الجواب :اس میں چار قول ہیں ہر ایک بجائے خود وجہ رکھتا ہے اور تحقیق جُدا ہے:
قول اول: اڑتالیس ہاتھ خلاصہ وعالمگیریہ میں اسی پر جزم فرمایا اور محیط امام شمس الائمہ سرخسی وفتاوٰی کبرٰی میں اسی کو احوط بتایا سید طحطاوی نے اُس کا اتباع کیا ہندیہ میں ہے:
ان کان الحوض مدورا یعتبر ثمانیۃ واربعون ذراعاکذا فی الخلاصۃ وھو الاحوط کذا فی محیط السرخسی ۱؎۔
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ فصل فے الماء الراکد نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۱۸)
اگر حوض گول ہو تو اڑتالیس ہاتھ کا اعتبار ہوگا، کذا فی الخلاصۃ اور یہی احوط ہے کذا فی محیط السرخسی۔ (ت(
طحطاوی میں ہے:الاحوط اعتبار ثمانیۃ واربعین ۲؎ (احوط اڑتالیس کا اعتبار کرنا ہے۔ ت(
(۲؎ طحطاوی علی الدرالمختار باب المیاہ بیروت ۱/۱۰۷)
دوم چھیالیس ہاتھ بعض کتب میں اسی کو مختار ومفتٰی بہ بتایا بحرالرائق میں نقل فرمایا:المختار المفتی بہ ستۃ واربعون کیلا یعسر رعایۃ الکسر ۱؎ اھ (مختار ومفتٰی بہ چھیالیس ہے تاکہ کسر کی رعایت کی دشواری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ت(
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۷)
اقول: یرید ان ثمہ کسر اسقط او رفع تیسیرا ثم رأیت فی الفتح ماعین الرفع حیث قال ان کان الحوض مدورافقدر باربعۃ واربعین وثمانیۃ واربعین والمختار ستۃ واربعون وفی الحساب یکتفی باقل منھا بکسر للنسبۃ لکن یفتی بستۃ واربعین کیلا یتعسر رعایۃ الکسر قال والکل تحکمات غیرلازمۃ انما الصحیح ماقدمناہ من عدم التحکم بتقدیر معین ۲؎ اھ ای عملا باصل المذھب وقد علمت ان الفتوی علی اعتبار العشر۔
میں کہتا ہوں ان کی مراد یہ ہے کہ یہاں کسر ہے جو ساقط کردی گئی ہے یابڑھائی گئی ہے آسانی کیلئے، پھر میں نے فتح میں دیکھا تو انہوں نے رفع کو متعین کردیا، فرمایا اگر حوض گول ہو تو اس کا اندازہ چوالیس اور اڑتالیس کیا گیا ہے اور مختار چھیالیس کیا گیا ہے اور حساب کے اعتبار سے اس سے کم پر بھی اکتفاء کیا جائیگا کسرِ نسبت کیلئے، لیکن چھیالیس پر فتوٰی دیا جائیگا تاکہ کسر کی رعایت میں پریشانی لاحق نہ ہو، فرمایا یہ تمام باتیں محض اپنی مرضی سے کہہ دی گئی ہیں ان کا ماننا لازم وضروری نہیں صحیح وہی ہے جو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ کسی معین مقدار کا ہونا ضروری نہیں ہے اھ یعنی اصل مذہب پر عمل کرتے ہوئے،اور آپ جان چکے کہ فتوٰی دس۱۰ پر ہے۔ (ت(
(۲؎ فتح القدیر الماء الذی یجوزبہ الوضوء ولا یجوزبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۰)
سوم چوالیس ہاتھ اس کی ترجیح اس وقت کسی کتاب سے نظر میں نہیں،جامع الرموز میں ہے: امافی المدور فیشترط ان یکون دورہ ثمانیاواربعین ذراعا وقیل اربعاواربعین فالاول احوط کمافی الکبری ۳؎۔ گول حوض میں شرط یہ ہے کہ اس کا دور اڑتالیس ہاتھ ہو،اور ایک قول ہے کہ چوالیس ہاتھ ہو تو اول احوط ہے جیسا کہ کبری میں ہے۔(ت(
(۳؎ جامع الرموز باب بیان الماہ گنبد ایران ۱/۴۸)
چہارم چھتیس ہاتھ ملتقط میں اسی کی تصحیح کی امام ظہیرالدین مرغینانی نے فرمایا یہی صحیح اور فن حساب میں مبرہن ہے،جامع الرموز میں ہے: وقیل ستۃ وثلثین وھو الصحیح المبرھن عند الحساب کما فی الظھیریۃ وفی الاولین تحقق الحوض المربع داخل المدور وفی الثالث مایساو یہ ۱؎۔ اور ایک قول ہے کہ یہ چھتیس ہے اور یہی صحیح ہے اور حساب کی رُو سے مبرہن ہے کما فی الظہیریہ اور پہلے دو میں مربع حوض مدوّر حوض متحقق ہوگیا اور تیسرے میں اس کے مساوی ہے۔ (ت(
(۱؎ جامع الرموز باب بیان الماء گنبد ایران ۱/۴۸)
اسی پر مولی خسرو نے متن غرر میں مع افادہ تصحیح اور مدقق علائی نے درمختار اور علامہ فقیہ ومحاسب شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں جزم فرمایا ردالمحتار میں ہے:
قولہ وفی المدور بستۃ وثلثین ای بان یکون دورہ ستۃ وثلثین ذراعا وقطرہ احد عشر ذراعا وخمس ذراع ومساحتہ ان تضرب نصف القطروھو خمسۃ ونصف وعشر فی نصف الدور وھو ثمانیۃ عشر یکون مائۃ ذراع واربعۃ اخماس ذراع اھ سراج وما ذکرہ ھو احد اقوال خمسۃ عہ۲ وفی الدرر عن الظھیریۃ ھو الصحیح ۳؎۔
ان کا قول کہ مدور میں چھتیس ہیں یعنی اس کادور چھتیس گز ہو اور اس کا قطر گیارہ گز اور ایک خمس ہو اور اس کی مساحت یہ ہے کہ نصف قطر یعنی ساڑھے پانچ کو اور دسویں کو نصف دور میں ضرب دی جائے، اور یہ اٹھارہ ہے،تو کل سو ہاتھ اور چار خمس ذراع ہوگا اھ سراج،اور جو انہوں نے ذکر کیا ہے وہ پانچ میں سے ایک قول ہے اور درر میں ظہیریہ سے ہے کہ یہی صحیح ہے۔(ت(
عہ۲: لم ارفی التقدیر الا اربعۃ اقوال وکانہ ارادبالخامس ماذکر المحقق ان لاتعیین ۱۲ منہ حفظہ ربہ تعالی (م(
میں نے تقدیر میں صرف چار قول دیکھے ہیں شامی نے گویا پانچویں سے وہ مراد لیا ہے جس کو محقق نے ذکر کیا ہے کہ تعیین نہیں۔ (ت(
(۳؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۲)
اقول: تحقیق یہ ہے کہ اُس کادور تقریباًساڑھے پینتیس ہاتھ چاہئے یعنی ۴۴۹ء ۳۵ تو قطر تقریباً ۵ گز ۲/۱ -۱۰ گرہ ہوگا بلکہ دس گرّہ ایک اُنگل یعنی ۲۸۴ء ۱۱ ہاتھ بیان اس کا یہ کہ اصولِ ہندسہ عہ۴ مقالہ ۴ شکل ۱۲ میں ثابت ہے کہ محیط دائرہ کو ربع قطر میں ضرب دینے سے مساحت دائرہ حاصل ہوتی ہے یا قطر دائرہ کو ربع محیط یا نصف قطر کو نصف محیط میں ضرب دیجئے یا قطر ومحیط کو ضرب دے کر ۴ پر تقسیم کیجئے کہ حاصل سب کا واحد ہے اور ہم نے(۱) اپنی تحریرات ہندسیہ میں ثابت کیا ہے کہ قطر اجزائے محیطیہ سے قدحہ لہ الط لومہ ہے نصف قطر نرحہ لرمد مح یعنی محیط جسے مقدار سے ۳۶۰ درجے ہے قطر اُس سے ۱۱۴ درجے ۳۵ دقیقے ۲۹ ثانیے ۳۶ ثالثے ۴۵ رابعے ہے۔
(عہ۴) یہ کتاب کتاب اقلیدس سے جُدا وجدید ہے ۸ مقالوں پر مشتمل اورہندسہ ومساحت ومثلث کروی سب میں مفید ہے اس میں بہت دعاوی کابیان کتاب اقلیدس پر مزید ہے فاضل محمد عصمہ مصری نے اسے ترکی سے عربی میں ترجمہ کیا ۱۲ (م(
وفی حساب الفاضل غیاث الدین جمشید الکاشی علی مانقل العلامۃ البرجندی فی شرح تحریر المجسطی لوبعہ ای ستاوخمسین مکان مہ لایفارق محسوبی الابنحو۱۱ رابعۃ وجاء بحساب اخر مربعہ رفعا ای سبعا واربعین وبالجملۃ لافرق الا فی بعض روابع وعلی ھذا الاخیر عولنا۔
اور فاضل غیاث الدین جمشید الکاشی کے حساب میں جیسا کہ علامہ برجندی نے شرح تحریر مجسطی میں لکھا ہے لوبعہ یعنی ۵۶ بجائے مہ،یہ حساب میرے حساب سے مختلف نہیں مگر صرف ۱۱ رابعہ کی مقدار میں اور دوسرے حساب سے مربعہ رفعا یعنی سینتالیس ہے، خلاصہ یہ کہ اختلاف صرف بعض روابع میں ہے اور اسی اخیر پر ہم نے اعتماد کیا ہے۔ (ت(
تو قطراگر ایک ہی محیط ۱۴۱۵۹۲۶۵ء ۳ ہے فان ۳۶۰÷ ۱۴۱۵۹۲۶۵ء ۳=۵۹۱۵۵۹۱۵۷ء ۱۱۴ تحویلہ الی الستینی مدحہ لہ الط لومر یہاں سے ہمیں دو مساواتیں حاصل ہوئیں قطر ومحیط ومساحت کو علی التوالی ق ط م فرض کیجئے پس (۱) ۱۴۱۵۹۲۶۵ء ۳ ق=ط اس لئے کہ ۱:۱۴۱۵۹۲۶۵ء ۳:: ق:ط
(۲) ۴/ق ط =م ان کے بعد قطر ومحیط(۱) ومساحت سے جو چیز گز، ہاتھ، فٹ، گرہ، وغیرہا جس معیار سے مقدر کی جائے اُسی معیار سے باقی دو کی مقدار معلوم ہوجائے گی جس کی جدول ہم نے یہ رکھی ہے۔
عہ۱: عدد معلوم یعنی مقدار محیط باجزائے قطریہ کو ص فرض کیجئے:.ص ق=ط،۴/ق ط=م:. ۴/ص ق۲=میہ عدد ۴/ص ہے ۱۲ منہ (م(
عہ۲: جبکہ ص/ط=ق،۴/ق ط=م:. ۴ص/ط۲=م یہ عدد ۴ص ہے ۱۲ منہ (م(
پھر آسانی کیلئے لوگارثم سے کام کرنے کو یہ دوسری جدول رکھی اور اس میں متمات حسابیہ سے وہ تصرفات کر دئے کہ بجائے تفریق بھی جمع ہی رہے۔
معلوم /مطلوب
لوقطر
لومحیط
لومساحت
لوقطر
لوق+۴۹۷۱۴۹۹ء۰
۲لوق+۸۹۵۰۸۹۹ء۱
لومحیط
لوط
+۵۰۲۸۵۰۱ء۱
۲لوط+۹۰۰۷۹۰۱ء۲
لومساحت
لوم+۱۰۴۹۱۰۱ء۰(۲(
لوم+۰۹۹۲۰۹۹ء۱(۲(
یہاں مساحت معلوم ہے ۱۰۰ہاتھ جس کالوگارثم ۰ء۲:.۲/۱۰۴۹۱۰۱ ء۲ =۱۰۵۲۴۵۵۰ء۱ کہ لوگارثم ۲۸۴ء ۱۱ کا ہے یہ قدر قطر ہوئی نیز ۲/۰۹۹۲۰۹۹ ء ۳ =۵۴۹۶۰۴۹ء۱ کہ لوگارثم ۴۴۹ء۳۵ کا ہے یہ مقدار دَور ہوئی۔ہمارے بیان کی تحقیق یہ ہے کہ ۲۸۴ء۱۱*۴۴۹ء۳۵=۰۰۶۵۱۶ء۴۰۰، ÷۴=۰۰۱۶ء۱۰۰ کہ سو ہاتھ سے صرف ۱۰۰۰۰/۱۶ یعنی ۶۲۵/۱ زائد ہے کہ ایک انگل عرض کا ۶۲۵/۲۴ یعنی انگل کے پچیسویں حصّے سے بھی کم ہے بخلاف حساب سراج وشرنبلالیہ کہ اُن کے خیال سے ۱۹ انگل اور واقع میں تین ہاتھ سے بھی زیادہ بڑھتا ہے کما سیأتی۔
اقول وبھذا علم مافی البیانات السابقۃ فاولا(۱) ماکان دورہ ستا وثلثین لایزید قطرہ علی ۱۱ ذراعا بخمس ذراع فقط بل بقریب من نصف ذراع لان ۳۶ لوغارثمھا ۵۵۶۳۰۲۵ء۱'+۵۰۲۸۵۰۱ء۱=۰۵۹۱۵۲۶ء۱ وھو لوغارثم ۴۵۹ء۱۱ لاینقص من النصف الاقدر ۱۰۰۰/۴۱
اس سے معلوم ہوا کہ جو کچھ سابقہ بیانات میں ہے اوّلاً جس کا دور چھتیس ہو اس کا قطر ۱۱ ذراع پر ایک ذراع کا صرف پانچواں حصہ زائد نہ ہوگابلکہ آدھے ذراع کے قریب زائدہوگاکیونکہ ۳۶ کا لوغارثم ۵۵۶۳۰۲۵ء۱'+۵۰۲۸۵۰۱ء۱=۰۵۹۱۵۲۶ء۱ہے اوروہ لوگارثم ۴۵۹ء۱۱ ہے یہ نصف سے صرف ۱۰۰۰/۴۱ کی مقدار کم ہے،
وثانیا(۲) ماکان کذا تزید مساحتہ علی مائۃ ذراع باکثر من ثلثۃ اذرع لااربعۃ اخماس ذراع وذلک لان۵۵۶۳۰۲۵ء۱*۲=۱۱۲۶۰۵۰ء۱۳' +۹۰۰۷۹۰۱ء۲ =
۱ ۵ ۹ ۰۱۳۳ء ۲ وھو لوغارثم ۱۳ء۱۰۳
اور ثانیاً جو ایسا ہو اس کی پیمائش سو ہاتھ پر تین ذراع سے زائد ہوگی نہ یہ کہ ایک ذراع کا ۵/۴ اور یہ اس لئے ہے کہ ۵۵۶۳۰۲۵ء۱*۲ =۱۱۲۶۰۵۰ء۱۳'+۹۰۰۷۹۰۱ء۲ =۰۱۳۳۹۵۱ء۲ اور وہ لوگارثم ہے ۱۳ء۱۰۳ کا،
وثالثا لوعمل(۳) بقطر ذکر بان رسم خط مثلہ ورسمت علی منتصفہ ببعد طرفہ دائرۃ فجعل دورالبئرمثلھا لم یصح فان۲ء۱۱لوغارثمہ ۰۴۹۲۱۸۰ء۱ ضعفہ ۰۹۸۴۳۶۰ء۲' +۸۹۵۰۸۹۹ء۱=۹۹۳۵۲۵۹ء۱وھو لوغارثم ۵۲ء۹۸ فیکون السطح اقل من مائۃ ذراع بذراع ونصف تقریبا وبالجملۃ ان اخذ الدور زاد علی المطلوب بثلثۃ اذرع وان اخذ القطر نقص عنہ بذراع ونصف ان ارید الجمع بینھما لم یمکن۔اما قول المحقق الشرنبلالی فی غنیۃ ذوی الاحکام حیث ذکر اولا مامر عن ش عن السراج ثم قال وبرھان ذلک اننا علمنا الدور والمساحۃ التی ھی تکسیر الدائرۃ فقسمناالمساحۃ علی ربع الدور وھو تسعۃ فخرج القطراحد عشر ذراعاوخمس ذراع وبرھان اعتبارستۃ وثلثین بقسمۃ المساحۃ وھی مائۃ ذراع واربعۃ اخماس ذراع علی نصف القطر فھو علی ماذکرناہ ۱؎ اھ
اور ثالثا اگر مذکورہ قطر پر عمل کیا جائے اس طرح کہ اسی کی مثل ایک خط کھینچا جائے اور اُس کے نصف پر اُس کے بعد کے کنارے پر ایک دائرہ کھینچا جائے اور کنویں کا دَور اسی کی مثل کیا جائے، تو صحیح نہ ہوگا، کیونکہ ۲ء۱۱ کا لوگارثم ۰۴۹۲۱۸۰ء۱ ہے اس کا دوگنا ۰۹۸۴۳۶۰ء۲'+۸۹۵۰۸۹۹ء۱=۹۹۳۵۲۵۹ء۱ ہے اور یہ لوگارثم ۵۲ء۹۸ ہے تو سطح سو ہاتھ سے تقریبا ڈیڑھ ہاتھ کم ہوگی اور خلاصہ یہ ہے کہ اگر دور لیا جائے تو مطلوب پر زائد ہوگاتین ہاتھ اور اگر قطر لیا جائے تو اس سے ڈیڑھ ہاتھ کم ہوگا اور اگر ان دونوں میں جمع کا ارادہ کیا جائے تو ممکن نہ ہوگا،اور غنیۃ ذوی الاحکام میں محقق شرنبلالی نے فرمایا پہلے تو جو ذکر کیاگیا'ش'سے، سراج سے وہ انہوں نے ذکر کیا، پھر فرمایا،اس کی برہان یہ ہے کہ ہمیں دور اور پیمائش کا علم ہے جو دائرہ کی تکسیر ہے،تو ہم نے مساحۃ کو رُبع دورپر تقسیم کیا اور وہ ۹ ہے تو قطر ۵/۱ -۱۱ ذراع نکلا، اور برہان اس امر پر کہ ۳۶ کا اعتبار مساحۃ کی تقسیم پر اور وہ مساحۃ سو ذراع اور چار خُمسِ ذراع ہے نصف قطر پر،توجیسا کہ ہم نے ذکر کیا یہ اس کے مطابق ہے اھ۔ (ت(
(۱؎ غنیہ ذوی الاحکام علی حاشیۃ غرر الاحکام فرض الغسل دارالسعادۃ مصر ۱/۲۳)
فاقول لفظ(۱)نصف ھھنا سبق قلم وصوابہ علی ربع القطر لما علمت ان ۴/ق ط =م قسمنا المعادلۃ علی ۴/ط:. ق=م÷۴/ط وھی دعواہ الاولی وثانیا قسمناھا علی ۴/ق :.ط=م÷ ۴/ق لا ۴/ق وھی دعواہ الاخری ھذا سہل وانما الشأن فی تعیین ھذہ المقادیر وما القصد الاابداء مقداردور تکون مساحتہ مائۃ ذراع فلیس بالید الاھذہ فاولا(۱)کیف عُدل عنھا الٰی
مایزید علیھاباربعۃ اخماس ذراع،
میں کہتا ہوں لفظ نصف یہاں قلم کی سبقت ہے صحیح ربع قطر ہے،جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ۴/ق ط=م،ہم نے معادلہ کو تقسیم کیا ۴/ط:.ق=م÷ ۴/ط پر اور یہ اس کا پہلا دعوی ہے۔اور ثانیا ہم نے اس کو ۴/ق:. ط=م÷ ۴/ق لا ۴/ق پر تقسیم کیا، اور یہ ان کا دوسرا دعوی ہے یہ سہل ہے اور اہم معاملہ ان مقادیر کی تعیین کاہے،اور مقصد صرف مقدار دور کا اظہار ہے جس کی مساحۃ ایک سو۱۰۰ ذراع ہو، تو ہاتھ میں یہی ہے۔اولاً یہاں اُس سے عدول کر کے وہ چیز اختیار کی گئی ہے جس پر ایک ذراع کے چار خمس زائد ہے، ایسا کیوں کیا گیا؟
وثانیا بنیتم(۲)برھان اعتبار ھذاالدورعلی قدر القطروبرھان اعتبار ھذا القطر علی قدر الدور وھذا دور،
ثانیاً اس دور کے اعتبار کی برہان کو تم نے قطر کی مقدار پر مبنی کیا ہے،اور اس قطر کے اعتبار کی برہان کو دور کی مقدار پر مبنی کیا ہے،اور یہ دور ہے۔
وثالثا بنیتم(۳) المساحۃ تبعا للسراج علی الدور والقطر وھذا ان دوران اٰخران ولکن الامران السراج بنی الامر علی الاستقراء فقرب تقریبا واذا تقرر ھذا فابانۃ القطر من الدور والمساحۃ اوالدور من القطر والمساحۃ ارادۃ تحقیق ماتقرر لاالبرھان علی ذلک وباللّٰہ التوفیق ھذا وما ذکر القھستانی من وقوع مربع عشر داخل دائرۃ محیطھا ثمانیۃ واربعون اواربعۃ واربعون۔
ثالثاً تم نے پیمائش کی بنیاد، سراج کی پیروی میں،دور اور قطر پر رکھی ہے،اور یہ دور دوسرے دور ہیں، لیکن سراج نے معاملہ کی بنیاد استقراء پر رکھی ہے تو ان کی یہ بات قریب قریب ٹھیک ہے،جب یہ ثابت ہوگیا تو قطر کو دور اور پیمائش سے الگ کرنا یا دور کو قطر وپیمائش سے الگ کرنا، ثابت شدہ چیز کی تحقیق کا ارادہ ہے اس پر برہان نہیں ہے وباللہ التوفیق، اس کو سمجھنا چاہئے، اور قہستانی نے دس کے مربع کا ذکر کیا ہے جس کے دائرہ کا محیط اڑتالیس یا چوالیس بنتا ہے۔ (ت(
۱۴۶۳۰۲۸ء۱ھذا لوالقطر'-۳۰۱۰۳۰۰ء۰ =۸۴۴۵۲۷۲۸ء۰ھذا لونصفہ اھ ثم فی مثلث اھ ب القائم الزاویۃ اھ:جیب ب وھی مہ حہ لوجیبھا ۸۴۹۴۸۵۰ء۱:: اب:ع :.۸۴۵۲۷۲۸ء۰-۸۴۹۴۸۵۰ء۱=۹۹۵۷۸۷۸ء۰ ھذا لو اب وان شئت بالعروسی فضعف لواھ۶۹۰۵۴۵۶ء۱عددھا ۰۳۹۴۵۶۸ء۴۹ ضعفہ ۰۷۸۹۱۳۶ء۹۸ لوغارثمہ ۹۹۱۵۷۵۶ء۱نصفہ ۹۹۵۷۸۷۸ء۰ مثل مامر وھو لوغارثم ۹۰۳۵ء۹ ھذا قدر الضلع ولم تبلغ عشرا کما تری ثم المساحۃ ۰۷۹ء۹۸اقل من مائۃ بنحو ذراعین لما علمت انھا ضعف مربع اھ وضعف مربع نصف القطر ھی مساحۃ المربع لان مساحتہ مربع ضلع ا ب وھو ضعف مربع اھ بالعروسی فانی یقع فیھا مربع عشر فی عشر۔
میں کہتا ہوں اس کی پہلے میں وجہ موجود ہے تو وہ اس میں لغت کے اعتبار سے واقع ہے،اگرچہ فن کی اصطلاح کے مطابق نہیں ہے، یعنی یہ کہ اس کو اس کے تمام زاویے مس کرتے ہوں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو مربع اڑتالیس کے محیط میں ہوتا ہے،اس کا ضلع دس سے لمبا ہوتا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ مربع کے دو سے زائد زاویے اس کو مس کریں،اور دوسرے میں اس کی کوئی وجہ موجود نہیں،مثلاً اع کا مربع ا ب ج ع کے دائرہ میں واقع ہو اور ھ کے مرکز پر ہو اور لو ۴۴=۶۴۳۴۵۲۷ء۱'+۵۰۲۸۵۰۱ء۱=۱۴۶۳۰۲۸ء۱ یہ لو قطر ہے۔ ۳۰۱۰۳۰۰ء۰ =۸۴۵۲۷۲۸ء۰ یہ لو اس کا آدھا ہے اھ پھر مثلث میں ا ھ ب زاویہ قائمہ اھ:جیب ب اور یہ مہ حہ لو اس کا جیب یہ ہے
۸۴۹۴۸۵۰ء۱::اب:ع:. ۸۴۵۲۷۲۸ء۰ _ ۸۴۹۴۸۵۰ء۱= ۹۹۵۷۸۷۸ء۰ یہ لو ا ب ہے او راگر تم چاہو شکل عروسی سے تواھ کادوگنا لواھ۶۹۰۵۴۵۶ء۱اس کاعدد۰۳۹۴۵۶۸ء۴۹کادوگنا ۰۷۸۹۱۳۶ع۹۸ اس کا لوگارثم ۹۹۱۵۷۵۶ء ۱۱ اس کا نصف ۹۹۵۷۸۷۸ء۰ ہے جیسا کہ گزرا اور وہ لوگارثم ہے ۹۰۳۵ء۹ کا، یہ ضلع کی مقدار ہے اور یہ دس تک نہیں پہنچ سکی ہے جیساآپ دیکھتے ہیں پھر پیمائش ۰۷۹ء۹۸ سو سے تقریباً دو ذراع کم ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ مربع کا دوگنا ہے اھ اور نصف قطر کے مربع کا دو گنا ہی مربع کی پیمائش ہے کیونکہ اس کی پیمائش ا ب ضلع کامربع ہے اور وہ اھ کے مربع کا دوگنا ہے شکل عروسی کے اعتبار سے، تو اس میں دہ در دہ کا مربع کہاں سماسکتا ہے! (ت(
(عہ۱) ای باکثر من اربعۃ اخماس ذراع وذلک لان لوالمحیط ۶۸۱۲۴۱۲ء۱'+۵۰۲۸۵۰۱ء۱ =۱۸۴۰۹۱۳ء۱ ھذا لوالقطر ۳۰۱۰۳۰۰ء۰ =۸۸۳۰۶۱۳ء۰ ھذا لو نصف القطر- لوجیب مہ ۸۴۹۴۸۵۰ء۱=۰۳۳۵۷۶۳ء۱ ھذا لو ضلع المربع الواقع فیہ فھی ۸۰۳۷۵ء۱۰ فالمساحۃ تکون اکثر من ۷۲ء۱۱۶ ھذا فی المربع اما الدائرۃ فمساحتھا اکثر من مائۃ وثلثۃ وثمانین ذراعا اھ منہ (م(
یعنی ایک ہاتھ کے چار خمس سے زیادہ کیونکہ محیط کا لوگارثم ہے ۶۸۱۲۴۱۲ء۱' +۵۰۲۸۵۰۱ء۱=۱۸۴۰۹۱۳ء۱ یہ قطر کا لوگارثم ہے ۳۰۱۰۳۰۰ء۰ =۸۸۳۰۶۱۳ء ۰یہ نصف قطر کا لوگارثم ہے۔ لوجیب مہ ۸۴۹۴۸۵۰ء۱ =۰۳۳۵۷۶۳ء۱ یہ محیط میں واقع ہونے والے مربع کے ضلع کالوگارثم ہے ۸۰۳۷۵ء۱ لہٰذا مساحت ۷۲ء ۱۱۶ سے زیادہ ہوگی یہ مربع میں ہے،رہا دائرہ تو اس کی پیمائش ایک سو تراسی ۱۸۳ ہاتھ سے زیادہ ہے۔ (ت(
تنبیہ حکم العلامۃ الشرنبلالی ببطلان سائر الاقوال سوی الرابع حیث قال والصواب کلام الظھیریۃ ولا یعدل عنہ الی غیرہ وقال فالزام قدر یزید علی الستۃ والثلثین لاوجہ لہ علی التقدیر بعشر فی عشر عند جمیع الحساب ۱؎ اھ
تنبیہ علامہ شرنبلالی نے سوائے چوتھے قول کے تمام اقوال کو باطل قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں صحیح ظہیریہ کا قول ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو اختیار نہ کیا جائے نیز فرمایا ایسی مقدار کا لازم قرار دینا جو چھتیس۳۶ سے زائد ہو اس کی کوئی وجہ نہیں جبکہ دہ در دہ کا اندازہ ہو، یہی تمام حساب دانوں کے نزدیک ہے اھ
(۱؎ غنیۃ ذوی الاحکام حاشیۃ علی الغررفرض الغسل ۱/۲۳)
اقول: وقد اشار الی الجواب عما یتوھم ان فیھا قولین مصححین بل الثانی مذیل بطراز الفتوی فکیف یمنع المصیر الیہ بل انما ینبغی التعویل علیہ وذلک ان المفتی بہ المعتمد ھو التقدیر بمائۃ والاقوال جمیعا انما ترومہ ومبنی ذلک علی الحساب دون التفقھات الغامضۃ التی لاقول لنافیھا لاسیما علی خلاف الفتوی وامر الحساب لایلتبس فاذا علمنا قطعا ان الصواب ھذا وجب ترک ماسواہ غیران قدوۃ الریاضین العلامۃ عبدالعلی البرجندی رحمہ اللّٰہ تعالٰی حاول فی شرح النقایۃ توجیہ قولی ۴۸ و ۴۴ عازیا لھذا الی الکبری والذی رأیتہ فی شرح القھستانی ان فی الکبری جعل الاول ھو الاحوط واللّٰہ تعالی اعلم وکانہ لم یقع لہ قول ۴۶ فقال تحقیق الکلام ھھنا متوقف علی ثلث مقدمات،
میں کہتا ہوں یہ اشارہ ہے وہم کے جواب کی طرف،وہم یہ ہے کہ اس میں دو قول ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی تصحیح کی گئی ہے بلکہ دوسرے قول کی بابت کہا گیا ہے کہ فتوٰی اسی پر ہے، تو اس کی طرف رجوع کرنے کو کیونکر منع کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ اس پر تواعتماد کرنا چاہئے، کیونکہ معتمد اور مفتی بہ سو کا اندازہ ہے اور تمام اقوال کا مقصود بھی یہی ہے،یہ چیز تو حساب پر مبنی ہے، اس میں لمبی چوڑی فقیہانہ ابحاث کا کوئی موقعہ نہیں،خاص طور پر فتوٰی کے خلاف کہنے کی گنجائش نہیں،اور حساب کا معاملہ تو بالکل واضح ہوتا ہے، اب جبکہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ صحیح یہی ہے تو دوسرے اقوال کا ترک لازم ہوگیا،البتہ قدوۃ الریاضیین علامہ عبدالعلی برجندی نے شرح نقایہ میں ۴۸ اور ۴۴ کے دو قول کی تشریح کی کوشش کی ہے،اس کو کبری کی طرف منسوب کیا ہے،اور میں نے شرح قہستانی میں دیکھا کہ کبری میں پہلے قول کواحوط قرار دیاہے واللہ تعالٰی اعلم اور غالباً ۴۶ کے قول کی طرف وہ متوجہ نہ ہوئے تو فرمایا یہاں تحقیق کلام تین مقدمات پر مبنی ہے،
ھی(۱) ان مربع وترالقائمۃ فی مثلث یساوی مجموع مربعی ضلعیھا وان(۲) محیط الدائرۃ ازید من ثلثۃ امثال قطرھا بسبع قطرھا وانہ(۳) اذا کانت مساحۃ دائرۃ معلومۃ وقسمت باحد عشر قسما متساویۃ و زید ثلثۃ اقسام منھاعلی مجموع المساحۃ واخذ جذر المجموع یکون قطر الدائرۃ کل ذلک مبرھن فی علمی الھندسۃ والحساب فنقول اذا کان کل من ضلعی الحوض المربع عشراذرع کان مجموع مربعی الضلعین مائتین وجذرھمااربعۃ عشر وعشرو نصف عہ۱ عشر تقریبا وھو مقدار الخط الواصل بین الزاویتین المتقابلتین وھو اطول الامتدادات الممکنۃ فی المربع المذکور للمقدمۃ الاولی فاعتبرفی الفتاوی الکبری ان یکون قطر الحوض المدور مساویالاطول الامتدادات المفروضۃ فی الحوض المربع لیمکن وقوع مربع بالشرط المذکور داخل الحوض المدور ولا یکون البعدبین جزئین متقابلین من محیط المدور فی شیئ من المواضع اقصر من اطول امتدادات المربع فیکون محیط الحوض المدور ثلثۃ امثال ذلک الامتداد وسبعہ اعنی اربعاواربعین ذراعا واربعۃ اعشار وثلثی عہ۱ عشر للمقدمۃ الثانیۃ ولما کان الکسر الزائد اقل من النصف اسقطوہ کما ھو عادۃ اھل الحساب وصاحب الخلاصۃ اعتبر ایضا مااعتبر فی الکبری لکنہ لم یتدنق فی الحساب فاخذ الکسر الزائد واحداللاحتیاط فاخذ الامتداد الاطول خمسۃ عشر فاذا اعتبرناہ قطرا یکون المحیط سبعاواربعین ذراعا وسبع ذراع فاعتبر ثمانیاواربعین تتمیما عہ۲ للکسر ،
(۱) قائمہ کے وتر کا مربع مثلث میں اس کے دو ضلعوں کے دو مربعوں کے مجموعہ کے برابر ہوتا ہے۔
(۲)اور دائرہ کا محیط اس کے قطر کی تین مثل سے اس کے قطر کے سُبع جتنا زیادہ ہوتا ہے۔
(۳)اگر ایک دائرہ کی مساحت معلوم ہو اور گیارہ پر برابر تقسیم کی جائے اور اس میں سے تین اقسام کا اضافہ کیا جائے مجموعی پیمائش پراور مجموعہ کاجذر لیاجائے تو دائرہ کا قطر نکل آئے گا۔
یہ سب علمِ ہندسہ اور حساب میں مبرہن ہے،اب ہم کہتے ہیں کہ جب ایک مربع حوض کے دونوں ضلعے دس ذراع ہوں گے تو دونوں ضلعوں کے دونوں مربعوں کا مجموعہ دو سو ہوگا اور دونوں کا جذر چودہ ذراع اور دسواں اور دسویں کاآدھا ہوگا تقریباً،اور یہی مقدار اس خط کی ہے جو دو متقابل زاویوں کے درمیان متصل ہے،اور یہ مربع مذکور میں ممکنہ امتدادات میں سب سے لمباہے اس کی دلیل پہلامقدمہ ہے تو فتاوی کبری میں اس امر کا اعتبار کیا گیا ہے کہ گول حوض کا قطر مربع حوض کے مفروضہ امتدادات میں سب سے طویل ہوتاکہ گول حوض میں شرط مذکور کے ساتھ مربع کاہونا ممکن ہو، اور گول حوض کے محیط سے دو متقابل اجزا کادرمیانی بُعد کسی جگہ بھی مربع کے امتدادات میں سے طویل ترسے چھوٹا نہ ہو تو گول حوض کا محیط اس امتداد سے تین گُنااور ساتواں ہوگایعنی چوالیس ہاتھ اور چار اعشاراور دسویں کے دو ثلث ہوں گے،یہ دوسرے مقدمہ سے ثابت ہے اورچونکہ کسرِ زائد نصف سے کم ہے تو اس کو ساقط کر دیا گیا،جیسا کہ حساب دانوں کا طریقہ ہے،اور خلاصہ کے مصنف نے وہی اعتبار کیا ہے جو فتاوٰی کبریٰ میں کیا ہے، لیکن انہوں نے حساب میں باریک بینی نہ کی، تو انہوں نے کسر زائد کو ایک اعتبار کیا احتیاطاً، تو انہوں نے طویل ترین امتداد کا اعتبار پندرہ ذراع کیا، تو جب ہم اس کو قطر قرار دیں تو محیط سینتالیس گز اور ایک ذراع کا ساتواں ہوگا، لیکن کسر کو ختم کرنے کیلئے پورے اڑتالیس کا اعتبار کیا گیاہے،
عہ۱: بل جزء من خمسۃ وعشرین جزء وشیئ قلیل فانہ ۱۲۴ء۱۴ تقریبا اھ منہ (م(
بلکہ پچیس اجزاء میں سے ایک جز اور تھوڑی مقدار کیونکہ وہ ۱۲۴ء۱۴ ہے تقریباً۔ (ت(
عہ۱:بل الکسر علی ماذکرہ ۴۷۱۴ء وھو اربعۃ اعشارواکثر من ثلثی عشر بقدر ۱۲۵/۶ تقریبا وعلی ماذکرنا ۴۴۶۳ء وھو اربعۃ اعشار واقل بثلثی عشر بقدر ۲۵۰/۵۱ ای اکثر من خمس العشر اھ منہ (م(
بلکہ ان کے ذکر کے مطابق کسر ۴۷۱۴ء ہے اوریہ چار عشر اور ایک عُشر کے دو تہائی حصے سے تقریباً ۱۲۵/۶ کی مقدار میں زیادہ ہے اور ہمارے بیان کے مطابق ۴۴۶۳ء ہے اوریہ چار عشر اور ۲۵۰/۵۱ کی مقدار میں دسویں حصے کے دو ثلث سے کم یعنی دسویں حصے کے پانچویں حصے سے زیادہ۔ (ت(
عہ۲: اقول السبع لایتم(۱) ولا احتیاط فی الاحتیاط فکان یجب ترکہ اھ منہ۔ (م(
میں کہتا ہوں کہ ساتواں حصہ مکمل نہیں ہوتااوراس احتیاط میں احتیاط نہیں ہے لہٰذا اس کا ترک کرنا واجب تھا۔ (ت(
والقاضی الامام ظہیرالدین اعتبر ان تکون مساحۃ الحوض المدورمساویۃ لمساحۃ المربع فیکون الماء فیہ مساویا لماء المربع ویشبہ ان یکون ھذا ماخوذاعمانقل عن محمدبن ابراھیم المیدانی علی مامرفنقول کانت المساحۃ مائۃ قسمناھاباحد عشر قسما کان کل قسم تسعۃ وجزء من احد عشرفاذازدنا ثلثۃ امثالھاعلی المائۃ حصل مائۃ وسبعۃ وعشرون وثلثۃ اجزاء من احد عشر وجذرہ یکون احد عشرو خمساونصف (عہ۱) سدس تقریباوھوقطردائرۃ مساحتھامائۃ للمقدمۃ الثالثۃ وثلثۃ امثالہ مع سبعہ اعنی محیط الحوض المدور یکون خمساوثلثین ذراعا ونصف ذراع الانصف (عہ۲) عشرفاعتبرواھذاالکسرواحداواخذوامحیطہ ستاوثلثین وانمااوردنا ھذہ المباحث لیظھر وجہ صحۃ اقوال ھؤلاء الائمۃ وانہ لیس شیئ منھاکما توھم بعضھم غلطاصریحا وکم من عائب قولا صحیحا ۱؎ اھ۔
اور قاضی ظہیر الدین نے گول حوض کی پیمائش مربع کی پیمائش کے مساوی قرار دی ہے، تو اس کا پانی مربع کے پانی کے مساوی ہوگا،اور غالباً یہ محمد بن ابراہیم میدانی کی نقل سے ماخوذ ہے جیسا کہ گزرا ہم کہتے ہیں پیمائش سو تھی اس کو ہم نے گیارہ پر تقسیم کیا تو ہر حصہ نو اور گیارہ کا ایک جُز ہوااور جب اس کا تین گنا سو پر زائد کیاتو ایک سو ستائیس۱۲۷اورگیارہ کے تین اجزاء حاصل ہوئے اور اس کا جذر گیارہ،اور پانچواں اور چھٹے کا تقریباً نصف ہوا اور وہ دائرہ کا قطر ہے جس کی پیمائش سو ہے، اس کی دلیل تیسرا مقدمہ ہے اور اس کا تین گنا مع ساتویں کے یعنی گول حوض کا محیط پینتیس ذراع اورنصف ذراع دسویں کانصف کم ہوگاتواس کسر کو انہوں نے پوراایک شمار کیا اور اس کا محیط چھتیس لیا اور ہم نے یہ مباحث اس لئے ذکر کیے تاکہ ان ائمہ کے اقوال کی صحت کاسبب معلوم ہوسکے اور یہ کہ ان میں سے کوئی بھی صریح غلط نہیں جیسا کہ بعض نے وہم کیا،اوربہت سے لوگ صحیح اقوال کو عیب لگاتے ہیں اھ (ت(
(عہ۱)ای اقل منہ بشیئ قلیل فانہ ۲۸۱۵۱۸ء۱۱ تقریبا اھ منہ (م(
یعنی اس سے کچھ کم کیونکہ وہ تقریباً ۲۸۱۵۱۸ء۱۱ ہے اھ (ت)
(عہ۲) بل المستثنی اقل منہ فعلی ماذکرہ ۱۰۵/۴ وعلی ماذکرنا ۵۰۰۰/۲۱۹ اھ منہ (م(
بلکہ مستثنیٰ اس سے کم ہے ان کے ذکر کے مطابق ۱۰۵/۴ ہے اور ہمارے ذکر کے مطابق ۵۰۰۰/۲۱۹ ہے اھ (ت(
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی فصل فے الحیاض نولکشور لکھنؤ ۱/۳)
اقول: رحمہ اللّٰہ تعالی وشکر سعیہ فقدجلاعن اقوال اجلاء ومحصلہ ان کلام الظہیریۃ مبتن علی اعتبار المساحۃ وسائرالاقوال علی اشتراط الامتدادین الطول والعرض وھماقولان معروفان فی المذھب وان کان عندناالمعول علی الاول کما بیناہ فی الفصل الثالث من کتابنا النمیقۃ الانقی ویؤیدہ ان صاحب الخلاصۃ قال ھھناالحوض الکبیرمقدربعشرفی عشر و صورتہ ان یکون من کل جانب عشرۃ اذرع وحول الماء اربعون ذراعا و وجہ الماء مائۃ ذراع ھذامقدارالطول والعرض ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں انہوں نے اجلّہ علماء کے اقوال سے پردہ ہٹایا ہے،اس کا حاصل یہ ہے کہ ظہیریہ کا قول پیمائش کے اعتبار پر مبنی ہے اور باقی اقوال طول وعرض کے دو امتدادوں کے شرط کرنے پر مبنی ہیں، اور یہ دونوں قول مذہب میں معروف ہیں اگرچہ ہمارااعتماد اول پر ہے جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ''النمیقۃ الانقی''کی تیسری فصل میں بیان کیا،اور اس کی تائید یہ ہے کہ اس مقام پر صاحبِ خلاصہ نے کہا کہ بڑا حوض دہ در دہ ہوتا ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ ہر طرف سے دس ہاتھ ہو اور پانی کا گرد چالیس ہاتھ ہو،اورپانی کی سطح سو ہاتھ ہو یہ طول وعرض کی مقدار ہے اھ،
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی فصل فی الحیاض نولکشور لکھنؤ ۱/۳)
فلم یکتف بقولہ وجہ الماء مائۃ بل بین الطول وفصل العرض واظھرالدورثم ذکرالوجہ وان اختارفیمابعد فی جنس فی النھر اعتبار المساحۃ حیث قال ان کان الماء لہ طول وعمق ولیس لہ عرض کانھار بلخ ان کان بحال لوجمع یصیر عشرافی عشر یجوز التوضی بہ وھذا قول ابی سلیمن الجوز جانی وبہ اخذ الفقیہ ابو اللیث وعلیہ اعتماد الصدر الشہید وقال الامام ابو بکر الطرخانی لایجوز وان کان من ھنا الی سموقند وعند من لایجوز یحفر حفیرۃ ثم یحفر نھیرۃ فیجعل الماء فی النھیرۃ الی الحفیرۃ فیتوضؤ من النھیرۃ فلو وقعت فیھا النجاسۃ یتنجس عشرۃ فی عشرۃ والمختار انہ لایتنجس الابما یتنجس بہ الحوض الکبیر ۱؎ اھ
تو انہوں نے اپنے اس قول ''پانی کی سطح سو ہاتھ ہے'' پر اکتفاء نہ کیابلکہ طول وعرض کی تفصیل بیان کی اور دور ظاہر
کیاپھراس کی وجہ بیان کی، اگرچہ اس کے بعد جنس فی النہر کی بحث میں مساحۃ کو اختیار کیافرمایاکہ اگر پانی کا طول وعمق ہواوراس کا عرض نہ ہو جیسے بلخ کی نہریں،اگر یہ اس قسم کاہو کہ جمع کرنے پر دہ در دہ ہوجائے تو اس سے وضو جائز ہے یہ ابو سلیمان الجوزجانی کاقول ہے،اوراسی کو فقیہ ابو اللیث نے اختیار کیااور صدر الشہید نے اسی پر اعتماد کیااور امام ابو بکر الطرخانی نے فرمایاکہ ایسی نہر سے وضو جائز نہیں خواہ وہ یہاں سے سمرقند تک کیوں نہ ہو،اور جو حضرات وضوکے جواز کے قائل نہیں وہ فرماتے ہیں پہلے ایک چھوٹاساگڑھا کھودا جائے پھر ایک چھوٹی سی نہر کھودی جائے اور اس نہر سے پانی نکال کر گڑھے میں لایا جائے اور نہر سے وضو کیا جائے،اب اگر اس میں نجاست گر جائے تو وہ دہ در دہ ناپاک ہوجائیگا،اور مختار یہ ہے کہ ناپاک نہ ہوگا، صرف اُسی صورت میں ناپاک ہوگاجس صورت میں بڑا حوض ناپاک ہوتا ہے اھ (ت(
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی فصل فی الماء الجاری نولکشور لکھنؤ ۱/۹)
اقول: وبہ (۱) ظھرالجواب عن ایراد الشرنبلالی فان الحساب انماقطع بذلک عند اعتبار المساحۃ دون اشتراط الامتدادین الطولی والعرضی بل قطع(۲)عندذلک بوجوب الزیادۃ علی ۴۴ فضلا عن ۳۶ کماتقدمت الاشارۃ الیہ ویوضحہ ان لیس المرادالامتدادان کیفماوقعابل محیطین بقائمۃ والالم یتساو الطول والعرض ولولاذلک لکفی مثلث کل ضلع منہ عشرۃ اذرع مع انھم نصوافیہ بوجوب ان یکون کل خمسۃ عشرذراعا وخمساکما فی السراج الوھاج والزھر النضیرللعلامۃ الشرنبلالی وقد قال البرجندی المرادبذلک ان یکون کل من الاطراف الاربعۃ عشراذرع و زوایاہ الاربع قوائم اذلولم تکن الزوایا کذٰلک لم یعتبر ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں اس سے شرنبلالی کے اعتراض کا جواب بھی معلوم ہوگیا کیونکہ ازر وئے حساب یہ بات قطعی اس وقت ہوتی ہے جب پیمائش کااعتبار کیا جائے نہ کہ طولی وعرضی امتدادوں کی شرط لگائی جائے بلکہ اس وقت ۴۴ سے زیادتی کاواجب ہونا قطعی ہوگاچہ جائیکہ ۳۶ سے جیسا کہ اس کی طرف پہلے اشارہ گزرا،اور اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ یہ مراد نہیں کہ دونوں امتداد جیسے بھی واقع ہوں بلکہ دو محیط ایک قائمہ کے ساتھ،ورنہ طول وعرض مساوی نہ ہوتے،اور اگر یہ نہ ہوتا تو اس کے ہر ضلع کا مثلث دس ہاتھ کو کافی ہوتاحالانکہ علماء نے اس میں صراحت کی ہے کہ پندرہ ذراع اور ایک خُمس کا ہونا ضروری ہے، جیساکہ ''السراج الوہاج''میں ہے اور شرنبلالی کی "الزہر النضیر" میں ہے،اوربرجندی نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ چاروں طرف میں سے ہر طرف دس۱۰ذراع ہو اور اس کے چاروں زاویے قائمہ ہوں ،کیونکہ اگر زاویے ایسے نہ ہوئے تو اس کااعتبار نہ ہوگااھ
(۲؎ شرح النقایۃ للبرجندی ابحاث الماء نولکشور لکھنؤ ۱/۳۳)
ولا یمکن وقوع مثلث قائم الزاویۃ فی دائرۃ الا فی نصفھااذلوکانت القطعۃ ازیدکانت الزاویۃ حادۃ اوانقص کانت منفرجۃ (۳۰ من ۳ من اقلیدس) وح یکون وترالقائمۃ قطرالدائرۃ فاذا کانت کل ساق عشراکان جذر القطر مائتین وھو۱۴۲ء۱۴وبالتدقیق۱۴۲۱۳۶۸ء۱۴فاذاکان ھذا قطرالدائرۃ لوغارثمہ ۱۵۰۵۱۵۰ء۱ '+۴۹۷۱۴۹۹ء۰=۶۴۷۶۶۴۹ء۱وھولوغارثم۴۲۹ء۴۴فیکون المحیط اکثر من ۴۴ وذلک مااردناہ۔
اوریہ ممکن نہیں کہ کوئی مثلث قائم الزاویہ کسی دائرہ میں ہو،ہاں نصف دائرہ میں ہوسکتا ہے کیونکہ اگر کوئی قطعہ زائد ہوتاتو زاویہ حادہ ہوجاتا،اگر کم ہوتا تو منفرجہ ہوجاتا (۳۰، ۳ میں سے،اقلیدس سے) اور اس وقت قائمہ کاوتر دائرہ کا قطر ہوجاتا،اب جبکہ ہر ساق دس ہاتھ کی ہو تو قطر کاجذر دو سو ہوتااور وہ ۱۴۲ء۱۴ ہے اور اگر باریک بینی سے کام لیا جائے تو یہ ہوگا ۱۴۲۱۳۶۸ء۱۴،توجب دائرہ کاقطر یہ ہواتواس کالوگارثم۱۵۰۵۱۵۰ء۱'+۴۹۷۱۴۹۹ء۰ =۶۴۷۶۶۴۹ء۱ہو گا اوریہ لوگارثم ۴۲۹ء۴۴ ہے تومحیط ۴۴ سے زائد ہوگا،اور یہی ہماری مراد ہے۔ (ت(
اقول: وبہ تبین وجہ ماطوی بیانہ العلامۃ البرجندی انہ لم اختیر وقوع المربع داخل المدور ان لایکون قطرھا اقصر من اطول امتدادات المربع اعنی قطرھا فان المقصود ھو الامتداد الضلعی المفروض عشرۃ دون القطری ووجہہ ان ذلک الامتداد الضلعی ضلعا لقائمۃ مساویا للضلع الاخر لایقع فی دائرۃ الا اذا کان قطرھا وتر المثلث ولا یقع الا فی نصف الدائرۃ فاذا رسم مثلہ فی النصف الاخر تم المربع وظھر وقوعہ فیھا۔
میں کہتا ہوں اس سے اس کی وجہ بھی ظاہر ہوگئی جس کا بیان علامہ برجندی نے لپیٹ دیا ہے یعنی مدور کے اندر مربع واقع ہونے کیلئے یہ شرط کیوں اختیار کی گئی ہے کہ اس کا قطر مربع کے طویل ترین امتدادات سے کم نہ ہوجائے یعنی اس کا قطر، کیونکہ مقصود امتداد ضلعی ہے جو دس فرض کیا گیا ہے، قطری نہیں ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ امتداد ضلعی،قائمہ کا ضلع ہو اور دوسرے ضلع سے مساوی ہو تو دائرہ میں تب ہی واقع ہوسکتا ہے جبکہ اس کا قطر وتر مثلث ہو اور یہ نصف دائرہ میں ہی ہوتا ہے، اب اسی کی مثل جب دوسرے نصف میں کھینچی جائے تو مربع مکمل ہو جائے گا،اوراس کا اس میں واقع ہونا ظاہر ہوجائیگا۔ (ت(
واقول :بوجہ اٰخر مربع کل ضلع منہ عشرۃ اذا وقعت نجاسۃ فی احدی زوایاھا مثل ج و وصلنا ا ع فالنصف المقابل لھا وھو مثلث ال ب ع
اور ایک دوسرے طریقہ پر میں کہتا ہوں ایک ایسا مربع ہے کہ جس کا ہر ضلع دس ہاتھ ہے اب اگر اس کے ایک زاویہ مثلاً ج میں نجاست پڑ جائے
ا ب ح ء علی مرکز ھ وقعت النجاسۃ عند ح فاخرجنا قطر ح ب واقمنا عمودا علیہ قطراء فالنصف المقابل لموقع النجاسۃ ا ب ع وابعد نقاطہ منہ ب وھو عشرۃ اذرع فجمیع النقاط لاتزال تقرب من ح ویکون اقرب الکل الیہ نقطتااع (۷ من ۳ من اقلیدس) فلم تنسج الدائرۃ علی منوال المربع المطلوب بل علی ضدہ وعکسہ فیجب ان یکون اقرب النقاط الی ح وھما ا و ع کل بفصل عشرۃ و ح یکون شأن الدائرۃ شأن المربع سواء بسواء ان بُعد کل من اوع عشرۃ ثم لایزال یزداد حتی یکون ابعدہ علی ب واذن یکون قطر الدائرۃ ھو وتر المثلث فیکون ا ع اعنی ح ب اکثر من اربعۃ عشر ذراعا بما تقدم وثبت وقوع المربع فی الدائرۃ۔
اور ہم ا ع کو ملائیں تو اس کا نصف مقابل جو ا ب ع کا مثلث ہے اس کو دو خط محیط ہیں، ایک ا ب والا دوسرا ب ع والا اور ہر نقطہ جو اُن دونوں پر فرض کیا جائے اس کی دوری نجاست سے دس ہاتھ ہوگی یا اس سے زائد ہوگی تو ا اور ع میں سے ہر ایک کی دوری دس ہاتھ ہے پھر وہ مسلسل زیادہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ا کا بعد ب کے نقطہ پر چودہ ذراع سے زائد ہوگا اس قاعدے کی وجہ سے جو گزرا، یہ ہے وہ مربع حوض جس کے پانی کو شرعاً کثیر کہا جاتا ہے، اگر حوض مدوّر ہو اور ہم اس کا قطر دس مقرر کریں یہ دیکھ کر کہ مطلوبہ بُعد یہی ہے، جیسا کہ وہم کرنے والے نے وہم کیا ہے اب ا ب ح ء کا دائرہ ھ کے مرکز پر ہوگا، اب نجاست ح کے پاس گری تو ہم نے ح ب کا قطر نکالا اور اس پر ایک عمود قائم کیا جو ا ع کا قطر ہے تو وہ نصف جو موضع نجاست کے مقابلے میں ہے وہ ا ب ع ہے اور اس کا بعید ترین نقطہ ب ہے اور وہ دس ہاتھ ہے، اور تمام نقاط ح کے قریب ہوتے جاتے ہیں اور سب سے قریب ا ع کے نقطے ہیں (۷،۳ سے اقلیدس سے) تو دائرہ مطلوب مربع کے طریق پر نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی ضد پر اور اس کے عکس پر، تو لازم ہے کہ ح کے قریب تر نقطے ا اور ع ہیں ہر ایک میں دس کا فاصلہ ہے اور اس وقت دائرہ کا حال مربع کے حال کی طرح ہوگا، بالکل برابر، یعنی دونوں ا اور ع کا بعد دس ہے،پھر بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں بعید ترب ہے اس وقت دائرہ کا قطر مثلث کا وتر ہوگا تو اع یعنی ح ب چودہ ہاتھ سے زائد ہوگا بسبب اس قاعدے کو جو گزرا اور مربع کا دائرہ میں واقع ہونا ثابت ہوا۔ (ت(
اقول: ومن ھھنا ظھرت ثلثۃ امور اخرالاول لم یصحح قول ۴۴ لان فیہ نقصا من المطلوب کما علمت والمقادیر المقدرۃ لا یعمل فیھا بالاسقاط الثانی حیث ان القطر ۱۴۲ء۱۴ ففی جعلہ۱۵بالرفع مجازفۃکثیرۃکما فی قول ۴۸ وفی جعلہ ۱۴بالاسقاط نقص من المقصود وھو لایسوغ فکان العدل التوسط بینھما وھو جعلہ ۵ء۱۴ ثلثۃ امثالہ ۵ء۴۳ وسبعہ ذراعان و کسرفالمجموع اکثر من خمسۃ واربعین ذراعا ونصف والکسر اذا زاد علی النصف بل واذا بلغ النصف یؤخذ واحدا کما ھو عادۃ الحساب فاعتبر المحیط۴۶ الثالث ظھر قول الفتح ان فی الحساب یکتفی باقل منھابکسر لکن یفتی بستۃ واربعین کیلا یتعسر رعایۃ الکسر ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں کہ اس سے تین امور ثابت ہوئے:اوّل، ۴۴ کے قول کی تصحیح نہیں کی گئی ہے کیونکہ یہ مطلوب سے ناقص ہے، جیساکہ آپ کو معلوم ہوا، اور مقدرہ مقادیر میں اسقاط کا عمل نہیں ہوتا،؎
ثانی یہ کہ قطر ۱۴۲ء۱۴ ہے تو اس کو اگر بڑھا کر اندازاً ۱۵ بنالیا جائے تو یہ اٹکل پچّو کے سوا کچھ نہیں ہے جیساکہ ۴۸ کے قول پر ہے اور اگر ساقط کرکے اس کو ۱۴ بنایا جائے تو مقصود سے کم ہوگا اور یہ درست نہیں ہے، تو انصاف یہ ہے کہ ان دونوں میں درمیانہ درجہ اختیار کیا جائے،اور وہ یہ ہے کہ ۵ء۱۴ اس کا تین گنا ہے ۵ء۴۳اور اس کا ساتوں دو۲ ذراع ہیں اور کسر ہے تو مجموعہ ۴۵ ذراع اور نصف سے زائد ہے اور کسر جب نصف سے زائد ہوجائے بلکہ جب نصف تک پہنچ جائے تو اس کو پورا ایک شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ حساب دانوں کی عادت ہے، تومحیط ۴۶ اعتبار کیا گیا۔
ثالث، فتح کا یہ قول ظاہر ہوگیا کہ حساب میں کسر کے ساتھ اس سے کم پر اکتفاء کیا جائے گا،لیکن ۴۶ پر فتوٰی دیا جائے گا تاکہ کسر کی رعایت دشوار نہ ہو اھ
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء وما لایجوز بہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۰)
وظھر وجہ الافتاء بہ لانہ اعدل الاقوال لاتقتیر ولا اسراف ولا تقصیر ولا جزاف ھکذا ینبغی ان یفھم کلام العلماء الکرام والحمداللّٰہ ولی الانعام ولا یذھبن عنک ان کل ذلک بناء علی اشتراط الامتدادین والصحیح الماخوذالمعتمدالقصرعلی المساحۃ فلذلک کان التعویل علی ماصححہ فی الظھیریۃ والملتقط والذخیرۃ مع مافیہ من تقریب وان شئت اقرب شیئ الی التحقیق فقد اذناک بہ وباللّٰہ التوفیق۔
اور اس پر افتاء کی وجہ ظاہر ہوگئی کیونکہ یہ اعدل الاقوال ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہے، اسی طرح علماء کے کلام کو سمجھنا چاہئے،اور یہ مخفی نہ رہے کہ یہ سب اس بنا پر ہے کہ دو امتدادوں کی شرط ہے اور صحیح ماخوذ معتمد مساحۃ پر انحصار ہے لہٰذا اعتماد اس پر ہوگا جو ظہیریہ، ملتقط اور ذخیرہ میں صحیح قرار دیا گیا ہے، پھر اس میں تقریب ہے اور اگر تحقیق کے قریب تر چیز کی تلاش ہو تو ہم نے تمہیں اس پر آگاہ کردیا ہے وباللہ التوفیق۔ (ت(
تنبیھات:(۱) اقول مقدمۃ البرجندی الثالثۃ مبنیۃ علی الثانیۃ لما علمت ان ۴/ق ط=م فاذا کان ق:ط::۷:۲۲ کان ۷/۲۲ق=ط:. ۲۸/۲۲ق۲ بل ۱۴/۱۱ق۲=م :.۱۱ق۲=۱۴م :.ق۲=۱۱/۱۴م:. ق=۱۱/۱۴م وھو المطلوب وقد علمت انہ تقریب بعید ولکن لایخل بالمقصود فان علی التحقیق ق:ط ::۷:۹۹۱۱۴۸۵۵ء۲۱:. الخ ۷/۹۹ ء ۲۱ ق =ط:. الخ ۲۸/۹۹ء۲۱ق۲=م:. ق=الخ۹۹ء۲۱/۲۸م فلوغارثم المساحۃ یجمع فی لو ۲۸-لوالخ ۹۹ء۲۱ ولو ۲۸=۴۴۷۱۵۸۰ء۱ والاخر ۳۴۲۲۴۷۹ء۱ حاصل التفریق ۱۰۴۹۱۰۱ء ۰مثل ماقدمنا فی جدولنا یجمع فیہ لوالمساحۃ وینصف الحاصل یکن لوالقطر فکان القطر کما قدمنا ۲۸۴ء۱۱ والمحیط ۴۴۹ء۳۵ خمسۃ وثلثین وکسرا لایبلغ النصف وھو حاصل حساب البرجندی رفع الکسر لما علمت ان الاسقاط فی المقادیر باطل فکان الدور ۳۶ وھو المقصود۔
تنبیہات: (۱) میں کہتا ہوں برجندی کا تیسرا مقدمہ دوسرے پر مبنی ہے، جیساکہ آپ نے جاناکہ ۴/ق ط=م توجب ق :ط::۷:۲۲ہواتو۷/۲۲ق=ط:.۲۸/۲۲ق۲ بلکہ ۱۴/۱۱ق۲=م :. ۱۱ق۲=۱۴م :. ق۲=۱۱/۱۴م :. ق=۱۱/۱۴م ہوگا اور یہی مطلوب ہے،اور آپ جان چکے یہ تقریب بعید ہے لیکن مقصود میں مخل نہیں کیونکہ تحقیقی طور پر ق:ط ::۷:۹۹۱۱۴۸۵۵ء ۲۱ :. ۷/الخ۹۹ء۲۱ق=ط :. الخ ۲۸/۱۹۹ء۲۱ق۲=م :.ق= الخ۹۹ء۲۱/۲۸م تو مساحۃ کے لوگارثم کو جمع کیاجائیگالو ۲۸-لوالخ ۹۹ء۲۱ولو ۲۸=۴۴۷۱۵۸۰ء۱ میں اور دوسرا ۳۴۲۲۴۷۹ء۱ حاصل تفریق ۱۰۴۹۱۰۱ء۰ ہے جیسا کہ ہم نے اپنے جدول میں بیان کیا، اس میں مساحۃ کا لو جمع کیا جائیگا اور حاصل کو آدھا کیا جائے گا تو لوقطر ہوگاتو جیساکہ ہم نے لکھا قطر ۲۸۴ء۱۱ ہوگا اور محیط ۴۴۹ء۳۵اور کچھ کسر ہوگی جو نصف تک نہیں پہنچے گی اور یہی برجندی کے حساب کا حاصل ہے کسر بڑھائی اس لئے گئی ہے کہ آپ جان چکے ہیں کہ مقادیر کا ساقط کرنا باطل ہے تو دور ۳۶ ہوا اور یہی مقصود ہے۔
(۵)قال فی الدر وفی (۴) المثلث من کل جانب خمسۃ عشرو ربعا وخمسا ۱؎ اھ وفی بعض النسخ اوخمسا واعترضہ ط بان الحساب یقینی فلا معنی للتردید واختار تبعا لنوح افندی الربع وان المساحۃ مائۃ ذراع وثلثۃ ارباع ذراع وشیئ قلیل لایبلغ ربع ذراع۔
(۵) در میں فرمایا اور مثلث میں ہر طرف سے ۱۵،چوتھائی اورپانچواں ہے اھ اور بعض نسخوں میں یا پانچواں ہے، اور اس پر "ط" نے اعتراض کیاکہ یہ حساب یقینی ہے تواس میں تردید کا کوئی مفہوم نہیں اور انہوں نے نوح آفندی کی متابعت میں چوتھائی کو مختار کہااور یہ کہ مساحۃ ایک سو ۱۰۰ ذراع اورایک ذراع کے تین رُبع ہیں اور کچھ مزید جو چوتھائی ذراع کو نہیں پہنچتا۔ (ت(
(۱؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶)
اقول(۱) بل ولا سدس ۳۶/۱ مسدس ذراع کما ستعلم وجعل ش نسخۃ اواصوب اقول اذ(۲) النسخۃ الواو حظ من صواب ولیس کذلک وبناھا علی الاختلاف فی التعبیر فان نوحا عبر بالربع والسراج والشرنبلالی بالخمس واختار تبعالھما الخمس وان المساحۃ مائۃ ذراع وشیئ قلیل لایبلغ عشر ذراع،
میں کہتا ہوں بلکہ ذراع کے سدس کے چھٹے کو بھی نہیں پہنچتاجیساکہ آپ عنقریب جان لیں گے اور ''ش'' نے او کے نسخہ کو درست قرار دیا، میں کہتا ہوں اس صورت میں واو کا نسخہ بھی کچھ صحیح ہوسکتا ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے، اور انہوں نے اس کا مبنٰی تعبیر کے اختلاف کو قرار دیا ہے کیونکہ نوح نے چوتھائی سے تعبیر کیا اور سراج اور شرنبلالی نے پانچویں سے تعبیر کیا،اور خمس کو ان دونوں کی متابعت میں مختار قرار دیااور یہ کہ مساحۃ سو ذراع اور قدرے ہے جو ایک ذراع کے دسویں تک نہیں پہنچتی ہے۔
اقول بل(۳) یبلغہ بل یغلبہ کما ستری قال وعلی التعبیر بالربع یبلغ نحو ربع ذراع اقول بل اکثر (۴) من ثلثۃ ارباعہ وذلک ان ط عن افندی وش عن السراج نقلا مؤامرۃ مساحتہ ان تضرب احد جوانبہ فی نفسہ فماصح اخذت ثلثہ(۵) وعشرہ فھو مساحتہ ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں،ایسا نہیں ہے بلکہ یہ مقدار اس سے زائد ہوجاتی ہے جیسا کہ آپ عنقریب دیکھ لیں گے،فرمایاجب اس کو چوتھائی سے تعبیر کیا جائے تو یہ تقریباً چوتھائی ذراع ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس کے تین چوتھائی سے بھی زائد ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ''ط'' نے آفندی سے اور "ش" نے سراج سے اس کی پیمائش کا حساب یہ نقل کیا کہ اس کے کسی کنارے کو خود اُسی میں ضرب دی جائے تو جو جواب ہو اس کا تہائی اور دسواں اس کی پیمائش ہے اھ۔
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ ۱/۱۳۲)
اقول: وھذا وان کان فیہ ماستعرف فالعمل بہ علی وجھین الاول ان تأخذ ثلث المربع وعشرہ مع الکسر وھو الذی(۶) عملا بہ مع قولھمافماصح الخ ولذا قال السراج فی مربع خمسۃ عشر والخمس ان ثلثہ علی التقریب ۷۷ ولو اخذ الصحیح فقط لکان ثلثہ تحقیقا،
میں کہتا ہوں اس میں کچھ بحث ہے جو آپ جان لیں گے پھر بھی اس کا عمل دو طریقوں پر ہے، پہلا تو یہ ہے کہ مربع کا تہائی اور دسواں مع کسر کے لیا جائے، اور اسی پر ان دونوں نے عمل کیا ہے، ساتھ ہی ان کا یہ قول ہے فماصح الخ اور اس لئے سراج نے پندرہ اور پانچویں کے مربع میں فرمایا کہ اس کا تہائی تقریبی ۷۷ہے، اور اگر صرف صحیح لیا جائے تو اس کا ثلث تحقیقی ہوگا،
وقال نوح فی مربع خمسۃ عشر والربع ان ثلثہ ۷۷ ونصف ذراع وسدس ثمنہ وعشرہ ۲۳ وربع ونصف ثمن عشر وماذلک الاباعتبار الکسر والثانی العمل علی ماصح فقط فعلی الاول مربع ۲ء۱۵=۰۴ء۲۳۱ ثلثہ ۰۱۳ء۷۷ وعشرہ ۱۰۴ء۲۳ مجموعھما ۱۱۷ء۱۰۰وھواکثرمن العشرومربع ۲۵ء۱۵=۵۶۲۵ء۲۳۲ ثلثہ ۵۲۰۸۳ء۷۷ وعشرہ ۲۵۶۲۵ء۲۳ مجموعھما ۷۷۷۰۸ء۱۰۰وھو اکثر من ۷۵ء وعلی الثانی ۳/۲۳۱=۷۷وعشرہ۱ء۲۳مجموعھما۱ء۱۰۰فقد بلغ العشرو ۳/۲۳۲ = ۳ء۷۷ وعشرہ ۲ء۲۳ مجموعھما۵ء۱۰۰وھو نصف بل اکثر لان ۳ دائر،
اور نوح نے پندرہ اورچوتھائی کے مربع کی بابت فرمایا کہ اس کا تہائی ۷۷، اور آدھا ذراع اور ثُمنِ ذراع کا سُدس ہے اور اس کا عُشر ۲۳ اور رُبع اور عُشر کے ثُمن کا نصف ہے اور یہ کسر ہی کے اعتبار سے ہوسکتا ہے،اور دوسرا عمل صرف صحیح کے مطابق ہے۔تو پہلی صورت میں مربع ۲ء۱۵=۰۴ء۲۳۱اس کاثلث ۰۱۳ء۷۷ اس کا دسواں ۱۰۴ء۲۳ ہے ان دونوں کا مجموعہ ۱۱۷ء ۱۰۰ہے اور یہ دسویں سے زائد ہے اور مربع ۲۵ء۱۵=۵۶۲۵ء۲۳۲،اس کا تہائی ۵۲۰۸۳ء۷۷،اور اس کا دسواں ۲۵۶۲۵ء۲۳،ان دونوں کا مجموعہ ۷۷۷۰۸ء۱۰۰ہے اوریہ ۷۵ء سے زائد ہے،اور دوسری تقریرپر ۳/۲۳۱=۷۷ہے اور اس کا دسواں ۱ء۲۳، ان دونوں کامجموعہ ۱ء۱۰۰ تو دسواں ہوگیا اور ۳/۲۳۲=۳ء۷۷ ہے اور اسکا دسواں ۲ء۲۳ ہے ان دونوں کا مجموعہ ۵ء۱۰۰ ہے اور وہ آدھا ہے بلکہ زائدہے کیونکہ ۳ دائر ہے۔
ثم اقول: التحقیق ان الکسر اقل من الخمس یعبربہ لقلۃ التفاوت جدا ولیکن مثلثامتساوی الاضلاع اذفیہ الکلام کما
سمعت من قول الدرمن کل جانب کذا فکل زاویۃ منہ سدس الدور ومساحۃ کل مثلث نصف مسطح العمود والقاعدۃ وھی ھھنا مثل سائر الاضلاع اخرجنا علی ب ج عمود۱ء ففی مثلث ا ع ح القائم الزاویۃ ا ح:ع::ا ع:جیب ۶۰حہ ولنسم ا ح الضلع ض و ا ع عمود عم وذلک الجیب منحطا لکونہ جیب السدس جس فبحکم التناسب ض جس= عم وحیث ان ۲/ض عم=۱۰۰:.ض۲ جس=۲۰۰ بل ض۲=جس/۲۰۰ :. ض = جس /۲۰۰ ولو ۲۰۰=۳۰۱۰۳۰۰ء۲ولوجس۹۳۷۵۳۰۶ء۱حاصل الطرح ۳۶۳۴۹۹۴ء۲ نصفہ ۱۸۱۷۴۹۷ء۱ ھذا لوض فھو ۱۹۶۷۱۳۸ء۱۵کسرااقل من ۲ء ثم لوض_ لوجس=۱۱۹۲۸۰۳ء۱ھذا لوعم فھو۱۶۰۷۳۹۴ء۱۳ثم لوض+لوعم = ۳۰۱۰۳۰۰ء۲طرحنا منہ لو۲ بقی۰۰۰۰۰۰۰ء۲ وھو لو ۱۰۰ تماما من دون زیادۃ ولا نقص وبوجہ اٰخر فی استعلام ض حیث ان مربع نصف الشیئ ربع مربع الشیئ فبالعروسی عم۲+۴/ض۲=ض۲: . عم۲=۴/۳ض۲:. عم=۴/۳ض۲ وکان عم ض=۲۰۰:.ض ۴/۳ض۲ =۲۰۰بل۴/۳ض=ض/۲۰۰: . ۴/۳ض۲=ض۲/۴۰۰۰۰ : .۳ض۴= ۱۶۰۰۰۰بل ض۴=۳/۱۶۰۰۰۰: .لوالمقسوم ۲۰۴۱۲۰۰ء۵- لوالمقسوم علیہ ۴۷۷۱۲۱۳ء۰=۷۲۶۹۹۸۷ء۴ ربعہ ۱۸۱۷۴۹۷ء۱ مثل الحساب الاول سواء۔
پھر میں کہتا ہوں کہ تحقیق یہ ہے کہ کسر خمس سے کم ہے لیکن خمس سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں تفاوت بہت ہی کم ہے، یہ ایک مثلث ہے اس مثلث کے تمام اضلاع برابر ہیں، کیونکہ کلام اسی میں ہے، درکا کلام اس بابت
آپ سُن ہی چکے ہیں کہ ہر طرف سے ایسا ہی ہو تو اس کا ہر زاویہ دور کا چھٹا ہے اور ہر مثلث کی پیمائش عمود کی مسطح کا نصف ہے اور قاعدہ یہاں تمام اضلاع کی مثل ہے ہم نے ب ج پر ایک عمود نکالا جس کا نام ا ع ہے تو ا ع ح جو زاویہ قائمہ والا ہے ا ح:ع::اع:جیب ۶۰حہ، ا ح ضلع کا نام ہم نے ض رکھا اور ا ع عمود کا عم رکھا اور وہ جیب گر رہا ہے، کیونکہ جیب چھٹا جس ہے تو تناسب کے قاعدہ سے ض جس=عم ہے اورچونکہ ۲/ض عم=۱۰۰:. ض جس۲=۲۰۰ ہے بلکہ ض۲= جس ۲۰۰:. ض=جس/۲۰۰ ولو ۲۰۰=۳۰۱۰۳۰۰ء۲ ولوجس ۹۳۷۵۳۰۶ء۱ طرح کا حاصل ۳۶۳۴۹۹۴ء۲ ہو جس کا آدھا ۱۸۱۷۴۹۷ء۱ یہ لوض ہے تو وہ ۱۹۶۷۱۳۸ء۱۵ بطور کسر ۲ء سے کم ہے، پھر لوض_ لوجس =۱۱۹۲۸۰۳ء۱'یہ لوعم ہے تو وہ ۱۶۰۷۳۹۴ء۱۳ ہے پھر لوض + لوعم =۳۰۱۰۳۰۰ء۲ہے تو ہم نے اس لو۲ کو کم کیا تو ۰۰۰۰۰۰۰ء۲ بچا اور یہ پورا لو۱۰۰ ہے، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں، اور دوسرے طریقے پر ض کے استعلام میں، کہ کسی چیز کا آدھا مربع اس چیز کے مربع کا چوتھائی ہوتا ہے تو شکل عروسی سے عم۲+۴/ض۲ =ض۲:. عم۲=۴/۳ض۲ :.عم=۴/۳ض۲ اور عم ض=۲۰۰ :.ض ۴/۳ض۲=۲۰۰ بلکہ ۴/۳ض۲=ض/۲۰۰ :.۴/۳ض۲ =ض۲/۴۰۰۰۰ :۔۳ض۴= ۱۶۰۰۰۰ بلکہ ض۴=۳/۱۶۰۰۰۰:۔ لومقسوم ۲۰۴۱۲۰۰ء۵- لومقسوم علیہ ۴۷۷۱۲۱۳ء۰= ۷۲۶۹۹۸۷ء۴ اس کا ربع ۱۸۱۷۴۹۷ء۱ اور یہ بالکل پہلے حساب کے مساوی ہے۔ (ت(
میں کہتا ہوں اور اسی سے وہ اعتراض ظاہر ہوا جو مذکورہ پیمائش کا مؤامرہ ہے کیونکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ۰ ۳/۱۳ض۲= م یعنی ۱۵/۱۳ض۲=۲م اور تو نے جان لیاکہ ض ۴ /۳ض۲=۲م وہ دونوں قسمیں مساوی ہیں جن کو ہم نے ض پر تقسیم کیا:.۱۵/۱۳ض=۴/۳ ض ۲:. ۲۲۵/۱۶۹ض۲=۴/۳ض۲:. ۶۷۶ض۲=۶۷۵ض۲اور وہ محال ہے یعنی ۲۳۱ و ۲۳۲=۰ ہاں تخمینہ میں کوئی مضائقہ نہیں اور یہ مثلث کی اس قسم کے ساتھ خاص ہے جو ہم نے ذکر کیا وہ عام ہے،
ثم اقول : ھذاالذی ذکر فی مساحۃ المثلث انما یبتنی علی القول المعتمد من اعتبار المساحۃ وحدھا اما علی(۱) القول الاٰخر من اعتبار الامتدادین فلابد ان یکون کل ضلع اکثر من احد وعشرین ذراعاونصف ذراع بکسر قریب جزء من احد وعشرین جزء من ذراع وذلک لانہ یجب وقوع مربع عشر فی المثلث کما علمتہ فی الدائرۃ فلیکن ع ح المربع رسمناعلی ع لامنہ مثلا مثلث ع ب ہ متساوی الاضلاع واخرجنا ب ع ح ر حتی التقیا علی اواخرجناب ہ رح
حتی التقیا علی ح فمثلث ا ب ح ھوالمطلوب اماالالتقاء فلانااذاوصلنا ب ح کانت زاویۃ ب ح ر جزء قائمۃ ہ ح ر و زاویۃ ا ب ح جزء ا ب ہ ثلثی القائمۃ فقد خرجا من اقل من قائمتین واماان ا ب ح المثلث المطلوب فلان زاویتی ھ ء اء ھ ح متساویتان بالمامونی فباسقاط قائمتی ہ ء رء ہ ح تبقی ر ء ا ح ھ ح متساویتین وفی ھذین المثلثین زاویتاروح قائمتان وضلعار ء ہ ح متساویان فزاویتا اوح متساویتان (۲۶ من اولی الاصول) وحیث ان ب ثلثاقائمۃ والمجموع کقائمتین (۳۲ منھا) فالکل متساویۃ وبوجہ اخصر حیث ان ب ہ ء ثلثاقائمۃ و ء ہ ح تمامھا الی قائمتین (۱۳منھا) فباسقاط ہ القائمۃ منھا تبقی ح ہ ح ثلث قائمۃ فباسقاطھا مع ح القائمۃ من مثلث ہ ح ح تبقی ح ثلثی قائمۃ وکذلک افا لزوایا الثلاث متساویۃ فکذا الاضلاع الثلاث والا لاختلفت الزاویا (۱۸منھا)فمثلث ا ب ح المار بزوایاالمربع الاربع متساوی الاضلاع وذلک مااردناہ واذفی مثلث ہ ح ح القائم الزاویۃ ہ ح:ع::ہ ح:جیب السدس و ہ ح ۱۰بالفرض:.۰۰۰۰۰۰۰ء ۱-۹۳۷۵۳۰۶ء۱ =۰۶۲۴۶۹۴ء ا وھو لوغارثم ۵۴۷ء۱۱ھذامقدار ھ ح وقد کان ب ہ ۱۰:. ب ح ۵۴۷ء۲۱ وذلک مااردناہ واللّٰہ تعالی اعلم وصلی اللہ علی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ و بارک وسلم ابداامین والحمدللّٰہ رب العلمین۔
پھر میں کہتا ہوں مثلث کی پیمائش میں جو انہوں نے ذکر کیاہے قول معتمد پر مبنی ہے کہ صرف پیمائش کا اعتبار کیاجائے، اور دوسرا قول جس میں دو امتدادوں کا اعتبار ہے تو اس میں یہ ضروری ہے کہ ہر ضلع میں ساڑھے اکیس ذراع پر کچھ کسر زائد ہو جو ذراع کے اکیسویں جزء کے لگ بھگ ہوگی،اس کی وجہ یہ ہے کہ دس کے مربع کامثلث میں ہوناضروری ہے جیسا کہ آپ نے دائرہ میں جانا، تو اب ء ح کامربع ہم نے ء ہ پر کھینچا مثلاً مثلث ء ب ہ جس کے اضلاع برابر ہوں اور ہم نے ب ء ح ر نکالا یہاں تک کہ وہ دونوں ا پر ملے،
ہم نے ب ہ ر ح نکالایہاں تک کہ وہ دونوں ح پر ملے تومثلث ا ب ح کا بنا وہی مطلوب ہے،جہاں تک ملنے کا تعلق ہے تو جب ہم نے ب ح کو ملایا تو ب ح ر کا زاویہ ہ ح ر کے زاویہ قائمہ کا جزء ہوا، اور ا ب ح کا زاویہ ا ب ہ کا جزء ہوا، جو قائمہ کا دو ثلث ہے، کیونکہ یہ دونوں قائموں سے اقل ہے، اور ا ب ح کا مثلث مطلوب ہے کیونکہ ھ ء ا ء ھ ح کے دونوں زاوئے مامونی سے متساوی ہیں تو ہ ء رء ہ ح کے دونوں قائموں کو ساقط کرنے کے بعد ر ء ا ح ھ ح دونوں متساوی ہیں اور ان دونوں مثلثوں میں روح کے دونوں زاویے قائمے ہیں اور ر ع ہ ح کے دونوں ضلعے برابر ہیں تو ا و ح کے دونوں زاویے برابر ہوں گے (۲۶ پہلی اصل سے) اور چونکہ ب ایک قائمہ کادو ثلث ہے اور مجموعہ دو قائموں کی مانند ہے (۳۲ اسی اصل سے) تو سب برابر ہوئے اور بطور اختصار چونکہ ب ہ ء ایک قائمہ کادو ثلث ہے اور ء ہ ح جو دو قائموں کے برابر ہے (۱۳ اسی اصل سے) تو ہ کو قائمہ کیلئے ساقط کرنے سے باقی رہتا ہے ح ہ ح ثلث قائمہ کاتو اس کو ح کے قائمہ کے ساتھ ساقط کرنے سے ہ ح ح کے مثلث سے ح باقی رہ جائیگا جو ایک قائمہ کادو ثلث ہے اور اسی طرح ا کا حال ہے تو تینوں زاویے برابر ہیں، تو اسی طرح تینوں اضلاع برابر ہوں گے ورنہ زاویے مختلف ہوجائیں گے (۱۸ پہلی اصل سے) تو ا ب ح کا گزشتہ مثلث مربعوں کے چاروں زاویوں کے ساتھ برابر ضلعوں والا ہوگااور یہی ہم نے ارادہ کیا تھا اور چونکہ ہ ح ح زاویہ قائمہ والے مثلث میں ہ ح:ع::ہ ح:جیب چھٹا ہے وہ ح۱۰ بالفرض:. ۰۰۰۰۰۰۰ء۱-۹۳۷۵۳۰۶ء۱ =۰۶۲۴۶۹۴ء۱ اور یہ لوگارثم ۵۴۷ء۱۱ کا ہے یہ مقدار ھ ح اور ب ہ ۱۰:. ب ھ ۵۴۷ء۲۱ اور یہی ہماری مراد تھی واللہ تعالٰی اعلم وصلی اللہ تعالی علی سیدنا ومولٰینا محمد وآلہٖ وصحبہ وبارک وسلم ابداً اٰمین والحمدللہ رب العالمین۔ (ت(
مسئلہ ۴۵: ۲ جمادی الآخرہ ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وضو نہر سے افضل ہے یا حوض سے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: وضو نہر سے افضل ہے مگر کسی مصلحتِ خاصہ کے باعث۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کسی معتزلی کے سامنے اُسے غیظ پہنچانے کو حوض سے وضو افضل ہے کہ معتزلہ اسے ناجائز کہتے ہیں۔
فتح القدیر میں ہے:فی فوائد الرستغفنی التوضی بماء الحوض افضل من النھر لان المعتزلۃ عہ۱ لایجیزونہ من الحیاض فیرغمھم بالوضوء منھا اھ وھذا انما یفید الافضلیۃ لھذا العارض ففی مکان لایتحقق النھر افضل ۱؎ اھ
فوائد الرستغفنی میں ہے نہر کی بہ نسبت حوض سے وضو کرناافضل ہے کیونکہ معتزلہ حوضوں سے وضو کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں اس طرح ان کی تذلیل ہوگی اھ اس سے افضل ہونے کی یہ عارضی وجہ معلوم ہوتی ہے جہاں یہ وجہ نہ ہو وہاں نہر سے وضو افضل ہوگا۔ (ت(
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۲)
عہ۱: فی المعراج بناء علی جزء لایتجزء فانہ عند اھل السنۃ موجود فتصل اجزاء النجاسۃ الی جزء لایمکن تجزئتہ فیکون باقی الحوض طاھراوعند المعتزلۃ معدوم فیکون کل الماء مجاورا للنجاسۃ فیکون الحوض نجسا عندھم وفی ھذا التقریر نظر اھ قال ش فی توضیحہ عند الفلاسفۃ کل جسم قابل لانقسامات غیر متناھیۃ فلا یوجد جزء من الطاھر الا ویقابلہ جزء من النجاسۃ فتصل اجزاء النجاسۃ بجمیع اجزاء الماء اھ
معراج میں ہے یہ جزء لایتجزی پر مبنی ہے، کیونکہ یہ اہل السنۃ کے نزدیک موجود ہے تو نجاست کے اجزاء ایسے جزء تک پہنچیں گے جو منقسم نہیں ہوتا ہے، تو باقی حوض طاہر رہے گا اور معتزلہ کے نزدیک جزء نہیں ہے اس لئے کل پانی نجاست کا پڑوسی ہوگا، تو ان کے نزدیک حوض نجس ہوگا،اس تقریر میں نظر ہے اھ "ش" نے اس کی توضیح میں فرمایا فلاسفہ کے نزدیک ہر جسم لامتناہی تقسیم کو قبول کرتا ہے تو پاک پانی کے ہر جزء کے مقابل ایک ناپاک جزء ہوگا تو اجزاء نجاست تمام اجزاء پانی کے ساتھ متصل ہوجائیں گے اھ
اقول اولا: این(۱) القابلیۃ من الفعلیۃ والجسم عندھم متصل بالفعل فلایلاقی الامالاقی وثانیالوقسم(۲) لم یلزم ایضااتصال اجزاء النجاسۃ بجمیع اجزاء الماء لان الانصاف علی نسبۃ الاضعاف فاذا کانت النجاسۃ قدر اصبع والماء الف ذراع فنصفھا نصف اصبع وشطرہ خمسمائۃ ذراع وھکذا الی مالایتناھی وتساوی التقسیم لایستلزم تساوی الاقسام فیما بینہما الاتری ان ایام الابد و سنیہ کلا غیر متناہ والیوم لایساوی السنۃ ابدا وکفی بھذین لتوجیہ النظر ووجہہ ش بما توضیحہ مع تلخیصہ ان لوبنیت المسألۃ علیہ لماتنجس عندنا من الماء الا مایساوی النجاسۃ حجما فقطرۃ بقطرۃ ونصفھا بنصفھا۔
میں کہتا ہوں قابلیۃ اور فعلیۃ میں بہت فرق ہے، اور جسم ان کے نزدیک متصل بالفعل ہے تو وہ صرف اسی سے ملے گا جس سے ملا ہوا ہے،اور ثانیاً اگر تقسیم بھی کیا جائے تو لازم نہیں آتاکہ نجاست کے تمام اجزاء پانی کے تمام اجزاء سے متصل ہوں کیونکہ انصاف اَضعاف کی نسبت کے مطابق ہی ہوگا، مثلاً نجاست ایک انگلی کی مقدار ہے اور پانی ہزار ذراع ہے، تو اس کا نصف آدھی انگلی ہوا اور اس کا آدھا پانسو ذراع ہوا اور اسی طرح الیٰ مالا نہایۃ تک ہوگا، اور تقسیم کی تساوی سے اقسام کی تساوی لازم نہیں آتی ہے، مثلا ابد کے ایام اور سال غیر متناہی ہیں اور ایک دن ہرگز بھی ایک سال کے برابر نہیں ہوسکتا ہے اوریہ دونوں نظر کی توجیہ کو کافی ہیں اور "ش" نے اس کی جو توجیہ کی ہے اس کی تلخیص مع توضیح یہ ہے کہ اگر مسئلہ اسی پر مبنی ہو تو ہمارے نزدیک صرف اتنا ہی پانی نجس ہوگا جتنا کہ نجاست کے مساوی ہے، تو ایک قطرہ ایک قطرہ ہی کے مقابل ہوگا اور نصف اس کے نصف کے مقابل ہوگا۔
اقول: وایضا یلزم المعتزلۃ لوقالوا بہ تنجیس البحر العظیم بقطیرۃ قال علی ان المشہور ان الخلاف فی الجزء بین المسلمین والفلاسفۃ بنواعلیہ قدم للعالم وعدم حشر الاجساد والمعتزلۃ لم یخالفوا فی شیئ من ذلک والا لکفروا اھ
میں کہتا ہوں اگر معتزلہ کا یہی قول ہوتاتو ان پر یہ لازم آتا کہ ایک قطرہ سے پورا سمندر ناپاک ہوجائے، انہوں نے فرمایا علاوہ ازیں مشہور یہ ہے کہ اختلاف جزء میں فلسفیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہے،اور فلاسفہ نے اس پر عالم کے قدم اور حشر ونشر کی نفی کی بنیاد رکھی ہے اور معتزلہ نے ان چیزوں میں کسی کی مخالفت نہیں کی ہے ورنہ وہ کافر قرار پاتے اھ
اقول: لیس(۱) نفی الجزء کفرا ولا لازم المذھب مذھبا لاسیما تلک اللوازم البعیدۃ وکم من لزوم علی مذاھب المعتزلۃ القائلین بھا قطعا ثم لم یکفروافلیکن ھذا منھا فکیف یرد نقل الثقۃ علی انہ یکفی(۲) فیہ ان یکون قول بعضھم کما قال تعالی قالت الیھود عزیرن ابن اللّٰہ قالوا قالھا طائفۃ قلیلۃ منھم کانت وبانت قال فالاولی ماقیل من بناء المسئلۃ علی ان الماء یتنجس عندھم بالمجاورۃ وعندنا لابل بالسریان وذلک یعلم بظھور اثرھا فیہ فمالم یظھر لایحکم بالنجاسۃ ھذا ما ظھر لی فاغتنمہ اھ
میں کہتا ہوں جزء کی نفی کفر نہیں ہے اور نہ ہی لازم مذہب،مذہب ہوتا ہے، خاص طور پر یہ لوازم بعیدہ،اور جو معتزلی مذہب رکھتے ہیں ان پر بہت سے لوازم ہیں، مگر ان کی تکفیر نہیں کی جاتی ہے، سو یہ لازم بھی منجملہ ایسے لوازم کے ہو جائے، تو ثقہ کی نقل کو کیسے رد کیا جائے، علاوہ اس کے اس میں اتنا کافی ہے کہ یہ بعض کا قول ہو، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے ''یہود نے کہا کہ عزیراللہ کے بیٹے ہیں'' علماء فرماتے ہیں یہ صرف ایک گروہ کا قول تھا اور یہ فرقہ ختم ہوگیا، فرمایا بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ مسئلہ اس امر پر مبنی ہے کہ پانی ان کے نزدیک مجاورۃ کی وجہ سے ناپاک ہوجاتا ہے، اور ہمارے نزدیک سرایت کی وجہ سے، اور اس کا پتا اس سے لگتا ہے کہ اس کا اثر پانی میں ظاہر ہوتا ہے، تو جب تک اثر ظاہر نہ ہو نجاست کا حکم نہ لگایا جائے گا، یہ مجھ پر ظاہر ہوا ہے تم اس کو غنیمت جانو۔
اقول: نص فی(۲) البدائع ان التنجس بالتجاور وبینا(۳) فی النمیقۃ الانقی ان الماء القلیل یتنجس معالا بالسریان علی انھم(۴) اذلم یفرقوا بین القلیل والکثیر یلزمھم بالمجاورۃ ایضا تنجیس البحر الکبیر برشح یسیر(۲) فالحق عندی ان ذلک مبنی علی انھم لایلحقون الکثیر بالجاری واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ حفظہ ربہ تعالٰی۔ (م(
میں کہتا ہوں بدائع میں اس کی تصریح کی ہے کہ نجس ہونے کی وجہ مجاورۃ ہے اور ہم نے النمیقۃ الانقی میں بیان کیا ہے کہ تھوڑا سا پانی یک دم ناپاک ہوجاتا ہے نہ کہ سرایت سے، علاوہ ازیں انہوں نے قلیل وکثیر میں فرق نہیں کیا ہے، ان پر یہ لازم ہے کہ وہ کہیں ایک بڑے سمندر کا پانی بھی مجاورۃ سے ناپاک ہوجاتا ہے خواہ تھوڑے سے چھینٹے کیوں نہ ہوں، میرے نزدیک حق یہ ہے کہ وہ کثیر پانی کو جاری کے ساتھ ملحق نہیں کرتے ہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت(
اقول: اس مصلحت سے اہم دفع تہمت ہے کہ معاذ اللہ لوگوں کو اس پر اتباع معتزلہ کا گمان ہو اس کے دفع کیلئے ایسا کرے اس(۱)کی نظیر مسح موزہ ہے کہ رافضی خارجی ناجائز جانتے ہیں اگر کسی کو اس پر گمان خروج ہو تو اس کے دفع کو مسح موزہ افضل ورنہ فی نفسہٖ پاؤں دھونا افضل۔
دُرمختار میں ہے:الغسل افضل الالتھمۃ فھو افضل ۲؎۔ موزے پر مسح سے پاؤں دھونا افضل ہے مگرتہمت سے بچنے کیلئے مسح افضل ہے۔ (ت(
(۲؎ درمختار باب المسح علی الخفین مجتبائی دہلی ۱/۴۶)
ردالمحتار میں ہے:لان الروافض والخوارج لایرونہ وانما یرون المسح علی الرجل فاذا مسح الخف انتفت التھمۃ بخلاف مااذا غسل فان الروافض قدیغسلون تقیۃ فیشتبہ الحال فی الغسل فیتھم افادح ۱؎۔
رافضی خارجی پاؤں پر مسح کرتے ہیں اگر موزے پر مسح کرے گا تو تہمت ختم ہوجائے گی بخلاف اس کے کہ جب وہ دھوئے گا کہ رافضی تقیہ سے دھو بھی لیتے ہیں غسل کی صورت میں صورت حال مشتبہ ہوجاتی ہے توتہمت کا خدشہ ہوگا افادح (ت(
(۱؎ ردالمحتار باب المسح علی الخفین مصر ۱/۱۹۳)
اقول: رافضی تقیہ سے سب کچھ کرلیتے ہیں یوں ہی وہابی مجالس میلاد مبارک میں جائیں قیام کریں گیارھویں شریف کی نیاز میں حاضر ہوں پلاؤ کھانے کو موجود اور دل میں شرک وحرام، لہٰذا ہم نے نفی تہمت خروج سے تصویر کی۔
قال ش ماذکرہ الشارح نقلہ القھستانی عن الکرمانی ثم قال لکن فی المضمرات وغیرہ ان الغسل افضل وھوالصحیح کمافی الزاھدی اھ وفی البحر عن التوشیح ھذا مذھبنا وقال الرستغفنی المسح افضل ۲؎ اھ
"ش" نے فرمایا جو شارح نے ذکر کیا ہے اس کو قہستانی نے کرمانی سے نقل کیا ہے پھر فرمایا لیکن مضمرات وغیرہ میں ہے کہ غسل افضل ہے اور یہی صحیح ہے جیسا کہ زاہدی میں ہے اھ اور بحر میں تو شیح سے منقول ہے ''یہ ہمارا مذہب ہے'' اور الرستغفنی نے کہا کہ مسح افضل ہے اھ (ت(
(۲؎ ردالمحتار باب المسح علی الخفین مصر ۱/۱۹۳)
اقول: ھذاسبق نظرانمانقل عن الکرمانی التخییربین الغسل والمسح ونقل اولویۃ المسح عن الذخیرۃ ثم ھولایمس(۱) ماذکرالشارح فان کلامہ عند وجود التھمۃ والذی فی الذخیرۃ وغیرھا اولویۃ المسح حکما مطلقاوعلیہ یرد التصحیح المذکور واللّٰہ تعالی اعلم۔
میں کہتا ہوں ان کی نظر چُوک گئی ہے، کرمانی سے تو یہ نقل کیا ہے کہ غَسل اور مسح میں اختیار ہے اور ذخیرہ سے مسح کی اولویت نقل کی ہے پھر یہ اس کے مطابق نہیں ہے جس کو شارح نے ذکر کیا ہے کیونکہ ان کاکلام وجوہِ تہمت کے متعلق ہے اور جو ذخیرہ وغیرہ میں ہے وہ مسح کے اولیٰ ہونے کا مطلق حکم ہے اور اسی پر مذکور تصحیح وارد ہوتی ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت(
ثم اقول: اُس سے بھی اہم دفع وسوسہ ہے اگر کوئی شخص وسوسہ میں مبتلا ہو حوض سے وضو کرتے کراہت رکھتا ہو اُسے حوض ہی سے وضو افضل ہے کہ قطع وسوسہ ہو ورغم الشیطان اھم من رغم المعتزلی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۶:۱۰ شوال ۱۳۱۲ ہجریہ قدسیہ : اس مسئلہ میں علمائے دین کیا فرماتے ہیں کہ ایک اہلِ اسلام اور ایک ہنود کو حاجت غسلِ جنابت ہے اُن دونوں کا آبِ غسل پاک ہے یا کچھ فرق ہے؟ ایک اہلِ اسلام نے اپنی بی بی سے صحبت کی اور غسل کیا وہ پانی پاک ہے یانہیں؟ اور ہنود نے بھی ایسا ہی کیا ہے اُس کے غسل کا پانی جو مستعمل ہو کر گرا ہے پاک ہے یا ناپاک؟اور ان دونوں کے پانی میں فرق ہے یا نہیں؟ بینّوا توجّروا۔
الجواب: اگر شرعی طور پر نہائے کہ سر سے پاؤں تک تمام بدن ظاہر پر پانی بَہ جائے اور حلق کی جڑ تک سارامنہ اور ناک کے نرم بانسے تک ساری ناک دُھل جائے تو کافر کی جنابت اُتر جائے گی ورنہ نہیں،
فی التنویر والدر والشامی یجب علی من اسلم جنبا اوحائضاوالابان اسلم طاھرا ۱؎ (ای من الجنابۃ والحیض والنفاس ای بان کان اغتسل) فمندوب انتھی ۲؎ ملخصا۔
تنویر، در اور شامی میں ہے کہ واجب ہے اس شخص پر جو اسلام لایاجنابت کی حالت میں یا عورت اسلام لائی حیض کی حالت میں، ورنہ اگر پاکی کی حالت میں اسلام لایا (یعنی جنابت، حیض اور نفاس سے پاک ہونے کی حالت میں، اگر ناپاک تھا تو غسل کرلیا) تو مندوب ہے انتہی ملخصا۔ (ت(
(۱؎ الدرالمختار موجبات الغسل مجتبائی دہلی ۱/۳۲)
(۲؎ ردالمحتار موجبات الغسل مصطفی البابی مصر ۱/۱۲۴)
اکثر جسم(۱) پر پانی بہ جانا اگرچہ کفّار کے نہانے میں ہوتا ہو اور بے تمیزی سے منہ بھر کر پانی پینے میں سارا مُنہ بھی حلق تک دُھل جاتا ہو مگر ناک میں پانی بے چڑھائے ہرگز نہیں جاتااور خود ایسا کیوں کرتے کہ پانی سُونگھ کر چڑھائیں لہٰذا اس چھپ چھپ کرلینے سے جو کفار کرلیا کرتے ہیں اُن کا غسل نہیں اُترتا۔
ع: ہرچہ شوئی پلید تر باشد
فی الحلیۃ عن السیر الکبیر للامام محمد ینبغی للکافر اذا اسلم ان یغتسل غسل الجنابۃ ولا یدرون کیفیۃ الغسل ۳؎ اھ وفیھاعن الذخیرۃ الاتری ان فرضیۃ المضمضۃ والاستنشاق خفیت علی کثیر من العلماء فکیف علی الکفار ۱؎۔
حلیہ میں امام محمد کی سیر کبیر سے منقول ہے کہ اگر کافر اسلام لائے تو اس پر لازم ہے کہ غسلِ جنابت کرے، اور وہ غسل کی کیفیت نہیں جانتے اھ اور اس میں ذخیرہ سے منقول ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کی فرضیت بہت سے علماء پر مخفی رہی تو کافروں کا کیا کہنا۔ (ت(
(۳؎ حلیہ) (۱؎ حلیہ)
نمازی محتاط مسلمانوں کے غسل کا پانی پاک ہے اگرچہ دوبارہ اُس سے غسل یا وضو نہیں ہوسکتا مگر وہ خود پاک ہے کپڑے وغیرہ کو لگ جائے تو نمازجائز ہے اور دھونے کی حاجت نہیں اور جس کے بدن پر نجاست لگی ہونا تحقیق ہو اس کے بدن کا پانی نجس ہے اور تحقیق نہ ہو تو بے نمازی بے احتیاط کے آب وغسل میں شُبہ ہے اُس سے بچنااولیٰ ہے نہ کہ کافر کہ اُن کے تو پاجاموں رانوں میں چھٹنکیوں پیشاب ہوتا ہے ان کا آبِ غسل مکروہ ہے پھر بھی ناپاکی کا حکم نہ دیں گے جب تک تحقیق نہ ہو کما حققناہ فی الاحلی من السکر واللّٰہ تعالی اعلم (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ احلی من السکر میں اس کی تحقیق کی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ ت(
0 تبصرے