Music

header ads

Ghusul khana kaisa hona chayiye بعد نہانے کے زید نے ہاتھ سے دبادیا کہ وہ پانی بہہ کر نکل گیا

 مسئلہ ۱۰: ۱۰ محرم الحرام ۱۳۲۵ھ :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے ایک پھڑیا تھی اُس نے اوپر کی جانب سے منہ کیا اور پھوٹی، بہی، بالکل اچھی ہوگئی، مگر اس کا بالائی پوست اور اس کے نیچے خالی جگہ ہنوز باقی ہے۔ زید نہایا غسل کا پانی کہ اوپر سے بہتا آیا اُس خلا میں بھر گیا، بعد نہانے کے زید نے ہاتھ سے دبادیا کہ وہ پانی بہہ کر نکل گیا، اس صورت میں وضو ساقط ہوا یا نہیں ؟اور جس بدن پر وہ پانی گزرا پاک رہا یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔


الجواب :جب فـــ کہ وہ پانی پھڑیا کا نہیں بلکہ خالص غسل کا ہے پھڑ یا بالکل صاف ہوگئی تھی کہ اُس میں خون پیپ کچھ نہ رہا تھا تو نہ وضو گیا نہ بدن ناپاک ہوا۔


فــــ:مسئلہ پُھڑیا بالکل اچھی ہو گئی اس کا مردہ پوست باقی ہے جس میں اوپر منہ اور اندر خلاہے نہانے میں اس میں پانی بھر گیا پھر دبا کر نکال دیا وضو نہ جائے گا نہ وہ پانی ناپاک ہوا ۔


جواہر الفتاوٰی امام کرمانی باب رابع فتاوائے امام نجم الدین عمر نسفی میں ہے: جرح لیس فیہ شیئ من قیح اودم اوصدید دخل صاحبہ الحمام فدخل ماء الحمام الجرح فلما خرج من الحمام عصر الجرح فخرج ماء الحمام لاینتقض الوضوء لان الخارج ماء الحمام لاما حصل من الجرح ۱؎۔ ایسا زخم جس میں پیپ ، خون ، صدید کچھ نہیں ، زخم والا حمام گیا حمام کا پانی زخم میں چلا گیا ، جب وہ حمام سے باہر آیا تو زخم نچوڑا جس سے حمام کا پانی نکل گیا تو وضو نہ جائے گا اس لئے کہ جو نکلا وہ حمام کا پانی ہے وہ نہیں جو زخم سے پیدا ہوا ۔ (ت)


(۱؎ جواہر الفتاوی )


اسی طرح خلاصہ میں ہے: ولفظھا فخرج منہ الماء وسال لاینقض ۲؎۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : تو اس سے پانی نکلا اور بہا تو اس سے وضو نہ جائے گا ۔ (ت)


 (۲؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارۃ الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۷)


وجیز امام کردری میں ہے: دخل الماء جرحہ ولادم ولا صدید فیہ ثم خرج منہ لاینقض ۳؎۔ زخم میں پانی چلا گیا اور اس میں خون ، صدید کچھ نہ تھا وہ پانی اس سے نکلا تو وضو نہ جائیگا ۔ (ت)


 (۳؎ الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ جکتاب الطہارۃ نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۲)


خزانۃ المفتین میں ہے: الماء اذا دخل الجرح ثم خرج لایضر ۴؎ اھ ۔ پانی زخم میں بھر گیا پھر نکلا تو ضرر نہیں اھ(ت)


 (۴؎ خزانۃ المفتین کتاب الطہارۃ نواقض الوضوء (قلمی ) ۱ /۵)


اقول: رمزلہ خ یعنی الخلاصۃ وقد بالغ فــــ فی الاختصار حتی بلغ الاقتصاد فانہ صور المسألۃ بقولہ جرح لیس فیہ شیئ من الدم والقیح ۱؎الخ کما صور مأخذہ فتاوی الامام النسفی والاٰخذ منہ وجیز الکردری ۔


اقول :اس کے لئے خ یعنی خلاصہ کا رمز دیا اور اتنا زیادہ اختصار کر دیا کہ حدِ قصور تک پہنچ گیا اس لئے کہ خلاصہ میں صورتِ مسئلہ اس طرح بیان کی ہے : ایسا زخم ہے جس میں خون ، پیپ کچھ نہیں الخ جیسا کہ اس کے ماخذ فتاوٰی امام نسفی میں بیان کیا ہے اور خلاصہ سے اخذ کرنے والے امام کردری نے وجیز میں بیان کیا ہے ۔


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارۃ الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۷)


فــــ: تطفل علی خزانۃ المفتین ۔


ولابد منہ لانہ لوفــــ۱کان فیہ ذلک یتنجس الماء بالمجاورۃ فینقض بالمجاوزۃ لان خروج نجس سال ناقض مطلقا وان کان شیئا طاھرا انما اکتسب النجاسۃ فی الباطن بالجوار الا تری انہ اذا شرب فـــ۲الماء ووصل معدتہ ثم خرج بالقیئ من ساعتہ وکان ملأفیہ نقض قال فی الدر وان لم یستقر وھو نجس مغلظ ولو من فـــ۳ صبی ساعۃ ارتضاعہ ھو الصحیح لمخالطۃ النجاسۃ ذکرہ الحلبی ۲؎ اھ


 (۲؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۵ و ۲۶)


اور اسے بیان کرنا بہت ضروری ہے اس لئے کہ اگر زخم میں خون پیپ وغیرہ کچھ رہا ہو تو بعد میں اندر جانے والا پانی اتصال کی وجہ سے نجس ہو جائے گا پھر زخم سے تجاوز کرنے پر وضو توڑ دے گا اس لئے کہ ایسے نجس کا نکلنا جو بہہ جائے مطلقاً ناقضِ وضو ہے اگرچہ وہ پہلے کوئی پاک چیز رہی ہو اندر جا کر صرف اتصال کی وجہ سے نجس ہو گئی ہو دیکھئے جب پانی پیا اور معدہ میں پہنچ گیا پھر فوراً قے کے ساتھ نکل آیا اور قے منہ بھر کر تھی تو وہ ناقضِ وضو ہے ، درمختار میں ہے : اگرچہ اندر ٹھہرا نہ ہو اور وہ نجاستِ غلیظہ ہے اگرچہ بچّے سے دودھ پیتے ہوئے ایسا ہوا ہو یہی صحیح ہے کہ نجاست سے اختلاط ہو گیا اسے حلبی نے ذکر کیا ۔اھ


فــــ۱:مسئلہ پھڑیا میں اگر ابھی خون وغیرہ رطوبت باقی ہے نہانے کا پانی اس میں بھرا اور بہہ کر نکلا وضو جاتا رہے گا کہ وہ پانی نجس ہو گیا ۔

فــــ۲:مسئلہ پانی پیا اور معدے میں اُتر گیا اور معاً قے ہو کر ویسا ہی صاف نتھرا پانی نکل گیا وضو جاتا رہا جب کہ منہ بھر کر ہو اور وہ پانی بھی نا پاک ہے ۔

فـــ ۳:مسئلہ بچے نے دودھ پیا اور معدے تک پہنچا ہی تھا کہ فوراً ڈال دیا وہ دودھ نجس ہے جبکہ منہ بھر ہو روپے بھر جگہ سے زیادہ جس چیز پر لگ جائے گا ناپاک کر دے گا ۔


فان قلت ھنا روایۃ اخری ان قیئ الماء لاینتقض مالم یستحل وقد صحح ایضا قال فی البحر تحت قول المتن وقیئ ملافاہ ولوطعاما اوماء اطلق فی الطعام والماء قال الحسن اذا تناول طعاما اوماء ثم قاء من ساعتہ لاینقض لانہ طاھر حیث لم یستحل وانما اتصل بہ قلیل القیئ فلا یکون حدثا فلا یکون نجسا وکذا الصبی اذا ارتضع وقاء من ساعتہ وصححہ فی المعراج وغیرہ ومحل الاختلاف اذا وصل الی معدتہ ولم یستقر،امالو قاء قبل فــــ الوصول الیہا وھو فی المریئ فانہ لاینقض اتفاقا کماذکرہ ۱؎ الزاھدی اھ


اگر سوال ہو کہ یہاں ایک روایت اور ہے وہ یہ کہ پانی کی قے ناقضِ وضو نہیں جب تک کہ پانی متغیر نہ ہو ا ہو اس روایت کی تصحیح بھی ہوئی ہے کنز میں ہے : اور وہ قے جو منہ بھر ہو اگرچہ کھانے یا پانی کی ہو اس پر بحر میں کہا :کھانے اور پانی میں حکم مطلق بیان کیا حسن بن زیاد نے کہا جب کھانا کھائے یا پانی پئے پھر فوراً قے کر دے اور وہ ناقض نہیں اس لئے کہ وہ پاک ہے کیوں کہ ابھی وہ متغیر نہ ہوا صرف یہ ہے کہ اس سے تھوڑی سی قے کا اتصال ہوا تو یہ حدث نہیں تو نجس بھی نہیں ، اسی طرح بچہ جب دودھ پئے اور فوراً قے کر دے ، اسے معراج وغیرہ میں صحیح کہا- اور محلِ اختلاف وہ صورت ہے جب معدہ تک پہنچ گیا ہو اور ٹھہرا نہ ہو ، اور اگر معدہ تک پہنچنے سے پہلے قے کر دی جب کہ وہ کھانا پانی گزرنے کی نالی ہی میں تھا تو بالاتفاق ناقضِ وضو نہیں جیسا کہ زاہدی نے ذکر کیا ہے اھ۔


 (۱؎ البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۴)


فــــ: مسئلہ پانی پیا کہ اور ابھی سینے ہی تک پہنچا تھا کہ اُچھو سے نکل گیا وہ ناپاک نہیں ، نہ اس سے وضو جائے ، یونہی دودھ۔


وقال المحقق فی الفتح تحت قول الھدایۃ ان قاء بلغما فغیرناقض وقال ابو یوسف ناقض لانہ نجس بالمجاورۃ ولھما انہ لزج لاتتخللہ النجاسۃ وما یتصل بہ قلیل والقلیل فی القیئ غیر ناقض مانصہ ''وعلی ھذا یظھر ماء فی المجتبی عن الحسن لوتناول طعاما اوماء ثم قاء من ساعتہ لاینتقض لانہ طاھر ۱؎ الی اٰخر مامر عن البحر الی مسئلۃ ارتضاع الصبی قال المحقق قیل ھو المختار وما فی القنیۃ لو قاء فــــ۱ دودا کثیرا اوحیۃ ملأت فاہ لاینقض۲؎ اھ''وقال المحقق ایضا فی باب الانجاس مرارۃ فــــ ۲ کل شیئ کبولہ واجترارہ فــــ۳ کسرقنیہ قال فی التجنیس لانہ و اراہ جوفہ الاتری ان مایواری جوف الانسان بان کان ماء ثم قاء فحکمہ حکم بولہ انتھی۔


ہدایہ کی عبارت ہے :'' اگر بلغم کی قے کی تو وہ ناقض نہیں اور امام ابو یوسف نے فرمایا ناقض ہے اس لئے کہ اتصال کی وجہ سے وہ نجس ہے اور طرفین کی دلیل یہ ہے کہ وہ لیس دار ہے جس میں نجاست سرایت نہیں کر پاتی اور جو کچھ اس سے لگا ہوا ہے وہ قلیل ہے اور قے میں قلیل غیر ناقض ہے '' اس کے تحت فتح القدیر میں حضرت محقق یہ لکھتے ہیں : اور اس بنیاد پر وہ ظاہر ہے جو مجتبی میں حسن سے منقول ہے کہ اگر کھانا کھایا یا پانی پیا پھر فوراً قے کر دی تو وضو نہ ٹوٹے گا اس لئے کہ وہ پاک ہے ( اس عبارت کے آخر تک جو بحرکے حوالے سے بچے کے دودھ پینے کے مسئلے تک گزری ) حضرت محقق نے فرمایا:وہی مختار ہے۔ اور وہ بھی ظاہر ہے جو قنیہ میں ہے کہ اگر بہت کیڑوں یا سانپوں سے منہ بھری قے کی تو ناقض نہیں اھ اور حضرت محقق ہی نے باب الانجاس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر جاندار کا پِتّہ اس کے پیشاب کے حکم میں ہے اور اس کی جگالی اس کے گوبر ، مینگنی کے حکم میں ہے تجنیس میں کہا اس لئے کہ اسے اس کے جوف نے چھپا رکھا ہے ، دیکھو جسے انسان کے جوف نے چھپا لیا ہو مثلاً پانی تھا پھر اس کی قے کی تو اس کا حکم اس کے پیشاب کا ہے انتہی ۔


 (۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی نواقض الوضوء مکتبہ نوریہ سکھر ۱ /۴۱) 

(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی نواقض الوضوء مکتبہ نوریہ سکھر ۱ /۴۱)


فـــــ۱: مسئلہ اگر معاذ اللہ کیڑے قے ہو گئے یا سانپ ، وضو نہ جائے گا اگرچہ منہ بھرکر ہو ۔

فــــ۲ :مسئلہ ہر جاندار کا پِتّہ اس کے پیشاب کے حکم میں ہے مثلاً آدمی کے پت نجاست غلیظہ ہیں گھوڑے گائے کے نجاست خفیفہ ۔

فــــ۳ : مسئلہ ہر جانور کی جگالی اس کے گوبر مینگنی کے حکم میں ہے مثلاً اونٹ ، گائے ، بھینس ، بکری کی نجاست خفیفہ اور جلالہ کی غلیظہ ۔

وھو یقتضی انہ کذلک وان قاء من ساعتہ (ای لانہ ایضا واراہ جوفہ قال) وقد منا فی النواقض عن الحسن ماھوالاحسن وقد صححہ (ای صاحب التجنیس) بعد قریب ورقۃ فقال فی الصبی ارتضع ثم قاء فاصاب ثیاب الام ان زاد علی الدرھم منع قال و روی الحسن عن ابی حنیفۃ انہ لایمنع مالم یفحش لانہ لم یتغیر من کل وجہ فکان نجاستہ دون نجاسۃ البول بخلاف المرارۃ لانھا متغیرۃ من کل وجہ کذا فی غریب الروایۃ عن ابی حنیفۃ وھو الصحیح وفیہ ماذکرنا۱؎ اھ فقد صححہ فی المعراج وغیرہ وقیل ھو المختار واستظہرہ المحقق وجعلہ الاحسن فلعل الی ھذا مال فی خزانۃ المفتین فحذف ذلک القید۔


اس کا مقتضا یہ ہے کہ اگر فوراً قے کی ہو تو بھی یہی حکم ہے (یعنی اس لئے کہ اسے بھی اس کے جوف نے چھپا لیا تھا ۔ آگے ہے :) اور ہم نواقض میں حسن سے وہ نقل کر چکے ہیں جو احسن ہے اور تقریباً ایک ورق کے بعد اسے ( صاحبِ تجنیس نے) صحیح بھی کہا ہے وہ فرماتے ہیں :بچہ نے دودھ پیا پھر قے کر دی جو ماں کے کپڑے پر لگ گئی اگر وہ ایک درہم سے زیادہ ہے تو ممانعت ہے اور حسن نے امام ابو حنیفہ سے روایت کی ہے کہ مانع نہیں جب کہ بہت زیادہ نہ ہو ، اس لئے کہ وہ پوری طرح متغیر نہ ہوا تو اس کی نجاست پیشاب کی نجاست سے کم ہو گی بخلاف پِتّے کے اس لئے کہ وہ ہر طرح بدل چکا ہے ،ایسا ہی غریب الروایہ میں امام ابو حنیفہ سے مروی اور وہی صحیح ہے اور اس میں وہ کلام ہے جو ہم نے ذکر کیا اھ تو اسے معراج وغیر ہ میں صحیح کہا اور کہا گیا کہ وہی مختار ہے اور حضرت محقق نے اسی کو ظاہر کہا اور احسن قرار دیا تو شاید خزانۃ المفتین کا میلان اسی طرف ہو اس لئے وہ قید حذف کر دی ۔


 (۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ باب الانجاس وتطہیرہا المکتبۃ النوریۃ الرضویۃ بسکھر ۱ /۱۷۹ و ۱۸۰)


قلت اولا :لو اختار ھذا ماکان لیعزوالی الخلاصۃ مالم تردہ۔ میں جواب دوں گا ،


اولاً :اگر اسے اختیار کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا کہ خلاصہ کے کے حوالے سے وہ بات بیان کریں جو اس نے مراد نہ لی۔


وثانیا: قد تبع الخلاصۃ بعد ھذا بسطرین فاطلق مسألۃ قیئ الطعام والماء اطلاقا کما ارسلت المتون والعامۃ۔


ثانیاً :اس کے دو سطر بعد خلاصہ کی تبعیت کرتے ہوئے کھانے اور پانی کی قے کو مطلق بیان کیا ہے جیسے متون اور عامہ مصنفین نے بغیر قید کے ذکر کیا ہے ۔


وثالثا: رأیتنی کتبت علی ھامش الفتح من النواقض مانصہ قولہ وعلی ھذا یظھر مافی المجتبی الخ ۔


ثالثاً :میں نے دیکھا کہ فتح القدیر باب النواقض کے حاشیہ پر میں نے یہ لکھا ہے : قولہ اس بنیاد پر وہ ظاہر ہے جو مجتبی میں ہے الخ۔


اقول:  وباللّٰہ التوفیق فی ھذا فــــ الظھور خفاء شدید فان الماء والطعام وان لم یستحیلا لکنہما یقبلان النجاسۃ بالمجاورۃ فاذا اعادا من معدن النجس کانا متنجسین وان لم یکونا نجسین فیجب النقض بھما کالریح طاھرۃ عینہا وناقض خروجھا لانبعاثھا من محل النجاسۃ نعم مسألۃ الدود والحیۃ واضحۃ الوجہ فانہما لایتداخلہما النجاسۃ وما علیہما قلیل فلا ینقضان الا اذا کثر خروجہما من غثیان واحد حتی بلغ ما علیہما الکثیران وقع ھذا والعیاذ باللّٰہ تعالٰی ھذا ما اختلج بقلب العبد الضعیف اول وقوفی علی ھذا الکلام ثم بعد یومین رأیت العلامۃ المحقق ابرہیم الحلبی ذکر فی شرح المنیۃ الکبیر روایۃ المجتبی عن الحسن و انہ قیل ھو المختار ثم عقبہ بقولہ و الصحیح ظاھر الروایۃ انہ نجس لمخالطۃ النجاسۃ و تداخلہا فیہ،بخلاف البلغم و بخلاف دود او حیۃ لانہ طاھر فی نفسہ،و لم تتداخلہ النجاسۃ و ما یستتبعہ قلیل لا یبلغ ملأ الفم اھ


اقول : و باللہ التوفیق اس ظہور میں شدید خفا ہے اس لئے کھانا اور پانی اگرچہ متغیر نہ ہوا مگر دونوں اتصال کی وجہ سے نجاست قبول کر لیں گے پھر جب نجاست کے معدن سے لوٹیں گے تو متنجس( ناپاک ہو جانے والے ) ہوں گے اگرچہ بذاتِ خود نجس نہ ہوں تو ان سے وضو ٹوٹنا ضروری ہے جیسے ریح خود پاک ہے اور اس کا خروج ناقضِ وضو ہے اس لئے کہ وہ محلِ نجاست سے اٹھتی ہے ہاں کیڑے اور سانپ کے مسئلہ کہ وجہ واضح ہے اس لئے کہ ان دونوں کے اندر نجاست داخل نہیں ہوئی اور جو ان کے اوپر لگا ہوا ہے وہ قلیل ہے تو یہ ناقض نہ ہوں گے مگر جب ایک ہی متلی سے زیادہ مقدار میں نکلیں یہاں تک کہ جو نجاست ان کے اوپر لگی ہو وہ کثیر کی حد کو پہنچ جائے ، اگر ایسا وقوع میں آئے والعیاذ باللہ تعالٰی یہ وہ ہے جو اس کلام پر واقف ہوتے ہی بندہ ضعیف کے قلب میں خیال ہوا پھر دو دن بعد میں نے دیکھا کہ علامہ محقق ابراہیم حلبی نے منیہ کی شرح کبیر میں حسن سےمجتبی کی روایت ذکر کی اور یہ کہ کہا گیا وہی مختار ہے ،پھر اس کے بعد یہ لکھا : اور صحیح ظاہر الروایہ ہے کہ وہ نجس ہے اس لئے کہ اس کا نجاست سے اختلاط ہوا اور نجاست اس کے اندر داخل ہوئی بخلاف بلغم کے اور بخلاف کیڑے یا سانپ کے اس لئے کہ وہ خود پاک ہے اور اس کے اندر نجاست نہ گئی اور جو اس کے تابع ہے وہ قلیل ہے کہ منہ بھرنے کی حد کو نہ پہنچے گی اھ۔


فــــ :تطفل علی الفتح ۔


فھذا عین ما بحثہ و للہ الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ اھ ۱؎ ما کتبت علیہ و کتبت علی ہامش باب الانجاس قولہ ما ھو الاحسن ۲؎ اقول ما ھو فــــ الاحسن لانہ خلاف ظاھر الروایۃ المصححۃ و الفتوی متی اختلف وجب المصیر الی ظاھر الروایۃ قولہ و قد صححہ بعد قریب ورقۃ ۔


تو یہ بعینہ وہی ہے جو میں نے بحث کی اور خدا ہی کے لئے حمد ہے کثیر ، پاکیزہ ، بابرکت حمد اھ وہ حاشیہ ختم جو میں نے فتح القدیر پر لکھا تھا اور باب الانجاس کے حاشیہ پر میں نے یہ لکھا : قولہ وہ جو احسن ہے اقول وہ احسن نہیں اس لئے کہ وہ تصحیح یافتہ ظاہر الروایہ کے خلاف ہے،اور فتوی میں جب اختلاف ہو تو ظاہر الروایہ کی طرف رجوع واجب ہے قولہ اور اسے تقریباً ایک ورق بعد صحیح کہا ہے ۔


فـــ: تطفل ثان علیہ


 (۱؎ حواشی اعلٰحضرت امام احمد رضا خاں علی فتح القدیر کتاب الطہارۃ ،فصل فی نواقض الوضوء     (قلمی)     ص ۳۳)

(۲؎ حواشی اعلٰحضرت امام احمد رضاخاں علی فتح القدیر کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس         (قلمی)     ص ۳۵)


اقول:  فرق فـــ۱بین ما مر عن الحسن و ھو الطہارۃ بدلیل عدم انتقاض الوضوء و بین ہذا الاٰتی عن الحسن عن الامام وھو کونہ نجاسۃ خفیفۃ و ایاما کان فعلی ظاھر الروایۃ التعویل کیف وھو الذی یقتضی بہ الدلیل و ھو الموافق لاطلاق المتون و عامۃ الشروح وا لفتاوی فی القیئ ۱؎


اقول:  حسن سے جو روایت گزری کہ وہ پاک ہے اس لئے کہ وضو نہ ٹوٹا اور حسن کے واسطہ سے حضرت امام سے جو روایت ہے کہ وہ نجاست خفیفہ ہے دونوں میں فرق ہے اور جو بھی ہو اعتماد ظاہر الراویہ ہی پرہو گا اور کیوں نہ ہو جب کہ دلیل بھی اسی کی مقتضی ہے اور قے کے بارے میں وہ متون اور عامہ شروح و فتاوی کے مطابق بھی ہے ۔


فـــ۱:تطفل ثالث علیہ ۔


 (۱؎ حواشی اعلٰحضرت امام احمد رضا علی فتح القدیر کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس (قلمی) ص ۳۵)


قولہ لانہ لم یتغیر من کل وجہ اقول نعم فــــ۲ لکن او لم یجاور النجاسۃ الغلیظۃ او لیس مما تتداخلہ النجاسۃ واذا کان الامر علی ھذا وجب کونہ نجاسۃ غلیظۃ فان الغلیظۃ انما تورث بجوارھا الغلظۃ دون الخفۃ کما لا یخفی فالصحیح ان القیئ ناقض مطلقا بشروطہ المعروفۃ وان جرۃ کل شئی کسر قینہ من دون فصل۲؎ ۔


قولہ اس لئے کہ وہ پوری طرح متغیر نہ ہوا اقول یہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا نجاست غلیظہ سے اس کا اتصال بھی نہ ہوا ؟ یا یہ اس میں سے ہے جس کے اندر نجاست داخل نہیں ہو پاتی ؟ اور جب بنائے کار اس پرہے تو اس کا نجاست غلیظہ ہوناضروری ہے اس لئے کہ نجاست غلیظہ اپنے اتصال سے غلظت و شدت ہی پیداکرتی ہے ، خفّت نہیں۔ جیسا کہ واضح ہے تو صحیح یہ ہے کہ قے اپنی معروف شرطوں کے ساتھ مطلقاً ناقض ہے اور یہ کہ ہر جاندار کی جگال اسکے گوبر ، مینگنی کی طرح ہونے کا حکم بلا تفریق ہے ۔


 (۲؎ حواشی اعلٰحضرت امام احمد رضا علی فتح القدیر کتاب الطہارۃ  باب الانجاس (قلمی) ص ۳۵)


فـــ۲:تطفل خویدم ذلیل علی خدام الامام الجلیل صاحب الہدایۃ۔

قولہ و فیہ ما ذکرنا ای ان ما فی المجتبی وغیرہ یقتضی طہارتہ ۱؎ ۔ قولہ اور اس میں وہ کلام ہے جو ہم نے ذکر کیا یعنی یہ کہ جو مجتبی وغیرہ میں ہے وہ اس کی طہارت کا مقتضی ہے ۔


 (۱؎ حواشی اعلٰحضرت امام احمد رضا علی فتح القدیر کتاب الطہارۃ   باب الانجاس     قلمی     ص ۳۵)


اقول:  و فیہ ما ذکرنا اھ ما کتبت ثمہ۔ اقول:  اور اس میں وہ کلام ہے جو ہم نے ذکر کیا اھ وہ حاشیہ ختم جو میں نے وہاں لکھا ۔


وقد نقل فی رد المحتار قبیل الصلٰوۃ عبارۃ الفتح ھذا الی قول التجنیس و ھو الصحیح و اقرہ علیہ فکتبت علیہ اقول قدم فـــ الشارح العلامۃ فی النواقض تصحیح کونہ نجسا مغلظا و قدم المحشی ثمہ انہ حیث صحح القولان فلا یعدل عن ظاھر الروایۃ ولذا جزم بہ الشارح اھ فکان علیہ ان لا یقر علی خلافہ ھھنا۲؎ و لکن الانسان للنسیان و حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل۔


اور ردالمحتار میں کتاب الصلوۃ سے ذرا پہلے فتح القدیر کی یہ عبارت تجنیس کے قول '' و ھو الصحیح ''تک نقل کرکے برقرار رکھی تو اس پر میں نے یہ حاشیہ لکھا : اقول اس سے پہلے نواقضِ وضو میں شارح علامہ اس کے نجاست غلیظہ ہونے کی تصحیح ذکر کرچکے ہیں اور وہاں حضرت محشی نے بھی یہ لکھا ہے کہ : جب دونوں قول تصحیح یافتہ ہیں تو ظاہر الروایہ سے عدول نہ کیا جائے گااھ اسی لئے شارح نے اس پر جزم فرمایا اھ تو ان پر لازم تھا کہ یہاں اس کے خلاف برقرار نہ رکھیں لیکن انسان نسیان کی وجہ سے ہے وحسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل۔


 (۲؎ جد الممتار علی ردالمحتار     کتاب الطہارۃ    فصل فی استنجاء     مکتب المجمع الاسلامی مبارکپور     ۱ /۱۸۶)


فـــ:معروضۃ علی العلامۃ ش۔


ولنرجع الی اول المسئلۃ الحکم الذی قررناہ بنصوص فتاوی النسفی و جواھر الفتاوی و الخلاصۃ و البزازیۃ و الخزانۃ یترا ای خلافہ من الغنیۃ اذ قال ( نفطۃ قشرت فسال منہا ماء ) خالص اجتذب من الخارج والتامت علیہ ( او دم او صدید ان سال عن رأس الجرح نقض و ان لم یسل لا ۱؎۔)


اب ہم اول مسئلہ کی طرف رجوع کریں ، فتاوی نسفی ، جواہر الفتاوی ، خلاصہ ، بزازیہ اور خزانہ کی تصریحات سے ہم نے جس حکم کی تقریر کی ، غنیہ سے اس کے خلاف کا خیال ہوتا ہے ، اس کی عبارت یہ ہے : ( کسی آبلے کا پوست ہٹا دیا گیا تو اس سے پانی بہا ) خالص پانی جو خارج سے جذب ہوا اور آبلہ اسے لے کر بند ہو گیا( یا خون یا صدید بہا ، اگر سرِ زخم سے بہہ گیا تو وضو جاتا رہا ، نہ بہا تو نہیں )


 (۱؎ غنیۃ المستملی نواقض الوضوء     سہیل اکیڈیمی لاہور     ص ۱۳۱ )


اقول :اصل فــــ المسألۃ فی الجامع الصغیر کما تقدم والظاھر المتبادر منہ ماء النفطۃ وھو الدم الذی نضج فرق فاشبہ الماء ھکذا فھمہ العامۃ قال الامام فقیہ النفس فی شرحہ تحت ھٰذہ المسألۃ قال الحسن بن زیاد الماء بمنزلۃ العرق والدمع لایکون نجسا وخروجہ لایوجب انتقاض الطہارۃ والصحیح ماقلنا لانہ دم رقیق لم یتم نضجہ فیصیر لونہ لون الماء واذا کان دما کان نجسانا قضا للوضوء ۲؎ اھ


اس مسئلہ کی اصل جامع صغیر میں ہے جیسا کہ گزرا اور اس سے ظاہر متبادر آبلہ کا پانی ہے اور یہ وہ خون ہے جو پک کر رقیق ہو گیا تو پانی جیسا بن گیا۔ عامہ مصنفین نے اسے اچھی طرح سمجھا ، امام فقیہ النفس اپنی شرح میں اس مسئلہ کے تحت لکھتے ہیں : حسن بن زیاد نے فرمایا : پانی پسینہ اور آنسو کی طرح نجس نہیں اور اس کا نکلنا طہارت جانے کا موجب نہیں اور صحیح وہ ہے جو ہم نے کہا۔ اس لئے کہ وہ رقیق خون ہے جو پورا نہ پکا تو اس کا رنگ پانی جیسا ہو جاتا ہے اور جب وہ خون ہے تو نجس ، ناقضِ وضو ہو گا ۔ اھ


 (۲؎ شرح الجامع الصغیر للامام قاضی خان )


فـــــ:تطفل علی الغنیۃ۔


وقال فی الحلیۃ تحت عبارۃ المنیۃ المذکورۃ قال فخر الاسلام وغیرہ قد تکون النفطۃ اصلہادما ثم ینضج فیصیر قیحا ثم یزداد طبخا فیصیر صدیدا ثم قد یصیر ماء وقد یکون فی الابتداء ماء ۳؎ اھ حلیہ میں منیہ کی عبارت کے تحت لکھا : فخر الاسلام وغیرہ نے فرمایا : آبلہ کبھی اصل میں خون ہوتا ہے پھر پک کر پیپ ہو جاتا ہے ، پھر مزید پک کر صدید بن جاتا ہے پھر کبھی پانی ہوجاتا ہے ، اور کبھی شروع ہی میں پانی ہوتا ہے اھ ۔


 (۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی ۔)


وفی البحرالرائق وعن الحسن ان ماء النفطۃ لاینقض قال الحلوانی وفیہ توسعۃ لمن بہ جرب اوجدری کذافی المعراج ۱؎ اھ وفی منحۃ الخالق قال فی الجمہرۃ تنفطت ید الرجل اذا رق جلدھا من العمل وصار فیھا کالماء والکف نفیطۃ ومنفوطۃ کذا فی غایۃ البیان وقال ایضا بعدہ ھذا ای النقض اذا کانت النفطۃ اصلہا دما وقد تکون من الابتداء ماء ۲؎ اھ ثم اقول بعد تسلیمہ یجب حملہ علی مااذا کان فی النفطۃ من دم اوقیح ماینجس لاماء والا فالحجۃ ماقدمنا من النصوص واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ البحر الرائق میں ہے : حسن سے روایت ہے کہ آبلہ کا پانی ناقضِ وضو نہیں ، امام حلوانی نے فرمایا : اس میں خارش یا چیچک والوں کے لئے وسعت ہے ایسا ہی معراج میں ہے اھ منحۃ الخالق میں ہے : جمہرہ میں کہا : بولا جاتا ہے تَنَفَّطَتْ یَدُ الرَّجُل ، جب آدمی کے ہاتھ کی جلدکام کی وجہ سے پتلی ہو جائے اور اس میں پانی جیسی چیز پیدا ہو جائے اور بولتے ہیں : الکف نفیطۃ و منفوطۃ  ( ہتھیلی آبلہ دار ہو گئی ) ایسا ہی غایۃ البیان میں ہے ۔ آگے لکھا : وضو ٹوٹنا ا س وقت ہے جب آبلہ کی اصل خون ہو اور کبھی شروع ہی سے پانی ہوتا ہے اھ ثم اقول اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو اسے اس صورت پر محمول کرنا ضروری ہے جب آبلہ میں اتنا خون یا پیپ ہو جو پانی کو ناپاک کر دے ورنہ حجّت وہ نصوص ہیں جو پہلے ہم رقم کر چکے واللہ تعالٰی اعلم ۔ (ت)


 (۱؎ البحر الرائق     کتاب الطہارات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۳۲)

(۲؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الطہارات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۳۲)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے