Music

header ads

بچّے کے حاصل کردہ پانی کے احکام کے متعلق نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا عطیہ Bachche ke Hasil Karda Ka pani Ka hukm

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم    نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

(رسالہ ضمنیہ) عطاء۳۴ النبی لافاضۃ ہ احکام ماء الصبی۱۳

(بچّے کے حاصل کردہ پانی کے احکام کے متعلق نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا عطیہ)


(۳۲ تا ۴۸) نابالغ(۲) کا بھرا ہوا پانی یہ مسئلہ بہت طویل الذیل وکثیر الشقوق ہے کتابوں میں اس کی تفصیل تام درکنار بہت صورتوں کا ذکر بھی نہیں فقیر بتوفیق القدیر اُمید کرتا ہے کہ اُس میں کلام شافی وکافی ذکر کرے فاقول وباللہ التوفیق پانی تین قسم ہیں (۱) مباح غیر مملوک (۲) مملوک غیر مباح (۳) مباح مملوک 

اول دریاؤں نہروں کے پانی تالاب جھیلوں ڈبروں کے برساتی پانی مملوک کنویں کا پانی کہ وہ بھی جب تک بھرا نہ جائے کسی کی مِلک نہیں ہوتا جس کی تحقیق ابھی گزری مساجد وغیرہا کے حوضوں سقایوں کا پانی کہ مالِ وقف سے بھرا گیا اس کا بیان بھی گزرا یہ سب پانی مباح ہیں اور کسی کی مِلک نہیں۔

دوم برتنوں کا پانی کہ آدمی نے اپنے گھر کے خرچ کو بھرایا بھروا کر رکھا وہ خاص اس کی مِلک ہے۔بے اس کی اجازت کے کسی کو اس میں تصرف جائز نہیں۔


سوم سبیل یا سقایہ کا پانی کہ کسی نے خود بھرایا اپنے مال سے بھروایا بہرحال اس کی مِلک ہو اور اس نے لوگوں کیلئے اس کا استعمال مباح کردیا وہ بعد اباحت بھی اُسی کی مِلک رہتا ہے یہ پانی مملوک بھی ہے اور مباح بھی۔ ظاہر ہے کہ قسم اخیر کا پانی بالغ بھرے یا نابالغ کچھ تفاوت احکام نہ ہوگا کہ لینے والا اس کا مالک ہی نہیں ہوتا۔ یوں ہی قسم دوم میں جبکہ مالک نے اسے بطور اباحت دیا ہاں اگر مالک کیا تو اب فرق احکام آئے گا اور اگر بے اجازت مالک لیا یا دونوں قسم اخیر میں مالک بوجہ صغر یا جنون اجازت دینے کے قابل نہ تھا تو وہ آب مغصوب ہے۔ زیادہ تفصیل طلب اور یہاں مقصود بالبحث قسم اوّل ہے اس کیلئے تنقیح اول(۱) ان اصول پر نظر لازم جو اموال مباحہ جیسے آبِ مذکور یا جنگل کی خود روگھاس پیڑ پھل پھول وغیرہا پر حصول مِلک کیلئے ہیں کتب میں اس کے جزئیات میں متفرق طور پر مذکور ہوئے جن سے نظر حاضر ایک ضابطہ تک پہنچنے کی امید رکھتی ہے واللہ الہادی۔


فاقول: وبہ استعین یہ تو ظاہر ہے کہ مباح(۲) چیز احراز واستیلا سے مِلک ہوجاتی ہے اول بار جس کا ہاتھ اُس پر پہنچا اور اس نے اپنے قبضے میں کرلیا اُسی کی مِلک ہوجائیگی مگر یہ قبضہ کبھی دوسرے کی طرف منتقل ہوتا اور اُس کا قبضہ ٹھہرتا ہے اس کی تفصیل یہ(۳) ہے کہ مال مباح کا لینے والا دوحال سے خالی نہیں اُس(۱) شے کو اپنے لئے لے گا یا دُوسرے کیلئے، برتقدیر ثانی بطور خود یا اس سے کہے سے برتقدیر ثانی بلامعاوضہ(۳) یا باجرت برتقدیر ثانی اُس دوسرے کا اجیر(۴) مطلق ہے جیسے خدمتگار یا خاص اسی مباح کی تحصیل کیلئے اجیر کیا برتقدیر ثانی اجارہ(۵) وقت معین پرہوا مثلاً آ ج صبح سے دوپہر تک یا بلا تعین بر تقدیر ثانی وہ شے مباح(۶) متعین کردی تھی ۔ مثلاًیہ خاص درخت یا یہاں سے یہاں تک کہ یہ دس پیڑ یا اس قطعہ مخصوصہ کا سبزہ یا اس حوض کا سارا پانی یا یہ تعیین بھی نہ تھی برتقدیر ثانی اجیر(۷) قبول کرتا ہے کہ یہ شے میں نے مستاجر کیلئے لی یا نہیں برتقدیر ثانی اگر اس شے کا احراز مثلاً کسی ظرف میں ہوتا ہو تو وہ ظرف(۸) مستاجر کا تھا یا نہیں، یہ نو۹ صورتیں ہُوئیں۔ ان میں صورت اولٰی میں تو ظاہر ہے کہ وہ شے اُسی قبضہ کرنے والے کی مِلک ہوگی دوسرے کو اس سے علاقہ ہی نہیں، یوں ہی صورت دوم میںبھی کہ شرع مطہر نے سبب مِلک استیلا رکھا ہے وہ اس کا ہے دوسرے کیلئے محض نیت اس ملک کو منتقل نہ کر دے گی۔ فتح القدیر میں ہے:


لوقیل علیہ ھذا اذا استولی علیہ بقصدہ لنفسہ فاما اذا قصد ذلک لغیرہ فلم لایکون للغیر یجاب بان اطلاق نحو قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الناسشرکاء فی ثلاث لایفرق بین قصد وقصد ۱؎ اھ۔ وکتبت علیہ۔ اقول: الاحراز سبب الملک وقدتم لہ فملک ولا ینتقل لغیرہ بمجرد القصد کمن شری غیر مضاف الٰی زید ونیتہ انہ یشتریہ لزید لم یکن لزید۔


اگر اس پر کہا جائے کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ اس پر استیلاء کیا اور قصد اپنے نفس کے لئے کیا، اور اگر کسی دوسرے کیلئے اس کا ارادہ کیا، تو یہ غیر کیلئے کیوں نہ ہوگا، اس کا یہ جواب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ''لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں'' ایک قصد اور دوسرے قصد میں فرق نہیں کرتا ہے اھ اس پر میں نے لکھا ہے کہ میں کہتا ہوں حاصل کرلینا اسبابِ ملک میں سے ہے اور ملک اس کیلئے تام ہوچکی ہے اور وہ مالک ہوگیا اور یہ ملک دوسرے کی طرف محض قصد کی وجہ سے منتقل نہ ہوگی، جیسے کوئی شخص کوئی چیز خریدے اور اس کو زید کی طرف مضاف نہ کرے اور نیت یہ ہو کہ وہ زید کیلئے ہے، تو وہ زید کیلئے نہ ہوگی۔ (ت)


(۱؎ فتح القدیر    فصل فی شرکۃ فاسدہ        نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۱۰)

اسی طرح صورتِ سوم میں بھی کہ تحصیل(۱) مباح کیلئے دوسرے کو اپنا نائب ووکیل وخادم ومعین بنانا باطل ہے درمختار کتاب الشرکۃ فصل شرکت فاسدہ میں ہے: التوکیل فی اخذ المباح لایصح ۲؎۔ مباح چیز کو لانے کیلئے کسی کو وکیل بنانا درست نہیں ہے۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار    شرکۃ فاسدہ    مجتبائی دہلی   ۱/ ۳۷۴)


جامع الصغار فصل کراہیت میں ہے:الاستخدام فی الاعیان المباحۃ باطل ۳؎۔ اعیان مباحہ میں استخدام باطل ہے۔ (ت)


 (۳؎ جامع احکام الصغار مع جامع الفصولین    الکراہیۃ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۴۷)


فتح القدیر میں ہے:الشرع جعل سبب ملک المباح سبق الید الیہ فاذا وکلہ بہ فاستولی علیہ سبق ملکہ لہ ملک الموکل ۴؎۔ شریعت نے مباح اشیاء میں مِلک کا سبب سبقت ید کو بتایا ہے، تو جب کسی نے اس پر کسی کو وکیل بنایا اور اس نے اس پر استیلاء حاصل کرلیا موکل کی مِلک اس پر ثابت ہوجائیگی تو وکیل مالک ہوجائیگا۔ (ت)


 (۴؎ فتح القدیر    فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ        سکھر        ۵/ ۴۱۰)


ہندیہ اجارات باب ۱۶ میں قنیہ سے ہے:قال(۱) نصیر (ھو ابن یحیی) قلت (ای للامام ابی سلیمٰن الجوزجانی رحمھما اللّٰہ تعالٰی) فان استعان بانسان یحتطب ویصطاد لہ (ای من دون اجر) قال الحطب والصید للعامل وکذا ضربۃ القانص قال استاذنا (وھو البدیع استاذ الزاھدی) وینبغی ان یحفظ ھذا فقد ابتلی بہ العامۃ والخاصۃ یستعینون بالناس فی الاحتطاب والاحتشاش وقطع الشوک والحاج عہ  واتخاذ المجمدۃ فیثبت الملک للاعوان فیھا ولا یعلم الکل بھا فینفقونھا قبل الاستیہاب بطریقہ اوالاذن فیجب علیھم مثلھا اوقیمتھا وھم لایشعرون لجھلھم وغفلتھم اعاذنااللّٰہ عن الجھل ووفقنا للعلم والعمل ۱؎ اھ


نصیر (ابن یحیٰی نے) کہا، میں نے کہا (یعنی امام ابو سلیمان الجوزجانی کو) اگر کسی شخص نے لکڑیاں جمع کرنے یا شکار کرنے کیلئے دوسرے شخص کی مدد حاصل کی (یعنی بلا اجر) فرمایا اس صورت میں لکڑیاں اور شکار اُسی کا ہے جس نے کیا ہو، اور اسی طرح شکاری کا ایک مرتبہ جال ڈال کر شکار نکالنا ، ہمارے استاذ نے فرمایا (یعنی بدیع استاذ الزاہدی) اور اسے یاد کرلینا چاہئے کیونکہ اس میں ہر عام وخاص مبتلا ہے، لوگ دوسروں سے لکڑیاں جمع کرانے، کانٹے اکٹھے کرانے اور گھاس جمع کرانے میں مدد لیتے ہیں، اسی طرح ایک قسم کا درخت منگواتے ہیں یا آسمانی برف جمع کراتے ہیں، توجو لوگ عملاً یہ کام کرتے ہیں ان پر انہی لوگوں کی مِلک ثابت ہوجائے گی، لوگ یہ مسئلہ نہیں جانتے، وہ ان لوگوں سے نہ تو اجازت لیتے ہیں، اور نہ ہی بطور ہبہ لیتے ہیں اور اِن اشیاء کو خرچ کر بیٹھتے ہیں، تو ان پر ان کا مثل واجب ہوگا یا قیمت لازم آئے گی، ان کو جہالت کی وجہ سے اس کا علم نہیں یا قیمت لازم آئے گی، ان کو جہالت کی وجہ سے اس کا علم نہیں اللہ ہمیں جہل سے محفوظ رکھے اور ہمیں علم وعمل کی توفیق دے (آمین) اھ (ت)


عہ: الحاج باھمال اولہ واعجام اٰخرہ جمع حاجۃ وھی الشوک وقبل نیت من الحمص وقال ابن سیدہ ضرب من الشوک وقیل شجر وقال ابو حنیفۃ الدینوری الحاج مماتدوم خضرتہ وتذھب عروقہ فی الارض بعیدا یتداوی بطبیخہ ولہ ورق دقاق طوال کانہ مساو للشوک فی الکثرۃ اھ۔ من تاج العروس ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

اِلحاج، حاءِ مہملہ اورجیم کے ساتھ، جمع حاجہ کی ہے، کانٹوں کو کہتے ہیں، ایک قول کے مطابق ترش گھاس ہے۔ ابن سیدہ کے مطابق کانٹوں کی ایک قسم ہے۔ ایک قول کے مطابق درخت ہے۔ اور ابو حنیفہ الدینوری نے فرمایا یہ ایسا درخت ہے جو سدا بہار رہتا ہے اور اُس کی جڑیں زمین میں دور تک چلی جاتی ہیں اس کو ابال کر دوا کے کام میں لایا جاتا ہے، اس کے پتّے باریک اور لمبے ہوتے ہیں اور کانٹوں کی طرح زیادہ ہوتے ہیں اھ تاج العروس ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    الباب السادس عشر    پشاور    ۴/ ۴۵۱)


اقول: وقولہ لایعلم الکل بھا اشارۃ الی الجواب عن سؤال وھم انھم اذا اتوا بہ الی المستعین واعطوہ واخذ کان ھبۃ بالتعاطی فاجاب بانہ ھذا یکون لوعلموا ان الملک قدثبت للاعوان فیکون الاعطاء والاخذ ایجاب الھبۃ وقبولھا لکنھم جمیعا عنہ غافلون وانما یحسبون المعونۃ فی کفایۃ المؤنۃ کمن ارسل احد الی دارہ لیحمل منھا کرسیا مثلا یاتیہ بہ۔


میں کہتا ہوں اس کا قول ''لایعلم الکل بھا'' ایک سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کارندے اِن اشیاء کو اُس شخص کے پاس لے آئیں جس نے ان کو جمع کرنیکا حکم دیا ہے تو وہ اسکو دے دیں اور یہ حاصل کرلے تو گویا انکی طرف سے دینا شمار ہوگا اور اس کی طرف سے لینا ہوگا، اور یہ ہبہ کا ایجاب وقبول شمار ہوگا تو اس کا جواب دیا کہ یہ اس وقت ہے کہ جب انہیں علم ہو کہ اعوان کیلئے ملک ثابت ہے تو یہ دینا لینا ہبہ کا ایجاب قبول ہوگا لیکن وہ سب کے سب اس سے غافل ہیں، اور وہ مدد کفایت مؤنت میں سمجھتے ہیں مثلاً کسی شخص نے ایک آدمی کو گھر میں بھیجا کہ وہاں سے کُرسی اٹھا لائے۔ (ت)


اقول: ھو کما قال لکن الاذن(۱) ثابت لاشک وھم انما ینوون الاخذ لہ ولا یؤدونہ الیہ الا لیتصرف فیہ ولا غصب منہ حتی یجب الضمان۔


میں کہتا ہوں وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ انہوں نے فرمایا لیکن اِذن بلاشبہ ثابت ہے اور ان کی نیت یہی ہوتی ہے کہ وہ اُس شخص کیلئے لیں، اور اس کو دیتے بھی اس لئے ہیں کہ وہ اُس میں تصرف کرے، وہ غصب تو نہیں کررہا ہے کہ ضمان واجب ہو۔ (ت)


فانقلت لایحسبون انفسھم ملاکہ وھو یاخذہ بجعل نفسہ کانہ ھو المستولی علیہ بدء فیتصرف فیہ علی انہ ملکہ فلم یتحقق الاذن لانھم لایدرون انہ لھم وبجعلھم یصیرلہ حتی یاذنوا لہ فی التصرف وانما یظن ویظنون انہ لمالک لہ ولا عبرۃ بالظن البین خطؤہ کمن حسب(۱) ان الشیئ الفلانی من ودائع زید عند ابیہ فاداہ الی وارثیہ فتصرفوا ثم تبین انہ لابیہ لالزید فان لہ ان یرجع علےھم بہ قائما اوبضمانہ ھالکا ۔


اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ وہ لوگ اپنے آپ کو ان اشیاء کا مالک نہیں سمجھتے ہیں، اور وہ شخص ان چیزوں پر اس طرح قابض ہوتا ہے گویا وہ ان چیزوں کا پہلا مالک ہے، اور اس طرح تصرف کرتا ہے گویا وہ اِن چیزوں کا مالک ہو تو ایسی صورت میں اذن متحقق نہ ہوگا کیونکہ ان کو تو پتا ہی نہیں کہ یہ چیز ان کی ملکیت میں ہے اور اُس کی مِلک میں اُسی وقت ہوگی جب وہ اِذن دیں، اور اِس صورت میں اس کو گمان ہے کہ وہ مالک ہے اور ان کو بھی گمان ہے کہ وہی مالک ہے، اور جس گمان کا خطا ہونا ظاہر ہو اس کا کوئی اعتبار نہیں، مثلاً کوئی شخص یہ گمان کر بیٹھے کہ فلاں چیز زید کی امانتوں میں سے اس کے باپ کے پاس ہے اور اس پر گمان پر وہ چیز زید کے وارثوں کو دے دیتا ہے اور وہ اس میں تصرف کرلیتے ہیں پھر بعد میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ چیز تو اس کے باپ ہی کی ہے زید کی نہیں ہے، تو اگر وہ چیز موجود ہو تو وہ ان سے واپس لے سکتا ہے اور اگر ہلاک ہو گئی ہے تو اس کا ضمان لے سکتا ہے،


فی العقود الدریۃ من کتاب الشرکۃ من دفع شیاا لیس بواجب علیہ فلہ استردادہ الا اذا دفعہ علی وجہ الھبۃ واستھلکہ القایض کما فی شرح النظم الوھبانی وغیرہ من المعتبرات ۱؎ اھ وفیھا وفی الخیریۃ من کتاب الوقف قد صرحوا بان من(۲) ظن ان علیہ دینا فبان خلافہ یرجع بما ادی ولو کان قداستھلکہ رجع ببدلہ ۲؎ اھ۔


''العقود الدریہ'' کے کتاب الشرکۃ میں ہے کہ جس نے کوئی ایسی چیز دی جو اُس پر واجب نہ تھی تو وہ اس کو واپس لے سکتا ہے، ہاں اگر بطور ہبہ دی ہو اور اس کے قبضہ میں ہلاک ہوگئی ہو تو واپس نہیں لے سکتا ہے، یہی چیز شرح نظم وہبانی وغیرہ معتبر کتب میں ہے اھ اور اس میں اور الخیریہ کے کتاب الوقف کے حوالہ سے ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ گمان کیا کہ اُس پر دین ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ غلط ہے، تو جو دیا ہے وہ واپس لے گا، اور اگر وہ ہلاک ہوگیا ہو تو اس کا بدل لے گا اھ (ت)


 (۱؎ عقود الدریۃ    کتاب الشرکۃ    قندھار افغانستان    ۱/ ۹۱)

(۲؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الوقف    بیروت        ۱/ ۱۳۰)


اقول :ھذا فیما لوعلم انہ لیس للمدفوع الیہ لم یدفع الیہ اماھنا فانما یاتون بہ لہ ولوعلموا ان الملک یقع لہم لم یتخلفوا عن اعطائہ لہ فرضاھم بتصرفہ فیہ ثابت علی کل تقدیر ولھذا لم یکترث بہ الخاصۃ فضلا عن العامۃ کما اعترف بہ فلاوجہ لنسبتھم الی الجھل والغفلۃ واقامۃ النکیر،ھذا ماعندی والعلم بالحق عند اللطیف الخبیر۔


میں کہتا ہوں یہ اُس صورت میں ہے جبکہ اس کو یہ علم ہواہو کہ یہ مدفوع الیہ کے لئے نہ تھا تو اُس کو نہ دے گا، اور یہاں تو وہ اُسی کیلئے لاتے ہیں اور اگر ان کو یہ علم ہو کہ مِلک ان کیلئے واقع ہوگی تو اس کے دینے سے تخلف نہ کریں گے، تو اُن کا اُس کے تصرف پر راضی ہونا بہرتقدیر ثابت ہے اور اس لئے خاص لوگ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے چہ جائیکہ عام لوگ، جیسا کہ خود انہوں نے اعتراف کیا، تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کو جہل، غفلت کی طرف منسوب کیا جائے یا انہیں نکیر کی جائے ہذا ماعندی الخ (ت)


تنبیہ اقول: یہ بلا(۱) معاوضہ تین صورتوں کو شامل ہے: ایک یہ کہ وہ اس کا اجیرہی نہ ہو۔

دوسرے یہ کہ اس کا اجیر تو ہے مگر اس کام پر نہیں کسی اور خاص کام پر ہے تو یہ بلامعاوضہ ہی ہوا۔ تیسرے یہ کہ مطلق کام خدمت پر نوکر ہے جس میں یہ کام بھی داخل مگر نوکری کے غیر وقت میں اُس سے اس کام کیلئے کہا مثلاً دن کا نوکر ہے اُس سے رات کو پانی بھروایا کہ یہ وقت بھی بلامعاوضہ ہے ولہٰذا ہم نے اِن صورتوں کو تشقیق میں نہ لیا۔


صورت چہارم میں وہ مباح آقا کی مِلک ہوگا یعنی جب کہ اُس کی نوکری کے وقت میں یہ کام لیا ورنہ صورت سوم میں داخل ہے کمامر اِس صورت میں مِلک آقا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نوکری کے وقت میں نوکر کے منافع اُس کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں اور اُس کا اُس کے حکم سے قبضہ بعینہ اُس کا قبضہ ہے۔ ہدایہ میں ہے:  (الاجیر(۲) الخاص الذی یستحق الاجرۃ بتسلیم نفسہ فی المدۃ وان لم یعمل کمن استؤجر شھرا للخدمۃ اولرعی الغنم) وانما سمی اجیر وحدلانہ لایمکنہ ان یعمل لغیرہ لان منافعہ فی المدۃ صارت مستحقۃ لہ والاجر مقابل بالمنافع ولھذا یبقی الاجر مستحقا وان نقض العمل (لاضمان علی ماتف من عملہ) لان المنافع متی صارت مملوکۃ للمستأجر فاذا امرہ بالتصرف فی ملکہ صح ویصیر نائبا منا بہ فیصیر فعلہ منقولا الیہ کانہ فعلہ بنفسہ فلھذا لایضمنہ ۱؎۔


وہ خاص اجیر جو اجرت کا مستحق ہوتا ہے کہ ایک مدت کے لئے اپنے آپ کو سپرد کردے خواہ کام نہ کرے (مثلاً کسی شخص کو ایک ماہ کے لئے خدمت یا بکریاں چرانے کیلئے اجرت پر لیا) اس کو اجیر وحد اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دوسرے کا کام نہیں کرسکتا ہے کیونکہ اس مدت میں اس کے منافع سب اس کیلئے مخصوص ہوگئے ہیں اور اجر منافع کے مقابل ہوتا ہے اس لئے اجیر مستحق رہتا ہے اگرچہ کام ختم ہوجائے (اس کے عمل سے اگر کوئی چیز تلف ہوجائے تو اس پر ضمان نہیں ہے) کیونکہ منافع جب مستاجر کی مِلک ہوگئے تو اب جب اُس نے اپنی مِلک میں تصرف کا حکم دیا تو صحیح ہوگیا، اور وہ اس کا قائم مقام ہوگا اور اس کا فعل اس کی طرف منقول ہوگا گویا یہ فعل اس نے خود کیا ہے، اس لئے وہ اس کا ضامن نہ ہوگا۔ (ت)

یوں ہی صورت پنجم میں اور اجیر اجر مقرر کا مستحق ہوگا کہ یہ اجارہ صحیحہ ہے اور صورت ششم میں بھی وہ شے مباح مِلک مستأجر ہوگی مگر اجیر مثل پائے گیا جو مسمی سے زاید نہ ہو کہ یہ اجارہ فاسدہ ہے۔


اقول: ویظھرلی ان الوجہ فیہ واللّٰہ تعالٰی اعلم ان الاجارۃ اما علی العمل اعنی التصرف فی شیئ من النقل والحمل والقطع والقلع وغیر ذلک وھو فی الاجیر المشترک والمقصود فیہ حصول ذلک التصرف کیفما کان ولذا لم یتقید بعمل الاجیر نفسہ واما علی منافع الاجیر وھو فی الاجیر الخاص والاجارۃ فی المباحات لانعقل علی الوجہ الاول لانھا لاتختص بالمستأجر ونسبتھا الی الکل سواء فکیف یکون حصول تصرف فیھا موجبا للاجر علی المستأجر بل انما الاجر مقابل فیھا بمنافع الاجیر حیث یرید المستأجران یستعملہ فی حاجتہ فلا یکون الا اجیر وحد ولا تتقدر منافعہ الا بتعیین المدۃ فاذالم تذکر بقی المعقود علیہ مجھولا ففسدت ولذا لوکان الشیئ ملک المستأجر کأن یقول اقطع شجرتی ھذہ بدرھم جاز کما یاتی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں مجھے اس کی جو وجہ معلوم ہوتی ہے واللہ تعالٰی اعلم وہ یہ ہے کہ اجارہ یا تو عمل پر ہوگا یعنی کسی چیز میں تصرف کرنا، نقل وحمل، کاٹنے یا اکھاڑنے کے طور پر اور اس کو اجیر مشترک کہتے ہیں، اور مقصود اس میں اس تصرف کا حاصل ہونا ہے خواہ کسی طرح ہو لہٰذا اس میں یہ قید نہیں کہ اجیر خود ہی عمل کرے اور یا اجارہ اجیر کے منافع پر ہوگا یہ اجیر خاص میں ہوتا ہے، اور مباح چیزوں میں پہلی صورت میں اجارہ متصور نہیں، کیونکہ وہ مستاجر کے ساتھ مخصوص نہیں، اور سب کی طرف اس کی نسبت یکساں ہے، تو اس میں تصرف کا حصول مستاجر پر اجر کو کیونکر لازم کرے گا، بلکہ ان میں اجر اجیر کے منافع کے مقابل ہے کہ مستاجر چاہتا ہے کہ اس کو اپنی حاجت میں استعمال کرے، تو یہ اجیر وحد ہوگا، اور اس کے منافع کا اندازہ مدۃ کی تعیین وتحدید سے ہی ہوگا اور جب مدۃ کا ذکر نہیں کیا گیا تو معقود علیہ مجہول رہے گا اور اجارہ فاسد رہے گا، اور اسی لئے اگر کوئی چیز مستاجر کی مِلک ہو، مثلاً مستاجر یہ کہے کہ میرا یہ درخت ایک درہم میں اٹ دو تو جائز ہے جیسا کہ آئے گا، واللہ اعلم۔ (ت)


(۱؎ الہدایۃ    باب ضمان الاجیر    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۲/ ۳۰۸)

فتاوٰی عٰلمگیریہ میں قنیہ سے ہے:قال نصیر(۱) سألت ابا سلیمٰن عمن استأجرہ لیحتطب لہ الی اللیل قال ان سمی یوما جاز والحطب للمستأجر ولوقال(۲) ھذا الحطب فالاجارۃ فاسدۃ والحطب للمستأجر وعلیہ اجر مثلہ ولوکان(۳) الحطب الذی عینہ ملک المستأجر جاز ۱؎۔


نصیر نے فرمایا میں نے ابو سلیمان سے پوچھا کہ ایک شخص کسی مزدور سے معاہدہ کرے کہ وہ رات تک اس کیلئے لکڑیاں جمع کرے، تو فرمایا کہ اگر ایک دن کا نام لیا تو جائز ہے اور لکڑیاں مستاجر کی ہوں گی، اور اگر اشارہ کر کے کہا کہ یہ لکڑیاں تو اجارہ فاسد ہے اور لکڑیاں مستاجر کی ہیں اور اس پر اجرِ مثل ہے، اگر وہ لکڑیاں مستاجر کی مِلک ہیں تو جائز ہے۔ (ت)


(۱؎ فتاوٰی ہندیہ    الباب السادس عشر    پشاور        ۴/ ۴۵۱)


اقول والمراد اجر المثل بالغاما بلغ ان لم یسم معینا والا فالاقل منہ ومن المسمی کما ھو الاصل المعروف ولذا عولت علیہ وسیاتی التصریح بہ۔


میں کہتا ہوں مراد اجر مثل ہے خواہ جتنا بھی ہو اگر اس نے معین نہ کیا ہو ورنہ اجر مثل اور اجر معین سے جو کم ہو وہ دیا جائے گا، جیسا کہ کلیہ معروف ہے، اس لئے میں نے اس پر اعتماد کیا اور اس کی تصریح بھی آجائے گی (ت)


تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:(استأجرہ لیصیدلہ اویحتطب لہ فان وقت) لذلک وقتا (جاز والالا) فلولم یوقت وعین الحطب فسد (الا اذعین الحطب وھو) ای الحطب (ملکہ فیجوز) مجتبی وبہ یفتی صیرفیۃ ۲؎ اھ۔


 (اس کو اس لئے مزدوری پر لیا کہ وہ اس کے لئے شکار کرے یا لکڑیاں چنے تو اگر اس کا وقت مقرر کیا تو جائز ہے ورنہ نہیں) اور اگر وقت مقرر نہ کیا، اور لکڑیاں مقرر کر دیں تو یہ عقد فاسد ہے (ہاں اگر لکڑیاں متعین کردیں اور وہ لکڑیاں اسی کی مِلک ہیں تو جائز ہے) مجتبٰی اسی پر فتوٰی ہے ''صیرفیۃ اھ'' ۔


 (۲؎ الدرالمختار    اجارہ فاسدہ    مجتبائی دہلی        ۲/ ۱۸۰)


قال العلامۃ ش قولہ والالا ای والحطب للعامل ط قولہ فسد قال فی الھندیۃ ولو قال ھذا الحطب الٰی اٰخر مانقلنا قال قولہ وبہ یفتی صیر فیۃ قال فیھا ان ذکر الیوم فالعلف للاٰمر والا فللمامور وھذہ روایۃ الحاوی وبہ یفتی قال فی المنح وھذا یوافق ماقدمناہ عن المجتبٰی ومن ثم عولنا علیہ فی المختصر ۱؎ اھ۔


علامہ "ش" نے فرمایا ''اور اس کا قول والالا یعنی لکڑیاں عامل کی ہوں گی ط ان کا قول ''فسد'' ہندیہ میں ہے ولو قال ھذا الحطب الی اٰخر جو ہم نے نقل کیا ہے فرمایا ان کا قول وبہ یفتی صیرفیۃ اس میں ہے کہ اگر مستاجر نے دن کا ذکر کیا تو چارہ حکم دینے والے کے لئے ہوگا ورنہ اس کا ہوگا جس کو حکم دیا گیا، اور یہ حاوی کی روایت ہے اور اس پر فتوی ہے۔ منح میں ہے اور یہ اُس کے موافق ہے جو ہم مجتبٰی سے نقل کر آئے ہیں اور اس لئے ہم نے اس پر مختصر میں اعتماد کیا اھ ۔(ت)


 (۱؎ ردالمحتار            اجارہ فاسدہ    البابی مصر        ۵/ ۴۳)


اقول : ھھنا تنبیھان الاول کون الحطب للعامل اذالم یوقت علی مافی الصیرفیۃ وتبع اطلاقھا الفاضلان ط و ش محلہ مااذالم یعین الحطب ایضا والاکان للاٰمر کما قدمنا عن الھندیۃ عن القنیۃ عن نصیر عن ابی سلیمٰن وقد نقلاہ ایضا واقراہ وفی غمز العیون استأجرہ لیصید لہ اولیحتطب جاز ان وقت بان قال ھذا الیوم اوھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقد وجد وان لم یوقت ولکن عین الصید والحطب فالاجارۃ فاسدۃ لجھالۃ الوقت فیجب اجر المثل وما حصل یکون للمستأجر کذا فی الولوالجیۃ ۲؎ اھ۔


میں کہتا ہوں یہاں دو تنبیہات ہیں:

پہلی تنبیہ: لکڑیوں کا عامل کیلئے ہونا جبکہ اس نے وقت کا تعین نہ کیا ہو، جیسا کہ صیرفیہ میں ہے، اور دو۲ فاضلوں یعنی ط اور ش نے اس کے اطلاق کی متابعت کی ہے اس کا محل یہ ہے کہ جب لکڑیوں کا تعین بھی نہ کیا ہو ورنہ لکڑیاں آمر کی ہوں گی، جیسا کہ ہم نے ہندیہ اور قنیہ کے حوالہ سے نقل کیا، یہ روایت نصیر کی ابو سلیمان سے ہے، اور اُن دونوں نے اس کو نقل کیا اور برقرار رکھا، اور غمز العیون میں ہے کسی شخص نے مزدور کو اُجرت پر لیا کہ اُس کیلئے شکار کرے یا لکڑیاں جمع کرے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ اس نے اس وقت کا تعین کردیا ہو مثلاً یہ کہا ہو کہ اس دن یا اِس ماہ میں، اور جو طے کیا ہو وہ واجب ہوگا کیونکہ یہ اجیر محض ہے، اور اس کی صحت کی شرط وقت کا بیان ہے جو پائی گئی ہے اور اگر وقت کا تعین نہ کیا ہو لیکن شکار اور لکڑیوں کا تعین کیا ہو تو اجارہ فاسدہ ہے کہ وقت کی جہالت ہے، تو اس صورت میں اجرِ مثل واجب ہوگا، اور جو حاصل ہوگا وہ مستأجر کو ملے گا کذا فی الولوالجیہ اھ۔


 (۲؎ غمز العیون مع الاشباہ    کتاب الاجارۃ    ادارۃ القرآن کراچی        ۲/ ۵۶)


وفی خزانۃ المفتین رجل استأجر اجیرا لیخیط لہ الی اللیل بدرھم جاز وکذا لیصتاد لہ الی اللیل اولیحتطب جاز ویکون الحطب والصید للمستأجر ولوقال لیصطاد ھذا الصید اولیحتطب ھذا الحطب فھو اجارۃ فاسدۃ والحطب وٍالصید للمستأجر وعلیہ للاجیر اجرالمثل ولو استعان من انسان فی الاحتطاب والاصطیاد فان الصید والحطب یکون للعامل ۱؎ اھ۔


اور خزانۃ المفتین میں ہے کہ کسی شخص نے ایک اجیر لیا کہ وہ رات تک اس کے لئے سلائی کرے اور ایک درہم لے، تو جائز ہے، یا رات تک شکار کرے یا لکڑیاں جمع کرے، اور یہ لکڑیاں اور شکار مستاجر کا ہوگا، اور اگر کہا کہ یہ شکار کرے یا یہ لکڑیاں اکٹھی کرے، تو اجارہ فاسد ہے، اور لکڑیاں اور شکار مستاجر کا ہوگا اور اس کے ذمہ اجیر کیلئے اجر مثل ہوگا، اور اگر کسی انسان سے لکڑیاں اکٹھی کرنے یا شکار میں مدد طلب کی تو شکار اور لکڑیاں عمل کرنے والے کی ہونگی اھ۔


 (۱؎ خزانۃ المفتین        )


وفی(۱) الھندیۃ عن محیط السرخسی عن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی فیمن قال لغیرہ اقتل ھذا الذئب او ھذا الاسد ولک درہم و الذئب او الاسد صید فلہ اجر مثلہ لایجاوز بہ درھما والصید للمستأجر ۲؎ اھ۔


اور ہندیہ میں محیط السرخسی سے محمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی سے کہا کہ یہ بھیڑیا ہلاک کردو یا یہ شیر، اور تم کو ایک درہم ملے گا۔ تو بھیڑیا اور شیر شکار شمار ہوگا اور اُس کا اجر مثل ملے گا جو ایک درہم سے زائد نہ ہوگا، اور شکار مستاجر کا ہوگا اھ۔


 (۲؎ ہندیۃ        الباب السادس عشر    پشاور    ۴/ ۴۵۱)


وبالجملۃ النقول فیہ مستفیضۃ فما کان(۲) ینبغی اطلاق کون الحطب للعامل عند عدم التوقیت لشمولہ صورۃ تعیین الحطب وقد ذکرھا(۳) الشارح تفریعا علیہ بل اشار(۴) الیھا الماتن ایضا کما تری والثانی وقع فی الھندیۃ عن القنیۃ قبل مانقلناہ متصلا بہ مانصہ استأجر لیقطع لہ الیوم حاجا ففعل لاشیئ علیہ والحاج للأمور قال نصیر سألت ابا سلیمن ۳؎ ۔۔۔الخ۔وکتبت علیہ مانصہ۔


خلاصہ یہ کہ اس میں نقول مشہور ہیں تو وقت کی تعیین نہ ہونے کی صورت میں لکڑیوں کا مطلقاً عامل کیلئے قرار دینا درست نہیں، کیونکہ یہ لکڑیوں کے متعین کرنے کی صورت کو بھی شامل ہے، اور اس کو شارح نے اس کی تفریع کے طور پر ذکر کیا ہے، بلکہ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں ماتن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے


دوسری تنبیہ: ہندیہ نے قنیہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کسی نے کوئی مزدور اس کام کیلئے لیا کہ وہ آج اُس کیلئے گھاس کاٹے گا، اُس نے ایسا ہی کیا تو اس کیلئے کوئی اُجرت لازم نہیں، اور گھاس اُسی کی ہوجائے گی۔ نصیر نے کہا میں نے ابو سلیمٰن سے دریافت کیا الخ۔ (ت)


 (۳؎ ہندیۃ        الباب السادس عشر    پشاور    ۴/ ۴۵۱)


اقول:انظر ما(۱) وجہہ فانہ اجیر وحد وشرطہ بیان المدۃ وقد وجد کما فی الغمز وش وقد قال(۲) عن ابی سلیمٰن بعدہ ان مسمی یوما جازو ذکر بعدہ باسطر عن محیط السرخسی لو(۳) استأجر لیصید لہ اولیغزل لہ اوللخصومۃ اوتقاضی 

الدین اوقبض الدین لایجوز فان فعل یجب اجر المثل ولو ذکر مدۃ یجوز فی جمیع ذلک ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محض اجیر ہے، اور اس کی شرط بیان مدۃ ہے جو پائی گئی کما فی الغمزو 'ش' اور اس کے بعد ابو سلیمان سے کہا کہ اگر ایک دن کا کہا تو جائز ہے اور چند سطور بعد محیط سرخسی سے نقل کیا کہ اگر کسی کو اجرت پر لیا تاکہ اس کے لئے شکار کرے یا سُوت کاتے یا اُس کی وکالت کرے یا قرض طلب کرے یا قرض وصول کرے تو جائز نہیں، تو اگر ایسا کیا تو اجر مثل واجب ہوگا اور اگر مدۃ کا ذکر کیا تو ان تمام صورتوں میں جائز ہے اھ۔


(۱؎ ہندیۃ    الباب السادس عشر    پشاور    ۴/ ۴۵۱)


ویظھر لی فی تأویلہ ان لیس المراد بالیوم الوقت المعلوم الممتد الی غروب الشمس بل ھو فیہ بعمنی الظرفیۃ ای یقع القطع فی ھذا الیوم فھو للاستعجال مثل خطہ لی الیوم بدرھم فی الھدایۃ من(۴) استأجر رجلا لیخبزلہ ھذہ العشرہ المخاتیم من الدقیق الیوم بدرھم فھو فاسد عند ابی حنیفۃ وقال ابو یوسف ومحمد رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم جازلانہ یجعل المعقود علیہ عملا وذکر اللوقت للاستعجال تصحیحا للعقد ولہ ان المعقود علیہ مجہول لان ذکر الوقت یوجب کون المنفعۃ معقودا علیہا  وذ کر العمل یوجب کونہ معقودا علیہ ولا ترجیح ونفع المستأجر فی الثانی ونفع الاجیر فی الاول فیفضی الی المنازعۃ وعن ابی(۱) حنیفۃ انہ یصح الاجارۃ اذا قال فی الیوم وقدسمی عملا لانہ للظرف فکان المعقود علیہ العمل بخلاف قولہ الیوم وقدمر مثلہ فی الطلاق ۱؎ اھ۔اوالامران القنیۃ ذکرت ھذا برمز ثم رمزت لاٰخر وذکرت ماعن نصیر فیکون ھذا قول بعض علی خلاف ماعلیہ الناس وعلی خلاف ماعلیہ الفتوی کما فی الصیرفیۃ ومن(۲) عادۃ الھندیۃ نقل عبارۃ القنیۃ بحذف الرموز فتصیر(۳) الاقوال کقول واحد کما نبھت علیہ فی بعض المواضع من ھو امشھا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اور اس کی تاویل مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ یوم سے مراد دن کا وہ معین وقت نہیں ہے جو غروبِ آفتاب تک دراز ہو، بلکہ اس میںظرفیت کے معنی ہیں یعنی گھاس کا کاٹنا اس دن میں واقع ہو، تو یہ جلدی کے اظہار کیلئے ہے، جیسے یہ کہا کہ آج ہی یہ چیز مجھے سی کردو، ایک روپے میں، ہدایہ میں ہے جس نے کسی شخص کو اُجرت پر لیا تاکہ آج ایک درہم میں یہ دس بوری آٹا پکادے تو یہ اجارہ ابو حنیفہ کے نزدیک فاسد ہے، اور صاحبین نے فرمایا جائز ہے، صاحبین معقود علیہ عمل کو قرار دیتے ہیں اور ذکرِ وقت کو عجلت کیلئے قرار دیتے ہیں تاکہ عقد صحیح ہو، امام صاحب کی دلیل یہ ہے کہ معقود علیہ مجہول ہے کیونکہ وقت کا ذکر منفعت کو معقود علیہا بناتا ہے، اور عمل کا ذکر اس کو معقود علیہ کرتا ہے،اور کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہے، مستاجر کا نفع دوسرے میں ہے اور اجیر کا پہلے میں ہے، تو اس میں جھگڑا پیدا ہوگا، اور ابو حنیفہ سے ایک روایت یہ ہے کہ یہ اجارہ اس وقت صحیح ہوگا جبکہ ''دن میں'' کہا اور کسی عمل کا نام لیا، کیونکہ یہ ظرف ہے تو معقود علیہ عمل ہوا بخلاف اس کے قول ''الیوم'' کے اور اسی کی مثل طلاق کے باب میں گزرا اھ یا معاملہ اس طرح ہے کہ قنیہ نے اسکو ثم کے رمز سے ذکر کرکے دوسرے کی طرف اشارہ کیا، اور جو کچھ نصیر سے مروی ہے وہ نقل کیا، یہ بعض کا قول ہے اور بعض کے خلاف ہے، اور فتوٰی بھی اس کے خلاف پر ہے کما فی الصیرفیۃ اور ہندیہ کی عادت ہے کہ وہ قنیہ کی عبارت رموز کے بغیر ہی نقل کردیتے ہیں، تو چند اقوال ایک ہی قول کے مانند ہوجاتے ہیں، اس پر میں نے اس کے بعض حواشی پر تنبیہ کی ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


(۱؎ الہدایۃ    اجارہ فاسدہ    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۲/ ۳۰۴)


صورت ہفتم خود ظاہر ہے کہ اُس کے اقرار سے ملک مستاجر ہے۔اقول:وذلک لان الاجیر عامل لغیرہ وقد اعترف انہ عمل علی وجہ الاجارۃ واخذہ لمن استأجرہ۔


میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اجیر دوسرے کا عامل ہوتا ہے اور اس نے یہ اعتراف کیا ہے وہ وہ بطور اجیر کام کررہا ہے اور وہ چیز مستاجر کیلئے لے رہا ہے۔ (ت)


یوں ہی صورتِ ہشتم میں کہ ظرف مستاجر میں احراز دلیل ہے کہ مستاجر کیلئے ہے، جامع الصغار میں ہے: الاجیر اذا حمل الماء بکوز المستأجر یکون محرزا للمستأجر ۱؎۔ اجیر جب مستاجر کے کُوزے میں پانی لائے تو وہ مستاجر کا ہوگا۔ (ت)


(۱؎ جامع الصغار مع جامع الفصولین    مسائل الکراہیۃ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۴۸)


رہی صورت نہم ظاہر ہے کہ اس میں مِلک اجیر ہے۔

اقول:اور اس پر تقریر دلیل یوں کہ یہ اجیر نہ بیان مدّت کے ساتھ اپنے منافع بیچ چکا ہے کہ اس وقت میں اُس کا کام خواہی نخواہی آمر کیلئے ہو نہ شیئ کی تعیین ہوئی کہ بوجہ قبول اُس کا پابند ہو تو وہ اپنی آزادی پر ہے کیا ضرور ہے کہ اس وقت جو اُس نے لیا بر بنائے جارہ بغرض مستاجر لیا ہو نہ وہ مقر ہے نہ ہشتم کی طرح کوئی دلیل ظاہر ہے لہٰذا مِلک اجیر ہی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔


اقول: ویترا أی لی ان مَثَل الاستیلاء، عند الفقہاء، کمثل الشراء، مھما وجد نفاذ انفذ فاذا(۱) وکلہ بشراء عبد، والموکل لم یعین العبد، ولا الوکیل اضاف الیہ العقد، ولا وقع من مالہ النقد، ولا اقرانہ شراہ لہ، فانہ یکون للشاری لالمن وکلہ، والمسألۃ فی الھدایۃ والدر، وعامۃ الاسفار الغر، فالتوقیت ھھنا کالاضافۃ ثمہ لانتقال فعلہ الی الاٰمر کمامرو الاحراز بظرفہ کالنقد من مالہ والا قرار الاقرار والتعیین التعیین واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔


اور مجھ پر یہ ظاہر ہوا ہے کہ استیلاء کی مثال فقہاء کے نزدیک شراء کی سی ہے جب نفاذ پایا جائیگا اس کو نافذ کر دیا جائیگا۔ اب کسی نے کسی شخص کو غلام خریدنے کیلئے کہا اور موکل نے غلام کی تعیین نہ کی اور نہ وکیل نے عقد کو اس کی طرف مضاف کیا اور نہ اس کے مال سے ادائیگی کی اور نہ یہ کہا کہ اُس نے اس کیلئے خریداہے، تو یہ غلام خریدنے والے کا ہوگا نہ کہ حکم دینے والے کا، یہ مسئلہ ہدایہ، در اور عام کتب میں مذکور ہے، تو یہاں توقیت کی حیثیت وہاں اضافت کی طرح ہے کیونکہ اس کا فعل آمر کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور اُس کے ظرف کا حاصل کرلینا اس کے مال سے ادائیگی کی طرح ہے اور یہ اقرار اس اقرار کی طرح اور یہ تعیین اس تعیین کی طرح ہے، واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔ (ت)


بالجملہ یہ نو صورتیں ہیں جن میں سے چار میں وہ شے مباح لینے والے کی مِلک ہے اور پانچ میں دوسرے کی۔ یہ جبکہ لینے والا حُر ہو ورنہ مملوک کسی شے کا مالک نہیں ہوتا اس کا جو کچھ ہے اس کے مولی کا ہے ھذا ماظھر لی نظرا فی کلماتھم وارجو ان یکون صوابا ان شاء اللّٰہ تعالٰی (یہ وہ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوا ان کے کلمات کو دیکھتے ہوئے اور مجھے امید ہے کہ یہی صحیح ہوگا ان شاء اللہ تعالٰی۔ ت)


تنقیح دوم(۱) یہ اصول مطلق استیلائے مباح میں ہُوئے یہاں کہ گفتگو نابالغ میں ہے یہ بھی دیکھنا ضرور کہ اُس کے والدین اگر اُس سے کوئی شے مباح مثلاً کُنویں سے پانی یا جنگل سے پتّے منگائیں تو اُس نسبت بنوت کے سبب احکام مذکورہ استیلاء میں کوئی تفاوت آئے گا یا نہیں، اگر آئے گا تو کیا۔ اس میں علماء کے تین قول ہیں:

اوّل کہ زیادہ مشہور ہے یہ کہ والدین کو بھی مباحات میں استخدام کا اختیار نہیں صبی اگرچہ ان کے حکم سے اُنہیں کے لئے انہیں کے ظرف میں لے خود ہی مالک ہوگا اور والدین کو اُس میں تصرف حرام مگر بحالت محتاجی۔

اقول: یعنی بحالت فقر بلاقیمت اور بحالتِ احتیاج حاضر مثلاً سفر میں ہوں اور مال گھر میں بوعدہ قیمت تصرف کرسکتے ہیں ذخیرہ ومنیہ پھر معراج الدرایہ پھر حموی کنز پھر طحطاوی پھر شامی میں ہے:


لوامر صبیا ابوہ اوامہ باتیان الماء من الوادی اوالحوض فی کوز فجاء بہ لایحعل لابویہ ان یشربا من ذلک الماء اذالم یکونا فقیرین لان الماء صار ملکہ ولایحل لھما الاکل ای والشرب من مالہ بغیر حاجۃ ۱؎۔


اگر کسی بچّہ کو اپنے باپ یا ماں نے وادی یا حوض سے لوٹے میں پانی لانے کو کہا پھر وہ پانی لے آئے تو اس کے ماں باپ کیلئے اس پانی کو پینا جائز نہیں بشرطیکہ وہ فقیر نہ ہوں، کیونکہ پانی اُس بچّہ کی مِلک ہوگیا اور اُن دونوں کیلئے اس کے مال سے بلاحاجت کھانا پینا جائز نہیں۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب        مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)

جامع احکام الصغار پھر حموی اشباہ اور تاتارخانیہ پھر ردالمحتار میں ہے:اذا(۲) احتاج الا ب الی مال ولدہ فان کانا فی المصر واحتاج لفقرہ اکل بغیر شیئ وانکانا فی المفازۃ واحتاج الیہ لانعدام الطعام معہ فلہ الاکل بالقیمۃ ۲؎۔


جب باپ کو بچّہ کے مال کی حاجت ہو اور وہ شہر میں ہو اور فقر کی وجہ سے بچہ کا مال کھانے کا محتاج ہو تو کھالے اور اس پر کوئی شے نہیں، اور اگر یہ صورت حال جنگل میں پیش آئے اور باپ کے پاس کھانا موجود نہ ہو اور اس کو کھانے کی ضرورت ہو تو وہ قیمت کے ساتھ کھا سکتا ہے۔ (ت)


(۲؎ ردالمحتار    کتاب الہبۃ        مصطفی البابی مصر    ۴/ ۵۷۳)


جامع الفصولین فوائد امام ظہیر الدین سے ہے:لوکان الاب فی فلاۃولہ مال فاحتاج الی طعام ولدہ اکلہ بقیمۃ لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الاب احق بمال ولدہ اذا احتاج الیہ بالمعروف والمعروف ان یتناولہ بغیر شیئ لوفقیرا والا فبقیمتہ ۱؎۔


(۱؎ جامع الفصولین    الفصل السابع والعشرون    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۱۹)


اگر باپ جنگل میں ہو اور اس کے پاس مال ہو اور پھر اس کو اپنے بیٹے کا مال کھانے کی ضرورت لاحق ہو تو وہ اس کی قیمت دے کر کھا سکتا ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ باپ کو اپنے بیٹے کے مال کا معروف طریقہ کے مطابق زیادہ حق ہے اور معروف طریقہ یہی ہے کہ بلاقیمت استعمال کرے اگر فقیر ہو، ورنہ قیمت کے ساتھ استعمال کرے۔ (ت)


مگر اس اجازت سے احکام مذکورہ استیلا میں کوئی تغیر نہ ہوا کہ مِلک نابالغ ہی کی قرار پائی۔ ماں باپ کو قیمتاً یا مفت اُس میں تصرف کی اجازت کچھ اسی مال استیلاء سے خاص نہیں صبی کی ہر مِلک میں ہے۔


دوم فقیر والدین کی طرح غنی ماں باپ کو بھی بچہ سے ایسی خدمت لینے کا حق ہے اور وہ پانی روا کہ عرف ورواج مطلق ہے یہ امام محمد سے ایک روایت ہے ذخیرہ اور اس کے ساتھ کی کتابوں میں بعد عبارت مذکورہ ہے: وعن محمد یحل لھما ولوغنیین للمعروف والعادۃ ۲؎۔ (محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان دونوں کے لئے حلال ہے اگرچہ دونوں غنی ہوں کیونکہ عرف اور عادت کا اعتبار ہے۔ ت)


(۲؎ ردالمحتار        فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)


اقول:اس تقدیر پر ظاہر یہ ہوتا کہ جو مباح صبی نے فرمائش والدین سے لیا اس کے مالک والدین ہی ٹھریں ورنہ بحالِ غنا ان کو تصرف ناروا ہوتا قال تعالٰی مَنْ کَانَ غَنِیاًّ فَلْیستَعْفِفْ ۳؎  (اللہ تعالٰی کا فرمان ہے جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے۔ ت) تو یہ روایت صور نہ گانہ استیلاء سے صورت سوم کے حکم میں والدین کا استثناء کرتی مگر امام محمد ہی سے ایسی ہی نادرہ روایت آئی ہے کہ اگر بچہ کھانے پینے کی چیز اپنے ماں باپ کو ہدیۃ دے تو وہ والدین کے لئے مباح ہے تو یہ روایت بھی احکامِ مذکورہ پر کچھ اثر نہ ڈالے گی کہ مالک صبی ہی ٹھرا۔


 (۳؎ القرآن        ۴/ ۶)


جامع احکام الصغار میں ہے:فی ھبۃ فتاوی القاضی ظھیرالدین رحمہ اللّٰہ تعالٰی اذا اھدی الصغیر شیا من المأکولات روی عن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی انہ یباح لوالدیہ وشبہ ذلک بضیافۃ المأذون واکثر مشایخ بخارٰی انہ لایباح ۱؎۔


قاضی ظہیر الدین کے فتاوٰی کی ہبہ کی بحث میں ہےکہ جب بچّہ کھانے کی کوئی چیز بطور ہدیہ دے تو امام محمد سے مروی ہے کہ اس کے والدین کو اس میں سے کھانا جائز ہے، اور انہوں نے اس کو ماذون کی ضیافت کے مشابہ قرار دیا اور بخارا کے اکثر مشائخ کہتے ہیں یہ مباح نہیں۔ (ت)


(۱؎ جامع احکام الصغار مع الفصولین        اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۴۶)


اسی طرح شامی میں تاتارخانیہ وذخیرہ سے ہے اس روایت کی تحقیق بعونہ تعالٰی عنقریب آتی ہے اور یہ کہ وہ اس مقام سے بے علاقہ ہے مگر اقرب یہی ہے کہ یہ روایت والدین کیلئے اباحتِ تصرف کرتی ہے نہ کہ اثباتِ مِلک تو ضابطہ بحال ہے۔

سوم: اگر ماں باپ کے برتن میں لیا تو وہ مالک ہوں گے ورنہ صبی جیسے اجیر۔

اقول: یعنی جس کا نہ وقت معین کیا نہ کسی معین شے کیلئے اجیر نہ اُس نے مستاجر کیلئے اقرار کہ ان حالتوں میں ظرف پر لحاظ نہیں، جامع الصغار میں ہے:


فی بیوع فوائد صاحب المحیط الاب اوالام اذا امر ولدہ الصغیر لینقل الماء من الحوض الی منزل ابیہ ودفع الیہ الکوز فنقل قال بعضھم الماء الذی فی الکوز یصیر ملکا للصبی حتی لایحل للاب شربہ الا عند الحاجۃ لان الاستخدام فی الاعیان المباحۃ باطل وقال بعضھم ان کان الکوز ملکا للاب یصیر ملکا للاب ویصیر الابن محرز الماء لابیہ کالاجیر اذاحمل الماء بکوز المستأجر یکون محرز اللمستأجر کذا ھذا ۲؎۔


صاحبِ محیط کی فوائد کے باب البیوع میں ہے کہ ماں باپ نے چھوٹے بچے کو حوض سے اپنے گھر پانی لانے کو 

کہا اور اس کو لوٹا بھی دیا چنانچہ وہ پانی لے آیا، تو ایسی صورت میں بعض علماء کے نزدیک لوٹے کا پانی بچّہ کی مِلک ہے یہاں تک کہ باپ بلا ضرورت اس میں سے پی بھی نہیں سکتا کیونکہ مباح اشیا کے حصول کیلئے اس سے خدمت لینا باطل ہے، اور بعض نے کہا کہ اگر لوٹا باپ کی ملک ہے تو پانی بھی باپ کی ملک ہوگا اور بیٹا مزدور کی طرح پانی کو اپنے باپ کے لئے جمع کرنے والا قرار پائے گا کیونکہ اجیر اگر مستاجر کے لوٹے میں پانی لائے تو وہ پانی مستاجر ہی کا ہوگا، یہی حال اس کا ہے۔ (ت)


(۲؎ جامع احکام الصغار مع الفصولین        اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۴۷)


اول کو وہ سید علامہ طحطاوی وشامی نقل کرکے فرمایا اس میں حرج عظیم ہے اور واقعی حرج ہے اور حرج نص قرآنی سے مدفوع ہے، وحاول ش ان یوھنہ بالدلیل فنازعہ بان للاب ان یستخدم ولدہ قال فی جامع الفصولین(۱) وللاب ان یعیر ولدہ الصغیر لیخدم استاذہ لتعلیم الحرفۃ وللاب(۲) او الجد اوالوصی استعمالہ بلاعوض بطریق التہذیب والریاضۃ ۱؎ اھ۔قال الا ان یقال لایلزم من ذلک عدم ملکہ لذلک الماء المباح وان امرہ بہ ابوہ واللّٰہ تعالٰی اعلم ۲؎ اھ۔


اور "ش" نے اس کو دلیل کے ذریعہ کمزوردکھانے کی کوشش کی اور فرمایا کہ باپ کو تو ویسے بھی حق ہے کہ بلامعاوضہ بیٹے سے کام لے۔ جامع الفصولین میں فرمایا کہ باپ اپنے چھوٹے بیٹے کو استاد کی خدمت کیلئے متعین کرسکتا ہے تاکہ استاد اس کو صنعت وحرفت سکھائے، اور باپ دادا اور وصی بچّے سے کام لے سکتے ہیں تاکہ ا س کو ادب وتہذیب سکھائیں اور اس کو کام کرنے کی عادت ہو اھ ۔فرمایا مگر اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پانی کا مالک نہیں ہوگا، خواہ اس نے اپنے باپ کے حکم سے پانی لیا ہو واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


(۱؂ ردالمحتار    فصل فی الشرب    البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)

( ۲؂ردالمحتار    فصل فی الشرب    البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)


اقول: الجواب(۳) صحیح نظیف ماکان یستاھل التزییف بل کان(۴) واضحا من قبل فلم یکن للسؤال محل بل(۵) السؤال ساقط من رأسہ فھم لاینکرون جواز الاستخدام للاب لکن ذلک حیث یصح ویتحقق فان الشیئ انما یجوز بعد مایصح والباطل لاوجود لہ وقد علمت انہ فی الاعیان المباحۃ باطل وبہ انکشف ایھا مان واقعا فی کلامہ فی کتاب الشرکۃ حیث کان فی التنویر والدر(۶) لاتصح شرکۃ فی احتطاب واحتشاش واصطیاد واستقاء وسائر مباحات لتضمنھا اوکالۃ والتوکیل فی اخذ المباح لایصح وما حصلہ احدھما فلہ وما حصلاہ معافلھما نصفین ان لم یعلم مالکل وما حصلہ احدھما باعانۃ صاحبہ فلہ ولصاحبہ اجر مثلہ ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں، جواب بالکل درست ہے اس کو ضعیف قرار دینا درست نہ ہوگا، بلکہ پہلے سے واضح تھا، تو سوال کی گنجائش ہی نہ تھی، بلکہ سوال کی بنیاد ہی ساقط ہے، کیونکہ مشائخ اس امر کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ باپ بیٹے سے خدمت لے سکتا ہے لیکن یہ صرف اُسی صورت میں ہے جبکہ متحقق ہو اور صحیح ہو، کیونکہ شے اسی وقت جائز ہوتی ہے جبکہ صحیح ہو اور باطل کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور آپ جان چکے ہیں کہ یہ اعیان مباحہ میں باطل ہے، ان کی کتاب کی کتاب الشرکۃ میں دو وہم تھے وہ بھی اس گفتگو سے ختم ہوگئی، دُر اور تنویر میں ہے لکڑیاں اکٹھی کرنے ، گھاس جمع کرنے ، شکار کرنے اور پانی بھرنے میں شرکت جائز نہیں، اور یہی حال دوسری مباحات کا ہے کیونکہ یہ وکالت کو متضمن ہے اور مباح کے لینے میں تو کیل جائز نہیں، دو میں سے کسی ایک نے جو حاصل کیا وہ اسی کا ہوگا اور جو دونوں نے مل کر حاصل کیا ہو تو وہ آدھا آدھا ہے، اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کس نے کتنا لیا تھا اور جو کچھ ایک نے اپنے ساتھی کی مدد سے لیا وہ اُسی ایک کا ہوگا اور ساتھی کو اجر مثل ملے گا اھ۔


(۱؎ الدرالمختار        شرکت فاسدۃ    مجتبائی دہلی        ۱ /۳۷۴)


فکتب رحمہ اللّٰہ تعالٰی علی قولہ وما حصلاہ فلھما یؤخذ من ھذا ماافتی بہ فی الخیریۃ لواجتمع(۱) اخوۃ یعملون فی ترکۃ  ابیھم  ونَمَا المَالُ فھو بینھم سویۃ ولو اختلفوا فی العمل والرای اھ۔ قال ثم ھذا فی غیر الابن مع ابیہ لما فی القنیۃ الاب(۲) وابنہ یکتسبان فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للاب انکان الابن فی عیالہ لکونہ معینالہ ۲؎ اھ۔


تو انہوں نے اس کے قول وما حصلاہ فلھما پر لکھا ہے اس سے معلوم ہوا کہ خیریہ میں جو فتوی ہے وہ اسی سے ماخوذ ہے اگرچہ کچھ بھائی مل کر اپنے باپ کے ترکہ میں کام کریں، اور پھر کچھ مال حاصل ہوا تو وہ ان کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہوگا خواہ عمل اور رائے میں اختلاف ہی کیوں نہ رہا ہو اھ۔ فرمایا یہ حکم اُس صورت میں نہیں ہے جبکہ بیٹا باپ کے ساتھ مصروف عمل ہو، کیونکہ قنیہ میں ہے اگر باپ بیٹا ایک ہی صنعت میں کام کرتے ہوں اور اُن کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہ ہو تو کل کمائی باپ کی شمار ہوگی بشرطیکہ بیٹا باپ کے عیال میں ہو، کیونکہ وہ اس کا مددگار ہے اھ۔ (ت)


(۲؎ ردالمحتار          شرکت فاسدۃ       البابی مصر        ۳/ ۳۸۳)

اقول: فایرادہ(۳) ھذا الفرع فی ھذا المبحث ربما یوھم ان لواجتمع رجل وابنہ فی عیالہ فی تحصیل مباح کان کلہ للاب ویجعل الابن معینالہ ولیس(۴) کذلک فان الشرع المطھر جعل فی المباح سبب الملک الاستیلاء فمن استولی فھو المالک ولا ینتقل الملک الٰی غیرہ الابوجہ شرعی کھبۃ وبیع ولا ینسب اخذہ لغیرہ الابوجہ شرعی ککونہ عبدہ اواجیرہ علیہ اما الاعانۃ مجانا فھی الخدمۃ وقد علمت بطلان الاستخدام فی تلک الاعیان وکتب علی قولہ باعانۃ صاحبہ سواء کانت الاعانۃ بعمل کما اذا اعانہ فی الجمع والقلع اوالربط اوالحمل اوغیرہ اوباٰلۃ کما لودفع لہ بغلا او راویۃ لیستقی علیھا اوشبکۃ لیصید بھا حموی وقھستانی ط ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں ان کا اِس فرع کو اس بحث میں لانا یہ وہم پیدا کرتا ہے اگر بیٹا باپ کے عیال میں ہو اور باپ بیٹا کسی مباح چیز کے حاصل ہونے میں مل کر کام کریں تو حاصل شدہ چیز پوری کی پوری باپ کی ہوگی اور بیٹا اس کا مددگار قرار پائے گا، حالانکہ بات یہ نہیں ہے کیونکہ شریعت نے مباح اشیاء میںمِلک کا سبب استیلاء کو قرار دیا ہے تو جو بھی کسی مباح پر قابض ہوجائے وہی مالک ہے اور دوسرے کی طرف اب اس کی ملک شرعی طریقوں سے ہی منتقل ہوسکتی ہے جیسے ہبہ اور بیع وغیرہ اور اس کا لینا اس کے غیر کی طرف صرف شرعی سبب سے ہی منسوب ہوگا، مثلاً یہ کہ وہ اس کا غلام ہو، یا مزدور ہو، اور مفت کی اعانت تو یہ خدمت ہے، اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ مباح چیزوں میں خدمت لینا باطل ہے، اور ''باعانۃ صاحبہ'' پر لکھا کہ عام ازیں اعانت عملی ہو، جیسے کسی چیز کے جمع کرنے، اکھاڑنے، باندھنے، اٹھانے وغیرہ میں مدد کرے، یا آلہ کے ذریعے مدد ہو جیسے اس کو خچر دیا، پانی بھرنے کا بڑا ڈول دیا یا شکار کے لئے جال دیا، حموی وقہستانی ط اھ۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار    شرکت فاسدۃ    البابی مصر    ۳/ ۳۸۳)


اقول : فلا یتوھمن(۱) منہ الاعانۃ فی قلع الحطب بان یقلع البعض ھذا والبعض ھذا لانہ ھو تحصیلھما بل(۲) المعنی انہ وضع یدہ مع یدہ فی القلع حتی ضعف تعلقہ فقلعہ المعان اوعمل ھذا اولا وترکہ قبل ان ینقلع ثم عمل ذاک فقلعہ یکون الاول معینا والملک للقالع کمن(۳) استقی من بئر فاذا دنا الدلو من رأسہ اخرجھا ونحاھا عن رأس البئر غیرہ فان الملک للثانی وکذلک اذا اثار احد صیدا وجاء بہ علی اخر فاخذہ کان للاٰخذ  وما احسن وابعد عن الایھام عبارۃ الھدایۃ حیث قال وان(۱) عمل احدھما واعانہ الاٰخر فی عملہ بان قلعہ احدھما وجمعہ الاٰخر اوقلعہ وجمعہ وحملہ الاٰخر فللمعین اجر المثل ۱؎۔


میں کہتا ہوں اس سے یہ وہم پیدا نہ ہو کہ لکڑیاں اکھاڑنے میں مدد دینا بھی اسی طرح ہے، مثلاً بعض لوگ اس طرف سے اور بعض اُس طرف سے لکڑیاں اکھاڑیں اس لئے یہ اُن دونوں کا حاصل کرنا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک ہی لکڑی پر ہاتھ رکھیں اور دونوں ایک ساتھ اس کو اکھاڑیں، یا یہ کہ پہلے ایک شخص نے ایک درخت پر زور آزمائی کی اور ہٹ گیا پھر دوسرے نے زور آزمائی کی اور اس کو اکھاڑ لیا، تو پہلا مددگار قرار پائے گا اور ملک اکھاڑنے والے کی ہوگی، جیسے کوئی شخص ڈول بھر کر کنویں سے پانی نکالے اور جب ڈول کنویں کے دہانے تک آجائے تو دوسرا شخص نکال کر رکھ دے۔ اس صورت میں مِلک دوسرے کی ہوگی، اسی طرح کسی نے شکار کو ہنکایا اور دوسرے شخص کے قریب آیا اور دوسرے شخص نے پکڑ لیا، تو جس نے پکڑا اسی کا ہوگا۔مگر ہدایہ کی عبارت ہر قسم کے وہم سے پاک صاف ہے اس میں ہے کہ اگر عمل ایک نہ کیا اور دوسرے نے اس عمل میں معاونت کی، مثلاً یہ کہ درخت ایک شخص نے اکھاڑے اور دوسرے نے جمع کئے یا اکھاڑے اور جمع کئے لیکن اٹھائے دوسرے نے، تو مددگار کو اجر مثل ملے گا۔ (ت)



(۱؎ الہدایۃ    فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ    جزثانی     المکتبۃ العربیہ کراچی    ۱/ ۶۱۴)


دوم کہ نص محرر المذہب سے مروی نظر ظاہر گمان کرے گی کہ بہت کتب معتمدہ مشہورہ نے اُس پر اعتماد کیا فتاوٰی(۱) اہل سمرقند پھر فتاوٰی(۲) خلاصہ میں اُس کے حوالہ سے ہے: رجل وھب(۲) للصغیر شیاا من المأکول یباح للوالدین ان یاکلا منہ کذاروی عن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی ۲؎۔ اگر کسی شخص نے بچے کو کھانے کی چیز ہبہ کی تو اس کے والدین کیلئے وہ چیز بھی کھانا جائز ہے محمد رحمہ اللہ سے یہی مروی ہے۔ (ت)


 (۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الہبۃ    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ        ۴/ ۴۰۰)


وجیز کردری میں ہے : وھب للصغیر من المأکول شیا یباح للوالدین ان یاکلاہ ۳؎۔ اگر کسی شخص نے بچے کو کھانے کی چیز ہبہ کی تو اس کے والدین کو اس چیز کا کھانا صحیح ہے۔ (ت)


 (۳؎ فتاوٰی بزازیۃ مع الہندیۃ     کتاب الہبۃ    پشاور    ۶/ ۲۳۷)


فتاوٰی سراجیہ میں ہے :  اذا وھب الصبی شیئا من الماکول قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی مباح لوالدیہ ان یاکلا منہ وقال اکثر مشایخ بخارٰی لایحل ۱؎ اھ


اگر کسی نے بچہ کو کھانے کی کوئی چیز ہبہ کی تو محمد نے فرمایا اس کے والدین کیلئے اس میں سے کھانا مباح ہے۔اوربخارٰی کے اکثر مشائخ نے فرمایاوالدین کو کھانا حلال نہیں اھ (ت)


(۱؎ فتاوٰی سراجیۃ        مسائل متفرقۃ من ہبۃ        لکھنؤ        ص۹۶)


اقول: وتفرد(۱) بتعبیر قال محمد فان عبارۃ العامۃ روی عندہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ میں کہتا ہوں "قال محمد" کی عبارت تنہا انہو ں نے ہی استعمال کی ہے کیونکہ عام کتب کی عبارت یہ ہے کہ ان سے مروی ہے واللہ تعالٰی اعلم (ت)


فتاوٰی(۵) ظہیریہ پھر غمز(۶) العیون میں ہے : اذا اھدی للصغیر شیئ من المأکولات روی عن محمد انہ یباح لوالدیہ وشبہ ذلک بالضیافۃ واکثر مشایخ بخارٰی علی انہ لایباح بغیر حاجۃ ۲؎۔


جب بچہ کو کسی نے کھانے کی چیزیں ہدیہ میں دیں، تو محمد سے مروی ہے کہ اس کے والدین کو ان کا کھانا مباح ہے اور یہ ضیافت کی طرح ہے اور بخارٰی کے اکثر مشایخ کا کہنا ہے کہ بغیر حاجت جائز نہیں۔ (ت)


(۲؎ جامع الصغار مع الفصولین الکراہیۃ        اسلامی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۴۶)


بحرالرائق(۷) میں ہے : یباح للوالدین ان یاکلا من المأکول الموھوب للصغیر کذا فی الخلاصۃ فافاد ان غیر المأکول لایباح لھما الا عند الاحتیاج کما لایخفی ۳؎۔


والدین کو بچّہ کی موہوبہ چیز کا کھانا مباح ہے کذا فی الخلاصہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ماکول کو استعمال میں لانا مباح نہیں، ہاں ضرورۃً جائز ہے کمالایخفی۔ (ت)


 (۳؎ بحرالرائق        کتاب الھبۃ        سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۲۸۸)


درمختار میں ہے : وفیھا ای فی السراجیۃ یباح لوالدیہ ان یاکلا ممن مأکول وھب لہ وقیل لاانتھی۔ فافاد ان غیر الماکول لایباح لھما الا لحاجۃ ۴؎ اھ


سراجیہ میں ہے بچہ کے والدین کو مباح ہے کہ بچہ کو ہدیہ کی گئی چیز سے کھائیں اور ایک قول ہے کہ جائز نہیں انتہی، اس سے معلوم ہوا کہ غیر ماکول سے بلاحاجۃ استفادہ جائز نہیں اھ (ت)


 (۴؎ الدرالمختار       کتاب الھبۃ          مجتبائی دہلی        ۲/ ۱۶۰)


اقول: وکانہ اخذہ من ان العمل بقول اصحاب الامام اذا لم یوجد عنہ قول ولا یوازیہ قول المشایخ وان کثروا کماذکرنا نصوصہ فی رسالتنا اجلی الا علام بان الفتوی مطلقا علی قول الامام لاسیما وقد عبرہ بقال محمد والا فلیس فی السراجیۃ قیل کما اسمعناک نصھا۔


میں کہتا ہوں شاید انہوں نے یہ فتوٰی اس اصول سے اخذ کیا ہے کہ امام کے اصحاب کے قول پر اس وقت عمل ہوگا جب امام سے کوئی قول نہ پایا جائے اور امام کے قول کے ہمسر مشائخ کے اقوال نہیں ہوسکتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی زیادہ ہوں اس کے نصوص ہم نے اپنے رسالہ اجلی الاعلام بان الفتوی مطلقا علی قول الامام میں ذکرکئے ہیں خاص طور پر انہوں نے اس کو ''قال محمد'' سے تعبیر کیا ہے ورنہ سراجیہ میں قلیل نہیں ہے جیسا کہ ہم نے اس کی نص ذکر کی ہے۔ (ت)

تاتارخانیہ(۹) پھر ردالمحتار(۱۰) میں ہے :


روی عن محمد نصا انہ یباح وفی الذخیرۃ واکثر مشائخ بخارٰی علی انہ لایباح ۱؎ محمد سے مروی ہے بطور نص کہ یہ مباح ہے اور ذخیرۃ میں ہے کہ اکثر مشائخ بخارٰی اس پر ہیں کہ مباح نہیں ۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار        کتاب الہبۃ        مصطفی البابی مصر    ۴/ ۵۷۲)

اسی طرح جواہر(۱۱) اخلاطی وہندیہ(۱۲) میں ہے جامع(۱۳) الصغار کی عبارت اوپر گزری۔ اقول: مگر نظردقیق حاکم ہے کہ دونوں روایتیں اگرچہ امام محرر المذہب رحمہ اللہ تعالٰی سے ہیں لیکن اس روایت اور ان عبارات کو اس روایت سے علاقہ نہیں یہاں وہ شے مِلک صبی نہیں بلکہ دوسرے نے صبی کے نام ہدیہ بھیجی ہے اور عادت فاشیہ جاری ہے کہ کھانے پینے کی تھوڑی چیز بچّوں ہی کے نام کرکے بھیجتے ہیں اور مقصود ماں باپ کو دینا ہوتا ہے اور یہ تو قطعاً نہیں ہوتا کہ ماں باپ پر حرام سمجھتے ہوں اس عرف کا انتشار تام وعام دیکھ کر مطلق حکم فرمایا یا کہیں تفصیل وتوضیح فرمادی۔ فتاوٰی(۱) سمرقند پھر تاتاخانیہ(۲) پھر شامیہ(۳) نیز کتاب(۴) التجنیس والمزید پھر جامع(۵) الصغار میں ہے:


اذ اھدی الفواکہ الی الصبی الصغیر یحل للاب والام الاکل اذا ارید بذلک برالاب والامام لکن اھدی الی الصغیر استصغار اللھدیۃ ۲؎۔ جب چھوٹے بچے کو کسی نے میوہ جات ہدیہ کئے تو اس کے ماں باپ کو اس میں سے کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس ہدیہ کا مقصد ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک ہو اور بچہ کو محض اس لئے ہدیہ کیا گیا ہو کہ ہدیہ کو چھوٹا سمجھا گیا ہو۔ (ت)


 (۲؎ جامع الصغار مع الفصولین الکراہیۃ        اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۴۶)


ملتقط(۶) پھر اشباہ(۷) کی تعبیر اور احسن ہے جس سے اس عادت کا فاشیہ ہونا روشن ہے۔ حیث قالا اذا اھدی(۱) للصبی شیئ وعلم انہ لہ فلیس للوالدین الا کل منہ لغیر حاجۃ ۱؎ اھ۔ انہوں نے فرمایا کہ جب بچہ کو کوئی چیز ہدیہ کی گئی ہو اور معلوم ہو کہ وہ صرف بچے کیلئے ہے تو والدین اس میں سے بلا حاجت نہیں کھا سکتے اھ۔ (ت)


 (۱؎ الاشباہ والنظائر    احکام الصبیان    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۱۴۵)


اقول: بنی المنع علی علم انہ للصغیر فافاد الاباحۃ اذالم یعلم شیئ ردا الی العادۃ الفاشیۃ۔ میں کہتا ہوں والدین کیلئے اس کا استعمال جائز نہ ہونا اس شرط سے مشروط ہے کہ اُسے علم ہو کہ یہ بچّہ کا ہے تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ جب علم نہ ہو تو مباح ہے عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے کہا گیا ہے۔ (ت)

امام ظہیرالدین نے اُن عبارات مطلقہ کی دلیل بیان فرما کر اس امر کا تصفیہ فرمادیا، ظہیریہ(۸) پھر عٰلمگیریہ(۹) میں ہے:


اھدی للصغیر الفواکہ یحل لوالدیہ اکلھا لان الاھداء الیھما وذکر الصبی لاستصغار الھدیۃ ۲؎ اھ۔ بچہ کو پھل ہدیہ کیے گئے تو اس کے والدین کو اُن کا کھانا جائز ہے کیونکہ ہدیہ دراصل والدین کو ہی تھا بچہ کے ہاتھ میں اس لئے دیا گیا کہ ہدیہ کو معمولی سمجھا گیا۔ (ت)


(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ    الباب الثالث من الہبۃ    پشاور        ۴/ ۳۸۱)


اقول:ومن ھھنا ظھر ان ماتقدم عن جامع الصغار عن الظھیریۃ اذا اھدی الصغیر شیا من الماکولات ان لم یکن عن نقلہ بالمعنی لان المسألۃ فی سائر الکتب فیما وھب شیئ للصغیر وقد نقل عن الظھیریۃ نفسھا فی الغمز بلفظ اذا اھدی للصغیر شیئ کما سمعت فلیس مرادہ الا اھداؤہ مما اھدی الیہ لاان یبتدی الصبی فیھدی من ملکہ شیا

والدلیل علیہ قولہ وشبہ ذلک بضیافۃ المأذون فالمأذون لایضیف(۱) من مال نفسہ بل مولاہ ومولاہ انما اذن فی التجارۃ لکن العوائد قضت ان امثال الضیافات لابدمنھا فی التجارات فکان اذنہ فی التجارۃ اذنا فیھا کذلک الصبی لاھدی من مال نفسہ بل مال المہدی والمُھدی انما سمی الصبی لکن فشت العوائد ان امثال الھدایا لایمنع عنھا ابواہ فکان اھداؤہ الیہ اھداء الیھما۔


میں کہتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ جو عبارت جامع صغیر سے ظہیریہ سے گزری کہ جب بچہ کھانے پینے کی کوئی چیز ہدیہ کرے، اگر یہ اس کی نقل بالمعنی نہیں ہے کیونکہ تمام کتب میں یہ مسئلہ اس طرح مذکور ہے کہ کوئی چیز بچہ کو ہبہ کی گئی اور خود ظہیریہ میں غمز سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ جب بچہ کو کوئی چیز ہبہ کی گئی جیسا کہ تم نے سنا، تو ان کی مراد یہ ہے کہ بچّہ اس چیز سے ہدیہ کرے جو اس کو ہدیہ کی گئی ہو، یہ نہیں کہ بچہ ابتداء کرے اور اپنی مِلک سے کچھ ہدیہ کرے، اور اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے کہ اور یہ مشابہ ماذون کو ضیافت کے ہے کہ ماذون اپنے مال سے ضیافت نہیں کرتا ہے بلکہ اپنے مولٰی کے مال سے کرتا ہے اور اس کے مولٰی نے اس کو تجارت کی اجازت دی ہے، لیکن عرف میں یہ عادت ہے کہ تجارت میں اس قسم کی ضافتیں ہوتی ہی رہتی ہیں، تو تجارت کی اجازت دینا ضیافت کی اجازت کے مترادف ہے، اسی طرح بچہ اپنے مال سے ہدیہ نہیں دیتا ہے بلکہ ہدیہ دینے والے کے مال سے ہی ہدیہ دیتا ہے اور ہدیہ دینے والے نے بچہ کا نام لیا مگر عام طور پر عادت یہ ہے کہ اس قسم کے ہدایا سے ماں باپ کو منع نہیں کیا جاتا ہے تو بچوں کو ہدیہ دینا ماں باپ کو ہدیہ دینا سمجھا جاتا ہے۔ (ت)


اقول : والوجہ فیہ ان المأکولات مما یتسارع الیھا الفساد فیکون اذنا من المھدی لھما فی التناول دلالۃ وذلک بان یقع الملک لھما بخلاف مایدخر فظھر اصابۃ البحر والدر فی قولھما افادان غیر المأکول لایباح لھما الا لحاجۃ ۱؎ واندفع(۲) ماوقع للعلامۃ ش حیث قال بعد نقل مامر عنہ عن التتارخانیۃ عن فتاوی سمرقند قلت:وبہ یحصل التوفیق ویظھر ذلک بالقرائن وعلیہ فلا فرق بین المأکول وغیرہ بل غیرہ اظھر ۲؎ اھ۔ ای فان ارادۃالولد بھبۃ المأکول اظھر واکثر فاذا ساغ الاکل ثمہ عند عدم دلیل یقتضی باختصاص الھدیۃ بالولد فھذا اولی وقد عرفت الجواب وباللّٰہ التوفیق۔


میں کہتا ہوں کھانے پینے کی چیزیں عام طور پر جلدی گل سڑ جاتی ہیں تو ہدیہ دینے والے کی طرف سے والدین کو اشارۃً کھانے کی اجازت سمجھی جائے گی، اور اس طرح مِلک والدین کے لئے ثابت ہوگی اور جو اشیاء جلد خراب ہونے والی نہیں ہیں ان کا یہ حکم نہیں ہے، تو بحر اور دُر کے قول کی صحت ظاہر ہوگئی، ان کا قول ہے کہ جو چیزیں کھانے پینے کی نہیں ان کا استعمال والدین کے لئے جائز نہیں، ہاں حاجت کے وقت جائز ہے، اور علامہ "ش" کا اعتراض ختم ہوا انہوں نے تو وہ عبارت نقل کی جو تتارخانیہ، فتاوی سمرقند سے گزری، پھر فرمایا میں کہتا ہوں اس سے موافقت ظاہر ہوگئی اور یہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے، اور اس لحاظ سے اس میں ماکول اور غیر ماکول کا کوئی فرق نہیں بلکہ اس کا غیر اظہر ہے اھ۔یعنی ماکول کے ہبہ سے بچہ کا ارادہ اظہر ہے اور اکثر ہے تو جب وہاں کھانا جائز ہوا کسی ایسی دلیل کے نہ ہونے کے وقت جو ہدیہ کے بچہ کے ساتھ مختص ہونے کا تقاضا کرتی ہو تو یہ اولٰی ہے اور آپ کو اس کا جواب مل چکا ہے وباللہ التوفیق۔ (ت)


(۱؎ الدرالمختار    کتاب الہبۃ    مجتبائی دہلی        ۲/ ۱۶۰)

(۲؎ ردالمحتار     کتاب الہبۃ    مصطفی البابی مصر    ۴/ ۵۷۲)


بالجملہ یہ روایات غیر مِلک صبی میں ہیں اور یہاں کلام مِلِک صبی میں کہ مباح پانی بلاشبہ بھرنے والے کی مِلک ہوگا جبکہ بروجہ اجارہ نہ ہو اور صبی کی مِلک والدین کو بے احتیاج حلال نہیں مقتضائے نظر فقہی تو یہ ہے۔

اقول: وباللہ التوفیق مگر شک نہیں کہ عرف وعادت اس کے خلاف ہے اور وہ بھی دلائل شرعیہ سے ہے تو مناسب کہ اسے قلیل عفو قرار دیں جس پر قرآن وحدیث سے دلیل ہے قال اللہ عزوجل: وَیسئَلُوْنَکَ عَنِ الْیتٰمٰی قُلْ اِصْلَاح لَّھُمْ خَیر وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یعلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ط ۱؎۔


اور وہ آپ سے یتیموں کی بابت پُوچھتے ہیں فرمادیجئے ان کی اصلاح بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ اپنا مال ملا کر کھاؤ وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ مفسد کو مصلح سے جانتا ہے۔ (ت)


  (۱؎ القرآن    ۲ /۲۲۰)


اس آیت میں احد التفسیرین پر یتیم کے ساتھ جواز مخالطت مال ہے اور ظاہر کہ بحال مخالطت کامل امتیاز قریب محال ہے ۔ تفسیرات احمدیہ میں ہے: وفی الزاھدی قال ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما المخالطۃ ان تأکل من ثمرہ ولبنہ وقصعتہ وھو یاکل من ثمرتک ولبنک وقصعتک والاٰیۃ(۱) تدل علی جواز المخالطۃ فی السفر والحضر یجعلون النفقۃ علی السواء ثم لایکرہ ان یاکل احدھما اکثر لانہ لما جازفی اموال الصغار فجوازہ فی اموال الکبار اولی ھذا لفظہ فاحفظہ فانہ نافع وحجۃ علی کثیر من المتعصبین فی زماننا ۱؎ اھ۔


اور زاہدی میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ مخالطت یہ ہے کہ تم اس کے پھل اس کا دودھ اور اس کے پیالہ میں کھاؤ اور وہ بھی اسی طرح تمہارے ساتھ تمہارے پھل کھائے اور تمہارا دودھ پئے اور تمہارے پیالے میں کھائے اور یہ آیت مخالطت کے جواز پر دلالت کرتی ہے خواہ سفر میں ہو یا حضر میں ہو جبکہ نفقہ کو برابر کا رکھیں، پھر اس میں کوئی کراہت نہیں کہ ان میں سے کوئی زائد کھالے کیونکہ یہ چیز جب بچوں کے مال میں جائز ہے توبڑوں کے اموال میں بطور اولٰی جائز ہے،یہ ان کے الفاظ ہیں ان کو بخوبی یاد رکھیں، یہ مفید بھی ہیں اور ہمارے عہد کے بہت سے متعصبین پر حجت بھی ہیں اھ۔ (ت)


 (۱؎ تفسیراتِ احمدیۃ        بیان اصلاح    کریمی کتب خانہ بمبئی        ص۱۰۳)


اقول:(۱) فاذن مافی جامع الصغار عن فتاوٰی رشید الدین من باب دعوی الاب والوصی لولم تکن الام محتاجۃ الی مالہ ولکن خلطت مالھا بمال الولد واشترت الطعام واکلت مع الصغر ان اکلت مازاد علی حصتھا لایجوز لانھا اکلت مال الیتیم ۲؎ اھ۔ معناہ الزیادۃ المتبینۃ(۲) ففی جامع الرموز عن الباب المذکور من الفتاوی المذبورۃ قبیل ھذا صبی یحصل المال ویدفع الی امہ والام تنفق علی الصبی وتأکل معہ قلیلا نحو لقمۃ اولقمتین من غیر زیادۃ لایکرہ ۳؎۔


میں کہتا ہوں، تو جامع الصغار میں فتاوٰی رشید الدین سے (دعوی الاب والوصی میں) جو منقول ہے اگر ماں بچہ کے مال کی محتاج نہ ہو، لیکن اس نے بچہ کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھانا خریدا اور بچّہ کے ساتھ کھایا تو اگر اپنے حصہ سے زیادہ کھایا تو جائز نہیں کیونکہ اس نے یتیم کا مال کھایا اھ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اتنی زیادتی جو بالکل واضح اور ظاہر ہو، اسی فتاوی کے مذکور باب سے جامع الرموز میں منقول ہے، اس سے کچھ ہی پہلے، کہ ایک بچہ ہے جو مال لاتا ہے اور مال کو دیتا رہتا ہے اور ماں اس پر خرچ کرتی رہتی ہے اور لقمہ دو لقمہ خود بھی اس کے ساتھ کھاتی رہتی ہے زیادہ نہیں، تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ (ت)


 (۲؎ جامع الصغار        مسائل الکراہیۃ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۴۸)

(۳؎ جامع الصغار مع جامع الفصولین مسائل الکراہیۃ    اسلامی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۱۴۸)

صحیح مسلم شریف میں عبداللہ بن عباس سے ہے : قال کنت العب مع الصبیان فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتواریت خلف باب فجاء فحطأنی حطأۃ عہ وقال اذھب ادع لی معویۃ ۱؎۔


فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں ایک دروازہ کے پیچھے چھُپ گیا تو آپ میرے پاس تشریف لائے اور میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے (پیار سے) تھپکی دی اور کہا کہ معٰویہ کو بلا لاؤ۔ (ت)


عــہ: حطأنی بحاء ثم طاء مھملتین وبعدھما ھمزۃ وھو الضرب بالید مبسوطۃ بین الکتفین اھ حدیقہ ندیہ۔

حطاء نی حاء پھر طاء دونوں بغیر نکتہ کے اور ان کے بعد ہمزہ ہے، معنٰی ہے دو کندھوں کے درمیان ہاتھ سے تھپکی دینا اھ حدیقہ  ندیہ۔ (ت)


(۱؎ صحیح للمسلم    باب من لعنہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم... الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۲۵)


امام (۱) نووی شرح میں فرماتے ہیں: فیہ جواز ارسال صبی غیرہ ممن یدل علیہ فی مثل ھذا ولا یقال ھذا تصرف فی منفعۃ الصبی لان ھذا قدر یسیر ورد الشرع بالمسامحۃ فیہ للحاجۃ واطرد بہ العرف وعمل المسلمین ۲؎۔


اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے کے بچہ کو اس جیسے کام کیلئے بھی بھیجا جا سکتا ہے اور اس کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ بچہ کی منفعت میں تصرف کیا کیونکہ یہ معمولی چیز ہے اور شریعت نے ضرورتاً اس قسم کی چیزوں کی اجازت دی ہے اور عام طور پر مسلمانوں کا اس پر عمل ہے۔ (ت)


(۲؎ شرح للنووی    باب من لعنہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم... الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۲۵)


عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ، نے حدیقہ ندیہ میں اسے مقرر رکھا۔

سوم میں امر ابوین کو اجارہ پر قیاس کیا۔

اقول اولا:یہ صحت تو کیل کو چاہتا ہے اور اعیان(۲) مباحہ میں تو کیل خلاف نصوص ہے وعللوہ بوجوہ (اور انہوں نے اس کی کئی علتیں بیان کی ہیں)


الاول:ان صحۃ التوکیل تعتمد صحۃ امر الموکل بما وکل بہ وصحۃ الامر تعتمد الولایۃ ولا ولایۃ للموکل علی المباح ونقض بالتوکیل بالشراء فان الموکل لاولایۃ لہ علی المشری۔


اول: توکیل کی صحت کا دارومدار اس پر ہے کہ جو کام موکل نے وکیل کو سپرد کیا ہے وہ درست ہے اور اس کام کی صحت کا مدار ولایت پر ہے اور مُباح کام پر موکل کو کوئی ولایت نہیں ہے اور اس پر توکیل بالشراء سے اعتراض وارد ہے، کیونکہ موکل کو خریدی جانے والی چیز پر کوئی ولایت حاصل نہیں ہے۔


والثانی ان التوکیل احداث ولایۃ للوکیل ولا یصح ھنا لانہ یملک اخذ المباح بدون تملیکہ ونقض بالتوکیل بشراء شیئ لابعینہ فان الوکیل یملکہ قبل التوکیل وبعدہ واجاب فی العنایۃ ان معناہ یملکہ بدون امرالموکل بلا عقد وصورۃ النقض لیست کذلک فانہ لایملکہ الا بالشراء ۱؎ اھ۔


دوم: توکیل کے معنی وکیل کیلئے ولایت کا ایجاد کرنا ہے اور وہ یہاں درست نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی تملیک کے بغیر ہی مباح کو لے سکتا ہے اور اس پر یہ نقض ہے کہ کسی کو غیر معین چیز کے خریدنے کا وکیل بنایا، کیونکہ وکیل تو توکیل سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس کا مالک ہے۔ اورعنایہ میں اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا مالک ہے موکل کے حکم کے بغیر، اور بغیر عقد کے۔ اور نقض کی صورت یہ نہیں ہے، کیونکہ وہ خریدے بغیر اس کا مالک نہیں ہے اھ۔ (ت)


(۱؎ عنایۃ مع الفتح القدیر    الشرکۃ الفاسدۃ    نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۰۹)


اقول: رحمک(۱) اللّٰہ تعالٰی لیس المراد ملک العین بل ولایۃ ذلک الفعل کالاخذ ثمہ والشراء ھھنا وھو لایملکہ بالعقد بل العقد ناشیئ عن ملکہ ثم رأیت سعدی افندی اومأ الیہ اذقال فیہ تأمل فان الموکل بہ ھو الشراء فالوکیل یملکہ فلا یندفع النقض ۲؎ اھ۔ والصواب فی الجواب انہ لم یکن لہ من قبل ولایۃ ان یشغل ذمۃ الموکل بالثمن وردہ المحقق فی الفتح بان حاصل ھذا ان التوکیل بما یوجب حقا علی الموکل یتوقف علی اثباتہ الولایۃ علیہ فی ذلک والکلام فی التوکیل بخلافہ ۳؎ اھ ای باخذ المباح فانہ لایثبت فیہ حق علی الموکل۔


میں کہتا ہوں اس سے مراد ملکِ عین نہیں ہے بلکہ اُس کام کے کرنے کا اختیار ہے جیسے وہاں لینا اور یہاں خریدنا، اور وہ عقد کی وجہ سے اس کا مالک نہیں، بلکہ عقد تو خود اس کی مِلک سے پیدا ہوتا ہے پھر میں نے دیکھا کہ سعدی افندی نے اسکی طرف اشارہ کیا ہے وہ فرماتے ہیں اس میں تامل ہے، کیونکہ جس چیز کا وکیل بنایا ہے وہ ''شرا'' ہے تو وکیل اس کا مالک ہے، تو نقض مرتفع نہ ہوگا اھ۔ تو اس کا صحیح جواب یہ ہوگا کہ موکل کو پہلے یہ ولایت حاصل نہ تھی کہ وہ موکل کے ذمہ کو ثمن کے ساتھ مشغول رکھے، اور محقق نے اس کا فتح میں رد کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ ایسی چیز کی توکیل جو موکل پر حق ثابت کرے اس امر پر موقوف ہے کہ وہ اس پر ولایت کو ثابت کرے اور گفتگو توکیل میں اس کے برخلاف ہے اھ۔ یعنی مباح کے لینے میں، کیونکہ اس میں موکل پر حق ثابت نہیں ہوتا۔ (ت)


(۲؎ حاشیۃ چلپی       الشرکۃ الفاسدۃ    نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۰۹)

(۳؎ فتح القدیر       الشرکۃ الفاسدۃ    نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۱۰)


اقول:ھذا(۱) اعتراف بالمقصود فان التوکیل مطلقا اثبات ولایۃ للوکیل لم تکن من قبل ولایوجد ھھنا فلایصح التوکیل بہ بخلاف الشراء ولیس ان احداث الولایۃ مطلوب خصوصا فی التوکیل بما یوجب حقا علی الموکل حتی یقال لیس التوکیل باخذ المباح من ھذا الباب فلا یحتاج الی احداث الولایۃ۔


میں کہتا ہوں یہ مقصود کا اعتراف ہے کیونکہ توکیل مطلقا وکیل کے لئے ولایت کا اثبات ہے، ایسی ولایت جو اس کو پہلے حاصل نہ تھی، اور وہ یہاں پائی نہیں جاتی ہے، تو اس کی توکیل صحیح نہ ہوگی، اور شراء میں یہ چیز نہیں ہے، اور ولایت کا ایجاد و احداث مطلوب نہیں ہے خاص طور پر اس توکیل میں، جو موکل پر کسی حق کو واجب کرتی ہو، اگر ایسا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ مباح کے لینے پر وکیل بنانا اس باب سے نہیں ہے، تو اس میں ولایت کی ایجاد کی حاجت نہیں ہے۔ (ت)


والثالث ان المقصود بالتوکیل نقل فعل الوکیل الی الموکل ولا یتحقق ھھنا فان الشرع جعل سبب ملک المباح سبق الید الیہ والسابقۃ ید الوکیل فیثبت الملک لہ ولا ینتقل الی الموکل الا بسبب جدید اشار الیہ المحقق۔


سوم: توکیل سے مقصود یہ ہے کہ وکیل کے فعل کو موکل کی طرف نقل کیا جائے اور یہ چیز یہاں متحقق نہیں کیونکہ شریعت نے مباح کی ملکیت کا سبب قبضہ میں پہل کو قرار دیا ہے، اور یہاں وکیل نے قبضہ میں پہل کی ہے، تو مِلک اس کیلئے ثابت ہوگی اور موکل کی طرف اسی وقت منتقل ہوگی جبکہ اس کا سبب جدید ہو، محقق نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ (ت)


ثانیا یہ قیاس صحیح ہو تو صرف ظرف پر حکم نہ رہے بلکہ والدین کی نیت سے لینا ہی اُن کے لئے مثبت مِلک ہو اگرچہ اُن کے ظرف میں نہ لے کہ مقیس علیہ اعنی اجارہ مذکورہ میں حکم یہی ہے اصل مدار(۲) نیت پر ہے جبکہ نہ اجیر کا یہ وقت بکا ہے نہ شیئ معین ہے تو وہ اپنے لئے بھی لے سکتا ہے اور اپنے مستاجر کیلئے بھی جس کیلئے لے گا اُسی کی مِلک ہوگی، ہاں اگر لیتے وقت کسی کی نیت نہ تھی یا وہ کہے میں نے اپنے لئے نیت کی تھی اور مستاجر کہے میرے لئے کی تھی تو اُس وقت ظرف پر فیصلہ رکھیں گے اُس کے ظرف میں لی تو اُس کیلئے ہے ورنہ اپنے لئے۔


واصل ذلک الوکیل بشراء شیئ لابعینہ الحکم فیہ(۳) للاضافۃ فان لم توجد فللنیۃ فان لم توجدا وتخالفا فیھا فللنقد ای ان اضاف العقد الی مال الموکل فالشراء للموکل وان زعم انہ اشتری لنفسہ اوالی مال نفسہ فلنفسہ اوالی مطلق مال فلایھما نوی کان لہ فان لم تحضرہ النیۃ عند الشراء اوقال نویت لی وقال الموکل اوبالعکس حکم النقد فی الثانی بالاجماع وفی الاول عند ابی یوسف خلافا لمحمد فانہ یجعل اذن للعاقد ۱؎ وقع فی ردالمحتار عکس ھذا وھو سھو۔


اور اس کی اصل یہ مسئلہ ہے کہ کسی شخص کو غیر معین شیئ کے خریدنے کا وکیل بنایا تو اس میں حکم اضافت کا ہے، اگر اضافت نہ پائی گئی تو نیت معتبر ہوگی، اگر نیت بھی نہ پائی گئی یا دونو ں میں اختلاف ہوا تو حکم نقد کا ہے، یعنی اگر عقد کو موکل کے مال کی طرف مضاف کیا تو خریدنا موکل کیلئے ہوا اگرچہ اس نے یہ گمان کیا کہ اُس نے اپنے لئے خریدا ہے، اور اگر اضافت خود اس کے مال کی طرف ہے تو خریدنا اس کیلئے ہوا، اور اگر مطلق مال کی طرف اضافت ہے تو دونوں میں سے جس کی نیت کی اس کیلئے ہوگا، اور اگر خریدنے کے وقت کوئی نیت ہی نہ تھی یا کہا کہ میں نے اپنے لیے نیت کی تھی اور موکل نے کہا کہ میرے لئے کی تھی یا بالعکس تو دوسرے میں بالاجماع نقد کو حَکَم بنایا جائیگا اور پہلے میں صرف ابو یوسف کے نزدیک ہوگا، امام محمد اس کو اس صورت میں عاقد کیلئے قرار دیتے ہیں، اور ردالمحتار میں اس کا برعکس کہا ہے اور یہ سہو ہے۔ (ت)


 (۱؎ عنایۃ مع فتح القدیر        وکا لۃ بالشراء        سکھر    ۷/ ۴۵)

اقول:وقدم(۱) قاضی خان قول ابی یوسف واخر فی الھدایۃ دلیلہ فافادا ترجیحہ وقال فی البحر تحت قول الکنز ان کان بغیر عینہ فالشراء للوکیل الا ان ینوی للموکل اویشتریہ بمالہ مانصہ ظاھر مافی الکتاب ترجیح قول محمد من انہ عند عدم النیۃ یکون للوکیل لانہ جعلہ للوکیل الا فی مسألتین ۲؎ اھ۔ ای النیۃ للموکل واضافۃ العقد الی مالہ اذھو المراد من الشراء بمالہ کما فی الھدایۃ فاذالم یضف ولم ینو کان للعاقد کما ھومذہب محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔


میں کہتا ہوں قاضی خان نے ابو یوسف کا قول مقدم کیا ہے اور ہدایہ میں اس کی دلیل کو موخر کیا ہے جس سے اس کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، اور بحر نے کنز کے اس قول کے تحت فرمایا کہ اگر غیر معین چیز کے خریدنے کا وکیل بنایا تو شراء وکیل کیلئے ہے، مگر یہ کہ موکل کی نیت کرلے یا اس کو اپنے مال سے خریدے۔ ان کی عبارت یہ ہے کتاب میں جو ہے اس سے بظاہر محمد کے قول کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، یعنی یہ کہ نیت نہ ہونے کی صورت میں وہ شراء وکیل کیلئے ہوگی ، کیونکہ انہوں نے شراء وکیل کیلئے ہی کی ہے سوائے دو مسئلوں کے اھ ۔یعنی یہ کہ نیت موکل کیلئے ہو اور اضافت اُس کے مال کی طرف ہو، اس لئے کہ اس کے مال سے خریدنے کا یہی مطلب ہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے، توجب اضافت نہ کی اور نیت بھی نہ کی تو عاقد کیلئے ہوگی جیسا کہ محمد رحمہ اللہ تعالی کا مذہب ہے۔ (ت)


 (۲؎ بحرالرائق        وکا لۃ بالبیع والشراء    سعید کمپنی کراچی    ۷ /۱۶۰)


اقول:لکن(۱) الامام ابا یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی انما حکم النقد لانہ دلیل النیۃ قال فی الھدایۃ عند ابی یوسف یحکم النقد لان مع تصادقھما یحتمل النیۃ للاٰمر وفیما قلناہ حمل حالہ علی الصلاح کما فی حالۃ التکاذب ۱؎ قال فی العنایۃ (یحتمل) انہ کان نوی للاٰمر ونسیہ (وفیما قلنا) یعنی تحکیم النقد (حمل حالہ علی الصلاح) لانہ اذا کان النقد من مال الموکل والشراء لہ کان غصبا (کما فی حالۃ التکاذب ۲؎) اھ۔ فعلم ان تحکیم النقد داخل فی اعتبار النیۃ ولایستغرب مثلہ فی ایجاز الکنز۔


میں کہتا ہوں، لیکن امام ابویوسف نے نقد کو حکم بنایا کیونکہ وہ نیت کی دلیل ہے۔ ہدایہ میں فرمایا ابویوسف کے نزدیک نقد کو حکم بنایا جائیگا، کیونکہ اگر وہ دونوں اتفاق کرلیں تو احتمال ہے کہ نیت حکم دینے والے کی ہو، اور جو ہم نے کہا ہے اس میں اُس کے حال کو صلاح پر محمول کیا گیا ہے، جیسے کہ دونوں ایک دوسرے کو جھٹلانے کی صورت میں ہے، عنایہ میں فرمایا (احتمال ہے) کہ اُس نے حکم دینے والے کیلئے نیت کی ہو اور پھر بھُول گیا ہو (اور جو ہم نے کہا اُس میں) اس سے مراد نقد کو حکم بنانا ہے (اس کے حال کو صلاح پر محمول کرنا ہے) کیونکہ جب ادائیگی موکل کے مال سے ہو اور خریدنا اس کے لئے ہو تو یہ غصب ہوگا (جیسے کہ ایک دوسرے کو جھٹلانے کی صورت میں ہے) اھ۔ تو معلوم ہوا کہ نقد کو حکم بنایا نیت کے اعتبار میں داخل ہے اور کنز کے ایجاز میں ایسی بات عجیب نہیں ہے۔ (ت)


بالجملہ قول سوم خلاف اصول ومخالف منقول ہے اور قول اول میں حرج بشدت اور دوم کہ نص محررالمذہب سے ماثور مؤید بعرف وکتاب وسنت لہٰذا فقیر اُسی کے اختیار میں اپنے رب عزوجل سے استخارہ کرتا ہے وباللہ التوفیق تو ثابت ہوا کہ احکام مذکورہ صور استیلاء میں نسبت ابوت وبنوت سے کوئی تغیر نہیں آتا جب یہ اصل بعونہ تعالٰی ممہد ہولی واضح ہوا کہ نابالغ(۲) کا بھرا ہوا پانی ایک نہیں بہت سے پانی ہیں جن کا سلسلہ شمار یوں ہے۔

(۳۲) وہ پانی کہ نابالغ نے آب مملوک مباح سے لیا۔


(۱؎ الہدایۃ        وکا لۃ بالبیع والشراء    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۲/ ۱۸۳)

(۲؎ عنایۃ مع الفتح القدیر    وکا لۃ بالبیع والشراء    نوریہ رضویہ سکھر    ۷/ ۴۶)


 (۳۳) وہ کہ مملوک غیر مباح سے بے اجازت لیا۔

(۳۴) وہ کہ اس سے باجازت لیا مگر مالک نے اسے ہبہ نہ کیا صرف بطورِ اباحت دیا۔

(۳۵) نابالغ خدمتگار نے آقا کے لئے نوکری کے وقت میں بھرا۔

(۳۶) خاص پانی ہی بھرنے پر اُس کا اجیر بتعین وقت تھا اُسی وقت میں بھرا۔

(۳۷) مستاجر نے پانی خاص معین کردیا تھا مثلاً اس حوض یا تالاب کا کل پانی۔

اقول: اور یہ تعین نہ ہوگا کہ اس حوض یا کنویں سے دس مشکیں کہ دس مشک باقی سے جدا نہیں جس کی تعیین ہوسکے۔

(۳۸) اس نے باذن ولی یہ مزدوری کی اور کہتا ہے کہ یہ پانی مستاجر کیلئے بھرا۔

(۳۹) اسی صورت میں اگرچہ زبان سے نہ کہا مگر اُس کے برتن میں بھرا۔

(۴۰) نابالغ کسی کا مملوک ہے ان نو صورتوں میں وہ نابالغ اُس پانی کا مالک ہی نہ ہوا پہلی تین صورتوں میں مالکِ آب کا ہے پھر ۳۵ سے ۳۹ تک پانچ صورتوں میں مستاجر کا۔ اخیر میں اگر باذنِ مولٰی کسی کے لئے اجارہ پر بھرا اور وہی صورتیں ملکِ مستاجرکی پائی گئیں تو پانی مستاجر کاورنہ بہرحال اس کے مولٰی کا یہاں تک کہ خاص اپنے لئے جو بھرا ہو وہ بھی مولٰی ہی کی مِلک ہوگا۔ یہ پانی جس جس کی مِلک ہو اُسے تو جائز ہی ہیں اُس کی اجازت سے ہر شخص کو جائز ہیں جبکہ وہ عاقل بالغ مختار اجازت ہو بلکہ بحال(۱) انبساط اجازت لینے کی بھی حاجت نہیں مثلاً کسی کے نابالغ نوکر اجیر یا غلام نے پانی بھرا اس کے بھائی یا دوست جو اس کے ایسے مال میں تصرف کرتے اور وہ پسند رکھتا ہے اُس سے بے پُوچھے بھی نابالغ مذکور کا بھرا ہوا پانی اُس سے لے کر اپنے صرف میں لاسکتے بلکہ غلام سے مطلقاً اور اُس کے نوکر سے وقت نوکری میں بھرواسکتے ہیں کہ بہرحال اُس دوست کی مِلک میں تصرف ہے نہ نابالغ کی۔

(۴۱) نابالغ(۲) حُر کو مالکِ آب نے پانی تملیکاً دیا۔

(۴۲ حُر غیر اجیر نے آب مباح غیر مملوک سے اپنے لئے بھرا۔

(۴۳) دوسرے کیلئے بطور خود۔

(۴۴) اُس کی فرمائش سے بلا معاوضہ۔

(۵۴) اجیر کے آقا کے کہنے سے بھرا اگر اس کے یہاں کسی اور خاص کام کیلئے نوکر تھا جس میں پانی بھرنا داخل تھا۔

(۴۶) داخل تھا جیسے خدمت گاری مگر نوکری کے وقتِ مقرر سے باہر بھروایا۔

(۴۷) خاص پانی ہی بھرنے پر اسے اجیر کیا نہ وقت مقررہ ہوا نہ پانی معین نہ یہ مقرر کہ اُس کے لئے بھرا نہ اُس 

کا برتن تھا جس میں بھرا۔

(۴۸) وقت مقرر ہوا اور اُس سے باہر یہ کام لیا ان آٹھ صورتوں میں وہ پانی اُس نابالغ کی مِلک ہے اور اُس میں غیر والدین کو تصرف مطلقاً حرام حقیقی بھائی اُس پانی سے نہ پی سکتا ہے نہ وضو کرسکتا ہے ہاں طہارت ہوجائے گی اور ناجائز تصرف کا گناہ اور اُتنے پانی کا اس پر تاوان رہے گا مگر یہ کہ اس کے ولی سے یا بچّہ ماذون(۱) ہو جس کے ولی نے اسے خرید فروخت کا اذن دیا ہے تو خود اس سے پُورے داموں خریدلے ورنہ(۲) مفت یا غبن فاحش کے ساتھ نابالغ کی مِلک دوسرے کو نہ خود وہ دے سکتا ہے نہ اُس کا ولی۔ رہے والدین وہ بحالت حاجت مطلقاً اور بے حاجت حسبِ روایت امام محمد اُن کو جائز ہے کہ اُس سے بھروائیں اور اپنے صرف میں لائیں باقی صورتوں میں اُن کو بھی رواہ نہیں مگر وہی بعد شرا۔

تنبیہ ۱:یہاں(۳) سے اُستاد سبق لیں معلموں کی عادت ہے کہ بچّے جو اُن کے پاس پڑھنے یا کام سیکھنے آتے ہیں اُن سے خدمت لیتے ہیں یہ بات باپ دادا یا وصی کی اجازت سے جائز ہے جہاں تک معروف ہے اور اس سے بچّے کے ضرر کا اندیشہ نہیں مگر نہ اُن سے پانی بھروا کر استعمال کرسکتے ہیں نہ اُن کا بھرا ہوا پانی لے سکتے ہیں۔

اقول:وعرفھم الحادث علی خلاف الشرع لایعبؤبہ فانہ لم یکن فیمن مضی من اھل الخیر ومر الامام الکسائی رحمہ اللّٰہ تعالٰی علی سکۃ عطشان فاستسقی من بعض بیوتھا ثم تذکر انہ اقرأ بعض اھلھا فمرولم یشرب۔


اقول: اور ان کی نئی اصطلاح جو شریعت کے برخلاف ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں یہ اصطلاح سلف صالحین کے زمانہ میں نہ تھی۔ ایک مرتبہ امام کسائی کا گزر ایک گلی سے ہوا آپ پیاسے تھے تو ایک گھر سے پانی طلب کیا، پھر انہیں یاد آیا کہ انہوں نے اس گھر کے کچھ لوگوں کو پڑھایا ہے، چنانچہ آپ نے پانی واپس کردیا اور پیاسے ہی وہاں سے گزر گئے۔ (ت)

تنبیہ۲:کنویں کا پانی جب تک کنویں سے باہر نہ نکال لیا جائے کسی کی مِلک نہیں ہوتا فان سببہ الملک الاحراز ولا احراز الابعد التنحیۃ عن رأس البئرعــر۱  (سبب مِلک احراز ہے اور احراز پانی کو کنویں کی منڈیر سے الگ کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ ت) تو استاد(۱) جسے بچّے سے خدمت لینے کا اختیار ہے یہ کرسکتا ہے کہ پانی بچّے سے بھروائے یہاں تک کہ ڈول کنویں کے لب تک آئے اُس کے بعد خود اسے نکال لے کہ یہ پانی بچّے کی مِلک نہ ہوگا بلکہ خود اُس کی۔


عــ۱ اس کی تحقیق نمبر ۲۶ میں گزری ۱۲ (م)


فی الھندیۃ عن القنیۃ والساقین من البئر لایملک بنفس ملأ الدلو حتی ینحیہ عن رأس البئر ۱؎ اھ۔ ہندیہ میں قنیہ سے منقول ہے کہ جو شخص کنویں سے پانی بھرتا ہے وہ محض ڈول کے بھرنے سے پانی کا مالک نہیں ہوجائےگا، اُس وقت مالک ہوگا جب اُس  پانی کو کنویں کی  منڈیر سے الگ کرکے رکھ دے اھ ۔


 (۱؎فتاوٰی ہندیۃ    الباب من کتاب الشرب    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۹۲)


وفی ردالمحتار لواحرزہ فی جرۃ اوجب اوحوض مسجد من نحاس اوصفر اوجص وانقطع جریان الماء فانہ یملکہ وانما عبربالاحراز لا  الاخذ اشارۃ الی انہ لوملأ الدلو من البئر ولم یبعدہ عن رأسھا لم یملک عند الشیخین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما اذ الاحراز جعل الشیئ فی موضع حصین ۲؎ اھ۔


اور ردالمحتار میں ہے اگر کسی نے ٹھلیا، مٹکے یا مسجد کے حوض میں پانی جمع کیا، یہ حوض تانے، پیتل یا گچ کا ہو، اور اس طرح پانی کا بہنا بند ہوگیا ہو تو وہ اس کا مالک ہوجائےگا، انہوں نے اس کو اِحراز سے تعبیر کیا، اخذ سے نہیں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر ڈول کنویں سے بھرا مگر وہاں سے ہٹایا نہیں تو شیخین کے نزدیک وہ اس کا مالک نہ ہوگا کیونکہ ''اِحراز'' کے معنی کسی چیز کو محفوظ جگہ پر رکھنے کے ہیں اھ۔ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار        فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۱)


اقول: فاذالم یملکہ کان باقیا علی اباحتہ فالذی نحاہ ھو الذی احرز المباح فیملکہ اھ۔ میں کہتا ہوں جب یہ شخص اس طرح اس کا مالک نہ ہوا تو پانی اپنی اباحت پر ہی باقی رہا، تو جس نے اس کو کنویں سے ایک طرف ہٹا کے رکھا اس نے اس اس کو محفوظ کیا تو وہی اس کا مالک ہوا۔ (ت)


تنبیہ ۳: بہشتیوں (۱) کے بچّے اکثر کنویں پر پانی بھرتے ہیں لوگوں کی عادت ہے کہ ان سے وضو یا پینے کو لے لیتے ہیں یہ حرام ہے اور عوام کو اس میں ابتلائے عام ہے ولا حول ولا قوۃ ا لّا باللہ العلی العظیم۔

اقول: مگر یہاں(۲) ایک دقیقہ ہے یہ بچّے داموں پر پانی بھرتے ہیں اور کہیں مشکیں مقرر ہوتی ہیں کہیں گھر کے برتن معین یہ شخص جس نے نابالغ بہشتی سے پانی لیا اگر وہ(۱) اس کے یہاں نہیں بھرتا تو اسے مطلقاً جائز نہیں اور اگر بھرتا ہے مگر یہ(۲) مشک جسے وہ بھررہا تھا اور اُس کے ڈول سے پانی اس نے لیا دوسرے کے یہاں لے جائے گا تو ناجائز ہے اور اگر (۳) اسی کے یہاں لے جانے کو ہے مگر قرار داد برتنوں کا بھرنا ہے اور وہ پورے بھر دئے جائیں گے تو ناجائز ہے کہ یہ پانی اُس سے زائد ہے یوں(۴) ہی اگر مشکوں کا قرار داد ہے اور یہ مشک بھی اُس سے پُوری لی تو ناجائز ہے ہاں(۵) اگر یہ مشک اتنی خالی لی تو ایسا ہوا کہ اتنا پانی گھر پر نہ پہنچوایا یہیں لے لیا یا (۶)برتنوں کا قرارداد ہے اور اتنا خالی رکھنے کو کہہ دیا یا(۷) جس دوسرے کے یہاں یہ مشک لے جاتا ہے اُس سے اس قدر پانی کی اجازت لے لی اور اُس نے مشک یا برتن اتنے خالی رکھوائے تو جائز ہونا چاہئے کہ اگرچہ پانی(۱) ابھی سقا ہی کی مِلک تھا جب برتنوں میں ڈالے گا اُس وقت اس کی بیع ہوگی اور جس کے یہاں بھرا گیا اُس کی مِلک ہوگا یہ اس لئے کہ بہشتی اجیر مشترک ہیں نہ اُن کا وقت معین ہوتا ہے نہ اتنا پانی قابل تعین ہے اور اپنے ڈول سے بھرتے ہیں اور جب تک مشک کہیں ڈال نہ دیں پانی اپنا ہی جانتے ہیں اُس میں جو چاہیں تصرف کرتے ہیں لہٰذا اُس وقت تک پانی انہی کا ہوتا ہے مگر مقصود اس مول لینے والا کا قبضہ ہے اور اس کی اجازت سے جو تصرف ہو وہ اسی کا قبضہ ہے اگر دس مشکیں اس کے یہاں ٹھہری ہوئی ہیں اور وہ کہے کہ اُن میں سے دو کا چھڑکاؤ یہیں سڑک پر کر دو ضرور بیع صحیح ہوجائیگی اسی طرح اگر اس میں سے ایک لوٹا یا جس قدر چاہا زید کو دلوایا، ھذا ماظھرلی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

تنبیہ ۴ : معتوہ(۲) بوہرا جس کی عقل ٹھیک نہ ہو تدبیر مختل ہو کبھی عاقلوں کی سی بات کرے کبھی پاگلوں کی مگر مجنون کی طرح لوگوں کو محض بے وجہ مارتا گالیاں دیتا اینٹیں پھینکتا نہ ہو وہ تمام احکام میں صبی عاقل کی مثل ہے تو یہ سب احکام بھی اُس میں یوں ہی جاری ہوں گے۔ 


اقول: مگر غنی ماں(۳) باپ کا اُس کے بھرے ہوئے سے انتفاع امام محمد سے دربارہئ صبی مروی اور اُس کا مبنی عرف وعادت اور معتوہ میں اس کی عادت ثابت نہیں اور منع میں بوجہ ندرتِ عتہ لزوم حرج نہیں تو یہاں ظاہراً قول اول ہی مختار ہونا چاہئے واللہ سبحانہ  وتعالٰی اعلم۔


فائدہ: یہاں تک وہ پانی تھے جن میں اُن کا غیر نہ مِلا آگے خلط غیر کی صورتیں ہیں۔

(۴۹ تا ۶۵) کتب کثیرہ معتمدہ میں تصریح ہے کہ اگر نابالغ(۴) نے حوض میں سے ایک کوزہ بھرا اور اس میں سے کُچھ پانی پھر اُس حوض میں ڈال دیا اب اُس کا استعمال کرنا کسی کو حلال نہ رہا۔


فی ش(۱) عن ط(۲) عن الحموی(۳) عن الدرایۃ(۴) عن الذخیرۃ(۵) والمنیۃ(۶) وفی غمزالعیون(۷) عن شرح المجمع(۸) لابن الملک عن الذخیرۃ وفی الاشباہ(۹) من احکام الصبیان وفی الحدیقۃ الندیۃ(۱۰) عن الاشباہ فی النوع العشرین من افات اللسان وفی غیرھا من الکتب الحسان عبد اوصبی اوامۃ ملأ الکوز من ماء الحوض واراق بعضہ فیہ لایحل لاحدان یشر من ذلک الحوض لان الماء الذی فی الکوز یصیر ملکا للاٰخر فاذا اختلط بالماء المباح ولا یمکن التمییز لایحل شربہ ۱؎۔


ش میں ط سے حموی سے درایہ سے ذخیرہ سے اور منیہ سے ہے اور غمز العیون میں شرح مجمع سے (یہ ابن ملک کی کتاب ہے) ذخیرہ سے ہے، اور اشباہ میں (احکام الصبیان میں) اور حدیقہ ندیہ میں اشباہ (آفات اللسان کی بیسویں نوع میں) اور دوسری کتب میں ہے کسی غلام بچّے یا باندی نے حوض کے پانی س لوٹا بھرا پھر اس میں سے کچھ اُسی کے اندر انڈیل دیا تو اب کسی کے لئے جائز نہیں کہ اِس حوض سے پانی پئے کیونکہ حوض کا پانی لینے والے کی ملک ہوجاتا ہے تو جب یہ ملک مباح سے مل گیا اور اس میں تمییز ممکن نہیں تو اس کا پینا حلال نہ ہوگا عہ ۲۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/۲)


عہ۲:حکم کی شدت نے اس مسئلہ کو مشکل بنا دیا ہے کیونکہ عوام وخواص کے ابتلاء کی وجہ سے یہ حکم بموجب حرج اور تنگی ہے جبکہ ابتلاء عوام داعی یسر و آسانی ہے اللہ تعالٰی بے حساب رحمتیں نازل فرمائے فقہاءِ کرام پر جنہوں نے اللہ تعالٰی کی مخلوق پر شفقت فرمائی اور ایسے پیچیدہ اور مشکل مسائل کو حل فرمایا جس سے عوام الناس کیلئے آسانی اور سہولت کی راہ ہموار ہوئی چنانچہ امام احمد رضا بریلوی (مصنف)نے اس مسئلہ کی شدّت کو محسوس فرمایا اور انہوں نے فقہاء احناف کے اقوال کی روشنی میں اس کا حل صفحہ ۵۳۷ پر خود بیان فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے مسئلہ مذکورہ اگرچہ جنابت وطہارت کا نہیں بلکہ اسکا تعلق حظرو اباحت سے ہے، تاہم پاک پانی میں نجس پانی کے اختلاط کے مسئلہ میں فقہاءِ احناف کے بیان کردہ قواعد کی روشنی میں اس کو حل کیا جاسکتا ہے عراقی فقہاء نے پاک پانی میں نجس پانی گرنے سے متعلق فرمایا کہ بڑے حوض کے کثیر پانی میں جس جگہ نجس پانی گرا ہو اس جگہ کو چھوڑ کر باقی حوض سے وضو جائز ہے کیونکہ باقی جگہوں تک نجاست کا پہنچنا مشکوک ہے لہٰذا شک کی بنا پر باقی پانی کی طہارت زائل نہ ہوگی جبکہ جمہور فقہاء نے ایسی صورت میں تمام حوض حتّی کہ جس جگہ نجاست گری ہے اس جگہ پر بھی وضو کو جائز فرمایا کیونکہ پانی طبعی طور پر سیال ہے اور ہواؤں وغیرہ کی تحریک کی وجہ سے پانی ایک جگہ ساکن نہیں رہتا لہٰذا حوض کے باقی حصّوں میں نجاست پہنچنے نہ پہنچنے کے احتمال کی وجہ سے باقی بلکہ تمام پانی کو بالیقین نجس نہیں کہہ سکتے لہٰذا نجاست کا یقین زائل ہوجانے پر پانی کا اصل حکم یعنی طہارت باقی رہے گا اس طرح حوض کے ہر حصہ کے پانی کو پاک قرار دیا جائیگا، عراقی یا جمہور فقہاء کرام کے ضابطہ پر نابالغ بچّے کی ملکیت پانی کو قیاس کرتے ہوئے مذکورہ مشکل مسئلہ کا حل واضح ہوجاتا ہے، عراقی ضابطہ کے پیش نظر جہاں نابالغ بچّے کا پانی گرا اُس جگہ کو چھوڑ کر باقی تمام پانی کا استعمال مباح ہوگا جبکہ جمہور فقہاء کے ضابطہ کے تحت نابالغ کے پانی گرنے کی جگہ سمیت تمام پانی مباح ہوگا مصنّف کی اصل عبارت میں تفصیل موجود ہے۔ عبدالستار سعیدی


علامہ طحطاوی وعلامہ شامی نے اسے نقل کرکے فرمایا اس حکم میں حرج عظیم ہے۔

اقول: یہاں بہت استثنا وتنبیہات ہیں:

اول: مراد (۱) آب مباح غیر مملوک ہے تو حکم نہ ہر حوض کو شامل نہ حوض سے خاص بلکہ کنوؤں کو بالعموم حاوی ہے کہ کُنواں اگرچہ مملوک ہو اس کا پانی مملوک نہیں کما تقدم تحقیقہ (جیسا کہ اس کی تحقیق گزر چکی ہے۔ت) اور وہ حوض جس کا پانی مملوک ہے اُس کا مالک اگر عاقل بالغ ہے تو بچّہ ہزار باراس میں سے پانی بھر کر اس میں پلٹ دے کچھ حرج نہ آئے گا کہ مال جس کا(۲) تناول اس کے مالک نے مباح کیا ہو بعد اخذ تصرف بھی ملکِ مالک سے خارج نہیں ہوتا یہاں تک کہ دعوت کا کھانا کھاتے وقت بھی میزبان ہی کی مِلک پر کھایا جاتاہے تو بچہ اس پانی کا مالک ہی نہ ہوگا اصل پانی کی ملک پر رہے گااور ڈال دینے سے اُسی کی ملک میں جائےگا۔


دوم: ہماری تحقیقاتِ بالا سے واضح ہوا کہ ہر مباح بھی مطلقاً آخذ کی ملک نہیں ہوجاتا تو پانی کو مباح ومملوک کو شامل لے کر وہی سترہ۱۷ صورتیں یہاں بھی پیدا ہوں گی جو نابالغ کے بھرے ہوئے پانی میں گزریں نو۹ صورتوں میں وہ پانی اُس بھرنے والے کی مِلک نہ ہوگا بلکہ ا صل مالکِ آب یا مستاجر یا مولٰی کی مِلک ہوگا وہ اگر عاقل یا بالغ نہیں تو البتہ یہی دقّت عود کرے گی ورنہ اُس عاقل بالغ کی اجازت پر توقف رہے گا۔

سوم: صبی کی خصوصیت نہیں معتوہ بھی اسی کے حکم میں ہے کما تقدم۔

چہارم: جس طرح کلامِ علما ء میں پینے کا ذکر مثال ہے مراد کسی قسم کا استعمال ہے اسی طرح کچھ یہی شرط نہیں کہ حوض یا کنویں سے پانی لے کر ہی ان میں ڈالے یا جس حوض یا چاہ سے لیا اس میں واپس دے یا وہ نابالغ ہی اپنے ہاتھ سے ڈالے بلکہ مقصود اُسی قدر ہے کہ مال مباح میں نابالغ کی مِلک کا اس طرح مل جانا کہ جُدا نہ ہوسکے تو اگر صبی(۱) کی مِلک کا پانی اُس کے گھر سے لا کر کسی شخص اگرچہ خواہ اُس کے ولی نے کسی کنویں یا مباح حوض میں ڈال دیا اس کا استعمال تابقائے آب مذکور ناجائز ہوگیا۔

پنجم: ظاہر ہے کہ یہ عدم جواز اوروں کے حق میں بوجہ اختلاط ملکِ صبی ہے خود صبی استعمال کرسکتا ہے کہ وہ نہیں مگر اسکی ملک یا مباح۔ 

ششم: اُس کے(۲) ماں باپ بھی بشرطِ حاجت بالاتفاق اور بلاحاجت روایت امام محمد پر استعمال کرسکتے ہیں تو لایحل لاحد (کسی کیلئے جائز نہیں۔ ت) عام مخصوص ہے۔

ہفتم: اگر وہ کنواں یا حوض ترک کردیں اور صبی بلوغ کو پہنچے اور اُس وقت اس پانی کو مباح کردے تو اب کوئی مانع نہیں۔

ہشتم: اگر وہ صبی انتقال کرجائے اس کے سب ورثہ عاقل بالغ ہوں تو اب ان کی اجازت پر دقّت نہ رہے گی اور اگر ایک ہی وارث ہے تو اسے خود حلال خالص ہے کسی کی اجازت کی بھی حاجت نہیں۔

نہم: اگر وہ پانی کہ صبی کی ملک سے اُس میں مخلوط ہوا باقی نہ رہے تو اب سب کو مباح ہوجائےگا کہ مانع زائل ہوگیا۔

دہم: مسئلہ(۳) سابقہ یعنی نابالغ کے بھرے ہوئے پانی میں جو ایک صورتِ جواز اُس سے اگر ماذون ہو ورنہ اُس کے دل سے خرید لینے کی تھی یہاں جاری نہیں ہوسکتی کہ مِلکِ صبی کا پانی جب اُس آبِ مباح میں مل گیا قابلِ بیع نہ رہا کہ مقدور التسلیم نہیں۔

یاز دہم: آبِ مباح کی ضرورت بھی اُس حالت میں ہے کہ بچّہ کا اُس میں سے بھر کر اُس میں ڈال دینا لیں کہ مباح پر ملک یوں ہی ہوگی ورنہ(۴) مِلک نابالغ کا پانی اگر کسی کے مملوک پانی میں مل جائے گا تو اُس کا استعمال بھی حرام ہوجائےگا حتی کہ اُس مالک آب کو۔

دواز دہم: ایک یا دونوں طرف کچھ پانی کی خصوصیت نہیں بلکہ کسی کے(۵) مملوک پانی میں بچے کی مِلک کا عرق یا دودھ یا کسی کے مملوک عرق یا دُودھ میں بچّے کی ملک کا پانی یا چاول میں چاول گیہوں میں گیہوں مل جائیں جب بھی یہی حکم ہے کہ اس میں تصرف خود مالک کو بھی حرام ہوگیا تو مسئلہ کی تصویر(۱) یوں ہونی چاہئے کہ اگر کسی شے مباح یا مملوک میں کسی غیر مکلف کی مِلک اس طرح خلط ہوجائے کہ تمیز ناممکن ہو اگرچہ یونہی کہ مثلاً مباح غیر مملوک پانی سے صبی یا معتوہ حر غیر اجیر نے بھرا اور اگر وہ کنواں ہے تو اُس سے بھر کر باہر نکال لیا اور اگر اجیر ہے تو نہ وقت معین نہ وہ مباح معین نہ یہ مستاجر کیلئے لینے کا مقر نہ اُس کے ظرف میں لیا پھر ان صورتوں میں اُس کا کوئی حصّہ اُس میں کسی نے ڈال دیا یا پڑ گیا تو جب تک اُس غیر مکلّف کی مِلک اُس مباح یا مملوک میں باقی ہے اور وہ غیر مکلف ہے اور مِلک اُس سے منتقل نہ ہوگئی اُس وقت اُس غیر مکلّف یا بحال حاجت خواہ ایک روایت پر پانی میں مطلقاً اُس کے ماں باپ کے سوا کسی کواُس میں تصرف حلال نہیں۔


سیز دہم:حدیث العبد والامۃ ردہ ش بان العبد لایملک وان ملک فیکون لمالکہ لانہ مالک اکسابہ ۱؎ اھ۔ سیزدہم: غلام اور باندی کے مسئلہ کو ''ش'' نے یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ غلام پانی کا مالک نہیں بنے گا اور اگر مالک ہوگا بھی تو وہ پانی اُس کے مالک کی ملکیت میں آجائے گا کیونکہ اس کی تمام کمائی کا مالک اُس کا مالک ہی ہے۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)


اقول:ماکانوا(۲)  لیذھلوا عن مثل ھذا وانما القصد ابانۃ الفرق بین الحر العاقل البالغ وبین الصبی والمعتوہ والرقیق فان الاول اذا ملأ ملک فاذا صب اباح وھؤلاء لایملکون الاباحۃ فلا یحل بصبھم ولیس المراد تأبید التحریم بل الٰی ان تلحق الاجازۃ ممن ھی لہ ففی الصبی اوالمعتوہ حتی یبلغ اویعقل فیجیز وفی الرقیق(۳) حتی یجیز المالک المکلف الحاضر حالا اوماٰلا اویبلغ الغائب اویبلغ الصبی اویفیق المعتوہ فیجیزوا۔


میں کہتا ہوں فقہاء سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ اتنی معمولی سی بات اُن کے ذہن میں نہ آئی ہو، دراصل ان کا مقصود آزاد عاقل بالغ اور بچہ، بیوقوف اور غلام کے درمیان فرق کو ظاہر کرنا ہے، کیونکہ آزاد شخص جب پانی بھرے گا تو مالک ہوجائےگا اور جب بہائے گا تو مباح کردے گا، اور یہ لوگ اباحت کا حق نہیں رکھتے ہیں، لہٰذا پانی ان کے انڈیل دینے سے مباح نہ ہوگا اور مراد یہ نہیں کہ حرمت ہمیشہ رہے گی، بلکہ یہ اس وقت تک ہے جب تک کہ اس کا مالک اجازت نہ دے دے ، چنانچہ بچہ اور بیوقوف کی صورت میں بلوغ یا عقل کی درستی کے بعد اجازت دینے سے اس کا پینا حلال ہوجائےگا اور غلام کی صورت میں اس کے آقا کی اجازت سے جو مکلف حاضر ہوفی الحال یا فی المآل، یا غائب پہنچ جائے یا بچہ بالغ ہوجائے یا بیوقوف عاقل ہوجائے، اور وہ اجازت دے دیں۔ (ت)


چار دہم: عدش من اشکالاتہ انہ لویبین متی یحل الشرب منہ ۱؎ اھ۔ واشرت(۱) الی جوابہ بقولی مابقی فیہ ذلک الماء لان المنع لاجلہ فاذا ذھب ذھب۔


چہار دہم: "ش"نے اس پر یہ اشکال محسوس کیا ہے کہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس کا پینا کب حلال ہوگا اھ۔ میں نے اس کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک اس میں یہ پانی باقی ہے کیونکہ حرمت اسی کی وجہ سے ہے جب یہ ختم ہوجائےگا تو حرمت بھی ختم ہوجائے گی۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)


پانزدہم: قال وھی ثم فرق بین الحوض الجاری اومافی حکمہ وبین غیرہ ۲؎ اھ۔ پندرھواں، کیا حوض جاری اور جو اس کے حکم میں ہے اس میں اور دوسرے پانیوں میں اس سلسلہ میں فرق ہے؟ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)

اقول: تعبیرھم(۲) بالحوض ظاھر(۳) فی رکودہ فان الجاری یسمی نھرا لاحوضا والاطلاق(۴) یشمل الصغیر والکبیر وھو الوجہ فان الماء الجاری یذھب ذلک الماء یقینا فیزول السبب ولا کذلک الراکد ۔


میں کہتا ہوں فقہاء کا حوض سے تعبیر کرنا اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ اُن کی مراد ٹھہرا ہوا پانی ہے کیونکہ جاری پانی کو نہر کہا جاتا ہے حوض نہیں کہتے ہیں اور اطلاق چھوٹے بڑے دونوں کو شامل ہے اور یہی معقول وجہ ہے کیونکہ جاری پانی اِس پانی کو جو پھینکا گیا ہے بہا لے جائےگا، تو سببِ حُرمت زائل ہوجائےگا اور ٹھہرے ہوئے پانی کی یہ صورت نہیں۔ (ت)


شانزدہم: قال وینبغی ان یعتبر غلبۃ الظن بانہ لم یبق مما اریق فیہ شیئ منہ بسبب الجریان  اوالنزح و الا یلزم ھجر الحوض وعدم الانتفاع بہ اصلا ۳؎ اھ۔


سولھواں: فرمایا غلبہ ظن کا اعتبار بھی کیا جانا چاہئے یعنی یہ کہ پانی کے جاری رہنے یا اُس میں سے پانی کے نکالے جانے کے باعث جو پانی کہ اس میں ڈالا گیا تھا اُس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا، ورنہ تو پھر حوض کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیر باد کہنا پڑےگا۔ (ت)


 (۳؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)


اقول:لاینبغی(۱) الشک فی الجواز بعد النزح لما سیاتی انما الشأن فی جواز النزح وکیف(۲) یحل مع ان فیہ اضاعۃ ملک الصبی ان صب فی الارض اولانتفاع بہ ان سقی بہ نحو زرع اوبستان وکذلک الاجراء وان ابیح ذلک الاٰن فلم لایباح الشرب والاستعمال من رأس اذلیس فیہ فوق ھذا باس نعم ان(۳) جری بمطر اوسیل فذک حل من دون اثم۔


میں کہتا ہوں ، جب اس حوض کا پانی نکل جائے تو پھر جواز میں کوئی شک نہیں لیکن قابلِ غور امر یہ ہے کہ آیا اُس تمام پانی کا نکال دینا جائز ہے؟ اس میں اشکال یہ ہے کہ نکال کر اگریوں ہی بہا دیا جائے تو بچہ کا مال ضائع ہوجائےگا اور کسی باغ یا کھیت وغیرہ کو لگا دیا جائے تو اُس سے نفع حاصل کرنا لازم آئےگا، اسی طرح جاری کرکے بہا دینا بھی درست نہیں اور اگر اس سے یہ تمام کام کرنا جائز ہیں تو شروع ہی سے اس کا پینا اور اس کو استعمال کرنا کیوں جائز نہیں، اُس میں اس سے زیادہ کیا حرج تھا؟ ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ بارش یا سیلاب کی وجہ سے حوض کا پانی بہہ نکلا تو وہ بلاحرج حلال ہوجائےگا۔ (ت)


ہفدہم: قال ویمکن ان یعتبر بالنجاسۃ فیحل الشرب من نحو البئر بالنزح ومن غیرھا بالجریان بحیث لوکان نجاسۃ لحکم بطھارتھا فلیتامل ۱؎ اھ۔


سترھواں: فرمایا یہ ممکن ہے کہ نجاست کا اعتبار کیا جائے، تو کنویں سے پانی نکال کر پینا جائز ہوگا، اور کنویں کے علاوہ دوسری چیزوں سے اُس پانی کے جاری ہونے کی وجہ سے پینا جائز ہوجائےگا، گویا اگر اس میں نجاست بھی ہوتی تو اس کی طہارت کا حکم دیا جاتا، فلیتامل اھ۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    فصل فی الشرب    مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)


اقول: عرفت(۴) مافیہ والنزح(۵) فی النجاسۃ معدول بہ عن سنن القیاس فکیف یعتبر بہ وکأنہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی الٰی ھذہ الابحاث اشار بقولہ فلیتأمل۔


میں کہتا ہوں، اس پر جو اعتراض ہے وہ معلوم ہوچکا ہے، اور کل پانی کا نجاست کی صورت میں نکالنا برخلاف قیاس ہے تو اس پر آگے قیاس کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور غالباً انہوں نے ان ابحاث کی طرف فلیتأمل سے اشارہ کیا ہے (ت)

ہیجدہم: سب(۶) سے زیادہ اہم اس کا علاج ہے کہ یہ پانی قابل استعمال کیونکر ہو سید طحطاوی نے تو اتنا فرمایا کہ اس میں حرج عظیم ہے سید شامی نے جو علاج بتائے دفع اثم کو کافی نہیں ہوتا،


واشار سیدی العارف باللّٰہ عبدالغنی النابلسی قدس سرہ، فی الحدیقۃ الی ان تفریجہ باذن الولی حیث قال فی النوع العشرین من اٰفات اللسان بعد مانقل المسألۃ عن الاشباہ وعللھا بما قدمنا مانصہ وظاھرہ الا ان یاذن الولی قال ونظیرہ عدم حل الشرب من کیزان الصبیان الاباذن الولی وکذلک فی اکل مامعھم اذا اعطوہ لاحد ۱؎ اھ۔


عارف باللہ سید عبدالغنی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس کا حل یہ ہے کہ اگر ولی اجازت دے تو جائز ہے یہ بات انہوں نے آفات اللسان کی بیسویں نوع میں اس مسئلہ کو اشباہ سے نقل کرنے اور اس کو علّت بیان کرنے کے بعد کہی ہے جس کی عبارت ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ ''مگر یہ کہ ولی اجازت دے دے'' اور اس کی مثال یہ ہے کہ بچوں کے کوزوں سے پانی پینا ولی کی اجازت ہی سے جائز ہے، اور اسی طرح دوسری کھانے والی اشیاء کا حال ہے بچّے جب وہ کسی کو دیں۔ (ت)


 (۱؎ حدیقہ ندیہ    النواع العشرون من افات اللسان    نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۲/ ۲۶۹)


اقول:رحم اللّٰہ سیدی ورحمنا بہ انما(۱) الولایۃ نظریۃ ولیس للولی اتلاف مالہ ولا ان یاذن بہ غیرہ کیف(۲) وقد تقرر ان التصرفات ثلاثۃ نفع محض کقبول ھبۃ فیستبدبہ الصبی العاقل ودائر بین النفع والضرر کالبیع والشراء فیحتاج الی اذن الولی وضرر محض کالطلاق والعتاق والھبۃ فلاوجہ لصحتہ ولا باذن الولی وھذا من الثالث و وجہ ھذا السھو منہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی قول الماتن فی الطریقۃ المحمدیۃ حیث ذکر السؤال المنھی عنہ


میں کہتا ہوں اللہ عبدالغنی پر رحم کرے اور ہم پر بھی ولی کی ولایت صرف نظری (بچہ کی بھلائی کیلئے) ہے ولی بچہ کا مال تلف نہیں کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کو دے سکتا ہے، یہ بات طے شدہ ہے کہ تصرفات تین قسم کے ہیں نفع محض جیسے بچّہ کا ہبہ کا قبول کرنا، عاقل بچہ بذاتِ خود ہبہ قبول کرسکتا ہے اور ایک وہ جس میں نفع کا بھی احتمال ہے اور نقصان کا بھی۔ جیسے خریدوفروخت اس میں ولی کی اجازت ضروری ہوگی اور سراسر نقصان والی بات، جیسے طلاق، آزاد کرنا اور ہبہ کرنا، تو اس کی صحت کی کوئی صورت نہیں، ولی کی اجازت سے بھی نہیں، اور یہ تیسری قسم ہی میں شامل ہے، اُن کو یہ سہو اس لئے لاحق ہوا کہ ماتن نے طریقہ محمدیہ میں منہی عنہ کے سوال کا ذکر کیا ہے۔


ثم قال(۳) (حرمۃ السؤال لاتقتصر علی المال بل تعم الاستخدام خصوصا اذا کان صبیا اومملوکا للغیر۔ اماصبی(۴) نفسہ فیجوز) للاب والام والجد والجدۃ (استخدامہ ان کان) المستخدم (فقیرا) لاقدرۃ لہ علی شراء خادم اواستئجارہ (اواراد تھزیبہ وتأدیبہ ۱؎ بخلاف عــہ۱  استخدام مملوکہ واجیرہ وزوجتہ(۱) فی مصالح البیت وتلمیذہ) فی تعلیم قراٰن اوعلم اوصنعۃ (باذنہ) یعنی برضاہ (ان کان بالغا اوباذن ولیہ ان کان صبیا) فان الصبی محجور علیہ من التصرف فی مالہ فی منافع نفسہ الا باذن الولی ۲؎ اھ۔ ملتقطا، مزیدا من شرحۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فالاذن(۲) الذی ذکرہ الماتن فی استخدامہ عداہ الی مالہ وشتان ماھما فان فی الاول نفعہ من تأدیبہ وتھذیبہ مع ضرر استعمالہ فکان من القسم الثانی فجاز باذن الولی بخلاف الثالث والذی(۳) افاد من حل الشرب من کوز الصبی واکل مامعہ باذن الولی۔(ت)


پھر یہ لفظ کہے ہیں ''حرمۃ السؤال لاتقتصر علی المال الخ سوال جو بے ضرورت شرعیہ حرام ہے یہ صرف مال مانگنے پر ہی موقوف نہیں بلکہ اجنبی سے کسی خدمت کا کہنا بھی حرام سوال میں داخل ہے خصوصاً دوسرے کے نابالغ بچے یا غلام سے۔ اگر کسی کا اپنا بچہ ہے تو باپ، ماں، دادا اوردادی کیلئے (اس سے خدمت لینا جائز ہے، اگر) خدمت لینے والا (فقیر ہو) خادم نہ خرید سکا ہو یا کسی کو ملازم نہ رکھ سکتا ہو (یا بچہ کی تہذیب وتربیت کا ارادہ ہو مگر اس شرط میں غلام، مزدور، بیوی سے گھر کا کام کاج کرانا شامل نہیں کہ ان سے بغیر احتیاج کے گھر کا کام لینا جائز ہے اور شاگرد سے خدمت لینا درست ہے مثلاً طالبعلم سے قرآن سکھانے یا کوئی علم سکھانے یا کسی حرفت کے سکھانے کا کام لیا جائے (اس کی مرضی سے، اگر وہ بالغ ہے، ورنہ اس کے ولی کی رضا سے اگر وہ بچّہ ہے) کیونکہ بچہ اپنی منفعت کیلئے بھی اپنے مال میں ولی کی اجازت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتا ہے اھ ملتقطاً ہے اور شرح سے اضافہ ہے تو وہ اجازت جس کا ذکر ماتن نے کیا ہے اس کے استخدام ہیں، تو شارح نے اس کو مال تک بڑھا دیا ہے اور دونوں میں بہت فرق ہے، کیونکہ پہلی صورت میں اس کا نفع ہے کہ اس کی تادیب وتہذیب ہے جبکہ اُس سے کام کرانے میں ضرر بھی ہے، تو یہ دوسری قسم میں داخل ہوا، اس لئے ولی کی اجازت سے جائز ہوگا، جبکہ تیسرا ایسا نہیں ہے، اور جس کا انہوں نے فائدہ دیا ہے وہ بچہ کے کُوزہ سے پانی پینے کا جواز ہے یا جو چیز بچّہ کے پاس ہے اس کے کھانے کا جواز ہے ولی کی اجازت سے۔ (ت)


 (۱؎ حدیقہ ندیہ    النوع العشرون     من افات اللسان     نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲ /۲۶۷)

(۲؎ حدیقہ ندیہ    النوع العشرون     من افات اللسان     نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲ /۲۶۸)


عــہ۱ :ناظراً الی قولہ اذا کان صبیا اومملوکا للغیر ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م) اس کے قول اذا کان صبیا او مملوکا للغیر کی طرف نظر کرتے ہوئے۔ (ت)


فاقول: محلہ(۱) اذا کان الماء والطعام للولی اعطاھما الصغیر علی وجہ الاباحۃ دون الھبۃ فحینئذ یکون للولی ان یاذن لمن شاء فبقائھما علی ملکہ بخلاف مااذا کان الشی مملوکاً للصغیر فلا معنی اذًا لاذن الولی باستھلاکہ من دون عوض وقد تقدمت مسألۃ الذخیرۃ والمنیۃ ومعراج الدرایۃ فی ماء جاء بہ الصبی من الوادی لایجوز لابویہ الشرب منہ الا فقیرین ۱؎۔


تو میں کہتا ہوں اگر پانی اور کھانا ولی کا ہے اور بطورِ اباحت (نہ بطور ہبہ) اس نے بچہ کو دے رکھا ہے تو ایسی صورت میں ولی کسی کو بھی اجازت دے سکتا ہے، کیونکہ یہ دو چیزیں اب بھی ولی کی ملکیت میں باقی ہیں یہ اُس صورت سے مختلف ہے جبکہ یہ اشیاء بچہ کی ملکیت میں ہوں تو ایسی صورت میں ولی کی اجازت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں ولی کی اجازت سے صغیر کے مال کو بغیر عوض ضائع کرنا لازم آئےگا اور یہ جائز نہیں اور ذخیرہ، منیہ اور معراج الدرایہ کا مسئلہ گزر چکا ہے کہ بچّہ وادی سے جو پانی لائے اس کو والدین کے لئے پینا جائز نہیں سوائے اس صورت کے کہ وہ فقیر ہوں۔ (ت)


(۱؎ ردالمحتار بالمعنی    باب الشرب        البابی مصر    ۵/ ۳۱۲)

غرض مسئلہ مشکل ہے اور اس میں ضرور حرج ہے اور حرج مدفوع بالنص ہے۔

وانا اقول: وباللہ التوفیق پانی کی مِلک صبی ہوا نجس نہیں کہ اُس کے گرنے سے اور پانی ناپاک ہوجائے حرمت اس وجہ سے ہے کہ مباح ومحظور مختلط ہوگئے ہیں یہاں تک کہ اگر ممکن ہو کہ مباح استعمال کیا جائے اور اس میں کوئی حصہ محظور کا نہ آنے پائے تو بلاشبہ جواز ہوگا اور ہم نے رحب الساحہ جواب سوال سوم میں بیان کیا ہے کہ مشایخ عراق کے نزدیک حوض کبیر میں نجاست غیر مرئیہ کے موقع وقوع سے وضو جائز نہیں کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے منتقل نہ ہوگی اور مشایخ بلخ وبخارا اور ماوراء النہر کے نزدیک سب جگہ سے جائز کہ پانی بالطبع سیال ہے ہواؤں وغیرہا کی تحریک سے اُسے ایک جگہ نہ رہنے دے گا تو جہاں کہیں وضو کیا جائے وہاں نجاست ہونے کا یقین نہیں اگرچہ خاص موقع وقوع سے ہو تو پانی کہ بالیقین طاہر تھا شک سے نجس نہ ہوگا اب یہاں اگر قول عراقیاں لیا جائے جب تو خاص اُسی جگہ کا پانی ممنوع الاستعمال ہوگا جہاں نابالغ کی مِلک کا پانی گرا ہے باقی اپنی اباحت پر باقی ہے لما علمت انہ لاتعدیۃ فیہ فکان کغیر مرئیۃ فی حوض کبیر  (جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس میں تجاوز نہیں یہ ایسا ہی ہے جیسا حوضِ کبیر میں نجاست غیر مرئیہ ہو) (ت) اور اگر قول جمہور لیا جائے اور وہی صحیح ہے تو بوجہ احتمال انتقال اختلاط مِلکِ صبی کا یقین کسی موضع معین میں نہیں بلکہ موضع مجہول ومبہم میں ہے اور ایسے(۲) یقین پر جب اُس شے کے بقا وزوال میں شک طاری ہو یقین زائل اور حکم اصل حاصل ہوتا ہے جیسے دائین(۳) چلانے میں بیل ضرور پیشاب کرتے اور اناج کا ایک حصہ یقیناً ناپاک ہوتا ہے مگر متعین نہ رہاتو بعد تقسیم یا اُس سے کُچھ ہبہ یا صدقہ کرنے سے سب پاک ہوجائےگا کہ ہر ایک کہے گا ممکن کہ ناپاک دانے دوسرے حصے میں رہے یا گئے ہوں، یوں ہی(۱) چادر پر ناپاکی  کی یقین ہے اور جگہ معلوم نہیں یا یاد نہ رہی اور تحری کسی طرف نہیں پڑی کہیں سے پاک کر لی جائے پاک ہوجائے گی کہ اب اس متیقن مبہم کی بقا میں شک ہوگیا اور سب(۲) سے زائد وہ مسئلہ ہے کہ محررِ مذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیر کبیر میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ایک قلعہ فتح کیا اتنا معلوم ہے کہ اس میں ایک ذمی ہے مگر اُسے پہچانتے نہیں اُن کفار کا قتل حرام ہے ہاں اگر اُن میں سے بعض نکل جائیں یا کوئی قتل کردے تو اب باقیوں کا قتل جائز ہوگیا کہ وہ یقین مجہول اس شک سے زائل ہوگیا۔


وقد حققہ العلامۃ ابراھیم الحلبی فی الغنیۃ فافاد واجاد٭ علیہ رحمۃ الجواد٭ فراجعہ فانہ من اھم مایستفاد٭ ویکفینا منہ ھنا قولہ تنجس طرف من الثوب فنسیہ فغسل طرفا منہ بتحر او بلا تحر طھر لان بغسل بعضہ مع ان الاصل طھارۃ الثوب وقع الشک فی قیام النجاسۃ لاحتمال کون المغسول محلھا فلا یقضی بالنجاسۃ بالشک کذا اوردہ الاسبیجابی فی شرح الجامع الکبیر قال وسمعت الشیخ الامام تاج الدین احمد بن عبدالعزیز بقولہ ویقیسہ علی مسألۃ فی السیر الکبیر ھی اذا فتحنا حصنا وفیھم ذمی لایعرف لایجوز قتلھم لقیام المانع بیقین فلوقتل البعض اواخرج حل قتل الباقی للشک فی قیام المحرم کذا ۱؎ ھنا۔


اس کی تحقیق ابراہیم حلبی نے غنیہ میں بہت اعلٰی اور مفید طریق پر کی ہے جس کو دیکھنا ہو وہاں ملاحظہ کرے، یہاں اس کی صرف یہ عبارت نقل کرنا کافی ہوگی ''اگر کپڑے کا ایک کنارہ ناپاک ہوگیا مگر بھُول گیا کہ کون سا کنارہ ہے تو تحرّی کرکے یا بلاتحرّی ایک کنارہ دھولیا تو کپڑا پاک ہوجائے گا'' کیونکہ کپڑے میں اصل طہارت ہے اور جب ایک کنارہ دھولیا تو اب نجاست کے ہونے میں شک ہوگیا، کیونکہ جو حصہ دھویا گیا ہے اس میں امکان ہے کہ وہی ہو جو نجس تھا، تو شک کی بنیاد پر نجاست کا حکم نہیں لگایا جائےگا، اسبیجابی نے شرح جامع کبیر میں ایسا ہی لکھا ہے، فرمایا کہ میں نے اپنے شیخ تاج الدین احمد بن عبدالعزیز کو فرماتے ہوئے سناوہ اس کو سَیر کبیر کے اس مسئلہ پر قیاس کرتے تھے کہ اگر ہم نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں ایک ذمی ہے مگر معلوم نہیں کہ کون ہے، تو اس قلعہ کے لوگوں کا قتل جائز نہیں، کیونکہ یقین کرنے کا مانع موجود ہے، اور اگر بعض کو قتل کردیا گیا یا نکال دیا گیا تو باقی کو قتل کرنا جائز ہے کیونکہ مُحَرِّم کی موجودگی میں شک ہے۔ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی        فروع من النجاسۃ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۲۰۴)


جب یہ قاعدہ نفیسہ معلوم ہولیا یہاں بھی اُس کا اجرا کریں جتنا(۱) پانی اُس نابالغ نے ڈالا ہے اسی قدر یا اُس سے زائد اُس حوض یا کنویں سے عہ۱  نکال کر اُس نابالغ عہ۲ کو دے دیں یہ دینا یقینا جائز ہوگا کہ اگر اِس میں مِلک صبی ہے تو صبی ہی کے پاس جات ہے بخلاف بہا دینے یا ڈول کھینچ کر پھینک دینے کے کہ وہ مِلک صبی کا ضائع کرنا ہے اور یہ جائز نہیں اب کہ اُس قدر یا زائد پانی اُس صبی کو پہنچ گیا اُس کے ڈالے ہوئے پانی کا باقی رہنا مشکوک ہوگیا تو وہ یقین کہ موضع مجہول کیلئے تھا زائل ہوگیا اور حوض وچاہ کا باقی پانی جائز الاستعمال ہوگیا۔


عہ۱ :  اگر کہیے مائے مباح سے جو لے گا مالک ہوگا تو یہ پانی کہ کوئی شخص کنویں یا مباح حوض سے بھر کر نابالغ کو دے گا اپنی ملک دے گا اور ایک شے پر دو مِلکیں جمع نہیں ہوسکتیں تو یہ پانی مِلک صبی نہ تھا پھر اس کے نکلنے سے مِلک صبی کا نکل جانا کیونکر محتمل ہوا۔


اقول:  جبکہ اس پانی میں مِلک صبی مخلوط ہے تو اب مائے مباح نہیں مائے محظور ہے بھرنے والا اس کا مالک نہ ہوگا جو بھرا محتمل ہے کہ وہی مائے مملوک صبی ہو یا مائے مباح کا حصہ اول پر بھرنے والا اُس کا مالک نہیں ہوسکتا ہے اور دوم ہے تو ہوگا اور مِلک شک واحتمال سے ثابت نہیں ہوسکتی لہٰذا وہ احتمال قائم رہا کہ یہ وہی پانی ہے جو ملک صبی تھا ۱۲ منہ غفرلہ (م)


عہ۲: اقول: بلکہ اگر خود نابالغ نے دوبارہ اُتنا یا اُس سے زائد پانی اُس میں سے بھر لیا تو اب بھی رفع مانع ہوجانا چاہئے کہ اگرچہ نابالغ کیلئے پانی ممنوع نہیں جیسا کہ تنبیہ پنجم میں گزرا اور وہ جو دوبارہ بھرے گا ضرور اس کا مالک ہوگا مگر یہ اُس احتمال کا مانع نہیں کہ اس بار وہی پانی آیا جو اس نے پہلے ڈال دیا تھا اور یہی احتمال رفع منع کو بس ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (م)


ثم اقول :اس پر واضح دلیل مثلیات(۲) مشترکہ مثلاً گیہوں وغیرہ میں وارث کبیر کا اپنا حصہ وارث نابالغ کے حصے سے جدا کرلینے کا جواز ہے اور اس کی یہ تقسیم جائز ومقبول رہے گی اگر نابالغ کا حصہ اُس کیلئے سلامت رہے تلف نہ ہوجائے جامع الفصولین میں فتاوٰی اور جامع الصغار میں ذخیرہ سے ہے :


کیلی او  وزنی بین حاضر وغائب اوبین بالغ وصبی اخذ الحاضر اوالبالغ نصیبہ فانما تنفذ قسمتہ بلاخصم لوسلم نصیب الغائب والصبی حتی لوھلک مابقی قبل ان یصل الی الغائب اوالصبی ھلک علیھما ۳؎۔


کوئی مکیل یا موزوں شے حاضر وغائب کے درمیان یا بالغ اور بچّہ کے درمیان مشترک ہے تو حاضر یا بالغ نے اپنا حصّہ لے لیا اور اس کی تقسیم بلا خصم نافذ ہوجائے گی بشرطیکہ غائب اور بچہ کا حصہ باقی رہا اور اگر غائب اور بچہ تک پہنچنے سے قبل ہی وہ حصہ ہلاک ہوگیا تو ان کا حصہ ہی ہلاک ہوگا۔ (ت)


 (۳؎ جامع الصغار مع جامع الفصولین    مسائل القسمۃ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۴۰)


ظاہر ہے کہ یہاں بھی مِلک صبی ایسی ہی مختلط تھی کہ جُدا کرنا ممکن نہ تھا اور بالغ کو اس میں تصرف ناروا تھا بقدر حصہ صبی اُس میں سے الگ کردینا حصہ صبی کا جدا ہوجانا اور بالغ کے لئے جواز تصرف کا سبب ہوا۔


اقول: ولاشک(۱) ان الماء مثلی بمعنی ان اجزاء ہ لاتتفاوت وبہ جزم کثیرون کما فی الخیریۃ من احیاء الموات فی الولوالجیۃ وکثیر من الکتب لوصب ماء رجل کان فی الحب یقال لہ املأ الماء فان صاحب الحب مالک للماء وھو من ذوات الامثال فیضمن مثلہ ۱؎ اھ وان کان قیمیا لانہ لایکال ولایوزن کما فی الخیریۃ من البیوع عن جامع الفصولین عن فوائد صاحب المحیط وفتاوٰی رشید الدین الماء قیمی عند ابی حنیفۃ وابی یوسف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما وفیہ عن مختلفات القاضی ابی القاسم العامری عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ الماء لایکال ولا یوزن قال الطحاوی معناہ لایباع بعضہ ببعض وعن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی الماء مکیل ۲؎ اھ وبالجملۃ لاشک انہ یقبل الافراز کالحب بل ابلغ فربما تتفاوت قلیلا حبات طعام واحد بخلاف قطرات ماء واحد۔


اقول: اور اس میں شک نہیں کہ پانی مثلی ہے یعنی اس لئے کہ اُس کے اجزاء میں تفاوت نہیں، اور بہت سے مشائخ نے اسی پر جزم کیا ہے، جیسا کہ خیریہ (احیاء الموات) اور ولوالجیہ میں ہے اور بہت سی کتب میں ہے، اگر کسی شخص نے مٹکے کا پانی گرا دیا تو اس سے کہا جائے گا کہ مٹکا بھرے کیونکہ مٹکے کا مالک پانی کا بھی مالک تھا، اور پانی مثلی اشیاء میں سے ہے تو وہ اس کے مثل کا ضامن ہوگا اھ اگرچہ وہ قیمت والی چیز ہے، اس لئے کہ وہ نہ مکیل ہے اور نہ ہی موزون ہے جیسا کہ خیریہ کی بیوع میں جامع الفصولین سے، فوائد صاحب المحیط سے اور فتاوٰی رشید الدین میں ہے کہ پانی ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک قیمت والی چیز ہے اور اس میں مختلفات ابی القاسم العامری سے ابو یوسف سے ابو حنیفہ سے ہے کہ پانی نہ کیلی ہے نہ وزنی ہے۔ طحاوی نے فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ پانی کا بعض، بعض سے بیچا نہیں جاتا ہے اور محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ پانی کیلی ہے اھ خلاصہ یہ کہ پانی کو الگ کیا جاسکتا ہے جیسے مٹکے میں، بلکہ زیادہ ہے کیونکہ بسا اوقات کھانے کی ایک ہی چیز کے دانوں میں فرق ہوتا ہے لیکن پانی کے قطرات میں نہیں ہوتا۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی خیریۃ     فصل فی الشرب    بیروت    ۲/ ۱۸۶)

(۲؎ فتاوٰی خیریۃ       کتاب البیوع     بیروت    ۱/ ۲۲۸)

ثم اقول: یہ طریقہ اثم سے بچنے کو ہے اور اگر بغیر اس کے کوئی شخص نادانستہ یا دیدہ ودانستہ براہِ جہالت خواہ بے پرواہی احکامِ شریعت اُس میں سے اُتنا پانی یا اُس سے زاید بھر کر لے گیا تو اگرچہ وہ گنہگار ہو باقی پانی جائز الاستعمال ہوگیا کہ اُتنا نکل جانے سے حوض وچاہ میں اُس کی بقا پر یقین نہ رہا کما قال محمد لایجوز قتلھم فلوقتل البعض حل قتل الباقی ۱؎ (جیسا کہ امام محمد فرماتے ہیں ان کا قتل جائز نہیں اگر بعض قتل ہوجائیں تو باقی کا قتل جائز ہوگا۔ ت)


 ( ۱؎ غنیۃ المستملی        فروع من النجاسۃ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۲۰۴)


تنبیہ اقول: یہیں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جریان(۱) نہ ضرور نہ کافی اگر صبی(۲) کا پانی اتنا قلیل تھا کہ چھلکنے میں نکل سکتا ہے تو جریان کی حاجت نہیں۔ اور اگر اتنا کثیر تھا کہ جتنے خروج پر جریان صادق آتا ہے اس میںنہ نکلے گا تو یہ جریان کافی نہیں جب تک اُس قدر نکل نہ جائے۔


اقول: وبہ(۳) فارق النجاسۃ لان زوال وصفھا وحصول ضدھا بالجریان لمعنی فیہ وھوانہ لایقبل النجاسۃ بحکم النص وما قام بہ طھر بعضہ بعضا ولایلزم منہ حل الانتفاع بملک الصبی فلا بد من خروج قدر المصبوب، ھذا ماظھرلی وقد انکشفت بہ الغمۃ علی احسن وجہ مطلوب، والحمدللّٰہ سبحنہ کاشف الکروب، والصلٰوۃ والسلام علی اکرم محبوب، وعلی اٰلہ وصحبہ ھداۃ القلوب، اٰمین۔


میں کہتا ہوں اور اسی وجہ سے نجاست سے دور ہوگیا، کیونکہ نجاست کے وصف کا زائل ہونا اور جاری ہونے کی وجہ سے اسکی ضد کا حاصل ہونا ایک معنی سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ وصف یعنی جریان نجاست کو قبول نہیں کرتا ہے، کیونکہ نص میں یہی ہے، اور جو اس کے ساتھ قائم ہے اس کے بعض نے بعض کو پاک کردیا ہے، اور اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ بچہ کی ملک سے نفع حاصل کرنا جائز ہو، تو جتنا بہا ہے اُس کی مقدار میں نکلنا ضروری ہے، یہ بحث وہ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوئی، اور اس سے عمدہ طور پر پریشانیاں دُور ہوگئیں۔ اللہ تعالٰی کیلئے حمد ہے جو مصیبتوں کو دُور کرنے والا ہے اور اس کے محبوب ترین اور اس کی آل وصحابہ پر صلٰوۃ وسلام۔ آمین (ت)


الحمدللہ نمبر ۳۲ سے یہاں تک نابالغ کے پانی کا بیان جس تفصیل وتحقیق سے ہوا کتابوں میں اُس چند سطروں سے زائد نہ ملے گا۔ ممکن ہے کہ اسے رسالہ مستقلہ کیجئے اور عطاء النبی لافاضۃ احکام ماء الصبی(۱۳۳۴ھ) نام رکھئے، وللہ الحمد۔ رسالہ ضمنیہ عطاء النبی لافاضۃ احکام ماء الصبی تمام ہوا۔

(۶۶) جس(۴) پانی میں مائے مستعمل کے واضح قطرے گرے خصوصاً جبکہ اس کی دھار پہنچی جب تک مطہر پانی سے کم رہے ہاں بوجہ خلاف بچنا مناسب تر ہے جبکہ وہ چھینٹیں وضو وغسل کرتے ہیں نہ پڑی ہوں۔ وذلک انہ روی الافساد مطلقا وان قل الاماترشش فی الاناء عند التطھر فھو عفودفعا للحرج ولا عبرۃ لمن اطلق وقد نص فی البدائع انہ فاسد ۱؎ ۔


یہ اس لئے کہ مستعمل پانی کے بارے میں ایک روایت ہے کہ مستعمل مطلقاً خواہ قلیل ہو، پانی کو فاسد کردیتا ہے مگر طہارت کے وقت جو چھینٹے پانی والے برتن میں پڑیں وہ معاف ہیں تاکہ حرج لازم نہ آئے، ان چھینٹوں کے بارے میں اطلاق کا اعتبار نہیں ہوگا حالانکہ بدائع میں اس کو فاسد کہا ہے ۔


 (۱؎ بدائع الصنائع        طہارۃ حقیقیۃ        سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۸)


وروی الافساد بالکثیر ثم الکثرۃ باستبانۃ مواقع القطر فی الماء الطھورام ان یسیل فیہ سیلانا قولان ففی الجامع الصغیر للامام قاضی خان انتضاح الغسالۃ فی الماء اذا قل لایفسد الماء یروی ذلک عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما ولان فیہ ضرورۃ فیعفی القلیل وتکلموا فی القلیل عن محمد وما کان مثل رؤس الابر فھو قلیل وعن الکرخی ان کان یستبین مواقع القطر فی الماء فکثیر وان کان لایستبین کالطل فقلیل ۲؎ اھ نقلہ فی زھر الروض وفی الخلاصۃ جنب اغتسل فانتضح من غسلہ شیء فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل فیہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قول محمد لایفسدہ مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ من الطھوریۃ ۳؎ اھ


اور ایک روایت میں کثیر کو فاسد کرنے والا کہا گیا، پھر کثیر کی تعریف میں دو قول ہیں، یا تو پاک پانی میں وہ نمایاں طور پر معلوم ہو یا مستعمل پاک پانی میں بہہ کر داخل ہو، پھر امام قاضی خان کی شرح جامع صغیر میں ہے کہ دھوون اگر کم مقدار میں پانی میں گرا تو پانی کو فاسد نہیں کرے گا یہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نیز ضرورت کی بنا پر قلیل معاف ہوگا۔ اب انہوں نے قلیل کے بارے میں بحث کی ہے۔ امام محمد سے مروی ہے کہ اگر مستعمل پانی کے چھینٹے سوئی کے سوراخ کے برابر ہوں تو قلیل ہے اور امام کرخی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر پانی میں گرنے کی جگہ نمایاں معلوم ہو تو کثیر ہے ورنہ قلیل ہے جیسے شبنم کے قطرے، اس مضمون کو زہرالروض میں نقل کیا ہے، اور خلاصہ میں ہے کہ اگر اجنبی شخص سے غسل کرتے وقت اپنے برتن میں چھینٹے پڑ گئے تو اس سے پانی نجس نہ ہوگا۔ اگر غسالہ بہہ کر برتن میں پڑا تو پھر برتن کا پانی ناپاک ہوجائےگا۔ حمام کے حوض کا بھی یہ حکم ہے۔ اور امام محمد کے قول کے مطابق اس صورت میں ناپاک نہ ہوگا تاوقتیکہ مغلوب نہ ہوجائییعنی اس کو طہوریت سے نہیں نکالے گا اھ


 (۲؎ جامع صغیر للقاضی خان)

(۳؎ خلاصۃ الفتاوی مع الہندیۃ    الماء المستعمل    نولکشور لکھنؤ    ۱ /۸)


ثم عللہ بعضھم بان الماء مفروض راکدا قلیلا فلا ینتقل الماء المستعمل الواقع فیہ من موقعہ الیہ اشار فی وجیز الکردری اذیقول التوضئ من سردا بہ لایجوز لانہ یتکر الاستعمال ۱؎ اھ


پھر بعض نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو پانی فرض کیا گیا ہے وہ ٹھہرا ہوا قلیل ہے تو مستعمل پانی جو اس میں گرا ہے اپنے گرنے کی جگہ سے اس کی طرف منتقل نہ ہوگا۔ امام کُردری کی وجیز میں اسی صورت کی طرف اشارہ کیا ہے، جب انہوں نے یہ کہا کہ چھوٹے حوض میں وضو کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ پانی دوبارہ استعمال میں آتا ہے اھ۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی بزازیۃ    نوع فی الحیاض    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۷)


اقول: ویلزمھم التجویز اذا حرک الماء عند کل غرفۃ او اغترف کل مرۃ من غیر موقع الغسالۃ واٰخرون بان الماء المستعمل من جنس المطلق فلا یستھلک فیہ فیؤثر فی کلہ لقلتہ بخلاف اللبن اوبول الشاۃ علی قول محمد بطھارتہ ھکذا اختلفوا والصحیح المعتمد فی المذھب الاعتبار بالغلبۃ فلا یخرج عن الطھوریۃ مادام اکثر من المستعمل ھو الذی اعتمدہ الامۃ وصححہ الائمۃ۔


میں کہتا ہوں ان کویہ قول کرنا لازم ہوگا کہ اگر ہر چُلو پر پانی کو حرکت دے یا ہر دفع غسالہ کی بجائے دوسری جگہ سے چُلو لے تو وضو جائز ہونا چاہئے۔ بعض نے کہا کہ مستعمل پانی مطلق پانی کا ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس میں فنا نہیں ہوگا اور اس کے کل میں اثر کرے گا کیونکہ وہ کم ہے بخلاف دودھ یا بکری کے پیشاب کے بقول امام محمد، کیونکہ وہ اس کی طہارت کے قائل ہیں اس طرح مستعمل پانی کے بارے میں یہ اختلاف ہے لیکن صحیح اور مذہب قابل اعتماد یہ ہے کہ اس میں غلبہ کا اعتبار ہے لہٰذا جب تک مطلق پانی غالب اور زیادہ ہے تو مستعمل پانی کے ملنے سے ناپاک نہ ہوگا اور قابلِ طہارت رہے گا، یہی اُمت کا معمول اور ائمہ کرام کا صحیح کردہ مسلک ہے۔ (ت)

یہ ۶۶ وہ پانی تھے جن میں شیئ غیر کا اصلاً خلط نہ تھا یا تھا تو آب غیر کا نہ غیر آب کا۔ اب وہ پانی ہیں جن میں غیر آب کا خلط ہے۔

(۶۷ و ۶۸) وہ پانی(۱) جس میں آبِ دہن یا آبِ بینی یعنی تھوک یا کھنکار یا ناک کی ریزش پڑ جائے اس سے وضوء جائز مگر مکروہ ہے۔ فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے : الماء اذا اختلط بالمخاط اوبالبزاق جازبہ التوضئ ویکرہ ۲؎۔ اگر پانی میں تھوک یا ناک کا پانی گرے تو اس سے وضو جائز ہے مگر مکروہ ہے۔ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل فیما لایجوزبہ التوضئ    نولکشور لکھنؤ    ۱/ ۹)

 (۶۹) وہ پانی جس(۲) میں مٹی، ریتا، کیچڑ کسی قدر مل جائے جب تک اس کی روانی باقی ہو اعضا پر پانی کی طرح بہے۔

(۷۰) یونہیں اہلے کا پانی اگرچہ کتنا ہی گدلا ہو اگرچہ رنگ کے ساتھ مزہ بھی بدلا ہو اگر ریتے مٹی کے سوا کچھ بھی بہا کر لایا ہو جب تک نجاست سے رنگ یا مزہ یا بُو نہ بدلے۔

(۷۱) یوہیں وہ ندیاں جو برسات میں گدلی ہوجاتی ہیں۔ امام ملک العلما بدائع میں فرماتے ہیں: لوتغیر الماء المطلق بالطین اوبالتراب یجوز التوضئ بہ۱؎۔ اگر مطلق پانی کیچڑ یا مٹی سے تبدیل ہوگیا تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    الماء المقید        سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۵)


محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا:لاباس بالوضوء بماء السیل مختلطا بالطین ان کانت رقۃ الماء غالبۃ فان کان الطین غالبا فلا ۲؎۔


سیلاب کا پانی جس میں کیچڑ کی آمیزش ہو اُس سے وضو جائز ہے بشرطیکہ اس میں پانی کی رقت غالب ہو اور اگر کیچڑ غالب ہو تو جائز نہیں۔ (ت)


 (۲؎ فتح القدیر    باب الماء الذی یجوز الخ    سکھر        ۱ /۶۵)


جوہرہ نیرہ میں ہے : خصہ بالذکر لانہ یاتی بغثاء واشجار واوراق ۳؎۔ بطور خاص اس کو ذکر کیا کیونکہ سیلاب کے پانی میں میل کچیل، درخت اور پتّے وغیرہ بھی بہہ کر آتے ہیں۔ (ت)


 (۳؎ جوہرۃ نیرۃکتاب الطہارۃ امدادیہ ملتان ۱ /۱۴)


وجیز کردری میں ہے : ماء السیل لورقیقا لیسیل علی العضو یجوز التوضی بہ ۴؎۔ سیلاب کا پانی اگر اتنا رقیق ہو کہ اعضاء پر بہتا ہو تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)  (۴؎ فتاوٰی بزازیۃ مع الہندیۃ نوع المستعمل الخ    پشاور    ۴ /۱۰)


منیہ میں ہے : یجوز الطھارۃ بماء خالطہ شیئ طاھر فغیر احد اوصافہ کماء المد والماء الذی اختلط بہ الزعفران بشرط ان یکون الغلبۃ للماء من حیث الاجزاء ولم یزل عنہ اسم الماء وان یکون رقیقا بعد فحکمہ حکم الماء المطلق ۱؎۔


اس پانی سے طہارت جائز ہے جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو اور اس کے اوصاف میں سے کسی ایک وصف کو بدل دیا ہو جیسے سیلاب کا پانی اور وہ پانی جس میں زعفران مل گئی ہو، بشرطیکہ اجزا کے اعتبار سے غلبہ پانی کو ہی ہو اور اس سے پانی کا نام سلب نہ ہوا ہو اور یہ کہ رقیق ہو، تو اس کا حکم مطلق پانی کا ہے۔ (ت)


 (۱؎ منیۃ المصلی    فصل فی المیاہ        مکتبہ قادریہ، لاہور    ص۶۳ )


حلیہ میں ہے :المد السیل وانما خصہ بالذکر لانہ یجیئ بغثاء ونحوہ الا ان قولہ غیر احد اوصافہ وقد سبقہ الی ھذہ العبارۃ القدوری فی مختصرہ یفید ان الجواز مقید بما اذاغیر وصفا واحدا لاغیر وحینئذ لایحتاج الی ان یقول بشرط ان یکون الغلبۃ للماء من حیث الا جزاء ولم یزل عنہ اسم الماء وان یکون رقیقا بعدمع ان قولہ بشرط ان تکون الغلبۃ للماء من حیث الاجزاء مغن عن الثانی کما ھو ظاہر لان المخالط المذکور اذا لم یغیر سوی وصف واحد لایکون بحیث یغلب الماء من حیث الاجزاء لیقع الاحتراز عنہ ویجعل شرطا ۲؎ اھ


''المد'' سیلاب کو کہتے ہیں اور اس کو بطور خاص ذکر کرنا اس لئے ہے کیونکہ سیلاب کا پانی کوڑا کرکٹ بھی ساتھ لاتا ہے مگر یہ کہ ان کا قول ''اس کے اوصاف میں سے کسی ایک کو بدل دیا'' اور ان سے پہلے قدوری بھی اپنی مختصر میں یہ عبارت لاچکے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے جواز اس صورت سے مقید ہے کہ جب صرف ایک وصف بدل جائے اس وقت یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ''شرط یہ ہے کہ غلبہ پانی کو ہو اجزاء کے اعتبار سے'' اور اس سے پانی کا نام سلب نہ ہو، اور یہ کہ رقیق ہو، باوجودیکہ ان کا قول بشرطیکہ غلبہ اجزاء کے اعتبار سے پانی کو ہو، یہ دوسرے سے بے نیاز کرنے والا ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، اس لئے کہ ملنے والی مذکورہ شے پانی کا اگر صرف ایک ہی وصف بدلے تو وہ پانی کے اجزاء پر غالب نہ ہوگی تاکہ اس سے احتراز ہو اور اس کو شرط کیا جائے اھ۔ (ت)


  (  ۲؎ حلیہ)


اقول: اولاً(۱) سیاتی الکلام ان شاء اللّٰہ تعالی علی مقتضی التعبیر باحد وحسبک ان الزعفران یغیر اوصاف الماء الثلثۃ وکذا السیل ربما یتغیرلہ وصفان بل الکل وثانیا الماء(۱) قد یخالطہ شیئ لایخالفہ الا فی وصف واحد فلا یغیر الا ایاہ وان زاد علی الماء اجزاء والوضوء بہ باطل وفاقا فلیس فی التعبیر باحد غنی عن شرط غلبۃ الماء من حیث الاجزاء کما ذھب الیہ وھلہ رحمہ اللہ تعالی وثالثا قد لایغلب(۲) الشیئ علی الماء اجزاء ویزیل اسمہ عنہ کما یاتی فی الزعفرانی والزاج والعفص والنبیذ فلا یغنی الشرط الاول عن الثانی ورابعا لایخفی ان الثانی(۳) مغن عن الثالث لان بزوال الرقۃ لایسمی ماء قال فی الفتح ماخالط جامدا فسلب رقتہ لیس بماء مقید بل لیس بماء اصلا کما یشیر الیہ قول المصنف فی المختلط بالاشنان الا ان یغلب فیصیرکالسویق لزوال اسم الماء عنہ ۱؎ اھ فالعجب تعرضہ بحکم الاغناء حیث لم یکن وترکہ حیث کان ثم راجعت الغنیۃ فرأیتہ عکس فاصاب وافادان الثالث تفسیر قال واشتراط عدم زوال اسم الماء یغنی عن اشتراط الرقۃ فان الغلیظ قدزال عنہ اسم الماء بل زوال الرقۃ یصلح ان یکون تفسیر الزوال اسم الماء ۲؎۔


میں کہتا ہوں اوّل "احد" سے تعبیر کرنے پر کلام آگے آئےگا، اور پھر یہ دلیل کافی ہے کہ زعفران جو پانی کے تینوں اوصاف تبدیل کردیتی ہے، اور اسی طرح سیلاب کہ اس سے کبھی دو وصف بدل جاتے ہیں اور کبھی تمام اوصاف بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

دوم: پانی میں کبھی ایسی چیز مل جاتی ہے جو صرف ایک وصف میں اُس کے مخالف ہوتی ہے اور اسی ایک وصف کو بدلتی ہے خواہ اجزاء کے اعتبار سے وہ پانی سے زائد ہی ہو، ایسے پانی سے بالاتفاق وضو باطل ہے، لہٰذا ''ایک وصف بدلنے'' کا ذکر اس قید سے بے نیاز نہیں کرتا ہے کہ پانی کا اجزاء کے اعتبار سے غلبہ ہو، جیسا کہ وہلہ رحمہ اللہ نے اس کو ذکر کیا۔

سوم: بعض چیزیں اجزاء کے اعتبار سے پانی پر غالب نہیں آتیں اور اس سے پانی کا نام سلب ہوجاتا ہے جیسے زعفران، پھٹکڑی، مازو اور نبیذ میں ہوتا ہے تو پہلی شرط دوسری سے بے نیاز نہیں کرے گی۔

چہارم : مخفی نہ رہے کہ دوسرا تیسرے سے بے نیاز کرنے والا ہے کیونکہ جب رقّت زائل ہوگئی تو اب اس کو پانی نہیں کہاجائے گا، فتح میں فرمایا پانی کسی جامد سے ملا اور اس کی رقت ختم ہوگئی تو یہ مقید پانی نہیں بلکہ سرے سے پانی ہی نہیں جیسے کہ مصنف نے مختلط بالاشنان میں اشارہ کیا ہے، مگر یہ کہ اتنا غالب ہوجائے کہ ستوؤں کی مثل بن جائے کہ اب اس پر پانی کا نام نہیں بولا جائےگا اھ تو تعجب اس پر ہے کہ جہاں اِغناء نہ تھا وہاں وہ اِغناء کا ذکر کر رہے ہیں اور جہاں تھا وہاں چھوڑ دیا ہے، پھر میں نے خود غنیہ کو دیکھا تو وہاں اُلٹ نکلا، تو انہوں نے مفید اور درست بات کہی کیونکہ وہ فرماتے ہیں تیسرا تفسیر ہے، اور پانی کا نام زائل نہ ہونے کی شرط رقت کی شرط لگانے سے بے نیاز کرتی ہے، کیونکہ گاڑھے سے پانی کا نام ختم ہوگیا، بلکہ زوالِ رقت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پانی کے نام کے زوال کی تفسیر بن سکے۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر        الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سکھر        ۱/ ۶۵) 

(۲؎ غنیۃ المستملی    المیاہ        سہیل اکیڈمی، لاہور    ص۹۰)

 (۷۲) وہ پانی کہ کا ہی کی کثرت سے جس کی بُو وغیرہ میں تغیر آگیا، جوہرۃ نیرۃ میں ہے: لوتغیر الماء بالطحلب کان حکمہ حکم الماء المطلق ۱؎۔ اگر پانی کا ہی (پانی میں سبز دھاریاں ہوتی ہیں) سے متغیر ہوجائے تو اس کیلئے مطلق پانی کا حکم ہے۔ (ت)


 (۱؎ جوہرۃ نیرۃ   طہارت  امدادیہ ملتان        ۱ /۱۴)


(۷۳) کچی کنیاں کا پانی جس میں بھرا سڑکر بدبو آجاتی بلکہ رنگ ومزہ سب متغیر ہوجاتا ہے۔ 

(۷۴) وہ تالاب جس میں سن گلائی گئی اور اس کے سبب اس کے تینوں وصف بدل گئے۔ فتاوٰی شیخ الاسلام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ غزی تمرتاشی میں ہے : سئل عن الوضوء والاغتسال بماء تغیر لونہ وطعمہ وریحہ بحبلہ المعلق علیہ لاخراج الماء منہ فھل یجوز ام لا اجاب  یجوز عند جمہور اصحابنا ۲؎ اھ ملتقطا۔


اُن سے اُس پانی سے وضو اور غسل کی بابت دریافت کیا گیا جس کا رنگ، مزا اور خوشبو اُس رسّی کے باعث بدل گئے جس پر کہ اس رسّی کو لٹکایا گیا تھا، تاکہ اُس سے پانی نکالا جائے، تو کیا جائز ہے یا نہیں؟ تو جواب دیا کہ ہمارے جمہور اصحاب کے نزدیک جائز ہے اھ ملتقطا۔ (ت)


 (۲؎ فتاوی غزی تمرتاشی    )


(۷۵) کُوندے میں آٹے کا لگاؤ ہو اُس میں پانی رکھنے سے مزے وغیرہ میں تغیر آجاتا ہے اس پانی سے وضو روا ہے۔ فتح القدیر میں ہے:  قداغتسل صلی اللّٰہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلم یوم الفتح من قصعۃ فیھا اثر العجین رواہ النسائی والماء بذلک یتغیر ولم یعتبر للمغلوبیۃ ۳؎۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایسے پیالے میں وضو فرمایا جس میں گوندھے ہوئے آٹے کا اثر تھا اس کو نسائی نے روایت کیا، اس سے پانی میں تغیر آتا ہے اور مغلوبیت کی وجہ سے اس کا اعتبار نہ فرمایا۔ (ت)


(۳؎ فتح القدیر        الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سکھر        ۱/ ۶۴)


(۷۶) حوض کے کنارے درخت ہیں موسمِ خزاں میں پتّے کثرت سے گِرے کہ حوض کا پانی دیکھنے میں سبز معلوم ہوتا ہے مگر ہاتھ میں لینے سے صاف نظر آتا ہے اُس سے وضو بالاتفاق جائز ہے۔ 

(۷۷) پتّے اتنے گرے کہ واقعی پانی سبز ہوگیا چُلّو میں بھی سبز معلوم ہوتا ہے صحیح مذہب میں اب بھی قابلِ وضو ہے جب تک گاڑھا ہو کر اپنی رقت سے نہ اُترجائے۔

اقول: ہاں مگر(۱) اس حالت میں اُس سے احتراز بہتر ہے کہ ایک جماعتِ علما اُس سے وضو صحیح نہ ہونے کی قائل ہے۔ امام صدر الشریعہ نے شرح وقایہ میں فرمایا:  اما الماء الذی تغیر بکثرۃ الاوراق الواقعۃ فیہ حتی اذارفع فی الکف یظھر فیہ لون الاوراق فلا یجوز بہ الوضوء لانہ کماء الباقلی ۱؎۔ وہ پانی جو پتّوں کے زیادہ گرنے کی وجہ سے بدل گیا، اتنا کہ ہاتھ میں اٹھایا جائے تو پتّوں کا رنگ آئے تو اُس سے وضو جائز نہیں جیسے کہ باقِلی (لوبیا) کے پانی سے وضو جائز نہیں۔ (ت)


 (۱؎ شرح وقایۃ،  مایجوزبہ الوضوء،  المکتبۃ الرشیدیہ دہلی ۱ /۸۶)


فتاوٰی غزی میں ہے : وبعضھم ذھب الی عدم الجواز بالماء الذی غیرتہ کثرۃ الاوراق بحیث یظھر لونھا فی کف عند رفعہ کما جزم بہ فی الکنز وغیرہ ۲؎ اھ اور بعض فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ اُس پانی سے وضو جائز نہیں جس کو پتّوں کی کثرت نے بدل دیا ہو تو ہاتھ میں اٹھانے سے اس میں پتّوں کا رنگ نظر آتا ہو، جیسے کنز وغیرہ میں اس پر جزم کیا ہے اھ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی غزی)


اقول: انما(۲) نص الکنز لابمآء تغیر بکثرۃ الاوراق ۳؎ اھ ولیس فیہ ذکر ظھور اللون بالرفع فی الکف وانما ضمیر تغیر للماء والماء عبارۃ عن العین وتغیر عینہ بذھاب رقتہ لاجرم ان قال فی البحر محمول علی مااذا زال عنہ اسم الماء بان صار ثخینا ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں کنز کا نص تو یہ ہے کہ نہ اُس پانی سے جو پتّوں کی کثرت سے متغیر ہوگیا ہو اھ۔ اور اس میں یہ ذکر نہیں کہ ہاتھ میں اٹھانے سے پتوں کا رنگ اس میں ظاہر ہوتا ہو، اور تغیر کی ضمیر پانی کی طرف لوٹتی ہے، اور پانی ایک عین ہے اور اُس کے عین کا تغیر اس وقت ہوگا جب اس کی رقت ختم ہوجائے،اس لئے بحر میں فرمایا یہ اس پر محمول ہے جبکہ اس پر پانی کا اطلاق ختم ہوگیا ہو، مثلاً یہ کہ وہ گاڑھا ہوگیا اھ۔


 (۳؎ کنز الدقائق    میاہ الوضوء        سعید کمپنی کراچی    ص۱۱ ) 

(۱؎ بحرالرائق            میاہ الوضوء        سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۶۸)


ورحم اللّٰہ العلامۃ الحلبی اذ اوضح المرام وازاح الاوھام بقولہ فی متنہ الملتقی لابماء خرج عن طبعہ بکثرۃ الاوراق ۲؎ اھ قال فی مجمع الانھر طبعہ ھو الرقۃ والسیلان ۳؎ اھ


اللہ تعالٰی حلبی پر رحم فرمائے کہ انہوں نے شبہات کو دُور فرما کر وضاحت مقصود کردی، وہ ملتقی کے متن میں فرماتے ہیں ''نہ اس پانی سے جو پتوں کی کثرت کی وجہ سے پانی کی طبیعت سے خارج ہوگیا ہو اھ''۔ مجمع الانہر میں فرمایا پانی کی طبیعت رقت اور سیلان ہے اھ۔ (ت)


 (۲؎ الملتقی الابحر شرح مجمع الانہر    الطہارۃ بالماء المطلق    عامرہ مصر        ۱/ ۲۸   )

(۳؎ الملتقی الابحر شرح مجمع الانہر    الطہارۃ بالماء المطلق    عامرہ مصر        ۱ /۲۸   )


اقول : ولم(۱) یکن بعدہ محل لان یعللہ بتغیر اوصافہ جمیعا ویقول وان جوزہ الاساتذۃ امامانقل عن الفرائد عن اخی چلپی انہ لایمکن الحمل الا علی اختلاف الروایتین ثم قال لکن یمکن الحمل علی مابین انفا ۴؎ اھ


میں کہتا ہوں اس کے بعد اس کا موقع نہ تھا کہ اس کی علت یہ بیان کریں کہ اس کے تمام اوصاف بدل جائیں اور یہ فرمائیں کہ ''اگرچہ اس کو اساتذہ نے جائز قرار دیا ہے'' اور اخی چلپی سے فرائد سے جو منقول ہے کہ ''اس کو صرف اختلاف روایتین پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے'' پھر فرمایا اس کا حمل اس پر ممکن ہے جس کو انہوں نے ابھی بیان کیا ہے اھ۔ (ت)


  (۴؎ عقدالفرائد)

فاقول:(۲) اولا مابین صریح منطوق المتن فتعبیرہ بالحمل ثم تضعیفہ(۳) بیمکن لامحل لھما وثانیا لامحل(۴) لھذا الحمل فی کلام صدر الشریعۃ وما یاتی من کلام المیدانی فلا محید عن الاختلاف ومن المسامحۃ(۵) تعبیرہ باختلاف الروایتین فان قول(۶) المشائخ لایقال لہ روایۃ۔


تو میں کہتا ہوں اوّلاً جو انہوں نے بیان کیا ہے وہ متن کی صریح عبارت ہے تو اس کو حمل سے تعبیر کرنا پھر اس کو تضعیف یمکن کے لفظ سے، ان دونوں باتوں کا یہ محل نہیں۔

دوم، اِس حمل کا صدرالشریعۃ کے کلام میں کوئی محل نہیں، اور اسی طرح میدانی کے کلام میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں، تو اختلاف سے تو کوئی مَفَر نہیں، اور اس کو اختلاف روایتین سے تعبیر کرنا اس میں مسامحۃ ہے کہ قولِ مشایخ کو روایت نہیں کہا جاتا ہے۔ (ت)


منیہ میں ہے : اذا تغیر لون الماء اوریحہ اوطعمہ بطول المکث اوبسقوط الاوراق تجوز بہ الطھارۃ الا اذا غلب لون الاوراق فیصیر مقیدا ۱؎۔


جب پانی کا رنگ، بُو یا مزہ تبدیل ہوجائے زیادہ ٹہرا رہنے کی وجہ سے، یا اس میں پتّوں کے گرنے کی وجہ سے، تو اس سے طہارت جائز ہے ہاں اگر پتّوں کا رنگ غالب ہوگیا تو اب یہ پانی مقید ہوگیا۔ (ت)


 (۱؎ منیۃ المصلی        مکتبہ قادریہ لاہور    ص۶۴ )


جحلیہ میں ہے:اخذہ مما فی الذخیرۃ الفتاوی الصغری سئل الفقیہ احمد بن ابراھیم المیدانی عن الماء الذی تغیر لونہ لکثرۃ الاوراق الواقعۃ فیہ حتی یظھر لون الاوراق فی الکف اذارفع الماء منہ ھل یجوز التوضی بہ قال لاولکن یجوز شربہ وغسل الاشیاء بہ اما شربہ وغسل الاشیاء فلانہ طاھر واما عدم جواز التوضی بہ فلانہ لما غلب علیہ لون الاوراق صار مقیدا کماء الباقلاء وغیرہ لکن نص فی تحفۃ الفقھاء علی انہ عند الضرورۃ یجوز التوضی بماء تغیر بامتزاج غیرہ من حیث اللون والطعم بان وقع الاوراق والثمار فی الحیاض حتی تغیر لانہ تتعذر صیانۃ الحیاض عنھا ۲؎۔


اس کو ذخیرہ اور فتاوٰی صغرٰی کے تتمہ سے لیا ہے، فقیہ احمد بن ابراہیم المیدانی سے اُس پانی کی بابت دریافت کیا گیا جس کا رنگ پتّوں کی کثرت کی وجہ سے متغیر ہوگیا ہو یہاں تک کہ جب پانی کو ہاتھ میں اٹھایا جائے تو اس میں پتّوں کا رنگ ظاہر ہوتا ہو، آیا اِس پانی سے وضو جائز ہے؟ تو فرمایا ''نہیں'' لیکن اس کو پی سکتے ہیں اور اس سے دوسری اشیا کو دھو سکتے ہیں، اس کا پینا اور دوسری اشیا کا دھونا اس لئے جائز ہے کہ یہ پانی پاک ہے اور وضو اس لئے جائز نہیں کہ اس پر پتّوں کا رنگ غالب ہوچکا ہے اور یہ مقید پانی ہوگیا ہے جیسے باقِلی (لوبیا) وغیرہ کا پانی۔ مگر تحفۃ الفقہاء میں صراحت ہے کہ ایسے پانی سے جس میں کسی چیز کے مل جانے کی وجہ سے رنگ اور مزہ تبدیل ہوگیا ہو، ضرورت کے وقت وضو جائز ہے جیسے حوضوں میں پھل اور پتّے گرتے رہتے ہیں اور پانی متغیر ہوجاتا ہے کہ ان چیزوں سے حوضوں کا بچانا متعذر ہے اھ (ت)


 (۲؎ حلیہ )


اقول: فاذن یکون ھذا قولا ثالثا انہ انما یجوز الوضوء بہ عند الضرورۃ والا لا وتبعہ فی مجمع الانھر ولیس(۱) ھکذا وانما نص البدائع شرح التحفۃ وھو عین نصھا ولوتغیر الماء المطلق بالطین اوبالتراب اوبالجص او بالنورۃ اوبوقوع الاوراق اوالثمار فیہ اوبطول المکث یجوز التوضئ بہ لانہ لم یزل عنہ اسم الماء وبقی معناہ ایضا مع مافیہ من الضرورۃ الظاھرۃ لتعذرصون الماء عن ذلک ۱؎ اھ۔ فلم یقیدہ بالضرورۃ ولم یقصر وجہہ علیھا بل عللہ بانہ ماء مطلق باق علی اطلاقہ وایدہ بانہ ساقط الحکم للضرورۃ وفرق بین(۲) بین بناء الحکم علی الضرورۃ بحیث یتقید بھا وبین اسقاط حکم رأسا لضرورۃ لازمۃ وھذا من ذاک الاتری(۳) انہ نظمہ مع المخلوط بالتراب ونحوہ فی سلک واحد وھل یسوغ لاحد ان یقول انما یجوز الوضوء بماء کدر اذا لم یجد غیرہ والا لم یصح ثم لانظیر(۴) لھذا فی المذھب ان یجوز الوضوء بماء عند الضرورۃ لافی السعۃ امانبیذ التمر فانما الحکم فیہ علی خلاف المعتمد المفتی بہ لاجل ورود النص فعدل بہ عن سنن القیاس عند عدم الماء المطلق کما نصوا علیہ وسیاتی ولامساغ لھذا ھھنا وباللّٰہ التوفیق۔


میں کہتا ہوں اس صورت میں یہ تیسرا قول ہوگا یعنی یہ کہ بوقت ضرورت اس سے وضو جائز ہے ورنہ نہیں، اور مجمع الانہر میں اس کی متابعت کی، اور بات ایسی نہیں ہے اور بدائع شرح تحفہ کا نص بعینہ یہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ''اگر مطلق پانی کیچڑ، مٹی، گچ یا نورہ سے بدل گیا یا اس میں پتّے اور پھل گرے اور بدل گیا یا زیادہ عرصہ تک کھڑا رہنے کی وجہ سے بدل گیا تو اس سے وضو جائز ہے کیونکہ اس سے پانی کا نام زائل نہیں ہوا، اور اس کے معنی بھی باقی ہیں، اور بظاہر اس میں ضرورت بھی ہے کیونکہ پانی کو ان اشیاء سے بچانا متعذر ہے اھ۔ تو اس کو ضرورت سے مقید نہیں کیا اور اس کی وجہ اس مقصور نہ کی بلکہ اس کی تعلیل اس طرح کی کہ وہ مطلق پانی ہے اور اپنے اطلاق پر باقی ہے اور اس کی تائید میں فرمایا کہ اس کا حکم بوجہ ضرورت ساقط ہوگیا، اور اس میں کہ حکم ضرورت کی وجہ سے لگایا جائے اور وہ ضرورت سے متقید ہوجائے اور اس میں کہ حکم ضرورت لازمہ کی وجہ سے بالکل ساقط کیا جائے، بڑا فرق ہے، اور یہ اُسی قبیل سے ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اس کو مخلوط بالتراب اور اس کی مثل کے ساتھ ملایا ہے، اور ان دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے، اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ گدلے پانی کے ساتھ وضؤ جائز ہے بشرطیکہ دُوسرا موجود نہ ہو ورنہ نہیں؟ پھر اس پر مذاہب میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں کہ کسی پانی سے ضرورت کے وقت تو وضو جائز ہو اور بلا ضرورت جائز نہ ہو، اور جہاں تک نبیذ تمر کا معاملہ ہے سو اس میں جو حکم ہے وہ معتمد مفتی بہ کے خلاف ہے، کیونکہ نص وارد ہے لہٰذا وہاں قیاس سے عدول کیا گیا ہے جبکہ مطلق پانی نہ ہو، جیسا کہ فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے، اور یہ عنقریب آئے گا، اور یہ چیز یہاں نہیں چل سکتی ہے،


 (۱؎ بدائع الصنائع     الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۱۵)


ثم اورد علیہ فی الحلیۃ نفسھا بما حاصلہ ان لامعنی للتفرقۃ بین السعۃ والضرورۃ فان الشرع لم ینقل المکلف عن الماء المطلق عند عدم القدرۃ علیہ الیہ الماء المقید فی حالۃ دون حالۃ بل نقلہ عند العجز عنہ الی التیمم فی سائر الحالات اعنی سواء کان یجد مع ذلک الماء المقید اولم یجدہ ایضا فان کان ھذا ماء مطلقا جاز الوضوء مطلقا والا لم یجز مطلقا ۱؎ اھ۔بمحصلہ اقول: ھذا ایراد علی مافھمہ رحمہ اللہ تعالٰی من کلام التحفۃ لاعلیہ کما علمت وللّٰہ الحمد۔


پھر انہوں نے خود حلیہ میں اعتراض کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ گنجائش اور ضرورت کی صورتوں میں فرق کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ شریعت نے مکلف کو مطلق پانی سے قدرت نہ ہونے کی صورت میں مقید پانی کی طرف منتقل نہیں کیا ہے کسی خاص حالت میں، بلکہ ایسی صورت میں اس کو تیمم کرنے کا حکم دیا ہے تمام حالات میں، خواہ اس کو مقید پانی مل رہا ہو یا نہ مل رہا ہو، تو اگر یہ مطلق پانی ہے تو وضو مطلقاً جائز ہے ورنہ مطلقاً وضو جائز نہیں اھ۔ میں کہتا ہوں یہ اعتراض اُس مفہوم پر ہے جو انہوں نے تحفہ سے سجھا خود تحفہ پر نہیں ہے جیسا کہ آپ نے جان لیا وللہ الحمد۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۵)


(۷۸) پھلوں کے گرنے

(۷۹) تالاب میں سنگھاڑے کی بیل سڑجانے سے پانی کے سب اوصاف بدل جائیں جب بھی حرج نہیں جب تک رقیق وسیال رہے۔ تنویر الابصار ودرمختار میں ہے :


  (یجوز ماء خالطہ طاھر جامد) مطلقا (کفاکھۃ و ورق شجر) وان غیر کل اوصافہ (فی الاصح ان بقیت رقتہ) ای واسمہ ۲؎ اھ۔


 (وضو ایسے پانی سے جائز ہے جس میں کوئی جامد پاک چیز مل گئی ہو) مطلقاً (جیسے خشک میوہ اور درخت کے پتّے) خواہ اس کے تمام اوصاف کو بدل دیا ہو (اصح یہی ہے بشرطیکہ اس کی رقت باقی رہی ہو) یعنی اس کا نام بھی اھ۔


 (۲؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مجتبائی دہلی        ۱/ ۳۵)


اقول: احتاج الی زیادۃ واسمہ لکلامہ فی کل طاھر جامدومنہ مایزیل الاسم مع بقاء الرقۃ کما یاتی فی الزعفران ونحوہ فلا یجوز الوضوء بہ مع بقاء رقتہ ونحن فی غنی من ھذا القید ھنا فانہ ھنا لایتبدل الاسم مادامت الرقۃ فلذالم نعرج علیہ۔


میں کہتا ہوں ہر طاہر جامد کے ساتھ نام کے باقی رہنے کی قید ضروری ہے، اسی میں وہ بھی ہے جس کا نام تو ختم ہوگیا مگر رقت باقی رہی ہو جیسا کہ زعفران وغیرہ میں آئے گا تو رقت کے باقی رہتے ہوئے بھی وضو جائز نہ ہوگا، اور ہمیں یہ قید لگانے کی ضرورت نہیں کہ یہاں نام اس وقت تک تبدیل ہوتا ہی نہیں جب تک کہ رقت باقی رہتی ہے، اسی لئے ہم نے یہ قید نہیں لگائی۔ (ت)

غرر ودرر میں ہے : وان غیر اوصافہ فی الاصح ۱؎  (اصح یہ ہے کہ اگرچہ وہ پانی کے اوصاف کو بدل دے۔ ت)


 (۱؎ درر غرر ملّا خسرو    فرض الغسل    مطبعہ کاملیۃ بیروت    ۱ /۲۱)


عبدالحلیم میں ہے : ھو الاصح بل الصحیح کما قال فی المنبع ۲؎ ۔ (یہی اصح ہے بلکہ صحیح ہے، جیسا کہ منبع میں فرمایا۔ ت)


 (۲؎ درر غرر عبدالحلیم    فرض الوضوء    مطبعہ عثمانیہ بیروت    ۱ /۱۷)


سراج الوہاج وعلمگیریہ وجوہرہ نیرہ وفتاوی غزی میں ہے : فان تغیرت اوصافہ الثلثۃ بوقوع اوراق الاشجار فیہ وقت الخریف فانہ یجوزبہ الوضوء عند عامۃ اصحابنا رحمہم اللّٰہ تعالٰی ۳؎۔؂


اگر اس کے تینوں اوصاف موسم خزاں کے پتوں کے گرنے کی وجہ سے تبدیل ہوگئے، تو ہمارے اصحاب کے نزدیک اس سے وضو جائز ہے رحمہم اللہ تعالٰی۔ (ت)


  (۳؎ ہندیۃ    فیما لایجوز بہ الوضوء    پشاور        ۱/ ۲۱)


مجتبٰی، شرح قدوری پھر فتاوٰی غزی میں ہے :لوغیر الاوصاف الثلثۃ بالاوراق ولم یسلب اسم الماء عنہ ولا معناہ فانہ یجوز التوضئ بہ ۴؎۔


اگر پانی کے تینوں اوصاف پتّوں کے گرنے کی وجہ سے متغیر ہوگئے اور اس سے پانی کا نام سلب نہ ہوا اور نہ اس کے معنی سلب ہُوئے تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۴؎ فتاوٰی غزی)


نہایہ امام سغناقی پھر عنایہ وحلیہ وغنیہ وبحر ونہر ومسکین وردالمحتار کتبِ کثیرہ میں ہے:المنقول عن الاساتذۃ انہ یجوز حتی لو ان اوراق الاشجار وقت الخریف تقع فی الحیاض فیتغیر ماؤھا من حیث اللون والطعم والرائحۃ ثم انھم یتوضؤون منھا غیر نکیر ۱؎۔


اساتذہ سے یہ منقول ہے کہ جائز ہے، یہاں تک موسم خزاں میں درختوں کے پتّے حوضوں میں گرنے کی وجہ سے پانی کا رنگ، مزہ، بُو بدل جاتا ہے پھر بھی وہ ایسے پانی سے وضو کرلیتے تھے، اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔


   (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ         مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۷ )


ردالمحتار میں زیر قول مذکور وان غیر کل اوصافہ فی الاصح فرمایا:مقابلہ ماقیل انہ ان ظھر لون الاوراق فی الکف لایتوضأ بہ لکن یشرب والتقیید بالکف اشارۃ الی کثرۃ التغیر لان الماء قد یری فی محلہ متغیرا لونہ لکن لورفع منہ شخص فی کفہ لایراہ متغیرا تأمل ۲؎ اھ۔


اس کے مقابل یہ قول ہے کہ اگر پتّوں کا رنگ چُلو کے پانی میں ظاہر ہوجائے تو اس سے وضو جائز نہیں، لیکن یہ پانی پیا جاسکتا ہے، اور ہتھیلی کی قید لگانا یہ ظاہر کرنے کیلئے ہے کہ تغیر بہت زیادہ واقع ہوا ہے، کیونکہ پانی اپنے محل میں کبھی متغیر نظر آتا ہے لیکن اگر اُسے چُلّو میں اٹھایا جائے تو متغیر نظر نہیں آتا ہے تأمل اھ۔ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ         مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۷ )


اقول:لاادری لم امر بالتأمل وھو امر صحیح مشاھد ھذا وزعم یوسف چلپی فی ذخیرۃ العقبی الاصح ماذکرہ الشارح یرید صدرالشریعۃ لانہ بغلبۃ لون الاوراق صار مقیدا ۳؎ اھ۔


میں کہتا ہوں کہ معلوم نہیں، انہوں نے تأمل کا حکم کیوں دیا، یہ ایک صحیح بات ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، اور یوسف چلپی نے ذخیرہ العقبٰی میں فرمایا کہ اصح وہ ہے جس کو شارح نے ذکر کیا، ان کی مراد صدر الشریعۃ ہیں، کیونکہ وہ پتّوں کے رنگ کے غلبہ کی وجہ سے مقید پانی ہوگیا ہے۔ (ت)


 (۳؎ ذخیرۃ العقبٰی    المبحث فی الموجبات الغسل    مطبع الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۴۵)


اقول:ھو(۱) رحمہ اللّٰہ تعالٰی لیس(۲) من اھل الترجیح ولم یسندہ لمعتمد فلا یعارض ماعلیہ الجمھور ونصوا انہ الاصح ونص الامام النسفی فی المستصفی عن شیخہ شمس الائمۃ الکردری انھا الروایۃ الصحیحۃ کما سیاتی فی ۹۷ اما ما(۱) استدل بہ فمصادرۃ علی المطلوب وکفی ردا(۲) علیہ قول المحقق فی الفتح تقع الاوراق فی الحیاض زمن الخریف فیمرالرفیقان ویقول احدھما للاٰخر ھنا ماء تعال نشرب نتوضأ فیطلقہ مع تغیر اوصافہ بانتقاعھا فظھر لنا من اللسان ان المخالط المغلوب لایسلب الاطلاق ۱؎ اھ۔وقال المحقق فی الحلیۃ لعل مانقل من وضوء الاساتذہ من الماء المذکور کان فیہ ادنی تغیر فی صفاتہ الثلثۃ عــہ بحیث لم یزل عنہ اسم الماء المطلق اذلیس کل تغیر فی مجموع الصفات الثلاث یوجب جعل ذلک الماء مقیدا بل ھذا ھو الظاھر من حالھم اذلا یظن بھم الوضوء بالماء المقید ۲؎ اھ ۔


 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سکھر    ۱/ ۶۴ ) (۲؎ حلیہ)


میں کہتا ہوں وہ (رحمہ اللہ) اصحاب ترجیح سے نہیں ہیں اور انہوں نے کسی قابل اعتماد شخصیت کی طرف نسبت بھی نہیں کی، تو یہ جمہور کے قول سے متعارض نہ ہوگا، جمہور نے تصریح کی ہے کہ یہی اصحّ ہے، اور امام نسفی نے مستصفٰی میں اپنے شیخ شمس الائمہ کردری سے نقل کیا کہ یہی صحیح روایت ہے، جیسا کہ عنقریب ۹۷ میں آئےگا اور جس سے انہوں نے استدلال کیا ہے تو وہ مصادرہ علی المطلوب ہے اور محقق نے اس کی تردید فتح میں کردری ہے کہ موسم خزاں میں پتّے حوضوں میں گِرتے ہیں اب وہاں سے دو دوست گزرتے ہیں ایک دُوسرے سے کہتا ہے کہ آؤ یہاں پانی موجود ہے اسے پیتے ہیں اور اس سے وضو کرتے ہیں تو وہ اس پر پانی کا اطلاق کرتا ہے حالانکہ اُس کے اوصاف متغیر ہوچکے ہیں تو معلوم ہوا کہ عام محاورہ میں اس سے پانی کا نام سلب نہیں ہوتا ہے اھ۔ محقق نے حلیہ میں فرمایا اساتذہ کا جو اس پانی سے وضوکرلینا مذکور ہے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اس پانی کے اوصاف میں زیادہ تغیر واقع نہ ہوا ہوگا اتنا کہ اُس سے مطلق پانی کا نام ہی مسلوب ہوجائے کیونکہ اوصافِ ثلٰثہ کا ہر تغیر پانی کو مقیدنہیں بناتا ہے بلکہ اُن کے حال سے یہی ظاہر ہے، کیونکہ یہ گمان نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ مقید پانی سے وضو کر لیا کرتے تھے۔ (ت)


عــہ کذا ھو فی نسختی الحلیۃ باثبات التاء فی الثلٰثۃ ۱۲ منہ غفرلہمیرے پاس موجود حلیہ کے نسخہ میں اسی طرح ثلٰثۃ میں تاء کو ثابت رکھا گیا ہے۔ (ت)


اقول: ان(۳) اراد ان کثرۃ تغیر الاوصاف بوقوع الاوراق یجعل الماء مقیدا مع بقاء رقتہ فغیر مسلم ولا واقع فبوقوع الاوراق مع بقاء الرقۃ لایزول اسم الماء ابدا وان تغیرت الاوصاف مھما تغیرت وان اراد بالتغیر الکثیر زوال الرقۃ فلا حاجۃ الی الترجی بل ھو المراد قطعا قال فی العنایۃ بعد نقل النھایۃ وکذا اشار فی شرح الطحاوی الیہ لکن شرطہ انیکون باقیا علی رقتہ اما اذا غلب علیہ غیرہ وصاربہ ثخینا فلایجوز ۱؎ اھ۔ ثم قال فی الحلیۃ کما ان الظاھر ان محل جواب المیدانی المذکور مابلغ بہ بماوقع فیہ من الاوراق الی حد التقیید فان تغیر لون الماء بکثرۃ الاوراق الواقعۃ فیہ یوجب تغییر الطعم بل والرائحۃ ایضا انکانت الاوراق ذات رائحۃ ۲؎ اھ۔


میں کہتا ہوں اگر ان کی مراد یہ ہے کہ پانی کے اوصاف میں پتّوں کے وقوع سے زیادہ تغیر پیدا ہونے سے پانی مقید ہوجاتا ہے باوجودیکہ اُس کی رقت باقی رہتی ہے، تو یہ بات نہ تو مسلّم ہے اور نہ ایسا واقع ہے، کیونکہ پتّوں کے گرنے سے جبکہ رقت باقی ہو ہمیشہ پانی کانام تبدیل نہیں ہوتا ہے اگرچہ اوصاف تبدیل ہوتے رہیں، اور اگر ان کی مراد کثرتِ تغیر سے یہ ہے کہ رقّت زائل ہوجائے، تو ترجی (لفظ لعل) کی حاجت نہیں، بلکہ قطعیت کے ساتھ یہی کہنا ہوگا، عنایۃ میں نہایۃ کی عبارت نقل کرنے کے بعد فرمایا۔ طحطاوی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن یہ شرط یہ ہے کہ اس کی رقّت باقی ہو، اور اگر پانی پر کوئی دوسری چیز غالب ہوگئی اور اُس کی وجہ سے وہ گاڑھا ہوگیا تو اُس سے وضو جائز نہیں اھ۔ پھر حلیہ میں فرمایا جیسا کہ یہ ظاہر ہے کہ میدانی کا مذکور جواب پتّوں کی اُس مقدار سے متعلق ہے جس کی وجہ سے پانی مقید ہوجائے، کیونکہ پتّوں کی کثرت کے باعث جب پانی کا رنگ تبدیل ہوتا ہے تو ساتھ ہی مزہ بلکہ بُو بھی تبدیل ہوجاتی ہے بشرطیکہ پتّوں میں کوئی خاص بُو موجود ہو۔ (ت)


 (۱؎ عنایۃ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سکھر    ۱/ ۶۳ )      ( ۲؎ حلیہ)

اقول: فکان(۱) ماذا فقد ذکرتم ان لیس کل تغیر فی الصفات الثلاث جمیعا یوجب جعل الماء مقیدا ولا تقید ھھنا الازوال الرقۃ والامام المیدانی انما بنی الجواب علی ظھور لون الاوراق فی الکف وبھذاالقدر جعلہ مقیدا وبہ صرح صدرالشریعۃ ومعلوم انہ لایستلزم الثخانۃ فانی ینفع التاویل، وعلی اللّٰہ ثم علی رسولہ التعویل، جل جلالہ وعلیہ الصلاۃ والسلام بالتعجیل۔


میں کہتا ہوں اس سے کیا ثابت ہوا؟ آپ نے خود بھی ذکر کیا ہے کہ اوصاف ثلٰثہ کا ہر تغیر پانی کو مقید نہیں بنادیتا ہے، اور یہاں کوئی تقید زوالِ رقّت کے سوا نہیں ہے اور میدانی کے جواب کی بنیاد یہ ہے کہ پتّوں کا رنگ چُلّو میں ظاہر ہوجائے، اور اس مقدار سے انہوں نے پانی کو مقید بنادیا، اور اسی کی تصریح صدر الشریعۃ نے کی ہے اور یہ معلوم ہے کہ اس سے اس کا گاڑھا ہونا لازم نہیں، تو تاویل کا کچھ فائدہ نہیں.... (ت)

(۸۰ و ۸۱) شنجرف یا کسم زردی کاٹنے کے لئے پانی میں بھگودیتے ہیں جب زردی کٹ آئی پانی پھینک دیتے ہیں یہ پانی اگرچہ اس کی رنگت وغیرہ بدل گئی قابلِ وضو ہے جبکہ گاڑھا نہ ہوگیا ہو،


خانیہ میں ہے:التوضئ بزردج العصفر یجوز ان کان رقیقا والماء غالب ۱؎ اھ۔ پیلے رنگ کے زردج کے پانی سے وضو جائز ہے اگر پتلا ہو اور پانی غالب ہو اھ (ت)


 (۱؎ قاضی خان         فیما لایجوزبہ التوضئ    نولکشور لکھنؤ        ۱ /۹)


اقول: والحاصل واحد فکانہ اضیف الیہ بالعطف علیہ تعلیلالہ۔ میں کہتا ہوں حاصل ایک ہی ہے، تو غالباً یہ چیز بطور عطف اس کے ساتھ اس کی تعلیل کیلئے ملائی گئی ہے۔ (ت)


بزازیہ میں ہے : ماء الزردج والصابون والعصفر لو رقیقا یسیل علی العضو یجوز ۲؎۔ زردج، صابون اور عُصفر کا پانی اگر اتنا پتلا ہو کہ عضو پر بہہ سکے تو اُس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی بزازیۃ مع الہندیۃ    الماء المقید وغیرہ    پشاور   ۴ /۱۰)


ہدایہ میں ہے : وھو الصحیح کذا اختارہ الناطفی والامام السرخسی رحمھما اللّٰہ تعالٰی ۳؎۔ اور یہی صحیح ہے، اسی کو ناطفی اور امام سرخسی رحمہما اللہ نے پسند کیا ہے۔ (ت)


 (۳؎ الہدایۃ        الماء الذی یجوزبہ الوضوء   مکتبہ عربیہ کراچی    ۱ /۱۸)


مغربِ میں ہے : ماء الزردج ھو ماء یخرج من العصفر المنقوع فیطرح ولا یصبغ بہ ۴؎۔ زردج کا پانی وہ ہے جو نچوڑے ہوئے عصفر سے نکلتا ہے پھر اس کو پھینک دیتے ہیں اور یہ رنگنے کے کام نہیں آتا ہے۔ (ت)


 (۴؎ جوہرۃ نیرۃ    کتاب الطہارۃ    امدادیہ ملتان        ۱ /۱۴)


اسی طرح جوہرہ وغنیہ وحلیہ وعنایہ میں ہے۔ اقول:انما الزردج معرب زردہ وھی الصفرۃ التی تخرج من العصفر فی الماء المنقوع فیہ فیسمی ذلک الماء ماء الزردج لاان ماء یخرج من العصفر یسمی ماء الزردج ھذا ھو الوجہ عندی فی اللفظ وتبعوا فیہ المطرزی وکانہ لم یتقنہ لخلو کتب اللغۃ عنہ حتی القاموس المدعی الاحاطۃ وتاج العروس المستدرک علیہ بکثیر ولا الکلمۃ من لسان العرب واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں ''زردج'' زردہ کا معرّب ہے، یہ وہ زردی ہے جو عُصفر سے نکل کر اس پانی میں آجاتی ہے جس میں اسے ڈبویا گیا ہو اس کو ماءِ زردج کہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ خود عصفر سے جو پانی نکلتا ہے اس کو ماءِ زردج کہا جاتا ہو، میرے نزدیک اس لفظ کا صحیح مفہوم یہی ہے، جبکہ دوسرے حضرات نے اس میں مطرزی کی پیروی کی ہے، غالباً مطرزی اس کو اچھی طرح نہیں سمجھتا، کیونکہ لغت کی کتب میں یہ موجود نہیں، یہاں تک کہ قاموس جس کا دعوی ہے کہ اس نے تمام کلمات کا احاطہ کیا ہے اس سے خالی ہے، اور پھر تاج العروس جس میں اس سے بھی زیادہ کلمات کا احاطہ ہے اس میں بھی یہ موجود نہیں، اور نہ ہی یہ کلمہ لسان العرب میں ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


(۸۲ و ۸۳) جس پانی میں گچ یا چُونا مل جائے لقولہ لم یزل عنہ اسم الماء وبقی معناہ ایضا  (کیونکہ نام بھی سلب نہیں ہوا اور معنی بھی باقی ہے۔ ت)


(۸۴) چُونے کا پانی، گٹی بجھنے کے بعد تہہ نشین ہوتی اور اوپر نتھرا پانی رہ جاتا ہے جس میں قدرے سپیدی متفرق طور پر رہتی ہے اسے چُونے کا پانی کہتے ہیں قابلِ وضو ہے  اذلم یزل اسم الماء ولاطبعہ (کیونکہ نام بھی سلب نہیں ہوا اور طبیعت بھی زائل نہیں ہوئی۔ ت)


 (۸۵) ریشم کو پکانے کیلئے کپیوں کو پانی میں جوش دیتے ہیں اور اُن میں ریشم کے کیڑے ہوتے ہیں اُس پانی سے وضو جائز ہے کیڑے تر ہوں یا خشک جب تک اس کثرت سے نہ ہوں کہ اُن کے اجزا پانی پر غالب آجائیں۔ 

جواہر الفتاوٰی باب ثانی فتاوٰی امام جمال الدین بزدوی میں ہے:


الفیلق اذاطرح فی الماء الذی اغلی بالنارلسدا الابریسم وفی الفیلق دودمیتۃ یابسۃ اوغیریابسۃ بقیت فی الماء یکون طاھرا لانہ لیس لہ دم سائل وان غلب اجزاؤھا علی الاماء یمنع التوضی بہ کما لوغلب شیئ اٰخر ۱؎۔


کپیوں کو جب آگ پر جوش دئے ہوئے پانی میں ڈالا جائے تاکہ ابریشم کا تار حاصل کیا جاسکے،اور ان کپیوں میں مُردہ کیڑے بھی موجود ہوں، خواہ خشک حالت میں یا غیر خشک حالت میں تو یہ پانی جس میں یہ کپیاں ڈالی گئی ہوں پاک رہے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کیڑوں میں سیال خون نہیں ہوتا ہے، اور اگر ان کیڑوں کے اجزاء پانی پر غالب ہوجائیں تو دوسری اشیاء کی طرح اس سے وضو جائز نہ ہوگا۔ (ت)


 (۱؎ جواہر الفتاوی)


درمختار میں ہے: فی الوھبانیۃ دود القز وماؤہ وبذرہ وخرؤہ طاھر کدودۃ متولدۃ من نجاسۃ ۲؎۔ وہبانیہ میں فرمایا ریشم کا کیڑا، اس کا پانی، اس کا انڈا اور اس کی بیٹ اُسی طرح پاک ہے جس طرح نجاست سے پیدا ہونے والے دوسرے کیڑوں کا حکم ہے۔ (ت)


 (۲؎ درمختار     باب المیاہ    مجتبائی دہلی        ۱/ ۳۵)


ردالمحتار میں شرح وہبانیہ للعلّامہ عبدالبر سے ہے :یحتمل ان المراد مایوجد فیما ھلک منہ قبل ادراکہ وھو شبیہ باللبن اوالذی یغلی فیہ عند حلہ حریرا ۳؎۔


ہوسکتا ہے کہ پانی سے مراد وہ پانی ہو جو ان کیڑوں میں پایا جاتا ہے جو کپیوں کے پکنے سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے ہیں، یہ پانی دودھ کے مشابہ ہوتا ہے یا وہ پانی ہوسکتا ہے جس میں انکو ریشم نکالتے وقت اُبالا جائے۔ (ت)


  (۳؎ ردالمحتار     باب المیاہ     مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۵)

 (۸۶) پانی(۱) میں مینڈک یا کوئی آبی جانور یا وہ غیر آبی جس میں خون سائل نہ ہو جیسے زنبور، کژدم، مکّھی وغیرہا مرجائے اُس سے وضو جائز ہے اگرچہ ریزہ ریزہ ہوکر اس کے اجزاء پانی میں ایسے مل جائیں کہ جُدا نہ ہوسکیں بشرطیکہ پانی اپنی رقّت پر رہے، ہاں اس حالت میں اس کا پینا یا شوربا کرنا حرام ہوگا جبکہ وہ جانور حرام ہو، اور اگر ٹیری یا غیرطانی مچھلی ہے تو یہ بھی جائز۔ درمختار میں ہے :


لوتفتت فیہ نحوضفدع جاز الوضوء بہ لاشربہ لحرمۃلحمہ ۴؎  قال ش عن البحر لانہ صارت اجزاؤہ فی الماء فیکرہ الشرب تحریما ۵؎ اھ


اور اگر پانی میں مینڈک کی قسم کی کوئی چیز پھُول پھٹ جائے تو اُس سے وضو جائز ہے پینا جائز نہیں کہ اس کا گوشت حرام ہے، ش نے بحر سے نقل کرتے ہوئے فرمایا اس لئے کہ اس کے اجزاء پانی میں شامل ہوگئے تو اس کا پینا مکروہ تحریمی ہوگا۔ (ت)


 (۴؎ درمختار     باب المیاہ     مجتبائی دہلی        ۱/ ۳۵)

(۵؎ درمختار     باب المیاہ     مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۶)


اقول:کل مالادم (۱) فیہ حرام غیر الجراد والسمک الغیر الطافی واذا اختلطت اجزاؤہ بالماء فازدادھا فی شربہ متیقن فای وجہ للنزول من الحرمۃ الی کراھۃ التحریم وراجعت البحر فوجدت نصہ ھکذا روی عن محمد رحمہ اللّٰہ اذا تفتت الضفدع فی الماء کرھت شربہ لاللنجاسۃ بل لحرمۃ لحمہ وقدصارت اجزاؤہ فی الماء وھذا تصریح بان کراھۃ شربہ تحریمیۃ وبہ صرح فی التجنیس ۱؎ فقال یحرم شربہ۔


میں کہتا ہوں ہر وہ جانور جس میں خون نہ ہو وہ حرام ہے سوائے ٹڈی اور اُس مچھلی کے جو مُردہ حالت میں سطحِ سمندر پر تیرتی ہوئی نہ پائی گئی ہو، اور جب اس کے اجزا پانی میں مل جائیں تو ان کا پیتے وقت پانی میں شامل ہونا یقینی امر ہے تو پھر حرمت سے گھٹ کر کراہت تحریم کا حکم کیوں لگایا گیا؟ میں نے بحر کو دیکھا تو اس میں یہ تھا ''امام محمد سے مروی ہے جب مینڈک پانی میں پھُول پھَٹ جائے تو میں اس پانی کے پینے کی کراہت کا قول کروں گا اس کی نجاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے گوشت کی حرمت کی وجہ سے اور اس حرام گوشت کے اجزاء پانی میں بھی شامل ہوگئے ہیں، یہ اس امر کی صراحت ہے کہ ا س کے پینے کی کراہت تحریمی ہے اور اسی کی تصریح تجنیس میں ہے، فرمایا کہ اس کا پینا حرام ہے۔ (ت)


اقول:الکراھۃ(۲) عرف القدماء اعم من الحرمۃ یقولون اکرہ کذا والمعنی احرمہ راجع کتابی فصل القضاء فی رسم الافتاء فمعنی قول البحران الکراھۃ فی کلام الامام للتحریم الاتری (۳) الی قولہ وبہ صرح فی التجنیس وانما صرح بانہ حرام۔


میں کہتا ہوں کراہت کا لفظ متقد مین کے عرف میں حُرمت کو بھی عام ہے وہ فرماتے ہیں میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں اس کو حرام سمجھتا ہوں۔ دیکھئے میری کتاب ''فصل القضاء فی رسم الافتاء'' تو بحر کی مراد یہ ہے کہ امام کے کلام میں کراہت سے مراد تحریم ہے، چنانچہ انہوں نے فرمایا وبہ صرح فی التجنیس اور اس میں ان کی تصریح یہ ہے کہ حرام ہے۔ (ت)


 (۸۷) چاول کھچڑی دال دھو کر ڈالے جاتے ہیں ان کے دھونے سے جو پانی بچا قابلِ وضو ہے جبکہ بے وضو ہاتھ سے نہ دھوئے ہوں اگرچہ اس کے رنگ میں ضرور تغیر آجاتا ہے بلکہ اگرچہ مزہ بُو بھی بدل جائیں۔


 (۱؎ بحرالرائق    موت مالادم لہ    سعید کمپنی کراچی    ۱ /۸۹)


اقول: وھذا عندی وفاقا حتی ممن یجعل ماء الحمص والباقلاء المنقوعین فیہ مقید الان بمجرد الغسل لایسری الیہ مایسری بالنقع والتغیر الذی یحدث بہ لیس للحب بل لما علیہ من نحو الغبار واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں یہ میرے نزدیک متفقہ طور پر ہے، یہاں تک کہ جو حضرات چنوں اور باقلی (لوبیا)کے صاف کئے ہوئے پانی کو مقید قرار دیتے ہیں وہ بھی اسی کے قائل ہیں، کیونکہ صرف دھونے سے پانی میں وہ اثر پیدا نہیں ہوتا ہے جو صاف کرنے سے ہوتا ہے، اور جو تغیر پانی میں پیدا ہوتا ہے وہ دانہ کے باعث نہیں ہے بلکہ اس کے اوپر غبار کی وجہ سے ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۸۸) جس پانی میں چنے بھگوئے کتنی ہی دیر بھیگے رہیں تحقیق یہ ہے کہ اُس سے وضو جائز ہے مگر یہ کہ ناج کے اجزا اُس میں مل کر اُسے گاڑھا کردیں کہ اپنی رقت وسیلان پر باقی نہ رہے۔

(۸۹) یوں ہی جس میں باقلاعــہ بھگوئیں یونہی ہرناج۔


عــہ: یہ بھی ایک معروف غلہ ہے اگرچہ یہاں اس کا رواج نہیں اس کی پھلیاں پکاتے ہیں سالن کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ (م)


مختصر امام ابو الحسن قدوری میں تھا:لا (ای یجوز الوضوء) بماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء کماء الباقلا والمرق ۱؎۔


نہیں (یعنی وضو جائز نہیں) اُس پانی سے جس پر اُس کے غیر کا غلبہ ہوگیا ہو، اور اس وجہ سے پانی کو اس کی طبیعت سے خارج کردیا ہو، جیسے باقلی کا پانی اور شوربہ۔ (ت)


 (۱؎ قدوری کتاب الطہارت مطبع مجیدی کان پور، ص۶)


اس پر ہدایہ میں فرمایا: المراد بماء الباقلاء وغیرہ ماتغیر باطبخ فان تغیر بدون الطبخ یجوز التوضی بہ ۲؎ اھ۔ واقرہ علیہ فی الفتح والعنایۃ وتبعہ فی الجوھرۃ فقال قولہ وماء الباقلاء المراد المطبوخ بحیث اذا برد ثخن وان لم یطبخ فھو من قبیل وتجوز الطھارۃ بماء خالطہ شیئ طاھر ۳؎ اھ


باقلاء کے پانی سے مراد وہ پانی ہے جو پکائے جانے کی وجہ سے متغیر ہوگیا ہو اور اگر بلا پکائے متغیر ہوگیا ہو تو اُس سے وضو جائز ہوگا اھ۔ اور اس کو اس پر برقرار رکھا فتح اور عنایہ میں اور جوہرہ میں اس کی متابعت کی اور فرمایا: ان کا قول ''اور باقلی کا پانی'' اس سے مراد پکا ہُوا پانی ہے جو ٹھنڈا کئے جانے پر گاڑھا ہو جاتا ہے، اور اگر اس کو پکایا نہ گیا ہو تو یہ اس پا نی کی طرح ہے جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۲؎ الہدایۃ     کتاب الطہارت      مکتبہ عربیہ کراچی        ۱/ ۱۸)

(۳؎ جوہرۃ نیرۃ       کتاب الطہارت         امدادیہ ملتان        ۱/ ۱۴)


اقول: رحم اللّٰہ الشیخ الامام ورحمنا بہ کلام عــہ ابی الحسن فیما اذا اخرجہ عن طبع الماء بان اختلطت فیہ اجزاؤہ فثخن ولم یبق رقیقا وحینئذ لایجوز التوضی بہ وان لم یطبخ وقد قال فی الوقایۃ لابماء زال طبعہ بغلبۃ غیرہ اجزاء اوبالطبخ کماء الباقلی والمرق فقال الامام الشارح المراد بہ ان یخرجہ عن طبع الماء وھو الرقۃ والسیلان وماء الباقلی نظیر ماغلب علیہ غیرہ اجزاء والمرق نظیر ماغلب علیہ بالطبخ ۱؎ اھ۔


میں کہتا ہوں اللہ تعالٰی شیخ الامام پر اور ہم پر رحم فرمائے، ابو الحسن کی گفتگو اس صورت سے متعلق ہے جب کہ پانی کو اس کی طبیعت سے نکال دے مثلاً یہ کہ اس میں اس کے اجزاء مل جائیں اور وہ گاڑھا ہوجائے اور اس کی رقّت باقی نہ رہے تو ایسی صُورت میں اس سے وضوء جائز نہ ہوگا خواہ پکایا نہ گیا ہو، اور وقایہ میں فرمایا ''نہ کہ اُس پانی سے جو دُوسری شئے کے غلبہ کی وجہ سے اپنی طبیعت سے خارج ہوگیا ہو یا پکائے جانے کی وجہ سے طبیعت ماء سے خارج ہوگیا ہو، جیسے باقلی (لوبیا) کا پانی یا شوربہ۔ امام شارح نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ اس کو پانی کی طبیعت رقت اور سیلان ہے اور باقلی (لوبیا) کا پانی اُس پانی کی نظیر ہے جس پر دوسرے اجزاء غالب آگئے ہوں، اور شوربہ اُس پانی کی مثال ہے جس کو پکایا گیا ہو تو اس پر دوسری شیئ غالب آجائے اھ۔


عــہ: الحمدللّٰہ فتح المولی سبحنہ وتعالٰی بما یصحح الکلام ویوضع المرام ویزیل الاوھام کما یاتیک فی سادس ضوابط الفصل الثالث ان شاء اللّٰہ تعالٰی ۱۲ منہ غفرلہ وحفظہ ربہ 

اللہ تعالٰی کے لئے حمد ہے اللہ پاک نے وہ کھول دیا ہے جس کے ذریعے کلام صحیح ہوتا ہے، مقصود واضح ہوتا ہے اور وہم ختم ہوتے ہیں جیسا کہ فصلِ ثالث کے چھٹے ضابطہ میں آئے گا۔ (ت)


 (۱؎ شرح وقایۃ        کتاب الطہارت    رشیدیہ دہلی    ۱/ ۸۵        )

وفی الاصلاح والایضاح لابماء زال طبعہ وھو الرقۃ والسیلان بغلبۃ غیرہ اجزاء کماء الباقلا ۲؎ اھ۔ نعم الظاھر ممامر عن الذخیرۃ والتتمۃ عن المیدانی وتبعہ صدر الشریعۃ من قیاس ماتلون بوقوع الاوراق علی ماء الباقلی ان المراد مانقع فیہ فغیرہ وصفا لاذاتا وھو خلاف المعتمد۔


اور اصلاح اور ایضاح میں ہے کہ نہ اُس پانی سے کہ جس کی طبیعت زائل ہوگئی ہو یعنی رقّت اور سیلان، اور یہ دوسری اشیاء کے اجزاء کے غلبہ کی وجہ سے ہوا ہو جیسے باقلی (لوبیا) کا پانی اھ۔ ہاں ذخیرہ اور تتمہ کی گزشتہ عبارت جو میدانی سے منقول ہے اور جس کی متابعت صدرالشریعۃ نے کی ہے، جس پانی میں پتّے گرے ہوں اور اس کا رنگ بدل گیا ہو اس کو باقلی کے پانی پر قیاس کیا، اور کہا کہ اس سے مراد وہ پانی ہے جس میں کسی چیز کو صاف کیا گیا ہو، جس سے پانی کا وصف بدل گیا ہو نہ کہ ذات بدلی ہو، اور یہ معتمد کے خلاف ہے۔


 (۲؎ اصلاح والایضاح)


ففی الخانیۃ یجوز التوضؤ بما القی فیہ حمص اوباقلاء لیبتل وتغیر لونہ وطعمہ ولکن لم تذھب رقتہ ۱؎ اھ۔


خانیہ میں ہے کہ اس پانی سے وضو جائز ہے جس میں چنے ڈال دئے گئے ہوں یا باقلی(لوبیا) ڈال دیا ہو تاکہ تر ہوجائے اور اس سے اس کا رنگ اور مزا بدل گیا ہو لیکن اس کی رقت ختم نہ ہوئی ہو اھ۔


 (۱؎ قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی        نولکشور لکھنؤ        ۱ /۹)


وفی الفتح فی الینابیع لونقع الحمص والباقلاء وتغیر لونہ وطعمہ وریحہ یجوز التوضی بہ ۲؎ اھ۔ ومثلہ عنھا فی فتاوی الغزی ومثلہ فی المنیۃ وعزاہ فی الحلیۃ للملتقط وتجنیس الملتقط والظھیریۃ۔


اور فتح میں ہے ینابیع میں ہے کہ اگر چنوں اور باقلی کو پانی میں صاف کیا جس سے پانی کا رنگ، مزا اور بُو بدل گئی تو اُس سے وضو جائز ہے اور اسی کی مثل اس سے فتاوٰی غزی میں ہے اور اسی کی مثل منیہ میں ہے اور حلیہ میں اس کو ملتقط اور تجنیس ملتقط اور ظہیریہ کی طرف منسوب کیا۔ (ت)


 (۲؎ فتح القدیر    فیما لایجوزبہ التوضی        سکھر            ۱ /۶۵)


فائدہ: اقول یہاں سے ظاہر ہوا کہ گھوڑے کے دانے سے جو پانی تو بڑے میں بچ رہے قابلِ وضو ہے جبکہ رقیق سائل ہو اور اسے بے وضو ہاتھ نہ لگا ہو کہ مذہب(۱) صحیح میں گھوڑے کا جھوٹا قابلِ وضو ہے۔


درمختار میں ہے:وسؤر ماکول لحم ومنہ الفرس فی الاصح طاھر طھور بلاکراھۃ ۳؎۔ وہ جانور جن کا گوشت حلال ہے ان کا جھوٹا پاک ہے اور اس سے بلاکراہت طہارت حاصل ہوتی ہے اور گھوڑا بھی انہی میں سے ہے اصح قول کے مطابق۔ (ت)


 (۳؎ درمختار        فصل فی البئر        مجتبائی دہلی            ۱/ ۴۰)


 (۹۰) یہ ہوا اور 

(۹۱) گائے بھینس(۲) بکری وغیرہ حلال جانوروں کا جھُوٹا جبکہ اُس وقت اُن کے منہ کی نجاست نہ معلوم ہو اگرچہ نر ہو اور بعض(۳) نے کہا نر کا جھوٹا ناپاک ہے کہ اُس کی عادت ہوتی ہے کہ جب مادہ پیشاب کرے اپنا منہ وہاں لگا کر سُونگھتا ہے نیز زمین پر اگر اس کا پیشاب پڑا پائے تو اُسے مگر صحیح طہارت ہے۔


درمختار میں ہے : سؤر حمار اھلی ولو ذکرا فی الاصح مشکوک فی طھوریتہ لاطھارتہ ۱؎ ۔ پالتو گدھے کے جھُوٹے کی طہوریت مشکوک ہے طہارت مشکوک نہیں اصح قول کے مطابق۔ (ت)


 (۱؎ درمختار    فصل فی البئر    مجتبائی دہلی        ۱ /۴۰)


ردالمحتار میں ہے : قولہ فی الاصح قالہ قاضیخان ومقابلہ القول بنجاستہ لانہ ینجس فمہ بشم البول قال فی البدائع وھو غیر سدید لانہ امر موھوم لایغلب وجودہ فلا یؤثر فی ازالۃ الثابت بحر ۲؎ اھ


اس کا قول ''فی الاصح'' یہ قاضی خان کا قول ہے اور اس کے مقابل اس کی نجاست کا قول ہے اس لئے کہ اس کا منہ پیشاب کو سُونگھنے کی وجہ سے نجس ہوجاتا ہے، بدائع میں فرمایا یہ درست نہیں کیونکہ یہ بات محض وہم ہے، عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے تو جو ثابت ہے اس کے ازالہ میں موثر نہ ہوگا بحر اھ۔ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار    فصل فی البئر         مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۶۵)


اقول: ان کان(۱) المناط الندرۃ یظھر تنجیس سؤر التیس فان شمہ بول العنز انکان نادرا فانہ یتکرر منہ کل یوم مرارا انہ یدلی ذکرہ والمذی والبول نابعان فیمصہ بل الوجہ عندی واللہ تعالٰی اعلم ان الجفاف(۲) سبب الطھارۃ فی ابدان الحیوانات کما فی الارض وقد حققناہ بتوفیق اللّٰہ تعالٰی فی باب الانجاس من فتاوٰنا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں اگر مناط (علت) نادر ہونا ہے تو بکرے کے جھُوٹے کا نجس ہونا بھی ظاہر ہوگا، کیونکہ وہ بکری کے پیشاب کو تو کم ہی سُونگھتا ہے مگر یہ عمل دن میں کئی بار اس سے سرزد ہوتا ہے کہ وہ اپنا ذکر لٹکاتا ہے اور مذی اور پیشاب دونوں اس سے نکلتے ہیں، تو وہ بکرا اس ذکر کو چوستا ہے بلکہ اس کی وجہ میرے نزدیک (واللہ اعلم) یہ ہے کہ خشک ہونا حیوانات کے بدن میں سبب طہارت ہے جیسا کہ زمین کا حال ہے اور ہم نے بتوفیق اللہ اس کی تحقیق اپنے فتاوٰی کے باب الانجاس میں کی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

اقول: ہاں(۳) اگر دیکھیں کہ بیل وغیرہ نے مادہ کا پیشاب سُونگھا یا بکرے نے اپنا آلہ تناسل نکال کر چُوسا اور اُس وقت مذی اور بول نکل رہے تھے اور قبل اس کے کہ اس کا منہ پاک ہوجائے پانی میں ڈال دیا تو اب بیشک پانی ناپاک ہوجائےگا،اوراگرچاربرتنوں(۱) میں منہ ڈالا تو پہلے تین ناپاک ہیں چوتھا پاک وقابلِ وضو۔اسے نمبر۲۲ کے ساتھ لکھناتھامگر ارادہ الٰہیہ یونہی واقع ہوا ولہ الحمد علی ماصنع،وعلی مااعطی وعلی مامنع،وصلی اللہ تعالی وبارک وسلم علی الشفیع المشفع، واٰلہ وصحبہ وابنہ وجزبہ اجمع۔

(۹۲) پانی میں کولتارپڑ گیاجس سے اس میں سخت بدبُو آگئی مگر گاڑھا نہ ہوگیا اس سے وضو جائز ہے۔


فتاوٰی زینیہ میں ہے:سئل عن الماء المتغیر ریحہ بالقطران ھل یجوز الوضوء منہ ام لااجاب نعم یجوز ۱؎ اھ والقطران بالفتح وبالکسرکظربان عصارۃ الابھل والارز ۲؎ قاموس والارز ثمرالصنوبرقالہ ابو حنیفۃ ۳؎ تاج العروس ومثلہ فی بلادنا ماذکرت۔[


سوال کیا گیا کہ وہ پانی جس کی بُو کولتار کی وجہ سے متغیر ہوگئی ہو،کیا اس سے وضو جائز ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں ، اور قطران بالفتح اور بالکسر ظربان کی طرح ابھل اور ارز کا نچوڑ ہے قاموس، اور ارز صنوبر کے درخت کا پھل ہوتا ہے ،یہ ابو حنیفہ کا قول ہے تاج العروس۔ اس قسم کا ہمارے ملک میں ہوتا ہے جیسامیں نے ذکر کیا۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی زینیہ علی حاشیہ فتاوٰی غیاثیہ    کتاب الطہارۃ    مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ    ص۳)

(۲؎ قاموس المحیط        باب الراء فصل القاف    مصر        ۲/۱۳۲)

(۳؎ لسان العرب         بیروت                ۵/۳۰۶)


اقول : مگر بوجہ(۲) خبث رائحہ مکروہ ہونا چاہئے خصوصاً اگر اس کی بدبُو نماز میں باقی رہی کہ باعث کراہت تحریمی ہوگی۔

(۹۳) پانی میں روٹی بھگوئی اس کے تو اجزاء جلد منتشر ہوجاتے ہیں مگر جب تک پانی کو ستّو کی طرح گاڑھانہ کردیں رقیق وسیال رہے قابلِ وضو ہے اگرچہ رنگ، مزہ، بُو سب بدل جائیں

، خانیہ میں ہے: لوبل الخبز بالماء وبقی رقیقا جازبہ الوضوء ۴؎۔ اگر روٹی کو پانی میں بھگویا اور وہ پانی پتلا رہا تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۴؎ قاضی خان         فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ  ۱/۹)


 (۹۴) یونہی جس میں آم بھگوئے۔

(۹۵) اقول اسی طرح گوشت کا دھوون اگرچہ پانی میں ایک گونہ سُرخی آجائے کہ صحیح(۲) مذہب میں گوشت کا خون بھی پاک ہے نہ کہ وہ سُرخی کہ بعض جگہ اُس کی سطح پر ہوتی اور پانی میں دُھل جاتی ہے۔


ردالمحتار میں بزازیہ سے ہے:الدم الخارج من اللحم المھزول عند القطع ان منہ فطاھر وکذادم مطلق اللحم ۱؎۔ دبلے  گوشت سے نکلنے والا خون کاٹتے وقت، اگر اس سے نکلے تو پاک ہے اور اسی طرح مطلق گوشت کے خُون کا حکم ہے۔ (ت)


 (۱؎ بزازیہ مع الہندیہ    السابع فی النجس    پشاور    ۴/۲۱)


 (۹۶) صابون

(۹۷)اُشنان کہ ایک گھاس ہے اُسے حُرض بھی کہتے ہیں۔

(۹۸) ریحان جسے آس بھی کہتے ہیں۔

(۹۹) بابونہ

(۱۰۰) خطمی

(۱۰۱) بیری کے پتّے کہ یہ چیزیں میل کاٹنے اور زیادتِ نظافت کو آب غسل میں شامل کی جاتی ہیں اس سے غسل و وضو جائز ہے اگرچہ اوصاف میں تغیر آجائے جب تک رقّت باقی رہے مختصر امام ابو الحسن میں ہے:


یجوز الطھارۃ بماء خالطہ شیئ طاھر فغیر احد اوصافہ کماء المد والماء الذی اختلط بہ اللبن اوالزعفران اوالصابون اوالاشُنان ۲؎۔ اُس پانی سے طہارت جائز ہے جس میں کوئی پاک چیز مل کر اُس کے کسی وصف کو بدل دے جیسے سیلاب کا پانی اور وہ پانی جس میں دودھ، زعفران، صابون یا اُشنان ملی ہو۔ (ت)


 (۲؎ قدوری  الطہارت  مجیدی کانپور    ص۶)


اس پر جوہرہ نیرہ میں ہے:فان غیر وصفین فعلی اشارۃ الشیخ لایجوز الوضوء ولکن الصحیح انہ یجوز کذا فی المستصفی ۳؎۔ تو اگر وہ اس کے دو اوصاف کو بدل دے تو شیخ کے اشارہ کے مطابق اس سے وضو جائز نہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ جائز ہے کذا فی المستصفٰی۔ (ت)


 (۳؎ جوہرۃ نیرۃ            الطہارت  امدادیہ ملتان    ۱/۱۴)


حلیہ میں ہے: التقیید باحد الاوصاف الثلثۃ فیہ نظر فقد نقل الشیخ حافظ الدین فی المستصفی عن شیخہ العلامۃ الکردری ان الروایہ الصحیحۃ خلافہ ۱؎۔ تین میں سے ایک وصف کے ساتھ مقید کرنے میں نظر ہے،کیونکہ شیخ حافظ الدین نے مستصفٰی میں اپنے شیخ علّامہ کردری سے نقل کیا ہے کہ صحیح روایت اس کے برخلاف ہے۔ (ت)


 (۱؎حلیہ)


مجتبٰی شرح قدوری میں ہے: قول المصنف فغیراحد اوصافہ لایفیدالتقیید بہ حتی لوتغیرت الاوصاف الثلثۃ بالاشنان اوالصابون اوالزعفران ولم یسلب اسم الماء عنہ ولا معناہ فانہ یجوز التوضو بہ ۲؎۔


مصنف کا قول ''فغیراحد اوصافہ'' اس کے ساتھ تقیید مفید نہیں ہے یہاں تک کہ اگر تینوں اوصاف اُشنان، صابون یا زعفران سے بدل گئے اور اُس سے نہ تو پانی کا نام سلب ہوا اور نہ معنی سلب ہُوئے تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۲؎ البنایہ شرح ہدایہ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء        ملک سنٹر فیصل آباد    ۱/۱۸۹)


فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے:ماء صابون وحرض ان بقیت رقتہ ولطافتہ جازالتوضوء بہ ۳؎۔ صابون اور حرض (اُشنان جس سے کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے ہیں) کے پانی کی رِقّت ولطافت اگر باقی رہی تو اس سے وضو جائز ہے۔ (ت)


 (۳؎ فتاوٰی قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی        نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


(۱۰۲ تا ۱۰۷) یہی چھ چیزیں اگر پانی میں ڈال کر جوش دی جائیں جب بھی وضو جائز ہے جب تک رقت باقی ہے، 

ہدایہ میں ہے :


 ان تغیر بالطبخ بعد ماخلط بہ غیرہ لایجوز التوضی بہ الا اذاطبخ فیہ مایقصد بہ المبالغۃ فی النظافۃکالاشنان ونحوہ لان المیت قد یغسل بالماء الذی اغلی بالسدربذلک وردت السنۃ الا ان یغلب ذلک علی الماء فیصیر کالسویق المخلوط لزوال اسم الماء عنہ  ۱؎۔


اگر پانی دوسری چیز کی ملاوٹ کے بعد پکانے سے متغیر ہوگیا تو اس سے وضو جائز نہیں ،ہاں اگر اس میں ایسی چیز ڈال کر پکائی گئی جس سے نظافت میں زیادتی مطلوب ہو جیسے اُشنان وغیرہ کیونکہ مُردہ کو کبھی بیری (کے پتّے) ڈال کر اُبلے ہُوئے پانی سے غُسل دیا جاتا ہے،اور یہ حدیث میں بھی مذکور ہے،ہاں اگر اس قسم کی چیزیں پانی پر غالب آجائیں اور وہ پانی ستوؤں کی طرح ہوجائے تو وضو جائز نہیں کہ اب اس پر پانی کا اطلاق نہ ہوگا۔ (ت)


 (۱؎ الہدایہ        کتاب الطہارۃ    مکتبہ عربیہ کراچی    ۱/۱۸)

فتاوٰی شیخ الاسلام غزی میں ہے:ماء الصابون لو رقیقایسیل علی العضو یجوز الوضوء بہ وکذا لو اغلی بالاشنان وان ثخن لاکما فی البزازیہ ۲؎۔ صابون کا رقیق پانی جو اعضاء پر بہے اس سے وضو جائز ہے ، اسی طرح اگر پانی میں اُشنان ڈال کر جوش دیا گیا تو وضو جائز ہے اگر وہ گاڑھی ہوجائے تو وضو جائز نہیں کما فی البزازیہ۔ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی غزی )


خانیہ میں بعد عبارت مذکورہ آنفا ہے:وکذا لوطبخ بالماء مایقصد بہ المبالغۃ فی التنظیف کالسدر والحرض وان تغیر لونہ ولکن لم تذھب رقتہ یجوز وان صار ثخینا مثل السویق لا ۳؎۔


اور اسی طرح اگر پانی میں ایسی چیز کو جوش دیا گیا جس سے نظافت میں مبالغہ مقصود ہو، جیسے بیری (کے پتّے) اور حرض، خواہ اس کا رنگ بدل جائے لیکن اس کی رقت ختم نہ ہو تو اس سے وضو جائز ہے اور اگر ستوؤں کی طرح گاڑھی ہوجائے تو جائز نہیں۔ (ت)


 (۳؎ فتاوٰی قاضی خان    فیما لایجوز بہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/ ۹)


منیہ وغنیہ میں ہے:(ذکر فی المحیط لوتوضاء بماء اغلی باشنان اوباٰس جاز الوضوء بہ مالم یغلب علیہ) بان اخرجہ عن رقتہ ۴؎۔ (محیط میں ذکر کیا کہ اگر کسی نے ایسے پانی سے وضو کیا جس کو اُشنان یا آس (ایک درخت جو ریحان کے نام سے مشہور ہے) میں جوش دیا گیا تو اس سے وضو جائز ہے بشرطیکہ وہ پانی پر غالب نہ ہو کہ اس کو اس کی رقّت سے نکال دے۔ (ت)


 (۴؎ غنیہ المستملی    احکام المیاہ        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۱)


حلیہ میں ہے: فی الذخیرۃ وتتمۃ الفتاوی الصغری نقلاعن ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی اذا طبخ الاٰس اوالبا بونج فی الماء فان غلب علی الماء حتی یقال ماء البابونج والاٰس لایجوز التوضی بہ انتھی وعزی الی الاجناس بمانصہ قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی الماء الذی یطبخ فیہ الریحان اوالاشنان اذالم یتغیر لونہ حتی یحمربالاشنان اویسودبالریحان وکان الغالب علیہ الماء فلاباس بالوضوء بہ فمحمد یراعی لون الماء وابو یوسف غلبۃ الاجزاء ثم فی التتمۃ والذخیرۃ والحاصل من مذھب ابی یوسف ان کل ماء خلط بشیئ یناسب الماء فیما یقصد من استعمال الماء وھو التطھیرفالتوضی بہ جائزبشرط ان لایغلب ذلک المخلوط علی الماء حتی لاتزول بہ الصفۃ الاصلیہ وھی الرقۃ وذلک مثل الصابون اوالاشنان وانکان ذلک المخلوط لایناسب الماء فیما یقصد من استعمال الماء ففی بعض الروایات اشترط لمنع جواز التوضی غلبۃ ذلک الشیئ الماء وفی بعض الروایات لم یشترط ومحمد اعتبر فی جنس ھذہ المسألۃ غلبۃ المخلوط الماء لمنع جواز التوضی ولکن فی بعضھا اشار الی الغلبۃ من حیث اللون وفی بعضھا اشار الی الغلبۃ من حیث الاجزاء بحیث تسلب صفۃ الرقۃ من الماء ویبدلھا بضدھاوھی الثخونۃ انتھی ۱؎۔


ذخیرہ اور تتمہ فتاوٰی صغری میں ابو یوسف سے منقول ہے جب آس یا بابونہ کو پانی میں ابالا جائے اور وہ پانی پر غالب آجائے یہاں تک کہ بابونہ یا آس (ایک درخت جو ریحان کے نام سے مشہور ہے) کا پانی کہلانے لگے تو اس سے وضو جائز نہیں انتہٰی، اور اجناس کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ امام محمد نے اُس پانی کی بابت فرمایا جس میں ریحان (پھول) یا اُشنان کو جوش دیا گیا ہو اور اس کا رنگ تبدیل نہ ہوا ہو، یعنی نہ تو اُشنان کی وجہ سے سرخ ہواہو اور نہ ریحان کی وجہ سے سیاہ ہوا ہو، اور اس پر پانی ہی کا غلبہ ہو تو اس سے وضو کرنے میں حرج نہیں، تو امام محمد پانی کے رنگ کا اعتبار کرتے ہیں اور ابویوسف غلبہ اجزاء کا اعتبار کرتے ہیں، پھر تتمہ اور ذخیرہ میں ہے کہ ابو یوسف کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو پانی سے مناسبت رکھتی ہو اور پانی کے استعمال سے جو مقصود ہے اس کے مطابق ہو اگر وہ پانی میں مل جائے تو وہ مطہر ہے اس سے وضو جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ مخلوط شَے پانی پر غالب نہ ہو تاکہ پانی کی صفت اصلیہ یعنی رقّت زائل نہ ہو۔اس کی مثال صابون اور اُشنان ہے اور اگر یہ مخلوط پانی سے مناسبت نہ رکھتی ہو اور پانی کے استعمال سے جو مقصود ہے اس سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بعض روایات کے مطابق اس سے وضو کا عدمِ جواز اس شرط کے ساتھ مشروط ہوگاکہ یہ شیئ پانی پر غالب آجائے اور بعض روایات میں کوئی شرط نہیں،اور امام محمد اس طرح کے مسئلہ میں پانی پر مخلوط شیئ کے غلبہ کا اعتبار کرتے ہوئے اس سے وضو جائز قرار نہیں دیتے لیکن بعض روایات میں اس طرف اشارہ ہے کہ غلبہ سے مراد رنگ میں غلبہ ہے اور بعض میں اشارہ غلبہ من حیث الاجزاء مراد ہے کہ پانی کی صفت رقّت سلب ہوجائے اور اس کے بدلے میں گاڑھا پن اس میں پیدا ہوجائے انتہٰی۔ (ت)


 (۱؎ حلیہ)


نیز حلیہ میں ایک کلام بدائع نقل کرکے فرمایا: ذکرفیھاوفی التحفۃ ومحیط رضی الدین وفتاوٰی قاضی خان وغیرھااذا کان المخالط مما یطبخ الماء بہ اویخلط الزیادۃ التطھیرلایمنع التوضی بہ ولو تغیر لون الماء وطعمہ وذلک کالصابون والاشنان والسدر الا اذا صار غلیظابحیث لایجری علی العضو فانہ حینئذ لایجوز لانہ زال عنہ اسم الماء ۲؎ اھ۔


اس میں اور تحفہ اور محیط رضی الدین اور فتاوی قاضیخان وغیرہ میں ذکر کیا کہ پانی میں مخلوط شیئ اگر اس قسم کی ہے کہ اس کو پانی میں پکانے یا خلط کرنے سے مقصود تطہیر میں زیادتی ہوتی ہے تو اس سے وضو جائز ہے اگرچہ پانی کا رنگ اور مزہ تبدیل ہوگیاہو، جیسے صابن، اشنان اور بیری (کے پتّے)، ہاں اگر پانی اتنا گاڑھا ہوگیا کہ اس کا سیلان ختم ہوگیا اور وہ عضو پر بہنے کے لائق بھی نہ رہا، تو اس صورت میں اس سے وضو جائز نہیں، کیونکہ اب اس سے پانی کا نام ہی سلب ہوگیا ہے اھ۔ (ت)


 (۲؎ حلیہ)


اقول: واضفت الخطمی اخذا مما قالوہ فی الجنائز یغسل(۱) رأسہ ولحیتہ بالخطمی ان وجد والا فبالصابون ونحوہ ۳؎ تنویروفی التبیین اغتسل صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وغسل رأسہ بالخطمی وھو جنب واکتفی بہ ولم یصب علیہ الماء ۴؎۔


میں کہتا ہوں میں نے مذکورہ اشیاء میں خطمی کا اضافہ کیا ہے، یہ فقہاء کے اُن اقوال کی روشنی میں ہے جو انہوں نے جنائز میں ذکر کئے ہیں فرماتے ہیں میت کے سراور داڑھی کو خطمی سے دھویا جائے اگر میسر ہو، ورنہ صابن وغیرہ سے دھوئیں اور یہ تنویر میں ہے،اورتبیین میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور جنابت کی حالت میں اپنے سر کو خطمی سے دھویا اور اسی پر اکتفاء کیا اور اسی پر مزید پانی نہ بہایا۔ (ت)


 (۳؎ درمختار        صلوٰۃ الجنائز        مجتبائی دہلی    ۱/۱۲۰)

(۴؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت    بولاق مصر   ۱/۲۱)


 (۱۰۸ و ۱۰۹) اقول: دوا یا غذا پانی میں پکانے کو ڈالی اور آنچ کی مگر وہ شے ابھی کچی ہے اور پانی گاڑھا نہ ہوگیا تو اس سے وضو جائز ہے، لانہ لم یوجد الطبخ ولا زوال الطبع فلا الاسم قال ش عن القاموس(۱) الطبخ ھو الانضاج استواء(۱) اھ ۱؎ وقال فی الغنیہ القاعدۃ فی المخالطۃ بالطبخ ان ینضج المطبوخ فی الماء ۲؎۔ کیونکہ اس میں نہ تو پکانا پایاگیاہے اور نہ ہی طبیعۃ ماء زائل ہوئی تو اسم بھی زائل نہ ہوا، ''ش'' نے قاموس سے نقل کرتے ہوئے فرمایا طبخ کے معنی استواء پکانے کے ہیں اھ اور غنیہ میں فرمایا مخالطۃ بالطبخ میں قاعدہ یہ ہے کہ مطبوخ پانی میں پک جائے۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مصطفی البابی مصر            ۱ / ۱۴۵)

(۲؎ غنیہ المستملی    احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۱)


 (۱) سیاتی مافیہ فی الفصل الثالث بیان الطبخ۱۲ منہ غفرلہ۔  (م)اس میں ایک اعتراض ہے جو فصل ثالث میں طبخ کے بیان میں آئے گا۔ (ت)

(۱۱۰) اقول یونہی چائے دم کرنے کو گرم پانی میں ڈالی یا جوش ہی میں شریک کی اور جلد نکال لی کہ اثر نہ کرنے پائی اس قابل نہ ہوا کہ اُسے چائے کہہ سکیں اگرچہ ہلکی سے ہلکی، تو اُس سے بھی وضو میں حرج نہیں لبقاء الاسم والطبع وایضا عدم الانضاج والطبخ (کیونکہ پانی کا نام اور طبیعت باقی ہے اور پکنا پکانا بھی نہیں پایا گیا۔ (ت) یہاں پانی کی رنگت پر نظر ہوگی اور صورت سابقہ میں اُس کی رقّت اور شے جوشاندہ کی حالت پر۔

(۱۱۱ تا ۱۱۴) عرق گاؤ زبان یا اُترے ہوئے گلاب کیوڑا بیدمشک جن میں خوشبو نہ رہی اور اتنے ہلکے ہیں کہ کوئی مزہ بھی محسوس نہیں ہوتا پانی میں کسی قدر مل جائیں جب تک پانی سے مقدار میں کم ہوں گی مثلاً لبالب گھڑے میں وہی گھڑا گلے تک بھرا تو اُس سے وضو ہوسکتا ہے۔ بحرالرائق میں ہے:


ان کان مائعا موافقا للماء فی الاوصاف الثلثۃ کالماء الذی یؤخذ بالتقطیر من لسان الثور وماء الورد الذی انقطعت(۲) رائحتہ اذا اختلط بالمطلق فالعبرۃ للاجزاء فان کان الماء المطلق اکثر جاز الوضوء بالکل وان کان مغلوبالایجوز وان استویا لم یذکر فی ظاھر الروایہ وفی البدائع قالواحکمہ حکم الماء المغلوب احتیاطا ۱؎ اھ وعبارۃ الدرر والمستخرج من النبات بالتقطیر تعتبر فیہ الغلبۃ بالاجزاء ۲؎ اھ


اگر کوئی مائع پانی کے ساتھ اوصاف ثلٰثہ میں مطابقت رکھتا ہے اور رقیق ہے جیسے وہ پانی جو عمل تقطیر کے ذریعہ گاؤ زبان سے حاصل کیا جائے اور گلاب کا پانی جس کی خوشبُو جاتی رہی ہو جب وہ مطلق پانی کے ساتھ ملایا جائے تو اعتبار اجزاء کا ہوگا تو اگر مطلق پانی زیادہ ہو تو سب سے وضو جائز ہے اور اگر مغلوب ہو تو جائز نہیں اور اگر دونوں برابر ہوں تو ظاہر روایت میں اس کا حکم مذکور نہیں اور بدائع میں ہے کہ فقہاء  نے فرمایا کہ اس کا حکم بھی احتیاطاً وہی ہے جو مغلوب پانی کا ہے اھ اور درر میں ہے کہ جڑی بُوٹیوں کا پانی جو تقطیر سے نکالا جائے اس میں اجزاء کے غلبہ کا اعتبار ہوگا۔ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق        کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۶۹)(۲؎ درر علی الغرر    فرض الغسل        کاملیہ بیروت        ۱/۲۳)


 (۲) و زدت انقطاع الطعم لما ستعلم ان شاء اللّٰہ تعالی ۱۲ منہ غفرلہ (م)  اور میں نے انقطاعِ طعم کا اضافہ کیا ہے اس کی وجہ ان شاء اللہ تعالٰی آپ جان لیں گے۔ (ت)


اقول: واطلاقہ(۱) ینافی ضابطتہ التی تبع فیھا الامام الزیلعی فان من المستقطر مایخالف الماء فی وصف اووصفین اوالثلثۃ کما لایخفی۔ میں کہتا ہوں ان کا اس کو مطلق رکھنا ان کے اس ضابطہ کے منافی ہے جس میں انہوں نے امام زیلعی کی متابعت کی ہے، کیونکہ عمل تقطیر سے جو پانی حاصل ہوتا ہے وہ عام پانی سے ایک وصف یا دو یا تین میں مختلف ہوتا ہے کما لایخفی۔ (ت)


 (۱۱۵) یونہی ہر عرق کہ پانی سے رنگ ومزہ وبُو کسی میں ممتاز نہ ہو جیسے عطاروں کے یہاں کے اکثر عرق۔

ثم اقول کمی بیشی میں اعتبار مقدار کاہے اور ان میں بہت چیزیں پانی سے ہلکی ہوتی ہیں تو اگر وزن میں کمی لی جائے بارہا مقدار میں بیشی ہوجائے گی لہٰذا ہم نے لبالب گھڑے اور گلے تک بھرے سے تمثیل دی۔


وبہ ظھر(۲) مافی عبارۃ المنحۃ حیث فسر العبرۃ للاجزاء بقولہ ای القدر والوزن ۳؎ اھ وفی عبارۃ ابی السعود اذقال الغلبۃ من حیث الوزن ۴؎ وقد نص محمد(۳) ان الماء کیلی واجمع ائمتنا انہ لیس وزنیا وقال العینی ثم ابن الشلبی لوکان الماء رطلین والمستعمل رطلا فحکمہ حکم المطلق وبالعکس کالمقید ۱؎ اھ ولکن العجب(۱)من العلامۃ الشرنبلالی قال فی نور الایضاح وشرحہ الغلبۃ فی مائع لاوصف لہ یخالف الماء تکون بالوزن فان اختلط رطلان من المستعمل اوماء الورد الذی انقطعت رائحتہ برطل من الماء المطلق لایجوز بہ الوضوء وبعکسہ جاز اھ فذکر الوزن وعاد الی الکیل ۲؎۔


اور اسی سے وہ ظاہر ہوا جو منحہ کی عبارت میں ہے،جہاں انہوں نے اجزاء کی تعبیر مقدار اور وزن سے کی ہے، اور جو ابو السعود کی عبارت میں ہے اس لئے کہ غلبہ وزن کے اعتبار سے ہے اور امام محمد نے تصریح کی ہے کہ پانی کیلی چیز ہے اور ہمارے ائمہ کا اتفاق ہے کہ پانی وزنی چیز نہیں،اور عینی نیز ابن الشلبی نے فرمایاکہ اگر پانی دو رطل ہے اور مستعمل ایک رطل ہے تو اس کا حکم مطلق پانی کا ہے اور اگر بالعکس ہو تو اس کا حکم مقید کا سا ہے اھ لیکن علامہ شرنبلالی پر تعجب ہے انہوں نے نورالایضاح اور اس کی شرح میں فرمایا کہ سیال چیز جس کا کوئی وصف ایسا نہ ہو جو پانی کے مخالف ہو، تو غلبہ وزن کے اعتبار سے ہوگا تو اگر دو رطل مستعمل پانی یا گلاب کا پانی جس کی خوشبو ختم ہوچکی ہو ایک رطل مطلق پانی میں ملے گا تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو وضو جائز ہے اھ تو ذکر وزن کا کیا اور لوٹ کر کیل کی طرف آئے۔ (ت)


 (۳؎ منحۃ الخالق علی البحر    الطہارت        سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)

(۴؎ فتح المعین    الطہارت        سعید کمپنی کراچی              ۱/۶۴)

(۱؎ الشلبی علی التبیین  الطہارت     بو لاق      مصر                 ۱/ ۲۰)

(۲؎ مراقی الفلاح       الطہارت    ـ بو لاق      مصر     ص۱۷)


نوع آخر اس نوع میں وہ اشیاء مذکورہوں گی جن کی بعض صورتوں میں حکم منقول عـہ کتب کچھ ہے اورضابطہ امام زیلعی جس کا بیان بعونہٖ تعالٰی فصل چہارم میں آتا ہے اس کا مقتضٰی کچھ۔ ان اشیاء کی جس صورت میں حکم منقول مقتضائے ضابطہ جواز پر متفق ہیں وہ اس قسم اول میں مذکور ہوگی اور جس میں عدم جواز پر متفق ہیں وہ قسم دوم میں اور جہاں دونوں مختلف ہیں وہ صورتیں قسم سوم کیلئے ہیں۔ یہ اشیاء دو صنف ہیں:


عـہ تنبیہ ضروری: واضح ہو کہ مائے مقید میں ہمارے ائمہ مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہم سے منقول صرف دو قول ہیں:

اول قولِ امام ابو یوسف جنہوں نے تبدلِ اوصاف آب کا اعتبار ہی نہ فرمایا صرف غلبہ اجزاء اُن معانی پر کہ فصل ثالث میں بیان ہوں گے معتبر رکھا اور یہی صحیح ومعتمد ومختار جمہور ہے۔

دوم قولِ امام محمد جس میں تبدل اوصاف پر بھی لحاظ فرمایایہاں ہم کو ضابطہ امام زیلعی رحمہ اللہ تعالٰی پر کلام کرنامنظور ہے انہوں نے بھی لحاظِ اوصاف کیاہے تو قول امام ابی یوسف کا خلاف تو ابتدا ہی سے ہُوا قولِ امام محمد پر جو احکام کتب میں منقول ہیں اُن سے ضابطہ زیلعیہ کا موازنہ کرناہے کہ اتنی جگہ اس کے موافق پڑااور ان ان مواضع میں اس کے بھی خلاف رہا تو اقوالِ ائمہ مذہب سے یکسر خارج ہُواان مباحث میں اتفاق اختلاف سے یہی مراد ہے کہ مذہب امام محمد پر احکام منقولہ اور مقتضائے زیلعیہ کا توافق یا تخالف ورنہ اصل مذہب صحیح معتمد کہ مذہب امام ابو یوسف ہے وہ تو صور عدم جواز میں ان کے اتفاق سے بھی بعض جگہ خلاف پڑے گا جسے ہم آخر میں ذکر کریں گے ان شاء اللہ تعالٰی نیز ان نقول کے لانے میں بڑا فائدہ مذہب امام محمد پر اطلاع ہے کہ وہ بھی بجائے خود ایک باقوت قول ہے تو بنظرِ احتیاط اُس کا لحاظ مناسب وباللہ التوفیق ۱۲ منہ غفرلہ وحفظہ ربہ عزوجل (م)

صنف اوّل خشک چیزیں۔


(۱۱۶) پانی میں چھوہارے ڈالے اور ابھی تھوڑی دیر گزری کہ نبیذ نہ ہوگیا اگرچہ خفیف سی شیرینی اس میں آگئی اس سے بالاتفاق وضو جائز ہے کتاب المفید والمزید پھر عینی شرح صحیح بخاری وتبیین وحلیہ عـہ وہندیہ وغیرہا میں ہے:


الماء الذی القی فیہ تمیرات فصار حلوا ولم یزل عنہ اسم الماء وھو رقیق یجوز بہ الوضوء بلاخلاف بین اصحابنا ۱؎ اھ وہ پانی جو کھجوروں کے ڈالے جانے کی وجہ سے میٹھا ہوگیا مگر اس کو پانی ہی کہا جاتا ہو اور اس کی رقّت بھی زائل نہ ہوئی تو اُس سے وضو کے جواز میں ہمارے اصحاب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اھ (ت)


عـہ عزاہ للحلیہ فی الھندیہ ولم ارہ فیھا لافی التیمم ولا فی المیاہ فلعلہ ساقط من نسختی واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (م)

ہندیہ میں حلیہ کی طرف نسبت کی ہے اور مجھے اس میں یہ بات نہیں ملی نہ باب التیمم میں نہ باب المیاہ میں شاید یہ میرے نسخہ سے ساقط ہو واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    فیما لایجوزبہ التوضو     پشاور    ۱/۲۲)


اقول: امامافی البدائع لابد من معرفۃ نبیذ التمر الذی فیہ الخلاف وھو ان یلقی شیئ من التمر فی الماء فتخرج حلاوتہ الی الماء وھکذا ذکر ابن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی تفسیر نبیذ التمر الذی توضأ بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ الجن فقال تمیرات القیتھا فی الماء ۱؎ اھ فیحمل علی ما حلا و خرج عن الاطلاق کیف وفی صدر الحدیث عند ابن ابی شیبۃ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال لہ ھل معک من وضوء قال قلت لاقال فما فی اداوتک قلت نبیذ تمر قال تمرۃ حلوۃ وماء طیب ۲؎ فلولا انہ خرج من الاطلاق لما قال لا۔


میں کہتا ہوں بدائع میں ہے کہ وہ نبیذ تمر جس میں اختلاف ہے اس کی معرفۃ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کچھ کھجو ریں پانی میں ڈال دی جائیں تو ان کی مٹھاس پانی میں آجائے ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نبیذ تمر کی یہی تفسیر منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے لیلۃ الجن میں وضو فرمایا تھا، آپ نے فرمایا میں نے کچھ کھجوریں پانی میں ڈال دی تھیں اھ تو اس کو اس پانی پر محمول کیا جائے جس میں مٹھاس پیدا ہوگئی ہو اور مطلق پانی سے نکل گیا ہو، جیسا اس حدیث کی ابتداء میں بروایت ابن شیبہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیاکیا تمہارے پاس وضو کا پانی ہے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے توشہ دان میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا نبیذ تمر ہے۔آپ نے فرمایا یہ تو میٹھی کھجوریں اور پاک پانی ہے، تو اگر وہ پانی مطلق ہوتا تو آپ جواب میں نہ نہ فرماتے۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    الماء المقید        سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)

(۲؎ مصنف ابن ابی شیبۃ    وضو بالنبیذ        ادارۃ القرآن کراچی    ۱/۲۶)


اقول: وبھذا یضعف(۱) مااجاب بہ ابنا حجر فی شرحی البخاری والمشکوۃ انہ محمول علی ماء القیت فیہ تمرات یابسۃ لم تغیرلہ وصفا قال العسقلانی وانماکانوا یصنعون ذلک لان غالب میاھھم لم تکن حلوۃ ۳؎ اھ واستشعر المکی ان ھذا لایسمی نبیذا فقال وتسمیہ ابن مسعود لہ نبیذامن مجاز الاول زادا والمراد بہ الوضع اللغوی وھو ماینبذ فیہ شیئ وان لم یغیرہ ۴؎ اھ


میں کہتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ دو۲ شرحوں (شرح بخاری وشرح مشکوٰۃ) میں دو ابن حجر نے جو جواب دیا ہے وہ ضعیف ہے وہ جواب یہ ہے کہ ..... اس پانی سے مراد وہ پانی ہے جس میں خشک کھجوریں ڈال دی گئی ہوں جس نے پانی کا وصف نہ بدلا ہو،عسقلانی نے فرمایا اہلِ عرب ایسا اس لئے کرتے تھے کہ عام طور پر اُن کا پانی میٹھا نہیں ہوتا تھا اھ اور مکی نے فرمایا کہ اس کو نبیذ نہیں کہا جاتا ہے، اور فرمایا ابن مسعود نے اس کو مجازاً نبیذ کہا تھا اول نے مزید فرمایا کہ یا اس سے مراد اس کے لغوی وضعی معنی ہیں، یعنی وہ پانی جس میں کوئی چیز ڈال دی جائے خواہ وہ اس پانی کو متغیر نہ کرے اھ۔ (ت)


 (۳؎ فتح الباری        لایجوز الوضوء بالنبیذ    بیروت        ۱/۳۰۵)

(۴؎ شرح مشکوٰۃ لملّا علی قاری باب احکام المیاہ    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/۶۰)


اقول: وکل(۱) ھذا کما تری خروج عن الظاھرغیران ملک العلماء قال بعدماقدمناعنہ لان من عادۃ العرب انھاتطرح التمر فی الماء الملح لیحلو ۱؎ اھ۔ میں کہتا ہوں یہ تمام تاویلات ظاہر کے برخلاف ہیں، تاہم ملک العلماء نے اس تمام گفتگو کے بعد جو ہم نے اوپر ذکر کی،فرمایا:عرب کی عادت تھی کہ وہ کھاری پانی میں کھجوریں ڈالتے تھے تاکہ پانی میٹھا ہوجائے۔(ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)


اقول: فھذا(۲)میل الی ماقالاہ ولا اراہ یستقیم اذلوکان کذا لبقی علی مائتیہ وکان مطلقا فجاز بہ الوضوء مطلقا وقد قال الشیخ الامام فی اٰخر الکلام الجواز فی نبیذ التمر ثبت معدولابہ عن القیاس لان القیاس یابی الجوازالا بالماء المطلق وھذا لیس بماء مطلق بدلیل انہ لایجوز التوضو بہ مع القدرۃ علی الماء المطلق الاانا عرفناالجواز بالنص ۲؎ اھ ولذا احتجناالی الجواب عن الحدیث بانہ منسوخ باٰیۃ التیمم ونو زع ولذامال الاتقانی الی قول محمد(۳) انہ یجمع بینھما لیقع الطھر بالیقین۔ اقول وھو حسن جدا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں یہ جواب بھی اُن دو حضرات کے قول کی طرف میلان ہے،مگر میرے نزدیک یہ جواب درست نہیں،کیونکہ اگر یہی بات ہوتی تو پانی کا نام باقی رہتا اور مطلق رہتااور اس سے مطلقا وضو جائز ہوتا۔ شیخ نے آخر میں فرمایا نبیذ تمر سے وضو کا جواز قیاس کے برخلاف ثابت ہے،کیونکہ قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ وضو صرف مطلق پانی سے ہی جائز ہو،اور یہ مطلق پانی نہیں ہے،اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ماء مطلق پر قدرت ہوتے ہوئے اُس سے وضو جائز نہیں، لیکن اس کاجواز ازروئے نص ثابت ہے اھ اس لئے ہمیں ضرورت ہوئی کہ ہم حدیث کا جواب دیں،اور جواب یہ ہے کہ یہ آیت تیمم سے منسوخ ہے، اور اس لئے اتقانی امام محمد کے قول کی طرف مائل ہوئے کہ وضو اور تیمم دونوں کو جمع کیا جائے تاکہ طہارت بالیقین حاصل ہوجائے۔ (ت) میں کہتا ہوں یہ جواب بہت اچھا ہے واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)


 (۲؎ بدائع الصنائع    الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)


 (۱۱۷) اقول: یہاں سے ظاہر ہوا کہ اگر پانی میں شکّر یا بتاشے اتنے کم پڑے کہ شربت کی حد تک نہ پہنچا اگرچہ ایک ہلکی سی مٹھاس آگئی تو اُس سے وضو روا ہے۔ 

(۱۱۸) اقول: یوں ہی دوا پانی میں بھگوئی جب تک پانی میں اُس کا اثر نہ آجائے کہ اب ۱ سے دوا کہیں پانی نہ کہیں اُس وقت تک اُس سے وضو جائز ہے اگرچہ پانی کے اوصاف بدل جائیں وکفی شاھدا علیہ مسألۃ الاوراق فی الحیاض (اس پر دلیل حوضوں میں پتّوں کا مسئلہ کافی ہے۔ ت)

(۱۱۹) کسم

(۱۲۰) کیسر

(۱۲۱) کسیس

(۱۲۲) مازو

یہ چیزیں اگر پانی میں اتنی کم حل ہُوئیں کہ پانی رنگنے یالکھنے حرف کا نقش بننے کے قابل نہ ہوگیا تو اُس سے بالاتفاق وضو جائز ہے۔


وذلک ان العبارات جاء ت فیھاعلی اربعۃ مسالک الاوّل یجوز مطلقامالم تغلب علی الماء بالاجزاء قال فی الھدایہ قال الشافعی رحمہ اللّٰہ تعالٰی لایجوز التوضی بماء الزعفران واشباھہ ممالیس من جنس الارض لانہ ماء مقید الا تری انہ یقال ماء الزعفران بخلاف اجزاء الارض لان الماء لایخلوعنھا عادۃ ولناان اسم الماء باق علی الاطلاق الا تری انہ لم یتجدد لہ اسم علیحدۃ واضافتہ الی الزعفران کاضافتہ الی البئر والعین ولان الخلط القلیل لامعتبر بہ لعدم امکان الاحترازعنہ کما فی اجزاء الارض فیعتبر الغالب والغلبۃ بالاجزاء لابتغیر اللون ھو الصحیح ۱؎ اھ


پہلا مسلک: وضو مطلقا جائز ہے تاوقتیکہ اُس کے اجزاء پانی پر غالب نہ ہوجائیں، ہدایہ میں ہے امام شافعی نے فرمایازعفران اور اسی کی مثل دوسری اشیاء کے پانی سے وضو جائز نہیں یعنی وہ اشیاء جو زمین کی جنس سے نہیں،کیونکہ یہ مقید پانی ہے۔اس لئے کہتے ہیں زعفران کا پانی، اور زمین کے اجزاء کا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ پانی عام طور پر ان اجزاء سے خالی نہیں ہوتا ہے اور ہماری دلیل یہ ہے کہ پانی کا نام علی الاطلاق باقی ہے کیونکہ اس کا کوئی نیا نام نہیں ہے،اور اس کی اضافت زعفران کی طرف ایسی ہے جیسے پانی کی اضافت کُنوئیں اور چشمے کی طرف ہوتی ہے اور تھوڑی ملاوٹ کا کوئی اعتبار نہیں کہ اُس سے بچنا ممکن نہیں، جیسا کہ زمین کے اجزاء میں ہوتا ہے، تو غالب کا اعتبار ہوگا اور غلبہ باعتبار اجزاء ہوتا ہے نہ کہ رنگ کے بدلنے سے،یہی صحیح ہے اھ


 (۱؎ ہدایہ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالا یجوزبہ        مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


وفی الانقرویہ یجوزالتوضی بماء الزعفران عندناوعند الشافعی لایجوز ۱؎ اھ وفی الظھیریہ ثم البحر وفی الخانیہ اذا طرح الزاج فی الماء حتی اسود (زاد فی الخانیہ لکن لم تذھب رقتہ) جاز بہ الوضو ۲؎ اھ ومثل الخانیہ فی المنیہ عن الملتقط وزاد وکذا العفص اھ قال فی الغنیہ عـہ جازمع تغیر لونہ وطعمہ وریحہ ۳؎ اھ


 (خانیہ میں یہ اضافہ بھی یہ ہے مگر اس کی رقت زائل نہ ہوئی) تو اس سے وضو جائز ہے اھ ۔اور فتاوٰی انقرویہ میں ہے کہ ہمارے نزدیک زعفران کے پانی سے وضو جائز ہے اور امام شافعی کے نزدیک جائز نہیں اھ،ظہیریہ، بحر اور خانیہ میں ہے کہ جب زردج پانی میں ڈالا گیا خانیہ میں یہ اضافہ بھی ہے مگر اسکی  رقت زائل نہ ہو ئی ) وضو جائز ہے اھ  اور خانیہ کی طرح منیہ میں ملتقط سے منقول ہے اس میں عفص کا اضافہ بھی ہے اھ غنیہ میں ہے اس کے مزے بُو اور رنگ کے بدل جانے کے باوجود وضو جائز ہے اھ


عـہ وفی صغیرہ القلیل من الزعفران یغیر الاوصاف الثلثۃ مع کونہ رقیقا فیجوز الوضوء والغسل بہ ۱۲ منہ(م)

اور اس کی شرح صغیر میں ہے کہ تھوڑی زعفران پانی کے تینوں اوصاف کو بدل دے مگر پانی رقیق ہو تو اس سے وضو اور غسل جائز ہے ۱۲ منہ (ت)


 (۱؎ رسائل الارکان بالمعنی        فصل فی المیاہ    مطبع علوی        ص۲۴)

(۲؎ بحرالرائق            کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)

(۳؂غنیہ المستملی        احکام المیاہ        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


وفی الخانیہ لابماء ورد وزعفران اذاذھبت رقتہ وصار ثخیناوان بقیت رقتہ ولطافتہ جاز ۴؎ اھ اور خانیہ میں ہے نہ کہ گلاب اور زعفران کے پانی سے جبکہ اس کی رقّت ختم ہوجائے اور گاڑھا ہوجائے، اور اگر اس کی رقّت ولطافت باقی رہے تو اُس سے وضو جائز ہے اھ


 (۴؎ فتاوٰی خانیہ المعروف قاضی خان    فصل فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ    ۱/۱۹)


وفی جواھر الاخلاطی اذاخالط شیئ من الطاھرات ولم یطبخ کالزعفران والزردج یجوز التوضی بہ ۵؎ اھ ای وقید بقاء الرقۃ معلوم لاحاجۃ الی ابانتہ وفی مسکین علی الکنز لایجوز بما غلب علیہ غیر الماء مثل الزعفران اجزاء وھواحتراز عن الغلبۃ لونا وھو قول محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی ۱؎ اھ


 (۵؎ جواہر الاخلاطی)

(۱؎ فتح المعین        کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۶۳)


جواہر اخلاطی میں ہے کہ جب کوئی پاک شیئ پانی میں مل جائے اور اس کوپکایا نہ گیا ہو جیسے زعفران اور زردج، تو اس سے وضو جائز ہے اور رقت کے بقاء کی قید سب کو معلوم ہے لہٰذا اظہار کی طرف کوئی محتاجی نہیں اورمسکین علی الکنز میں ہے کہ جب پانی پر کسی دوسری شے کا غلبہ ہوجائے تو اس سے وضو جائز نہیں جیسے زعفران جبکہ یہ غلبہ اجزاء کے اعتبار سے ہو،اور اجزاء کی قید سے لون (رنگ) اس سے خارج ہوگیا اور یہ امام محمد رحمہ اللہ کا قول ہے اھ


وفی وجیز الکردری ماء الزردج والصابون والعصفر والسیل لورقیقایسیل علی العضو یجوز التوضی بہ ۲؎ اھ بل فی الغرر یجوز وان غیر اوصافہ جامد کزعفران وورق فی الاصح ۳؎


اور وجیز کردری میں ہے کہ زردج، صابون، عصفر اور سیلاب کا پانی اگر رقیق ہو اور یہ پانی عضو پر بہہ سکتا ہو تو اس سے وضو جائز ہے اھ بلکہ غرر میں ہے کہ اگرچہ کوئی جامد چیز اس کے اوصاف کو بدل دے تو بھی وضو جائز ہے جیسے زعفران اور پتّے،اصح قول کے مطابق۔


 (۲؎ فتاوٰی بزازیہ    علی الہندیہ        نوع المستعمل والمقید والمطلق    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/۱۰)

(۳؎ الغرر متن الدرر    کتاب الطہارۃ    مطبعۃ کاملیہ        بیروت    ۱/۲۱)


وفی نورالایضاح لایضر تغیراوصافہ کلھابجامع کزعفران ۴؎ اھ فھذہ نصوص متظافرۃ اماما فی الخانیہ التوضو بماء الزعفران وزردج العصفر یجوز انکان رقیقاوالماء غالب فان غلبتہ الحمرۃ وصار متماسکالایجوز ۵؎ اھ۔


اورنور الایضاح میں ہے کہ کسی جامد چیز کا پانی کے اوصاف کو متغیر کردینا مضر نہیں، جیسے زعفران اھ تو یہ نصوص ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، اور جو خانیہ میں ہے کہ زعفران، زردج، عصفر کے پانی سے وضو جائز ہے بشرطیکہ رقیق ہو اور پانی کا غلبہ ہو پس اگر اس پر سرخی غالب ہوجائے اور گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں اھ (ت)


 (۴؎ نور الایضاح    کتاب الطہارت    مطبعۃ علمیہ لاہور        ص۳)

(۵؎ فتاوٰی قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی    مطبعۃ نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


فاقول: اولہ صریح فی اعتبارالرقۃ وفی اٰخرہ وان ذکرالحمرۃ فقد تدارکہ بقولہ وصار متماسکا فلم یکتف بغلبۃ اللون مالم یثخن ثم اکدہ بان قال متصلا بہ اما عند ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی تعتبر الغلبۃ من حیث الاجزاء لامن حیث اللون ھو الصحیح ۱؎ اھ ومثل ھذا مافی الخلاصۃ رجل توضأ بماء الزردج اوالعصفر اوالصابون انکان رقیقایستبین الماء منہ یجوزوان غلبت علیہ الحمرۃ وصار نشاستج لایجوز ۲؎ ھ فصرح بالبناء علی الثخونۃ وبقی ذکرالحمرۃ فی الکتابین کالمستدرک عـہ۔


میں کہتا ہوں اس کی ابتداء رقت کے اعتبار میں صریح ہے اور اس کے آخر میں اگرچہ سرخی کا ذکر ہے لیکن اس کا تدارک اس لفظ سے کر دیاکہ وہ گاڑھا ہوجائے، تو جب تک گاڑھا نہ ہو رنگ کے غلبہ کا اعتبار نہیں پھر اس کی تائید میں متصلاً فرمایا کہ ابو یوسف کے نزدیک اجزاء کے اعتبار سے غلبہ معتبر ہے رنگ کے اعتبار سے نہیں،یہی صحیح ہے اھ اور اسی کی مثل خلاصہ میں ہے کہ کسی شخص نے زردج، عصفریاصابن کے پانی سے وضو کیا،اگر وہ رقیق ہو جس سے پانی واضح ہوتا ہو تو وضو جائز ہے اور اگر اس پر سُرخی غالب ہوگئی ہو اور نشاستہ بن گیا ہو تو وضو جائز نہیں اھ تو اس میں اس کی تصریح ہے کہ دارومدار گاڑھے پن پر ہے اوردونوں کتابوں میں سرخی کا ذکر مستدرک کی طرح ہے۔ (ت)


عـہ ستأتی فائدۃ لہ اٰخرالضابطۃ السادسۃ من الفصل الثالث ولذا قال کالمستدرک ای فی النظر الظاھر ۱۲ منہ غفرلہ (م)

تیسری فصل کے چھٹے ضابطہ کے آخر میں اس کے لئے ایک فائدہ بیان کیاہے اس لئے فرمایا کالمستدرک یعنی نظر ظاہر میں ۱۲ منہ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی    مطبع نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)

(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی    بیان الماء المقید        مطبع نولکشور لکھنؤ ۱/۸)


الثانی لایجوزمطلقافی شرح الطحاوی ثم خزانۃ المفتین المقید مثل ماء الاشجاروالثمار وماء الزعفران ۳؎ اھ وفی المنیہ لاتجوز بالماء المقید کماء الزعفران ۴؎ اھ قال فی الحلیہ محمول علی مااذا کان الزعفران غالبا ۵؎ اھ


دُوسرا مسلک:مطلقاً جائز نہیں، شرح طحاوی اور خزانۃ المفتین میں ہے مقید جس طرح درخت،اور پھلوں کاپانی اور زعفران کاپانی اھ اور منیہ میں ہے کہ مقید پانی سے وضو جائز نہیں جیسے زعفران کاپانی اھ حلیہ میں کہا کہ یہ اُس صورت پر محمول ہے جبکہ زعفران غالب ہو اھ۔(ت)


 (۳؎ خزانۃ المفتین)

(۴؎ منیہ المصلی    فصل فی المیاہ    مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۶۳)

(۵؎ حلیہ)


اقول:  ھذا مبھم یحتمل الغلبۃ بالاجزاء وباللون وافصح فی الغنیہ فقال المرادماخثربہ وخرج عن الرقۃ اومایستخرج منہ رطباکما یستخرج من الورد ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں یہ مبہم ہے اس میں اجزاء کے اعتبار سے بھی غلبہ کااحتمال ہے اور رنگ کے اعتبار سے بھی ہے،اور غنیہ میں وضاحت ہے، فرمایااس سے مراد وہ پانی ہے جو گاڑھا ہوگیاہو اور رقّت ختم ہوگئی ہو، یا وہ ہے جو اس سے تر نکلتا ہو جیسا کہ گلاب سے نکلتا ہے اھ (ت)


 (۱؎ غنیہ المستملی     فصل احکام المیاہ    مطبع سہیل اکیڈمی لاہور        ص۸۹ )


اقول: فعلی الثانی یخرج من البین وعلی الاول یرجع الی الاول وھوالذی نص علیہ فی المنیہ نفسھامن بعداذقال تجوزالطھارۃ بالماء الذی اختلط بہ الزعفران بشرط ان تکون الغلبۃ للماء من حیث الاجزاء ولم یزل عنہ اسم الماء ۲؎ اھ۔


میں کہتا ہوں تو دوسری صورت میں یہ اختلافی صورت سے الگ ہوجائیگا،اور پہلی صورت میں پہلی کی طرف رجوع کرے گا یہ وہ ہے جس پر منیہ میں صراحت ہے،انہوں نے کہا کہ اس پانی سے وضو جائز ہے جس میں زعفران ملائی گئی ہو بشرطیکہ اجزاء کے اعتبارسے پانی کو غلبہ ہو،اور پانی کا اطلاق اس پر ہوتا ہو۔ (ت)


 (۲؎ منیہ المصلی    فصل فی المیاہ        مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۶۳)


 (عـہ) فی الارکان الاربعۃ للمولی بحرالعلوم اللکنوی لایجوزالتوضی بماء الزعفران والعصفر والزردج اذا کان بحیث یلون البدن اوالثوب لانہ ذھب اسم الماء ح حقیقۃ وامااذاصار بلیدافلیس ماء مطلقاولا ماء مقیدافلا یطلق علیہ الماء لاحقیقۃ ولا مجازا اھ

بحرالعلوم کی ارکان اربعہ میں ہے زعفران، عصفر اور زردج کے پانی کے ساتھ وضو جائز نہیں جبکہ وہ بدن یا کپڑے کو رنگ دے کیونکہ اب حقیقۃً پانی کانام اس سے ختم ہوگیا اور جب وہ گاڑھا ہوجائے تو نہ مطلق پانی ہے اور نہ مقید پانی ہے اور اس پر نہ تو پانی کا حقیقۃً اطلاق ہوتا ہے اور نہ مجازاً اھ

الثالث یجوز(عـہ) مالم یصلح للصبغ والنقش فی الفتح والحلیہ صرح فی التجنیس بان من التفریع علی اعتبار الغلبۃ بالاجزاء قول الجرجانی اذاطرح الزاج اوالعفص فی الماء جاز الوضوء بہ انکان لاینقش اذاکتب فان نقش لایجوز والماء ھو المغلوب ۱؎اھ ومثلہ فی الھندیہ عن البحر عن التجنیس من قولہ اذاطرح الی قولہ لایجوز وفی القنیہ ثم معراج الدرایہ ثم البحر ثم الدر ثم فتح اللّٰہ المعین الزعفران اذاوقع فی الماء ان امکن الصبغ فیہ فلیس بماء مطلق ۲؎ اھ


تیسرا مسلک :اس سے وضو جائز ہے جو رنگنے اور نقش کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، یہ فتح اور حلیہ میں ہے، تجنیس میں ہے کہ تفریع باعتبار غلبہ اجزاء کے، جرجانی کا قول ہے جب زاج یا عفص پانی میں ڈالا جائے تو اس سے وضو جائز ہے،یہ اس وقت ہے کہ جب اس کے ذریعہ لکھنے سے نقش نہ آتاہو اگر نقش آئے تو جائز نہیں،جبکہ پانی مغلوب ہو اھ،اور اسی کی مثل ہندیہ میں بحر سے تجنیس سے ہے،ان کے قول اذاطرح سے لایجوز تک اور قنیہ، معراج، بحر، در پھر فتح اللہ المعین میں ہے کہ اگر زعفران پانی میں پڑ جائے تو اگر اس سے رنگنا ممکن ہو تو وہ مطلق پانی نہیں ہے اھ


اقول: فیہ(۱) اوّلا ان ماصلح منہ للصبغ لم یتبدل ذاتا فی الحقیقۃ انما تغیر وصف لہ فھوماء حقیقۃ نعم لم یبق ماء مطلقا الا ان یرید الحقیقۃ العرفیہ المفھومۃ عند الاطلاق۔


میں کہتا ہوں اوّلاً اگر پانی رنگنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پانی ذات کے اعتبار سے حقیقۃ نہیں بدلا، صرف اس کا وصف بدلا ہے، تو وہ حقیقۃً پانی ہے صرف مطلق پانی نہیں رہا،ہاں اگر حقیقۃ عرفیہ کاارادہ کیا جائے جو اطلاق کے وقت سمجھی جاتی ہے تو اور بات ہے۔


وثانیا(۱) سیغصل عنہ الثخین بانہ لیس ماء مطلقا ولا مقیدافقدافادان ھذا ماء مقید فکیف لایکون ماء حقیقۃ فان المطلق والمقید صنفان من الماء ۔


ثانیا گاڑھا ہونے سے وہ نہ مطلق پانی رہا اور نہ مقید، تو انہوں نے بتایا کہ یہ مقید پانی ہے، اس صورت میں وہ حقیقۃً پانی کیوں نہ ہوگا کیونکہ مطلق اور مقید دونوں ہی پانی کی اقسام ہیں۔


وثالثا(۲) الثخین وان لم یبق ماء اصلاعلی ماافادہ فی الفتح فلامانع من اطلاق الماء مجازاباعتبار ماکان۔


ثالثاً گاڑھا اگرچہ فتح کے بقول پانی نہ رہا تو باعتبار ماکان مجازاً اس پر پانی کے اطلاق میں کوئی مانع نہیں۔


و رابعا(۳)الحکم المنقول فی ماء الزردج ماقدمنا فی ۸۱ من ان العبرۃ بالرقۃ ولم ارماوقع ھھنا لغیرہ ویظھرلی ان لامحل لہ لانہ لیس مما یصبغ بہ کما تقدم ثمہ وکونہ مما یلون الثوب ان اصابہ لایجعلہ نوعااٰخرغیرالماء مادام رقیقااذالانواع عندنا بالاغراض الا تری ان التمروالزبیب اذاالقیافی الماء یغیران لونہ وطعمہ قبل ان یصیرانبیذاویجوز الوضوء بہ بالاجماع کمامر فی ۱۱۶ مع انھما لواصاباثوبا ابیض لوناہ وذلک لان المقصودھھنا النبیذدون الصبغ فلا یزول الاسم الا بحصول المقصود علیہ الرحمۃ۔ اربع(۱، ۲، ۳، ۴) معروضات علی المولی بحرالعلوم عبدالعلی الکنوی۔


رابعا وہ حکم جو زردج کے پانی کی بابت منقول ہے جو ہم نے ۸۱ میں نقل کیا کہ اعتبار رقّت کا ہے اور میں نے دوسروں کا بیان نہیں دیکھا اور مجھے لگتا ہے کہ اس کا یہاں محل نہیں،کیونکہ اس سے رنگا نہیں جاتا ہے جیسا کہ وہاں گزرا اور اس کے کپڑے کو رنگنے سے اگر کپڑے کو لگ جائے اس کا ایک مستقل نوع بنانا لازم نہیں آتا جب تک وہ رقیق ہے دوسری نوع نہیں بنے گا کیونکہ ہمارے نزدیک انواع اغراض سے وجود میں آتی ہیں،مثلاً کھجور اور منقٰی جب پانی میں ڈالے جائیں تو وہ اس کے رنگ اور مزے کو بدل دیتے ہیں،اور ابھی وہ نبیذ نہیں بنا ہوتا ہے،اور اس سے وضو بالاجماع جائز ہوتا ہے جیسا کہ ۱۱۶ میں گزراحالانکہ اگر یہ دونوں چیزیں سفید کپڑے کو لگ جائیں تو اس کا رنگ بدل دیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مقصود نبیذ ہے نہ کہ رنگ، تو اس کا نام اس وقت تک نہ بدلے گا جب تک مقصود حاصل نہ ہو۔یہ چارمعروضات بحرالعلوم پر ہیں۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر        باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالا یجوزبہ    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)

(۲؎ دُرمختار        کتاب الطہارت        مجتبائی دہلی        ۱/۳۵)


الرابع یجوزمالم یغلب لونھالون الماء فی الشلبیہ عن یحیی عن الامام القاضی الاسبیجابی الماء ان اختلط بہ طاھرفان غیرلونہ فالعبرۃلللون فان کان الغالب لون الماء جازالوضوء بہ والا فلاوذلک مثل اللبن والخل والزعفران یختلط بالماء ۳؎ اھ ومثلہ فی خزانۃ المفتین والبرجندی۔


چوتھا مسلک: وضو جائز ہے جب تک اس کا رنگ پانی کے رنگ پر غالب نہ ہو، شلبیہ میں یحیٰی سے امام قاضی اسبیجابی سے منقول ہے کہ پانی میں اگر کوئی پاک چیز مل جائے اور اس کے رنگ کو بدل دے تو اعتبار رنگ کا ہوگا اگر پانی کا رنگ غالب ہو تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں، مثلاً دودھ، سرکہ اور زعفران پانی میں مل جائے اھ اسی کی مثل خزانۃ المفتین اور برجندی میں ہے۔ (ت)


 (۳؎ شلبی علی التبیین الحقائق    کتاب الطہارت        الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۰)


اقول: قدمنا۱۱۶ اجماع اصحابنارضی اللّٰہ تعالٰی عنھم علی جوازالوضوء بماء القی فیہ تمیرات فحلاولم یصرنبیذاومعلوم قطعاان اللون اسبق تغیرافیہ من الطعم فاستقرالاجماع علی ان تغیر اللون و الطعم بجامد لایضر مالم یزل الاسم فیجب حمل ھذاالرابع وکذاالثانی علی الثالث ثم قد انعقد الاجماع والاطباق٭من جمیع الخداق٭بغیرخلف وشقاق٭ان زول الاسم یسلب الاطلاق٭ کیف وانما عین الشرع للوضوء الماء٭ وھذا اذا زال الاسم لیس بماء٭ فھذا الشرط ملحوظ ابدابلا امتراء٭ وانکان یطوی ذکرہ٭للعلم بالعلم بہ اذشاع امرہ٭ فیجب حمل(۱)الاول ایضاعلی الثالث فیزول الشقاق٭ ویحصل الوفاق٭ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں ہم نے ۱۱۶ میں اپنے اصحاب کا اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس پانی سے وضو جائز ہے جس میں کھجوریں ڈالی گئی ہوں تو نبیذ بننے سے پہلے پہلے اس میں مٹھاس آجائے اور یہ قطعی معلوم ہے کہ رنگ مزہ کے متغیر ہونے سے پہلے بدل جاتا ہے تو اجماع اس پر قائم ہے کہ رنگ اورمزے کاکسی جامد سے بدلنا اس وقت تک مضر نہیں جب تک کہ نام نہ بدل جائے تو اس چوتھے اور دوسرے کاتیسرے پر حمل کرنا لازم ہے ۔پھر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جب نام زائل ہوجائے تو اطلاق باقی نہیں رہتا کیونکہ شریعت نے وضو کیلئے پانی کو متعین کر رکھا ہے اور جب نام زائل ہوگیا تو پانی نہ رہا یہ شرط اگرچہ مذکور نہ ہو معتبر رہے گی، تو پہلے کو بھی تیسرے پر حمل کرنا لازم ہے، اس طر ح یہ مسئلہ متفقہ ہوجائے گا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱) ولکن(۱) العجب من العلامۃ الخادمی اذرد الثالث بالاول حیث قال عند قول الغررالماریجوزوان غیر اوصافہ جامدکزعفران فی الاصح مانصہ قیل عن البحران امکن الصبغ بہ لم یجز کنبیذ التمر لکن الظاھر انہ علی الروایہ المشار الی نفیھابقولہ فی الاصح اذھذا القول اشارۃ الی نفی ماعن الفقیہ احمد بن ابرھیم انہ لوظھرلون المخالط فی الکف لایجوز اھ فقدعلمت انہ لامساس لہ بنفی الثالث بل یجب ردہ الی ھذا نعم نفی قول الفقیہ صحیح وجیہ لان ظھور لون الاوراق فی الکف فی ماء الحوض لایزیل عنہ اسم الماء بخلاف الزعفران اذاجعلہ صالحاللصبغ ثم من(۲)العجب کلام الفقیہ انما کان فی الاوراق وبدلہ الفاضل الناقل بالمخالط فعم الزعفران واللّٰہ المستعان ثم العجب(۱)کل العجب ان الفاضل نفسہ زاد بعد قول الغرر ان بقی رقتہ لفظۃ واسمہ ایضا اھ فقدکان یعلم ان الرقۃ لاتنفع اذازال الاسم فکیف یجعل القول الثالث مبنیاعلی الروایہ المنفیہ ۱۲ منہ غفرلہ (م)


لیکن علامہ خادمی پر تعجب ہے کہ انہوں نے پہلے سے تیسرے کا رد کیا ہے۔ جہاں انہوں نے غرر کے گزشتہ قول ''وان غیر اوصافہ جامد الخ'' کے تحت فرمایا کہ بحر سے منقول ہے اگر وہ رنگنے کے قابل ہو تو جائز نہیں، جیسے نبیذ تمر سے، لیکن ظاہر میں روایت مشار پر اس کی نفی ہے اس کے قول فی الاصح سے،کیونکہ یہ قول اشارہ ہے اس کی نفی پر جو فقیہ احمد بن ابراہیم سے منقول ہے کہ اگر ملنے والی چیز کا رنگ ہتھیلی میں ظاہر ہو تو اس پانی سے وضو جائز نہیں اھ آپ جانتے ہیں کہ تیسرے کی نفی سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی طرف اس کا رَد واجب ہے۔ ہاں فقیہ کے قول کی نفی درست ہے،کیونکہ حوض سے پانی لینے میں ہتھیلی پر پتّوں کے رنگ کے ظہور سے پانی کا نام زائل نہیں ہوتا۔ زعفران کا حکم اس کے برخلاف ہے جبکہ وہ پانی کو رنگنے کے قابل کردے۔پھر تعجب ہے کہ فقیہ کاکلام تو پتّوں سے متعلق تھا اور فاضل ناقل نے اسے مخالط سے بدل دیاہے تو اس نے زعفران کو شامل کرلیا ہے واللہ المستعان، پھر بڑا تعجب ہے کہ خود فاضل نے غرر کے قول ''وان بقی رقتہ'' کے بعد ایک لفظ ''واسمہ ایضا اھ'' کا اضافہ کیا ہے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ پانی کے نام کے زوال کے بعد رقت کا کوئی فائدہ نہیں تو قولِ ثالث کو روایت منفیہ پر مبنی کس طرح کیا جائے گا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

(۱۲۳) اقول: یونہی رنگت کی پُڑیاں کہ اب چلی ہیں اورہماری تحقیق میں ان کی طہارت پر فتوٰی ہے جب پانی میں اتنی خفیف ملیں کہ رنگنے کے قابل نہ ہوجائے اگرچہ رنگت بدل جائے۔


(۱۲۴) یونہی روشنائی جبکہ اس کے ملنے سے پانی لکھنے کے لائق نہ ہوجائے اقول یعنی اُس سے حرف کا نقش نہ بنے جو بعد خشکی پڑھنے میں آئے اگرچہ پھیکا ہو۔


صنف دوم بہتی چیزیں۔


 (۱۲۵ و ۱۲۶) جس پانی میں زعفران حل کیا ہواپانی یاشہاب اتنا کم پڑے کہ ان پانیوں کی رنگت اُس سادہ پانی پر غالب نہ آئے اُس سے وضو بالاتفاق جائز ہے۔


قال الامام ملک العلماء فی البدائع الماء المطلق اذاخالطہ شیئ من المائعات الطاھرۃ کاللبن والخل ونقیع الزبیب ونحو ذلک ینظر انکان یخالف لونہ لون الماء کاللبن وماء العصفر والزعفران تعتبر الغلبۃ فی اللون ۱؎ اھ وفی الحلیہ نقل فخر الدین الزیلعی عن الاسبیجابی ونجم الدین (عـہ) الزاھدی عن زادالفقھاء قالواانکان المخالط شیالونہ یخالف لون الماء مثل اللبن والخل وماء الزعفران انکانت الغلبۃ للون الماء یجوز التوضی بہ وانکان مغلوبالایجوز ۲؎ اھ


ملک العلماء نے بدائع میں فرمایا ''مطلق پانی میں جب کوئی سیال پاک چیز مل جائے جیسے دودھ، سرکہ، منقٰی کا عرق وغیرہ تو یہ دیکھا جائیگا کہ اس کا رنگ پانی کے رنگ سے مختلف ہے یا نہیں، مثلاً دودھ،عُصفریا زعفران کا پانی،اگر ایساہے تو پانی میں رنگت کے غلبہ کااعتبارہوگااھ اورحلیہ میں ہے فخرالدین زیلعی نے اسبیجابی سے اور نجم الدین زاہدی نے زاد الفقہاء سے نقل کیا،ان حضرات نے فرمایا کہ اگر ملنے والی اشیاء کا رنگ پانی کے رنگ سے مختلف ہو جیسے دودھ، سرکہ اور زعفران کا پانی، اور ایسی صورت میں غلبہ پانی کے رنگ کو ہو تو وضو جائز ہے اور اگر پانی کا رنگ مغلوب ہو تو وضو جائز نہیں۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المطلق    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵    )

(۲؎ حلیہ)


 (عـہ) بالرفع عطفا علی فخرالدین ۱۲ منہ غفرلہ (م)رفع کے ساتھ کیونکہ اس کا فخرالدین پر عطف ہے (ت)


اقول:  ولا شک ان ھذا الماء یخالف الماء المطلق فی الاوصاف الثلثۃ فعلی ضابطۃ الامام الزیلعی یعتبر تغیر وصفین فکان یحتمل ان تقتضی الضابطۃ خلاف ھذاالحکم المنقول فیمااذا غلب علی المطلق طعمہ وریحہ دون لونہ لکنہ غیر معقول لان اللون اقوی اوصافہ واسرع اثرا فان تغیر شیئ من اوصاف الماء تغبرلونہ قبلہ وان لم یتغیر شیئ فلم یحصل فی جانب الجواز خلاف۔


میں کہتا ہوں اس میں شک نہیں کہ یہ پانی مطلق پانی سے تینوں اوصاف میں مختلف ہوگا تو امام زیلعی کے ضابطہ کے مطابق اس میں دو۲ و صفوں کے تغیر کا اعتبار ہوگا،اس میں یہ احتمال تھا کہ اس ضابطہ کی رُو سے مذکور حکم کے برخلاف حکم اس صورت میں ہوتاجبکہ مطلق پانی پر مزہ اور بُو کا غلبہ ہواہو نہ کہ رنگ کا۔ مگر یہ بات معقول نہیں ہے کیونکہ رنگ پانی کے اوصاف میں قوی تر اور زُود اثر ہے تو اگر پانی کے اوصاف میں سے کوئی وصف بدلتا تو سب سے پہلے تو رنگ ہی بدلتا،اور رنگ نہیں بدلا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی وصف نہیں بدلا، تو جواز کی صورت میں کوئی اختلاف نہ رہا۔(ت)

(۱۲۷) یوں ہی پُڑیا حل کیا ہوا پانی پانی میں ملنے سے اس کی رنگت غالب نہ آئے تو وضو روا ہے۔


اقول لانہ انکان ذاریح فکماء الزعفران والعصفر اولا فذو وصفین ولا یتغیرالطعم مالم یتغیر اللون فلا یحصل الخلاف۔ میں کہتا ہوں اس لئے اگر وہ چیز خوشبودار ہو تو جیسے زعفران اور عُصفر کا پانی ہے یا نہ ہو تو دو وصف والی ہوگی،اور مزہ اس وقت نہ بدلے گا جب تک رنگ نہ بدلے تو اختلاف نہ ہوا۔(ت)

(۱۲۸) آبِ تربوز جسے تربوز کا شربت کہتے ہیں جس میٹھے پانی میں اتناملے کہ اس کا مزہ پانی پر غالب نہ ہوجائے اس سے بالاتفاق وضو ہوسکتا ہے۔تبیین الحقائق وفتح القدیر وحلیہ وغنیہ ودرر وبحر وغیرہا میں ہے:


ماء البطیخ تعتبرالغلبۃ فیہ بالطعم ۱؎ اھ اقول ویظھر لی تقییدہ بالماء العذب کما فعلت فان الماء الملح ربماتبلغ ملوحتہ بحیث لوخلط بہ ماء الحبحب اکثر من نصفہ لم یغلب علی طعمہ بل کانت حلاوۃ ھذا ھی المغلوبۃ فاعتبار الطعم ھھنا تضییق یؤدی الی توسیع خارج عن القوانین بمرۃ فلیتنبہ۔


آبِ خربوزہ میں مزہ کے غلبہ کا اعتبار ہوگااھ اقول اور اس کو میٹھے پانی سے مقید کرنا ضروری ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے کیونکہ کھارے پانی کی نمکینی بعض اوقات اس درجہ زیادہ ہوتی ہے کہ اگر اس میں تربوز کا پانی آدھے سے بھی زیادہ ملا دیا جائے تو اس کا مزہ نہیں بدلتا ہے،بلکہ اس کی مٹھاس مغلوب ہوجاتی ہے، تو یہاں مزہ کا اعتبار کرنا بڑی تنگی ہے،اس سے معاملہ بہت پھیل جائے گاجو شرعی قوانین کے بالکل مخالف ہے فلیتنبہ۔(ت)


 (۱؎ بحرالرائق        کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)


اقول: وھو وانکان ذاالاوصاف الثلثۃ۔کما سیاتی لکن طعمہ اقوی فاذالم یتغیر لم یتغیر شیئ فلا یحصل الخلاف فی جانب الجواز واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں وہ پانی اگر تین اوصاف والا ہو (جیسا کہ آئے گا) لیکن اس کا مزہ قوی تر ہو، تو جب مزہ نہ بدلا توکوئی وصف نہیں بدلے گا تو جواز کی جانب میں کوئی خلاف نہ ہوگا،واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

(۱۲۹) یوں ہی سپید انگور کاشیرہ اگر شیریں پانی میں ملے مزہ کااعتبارہے اگر اُس کامزہ غالب نہ ہوا قابلِ وضو ہے،


بدائع میں ہے: انکان لایخالف الماء فی اللون ویخالفہ فی الطعم کعصیر العنب الابیض وخلہ تعتبر الغلبۃ فی الطعم ۲؎ اھ اقول وقیدتہ بالعذب لما علمت وحصول الوفاق لما سمعت۔


اگر وہ پانی کے رنگ میں مخالف نہ ہو مگر مزہ میں مخالف ہو جیسے شیرہ انگور سفید اور سفید انگور کا سرکہ تو مزہ میں غلبہ کا اعتبار ہوگا اھ میں کہتا ہوں میں نے میٹھے کی قید اس لئے لگائی کہ آپ جان چکے ہیں اور اتفاق کا حاصل ہوجانا بھی آپ کو معلوم ہے۔(ت)


 (۲؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)

 (۱۳۰) سپید انگور کا سرکہ اگراُس کا مزہ اور بُو پانی پر کچھ غالب نہ آئے اُس سے وضو بالاتفاق جائز ہے،


اقول لانہ ذووصفین وریحہ اقوی فان تغیر ریح الماء دون طعمہ لم یجز علی قضیہ الضابطۃ خلافا للحکم المنقول المار اٰنفا عن البدائع فلم یحصل الوفاق فی جانب الجواز الا اذالم یتغیر شیئ۔


میں کہتا ہوں اس لئے کہ اس میں دو وصف ہیں، اور اس کی بُو قوی تر ہے تو اگر پانی کی بُو بدل گئی مزہ نہ بدلا تو ضابطہ کی رُو سے وضو جائز نہ ہوگا لیکن بدائع کے حوالے سے جو حکم ابھی گزراہے یہ اُس کے برخلاف ہے توجوازکی جانب میں اتفاق حاصل نہ ہوا،یہ صرف اس صورت میں ہوگاجبکہ کوئی وصف نہ بدلے۔(ت)

(۱۳۱) اور سرکے کہ رنگت بھی رکھتے ہیں اگرپانی میں اتنے ملیں کہ اُن کاکوئی وصف پانی پر غالب نہ آئے یاصرف بُو غالب آئے اُس سے بالاتفاق وضو جائز ہے۔


اقول: وذلک لانھاذوات الثلاث ومعلوم ان ریح الخل اقوی شیئ فلا یقع ان یتغیرطعم الماء وحدہ اولونہ فقط اوھمامعالاریحہ بل امالایتغیر(۱)شیئ او(۲)یتغیرالکل او(۳)الریح وحدہ او(۴) مع اللون او(۵)مع الطعم والعبرۃ فی الضابطۃ للغلبۃ بوصفین والمنقول الغلبۃ باللون وحدہ کمامر عن حلیہ عن الزیلعی عن الاسبیجابی وعن النجم الزاھدی عن زاد الفقھاء وتقدم عن الامام ملک العلماء فیتفق المنقول والضابطۃ فی الصورۃ الاولی والثالثۃ علی الجواز وفی الثانیہ والرابعۃ علی المنع وفی الخامسۃ تتفرد الضابطۃ بالمنع۔


میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تین وصف والے ہیں اوریہ معلوم ہے کہ سر کہ کی بُو قوی تر شیئ ہے تو یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ صرف پانی کا مزہ بدلے یا رنگ بدلے یادونوں بدل جائیں اور بُو نہ بدلے،بلکہ یا تو کچھ نہیں بدلے گا یا سب کچھ بدل جائے گایاصرف بُو بدلے گی یا رنگ کے ساتھ یا مزہ کے ساتھ اور ضابطہ میں اعتبار غلبہ کو ہے دو وصفوں کے ساتھ،اور جو منقول ہے وہ صرف رنگ کا غلبہ ہے جیسا کہ حلیہ سے زیلعی سے اسبیجابی سے اور نجم زاہدی سے زاد الفقہا سے گزرا،اور امام ملک العلماء سے بھی یہی منقول ہواہے اس لئے نقل اور ضابطہ میں اتفاق ہوگیا، پہلی صورت اور تیسری میں اتفاق جواز پر ہے اور دوسری اورچوتھی میں عدمِ جواز پر اور پانچویں صورت میں ضابطہ کی رُو سے عدمِ جواز ہے۔ (ت)

(۱۳۲) اقول: اگر کوئی ذی لون سرکہ ایساہو کہ اُس کامزہ اس کے سب اوصاف سے اقوی ہو کہ اس کا قلیل سب سے پہلے پانی کے مزے کو بدلے اُس سے زاید ملے تو بُویا رنگ میں تغیر آئے اس صورت میں اگر پانی کا کوئی وصف نہ بدلے یا صرف مزہ متغیر ہو تو اس سے وضو بالاتفاق جائز ہے لعدم غلبۃ اللون فی المنقول ولا تغیروصفین فی الضابطۃ  (کیونکہ رنگ کا غلبہ نہیں ہے منقول میں اور دو وصفوں کا تغیر نہیں ہے ضابطہ میں۔ ت)

(۱۳۳) اقول اور اگر بالفرض اس کی رنگت سب سے قوی تر اور پہلے اثر کرنے والی ہو تو اس کے ملنے سے وضو بالاتفاق اُسی وقت جائز ہوگاکہ اس کے کسی وصف میں تغیر نہ آئے لان ای وصف منہ تغیر تغیرلونہ وبہ العبرۃ فی المنقول  (کیونکہ اس کا جو وصف بھی بدلے گا اس کا رنگ بھی بدل جائے گا اور منقول میں اسی کا اعتبار ہے۔ ت)

(۱۳۴) دُودھ سے اگر پانی کا رنگ نہ بدلادُودھ کا رنگ اس پر غالب نہ ہوگیااس سے وضو بالاتفاق روا ہے۔

اقول: یہ ہے وہ حکم متفق علیہ کہ فقیر نے کلمات کثیرہ مختلفہ سے حاصل کیاوذلک لان الاقوال جاء ت ھھنا علی خمسۃ وجوہ (یہاں پانچ اقوال ہیں)

(ا) یجوز مطلقا،        (ا) مطلق جواز ہے،


اقول: ای مالم یغلب علی الماء اجزاء فانہ معلوم الاستثناء اجماعا۔ میں کہتا ہوں اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک پانی پر اس کے اجزاء کا غلبہ نہ ہو،کیونکہ یہ اجماعی طور پر معلوم الاستثناء ہے۔


 (ب) یجوز ان غیر احد اوصافہ وستعرف ان العلماء اختلفوا فی اخذ احد ھذا فی مرتبۃ لابشرط شیئ فیشمل مااذاغیر غیر واحد ولو الکل وحینئذ یرجع الی القول الاول اوفی مرتبۃ بشرط لاشیئ فیتقید بما اذا اقتصر التغیر علی وصف واحد ولولونا۔


 (ب) جائز ہے اگر اس کے اوصاف میں سے کسی ایک کو بدلا ہو، اور یہ عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ علماء نے اس کو لابشرط شیئ کے مرتبہ میں قبول کرنے سے اختلاف کیاہے تو یہ اس صورت پر بھی صادق آئے گا جب پانی کا ایک سے زاید وصف بدل گیاہو خواہ سب اوصاف ہی بدل گئے ہوں اوراس وقت پہلے قول کی طرف رجوع کرنا ہوگا یا یہ بشرط لاشیئ کے مرتبہ میں ہو تو یہ صرف اسی صورت میں منحصر رہیگا جبکہ تغیر ایک ہی وصف میں ہو خواہ رنگ ہی بدلا ہو۔


 (ج) یجوز ان لم یغیر اللون۔


 (ج)جائز ہے اگر رنگ کو نہ بدلا ہو ۔


 (ع) ان لم یغیر اللون ولا الطعم۔


 (ع) اگر نہ رنگ بدلا ہو اور نہ مزہ۔


 (ھ) ان لم یغیرھما معا ففی عمدۃالقاری شرح صحیح البخاری للامام البدرمحمود التوضو بماء خالطہ لبن یجوزعندناخلافا للشافعی ۱؎ اھ وفی متن الھدایہ تجوزالطھارۃ بماء خالطہ شیئ طاھر فغیراحداوصافہ کالماء الذی اختلط بہ اللبن ۲؎ اھ واقرہ فی العنایہ وغیرھاوسمعت نصوص الحلیہ عمن ذکرواوالبدائع ان العبرۃ باللون وقال فی التبیین المخالط ان کان مخالفاللماء فی وصف واحداووصفین تعتبر الغلبۃ من ذلک الوجہ کاللبن مثلا یخالفہ فی اللون والطعم فان کان لون اللبن اوطعمہ ھوالغالب فیہ لم یجز الوضوء بہ والاجاز ۳؎ اھ


 (ھ)اگر رنگ اور مزہ دونوں کو اکٹھا نہ بدلاہو، امام بدر محمودکی عمدۃ القاری شرح بخاری میں ہے کہ ہمارے نزدیک اُس پانی سے وضو جائز ہے جس میں دودھ مل گیا ہو اس میں شافعی کا اختلاف ہے اھ اور متن ہدایہ میں ہے اُس پانی سے طہارت جائز ہے جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو اور اُس نے پانی کے کسی ایک وصف کو بدل دیا ہو جیسے وہ پانی جس میں دودھ مل گیا ہو اھ اور اس کو عنایہ وغیرہ میں برقرار رکھا، حلیہ اور بدائع کی تصریحات گزر چکی ہیں کہ اعتبار رنگ کا ہے،اور تبیین میں ہے کہ ملنے والی چیز اگر پانی سے ایک یا دو اوصاف میں مختلف ہو تو اسی وجہ سے غلبہ کااعتبار ہوگا، مثلاً دُودھ پانی سے رنگ اور مزہ میں مختلف ہے تو اگر دودھ کا رنگ یامزہ اس میں غالب ہو تو اس سے وضو جائز نہ ہوگا، ورنہ جائز ہوگا اھ (ت)


 (۱؎ عمدۃ القاری    باب لایجوز الوضوء بالنبیذ        ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر    ۳/۱۷۹)

(۲؎ ہدایہ        باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوز    مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)

نوٹ: اللبن کی جگہ پر کتاب مذکور میں الزعفران ہے۔

(۳؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت        الامیریہ مصر        ۱/۲۰)


وھکذا عبربہ تبعالہ فی الحلیہ والبحر وغیرھما بلفظۃ اوللتردیدواتی بہ فی الغنیہ قاطعا لوھم خطأالکتابۃ فقال وان خالف الماء فی وصفین کاللبن یخالفہ فی اللون والطعم فالمعتبر ظھور غلبۃ احد الوصفین ۴؎ بل افصح بہ کذلک الزیلعی فی اٰخر الکلام لکن المحقق(۵) فی الفتح مع نقلہ عن التبیین عبربالواوفقال اوفی بعضھا فبغلبۃ مابہ الخلاف کاللبن یخالف فی الطعم واللون فان غلب لونہ وطعمہ منع والاجاز ۱؎ وکذلک فی الدرر واعترضہ الشرنبلالی فقال یجب ان یقال لونہ اوطعمہ باولابالواو کما قال الزیلعی المقتحم لھذا الضابط ۲؎ اھ واجاب العلامۃ عبدالحلیم بانہ فی اللبن صفتان یغایر بھما الماء المطلق احدھما اقوی من الاخری لماان تغیر اللون یحصل فیہ بالقلیل فکان الغلبۃ ان توجد الاخری وذا کالبدیھی ومن ذلک لم یقل اوطعمہ باوکمافی عبارۃ الزیلعی ردا علیہ ۳؎ اھ


اور اسی طرح انہوں نے اس کی تعبیر کی ان کی اتباع کرتے ہوئے حلیہ اور بحر وغیرہ میں اوکے کلمہ کے ساتھ جو تردید کے لئے ہوتاہے اور غنیہ میں اس کو اس انداز سے ذکر کیا کہ کتابت کی غلطی کا وہم نہ رہے چنانچہ فرمایا اور اگر وہ چیز پانی سے دو وصفوں میں مخالف ہو جیسے دودھ کہ پانی سے رنگ اور مزہ میں مختلف ہوتا ہے تو اعتبار ایک وصف کے غلبہ کے ظہور کا ہوگا،بلکہ اسی طرح اس کی وضاحت زیلعی نے کلام کے آخر میں کر دی، لیکن محقق نے فتح القدیر میں تبیین سے نقل کرتے ہوئے واؤ سے تعبیر کیا اور کہا یا بعض میں اختلاف ہو تواس صورت میں اس چیزکے غلبے کااعتبار ہوگا جس کی وجہ سے اختلاف ہے جیسے دودھ کہ پانی سے مزہ اور رنگ میں مخالف ہوتاہے تو اگر اس کا رنگ اور مزہ غالب ہوجائے تو اس سے طہارت نہیں ہوسکتی ہے ورنہ جائز ہے،اس طرح درر میں ہے،اس پر شرنبلالی نے اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ لونہ اوطعمہ کہنا چاہئے اَو کے ساتھ،واؤ کا استعمال نہ کرنا چاہئے، جیسا کہ زیلعی نے کہا جو اس ضابطہ کے تکلف میں پڑنے والے ہیں، علامہ عبدالحلیم نے جواب دیا کہ دودھ میں دو صفات ہیں جن کی وجہ سے وہ مطلق پانی سے ممتازہوتا ہے،ایک صفت دوسری سے قوی تر ہے،کیونکہ اس میں رنگ کا تغیر تھوڑی سی مقدار سے ہی حاصل ہوجاتاہے تو غلبہ یہ ہوگا کہ دوسری صفت پائی جائے اوریہ بدیہی کی طرح ہے اور اس لئے ''اوطعمہ''نہ کہا ''اَو'' کے ساتھ، جیسے کہ زیلعی میں ہے تاکہ اس پر رَد ہوجائے اھ۔ (ت)


 (۴؎غنیۃ المستملی     فصل فی بیان احکام الماء     مطبع سہیل اکیڈمی لاہور     ۹۱)

(۱؎ فتح القدیر         باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء مالایجوز بہ     نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)

(۲؎ حاشیہ علی الدرر للشرنبلالی    ابحاث الماء            المطبعۃ الکاملیہ بیروت    ۱/۲۳)

(۳؎ حاشیہ علی الدرر للمولی عبدالحلیم            بحث الماء        ۱/۱۸)


اقول: اولا(۱) ان ارادالقلیل بالنسبۃ الی الماء فنعم ولکن لانظرھھناالی الاجزاء باجماع اھل الضابطۃ التی صاحب الدرر ھھنابصددبیانھاوانماالعبرۃ بھافیمایوافق الماء فی الاوصاف وقد(۲) مشی علیہ الدرر ھھنافجعلہ حکم مالایخالف الماء فی صفۃ وجعل اللبن قسیمہ لاسھیمہ وان ارادالقلیل فی نفسہ فھو ھھناالمغلوب المستھلک الذی لایظھرلہ اثر بین واللبن اذااحال الماء الی لونہ کیف یعد قلیلا۔


میں کہتا ہوں اول اگر تو وہ اسکو بہ نسبت پانی کے قلیل کہتے ہیں،تودرست ہے، لیکن اہل ضابطہ کے اجماع سے یہاں اجزاء پر نظر نہیں کی جاتی ہے،اس ضابطہ سے مراد وہ ضابطہ ہے جس کو صاحبِ درریہاں بیان کر رہے ہیں ان اجزاء کا اعتبار اُن اوصاف میں ہے جو پانی کے موافق ہوں اوصاف میں،اور درر نے یہاں ان کو بیان کیا ہے، تو انہوں نے اس کو اس چیز کا حکم قرار دیاجو پانی کے مخالف نہ ہو کسی صفت میں اور دودھ کو اس کا قسیم قرار دیا نہ کہ اس کا سہیم،اور اگر فی نفسہ کم کا ارادہ کیا تو وہ یہاں نہ ہونے کے برابر ہے جس کاکوئی واضح اثرظاہر نہیں ہوتا ہے جس کا کوئی واضح اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے،اور جب پانی دودھ کا رنگ اختیار کرے تو دودھ کو کس طرح کم کہا جاسکتا ہے؟(ت)


وثانیا ھذا ھو(۱) قضیہ القیاس فی الضابط لان ماخالف الماء فی الاوصاف الثلثۃ اعتبر فیہ الغلبۃ بوصفین لان للاکثر حکم الکل وما خالف فی وصف واحد اعتبر فیہ الغلبۃ بہ بقی ماخالف فی وصفین فان غلب بھما معا فلا کلام وان غلب باحدھما کان الغلبۃ بالنصب والنصف احق ان یلحق بالکل من ان یطرح بالکلیہ ھذا ولکن الحق عندی فی اللبن علی الضابط المذکور ان تعتبر فیہ الغلبۃ بوصفین اثنین لابوصف واحد لان(۲) اللبن مما یخالف الماء فی الاوصاف الثلثۃ جمیعا ولخفاء رائحتہ غالبا ولواغلی لظھرت ذھب الوھم الی انہ لایخالف الا فی وصفین وقد قال العلامۃ الرملی فی حاشیہ البحر ثم الشامی فی المنحۃ وردالمحتار المشاھد فی اللبن مخالفتہ للماء فی الرائحۃ ایضا ۱؎ اھ


اور دوم یہ ہے کہ یہ ضابطہ میں قیاس کا تقاضا ہے، کیونکہ جو چیز پانی کے اوصافِ ثلثہ میں پانی سے مختلف ہے اس میں معتبر دو صفوں کا غلبہ ہے، کیونکہ اکثر کیلئے کل کا حکم ہے اور جو چیز پانی سے ایک وصف میں مختلف ہو اس میں ایک وصف کا غلبہ معتبر ہوگا، اب صرف وہ چیز رہ گئی جو دو صفوں میں پانی کے مخالف ہو اگر دونوں وصفوں میں پانی کے مخالف ہو اگر دونوں وصفوں میں اکٹھا غلبہ ہوجائے تب تو بات واضح ہے اور ایک میں غلبہ ہو تو غلبہ آدھے سے ہوگا اور نصف اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو کل سے ملایا جائے نہ یہ کہ اس کو بالکلیہ ساقط کیا جائے، اس کو یاد رکھئے۔ لیکن میرے نزدیک حق، اس ضابطہ کے مطابق یہ ہے کہ اس میں دو وصفوں کے غلبہ کا اعتبار کیا جائے نہ کہ ایک وصف کا، کیونکہ دُودھ پانی سے تینوں وصفوں میں مخالف ہوتا ہے، چونکہ اس کی بُو بہت ہلکی ہوتی ہے ابالنے پر ظاہر ہوتی ہے اس لئے یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ صرف دو وصفوں میں مخالف ہوتا ہے، علامہ رملی نے بحر کے حاشیہ میں فرمایا، شامی نے منحۃ میں اور ردالمحتار میں فرمایا کہ دُودھ پانی سے بُو میں بھی مخالف ہے اھ (ت)


 (۱؎ منحۃ الخالق علی البحر    کتاب الطہارۃ    سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)

اقول: غیران اقوی اوصاف اللبن لونہ ثم طعمہ ثم ریحہ ولا یتغیر بہ فی الماء وصف لاحق الا وقد سبقہ سابقہ فاذا تغیر شیئ منھا فقد تغیر اللون واذا لم یتغیر اللون لم یتغیر شیئ منھا فاتفقت الاقوال علی جواز الوضوء بماء خالطہ لبن لم یتغیر لونہ وبہ ظھر ان تردیر(۱) الامام الزیلعی مستغنی عنہ فان تغیر الطعم مستلزم تغیر اللون فکان ینبغی الاقتصار علی اللون کما فعل المتقدمون وقد نقلہ الزیلعی عن الاسبیجابی کما علمت واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں دراصل دُودھ کے اوصاف میں قوی تر اس کا رنگ ہے پھر مزہ اور پھر بُو ہے اور اس سے پانی کا جو وصفِ لاحق بھی متغیر ہوتا ہے اس سے قبل کوئی سابقہ ضرور ہوتا ہے، تو جب ان اوصاف میں کوئی تغیر ہوتا ہے تو رنگ ضرور بدلتا ہے اور جب رنگ نہ بدلے تو کوئی وصف نہیں بدلتا ہے، تو تمام اقوال اس پر متفق ہیں کہ اس پانی سے وضو جائز ہے جس میں دودھ ملا ہو اور اس کا رنگ نہ بدلا ہو، اور اس سے یہ معلوم ہوا کہ امام زیلعی کا ''اَو'' کہنا ضرور کا نہیں کیونکہ مزہ کا بدل جانا رنگ کے بدل جانے کو مستلزم ہے تو رنگ پر اکتفاء کرنا چاہئے تھا جیسا کہ متقدمین نے کیا ہے، اس کو زیلعی نے اسبیجابی سے نقل کیا، جیسا کہ آپ نے جان لیا واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

تذییل: اقول (۱۳۵) انڈے جس پانی میں نیم برشت کے قابلِ وضو ہے اگر انڈے پاک تھے۔


 (۱۳۶) آہن تاب، سیم تاب، زرتاب یعنی جس پانی میں لوہا یا چاندی یا سونا تپاکر بھجایا لبقاء الاسم والطبع اقول اگرچہ اس سے پانی کی بعض رطوبات کم ہوں گی اس میں ان فلزات کی قوت آئے گی من وجہ ایک دوا وعلاج ہوگا مگر وہ کوئی شے غیر نہ ہوجائیگا پانی ہی تھا اور پانی ہی رہے گا یہ عمل پانی ہی کی اصلاح کو ہے نہ کہ اُس سے کوئی اور چیز بنانے کو۔

(۱۳۷) باوضو شخص یا نابالغ نے اگرچہ بے وضو ہو اعضاء ٹھنڈے یا میل دُور کرنے کو جس پانی سے وضو یا غسل بے نیت قربت کیا۔

(۱۳۸) معلوم تھا کہ عضو تین بار دھو چکا ہے اور پانی ہنوز خشک بھی نہ ہوا تھا چوتھی بار بلاوجہ ڈالا یہ پانی قابل وضو رہے گا یہاں تک کہ یہ پانی کسی برتن میں لے لیا تو اس سے وضو میں کوئی عضو دھو سکتے ہیں یا اگرچہ چوتھی بار ہاتھ پر اس طرح ڈالا کہ پاؤں پر گر کر بہہ گیا اُتنا پاؤں پاک ہوگیا۔

(۱۳۹) جسے حاجتِ غسل نہیں اُس نے اعضائے وضو کے سوا مثلاً پیٹھ یا ران دھوئی اگرچہ اپنے زعم میں قربت کی نیت کی۔

(۱۴۰) باوضو یا نابالغ نے اگرچہ بے وضو ہو کھانا کھانے کو یا کھانے کے بعد ویسے ہی ہاتھ منہ صاف کرنے کو ہاتھ دھوئے کُلی کی اور ادائے سنّت کی نیت نہ کی۔

(۱۴۱) باوضو یا نابالغ نے صرف کسی کو وضو سکھانے کی نیت سے وضو کیا۔


(۱۴۲) مسواک کرنے کے بعد اُسے دھو کر رکھنا سنّت ہے  کمابینا فی بارق النور  (جیسا کہ "بارق النور" میں بیان کیا گیا۔ ت) یہ پانی(۱) اگرچہ اس سے ادائے سنّت ہوگا قابلِ وضو رہے گا کما حققنا فی الطرس المعدل ان الشرط استعمالہ فی بدن الانسان (جیسا کہ ہم نے "الطرس المعدل" میں ثابت کیا ہے کہ پانی کے مستعمل ہونے کیلئے پانی کا بدنِ انسان پر استعمال ہونا شرط ہے۔ ت) مگر مکروہ ہوگا کہ لعابِ دہن کو دھوئے گا کما تقدم عن الخانیہ،


 (۱۴۳) مسواک کرنے سے پہلے بھی اسے دھونا سنّت ہے یہ پانی مکروہ بھی نہ ہوگا اگر مسواک نئی ہے یا پہلے دُھل چکی ہے۔


(۱۴۴) آداب(۳) وضو سے ہے کہ آفتابہ اگر دستہ دار ہے غسل اعضاء کے وقت دستہ پر ہاتھ رکھے اس کے سر پر نہیں اور دستہ کو تین پانیوں سے دھولے۔


فتح القدیر پھر ردالمحتار وغیرہما میں ہے: منھا ای من اداب الوضوء ان یغسل عروۃ الابریق ثلثا ووضع یدہ حالۃ الغسل علی عروتہ لاعلی رأسہ ۱؎ اھ ومثلہ فی الحلیہ بغیر ثلثا۔


ان سے یعنی آدابِ وضو سے یہ ہے کہ لوٹے کے دستے کو تین مرتبہ دھویا جائے اور غسل کے وقت ہاتھ دستے پر ہی رکھا جائے نہ کہ سر پر اور ایسا ہی حلیہ میں ہے مگر ثلٰثا کا لفظ نہیں ہے۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ    مصطفی البابی مصر   ۱/۹۲)


(۱۴۵) کوئی پاک کپڑا دھویا اگرچہ ثواب کے لئے جیسے ماں باپ کے میلے کپڑے۔

(۱۴۶) کھانے کے برتن جن میں کھانا پکایا یا اتارا تھا دھوئے اگرچہ ان میں سالن وغیرہ کے لگاؤ سے پانی کے اوصاف بدل گئے جب تک رقت باقی رہے اگرچہ اس دھونے سے سنت تنظیف کی نیت ہو۔ 

(۱۴۷) یوں ہی جس پانی سے سِل یا پتّھر دھویا اگرچہ مسالے کے اثر سے اوصاف میں تغیر آیا اور پانی گاڑھا نہ ہوا۔ 

(۱۴۸) برادہ صاف کرنے کو برف دھویا اور برادہ نے پانی کی رقت پر اثر نہ کیا۔

(۱۴۹) چپک صاف کرنے کو آم یا کسی قسم کے پھل دھوئے۔

(۱۵۰) تختی دھوئی اور سیاہی سے پانی گاڑھا نہ ہوا۔

(۱۵۱) پکّا فرش گردوغبار سے پاک کرنے کو دھویا اگرچہ مسجد کا بہ نیت قربت۔

(۱۵۲) ناسمجھ بچّے نے وضو کیا۔

(۱۵۳) نابالغ کو نہلایا۔

(۱۵۴) گھوڑے وغیرہ کسی جانور کو نہلایا اگرچہ ان دونوں سے نیت ثواب کی ہو جبکہ ان تینوں کے بدن پر کوئی نجست نہ ہو یہ سب پانی قابلِ وضو ہیں۔

(۱۵۵) دفع نظر کے(۱) لئے نظر لگانے والے کے بعض اعضاء دھو کر چشم زدہ کے سر پر ڈالنے کا حکم ہے جس کا مفصل بیان ہماری


 '' کتاب منتہی الآمال فی الاوفاق والاعمال'' میں ہے وہ اگر باوضو تھا یہ پانی قابلِ وضو رہنا چاہئے اگرچہ اس نے یہ امتثال امر وَاذا استغسلتم فاغسلوا (اگر تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو دھو ڈالو۔ ت) نیت قربت کی ہو تأمل وراجع ماقررنا من شرائط الاستعمال فی رسالتنا الطرس المعدل (غور کرو اور ہم نے اپنے رسالہ الطرس المعدل میں پانی کے مستعمل ہونے کی جو شرائط بیان کی ہیں ان کی طرف رجوع کرو۔ ت)

 (۱۵۶) دُلھن کو(۲) بیاہ کر لائیں تو مستحب ہے کہ اس کے پاؤں دھو کر مکان کے چاروں گوشوں میں چھڑکیں اس سے برکت ہوتی ہے یہ پانی بھی قابلِ وضو رہنا چاہئے اگر دُلھن باوضو یا نابالغہ تھی کہ یہ اور اس کا سابق از قبیل اعمال ہیں نہ ازنوع عبادات اگرچہ نیت اتباع انہیں قربت کردے واللہ تعالٰی اعلم۔

(۱۵۷) حائض ونفسا نے قبل انقطاع دم بے نیت قربت غسل کیا یہ پانی بھی قابلِ وضو ہے۔

(۱۵۸) مرد کے وضو وغسل سے جو پانی بچا قابلِ طہارت بلاکراہت ہے اگرچہ عورت اس پانی سے طہارت کرے بخلاف عکس کہ مکروہ ہے کما تقدم۔


(۱۵۹) بعض دوائیں مغسول استعمال کی جاتی ہیں جیسے یا قوت وشادنج وحجرار منی وگلِ ارمنی ولک وتوتیا وشنجرف ومرد اسنج وغیرہا کہ خوب باریک پیس کر پانی میں ملاتے ہیں جو غبارسا ہو کر پانی میں مل جائے یا جس میں سنگریزہ رہے پھینک دیا جائے اب یہ آبِ غبار آمیز ڈھانک کر رکھ چھوڑیں یہاں تک کہ وہ غبارتہ نشین ہو کر پانی سے جُدا ہوجائے اُس وقت پانی نتھار کر دوا استعمال میں لائیں یہ پانی بھی قابلِ وضو ہے اگر بے وضو ہاتھ نہ لگا ہو۔

(۱۶۰) حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مُوئے مبارک یا جُبہئ مقدسہ یا نعل شریف یا کاسہئ مطہرہ تبرک کیلئے جس پانی میں دھویا قابلِ وضو ہے اگرچہ اس میں قصدِ قربت بھی ہوا۔ ہاں(۱) پاؤں پر نہ ڈالا جائے کہ خلافِ ادب ہے اگر منہ پر جاری کیا منہ کا وضو ہوگیا اُن کا تو نام پاک لینے سے دل کا وضو ہو جاتا ہے صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلہٖ وصحبہ وبارک وسلم وعلٰی ابنہ الکریم الغوث الاعظم واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔ الحمداللہ ان پاک کرنے والے پانیوں کی ابتدا زمزم شریف بلکہ اُس آبِ اقدس سے ہُوئی جو انگشتانِ مبارک حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بکمال رحمت جوش زن ہوا اور انتہا اس پانی پر ہوئی جو حضور کے آثارِ شریفہ کو دھو کر برکاتِ عالیہ کا منبع ومخزن ہُوا والحمدللّٰہ رب العٰلمین وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا ومولانا واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین اٰمین۔

قسم دوم جن سے وضو صحیح نہیں۔

(۱۶۱) آبِ نجس ۔ (۱۶۲) مستعمل کہ ہمارے رسالہ الطرس المعدل میں جس کا بیان مفصّل۔

(۱۶۳ تا ۱۶۵) گلاب کیوڑا بید مشک،


ہدایہ وخانیہ میں ہے:لابماء الورد ۱؎ اھ ومثلہ فی خزانۃ المفتین عن شرح مجمع البحرین وعد فی السعدیہ مع ماء الوردماء الھند باوماء الخلاف واشباھھا ۲؎۔ نہ گلاب کے پانی سے اھ اور اسی کی مثل خزانۃ المفتین میں شرح مجمع البحرین سے ہے اور سعدیہ میں گلاب کے پانی کے ساتھ عرق ہندبا، عرق خلاف وغیرہ کو بھی شمار کیا۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    فصل فیما لایجوزبہ التوضو    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۱)

(۲؎ السعدیہ)


منیہ وغنیہ میں ہے:(لایجوز) الطھارۃ الحکمیہ (بماء الورد) وسائر الازھار ۳؎۔ طہارت حکمیہ گلاب اور دوسرے پھولوں کے پانی سے جائز نہیں ہے۔ (ت)


 (۳؎ غنیہ المستملی    فصل فی بیان احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۸۹)


(۱۶۶) عرق گاؤ زبان وعرق بادیان وعرق عنب الثعلب وغیرہا جتنے عرق کشید کئے جاتے ہیں کسی سے وضو جائز نہیں  وتقدمت فی ۱۱۱ عبارۃ البحر فی الماء الذییؤخذ بالتقطیر من لسان الثور ۱؎ ولفظ الدرر والمستخرج من النبات بالتقطیر ۲؎ (بحر کی عبارت اس پانی کی بابت جو عمل تقطیر سے گاؤ زبان سے نکالا جائے اور درر میں ہے کہ جڑی بُوٹیوں کا پانی جو تقطیر سے نکالا جائے ۱۱۱ میں گزر چکی ہے۔ ت)


 (۱؎ بحرالرائق        کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)

(۲؎ الدرر الحکام للمولی خسرو    بحث الماء        الکاملیہ بیروت    ۱/۲۳)


 (۱۶۷ و ۱۶۸) آب کا سنی آب مکوہ اگرچہ مروق ہوں کہ اجزائے کثیفہ جدا ہو کہ زیادہ رقیق ولطیف ہوجاتے ہیں ومرکلام سعدی افندی۔


(۱۶۹) وہ پانی کہ زعفران سے نکالا جائے وتقدم کلام الغنیہ فی ۱۲۵ (اور غنیہ کا کلام ۱۲۵ میں گزرا۔ ت)

(۱۷۰ تا ۱۷۹) خربوزہ، تربوز، ککڑی، کھیرے، سیب، بہی، انار، کدو وغیرہا میووں پھلوں کا عرق کہ اُن سے نکلتا یا نچوڑ کر نکالا جاتا ہے، یوں ہی گنّے کا رس اور بالخصوص وہ پانی کہ کچے ناریل کے اندر ہوتا ہے جو پگھل کر پانی نہ ہوا بلکہ ابتداء پانی ہی تھا۔

(۱۸۰) اُس سے بھی زیادہ قابلِ تنبیہ وہ پانی ہے کہ سُنا گیا خطِ استوأ کے قریب بعض وسیع ریگستانوں میں جہاں دُور دُور تک پانی نہیں ملتا ریتے کے نیچے ایک تربوز نکلتا ہے جس میں اتنا پانی ہوتا ہے کہ سوار اور اس کے گھوڑے کو سیراب کردے رحمت نے بے آب جنگل میں حیاتِ انسان کا یہ سامان فرمایا ہو تو کیا دُور ہے مگر وہ پانی اگرچہ نتھرے خالص پانی کی طرح ہو اور اس تربوز میں اس کے سوا کچھ نہ ہو جب بھی قابلِ وضو نہیں کہ ثمر کا پانی ہے مائے مطلق کے تحت میں نہیں آسکتا۔ رہا وضو اس کیلئے بحمداللہ وہ رحمتِ عامہ موجود ہے جو صدیقہ بنت الصدیق محبوبہئ محبوبِ رب العٰلمین جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہما وسلم کے صدقہ میں ہر مسلمان کے لئے ہر جگہ موجود ہے کہ تیمموا صعیدا طیبا جعلت لی الارض مسجد اوطھورا ۳؎ اقول وھنالک(۱) یظھر ان الاعتصار لامفھوم لہ وان احتج بہ بعض الکبراء علی جواز الوضوء بقاطر الکرم کما سیاتی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ پاک مٹی سے تمیم کرو میرے لئے زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنا دی گئی ہے۔ میں کہتا ہوں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتصار کا کوئی مفہوم مخالف نہیں اگرچہ بعض اکابر نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ انگور سے ٹپکنے والے پانی سے وضو جائز ہے، کما سیاتی واللہ تعالٰی اعلم۔


 (۳؎ جامع للبخاری    کتاب التمیم        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۴۸)


خانیہ وہندیہ میں ہے:لایجوز التوضوء بماء البطیخ والقثاء والقثد ۱؎ اھ وفی خزانۃ المفتین عن شرح مجمع البحرین مکان القثد وماء الخیار وضوء جائز نہیں ہے خربوز، ککڑی اور کھیرے کے پانی سے اھ اور خزانۃ المفتین میں شرح مجمع البحرین سے قثد (کھیرے) کے بجائے ماء الخیار (ککڑی کا پانی) ہے۔ (ت)


(۱؎ فتاوٰی ہندیہ    فصل فیما لایجوزبہ التوضوء    نورانی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۱)

(۲؎ فتاوٰی قاضی خان          فصل فیما لایجوزبہ التوضوء    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


منیہ وغنیہ میں ہے:(لاتجوز بماء الثمار) مثل التفاح وشبھہ ۳؎ وذکر فی الجوھرۃ ماء الدباء ۴؎ ویاتی۔ طہارت پھلوں کے پانی سے جائز نہیں، جیسے سیب اور اس کے مشابہ اھ اور جوہرہ میں ذکر کیا کدو کا پانی، اور یہ آئیگا۔ (ت)


(۳؎ غنیہ المستملی    احکام المیاہ            سہیل اکیڈمی لاہور        ص۸۸)

(۴؎ جوہرۃ نیرۃ    ابحاث الماء        امدادیہ ملتان        ۱/۱۴)


خانیہ میں ہے:لایجوز التوضوء بماء الفواکہ ۵؎۔ پھلوں کے پانی سے وضو جائز نہیں۔ (ت)


(۵؎ فتاوٰی قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضو    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


یونہی وہ پانی کہ کسی درخت کی شاخیں یا پتّے کوٹ کر نکالا جائے۔ خزانۃ المفتین میں شرح مجمع البحرین سے ہے:


لایجوز الوضوء بماء القضبان ۶؎۔ قضبان (کٹی ہوئی شاخوں) کے پانی سے وضو جائز نہیں۔ (ت)  (۶؎ خزانۃ المفتین)


 (۱۸۲) شراب ریباس

(۱۸۳ تا ۱۸۵) شربتِ انار شیریں، شربتِ انارترش، شربتِ انگور وغیرہا جتنے شربت قوام میں بنائے جاتے ہیں ہدایہ میں ہے:


لایجوز بالاشربۃ ۷؎


 (شربتوں سے وضو جائز نہیں۔ ت)  (۷؎ ہدایہ    الماء الذی یجوزبہ الوضو    عربیہ کراچی        ۱/۱۸)


عنایہ میں ہے:کشرب الرمان والحماض ۱؎  (جیسے انار اور حماض (ایک قسم کی گھاس) کا پانی۔ ت)


 (۱؎ عنایہ مع الفتح    الماء الذی یجوزبہ الوضوء الخ    عربیہ کراچی        ۱/۱۸)


شلبیہ علی التبیین میں مستصفٰی سے ہے:الاشربۃ المتخذۃ من الشجر کشراب الریباس ومن الثمر کالرمان والعنب ۲؎ اھ ووقع فی الدرر بعد ماقال لابما اعتصر من شجر اوثمر ولا بماء زال طبعہ بالطبخ کشراب الریباس مانصہ وھذہ العبارۃ احسن مما قیل کالاشربۃ فانہ علی عمومہ مشکل ۳؎ اھ۔


درختوں سے حاصل کے ہوئے عرق جیسے ریباس (چقندر کی طرح ایک سبزی)کا عرق،اور پھلوں کا رس جیسے کہ انگور اور انار کا رس۔ اور درر میں لابما اعتصر من شجر اوثمر الخ کے بعد ہے کہ نہ اُس پانی سے جس کی طبیعت پکانے کی وجہ سے بدل گئی ہو جیسے ریباس کا عرق،ان کی عبارت یہ ہے اور یہ عبارت اِس قول سے بہتر ہے کہ کالاشربۃ،کیونکہ اس کو عموم پر رکھنا مشکل ہے اھ (ت)


 (۲؎ شلبیہ مع التبیین    کتاب الطہارت    الامیریہ مصر        ۱/۱۹)

(۳؎ درر الاحکام            کتاب الطہا رۃ        دارالسعادۃ مصر    ۱/۲۳)


اقول: ھو کما تری نص(۱) الھدایہواقرہ الشراح ومثلہ فی مختصرالقدوری والوافی والوقایہ والاصلاح والملتقی والبدائع والخانیہ والخلاصۃ وشرح مجمع البحرین وخزانۃ المفتین والغنیہ والھندیہ وغیرھامما لایکادیحصی سبحٰن(۲) اللّٰہ مالی اعد الکتب وھو نص صاحب المذھب ففی الجامع الصغیرمحمد عن یعقوب عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم لایتوضو بشیئ من الاشربۃ غیرنبیذ التمر ۴؎ اھ ولا ادری ای اشکال فی عمومہ ولم یتکلم(۱) علیہ ناظروہ الشرنبلالی وعبدالحلیم والحسن العجیمی واتی الخادمی(۱) بمالایغنی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں وہ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں ہدایہ کا نص ہے اورشراح نے اس کو برقرار رکھا ہے اور اس کی مثل مختصر القدوری میں ہے نیز وافی، وقایہ، اصلاح، ملتقی، بدائع، خانیہ، خلاصہ،شرح مجمع البحرین، خزانۃ المفتین، غنیہ اور ہندیہ وغیرہ لاتعداد کتابوں میں ہے سبحان اللہ،میں کتابیں کیوں گنواؤں؟ یہ تو صاحب مذہب کی تصریح ہے، چنانچہ جامع صغیر میں روایت ہے، محمد روایت کرتے ہیں یعقوب سے ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ سوائے نبیذ تمر کے کسی عرق سے وضو نہ کیا جائے اھ اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کے عموم میں کیا اشکال ہے، اور اس کے دیکھنے والوں نے اس پر کلام نہیں کیاجن میں شر نبلالی، عبدالحلیم اور حسن عجیمی شامل ہیں اور خادمی نے بہت سی باتیں کی ہیں جو بے نیاز نہیں کرتیں واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۴؎ جامع الصغیر    فیما لایجوزبہ التوضو    یوسفی لکھنؤ        ص۸)


 (۱) اذقال انہ علی عمومہ مشکل اذالا شربۃ فی الاصل اسم لکل مایشرب فشامل لنحو ماء التمر وغیرہ والمقصود ھھنا الاختصاص بشراب الریباس کما فھم من الایضاح فافھم اھ


انہوں نے فرمایا یہ اپنے عموم پر مشکل ہے کیونکہ ''اشربۃ''ہر اس چیز کا نام ہے جو پی جاتی ہے تو یہ کھجور وغیرہ کے پانی کو شامل ہوگااور یہاں مقصود ریباس کے عرق کی تخصیص ہے جیسا کہ ایضاح سے مفہوم ہے، فافہم اھ۔


اقول: ترکھم(۲)التکلم احسن من ھذا والمقصوداعطاء حکم عام وتمثیلہ بجزئی لاتخصیص الکلام بالجزئی والاشربۃ فی العرف ھی ھذہ المتخذۃ من الثمار والاشجار والا فالماء ایضا شراب ھذا مغتسل باردوشراب ولا شک ان الحکم یعمھا فان قلت ھو رحمہ اللّٰہ تعالٰی یمیل الی جواز التوضی بنبیذ التمرلقولہ فی سؤر الحمار (یتوضو بہ ویتیم ان عدم غیرہ بخلاف نبیذ التمر)حیث یتوضو بہ عند ا بی حنیفۃ وان قال ابو یوسف بالتیمم فقط ومحمد جمع بینھما اھ


میں کہتا ہوں ان کاکلام نہ کرنا اس سے بہتر ہے اور مقصود عام حکم لگاناہے اور مثال اس کی ایک جزئی سے دی گئی ہے کلام کو جزئی سے خاص کرنا مقصود نہیں، اور اشربہ عرف میں پھلوں اور درختوں سے حاصل شدہ عرقیات ہی کو کہتے ہیں، ورنہ تو پانی بھی شراب ہے، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ھذا مغتسل بارد وشراب،اور کوئی شک نہیں کہ حکم ان سب کو عام ہے، اگر تم کہو کہ وہ رحمہ اللہ نبیذتمر سے وضو کے جواز کی طرف مائل ہیں کیونکہ انہوں نے گدھے کے جوٹھے کے بیان میں فرمایا (اس سے وضو بھی کرے اور تیمم بھی اگر اور پانی نہ ہو،بخلاف نبیذتمر کے)کیونکہ اس سے ابوحنیفہ کے نزدیک وضو کیا جاسکتا ہے اگرچہ ابویوسف صرف تیمم کے قائل ہیں، اور امام محمد وضو اور تیمم دونوں کا قول کرتے ہیں۔ اھ (ت)


اقول: انما یستشکل مالایظھر وجہ صحتہ ولیس لمن یختار جانبا من قولین متساویین ان یستشکل علی الاٰخر فضلا عمن یختار قیلا ضعیفا مھجور الجمھور واللّٰہ تعالٰی اعلم بمراد عبادہ ثم رأیت السیر ابا السعود نقل عن العلامۃ نوح افندی وجہ الاشکال ماقداشرت الیہ بقولی الماء ایضا شراب ولم یعجبنی ان اجعل مثلہ تفسیرا لکلام الدرر فقال وجہ الاشکال شمول الاشربۃ لغیر المتخذۃ من الشجر والثمر اذا المطلق من الماء شراب قال وانما قال احسن لامکان توجیہ العبارۃ بان یقال ارادا لاشربۃ المتخذۃ منھما اھ وانت تعلم ان(۱) مثل ھذا لایستاھل الذکر فضلا عن حمل کلام مثل مولی خسرو علیہ ثم تعبیر(۲) التوجیہ بالامکان واللّٰہ المستعان ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)


میں کہتا ہوں اشکال صرف اس وقت ہوگا جس کی وجہ صحت ظاہر نہ ہو اور وجود وبرابر اقوال میں سے کسی ایک قول کو اختیار کرتا ہے اس کیلئے دوسرے پر کوئی اشکال نہیں،چہ جائیکہ وہ شخص جو ضعیف مخالف جمہور کو لیتاہے واللہ تعالٰی اعلم بمراد عبادہ پھر میں نے دیکھاکہ علامہ ابو السعود نے نوح آفندی سے وجہ اشکال وہی نقل کی جس کی طرف میں نے اپنے قول سے اشارہ کیاہے کہ پانی کو بھی شراب کہتے ہیں اور مجھے اچھا معلوم ہوا کہ میں اسی کی مثل درر کا کلام کروں وہ فرماتے ہیں وجہ اشکال یہ ہے کہ ''اشربہ'' کا لفظ درخت اور پھلوں کے عرقیات کے علاوہ کو بھی شامل ہے کیونکہ مطلق پانی بھی شراب ہے،جو انہوں نے کہا ہے وہ زیادہ اچھا ہے کیونکہ عبارت کی توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ ''اشربہ'' سے وہ مراد ہیں جو ان دونوں سے بنائے جائیں اھ اور آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کی تاویل قابلِ ذکر بھی نہیں چہ جائیکہ مولی خسرو کے کلام کو اس پر محمول کیا جائے، پھر توجیہ کو امکان سے تعبیر کرنا، واللہ المستعان ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


(۱۸۶ و ۱۸۷) ہر قسم کا سرکہ اور مقطر

(۱۸۸) آب کامہ جسے عربی میں کامخ بفتح میم ومرّی بتشدید رأ ویائے نسبت کہتے ہیں شوربے کی طرح ایک رقیق نانخورش ہے کہ دہی اور سرکے وغیرہ اجزاء سے بنتی سے اصفہان میں اُس کا زیادہ رواج ہے۔  خانیہ وخزانۃ المفتین وشرح مجمع البحرین میں ہے:لایجوز الوضوء بالخل والمری ۱؎ اھ وقد ذکر الخل فی الکثیر۔ سرکہ اور نانخورش (شوربا) سے وضو جائز نہیں اھ سرکہ کا ذکر بہت سی کتابوں میں ہے۔ (ت)


(۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فیما یجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)


(۱۸۹) نمک کا پانی کہ نمک بہ کر ہوتا ہے اس پر اجماع ہے۔ 

(۱۹۰) نمک کا پانی کہ نمک بن جاتا ہے اس میں اختلاف ہے اور اکثر کا رجحان عدمِ جواز کی طرف ہے کہ وہ طبیعت آب کے خلاف ہے پانی سردی سے جمتا ہے اور وہ گرمی میں جمتا جاڑے میں پگھلتا ہے۔ 

تبیین الحقائق وبحرالرائق وبزازیہ میں ہے:لایجوز بماء الملح وھو یجمد فی الصیف ویذوب فی الشتاء عکس الماء ۱؎۔ نمک کے پانی سے وضو جائز نہیں، نمک گرمی میں جم جاتا ہے اور سردی میں پگھلتا ہے پانی کے برعکس۔


 (۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/ ۱۹)


غرر وتنویر ودرر ودر میں ہے: والنظم للدرر (یجوز ان) ای الوضوء والغسل بماء ینعقد بہ الملح) کذا فی عیون المذاھب (لابماء الملح) الحاصل بذوبان الملح کذا فی الخلاصۃ ولعل الفرق ان الاول باق علی طبیعتہ الاصلیہ والثانی انقلب (عـہ) الی طبیعۃاخری ۱؎ اھ واعترضہ محشیہ العلامۃ نوح افندی کمافی ش بان عبارۃ الخلاصۃ ولوتوضو بماء الملح لایجوز ثم نقل عن البزازیہ و الزیلعی ماقدمناقال واقرہ صاحب البحر والعلامۃالمقدسی ومقتضاہ انہ لایجوز بماء الملح مطلقا ای سواء انعقد ملحا ثم ذاب اولا وھو الصواب عندی ۱؎ اھ ملخصا۔


عبارت درر کی ہے وضو اور غسل جائز ہے (اس پانی سے جس سے نمک بنا ہے) یہی عیون المذاہب میں ہے (نہ کہ نمک کے پانی سے) جو نمک سے پگھل کر حاصل ہوتا ہے،خلاصہ میں یہی ہے اور غالباً فرق یہ ہے کہ اوّل اپنی اصل طبیعت پر واقع ہے اور دوسرا دوسری طبیعت کی طرف منتقل ہوگیا اھ اس پر اس کے محشی علامہ نوح آفندی نے اعتراض کیا ہے، جیساکہ ''ش'' میں ہے کہ خلاصہ کی عبارت یہ ہے کہ اگر کسی نے نمک کے پانی سے وضو کیا تو جائز نہیں۔ پھر بزازیہ اور زیلعی سے انہوں نے وہی نقل کیا جو ہم نے بیان کیا اور فرمایا اس کو صاحب بحر اور علامہ مقدسی نے برقرار رکھا اس کا مفہوم وہی ہے کہ نمک کے پانی سے مطلقاً وضو جائز نہیں ہے خواہ نمک بن کر پھر پگھلا ہو یا نہ اور میرے نزدیک یہی صواب ہے اھ ملخصا۔ (ت)


 (عـہ )قال الخادمی اورد الجمد والبخار اھ اقول توھم(۱) الانقلاب فی الجمد انما یتأتی ممن یزعم ان السمن فی الشتاء لایبقی سمنابل ینقلب ماھیہ اکری قال واجیب المراد الطبیعۃ غیر الملائمۃ للمائیہ اھ اقول ومراد الایرادان الماء یجمد ویصیربخارا فلا یتوضو بہ ثم اذا ذاب ذاک وتقاطر ھذا جاز لعود ھما الی المائیہ کما کاناعلیھا فلو ان الماء الذی سینعقد ملحا کان باقیا علی طبیعۃ الاصلیہ کما قلتم انما لایجوز الوضوء بہ حین یصیر ملحا فاذا ذاب فقد عاد الی طبیعۃ الاولی فما وجہ الفرق بین ماسینعقدوماکان انعقد فان ضر تخلل الانقلاب الی طبیعۃ اخری فلیضر فی الجمد الذائب والسحاب الصائب وحاصل الجواب ان المضر تخلل طبیعۃ لاتناسب طبیعۃ الماء وذلک فی الملح بخلاف الجمد والبخار اھ اقول ویکدرہ(۱)ان لیس بین ماء ملح سینعقد ملحاوبین الملح الا السیلان والجمود وبھذا لقدر لایحصل تباین الطبیعتین وعدم التناسب بینھماکیف وھو حین ھو علی شرف الانعقاد فیہ کل ما فی الملح غیر انہ لم یجمد وسیجمد کالسمن والعسل فی الصیف والشتاء فکیف یقال ان الطبیعۃ الملحیہ لاتناسب طبیعۃ ذالک الماء فانقلت المراد بطبیعۃ الماء ھی الرقۃ ولا شک ان الجمود یباینھا اقول فیعودالایراد بالجمد فان التباین بین الرقۃ والجمود لذاتیھما لالمایعرضانہ من ماء اوملح فعلیک بالتثبت واللّٰہ تعالٰی اعلم ثم رأیت الجواب المذکور فی الخادمی للدانی افندی قال بعدہ وھی طبیعۃ الملحیہ فیکون ماؤہ بعد الذوبان کماء الذھب والفضۃ بخلاف الجمد اذا انقلب ماء فانہ ملائم یطبع الماء اھ نقلہ السید الازھری اقول والرد علی ھذااظھر فانہ لاینقلب بعد الذوبان الا الی ماکان علیہ وقد کان عندکم علی طبیعتہ الاصلیہ فکذالک بعد الزوبان ۱۲ منہ غفرلہ (م)

خادمی نے کہا کہ جمد اور بخار سے اعتراض کیا گیاہے اھ میں کہتا ہوں جمد میں انقلاب کا وہم یہ وہی کہہ سکتا ہے جس کو یہ گمان ہو کہ گھی سردیوں میں گھی نہیں رہتا ہے بلکہ اس کی ماہیت بدل جاتی ہے فرمایا، جواب دیا گیا ہے کہ مراد وہ طبیعت ہے جو پانی کے مناسب نہ ہو اھ میں کہتا ہوں کہ اعتراض یہ ہے کہ پانی جم کر بخار بنتا ہے تو اس سے وضو نہیں کیا جاتا ہے، پھر جب یہ پگھلتاہے اور ٹپکتا ہے تو وضو جائز ہوتاہے کیونکہ یہ دونوں پانی بن جاتے ہیں، تو جو پانی جم کر نمک ہوجاتا ہے اگر بقول آپ کے اپنی اصلی طبیعت پر باقی ہوتو اس سے نمک ہونے کی حالت میں وضو جائز نہ ہوگا، اور جب وہ پگھلے گا تو اپنی پہلی طبیعت کی طرف واپس آجائے گا تو جومنعقد ہوگا اور جو منعقد ہوچکا ہے اس میں فرق کی کیا وجہ ہے تو اگر پانی کا دوسری طبیعت کی طرف انقلاب خلل پیدا کرتا ہے تو یہ چیز اس جمد میں بھی مضر ہونی چاہئے جو پگھل گیا ہے اور اسی طرح بہنے والے بادل میں اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ مضر ایسی طبیعت کا خلل انداز ہوناجو پانی کی طبیعت سے مناسب نہ ہو، اور یہ چیز نمک میں ہے بخلاف جمد اور بخار کے۔میں کہتا ہوں اس کو یہ چیز مکدر کرتی ہے کہ جو نمکین پانی نمک بننے والا ہے اور جو بالفعل نمک ہے اس میں سوائے سیلان اور جمد کے کیا فرق ہے اور دونوں عدمِ مناسبت بھی نہ ہوگی، پھر جب وہ جمنے کے قریب ہوتا ہے تو اس میں وہ تمام خصوصیات ہوتی ہیں جو نمک میں ہوتی ہیں صرف اتنا ہے کہ وہ ابھی جما نہیں ہے اب جم جائیگا جیسے گھی اور شہد گرمی اور جاڑے میں، تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ نمک کی طبیعت اس پانی کے مناسب نہیں، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پانی کی طبیعت سے مراد رقّت ہے اور کچھ شک نہیں کہ جمود اس کے مخالف ہے۔میں کہتا ہوں پھر وہی اعتراض ہوگا کہ جمد میں تباین رقّت اور جمود کا ذاتی ہے عارضی نہیں کہ پانی یا نمک کی وجہ سے ہو، تو غور کرنا لازم ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ پھر میں نے مذکور جواب دانی آفندی کی خادمی میں دیکھا اس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ نمک کی طبیعت ہے تو اس کا پانی پگھلنے کے بعد سونے چاندی کے پانی کی طرح ہوگا بخلاف جمد کے جب وہ پانی ہوجائے کیونکہ یہ پانی کی طبیعت کے مناسب ہے اھ اس کو سید ازہری نے نقل کیا۔میں کہتا ہوں اس پر رد اظہر ہے کیونکہ وہ پگھلنے کے بعد پہلی ہی حالت کی طرف لَوٹے گا اور تمہارے نزدیک وہ اصل طبیعت پر تھا تو اسی طرح پگھلنے کے بعد ہوگا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ درر غرر    کتاب الطہارۃ    دارالسعادۃ مصر    ۱/۲۱)

(۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۲)

اقول: نمک اقسام ہے ایک وہ رطوبت کہ پہاڑ یا غار سے جوش کر کے نکلتی اور جم جاتی ہے جیسے نمک لاہوری واندرانی اور سانبھریہ ابتداء جب تک بستہ نہ ہوئی تھی یقینا اُسی کی مانند ہے جب بستہ ہو کر پگھل جائے کہ وہ پانی کی نوع ہی سے نہیں، دوم دریائے نمک کامنجمد حصہ یہ بعض تیز وتندو حار وحاد چشموں کا پانی ہے کہ جب حرارتِ آفتاب اس میں عمل کرتی ہے کناروں کناروں سے جم جاتا ہے بیچ میں بہتا پانی رہتا ہے اس میں جو چیز پڑے ایک مدت کے بعد نمک ہوجاتی ہے اختلاف اسی پانی میں ہے۔


والذی یظھر لی انہ ان کان(۱) ماء حقیقۃکما ھو الظاھر فلا ینبغی الریب فی جواز الوضوء بہ لان الماء ماء سواء کان عذبا فراتا اوملحا اجاجا وقد قال فی الخانیۃ لوتوضأ بماء السیل یجوز وان خالطہ التراب اذا کان الماء غالبا رقیقا فراتا کان اواجاجا ۱؎ اھ وکونہ(۱) یجمد صیفاویذوب شتاء لایجعلہ نوعااٰخر غیر الماء فلیس من ارکان ماھیۃ الماء ولا من شرائطھا الجمودشتاء والذوبان صیفاوانماھذہ اوصاف تختلف باختلاف الاصناف ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج ھذا ینبت ویروی وھذا لایفعل شیا منہ وقد یمکن عقد(۲) الملح بماء البحر بالطبخ ولا یخرجہ ھذا عن المائیۃ فکذا لواجتزأ بعض المیاہ لشدۃ حدتہ عن الطبخ بحرارۃ الشمس لم یکن فیہ اختلاف الماھیۃ فھزا ربمایقضی لما فی الدر والدرر بالترجیح٭ لکن لمااختلفواولم یتبین الامر قدمت الحاظر علی المبیح٭ولکن العجب من العلامۃالشرنبلالی علل فی المراقی المنع من ذائب الملح بمامرانہ یذوب شتاء ویجمد صیفا ثم قال وقبل انعقادہ ملحا طھور ۲؎ اھ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میرے نزدیک اگر وہ حقیقۃً پانی ہی تھاجیسا کہ ظاہر ہے تو اس سے وضو کے جواز میں کوئی شک نہ ہونا چاہئے کیونکہ پانی تو پانی ہی ہے خواہ سخت میٹھا ہو یا سخت کڑوا ہو، خانیہ میں ہے اگر سیلاب کے پانی سےوضوکیاتوجائز ہے خواہ اس میں مٹی ملی ہُوئی ہو جبکہ پانی غالب رقیق ہو،میٹھا ہویا نمکین ہو اھ اور یہ بات کہ وہ گرمیوں میں جم جاتا ہے اور سردیوں میں پگھل جاتا ہے اس کو پانی کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں بنادیتا ہے کیونکہ جاڑوں میں جمنا گرمیوں میں پگھلنا نہ تو پانی کی ماہیت کے اورکان سے ہے اور نہ شرائط سے ہے اور یہ اوصاف ہیں جو قسموں کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں، کوئی سخت میٹھا، کوئی سخت نمکین، کوئی اُگانے والااور سیراب کرنے والا ہوتا ہے اورکچھ بے فائدہ ہوتا ہے اور کبھی سمندری پانی کو ابال کر نمک بنا لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پانی نہیں تھا،اسی طرح اگر کوئی پانی آفتاب کی گرمی سے گرم ہونے کی وجہ سے متجزی ہوگیا تویہ اس کی ماہیت کو تبدیل نہیں کرتا،اس سے اس چیز کی ترجیح ظاہر ہوتی ہے جو در اوردرر میں ہے لیکن فقہاءء کے اختلاف کی وجہ سے میں نے منع کرنے والی دلیل کو مباح کرنے والی دلیل پر ترجیح دی ہے، مگر علامہ شرنبلالی پر تعجب ہے کہ انہوں نے مراقی الفلاح میں منع کی علت پگھلے ہوئے نمک میں یہ بتائی کہ وہ سردی میں پگھلتا اور گرمیوں میں جمتا ہے اور نمک بننے سے قبل وہ پاک ہوتا ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی خانیہ المعروف قاضی خان  فصل فیما لایجوز التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹) 

(۲؎ مراقی الفلاح مع الطحطاوی ،کتاب الطہارت نور محمد کارخانہ تجارت کراچی    ص۱۳)


 (۱۹۱) نوشادر کا پانی کہ اس کے بہنے سے حاصل ہوتا ہے۔

(۱۹۲) آبِ کافور کہ اس کے پگھلنے سے حاصل ہو ریاحی کا فور جسے یہاں بھیم سینی کہتے ہیں دھوپ کی گرمی سے پگھل جاتا ہے۔

(۱۹۳) آبِ کافور کہ درخت کا فور کاٹتے وقت اس سے ٹپکتا ہے۔

(۱۹۴) آبِ نفط بالکسر ایک روغنی رطوبت تیز رائحہ ہے کہ بعض زمینوں سے اُبلتی ہے۔

(۱۹۵) مٹی کا تیل مثل آبِ نفط ہے۔بزازیہ میں ہے: ماء الملح لایجوزالوضوء بہ وکذا ماء النفط ۱؎ (نمک کے پانی سے وضو جائز نہیں، اور ایسے ہی ماء النفط (ایک معدنی تیل) سے۔ ت)


 (۱؎ فتاوٰی بزازیۃ مع العالمگیری نوع فی المستعمل والمطلق والمقیدنورانی کتب خانہ پشاور   ۱/۱۰)


(۱۹۶) زِفت بالکسر درخت صنوبر نر کامد جو پھل نہیں دیتا۔

(۱۹۷) راتیانج درخت صنوبر مادہ کامدجس میں پھل آتا ہے۔

(۱۹۸) قطران ایک قسم کا درخت سروکامد۔

(۱۹۹) قیر ایک سیاہ رطوبت کہ بعض زمینوں یا گرم چشموں سے ابلتی ہے۔

(۲۰۰) قفر الیہود ایک بودار رطوبت بنفشی رنگ کہ مثل قیر بعض دریاؤں سے نکلتی ہے۔

(۲۰۱) عنبر کہ یہ بھی ایک قول میں ایک معدنی رطوبت ہے بعدکو حرارت آفتاب وغیرہ سے منجمد ہوجاتی ہے۔

(۲۰۲) مومیائی

(۲۰۳) سلاجیت یہ دونوں پتھر کے مدہیں اورابتدا میں سیال ہوتے ہیں وکل ذلک فی معنی ماء النفط (یہ سب ماء النفط (ایک معدنی تیل) کے معنی میں ہیں۔ ت)

(۲۰۴) نیم وغیرہ درختوں کامد

(۲۰۵) موسم بہار میں انگور کی بیل سے خود بخودپانی ٹپکتا ہے اس میں اختلاف ہے اورراجح یہی ہے کہ اُس سےوضوجائز نہیں۔


فی الھدایۃ(لایجوزبما اعتصر من الشجر والثمر)لانہ لیس بماء مطلق والحکم عند فقدہ منقول الی التیمم اما الماء الذی یقطع من الکرم فیجوز التوضی بہ لانہ ماء یخرج من غیر علاج ذکرہ فی جوامع ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی وفی الکتاب اشارۃ الیہ حیث شرط الاعتصار ۱؎ اھ واقرہ فی العنایۃوالفتح وغیرھما وتبعہ صاحب المجمع فی شرحہ وفی التبیین ان کان یخرج من غیرعلاج لم یکمل امتزاجہ فجازالوضوء بہ کالماء الذی یقطر من الکرم ۲؎ اھ وتبعہ المحقق فی الفتح وقال صدرالشریعۃ وتبعہ ابن کمال باشا فی ایضاحہ اماما یقطر من شجر فیجوز بہ الوضوء ۳؎ اھ وھو اختیار الامام الاسبیجابی کما یاتی فی سادس ضوابط الفصل الثالث وادخلہ العلامۃالتمرتاشی فی متنہ فقال لابعصیرنبات بخلاف مایقطر من الکرم بنفسہ ۴؎ اھ


ہدایہ میں ہے (وضو اس پانی سے جائز نہیں جو درخت اور پھل سے نچوڑا گیا ہو)کیونکہ وہ مطلق پانی نہیں رہا،اورجب مطلق پانی نہ ہو تو پھر حکم تیمم کی طرف منتقل ہوجاتا ہے بہرحال وہ پانی جو انگور کی بیل سے ٹپکتاہے اس سے وضو جائز ہے کہ وہ بغیر عمل کے نکلا ہے اس کو جوامع ابی یوسف رحمہ اللہ تعالٰی میں ذکر کیا اور کتاب میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ ا س میں نچوڑ کی شرط ہے اھ اور اس کو عنایہ اور فتح وغیرہ میں برقرار رکھااورصاحب المجمع نے اس کی شرح میں اس کی متابعت کی اور تبیین میں ہے کہ بغیر عمل کے اگر عرق نکل آئے تو اس کا امتزاج پورا نہ ہوگااور اس سے وضو جائز ہے جیسے انگور کی بیل سے ٹپکنے والا پانی اھ محقق نے فتح میں اس کی پیروی کی اورصدرالشریعۃ نے فرمایا ابن کمال پاشا نے اپنی ایضاح میں اس کی پیروی کی فرمایا جو پانی درخت سے ٹپکتا ہے اس سے وضو جائز ہے اھ اور وہ امام اسبیجابی کامختار ہے جیساکہ تیسری فصل کے چھٹے ضابطہ میں آئیگااورعلامہ تمرتاشی نے اس کو متن میں داخل کیااور فرمایاگھاس کے عرق سے جائز نہیں بخلاف اس پانی کے جو انگور کی بیل سے خود بخود ٹپکتا ہے اھ (ت)


 (۱؎ ہدایۃ        باب الماء الذی یجوبہ ومالایجوز    مطبع عربیہ کراچی    ۱ /۱۶)

(۲؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت        مطبع الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۲۰)

(۳؎ شرح الوقایۃ    مالایجوزبہ الوضوء        المکتبۃ الرشیدیۃ دہلی   ۱/۸۴)

(۴؎ درمختار        باب المیاہ            مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)


واغرب المدقق العلائی فی شرحہ فزادبعدقولہ من الکرم اوالفواکہ ولم ارہ لغیرہ والجمھور علی المنع ونصوا(عـہ)انہ الاوجہ الاظھرالاحوط ففی الکافی ثم ابن الشلبی علی الزیلعی والانقرویۃ لایتوضوء بماء یسیل من الکرم لکمال الامتزاج ذکرہ فی المحیط وقیل یجوز لانہ خرج من غیر علاج ۱؎ اھ وفی الخانیۃ لابالماء الذی یسیل من الکرم فی الربیع وکذا ذکرہ شمس الائمۃ الحلوانی ۲؎ اھ وفی الحلیۃ والظاھر انہ اوجہ اھ ثم اعاد فقال الظاھرانہ الاوجہ ۳؎ اھ وفی الغنیۃ ھوالاحوط ۴؎ اھ وفی غنیۃ ذوی الاحکام ھوالاظھر کما فی البرھان۵؎ وفی نور الایضاح لا یجوز بماء شجر وثمر ولوخرج بنفسہ من غیرعصر فی الاظھر ۶؎ اھ وفی مراقی الفلاح احترز بہ عما قیل انہ یجوز بمایقطربنفسہ لانہ لیس لخروجہ بلا عصر تاثیر فی نفی القیدوصحۃ نفی الاسم عنہ ۷؎ اھ وفی الدر ھوالاظھر کما فی الشرنبلالیۃ عن البرھان واعتمدہ القھستانی) فقال والاعتصار یعم الحقیقی والحکمی کماء الکرم وکذا ماء الدابوغۃ(۱) والبطیخ بلا استخراج ۱؎ اھ واقرہ ط وفی الھندیۃ ولا بماء یسیل من الکرم کذا فی الکافی والمحیط وفتاوٰی قاضی خان وھو الاوجہ ھکذا فی البحروھوالاحوط کذا فی شرح منیۃ المصلی لابرھیم الحلبی ۲؎ اھ وفی البحرالرائق والنھر الفائق المسرح بہ فی کثیر من الکتب انہ لایجوز الوضوء بہ واقتصر علیہ قاضی خان فی الفتاوٰی وصاحب المحیط وصدربہ فی الکافی وذکرالجواز بصیغۃ قیل وفی شرح منیۃ المصلی الاوجہ عدم الجواز فکان ھوالاولی لما انہ کمل امتزاجہ کما صرح بہ فی الکافی فما وقع فی شرح الزیلعی انہ لم یکمل امتزاجہ ففیہ نظر ۱؎ اھ وفی ش عن الرملی علی المنح من راجع کتب المذھب وجداکثرھا علی عدم الجواز فیکون المعمول علیہ فما فی ھذا المتن (یرید التنویر) مرجوع بالنسبۃ الیہ ۲؎ اھ۔


اور مدقق علائی نے اپنی شرح میں بڑی عجیب بات کہی یعنی یہ کہ من الکرم کے بعد انہوں نے ''اوالفواکہ''کااضافہ کیا،میں نے ان کے علاوہ کسی اور کے کلام میں یہ نہ دیکھا،اور جمہور کے نزدیک ممنوع ہے اور صراحت کی ہے کہ یہی اوجہ،اظہر اور احوط ہے، کافی، ابن شلبی علی الزیلعیاور انقرویہ میں ہے کہ اس پانی سےوضونہ کرے جو انگور کی بیل سے بہتا ہے کیونکہ اس میں کمال امتزاج پایا جاتا ہے،اس کو محیط میں ذکر کیا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ جائز ہے کیونکہ بغیر عمل کے نکلا ہے خانیہ میں ہے کہ اس پانی سے جائز نہیں جو موسم ربیع میں انگور کی بیل سے نکلتا ہے،اسی طرح اس کو ذکر کیا ہے شمس الائمہ حلوانی نے اھ اور حلیہ میں ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہی اوجہ ہے اھ پھر اعادہ کیا اور فرمایا ظاہر یہی ہے کہ یہ اوجہ ہے اھ اور غنیہ میں ہے کہ یہ احوط ہے اھ اور غنیہ ذوی الاحکام میں ہے یہی اظہر ہے جیسا کہ برہان میں ہے اورنور الایضاح میں ہے وضو جائز نہیں درخت یا پھل کے پانی سے خواہ بلا نچوڑے ازخود نکل آئے،اظہر یہی ہے اور مراقی الفلاح میں ہے اس سے اس قول سے احتراز کیا کہ وضو اس پانی سے جائز ہے جو بلانچوڑے خود نکل آئے،کیونکہ اس کے بلانچوڑے نکلنے میں نفی قید میں کوئی تاثیر نہیں ہے اسی طرح اس سے اس نام کے سلب کرنے میں کوئی تاثیر نہیں ہے اھ اور در میں اسی کو اظہر کہا جیساکہ شرنبلالیہ میں برہان سے ہے اور اسی پر قہستانی نے اعتماد کیا اور کہا نچوڑنا حقیقی اور حکمی دونوں کو عام ہے جیسے انگور کا پانی اسی طرح تربوز کا پانی،اور خربوزے کا پانی بلا نکالے ہوئے اھ اور اس کو 'ط'نے برقرار رکھااور ہندیہ میں ہے نہ اس پانی سے جو انگور کی بیل سے نکلتا ہے اسی طرح کافی، محیط میں ہے اورفتاوٰی قاضی خان میں ہے یہی اوجہ ہے یہی بحر میں ہے اور یہی احوط ہے اسی طرح شرح منیۃ المصلی میں ہے جو ابراہیم حلبی کی ہے اھ اور بحر اور نہر میں ہے کہ بہت سی کتب میں صراحت ہے کہ اس سے وضو جائز نہیں،اور اس پر قاضیخان نے فتاوٰی میں اکتفاء کیا،اسی طرح صاحبِ محیط نے اس پر اکتفاء کیا اور اس کو ابتداء میں ذکر کیا کافی میں اورجواز کا ذکر بصیغہ قیل کیا اور شرح منیۃ المصلی میں ہے کہ اوجہ عدمِ جواز ہے تو یہی اولٰی ہے کیونکہ اس کا امتزاج مکمل ہو گیا ہے جیسا کہ کافی میں مصرّح ہے تو شرح زیلعی میں اس کے امتزاج کو مکمل نہ بتاناقابلِ اعتراض ہے اھ اور 'ش' میں رملی علی المنح سے منقول ہے کہ جس نے کُتبِ مذہب کو دیکھا ہے اس کو معلوم ہوگا کہ اکثر میں عدم جواز ہے تو اسی پر اعتماد ہوگا، تو جو اس متن (تنویر) میں ہے وہ اس کی نسبت مرجوع ہے اھ۔ (ت)


 (عـہ)وقدمر تأییدہ فی ۱۸۰ فتذکر ۱۲ منہ غفرلہ (م)

اس کی تائید گزر چکی ہے ملاحظہ ہو ۱۸۰۔ ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ حاشیۃ الشلبی علٰی تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریۃ ببولاق مصر    ۱/۲۰)

(۲؎ قاضی خان        فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹        )

(۳؎ حلیہ)

(۴؎ غنیۃ المستملی        احکام المیاہ        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۲)

(۵؎ غنیۃ ذوی الاحکام حاشیۃ علی الدرر    کتاب الطہارت    مطبعۃ الکاملیۃ بیروت   ۳/۱ ۲)

(۶؎ نورالایضاح        کتاب الطہارۃ    علمیہ لاہور        ص۳)

(۷؎ مراقی الفلاح       کتاب الطہارۃ   الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۴)


 (۱)الدا بوغۃ والدابوقۃ والحبحب ھوالبطیخ الاخضرکما فی ش عن بعض المحشین عن کتب الطب وذکر فی التحفۃ والمخزن دابوقۃ بالقاف وزعماانہ من اسمائہ بالعربی وذکرامنھااللاغ والبطیخ الھندی والبطیخ الشامی والبطیخ الفلسطینی وبالفارسیۃ ھندوانہ وبالھندیۃ تربوزولم یذکرادابوغہ بالغین ۱۲ منہ۔ (م)


دابوغہ، دابوقہ اورحبحب تربوز کو کہتے ہیں جیسا کہ شامی میں ہے کہ بعض حاشیہ نگاروں نے کتبِ طب سے اس کی یہی تشریح نقل کی ہے اور تحفہ اور مخزن میں دابوقہ ''ق'' سے ہے،ان کاخیال ہے کہ یہ اس کا عربی نام ہے ان دونوں کتب میں لاغ اور بطیخ ہندی، بطیخ شامی اور بطیخ فلسطینی کاذکر ہے فارسی میں ہندوانہ اور ہندی میں تربوز کہتے ہیں ان دونوں کتابوں میں دابوغہ ''غ''کے ساتھ کا ذکر نہیں ۱۲ منہ (ت)


 (۱؎ درمختار    کتاب الطہارت    مجتبائی دہلی        ۱/۳۴)

(۲؎ ہندیۃ    فیما لایجوزبہ التوضوء    نورانی کتب خانہ پشاور  ۱/ ۲۱)

(۱؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)

(۲؎ ردالمحتار    باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۳)

 (۲۰۶) تاڑی

(۲۰۷) سیندھی

اقول: حتی علی قول من یجوز بقاطر الکرم فانہ(۱) ماء کان تشربہ فاذاارتوی ردہ کما یدل علیہ قول الزیلعی کمال الامتزاج بتشرب النبات الماء بحیث لایخرج منہ الابعلاج ثم ذکرقاطرالکرم بمامربخلاف الرطوبات السائلۃ من ھذہ الاشجارفانھا کالقارات النابعۃ من الاحجار واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں یہاں تک کہ جو حضرات انگور کی بیل سے ٹپکنے والے پانی سے وضو کے جواز کے قائل ہیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ دراصل یہ پانی تھاجب بیل میں جذب ہونے سے بچا تو بہنے لگا جیسا کہ قول زیلعی سے معلوم ہوتا ہے،امتزاج کا کمال یہ ہے کہ گھاس پانی کو اچھی طرح پی لے کہ بلا نکالے پانی نہ نکلے، پھر انہوں نے انگور کی بیل سے ٹپکنے والے پانی کا ذکر کیا بخلاف ان رطوبتوں کے جو اِن درختوں سے بہتی ہیں کیونکہ یہ ان روغنیات کی طرح ہیں جو پتھروں سے نکلتے ہیں واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱) ھذا ھو صریح مفادکلام الزیلعی ومن تبعہ لکن فی الارکان الاربعۃ لبحرالعلوم مانصہ اختلفوا فی ماء سال من الکرم ونحوہ بنفسہ ففی الھدایۃ یجوز بہ التوضی وفی الکافی وفتاوی قاضی خان لایجوز لانہ لیس ماء انماھو شبیہ بالماء ویطلق علیہ الماء مجازا اھ


یہ صریح مفہوم ہے زیلعی کے کلام کااور اس کے متبعین کے کلام کا، لیکن بحر العلوم کی ارکانِ اربعہ میں ہے اُس پانی میں اختلاف ہے جو انگور کی بیل سے ٹپکتا ہے، ہدایہ میں ہے اس سے وضو جائز ہے،کافی اور فتاوٰی قاضی خان میں ہے کہ وضو جائز نہیں کیونکہ وہ پانی نہیں ہے پانی کے مشابہ ہے اور اس پر پانی کا اطلاق مجاز ہے اھ


اقول لیس التعلیل فی الکافی ولا فی الخانیۃ بل لم ارہ لاحد قبلہ بل زعم(۱)العلامۃ ابن کمال الوزیر فی الایضاح عند قول متنہ لابما اعتصرمن شجراوثمرالروایۃ بالقصرکانھم ابوا عن اطلاق اسم الماء علیہ ایماء الی قصورہ عن حد الماء المطلق ولذلک لایجوز التوضی بہ اھ فھذا یوھم بل کمصرح ان کل عصارۃ ثمراوشجرماء حقیقۃ غیرانہ مقید لامطلق وھو باطل قطعاوالذی یقبلہ القلب فی ماء الکرم القاطر ایضاماقالہ بحرالعلوم واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

میں کہتا ہوں کہ تعلیل نہ کافی میں ہے اور نہ خانیہ میں ہے بلکہ میں نے اُن سے پہلے کسی کے کلام میں یہ نہیں دیکھا، بلکہ علامہ ابن کمال وزیر نے ایضاح کے متن کے پاس فرمایانہ اس پانی سے جو درخت یا پھل سے نچوڑا گیا ہو روایت قصر سے ہے،گویا وہ اس پر پانی کے نام کا اطلاق نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ ماءِ مطلق میں شامل نہیں، اور اس لئے اس سےوضوجائز نہیں ہے اھ اس سے وہم ہوتا ہے بلکہ صراحت ہی کہنی چاہئے کہ درختوں اور پھلوں کا پانی حقیقۃً پانی ہے،البتہ وہ مقید ہے مطلق نہیں ہے،حالانکہ یہ قطعاً باطل ہے اور انگور کی بیل کے پانی کی بابت دل لگتی بات بحرالعلوم ہی کی ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


(۲۰۸) ماء الجبن کہ دودھ پھاڑ کر اس کی مائیت نکالتے ہیں۔

(۲۰۹) دہی کا پانی کہ کپڑے میں باندھ کر ٹپکائیں یا اس کے کونڈے میں اس سے چھٹے۔

(۲۱۰) مٹھا جسے چھاچھ بھی کہتے ہیں دہی سے مکھن جُدا ہونے کے بعد جو پانی رہ جائے۔

(۲۱۱) چاولوں کی پیچ۔

(۲۱۲)گوشت کاپانی کہ سربندبویام میں بے پانی رکھ کراوپر پانی بھر کرآنچ دینے سے خود گوشت سے مثل عرق نکلتا ہے۔ 

(۲۱۳) ماء اللحم کہ عرقیات کی طرح گوشت واجزائے مناسبہ سے ٹپکا کرلیتے ہیں۔


المخالطات


 (۲۱۴) یخنی کہ پانی میں گوشت کا آبجوش نکالتے ہیں۔

(۲۱۵) ہر قسم کا شوربا۔ ہدایہ میں ہے: لایجوز بالمرق فانہ لایسمی ماء مطلقا ۱؎۔ شوربا سےوضوجائز نہیں کہ اس کو مطلق پانی نہیں کہتے ہیں۔ (ت)


 (۱؎ ہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ    عربیہ کراچی   ۱/۱۸)


 (۲۱۶ و ۲۱۷)جس پانی میں چنے یاباقلا پکایا اگر پانی میں ان کے اتنے اجزاء مل گئے کہ ٹھنڈا ہو کر پانی گاڑھا ہوجائے گاتو اس سے بالاتفاق وضو ناجائز ہے۔


اقول : وذلک ان العبارات الواضحۃ(عـہ)جاء ت ھھناعلی ثلٰثۃ وجوہ۔ میں کہتا ہوں اس سلسلہ میں واضح عبارات تین قسم کی ہیں:


ستأتی عبارۃ اخری مجملۃ وھی التغیر بالطبخ ویاتی الکلام علیھا ۱۲ منہ (م) عنقریب ایک مجمل عبارت آئے گی اور وہ پکانے سے تبدیل ہونا ہے اور اس پر کلام بھی آئیگا ۱۲ منہ (ت)


الاول لایجوز مطلقالان بالطبخ یحصل کمال الامتزاج فیفیدالتقیدوھذا مایاتی فی ضابطۃ الامام الزیلعی واتباعہ رحمھم اللّٰہ تعالٰی۔


اول: مطلقاً جائز نہیں کیونکہ پکانے سے مکمل امتزاج حاصل ہوتا ہے لہٰذا مقید کرنا مفید ہوگا۔امام زیلعی اور ان کے متبعین کے ضابطہ میں اس کا بیان آئیگا،رحمہم اللہ تعالٰی۔


الثانی:  لایجوز اذا وجد منہ ریح المطبوخ۔ دوم: وضو جائز نہیں جبکہ اس میں سے پکی ہوئی چیز کی بُو آتی ہو۔


الثالث:  یجوز مالم یثخن وعلیہ الاکثروھوالاشھر والمنصوص علیہ فی ھامۃ(۱)المتون وفی الخانیۃ لوطبخ فیہ الحمص اوالباقلاء وریح الباقلاء یوجد منہ لایجوزبہ التوضوء وذکر الناطفی اذالم تذھب رقتہ ولم یسلب منہ اسم الماء جاز ۱؎ اھ وفی الجامع(۲)الکبیرثم المنیۃ والینابیع ثم الزیلعی والفتح وتجنیس الامام صاحب الھدایۃ ثم البحروتجنیس الملتقط ثم الحلیۃ والفتاوی الظھیریۃ ثم البرجندی واللفظ للفتح فی الینابیع لو تقع الحمص والباقلاء وتغیر لونہ وطعمہ وریحہ یجوز التوضی بہ فان طبخ فان کان اذابردثخن لایجوزالوضوء بہ اولم یثخن ورقۃ الماء باقیۃ جاز ۲؎ اھ وھذاکما تری اوسع الاقوال فاذا حصل شرطہ فی المنع حصل المنع بالاجماع۔


سوم: جب تک گاڑھا نہ ہو تو جائز ہے،اکثر اسی پر ہیں اور یہی مشہور تر ہے،اور عام متون میں یہی ہے، اور خانیہ میں ہے اگر پانی میں چنے یاباقلا پکایاگیا اور باقلا کی بُو اس میں آگئی تو اس سے وضو جائز نہیں اور ناطفی نے فرمایااگر اس کاپتلا پن ختم نہیں ہواہے اور اس پر پانی کا اطلاق ہوتاہے تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں،جامع کبیر، منیہ، ینابیع، زیلعی، فتح، تجنیس (صاحب ہدایہ کی کتاب) پھر بحر، ملتقط کی تجنیس، حلیہ، فتاوٰی ظہیریہ اور برجندی میں ہے،عبارت فتح کی بحوالہ ینابیع ہے اگرچنے اور باقلاء پانی میں نچوڑ لیے گئے اور اس کا رنگ مزہ اور بُو بدل گئے تواُس سے وضو جائز ہے، تو اگر پکایا گیا اور ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا ہوگیا تووضوجائز نہیں،اوراگر گاڑھا نہ ہوا اور پانی کی رقت ہنوز باقی ہے تو جائز ہے اھ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں اس قول میں سب سے زیادہ گنجائش ہے، تو جب اس کی شرط منع میں حاصل ہو تو بالاجماع منع ثابت ہوگا۔ (ت)


 (۱) کالوقایۃ والملتقی والغرر والتنویر ونور الایضاح حیث اعتبر وازوال الطبع بالطبخ ویاتی نصوصھا فی الفصل الثالث ۱۲ منہ غفرلہ۔


جیسے وقایہ، ملتقی، غرر، تنویر اورنورالایضاح،ان حضرات نے پکانے سے طبیعت کے زوال کا اعتبار کیا ہے تیسری فصل میں ان کتب کی عبارات آئیں گی ۱۲ منہ غفرلہ


 (۲) ھکذا فی الحلیۃ وفی نسختی المنیۃ والجامع الصغیر وعلیھا شرح فی الغنیۃ ۱۲ منہ غفرلہ (م)


اسی طرح حلیہ میں ہے اور میرے پاس موجود منیہ اور جامع صغیر کے نسخوں پر اس کی شرح غنیہ میں ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل فیما لایجوزبہ التوضی        مطبع نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)

(۲؎ فتح القدیر        باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۵)

ثم اقول:  وباللّٰہ التوفیق بل لاخلاف اما القولان الاولان فالتوفیق بینھما واضح فانہ اذ انضج الباقلی فی الماء وادرک وجدریحہ من الماء لامحالۃ وھذا ھومعنی الطبخ کما تقدم فی ۱۰۸ نعم(۱)علی ھذا یضیع الشرط ولا امکان لحمل الطبخ علی الالقاء بقصدہ لیکون احترازاعما اذا اُخرج قبل ان یؤثر فی الماء فانہ ح یشمل مااذا اُخرج بعدما غیرریح الماء بل ان ینطبخ فان تغیر الریح لایتوقف علی النضج فعلی ھذا یکون مجرد تغیر الریح بدون الطبخ موجباللتقییدوھوخلاف النصوص المذکورۃ فی ۸۹ فان عندعدم الطبخ لاوجہ للفرق بینہ وبین النقیع تأمل واماالقول الثالث فافاد فی الغنیۃ مایعطی وفاقہ حیث قال التقیید یحصل للماء بکمال الامتزاج بالطبخ بان یطبخ فی الماء شیئ حتی ینضج فحینئذ یخرج الماء عن طبعہ وھو سرعۃ السیلان ولا شک انہ اذذاک اذابرد یثخن غالبافکانت القاعدۃ فی المخالطۃ بالطبخ ان ینضج المطبوخ فی الماء وفی المخالطۃ بدونہ ان تزول رقتہ ۱؎ اھ وتبعہ فی مراقی الفلاح فقال لابماء زال طبعہ بالطبخ لانہ اذابرد ثخن ۲؎۔


پھر میں کہتا ہوں وباللہ التوفیق،بلکہ کوئی خلاف ہی نہیں،اور دو۲ پہلے اقوال میں تطبیق واضح ہے کہ ھے جب باقلا پانی میں اچھی طرح پک جائے تو لامحالہ اس کی بُو پانی میں آئے گی اور پکنے کے یہی معنی ہیں جیسا کہ ۱۰۸ میں گزرا۔ ہاں اس تقدیر پر شرط لگانا بے سود ہوگا اور یہ امکان نہیں ہے کہ طبخ کو اس پر محمول کیا جائے کہ پکانے کے ارادہ سے ڈالنا، تاکہ اس صورت سے احتراز کیا جائے جب کہ اُس کو پانی میں اثر انداز ہونے سے قبل نکال لیا جائے کیونکہ یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جس کو نکالا جائے اس وقت جبکہ اس سے پانی کی بُو تبدیل ہوجائے اور وہ پکنے نہ پائے، کیونکہ بُو کا بدلنا پکنے پر موقوف نہیں اس بناء پر صرف بُو کا بدلنا بلاپکائے موجبِ تقیید ہوگا اور یہ نصوص مذکورہ کے خلاف ہوگا، نصوص ۸۹ میں مذکور ہیں، کیونکہ نہ پکنے کی صورت میں اُس میں اور نقیع (نچوڑا ہوا) میں کوئی فرق نہیں ہوگا،یہ مقامِ غور ہے، تیسرا قول،غنیہ کے مطابق وہ ہے جس سے اتفاق معلوم ہوتا ہے، وہ فرماتے ہیں تقیید پانی میں اس وقت ہوتی ہے جب پکنے سے مکمل امتزاج حاصل ہوجائے، مثلاً یہ کہ پانی میں کوئی چیز پکائی جائے حتّٰی کہ مکمل طور پر پک جائے، تو اس وقت وہ پانی اپنی طبیعت سے خارج ہوجائیگااوریہ اس کاتیزی سے بہنا ہے، اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا ہوجائیگا تو پکانے والی چیز میں مخالطۃ کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ چیز پانی میں پک جائے، اور پکائے بغیر مخالطۃ میں یہ ہے کہ اس کی رقّت ختم ہوجائے اھ اور یہی بات مراقی الفلاح میں کہی گئی ہے، فرمایا نہ اس پانی سے جس کی طبیعت پکائے جانے کی وجہ سے ختم ہوگئی کیونکہ جب وہ ٹھنڈا ہوگا گاڑھا ہوجائے گا۔ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی     فصل احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)

(۲؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ    مطبعۃ الامیریۃ مصر    ص۱۵)


اقول : لاطبخ الا بالنضج کما علمت فکان الطبخ نفسہ القاعدہ من دون شریطۃ زائدۃ وھذا یوافق اھل الضابطۃ ثم اذاکان الطبخ یورث الثخونۃ مطلقاحصل توافق الاقوال ومجال المقال فیہ من وجوہ۔


میں کہتا ہوں طبخ بلانضج نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے جانا، تو طبخ بجائے خود قاعدہ ہے اس میں کسی زائد شرط کی حاجت نہیں اور یہ ضابطہ والوں کے موافق ہے، پھر جب طبخ سے مطلقاً گاڑھا پن پیدا ہوتا ہے تو اقوال میں توافق پیدا ہوگا،اور اس میں کئی وجوہ سے کلام ہوسکتا ہے۔


الاول: مااقول انہ علی ھذالم یبق الفرق بین النیئ والمطبوخ اذصارالمدارفیھماجمیعا الثخونۃ وکلام الشیخ یؤذن بالتفرقۃ۔


اوّل: یہ جو میں کہتا ہوں کہ اس بنا پر کچے اور پکے ہوئے میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ان دونوں میں دارومدار گاڑھا ہونا ہے اور شیخ کے کلام سے دونوں میں فرق معلوم ہوتا ہے۔


والثانی:  مااقول ایضاتقسیم الطبخ فی الینابیع الی صورۃ الثخونۃ وبقاء الرقۃ یؤذن بان الطبخ لایوجب الثخانۃ ولا ینفع قولہ غالبالانہ اذابردفلم یثخن وجب جوازالوضوء بہ لاحاطۃ العلم بعدم المانع۔


دوم میں کہتا ہوں ینابیع میں طبخ کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ صورتاً گاڑھا پن ہو اور رقت باقی ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبخ سے گاڑھا پن لازمی نہیں ہوتا ہے،اور ان کے قول غالب کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ جب ٹھنڈا ہونے پر گاڑھا نہ ہو تو اس سےوضوجائز ہے کیونکہ مانع کے نہ ہونے کا علم ہے۔


والثالث: قال المحقق البحر فی البحر لایتوضوء بماء تغیربالطبخ بمالایقصد بہ التنظیف کماء المرق والباقلاء لانہ ح لیس بماء مطلق لعدم تبادرہ عند اطلاق اسم الماء امالوکانت النظافۃ تقصد بہ کالسدر والصابون والاشنان یطبخ بہ فانہ یتوضوء بہ الا اذاخرج الماء عن طبعہ من الرقۃ والسیلان وبما تقرر علم ان ماذکرہ فی التجنیس والینابیع (فاثر مامر اٰنفا) لیس ھو المختار بل ھو قول الناطفی من مشایخنا رحمھم اللّٰہ تعالٰی یدل علیہ ماذکرہ قاضی خان (فنقل ماتقدم الاٰن) قال وبما قررناہ علم ان الماء المطبوخ بشیئ لایقصد بہ المبالغۃ فی التنظیف یصیر مقیدا سواء تغیر شیئ من اوصافہ اولم یتغیر فحینئذ لاینبغی عطفہ فی المختصر علی بکثرۃ الاوراق الا ان یقال انہ لما صارمقیدا فقد تغیر بالطبخ ۱؎ اھ وتبعہ ش فقال فی المرق والباقلأ انہ یصیر مقیداسواء تغیر شیئ من اوصافہ اولا وسواء بقیت فیہ رقۃ الماء اولا فی المختار کما فی البحر ۲؎۔


سوم محقق نے بحر میں فرمایا کہ اس متغیر پانی سے وضو نہ کیا جائے جس کوکسی ایسی چیز کے ساتھ پکایا گیا ہو جو تنظیف کیلئے نہیں ہوتی ہے جیسے شوربہ اور باقلا کا پانی، کیونکہ یہ مطلق پانی نہیں ہے اس لئے کہ جب پانی کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے یہ پانی متبادر نہیں ہوتا ہے اور اگر وہ چیز ایسی ہو کہ اس سے نظافت مقصود ہو جیسے جھربیری، صابون اور اشنان کو پانی کے ساتھ پکایا جائے تو اس پانی سے وضو کیا جائیگا،ہاں اگر پانی اپنی طبیعت سے نکل جائے یعنی رقت اور سیلان ختم ہوجائے تووضوجائز نہ ہوگا، اور گزشتہ تقریر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو کچھ تجنیس اور ینابیع میں ہے (وہ نقل کیا جو ابھی گزرا) وہ مختار نہیں ہے بلکہ وہ ہمارے مشائخ میں سے ناطفی کا قول ہے، قاضی خان کا قول اس پر دلالت کرتا ہے (جو ابھی گزرا وہ نقل کیا) فرمایا ہماری تقریر سے معلوم ہوا کہ پانی کو اگر کسی ایسی چیز سے جوش دیا جائے جس سے زیادہ تنظیف مقصود نہ ہو تووہ مقیدہوجائیگاخواہ اس کے اوصاف میں تغیر ہو یانہ ہو اس صورت میں اس کا عطف مختصر میں ''بکثرۃ الاوراق'' پر مناسب نہیں،ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب وہ مقید ہوگیا تو پکنے سے متغیر ہوگیا اھ ''ش'' نے بھی یہی لکھااور شوربا اور باقلأ میں لکھا کہ وہ مقید ہوجائیگا خواہ اس کے اوصاف میں تبدیلی ہو یا نہ ہو،عام ازیں کہ اس میں پانی کی رقّت رہے یا نہ رہے، مختار یہی ہے جیسا کہ بحر میں ہے اھ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق        بحث الماء     سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۸)

(۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۳)


والرّابع:  قال العلامۃ البرجندی تحت قول النقایۃ وان تغیر بالمکث اواختلط بہ طاھر الا اذا اخرجہ عن طبع الماء اوغیرہ طبخاما۳؎ نصہ واطلاق التغییر وجعلہ قسیما للاخراج من طبع الماء یتبادر منہ ان مطلق التغیر بالطبخ مانع سواء اخرجہ عن طبع الماء اولا وھذا ھو المفھوم من الھدایۃ ویؤیدہ ما فی الخزانۃ وفتاوٰی قاضی خان انہ اذاطبخ فیہ الباقلی وریح الباقل یوجد منہ لایجوز بہ التوضی وقد ذکر فی الفتاوی الظھیریۃ انہ اذاطبخ الحمص اوالباقلی ۱؎ الی اٰخر ماتقدم عن الفتح۔


چہارم علامہ برجندی نے نقایہ کے قول وان تغیر بالمکث الخ کے تحت فرمایا، تغییر کو مطلق رکھنا اور اس کو اخراج من طبع الماء کا قسیم بنانا، اس سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ مطلق تغیر پکانے کی وجہ سے مانع ہے، خواہ وہ اس کو پانی کی طبیعت سے نکالے یا نہ نکالے، ہدایہ سے یہی مفہوم ہے،اس کی تائید خزانہ اور فتاوٰی قاضی خان سے ہوتی ہے کہ اگر اس میں باقلٰی پکایا گیا اور اس کی بُو پانی میں آگئی تو اس سے وضو جائز نہیں،اور فتاوٰی ظہیریہ میں ہے کہ اذاطبخ الحمص اوالباقلی الخ جو فتح سے نقل ہوا۔ (ت)


 (۳؎ شرح النقایۃ للبرجندی    مسائل الماء    نولکشور لکھنؤ        ۱/۳۱)

(۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    مسائل الماء    نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۲)

وانا اقول: وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق فعل الناروالعیاذ باللّٰہ تعالٰی منھا تفریق الاتصالات فاذاطبخ شیئ تنزیل النارصلابتہ وتفتح منافذہ فیداخلہ الماء وتخرج اجزاؤہ اللطاف فی الماء فتورثہ ثخونۃ اذا کان الماء علی ماھو المعتاد فی طبخ الاشیاء وان لم تظھر اذاکثر الماء جدافان الکلام فی الطبخ المعھود ولا یجعل فیہ من الماء الاقدر معلوم موافق لحصول الامتزاج وھذاماافادالزیلعی واتباعہ ان بالطبخ یحصل کمال الامتزاج نعم الحرارۃ توجب اللطافۃ فمادام حارالایظھر ذلک التغیرعلی ماھوعلیہ وبہ ظھر سرماقالوااذاصاربحیث اذبرد ثخن وھذاھو الفارق بین النیئ والمطبوخ فان النیئ لیس فیہ مایمنع ظھورالثخانۃ فاحیل فیہ علی نفس ذھاب الرقۃ بخلاف المطبوخ مالم یبردفیحال فیہ علی النظر فان ظھرانہ یثخن اذابردلم یجزالوضوء بہ والاجاز والمرجع فی ھذاھوحصول النضج والادراک فان عند ذلک یحصل کمال الامتزاج وھو یوجب فی المعتاد ثخونۃ الماء فبھذاالتقریر وللّٰہ الحمد انحلت الاشکالات عن اٰخرھا۔


میں کہتا ہوں وباللہ التوفیق آگ کا کام متصل کو منفصل کرناہے جب کوئی چیز آگ پر پکائی جاتی ہے تو آگ اس کی سختی کو زائل کردیتی ہے اور اُس کے سوراخوں کو کھول دیتی ہے جس کی وجہ سے اس میں پانی داخل ہوجاتاہے اور اس کے لطیف اجزاء پانی میں آجاتے ہیں،اس طرح پانی گاڑھا ہوجاتا ہے جبکہ پانی عادت کے مطابق پکایا جائے اور جب پانی بہت زیادہ ہوتاہے تو یہ گاڑھا پن ظاہر نہیں ہوتا ہے،کیونکہ گفتگو متعارف پکانے میں ہے اوراس میں ایک معین مقدار کے پانی کی آمیزش کی جاتی ہے تاکہ امتزاج حاصل ہوجائے، زیلعی وغیرہ میں یہی ہے کہ پکانے سے کمال امتزاج حاصل ہوتا ہے،ہاں حرارت لطافت کا موجب ہوتی ہے تو جب تک وہ گرم رہتا ہے تو یہ تغیر ظاہر نہیں ہونے پاتا ہے،اسی سے یہ راز سربستہ بھی منکشف ہوگیاکہ فقہاء فرماتے ہیں جب پانی ٹھنڈا ہو کر گاڑھا ہوجائے،اور یہی چیز مابہ الامتیاز ہے کچّے اور پختہ میں،کیونکہ کچّے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو گاڑھے پن کو ظاہر ہونے سے روکتی ہو تو اس میں دارومدار صرف رقّت کے ختم ہونے پر ہے برخلاف پکے ہوئے کے جو ٹھنڈا نہ ہواہو تو اس کا دارومدار اس پر ہے کہ دیکھا جائے اگر یہ ظاہر ہو کہ ٹھنڈا ہو کر گاڑھا ہوجائیگا تو اس سے وضو جائز نہیں ورنہ جائز ہوگا،اور دارومدار اس میں پکنا ہے کیونکہ اسی وقت کمال امتزاج پایا جاتا ہے اور یہی چیز عام طور پر پانی کے گاڑھا ہونے کا موجب ہوتی ہے، اس تقریر سے تمام اشکالات رفع ہوگئے۔


فالاول: قد ظھر الفرق بین النیئ والمطبوخ۔ اول: کچے اور پکے کا فرق ظاہر ہوا۔


والثانی: الطبخ فی کلام الینابیع الاغلاء فی الماء علی النار وان لم ینضج علی سبیل عموم المجاز لابل بیان لحکم یعم المعتاد وغیرہ کمن وضع کفامن حمص فی قدر قربۃ من الماء فانہ لایثخن حین یبرد وان نضج الحمص وادرک وھذا ھو منشؤ التقییدبغالبافی کلام الغنیۃ ونظر الشرنبلالی الی المعتاد المعھود فاطلق القول انہ اذبرد ثخن وباللّٰہ التوفیق۔


دوم: ینابیع کی عبارت میں طبخ سے مراد شیئ کو جوش دینا ہے پانی میں آگ پر خواہ پکا ہوانہ ہو، یہ بطور عموم مجاز کے ہے، نہیں بلکہ یہ ایسے حکم کا بیان ہے جو معتاد وغیر معتاد دونوں کو عام ہے، مثلاً کسی نے ایک مُٹھی چنے ایک ہانڈی بھر پانی میں ڈال دیئے تو یہ ٹھنڈاہونے پر گاڑھانہ ہوگا خواہ چنے کتنے ہی پک جائیں، اور غنیہ کی عبارت میں غالباً کی قید کا یہی مفاد ہے اور شرنبلالی کی نظر معہود پر گئی تو انہوں نے مطلق قول رکھاکہ جب ٹھنڈا ہوگا تو گاڑھا ہوجائے گا وباللہ التوفیق۔


والثالث فیہ اشیاء۔ سوم اس میں چند اور قابل ذکر باتیں ہیں:


فاقول: اولا(۱) تبین ان فرض عدم التغیر اصلا مع حصول الطبخ فرض مالاوقوع لہ۔ میں کہتا ہوں اول:پکنے کے باوجودیہ مفروضہ قائم کرناکہ تغیر نہیں ہوا ہے باوجود حصول طبخ کے ایک ایسی چیز کا فرض کرنا ہے جو واقع نہیں ہوئی ہے۔


وثانیا قد(۲) علمت ان مافی الخانیۃعن الناطفی لایخالف ماقدمہ لاجرم ان عزاالعلامۃ القوام الکاکی شارح الھدایۃ ثم ابن الشلبی محشی الزیلعی ماعن الناطفی الی قاضی خان ایضافقالا اذا طبخ ولم یثخن بعد ورقۃ الماء فیہ باقیۃ جازالوضوء بہ ذکرہ الناطفی وفی فتاوٰی قاضی خان ۱؎ اھ والیہ یشیرکلام الحلیۃ اذجعل کلام الناطفی مفاد مافی قاضی خان حیث قال تحت قول الماتن لاتجوزبماء الباقلاء مانصہ سیذکر عن الجامع الکبیر تقیید عدم الجواز بماء الباقلا بما اذا کان مطبوخاوھو بحال اذا برد ثخن وزالت عنہ رقۃ الماء فیحمل ھذاالاطلاق وان وقع مثلہ لغیرالمصنف علی ذلک دفعا للتناقض ومن ثمہ لما ذکر القدوری فی غدادمالایجوزالطھارۃ بہ ماء الباقلا قال فی الھدایۃ المراد ماتغیر بالطبخ و احسن منہ حملہ علی مااذا کان مسلوبا منہ اسم الماء مطبوخا اولا کما یفیدہ مافی الخانیۃ فذکر کلامہ المارفی النیئ والمطبوخ تماما۲؎ وفیہ حدیث الریح فلوحسبہ مخالفالقول الناطفی لکان قولہ مرجوحالانہ انما یقدم الاظھرالاشھر فلم یکن یحسن نسبۃ مازیفہ الیہ ومن الدلیل علیہ ان الامام قاضی خان نفسہ صرح بھذا الذی قالہ الامام الناطفی وجزم بہ فی عامۃ المعتمدات فی شرحہ للجامع الصغیر کما عزاہ لہ فی الغنیۃ۔


دوم: خانیہ میں جو ناطفی سے منقول ہے یہ گزشتہ قول کے منافی نہیں،اسی لئے علامہ کاکی شارح ہدایہ اور ابن شلبی محشی زیلعی نے ناطفی کے قول کو قاضی خان کی طرف بھی منسوب کیا ہے،ان دونوں حضرات نے فرمایا جب پکایا گیااور گاڑھا نہ ہوا اور پانی کی رقت اس میں باقی رہی تو اس سے وضو جائز ہے، اس کو ناطفی نے ذکر کیا ہے،اور یہ فتاوٰی قاضی خان میں ہے اھ اس طرف حلیہ میں اشارہ ہے کیونکہ انہوں نے ناطفی کے کلام کوقاضی خان کی گفتگو کا ماحصل قرار دیا ہے، وہ ماتن کے قول لاتجوز بماء الباقلی کے تحت فرماتے ہیں کہ عنقریب جامع کبیر سے باقلی کے پانی کے ساتھ عدم جواز کے مقید کرنے کی وجہ بیان کرینگے کہ وہ ایسا پکا ہوا ہو کہ جب ٹھنڈا ہو تو گاڑھا ہوجائے اور اس کی رقت زائل ہوجائے تو یہ اطلاق (اگرچہ مصنّف کے علاوہ دوسرے حضرات نے بھی ایسا ہی کیا ہے)اس پر محمول کیاجائے گاکہ تناقض مرتفع ہوجائے، اس لئے جب قدوری نے اُن اشیاء کا ذکر کیا جن سےوضوجائز نہیںہے تو باقلی کے پانی کو ذکر کیا،ہدایہ میں فرمایا اس سے مراد وہ پانی ہے جو پکائے جانے سے بدل گیاہو اور اس کا حمل اس پر زیادہ اچھا ہوگا جبکہ اس پر پانی کا اطلاق ختم ہوگیا ہو خواہ وہ پکا ہوا ہو یا نہ ہو، جیسا کہ خانیہ سے پتاچلتا ہے، پھر انہوں نے اپنا گزشتہ کلام ذکر کیا جو کچے اور پختہ سے متعلق ہے، اسی میں بُو کابھی تذکرہ ہے تواگر وہ اس کو ناطفی کے قول کے مخالف سمجھتے تو ان کا قول مرجوح ہوتا، کیونکہ وہ اظہرواشہر کو مقدم کرتے ہیں، تو جس قول کو انہوں نے ناپسندیدہ قرار دیا اسی کی نسبت ان کی طرف اچھی نہیں،اس کی دلیل یہ ہے کہ خود قاضی خان نے اس چیز کی تصریح کی ہے جو امام ناطفی نے ذکر کیاہے اور اسی پر انہوں نے اپنی عام معتمدات میں جامع صغیر کی شرح میں جزم کیا ہے اورغنیہ میں اس کو ان کی طرف منسوب کیا ہے۔


 (۱؎ حاشیۃ الشلبی علی التبیین    بحث الماء    بولاق مصر    ۱/۱۹)

(۲؎ حلیہ)


وثالثا العجب انہ(۱) رحمہ اللّٰہ تعالٰی یحتج بعبارۃ الخانیۃ وقد شرط وجود الرائحۃ ثم یقول سواء تغیر شیئ من اوصافہ اولا


سوم: تعجب اس پرہے کہ وہ خانیہ کی عبارت سے استدلال کر رہے ہیں اور انہوں نے بُو کی شرط لگائی ہے پھر فرمایا عام ازیں کہ اس کے اوصاف میں سے کچھ بدلا ہوا ہو یا نہ بدلا ہوا ہو۔


 (۱؎ بحرالرائق    بحث الماء    سعید کمپنی کراچی  ۱/۶۸)


ورابعاانکرالعطف(۲) علی بکثرۃ الاوراق ولیس ثمہ مایصلح لعطفہ الاھو فان عبارۃ المختصر یتوضوء بماء السماء العین والبحر وان غیرطاھراحداوصافہ اوانتن بالمکث لابما تغیر بکثرۃ الاوراق اوبالطبخ ۲؎ فان لم یعطف علی بکثرۃ یعطف علی بما تغیرای لایتوضوء بالطبخ وھو کلام مغسول


چہارم: بکثرۃ الاوراق پر عطف کاانکار کیا ے حالانکہ وہاں صرف اسی پر عطف ممکن ہے کیونکہ مختصر کی عبارت یہ ہے یتوضوء بماء السماء الخ تو اگر بکثرۃ پر عطف نہ کیا جائے تو بما تغیر پر کرنا ہوگا، اور یہ غلط ہے۔


 (۲؎ کنز الدقائق بحث الماء     ایجوکیشنل پریس کراچی    ۱/۱۱)


وخامسا:تأویلہ(۳)بان المراد تغیر طبعہ اووصفہ بل اطلاقہ لایتمشی فی عبارۃ النقایۃ والاصلاح تغیر بالطبخ معہ وھو مما لایقصد بہ النظافۃ اذیفید علی ھذا جواز الوضوء بما تغیر من الاطلاق بالطبخ مع المنظف ولیس مرادقطعافانماالامرانہ لماتغیربالطبخ صار مقیداتغیر بالطبخ۔


پنجم: اس کی یہ تاویل کرنا کہ مراد اس کی طبیعت یا وصف کا بدلنا نہیں ہے، بلکہ ان کی عبارت کا اطلاق اصلاح ونقایہ کی عبارت میں نہیں چل سکتا ہے کہ تغیر بالطبخ معہ ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس سے نظافت مقصود نہ ہو، اس لئے کہ اس بناء پر اُس چیز سے جس سے تغیر واقع ہو وضو جائز ہوگا، یعنی جب کہ نظافت والی چیز کے ساتھ پکانے کو مطلق رکھا جائے، حالانکہ یہ قطعاً مراد نہیں ہے، کیونکہ جب پکانے سے متغیر ہوگیا تو مقید ہوگیا یہ نہیں کہ جب مقید ہوگیا توپکانے سے متغیر ہوگیا۔ (ت)


اقول: ووقع(۱) فی تعبیر ش تغییر لمفاد البحر فان قولہ فی المختار کما فی البحر یوقع من لایراجع البحرفی توھم انہ تصحیح منقول فی البحر عن اھلہ فانہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی لم یکن من اصحابہ کما اعترف بہ ش فی عقود رسم المفتی وبیناہ فی رسالتنا ھبۃ الجیر فی عمق ماء کثیرولیس کذلک وانما قال لخلافہ من قبل نفسہ لیس ھو المختار۔


میں کہتا ہوں ''ش'' کی عبارت میں تبدیلی بحر کے مفاد کیلئے ہے کیونکہ ان کا قول فی المختار کما فی البحر ایک ایسے شخص کو جس نے بحر نہ دیکھی ہو اس وہم میں مبتلا کرسکتا ہے کہ یہ بحر کے منقول کی تصحیح ہے جو انہوں نے کسی سے نقل کیا ہے،کیونکہ وہ اس کے اصحاب سے نہیں جیسا کہ اس کا اعتراف ''ش'' نے عقود رسم المفتی میں کیا ہے اور ہم نے اس کو ''ھبۃ الجیر فی عمق ماء کثیر'' میں ذکر کیا ہے جبکہ امر واقعہ یہ نہیں ہے، یہ بات انہوں نے اس لئے کہی ہے کہ وہ اپنی طرف سے اس کے مخالف ہیں، وہ مختار نہیں سمجھتے (ت)


والرابع: لماکان(۲) زوال الطبع بالطبخ ربمالایظھرالا اذابردصح التقسیم فیحال فی النیئ علی عین الثخونۃ وفی المطبوخ علی دلیلھاوکأنہ الی ھذایشیرالبرجندی بتعقیبہ بکلام الظھیریۃفاستقران شاء اللّٰہ تعالٰی ولہ الحمد عرش التحقیق٭بحسن التوفیق٭علی التطبیق والتوفیق٭ وباللّٰہ سبحنہ وتعالی التوفیق۔


چہارم: پکنے کی وجہ سے طبیعت کا زائل ہونا کبھی ظاہر نہیں ہوتا ہے، ہاں جب ٹھنڈا ہوتا ہے تو تقسیم صحیح ہے، تو کچے کا دارومدار گاڑھے پن پر ہوگا اور پکے ہوئے میں اس کی دلیل پر ہوگا اور غالباً برجندی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ اس کے بعد ظہیریہ کے کلام کو لائے ہیں،یہ اس کی مکمل تحقیق ہے۔ (ت)(ولہ الحمد الخ کا ترجمہ نہیں لکھا)

(۲۱۸)پانی میں میوے جوش دے کر اُن کا عرق نچوڑا یہ عرق اگرچہ پانی سے مخلوط ہوگا کہ حرارت نار کے سبب میوے پانی کا تشرب کریں گے خصوصاً جبکہ کُوٹ کر ڈالے اس سےوضوجائز نہیں۔ فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے:

لایجوز التوضوء بماء الفواکہ وتفسیرہ ان یدق التفاح اوالسفرجل دقانا عما ثم یعصرہ فیستخرج منہ الماء وقال بعضھم تفسیرہ ان یدق التفاح اوالسفرجل ویطبخ بالماء ثم یعصر فیستخرج منہ الماء وفی الوجھین لایجوز بہ التوضوء لانہ لیس بماء مطلق ۱؎۔


پھلوں کے پانی سے وضو جائز نہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیب یا امرود کو باریک باریک کُوٹ لیا جائے اور پھر ان کو نچوڑ کر اُن سے پانی نکالا جائے، بعض نے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ سیب یا امرود کو باریک کرکے پانی کے ساتھ پکایا جائے پھر نچوڑا جائے اور پانی نکالا جائے اور دونوں صورتوں میں اس سے وضو جائز نہیں کیونکہ یہ مطلق پانی نہیں ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان        فصل فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


(۲۱۹) یہ پانی جس میں میوے جوش دے اس کا حکم ذکر نہ فرمایا۔

واقول: وبہ استعین اگر میوے خفیف جوش دے جس میں قدرے نرم ہو کر نچوڑنے میں اچھی طرح آئیں اور نکال لئے کہ پانی میں اُن کے اجزائے لطیفہ قدر تغیر نہ ملنے پائے تو اُس پانی سے وضو جائز ہونا چاہئے اور اب یہ پانی نمبر ۱۰۸ و ۱۰۹ میں داخل ہوگا اور اگر میوے اس میں پک گئے کہ اُسے متغیر کردیا تو اُن کے نکال لینے کے بعد بھی اس پانی سے وضو ناجائز ہے یہ ۲۱۹ نمبر ہوگا۔

(۲۲۰) سر پر مہندی یا کوئی خضاب یا ضماد لگا ہوا ہے اور مسح کرتے میں ہاتھ اس پر گزرتا ہوا پہنچا یوں کہ یا تو وہ ضماد(۱) وخضاب رقیق بے جرم مثل روغن ہے تو اُسی کی جگہ مسح کیا وہ جرم دار ہے تو اس کے باہر چہارم سر کی قدر مسح کیا مگر ہاتھ اس پر ہوتا گزرا اگر اس گزرنے میں ہاتھ کی تری میں اُس خضاب وضماد کے اجزاء ایسے مل گئے کہ اب وہ تری پانی نہ کہلائے گی تو مسح جائز نہ ہوگا ورنہ جائز۔

یہ نمبر (۲۲۱) ہوا جس کا جائزات میں اضافہ ہونا چاہئے، وجیز امام کردری فصل مسح میں ہے:


مسحت علی الخضاب ان اختلطت البلۃ بالخضاب حتی خرجت عن کونھا ماء مطلقا لم یجز ۲؎ اھ اقول ولا بدمن تقیید مفھومہ بما ذکرت فاعرف۔


خضاب پر مسح کیا اگر تری خضاب سے مل گئی یہاں تک کہ ماءِ مطلق ہونے سے خارج ہوگئی تو اُس سے مسح جائز نہیں اھ میں کہتا ہوں اس کے مفہوم کو مقید کرنا ضروری ہے اس قید کے ساتھ جو میں نے ذکر کی ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ (ت)


 (۲؎ فتاوٰی بزازیۃ مع العالمگیری     الرابع فی المسح ، نورانی کتب خانہ پشاور  ۴  / ۱۵)


 (۲۲۲) پانی میں سَتُّو گھُلے ہوں کہ وہ رقیق نہ رہے اُس سے وضو ناجائز ہے، ہدایہ وکافی میں ہے: الا ان یغلب علی الماء فیصیر کالسویق لزوال اسم الماء عنہ ۱؎۔ مگر یہ کہ وہ پانی پر غالب ہو کہ پانی مثل ستوؤں کے ہوجائے،کیونکہ اب اس سے پانی کا نام ختم ہوگیا ہے۔ (ت)


 (۱؎ ہدایۃ  باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ  مطبع عربیہ کرا چی      ۱/۱۸)


خانیہ میں ہے:وان صارثخینا مثل السویق لا ۲؎۔ اور اگر ستوؤں کی طرح گاڑھا ہوجائے تو جائز نہیں۔ (ت)  (۲؎ قاضی خان    فیما لایجوز بہ التوضی نولکشور لکھنؤ  ۱/   ۹)


المقابلات


 (عـہ یعنی وہ پانی جن کی صورت جواز جائزات میں گزری یہ صورتیں ان کے مقابل ہیں ۱۲ (م)


 (۲۲۳) اہلے میں اگر اس قدر مٹی کُوڑے وغیرہ کا خلط ہے کہ پانی کیچڑ کی طرح گاڑھا ہوگیا تو اُس سے وضو جائز نہیں، خانیہ میں ہے: توضأ بماء السیل یجوز وانکان ثخینا کالطین لا ۳؎۔ اگر کسی نے سیلاب کے پانی سےوضوکیا تو جائز ہے اور اگر کیچڑ کی طرح گاڑھا ہو تو جائز نہیں۔ (ت)


 (۳؎ قاضی خا ن فیما لایجوز بہ التوضی  نولکشور لکھنؤ  ۱/   ۹)


اجناس امام ناطفی پھر منیہ میں ہے:التوضی بماء السیل ان لم تکن رقۃ الماء غالبۃ لایجوز ۴؎۔ اگر پانی کی رقت غالب نہ ہو تو سیلاب کے پانی سےوضوجائز نہیں ہے۔ (ت)


 (۴؎ متن غنیۃ المستملی  احکام المیاہ  سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


اقول: علمائے کرام پراللہ عزوجل کی رحمتیں احتیاط کے لئے ایسی نادر صورتیں بھی ذکرفرماتے ہیں ورنہ سیلاب کا ایسا ہونا بہت بعیدہے وہ اس سے تنبیہ فرماتے ہیں کہ جب اس قدر آبِ کثیر وغزیر اتنے اختلاط تراب سے ناقابلِ وضو ہوگیا تو برساتی ندیوں یا گھڑے لوٹے کے پانی کیا ذکر؟

(۲۲۴ تا ۲۵۱)کاہی آٹاپتّے پھل بیلیں شنجرف یاکسم کی زردیاں کَچ چونا ریشم کے کیڑے مینڈک وغیرہ غیر دموی جانور کے اجزا چنے باقلا وغیرہ ناج کے ریزے کو لتارروٹی کے ذرّے صابون اُشنان ریحان بابونہ خطمی برگ کنار کچے خواہ یہ چھ نظافت کیلئے پانی میں پکائے ہوئے غرض کوئی چیز حتی کہ برف جو اصل پانی ہے اگر پانی ہے اگر پانی میں مل کر اُس رقت زائل کردے اُس سے وضو ناجائز ہوگا۔


اقول: وھذا ھو محمل مافی خزانۃ المفتین عن شرح مجمع البحرین لایجوز الوضوء بماء الباقلی وماء الصابون وماء الاشنان ۱؎ اھ کما ان الاول محمل اطلاق القدوری وغیرہ الجواز فی الصابون والاشنان غیرانہ حمل قریب لان المعھودھو خلطھما قلیلا بحیث لایذھب الرقۃ وانما(۱) البعد فی ما(۱)فی شرح المجمع۔


میں کہتا ہوں خزانۃ المفتین میں جو شرح مجمع البحرین سے ہے اس کا محمل یہی ہے،اس کی عبارت یہ ہے کہ باقلی اور صابون اور اُشنان کے پانی سےوضوجائز نہیں ہے اھ جیسا کہ اوّل قدوری وغیرہ کے اطلاق کا محمل ہے ان کے اطلاق سے اشنان اور صابون کے پانی سے جواز معلوم ہوتا ہے، یہ حمل قریبی ہے کیونکہ عام طور پر یہ دونوں چیزیں کم مقدار میں ملائی جاتی ہیں کہ اس سے پانی کی رقت ختم نہیں ہوتی ہے، اور شرح مجمع میں جو ہے وہ بعید ہے۔ (ت)


 (۱؎ خزانۃ المفتین)


ان پر اکثر نصوص ان کے مقابلات میں اپنے اپنے محل پر مذکور ہُوئے اور خانیہ میں فرمایا: لووقع الثلج فی الماء وصار ثخینا غلیظا لایجوز بہ التوضوء لانہ بمنزلۃ الجمد وان لم یصر ثخیناجاز ۲؎۔ اگر برف پانی میں گر گئی اور پانی گاڑھا ہوگیا تو اس سےوضوجائز نہیں کیونکہ یہ بمنزلہ جمد کے ہے اور اگر گاڑھا نہ ہو تو جائز ہے۔ (ت)


 (۲؎ قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی    نولکشور لکھنؤ    ۱/۹)


۹یہ برف کا نص ہے کہ اگر پانی کو گاڑھا کردے اس سے وضو ناجائز ہوگا جب تک پگھل کر پانی کی رقت عود نہ کرے اور گاڑھا نہ کرے تو جائز یہ نمبر (۲۵۲) ہوا کہ جائزات میں اضافہ ہوگا۔

(۲۵۳ و ۲۵۴) جس پانی میں کوئی دوا یا غذا پکا کر تیار کی متون میں ہے لابما تغیر بالطبخ  (نہ اس پانی سے جو پکانے سے متغیر ہوجائے۔ ت)


(۲۵۵ و ۲۵۶) یوں ہی چائے یا کافی جن کے پکانے سے پانی کی رقت میں فرق آئے اگرچہ ان سے سیلان نہیں جاتا رقّت وسیلان کا فرق ضوابط میں مذکور ہوگا اِن شاء اللہ قہوہ میں گاڑھا پن ضرور مشہود ہوا ہے اور اگر اُسے بھی پانی میں اثر کرنے سے پہلے نکال لیا تو جواز رہے گا لعدم الطبخ وبقاء الطبع کما فی ۱۱۰ یہ (۲۵۷)  بھی جائزات میں زائد کیا جائے۔


 (۲۵۸ تا ۲۶۲) عرق گاؤ زبان گلاب کیوڑا بید مشک خوشبو ہوں یا اترے ہوئے یوں ہی ہر عرق اوصاف میں پانی کے خلاف ہو یا موافق غرض جو بہتی چیز پانی کی نوع سے نہیں جب پانی کی مقدار سے زیادہ اُس میں مل جائے بالاجماع اُس سے وضو نہ ہوسکے گا۔

اور اگر پانی کے برابر ملے جب بھی احتیاطاً عدمِ جواز ہی کا حکم ہے۔ بدائع میں فرمایا: فان استویا فی الاجزاء لم یذکر ھذا فی ظاھر الروایۃ وقالوا حکمہ حکم الماء المغلوب احتیاطا ۱؎ وقال فی الغنیۃ وکذا ان کانت مساویۃ احتیاطا حتی یضم الیہ التیمم عند المساواۃ ۲؎۔ اگر دونوں اجزاء میں برابر ہوں تو یہ چیز ظاہر روایت میں نہیں ہے، فقہاء نے فرمایا اس کا حکم احتیاطاً مغلوب پانی کا سا ہے۔ غنیہ میں کہا اور اسی طرح ہے جب وہ مساوی ہوں احتیاطاً حتی کہ جب دونوں برابر ہوں تو وضو کے ساتھ تیمم بھی کرلیا جائے اھ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    فصل فی الماء المقید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)

(۲؎ غنیۃ المستملی    فصل فی احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)


اقول: لم یسندہ لاحد ولم ارہ لغیرہ وفیہ نبوء عن القواعد فما اجتمع(۱) حاظر ومبیح الاغلب الحاظر ولا حکم للمغلوب وایضا اذا استویا(۲) فقد تعارضا واذا تعارضا تساقطا وایضا لیس تسمیتہ(۳) ماء باولی من تسمیۃ غیرہ فکیف ینطلق علیہ اسم الماء المطلق وما لیس بماء مطلق لایصح الوضوء بہ اصلا والاشتغال بما لایصح یکرہ تحریما کما فی الدر عن القنیۃ بل ھو اضاعۃ المال فیحرم تأمل وراجع وکانہ فھم من قولھم احتیاطا ان لھم شکا فی کونہ ماء فاحترزوا عنہ للاحتیاط فان لم یکن ماء لم یجز الوضوء بہ وانکان ماء لم یجز التیمم مع وجودہ فیجمع بینھما خروجا عن العھدۃ بیقین فانہ انکان ماء فقد توضأ وان لم یکن فقد تیمم کما فی سؤر(۱) الحمار للشک فی طھوریتہ ولیس(۲) کذلک بل الاحتیاط ھھنا بمعنی العمل باقوی الدلیلین لایستقیم لاحد ان یسمیہ ماء مطلقا فھو خارج عنہ بالیقین من دون شک ولا تخمین واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں اس کو انہوں نے کسی کی طرف منسوب نہیں کیا اور ان کے علاوہ کسی نے اس کو ذکر نہیں کیا، اور یہ قواعد سے دُوری ہے، جس چیز میں بھی حرام کرنیوالی اور مباح کرنیوالی دلیل جمع ہوجائے تو حرام کرنے والی غالب رہے گی اور مغلوب کا کوئی حکم نہ ہوگا اور جب دونوں برابر ہوں تو تعارض ہوگا اور تساقط ہوجائیگا، پھر اس کا پانی کہا جانا کسی دوسرے نام سے اولٰی نہیں ہے تو اس پر مطلق پانی کا نام کیسے بولا جائیگا اور جو مطلق پانی نہ ہو اس سےوضوبالکل جائز نہیں اور جو چیز صحیح نہ ہو اس میں مشغولیت مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ در میں قنیہ سے ہے، بلکہ یہ تو مال کا ضائع کرنا ہے لہٰذا حرام ہوگا، اس پر غور کیجئے اور مراجعت کیجئے، اور شاید انہوں نے ان کے قول احتیاطاً سے یہ سمجھا کہ ان کو اس کے پانی ہونے میں شک ہے تو احتیاطا ً اس سے انہوں نے پرہیز کیا ہے اب اگر وہ پانی نہیں تو اس سے وضو جائز نہیں اور اگر پانی ہے تو اس سے تیمم جائز نہیں، تو تیمم اور وضو دونوں کو جمع کیا جائیگا تاکہ یقین سے فریضہ ادا ہوجائے،کیونکہ اگردرحقیقت پانی ہو تو وضو ہوگیااوراگر پانی نہیں تو تیمم ہوگیا، جیسا کہ گدھے کے جُوٹھے کا حکم ہے،کیونکہ اس کے طہور ہونے میں شک ہے اور یہا ں ایسا نہیں ہے بلکہ یہاں یہ احتیاط ہے کہ اقوی الدلیلین پر عمل ہوجائے، کوئی اس کو مطلق پانی نہیں کہتا یہ اس سے یقیناً خارج ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

(۲۶۳ تا ۲۶۶) اقول ایسی بے لون چیزیں اگر مزہ پانی کے خلاف رکھتی ہوں کہ نصف سے کم مل کر بدل دیں تو باتفاق منقول وضابطہ اُس سے وضو کا عدمِ جواز چاہئے۔


اما المنقول فلان العبرۃ بالطعم حیث لالون واما الضابطۃ فلانھا ذوات وصف اووصفین وعلی کل یکفی تغیر وصف واحد فمامر عن البحر من العبرۃ(۳) بالاجزاء فی ماء لسان الثور وماء الورد المنقطع الرائحۃ ۱؎ ومثلہ فی الغنیۃ غیر مسلم فلیتنبہ۔


رہی نقل دلیل تو اعتبار مزے کا ہے جہاں رنگ نہ ہو اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ دو وصفوں والی چیز ہے یا ایک وصف والی چیز ہے اور بہرصورت ایک وصف کا بدلنا کافی ہے اور بحر میں جو ہے کہ زبانِ ثور اور گلاب کے پانی میں جس کی خوشبو ختم ہوچکی ہو اجزأ کا اعتبار ہے، مسلم نہیں، فلیتنبہ۔ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۹)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے