مسئلہ ۸۲: از پیلی بھیت مسجد جامع مرسلہ حافظ شوکت علی صاحب ۳ ربیع الآخر ۱۳۲۰ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے کنویں سے پانی ہنود اپنے برتن سے بھریں مرد وعورت دونوں اُن کا بھرنا پانی کا نمازی کی طہارت کو نقصان لائے گا یا نہیں جو شخص اس کو جائز رکھے اور اسلام کے مقابلہ میں ہنود کو قوت دیوے اس کو کیا کہنا چاہئے مسلمان کوشش کریں کہ مسجد کے کنویں سے پانی ہنود نہ بھریں اور ایک شخص کوشش سے باز رکھے وہ کون ہے اور کسی عالم صاحب کے فرمانے کو کہے کہ وہ کیا جانے عالم کی اہانت کرنا کیا ہے اور اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔ بینوا بالدلیل فتوجروا عندالجلیل۔
الجواب: اگرچہ نجاست جب تک یقینا نہ معلوم ہو طہارت ہی مانتے ہیں مگر شک نہیں کہ ہنود کے برتن بدن سب نجاستوں پر مشتمل ہوتے ہیں جس قوم کے یہاں خود نجاست مطہر اور پاک کرنے والی مانی گئی ہو اور بچھیا کے مُوت گوبر کو پبتر کہیں یعنی پاک کرنے والا ان کی طہارت کی کیا ٹھیک ہے تو احتیاط اس میں ہے کہ مسجد کا کنواں ان کے تصرف سے دُور رہے جو شخص بلاضرورت شرعیہ مسلمانوں کا خلاف کرتا اور ان کے مقابل ہنود کو قوت دیتا ہے سخت خطرناک حالت میں ہے اور عالمِ(۱) دین کی توہین کو ائمہ نے کفر لکھا ہے۔ مجمع الانہر میں ہے: الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر ۱؎ (صحیح العقیدہ سنّی علماء اور اشراف کی توہین کفر ہے) ایسے شخص پر توبہ فرض ہے اگر نہ مانے اور اصرار کرے تو اس کے پیچھے ہرگز نماز نہ پڑھی جائے واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم۔
(۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر ثم ان الفاظ الکفر انواع بیروت ۱/۶۹۵)
0 تبصرے