مسئلہ ۸۴ :از چتور گڈھ اودےپور میواڑ مرسلہ مولوی قاضی اسمٰعیل محمد صاحب امام مسجد چھیپاں ۱۴ ذی القعدہ ۱۳۳۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے کنویں میں(جوکہ دہ در دہ نہیں ہے) ایک شخص کا مستعملہ جُوتا پڑ گیا گرے ہوئے جُوتے پر نجاست کے ہونے نہ ہونے کا حال معلوم نہیں مگر اُس شخص کا باقیماندہ دوسرا جُوتا اُسی وقت دیکھا گیا تو اس پر نجاست کا اثر نہیں تھا کتب موجودہ درمختار عٰلمگیریہ کبیری شرح منیۃ المصلی وغیرہا کتب فقہ میں دیکھا گیا تو بظاہر کوئی حکم صورتِ مسئولہ میں نہیں پایا گیا البتہ ایک عالم رکن الدین صاحب ساکن الور نے اپنے رسالہ رکنِ دین میں بلاحوالہ کتاب بایں عبارت کہ کنویں میں اگر جُوتی گرجائے تو سارا پانی نکالا جائے کیونکہ جوتی مستعملہ میں نجاست کا لگا رہنا یقینی ہے اور یہاں عام بلویٰ بھی نہیں کہ جس سے بچاؤ مشکل ہو چونکہ غایۃ الاوطار شرح درمختار میں ہے پس ان اقوال سے سخت حیرانی ہے کہ کون سا مسئلہ صحیح سمجھاجاوے آیا کنویں کا سارا پانی نکالا جائے یا پانی پاک سمجھا جائے امید کہ جواب اس کا مفصل بحوالہ کتب فقہ جلد تحریر فرمائیں کہ شرع شریف کے حکم پر عمل کیا جائے نمازیوں کو سخت تکلیف ہے۔ فقط
الجواب: جبکہ اس کی نجاست معلوم نہیں پانی ناپاک نہ ہوا فان الیقین لایزول بالشک ۱؎ (شک کی وجہ سے یقین زائل نہیں ہوتا۔ ت) تاتارخانیہ وطریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا کتب معتمدہ میں ہے:
سئل الامام الخجندی رحمہ اللّٰہ تعالٰی عن رکیۃ وھی البئر وجد فیھا خف اونعل تلبس ویمشی بھا صاحبھا فی الطرقات لایدری متی وقع فیھا ولیس علیہ اثر النجاسۃ ھل یحکم بنجاسۃ الماء قال لا ۲؎۔
امام خجندی رحمہ اللہ تعالٰی سے ایسے کنویں کے بارے میں پوچھا گیا جس میں کوئی ایسا موزہ یا چپل گرا ہوا پایا گیا جو گلی کُوچے میں پہن کر چلنے میں استعمال ہوا ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کنویں میں کب گرا، اور اس پر نجاست کا اثر نہ ہو، کیا پانی کے نجس ہونے کا حکم دیا جائےگا، آپ نے فرمایا: نہیں۔
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ الاعیان النجاسۃ پشاور ۱/۴۷)
(۲؎ حدیقۃ ندیۃ الصنف الثانی من الصنفین من الطہارۃ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/۶۷۴)
ہاں تسکین قلب کیلئے بیس۲۰ ڈول نکال لینا مستحب ہے جیسے بھینس یا بکری کہ کنویں میں گر کر زندہ نکل آئے اُس کی رانوں پر پیشاب کی چھینٹیں ہونا اس سے کم مظنون نہیں پھر بندھا ہوا جانور وہیں نجاست کرتا وہیں بیٹھتا ہے مگر جب نجاست معلوم نہ ہو یہ ظنون معتبر نہ ہوں گے اور صرف ۲۰ ڈول نکالنے ہوں گے وہ بھی تطییب قلب کیلئے ورنہ پانی پاک ہے۔ فتاوٰی قاضی خان وفتاوٰی عٰلمگیری میں ہے: لووقعت الشاۃ حیۃ ینزح عشرون دلوالتسکین القلب لالتطھیر حتی لولم ینزح ویتوضأ جاز ۱؎ ۔ اگر زندہ بکری کنویں میں گری (اور زندہ نکال لی) تو بیس۲۰ ڈول نکالے جائیں تاکہ اطمینانِ قلب ہوجائے، کنویں کو پاک کرنے کی غرض نہیں حتی کہ اگر کوئی ڈول بھی نہ نکالا تو بھی وضو جائز ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان فصل مایقع فی البئر نولکشور لکھنؤ ۱/۵)
باقی ظنون کا جواب اور ایسے تمام مسائل کی تحقیق فقیر کے رسالہ الاحلی من السکر میں ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
0 تبصرے