Music

header ads

مقابلات نوع آخر قسم اول Maqabilat e Noo-e-Aakhir

 نوع اٰخر___ مقابلات نوع آخر قسم اول

صنفِ اول_ جامدات


(۲۶۷ تا ۲۷۵) نبیذ میں چھوہارے یا کشمش خواہ کوئی میوہ شربت میں شکر بتاسے مصری خواہ کوئی خشک شیرینی خیساندہ میں دوارنگ میں کسم کیسر پڑیا روشنائی میں کسیس مازو خواہ اور اجزاء جب اتنے ڈالیں کہ پانی اپنی رقّت پر نہ رہے اس سے بالاجماع وضو ناجائز ہے۔ قدوری وہدایہ ونقایہ وغیرہا عامہ کتب میں ہے:


 لابماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء ۱؎۔ نہ اس پانی سے جس پر غیر کا غلبہ ہو تو اس کو پانی کی طبیعت سے نکال دے۔ (ت)


 (۱؎ ہدایۃ         الماء الذی یجوزبہ الوضوء    العربیہ کراچی        ۱/۱۸)


صنفِ دوم _ مائعات


(۲۷۶ تا ۲۷۸) زعفران حل کیا ہوا پانی یا شہاب اگر پانی میں مل کر اُس کی رنگت کے ساتھ مزہ یا بُو بھی بدل دے تو اُس سے بالاتفاق وضو ناجائز ہے۔


 لتغیر اللون علی الحکم المنقول واکثر من وصف علی الضابطۃ اس لئے کہ رنگ متغیر ہوگیا ،اس حکم پر جو منقول ہوا ،اورایک وصف سے زاید ہے ضابطہ پر ۔(ت)

یوں ہی پڑیا حل کیا ہوا پانی جب رنگ اور ایک  وصف  اور بدل دے۔


لانہ انکان ذا الثلاثۃ کفی تغیروصفین للوفاق فکیف اذاکان ذاوصفین۔ اس لئے کہ اگر وہ تین اوصاف والا ہو تو اس میں دو وصفوں کا تغیر کافی ہے اس پر اتفاق ہے تو پھر دو وصفوں کا کیاحال ہوگا؟(ت)

(۲۷۹) تربوز کا شیریں پانی جبکہ پانی میں پڑ کررنگ کے ساتھ اس کا ایک وصف اور بدل دے،ہاں رنگ نہ رکھتاہو تو مزے کا اعتبار ہے۔


وھومحمل قول الزیلعی والافھوذوالثلاثۃ کماھومعلوم مشاھد وقال فی المنحۃ قال الرملی لمشاھد فی البطیخ مخالفتہ للماء فی الرائحۃ وایضافی البطیخ مالونہ احمر وفیہ مالونہ اصفر ۲؎ اھ


اور یہی زیلعی کے قول کا مطلب ہے، قول یہ ہے ورنہ وہ تین وصفوں والا ہے، جیسا کہ مشاہد ومعلوم ہے، اور منحہ میں فرمایا رملی نے کہا تربوز میں مشاہدہ یہ ہے کہ وہ بُو میں پانی کے مخالف ہوتا ہے اور بطیخ میں کچھ سرخ رنگ کے اور کچھ پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ (ت)


 (۲؎ منحۃ الخالق مع البحرالرائق     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۰)


اقول:  ای لون مائہ اذفیہ الکلام لالون عینہ۔ میں کہتا ہوں اس سے مراد اس کے پانی کا رنگ ہے کیونکہ کلام اسی میں ہے اس سے مراد خود بطیخ ذات کا رنگ نہیں۔ (ت)


 (۲۸۰) سپید انگور کاشیرہ جب پانی کے مزے پر اس کا مزہ غالب آجائے۔


لتغیر الطعم علی المنقول وھو ذووصفین فیکفی تغیر واحد علی الضابطۃ فھذا مما لایتأتی فیہ الخلاف فی شیئ من جانبی الجواز وعدمہ۔ کیونکہ مزہ کا تغیر ہے منقول کے مطابق،اور وہ دو۲ وصفوں والا ہے تو ایک میں تغیر کافی ہے ضابطہ کے مطابق، یہ وہ ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں جواز وعدمِ جواز کے جانبین میں۔ (ت)


فان قلت بلی فان الحکم لایقتصر عند اھل الضابطۃ علی الطعم بل کذٰلک لوغلب الریح۔ اگر یہ کہا جائے کہ حکم اہلِ ضابطہ کے نزدیک مزہ پر موقوف نہیں بلکہ بُو کے غلبہ کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔ (ت)


اقول: طعمہ اسرع عملا فلا یتغیر الریح مالم یتغیر۔تو میں کہتا ہوں اس کے مزے کا عمل تیز تر ہوتا ہے تو جب تک مزہ نہ بدلے بُو نہیں بدل سکتی ہے۔ (ت)


 (۲۸۱) سپید انگور کا سرکہ ملنے سے اگر پانی کا مزہ بدل گیا سرکہ کا مزہ اس پر غالب ہوگیا۔

لمامرو یتأتی فیہ الخلاف کما یاتی (اس کا حکم گزرا اور اس میں اختلاف آتا ہے۔ ت)

(۲۸۲) رنگت دار سرکہ جب پانی میں مل کر رنگ اور بُو (اس لئے کہ عام سرکوں کی بُو قوی تر ہوتی ہے ۱۲ منہ) دونوں بدل دے۔


لحصول اللون علی المنقول ووصفین علی الضابطۃ۔ منقول کے مطابق رنگ والا ہے اور ضابطہ کے مطابق دو وصفوں والا ہے۔ (ت)

(۲۸۳) ایسے سرکہ کا مزہ اقوی ہو تو جب اُس سے مزہ کے ساتھ رنگت بھی بدل جائے۔

(۲۸۴) جس سرکہ کا رنگ قوی ترہو جب رنگ کے ساتھ ایک وصف اور بدل دے والوجہ قد علم (اس کی وجہ معلوم ہے۔ ت)

(۲۸۵) دودھ جب اس کا رنگ اور مزہ دونوں پانی پر غالب آجائیں۔


لان العبرۃ فی المنقول باللون وعند الزیلعی وکثیر من اتباعہ باحد وصفین اللون والطعم وعند المحقق علی الاطلاق وصاحب الدرر بھما معا فاذا تغیراحصل الوفاق علی سلب الاطلاق۔


اس لئے کہ اعتبار منقول میں رنگ ہی کاہے اور زیلعی کے نزدیک (نیز ان کے اکثر متبعین کے نزدیک)

دو اوصاف میں سے ایک کا اعتبار ہے (یعنی رنگ یا مزہ)، اور محقق علی الاطلاق اور صاحبِ درر کے نزدیک دونوں کا ایک ساتھ اعتبار ہے، اب جبکہ دونوں وصف ہی بدل جائیں تو پانی کا اطلاق نہ ہونے پر اتفاق ہوجائے گا۔ (ت)

یہ ایک(۱) سوبائیس وہ ہیں جن سے وضو بالاتفاق(۲) ناجائز ہے یعنی نہ ہوسکتا ہے نہ اُس سے نماز جائز ہو واللہ تعالٰی اعلم وصلی اللہ تعالٰی علی سیدنا ومولانا محمد وآلہٖ وصحبہ وبارک وسلم۔

قسم سوم جن سے صحتِ وضو میں حکم منقول ومقتضائے ضابطہ امام زیلعی کاخلاف ہے صنف اول خشک اشیا 

(۲۸۶ و ۲۸۷) چھوہارے کے سوا کشمش انجیر وغیرہ کوئی میوہ بالاجماع الاماعن الامام الاوزاعی ان ثبت عنہ (مگر وہ جو امام اوزاعی سے مروی ہے اگر ان سے ثابت ہو۔ ت)اور مذہب صحیح معتمد مفتی بہ مرجوع الیہ میں چھوہارے بھی جبکہ تادیر تر کرنے سے پانی میں اُس میوہ کی کیفیت اس قدر آجائے کہ اب اُسے پانی نہ کہیں نبیذ کہیں اس سے وضو نہیں ہوسکتااگرچہ رقیق ہو،بدائع امام ملک العلماء میں ہے:


(۱)  ۱۶۰ کے بعد ۱۲۵ ہوئے مگر ان میں تین نمبر ۲۲۱ و ۲۵۲، ۲۵۷ جائزات کے تھے لہٰذا ایک سو بائیس۱۲۲ رہے ۱۲ (م)

(۲) یعنی ضابطہ زیلعی اور اُن احکام کے اتفاق سے جو قول امام محمد پر مبنی ہیں جیسا کہ تنبیہ ضروری میں گزرا ۱۲ منہ غفرلہ (م)

قیاس ماذکرنا انہ لایجوز الوضوء بنبیذالتمرلتغیرطعم الماء وصیرورتہ مغلوبابطعم التمرو بالقیاس اخذابویوسف وقال لایجوز التوضوء بہ الا ان ابا حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ترک القیاس بالنص فجوزالتوضوء بہ وروی نوح فی الجامع المروزی عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ رجع عن ذلک وقال لایتوضوء بہ وھو الذی استقر علیہ قولہ کذا قال نوح وبہ اخذ ابو یوسف ۱؎۔


جن چیزوں سے ہم نےوضوکے جائز نہ ہونے کاقول کیاہے وہ نبیذ تمر پر قیاس کی گئی ہیں، کیونکہ پانی کا مزہ بدل گیا ہے اور وہ کھجور کے مزہ سے مغلوب ہوگیا ہے قیاس پر ابویوسف نے عمل کیا ہے،اور فرمایا ہے کہ اُس سےوضو جائز نہیں، اور امام ابو حنیفہ نے نص کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیااور اُس سےوضوکو جائز قرار دیا، اور نوح نے جامع مروزی میں ابو حنیفہ سے روایت کی کہ آپ نے اس سے رجوع کرلیا اور فرمایا کہ اس سے وضو نہ کیا جائے اور ان کے اس قول پر اتفاق ہوا، یہی نوح کا قول ہے اور یہی ابو یوسف نے لیا ہے۔ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    فصل الماء المقید        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۵)


فتح القدیر میں ہے: وجب تصحیح الروایۃ الموافقۃ لقول ابی یوسف لان اٰیۃ التیمم ناسخۃ لہ لتاخرھااذھی مدنیۃ وعلی ھذامشی جماعۃ من المتأخرین ۲؎۔


 (۲؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ    نوریہ رضویہ سکھر)


اس روایت کی تصحیح جو ابو یوسف کے قول سے مطابقت رکھتی ہے لازم ہے، کیونکہ آیۃ تیمم اس کو منسوخ کرنے والی ہے وہ مدنی ہونے کی وجہ سے متاخر ہے، اور متاخرین کی ایک جماعت اسی طرف گئی ہے۔ (ت)


حلیہ میں ہے: ذکر نوح الجامع والحسن بن زیاد ان اباحنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ رجع الی انہ یتیمم ولا یتوضوء کما ھو مختار ابی یوسف وقول اکثر العلماء منھم مالک والشافعی واحمدقال قاضی خان وھو الصحیح ۳؎ اھ


نوح اور حسن بن زیاد نے ذکر کیا کہ ابو حنیفہ نے اس سے رجوع کرلیااور فرمایا بجائےوضوکے تیمم کرنا چاہئے،یہی ابویوسف کا مختارہے اور اکثر علماء مثلاً شافعی، مالک اور احمد کا قول ہے اور قاضی خان نے کہا یہی صحیح ہے اھ۔ (ت)


 (۳؎ حلیہ)


غنیہ میں شرح جامع صغیر قاضی خان سے ہے:روی اسد بن عمر ونوح بن ابی مریم والحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ انہ رجع الی قول ابی یوسف والصحیح قول ابی حنیفۃ الاٰخر ۴؎ اھ اقول فھذان متابعان قویان لنوح الجامع فزال ماکان یخشی من تبری ملک العلماء اذقال کذا قال نوح۔


روایت کیا اسد بن عمرو اور نوح بن ابی مریم اور حسن نے ابو حنیفہ سے کہ انہوں نے ابویوسف کے قول کی طرف رجوع کرلیااور صحیح ابوحنیفہ کا دوسرا قول ہے اھ میں کہتا ہوں یہ دومضبوط تائیدیں نوح کے حق میں ہیں،اس سے ملک العلماء کی برآت کا خطرہ زائل ہوگیا، ملک العلماء نے فرمایا کذا قال نوح۔ (ت)


 (۴؎ شرح جامعہ الصغیر لقاضی خان)


غنیہ میں ہے:لایتوضوء بہ ھی الروایۃ المرجوع الیھاعن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ وعلیھاالفتوی لان الحدیث وان صح لکن اٰیۃ التیمم ناسخۃ لہ اذمفھومھانقل الحکم عند عدم الماء المطلق الی التیمم ونبیذ التمر لیس ماء مطلقا ۱؎۔


 (۱؎ غنیۃ المستملی ،باب التمیم سہیل اکیڈمی لاہور    ص۷۲)


اس سے وضو نہ کیا جائے، یہ ابو حنیفہ کی وہ روایت ہے جس کی طرف رجوع کیا ہے، اور اسی پر فتوٰی ہے کیونکہ حدیث اگرچہ صحیح ہے لیکن تیمم کی آیت اس کی ناسخ ہے کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب مطلق پانی نہ ہو تو حکم کو تیمم کی طرف منتقل کردیا جائے اور نبیذتمر مطلق پانی نہیں ہے۔ (ت)


بحر میں ہے:لایتوضوء بہ وھو قولہ الاٰخر قدرجع الیہ وھو الصحیح واختارہ الطحاوی وبالجملۃ فالمذھب المصحح المختارالمعتمد عندنا عدم الجواز ۲؎۔ نبیذ سے وضو نہ کیا جائے، یہی امام ابو حنیفہ کا آخری قول ہے، انہوں نے اس کی طرف رجوع کرلیا تھا، یہی صحیح ہے اور اسی کو طحاوی نے اختیار کیا، خلاصہ یہ کہ ہمارے نزدیک تصحیح شدہ، مختار، معتمد مذہب وضو کے عدم جواز کا ہے۔ (ت)


 (۲؎ بحرالرائق        کتاب الطہارۃ    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۳۷)


خانیہ میں ہے:ھو قول ابی حنیفۃ الاٰخر ۳؎۔ یہی ابو حنیفہ کا آخری قول ہے۔ (ت)


 (۳؎ قاضی خان    فیما لایجوزبہ التوضی،نولکشور لکھنؤ        ۱/۹)


ہندیہ میں عینی شرح کنز سے ہے:الفتوی علی قول ابی یوسف ۴؎۔ فتوٰی ابو یوسف کے قول پر ہے۔ (ت)


 (۴؎ ہندیہ   فیما لایجوزبہ التوضی        نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۳)


درمختار میں ہے:یقدم التیمم علی نبیذ التمرعلی المذھب المصحح المفتی بہ لان المجتھد اذارجع عن قول لایجوز الاخذ بہ ۱؎ اھ وقولہ یقدم ای یرجح ویختار و یوثر فیفعلہ لاالوضوء بہ۔


تصحیح شدہ قول کے مطابق نبیذتمر پر تیمم کو مقدم کیا جائیگا، یہی صحیح مذہب ہے اور اسی پر فتوٰی ہے، کیونکہ جب کوئی مجتہد کسی قول سے رجوع کرے تو اس پر عمل جائز نہیں، اور ان کا قول ''مقدم کیا جائیگا'' سے مراد یہ ہے کہ اس کو ترجیح دی جائیگی اور اختیار کیا جائیگا اور نبیذ سے وضو نہ کیا جائیگا۔ (ت)


 (۱؎ درمختار باب التمیم،  مجتبائی دہلی       ۱/۴۱)


بدائع میں ہے:اما نبیذ الزبیب وسائر الانبذۃ فلایجوز التوضوء بھا لان القیاس یابی الجوازالابالماء المطلق وھذالیس بماء مطلق بدلیل انہ لایجوزالتوضوء بہ مع القدرۃ علی الماء المطلق الا انا عرفنا الجوازبالنص والنص ورد فی نبیذ التمرخاصۃ فیبقی ماعداہ علی اصل القیاس ۲؎۔


نبیذ منقیٰ اور دوسرے نبیذوں سے وضو جائز نہیں کیونکہ قیاس کی رُو سےوضوصرف مطلق پانی سے ہوسکتا ہے اور یہ مطلق پانی نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مطلق پانی کے موجود ہونے کی صورت میں اس سےوضوجائز نہیں، مگر ہمیں اس کا جواز نص سے معلوم ہوا ہے اور نص خاص نبیذتمر کی بابت وارد ہوا ہے تو باقی نبیذوں پر قیاس کے مطابق ہی عمل ہوگا۔ (ت)


 (۲؎ بدائع الصنائع، مطلب الماء المقید ،سعید کمپنی کراچی  ۱/۱۷)


ہدایہ میں ہے:لایجوز التوضی بما سواہ من الانبذۃ جریا علی قضیۃ القیاس ۳؎۔ دوسرے نبیذوں سےوضوقیاس کے مطابق جائز نہ ہوگا۔ (ت)


 (۳؎ ہدایہ        الماء الذی یجوزبہ الوضوء    عربیہ کراچی    ۱/۳۲)


عنایہ میں ہے:لایجوز نبیذ الزبیب والتین وغیر ذلک ۴؎۔ منقٰی، انجیر وغیرہ کے نبیذ سےوضوجائز نہیں۔ (ت)


 (۴؎ عنایہ مع فتح القدیر     الماء الذی یجوزبہ الوضوء    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۱۰۵)


غنیہ میں ہے:سائر الاشربۃ سوی نبیذ التمر لیس فی عدم جواز التوضی بہ خلاف ۱؎۔ نبیذ تمر کے علاوہ باقی نبیذوں سے وضو کے عدمِ جوازمیں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی        باب التیمم        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۷۲)


اسی طرح عامہ کتب میں ہے۔ فان قلت من این قولک انکان رقیقا قلت لاطلاقھم ویقطع الوھم انھم صرحوا ان نبیذ التمر المختلف فی جواز الوضوء بہ ماکان رقیقا اما الغلیظ فلا ثم قالوا ولایجوز بما سواہ من الانبذۃ لان نبیذ التمرخص بالاثر فوضح قطعا ان المراد نفی التوضی بالرقیق منھا اما الغلیظ فمعلوم الانتفاء ولا تخالف فیہ بین نبیذ التمر وسائر الانبذۃ۔


اگر یہ سوال ہو کہ وان کان رقیقا تم نے کہاں سے لیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فقہاءء کے اطلاقات سے مفہوم ہے، اور وہم اس طرح دُور ہوجاتا ہے کہ فقہاءء نے تصریح کی ہے کہ وہ نبیذ جس سے وضو کے ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے رقیق ہے اور گاڑھے میں کوئی اختلاف نہیں، پھر فرمایا اس نبیذ کے علاوہ باقی نبیذوں سے جائز نہیں کیونکہ نبیذ تمر نص سے مخصوص ہے، اس سے قطعی طور پر واضح ہوا کہ رقیق نبیذ سے وضو کی نفی مراد ہے کیونکہ گاڑھے میں تو اختلاف پہلے ہی نہیں تھا تو گاڑھے نبیذ میں نبیذ تمر اور باقی نبیذیں برابر ہیں۔ (ت)

بالجملہ نبیذتمر سے مطلقا وضو صحیح نہ ہونا مذہب صحیح معتمد مفتٰی بہ ہے اور باقی نبیذوں سے نہ ہونے پر تو اجماع ہے مگر ضابطہ زیلعیہ کا اقتضا یہ ہے کہ جب تک رقت باقی ہے صحیح ہو لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں کہ اسے نبیذ کہیں گے نہ کہ پانی تو نام آب باقی نہ رہنے کے سبب آب مطلق نہ رہا اور وضو آبِ مطلق ہی سے جائز ہے وبس۔


وبیان ذلک انھا من الجامدات اوضابطۃ التقیید عندہ فی الجامد زوال الرقۃ فحسب قال رحمہ اللّٰہ تعالی المخالط انکان جامدا فمادام یجری علی الاعضاء فالماء ھو الغالب ۲؎ اھ وتبعہ فی الحلیۃ والدرر فاقتصرا علی ذکر الجریان۔


اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ جامدات سے ہے اور ان کے نزدیک جامد میں تقیید کا ضابطہ یہ ہے کہ رقّت زائل ہوجائے، انہوں نے فرمایا اگر ملنے والی چیز جامد ہو تو جب تک وہ اعضاء پر بہہ سکے تو پانی ہی غالب ہوگا اھ اور حلیہ اور درر میں اس کی متابعت کی اور دونوں نے جاری ہونے کے ذکر پر اکتفاء کیا۔ (ت)


 (۲؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت    مطبعۃ الامیریہ بولاق مصر    ۱/۲۰)


اقول: وکان(۱) البعد فیہ اکثر لان الجریان علی الاعضاء ھو السیلان والرقۃ اخص منہ کما سیاتی فکان یقتضی جواز الوضوء وان زالت الرقۃ مع بقاء السیلان لکن الامام الزیلعی وبالنقل عنہ الحلبی تدارکاہ بقولھما بعدہ فیحمل قول من قال ان کان رقیقا یجوز الوضوء بہ والا فلا علی مااذا کان المخالط لہ جامدا ۱؎ اھ ویقرب منہ قول المحقق فی الفتح والبحر فی البحر وغیرھما فان کان جامدا فبانتفاء رقۃ الماء وجریانہ علی الاعضاء ۲؎ اھ


میں کہتا ہوں اس میں بعُد زائد تھا کہ جاری ہونا اعضاء پر سیلان ہے اور رقّت سیلان سے اخص ہے کما سیاتی تو اس کا مفہوم یہ نکلا کہ اگرچہ رقّت زائل ہوجائے اور سیلان باقی رہے تووضوجائز ہے، مگر امام زیلعی اور ان کی متابعت میں حلبی نے اس شبہ کا تدارک کرتے ہوئے فرمایا، تو جن حضرات نے فرمایا کہ اس سےوضوجائز ہے اگر رقیق ہو ورنہ نہیں اس کو اس صورت پر محمول کیا جائیگا کہ جب اس میں ملنے والی چیز جامد ہو اھ اور اسی کے قریب قریب محقق کا قول فتح میں اور صاحب بحر کا بحر وغیرہما میں ہے کہ اگر وہ شیئ جامد ہے تو وضو اس وقت جائز نہ ہوگا جب پانی کی رقّت ختم ہوجائے اور وہ اعضاء پر جاری نہ ہوسکے اھ


 (۱؂تبین الحقائق      کتاب الطھارۃ      مطبعۃالامیریہ مصر  ۱ / ۲۰ )

( ۲؂بحر الرئق کتاب الطھارۃ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۶۹  )

فجمعوا بینھما فابتنی الحکم علی انتفائھما معا وعاد المحذور الا ان یقال ان الواو بمعنی اووحینئذ یکون ذکر الجریان والسیلان بعد الرقۃ مستدرکا غیر انہ قد شاع وذاع والخطب سھل فالاحسن عبارۃ الغنیۃ المعتبر فی صیرورۃ الماء مقیدا بمخالطۃ الجامد زوال رقتۃ ۳؎ اھ والبحر من بعد اذقال فان کان المخالط جامدا فغلبۃ الاجزاء فیہ بثخونتہ ۴؎ اھ


تو فقہاءء نے دونوں باتوں کو جمع کردیا اور حکم دونوں کے معاً انتفاء پر ہوا، اور جو محذور تھا وہ لوٹ آیا، ہاں ایک صورت یہ ہے کہ واؤ بمعنی اَو ہو اور اس صورت میں جریان اور سیلان کا ذکر رقۃ کے بعد اضافی ہوگا، لیکن عام طور پر یہ ہوتا ہے تو غنیہ کی عبارت بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی جامد چیز کے ملنے سے پانی کے مقید ہونے میں معتبر اس کی رقت کا زائل ہونا ہے اھ اور بحر نے اس کے بعد فرمایا کہ اگر ملنے والی چیز جامد ہو تو اس میں اجزاء کے غلبے کا پتا اس کے گاڑھا پڑ جانے سے ہوگا اھ (ت)


 (۳؂ غنیۃ المستملی فصل فی احکام المیاہ         سہیل اکیڈمی  لاہور      ص۹۱)

(۴؂ بحر الرئق کتاب الطھارۃ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۶۹  )


وانت تعلم ان المدار الباب علی زوال الاسم کما اعترف بہ الامام الضابط بقولہ زوال اسم الماء عنہ ھو المعتبر فی الباب اھ وبخلط الجامد ربما یزول الاسم قبل زوال الرقۃ کماء الزعفران الصالح للصبغ والنبیذ وقد صرحوا ان الاختلاف انما کان فی نبیذ التمر الرقیق قال فی الھدایۃ النبیذ المختلف فیہ ان یکون حلوا رقیقا یسیل علی الاعضاء کالماء ۱؎ اھ زاد فی الکافی فان کان غلیظا کالدبس لم یجز الوضوء بہ ۲؎ اھ ۔


آپ کو معلوم ہے کہ اس سلسلہ میں مدار نام کے زائل ہونے پر ہے جیسا کہ امام نے اعتراف کیا ہے انہوں نے ضابطہ یہ بیان کیا کہ اس بات میں نام کا زائل ہونا ہی بہتر ہے اھ اور جب کوئی جامد شیئ پانی میں ملتی ہے تو رقۃ کے زائل ہونے سے قبل ہی نام زائل ہوجاتاہے ،جیسے زعفران کا پانی جس سے کوئی چیز رنگی جاسکتی ہو،اور نبیذ،اورفقہاءء نے تصریح کی ہے کہ اختلاف رقیق نبیذ میں ہے۔ہدایہ میں ہے اختلاف اس میں ہے کہ نبیذ میٹھااورپتلاہو اور اعضاء پر پانی کی طرح بہتا ہو اھ کافی میں یہ اضافہ کیا کہ اگر وہ شیرہ کی طرح گاڑھا ہو تو اس سے وضو جائز نہیں اھ


 (۱؎ ہدایۃ         الماء الذی یجوزبہ الوضوء    مکتبہ عربیہ کراچی    ۱/۳۲)


وفی البدائع وان کان غلیظا کالرب لایجوزالتوضوء بہ بلاخلاف وکذاان کان رقیقا لکنہ غلا و اشتدوقذف بالزبد لانہ صارمسکراوالمسکرحرام فلایجوزالتوضوء بہ ولان النبیذ الذی توضأبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان رقیقاحلوافلا یلحق بہ الغلیظ المر۳؎وھکذا فی الحلیۃ والغنیۃ والبحر والدروعامۃ الکتب(عـہ) بل فی العنایۃ النبیذالمختلف فیہ ذکرمحمد فی النوادرھوان تلقی تمیرات فی ماء حتی صارالماء حلوارقیقا  اھ ۱؎ ۔



اور بدائع میں ہے کہ اگر نبیذ شیرہ کی طرح گاڑھاہو تو بلااختلاف اس سے وضو جائز نہیں ہے اوراسی طرح اگر رقیق ہے مگر اس میں اتنا جوش آگیا ہو کہ جھاگ دے گیاہوکیونکہ اب یہ مُسکرہوگیا اور مسکر حرام ہے لہٰذا اس سےوضوجائز نہیں، نیز یہ کہ جس نبیذسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایاتھاوہ رقیق اور میٹھا تھا لہٰذا کڑوا اور گاڑھا نبیذ اس کے حکم میں نہیں ہوسکتا ہے،یہی حلیہ، غنیہ، بحر، در اور عام کتب میں ہے،بلکہ عنایہ میں ہے کہ مختلف فیہ نبیذ کے بارے میں محمد نے نوادر میں لکھا ہے کہ اس کی صورت یہ ہے کہ کچھ کھجوریں پانی میں ڈال دی جائیں حتی کہ وہ میٹھا پتلا ہوجائے اھ


(۲؎ کافی)

(۳؎ بدائع الصنائع    مطلب الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۷)

(۱؎ عنایۃ مع الفتح    مطلب الماء المقید    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۱۰۵)


 (عـہ) فی مسکین علی الکنزالنبیذالمختلف فیہ ان یکون حلوارقیقا یسیل علی الاعضاء کالماء اھ قال السید ابو السعود ای والغلبۃ للماء لیوافق ماتقدم عن خزانۃ الاکمل فان لم یحل فلا خلاف فی جواز الوضوء بہ نھر اھ اقول(۱) سبحٰن اللّٰہ اذا کان الغلبۃ للماء جاز الوضوء بہ بالاجماع کمامر فی ۱۱۶ وای حاجۃ الی النقل مع اجماع الشرع والعرف والعقل علی ان العبرۃ للغالب فکیف یکون مختلفا فیہ وانما حقہ ان یقول ای والغلبۃ للتمر فانہ الذی کان الامام یعدل بہ عن سنن القیاس لو ورد الحدیث ثم نصب(۱) خلاف لایوافق قط مافی خزانۃ الاکمل لانہ ارجع الاجوبۃ کلھا الی الاحکام الاجماعیۃ وقولہ ان لم یحل اقول وکذا ان حلا والماء غالب بعد ماتقدم فی ۱۱۶ واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (م)

مسکین علی الکنزمیں ہے کہ وہ نبیذ جس میں اختلاف ہے رقیق اور میٹھاہے جو پانی کی طرح اعضاء پر بہتا ہو اھ ابو السعودنے فرمایا یعنی غلبہ پانی کاہو تاکہ خزانہ اکمل سے جو منقول ہوااس کے موافق ہوجائے،کیونکہ اگر میٹھا نہ ہو تو اس سےوضوکے جواز میں کوئی خلاف نہیں،نہر اھ میں کہتا ہوں سبحان اللہ جب پانی کاغلبہ ہوگاتوبالاجماعوضوجائز ہوگاکما مر فی ۱۱۶ پھر اجماع کے ہوتے ہوئے کسی اور نقل کی کیا ضرورت ہے کیونکہ اجماع شرعی اور عرفی اور عقلی تینوں سے ثابت ہے کہ اعتبار غالب کاہے، تو پھر یہ مختلف فیہ کیسے ہوگا؟اسے یوں کہنا چاہئے کہ ''یعنی غلبہ کھجوروں کاہوکیونکہ اس میں امام نے قیاس سے عدول کیاہے کیونکہ اس میں حدیث وارد ہے،پھر خلاف کا ذکر مَا فِیْ خِزَانَۃِ الْاَکْمل سے بالکل موافقت نہیں رکھتا ہے،کیونکہ انہوں نے تمام جواب احکامِ اجماعیہ کی طرف راجع کردئے ہیں اور ان کا قول ''ان لم یحل''میں کہتا ہوں اگر میٹھا بھی ہو تو اس کا حکم یہی ہے بشرطیکہ پانی غالب ہو جیسا کہ پانی کی قسم ۱۱۶ میں گزرا، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


وزوال اسم الماء عنہ مقطوع بہ مجمع علیہ ولاجلہ صارالمذھب المختارالمعتمدعدم جوازالوضوء بہ الا تری ان فی قول الامام الاول المرجوع عنہ انمایجوزالوضوء بہ اذالم یجد الماء ولا یجوز الا منویاواذاوجد ماء مطلقاینتقض فھو فی کل ذلک کالتمیم ذکرہ فی العنایۃ والفتح والحلیۃ عن شرح الامام القدوری لمختصرالامام الکرخی عن اصحابنارضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وقال فی الحلیۃ وجہ قول ابی یوسف ان اللّٰہ تعالٰی اوجب التیمم عند عدم الماء المطلق ونبیذ التمرلیس بماء مطلق والا لجازالوضوء بہ مع وجود غیرہ من المیاہ المطلقۃ ۱؎ اھ وتقدم مثلہ عن البدائع اقول وبہ ظھر(۱)الجواب عماتجشمہ الامام الزیلعی اذقال اماقولھم لیس بماء مطلق قلناھوماء شرعاالاتری الی قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ماء طھورای شرعا فیکون معنی قولہ تعالٰی فلم تجدواماء ای حقیقۃ اوشرعا ۲؎ اھ فیاسبحٰن اللّٰہ انکان ھذا معنی الاٰیۃ فلم لم یجزالوضوء بہ مع وجود ماء اٰخر ومن اوجب الترتیب بین المائین بتقدیم اللغوی علی الشرعی امااحتجاجہ (عـہ) بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ماء طھورفاقول الحدیث(۱)من اولہ تمرۃ طیبۃ وماء طھورفانماھولبیان اجزائہ التی ترکب منھالاالاخبار عنہ بانہ ماء والالکان اخبارایضابانھا تمرۃ وھو باطل لغۃ وعرفاوشرعاوفی صدرالحدیث قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لعبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ھل معک ماء اتوضوء بہ قال لاالانبیذتمرلایقال انہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انمانفی الماء اللغوی لان السؤال کان عن الماء الشرعی لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اتوضوء بہ الا ان یقال لم یکن عبداللّٰہ اذذاک یعلم انہ ماء شرعاوقد اعترف(۲)الامام الزیلعی نفسہ انہ نفی عنہ ابن مسعود اسم الماء ۱؎ اھ اذاثبت ھذاعلم ان قصرالحکم فی الجامد علی زوال الرقۃ غیرصحیح وقد تنبہ لھذا البحر فی البحر فقال بعد ایراد الضابطۃ وھھنا تنبیھات مھمۃ۔


اور پانی کا نام اس سے قطعی طور پر ختم ہوجاتاہے اس پر اجماع ہے، لہٰذا مذہب مختار معتمدیہ ہے کہ اس سےوضوجائز نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ امام کا پہلا قول جس سے انہوں نے رجوع کرلیااس سےوضواُسی صورت میں جائز ہے جبکہ پانی نہ پائے،اور صرف نیت کے ساتھ ہی جائز ہوگا،اور جب مطلق پانی مل جائے تو یہ وضوٹوٹ جائیگا تو یہ تمام احکام میں مثل تیمم ہے،یہ عنایۃ، فتح اورحلیہ میں شرح قدوری سے منقول ہے جو امام کرخی نے ہمارے اصحاب سے نقل کیاہے اورحلیہ میں فرمایاابو یوسف کے قول کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے تیمم اس وقت واجب کیاہے جب مطلق پانی نہ ہواور نبیذ تمر مطلق پانی نہیں ہے ورنہ دوسرے مطلق پانیوں کے ہوتے ہوئے بھی اس سے وضوجائزہوجاتا ہے اھ یہی بدائع سے گزرچکا ہے۔ میں کہتا ہوں اس سے امام زیلعی کی اس گفتگو کاجواب بھی نکل آتا ہے کہ ان کا قول ''یہ مطلق پانی نہیں ہے'' ہم کہتے ہیں یہ شرعاًپانی ہے،چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''پاک پانی'' یعنی شرعاً تو اللہ کے قول''تو تم پانی نہ پاؤ''کا معنی ہوگا یعنی حقیقۃً اور شرعاً پانی نہ پاؤ، تو اگر آیت کے یہی معنی ہیں تو دوسرے پانی کے ہوتے ہوئے اس سے وضو کیوں جائز نہیں؟اور جن حضرات نے دونوں پانیوں میں ترتیب کو لازم قرار دیا ہے کہ لغوی کو شرعی پر مقدم کیاہے اور ان کا استدلال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ''ماءٌ طھور''سے تو اس کی بابت میں کہتا ہوں دراصل حدیث کی ابتداء اس طرح ہے ''تمرۃ طیبۃ وماء طھور'' تو یہ اس کے اجزأ ترکیبیہ کے بیان کے لئے ہے صرف اتنا بتانا مقصود نہیں کہ یہ پانی ہے ورنہ یہ بھی خبر ہوتی کہ یہ کھجور ہے اور یہ عرفالغۃ اور شرعاً ہر طرح باطل ہے اور حدیث کی ابتداء میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا ''کیا تمہارے پاس پانی ہے تاکہ میں اُس سے وضو کروں؟ انہوں نے کہا نہیں سوائے نبیذتمر کے''۔یہ خیال نہ کیاجائے کہ حضرت عبداللہ نے صرف لغوی پانی کی نفی کی تھی اس لئے کہ سوال شرعی پانی کی بابت تھاکیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا،تاکہ میں اس سے وضو کروں۔ہاں یہ کہاجاسکتا ہے کہ عبداللہ کو اس وقت یہ معلوم نہ تھاکہ یہ شرعاً پانی ہے، اور خود امام زیلعی نے اعتراف کیاہے کہ ابن مسعود نے اس سے پانی کی نفی کی ہے اھ جب یہ ثابت ہوگیا تو معلوم ہوا کہ جامد میں حکم کا زوالِ رقتہ پر منحصر کردینا صحیح نہیں ہے،صاحب بحر کو بحر میں اس پر تنبہ ہوا ہے،چنانچہ انہوں نے ضابطہ کے بعد فرمایا،یہاں چند اہم تنبیہات ہیں: (عـہ)


 (۱؎ حلیہ)

(۲؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    الامیریۃ ببولاق مصر    ۱/۳۵)

﴿۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارت    الامیریۃ ببولاق مصر    ۱/۳۵)


تبعہ فیہ المولی بحرالعلوم فی الارکان الاربعۃ فقال قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تمرۃ طیبۃ وماء طھور یفیدان النبیذ لم یخرج عن کونہ ماء بوقوع التمر فواجدالنبیز لایصدق علیہ انہ لم یجد ماء فلا تعارضہ اٰیۃ التیمم حتی یکون ناسخا ھذاماعندی اھ وکأنہ لم یطلع علی کلام الامام الزیلعی رحمھما اللّٰہ تعالٰی قدس سرہ۔


بحرالعلوم نے ارکان اربعہ میں ان کی پیروی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ''تمرۃ طیبۃ وماء طھور''سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیذ پانی ہونے سے خارج نہیں ہواہے کھجور کے وقوع سے، تو جس شخص کے پاس نبیذ ہو تو اس پر یہ صادق نہیں آتاکہ وہ پانی کا پانے والا نہیں ہے تو آیہ تیمم اِس کے معارض نہیں،تاکہ اس کو ناسخ قرار دیا جائے ''ھذا ماعندی'' اھ اور غالباً وہ امام زیلعی کے کلام پر مطلع نہ ہوئے۔(ت)

الاول مقتضی ماقالوہ ھناجوازالتوضوء بنبیذالتمروالزبیب ولو غیرالاوصاف الثلثۃ وقد صرحواقبل باب التمیم ان الصحیح خلافہ وان تلک روایۃ مرجوع عنھاوقدیقال ان ذلک مشروط بمااذالم یزل عنہ اسم الماء وفی مسألۃ نبیذالتمر زال عنہ اسم الماء فلا مخالفۃ کمالایخفی۔


تنبیہ اول: جو کچھ انہوں نے فرمایاہے اس کا مقتضی نبیذتمر اور نبیذ منقی سےوضوکاجوازہے خواہ اوصاف ثلٰثہ ہی کیوں نہ بدل گئے ہوں،اور تیمم کے باب سے پہلے انہوں نے تصریح کی ہے کہ صحیح اس کے برخلاف ہے اور اس روایت سے رجوع کرلیاہے، اور یہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس پر سے پانی کانام زائل نہ ہوا ہو،اور نبیذتمر کے مسئلہ میں اس سے پانی کا نام زائل ہوگیا ہے تو کوئی مخالفت نہیں، کمالایخفی۔


الثانی انہ یقتضی ان الزعفران اذاختلط بالماء یجوزالوضوء بہ مادام رقیقاسیالاولو غیرالاوصاف کلھالانہ من الجامدات والمصرح بہ فی معراج الدرایۃ معزیاالی القنیۃ ان الزعفران اذاوقع فی الماء ان امکن الصبغ فیہ فلیس بماء مطلق من غیرنظرالی الثخونۃ ویجاب عنہ بما تقدم من انہ زال عنہ اسم الماء ۱؎ اھ


تنبیہ ثانی: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زعفران جب پانی میں مل جائے تو اس سے اس وقت تک وضو جائز ہو جب تک وہ سیال ورقیق ہو خواہ اس کے تمام اوصاف بدل گئے ہوں،کیونکہ وہ جامدات سے ہے، اور معراج الدرایہ میں قنیہ سے منقول ہے کہ اگر زعفران پانی میں ڈال دی جائے تو اگر اس سے رنگنا ممکن ہو تو وہ مطلق پانی نہیں ہے، اس میں گاڑھے پن کا کوئی اعتبار نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پانی کا نام زائل ہوگیا ہے اھ (ت)


 (۱؎ بحرالرائق        کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۱/ ۷۰)


وردہ اخوہ وتلمیذہ المحقق فی النھرکمافی ط بان الزیلعی لم یذکر ذلک وان ھذالتقیید لایجدی نفعا۲؎ اھ واجاب عنہ السید العلامۃ ابو السعود الازھری فی فتح اللّٰہ المعین وتبعہ ط بان الکلام فیما اذالم یزل عنہ اسم الماء کما ذکرہ الزیلعی فتنظیرالنھر ساقط وما ذکر فی البحر من الجواب ماخوذ من صریح کلام الزیلعی ۱؎۔فھؤلاء ثلثۃ اجلاء اختلف انظارھم فی کلام الامام الزیلعی اماالاخوان العلامتان فاتفقاعلی ان الزیلعی لم یذکر فی الجامد قید بقاء الاسم غیران البحر یقول انہ مطوی منوی فالمعنی انکان جامدافمادام باقیاعلی رقتہ فالماء ھو الغالب یشرط ان لایزول عنہ اسم الماء والنھر یقول انہ لم یذکرہ کما تری ولم یردہ لانہ لایجدی نفعاواماالسید فزعم انہ مذکور فی صریح کلام الزیلعی وان کلامہ انما ھو فیہ وان البحر انما اخذہ منہ۔


اس کو ان کے بھائی اور شاگرد محقق نے نہر میں رد کیاہے جیسا کہ ط میں ہے کہ زیلعی نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے اور اس تقیید سے کچھ نفع نہ ہوگا اھ اس کا جواب علامہ ابو السعود نے فتح اللہ المعین میں دیا ہے،اور اس کی پیروی ط نے کی ہے کہ گفتگو اس میں ہے جس سے پانی کانام زائل نہ ہوا ہو جیسا کہ زیلعی نے ذکر کیاہے، تو نہر کا نظیر دیناساقط ہے درست نہیں،اور جو جواب بحر میں ہے وہ زیلعی کے صریح کلام سے ماخوذ ہے۔(ت)تو یہ تین جلیل القدر علماء ہیں جن کی آراء زیلعی کے کلام کی بابت مختلف ہیں،دونوں برادران اس پر متفق ہیں کہ زیلعی نے جامد میں نام کے بقا کی قید ذکر نہیں کی ہے، البتہ بحر کہتے ہیں یہ نیت میں مضمر ہے، تو معنی یہ ہے کہ اگر وہ جامد ہے تو جب تک وہ رقیق ہے تو پانی ہی غالب ہے بشرطیکہ اس سے پانی کانام زائل نہ ہو،اور نہر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں اور اس کو انہوں نے رَد نہیں کیاہے کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں، اور سید کا گمان ہے کہ یہ زیلعی کے کلام میں صریحاً مذکور ہے اور ان کا کلام اسی میں ہے اور بحر نے اُسی سے اخذ کیا ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتح اللہ المعین    ابحاث الماء    سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۴)


ھکذا اختلفو واناانقلہ لک کل کلام الزیلعی لتجلی لک جلیۃ الحال قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی بعد مانقل اقوالاً متخالفۃ ھکذا جاء الاختلاف فلابد من ضابط وتوفیق فنقول ان الماء اذابقی علی اصل خلقہ ولم یزل عنہ اسم الماء جاز الوضوء بہ وان زال وصار مقیدا لم یجز والتقیید اما بکمال الامتزاج اوبغلبۃ الممتزج فکمال الامتزاج بالطبخ بطاھر لایقصد بہ التنظیف اوبتشرب النبات وغلبۃ الممتزج بالاختلاط من غیر طبخ ولا تشرب نبات ثم المخالط ان جامدافمادام یجری علی الاعضاء فالماء الغالب وان مائعافان لم یکن مخالفافی شیئ کالماء المستعمل تعتبر بالاجزاء وان مخالفافیھافان غیراکثرھا لایجوزالوضوء بہ والاجازوان خالف فی وصف اووصفین تعتبر الغلبۃ من ذلک الوجہ کاللبن یخالفہ فی اللون والطعم فان کان بون اللبن اوطعمہ ھو الغالب لم یجز والاجاز وماء البطیخ یخالفہ فی الطعم فتعتبر الغلبۃ فیہ بالطعم فعلی ھذا یحمل ماجاء منھم علی مایلیق بہ فقول من قال ان کان رقیقایجوز والا لاعلی مااذا کان المخالط جامداومن قال ان غیراحداوصافہ جاز علی ماخالفہ فی الثلثۃ ومن قال اذا غیر احداوصافہ لایجوز علی ماخالفہ فی وصف او وصفین ومن اعتبر بالاجزاء علی مایخالفہ فی شیئ فاذانظرت وتأملت وجدت ماقالہ الاصحاب لایخرج عن ھذا و وجدت بعضھا مصرحا بہ وبعضھا مشارالیہ ۱؎ اھ ھذاکل کلامہ قدلخصتہ ولم اخرم منہ حرفاغیرماذکر فی التشرب من الفرق بین الخروج والاستخراج فانہ غیر صحیح ولا یتعلق بہ الغرض ھھنا۔


اسی طرح انہوں نے اختلاف کیا ہے،اور اب میں زیلعی کا کلام نقل کرتا ہوں تاکہ بات پُوری طرح واضح ہوجائے،انہوں نے پہلے تو مخالف اقوال ذکر کئے،پھر فرمایا، اسی طرح اختلاف ہوا ہے، تو کوئی ضابطہ اور توفیق ضروری ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ پانی جب اپنی اصلی خلقت پر ہو اور اس سے پانی کا نام سلب نہ ہوا ہو تو اس سےوضوجائز ہے اور اگر نام زائل ہوجائے اور مقید ہوجائے تو جائز نہیں، اور تقیید یا تو کمالِ امتزاج کے ساتھ یا ملی ہوئی چیز کے غلبہ کے ساتھ ہوگی، تو کمالِ امتزاج یہ ہے کہ پانی میں ایسی پاک چیز ڈال کر پکائے جس سے تنظیف مقصود نہ ہو یا گھاس میں پانی جذب ہوجائے اور ملی ہوئی چیز کا غلبہ یہ ہے کہ پانی کا اختلاط بلا پکائے ہو اور گھاس میں پانی جذب کیے بغیر ہو پھر ملنے والی چیز اگر جامد ہو تو جب تک وہ اعضاء پر بہے تو پانی غالب ہوگا، اور اگر ملنے والی چیز بہنے والی ہے تو وہ اگر کسی چیز میں پانی کے مخالف نہیں ہے، جیسے مستعمل پانی تو غلبہ کا اعتبار اجزأ سے ہوگا،اور اگر وہ پانی کے مخالف ہو تو اگر اکثر اوصاف کو بدل دے تو اس سےوضوجائز نہیں ورنہ جائز ہے، اور اگر ایک یا دو وصفوں میں مخالف ہے تو اسی وجہ سے غلبہ معتبر ہوگا، جیسے دودھ کہ پانی کے مخالف ہے رنگ اور مزے میں، تو اگر دودھ کا رنگ یا مزہ غالب ہو تووضوجائز نہیں ورنہ جائز ہوگا۔ اور خربوزہ کا پانی، پانی سے صرف مزہ میں مختلف ہے تو اس میں غلبہ باعتبار مزہ ہوگا، لہٰذا فقہاءکی نصوص کو انہی مفاہیم پر محمول کرنا چاہئے جو اس کے لائق ہوں، اب جو یہ کہتا ہے کہ اگر وہ رقیق ہے تو جائز ہے ورنہ نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملنے والی اگر جامد ہے تو یہ حکم ہے۔ اور جو کہتا ہے کہ اگر اس کے اوصاف میں سے کسی وصف کو بدل دیا تو جائز ہے، یہ اس صورت میں ہے جب کہ وہ چیز پانی کے ساتھ تینوں وصفوں میں مخالف ہے،اور جو کہتا ہے کہ جب اس کے اوصاف میں سے ایک وصف کو بدل دے تو جائز نہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز پانی سے ایک یا دو وصفوں میں مخالف ہے،اور جس نے غلبہ باعتبار اجزاء لیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ چیز پانی کے ساتھ کسی چیز میں مخالف نہ ہو، تو جب آپ غور کریں گے تو اسی نتیجہ پر پہنچیں گے جو کچھ اصحاب نے فرمایا ہے وہ اس بیان سے خارج نہیں،ان میں سے بعض امور تو کتب میں بصراحت مذکور ہیں اور بعض کاذکر اشارتاً ہے اھ یہ ان کا مکمل کلام ہے جو بلاکم وکاست میں نے نقل کردیا ہے، صرف تَشرُّب میں جو فرق خروج واستخراج میں ہے، وہ صحیح نہیں، اور نہ ہی اس سے کوئی غر ض یہاں متعلق ہے۔ (ت)


 (۱؎ تبیین الحقائق    بحث الماء    بولاق مصر    ۱/۲۰)

اقول فقد بان لک من کلامہ ثلٰثۃ امور الاول لاذکر(۱)فی کلامہ لتقییدحکم الجامد ببقاء الاسم حتی بالاشارۃ فضلا عن التصریح انماقال مادام یجری علی الاعضاء فالماء غالب ای مطلق غیرمقید فھذا کما تری مطلق غیر مقید ثم اذا اتی علی تطبیق الضابطۃ علی الروایات المختلفۃ حمل علی الجامد قول من قال ان کان رقیقایجوزوالا لا والقول فی الاصل مرسل وفی الحمل مرسل ارسالا فمتی جنح الی التقیید وکذلک تلونا علیک کلام الاٰخذین عنہ اصحاب الفتح والحلیۃ والغنیۃ والدرر ونورالایضاح حتی البحر الذی ابدی ھذا التقیید لم یلم احدمنھم فی تلخیص الضابطۃ الیہ لاجرم ان صرح الشامی بانہ من زیادات البحر الثانی ذکر رحمہ اللّٰہ تعالٰی اولا اصلا مجمعا علیہ ان الوضوء انمایجوز بالماء المطلق وھو الذی لم یزل عنہ طبعہ ولااسمہ دون المقید الزائل عنہ اسمہ۔


میں کہتا ہوں اُن کی گفتگو سے آپ کو تین باتیں معلوم ہوئیں: اول:ان کے کلام میں جامد کے حکم کو نام کی بقاء سے مقید کرنے کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے صراحت تو الگ رہی اشارہ تک نہیں،انہوں نے صرف یہ فرمایاہے کہ جب تک وہ اعضاء پر جاری رہے تو پانی غالب ہے یعنی مطلق ہے مقید نہیں، تو جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں یہ مطلق ہے مقید نہیں، پھر جب وہ ضابطہ کو مختلف روایات پر منطبق کرنے لگے، تو جن لوگوں نے کہا ہے کہ اگر رقیق ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں انکے اس قول کو جامد پر محمول کیا ہے حالانکہ یہ قول مطلق ہے اور حمل میں بھی مرسل ہے تو قید لگانے کی طرف کب مائل ہوئے؟اسی طرح ہم نے اُن حضرات کا کلام بھی نقل کردیا جنہوں نے اس سے لیا ہے یعنی فتح، حلیہ، غنیہ، درر اور نور الایضاح کے مصنفین ، یہاں تک کہ صاحبِ بحر جنہوں نے یہ قید لگائی،ان میں سے کسی نے ضابطہ کا خلاصہ یہ نہیں کیا، اس لئے شامی نے تصریح کردی کہ یہ زیادات بحر سے ہے۔؂

دوم: پہلے تو انہوں نے ایک متفق علیہ اصل ذکر کی اور وہ یہ کہ وضو مطلق پانی سے جائز ہوتا ہے،اور مطلق پانی وہ ہے جس کی طبیعت اور نام زائل نہ ہوا ہو نہ کہ مقید پانی سے جس کا نام زائل ہوگیا ہو۔(ت)


اقول: ولم یذکر الطبع لان زوال الطبع یوجب زوال الاسم فذکرہ اولا ایضاحاوحذفہ اٰخرا اجتزاء فھذاالقدرممالاخلاف فیہ لاحد انما الشان فی معرفۃ المطلق والمقید ای معرفۃ انہ متی یزول الاسم فیحصل التقیید فتشمر لاعطاء ضابطۃ ذلک تتمیز بھا مواضع زوال الاسم عن محال بقائہ فقال التقیید باحدامرین کمال الامتزاج اوغلبۃ الممتزج الخ فلاشک انہ کلام فیمالم یزل عنہ اسم الماء کماذکرہ السید کانہ مسوق لبیان مایحصل بہ التقیید والتقیید انما یکون للمطلق فان تقیید المقید تحصیل الحاصل وما المطلق الامالم یزل عنہ اسم الماء ففیہ الکلام وماکان انکرہ احد لکنہ(۱)لایدفع الایراد بل انما منہ منشؤہ فانہ افادان الماء المطلق لایتقید فی خلط الجامد الابالثخونۃ والحکم خلافہ فانہ ربما یتقید قبل ان یثخن کما فی الزعفران والنبیذ وثبوت الحصر اولابالقصر کماعلمت واقول ثانیا محال ان یزول اسم الماء عنہ مع بقاء رقتہ الا بتغیر وصف لانہ اذابقی طبعہ واوصافہ فزوال اسمہ عنہ یکون بغیرموجب وھو باطل اماماامتزج بہ غیرہ ممالایخالف (عـہ)وصفالہ مساویا لہ فی الاجزاء اواکثر فانما یزول فیہ اسم الماء عن الکل المرکب من الماء وغیرہ المساوی لہ اوالغالب علیہ لاعن الماء الذی فیہ حتی لوامکن افراز الماء عن ذلک المخالط لکان ماء جائزابہ الوضوء وھو رحمہ اللّٰہ تعالٰی لم یذکر فی الجامد غیرالثخونۃ ولم یعتبر فیہ الاوصاف انما اعتبرھا فی مقابلہ المائع والمقابلۃ تنا فی الخلط فقد افاد قطعا ان لاغلبۃ فی الجامد بالاوصاف وقد افصح بہ الشرنبلالی فی تلخیص ضابطتہ اذقال ولایضر تغیراوصاف کلھا ۱؎ اھ وما کان زوال الاسم الالاحدامرین زوال الرقۃاوتغیر الوصف وقد نفی ھذا فی خلط الجامد فلم یبق الا الاول وظھر انہ یقول لایزول الاسم فیہ بوجہ من الوجوہ مادامت الرقۃ باقیۃ وھذا ھومحل الایراد فاین المحیص نعم ذکر فی صدر الکلام لفظ زوال الاسم و ھو انما ھو تمھید ضابطتہ خارجاعنھابیانا للمحوج الیھاکماعلمت فضلا عن ان یکون قیدا فی حکم الجامد۔


میں کہتا ہوں انہوں نے طبیعت کا ذکر نہیں کیاکیونکہ طبیعت کے زائل ہونے سے نام بھی زائل ہوجاتا ہے تو پہلے بطور وضاحت ذکر کیا ہے،اور بعد میں اختصاراً حذف کیا ہے،اور اس میں کسی کا خلاف نہیں، مسئلہ دراصل مطلق ومقید کی پہچان کا ہے، یعنی یہ جاننے کا ہے کہ کب نام زائل ہوگا اور تقیید حاصل ہوگی، تو انہوں نے ایک ضابطہ بیان کیا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ کب زائل ہوگا اور کب باقی رہے گا، یا توکمالِ امتزاج یا ملنے والی چیز کے غلبہ سے الخ تو اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کا کلام اس پانی میں ہے جس سے پانی کا نام زائل نہیں ہوا ہے جیسا کہ سید نے ذکر کیا اس لئے کہ کلام اُس چیز کے بیان کیلئے ہے جس سے تقیید پیداہوتی ہے اور تقیید تو مطلق کی ہوتی ہے کیونکہ مقید کی تقیید تو تحصیل حاصل ہے، اور مطلق تو وہی ہے جس سے پانی کا نام زائل نہ ہوا ہو، تو گفتگو اسی میں ہے اور اس کا کسی نے انکار نہیں کیا، مگر اس سے اعتراض مرتفع نہیں ہوتا ہے،بلکہ اس سے تو پیدا ہوتا ہے،کیونکہ اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ مطلق پانی جامد کے ملنے سے تب ہی مقید ہوگا جبکہ گاڑھا ہوجائے حالانکہ حکم اس کے برخلاف ہے کیونکہ بسااوقات وہ گاڑھاہونے سے پہلے ہی مقید ہوجاتا ہے جیسا کہ زعفران اور نبیذ۔اور حصر کا ثبوت اولاً تو یہ ہے کہ اس میں قصر ہے جیسا کہ آپ نے جانا، اور میں ثانیا کہتا ہوں،یہ امر محال ہے کہ رقت کے باقی رہتے ہوئے اس سے پانی کانام زائل ہو، اِلّا یہ کہ اس کا کوئی وصف متغیر ہوجائے اس لئے کہ جب اس کی طبیعت باقی ہواور اس کے اوصاف باقی ہوں تو اس سے اس کے نام کا زائل ہونا بغیر موجب کے ہوگا اوریہ باطل ہے،اور جو غیر اس کے ساتھ مل جائے اور یہ غیر اُن چیزوں میں سے ہو جو کسی وصف میں اس پانی کے مخالف نہ ہو،اور وہ غیر اس کے اجزاء میں مساوی ہو یا زیادہ ہو تو اس میں پانی کا نام کل مرکب سے زائل ہوجائیگاجوپانی اور اس کے غیر سے مرکب ہو اور اس کے مساوی ہو یا اس پر غالب ہو نہ کہ اُس پانی سے جو اس میں ہے،یہاں تک کہ اگر اس آمیزش سے پانی کا جدا کرنا ممکن ہو تا تو اس پانی سے وضو جائز ہوتا،اور انہوں نے (رحمہ اللہ) جامد میں صرف گاڑھے پن کا ذکر کیا ہے، اور اس میں اوصاف کا اعتبار نہیں کیا ہے،اِن اوصاف کا اعتبار اس کے مقابل مائع میں کیا ہے اور مقابلہ ملاوٹ کے خلاف ہے، تو انہوں نے قطعاً یہ بات بتائی ہے کہ جامد میں اوصاف سے غلبہ نہیں ہوتا ہے،اور یہی بات شرنبلالی نے اپنے ضابطہ کے خلاصہ میں کہی ہے، انہوں نے کہا کہ اس کو تمام اوصاف کا متغیر ہوجانا مضر نہیں اھ اور نام کا زائل ہونا دو چیزوں میں سے ایک کی وجہ سے ہے،یا تورقتہ کا ختم ہونایا وصف کا تبدیل ہونا اور یہ چیز جامد کے ملنے کی صورت میں نہیں، تو صرف پہلی صورت میں باقی رہے اوریہ ظاہر ہوگیاکہ وہ کہتے ہیں جب تک رقت باقی رہے گی نام کسی طرح زائل نہ ہوگا،یہ اعتراض کی صورت ہے، تو چھٹکارے کی کیا سبیل ہوگی؟ ہاں ابتداء کلام میں نام کے زائل ہونے کا ذکر کیا تھا،یہ ان کے ضابطہ کی تمہید ہے اس میں داخل نہیں،اس چیز کا بیان ہے کہ ضابطہ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟جیسا کہ آپ نے جان لیا،یہ جامد کے حکم میں قید نہیں۔ (ت)


(عـہ)اقول ای ان وجدامامامثلوابہ من ماء لسان الثوروماء الورد المنقطع الرائحۃ فلیس منہ للاختلاف فی الطعم ومامثلوابہ من الماء المستعمل فھو بنفسہ علی تحقیقنامن الماء المطلق فکیف یجعل امتزاجہ بالمطلق المطلق مقیدا ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

میں کہتا ہوں یعنی اگر پایا جائے، اور لسان ثور، اور گلاب کا پانی جس میں خوشبور نہ رہی ہو،کی مثالیں جو انہوں دی ہیں وہ اس سے نہیں ہے، کیونکہ مزہ کی تبدیلی میں اختلاف ہے، اور مستعمل پانی کی مثال جو دی ہے تو وہ خود ہماری تحقیق کے مطابق مطلق پانی ہے تو مطلق کو مطلق سے ملا کر مقید کیونکر کیا جاسکتا ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت)


 (۱؎ نورالایضاح     کتاب الطہارۃ    مطبوعہ مطبع علیمی لاہور    ص۳)


فان قلت الیس قدقال قبل ھذا تحت قول المختصر اوبالطبخ ان زوال الاسم ھو المعتبر فی الباب کماتقدم فکان صریح منطوقہ الادارۃ علیہ حیث کان اقول بلی وھو جملۃ القول فی الباب وماالضابطۃ الا لتفصیلہ وبیان انہ متی یحصل وقدصرح فیھاانہ لایحصل فی خلط الجامد الا بالثخونۃ فانی تنفع الادارۃ۔


اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ انہوں نے اس سے قبل مختصر کے قول ''اوبالطبخ'' کے تحت فرمایا تھا کہ اس باب میں نام کا زائل ہونا ہی معتبر ہے جیسا کہ گزرا، تو انہوں نے اسی چیز کو صریحاً مدار بنایا جہاں بھی یہ پایا جائے۔ میں کہتا ہوں یہ درست ہے اور اس باب کا خلاصہ یہی ہے،اور ضابطہ تو اس کے بیان اور تفصیل کے لئے ہے اور یہ بتانے کیلئے ہے کہ یہ صورت کب پیدا ہوتی ہے،اور انہوں نے اس میں تصریح کی ہے کہ یہ جامد کے مل جانے میں صرف گاڑھا ہونے سے حاصل ہوتی ہے، تو اس پر مدار رکھنا مفید نہیں۔


الثالث ھو بصدد اعطاء ضابط یمیز بین المقید والمطلق وما الضابط الا مایحیط بالصور فیجب ان یستوعب کلامہ بیان کل مایحصل بہ التقیید ای کل مایزول بہ الاسم اذلاتقیید الابہ فتقیید(۱) شیئ من احکامہ بان لایزول الاسم افساد لمقصودہ واخراج للضابط عن ان یکون ضابطاوارجاع للتمیز الی التجہیل، وللتفصیل الی التعطیل، فانہ یؤل الی ان فی خلط الجامد بدون الثخونۃ لایزول الاسم بشرط ان لایزول الاسم وھوکلام مغسول، لایرجع الٰی طائل و محصول،ھذامعنی قول النھرانہ لایجدی نفعافتبین انہ لامذکو ر ولامطوی ولامنوی وان الحق فیہ بیدالنھر،وان ھذا شیئ سقط عن الفخر،فلقعہ البحر،وذکرہ فی تنبیہ علی حدۃ فجاء الدر فنظمہ فی سلک الضابطۃ اذقال فلوجامدا فبثخانۃ مالم یزل الاسم کنبیذتمر ۱؎ اھ ونعمافعل لانہ صح الحکم وان انحلت عری الضابطۃ،واحتاج مطّلعھا الی ضابط اٰخر یلقط لہ ساقطہ، ھکذا ینبغی التحقیق،واللّٰہ تعالی ولی التوفیق، وکان الحری بنا ان نؤخر ھذا البحث الی الفصل الرابع حیث نتکلم ان شاء اللّٰہ تعالی علی الضابطۃ ولکن الحاجۃ مست الیہ ھھناکیلا یعتری احداشک فیما نبدی من المخالفات بین الاحکام المنقولۃ وقضیۃ الضابطۃ وباللّٰہ تعالی التوفیق۔


سوم:وہ ایک ضابطہ بیان کرنا چاہتے ہیں جو مقید اور مطلق کے درمیان تمیز پیدا کردے اور ضابطہ وہی ہوتا ہے جو تمام صورتوں کا احاطہ کرے تو لازم ہے کہ ان کا کلام اُن تمام صورتوں کااحاطہ کرے جن سے تقیید پیدا ہوتی ہے یعنی وہ تمام صورتیں جن میں زائل ہوجاتا ہے کہ تقیید تواسی سے حاصل ہوگی، تو اس کے احکام میں سے کسی کو اس سے مقید کرناکہ نام زائل نہیں ہوا اس کے مقصود کو فاسد کرنااور ضابطہ کو ضابطہ ہونے سے خارج کرنا ہے،اور بجائے اس کے کہ امتیاز پیداہوابہام پیدا کرنا ہے،اور تفصیل کو ختم کرنا ہے،اور اس کا انجام یہ ہوگاکہ جامد کی آمیزش میں گاڑھا نہ ہونے کی صورت میں نام زائل نہ ہو بشرطیکہ نام زائل نہ ہو،اور یہ کلام لغو بے فائدہ ہے، نہر کے قول کہ ''یہ مفید نہیں'' کا یہی مطلب ہے،یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ نہ توکچھ مذکور ہے اور نہ منوی ہے اور اس بارے میں حق نہر کے ساتھ ہے اور یہ وہ چیز ہے جو فخر سے رہ گئی تھی اور بحر نے اس کو لیاتھااور اس پر الگ تنبیہ کی تھی اور صاحبِ در نے اس کو ضابطہ کی شکل میں پیش کردیا، وہ فرماتے ہیں ''اگر آمیزش جامد کی ہو تو دارومدار گاڑھا ہونے پر ہے جب تک نام زائل نہ ہو جیسے نبیذتمراھ اور انہوں نے یہ اچھا کام کیاہے کہ حکم صحیح ہوگیاہے اگرچہ اس سے ضابطہ ڈھیلا پڑ گیا اور اس صورت میں ایک مزید ضابطہ کی حاجت ہوگئی، تحقیق کایہ طریقہ ہوناچاہئے، ہمیں یہ بحث چوتھی فصل تک مؤخر کرنی چاہئے تھی جہاں ہم ضابطہ پر گفتگو کریں گے، مگر یہاں ضرورۃً بحث کرنا پڑی ہے تاکہ احکام منقولہ اور ضابطہ میں کسی کو شک وشبہ لاحق نہ ہوجائے وباللہ التوفیق۔ (ت)


 (۱؎ الدرالمختار   باب المیاہ         مجتبائی دہلی         ۱/۳۴)

 (۲۸۸)یوں ہی شربت سے وضو ناجائز ہے شکّر، بتاشے، مصری، شہد کسی چیز کا ہو نمبر ۱۸۵ میں ہدایہ وغیرہا کتابوں سے گزرا: لایجوز بالاشربۃ ۱؎  (شربتوں سے وضو جائز نہیں۔ ت)


 (۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ    مطبع عربیہ کراچی    ۱/۱۸)


اس پر عنایہ وبنایہ وکفایہ وغایہ میں فرمایا: ان ارادبالا شربۃ الحلوالمخلوط بالماء کالدبس والشھد المخلوط بہ کانت نظیر الماء الذی غلب علیہ غیرہ ۲؎۔ اگر ان کی مراد ''اشربہ'' سے میٹھے شربت ہیں جیسے شیرہ اور شہد جو پانی میں ملے ہوں تو اس پانی کی نظیر ہے جس پر کوئی دوسری چیز غالب ہوگئی ہو۔ (ت)


 (۲؎ الکفایۃ مع فتح القدیر      باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ مطبع نوریہ رضویہ )


مجمع الانہر میں ہے: قال صاحب الفرائد المراد من الاشربۃ الحلوا لمخلوط بالماء کالدبس والشہد ۳؎۔ صاحب الفرائد نے فرمایا اشربہ سے مراد میٹھا شربت ہے جو پانی میں شامل ہوگیا ہو جیسے شیرہ اور شہد۔ (ت)


 (۳؎  الکفایۃ مع فتح القدیر      باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالا یجوزبہ مطبع نوریہ رضویہ)


مگر اصحاب ضابطہ غیر بحر ودُر پر لازم کہ اُس سے وضو جائز مانیں جب تک پانی کی رقت نہ زائل ہو اور یہ شربت میں عادۃً نہیں ہوتا شکّر، بتاشے، مصری تو ظاہر ہیں اور یوں ہی شہد جبکہ جما ہوا ہو مگر یہ اُسی وجہ سے صحیح نہیں کہ شربت کو پانی نہیں کہتے نام بدل گیا تو آب مطلق نہ رہا۔

(۲۸۹) یوں ہی دوا کاخیساندہ قابلِ وضو نہیں اگر گاڑھا نہ ہوگیاہو کہ وہ دوا کہلائیگی نہ پانی مگر اہل ضابطہ پر جواز لازم۔

(۲۹۰ تا ۲۹۵)یونہی کسم، کیسر، رنگت کی پڑیاں جب پانی میں اس قدر ملیں کہ رنگنے کے قابل ہوجائے کسیس، مازو،روشنائی مل کر حرف کا نقش بننے کے لائق ہوجائے بحکم تجنیس وفتح القدیر وحلیہ ومعراج الدرایہ وبحرالرائق ودُرمختار وقنیہ وہندیہ وفتح اللہ المعین وامام جرجانی جس کی عبارت نمبر ۱۲۴ میں گزریں اُس سے وضو جائز نہیں کہ وہ رنگ یا سیاہی یا روشنائی کہلائے گا نہ پانی مگر بحکم ضابطہ جواز ہے خصوصاً پڑیا کا پانی کہ بہت کم مقدار میں ملائی جاتی ہے جس کا پانی کی رقت پر اثر نہیں ہوسکتا۔


اقول: وھو وان کان ظاھر عامۃ الکتب کمامر ثمہ لکن ھذاھو قضیۃ الاصل المجمع علیہ الغیر المنخرم ان زوال الاسم یسلب الاطلاق واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ میں کہتا ہوں اگرچہ ظاہر عام کتب کا وہی ہی جو گزرا لیکن اس اصل کایہی تقاضاہے جس پر قطعی اجماع ہے کہ نام کے زائل ہونے سے اطلاق کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ (ت)

ہاں روشنائی وغیرہ کا گاڑھا پانی بروئے ضابطہ بھی قابلِ وضو نہیں۔


صنف دوم سیال اشیاء


 (۲۹۶ تا ۲۹۸)اقول گلاب کیوڑابید مشک بلاشبہ مزہ آب کے خلاف مزہ رکھتے ہیں اور ان کی بُو قوی تر ہے گھڑے بھر پانی میں تولہ بھر اُسے خوشبُودار کردیتاہے اور مزہ نہیں بدلتا توبحسب حکم منقول اُس سے وضو جائز رہے گا جب تک اس قدر کثرت سے نہ ملے کہ پانی پر اُس کا مزہ غالب آجائے مگر اہلِ ضابطہ کے نزدیک اُس سے وضو ناجائز ہونا لازم لانہ ذووصفین وقد تغیر واحد (کیونکہ دو وصفوں والا ہے اور ایک وصف بدل چکا ہے۔ ت) مگر یہ سخت بعید بلکہ بداہۃً باطل ہے عرفاً لغۃً شرعاً اُس گھڑے بھر پانی کو جس میں چند قطرے گلاب کے پڑے ہیں پانی ہی کہاجائے گا تو وہ یقینا آب مطلق ہے اور اس سے بلاشبہ وضو جائز۔

(۲۹۹ و ۳۰۰) زعفران حل کیا ہوا پانی یاشہاب اگر اتناملے کہ پانی کا صرف رنگ بدلے تو حکم مذکور نمبر ۱۲۶ سے وہ پانی قابلِ وضو نہ رہے گا اور اہلِ ضابطہ جائز کہیں گے۔


لانھما من ذوات الثلثۃ فلایکفی تغیروصف واحد ولونھمااقوی اوصافھمافیعمل قبل ان یعمل الباقیان۔ کیونکہ یہ تین اوصاف والا ہے تو اس میں ایک کا تغیر کافی نہ ہوگا اور اس کے اوصاف میں سے رنگ قوی تر ہے تو باقی دو کے مؤثر ہونے سے قبل ہی یہ مؤثر ہوجائیگا۔ (ت)


 (۳۰۱) یوں ہی پڑیا حل کیا ہوا پانی پانی میں پڑ کر صرف رنگت بدل دے تو کتب مذکورہ کے حکم سے قابلِ وضو نہیں اور اہلِ ضابطہ کے نزدیک بھی ناجائز ہے اگر پڑیا کسی قسم کی بُو نہ رکھتی ہو ورنہ جائز کہیں گے۔ 

(۳۰۲)آب تربوزسے جب پانی کاصرف مزہ بدلے خود اہل ضابطہ نے عدمِ جواز وضو کی تصریح کی کمامر فی ۱۲۸ مگر اُن کا ضابطہ جواز چاہتا ہے۔


لانہ ذوالثلثۃ فلایکتفی بوصف وطعمہ اغلب اوصافہ فلایستلزم غلبتہ غلبۃ احد الباقیین۔ کیونکہ یہ تین وصفوں والا ہے، تو ایک وصف پر اکتفأ نہ کیا جائے گا، اور اس کا مزہ اس کے اوصاف میں قوی تر ہے تو اس کے غلبہ سے دو۲باقیماندہ وصفوں میں سے کسی ایک کا غلبہ لازم نہیں آئے گا۔ (ت)

(۳۰۳)سپید انگور کے سرکہ کی جب صرف بُو پانی میں آجائے غالب نہ ہو بحکم بدائع منقول نمبر ۱۳۰ قابل وضو ہے مگر بروئے ضابطہ جوازنہ چاہئے لانہ ذووصفین وقد تغیراحدھما  (کیونکہ یہ دو وصفوں والا ہے اور ایک وصف بدل چکا ہے۔ ت)

(۳۰۴) سرکہ کہ رنگت بھی رکھتا ہے اور اُس کی بُو سب اوصاف سے اقوٰی ہے اگر پانی میں اُس کا مزہ اور بُو آجائے اور رنگ نہ بدلے بحکم منقول مصرح امام ملک العلماء وامام اسبیجابی وامام فخرالدین زیلعی ونجم الدین زاہدی وزادالفقہاء وامام ابن امیر الحاج حلبی مذکور نمبر ۱۲۶ قابلِ وضو ہے مگر اتباعِ ضابطہ نے عدمِ جواز کی تصریح کی، غنیہ میں ہے:


ان کان یخالفہ فی الاوصاف کلھاکالخل فالمعتبر غلبۃ اکثرھا ۱؎۔ اگر وہ پانی کے تمام اوصاف میں اس کے مخالف ہے جیسے سرکہ تو معتبران میں سے اکثر کا غالب ہونا ہوگا۔(ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی        فصل فی بیان احکام المیاہ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۱)


نورالایضاح ومراقی الفلاح میں ہے:الغلبۃ توجد بظھور وصفین من خل لہ لون وطعم وریح ای وصفین منھاظھرامنعاصحۃ الوضوء ولوواحد لایضر لقلتہ ۲؎۔ سرکہ کے وصفوں میں سے دو کے ظہور سے غلبہ پایا جائیگا کیونکہ اس کے تین اوصاف ہیں مزہ، رنگ اور بُو، کوئی سے دو وصف ان میں سے غالب ہوجائیں تو اس سے وضو نہیں ہوسکتا ہے اور اگر ایک وصف متغیر ہوتا ہے تو کم ہونے کی وجہ سے مضر نہیں۔ (ت)


 (۲؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارت    الامیریۃ ببولاق مصر    ص۱۶)


ردالمحتار میں ہے: فالغلبۃ بتغیر اکثرھا وھو الوصفان فلا یضر ظھوروصف واحد فی الماء من اوصاف الخل ۳؎ اج تو اعتبار اکثریت کے تغیر کا ہے اور یہ دو وصف ہیں تو سرکہ کے صرف ایک وصف کا پانی میں ظاہر ہونا کچھ مضر نہ ہوگا۔(ت)


 (۳؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/ ۱۳۴)


اقول: وقدکان ملک العلماء قدس سرہ احال الامراولا علی زوال الاسم وھی الجادۃ الواضحۃ حیث قال الماء المطلق اذا خالطہ شیئ من المائعات الطاھرۃ کاللبن والخل ونقیع الزبیب ونحو ذلک علی وجہ زال عنہ اسم الماء بان صار مغلوبا بہ فھو بمعنی الماء المقید ۱؎ اھ لکن ثم عاد(عـہ۱) الی اعتبار اللون فی مثلہ فقال متصلا بہ ثم ینظر ان کان یخالف لونہ لون الماء یعتبر الغلبۃ فی اللون ۲؎۔


میں کہتاہوں ملک العلماء نے پہلے تو مدار نام کے زائل ہونے پر رکھا تھا،اور یہی صحیح بھی تھا، وہ فرماتے ہیں مطلق پانی میں جب کوئی سیال شَے مل جائے جیسے دودھ، سرکہ، منقی کاپانی وغیرہ، اور اس سے پانی کا نام زائل ہوجائے کہ پانی مغلوب ہو تو اب یہ پانی مقید ہے اھ لیکن پھر وہ اس جیسی صورت میں رنگ کے اعتبار کا ذکر کرتے ہیں چنانچہ اسی کے متصل فرماتے ہیں،پھر دیکھا جائیگا کہ اگر اس کا رنگ پانی کے رنگ کے مخالف ہے تو رنگ میں غلبہ معتبر ہوگا۔


 (عـہ۱) سیاتی بحمداللّٰہ تعالٰی تحقیق السر فی ذلک فی سادس ضوابط الفصل الثالث ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

اس کی حکمت تیسری فصل کے چھٹے ضابطہ میں آئے گی ۱۲ منہ غفرلہ (ت)


 (۱؎ بدائع الصنائع    الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۱۵)

(۲؎بدائع الصنائع    الماء المقید    سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۱۵)


(۳۰۵) جس سرکہ کا مزہ رنگ وبُو سے اقوی ہو جب اس کے مزہ وبُوپانی پر غالب آئیں اور رنگ نہ بدلے بحکم مذکور ائمہ قابلِ وضو ہے اور ضابطہ مخالف۔

(۳۰۶) جس سرکہ کا رنگ غالب تر ہو جب اُس سے صرف رنگ بدلے تو اس کا عکس ہے یعنی بحکم ائمہ اُس سے وضو ناجائز اور ضابطہ مقتضی جواز۔

(۳۰۷) دُودھ سے جب پانی کا صرف رنگ بدلے بحکم ائمہ مذکورین قابلِ وضو نہیں اور عجب کہ امام زیلعی نے بھی اُن کی موافقت کی حالانکہ اُن کا ضابطہ مقتضی جواز ہے  لانہ ذوالثلٰثۃ ولونہ اقوی فلایکفی وصف واحد (کیونکہ یہ تین وصفوں والا ہے اور اس کے اوصاف میں رنگ قوی تر ہے تو ایک وصف پر اکتفاء نہ کیا جائیگا۔ت) ہاں امام ابن الہام ودُر وقدوری وہدایہ وعنایہ وعمدۃ القاری جانب جواز ہیں  کما تقدم کل ذلک ۱۳۴ واللّٰہ تعالٰی اعلم  (اس کی پُوری بحث ۱۳۴ میں گزر چکی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ ت)


تکمیل جزئیات نامحصور ہیں بہتی ہوئی چیز کہ پانی سے کسی وصف میں مخالف ہے اس کے بارے میں اس اختلاف واتفاق کا ضابطہ ملاحظہ چند امور سے واضح:

(۱) اگر کوئی وصف نہ بدلے پانی بالاجماع قابلِ وضو ہے۔

(۲) مخالفت اگر صرف رنگ یا مزہ میں ہے اور وہ بدل جائے بالاتفاق قابلِ وضو نہیں۔

تنبیہ: بدلنے سے کیا مراد ہے اس کی تحقیق اِن شاء اللہ العزیز فصل سوم میں آئے گی۔

(۳) اگر دو وصف میں مخالفت ہے اور دونوں بدل جائیں بالاتفاق عدمِ جواز ہے۔

(۴) اگر صرف رنگ ومزہ یا رنگ وبُو میں تخالف ہے اور رنگ بدلے توبالاتفاق ناقابل ہے اور دوسرا بدلے تو بحکم منقول جوازاور بروئے ضابطہ ناجائز۔

(۵) اگر صرف مزہ وبُو میں اختلاف ہے اور مزہ بدلے تو بالاتفاق اور بُو بدلے تو صرف بروئے ضابطہ عدم جواز ہے منقول جواز۔

(۶) اگر تینوں وصف مختلف ہیں اور سب بدل جائیں بالاتفاق ناجائز۔

(۷) اگر اس صورت میں صرف مزہ یا بُو بدلے بالاتفاق جواز ہے اور فقط رنگ بدلے تو بحکم منقول ناجائز اور حکم ضابطہ جواز۔

(۸) اسی صورت میں اگر رنگ ومزہ یا رنگ وبُو بدلیں بالاتفاق ناجائز اور مزہ وبُو بدلیں تو ضابطہ پر ناجائز اور منقول جواز۔

(۹) تخالف وتبدل دونوں کی جمیع صور کااحاطہ توان آٹھ میں ہوگیا،رہا یہ کہ تبدل کی کون سی صورت کہاں ممکن ہے اُس کا بیان یہ کہ جو ایک ہی وصف میں مخالف ہے ظاہر ہے کہ وہ تو اُسی کو بدل سکتا ہے اور اگر دو میں تخالف ہے تو تین صورتیں ہیں اوّل اقوی ہوگا یادوم یا دونوں مساوی، یعنی بدلیں تو دونوں ایک ہی ساتھ بدلیں اُن میں آگا پیچھا نہیں اگر ایک قوی ہے تو ایک کے تغیر میں اُسی کا تغیر ہوگا صرف دوسرے کو متغیر فرض نہیں کرسکتے ہاں دونوں کا بدلنا تینوں صورتوں میں ہوسکتا ہے۔

(۱۰) اگر تینوں وصف مختلف ہیں تو اس میں سات احتمال ہیں:اوّل اقوی ہو یادوم یاسوم یااول ودوم یا اول وسوم یادوم وسوم یاسب مساوی جن میں ایک اقوی ہو تنہا ایک کے تبدل میں وہی مفروض ہوسکتا ہے اور دو کے تبدل میں ایک وہ ہونا ضرور۔ اُس کے بغیر باقی دونوں کا تنہا یا معاً تغیر فرض نہیں کرسکتے اور دو اقوی ہیں تو اُسی میں نہ ایک کا تبدل ہوسکتا ہے نہ ایسے دو کا جن میں ایک وہ تیسرا ہو،ہاں تینوں بدل سکتے ہیں اورجہاں تینوں مساوی ہیں وہاں یہی صورت فرض ہوسکتی ہے کہ سب بدل جائیں یا کوئی نہ بدلے واللّٰہ تعالٰی اعلم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا ومولٰنا محمد الکریم الاکرم وعلٰی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ وبارک وسلم آمین والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے