوت نہ ہو۔

(۵) جب سوئے اللہ تعالٰی کچھ فرشتے بھیجے کہ جن وانس کے شر سے اُس کی حفاظت کریں۔

(۶)  سکرات موت اس پر آسان ہو۔

(۷) جب تک باوضو ہو امانِ الٰہی میں رہے۔


اُسی میں بحوالہ مقدمہ غزنویہ وخالصۃ الحقائق انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے : من احدث ولم یتوضأ فقد جفانی ۴؎


جسے حدث ہو اور وضو نہ کرے اس نے میرا کمالِ ادب جیسا چاہئے ملحوظ نہ رکھا۔


(۴؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۹۴)


اقول  : مگر ظاہراً یہ حدیث بے اصل ہے،تشہد بہ قریحۃ من نظرہ فیہ بتمامہ وایضا لوصح لوجبت استدامۃ الوضوء ولا قائل بہ واللّٰہ تعالٰی اعلم جوپوری حدیث میں غور کرے تواسکی طبیعت اس کی شہادت دے گی اور اگر یہ درست ہوتی تو ہمیشہ با وضو رہنا واجب ہوتا اور کوئی اس کا قائل نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم (ت )

ثالثا : وہ تنظیف فــ۱ ہے اور دین کی بنا نظافت پر ہے اور شک نہیں کہ تجدید موجب تنظیف مزید، ولہٰذا فــ ۲جمعہ وعیدین وعرفہ عــــہ واحرام ووقوف عرفات ووقوف مزدلفہ حاضری حرم وحاضری سرکار اعظم ودخول منٰی ورمی جمار ہرسہ روزہ شب برات وشب قدر وشب عرفہ وحاضری مجلس میلاد مبارک وغیرہا کے غسل مستحب ہوئے،


 فــ۱:تطفل ثالث علیہما۔

فــ۲:مسئلہ ان بعض اوقات و مواقع کا ذکر جن کے لیے غسل مستحب ہے ۔

عـــہ قال فی الدر  و فی جبل عرفۃ ۱؎ قال ش'' اقحم لفظ جبل اشارۃ الی ان الغسل للوقوف نفسہ لالد خول عرفات ولا للیوم وما فی البدائع من انہ یجوز ان یکون علی الاختلاف ای للوقوف اوللیوم کما فی الجمعۃ ردہ فی الحلیۃ بان الظاھر انہ للوقوف قال وما اظن ان احد اذھب الی استنانہ لیوم عرفۃ بلا حضور عرفات اھ

عــــہ در مختار میں ہے میں''جبلِ عرفات پرغسل '' شامی میں ہے لفظ جبل اس بات کی جانب اشارہ کے لئے بڑھا دیا کہ غسل خود وقوف کی وجہ سے ہے عرفات میں داخل ہونے یا روز عرفہ کی وجہ سے نہیں اور بدائع میں جو ہے کہ ''ہوسکتا ہے کہ اس میں اختلاف ہوکہ غسل وقوف کی وجہ سے ہے یا اس دن کی وجہ سے ہے جیسے جمعہ میں اختلاف ہے ''حلیہ میں اسکی تردید یوں کی ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ غسل وقوف کی وجہ سے ہے۔ اور میں یہ نہیں سمجھتا کہ کسی کا یہ مذہب ہو کہ عر فات کی حاضری کے بغیر روزعرفہ کا غسل مسنون ہے ۔اھ


( ۱؎ ا لدر المختار     کتاب الطہارۃ     مکتبہ مجتبائی دہلی     ۱ /۳۲)


واقر ہ فی البحر والنہر لکن قال المقد سی فی شرح نظم الکنز لا یستبعد سنیتہ للیوم لفضیلتہ حتی لوحلف بطلاق امرأتہ فی افضل الایام العام تطلق یوم العرفۃ ذکرہ ابن ملک فی شرح الشارق اھ ۲؎


اوراسے بحر ونہر میں برقراررکھا لیکن مقدسی نے شرح نظم کنز میں لکھا کہ:''دن کے باعث اس غسل کا مسنون ہونا بعید نہیں کیونکہ یہ دن فضیلت رکھتا ہے یہا ں تک کہ اگر یہ کہا کہ میری عور ت کو سال کے سب سے افضل دن میں طلاق تو روز عرفہ اسپرطلاق واقع ہوگی اسے ابن ملک نے شرح مشارق میں ذکر کیا اھ


( ۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۱۴)


اقول : ھذاصاحب ف الدر ناصا علی استنانہ ای استحبابہ لیلۃ عرفۃ وقدعد ھافی التاتارخانیہ والقہستانی فالیوم احق فلذا افردت عرفۃ من الوقوف وکذا دخول من رمی الجمار تبعاللتنویر شرح الغزنویۃ کما نقل عنہ ش واللہ تعالٰی اعلم اھ۱۲  منہ


اقول یہ خود صاحب درمختارہیں جنہوں نے عرفہ کی شب غسل مسنون یعنی مستحب ہونے کی صراحت فرمائی اور تاتار خانیہ وقہستانی نے بھی اسے شمار کیا اسی طرح دخول منٰی کو رمی جمار سے الگ کیا تنویر اور شرح غزنویہ کی تبعیت میں جیسا کہ اس سے علامہ شامی نے نقل کیا ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ (ت)


فــ: تطفل علی الدر۔


درمختار میں قول ماتن  : سن لصلاۃ جمعۃ وعید الخ ماتن نے کہا جمعہ وعیدین کیلئے سنّت ہے الخ۔ (ت) کے بعد ہے وکذا الدخول المدینۃ ولحضور مجمع الناس الخ ۱؎ اسی طرح مدینہ میں داخل ہونے والے اور لوگوں کے مجمع میں حاضر ہونے کیلئے سنت ہے الخ۔( ت)


( ۱؎ ا لدر المختار     کتاب الطہارۃ     مکتبہ مجتبائی دہلی         ۱ /۳۲)


ان سب میں نماز کیلئے وسیلہ ہونا کہاں کہ جنابت نہیں۔


رابعا فـــ ۱: صرف وسیلہ ہی ہوکر مشروع ہوتا تو ایک بار کوئی فعل مقصود کرلینے کے بعد بھی تجدید مکروہ ہی رہتی کہ پہلا وضو جب تک باقی ہے وسیلہ باقی ہے تو دوبارہ کرنا تحصیل حاصل وبیکار واسراف ہے۔


فــ۱ تطفل رابعۃ علی الغنیۃ والقاری ۔


خامسا  : بلکہ ف۲ چاہئے تھا کہ شرع مطہر وضو میں تثلیث بھی مسنون نہ فرماتی کہ وسیلہ تو ایک بار دھونے سے حاصل ہوگیا اب دوبارہ سہ بارہ کس لئے۔


ف۲: تطفل خامس علیہما ۔

سادسا  : رزین فــ ۳نے عبداللہ فــ ۴ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا مرتین مرتین وقال ھو نور علٰی نور ۲؎۔


یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اعضائے کریمہ دو دوبار دھوئے اور فرمایا یہ نور پر نور ہے۔


(۲؎ مشکوٰۃ المصابیح     باب سنن الوضوء     الفصل الثالث     قدیمی کتب خانہ کراچی ص۴۷)


فــ ۳: تطفل سادس علیہما۔

فــ ۴: وضو پر وضو کے مسائل ۔


ایک ہی بار کے دھونے میں نور حاصل تھا پھر دوبارہ اور سہ بارہ نور پر نور لینا فضول نہ ہوا تو اس پر اور زیادت کیوں فضول ہوگی حالانکہ اُنہی رزین کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:


الوضوء علی الوضوء نور علٰی نور ۳؎ وضو پر وضو نور پر نور ہے۔ (ت)


(۳؎ کشف الخفاء     حدیث۲۸۹۷     دار الکتب العلمیہ بیروت     ۲ /۳۰۳)


سابعا: ابو داؤد وترمذی وابن ماجہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من توضا علی طھر کتب لہ عشر حسنات ۱؎۔


جو باوضو وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جائیں ۔


(۱؎سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ با ب الرجل یجددا لوضومن غیر حدیث آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹)

(سنن التررمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو لکل الصلوٰۃ حدیث ۵۹ دار الفکر بیروت۱ /۱۲۲و۱۲۳ )

(سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الوضو علی الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۹ )


مناوی نے تیسیر میں کہا: ای عشر وضوء ات ۲؎


یعنی دس بار وضو کرنے کا ثواب لکھا جائے۔


( ۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من توضأ علی طہر مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۴۱۱ )


ظاہر ہے کہ حدیثوں میں فصل نماز وغیرہ کی قید نہیں تو مشایخ کرام کا اتفاق اور حدیث کریم کا اطلاق دونوں متوافق ہیں اسی بنا پر سیدی عارف باللہ علّامہ عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ تعالٰی نے یہاں محقق حلبی کا خلاف فرمایا،ردالمحتار میں ہے :


لکن ذکر سیدی عبدالغنی النابلسی ان المفہوم من اطلاق الحدیث مشروعیتہ ولو بلا فصل بصلاۃ اومجلس اخرو لااسراف فیما ھو مشروع اما لوکررہ ثالثا او رابعا فیشترط لمشروعیتہ الفصل بما ذکروا لاکان اسرافا محضا اھ فتامل ۳؎اھ۔


سیدی عبدالغنی النابلسی نے فرمایا کہ حدیث کے اطلاق کا مفہوم تو یہ ہے کہ یہ مشروع ہے خواہ اس کے درمیان کسی نماز یا کسی مجلس سے فصل نہ ہواور جو چیز مشروع ہو اس میں اسراف نہیں ہوتا، لیکن اگر تیسری چوتھی مرتبہ کیا تو اُس کی مشروعیت کیلئے اُن چیزوں سے فصل ضروری ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے ور نہ تو محض اسراف ہوگا اھ تو تا مل کرو اھ۔ (ت)


( ۳؎ ردا لمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت         ۱ /۸۱)


اقول : لکن فــ اطلاق الحدیثین یشمل الثالث والرابع ایضا وایضا اذالم یکن اسرافا فی الثانی لم یکن فی الثالث والرابع وکان المولی النابلسی قدس سرہ القدسی نظر الی لفظ الوضوء علی الوضوء فھما وضواٰن فحسب وکذلک من توضأ علی طھر۔


اقول : لیکن دونوں حدیثوں کا اطلاق تو تیسری اور چوتھی بار کو بھی شامل ہے اور یہ بھی ہے کہ جب دوسری بار میں اسراف نہ ہوا تو تیسری چوتھی بار میں بھی نہ ہوگا ، شاید علامہ نابلسی قدس سرہ کی نظر لفظ وضو علی الوضوء پر ہے کہ یہ صرف دو وضو ہوتے ہیں اور یہی حال اس کا ہے جس نے وضو ہوتے ہوئے وضو کیا ۔


ف :تطفل علی المولی النابلسی ۔


اقول : ووھنہ لایخفی فقولہ تعالی وھنا علی وھن ۱؎ لایدل ان ھناک وھنین فقط وکان الشامی الی ھذا اشار بقولہ تأمل وسیاتی ماخذ کلام العارف مع الکلام علیہ قریبا ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔


اقول اس خیال کی کمزوری مخفی نہیں،دیکھیے ارشاد باری تعالٰی وھن علی وھن (کمزوری پر کمزوری ) یہ نہیں بتاتا کہ وہاں صرف دو ہی کمزوریاں ہیں شاید شامی نے لفظ '' تأمل '' سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے تأمل کرو اور علامہ شامی نے سیدی العارف کے کلام کا جو حصہ ذکر نہیں کیا وہ آ گے ان شاء اللہ تعالٰی اس پر کلام کے ساتھ جلدی آئے گا۔ (ت)


        (۱ ؎القرآن الکریم     ۳۱ /۱۴)


اقول : اس خیال کی کمزوری مخفی نہیں،دیکھیے ارشاد باری تعالٰی وھن علی وھن (کمزوری پر کمزوری ) یہ نہیں بتاتا کہ وہاں صرف دو ہی کمزوریاں ہیں شاید شامی نے لفظ '' تأمل '' سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے تأمل کرو اور علامہ شامی نے سیدی العارف کے کلام کا جو حصہ ذکر نہیں کیا وہ آ گے ان شاء اللہ تعالٰی اس پر کلام کے ساتھ جلدی آئے گا۔ (ت)


        (۱ ؎القرآن الکریم     ۳۱ /۱۴)


ثامنا اقول فــ۱  : حل یہ ہے کہ جو وضو فرض ہے وہ وسیلہ ہے کہ شرط صحت یا جواز ہے اور شروط وسائل ہوتے ہیں مگر جو وضو مستحب فــ ۲ ہے وہ صرف ترتبِ ثواب کیلئے مقرر فرمایا جاتا ہے تو قصد ذاتی سے خالی نہیں اگرچہ اُس سے عمل مستحب فیہ میں حُسن بڑھے کہ مستحب فــ ۳ کی یہی شان ہے کہ وہ اکمال سنن کیلئے ہوتا ہے اور سنن اکمال واجب اور واجب اکمال فرض۔


فــ ! تطفل سابعا علی الغنیۃ والقاری ۔

فــ ۲:مصنف کی تحقیق کہ جو وضو یا غسل مستحب ہے وہ وسیلہ محضہ نہیں خود بھی مخصوص ہے ۔

فــ ۳: مستحب سنت کی تکمیل ہے سنت واجب کی واجب فرض کی فرض ایمان کی ۔


اقول  : اور فرض اکمال ایمان کیلئے اس سے اُن کا غیر مقصود ہونا لازم نہیں آتا۔ خلاصہ وبزازیہ وخزانۃ المفتین میں ہے:الواجبات اکمال الفرائض والسنن اکمال الواجبات والاداب اکمال السنن ۱؎۔


واجبات فرائض کا تکملہ ہیں اور سنتیں واجبات کا تکملہ اورآداب سنتوں کا تکملہ ۔ (ت)


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الصلوٰۃ     الفصل الثانی واجبات الصلوٰۃ عشرۃ     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۵۱)

(خزانۃ المفتین     فرائض الصلوٰۃ وواجباتہا     قلمی (فوٹو )    ۱ /۲۶)


درمختار باب ادر اک الفریضہ میں ہے:یأتی بالسنۃ مطلقا ولو صلی منفرداعلی الاصح لکونھا مکملات ۲؎۔


سنّت کی ادائیگی کا حکم مطلقاً ہے اگر چہ تنہا نماز پڑھے یہی اصح ہے اس لئے کہ (فرائض وواجبات ) کی تکمیل کرنے والی ہیں۔(ت)


(۲؎ الدر المختار        ادراک الفریضۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۰۰)


اُسی کی بحث تراویح میں ہے: ھی عشرون رکعۃ حکمۃ مساواۃ المکمل للمکمل ۳؎


تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ مکمل، مکمل کے برابر ہوجائے۔(ت)


(۳؎ الدرالمختار         کتا ب الصلوٰۃ     باب الوتر والنوافل     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۹۸)


ولہذا ہمارے ائمہ تصریح فرماتے ہیں کہ وضوئے بے نیت پر ثواب نہیں۔ 

بحرالرائق میں ہے:


اعلم ان النیۃ لیست شرطافی کون الوضوء مفتاحا للصلاۃ قیدنا بقولنا فی کونہ مفتاحا لانھا شرط فی کونہ سببا للثواب علی الاصح ۴؎۔


واضح ہو کہ وضو کے کلید نماز بننے میں نیت شرط نہیں کلید نماز بننے کی قید ہم نے اس لئے لگائی کہ وضو کے سبب ثواب بننے میں بر قول اصح نیت ضرور شرط ہے۔(ت)


(۴؎ البحرالرائق    کتاب الصلوٰۃ باب الوتر والنوافل     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴)


اور مستحب پر ثواب ہے تو وضوئے فـــ۱ مستحب محتاج نیت ہوا اور وسائل محضہ محتاج نیت نہیں ہوتے۔


فــ ۱: وضوئے مستحب بے نیت ادا نہ ہوگا ۔


فتح القدیر وبحرالرائق میں ہے: اذالم ینو حتی لم یقع عبادۃ سببا للثواب فھل یقع الشرط المعتبر للصلاۃ حتی تصح بہ اولا قلنا نعم لان الشرط مقصود التحصیل لغیرہ لالذاتہ فکیف حصل حصل المقصود وصار کستر العورۃ باقی شروط الصلاۃ لایفتقر اعتبارھا الی ان تنوی.۱؎۔


بے نیت وضو کر لیا جس کے باعث وہ عبادت سبب ثواب نہ بن سکا تو کیا اس (بے نیت وضو ) سے نماز صحیح ہوجائے گی اور یہ اس وضوکی جگہ ہو جائے گی جس کی شرط نماز میں رکھی گئی ہے ہم جواب دیں گے ہاں اس لئے کہ شرط دوسری چیز کو بروئے کار لانے کے لئے مقصود ہے بذات خود مقصود نہیں تو یہ جیسے بھی حاصل ہومقصود حاصل ہوجائے گا جیسے ستر عورت اور باقی شرائط نماز ہیں کہ ان کے قابل اعتبار ہونے کے لئے ان میں نیت ہونے کی ضرورت نہیں ۔(ت)


(۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۵و۲۶)


تو ثابت ہوا کہ وضوئے مستحب وسیلہ نہیں وھو المقصود والحمدللّٰہ الودود۔

تاسعا: محقق حلبی کا یہ استناد کہ اکیلا فــ ۱سجدہ (یعنی سجدہ تلاوت وسجدہ شکر کے سوا محض سجدہ بے سبب) جبکہ عبادت مقصودہ نہ تھا تو علماء نے اُس پر حکم کراہت دیا تو وضوئے جدید کی کراہت بدرجہ اولٰی۔


فــ ۱: سجدہ بے سبب کا حکم ۔


اقول : خود محقق فـ ۲رحمہ اللہ نے آخر غنیہ میں سجدہ نماز وسہو وتلاوت ونذر وشکر پانچ سجدے ذکر کرکے فرمایا: اما بغیر سبب فلیس بقربۃ ولامکروہ ۲؎ نقلہ عن المجتبی مقرا علیہ ونقلہ عن الغنیۃ فی ردالمحتار ایضا واقر ھذا ھھنا واعتمد ذاک ثمہ الا ان یحمل ماھنا علی کراھۃ التنزیہ وما ثم علی نفی المأ ثم ای کراھۃ التحریم فیتوافقان لکن یحتاج الحکم بکراھتہ ولو تنزیہا الی دلیل یفیدہ شرعا کما تقدم وھو لم یستند ھھناا لی نقل فاللّٰہ تعالی اعلم۔


یعنی سجدہ بے سبب میں نہ ثواب نہ کراہت۔ غنیہ میں اسے مجتبٰی سے نقل کر کے برقرار رکھا، اور غنیہ سے اسے ردالمحتار میں بھی نقل کیا اور وضو علی الوضو کے بیان میں غنیہ کے قول (سجدہ بے سبب کی کراہت ) کوبرقرار رکھااور آخر باب سجدہ تلاوت میں سجدہ بے سبب کے غیر مکروہ ہونے پر اعتماد کیا مگر تطبیق یوں ہوسکتی ہے یہاں جو کراہت مذکور ہے وہ کراہت تنزیہیہ پر محمول ہو اور وہاں جو نفی کراہت ہے وہ نفی گناہ یعنی کراہت تحریم کی نفی پرمحمول ہو لیکن کراہت کا حکم کرنے کے لئے اگر چہ کراہت تنزیہیہ ہی ہو اس دلیل کی حاجت ہے جو شرعا اس کی کراہت بتاتی ہو جیسا کہ یہ قاعدہ ذکر ہوا اور یہاں انہوں نے کسی نقل سے استناد نہ کیا اور خدائے بر تر ہی کو خوب علم ہے ۔ (ت)


فــ ۲ تطفل ثامن علیہما ۔


(۲؎ غنیۃ المستملی    فصل مسائل شتی    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۶۱۶و۶۱۷)


عاشرا :وباللہ ف التوفیق سجدہ سب سے زیادہ خاص حاضری دربار ملک الملوک عزجلالہ ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اقرب مایکون العبد من ربہ وھو ساجد فاکثروا الدعاء رواہ مسلم وابو داؤد۱؎ والنسائی عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۔


سب حالتوں سے زیادہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے قریب ہوتا ہے تو اس میں دعا بکثرت کرو (اسے مسلم ،ابو داؤد اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا )


فــ: تطفل تاسع علیہا۔


( ۱؎ صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب ما یقال فی الرکوع والسجود قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۱)

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الدعاء فی الرکوع والسجود آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۲۷)

(سنن النسائی کتاب افتتاح الصلوۃ باب اقرب ما یکون العبد من اللہ نور محمدکارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۱۷۰و۱۷۱)


اور دربار شاہی میں بے اذن حاضری جرأت ہے اور سجدہ بے سبب کے لئے اذن معلوم نہیں ،ولہٰذا شافعیہ کے نزدیک حرام ہے کما صرح بہ الامام الا ردبیلی الشافعی فی الانوار جیسا کہ امام اردبیلی شافعی نے انوار میں تصریحات کی۔ ت) اس بناء پر اگر سجدہ بے سبب مکروہ ہو تو وضو کا اُس پر قیاس محض بلا جامع ہے۔ 

رہا علامہ شامی کا اُس کی تائید میں فرمانا کہ ہدیہ ابن عماد میں ہے: قال فی شرح المصابیح انما یستحب الوضوء اذا صلی بالوضوء الاول صلٰوۃ کذا فی الشرعۃ والقنیۃ اھ وکذا ماقالہ المناوی فی شرح الجامع الصغیرعندحدیث من توضأ علی طھران المراد الوضوء الذی صلی بہ فرضا او نفلا کما بینہ فعل راوی الخبر ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فمن لم یصل بہ شیا لایسن لہ تجدیدہ اھ ومقتضی ھذا کراھتہ وان تبدل المجلس مالم یؤدبہ صلاۃ اونحوھا ۱؎ اھ


( ۱؎ ردا لمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت         ۱ /۸۱)


اقول : شرعۃ الاسلام میں اس کا پتا نہیں ،اس میں صرف اس قدر ہے: التطھر لکل صلاۃ سنۃ النبی علیہ الصلاۃ والسلام ۲؎۔


ہر نماز کے لئے وضو کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ (ت)


( ۲؎ شرعۃ الاسلام مع شرح مصابیح الجنا ن فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۸۳)


ہاں سید علی زادہ نے اُس کی شرح میں مضمون مذکور شرح مصابیح سے نقل کیا اور اُس سے پہلے صاف تعمیم کا حکم دیا، حیث قال فالمؤمن ینبغی ان یجدد الوضوء فی کل وقت وان کان علی طہر قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من توضأ علی طھر کتب لہ عشر حسنات وقال فی شرح المصابیح تجدید الوضوء فی کل وقت انما یستجب اذا صلی بالوضوء الاول صلاۃ والا فلا ۱؎ اھ


ان کے الفاظ یہ ہیں : تومومن کو چاہیے کہ ہر وقت تازہ وضو کرے اگرچہ باوضو رہا ہو،حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے باوضو ہوتے ہوئے وضو کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ۔۔۔اورشرح مصابیح میں کہا کہ ہر وقت تجدید وضو مستحب ہونے کی شرط یہ ہے کہ پہلے وضو سے کوئی نماز ادا کر لی ہو ،ورنہ نہیں ۔


( ۱؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام     فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ     مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۸۳)


قلت وبہ ظھر ان قولہ کذا فی الشرعۃ ای شرحہا اشارۃ الی قولہ قال فی شرح المصابیح لاداخل تحت قال۔


قلت اسی سے ظاہر ہوا کہ ابن عماد کی عبارت ''کذافی الشرعۃ ۔۔۔۔ایساہی شرعۃ الاسلام یعنی اسکی شرح میں ہے '' کا اشارہ ان کی عبارت''قال فی شرح المصابیح '' (شرح مصابیح میں کہا ) کی طرف  ہے ۔ یہ شرح مصابیح کے کلام میں شامل نہیں (ت)


بہرحال اولا : قنیہ کا فــ ۱ حال ضعف معلوم ہے اور شرح شرعہ بھی مبسوط ونہایہ وعنایہ ومعراج الدرایہ وکافی وفتح القدیر وحلیہ وسراج وخلاصہ وناطفی میں کسی کے معارض نہیں ہوسکتی نہ کہ اُن کا اور اُن کے ساتھ اور کتب کثیرہ سب کے مجموع کا معارضہ کرے۔ پھر اعتبار منقول عنہ کا ہے اور شرح فــ۲ مصابیح شروح حدیث سے ہے معتمدات فقہ کا مقابلہ نہ کرے گی نہ کہ مسئلہ اتفاق


فــ ۱: معروضۃ علی العلامۃ ش۔

فــ ۲:کتب شروح حدیث میں جو مسئلہ کتب فقہ کے خلاف ہو معتبر نہیں ۔


علامہ مصطفی رحمتی نے شرح مشارق ابن ملک کے نص صریح کو اسی بنا پر رد کیا اور اُسے اطلاقات کتب مذہب کے مقابل معارضہ کے قابل نہ مانا اور خود علامہ شامی نے اُسے نقل کرکے مقرر فرمایا۔ حیث قال علی قولہ لکن فی شرح المشارق لابن ملک لو وطئہا وھی نائمۃ لایحلہا للاول لعدم ذوق العسیلۃ فیہ ان ھذا الکتاب لیس موضوعا لنقل المذھب واطلاق المتون والشروح یردہ وذوق العسیلۃ للنائمۃ موجود حکما الا یری ان النائم اذا وجد البلل یجب علیہ الغسل وکذا المغمی علیہ ۱؎ الخ


تفصیل یہ ہے کہ درمختار میں لکھا لیکن ابن ملک کی شرح المشارق میں ہے کہ اگر عورت سو رہی تھی اور اس سے وطی کی تو شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی اس لئے کہ اس کے حق میں ذوق عسیلہ (مر دکے چھتے کا مزہ پانے) کی شرط نہ پائی گئی اس پر علامہ رحمتی نے یہ اعتراض کیا:اس میں خامی یہ ہے کہ کتاب نقل مذہب کے لئے نہ لکھی گئی اور متون وشروح کے اطلاق سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اور سونے والی کے لئے بھی مزہ پانے کی شرط حکما موجود ہے کیا دیکھا نہیں کہ سونے والا تری پائے تواس پر غسل واجب ہوجاتاہے اسی طرح وہ بھی جو بے ہوش رہا ہو ۔(ت)


( ۱ ؎ردا لمحتار     کتاب الطلاق     باب الرجعۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۵۴۰)


ثانیا : علامہ مناوی فــ۱ شافعی ہیں فقہ میں اُن کا کلام نصوص فقہ حنفی کے خلاف کیا قابل ذکر۔


فـــ ۱:معروضۃ اخری علیہ۔


ثالثا فـــ۲ : وہی مناوی اسی جامع صغیر کی شرح تیسیر میں کہ شرح کبیر کی تلخیص ہے اسی حدیث کے نیچے فرماتے ہیں


فتجدید الوضوء سنۃ مؤکدۃ اذا صلی بالاول صلاۃ مّا ۲؎۔


توتجدید وضوء سنّتِ مؤکدہ ہے جب پہلے وضو سے کوئی بھی نماز اداکر چکا ہو۔( ت)


فـــ۲ :معروضۃ ثالثۃ علیہ۔


(۲؎التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من توضاء علی طہر مکتبہ الامام الشافعی ریاض۲ /۴۱۱ )


معلوم ہوا کہ لایسن سے اُن کی مراد نفی سنت مؤکدہ ہے


وصاحب الدار   اَدرٰی (اور صاحبِ خانہ کو زیادہ علم ہوتا ہے۔ت) اور اُس کی نفی مقتضی کراہت نہیں کمالایخفی (جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت)

وجہ دوم  :


ایک جلسہ فــ۱ میں وضو کی تکرار مکروہ ہے۔ سراج وہاج میں اسے اسراف کہا تو قبل تبدل مجلس وضو علی الوضوء کی نیت کیونکر کرسکتا ہے۔ یہ شبہہ بحرالرائق کا ہے کہ اسی عبارت خلاصہ پر وارد فرمایا۔


فــ۱ :مسئلہ بعض نے فرمایا ایک جلسہ میں دوبار وضومکروہ ہے۔ بعض نے فرمایا دوبارتک مستحب اس سے زائدمکروہ ہے اور مصنف کی تحقیق کہ احادیث وکلمات ائمہ مطلق ہیں اور تحدیدوں کا ثبوت ظاہر نہیں ۔


اقول : جس مسئلہ پر عبارت فــ۲ سراج سے اعتراض فرمایا وہ خود سراج کا بھی مسئلہ ہے۔


ہندیہ میں ہے : لوزاد علی الثلث لطمانینۃ القلب عند الشک اوبنیۃ وضوء اخر فلا باس بہ ھکذا فی النھایۃ والسراج الوھاج ۱؎۔


شک ہونے کے وقت اطمینانِ قلب کیلئے یا دوسرے وضو کی نیت سے دھویا تو کوئی حرج نہیں ایساہی نہایہ اور سراج وہاج میں ہے ۔(ت)


فـــ۲ :تطفل علی البحر۔


( ۱؎الفتاوی الہندیہ کتاب الطہارۃ الباب الاول الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور۱ /۷ )


کیا کلام سراج خود اپنے مناقض ہے اور اگر ہے تو اُن کا وہ کلام احق بالقبول ہوگا جو عامہ اکابر فحول کے موافق ہے یاوہ کہ اُن سب کے اور خود اپنے بھی مخالف ہے۔ لاجرم صاحب بحر کے برادر وتلمیذ نے نہرالفائق میں ظاہر کردیا کہ سراج نے ایک مجلس میں چند بار وضو کو مکروہ کہا ہے دوبار میں حرج نہیں تو اعتراض نہ رہا۔ سراج وہاج کی عبارت یہ ہے: لو تکرر الوضوء فی مجلس واحد مرارا لم یستحب بل یکرہ لما فیہ من الاسراف ۲؎ اھ وھذا ھو ماخذ ماقدمنا عن المولی النابلسی رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔


اگر وضو ایک مجلس میں چند بار مکرر ہو تو مستحب نہیں بلکہ مکروہ ہے کیونکہ اس میں اسراف ہے اھ یہی اس کلام کا ماخذ ہے جو ہم نے علامہ نابلسی رحمہ اللہ کے حوالہ سے پیش کیا۔ (ت)


( ۲ ؎ردا لمحتار     کتاب الطہارۃ          دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۱)


اقول وباللہ التوفیق فــ ۱: وضوئے جدید میں کوئی غرض صحیح مقبول شرع ہے یا نہیں ،اور اگر نہیں تو واجب کہ مطلقا تجدید مکروہ وممنوع ہو اگرچہ ایک ہی بار اگرچہ مجلس بدل کر اگرچہ ایک نماز پڑھ کرکہ بیکار بہانا ہی اسراف ہے اور اسراف ناجائز ہے ، اور اگر غرض صحیح ہے مثلاً زیادت نظافت تو وہ غرض زیادت قبول کرتی ہے یا نہیں، اگر نہیں تو ایک ہی بار کی اجازت چاہئے اگرچہ مجلس بدل جائے کہ تبدیل مجلس نامتزاید نہ کردے گا وہ کونسی غرض شرعی ہے کہ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تو قابل زیادت نہیں اور وہاں سے اُٹھ کر ایک قدم ہٹ کر بیٹھ جائے تو از سرنو زیادت پائے، اور اگر ہاں تو کیا وجہ ہے کہ مجلس میں دوبارہ تکرار کی اجازت نہ ہو بالجملہ جگہ بدلنے کو اسباب میں کوئی دخل نظر نہیں آتا تو قدم قدم ہٹ کر سوبار تکرار کی اجازت اور بے ہٹے ایک بار سے زیادہ کی ممانعت کوئی وجہ نہیں رکھتی۔ احادیث بے شک مطلق ہیں اور ہمارے ائمہ کا متفق علیہ مسئلہ بھی یقینا مطلق اور ایک اور متعدد کا تفرقہ ناموجَّہ واللہ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔


فــ :تطفل علی سراج الوہاج والنہر والبحر ۔


واشار فی الدر الی الجواب بوجہ اخر فقال لعل کراھۃ تکرارہ فی مجلس تنزیہیۃ ۱؎ اھ ای فلا یخالف قولھم لو زاد بنیۃ وضوء اخر فلا باس بہ لان الکلمۃ غالب استعمالھا فی کراھۃ التنزیہ۔


در مختار میں ایک دوسرے طریقے پر جواب کی طرف اشارہ کیا اس کے الفاظ یہ ہیں شاید ایک مجلس کے اندر تکرار وضو کی کراہت تنزیہی ہو اھ مطلب یہ ہے کہ یہ مان لینے سے ان کے اس قول کی مخالفت نہ ہوگی کہ '' اگر وضو کی نیت سے زیادتی کی تو کوئی حرج نہیں( فلا بأس بہ ) اس لئے کہ یہ کلمہ زیادہ تر کراہت تنزیہیہ میں استعمال ہوتا ہے


( ۱؎ الدرالمختار    کتاب الطہارت    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۲)


اقول : ویبتنی علی مااختارہ ان الاسراف مکروہ تحریما لان المستثنی اذا ثبت فیہ کراھۃ التنزیہ  فلولم تکن فی المستثنی منہ الاھی لم یصح الثنیا ۔


اقول : اس جواب کی بنیاد اس پر ہے جو صاحب در مختار نے اختیار کیا کہ اسراف مکروہ تحریمی ہے اس لئے کہ مستثنٰی میں جب کراہت تنزیہیہ ثابت ہوئی تو اگرمستثنی منہ میں بھی یہی کراہت رہی ہو تو استثنا ء درست نہ ہو ا۔ فان قلت معھا مسألۃ الزیادۃ للطمانینۃ عند الشک وقد حکموا علیہما بحکم واحد وھو لاباس بہ وھذہ الزیادۃ مطلوبۃ قطعا لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک ۱؎ فکیف یحمل علی کراھۃ التنزیہ۔


اگر یہ سوال ہو کہ اس کے ساتھ بوقت شک اطمینان کے لئے زیادتی کا مسئلہ بھی توہے اوردونوں پر ایک ہی حکم لگایا گیا ہے کہ لا بأس بہ (اس میں حرج نہیں )حالانکہ کہ یہ زیادتی تو قطعا مطلوب ہے اس لئے کہ سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے شک کی حالت چھوڑ کروہ اختیار کرو جو شک سے خالی ہو تو اسے کراہت تنزیہ پر کیسے محمول کریں گے ۔


(۱؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب التفسیر المشتبہات قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۷۵)


قلت المعنی لایمنع شرعا فیشمل المکروہ تنزیھا والمستحب ھذا وردہ فی ردالمحتار اخذا من ط بانھم عللوہ بانہ نور علی نور قال وفیہ اشارۃ الی ان ذالک مندوب فکلمۃفــ لاباس وان کان الغالب استعمالہا فیما ترکہ اولی لکنھا قد تستعمل فی المندوب کما فی البحر من الجنائز والجھاد ۱؎ اھ


    قلت میں کہوں گا(لابأس بہ) کامعنی یہ ہوگا کہ شرعاً ممنوع نہیں تویہ مکروہ تنزیہی اورمستحب دونوں کوشامل ہوگا یہ بات توہوگئی مگر ردالمحتار میں طحطاوی سے اخذ کرتے ہوئے درمختار کے جواب کی یہ تردید کی ہے کہ علماء نے اس کی علّت یہ بتائی ہے کہ وہ نور علٰی نو ر ہے۔ فرمایا: اس تعلیل میں اس کا اشارہ ہے کہ وہ مندوب ہے تولفظ ''لاباس'' اگرچہ زیادہ تر اس میں استعمال ہوتا ہے جس کاترک اولٰی ہے لیکن بعض اوقات مندوب میں بھی استعمال ہوتاہے جیسا کہ البحرالرائق کے بیان جنائز وجہاد میں ہے اھ۔(ت)


ف: کلمۃ لا بأس لما ترکوہ اولٰی وقد تستعمل فی المندوب ۔


(۲؎ردالمحتار     کتاب الطہارۃ    دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۱)


اقول :  الندب ف۱ لاینافی ف۲ فی الکراھۃ فلا یبعد ان یکون مندوبا فی نفسہ لما فیہ من الفضیلۃ لکن ترکہ فی مجلس واحد اولی قال فی الحلیۃ النفل لاینافی عدم الاولویۃ ۱؎ اھ ذکرہ فی صفۃالصّلوٰۃ مسألۃ القراء ۃ فی الاٰخریین وقال السید ط فی حواشی المراقی الکراھۃ لاتنافی الثواب افادہ العلامۃ نوح۲؎ اھ قالہ فی فصل الاحق بالامامۃ مسألۃ الاقتداء بالمخالف۔ نعم یرد علیہ ماذکرنا ان لااثر للمجلس فیما ھنا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اقول : ندب کراہت کے منافی نہیں توبعید نہیں کہ بربنائے فضیلت فی نفسہ مندوب ہولیکن ایک مجلس میں اس کاترک اولٰی ہو۔ حلیہ میں لکھا ہے کہ نفل خلافِ اولٰی ہونے کے منافی نہیں اھ


اسے صفۃ الصلوٰۃ کے تحت بعد والی دونوں رکعتوں میں قرأت کے مسئلہ میں ذکرکیاہے اور سید طحطاوی نے حواشی مراقی میں لکھا ہے کہ کراہت ثواب کے منافی نہیں علامہ نوح نے اس کا افادہ کیااھ۔ یہ انہوں نے فصل احق بالامامۃ میں اقتدائے مخالف کے مسئلہ میں ذکرکیاہے۔ہاں اس پر وہ اعتراض وارد ہوگا جوہم نے بیان کیاکہ'' جگہ بدلنے کو اس باب میں کوئی دخل نہیں''۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔(ت)


فـــ۱معروضۃ علی العلامۃ ش ۔

فـــ۲ الندب لا ینافی الکراھۃ۔


( ۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی) 

(۲؎حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الصلوٰۃ فصل فی بیان الاحق بالامامۃ دار الکتب العلمیہ بیروت ص۳۰۴ )

وجہ سوم :


 یہ سب کچھ سہی پھر تجدید وضو تو بعد تکمیل وضوئے اول ہو اثنائے وضو میں تجدید کیسی۔ یہ اعتراض علامہ علی قاری کا ہے کہ مرقاۃ موضع مذکور میں اصل مسئلہ دائرہ یعنی بہ نیت وضو علی الوضو تین بار سے زیادہ اعضا ء دھونے پر ایراد کیا۔


والی ھذا اشارط اذقال علی قول الدر لقصد الوضوء علی الوضوء ظاھرہ ان نیۃ وضوء اخر متحققۃ فی الغرفۃ الرابعۃ اوالخامسۃ ولا کراھۃ والحدیث یدل علی غیر ھذا ۱؎ اھ


اور اسی اعتراض کی طرف سید طحاوی نے اشارہ کیا،اس طرح کہ درمختار کی عبارت لقصد الوضوء علی الوضوء پر لکھا:اس کا ظاہر یہ ہے کہ چوتھے یا پانچویں چلّومیں دوسرے وضو کی نیت متحقق ہوجاتی اور کوئی کراہت نہیں ---------مگر حدیث کچھ اور بتارہی ہے اھ۔


قلت وکانہ الی ھذا نظر العلامۃ فـــ البحر فزاد علی خلاف سائر المعتمدات قید الفراغ من الاول وعزاہ لاکثر شروح الھدایۃ مع عدمہ فیھا ظنا منہ رحمہ اللّٰہ تعالی انہ ھو المحمل المتعین لکلامھم فقال وعلی الاقوال کلھا لوزاد لطمانینۃ القلب عند الشک اوبنیۃ وضوء اخر بعد الفراغ من الاول فلا باس بہ لانہ نور علی نور وکذا ان نقص لحاجۃ لاباس بہ کذا فی المبسوط واکثر شروح الھدایۃ ۲؎ اھ


قلت شاید علامہ بحر نے اسی طرف نظر کرتے ہوئے تمام کتب معتمدہ کے برخلاف''وضوئے اول سے فارغ ہونے'' کی قید کا اضافہ کردیااوراسے اکثر شروحِ ہدایہ کی جانب منسوب کیا، جبکہ ان میں یہ بات نہیں ۔ صاحبِ بحر رحمہ اللہ تعالٰی کا خیال ہے کہ ان شارحین کے کلام کا یہی مطلب متعین ہے۔ بحر کے الفاظ یہ ہیں:اورتمام اقوال پر اگر شک کی حالت میں اطمینا ن قلب کے لئے زیادہ کیا یا'' پہلے وضو سے فارغ ہونے کے بعد'' دوسرے وضو کی نیت سے زیادہ کیاتو کوئی حرج نہیں اس لئے یہ نور علٰی نور ہے۔ یوں ہی اگر کسی حاجت کی وجہ سے کمی کی توکوئی حرج نہیں، ایساہی مبسوط اور اکثر شروحِ ہدایہ میں ہے اھ۔


( ۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار     کتاب الطہارۃ      المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ         ۱ /۷۲)

(۲؎ البحرالرائق        کتاب الطہارۃ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۳)


ثم بعد ھذا الحمل البعید من کلامھم کل البعد تکلم فیہ باتحاد المجلس کما تقدم قال الا ان یحمل علی ما اذا اختلف المجلس وھو بعید کمالا یخفی ۳؎ اھ


پھر ان حضرات کے کلام سے یہ بالکل ہی بعید مطلب لینے کے بعداس پراتحادمجلس سے کلام کیاجوگزرا، آگے فرمایا: مگر یہ کہ مجلس بدل جانے کی صورت پرمحمول ہو، اور وہ بعید ہے جیسا کہ مخفی نہیں اھ۔


 (۳؎ البحرالرائق        کتاب الطہارۃ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۳)


اقول رحمک ف۱ اللّٰہ ورحمنا بک اولیس ماحملتم علیہ بعیدا فاین الزیادۃ علی الثلث فی الغسلات من التجدید بعد انھا الوضوء الاول۔


اقول آپ پرخدا کی رحمت ہواورآپ کے طفیل ہم پر بھی رحمت ہو۔کیاآپ نے جو مطلب لیاوہ بعید نہیں؟ کہاں دورانِ وضو کسی عضو کوتین بارسے زیادہ دھونا اورکہاں پہلا وضو پورا کرنے کے بعد تازہ وضو کرنا(ان کے کلام میں وہ تھا اورآپ نے اس کامعنٰی یہ لیا دونوں میں کیا نسبت؟)

یہ اعتراض ضرور محتاج توجہ ہے۔


فــ ۱: تطفل رابع علیہ ۔


وانا اقول وباللّٰہ استعین فــ ۲ (میں کہتا ہوں اللہ تعالٰی کی مدد کے ساتھ۔ت) شے کے فــ۳ اسباب وشروط ہوں یا احکام وآثار اُس کا ذکر اگرچہ مطلق ہو اُن سب کی طرف اشعار کہ مسبب ومشروط کا وجود بے سبب وشرط نہ ہوگا۔


ان عقلیا فعقلیا اوشرعیا فشرعیا کصلاۃ الظہر قبل الزوال او بدون نیۃ ۔


اگر وہ امر عقلی ہے تو اس کا وجود عقلی اور اگرشرعی ہے تووجودشرعی بے سبب وشرط نہ ہوگا جیسے قبل زوال یابے نیت، نماز ظہر کا وجود شرعی نہیں ہوسکتا(اول فقدان سبب کی مثال ہے دوم فقدان شرط کی ۱۲م)۔


نہ شے اپنے احکام وآثار سے خالی ہوگی کہ یہ دونوں فریق دو طرف تقدم وتاخر ذاتی میں لوازم وجود شے ہیں والشیئ اذا ثبت ثبت بلوازمہ  (اگر کچھ ثابت ہوگا تو تمام لوازم کے ساتھ ثابت ہوگا۔ ت) تبیین الحقائق مسئلہ ذکاۃ الجنین میں ہے: ای اذبحوہ وکلوہ وھذا مثل مایروی انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذن فی اکل لحم الخیل ای اذا اذبح لان الشیئ اذا عرف شروطہ وذکر مطلقا ینصرف الیھا کقولہ تعالٰی اقم الصلاۃ ای بشروطھا ۱؎۔


یعنی اسے ذبح کرلوتب کھاؤ اور یہ اسی کے مثل ہے جو مروی ہے کہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی یعنی جب ذبح کرلئے جائیں۔اس لئے کہ کسی شے کی شرطیں جب معروف ہوں اور ا س کومطلقاً ذکرکردیاجائے تواس کا ان شرطوں کے ساتھ ہونا ہی مراد ہوگا جیسے باری تعالٰی کا ارشاد ہے نماز قائم کر، یعنی اس کی شرطوں کے ساتھ۔(ت)


 ( ۱؎ تبیین الحقائق     کتاب الذبائح     دار الکتب العلمیۃ بیروت     ۶ /۴۶۵)

اب وضو دو قسم ہے: واجب ومندوب۔

واجب کا سبب معلوم ہے کہ اُس چیز کا ارادہ جو بغیر اس کے حلال نہ ہو جیسے نماز یا سجدہ یا مصحف کریم کو ہاتھ لگانا۔ اور مندوب فــ۱ کے اسباب کثیر میں ازانجملہ:

(۱) قہقہہ سے ہنسنا        (۲) غیبت کرنا

(۳) چغلی کھانا        (۴) کسی کو گالی دینا

(۵) کوئی فحش لفظ زبان سے نکالنا    (۶) جھوٹی بات صادر ہونا

(۷) حمد ونعت ومنقبت ونصیحت کے علاوہ کوئی دنیوی شعر پڑھنا    (۸) غصہ آنا

(۹) غیر عورت کے حُسن پر نظر۔

(۱۰) کسی کافر سے بدن چھو جانا اگرچہ کلمہ پڑھتا اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو جیسا فــ۲ قادیانی عـــہ۱یا چکڑالوی عـــہ۲نیچری عـــہ۳ یا آج کل کے تبرائی رافضی عـــہ۴ یاکذابی عـــہ ۵یا بہائمی عـــہ۶یا شیطانی عـــہ۷ خواتمی عـــہ۸ وہابی جن کے عقائد کفر کا بیان حسام الحرمین میں ہے۔یا اکثر غیرعـــہ۹ مقلد خواہ بظاہر مقلد وہابیہ کہ اُن عقائدار تداد پر مطلع ہو کر اُن کو عالم دین وعمدہ مسلمین کہتے یا اللہ ورسول کےمقابل اللہ ورسول کو گالیاں دینے والوں کی حمایت کرتے ہیں جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم


فــ ۱: مسئلہ ان بعض اشیاء کا بیان جن کے سبب وضوکی تجدید مطلقا بالا تفاق مستحب ہوتی ہے خوا ہ ابھی اس سے نماز وغیرہ کوئی فعل ادا کیا ہو یا نہیں مجلس بدلی ہو یا نہیں وضو پورا ہوا ہو یا نہیں تجدید ایک با ر ہو یا سو بار ۔

فــ ۲: فائدہ ضروریہ ان دس فرقوں کا بیان جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور شرعا مرتد ہیں۔ 

عـــہ ۱غلام احمد قادیانی کے پیرو جو اپنے آپ کو نبی ورسول کہتا اپنے کلام کو کلامِ الٰہی بتاتا سیدنا عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیتا چارسو انبیا کی پیشگوئی جھوٹی بتاتا خاتم النبیین میں استثنا کی پچّر لگاتا وغیرہ کفریات ملعونہ ۱۲ (م)

عـــہ۲ یہ ایک نیا طائفہ ملعونہ حادث ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے منکر ہے تمام احادیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو صراحۃً باطل وناقابل بتاتا اور صرف قرآن عظیم کے اتباع کا ادعا رکھتا ہے اور حقیقۃً خود قرآن عظیم کا منکر ومبطل ہے، ان خبیثوں نے اپنی نماز بھی جُدا گھڑی ہے جس میں ہر وقت کی صرف دو۲ ہی رکعتیں ہیں ۱۲ ۔


عـــہ۳ یہ باطل طائفہ ضروریات دین کا منکر ہے قرآن عظیم کے معانی قطعیہ ضروریہ میں در پردہ تاویل وتحریف وتبدیل کرتا وجودِ ملائکہ وآسمان وجن وشیطان وحشر ابدان وناروجنان ومعجزات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے انہیں ملعون تاویلوں کی آڑ میں انکاررکھتا ہے ۱۲ ۔ 

عـــہ۴ یہ ملاعنہ صراحۃً قرآنِ عظیم کو ناقص بتاتے اور مولٰی علی وائمہ اطہار رضی اللہ تعالٰی عنہم کو انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والتسلیم سے افضل ٹھہراتے ہیں ۱۲۔

عـــہ ۵ یہ ملاعنہ طائفہ اللہ تعالٰی کو بالفعل جھوٹا بتاتا اور صاف کہتا ہے کہ وقوع کذب کے معنے درست ہوگئے ۱۲۔

عـــہ۶ یہ گروہ لعین ہر پاگل اور چوپائے کے لئے علم غیب مان کر صاف کہتا ہے کہ جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تھا ایسا علم تو ہر پاگل اور جانور کو ہوتا ہے ۱۲


عـــہ ۷ اس شیطانی گروہ کے نزدیک ابلیس لعین کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ بلکہ بے شمار زیادہ ہے ابلیس کی وسعت علم کو نص قطعی سے ثابت کہتا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وسعت علم کو باطل بے ثبوت مانتا ہے اُن کیلئے وسعتِ علم کے ماننے کو خالص شرک بتاتا مگر ابلیس کو وسعتِ علم میں خدا کا شریک جانتا ہے ۱۲ ۔

عـــہ۸یہ شقی گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے کا صاف منکر ہے خاتم النبیین کے معنی میں تحریف کرتا اور بمعنی آخر النبیین لینے کو خیالِ جہال بتاتا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چھ یا سات مثل موجود مانتا ہے ۱۲


عـــہ۹ یہ بدبخت طائفہ ان ملعون ارتدادوں کو دفع تو کر نہیں سکتا بلکہ خوب جانتا ہے کہ ان سے دفع ارتداد ناممکن ہے مگر ان مرتدوں کو پیشوا اور ممدوح دینی ماننے سے بھی باز نہیں آتا اللہ جل وعلا ورسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقابل ان کی حمایت پر تُلا ہوا ہے اللہ ورسول کو گالیاں دینا بہت ہلکا جانتا ہے مگر ان دشنام دہندوں کا حکم شرعی بیان کرنے کو گالیاں دینا کہتا اور بہت سخت برا مانتا ہے اور ازانجا ف کہ اُن صریح ارتدادوں کی حمایت سے قطعاً عاجز ہے باوصف ہزاروں تقاضوں کے اُن کا نام زبان پر نہیں لاتا اور براہ گریز خدا ورسول جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب میں اُن صریح گالیوں کو بالائے طاق رکھ کر سہل اختلاف مسئلہ عطائے بعض علوم غیبیہ کی طرف بحث کو پھیرنا چاہتا ہے پھر اس میں بھی افترا واختراع سے کام لیتا ہے اور اصل مقصود صرف اتنا کہ وہ قہر عظیم والی دشنام ہائے خدا ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھُول میں پڑ جائیں اور بات این وآں کی طرف منتقل ہو اس چالاکی کا موجد امر تسر کے پرچہ "اہلحدیث" کا ایڈیٹر ہے دیکھو چابک لیث اور ظفر الدین الطیب اور کین کش پنجہ پیچ وغیرہا، یہ چالاک پرچہ۲۶ جمادی الاولٰی ۱۳۲۶ھ میں حسام الحرمین کا ذکر منہ پر لایا مگر یوں کہ براہ عیاری اُس کے تمام مقاصد سے دامن بچا کر دو بالائی باتوں امکانِ کذب وعلم غیب کو اس کا مبنائے بحث ٹھہرایا پھر اُن میں بھی امکانِ کذب کو الگ چھوڑ کر صرف علم غیب میں اپنی بعض فاحشہ جہالتیں دکھائیں جن کا ردبا رہا ہو چکا اسی پرچہ کے رد میں چابک لیث براہل حُدیث دومجلد میں ہے پھر ۳۰ جولائی ۲۰ اگست ۹ ؁ء کے پرچوں میں وہی انداز کہ اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب میں گالیاں شیر مادر۔ قاہر مناظروں کے جواب سے گنگ وکر۔ اور اغوائے عوام کو مناظرہ کا نام زبان پر، اس کے رد میں ظفر الدین الطیب چھاپ کر بھیج دیا انتالیس رات بعد پرچہ ۲۹ رمضان میں اُس کے دیکھنے کا اقرار تو کیا مگر چال وہی کہ اُس کے تمام اعتراضات سے ایک کا بھی جواب نہ دیا اور ایک بالائی لطیفہ تردید کے متعلق لکھا تھا صرف اُس کے ذکر پر اکتفا کیا کہ میری ارد ودانی پر بھی اعتراض ہے۔ اے سبحٰن اللہ اور وہ جو آپ کے دعوٰی ایمان پر قاہر اعتراض ہیں وہ کیا ہوئے وہ جو ثابت کیا تھا کہ تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جتنا افترا اُٹھایا اور اُس پر تمہاری حدیث دانی سے بارہ۱۲ سوال تھے وہ کدھر گئے۔


ف: ایڈیٹر الحدیث امر تسر کی باربار گریز فرار پر فرار اور عوام کے بہکانے کو نام مناظرہ کی عیارانہ پکار۔


خیر اس کے جواب میں رسالہ کین کش پنجہ پیچ برایڈیٹر اے ایچ رجسٹری شدہ بھیجا آج پچپن دن ہوئے اُس کا بھی ذکر غائب، مگر بکمال حیا بعد کے بعض پرچوں میں وہی رٹ موجود، خدا جانے ان صاحبوں کے نزدیک مناظرہ کس شے کا نام ہے، ان سے سیکھ کر یہی چال ایک گمنام صاحب چاند پوری دیوبند دربھنگی چلے۔ دشنامی اکابر جن کے رد میں پینتیس سال سے بکثرت رسائل آستانہ علیہ رضویہ سے شائع ہورہے ہیں اور ان کو خود اقرار ہے کہ آج تک ایک پرچہ کا جواب نہ دے سکے بلکہ بڑے بڑوں نے مناظرہ سے عجز کا صاف صاف اقرار کیا بلکہ لکھ دیا (دیکھو رسالہ دفع زیغ ورسالہ بطش غیب) اب اُن کی حمایت میں جمے ہوئے مناظرے یوں ہی چھوڑ کر یہ دربھنگی صاحب سوال علی السوال لے کر چلے اور ایک بے معنی رسالہ بنام اسکات المعتدی چھاپا اور بعنایت الٰہی خود بھی اس رسالے میں صاف اقرار کردیا کہ اُن کے تمام اکابر آج تک لاجواب ہیں۔ یہ رسالہ یہاں ۹ شعبان کو پہنچا اور ۲۰ شعبان کو اس کا رد ظفر الدین الطیب چھپا ہوا تیار  تھا کہ اُسی دن جلسہ مدرسہ اہلسنت میں شائع کردیا اور ۲۱ شعبان کو ان کے سرآمد کے پاس رجسٹری شدہ اور اتباع کے یہاں نام بنام بھیج دیا۔ ساٹھ رات کے بعد دربھنگی صاحب بولے تو یہ بولے کہ رسالہ کسی کو بھیجا ہی نہیں اور ایک خط اُسی چالاکی پر مشتمل بھیجا کہ صرف دو مسئلہ امکانِ کذب وعلمِ غیب میں اختلاف ہے وبس یعنی وہ شدید شدید گالیاں کہ اُن کے اکابر نے اللہ ورسول جل وعلاوصلی اللہ علیہ وسلم کو لکھ لکھ کر چھاپیں اصلا کوئی قابل پروابات نہیں۔ اس خط کے جواب میں معاً دو رسالے تصنیف ہو کر رجسٹری شدہ اُن کے پاس روانہ ہوئے، اول بارش سنگی، دوسرا پیکان جانگداز برجان مکذّبان بے نیاز، اس دوسرے میں گریز والے صاحبوں کی وہ ہوس بھی پوری کردی یعنی مسئلہ امکان کذب وعلم غیب ہی میں مناظرہ تازہ کردیا۔ رجسٹری رسید طلب تھی ڈاک کی رسید تو آئی مگر آج پچاس دن ہوئے وہ بھی سو رہے حالانکہ اُن کو صرف دس دن کی مہلت تھی۔ مسلمانو! للہ انصاف، یہ ان مدعیانِ دین ودیانت کی حالت ہے منہ بھر بھر کر اللہ ورسول کو سخت سخت گالیاں دیں پھر جب مسلمان اس پر مؤاخذہ کریں جواب نہ دیں، سوالات جائیں جواب غائب، رسائل جائیں جواب غائب، رجسٹریاں جائیں جواب غائب۔ مناظرہ سے اپنا عجز صاف صاف لکھ دیں کہہ دیں اپنے اکابر کا لاجواب رہنا قبول کریں چھاپ دیں اور پھر عوام کے بہکانے کو مناظرہ مناظرہ کی پکار۔ اُس پکار پر جو گرفت ہو اس کے جواب سے پھر فرار اور وہی پکار اس حیا کی کوئی حد ہے۔ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: اذالم تستحی فاصنع ماشئت جب تجھے حیا نہ ہو تو جو چاہے کر۔

ع بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن

(بیحیا ہو جاپھر جو چاہے کر )


ہاں ہاں اے اللہ ورسول (جل وعلا وصلی اللہ علیہ وسلم) کو گالیاں دینے والو! کیا مسلمان اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معاذ اللہ ایسے بے علاقہ ہوگئے کہ تم اُنہیں گالیاں لکھ لکھ کر چھاپو اور وہ بے پروائی کرکے ٹال دیں۔ نہیں نہیں ضرور تمہیں دو باتوں سے ایک ماننی ہوگی، یا تو خدا توفیق دے اُن گالیوں سے صراحۃً توبہ کرو جس طرح اُن کی اشاعت کی اُن سے صاف صاف اپنی توبہ اور اپنے حکم دشنام کا اعتراف چھاپو یا اُن تمام رسائل وکُتب کا جواب دو، جواب دو، جواب دو۔ اس کے سوا تمہارے حیلے حوالے ٹالے بالے ہرگز نہ سُنے جائیں گے،


وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۲؎۔ ولا حول ولا قوۃ الّا باللہ العلی العظیم ۱۲ عبدہ محمد ظفر الدین قادری غفرلہ۔


( ۱؎المعجم الکبیر حدیث ۶۵۸و۶۶۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷ /۲۳۷و۲۳۸)

(۲؎القران الکریم ۲۶ /۲۷۷)


یا عـــہ۰ ۱ جھو ٹے متصوف کہ حلول واتحاد کے قائل یا شریعت مطہرہ کے صراحۃً منکر ومبطل ہیں ان میں دسوں طائفوں اور ان کے امثال سے مصافحہ کرنا تو خود ہی حرام قطعی گناہِ کبیرہ ہے اگر بلا قصد بھی ان کے بدن سے بدن چھُو جائے تو وضو کا اعادہ مستحب ہے۔


عـــہ۰ ۱ ان تمام مرتد طوائف کارد کافی وشافی کتاب مستطاب المعتمد المستند وکتاب لاجواب حسام الحرمین وکتاب کامل النصاب تمہید ایمان بآیات قرآن وظفر الدین الجید وظفر الدین الطیب وغیرہا میں ملاحظہ ہو، سوا فرقہ چکڑالو یہ کہ تالیف المعتمد المستند تک اس کا کوئی تذکرہ ان بلاد میں نہ آیا تھا یہ کتابیں بریلی مطبع اہلسنت وجماعت کے پتے سے مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب سلمہ سے مل سکتی ہیں۔المعتمد المستند عربی زبان میں ۲۳۲ صفحہ میں ہے قیمت (عہ)________ تمہید ایمان بآیات قرآن میں صرف آیاتِ قرآنیہ سے بتایا ہے کہ ایمان کے یہ معنی ہیں اللہ ورسول( جل وعلا وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) کی تعظیم ومحبت ایسی ہوتو مسلمان ہے اللہ ورسول (جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کو گالیاں دینا کفر ہے۔ ایسوں کے کفر میں جو خود یہ لوگ اور آج کل کے بعض آزاد خیال والے حیلے حوالے نکالتے ہیں نہایت سلیس ومہذب بیان میں قرآن مجید سے ان کا جواب ہے، یہ وہ کتاب ہے جس کا دیکھنا ہر مسلمان کو نہایت ضروری ہے ۔حسام الحرمین میں اکابر علمائے حرمین شریفین کی مُہری تصدیقات وفتاوٰی ہیں جن میں اُن دشنام دہندوں کا حکم شرعی مدلل ہے اُس کا مطالعہ پکا مسلمان بناتا ہے دونوں کا مجموعہ ۱۵ جز ہے ۔ہدیہ ۱۰۔ اور یکم محرم ۱۳۲۸ھ سے ۱۲ربیع الاول تک آٹھ ہی آنے (۸۔)ظفر الدین الجید وظفر الدین الطیب۔ اُن دشنامیوں کے فرار اور عیاریوں کے اظہار میں۔ حجم سواد وجزقیمت (۱۔) مسلمان اپنا دینی فائدہ حاصل کریں وباللہ التوفیق ۱۲ سید عبدالرحمن عفا عنہ ۲ محرم الحرام ۱۳۲۸ھ۔ م


فـــ:ان نفیس اسلامی کتابوں کے نام جن سے ایمان تازہ ہو اور مرتدوں کی چالاکیوں کا حال کھلے ۔


 (۱۱) ناخن سے کُہنی تک اپنے ہاتھ کا کوئی حصّہ اگرچہ کھُجانے میں اگرچہ بھُولے سے بلا حائل اپنے ذَکر کو لگ جانا۔

(۱۲) ہتھیلی یا کسی اُنگلی کا پیٹ اپنے یا پرائے ستر غلیظ یعنی ذَکر یا فرج یا دُبر کو بے حائل چھُو جانا اگرچہ وہ دوسرا آدمی کتنا ہی چھوٹا بچّہ یا مردہ ہو۔

(۱۳) نامحرم عورت کے کسی حصہ جلد سے اپنا کوئی حصہ جلد بے حائل چھُو جانا اگرچہ اپنی زوجہ ہو اگرچہ عورت مُردہ یا بڑھیا ہو اگرچہ نہ قصد ہو نہ شہوت چاہے لذت نہ پائے جبکہ وہ عورت بہت صغیرہ چار پانچ برس کی بچّی نہ ہو۔

(۱۴) اگر اُس چھُو جانے سے لذت آئی تو نامحرم کی بھی قید نہیں نہ جِلد کی خصوصیت نہ بے حائل کی ضرورت مثلاً رقیق یامتوسط حائل کے اوپر سے اپنی بہن یا بیٹی کے بال سے مس ہوجانے پر اتفاقا لذت کا آجانا جبکہ عورت قابلِ لذت ہو اور حائل بہت بھاری مثل رضائی وغیرہ کے نہ ہو۔


 (۱۵) نامحرم عورت قابلِ لذت کو بقصدِ شہوت چھُوجانا اگرچہ حائل کتنا ہی بھاری ہو اگرچہ اپنی زوجہ ہو اگرچہ لذت نہ پائے مثلاً لحاف کے اوپر سے اُس کے بالوں پر ہاتھ رکھنا، اور ان کے سوا اور بہت صورتیں ہیں اور ایک اصل کُلی یہ ہے کہ جس بات سے کسی اور امام مجتہد کے مذہب میں وضو جاتا رہتا ہے اُس کے وقوع سے ہمارے مذہب میں اعادہ وضو مستحب ہے


درمختار میں ہے: الوضوء مندوب فی نیف وثلثین موضعا ذکرتھا فی الخزائن منھا بعد کذب وغیبۃ وقہقہۃ و شعر واکل جزور وبعد کل خطیئۃ وللخروج من خلاف العلماء ۱؎ اھ


وضوتیس۳۰ سے زیادہ مقامات میں مستحب ہے، ان سب کا ذکر میں نے خزائن میں کیا ہے۔ اُن میں سے چند یہ ہیں جھُوٹ، غیبت، قہقہہ، شعر ، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد اور ہر گناہ کے بعد اور اختلافِ علماء سے نکلنے کیلئے اھ۔ (ت)


 ( ۱؎الدرالمختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۷و۱۸ )


اقول والحقت النمیمۃ لانھا کالغیبۃ اواشد ثم رأیتھا فی میزان الامام الشعرانی وغیرہ والحقت الفحش لانہ اخنأمن الشعر وربما یدخل فی قولہ خطیئۃ والشتم لانہ اخبث واخنع ثم رأیت التصریح بہ فی انوار الشافعیۃ۔


اقول میں نے چغلی کو بھی شامل کیا اس لئے کہ وہ غیبت ہی کی طرح ہے یا اس سے بھی سخت پھر میں نے میزان امام شعرانی وغیرہ میں اس کا ذکر دیکھا اور فحش کو میں نے شامل کیا اس لئے کہ وہ شعر سے زیادہ برا ہے اور یہ در مختار کے لفظ ہر گناہ کے تحت آسکتا ہے ۔ اور گالی دینے کواس لئے کہ یہ اور بد تر اور فحش تر ہے پھر انوار شافعیہ میں میں نے اس کی تصریح دیکھی۔ ( ت)


ردّالمحتار میں ہے: منھا لغضب ونظر لمحاسن امرأۃ وبعد کذب وغیبۃ لانھما من نجاسات فــ المعنویۃ ولذا یخرج من الکاذب نتن یتبا عدمنہ الملک الحافظ کما ورد فی الحدیث وکذا اخبر صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن ریح منتنۃ بانھا ریح الذین یغتابون الناس والمؤمنین ولالف ذالک منا وامتلاء انوفنا منہا لا تطہر لنا کا لساکن فی محلہ الدباغین وقہقہۃ لانہالما کانت فی الصلٰوۃ جنایۃ تنقض الوضوء اوجبت نقصان الطہارۃ خارجا فکان الوضوء منہا مستحباکما ذکرہ سیدی عبد الغنی النابلسی فی نہایۃ المراد علٰی ھدیۃ ابن العمادو شعر ای قبیح للخروج من خلاف العلماء کمس ذکرہ وامرأۃ اھ۱؎


ان اسباب میں چند یہ ہیں غصہ آنا ، کسی عورت کے حسن پر نظر ، اور جھوٹ اور غیبت کے بعد، اس لئے کہ یہ دونوں معنوی نجاستیں ہیں، اس لئے جھُوٹ بولنے والے سے ایسی بد بو اٹھتی ہے جس سے محافظ فرشتہ دُور ہٹ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، اسی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بد بو سے متعلق بتایا کہ یہ ان کی بد بو ہے جولوگوں کی اور مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں چونکہ ہمیں ان سے الفت ہوگئی ہے اور ہماری ناکیں ان سے بھری ہوئی ہیں اس لئے یہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی جیسے چمڑا پکانے والوں کے محلے میں رہنے والوں کا حال ہوتا ہے اور قہقہہ اس لئے کہ جب اندرون نماز ایساجرم ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو بیرون نماز اس سے وضو میں نقص آجا ئے گا اس لئے اس سے وضو مستحب ہواجیسا کہ سیدی عبد الغنی نابلسی نے ''نہایۃ المراد علی ہدیۃ ابن ا لعماد میں ذکر کیا ہے ۔ اور شعر یعنی برا شعر ،اپنے ذکر یا کسی عورت کا چھو جانا اھ ملتقطا(ت)


 ( ۱؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیا ء التراث العربی بیروت    ۱ /۶۱ )


فـــ: جھوٹ اور غیبت معنوی نجاست ہیں ولہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرشتے اُس وقت اُس کے پاس سے دُور ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے اور اسی طرح ایک بدبو کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ یہ اُن کے منہ کی سٹراند ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں اور ہمیں جو جھوٹ یا غیبت کی بدبُو محسوس نہیں ہوتی اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس سے مالوف ہوگئے ہماری ناکیں اُس سے بھری ہوئی ہیں جیسے چمڑا پکانے والوں کے محلہ میں جو رہتا ہے اُس کی بدبُو سے ایذا نہیں ہوتی دوسرا آئے تو اُس سے ناک نہ رکھی جائے انتہی


مسلمان اس نفیس فائدے کو یاد رکھیں اور اپنے رب سے ڈریں جھوٹ اور غیبت ترک کریں کیا معاذ اللہ منہ سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا باطن کی ناک کھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت میں پاخانے سے بدتر سڑاند ہو۔ رہیں وہ حدیثیں جن کی طرف علامہ شامی نے اشارہ کیا۔ جامع ترمذی بسند حسن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:


اذا کذب العبد کذبۃ تباعد الملک عنہ مسیرۃ میل من نتن ماجاء بہ ۱؎رواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب الصمت وابونعیم فی حلیۃ الاولیاء ۲؎عنہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اُس کی بدبو کے باعث فرشتہ ایک میل مسافت تک اُس سے دُور ہوجاتا ہے۔ کتاب الصمت میں ابن ابی الدنیا اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیا عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)


 (۱؎ سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ حدیث۱۹۷۹    دار الفکر بیروت    ۳ /۳۹۲)

( ۲؎حلیۃ الاولیاء ترجمہ عبد العزیز بن ابی رواد ۴۰۰حدیث ۱۱۹۱۸دار الکتب العلمیہ بیروت ۸ /۲۱۴)


امام احمد بسند صحیح جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ہم خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے کہ ایک بدبو اُٹھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


اتدرون ماھذہ الریح ھذہ ریح الذین یغتابون المومنین ورواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب ذم الغیبت عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ غفرلہ (م) جانتے ہو کہ یہ بدبو کیا ہے،یہ ان کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں،(اس کو ابن الدنیا نے کتاب ذم الغیبت میں روایت کیا ہے، اللہ ان سے راضی ہو ۱۲ منہ غفرلہ۔ ت)


 (۲؎مسند احمد بن حمبل عن جابر بن عبداللہ المکتب ا لاسلامی بیروت۳ /۳۵۱ )

میزان امام شعرانی قدس سرہ الربانی میں ہے: سمعت سیدی علیا الخواص رحمہ اللّٰہ تعالٰی یقول وجہ من نقض الطہارۃ بالقہقہۃ اونوم الممکن فــ ۱ مقعدۃ اومس فــ ۲الابط الذی فیہ صنان اومس فــ ۳ ابرص اوجذم اوکافر اوصلیب فــ ۴او غیر ذلک مماوردت فیہ الاخبار الاخذ بالاحتیاط قال وجمیع النواقض متولدۃ من الاکل ولیس لنا ناقض من غیر الاکل ابدا فلولا الاکل والشرب مااشتھینا لمس النساء ولا تکلمنا بغیبۃ ولا نمیمۃ اھ بالا لتقاط ۲؎۔


میں نے سیدی علی الخواص کو فرماتے سنا قہقہہ سے طہارت ٹوٹ جاتی ہے، اسی طرح وہ نیند جس میں مقعد زمین سے لگی ہو، بغل کو کھجانا جس میں بدبو ہو، برص والے کو یا جذامی کو یا کافر کو چھُونے سے یا صلیب کو چھونے سے، اس کے علاوہ اور دوسری اشیاء جن کے بارے میں احادیث وارد ہیں، احتیاط کے طور پر۔ فرمایا تمام نواقض وضو کھانے سے پیدا ہونے والے ہیں،اور ہمارے لئے غیر اکل سے کوئی ناقض نہیں اگر کھانا پینا نہ ہوتا توعورتوں کے چھونے کی ہم میں شہوت بھی نہ ہوتی نہ ہی غیبت وچغلی ہماری زبان پر آتی اھ بالالتقاط۔ (ت)


 (۱؎ میزان الشریعۃ الکبری     با ب اسباب الحد ث         دارا لکتب العلمیہ بیروت     ۱ /۱۴۵ )


فــ ۱ مسئلہ سوتے میں دونوں سرین زمین پر جمے ہوں تو وضو نہیں جاتا مگر اعادہ وضو مستحب جب بھی ہے۔ 

فــ ۲: مسئلہ بغل کھجانے سے وضو مستحب ہے جبکہ اس میں بد بو ہو ۔

فــ ۳مسئلہ جزامی یا برص والے سے مس کرنے میں بھی تجدید وضو  مستحب ہے۔ 

فــ ۴: مسئلہ صلیب جسے نصاری پوجتے ہیں اور ہنود کے بت وغیرہ کے چھونے سے بھی نیا وضو چاہیے ۔


کتاب الانوار امام یوسف اردبیلی میں ہے: لاینقض بالکذب والشتم والغیبۃ والنمیمۃ ویستحب فی الکل للخلاف ۲؎ جھُوٹ، گالی دینے ، غیبت، چغلی سے وضو نہیں ٹوٹتا اور مستحب ان سب میں ہے کیوں کہ محل اختلاف ہے ۔(ت)


 (۲؎الانوار لاعمال الابرار     کتاب الطہارۃ     فصل اسبا ب الحدث         مطبع جمالیہ مصر ۱ /۲۹)


فتح العین بشرح قرۃ العین للعلامۃ زین الشافعی تلمیذ ابن حجر المکی میں ہے: یندب الوضوء من لمس یھودی ونظر بشھوۃ ولوالی محرم وتلفظ بمعصیۃ وغضب ۱؎۔ یہودی کو چھو جانے ، شہوت سے نظر کرنے اگرچہ محرم ہی کی طرف ہو ۔۔ معصیت کی بات زبان پر لانے اور غصہ سے وضو مستحب ہے ۔


 (۱؎ فتح المعین شرح قرۃ العین بیان نواقض الوضو ء عامر الاسلام پور پریس کیبرص ص ۲۴و۲۵ )


رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ میں ہے: اتفقوا علی ان من مس فرجہ بعضو غیریدہ لاینتقض وضوؤہ واختلفوا فیمن مس ذکرہ بیدہ فقال ابو حنیفۃ لامطلقا والشافعی ینتقض بالمس بباطن کفہ دون ظاھرہ من غیر حائل بشھوۃ اوبغیرھا والمشہور عند احمد انہ ینتقض بباطن کفہ وبظاھرہ ۲؎۔


اس پر اتفاق ہے کہ جو اپنی شرمگاہ ہاتھ کے علاوہ کسی اور عضو سے چھودے اس کا وضو نہ ٹوٹے گا، اور اس کے بارے میں اختلاف ہے جس نے اپنا ذَکر اپنے ہاتھ سے چھو دیا امام ابو حنیفہ نے فرمایا : مطلقا نہ ٹوٹے گا، اور امام شافعی نے فرمایا پشت دست سے چھو دے تو نہ ٹوٹے گا اور اگر ہتھیلی کے پیٹ سے بغیر کسی حائل کے شہوت کے ساتھ یا بلا شہوت چھو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔(ت) اور امام احمد کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ ہتھیلی کے باطن وظاہر کسی طرف سے بھی چھو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔(ت)


 (۲؎ رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمۃ         باب اسبا ب الوضوء         دولۃ قطرص ۱۳)


میزان میں ہے: وجہ من نقض الطہارۃ بلمس الذکر بظھر الکف اوبالید الی المر فق فھو الاحتیاط لکون الید تطلق علی ذلک کما فی حدیث اذا افضی احدکم بیدہ الی فرجہ ولیس بینھما ستر ولا حجاب فلیتوضأ ۳؎۔


ہتھیلی کی پشت سے یا کہنی تک ہاتھ کے کسی حصے سے وضو ٹوٹنے کی وجہ احتیاط کو بتایا گیا ہے اس لئے کہ ہاتھ کا اطلاق اس پر ہو تا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :جب تم میں کوئی اپنا ہاتھ اپنی شرمگاہ تک پہنچادے اور دونوں میں کوئی پردہ اور حائل نہ رہ جائے تو وہ وضو کرے ۔(ت)


 (۳؎ میزان الشعریعۃ     باب اسباب الحدث    دار الکتب العلمیہ بیروت     ۱ /۱۴۲)


انوار ائمہ شافعیہ میں ہے: اسباب الحدث اربعۃ الرابع مس فرج ادمی بالراحۃ اوبطن اصبع قبلا کان اودبرا ناسیا اوعامدا من ذکر اوانثی صغیر اوکبیرحی اومیت من نفسہ اوغیرہ ولومس برؤس الاصابع اوبما بینھا مما لایلی بطن الکف اوبحروف الکفین اومس انثییہ اوالیتیہ اوعجانہ اوعانتہ لم ینتقض۔۱؎


حدث کے چار اسباب ہیں چوتھا کسی انسان کی شرمگاہ کا مس ہوجانا ہتھیلی سے یا انگلی کے پیٹ سے ، آگے کی شرمگاہ ہو یا پیچھے کی ، بھول کر ہو یا قصدا مرد کی ہو یا عورت کی ، چھوٹا ہو یا بڑا ، زندہ یا مردہ اپنی شرمگاہ ہویا دوسرے کی اور اگر انگلیوں کے سروں سے مس ہو جائے یا انگلیوں کے ان درمیانی حصوں سے جو بطن کف سے ملے ہوئے نہیں ہیں ،یا ہتھیلیوں کے کناروں سے مس ہو یا انثیین کو یا سرینوں کو یا خصیتین اور دبرکے درمیان کے حصے کو یا پیڑو کو چھو دے تو وضو نہ ٹوٹے گا (ت)


 (۱؎الانوار لاعمال الابرار     کتاب الطہارۃ     فصل اسبا ب الحدث         مطبع جمالیہ مصر ۱ /۳۱)


اُسی میں ہے: الثالث لمس بشرۃ المرأۃ الکبیرۃ الاجنبیۃ بلا حائل فان لمس شعرا اوسنا اوظفرا اوبالشعر اوالسن اوالظفر اوصغیرۃ لاتشتھی اومحرما بنسب اورضاع اومصاھرۃ اوکبیرۃ اجنبیۃ مع حائل وان رق ولو بشھوۃ لم ینتقض ولو لمس امراتہ اوامتہ اومیتۃ اوعجوزۃ فانیۃ اوبلا شھوۃ اوبلا قصد انتقض واذا کانت المرأۃ فوق سبع سنین فلا شک فی انتقاض الوضوء بلمسھا واما اذا کانت دون ست سنین فاصحابنا خرجوا علی قولین المذھب انہ لاینتقض۱؎


تیسرا اجنبی قابل شہوت عورت کی جلد کا بغیر حائل چھو جانا اگر بال یا دانت یا ناخن کو مس یا بال یا دانت یا ناخن سے مس کیا یا عورت اتنی چھوٹی ہے کہ قابل شہوت نہیں ، یا نسب یا رضاعت یا مصاہرت کسی سبب سے وہ محرم ہے یا بڑی اجنبیہ ہے مگر کوئی حا ئل درمیان ہے اگرچہ باریک ہوا گرچہ شہوت کے ساتھ ہو تو وضو نہ ٹوٹے گا اور اگر اپنی بیوی یا باندی یا مری ہوئی یا فانیہ بڑھیا کو مس کیا تو وضو ٹوٹ جا ئے گا اور جب سات سال سے زیادہ کی ہو تو اس کے چھونے سے وضوٹوٹنے میں کوئی شک نہیں اور اگر چھ سال سے کم کی ہو تو یہاں ہمارے اصحاب کے دو قول ہیں مذہب یہ ہے کہ وضو نہ ٹوٹے گا


 (۱؎الانوار لاعمال الابرار     کتاب الطہارۃ     فصل اسبا ب الحدث         مطبع جمالیہ مصر ۱ /۳۱)


عشماویہ اور اس کی شرح جواہر زکیۃ العلامۃ احمد المالکی میں ہے:  (و) ینتقض الوضوء( بلمس) اجنبیۃ یلتذ بمثلھا عادۃ ولو ظفرھا اوشعرھا اوفوق حائل خفیف قیل والکثیف (وان لم یقصد اللذۃ ولم یجدھا فلا وضوء علیہ ۲؎


ایسی اجنبیہ جوعادتا قابل لذت ہے اس کے چھو جانے سے وضو ٹوٹ جائے گا اگرچہ اس کے ناخن یا بال ہی کو چھوئے یا خفیف حائل کے اوپر سے چھوئے ایک قول ہے کہ دبیز کے اوپر سے بھی اور اگر لذت کا قصد نہیں نہ لذت پائی تو اس پر وضو نہیں ۔(ت)


 (۲؎ا لجواہر الزکیۃ شرح مقدمۃ العشماویۃ )


حاشیہ علامہ سِفطی میں ہے: قولہ لمس اجنبیۃ ھذا ضعیف والمعتمد ان وجود اللذۃ بالمحرم ناقض ولا فرق بین المحرم وغیرھا الافی القصد وحدہ بدون وجدان ففی الاجنبیۃ ناقض وفی المحرم غیر ناقض قولہ عادۃ ای عادۃ الناس لاالملتذ وحدہ فخرج بہ صغیرۃ لاتشتھی کبنت خمس وعجوز مسنۃ انقطع منھا ارب الرجال بالکلیۃ قولہ والکثیف قال الشیخ حاشیۃ ابی الحسن المعتمد ان الاقسام ثلثۃ خفیف جد اوکثیف لاجد اکالقباء وجدا کالطراحۃ فالاولان حکمھا النقض علی الراجح واما الاخیر فالنقض فی القصد دون الوجدان ۱؎۔


ان کا قول ''اجنبیہ کو مس کرنا '' یہ ضعیف ہے، معتمد یہ ہے کہ محرم سے لذت پائی گئی تو یہ بھی ناقض ہے اور محرم و نا محرم میں فرق یہ ہے کہ قصد لذت نہ ملے تو اجنبیہ میں ناقض ہے اور محرم میں ناقض نہیں ان کا قول ''عادۃ'' یعنی لوگوں کی عادت کے لحاظ سے ،صرف لذت پانے والے کی عاد ت مراد نہیں تو اس قید سے وہ صغیرہ خارج ہو گئی جو قابل شہوت نہیں جیسے پا نچ سال کی بچی اور وہ سن رسیدہ بڑھیا جس سے مردوں کی خواہش با لکل منقطع ہو چکی۔۔ قولہ ''دبیز سے بھی ''شیخ نے حاشیہ ابو الحسن میں لکھا ہے کہ معتمد یہ ہے کہ تین قسمیں ہیں : (۱)بہت خفیف (۲) دبیز جو بہت زیادہ دبیز نہ ہو جیسے قبا (۳)اور بہت دبیز جیسے لحاف، تو پہلے دونوں کا حکم بر قول راجح یہ ہے کہ وضو ٹوٹ جائے گا اور اخیر میں یہ حکم ہے کہ قصد ہو تو وضو ٹوٹ جائے گاا ور اتفاقا لذت مل جانے سے نہ ٹوٹے گا ۔(ت)


 (۱؎ حاشیہ علامہ سفطی مقدمۃ العشماویۃ)


مستحب وضو اور بھی ہیں مگر یہاں وہی اکثر ذکر کئے جن کا وضو میں وقوع عادۃً بعید نہ ہو۔ ولہٰذا کفار کی وہ قسمیں بیان کرنی ہوئیں جو بغلط مدعی اسلام ہیں کہ ان میں بہتیرے نماز پڑھتے، وضو کرتے، مسجدوں میں آتے ہیں تو وضو کرتے ہیں ان سے بدن چھُوجانا بعید نہیں۔ یوں ہی کبھی وضو کرتے میں پانی کم ہوجاتا اور آدمی اپنی کنیز یا خادمہ یا زوجہ وغیرہا سے مانگتا اور لینے میں ہاتھ سے ہاتھ لگ جاتا ہے وغیرہ ذلک۔ کامل احتیاط والے کو ان مسائل پر اطلاع نہایت مناسب ہے۔ اب بے فصل نماز وغیرہ عبادات مقصودہ یابے تبدل مجلس اعادہ وضو کی کراہت اگر ہوگی بھی تو وہاں کہ اعادہ کیلئے کوئی سبب خاص نہ ہو ورنہ بعد وجود سبب وہ بے وجہ نہیں کہ اسراف ہو۔ اور اگر مواضع خلاف میں نزاع عود بھی کرے کہ رعایت خلاف وہیں مستحب ہے کہ اپنے مذہب کا مکروہ نہ لازم آئے کما فی ردالمحتار وغیرہ تو پہلی نو دس صورتیں کہ گویا حدث معنوی ونجاست باطنی مانی گئیں اثباتے وضو میں اُن کا وقوع کیا نادر ہے اور شک فــ نہیں کہ دربارہ نقض ونقض وضو بعض وضو کا حکم ایک ہی ہے جس طرح وضوئے کامل پر کوئی ناقض طاری ہونے سے پورا وضو جاتا رہتا ہے اور خلال وضو میں اس کے وقوع سے جتنا وضو ہوچکا ہے اتنا ٹوٹ جاتا ہے یونہی یہ اشیا جن سے طہارت ناقص وبے نور ہوجاتی ہے جب کامل وضو پر واقع ہوں تو پورے وضو کا اعادہ مستحب ہوگا اور اثنائے وضو میں ہوں تو جتنا کر چکا ہے اُس قدر کا۔ اور بہرحال یہ وضوئے آخر یا وضو علی الوضو سے خارج نہ ہوگا کہ وضوئے اول متنقض نہ ہوا۔ اس تقریر پر نہ صرف یہی وجہ اخیر بلکہ تینوں وجہیں مندفع ہوگئیں وللہ الحمد۔


فــ : جن باتوں سے اعادہ وضو مستحب ہے جب وہ وضو کرتے میں واقع ہوں تو مستحب ہے کہ پھر سے وضو کرے۔

صورت ثانیہ : یعنی شک میں فقیر نے نہ دیکھا کہ کسی کو شک ہوماسوا ملا علی قاری کے کہ انہوں نے شک کویکسر ساقط اللحاظ کیا اور اس کے اعتبار کو وسوسہ کی طرف منجر مانا، مرقاۃ میں فرمایا: قلت اما قولہ (ای قول الامام النسفی فی الکافی) لطمانینۃ القلب عند الشک ففیہ ان الشک بعد التثلیث لاوجہ لہ وان وقع بعدہ فلا نھایۃ لہ وھو الوسوسۃ ولھذا اخذ ابن المبارک بظاھرہ فقال لااٰمن اذا زاد علی الثلث انہ یاثم وقال احمد واسحق لایزید یحتاط لدینہ قال ابن حجر ولقد شاھد نامن الموسوسین من یغسل یدہ فوق المئین وھو مع ذلک یعتقد ان حدثہ ھو الیقین قال واما قولہ (ای الامام النسفی) لانہ امر بترک مایریبہ ففیہ ان غسل المرۃ الاخری مما یر یبہ فینبغی ترکہ الی مالایریبہ وھو ماعینہ الشارع لیتخلص عن الریبۃ والوسو سۃ ۱؎ اھ


کافی میں امام نسفی کے قول ''شک کے وقت اطمینان قلب کے لئے زیادتی ''پر یہ کلام ہے کہ تین بار دھو لینے کے بعد شک کی کوئی وجہ نہیں اور اگر اس کے بعد بھی شک واقع ہوتو اس کی کوئی انتہا نہیں اور یہی وسوسہ ہے ۔ اسی لئے حضرت ابن مبارک نے ظاہر حدیث کواختیار کرکے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ تین بار سے زیادہ دھونے کی صور ت میں وہ گناہ گارہو ۔امام احمد واسحاق نے فرمایا : تین پر زیادتی وہی کرے گا جو جنون میں مبتلا ہو اس گمان کی وجہ سے کہ وہ اپنے دین میں احتیاط سے کا م لے رہا ہے ۔۔۔ابن حجر نے فرمایا : ہم نے ایسے وسوسہ زدہ بھی دیکھے  جو سو بار سے زیادہ ہاتھ دھوکر بھی یہ سمجھتا ہے کہ اب بھی اس کا حدث یقینا باقی ہے مولانا علی قاری آگے لکھتے ہیں کہ امام نسفی کا یہ فرمانا کہ اسے شک کی حالت چھوڑ دینے کا حکم ہے تو اس پر یہ کلام ہے کہ ایک با ر اور دھونے سے بھی اسے شک ہی رہے گا تو اسے یہی چاہیے کہ اسے چھوڑ کر وہ اختیار کرے جس سے شک نہ پیدا ہو اور یہ وہی ہے جسے شارحین نے متعین فرمایا ہے تاکہ شک اور وسوسہ سے چھٹکارا پائے اھ (ت)


 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح    کتاب الطہارۃ تحت الحدیث۴۱۷ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۱۲۴)


اقول اولافــ۱ : شک کیلئے منشأ صحیح ہوتا ہے مثل سہو وغفلت بخلاف وسوسہ۔ اول بلا شبہ شرعا معتبر اور فقہ میں صدہا مسائل اُس پر متفرع۔ اگر اُسے ساقط اللحاظ کریں تو شک کا باب ہی مرتفع ہوجائے گا اور ایک جمِ غفیر مسائل واحکام سے جن پر اطباق واتفاق ائمہ ہے انکار کرنا ہوگا۔


فـــ ۱تطفل تاسع علی القاری ۔


ثانیا حدیث فــ ۲ دع مایریبک الی مالایریبک کا صریح ارشاد طرح مشکوک واخذ متیقن ہے کہ مشکوک میں ریب ہے اور متیقن بلا ریب نہ یہ کہ شک کا کچھ لحاظ نہ کرو اور امر مشکوک ہی پر قانع رہ کر یہ مالا یریبک نہ ہوا بلکہ یریبک۔


فــ ۲ : تطفل عاشر علیہ ۔


ثالثا صحیح فــ ۳مسلم شریف میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا شک احدکم فی صلاتہ فلا یدرکم صلی ثلثا اواربعا فلیطرح الشک ولیبن علی مااستیقن ثم یسجد سجدتین قبل ان یسلم فان کان یصلی خمسا شفعن لہ صلاتہ وان کان صلی تماما لاربع کانتا ترغیما للشیطٰن ۱؎۔


جب تم میں کسی کو اپنی نماز میں شک پڑے یہ نہ جانے کہ تین رکعتیں پڑھیں یا چار تو جتنی بات مشکوک ہے اُسے چھوڑ دے اور جس قدر پر یقین ہے اس پر بنائے کار رکھے (یعنی صورت مذکورہ میں تین ہی رکعتیں سمجھے کہ اس قدر پر یقین ہے اور چوتھی میں شک ہے تو چارنہ سمجھے لہٰذا ایک رکعت اور پڑھ کر) سلام سے پہلے سجدہ سہو کرلے اب اگر واقع میں اس کی پانچ رکعتیں ہوئیں تو یہ دونوں سجدے (گویا ایک رکعت کے قام مقام ہوکر) اس کی نماز کا دوگانہ پُورا کردیں گے (ایک رکعت اکیلی نہ رہے گی جو شرعاً باطل ہے بلکہ ان سجدوں سے مل کر ایک نفل دوگانہ جُدا گانہ ہوجائے گا) اور اگر واقع میں چار ہی ہوئیں تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلّت وخواری ہوں گے (کہ اُس نے شک ڈال کر نماز باطل کرنی چاہی تھی اُس کی نہ چلی اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے نماز پوری کی پوری رہی)

یہ اس مطلب کا خاص جزئیہ خود حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشادِ مقدس سے ہے۔


فــ ۳: تطفل الحادی عشر علیہ ۔


 (۱؎ صحیح مسلم کتاب المساجد فصل من شک فی صلوٰۃ فلم یدرکم صلی الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۲۱۱)


رابعا فــ ۱ مسند احمد میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من صلی صلاۃ یشک فی النقصان فلیصل حتی یشک فی الزیادۃ ۱؎۔ جسے نماز میں کامل وناقص کا شک ہو وہ اتنی پڑھے کہ کامل وزائد میں شک ہوجائے۔


فــ۱ تطفل الثانی عشر علیہ ۔


 (۱؎ مسند احمد بن حنبل حدیث عبد الرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۱۹۵)


مثلاً تین اور چار میں شُبہ تھا تو یہ تمامی ونقصان میں شک ہے اسے حکم ہے کہ ایک رکعت اور پڑھے اب چار اور پانچ میں شُبہ ہوجائے گا کہ تمامی وزیادت میں شک ہے۔ یہ حدیث سے تو اُس مطلب کی دوسری تصریح ہے ہی مگر دکھانا یہ ہے کہ اس کی شرح میں خود ملّا علی قاری فرماتے ہیں: لیبن علی الاقل المتیقن فان زیادۃ الطاعۃ خیر من نقصانھا ۲؎۔ یعنی کم پر بنا رکھے جتنی یقینا ادا کی ہیں کہ اگر واقع میں کامل ہوچکی تھیں اور ایک رکعت بڑھ گئی تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک رکعت کم رہ جائے طاعت کی افزونی اس کی کمی سے افضل ہے۔

معلوم نہیں یہ حکم وضو میں کیوں نہ جاری فرمایا حالانکہ اس کی بیشی نماز میں رکعت بڑھا دینے کے برابر نہیں ہوسکتی۔


 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح     کتاب الصلوٰۃ باب السہو حدیث ۱۰۲۲ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۳ /۱۰۸)


خامسا وہ جوفــ۲ فرمایا تثلیث کے بعد شک کی کوئی وجہ نہیں اس سے مراد علم الٰہی میں تثلیث ہولینا ہے یا علم متوضی میں۔ برتقدیر ثانی بیشک شک کی کوئی وجہ نہیں مگر وہ ہرگز مراد نہیں کہ کلام شک میں ہے نہ علم میں۔ اور برتقدیر اول علم الٰہی شک عبد کا کیا منافی۔ بندہ اُس پر مکلّف ہے جو اس کے علم میں ہے نہ اس پر جو علم الٰہی میں ہے جس کے علم کی طرف اسے کوئی سبیل نہیں۔


فــ ۲ تطفل الثالث عشر علیہ ۔


سادسا فــ ۳ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غسل میں سرِ انور پر تین بار پانی ڈالتے اور اسی کا حکم مردوں عورتوں سب کو فرمایا خاص عورتوں کے باب میں بھی یہی حکم بالتصریح ارشاد ہوا۔


فــ ۳ تطفل الرابع عشر علیہ ۔


صحیح مسلم وسنن اربعہ میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں سرگندھواتی ہوں کیا نہاتے میں کھول دیا کروں؟ فرمایا: انما یکفیک ان تحثی علی رأسک ثلث حثیات ۱؎۔ سر پر تین لپ پانی ڈال لیا کرو یہی کافی ہے۔


 (۱؂صحیح مسلم کتاب الحیض باب حکم ضفائر المغتسلۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۰

سنن ترمذی     ابواب الطہارۃ باب ھل تنقض المرأۃ شعرہا عندالغسل حدیث ۱۰۵ دارلفکر بیروت ۱ /۱۶۰

سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃباب ما جاء فی غسل النساء من الجنابۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۴۵

سنن ابی داؤد ابواب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۳ )


آخر امر چہارم میں حدیث ابی داؤد ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اما المراۃ فلا علیھا ان لاتنقضہ لتغرف علی رأسھا ثلث غرفات بکفیھا۲؎۔ عورت کو کچھ ضرور نہیں کہ اپنا گُندھا سر کھولے،بس تین لَپ پانی ڈال لے۔


اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طریقہ غسل میں روایت فرماتی ہیں: ثم یصب علی رأسہ ثلث غرفات بیدیہ ۳؎۔ رؤیاہ عنہا رضی اللہ تعالی عنہا۔ پھر سر مبارک پر تین لپ ڈالتے تھے ۔


 (۲؎سنن ابی داؤد ابواب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۴ )

(۳؎ صحیح البخاری کتاب الغسل باب الوضوء  قبل الغسل قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۳۹ )


اور خود اپنا فرماتی ہیں: لقد کنت اغتسل انا ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد وما ازید علی ان افرغ علی رأسی ثلث افراغات رواہ احمد ومسلم ۴؎۔


میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے نہایا کرتے اور میں اپنے سر پر تین ہی بار پانی ڈالتی یعنی جعد مبارک نہ کھولتیں۔ اسے احمد ومسلم نے روایت کیا ت)


 (صحیح مسلم کتاب الحیض باب حکم ضفائر المغتسلۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۰

مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۴۳)


بااینہمہ ف۱ یہی ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: کان رسول اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ وضؤہ للصلاۃ ثم یفیض علی رأسہ ثلث مرار ونحن نفیض علی رؤسنا خمسا من اجل للضفر ۱؎۔ رواہ ابو داؤد۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز کا سا وضو کرکے سرِ اقدس پر تین بار پانی بہاتے تھے اور ہم بیبیاں سر گُندھے ہونے کی وجہ سے اپنے سروں پر پانچ بار پانی بہاتی ہیں۔(اس کو ابو داؤد نے روایت کیا )

اب کون کہہ سکتا ہے کہ معاذ اللہ امہات المومنین کا یہ فعل وسوسہ تھا حاشا بلکہ وہی اطمینان قلب جسے علماء کرام یہاں فرمارہے ہیں۔


فــ۱ مسئلہ عورت کے بال گندھے ہوں اور تین بار سر پر پانی بہانے سے تثلیث میں شبہ رہے تو پانچ بار بہا سکتی ہے


 (۱؎سنن ابی داؤدکتاب الطہارۃ باب فی الغسل من الجنابۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۲)

سابعا وھوفــ۲ الحل  : صورتیں تین ہیں :

اول  : یہ کہ متوضی جانتا ہے کہ میں نے تین بار دھو لیا ،ہر بار بالاستیعاب ،پھر اُس کا دل مطمئن نہ ہو اور چوتھی بار اور بہانا چاہے۔

دوم : یاد نہیں کہ تین بار پانی ڈالا یا دو بار۔

سوم  : تثلیث تو معلوم ہے مگر ہر بار استیعاب میں شک ہے۔


فــ۲ :تطفل الخامس عشر علیہ۔


ملّا علی صورت اولٰی سمجھے ہیں جب تو فرماتے ہیں کہ تین پورے ہونے کے بعد شک کے کیا معنے۔ اپنا شک چھوڑے اور جو عدد شارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مقرر فرمایا اُس پر قانع رہے۔ اس صورت پر اُن کا انکار بیشک صحیح ہے مگر یہ ہرگز مرادِ علماء نہیں، اُن کا کلام صورت شک میں ہے اور یہ صورت صورت علم ہے اور وسوسہ مردود دونا معتبر ہے۔ شک کی صورت دو۲ صورت اخیر ہیں وہی مرادِ ائمہ ہیں اور ان پر قاری کا کوئی اعتراض وارد نہیں ان میں طمانینت قلب ضرور مطلوبِ شرع ہے جن میں سے امہات المومنین کا پانچ بارپانی ڈالنا صورت اخیرہ ہے وباللہ التوفیق۔


بالجملہ : جس مسئلہ پر ہمارے علماء کے کلمات متظافر ہوں اپنے فہم سے اُس پر اعتراض آسان نہیں معترضین ہی کی لغزش نظر ثابت ہوتی ہے اگرچہ غنیہ وبحر وقاری جیسے ماہرین ہوں   والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔


تنبیہ۷ :  الحمدللہ کلام اپنے منتہی کو پہنچا اور اسراف کے معنے وصور نے بھی بروجہ کامل انکشاف پایا اب بتوفیق اللہ تعالٰی تحقیق حکم کی طرف باگ پھیریں۔

اقول انصافاً چاروں قول میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے مطروح وناقابل التفات سمجھئے۔

قول سوم کی عظمت تو محتاج بیان نہیں ،بدائع وفتح وخلاصہ کی وقعت درکنار خود ظاہر الروایۃ میں محرر المذہب کا نص ہے


قول دوم کے ساتھ حلیہ وبحر کا اوجہ کہنا ہے کہ الفاظ فتوٰی سے ہے اور امام ابو زکریا نووی کے استظہار پر نظر کیجئے تو گویا اُسی پر اجماع کا پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اسراف سے نہی پر اجماعِ علماء نقل فرما کر نہی سے کراہت تنزیہ مراد ہونے کو اظہر بتایا ۔


قول چہارم جسے علامہ شامی نے خارج از مذہب گمان فرمایا تھا اُس کی تحقیق سُن چکے اور یہ کہ وہی مختار درمختار(۱) ونہر الفائق(۲) ومفاد(۳) منتقی وجواہر(۴) الفتاوٰی وتبیین(۵) الحقائق ہے نیز زبدہ(۶) وحجہ(۷) سے مستفاد کہ ان میں بھی کراہت مطلق ہے ،جامع الرموز میں ہے: تکرہ الزیادۃ عی الثلث کما فی الزبدۃ ۱؎۔ تین مرتبہ سے زیادہ مکروہ ہے جیسا کہ زبدہ میں ہے۔ (ت)


 (۱؎جامع الرموز کتاب الطہارۃ سنن الوضوء مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران۱ /۳۵ )


ط    علی المراقی میں ہے: فی فتاوی الحجۃ یکرہ صب الماء فی الوضوء زیادۃ علی العدد المسنون والقدر المعھود لماورد فی الخبر شرار امتی الذین یسرفون فی صب الماء ۲؎۔ فتاوی الحجہ میں ہے وضو میں تعدا د مسنون اور مقدا معہود سے زیادہ پانی بہا نا مکروہ ہے اس لئے کہ حدیث میں آیا ہے کہ میری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو پانی بہانے میں اسراف کرتے ہیں


 ( ۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارۃفصل فی المکروہات دار الکتب ا لعلمیہ بیروت ص ۸۰)


بلکہ علامہ طحطاوی نے اُس پر اتفاق بتایا قول دُر الاسراف فی الماء الجاری جائز لانہ غیر مضیع۳؎  (ماء جاری میں اسراف جائز ہے اس لئے کہ پانی ضائع نہیں جاتا (ت)


 (۳؎الدرا لمختار     کتاب الطہارۃ     سنن الوضو     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲)


پر لکھتے ہیں: ای لانہ یعود الیہ ثانیا فلواخرج الماء خارجہ یکرہ اتفاقا ۱؎ اھ ومن الظاھر ان ھذہ الکراھۃ مذکورۃ فی مقابلۃ الجائز فتکون تحریمیۃ۔


یعنی اس لئے کہ پانی اس میں دوبارہ لوٹ جائیگا اگر پانی نکال کر اس کے باہر گرائے تو بالاتفاق مکروہ ہے اھ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ مکروہ جائز کے مقابلہ میں مذکور ہے تو تحریمی ہوگا(ت)


 ( ۱؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الطہارۃ سنن الوضوء     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۲)


اور ہماری تقریرات سابقہ سے اس کے دلائل کی قوت ظاہر ہاں قول اول بعض شافعیہ سے منقول تھا مگر علامہ محقق ابراہیم حلبی نے کتب مذہب سے غنیہ میں اُس پر جزم فرمایا کما سمعت پھر علامہ ابراہیم حلبی وعلامہ سید احمد مصری نے حواشی دُر میں اُسی پر اعتماد کیا اور اُس کے خلاف کو ضعیف بتایا درمختار میں قول مذکور جواہر نقل فرمایا: الاسراف فی الماء الجاری جائز ۲؎۔ بہتے پانی میں اسراف جائز ہے۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار        کتاب الطہارت    سنن الوضوء مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۲)


علّامہ طحطاوی اُس پر فرماتے ہیں: ضعیف بل ھو مکروہ سواء کان فی وسط الماء اوفی ضفتہ حیث کان لغیر حاجۃ ۳؎ اھ حلبی


یہ قول ضعیف ہے بلکہ آب رواں میں بھی اسراف مکروہ ہے چاہے بیچ نہر میں ہو یا کنارے ہو اس لئے کہ بلاضرورت ہے اھ حلبی (ت)


 ( ۳؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الطہارۃ سنن الوضوء     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۲)


نیز دونوں حاشیوں میں ہے: من المعلوم ان الاسراف مکروہ تحریما لاتنزیھا ۴؎۔ معلوم ہے کہ اسراف مکروہ تنزیہی نہیں تحریمی ہے ۔ (ت)


 ( ۴؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الطہارۃ سنن الوضوء     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۲)


بلکہ شرح شرعۃ الاسلام میں ہے: ھو حرام وان کان فی شط النھر ۵؎ اسراف حرام ہے اگرچہ نہر کے کنارے پر ہو۔( ت) اور اُس کے ساتھ نص فــ۱ حدیث ہے۔


فــ۱ وضو میں ممانعت اسراف کی حدیثیں ۔


( ۵؎شرعۃ الاسلام شرح مفاتیح الجنان فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۹۱)


حدیث۱: عــہ امام احمد بن حنبل وابن ماجہ وابو یعلی اور بیہقی شعب الایمان میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مربسعد وھو یتوضأ فقال ماھذا السرف فقال افی الوضوء اسراف قال نعم وان کنت علی نھر جار ۱؎۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ پر گزرے وہ وضو کررہے تھے ارشاد فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ عرض کی: کیا وضو میں اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں اگرچہ تم نہر رواں پر ہو۔ (ت)


عــہ :فتاوی حجہ سے ایک حدیث ابھی گزری کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میری امت کے بد لوگ ہیں جو پانی بہانے میں اسراف کرتے ہیں۔


( ۱؎ مسند احمد بن حنبل      عن عبد اللہ بن عمر و     المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۲۲۱

سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی القصد فی الوضوء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴)

اقول :  اتمام تقریب یہ کہ حدیث نے نہر جاری میں بھی اسراف ثابت فرمایا اور اسراف شرع میں مذموم ہی ہو کر آیا ہے۔ آیہ کریمہ لاتسرفوا انہ لایحب المسرفین۲؎  (اور اسراف نہ کرو اللہ مسرفین کو محبوب نہیں رکھتا۔ ت) مطلق ہے تو یہ اسراف بھی مذموم وممنوع ہی ہوگا بلکہ خود اسراف فی الوضوء میں بھی صیغہ نہی وارد اور نہی حقیقۃً مفید تحریم۔


حدیث۲: سنن ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے: رأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم رجلا یتوضأ فقال لاتسرف لاتسرف ۳؎۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا فرمایا اسراف نہ کر اسراف نہ کر۔


 ( ۲؎ القرآن الکریم         ۶ /۱۴۱ و۷ /۳۱)

(۳؎ سنن ابن ماجۃ ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی القصد فی الوضوء الخ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴


حدیث۳ :سعید بن منصور سنن اور حاکم کُنٰی اور ابن عساکر تاریخ میں ابن شہاب زہری سے مرسلا راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا فرمایا ! یاعبداللّٰہ لاتسرف ۵؎  (اللہ کے بندے اسراف نہ کر۔ ت) انہوں نے عرض کی: یانبی اللّٰہ وفی الوضوء اسراف قال نعم (زاد الاخیران) وفی کل شیئ اسراف ۱؎ یا رسول اللہ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا :ہاں اور ہر شے میں اسراف کودخل ہے۔


 (تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ابو عیسٰی الدمشقی ۹۰۸۱ دار احیاء التراث العربی بیروت ۷۱ /۹۴

کنز العمال بحوالہ الحاکم فی الکنٰی و ابن عساکر عن الزہری مرسلا حدیث ۲۶۲۶۱ موسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۳۲۷)


حدیث۴: مرسل یحیٰی بن ابی عمرو کہ بیان معانی اسراف میں گزری : فی الوضوء اسراف وفی کل شیئ اسراف ۲؎ وضو میں اسراف ہے اور ہر شے میں اسراف ہے۔


 (۲؎کنز العمال بحوالہ یحیی بن ابی عمر الشیبانی حدیث ۲۶۲۴۸ موسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۳۲۵ )


حدیث۵: ترمذی وابن ماجہ وحاکم حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان للوضوء شیطانا یقال لہ الولہان فاتقوا وسواس الماء ۳؎۔ بے شک وضو کیلئے ایک شیطان ہے جس کانام وَلَہان ہے تو پانی کے وسواس سے بچو۔


 (۳؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی کراھیۃ الاسراف حدیث ۵۷ دار الفکر بیروت۱ /۱۲۲

سنن ابن ماجہ ابواب الطہارت باب ما جاء فی القصد فی الوضوء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۴)


حدیث۶: مسند احمد وسنن ابی داؤد وابن ماجہ وصحیح ابن حبان ومستدرک حاکم میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: انہ سیکون فی ھذہ الامۃ قوم یعتدون فی الطہور والدعاء ۴؎۔ بیشک عنقریب اس اُمت میں وہ لوگ ہوں گے کہ طہارت ودعاء میں حد سے بڑھیں گے۔


 (۴؎ سنن ابو داؤد کتاب الطہارۃ     باب الاسراف فی الوضوء     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۳

مشکوۃ المصابیح بحوالہ احمد و ابی داؤدوابن ماجہ کتاب الطہارت با ب سنن الوضو قدیمی کتب خانہ کراچی ص ۴۷ )


اور اللہ عزوجل فرماتا ہے: ومن یتعد حدوداللّٰہ فقد ظلم نفسہ ۵؎۔ جو اللہ تعالٰی کی باندھی حدوں سے بڑھے بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔


 (۵؎ القرآن الکریم     ۶۵ /۱)


حدیث۷: ابو نعیم حلیہ میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: لاخیر فی صب الماء الکثیر فی الوضوء وانہ من الشیطان ۱؎۔ وضو میں بہت سا پانی بھپکانے میں کچھ خیر نہیں اور وہ شیطان کی طرف سے ہے۔


 ( ۱؎ کنز العمال     بحوالہ ابی نعیم عن انس حدیث ۲۶۲۶۰    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ /۳۲۷)


نفی خیر اپنے فــ۱ معنی لغوی پر اگرچہ مباح سے بھی ممکن کہ جب طرفین برابر ہیں تو کسی میں نہ خیر نہ شرو لہٰذا علامہ عمر نے نہرالفائق میں مسئلہ فــ۲ کراہت کلام بعد طلوع فجر تا طلوع شمس وبعد نماز فــ۳ عشا میں فرمایا: المراد مالیس بخیر وانما یتحقق فی کلام ھو عبادۃ اذالمباح لاخیر فیہ کما لااثم فیہ فیکرہ فی ھذہ الاوقات کلہا ۱؎ نقلہ السید ابو السعود فی فتح اللّٰہ المعین۔ مراد وہ کلام ہے جو خیر نہ ہو اور خیر کا تحقق اسی کلام میں ہوگا جو عبادت ہو اس لئے کہ مباح میں'' کوئی خیر نہیں'' جیسے اس میں '' کوئی گناہ نہیں تو مباح کلام بھی ان اوقات میں مکروہ ہوگا اسے سید ابو السعود نے فتح اللہ المعین میں نہر سے نقل کیا(ت)


فــ۱: تحقیق مفاد لا خیر فیہ ۔

فــ۲ مسئلہ طلوع صبح صادق سے طلوع شمس تک دنیاوی کلام مطلقا مکروہ ہے ۔

فــ۳ مسئلہ نماز عشاء پڑھنے کے بعد بے حاجت دنیاوی باتوں میں اشتغال مکروہ ہے۔


 (النہر الفائق کتاب الصلوۃ قبیل باب الاذان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۶۹

فتح المعین کتاب الصلوۃ قبیل باب الاذان ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۴۷)


اقول مگر نظرِ دقیق لیس بخیر اور لاخیر فیہ میں فرق کرتی ہے مباح ضرور، نہ خیر نہ شر ،مگر اُس کے فعل پر مواخذہ نہیں ،اور مؤاخذہ نہ ہونا خود خیر کثیر ونفع عظیم ہے تو لاخیر فیہ وہیں اطلاق ہوگا جہاں شر حاصل ہو۔ فاصاب فــ۴ رحمہ اللّٰہ تعالی فی قولہ المراد مالیس بخیر وتسامح فی قولہ لاخیر فیہ فحق العبارۃ المباح لیس بخیر کما انہ لیس بشر۔ صاحب النہر نے یہ تو ٹھیک فرمایا کہ مراد مالیس بخیر (وہ جو خیر نہیں ) اور اس میں ان سے تسامح ہوا کہ المباح لا خیر فیہ (مباح میں کوئی خیر نہیں ) صحیح تعبیر یہ تھی کہ المباح لیس بخیر کما انہ لیس بشر مباح اچھا نہیں جیسے کہ وہ برا بھی نہیں ۔(ت)


فــ۴: تطفل علی النہر ومن تبعہ ۔


ولہٰذا جبکہ ہدایہ میں فرمایا: لاخیر فی السلم فی اللحم ۱؎  (گوشت میں بیع سلم بہتر نہیں۔ ت)


محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا: ھذہ العبارۃ تاکید فی نفی الجواز ۲؎ ( یہ عبارت نفی جواز کی تاکید کرتی ہے۔ ت)


 ( ۱؎الہدایہ کتاب البیوع باب السلم مطبع یوسفی لکھنؤ۳ /۹۵)

( ۲؎ فتح القدیر کتاب البیوع باب السلم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۶ /۲۱۵)


اقول رب عزوجل فرماتا ہے: لاخیر فی کثیر من نجوٰھم الا من امر بصدقۃ اومعروف اواصلاح بین الناس ۳؎۔ ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات ،اچھی با ت ،یا لوگوں میں صلح کرنے کا۔ (ت)


 (۳؎ القرآن الکریم۴ / ۱۱۴)


ہر معروف کو استثنا فرمالیا اور ہر طاعت معروف ہے تو باقی نہ رہے مگر مباح یا معاصی تو اگر لاخیر فیہ مباح کو بھی شامل ہوتا فی کثیر نہ فرماتے بلکہ فی شی من نجوٰھم لاجرم وہ معصیت کے ساتھ خاص ہے واللہ تعالٰی اعلم۔


حدیث۸ :حدیث صحیح جس کی طرف بارہا اشارہ گزرا احمد وسعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابو داؤد ونسائی وابن ماجہ وطحاوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ایک اعرابی نے خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر وضو کو پوچھا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں وضو کر کے دکھایا جس میں ہر عضو تین تین بار دھویا پھر فرمایا: ھکذا الوضوء فمن زاد علی ھذا اونقص فقد اساء وظلم اوظلم واساء ۴؎ ھذا لفظ د وقد اوردہ مطولا مع ذکر صفۃ الوضو۔ اسی طرح ہے وضو تو جس نے اس پر بڑھایاگھٹایا تویقینااس نے برا کیااور ظلم کیا۔۔یا (فرمایا ) ظلم کیا اور برا کیا ۔۔یہ ابوداؤ د کے الفاظ ہیں اور انہوں نے یہ حدیث طریقہ وضو کے بیان کے ساتھ طویل ذکر کی ہے ۔


 ( ۴؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضوء ثلثا آفتاب عالم پریس لاہور۱ /۱۸)


ومثلہ لفظ الامام الطحاوی ومقتصرا علی قولہ اساء وظلم من دون شک۱؎ اسی کے مثل امام طحاوی کے بھی الفاظ ہیں اور ان کی راویت میں بغیر شک صرف اتنا ہے کہ اس '' اس نے برا کیا اور ظلم کیا ''


ولفظ س وق فمن زاد علی ھذا فقد اساء وتعدی وظلم ۲؎ اور نسائی و ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں : تو جس نے اس پر زیادتی کی بہ تحقیق اس نے بر اکیا اور حد سے بڑھا اور ظلم کیا ۔


ولفظ سعید وابی بکر فمن زاد اونقص فقد تعدی وظلم ۳؎۔ سعید بن منصور اور ابوبکر بن شیبہ کے الفاظ یہ ہیں جس نے زیادتی یا کمی کی تو یقینا وہ حد سے بڑھا اور ظلم کیا ۔۔ (ت)


 ( ۱؎شرح معانی الاثار کتاب الطہارۃ با ب فرض الرجلین فی وضوء الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۲)

(۲؎سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی قصد الوضوء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴)

( ۳؎المصنف ابن ابی شیبۃ کتاب النہارۃ باب الوضوء کم ہو مرۃ حدیث ۵۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۷)


(ان تمام روایات کا حاصل یہ ہوا کہ ) وضو اس طرح ہے جس نے اس پر بڑھایا یا گھٹایا اُس نے بُرا کیا اور حد سے بڑھا اور ظلم کیا۔ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور مذہب اول وچہارم کی مؤید بالجملہ ان میں کوئی مذہب مطر ودو مطروح نہیں لہٰذا راہ یہ ہے کہ بتوفیق الٰہی جانبِ توفیق چلئے۔

فاقول وباللہ فــ التوفیق وبہ الاصول الی ذری التحقیق : (تحقیق کی انتہاء تک پہنچنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ت) تقدیر شرعی سے زیادہ پانی ڈالنا سہواً ہوگا یا بحال شک یا دیدہ ودانستہ۔


اول یہ کہ تین بار استیعاباً دھو لیا اور یاد رہا کہ دو ہی بار دھویا ہے۔اور دوم یہ کہ مثلاً دو یا تین میں شبہ ہوگیا، یہ دونوں صورتیں یقینا ممانعت سے خارج ہیں۔ لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم رفع عن امتی الخطأ والنسیان ۱؎ اس لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشادہے میری اُمّت سے خطاء ونسیان اٹھا لیا گیا ہے ۔ (ت)


 (۴؎ الجامع الصغیر حدیث ۴۴۶۱ دار الکتب العلمیہ بیروت        ۲ /۲۷۳

کشف الخفاء حدیث ۱۳۹۱ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۸۲

کشف الخفاء حدیث ۱۳۰۵ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۶۰)


وقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک ۲؎۔ اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شک پیدا کرے اسے چھوڑ وہ لو جس میں شک نہ ہو ۔


 (۲؎الجامع الصغیر حدیث ۴۲۱۱تا ۴۲۱۴ دار الکتب العلمیہ بیروت ۲ /۲۵۶و۲۵۷)


اور دیدہ ودانستہ کسی غرض صحیح وجائز کیلئے ہوگا یا غرض فاسد وممنوع کیلئے یا محض بلا وجہ، برتقدیر اول کسی طرح اسراف نہیں ہوسکتا نہ اُس سے منع کی کوئی وجہ ،عام ازینکہ وہ غرض غرض مطلوب شرعی ہو جیسے منہ سے ازالہ بدبو یا پان یا چھالیہ کے ریزوں کا اخراج، یا حسب بیانات سابقہ وضو علی الوضو کی نیت یا غرض صحیح جسمانی جیسے میل کا ازالہ یا شدت گرما میں تحصیل برودت۔ تواب نہ رہیں مگر دو صورتیں اور یہی ان اقوالِ اربعہ میں زیر بحث ہیں تحقیق معنی اسراف میں ہمارا بیان یاد کیجئے یہ وہی دو قطب ہیں جن پر اُس کا فلک دورہ کرتا ہے اور یہ بھی اُسی تقریر پر نظر ڈالے سے واضح ہوگا کہ ان صورتوں میں کی اول یعنی غرض فاسد وناروا کیلئے تقدیر شرعی پر زیادت مطلقا ممنوع وناجائز ہے اگرچہ پانی اصلا ضائع نہ ہو۔


قول اوّل کا یہی محمل ہے اور حق صریح بلکہ مجمع علیہ ہے اور اسی پر حمل کے لئے ہمارے علماء نے حدیث ہشتم کو صورت فساد اعتقاد پر محمول فرمایا یعنی جبکہ جانے کہ تقدیر شرعی سے زیادہ ہی میں سنّت حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس نیت فاسدہ سے نہر نہیں سمندر میں ایک چُلّو بلکہ ایک بوند زیادہ ڈالنا اسراف وگناہ ناجائز ہوگا کہ اصل گناہ اُس نیت میں ہے ،گناہ کی نیت سے جو کچھ کرے گا سب گناہ ہوگا۔ رہی صورت اخیرہ کہ محض بلا وجہ زیادت ہو، اوپر واضح ہولیا کہ یہاں تحقیق اسراف وحصول ممانعت اضاعت پر موقوف ہے تو اس صورت میں دیکھنا ہوگا کہ پانی ضائع ہوا یا نہیں، اگر ہوا مثلاً زمین پر بہہ گیا اور کسی مصرف میں کام نہ آیا تو ضرور اسراف وناروا ہے۔ اور یہی محمل قول چہارم ہے اور یقینا صواب وصحیح بلکہ متفق علیہ ہے کون کہے گا کہ بیکار پانی ضائع کرنا جائز وروا ہے۔ باقی رہی ایک شکل کہ زیادت ہو تو بلاوجہ مگر پانی ضائع نہ ہو۔ مثلاً بلا وجہ چوتھی بار پانی اس طرح ڈالے کہ نہر میں گرے یا کسی پیڑ کے تھالے میں جسے پانی کی حاجت ہے یا کسی برتن میں جس کا پانی اسپ وگاؤ وغیرہ جانوروں کو پلایا جائے گا یا گارا بنانے کیلئے تغار میں پڑے گا یا زمین ہی پرگرا مگر موسم گرما ہے چھڑکاؤ کی حاجت ہے یا ہوا سے ریتا اڑتا ہے اس کے دبانے کی ضرورت ہے اور انہیں کے مثل اور اغراض صحیحہ جن کے سبب پانی ضائع نہ جائے۔ یہ غرضیں اگرچہ صحیح وروا ہیں، جن کی سبب اضاعت نہ ہوگی مگر اعضا پر یہ پانی مثلاً چوتھی بار ڈالنا محض بے وجہ ہی رہا کہ یہ غرضیں تو برتن میں ڈالنا یا زمین پر بہانا چاہتی ہیں عضو پر ڈال کر گرانے کو ان میں کیا دخل تھا لاجرم وہ عبث محض رہا مگر پانی ضائع نہ ہوگیا تو اسراف کی کوئی صورت متحقق نہ ہوئی اور اس کے ممنوع وناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں یہی قول دوم وسوم کا محمل ہے اور قطعا مقبول وبے خلل ہے بلکہ اتفاق واطباق کا محمل ہے۔ اب نہ باقی رہی مگر ان دونوں قولوں پر نظر وہ ایک مقدمہ کی تقدیم چاہتی ہے۔


فاقول وباللہ التوفیق فائدہ تحقیق فــ معنی وحکمِ عبث میں تتبع کلمات علماء  سے اس کی تعریف وجوہِ عدیدہ پر ملے گی۔ فــ : عبث کسے کہتے ہیں اور اس کا حکم کیا ہے۔ 

(۱) جس فعل میں غرض غیر صحیح ہو وہ عبث ہے اور اصلا غرض نہ ہو تو سفہ۔ یہ تفسیر امام بدرالدین کردری کی ہے امام نسفی نے مستصفی پھر علامہ حلبی نے غنیہ میں اسی طرح اُن سے نقل فرما کر اس پر اعتماد کیا اور محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر اور علامہ طرابلسی نے برہان شرح مواہب الرحمن اور دیگر شراح نے شروح ہدایہ وغیرہا میں اسی کو اختیار فرمایا غنیہ حلبیہ میں ہے:


فی المستصفی قال الامام بدر الدین یعنی الکردری العبث الفعل الذی فیہ غرض غیر صحیح والسفہ مالاغرض فیہ اصلا ۱؎۔ مستصفی میں ہے کہ امام بدرالدین عینی کردری نے فرمایا:فرماتے ہیں عبث وہ فعل ہے جس میں کوئی غرض غیر صحیح ہو، اور سَفہ وہ ہے جس میں بالکل کوئی غرض نہ ہو ۔( ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی کراھیۃ الصلوۃ سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۴۹)


غنیہ شرنبلالیہ میں ہے: فی البرھان ھو فعل لغرض غیر صحیح ۱؎۔ برہا ن میں ہے وہ ایسا کا م ہے جو غرض غیر صحیح کے لئے ہو۔(ت)


 ( ۱؎ غنیۃ ذوی الاحکام حاشیۃ علی الدررالحکام باب ما یفسدالصلٰوۃ الخ میر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۷)


فتح میں ہے: العبث الفعل لغرض غیر صحیح ۲؎۔ عبث غرض غیر صحیح کے لئے کوئی کام کر نا ہے ۔ ت


 (۲؎فتح القدیر کتاب الصلوٰۃ فصل ویکرہ للمصلی الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۵۶ )


 (۲) جس میں غرض غیر شرعی ہو۔

اقول یہ اول سے اعم ہے کہ ہر غرض غیر صحیح غیر شرعی ہے اور ضرور نہیں کہ ہر غرض غیر شرعی غیر صحیح ہو جیسے ٹھنڈ کیلئے زیادہ پانی ڈالنا کہ غرض صحیح ہے مگر شرعی نہیں۔ علّامہ اکمل اور اُن کی تبعیت سے حلیہ وبحر نے امام بدرالدین سے اسی طرح نقل کیا عنایہ میں ہے: قال بدرالدین الکردری العبث الفعل الذی فیہ غرض لکنہ لیس بشرعی والسفہ مالا غرض فیہ اصلا ۳؎۔ بدرالدین کردری نے فرمایا : عبث وہ کام ہے جس میں کوئی غرض تو ہولیکن شرعی نہ ہو اور سَفہ وہ ہے جس میں کوئی غرض ہی نہ ہو۔( ت)


 (۳العنایۃ شرح الہدایۃ علی ہامش فتح القدیر کتاب الصلوۃ الخ فصل ویکرہ للمصلی الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۵۶)


 (۳) جس میں غرض صحیح نہ ہو۔

اقول : یہ ان دونوں سے اعم ہے کہ اصلا عدم غرض کو بھی شامل اور ثانی سے اخص بھی کہ غرض غیر شرعی صحیح کو بھی شامل یہ تفسیر امام حمید الدین کی ہے عنایہ میں بعد عبارت مذکور ہے : وقال حمید الدین العبث کل عمل لیس فیہ غرض صحیح ۴؎ امام حمید الدین نے فرمایا:عبث ہر وہ کام ہے جس میں کوئی غرض صحیح نہ ہو۔


 (۴؎العنایۃ شرح الہدایۃ علی ہامش فتح القدیر کتاب الصلوۃ الخ فصل ویکرہ للمصلی الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۵۶)


مفردات راغب میں ہے: یقال لما لیس لہ غرض صحیح عبث۔۵؎ عبث اسے کہا جاتا ہے جس میں کوئی غرض صحیح نہ ہو ۔( ت)


تفسیر رغائب الفرقان میں ہے: ھو الفعل الذی لاغایۃ لہ صحیحۃ ۱؎ عبث ایسا کام ہے جس کا کوئی صحیح مقصد نہ ہو۔ (ت)


 (۵؎ المفردات امام راغب    باب العین مع الباء         نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۳۲۲)

(۱؎ غرائب القرآن ورغائب الفرقان تحت الایۃ ۲۳ /۱۱۵    مصطفی البابی مصر        ۱۸ /۴۲)


 (۴) غرض شرعی نہ ہو۔

اقول یہ اول ثانی ثالث سب سے اعم مطلقا ہے کہ انتفائے غرض صحیح انتفائے غرض شرعی کو مستلزم ہے اور عکس نہیں اور انتفائے غرض شرعی انتفائے مطلق غرض سے بھی حاصل امام نسفی اپنی وافی کی شرح کافی میں فرماتے ہیں: العبث مالا غرض فیہ شرعا فانما کرہ لانہ غیر مفید ۲؎ عبث بلا ضرورت شرعی مکروہ ہے اس لئے کہ یہ بے فائدہ ہے۔ (ت)


 (۲؎ الکافی شرح الوافی )


 (۵) جس میں فاعل کیلئے کوئی غرض صحیح نہ ہو۔

اقول یہ ۱ و ۳ سے اعم عـــہ مطلقا ہے کہ ممکن کہ فعل غرض صحیح رکھتا ہو اور فاعل بے غرض یا غرض صحیح کیلئے کرے اور ۲ و ۴ سے اعم من وجہ کہ غرض فاسد میں تینوں صادق اور غرض صحیح غیر شرعی مقصود فاعل ہے تو وہ دو صادق خامس منتفی اور غرض شرعی میں مقصود فاعل ہے تو بالعکس۔


عــہ: اور اگر قصد غلط بھی ملحوظ کر لیجئے کہ جس فعل کی غرض فاسد ہے یہ جہلا اس سے غرض صحیح کا قصد کرے تو ان دو سے بھی عام من وجہ ہوگا ۱۲منہ ۔


تعریفات السید میں ہے: وقیل مالیس فیہ غرض صحیح لفاعلہ ۳؎ اھ اور کہا گیا کہ عبث وہ کام ہے جس میں کرنے والے کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔ (ت)


 (۳؎ التعریفات للسید الشریف باب العین انتشارات ناصر خسرو تہران ایران ص ۶۳)


اقول : اشارفــ الی ضعفہ وسیاتیک ان شاء اللّٰہ تعالٰی انہ الحق۔


اقول  : حضرت سید نے اس کے ضعیف ہونے کا اشارہ دیا اور اِن شاء اللہ تعالٰی آگے بیان ہوگا کہ یہی تعریف حق ہے ۔ (ت)


فــ: تطفل علی العلامۃ الشریف ۔

(۶) بے فائدہ کام۔


بحرالرائق میں نہایہ امام سغناقی سے ہے : مالیس بمفید فھو العبث ۱؎ جو فائدہ مند نہ ہو وہ عبث ہے۔( ت)


(۱؎ بحرالرائق کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۲ /۱۹)


امام سیوطی کی درنثیر میں ہے: عبثا ای لالمنفعۃ ۲؎ عبث یعنی بے فائدہ ۔ (ت)


 (۲؎ درنثیر )


مراقی الفلاح میں ہے: العبث عمل لافائدۃ فیہ ولا حکمۃ تقتضیہ ۳؎ عبث وہ کام ہے جس میں نہ کوئی فائدہ ہو نہ کو ئی حکمت اس کی مقتضی ہو ۔ (ت)


(۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوٰۃ فصل فی المکروہات دارالکتب العلمیہ بیروت ص۳۴۵)


جلالین میں ہے:  عبثا لالحکمۃ ۴؎  (عبث بے حکمت۔ ت)


 (۴؎ جلالین    تحت الآیۃ ۲۳ /۱۱۵    النصف الثانی مطبع مجتبائی دہلی ص۲۹۱)


غنیہ میں ہے:  الفرقعۃ فعل لافائدۃ فیہ فکان کالعبث ۵؎


(انگلیاں چٹخانا ایسا کام ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں تو یہ عبث کی طرح ہوا ۔( ت)


(۵؎ غنیۃ المستملی    کراھیۃ الصلوٰۃ    سہیل اکیڈمی لاہور        ص۳۴۹)


اقول : عبدالملک بن جریج تابعی نے کہ عبث کو باطل سے تفسیر کیا اسی معنے کی طرف مشیر ہے: فان الشیئ اذا خلا عن الثمرۃ بطل (کیونکہ شے کا جب کوئی ثمرہ نہ ہو تو وہ باطل ہے۔ ت)


تفسیر ابن جریر میں اُن سے مروی: عبثا قال باطلا ۶؎(عَبث کے معنی میں کہا باطل ۔ ت)


( ۶؎ جامع البیان( تفسیر ابن جریر)تحت الآیۃ ۲۳ /۵۱۱      دار احیاء التراث العربی بیروت         ۱۸ /۷۹)


 (۷) جس میں فائدہ معتد بہانہ ہو۔ 

تاج العروس میں ہے: قیل العبث مالافائدۃ فیہ یعتد بھا ۱؎ کہا گیا عَبث ایساکام ہے جس میں کوئی قابل لحاظ فائدہ نہ ہو۔( ت)


(۱؎ تاج العروس     باب الثا ء فصل العین دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۳۲)


اقول  : اسی طرف کلام علّامہ ابو السعود ناظر کہ ارشاد العقل میں فرمایا: عبثا بغیر حکمۃ بالغۃ۲؎ اھ فافھم عبث جس میں کوئی حکمت بالغہ نہ ہو اھ تو اسے سمجھو ۔ (ت)


(۲؎ ارشاد العقل السلیم     تحت الآیۃ     ۲۳  /۱۱۵ دار احیاء التراث العربی بیروت        ۶  /۱۵۳)


(۸) اُس کام کے قابل فائدہ نہ ہو یعنی اُس میں جتنی محنت ہو نفع اس سے کم ہو۔


اقول : اسے ہفتم سے عموم وخصوص من وجہ ہے کہ اگر کام نہایت سہل ہوا جس میں کوئی محنت معتد بہا نہیں 

تو فائدہ غیر معتمد بہا اُس کے قابل ہوگا اس تقدیرپر ہفتم صادق ہوگا نہ ہشتم اور اگر فائدہ فی نفسہا معتد بہا ہے مگر اُس کام کے لائق نہیں تو ہشتم صادق ہوگا نہ ہفتم۔


علّامہ شہاب کی عنایۃ القاضی میں ہے: العبث کاللعب ماخلا عن الفائدۃ مطلقا او عن الفائدۃ المعتد بھا اوعما یقاوم الفعل کما ذکرہ الاصولیون ۳؎۔


عبث لعب کی طرح کام ہے جس میں مطلقا کوئی فائدہ نہ ہویا قابل لحاظ فائدہ نہ ہو یا اس فعل کے مقابل فائدہ نہ ہو جیسا کہ اہل اصول نے ذکر کیا۔ (ت)


(۴؎ عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی تحت الایۃ ۲۳ /۱۱۵    دار احیاء التراث العربی بیروت        ۶ /۶۱۱)


اقول : مقابلہ مشعر مغایرت ہے یوں یہ قول اضعف الاقوال ہوگا کہ خاص مشقت طلب کاموں سے خاص رہے گا ہاں اگر معتدبہ سے معتدبہ بنظر فعل مراد لیں تو ہفتم وہشتم ایک ہوجائیں گے اور اعتراض نہ رہے گا اور کہہ سکتے ہیں کہ تغییر تعبیر مجوز مقابلہ ہے۔

(۹) وہ کام جس کا فائدہ معلوم نہ ہو۔

اقول اولا مراد عدم علم فاعل ہے تو حکیم کے دقیق کام جن کا فائدہ عام لوگوں کی فہم سے ورا ہو عبث نہیں ہوسکتے۔

ثانیا حکمت وغایت میں فرق ہے احکام تعبدیہ غیر معقولۃ المعنی کی حکمت ہمیں معلوم نہیں فائدہ معلوم ہے کہ الاسلام گردن نہادن۔


ثالثا :  عدم علم مستلزم عدم نہیں تو یہ تفسیر اُن تینوں سے اعم ہے۔تعریفات السید میں ہے: العبث ارتکاب امر غیر معلوم الفائدۃ ۱؎ عبث ایسے امر کا ارتکاب جس کا فائدہ معلوم نہ ہو ۔ (ت)


 ( ۱؎ التعریفات للسید الشریف         باب العین        انتشارات ناصر خسرو تہران ایران     ص۶۳)


اقول : مگر فــ۱ علم بے قصد کیا مفید بلکہ اس کی شناعت اور مزید تو یہ حد جامع نہیں۔


فــ۱: تطفل اٰ خر علیہ ۔


 (۱۰) وہ کام جس سے فائدہ مقصود نہ ہوا قول یہ نہم سے بھی اعم کہ عدم علم عدم قصد کو مستلزم ولا عکس تاج العروس میں ہے: وقیل ما لایقصد بہ فائدۃ ۲؎ اھ اور کہا گیا وہ جس سے کوئی فائدہ مقصود نہ ہو۔ اھ


 (۲؎ تاج العروس باب الثاء    فصل العین         دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۳۲)


اقول : اومافــ۲ الی تزیفہ وستسمع بعونہ تعالی انہ ھو الصحیح ۔ اقول : اس کی خامی کا اشارہ دیا اور بعونہ تعالٰی آگے واضع ہوگا کہ یہی تعریف صحیح ہے۔ (ت)


فــ۲ معروضۃ علی السید مرتضٰی ۔


 (۱۱) بے لذت کام عبث ہے اور لذّت ہو تو لعب۔جوہرہ نیرہ میں ہے: العبث کل فعل لالذۃ فیہ فاما الذی فیہ لذۃ فھو لعب ۳؎ عبث ہروہ کام جس میں کوئی لذت نہ ہو اور جس میں کوئی لذت  ہو وہ  لعب ہے۔ ت)


 (۳؎ الجوہرۃ النیرۃ     کتاب الصلوٰۃباب صفۃ الصلوٰۃ         مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱ /۷۴)


اقول : یہ فــ۳ اپنے اس ارسال پر بدیہی البطلان ہے نہ ہر بے لذت کام عبث جیسے دوائے تلخ پینا، نہ ہر لذت والا لعب جیسے درود شریف ونعت مقدس کا ورد۔ تو بعض تعریفات مذکورہ سے اُسے مقید کرنا لازم مثلاً یہ کہ جس فعل میں غرض صحیح نہ ہو۔


فــ۳ تطفل علی الجوھرۃ ۔


 (۱۲) عبث ولعب ایک شے ہیں۔ یہ تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے، اورکثرت اقوال بھی اسی طرف ہے۔ ابن جریر اُس جناب مشرف بہ تشریف اللھم علمہ الکتاب سے راوی تعبثون تلعبون ۴؎ تم عبث کرتے ہو یعنی کھیل کود کرتے ہو ۔ (ت)


 (۴؎ جامع البیان ( تفسیر ابن جریر)    تحت الایۃ ۲۶ /۱۲۸      دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۹ /۱۱۱)


بعینہٖ اسی طرح اُن کے تلمیذ ضحاک سے روایت کیا۔ نہایہ اثیریہ ومختار الصحاح میں ہے: العبث اللعب ۱؎ عبث لعب ہے۔ (ت) اسی طرح سمین وجمل میں ہے وسیاتی مصباح المنیر وقاموس میں ہے: عبث کفرح لعب ۲؎  (عبث فرِ ح کی طرح ہے(یعنی باب سمع سے ہے )کھیل کا نام ہے۔(ت) تاج العروس میں ہے: عابث لاعب بمالا یعینہ ولیس من بالہ۳؎  (عابث ایسا کھیل کرنے والا جو بے معنی اور جس سے اسے کام نہیں ۔ (ت)


 (۱؎النہایہ فی غریب الحدیث والاثر باب العین مع الباء دار الکتب العلمیہ بیروت ۳ /۱۵۴ 

مختار الصحاح        باب العین         موسسۃ علوم القرآن بیروت        ص۴۰۷)

۲؎القاموس المحیط    باب الثاء فصل العین     مصطفی البابی مصر    ۱ /۱۷۶

(۳؎ تاج العروس باب الثاء    فصل العین         دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۳۲)


صراح میں ہے: عبث بازی ۴؎  (عبث ایک کھیل ہے ۔ت) درر شرح غرر میں ہے: عبثہ ای لعبہ ۵؎  (عبث یعنی لعب۔ ت) مفرداتِ راغب میں ہے: العبث ان یخلط بعملہ لعبا ۶؎ الخ عبث یہ ہے کہ اپنے کام میں کوئی کھیل ملا لے ۔ ت)


 (۴؎صراح باب الثاء فصل العین     مطبع مجیدی کانپور ۱ /۷۵)

(۵؎االدررالحکام فی شرح غرر الاحکام کتاب الصلوٰۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا میر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۷ )

(۶؎المفردات باب العین مع الباء نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۳۲۲)


اقول  : وانما صار عبثا لما خلط لالذاتہ فالعبث حقیقۃ ماخلط لاما خلط بہ ۔


اقو ل وہ کام عبث اسی کھیل کی وجہ سے ہوا جو اس میں ملا دیا خود عبث نہ ہوا تو عبث حقیقتا وہ ہے جس کو ملا یا گیاوہ نہیں جس میں ملایا گیا۔(ت) طحطاوی علی الدر میں ہے:


العبث اللعب وقیل مالا لذۃ فیہ واللعب مافیہ لذۃ ۷؎


عبث کھیل کو کہتے ہیں او ر کہاگیاوہ جس میں کوئی لذت نہ ہو اور لعب وہ جس میں کوئی لذت ہو ۔( ت)


 (۷؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۲۷۰)

تفسیر ابن جریر میں ہے:  عبثا لعبا وباطلا ۱؎ عبث جولعب اورباطل ہے۔ (ت)


 (۱؎ جامع البیان ( تفسیر ابن جریر)    تحت الایۃ۲۳/ ۱۵  دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱۸/ ۷۸)


یہ بارہ تعریفیں فــ۱ ہیں اور بعونہٖ تعالٰی بعد تنقیح سب کا مآل ایک اگرچہ ۹ و ۱۱ کی عبارات میں تقصیر واقع 

ہوئی اس کی تحقیق چند امور سے ظاہر


فاقول وباللّٰہ التوفیق ، اولا :  لعب فــ۲ ولہو وہزل ولغو وباطل وعبث سب کا محصل متقارب ہے کہ بے ثمرہ نامفید ہونے کے گرد دورہ کرتا ہے۔


فــ۱:مصنف کی تحقیق کہ عبث کی بارہ تعریفو ں کا حاصل ایک ہے اوراس کی تعریف جامع مانع کا استخراج 

فــ۲: لعب ولہوو ہزل وباطل وعبث متقارب المعنی ہیں ۔


نہایہ ابن اثیر میں ہے:  یقال لکل من عمل عملا لایجدی علیہ نفعا انما انت لاعب ۲؎


جو شخص کوئی ایساکام کرے جو اسے کو ئی فائدہ نہ دے اس سے کہا جاتا ہے کہ تم بس کھیل کرتے ہو۔ (ت)


( ۲؎ ا لنہایہ فی غریب الحدیث والاثر باب اللام مع العین دار الکتب العلمیۃ بیروت۴ /۲۱۸)


علامہ خفاجی سے گزرا:  العبث کاللعب ماخلا عن الفائدۃ ۳؎


عبث لعب کی طرح ہے جوفائدہ سے خالی ہو ۔(ت)


(۳؎عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی تحت الآیۃ ۲۳ /۱۱۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۱۱۱ )


تعریفات علامہ شریف میں ہے: اللعب ھو فعل الصبیان یعقب التعب من غیرفائدۃ ۴؎ اھ


لعب و ہ بچوں کا کام ہے جس کے بعد تکان آتی ہے اور فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔


(۴؎التعریفات للسید الشریف باب اللام انتشارات ناصر خسرو تہران ایران ص۸۳)


اقول : وتعقیب التعب خرج نظرا الی الغالب ولیس شرطا لازما کما لایخفی ۔


اقول : بعدمیں تکان ہونے کا ذکر غالب واکثر کے لحاظ سے ہوا یہ لعب کی کوئی لازمی شرط نہیں جیسا کہ واضح ہے۔(ت) 

اصول امام فخر الاسلام بزدوی قدس سرّہ میں ہے:


اما الھزل فتفسیرہ اللعب وھو ان یراد بالشیئ مالم یوضع لہ وضدہ الجد ۱؎ ھزل کی تفسیر لعب ہے وہ یہ کہ کسی شے سے وہ قصد کیاجائے جس کے لئے اس کی وضع نہ ہوئی اس کی ضد ''جِدّ'' ہے ۔(ت)


 (۱؎ اصول البزدوی    فصل الہزل         نور محمد خانہ تجارت کتب کراچی     ص۳۴۷)


اُس کی شرح کشف الاسرار میں ہے: لیس المراد من الوضع ھھنا وضع اللغۃ لاغیر بل وضع العقل اوالشرع فان الکلام موضوع عقلا لافادۃ معناہ حقیقۃ کان اومجاز اوالتصرف الشرعی موضوع لافادۃ حکمہ فاذا ارید بالکلام غیرموضوعہ العقلی وھو عدم افادۃ معناہ اصلا،ارید بالتصرف غیر موضوعہ الشرعی وھو عدم افادتہ الحکم اصلا فھو الھزل ولھذا فسرہ الشیخ باللعب اذاللعب مالا یفید فائدۃ اصلا وھو معنی مانقل عن الشیخ ابی منصور رحمہ اللّٰہ تعالٰی ان الھزل ما لا یراد بہ معنی۲؎


یہاں وضع سے صرف وضع لغت مراد نہیں۔ بلکہ وضع عقل یا وضع شرعی بھی مراد ہے۔ اس لئے کہ عقلاً کلام کی وضع اس لئے ہے کہ اپنے معنی کاافادہ کرے خواہ وہ معنی حقیقی ہویا مجازی۔ اورتصرف شرعی کی وضع اس لئے ہے کہ اپنے حکم کا افادہ کرے۔توجب کلام کامقصد وہ ہو جس کے لئے عقلاً اس کی وضع نہ ہوئی۔ وہ یہ کہ اپنے حکم کا بالکل کوئی فائدہ نہ دے۔ اور تصرف کا مقصد وہ ہو جس کے لئے شرعاً اس کی وضع نہ ہوئی۔۔۔۔۔وہ یہ کہ اپنے حکم کا بالکل کوئی فائدہ نہ دے۔۔۔۔۔۔ تو وہ ھزل ہے۔۔۔۔۔اسی لئے شیخ نے ھزل کی تفسیر لعب سے فرمائی اس لئے کہ لعب وہ ہے جوبالکل کوئی فائدہ نہ دے اور یہی اس کا مطلب ہے جو شیخ ابو منصور رحمہ اللہ تعالٰی سے منقول ہے کہ ہزل وہ ہے جس سے کوئی معنی مقصود نہ ہو۔(ت)


 (۲؎ کشف الاسرار    فصل الہزل        دارالکتاب العربی بیروت        ۴ /۳۵۷)


تو تفسیر ۶ و ۱۲ کا حاصل ایک ہے ولہٰذا مصباح میں عبث من باب تعب لعب وعمل مالافائدۃ فیہ۱ ؎ (عبث باب تعب(سمع) سے ہے اس کا معنی کھیل کیا اور بے فائدہ کام کیا ۔ت)


 (۱؎ مصباح المنیر کتاب العین تحت لفظ عبث منشورات دار الہجرۃ قم ایران     ۲ /۳۸۹ )


اور منتخب میں عبث بفتتحین بازی وبے فائدہ بطور عطفِ تفسیری لکھا۔

ثانیا اقول : جس طرح عاقل سے کوئی فعل اختیاری صادر نہ ہوگا جب تک تصّور بوجہ مَّا وتصدیق بفائدۃ مّا نہ ہو یونہی انسان کے ہوش وحواس جب تک حاضر ہیں بے کسی شغل کے نہیں رہتا خواہ عقلی ہو جیسے کسی قسم کا تصور یا عملی جیسے جوارح سے کوئی حرکت تو کسی قسم کا شغل ہو نفس کیلئے اُس میں اپنی عادت کا حصول اور اپنے مقتضی کا تیسر ہے اور یہ خود اُس کیلئے ایک نوع نفع ہے اگرچہ دین ودنیا میں سوا ایک عادت بے معنے کی تحصیل کے اور کوئی ثمر ونفع اُس پر مترتّب نہ ہو یابایں معنی کوئی فعل اختیاری فاعل کیلئے اصلا فائدہ سے عاری محض نہ ہوگا ہاں یہ ممکن کہ وہ فائدہ قضیہ شرع بلکہ قضیہ عقل سلیم کے نزدیک بھی مثل لافائدہ محض غیر معتد بہا ہو بلکہ ممکن کہ اُس کا مآل ضرربحت ہو جیسے کفار کی عبادات شاقہ عاملۃ ناصبۃ o تصلٰی نارا حامیۃ o عمل کریں مشقّت جھیلیں اور نتیجہ یہ کہ بھڑکتی آ گ میں غرق ہوں گے تو ۶ سے مقصود وہی ۷ ہے ۔


ثالثا: یہ بھی ظاہر کہ کوہ کندن وکاہ برآور دن ہر عاقل کے نزدیک حرکتِ عبث ہے تو مقدار فائدہ وفعل میں اگرچہ تساوی درکار نہیں تفاوت فاحش بھی نہ ہونا ضرور ۸ سے یہی مراد اور معتدبہ بنظر فعل ہونے سے یہی ہفتم کا مفاد۔ فائدہ کا فی نفسہا کوئی امر عظیم مہتم بالشان ہونا ہرگز ضرور نہیں بلکہ جیسا کام اُسی کے قابل فائدہ معتد بہا ہے وھـذا ما کنا اشـرنا الـیہ  (یہ وہ ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ ت)


رابعا :لذتِ لعب شرع کریم وعقل سلیم کے نزدیک فائدہ معتد بہا نہیں جبکہ فـــــــ لہو مباح ہو اور تعب کے بعد اُس سے ترویح قلب مقصود اب نہ وہ عبث رہے گا نہ حقیقۃً لعب اگرچہ صورت لعب ہو ۔


فــــــ : مسئلہ :عبادت ومحنت دینیہ کے بعد دفع کلال وملال وحصول تازگی وراحت کے لئے احیانا کسی امر مباح میں مشغولی جیسے جائز اشعار عاشقانہ کا پڑھنا سننا شرعا مباح بلکہ مطلوب ہے ۔


ولہٰذا حدیث میں ہے حضور سید اکرم رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الھوا والعبوا فانی اکرہ ان یری فی دینکم غلظۃ رواہ البیہقی ۱؎۔فی شعب الایمان عن المطلب بن عبداللّٰہ المخزومی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔ لہو ولعب(کھیل کُود) کرو کیوں کہ میں یہ پسند نہیں کرتاکہ لوگ تمہارے دین میں سختی و درشتی دیکھیں۔ اسے امام بیہقی نے شعب الایمان میں مطلب بن عبداللہ مخز ومی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)


 (۱؎ شعب الایمان حدیث ۶۵۴۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵ / ۲۴۷)


امام ابن حجر مکی کف الرعاع پھر سیدی عارف باللہ حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں: اللھو المباح ماذون فیہ منہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وانہ فی بعض الاحوال قد لاینافی الکمال وقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الھوا والعبوا دلیل لطلب ترویح النفوس اذا سئمت وجلاھا اذا صدئت باللھو واللعب المباح ۲؎۔ حضور اقدس کی طرف سے مباح لہو کی اجازت ہے او ریہ بعض احوال میں منافی کمال نہیں۔حضور ؐ کا ارشاد ''کھیل کُود کرو'' اس بات کی دلیل ہے کہ جب طبیعت اکتاجائے اورزنگ خوردہ سی ہوجائے تو مباح لہو و لعب کے ذریعہ اسے راحت دینا اوراس کازنگ دُور کرنا مطلوب ہے۔(ت)


 (۲؎ حدیقۃ الندیۃ الصنف الخامس من الاصناف التسعۃ فی بیان آفات الید    نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲ /۴۳۹)

(کف الرعاع الباب الثانی القسم الاول دارالکتب العلمیہ بیروت      ص ۲۵۲)


تو ۱۱ بھی ان تفا سیر سے جدا نہیں نہ لعب میں بوجہ لذت فائدہ معتد بہا ہوا نہ عبث سے بسبب عدم لذت فائدہ نامعتبرہ منتفی۔


خامسا: بلا شبہ فاعل سے دفع عبث کیلئے صرف فعل فی نفسہ مفید ہونا کافی نہیں بلکہ ضرور ہے کہ یہ بھی اُس سے فائدہ معتدبہا بمعنی مذکور کا قصد کرے ورنہ اس نے اگر کسی قصد فضول وبیمعنے سے کیا تو اس پر الزام عبث ضرور لازم فانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۳؎  (کیوں کہ اعمال کا مدارنیت پر ہے اورہر آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ ت)


 (۳؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدو الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۲)


اور قصد کیلئے علم درکار کہ مجہول کا ارادہ نہیں ہوسکتا۔ زید سرِراہ بیٹھا تھا ایک کھاتا پیتا ناشناسا گھوڑے پرسوار جارہا تھا اس نے ہزار روپے اٹھا کر اُسے دے دیے کہ نہ صدقہ نہ صلہ رحم نہ محتاج کی اعانت نہ دوست کی امداد کوئی نیت صالحہ نہ تھی نہ ریایا نام وغیرہ کسی مقصد بد کا محل تھا تو اُسے ضرور حرکت عبث کہیں گے اگرچہ واقع میں وہ اس کا کوئی ذی رحم ہو جسے یہ نہ پہچانتا تھا مقاصد شرعیہ پر نظر کرنے سے یہ حکم خوب منجلی ہوتا ہے رب فـــــــ عزوجل فرماتا ہے: وما اٰتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عند اللّٰہ وما اٰتیتم من زکوٰۃ تریدون وجہ اللّٰہ فاولٰئک ھم المضعفون ۱؎ o جو فزونی تم دو کہ لوگوں کے مال میں زیادت ہووہ خدا کے نزدیک نہ بڑھے گی اورجو صدقہ دوخدا کی رضا چاہتے تو انہیں لوگوں کے دُونے ہیں۔


فـــــ : مسئلہ صلہ رحم اور اپنے اقرباء کی مواسات عمدہ حسنات سے ہے مگر اگر نیت لوجہ اللہ نہ ہو بلکہ خون کی شرکت اور طبعی محبت کا تقاضا ہو تو اس سے عنداللہ کچھ فائدہ نہیں ۔


 (۱؎ القرآن الکریم         ۳۰ /۳۹)


عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے آیہ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: الم تر الی الرجل یقول للرجل لامولنک فیعطیہ فھذا لایربو عنداللّٰہ لانہ یعطیہ لغیر اللّٰہ لیثری مالہ ۲؎۔ کیا تونے نہ دیکھاکہ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے میں تجھے مالدارکردوں گا، پھر اسے دیتا ہے تو یہ دینا خداکے یہاں نہ بڑھے گا کہ اس نے غیر خدا کے لئے صرف اس نیت سے دیا کہ اس کا مال بڑھادوں۔


 (۲؎ جامع البیان ( تفسیر الطبری ) عن ابن عباس تحت الایہ ۳۰ /۳۹ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲۱ /۵۵ )


امام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: کان ھذا فی الجاھلیۃ یعطی احدھم ذا القرابۃ المال یکثربہ مالہ ۳؎۔ یہ زمانہ جاہلیت میں تھا اپنے عزیز کا مال بڑھانے کو اسے مال دیا کرتے۔


 (۳؎ جامع البیان ( تفسیر الطبری ) بحوالہ ابراہیم نخعی تحت الایہ ۳۰ /۳۹ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲۱ /۵۵ )


رواھما ابن جریر ان دونوں کو ابن جریر نے روایت کیا دیکھو فعل فی نفسہ مثمر ثمرہ شرعیہ ہونے کا صالح فائدہ شرعیہ یعنی صلہ رحم و مواسات پر مشتمل تھا مگرجبکہ اُس نے اُس کا قصد نہ کیا بے ثمر رہا تو حاصل یہ ٹھہرا کہ دفع عبث کو فائدہ معتد بہا بنظر فعل معلومہ مقصودہ للفاعل درکار ہے تو ان تفاسیر کا وہی مآل ہوا جو ۹ و ۱۰ میں ملحوظ تھا


مفرداتِ راغب میں ہے: لعب فلان اذا کان فعلہ غیر قاصد بہ مقصدا صحیحا ۱؎ لعب فلاں اس وقت بولتے ہیں جب ایسا کام کرے جس سے وہ کوئی صحیح مقصدنہ رکھتا ہو۔(ت)


 (۱؎ المفردات فی غرائب القرۤن تحت لفظ لعب الام مع العین     نور محمد کارخانہ کراچی     ص ۴۶۶)

سادسا: غرض وہی فائدہ مقصودہ ہے اور صحیح یہی کہ معتد بہا ہو تو ۳، ۵ بھی اسی معنی کو ادا کررہی ہیں اور غرض میں جبکہ قصد ملحوظ ہے تو تعریف سوم ودہم اوضح واخصر تعریفات ہیں اور یہیں سے واضح ہوا کہ قول سمین وجمل العبث اللعب وما لا فائدۃ فیہ وکل مالیس فیہ غرض صحیح۲؎  (عبث لعب بے فائدہ جن میں غرض صحیح نہ ہو۔ ت)میں سب عطف تفسیری ہیں۔


 (۲؎ الفتوحات الالہیۃ تحت الایہ ۳۲ /۱۱۵ دارالفکر بیروت ۵ / ۲۶۷)


سابعا: ہم بیان کر آئے کہ فعل اختیاری بے غرض محض صادر نہ ہوگا تو جو بے غرض صحیح ہے ضرور بغرض صحیح ہے تو ۱ ، ۳ کا مفاد واحد ہے اور اس تقدیر پر سفہ کا مصداق افعال جنون ہوں گے۔

ثامنا: فـــــــ شرعی سے اگر مقبول شرع مراد لیں تو وہی حاصل غرض صحیح ہے کہ ہر غرض صحیح کو اگرچہ مطلوب فی الشرع نہ ہو شرع قبول فرماتی ہے جبکہ اپنے اقوی سے معارض نہ ہو اور ہنگام معارضہ عدم قبول قبول فی نفسہ کا منافی نہیں جیسے حدیث آحاد وقیاس کہ بجائے خود حجت شرعیہ ہیں اور معارضہ کتاب کے وقت نا مقبول امام نسفی کا عدم غرض شرعی سے تعریف فرما کر تعلیل کراہت میں لانہ غیر مفید  (اس لئے کہ یہ غیر مفید ہے۔ ت) فرمانا اس کی طرف مشعر ہوسکتا ہے اس تقدیر پر ۲ اول اور ۴ سوم کی طرف عائد اور ظاہر ہوا کہ بارہ کی بارہ تعریفوں کا حاصل واحد


فــــ : شرع کے دو معنی ہیں ، مقبول فی الشرع و مطلوب فی الشرع۔


اقول: مگر غیر شرعی سے متبادر تر غرض عــہ مطلوب فی الشرع ہے اب یہ تخصیص بحسب مقام ہوگی کہ اُن کا کلام عبث فی الصلاۃ میں ہے تو وہاں غرض مطلوب شرع ہی غرض صحیح ہے نہ غیر۔ آخر نہ دیکھا کہ مٹی سے بچانے فـــ ۱ کیلئے دامن اٹھانا غرض صحیح ہے اور نماز میں مکروہ کہ غرض مطلوب شرعی نہیں اور پیشانی  فـــ ۲ سے پسینہ پونچھنا باآنکہ غرض مطلوب فی الشرع نہیں نماز میں بلا کراہت روا جبکہ ایذا دے اور شغل خاطر کا باعث ہو کہ اب اس کا ازالہ غرض مطلوب شرع ہوگیا۔


فــــ ۱: مسئلہ نماز میں مٹی سے بچانے کے لئے دامن اٹھانا مکروہ ہے ۔ 

فــــ ۲: مسئلہ نماز میں منہ پر پسینہ ایسا آیا کہ ایذا دیتا اور دل بٹتا ہے تو اس کا پونچھنا مکروہ نہیں ورنہ مکروہ تنزیہی ہے ۔ 

عـــــــہ : وعن ھذا ما قال فی البحر اختلف فی تفسیر العبث فذکر الکردری انہ فعل فیہ غرض لیس بشرعی والمذکور فی شرح الھدایۃ وغیرھا ان العبث الفعل لغرض غیر صحیح حتی قال فی النھایۃ ما لیس بمفید فھو العبث ۱؎ اھ 

یہی منشا ہے اس کا جوبحرمیں فرمایاکہ عبث کی تفسیرمیں اختلاف ہے۔ بدر الدین کردری نے فرمایاوہ ایسا کام ہے جس میں کوئی ایسی غرض ہوجوشرعی نہ ہو۔ اور شرح ہدایہ وغیرہا میں ہے کہ عبث وہ کام ہے جو غرض غیر صحیح کے سبب ہو،یہاں تک کہ نہایہ میں فرمایا:جو فائدہ مند نہیں وہی عبث ہے اھ۔


 (۱؎بحرالرائق     کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹)


فاقام الخلاف لاجل التعبیر فی احدھما بشرعی وفی الاخر بصحیح ومال سعدی افندی الی ان المراد بالصحیح ھو الشرعی اذفیہ الکلام فاشار الی نحوما نحونا الیہ ان التخصیص لخصوص المقام و لقد احسن فی البحر اذ جعل ماٰل مافی النھایۃ وغیرھا من الشروح واحد ا ولم یلتفت الی الفرق بین الغرض الغیر الصحیح وعدم الغرض ولکن کان عبارۃ العنایۃ محتملا للفرق بہ ایضا حیث نقل التعریف بما فیہ غرض غیر شرعی وبما لیس فیہ غرض صحیح ثم قال ولا نزاع فی الاصطلاح ۱؎ اھ 

توصاحبِ بحرنے ایک میں ''شرعی'' سے تعبیر اوردوسری میں''صحیح''سے تعبیر کی وجہ سے اختلاف قرار دیااورسعدی آفندی کا میلان اس طرف ہے کہ صحیح سے مراد وہی شرعی ہے اس لئے کہ کلام اسی سے متعلق ہے۔ توجس ر وش پرہم چلے اسی کی جانب انہوں نے اشارہ کردیاکہ یہ تخصیص خصوصیت مقام کے پیشِ نظر ہے۔ اوربحرمیں یہ بہت خوب کیا کہ نہایہ اوراس کے علاوہ شروح کی تعبیرات کا مآل ایک ٹھہرایا اور''غرض غیرصحیح'' و''عدم غرض''کے فرق پر التفات نہ کیا۔مگر عنایہ کی عبارت اس تفریق کابھی احتمال رکھتی تھی کیوں کہ اس میں دونوں تعریفیں نقل کیں:''وہ جس میں غرض غیر شرعی ہواوروہ جس میں کوئی غرض صحیح نہ ہو''۔پھرکہا کہ : اصطلاح میں کوئی نزاع نہیں اھ۔


 (۱؎ العنایہ علی الہدایہ علی ہامش فتح القدیر کتاب الصلوۃ باب یفسد الصلوۃ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۶)


فلہذا اجاب عنہ سعدی افندی بان النفی فی التعارف الثانی داخل علی القید ۲؎ اھ

اسی لئے سعدی آفندی نے اس کا جواب دیا کہ دوسری تعریف میں نفی قید پر داخل ہے اھ۔


 (۲؎ حاشیہ سعدی آفندی علی العنایہ کتاب الصلوۃ باب یفسد الصلوۃ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۶)


اقول : وھو مشکل بظاھرہ فان النفی اذا استولی علی مقید بقید صدق بانتفاء ایھما کان وانما یتم بالتحقیق الذی القینا علیک ان لا وقوع للفعل الاختیاری من دون غرض اصلا اھ منہ عفی منہ۔ (م)

اقول  :  اور وہ بظاہر مشکل ہے اس لئے کہ نفی جب کسی ایسی چیز پر وارد ہوتی ہے جو کسی قیدسے مقید ہے تو مقید اورقید کسی کے بھی انتفا سے نفی کا صدق ہوجاتا ہے۔ اب دونوں کے مآل میں وحدت کی بات اسی وقت تام ہوسکتی ہے جب وہ تحقیق لی جائے جو ہم نے پیش کی کہ فعل اختیار ی کا وقوع بغیر کسی غرض کے ہوتا ہی نہیں(تومالیس فیہ غرض صحیح کا مآل یہی ہوگاکہ اس کی کوئی غرض تو ضرور ہے مگرغرض صحیح ہے اوریہ صورت کہ سرے سے صحیح غیر صحیح کوئی غرض ہی نہ ہو، واقع میں اس کا وجود نہ ہوگا ۱۲م)۱۲منہ۔(ت)


عنایہ ونہایہ وبحر وغیرہا میں ہے: کل عمل یفید المصلی لاباس بہ لما روی انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم عرق فی صلاتہ لیلۃ فسلت العرق عن جبینہ ای مسحہ لانہ کان یؤذیہ فکان مفید اواذا قام فـــ من سجودہ فی الصیف نفض ثوبہ یمنۃ ویسرۃ کیلا تبقی صورۃ ۱؎۔


جس کام سے مصلی کو فائدہ ہواس میں حرج نہیں اس لئے کہ مروی ہے کہ حضورکوایک رات نماز میں پسینہ آیاتو حضور نے جبین مبارک سے پسینہ پونچھ دیا، اس لئے کہ اس سے حضور کو تکلیف ہوتی تھی توپونچھنا مفید تھا۔۔۔۔۔۔۔اور جب گرمی کے موسم میں سجدہ سے اٹھتے تودائیں یا بائیں اپنا کپڑا جھٹک دیتے تاکہ صورت باقی نہ رہے۔(ت)


فـــــ : مسئلہ : گرمی کے موسم میں دامن پاجامہ سرین سے مل کر ان کی صورت ظاہر کرتا ہے اس سے بچنے کے لئے کپڑا داہنے بائیں نماز میں جھٹک دینا مکروہ نہیں بلکہ مطلوب ہے اور بلاحاجت کراہت ۔


 (۱؎ العنایہ علی الہدایہ علی ہامش فتح القدیر   باب مایفسد الصلوۃ  فصل ویکرہ للمصلی الخ   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۷ )

البحرالرائق     بحولہ النہایہ کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹

رد المحتار بحولہ النہایہ کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۰)


حاشیہ سعدی افندی میں ہے: یعنی حکایۃ صورۃ الا لیۃ ۲؎۔ یعنی سرین کی صورت کی نقل نہ ظاہر ہو۔(ت)


 (۲؎ حاشیہ سعدی آفندی علی العنایہ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۷ )





ردالمحتار میں ہے: فلیس نفضہ للتراب فلا یرد ما فی البحر عن الحلیۃ انہ اذا کان یکرہ رفع الثوب کیلا یتترب لایکون نفضہ من التراب عملا مفیدا ۳؎ اھ تواسے جھٹکنا مٹی کی وجہ سے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے وہ اعتراض واردنہ ہوگا جوبحرمیں حلیہ سے منقول ہے کہ جب خاک آلود ہونے کے اندیشے سے کپڑا اٹھالینامکروہ ہے تو مٹی سے اسے جھاڑنا کوئی مفید عمل نہ ہوا اھ۔


 (۳؎ رد المحتار کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۳۰)


ورأیتنی کتبت علیہ اقول الذی فـــ ۱ فی الحلیۃ ھکذاثم فی الخلاصۃ والنھایۃ وحاصلہ فـــ ۲ ان کل عمل مفید للمصلی فلا باس بفعلہ کسلت العرق عن جبینہ ونفض ثوبہ من التراب ومالیس بمفید یکرہ للمصلی الاشتغال بہ اھ اس عبارت پر میراحاشیہ یہ ہے: اقول حلیہ کی عبارت اس طرح ہے: پھرخلاصہ اورنہایہ میں ہے کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو مصلی کے لئے مفیدہواس کے کرنے میں حرج نہیں جیسے پیشانی سے پسینہ پونچھنا، اورمٹی سے کپڑا جھاڑنا۔اورجومفید نہیں ہے اس میں مشغول ہونا مصلی کے لئے مکروہ ہے اھ۔


فـــــ ۱: مسئلہ : معروضۃ علی العلامۃ ش ۔

فـــــ ۲: مسئلہ : نمازی کو ہر وہ عمل کہ نماز میں مفید ہو جائز و غیر مکروہ اور ہر وہ عمل جس کا فائدہ نماز کی طرف عائد نہ ہو کم از کم مکروہ و خلاف اولی ہے ۔


واعترض علیہ بثلثۃ وجوہ۱؎ فقال قلت لکن اذا کان یکرہ رفع الثوب کیلا یتترب کما تقدم وانہ قد فـــ وقع الخلاف فی انہ یکرہ مسح التراب عن جبھتہ فی الصلاۃ کما سنذکرہ وانہ قد وقع فـــ الندب الی تتریب الوجہ فی السجود فضلا عن الثوب فکون نفض الثوب من التراب عملا مفیدا وانہ لاباس بہ مطلقا فیہ نظر ظاھر۲؎ اھ وانت تعلم ان اعتراضہ علی مانقل عن الخلاصۃ والنھایۃ صحیح الی الغایۃ للتصریح فیہ ان النفض من التراب۔


حلبی نے اس عبارت پرتین طرح اعتراض کیا،وہ لکھتے ہیں:میں کہوں گا (۱)جب خاک آلود ہونے کے اندیشے سے کپڑا اٹھانا مکروہ ہے تومٹی سے اسے جھاڑنا کوئی مفید عمل نہ ہوا (۲)اوراس بارے میں اختلاف ہے کہ نماز میں پیشانی سے مٹی صاف کرنامکروہ ہے یا نہیں جیسا کہ آگے اسے ہم ذکرکریں گے۔(۳) اور کپڑا تو درکنار چہرے کوسجدے میں مٹی کا پونچھنا مکروہ ہے جیسا کہ ہم ذکر کریں گے اور یہ کہ تو یہ بات عیاں طور پر محلِ نظر ہے کہ مٹی سے کپڑے کو جھاڑنا کوئی مفید عمل ہے اور اس میں'' مطلقاً'' کوئی حرج نہیں ہے اھ۔  ناظر کومعلوم ہے کہ حلبی نے خلاصہ ونہایہ سے جس طرح عبارت نقل کی ہے اس پر ان کا اعتراض بالکل درست اوربجا ہے کیوں کہ اس عبارت میں مٹی سے جھاڑنے کی صراحت موجود ہے۔


فـــــ۱: سجدہ میں ماتھے پر لگی ہوئی مٹی اگر ایذاء دے مثلا اس میں باریک کنکریاں ہوں یا کثیر ہوں کہ آنکھوں پلکوں پر چھڑتی ہے جب تو مطلقا اسے پونچھنے میں حرج نہیں اور نہ اخیر التحیات کے ختم سے پہلے مکروہ ہے اور اس کے بعد سلام سے پہلے حرج نہیں اور سلام کے بعد اسے صاف کردینا تو مستحب ہے بلکہ اگر ریا کا خیال ہو کہ لوگ ٹیکا دیکھ کر نمازی سمجھیں جب تو اس کا باقی رکھنا حرام ہوگا۔ 

فـــــ۲مسئلہ مستحب ہے کہ سجدہ میں سر خاک پر بلا حائل ہو ۔


 (۱؎ جدالمحتار علی رد المحتار کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ الخ المجمع الاسلامی مبارکپور ، ہند ۱ /۳۰۵    

۲ ؎ البحرالرائق بحوالہ الحلبی کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیھا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ / ۱۹)


عــــہ ذکـر فیہ معترکا ولم یتخلص من کلامہ کبیر شیئ اقول والاوفق الالصق باصول المذھب ان لو اٰذاہ وشغل قلبہ کأن کان فیہ صغار حصی اوکان کثیرا یتناثر علی عیونہ وجفونہ مسح مطلقا ولو فی وسط الصلوٰۃ والاکرہ فی خلال الصلوۃ ولو فی التشہد الاخیر امابعدہ وقبل السلام فقد نصوا ان لاباس بہ بلا خلاف وبعد السلام یستحب المسح دفعا للاذٰی وکراھۃ للمثلۃ ففی الخانیۃ لاباس بان یمسح جبھتہ من التراب والحشیش بعد الفراغ من الصلوٰۃ وقبلہ اذا کان یضر ذالک و یشغلہ عن الصلوۃ وان کان ذالک یکرہ فی وسط الصلوٰۃ ولا یکرہ قبل التشہد والسلام ۱؎ اھ وفی الحلیۃ وفی التحفۃ فی ظاھر الروایۃ یکرہ فی وسطھا ولا باس بہ اذا قعد قدر التشہد ۱؎


اس میں معرکہ آرائی کی جگہ بتائی ہے اور ان کے کلام سے کوئی بڑی بات حاصل نہیں ہوتی۔ اقول اصولِ مذہب سے زیادہ مطابق اور ہم آہنگ یہ ہے کہ مٹی سے اگر اسے تکلیف ہو اور اس کا دل بٹے مثلاً یہ کہ اس پر کنکریوں کے ریزے ہوں یا مٹی اتنی زیادہ ہوکہ آنکھوں اورپلکوں پرجھڑکرگرتی ہو تو اسے صاف کردے۔ مطلقاً۔اگرچہ درمیانِ نماز میں ہو۔ ورنہ درمیانِ نماز صاف کرنامکروہ ہے اگرچہ تشہد اخیر میں ہو،اور اس کے بعد، سلام سے قبل صاف کرنے سے متعلق علماء کی بلا اختلاف تصریح ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔اور بعدسلام صاف کرنادفع اذٰی اورکراہت مثلہ کے پیش نظر مستحب ہے۔ خانیہ میں ہے: اس میں حرج نہیں کہ پیشانی سے مٹی اورتنکا نماز سے فارغ ہونے کے بعدصاف کردے اوراس سے پہلے بھی جب کہ اس سے اسے ضررہو اور نماز سے اس کا دل بٹتاہو۔اور اگر اس سے ضرر نہ ہو تودرمیانِ نماز مکروہ ہے اورتشہد وسلام سے پہلے مکروہ نہیں۔اھ۔


 (۱؎ فتوی قاضی خان کتاب الصلوۃ باب الحدث الصلوۃ الخ نولکشور لکھنو     ص ۱ / ۵۷)


ونص علی انہ الصحیح ونص رضی الدین فی المحیط علی انہ الاصح الخ وفیھا نصوا علی انہ لاباس بان یمسح بعد مافرغ من صلوتہ قبل ان یسلم ۲؎ قال فی البدائع بلا خلاف لانہ لوقطع الصلوٰۃ فی ھذہ الحالۃ لایکرہ فلأن لایکرہ ادخال فعل قلیل اولی ۳؎ الخ وفیھا عن الذخیرۃ اذمسح جبھۃ بعد السلام یستحب لہ ذلک لانہ خرج من الصلوٰۃ وفیہ ازالۃ الاذی عن نفسہ ۴؎ الخ


حلیہ میں ہے : تحفہ میں ہے کہ ظاہر الروایہ میں یہ درمیان نماز مکروہ ہے اور جب بقدر تشہد بیٹھ چکا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اوراس پر نص فرمایا کہ یہی صحیح ہے اورمحیط میں رضی الدین نے یہ تصریح فرمائی کہ یہ اصح ہے الخ۔ 

اورحلیہ میں یہ بھی ہے: علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔بدائع میں فرمایا اس میں کوئی اختلاف نہیں تو فعل قلیل اختلاف نہیں کیوں کہ اس حالت میں اس کا نماز قطع کردینا مکروہ نہیں توفعل قلیل داخل کردینا بدرجہ اولٰی مکروہ نہ ہوگا۔ 

اورحلیہ میں ذخیرہ کے حوالے سے ہے: بعد سلام اپنی پیشانی صاف کرے تویہ اس کے لئے مستحب ہے اس لئے کہ وہ نماز سے باہر آچکا ہے اوراس میں اپنے سے گندگی(اذی) دور کرنا بھی ہے الخ۔


 (۱؎ تحفۃ الفقہاء کتاب الصلوۃ باب مایستحب فی الصلوۃ وما یکرہ فیہا دارالفکر بیروت ص ۷۲)

 (۳؎ بدائع الصنائع کتاب الصلوۃ باب مایستحب فی الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی لاہور ۱ / ۲۲۰ و ۲۱۹) 

(۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


اقول ولو ابقاہ معاذ اللّٰہ ریاء الناس حرم قطعا کما لایخفی ورأیتنی کتبت علی قول البدائع لوقطع الصلوۃ فی ھذہ الحالۃ لایکرہ مانصہ۔

اقول اور اگر معاذاللہ  ریا کاری کے لئے اسے باقی رکھے تو قطعاً حرام ہے جیسا کہ واضح ہے۔ اور بدائع کی عبارت''اس حالت میں اس کانماز قطع کردینا مکروہ نہیں'' پرمیں نے اپنا تحریر کردہ یہ حاشیہ دیکھا: 

اقــول کیف لایکرہ مع ان الواجب علیہ الانھاء بالسلام لاالقطع بعمل غیرہ فان اراد بالقطع الانھاء منعنا القیاس لانہ مامور بہ کیف یقاس علیہ مالیس مطلوبا وھو مالم ینھھا لایقع مایقع الا فی خلالھا الا تری الی الاثنا عشریۃ قال فی الھدایۃ علی تخریج البردعی ان الخروج عن الصلوٰۃ بصنع المصلی فرض عند ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فاعتراض ھذہ العوارض عندہ فی ھذہ الحالۃ کاعتراضھا فی خلال الصلوۃ اھ وفی الفتح ناقلا عن الکرخی انما تبطل عندہ فیھا لانہ فی اثنائہا کیف وقد بقی علیہ واجب وھو السلام وھو اٰخرھا داخلا فیھا اھ فاتفق التخریجان ان ماقبل السلام داخل فی خلال الصلوۃ فلم لایکرہ مایکون فیہ مما لیس من افعال الصلوۃ ولا مفیدا محتاجا الیہ فتدبر اذلابحث مع الاطباق لاسیما من مثلی والاتباع للمنقول وان لم یظھر للعقول واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ غفرلہ۔ (م)


اقول کیوں مکروہ نہیں جب کہ اس پرواجب یہ ہے کہ سلام پرنماز پوری کرے نہ یہ کہ سلام کے علاوہ کسی عمل سے نماز قطع کردے۔ تواگر قطع سے ان کی مراد نماز پوری کرنا ہے تو قیاس درست نہیں کیوں کہ سلام پرنماز پوری کرنے کا تواسے حکم ہے اس پراس عمل کاقیاس کیسے ہوسکتا ہے جو مطلوب نہیں اورجب تک وہ نماز سلام سے پوری نہ کرے جو عمل بھی ہوگا درمیانِ نماز ہی ہوگا کیاوہ مشہور بارہ مسائل پیشِ نظر نہیں۔ ہدایہ میں فرمایا: امام بردعی کی تخریج پریہ ہے کہ نماز سے مصلی کا اپنے عمل کے ذریعہ باہر آنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک فرض ہے۔ تو ان کے نزدیک اس حالت میں ان عوارض کا پیش آنا ایسا ہی ہے جیسے نماز کے درمیان پیش آنا اھ۔اور فتح القدیر میں امام کرخی سے نقل ہے: امام صاحب کے نزدیک ان عوارض کی صورتوں میں نماز اسی لئے باطل ہوتی ہے کہ وہ ابھی اثنائے نماز میں ہے کیوں نہ ہو جب کہ ابھی اس کے ذمہ ایک واجب باقی ہے وہ ہے سلام، یہ نماز کا آخری عمل ہے اورنماز میں داخل ہے اھ۔تو امام بردعی وامام کرخی دونوں حضرات کی تخریجیں اس پر متفق ہیں کہ ماقبل سلام، درمیان نماز داخل ہے تواس حالت میں واقع ہونے والا وہ کام مکروہ کیوں نہ ہوگا جو نہ افعالِ نماز سے ہے نہ مفید ہے نہ اس کی حاجت ہے تو تدبر کرو۔ اس لئے کہ اتفاق موجود ہوتے ہوئے بحث کی خصوصاً مجھ جیسے سے۔گنجائش نہیں۔ اتباع منقول کا ہوگا اگرچہ اس کی وجہ معقول ظاہر نہ ہو ۔ واللہ تعالٰی اعلم اھ منہ غفرلہ ۔(ت)

اقــول  : وانمافـــ قید بقولہ مطلقا لان الثوب ان کان مما یفسدہ التراب کأن یکون من لاحریر المخلوط للرجل اوالخالص للمرأۃ وکان فی التراب نداوۃ فلولم یغسل بقی متلوثا ولو غسل فسد فحینئذا فان الضرورات تبیح المحظورات ۔واللّٰہ تعالی اعلم ۔ اقول :  اعتراض کے الفاظ میں انہوں نے ''مطلقاً'' کی قید اس لئے رکھی ہے کہ اگرکپڑا ایسا ہو جوکہ مٹی سے خراب ہوجائے مثلاً مرد کا کپڑا مخلوط ریشم کا یاعورت کاخالص ریشم کا ہو اورمٹی میں نمی ہو اب اگر اسے دھوتا نہیں تو کپڑا خاک آلود رہ جاتا ہے اوردھوتا ہے تو خراب ہوتا ہے ایسی صورت میں مٹی سے بچانا ممنوع نہ ہونا چاہئے کیوں کہ ضرورتوں کے پاس ممنوعات مباح ہوجاتے ہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔


فـــــ : مسئلہ اگر کپڑا بیش قیمت ہے جیسے ریشمیں تانے کا مرد کے لئے یا خالص ریشمی عورت کے لئے اور نماز خالی زمین پر پڑھ رہا ہے اور مٹی گیلی ہے کہ کپڑا نہ بچائے تو کیچڑ سے خراب ہوگا اور دھونے سے بگڑ جائے گا تو ایسی حالت مٰیں بچانے کی اجازت ہونی چاہیئے واللہ تعالی اعلم۔


ولکن الشان ان لیس لفظ التراب لافی الخلاصۃ ولا فی النھایۃ فنص نسختے الخلاصۃ ولا یعبث بشیئ من جسدہ وثیابہ والحاصل ان کل عمل ھو مفید لاباس بہ للمصلی وقد صح عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انہ سلت العرق عن جبینہ وکان اذا قام من سجودہ فنفض ثوبہ یمنۃ ویسرۃ وما لیس بمفید یکرہ کاللعب ونحوہ ۱؎ اھ


لیکن معاملہ یہ ہے کہ لفظ''تراب(مٹی)'' نہ خلاصہ میں ہے نہ نہایہ میں ہے۔ میرے نسخہ خلاصہ کی عبارت یہ ہے :''اوراپنے جسم یا کپڑے کے کسی حصے سے کھیل نہ کرے۔ اورحاصل یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو مصلی کے لئے اس میں حرج نہیں،نبی سے بطریق صحیح ثابت ہے کہ جبین مبارک سے  پسینہ صاف کیا اورجب سجدہ سے اٹھتے تو اپنا کپڑا دائیں بائیں جھٹک دیتے۔ اورجو مفید نہیں وہ مکروہ ہے جیسے لعب اوراس کے مثل اھ۔


 (۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الصلوۃ الفصل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/ ۵۷)


ونص النھایۃ علی مانقل فی البحر مثل مااثرتہ عن العنایۃ بمعناہ وقد صرح فیہ بالمراد اذقال کیلا تبقی صورۃ ولا توجہ علیہ لشیئ من الایرادات بیدان الامام الحلبی ثقۃ حجۃ امین فی النقل فالظاھر انہ وقع ھکذا فی نسختیہ الخلاصۃ والنھایۃ ولکن العجب فــــ من البحر نقل عبارۃ النھایۃ مصرحۃ بالصواب ثم عقبہا بالاعتراضات الواردۃ علی لفظ من التراب واقرھا کانہ لیس عنہا جواب۔


اور نہایہ کی عبارت جیسے بحرمیں نقل کی ہے بالمعنی اسی کی طرح ہے جو میں نے عنایہ سے نقل کی اوراس میں مراد کی تصریح کردی ہے کیوں کہ اس میں کہاہے:''تاکہ صورت نہ باقی رہے''اوراس عبارت پر ان تینوں اعتراضوں میں سے ایک بھی وارد نہیں ہوسکتا۔ مگر امام حلبی نقل میں ثقہ،حجت،امین ہیں توظاہر یہ ہے کہ ان کے خلاصہ اورنہایہ کے نسخوں میں عبارت اسی طرح ہوگی جیسے انہوں نے نقل کی۔لیکن تعجب بحر پر ہے کہ انہوں نے نہایہ کی عبارت تو صاف صحیح کی تصریح کے ساتھ نقل کی (وہ جس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا) پھر بھی اس کے بعد لفظ''تراب'' سے متعلق وارد ہونے والے اعتراضات نقل کرکے انہیں برقرار رکھا گویا ان کا کوئی جواب نہیں۔


فـــــ : تظفل علی البحر ۔


یہ نہایت فـــــ کلام ہے تحقیق معنی عبث میں، اب تنقیح حکم کی طرف چلئے وباللہ التوفیق ۔اقول بیان سابق سے واضح ہوکہ عبث کا مناط فعل میں فائدہ معتدبہا مقصود نہ ہونے پر ہے اور وہ اپنے عموم سے قصد مضر وارادہ شرکو بھی شامل تو بظاہر مثل اسراف اُس کی بھی دو۲ صورتیں ایک فعل بقصد شنیع دوسری یہ کہ نہ کوئی بُری نیت ہو نہ اچھی۔ رب عزوجل نے فرمایا: اَفحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لاترجعون ۱؎o کیا اس گمان میں ہو کہ ہم نے تمہیں عبث بنایا اور تم ہماری طرف نہ پلٹوگے۔


فـــــ :حکم عبث کی تنقیح ۔


 (۱؎ القرآن    ۲۳ /۱۱۵)


علماء نے اس آیہ کریمہ میں عبث کو معنی دوم پر لیا یعنی کیا ہم نے تم کو بیکار بنایا تمہاری آفر ینش میں کوئی حکمت نہ تھی یوں ہی بے معنی پیدا ہوئے بیہودہ مرجاؤ گے نہ حساب نہ کتاب نہ عذاب نہ ثواب، جیسے وہ خبیث کہا کرتے تھے: ان ھی الاحیاتنا الدنیا نموت ونحیی وما نحن بمبعوثین ۱؎۔ یہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی ،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں، اورمرنے کے بعددوبارہ ہم اٹھائے نہ جائیں گے۔(ت)


اِس پر رَد کو  یہ آیت اُتری۔ کما تقدم بعض نقولہ وزعم العلامۃ الخفاجی بعدما ذکر فی العبث ثلث عبارات تقدمت والظاھر ان المراد (ای فی ھذہ الکریمۃ) الاول ۲؎ اھ جیسا کہ اس کی کچھ نقلیں گزرچکیں۔اور علامہ خفاجی نے عبث سے متعلق وہ تین عبارتیں ذکرکیں جوگذر چکیں پھر یہ کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں مراد پہلا معنٰی ہے۔اھ۔


 (۱ ؎ القرآن    ۲۳ /۳۷)

(۲؎ عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی تحت الایہ ۲۳ /۱۱۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۶ / ۶۱۱)


اقول اوّلا علمت فـــــ ۱ ان الکل واحد وثــانــیا ان فـــــ۲ ابقینا التغایر فالظاھر الاخیران لان فی الھمزۃ انکار ما حسبوہ لایجاب ما سلبوہ ولیس المراد اثبات فائدۃ ما ولو غیر معتمدبھا ولھذا قال فی الارشاد بغیر حکمۃ بالغۃ ۳؎ واطلق الجلال لان حکم اللّٰہ تعالی کلھا بالغۃ علی ان الحکمۃ نفسہا یستحیل ان لایعتد بھا۔


اقول اولاً یہ واضح ہوچکا کہ سب تعریفیں ایک ہی ہیں۔ثانیاً اگرہم تغایر باقی رکھیں توظاہر آخری دوتعریفیں ہیں۔اس لئے کہ ہمزہ میں ان کے گمان کا انکار ہے تاکہ اس کا اثبات ہوجس کی انہوں نے نفی کی۔اور مراد یہ نہیں کہ کسی بھی فائدہ کا اثبات ہو جائے اگرچہ قابل لحاظ وشمار نہ ہو۔ اوراس لئے ارشاد میں فرمایا: بغیر حکمت بالغہ کے۔ اور جلال نے مطلق رکھا، کیوں کہ اللہ تعالٰی کا ہر حکم بالغ ہے علاوہ ازیں بذاتِ خود حکمت ناممکن ہے کہ غیر معتد بہا ہو۔(ت)


ف ۱: معروضۃ علی العلامۃ الخفاجی ف ۲: معروضۃ اخری علیہ ۔


 (۳؎ الارشاد العقل السلیم تحت الایۃ ۲۳ / ۱۱۵ دار احیاء التراث العربی بیروت ۶ / ۱۵۳ )


اور سیدنا ہُود علٰی نبینا الکریم وعلیہ الصّلوٰۃ والتسلیم نے اپنی قوم عاد سے فرمایا: اتبنون بکل ریع ایۃ تعبثونo وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون ۱؎o کیا ہر بلندی پرایک نشان بناتے ہوعبث کرتے یا عبث کے لئے اور کارخانے بناتے ہوگویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔


 (۱؎ القرآن الکریم  ۲۶ /۱۲۸ و ۱۲۹)


اس آیہ کریمہ میں بعض نے کہا راستوں میں مسافروں کیلئے بے حاجت بھی جگہ جگہ علامتیں قائم کرتے تھے۔ ذکرہ فی الکبیر وتبعہ البیضاوی وابو السعود والجمل قال فی الانوار (ایۃ) علما لمارۃ (تعبثون) ببنائھا اذکانوا یھتدون بالنجوم فی اسفارھم فلا یحتاجون الیھا ۲؎ اھ اسے تفسیر کبیر میں ذکر کیا اور بیضاوی، ابو السعود اورجمل نے اس کا اتباع کیا۔ انوار التنزیل بیضاوی میں ہے (نشان )گذرنے ولوں کے لئے علامت (عبث کرتے ہو) اسے بنا کر۔اس لئے کہ وہ اپنے سفروں میں ستاروں سے راہ معلوم کرتے تھے تو انہیں نشانات کی حاجت نہ تھی اھ۔


 (۲؎ انوار التنزیل ( تفسیر بیضاوی) تحت الایہ    ۲۶ /۱۲۸و ۱۲۹ دارالفکر بیروت     ۴ /۲۴۷ )


فاورد ان لانجوم بالنھار وقد یحدث باللیل من الغیوم ما یسترالنجوم واجاب فی العنایۃ بانھم لایحتاجون الیھا غالبا اذ ا مرالغیم نادر لاسیما فی دیار العرب ۳؎ اھ


اس پراعتراض ہواکہ دن میں ستارے نہیں ہوتے اور رات کو بھی کبھی اتنی بدلی ہوجاتی ہے کہ ستارے چھُپ جاتے ہیں۔ عنایۃ القاضی میں علامہ خفاجی نے اس کا یہ جواب دیاکہ زیادہ ترانہیں اس کی حاجت نہ تھی اس لئے کہ بدلی ہونا نادرہے خصوصاً دیارِ عرب میں۔اھ۔


 (۳؎ عنایۃ القاضی علی التفسیر البیضاوی تحت الایہ     ۶ /۱۲۸و ۱۲۹ دارالکتب العلمیہ بیروت     ۴ /۲۴۷ )


اقـول اولالم ف یجب عن النھار و انمابہ اکثر الاسفار ۔ اقول اولا دن والی صورت سے اعتراض کا جواب نہ دیا جب کہ زیادہ تر سفر دن ہی میں ہوتے ہیں۔


ف:معروضۃ ثالثۃ علیہ ۔


وثـانـیا ان سلم فــــ۱الندور فعمل مایحتاج الیہ ولو احیانا لایعد عبثا قال مع انہ لو احتیج الیھا لم یحتج الی ان یجعل فی کل ریع فان کثرتھا عبث ۱؎ اھ۔


ثانیا اگر بدلی کا نادراً ہی ہونا تسلیم کرلیاجائے توبھی ایسی چیز بنانا جس کی ضرورت پڑتی ہو اگرچہ کبھی کبھی پڑتی ہو،عبث شمار نہ ہوگا۔آگے فرماتے ہیں: باوجود یکہ اگر اس کی ضرورت ہو تو بھی اس کی ضرورت نہیں کہ ہر بلندی پر بنائیں اس لئے کہ ان نشانات کی کثرت بلا شبہہ عبث ہے اھ۔


فــــــــــ۱:معروضۃ رابعۃ علیہ۔


 (۱؎ عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی     تحت الآیۃ ۲۶ /۱۲۸و۱۲۹    دار الکتب العلمیہ بیروت     ۷ /۱۹۹)


اقول ھذا فـــ۲منزع اخر فلا یرفع الایراد عن القاضی قال وقال الفاضل الیمنی ان اما کنہا المرتفعۃ تغنی عنھا فھی عبث۲؎ اھ۔


اقول یہ ایک دوسرا رخ ہے اس سے قاضی کا اعتراض نہیں اٹھتا۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں: فاضل یمنی نے کہا: ان بلند جگہوں سے ان نشانات کا مقصد یونہی پورا ہوجاتاتھا تویہ عبث ٹھہرے اھ۔


فــــــــ۲:معروضۃ خامسۃ علیہ۔


 (۲؎ عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی     تحت الآیۃ ۲۶ /۱۲۸و۱۲۹    دار الکتب العلمیہ بیروت     ۷ /۱۹۹)

اقول اولا  : ارتفاع فــــ۳ الاماکن لا یبلغ بحیث یراھا القاصد من ای مکان بعید قصد ۔


اقول اولا :  جگہوں کی انچائی اس حد تک نہیں ہوتی کہ عازم سفر جس دورجگہ سے بھی چاہے دیکھ لے۔


فـــــــــ۳:معروضۃ سادسۃ علیہ و علی الفاضل الیمنی ۔


وثــانیا : ھوفـــ۴منزع ثالث وکلامنا فی کلامی والانوار،بالجملۃ ھو وجہ زیف ولا اعلم لہ سندا من السلف ولقد احسن النیسابوری اذا سقطہ من تلخیص الکبیر ۔


ثانیا : یہ ایک تیسرا رُخ ہوا۔ اورہماری گفتگو کلام بیضاوی سے متعلق ہے۔الحاصل یہ ایک کمزوروجہ ہے اورسلف سے اس کی کوئی سند میرے علم میں نہیں۔اورنیشاپوری نے بہت اچھا کیا کہ تفسیر کبیر کی تلخیص سے اسے ساقط کردیا۔


ف۴:معروضۃ سابعۃ علیھما۔


اقول : وتعبیری ف۱اذ قلت یبنون من دون حاجۃ ایضا احسن من تعبیر الکبیر ومن تبعہ کما تری۔


اقول میری یہ تعبیر کہ ''بے حاجت بھی بناتے تھے'' تفسیرکبیراوراس کے متبعین کی تعبیرسے بہتر ہے جیسا کہ پیشِ نظر ہے۔(ت)


ف۱:علی الامام الرازی والبیضاوی وابی سعود۔


امام مجاہد و سعید بن جبیر نے فرمایا : جگہ جگہ کبوتروں کی کابکیں بناتے ہیں ۔ رواہ عن الاول ابن جریر۱؎ فی (ایۃ) وھو والفریابی وسعید بن منصور وابن ابی شیبہ و عبد بن حمید واباالمنذر وابی حاتم فی ( مصانع۲؎) وعزاہ للثانی فی المعالم ۳؎ اسے امام مجاہد سے ابن جریر نے''آیہ '' کے معنی میں روایت کیا او رابن جریر،فریابی، سعیدبن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید،ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ان سے''مصانع'' کے معنی میں روایت کیا۔ اورمعالم التنزیل میں اسے حضرت سعیدبن جبیر کے حوالے سے بیان کیا۔(ت)


 (۱؎ جامع البیان( تفسیر الطبری) تحت الایہ ۲۶/ ۱۲۸ دار احیاء التراث العربی بیروت۱۹ / ۱۱۰)

(۲؎ الدرالمنثور بحوالہ الفریابی تحت الایہ ۲۶/ ۱۲۸ دار احیاء التراث العربی بیروت۶ / ۲۸۲)

(۳؎ معالم التنزیل ( تفسیر البغوی ) تحت الایہ ۲۶/ ۱۲۸ دار احیاء التراث العربی بیروت۳ / ۳۳۶)


ان دونوں تفسیروں پر یہ عبث بمعنی دوم ہوگا یعنی لغو و لہو۔ بعض نے کہا ہر جگہ اونچے اونچے محل تکبر وتفاخر کے لئے بناتے ۔ ذکرہ الکبیر ومن بعدہ وللفریابی وابناء حمید وجریر والمنذر وابی حاتم عن مجاھد وتتخذون مصانع قال قصورا مشیدۃ وبنیانا مخلدا ۱؎ ولابن جریر عنہ قال ایۃ بنیان ۲؎۔


اسے تفسیر کبیر میں ذکرکیا اوراس کے بعدکے مفسرین نے بھی۔اورفریابی،ابن حمید،ابن المنذر،ابن ابی حاتم نے حضرت مجاہد سے روایت کی ''وتتخذون مصانع'' انہوں نے کہا مضبوط محل اوردوامی عمارت۔اور ابن جریر نے ان سے روایت کیا کہ آیۃ یعنی عمارت۔(ت)


 (۱؎ الدرالمنثور بحوالہ الفریابی وغیرہ تحت الایہ ۲۶ / ۲۹ ۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ / ۲۸۲

۲؎ جامع البیان ( تفسیر الطبری ) تحت الایہ ۲۶ / ۲۹ ۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۹ / ۱۱۰)


ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منقول ہوا جو راستے سیدنا ہُود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف جاتے ان پر محل بنائے تھے کہ اُن میں بیٹھ کر خدمتِ رسالت میں حاضر ہونے والوں سے تمسخر کرتے ذکرہ فی مفاتیح الغیب ورغائب الفرقان (مفاتیح الغیب ۳؎ (تفسیر کبیر ) اور رغائب الفرقان (نیشاپوری) میں اس کا ذکر کیا گیا۔ ت) یا سرِراہ بناتے ہر راہ گیر سے ہنستے ذکرہ البغوی والبیضاوی۴؎ وابو السعود واقتصر علیہ الجلال۵؎ ملتزما الاقتصار علی اصح الاقوال (ذکر کیا بغوی اور بیضاوی اور ابو السعود نے اختصار کیا جلال نے اختصار اقوالِ اصح میں لازم ہے۔ ت)

ان دونوں تفسیروں پر یہ عبث بمعنی اول ہوگا یعنی قصد شر و ارادہ ضرر۔ بالجملہ دونوں معنے کا پتا قرآنِ عظیم سے چلتا ہے اگرچہ متعارف غالب میں اُس کا استعمال معنی دوم ہی پر ہے بیہودہ وبے معنے کام ہی کو عبث کہتے ہیں نہ کہ معاصی وظلم وغصب وزنا وربا وغیرہا کو۔


 (۳؎ مفاتیح الغیب ( التفسیر الکبیر ) تحت الایہ ۲۶ /۱۲۹دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۴ / ۱۳۵

غرائب القرآن ورغائب الفرقان تحت الایہ ۲۶ / ۱۲۹مصطفی البابی مصر ۱۹ /۶۵

۴؎ معالم التنزیل( تفسیر البغوی ) تحت الایہ ۲۶ /۱۲۹دارالکتب العلمیہ بیروت۳ / ۳۳۷

انوار التنزیل ( تفسیر البیضاوی ) تحت الایہ ۲۶ / ۱۲۹دارالفکر بیروت۴ / ۲۴۸

۵؎ تفسیر الجلالین الایہ ۲۶ / ۱۲۸ا صح المطابع دہلی ص ۳۱۴ )


اذا تقرر ھذا فـاقـول ظھر ان لاعتب علی الامام الجلیل صاحب الھدایۃ رحمہ اللّٰہ تعالی اذ یقول ان العبث خارج الصلاۃ حرام فما ظنک فی الصلوۃ ۶؎ اھ


جب یہ طے ہوگیا تومیں کہتاہوں واضح ہوگیا کہ امام جلیل صاحبِ ہدایہ رحمہ اللہ تعالٰی پرکوئی عتاب نہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ:عبث بیرون نماز حرام ہے تو اندرونِ نماز سے متعلق تمہارا کیا خیال ہے اھ۔


 (۶؎ الھدایہ کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ مایقرہ فیھا المکتبۃ العربیہ کراچی ۱/ ۱۱۹ ،۰ ۱۲)


وقد اقرہ فی العنایۃ والفتح وتبعہ فی الدرر والغنیۃ ولفظ مولٰی خسرو انہ خارج الصلاۃ منھی عنہ فما ظنک فیھا ۱؎ ھ


اسے عنایہ وفتح القدیر میں برقرار رکھااور درروغنیہ میں اس کا اتباع کیا۔مولٰی خسرو کے الفاظ یہ ہیں: وہ بیرونِ نماز منہی عنہ ہے تو اندرونِ نماز سے متعلق تمہاراکیاخیال ہے اھ


 (۱؎ الدرر ا لحکام شرح غرر الاحکام کتاب الصلوۃ مایفسد الصلوۃ میر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۷)


ولفظ المحقق الحلبی العبث حرام خارج الصلاۃ ففی الصلوۃ اولی ۲؎ اھ اورمحقق حلبی کے الفاظ یہ ہیں: عبث بیرونِ نماز حرام ہے تو اندرونِ نماز بدرجہ اولٰی(حرام) ہوگا اھ۔


 (۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی     کراھیتہ الصلوٰۃ     سہیل اکیڈمی لاہور    ص۳۴۹)


فان قلت اطلقوا وانما ھو حکم القسم الاول۔ قلت اصل الکلام فی الصلاۃ وکل عبث فیہا من القسم الاول فتعین مرادا وکان اللام للعھد فحصل التفصی عما او رد فــــ السروجی فی الغایۃ وتبعہ فی البحر والشرنبلالی فی الغنیۃ وش ان العبث خارجہا بثوبہ اوبدنہ خلاف الاولی ولا یحرم قال والحدیث (ای ان اللّٰہ کرہ لکم ثلثا العبث فی الصلاۃ والرفث فی الصیام والضحک فی المقابر رواہ القضاعی۳؎ عن یحیی بن ابی کثیر مرسلا) قید بکونہ فی الصلاۃ ۱؎ اھ


اگر کہئے ان حضرات نے مطلق رکھاہے اور یہ قسم اول کا حکم ہے میں کہوں گااصل کلام نماز سے متعلق ہے اورنمازمیں ہرعبث قسم اول سے ہے تو اسی کا مراد ہونا متعین ہے اور''العبث'' میں لام عہد کا ہے تو اس اعتراض سے چھٹکاراہوگیا جو سروجی نے غایہ میں وارد کیا اور صاحبِ بحر نے بحر میں اورشرنبلالی نے غنیہ میں اورشامی نے اس کی پیروی کی۔(اعتراض یہ ہے)کہ بیرونِ نماز اپنے کپڑے یابدن سے عبث(کھیل کرنا) خلافِ اولٰی ہے، حرام نہیں۔ اور کہا کہ:یہ حدیث''بیشک اللہ نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائیں: نماز میں عبث ،روزے میں بے ہودگی، قبرستانوں میں ہنسنا۔ قضاعی نے یحیٰی بن ابی کثیر سے مرسلاً روایت کی''۔اس میں عبث کے ساتھ اندورنِ نماز ہونے کی قید لگی ہوئی ہے اھ۔(ت)


فــــــ: تظفل علی السروجی والبحر والشرنبلالی و ش۔۔


 (۳؎ البحرالرائق بحوالہ القضاعی فی مسند الشہاب کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ / ۲۰

۱؎ البحرالرائق بحوالہ الغایہ للسروجی کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ / ۲۰

غنیہ ذوی الاحکام فی بغیۃ درر الاحکام علی ہامش درر الحکام باب مایفسد الصلوۃ میر محمد کتب خانہ کراچی ۱ / ۱۰۷

رد المحتار کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۰)


ظاہر ہے کہ معنی اول پر عبث ممنوع وناجائز ہوگا نہ دوم پر ، اور یہاں ہمارا کلام قسم دوم میں ہے یعنی جہاں نہ قصدِ معصیت نہ پانی کی اضاعت۔

بل اقـول  : لک فـــــ ۱ ان تقول ان فی النظر الدقیق لاحکم علی العبث فی نفسہ بالحظر والتحریم اصلا وما کان لانضمام ضمیمۃ ذمیمۃ فانما مرجعہ الیہا دونہ وتحقیق ذلک انا اریناک تظافر الکلمات علی ان مناط العبث علی عدم قصد الفائدۃ بالفعل وھذہ حقیقۃ متحصلۃ بنفسھا ولیس قصد المضر اوعدم قصدہ من مقوماتھا ولا مما یتوقف علیہ وجود ھا کسبب وشرط فیعد من محصلاتھا فاذن لیس قصد مضرٍا لا من مجاوراتھا وما کان لمجاور یکون حکمالہ لالصاحبہ، الا تری البیع یحرم بشرط فاسد وبعد اذان الجمعۃ واذا سئلت عـن حکم البیع قلت مشروع بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ کما ذکرہ فی غایۃ البیان وغیرھا والصلاۃ تکرہ فی ثیاب الحریر للرجل وفی الارض المغصوبۃ ولا یمنعک ذلک بان تقول اذا سئلت عن حکمھا ان الصلاّۃ خیر موضوع فمن استطاع ان یستکثر منھا فلیستکثر کما رواہ ۱؎ الطبرانی فی الاوسط عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان المصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وبالجملۃ یؤاخذ علی المعصیۃ من حیث قصد الشر لا من حیث عدم قصد الخیر وھی انما کانت عبثا من ھذہ الحیثیۃ لامن تلک فلیس الحظر حکم العبث اصلا۔


    بلکہ میں کہتاہوں تم کہہ سکتے ہوکہ بنظرِ دقیق دیکھا جائے توخود عبث پرمنع وتحریم کاحکم بالکل نہیں اور جو حکم منع کسی مذموم ضمیمہ کے شامل ہوجانے کی وجہ سے ہے اس کا مرجع اس ضمیمہ کی طرف ہے عبث کی جانب نہیں۔ اس کی تحقیق یہ ہے کہ ہم دکھا چکے کہ کلمات کا اس پر اتفاق ہے کہ عبث کا مدار اس پر ہے کہ بالفعل فائدہ کا قصد نہ ہو۔ اوریہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود حصول وثبوت رکھتی ہے۔اورمضرکاقصد یاعدمِ قصد اس کا نہ توجز ہے نہ سبب وشرط کی طرح اس پراس کا وجودموقوف ہے کہ اسے اس کا محصّل شمار کیاجائے۔تو کسی مضر کا قصدبس اس کا مجاوِراور اس سے متصل ہی ہوسکتا ہے اورجو حکم کسی مجاوِر ومتصل کے سبب ہو وہ دراصل اسی متصل کا حکم ہے اس کے ساتھ والے کا نہیں۔ ۔۔۔۔۔ دیکھئے کسی شرط فاسد سے بیع حرام ہوتی ہے یوں ہی اذانِ جمعہ کے بعد بیع حرام ہے،اور اگرخود بیع کاحکم پوچھا جائے توجواب ہوگاکہ جائز ،اورکتاب وسنت واجماعِ اُمت سے مشر وع ہے جیسا کہ اسے غایۃ البیان وغیرہامیں ذکرکیا ہے۔ یوں ہی نماز ریشمی کپڑے میں مردکے لئے اورغصب کردہ زمین میں کسی کے لئے بھی مکروہ ہے لیکن اگرخود نماز کا حکم پوچھاجائے توجواب یہی ہوگا نماز ایک وضع شدہ خیر اورنیکی ہے توجس سے ہوسکے کہ اسے زیادہ حاصل کرے تو اُسے چاہئے کہ وہ زیادہ حاصل کرے۔ جیسا کہ اسے طبرانی نے معجم اوسط میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ،مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ الحاصل معصیت پرمواخذہ اس لحاظ سے ہے کہ شرکا قصد ہوا، اس لحاظ سے نہیں کہ خیر کا قصد نہ ہوا، اوروہ عبث اسی حیثیت سے ہے اُس حیثیت سے نہیں توعبث کا حکم ممانعت بالکل نہیں۔(ت)


 (۱؎ المعجم الاوسط حدیث ۲۴۵ مکتبۃ المعارف ریاض     بیروت    ۱ /۱۸۳)


اس کا حکم وہی ہے جو ابھی غایہ سروجی وبحرالرائق وغنیہ شرنبلالی وردالمحتار سے منقول ہوا کہ خلاف اولٰی ہے اور یہی مفاد درمختار ہے ۔ حیث قال کرہ عبثہ للنھی الالحاجۃ ولا باس بہ خارج الصلاۃ ۲؎ اھ فان لاباس لما ترکہ اولی  (اس کے الفاظ یہ ہیں: اس کا عبث نہی کی وجہ سے مکروہ ہے مگریہ کہ کسی حاجت کی وجہ سے ہواوربیرونِ نمازاس میں حرج نہیں اھ۔ اس لئے کہ لاباس(حرج نہیں) اسی کے لئے بولا جاتا ہے جس کا ترک اولی ہے۔(ت)


 (۲؎ الدر المختار کتاب الصلوۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا مطبع مجتباہی دہلی ۱ / ۹۱)


اور یہی وہ ہے جو قول سوم میں ارشاد ہوا کہ پانی میں اسراف نہ کرنا آداب سے ہے۔ اما ما فی الحلیۃ فی مسألۃ فرقعۃ الاصابع فــــ ۱ھل یکرہ خارج الصّلاۃ فی النوازل یکرہ والظاھران المراد کراھۃ تنزیہ حیث لایکون لغرض صحیح اما لغرض صحیح ولو اراحۃ الاصابع فلا ۱؎ اھ


مگر حلیہ میں انگلیاں چٹخانے کے مسئلہ میں ہے: کیا یہ بیرونِ نماز بھی مکروہ ہے؟ نوازل میں ہے کہ مکروہ ہے۔ اورظاہر یہ ہے کہ کراہت تنزیہ مراد ہے جبکہ اس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔اوراگرکسی غرض صحیح کے تحت ہو اگرچہ انگلیوں کو راحت دینا ہی مقصودہوتوکراہت نہیں اھ۔


فــ ۱: مسئلہ نماز میں انگلی چٹخانا گناہ وناجائز ہے یوں ہی اگر نماز کے انتظار میں بیٹھنا ہے یا نماز کے لئے جارہا ہے ۔ اور ان کے سوا اگر حاجت ہو مثلا انگلیوں میں بخارات کے سبب کسل پیدا ہو تو خالص اباحت ہے اور بے حاجت خلاف اولی و ترک ادب ہے ۔


(۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی )


وفی فــــ ۲ تشبیکھا بعد ذکر النھی عنہ فی الصلاۃ وفی السعی الیھا ولمنتظرھا کمثلھم فی الفرقعۃ مانصہ فیبقی فیما وراء ھذہ الاحوال حیث لایکون عبثا علی الاباحۃ من غیر کراھۃ وان کان علی سبیل العبث یکرہ تنزیھا ۲؎ اھ


اور ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے سے متعلق، نمازمیں، اورنمازکے لئے جانے اور نمازکے انتظار کی حالتوں میں انگلیاں چٹخانے کی طرح نہی کاذکرکرنے کے بعد حلیہ میں لکھا ہے: ان کے علاوہ احوال میں جہاں کہ عبث نہ ہو بغیر کسی کراہت کے اباحت پرحکم رہے گا اور اگر بطورِ عبث ہو تومکروہ تنزیہی ہوگااھ۔


ف۲: مسئلہ یہی سب احکام اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کے ہیں .


(۲؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی )


وتبعہ فیہما ش والبحر فی الاولی و زاد انہ لما لم یکن فیھا خارجہا نھی لم تکن تحریمیۃ کما اسلفناہ قریبا ۳؎ اھ


ان دونوں مسئلوں میں شامی نے حلیہ کا اتباع کیا ہے اوربحرنے پہلے مسئلہ میں اتباع کیا ہے اور مزیدیہ لکھا:چوں کہ انگلیاں چٹخانے سے متعلق بیرونِ نماز ممانعت نہیں اس لئے وہاں یہ مکروہ تحریمی نہیں جیساکہ کچھ پہلے اسے ہم بیان کرچکے اھ۔


 (۳؎ بحرالرائق        مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۰)


یرید ماقدم انہ ان لم یکن الدلیل نھیا بل کان مفیدا للترک الغیر الجازم فھی تنزیھیۃ ۱؎ اھ


پہلے یہ بتایا ہے کہ اگردلیل مخالفت نہ کرتی ہوبلکہ غیر جزمی طورپرترک کاافادہ کررہی ہو تو کراہت تنزیہی ہو گی اھ


 (۱؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹

ردالمحتار    کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا     دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۴۲۹)


وعقب الثانیۃ بقولہ وقد قدمناہ عن الھدایۃ ان العبث خارج الصلوٰۃ حرام وحملناہ علی کراھۃ التحریم فینبغی انیکون العبث خارجہا لغیر حاجۃ کذلک ۲؎ اھ


او ربحر نے مسئلہ دوم کے بعد یہ لکھا کہ : ہم ہدایہ کے حوالے سے بیان کرچکے ہیں کہ بیرونِ نماز عبث حرام ہے اور اسے ہم نے کراہت تحریم پر محمول کیا تو بیرونِ نماز بے حاجت عبث کا حکم بھی یہی ہونا چاہئے اھ۔


ف : تطفل علی البحر ۔


 (۲؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۰،۲۱)


فـاقول دعوی کراھۃ التنزیہ مبتنیہ علی عدم الفرق بین خلاف الاولی وکراھۃ التنزیہ وزعم ان ترک کل مستحب مکروہ کما قدمنا فی التنبیہ الثالث عن الحلیۃ ان المکروہ تنزیھا مرجعہ خلاف الاولی والظاھر انہما متساویان وعن البحر ان التنزیہ فی رتبۃ المندوب وعن ش ان ترک المندوب مکروہ تنزیھا وقد علمت ما ھوالتحقیق وباللّٰہ التوفیق۔


اس پرمیں کہتاہوں کراہت تنزیہ کا دعوٰی، خلاف اولٰی اورکراہت تنزیہ کے درمیان عدمِ فرق پر اور اس خیال پر مبنی ہے کہ ہر مستحب کاترک مکروہ ہے جیسا کہ تنبیہ سوم میں حلیہ کے حوالے سے ہم نے نقل کیا کہ: مکروہِ تنـزیہی کا مرجع خلاف اولٰی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں میں تساوی ہے۔ اوربحر سے نقل کیا کہ کراہت تنزیہ کا مرتبہ مندوب کے مقابل ہے اورشامی سے نقل کیاکہ ترکِ مندوب مکروہ تنزیہی ہے۔اور وہاں واضح ہوچکا کہ تحقیق کیاہے،اور توفیق خدا ہی سے ہے۔


اما ما عقب بہ الثانیۃ فاقول اولا اعجب واغرب مع انہ اسلف الاٰن ان لیس خارجہا نھی فلا تحریمیۃ وثانیا فــــ ۱ حققنا ان کلام الہدایۃ فی القسم الاول من العبث فاجراؤہ فی الثانی غیر سدید۔


اب رہا وہ جو بحر نے مسئلہ دوم کے بعد لکھا تو میں کہتاہوں اولاً : بہت زیادہ عجیب وغریب ہے باوجودیکہ ابھی انہوں نے پہلے بتایاکہ بیرونِ نماز نہی نہیں تومکروہ تحریمی نہیں ثانیا ہم تحقیق کرچکے کہ ہدایہ کا کلام عبث کی قسم اول سے متعلق ہے تواسے قسم دوم میں جاری کرنا درست نہیں۔(ت)


ف : تطفل اخر علیہ ۔


ہم اوپر بیان کر آئے کہ کراہت تنزیہی کیلئے بھی نہی ودلیل خاص کی حاجت ہے اور مطلقا کوئی فعل کبھی کسی فائدہ غیر معتد بہا کیلئے کرنے سے شرع میں کون سی نہی مصروف ہے کہ کراہت تنزیہ ہو ہاں خلافِ اولٰی ہونا ظاہر کہ ہر وقت اولی یہی ہے کہ انسان فائدہ معتد بہا کی طرف متوجہ ہو۔ رہی حدیث صحیح


من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ رواہ الترمذی ۱؎ وابن ماجۃ والبیہقی فی الشعب عن ابی ھریرۃ والحاکم فی الکنی عن ابی بکرالصدیق وفی تاریخہ عن علی المرتضی  واحمد والطبرانی فی الکبیر عن سید ابن السید الحسین بن علی والشیرازی فی الالقاب عن ابی ذر والطبرانی فی الصغیر عن زید بن ثابت وابن عساکر عن الحارث بن ھشام رضی اللّٰہ تعالی عنھم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حسنہ النووی وصححہ ابن عبد البر والھیثمی۔


انسان کے اسلام کی خوبی سے ہے یہ بات کہ غیر مہم کام میں مشغول نہ ہولایعنی بات ترک کرے 

(اس کو ترمذی وابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے حضرت ابو ھریرہ سے ،اورحاکم نے کُنٰی میں حضرت ابو بکر صدیق سے اور اپنی تاریخ میں حضرت علی مرتضٰی سے ،اور امام احمد نے اور معجم کبیرمیں طبرانی نے سید ابن سید حضرت حسین بن علی سے، اورشیرازی نے القاب میں حضرت ابو ذر سے ،اورمعجم صغیر میں طبرانی نے حضرت زید بن ثابت سے ،اورابن عساکرنے حضرت حارث بن ہشام سے ، ان حضرات رضی اللہ تعالٰی عنہم نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیا۔ امام نووی نے اسے حسن اور ابن عبدالبروھیثمی نے صحیح کہا۔(ت)


 (۱؎ سنن الترمذی    کتاب الزہد     حدیث ۲۳۲۴ دارالفکر بیروت         ۴ /۱۴۲ 

سنن الترمذی    کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۹۵ 

مجمع الزوائد کتاب الادب باب من حسن اسلام المرء الخ دارالکتب بیروت     ۸ /۱۸ )

اقول : اس کا مفاد بھی اس قدر کہ حسن اسلام سب محسنات سے ہے اور محسّنات میں سب مستحسنات بھی، نہ کہ ہر غیر مہم سے نہی، ورنہ غیر مہم تو بیکار سے بھی اعم ہے، تو سوا مہمات کے سب زیر نہی آکر مباحات سراسر مرتفع ہوجائیں گے۔ لاجرم امام ابنِ حجر مکی شرح اربعین نووی میں فرماتے ہیں: الذی یعنی الانسان من الامور ما یتعلق بضرورۃ حیاتہ فی معاشہ مما یشبعہ من جوع ویرویہ من عطش ویستر عورتہ ویعف فرجہ ونحوہ ذلک مما یدفع الضرورۃ دون ما فیہ تلذذ واستمتاع واستکثار وسلامتہ فی معادہ ۱؎۔


انسان کے لئے مہم امور وہ ہیں جو اس کی حیات ومعاش کی ضر ورت سے وابستہ ہوں اس قدر خوراک جو اس کی بھوک دورکرکے سیری حاصل کرائے اورپانی اس کی پیاس دور کرکے سیراب کردے اور کپڑا جس سے اس کی ستر پوشی ہو اور وہ جس سے اس کی پارسائی کی حفاظت اورعفت ہو،اوراسی طرح کے امور جن سے اس کی ضرورت دفع ہو، اورجس میں اس کے معاد و آخرت کی سلامتی ہو وہ نہیں جس میں صرف لطف ولذت اندوزی اورکثرت طلبی ہو۔(ت)


 (۱؎ شرح اربعین لامام ابن حجر مکی )


ابن عطیہ مالکی کی شرح اربعین میں ہے: مالایعنیہ ھو مالا تدعو الحاجۃ الیہ مما لایعود علیہ منہ نفع اخروی، والذی یعنیہ مایدفع الضرورۃ دون مافیہ تلذذ وتنعم وقال الشیخ یوسف بن عمر مالایعنیہ ھو مایخاف فیہ فوات الاجر والذی یعنیہ ھو الذی لایخاف فیہ فوات ذلک۱؎ اھ مختصرا۔ لا یعنی وغیر مہم امور وہ ہیں جن کی کوئی حاجت نہ ہو ، جن سے کوئی اُخروی فائدہ نہ ہو۔ اورمہم امور وہ ہیں جن سے ضرورت دفع ہو نہ وہ جن میں لذت اندوزی وآسائش طلبی ہو۔ اورشیخ یوسف بن عمر نے فرمایا: لایعنی امور وہ ہیں جن میں اجر فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔اور یعنی و مہم امور وہ ہیں جن میں اجر فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو اھ مختصرا۔(ت)


 (۱؎ شرح اربعین للامام ابن عطیۃ مالکی)


علاّمہ احمد بن حجازی کی شرح اربعین میں ہے: الذی یعنی الانسان من الامور ما یتعلق بضرورۃ حیاتہ فی معاشہ وسلامتہ فی معادہ ومما لایعنیہ التوسع فی الدنیا وطلب المناصب والریاسۃ ۲؎ اھ ملخصا۔ انسان کے لئے مہم وہ امور ہیں جو اس کی معاشی زندگی اوراُخروی سلامتی کی ضرورت سے متعلق ہوں اور لایعنی وغیرمہم امور دنیا کی وسعت اورمنصب وریاست کی طلب ہے اھ ملخصاً۔(ت)


 (۲؎ المجالس السنیہ فی الکلام علی اربعین للنوویہ المجلس الثانی عشر الخ دار احیاء الکتب العربیہ مصر     ص۳۶و۳۷)


تیسیر میں ہے : الذی یعنیہ ما تعلق بضرورۃ حیاتہ فی معاشہ دون ما زاد وقال الغزالی حدما لایعنی ھوالذی لو ترک لم یفت بہ ثواب ولم ینجزبہ ضرر ۱؎۔ مہم امر وہ ہے جواس کی معاشی زندگی کی ضرورت سے وابستہ ہو وہ نہیں جو زیادہ ہو۔اورامام غزالی نے فرمایا: لایعنی کی تعریف یہ ہے کہ اگراسے ترک کردے تو اس سے کوئی ثواب فوت نہ ہو اور اس سے کوئی ضرر عائد نہ ہو۔(ت)


 (۱؎ التیسیرشرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من حسن اسلام المرء الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۳۸۱)


مرقاۃ میں ہے: حقیقۃ مالا یعنیہ مالا یحتاج الیہ فی ضرورۃ دینہ ودنیاہ ولا ینفعہ فی مرضاۃ مولاہ بان یکون عیشہ بدونہ ممکنا وھو فی استقامۃ حالہ بغیرہ متمکنا قال الغزالی وحد مالا یعنیک ان تتکلم بکل مالو سکت عنہ لم تأثم ولم تتضرر فی حال ولا ماٰل ومثالہ ان تجلس مع قوم فتحکی معھم اسفارک ومارایت فیھا من جبال وانھار وما وقع لک من الوقائع وما استحسنتہ من الاطعمۃ والثیاب وما تعجبت منہ من مشائخ البلاد ووقائعھم فھذہ امور لوسکت عنھا لم تأثم ولم تتضرر واذا بالغت فی الاجتھاد حتی لم یمتزج بحکایتک زیادۃ ولا نقصان ولا تزکیۃ نفس من حیث التفاخر بمشا ھدۃ الاحوال العظیمۃ، ولا اغتیاب لشخص ولا مذمۃ لشیئ مما خلقہ اللّٰہ تعالی فانت مع ذلک کلہ مضیع زمانک ومحاسب علی عمل لسانک اذ تستبدل الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر، لانک لو صرفت زمان الکلام فی الذکر والفکر ربما ینفتح، لکن من نفحات رحمۃ اللّٰہ تعالی ما یعظم جدواہ ولو سبحت اللّٰہ تعالی بنی لک بھا قصر فی الجنۃ ومن قدر علی ان یاخذ کنزا من الکنوز فاخذ بدلہ عـــــــہ مدرۃ لاینتفع بھا کان خاسرا خسرانا مبینا وھذا علی فرض السلامۃ من الوقوع فی کلام المعصیۃ وانی تسلم من الافات التی ذکرناھا ۱؎۔


لا یعنی کی حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیاکی ضرورت میں اس سے کام نہ ہو اور رضائے مولا میں وہ نفع بخش نہ ہو اس طرح کہ وہ اس کے بغیر زندگی گزارسکتاہو اور وہ نہ ہو توبھی وہ اپنی حالت درست رکھ سکتا ہو۔امام غزالی نے فرمایا: لایعنی کی حد یہ ہے کہ تم ایسی بات بولو جونہ بولتے تو نہ گنہگار ہوتے نہ حال ومآل میں اس سے تمہیں کوئی ضررہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بیٹھ کر لوگوں سے تم اپنے سفروں کا قصہ بیان کرو اوریہ کہ میں نے اتنے پہاڑ اتنے دریا دیکھے اوریہ یہ واقعات پیش آئے اتنے عمدہ کھانوں اور کپڑوں سے سابقہ پڑا،اورایسے ایسے مشائخِ بلادسے ملاقات ہوئی ان کے واقعات یہ ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو تم نہ بولتے تو نہ گنہگار ہوتے، نہ ان سے تمہیں کوئی ضررہوتا۔ اورجب تمہاری پوری کوشش یہ ہوکہ تمہاری حکایت میں نہ کسی کمی بیشی کی آمیزش ہو،نہ ان عظیم احوال کے مشاہدہ پر تفاخر کے اعتبار سے خود ستائی کا شائبہ ہو، نہ کسی انسان کی غیبت ہو، نہ خدائے تعالٰی کی مخلوقات میں سے کسی شئی کی مذمّت ہو توان ساری احتیاطوں کے بعد بھی تم اپنا وقت برباد کرنے والے ہو اور تم سے اپنی زبان کے عمل پر حساب ہوگا اس لئے کہ تم خیر کے عوض اسے لے رہے ہو جو ادنٰی وکمترہے، کیونکہ گفتگو کا یہ وقت اگرتم ذکر وفکر میں صرف کرتے تورحمتِ الہٰی کے فیوض سے تم پر وہ درفیض کشادہ ہوتا جس کا نفع عظیم ہوتا،اگر تم خدائے بزرگ وبرتر کی تسبیح کرتے تواس کے بدلے تمہارے لئے جنت میں ایک محل تعمیر ہوتا۔جو ایک خزانہ لے سکتا ہو مگر اسے چھوڑ کر ایک بے کار کا ڈھیلا اٹھالے تو وہ کھلے ہوئے خسارہ اور صریح نقصان کا شکار اور یہ اس مفروضہ پر ہے کہ معصیت کی بات میں پڑنے سے سلامت رہ جاؤ، او ر ان آفتوں سے سلامتی کہاں جو ہم نے ذکرکیں۔(ت)


 (عــہ)وقع فی نسخۃ المرقاۃ المطبوعۃ بمصر بدرۃ بالباء وھو تصحیف اھ منہ (م)

مرقاۃ مطبوعہ مصر کے نسخہ میں مدرہ کی جگہ باء سے بدرہ چھپا ہوا ہے یہ تصحیف ہے اھ منہ (ت)


 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح کتاب الادب باب حفظ اللسان تحت الحدیث ۴۸۴۰  المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۵۸۵و۵۸۶)


خلاصہ فـــ۱ ان سب نفیس کلاموں کا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی امت کو لایعنی باتیں چھوڑنے کی طرف ارشاد فرماتے ہیں جتنی بات آدمی کے دین میں نافع اور ثواب الٰہی کی باعث ہویا دنیا میں ضرورت کے لائق ہو جیسے بھُوک پیاس کا ازالہ بدن ڈھانکنا پارسائی حاصل کرنا اُسی قدر امر مہم ہے اور اس سے زائد جو کچھ ہو جیسے دنیا کی لذتیں نعمتیں منصب ریاستیں غرض جملہ افعال واقوال واحوال جن کے بغیر زندگانی ممکن ہو اور ان کے ترک میں نہ ثواب کا فوت نہ اب یا آئندہ کسی ضرر کا خوف وہ سب لایعنی وقابلِ ترک مثلاً لوگوں کے سامنے اپنے سفر کی حکایتیں کہ اتنے عــہ ۱ اتنے شہر اور پہاڑ اور دریا دیکھے عــہ ۲؎ یہ یہ معاملے پیش آئے عــہ ۳ فلاں فلاں کھانے اور لباس عمدہ پائے عــہ۴ ایسے ایسے مشایخ سے ملنا ہوا۔ یہ سب باتیں اگر تو نہ بیان کرتا تو نہ گناہ تھا نہ ضررعــہ ۱ ہوتا اور اگر تو کامل کوشش کرے کہ تیرے کلام میں واقعیت سے کچھ کمی عــہ ۲ بیشی نہ ہونے پائے نہ اس تفاخر سے نفس کی تعریف نکلے کہ ہم نے ایسے ایسے عظیم حال دیکھے نہ اُس عــہ۳میں کسی شخص کی غیبت ہو۔نہ اللہ تعالٰی کی پیدا عــہ۴ کی ہوئی کسی چیز کی مذمت ہو تو اتنی احتیاطوں کے بعد بھی اُس کلام کا حاصل یہ ہوگا کہ تُونے اتنی دیر اپنا وقت ضائع کیا اور تیری زبان سے اُس کا حساب ہوگا تو خیر کے عوض ادنی بات اختیار کررہا ہے اس لئے کہ جتنی دیر تُونے یہ باتیں کیں اگر اتنا وقت اللہ عزوجل کی یاد اور اس کی نعمتوں صنعتوں کی فکر میں صرف کرتا تو غالباً رحمتِ الٰہی کے فیوض سے تجھ پر وہ کھُلتا جو بڑا نفع دیتا او ر تسبیح الٰہی کرتا تو تیرے لئے جنت میں عــہ۱ محل چُنا جاتا اور جو ایک خزانہ لے سکتا ہو وہ ایک نکمّا ڈھیلا لینے پر بس کرے تو صریح زیاں کار ہو اور یہ سب بھی اُس تقدیر پر ہے کہ کلامِ معصیت سے بچ جائے اور وہ آفتیں جو ہم نے ذکر کیں اُن سے بچنا کہاں ہوتا ہے۔ ظاہر ہوا کہ لایعنی جملہ مباحات کو شامل ہے نہ کہ مطلقا مکروہ ہو۔


فـــ۱:حدیث وائمہ کی جلیل نصیحت :لا یعنی باتوں کاموں کے ترک کی ہدایت اور لا یعنی معنی کا بیان ۔

(عــہ۱) اقول مگر جبکہ نیت بیان عجائب وصنعت وحکمت وقدرت ربانی وذکر الٰہی ہو قال تعالٰی


فی الافاق ۲؎ وفی انفسکم افلا تبصرون۳؎ o ۱۲ منہ (م)اللہ تعالٰی نے فرمایا:دنیا بھر میں اور خود تم میں کتنی نشانیاں ہیں تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں۔


 (۲؎القرآن الکریم ۴۱ /۵۳ )  ( ۳؎القرآن الکریم ۵۱ /۲۱)


 (عـــہ۲)اقول؎ مگر جبکہ اُن کے ذکر میں اپنی یا سامعین کی منفعت دینی ہو اور خالص اُسی کا قصد کرے قال اللّٰہ تعالی


وذکرھم بایام اللّٰہ ۴؎  (اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ت )۱۲منہ


 (۴؎القرآن الکریم     ۱۴ /۵)


 (عــہ۳) اقول: مگر جبکہ اُس سے مقصود اپنے اوپر احساناتِ الٰہی کا بیان ہو کہ ایسی جگہ ایسی بے سروسامانی میں مجھ سے ناچیز کو اپنے کرم سے ایسا ایسا عطا فرمایا قال تعالٰی


واما بنعمۃ ربک فحدث۵؎  (اللہ تعالٰی نے فرمایا:اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو۔ت )۱۲منہ


 (۵؎القرآن الکریم     ۹۳ /۱۱)


 (عــہ۴) اقول مگر جبکہ علمائے سنّت وصلحائے امت کے فضائل کا نشر اور سامعین کو ان سے استفادہ کی ترغیب مقصود ہو


عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ ۶؎  (صالحین کے ذکر پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ت)


 (۶؎کشف الخفاء    حدیث ۱۷۷۰    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲/ ۶۵)


 (عــہ۱) اقول ثواب نہ ملنا بھی ایک نوع ضرر ہے خود امام غزالی سے بحوالہ تیسیر اور کلام ابن عطیہ ومرقاۃ میں گزرا کہ جو کچھ آخرت میں نافع ہو لایعنی نہیں ورنہ اس کے یہ معنی لیں کہ جس کے ترک میں نہ گناہ اخروی نہ ضرر دنیوی تو تمام مستحبات بھی داخلِ لایعنی ہوجائیں گے اور وہ بداہۃً باطل ہے ۱۲ منہ (م)

(عــہ۲) اقول یعنی وہ کمی جس سے معنی کلام بدل جائیں جیسے کسی ضروری استثناء کا ترک ورنہ جبکہ ترک کل میں گناہ نہیں ترک بعض میں کیوں ہونے لگا ۱۲ منہ (م)

(عــہ۳) اقول مگر جبکہ جس کی برائی بیان کی وہ گمراہ بد مذہب ہوکہ ان کی شناعت سے مسلمانوں کو مطلع کرنا واجبات دینیہ سے ہے حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اترعون عن ذکر الفاجر متی یعرفہ الناس اذکروا الفاجر بما فیہ یحذرہ الناس ۱؎ کیا فاجر کی برائی بیان کرنے سے پرہیز رکھتے ہو، لوگ اُسے کب پہچانیں گے فاجر میں جو شناعتیں ہیں بیان کرو کہ لوگ اس سے پرہیز کریں رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ والامام الترمذی ا لحکیم فی النوادر والحاکم۔ فی الکنی والشیرازی فی الالقاب وابن عدی فی الکامل والطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی السنن والخطیب فی التاریخ عن معویۃ بن حیدۃ القشیری والخطیب فی رواۃ مالک عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم ۱۲ منہ (م)


 (۱؎نوادرالاصول     الاصل السادس والستون والمائۃ فی ذکرالفاجر    دارصادربیروت    ۱ /۴۵۶

السنن الکبری     کتا ب الشہادات باب الرجل من اہل الفقہ الخ     دارصادربیروت    ۱۰ /۲۱۰

المعجم الکبیر        حدیث ۱۰۱۰    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۹ /۴۱۸

اتحاف السادۃ المتقین بحوالہ الخطیب وغیر ہ     کتاب آفات اللسان     دارالفکربیروت    ۷ /۵۵۶)


 (عــہ۴)اقول مگر جبکہ اس میں مصلحت دینیہ ہو اورمعاذ اللہ اعتراض کے پہلو سے پاک ہو جیسے کچھ لوگ کسی طرف عازمِ سفر ہیں ان کو بتانا کہ فلاں راستہ بہت خراب ہے اس سے نہ جانا یا کوئی کسی عورت سے نکاح چاہتا ہے اسے اس کی صورت نسب وغیرہ وغیرہ میں عیوب معلوم ہیں ان کو خالص خیر خواہی کی نیت سے بیان کرنا لحدیث ان فی اعین الانصار شیئا رواہ مسلم ۲؎عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ (م)


 (۲؎صحیح مسلم     کتاب النکاح باب ندب من اراد نکاح امرأۃالخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۴۵۶)


 (عــہ۱) اقول ہر بار تسبیح الٰہی کرنے پر جنت میں ایک پیڑ بویا جاتا ہے احادیث ۲؎کثیرہ میں ہے:

من احادیث ابن مسعود وابن عمرو وجابر وابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم اما بناء القصر فاللّٰہ تعالی اعلم۔ (م)


 (سنن الترمذی     کتاب الدعوات     حدیث ۳۴۷۵و۳۴۷۶    دارالفکربیروت    ۵ /۱۸۶و۱۸۷)


ہاں مثلاً چار بار پانی ڈالنے کی عادت کرلے تو غالباً اس پر باعث نہ ہوگا مگر وسوسہ اور کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ دیکھنے والے اسے موسوس جانیں گے اور بلا ضرورت شرعیہ محل تہمت میں پڑنا ضرور مکروہ ہے۔ فیذکرعنہ عــہ۲صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یقفن مواقف التھم ۱؎ وفی الباب عن عــہ۱امیر المؤمنین الفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ کہ حضور اکر م سے مذکورہے کہ جو خدا اور روزِ آخر پر ایمان رکھتا ہووہ ہرگز تہمت کی جگہ نہ ٹھہرے اوراس باب میں امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔(ت)


 (عــہ۲)اوردہ فی الکشاف من اخرسورۃ الاحزاب والعلامۃ الشرنبلالی قبیل سجود السھو من مراقی الفلاح۔ (م)

کشاف میں سورہ احزاب کے آخر میں اور علامہ شرنبلالی نے سجدہ کے بیان میں مراقی الفلاح میں لکھا ہے۔ (ت)


 (۱؎الکشاف     تحت الآیۃ ۳۳ /۵۶    دارالکتاب العربی     ۳ /۵۵۸

کشف الخفا    حدیث ۸۸    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱ /۳۷

مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی     باب ادراک الفریضہ     دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۴۸۸ )


 (عــہ۱) رواہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ قال من اقام نفسہ مقام التہمۃ فلا یلومن اساء الظن بہ ۱؎ ۱۲ منہ 

خرائطی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مکارم الاخلاق میں امیر المومنین عمر فاروق سے روایت کیا ہے کہ جس نے تہمت کی جگہ اپنے آپ کو پہنچایا تو بدگمانی کرنے والے کو ملامت نہ کرو۔ (ت)


 (کشف الخفاء    بحوالہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق تحت الحدیث ۸۸ دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱ /۳۷)

یہ منشأ قول دوم ہے

بالجملہ حاصل حکم یہ نکلا بے حاجت زیادت اگر باعتقاد سنیت ہو مطلقاً ناجائز وگناہ ہے اگرچہ دریا میں اور اگر پانی ضائع جائے تو جب بھی مطلقاً مکروہ تحریمی اگرچہ اعتقاد سنیت نہ ہو اور اگر نہ فساد عقیدت نہ اضاعت تو خلاف ادب ہے مگر عادت کرلے تو مکروہ تنزیہی یہ ہے بحمداللہ تعالٰی فقہ جامع وفکر نافع ودرک بالغ ونور بازغ وکمال توفیق وجمال تطبیق وحُسن تحقیق وعطر تدقیق وباللّٰہ التوفیق والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔


اقول اس تنقیح جلیل سے چند فائدے روشن ہوئے:

اولا اصل حکم وہی ہے جو امام محرر المذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتاب اصل میں ارشاد فرمایا کہ بقیہ احکام کے مناط عقیدت واضاعت وعادت ہیں اور وہ نفس فعل سے زائد، فی نفسہ اُس کا حکم اُسی قدر کہ قول سوم میں مذکور ہوا۔

ثانیا دوم وسوم میں اُس زیادت کو اسراف سے تعبیر فرمانا محض بنظر صورت ہے ورنہ جب نہ معصیت نہ اضاعت تو حقیقت اسراف زنہار نہیں۔

ثالثا دربارہ زیادت منع واجازت میں عادت وندرت کو دخل نہیں کہ فساد عقیدت یا پانی کی اضاعت ہو تو ایک بار بھی جائز نہیں اور اُن دونوں سے بری ہو تو بارہا بھی گناہ معصیت نہیں کراہت تنزیہی جدا بات ہے، ہاں دربارہ نقص یہ تفصیل ہے کہ بے ضرورت تین بار سے کم دھونے کی عادت مکروہ تحریمی اور احیاناً ہو تو بے فساد عقیدت صرف مکروہ تنزیہی ورنہ تحریمی کہ تثلیث سنّتِ مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کے ترک کا یہی حکم بخلاف زیادت کہ ترک تثلیث نہیں بلکہ تثلیث پُوری کرکے زیادت ہے۔


وبہ ظھرفــ ضعف ما مر عن العلامۃ ش فی التنبیہ الخامس من التوفیق بین نفی البدائع الکراھۃ ای التحریمیۃ عن الزیادۃ علی الثلاث والنقص عنھا عند عدم الاعتقاد مع اشعار الفتح وغیرہ بثبوتھا اذا زاد اونقص لغیر حاجۃ بان محمل الاول اذا فعلہ مرۃ والثانی علی الاعتیاد فھذا مسلم فی النقص ممنوع فی الزیادۃ۔


اسی سے اس تطبیق کی کمزوری ظاہر ہوگئی جو علامہ شامی سے ہم نے تنبیہ پنجم میں نقل کی۔ تفصیل یہ کہ صاحبِ بدائع نے تین بارسے کم وبیش دھونے سے متعلق بتایا کہ اگر (کمی بیشی کے مسنون ہونے) کا اعتقاد نہ رکھتا ہو تو مکروہ نہیں یعنی مکروہ تحریمی نہیں۔ اورصاحبِ فتح القدیر وغیرہ نے پتا دیا کہ اگرزیادتی یا بے حاجت کمی کرے تو کراہت ثابت ہے اگرچہ وہ تین باردھونے کو ہی مسنون مانتا ہو۔ علامہ شامی کی تطبیق یہ ہے کہ نفی بدائع کا مطلب یہ ہے کہ اگرکبھی ایک بار کمی بیشی کا مرتکب ہوا توکراہت نہیں اور فتح وغیرہ کے اثبات کراہت کا معنٰی یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کی عادت کرے توکراہت ہے۔ اس تطبیق پر کلام یہ ہے کہ کمی کی صورت میں تو یہ تسلیم ہے مگر زیادتی کی صورت میں تسلیم نہیں (جیسا کہ اوپر واضح ہوا۔م)


فــ:حدیث وائمہ کی جلیل نصیحت :لایعنی باتوں کاموں کے ترک کی ہدایت ،اورلایعنی کے معنی کابیان ۔


اما الاستناد الی مفہوم تفریع الفتح وغیرہ المارثمہ وقد تمسک بہ ایضا العلامۃ ط علی ان کراھۃ الاسراف کراھۃ تحریم حیث قال اقول یاثم بالاسراف ولو اعتقد سنیۃ الثلاث فقط فلذا قالوا فی المفھوم (ای بیان مفہوم قولھم ان الحدیث محمول علی الاعتقاد) حتی لورأی سنیۃ العدد وزاد لقصد الوضوء علے الوضوء اولطمانینۃ القلب اونقص لحاجۃ فلا باس بہ (ای فافادوا ان لو زاد بلا غرض کان فیہ باس) ولو کان کما ذکر (ان لاباس الا فی الاعتقاد) لاتکرہ الزیادۃ مطلقا ۱؎ اھ مزیدا منا بین الاھلۃ ۔


اب ایک بحث اور رہ گئی کہ فتح القدیر وغیرہ میں جیساکہ وہاں گزرا وعیدحدیث کو عدم اعتقاد پرمحمول کرکے یہ تفریع کی ہے کہ اگرکسی حاجت کے تحت کمی بیشی کی تو اس میں حرج نہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بلا حاجت کمی بیشی ہے تومکروہ ہے۔اس تفریع کے مفہوم سے علامہ شامی نے اسراف کی کراہت پر استناد کیاہے اوراس سے علامہ طحطاوی نے بھی اسراف کی کراہت تحریم پراستناد کیاہے وہ کہتے ہیں: میں کہتاہوں اگرصرف تثلیث کے مسنون ہونے کااعتقاد رکھتا ہو تو بھی اسراف سے گنہگار ہوجائے گا۔اسی لئے مفہوم میں (''حدیث اعتقاد پرمحمول ہے''اس کلام کے مفہوم کے بیان میں) علما نے کہاہے کہ ''اگر تین کے عدد کومسنون مانتاہواوروضوعلی الوضو کے ارادے سے یااطمینان قلب کے لئے زیادتی کر دے یا کسی حاجت کی وجہ سے کمی کردے توکوئی حرج نہیں''۔ یعنی اس سے مستفاد یہ ہواکہ اگر بلا غرض زیادہ کردے تو اس میں حرج ہے) اور اگرایسا ہوتا جیسا ذکر کیاگیا(کہ حرج صرف اعتقاد خلاف میں ہے) تو''مطلقاً'' زیادتی مکروہ نہ ہوتی اھ طحطاوی کی عبارت ہلالین کے درمیان ہمارے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔


 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمحتار    کتاب الطہارۃ     المکتبۃ العربیہ بیروت         ۱ /۷۲)


وھذا ھو منزع کلام ش بیدانہ حملہ علی التعود واطلق ط۔ اقول ولاطلاقہ مستندات کما علمت امافــ تفصیل ش ان الاسراف یکرہ تنزیھا ان وقع احیانا وتحریما ان تعود فلا اعلم من صرح بہ وکانہ اخذہ من جعل النھر ترکہ سنۃ مؤکدۃ مع خلافہ لہ فی حمل الکراھۃ علی التحریم۔


کلام شامی کا منشابھی یہی ہے فرق یہ ہے کہ انہوں نے اسے عادت پرمحمول کیاہے اور طحطاوی نے مطلق رکھا ہے اقول اوران کے اطلاق کی تائیدمیں کچھ قابلِ استناد عبارتیں ہیں جیساکہ معلوم ہوا۔ رہی علامہ شامی کی یہ تفصیل کہ اسراف اگر احیاناً واقع ہوتومکروہ تنزیہی ہے اورعادۃً ہوتومکروہ تحریمی ہے،میرے علم میں کسی نے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔علامہ شامی نے شاید اس کو اس سے اخذ کیاہے کہ صاحبِ نہر نے ترک  اسراف کو سنتِ مؤکدہ قراردیاہے باوجودیکہ صاحبِ نہر نے اسراف کی کراہت کا تحریمی ہونا ظاہر کیاتو علامہ شامی نے ان کی مخالفت کی ہے۔


فــ:معروضۃ اخری علیہ ۔


فاقول ھم فــ۱انفسھم فی ابانۃ المفھوم وشرح نوطھم الحکم بالاعتقاد فذکروا تصویرا لا یکون فیہ الزیادۃ والنقص لاجل الاعتقاد بل لغرض اخرلان العاقل لابد لفعلہ من غرض فاذا لم یکن المشی علی مااعتقد فلیکن ماذکروا فلا یدل علی ادارۃ الامر علی ھذا التصویر والا لخالف الشرح المشروح فان المشروح ناطہ بالاعتقاد وصرح ان لو زاد او نقص واعتقدان الثلاث سنۃ لایلحقہ الوعید کما تقدم عن البدائع وھذا ینوطہ بشیئ اخر غیرہ وبالجملۃ لانسلم ان لشرح المفھوم مفھوما اخرو ان فــ۲سلم فمفہومہ معارض لمنطوق البدائع وغیرھا والمنطوق مقدم فافھم۔


اب تفریع مذکورکے مفہوم سے استناد پر میں کہتاہوں وہ حضرات توخود مفہوم کی توضیح کررہے ہیں اور اس بات کی تشریح فرمارہے ہیں کہ حکم حدیث کو انہوں نے اعتقاد سے وابستہ رکھا ہے اسی کے لئے انہوں نے ایسی صورت پیش کی ہے جس میں زیادتی یاکمی اعتقاد کی وجہ سے نہ ہو بلکہ کسی اور غرض کے تحت ہو۔اس لئے کہ کارعاقل کے لئے کوئی غرض ہونا ضروری ہے۔ تواگر اس کے اعتقادپر نہ چلیں تووہی ہونا چاہئے جو ان حضرات نے ذکر کیا(اب اگر اعتقاد کو بنیاد نہ مان کر مطلقاً اسراف کومکروہِ تحریمی کہتے ہیں۱۲م)تو یہ اس کو نہیں بتاتا کہ مدارِ کا راُس صورت پرہے جو ان حضرات نے پیش کی ورنہ شرح اورمشروح مخالفت لازم آئے گی اس لئے کہ مشروح نے توحکم کامدار اعتقاد پر رکھا ہے اور یہ صراحت کردی ہے کہ اگرتین باردھونے کوسنت مانتے ہوئے زیادتی یا کمی کی تووعید اسے لاحق نہ ہوگی جیساکہ بدائع سے نقل ہوا۔اورشرح حکم کو اس کے علاوہ کسی اورچیز سے وابستہ کرتی ہے۔الحاصل ہم یہ نہیں مانتے کہ شرحِ مفہوم کا کوئی دوسرا مفہوم ہوسکتاہے۔اگراسے تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس کا مفہوم بدائع وغیرھا کے منطوق کے معارض ہے اورمنطوق مقدم ہوتاہے۔تو اسے سمجھو۔


فــ۱:معروضۃ ثالثۃ علیہ وعلی العلامۃط۔

فــ۲:معروضۃ رابعۃ علی ش واخری علی ط۔


رابعا جبکہ حدیث نے بے قید حال ومکان زیادت ونقص پر حکم اسأت وظلم وتعدی ارشاد فرمایا اور زیادت میں تعدی خاص مکان اضاعت میں ہے اور نقص میں خاص بحال عادت لہٰذا ہمارے علماء کرام رحمہم اللہ تعالٰی نے حدیث کو ایک منشاء ونیت یعنی اعتقاد سنیت پر حمل فرمایا جس سے بے قید حال ومکان مطلقاً حکم تعدی واسأت ہو۔


خامسا بدائع وغیرہ کی تصریح کہ اگر بے اعتقاد سنیت نقص وزیادت ہو تو وعید نہیں صحیح ونجیح ہے کہ عادت نقص یا اضاعت زیادت میں طوق وعید اس ضم ضمیمہ پر ہے تو فعل بجائے خود اپنے منشأ وغایت ومقصد نیت میں مواخذہ سے پاک ہے کما علمت ھکذا ینبغی التحقیق واللّٰہ تعالٰی ولی التوفیق  (جیسا کہ واضح ہوا ، اسی طرح تحقیق ہونی چاہئے ، اور خدا ہی مالکِ توفیق ہے۔ ت) الحمد للہ اس امر پنجم اعنی حکم اسراف آب کا بیان ایسی وجہ جلیل وجمیل پر واقع ہوا کہ خود ہی ایک مستقل نفیس رسالہ ہونے اور تاریخی نام


برکات السماء فی حکم اسراف الماء


رکھنے کے قابل والحمدللّٰہ علی نعمہ الجلائل وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید الا واخر والاوائل واٰلہ وصحبہ الکرام الافاضل۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے