Music

header ads

ہ جُوٹھا ہندو یانصرانی وغیرہ کا پاک ہے یا ناپاک، اُس کے کھانے کا کیا حکم ہے Kafir Ke Jhute Ka Hukm

 مسئلہ ۴۷ : مسئولہ شیخ شوکت علی صاحب    ۶ ربیع الآخر شریف ۱۳۰۲ ہجریہ قدسیہ


کیا فرماتے ہیں علمائے ملّت اہلسنّت وجماعت اس مسئلہ میں کہ جُوٹھا ہندو یانصرانی وغیرہ کا پاک ہے یا ناپاک، اُس کے کھانے کا کیا حکم ہے اگر کوئی کافر سہواً یا قصداً حقّہ یا پانی پی لے تو اس کا کیا حکم ہے بینوا توجروا۔



الجواب : حکم اللہ ورسول کیلئے ہے رسول (۱) اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نصرانی کے کھانے سے ممانعت فرمائی، سُنن ابی داؤد وجامع ترمذی ومصنف ابو بکر بن ابی شیبہ ومسند امام احمد میں ہُلب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے:


واللفظ لابی بکر قال رأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ وسلم نھی عن طعام النصاری فقال لایتخلجن فی صدرک طعام ضارعت فیہ نصرانیۃ ۲؎۔ الفاظ ابی بکر کے ہیں فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم کو دیکھا کہ طعامِ نصرانی سے نہی فرمائی اور ارشاد کیا زنہار تیرے سینے میں وہ کھانا جنبش نہ کرے جس میں نصرانیت کا اشتراک ہو۔


 (۲؎ سنن ابی داؤد     باب کراھیۃ التقذر للطعام    مجتبائی لاہور    ۲/۷۵)


اقول: بھذا اللفظ اوردہ الامام الجلیل السیوطی فی الجامع الکبیر وقال حسن اھ وھو صریح فی رد مازعم الھروی فی تاویل الحدیث انہ نظیف کما نقلہ عنہ فی مجمع البحار ثم ردہ بقولہ وسیاق الحدیث لایناسبہ ۱؎ اھ اقول: انہی الفاظ سے اس کو امام سیوطی نے جامع کبیر میں ذکر کیا اور حسن کہا اھ اور یہ ہروی کی واضح تردید ہے انہوں نے حدیث کی تاویل کی کہ یہ صاف ستھرا ہے،یہ مجمع البحار میں اُن سے منقول ہے , پھر انہوں نے اس کو اپنے اس قول سے رد کیا اور حدیث کا سیاق اس کے مناسب نہیں۔ (ت)


 (۱؎ مجمع البحار    لفظ ضرع        منشی نولکشور لکھنؤ    ۲/۲۸۸)


اقول: وایضا(۱) یبعد مانقلہ عن الطیبی من تفسیرہ بقولہ شابھت النصرانیۃ والرھبانیۃ فی تشدیدھم وتضییقھم وکیف وانت علی الحنفیۃ السھلۃ ۲؎ اھ کیف وھذا لایلائم النھی۔


 (۲؎ طیبی شرح مشکوٰۃ)


میں کہتا ہوں یہ بھی بعید ہے کہ انہوں نے طیبی سے اس کی تفسیر یہ نقل کی ہے کہ یہ نصرانیت اور رہبانیت کے مشابہ ہے ان کی شدت اور سختی میں اور تم دین حنیف پر ہو جو سہل اور آسان ہے اھ کیسے اور یہ نہی کے مناسب نہیں۔ (ت)


اقول: وکذا(۲) یبعد مافھم منہ ابو داؤد اذ اوردہ فی باب کراھیۃ التقذر للطعام وانما تأتی لہ ذلک لان لفظ روایتہ سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ وسلم وسألہ رجل فقال ان من الطعام طعاما اتحرج منہ فقال لایتخلجن فی صدرک شیئ ضارعت فیہ النصرانیۃ ۳؎ اھ فھذا لفظ محتمل والذی ذکرناہ نص صریح فتثبت وباللّٰہ التوفیق ورحم اللّٰہ الامام اباحاتم الرازی حیث یقول ماکنا نعرف الحدیث مالم نکتبہ من ستین وجہا ۴؎۔


میں کہتا ہوں اسی طرح وہ بھی بعید ہے جو ابو داؤد نے اس سے سمجھا ہے کیونکہ انہوں نے اس کو باب کراہیۃ التقذر الطعام میں وارد کیا ہے، اور انہوں نے ایسا اس لئے کیا ہے کیونکہ ان کی روایت کے لفظ یہ ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم کو سنا،اورآپ سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان کھانوں میں سے ایک کھانا ایسا ہے جس سے میں حرج محسوس کرتا ہوں، توآپ نے فرمایا تمہارے دل میں کوئی ایسی چیز خلش پیدا نہ کرے جو نصرانیت کے ساتھ ملی ہے اھ اب ان الفاظ میں احتمال ہے اور جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ صریح نص ہے،اوراللہ ابو حاتم الرازی پر رحم فرمائے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اُس وقت تک حدیث کو نہیں پہچانتے تھے جب تک کہ اس کو ساٹھ طریقوں سے نہ لکھ لیں۔ (ت)


 (۳؎ سنن ابی داؤد    باب کراھیۃ التقذر الطعام    مجتبائی دہلی    ۲/۱۷۵)


ابو ثعلبہ خشنی(۳) رضی اللہ تعالٰی  عنہ فرماتے ہیں:قلت یارسول اللّٰہ انا نغزو ارض العدو فنحتاج الی اٰنیتھم فقال استغنوا عنھامااستطعتم فان لم تجدوا غیرھا فاغسلوھاوکلوامنھاواشربوا ۱؎۔ اوردہ الامام فی الجامع وعزاہ لابن ابی شیبۃ۔


میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم! ہم دشمن کے ملک میں جہاد کو جاتے ہیں اُن کے برتنوں کی حاجت پڑتی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایاجہاں تک بَن پڑے اُن برتنوں سے دُوررہو اور اگر اور برتن نہ ملے تو انہیں دھو کرپاک کرلو اس کے بعد ان میں کھاؤ پیو۔


 (۱؎ مصنف ابن ابی شیبہ    الاکل فی اٰنیۃ الکفار    ادارۃ القرآن کراچی    ۸/۹۰)


اقول: قد رواہ(۱)احمد والبخاری ومسلم وابو داؤد والترمذی واٰخرون وفی لفظ للترمذی قال انقوھا غسلا ۲؎۔ میں کہتا ہوں احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور دوسروں نے بھی اس کو روایت کیا ہے اورترمذی کا لفظ فاغسلوھا کی جگہ انقوھا غسلا ہے۔ (ت)


 (۲؎ جامع للترمذی    الاکل فی اٰنیۃ الکفار     امین کمپنی دہلی        ۲/۲)


اللہ عزوجل فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجِس ۔۳؎ کافر نرے ناپاک ہیں۔


 (۳؎ القرآن        ۹/۲۸)


یہ ناپاکی ان کے باطن کی ہے پھر اگر شراب وغیرہ نجاستوں کا اثر ان کے منہ میں باقی ہو تو ناپاکی ظاہری بھی موجود ہے اوراس وقت ان کا جھوٹا ایسا ہی ناپاک ہے جیسا کُتّے کا،بلکہ اُس سے بھی بدتر لخلاف مالک فی الکلب(کیونکہ کتّے کے بارے میں امام مالک کا اختلاف ہے۔ ت) اور حُقّے وغیرہ جس چیز کو اُن کا لعاب لگ جائیگا ضرور ناپاک ہوجائے گی۔


تنویر الابصار میں ہے:سؤر شارب خمرفور شربھا وھرۃ فور اکل فأرۃ نجس ۴؎۔ شرابی کا شراب پینے کے بعد فوری جھوٹا اور بلّی کا چوہا کھانے کے بعد فوری جھوٹا نجس ہے۔ (ت)


 (۴؎ الدرالمختار        فصل فے البئر    مجتبائی دہلی        ۱/۴۰)


ہنود ونصاریٰ وغیرہم اکثر شراب خور ہوتے ہیں اور مونچھیں بڑھانا اُن کا شعار اور شراب(۲) خور کی مونچھیں بڑی بڑی ہوں کہ شراب مونچھ کو لگ گئی تو جب تک مُونچھ دُھل نہ جائے گی پانی وغیرہ جس چیز کو لگے گی ناپاک کر دے گی،


درمختار میں ہے:لوشاربہ طویلا لایستوعبہ اللسان فنجس ولوبعد زمان ۱؎۔ اگر شراب خور کی مونچھیں لمبی ہوں کہ زبان ان تک نہ پہنچ سکے تو اس کا جھوٹا نجس ہے اگرچہ وہ طویل وقت کے بعد پانی پئے۔ (ت)


 (۱؎الدرالمختار        فصل فے البئر    مجتبائی دہلی        ۱/۴۰)


اور اگر ظاہری نجاستوں سے بالکل جُدا ہو جس کی اُمید کافروں میں بہت کم ہے تو اس کے جُوٹھے کو اگرچہ کُتّے کے جُوٹھے کی طرح صریح ناپاک نہ کہا جائے۔


فی التنویر والدر سؤرادمی مطلقا ولوجنبااوکافرطاھر الفم طاھرا مختصرا ۲؎۔ تنویر اور در میں ہے آدمی کا جھُوٹا چاہے وہ جنبی ہو یا کافر ہو پاک ہے کیونکہ منہ پاک ہے۔ مختصرا (ت)


 (۲؎الدرالمختار        فصل فے البئر    مجتبائی دہلی        ۱/۴۰)


اقول: مگر ہر چیز کہ ناپاک نہ ہو طیب وبے دغدغہ ہونا ضرور نہیں رینٹھ بھی تو ناپاک نہیں پھر کون عاقل اُسے اپنے لب و زبان سے لگاناگوارا کرے گا کافر کے جُوٹھے سے بھی بحمداللہ تعالٰی  مسلمانوں کو ایسی ہی نفرت ہے اور یہ نفرت اُن کے ایمان سے ناشیئ ہے۔



وفی رفعہ عن قلوبھم اسقاط شناعۃ الکفرۃ عن اعینھم اوتخفیفھا وذلک غش بالمسلمین وقد صرح العلماء کما فی العقود الدریۃ وغیرھا ان(۱) المفتی انما یفتی بما یقع عندہ من المصلحۃ ومصلحۃ المسلمین فی ابقاء النفرۃ عن الکفرۃ لافی القائھا ۳؎۔


اور اس کو ان کے دلوں سے اٹھانے میں کافروں کی بُرائی کو ان کی نگاہوں میں ختم کرنا ہے یا کم کرنا ہے، اور یہ مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے اور علماء نے تصریح کی ہے جیسا کہ عقود الدریۃ وغیرہا میں ہے کہ مفتی کو وہی فتوٰی دینا چاہئے جس میں اس کے نزدیک مصلحۃ ہو اور مسلمانوں کو مصلحۃ اس میں ہے کہ ان کے دلوں میں کافروں سے نفرت باقی رہے نہ یہ کہ نفرت ختم ہوجائے۔ (ت)


 (۳؎ الاشباہ والنظائر    کتاب القضاء الخ    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/۳۵۴)


جو شخص دانستہ اُس کا جوٹھا کھائے پئے مسلمان اُس سے بھی نفرت کرتے ہیں وہ مطعون ہوتا ہے اُس پر محبّت کفار کا گمان جاتا ہے اور حدیث(۱) میں ہے من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یقفن مواقف التھم ۴؎۔  جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تہمت کی جگہ کھڑا نہ ہو۔


 (۴؎ مراقی الفلاح مع الطحطاوی قبیل باب سجود السہو    نور محمد کتب خانہ کراچی    ص۲۴۹)


متعدد(۲) حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایاک وما یسؤ الاذن ۵؎ اُس بات سے بچ جو کان کو بُری لگے


 (۵؎ مسند امام احمد عن ابی العادیۃ        بیروت        ۴/۷۶)

رواہ الامام احمد عن ابی العادیۃ والطبرانی فی الکبیر وابن سعد فی الطبقات والعسکری فی الامثال وابن مندۃ فی المعرفۃ والخطیب فی المؤتلف کلھم عن ام العادیۃ عمۃ العاص بن عمرو الطفاوی وعبداللّٰہ بن احمد الامام فی زوائد المسند وابو نعیم وابن مندۃ کلاھما فی المعرفۃ عن العاص المذکور مرسلا وابو نعیم فیھا عن حبیب بن الحارث رضی اللّٰہ تعالی عنہم۔


اس کو امام احمد نے ابو العادیۃ سے روایت کیا اور طبرانی نے کبیر میں اور ابنِ سعد نے طبقات میں اور عسکری نے امثال میں اور ابن مندہ نے معرفۃ میں اور خطیب نے مؤتلف میں،ان سب نے اُم عادیہ، عاص بن عمرو طفاوی کی پھوپھی سے روایت کی، اور عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں،ا ور ابو نعیم اور ابن مندہ نے دونوں معرفہ میں عاص مذکور سے مرسلاً روایت کی، اور ابو نعیم نے معرفہ میں حبیب بن حارث سے روایت کی۔ (ت)


نیز بہت حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایاک وکل امر یعتذر منہ ۱؎۔ ہر اس بات سے بچ جس میں عذر کرنا پڑے۔


 (۱ ؎جامع الصغیر مع فیض القدیر        ۳/۱۱۷)


رواہ ایضا فی المختارۃ والدیلمی کلاھما بسند حسن عن انس والطبرانی فی الاوسط عن جابر وابن منیع ومن طریقہ العسکری فی امثالہ والقضاعی فی مسندہ معاً والبغوی ومن طریقہ الطبرانی فی اوسطہ والمخلص فی السادس من فوائدہ وابو محمد الابرٰھیمی فی کتاب الصلاۃ وابن النجار فی تاریخہ کلھم عن ابن عمرو الحاکم فی صحیحہ والبیھقی فی الزھدو العسکری فی الامثال وابو نعیم فی المعرفۃ عن سعد بن ابی وقاص واحمد وابن ماجۃ و ابن عساکر عن ابی ایوب الانصاری کلھم رافعیہ الی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم والبخاری فی تاریخہ والطبرانی فی الکبیر وابن مندۃ عن سعد بن عمارۃ من قولہ رضی اللّٰہ تعالٰی  عنہم اجمعین۔


اس کو بھی مختارہ اور دیلمی میں دونوں نے بسندِ حسن روایت کیا انس سے اور طبرانی نے اوسط میں جابر سے اور ابن منیع نے اور عسکری نے امثال میں اور قضاعی اپنی مسند میں ابن منیع کی سند سے ایک ساتھ اور بغوی نے اور اس کی سند سے طبرانی نے اپنی اوسط میں اور مخلص چھٹے فائدہ میں، اور ابو محمد ابراہیمی نے کتاب الصلوٰۃ میں اور ابن نجّار نے اپنی تاریخ میں، سب نے ابن عمر سے، اور حاکم نے اپنی صحیح میں اور بیہقی نے الزہد میں اور عسکری نے امثال میں اور ابو نعیم نے المعرفۃ میں سعد بن ابی وقاص سے اور احمد وابن ماجہ اور ابن عساکر نے ابو ایوب الانصاری سے، ان تمام حضرات نے اس کو حضور صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم کی طرف رفع کیا ہے،اور بخاری نے اپنی تاریخ میں اور طبرانی نے کبیر میں اور ابن مندہ نے سعد بن عمارۃ سے،انہی کا قول نقل کیا،اللہ ان سب سے راضی ہو۔ (ت)


اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی  علیہ وآلہٖ وسلم: بشروا ولا تنفروا ۱؎۔ رواہ الائمۃ احمد والبخاری ومسلم والنسائی عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔


بشارت دو اور وہ کام نہ کرو جس سے لوگوں کو نفرت پیدا ہو۔ اسے احمد، بخاری، مسلم اور نسائی نے انس رضی اللہ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا۔


 (۱؎ جامع للبخاری    کتاب العلم    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۶)


پھر اُس میں(۱) بلاوجہ شرعی فتح باب غیبت ہے اور غیبت حرام فما ادی الیہ فلا اقل ان یکون مکروھا  (تو جو اس تک پہنچائے وہ کم از کم مکروہ ضرور ہوگا۔ ت) تو دلائل شرعیہ واحادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ کافر کے جُوٹھے سے احتراز ضرور ہے اور اس(۲) باب میں یہاں نصاریٰ کا حکم بہ نسبت ہنود کے بھی سخت تر ہے کہ وجوہِ کثیرہ مذکورہ میں دونوں شریک اور نصاریٰ میں یہ امر زائد کہ یہاں ان کی سلطنت ہونے کے باعث مذہبی نفرت کی کمی میں تبدیل دین یا کم ازکم ضعف ایمان کا وہ اندیشہ بہ نسبت ہنود کہیں زیادہ ہے۔


فمن الجھل التمسک ھنا بما فی الصدر الاول اذکانوا اذلاء مقھورین تحت ایدینا فکان فی تقریبھم منا تقریبھم الی الاسلام والاٰن قدانعکس الامر ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ وقد کانت نساء ذوی الھیأت،یحضرن لیلا ونھارا الجماعات،ونھی عنہ الائمۃ الاثبات، مع قولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لاتمنعوا اماء اللّٰہ مساجدا ۲؎ للّٰہ وکم من حکم یختلف باختلاف الزمان، بل والمکان،کما تشھد بہ فروع جمۃ،فی کتب الائمۃ،وھذا ماعندی وبہ افتیت مرارا واللّٰہ ربی علیہ معتمدی، والیہ مستندی، واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی اعلم۔


یہاں یہ امر جہالت ہوگا اس چیز سے استدلال کیا جائے جو صدر اول میں تھی کیونکہ اس زمانہ میں وہ کمزور تھے اور ہمارے ماتحت تھے اس لئے ان کو اپنے قریب کرنے سے ان کو اسلام کی طرف آنے کی دعوت دینا مقصود تھی اور اب تو معاملہ ہی الٹ ہوگیا ہے، ایک زمانہ تھا کہ باعزت لوگوں کی عورتیں دن اور رات دونوں اوقات میں جماعات میں حاضر ہوتی تھیں،مگر ائمہ کرام نے اب اُن کے آنے کی ممانعت کردی ہے، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا ہے تم اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو،اور بہت سے احکام ہیں جو زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں بلکہ امکنہ کے اختلاف سے بھی مختلف ہوتے ہیں جیسا کہ کتبِ ائمہ میں بہت سی فروع اس پر شاہد ہیں میرے نزدیک یہی ہے اسی پر میں نے کئی مرتبہ فتوی دیا ہے اللہ میرا رب ہے اسی پر اعتماد اور اسی کی طرف سہارا ہے واللہ سبحانہ وتعالٰی  اعلم۔ (ت)


 (۲؎ مسند امام احمدعن ابن عمر        بیروت        ۲/۱۶)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے