Music

header ads

مد عا پر ۴۵ نصوص Mudda Par 45 Nosoos

 مد عا پر ۴۵ نصوص


 (۱۔۔۔۔۔۔۳) امام سر خسی کی محیط پھر فتاوی ہندیہ میں ہے ، ان دو ضابطوں کی معرفت ضروری ہے اول یہ ہے کہ جب ہمارے اصحاب ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد کسی بات پر متفق ہوں تو قاضی کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنی رائے سے ان کی مخالفت کرے ، دوم یہ کہ جب ان حضرات میں باہم اختلاف ہو تو عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا قول لیا جائے گا ، اس لئے کہ وہ تا بعین میں سے تھے اور تا بعین کے مقابلہ میں فتوی دیا کرتے تھے اھ۔


 (۱؎الفتاوی ہندیہ، بحوالہ محیط السرخسی کتاب اد ب القاضی الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۳۱۲)


ف: امامنا رضی اللہ تعالٰی عنہ من التابعین وقد زاحم ائمتہم فی الفتوی


زاد العلامۃ (۴) قاسم فی تصحیحہ ثم (۵) الشامی فی ردالمحتار فقولہ اسد واقوی مالم یکن اختلاف عصر وزمان ۱؎ اھ  (۴۔۔۔۔۔۵) یہاں علامہ قاسم نے تصحیح میں پھر علامہ شامی نے رد المحتار میں یہ اضافہ کیا : تو ان کا قول زیادہ صحیح اور زیادہ قوی ہوگا جب کہ عصر وزمانہ کا اختلاف نہ ہو ۔

اقول : وقول السرخسی برأیہ یدل ان النھی للمجتھد ولا ینبغی ای لا یفعل بدلیل قولہ لابد فلا یقال للمستحب لابد من معرفتہ اذا مالا یحتاج الی فعلہ لا یحتاج الی معرفتہ انما العلم للعمل۔ وفی (۶) فتاوی الامام الاجل فقیہ النفس قاضی خان المفتی فی زماننا من اصحابنا اذا استفتی فی مسألۃ وسئل عن واقعۃ انکانت المسألۃ مرویۃ عن اصحابنا فی الروایات الظاھرۃ بلا خلاف بینھم فانہ یمیل الیھم ویفتی بقولھم ولا یخالفھم برأیہ وانکان مجتہدا متقنا لان الظاھر ان یکون الحق مع اصحابنا ولا یعدوھم واجتھادہ لایبلغ اجتھادھم ولاینظر الی قول من خالفھم ولاتقبل حجتہ لانھم عرفوا الا دلّۃ ومیزوا بین ماصح وثبت وبین ضدہ ۔

اقول:   امام سرخسی کا لفظ '' اپنی رائے سے'' یہ بتاتا ہے کہ ممانعت مجتہد کے لئے ہے ، اور '' نہیں چاہئے '' کا معنی یہ ہے کہ '' نہ کرے '' اس کی دلیل ان کا لفظ '' لابد ضروری ''ہےکیوں کہ مستحب سے متعلق یہ نہ کہا جائے گا کہ '' اس کی معرفت ضروری ہے '' اس لئے کہ جس کا ذکر کرنا ضروری نہیں اس کا جاننا بھی ضروری نہیں علم تو عمل ہی کے لئے ہوتا ہے ۔ (۶) امام اجل فقیہ النفس قاضی خاں کے فتاوی میں ہے ،ہمارے دور میں جب ہمارے مسلک کے مفتی سے کسی مسئلہ میں استفتا او رکسی واقعہ پر سوال ہو تو اگر وہ مسئلہ ہمارے ائمہ سے ظاہر الروایہ میں بلا اختلاف باہمی مروی ہے تو ان ہی کی طرف مائل ہو ، ان ہی کے قول پر فتوی دے اور اپنی رائے سے ان کی مخالفت نہ کرے ، اگرچہ وہ پختہ کار مجتہد کیوں نہ ہو ، اس لئے کہ ظاہر یہی ہے کہ حق ہمارے ائمہ کے ساتھ ہے اور ان سے متجاوز نہیں ، اور اس کا اجتہاد ان کے اجتہاد کو نہیں پاسکتا ۔ اور ان کے مخالف کے قول پر نظر نہ کرے نہ اس کی حجت قبول کرے اس لئے کہ وہ دلائل سے آشنا تھے اور انہوں نے ثابت وصحیح اور غیر ثابت و صحیح کے درمیان امتیاز بھی کردیا ۔

فانکانت المسألۃ مختلفا فیھا بین اصحابنا فانکان مع ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی احد صاحبیہ یؤخذ بقولھما لوفور الشرائط واستجماع ادلۃ الصواب فیھما وان خالف ابا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی صاحباہ فی ذلک فانکان اختلافھم اختلاف عصروزمان کا لقضاء بظاھر العدالۃ یأخذ بقول صاحبیہ لتغیر احوال الناس وفی المزارعۃ والمعاملۃ ونحو ھما یختار قولھما لاجتماع المتاخرین علی ذلک وفیما سوی ذلک قال بعضھم یتخیر المجتھد ویعمل بما افضی الیہ رأیہ وقال عبداللہ بن المبارک یأخذ بقول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی ۱؎ اھ

 (۲)اگر مسئلہ میں ہمارے ائمہ کے درمیان اختلاف ہے تواگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ ان کے صاحبین میں سے کوئی ایک ہیں تو ان ہی دو نوں حضرات (امام اور صاحبین میں سے ایک ) کا قول لیا جائے گا کیوں کہ ان میں شرطیں فراہم ، اور دلائل صواب مجتمع ہیں  (۳)اور اگر اس مسئلہ میں صاحبین امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے بر خلاف ہیں تو یہ اختلاف اگر عصر و زمان کا اختلاف ہے جیسے گو اہ کی ظاہری عدالت پر فیصلہ کاحکم ، تو صاحبین کا قول لیا جائے گا کیونکہ لوگوں کے حالات بدل چکے ہیں ، او رمزار عت ، معاملت اور ایسے ہی دیگر مسائل میں صاحبین کا قول اختیار ہوگا کیونکہ متا خرین اس پر اتفاق کر چکے ہیں ،(۴) اور اس کے ماسوا میں بعض نے کہا کہ مجتہد کو اختیار ہوگا اور جس نتیجے تک اس کی رائے پہنچے وہ اس پر عمل کرے گا ، اور عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول لے گا ۔اھ

 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان     فصل فی رسم المفتی    نو لکشور لکھنؤ    ۱ /۲)

اقول : ولوجہ ربنا الحمد اتی بکل ما قصدناہ فاستثنی التعامل وما تغیر فیہ الحکم لتغیر الاحوال فقد جمع الوجوہ الستۃ التی ذکرناھا، ونص ان اھل النظر لیس لھم خلاف الامام اذا وافقہ احد صاحبیہ فکیف اذا وافقاہ ثم ما ذکر من القولین فیما عداھا لاخلف بینھما فی المقلد فالاول بتقیید التخییر بالمجتھد افاد ان لاخیار لغیرہ والثانی حیث منع المجتھد عن التخییر فھو للمقلد امنع فاتفق القولان علی ان المقلد لایتخیر بل یتبع الامام وھو المرام وفی (۷) الفتاوی السرا جیۃ و(۸) النھرالفائق ثم   (۹) الھندیۃ (۱۰) الحموی وکثیر من الکتب واللفظ للسراجیۃ الفتوی علی الاطلاق علی قول ابی حنیفۃ ثم ابی یوسف ثم محمد ثم زفـــــر عـــہ والحسن۱؎ ولفظ النہر ثم الحسن۔ ۱؎

اقو ل:ُ ہمارے رب ہی کی ذات کے لئے حمد ہے ، امام قاضی خاں نے ہمارے مقصود سے متعلق سب کچھ بیان کردیا ، تعامل اور اس مسئلے کا جس میں حالات کے بدلنے سے حکم بدل گیا ہے ، استثنا کر کے ہمارے ذکر کردہ اسباب ستہ کو جمع کردیا ، یہ صراحت بھی فرمادی کہ صاحبین میں سے کوئی ایک جب امام کے موافق ہوں تو اصحاب نظر کے لئے امام کی مخالفت ر وا نہیں ، اگر دو نوں ہی ان کے موافق ہیں تو کیونکر روا ہوگی؟  پھر ما سوا مسائل میں جو دو قول بیان کئے ہیں ان کے درمیان مقلد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں قول اول میں تخییر کو مجتہد سے مقید کر کے یہ افادہ کر دیا کہ غیر مجتہد کو اختیار نہیں ۔ اور قول دوم میں جب مجتہد کو تخییر سے منع کیا تو مقلد کو تو اور زیادہ منع کریں گے ، اس طر ح دو نوں قول اس بات پر متفق ٹھہرے کہ مقلد کو تخییر نہیں بلکہ اسے امام ہی کا تباع کرنا ہے ، یہی مقصود ہے ،
( ۷۔۔۔۔۱۰ ) فتاوی سراجیہ ، النہر الفائق ، پھر ہندیہ وحموی اور بہت سی کتا بو ں میں ہے الفا ظ سراجیہ کے ہیں ۔ 
فتوی مطلقا قول امام ابو حنیفہ پر ہوگا ، پھر امام ابو یوسف ، پھر امام محمد پھر اما زفر ، اورامام حسن کے قول پر اور نہر میں ثم الحسن ہے (پھر امام حسن)۔

عـــہ ھکذا نقل عنھا فی شرح العقود وغیرہ والحسن بالواو وھو مفاد الدر لکن فی نسختی السراجیۃ ثم الحسن واللہ تعالی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ۔ سراجیہ سے شرح عقود وغیرہ میں" والحسن " واو کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ یہی درمختار کا بھی مفاد ہے ۔ لیکن میرے نسخے سراجیہ میں ثم الحسن  ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۱۲غفر لہ

 (۱؎ الفتاوی السراجیہ کتاب ادب المفتی والتنبیہ علی الجواب مطبع نو لکشور لکھنو ص ۱۵۷)
(۱؎ الدرالمختار بحوالہ النہر کتاب القضاء         مطبع مجتبا ئی دہلی ۲ /۷۲)
(النہر الفائق شرح کنزالدقائق      کتاب القضاء قدیمی کتب خا نہ کرا چی۳ /۵۹۹)

اقول:  وھو حسن فان مکانۃ زفر ممالا ینکر لکن قال ش الواوھی المشہورۃ فی الکتب اھ ۱؎ ومعنی الترتیب ای اذ الم یجد قول الامام ثم رأیت الشامی (۱۱) صرح بہ فی شرح عقودہ حیث قال اذالم یوجد للامام نص یقدم قول ابی یوسف ثم محمد الخ قال والظاھر ان ھذا فی حق غیر المجتھد اما المفتی المجتھد فیتخیر بما یتر جع عندہ دلیلہ ۲؎۔

اقو ل:  لفظ نہر ''ثم الحسن''عمدہ ہے کیونکہ امام زفر کی ان سے برتری ناقابل انکار ہے لیکن علامہ شامی لکھتے ہیں کہ'' واو''ہی کتا بو ں میں مشہور ہے اھ اور تر تیب مذکور اس صورت میں مقصود ہے جب امام کا قول نہ ملے ، 
(۱۱) پھر میں نے دیکھا کہ علامہ شامی نے شرح عقود میں اس کی صراحت بھی فرمائی ہے وہ فرماتے ہیں : جب امام کی کوئی نص نہ ملے تو امام ابو یوسف کا قول مقدم ہوگا پھر امام محمد کا۔ الخ ، اور فرماتے ہیں ، ظاہر یہ ہے کہ یہ غیر مجتہد کے حق میں ہے ، رہا مفتی مجتہد تو یہ اسے اختیار کر ے گا جس کی دلیل اس کے نزدیک راجح ہو اھ

 (۱؎ رد المحتار          کتاب القضاء      مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق ۴ /۳۰۲)
(۲؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین     سہیل اکیڈ می لاہور        ۱ /۲۷)

اقول:  ای اذالم یجد قول الامام لایتقید بالترتیب فیتبع قول الثانی وان ادی رأیہ الی قول الثالث کما کان لا یتخیر اتفاقا اذا کان مع الامام صاحباہ اواحدھما والذی استظھرہ ظاھر ثم قالا اعنی السراجیۃ والنھر وقیل اذاکان ابو حنیفۃ فی جانب وصاحباہ فی جانب فالمفتی بالخیار والاول اصح اذالم یکن المفتی مجتھدا ۱؎ اھ

اقو ل: یعنی جب امام کا قول اسے نہ ملے تو وہ تر تیب کا پابند نہیں کہ امام ثانی ہی کے قول کی پیروی کرے اگر چہ اس کا اجتہاد امام ثالث کےقول  پر جائے ، جیسے اس صورت میں بالاتفاق اسے اختیار نہیں جب امام کے ساتھ صاحبین یا ان میں سے ایک ہوں ، اور علامہ شامی نے جس کو ظاہر کہہ کر بیان کیا وہ ظاہر ہے پھر سرا جیہ اور نہر میں یہ بھی ہے: کہا گیا کہ جب امام ابو حنیفہ ایک طر ف ہوں او رصاحبین دوسری طرف تو مفتی کو اختیار ہے اور قول اول اصح ہے جب کہ مفتی صاحب اجتہاد نہ ہواھ

 (۱؎ الفتاوی السراجیۃ کتاب ادب المفتی والتنبیہ علی الجواب مطبع لکنشور لکھنو ص ۱۵۷) 
(النھرالفائق شرح کنز الدقائق کتاب القضاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۳ / ۵۹۹)

وفی (۱۲) التنویر (۱۳) والدر (یأ خذ) القاضی کالمفتی (بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق) وھو الاصح منیۃ (۱۴) وسراجیۃ وصحح فی الحاوی اعتبار قوۃ المدرک والاوّل اضبط (۱۵) نھر (ولا یخیر الا اذاکان مجتھدا   ۲؎) اھ

تنویر الا بصار اور درمختار میں ہے (عبارت تنویر قوسین میں ہے۱۲م) مفتی کی طر ح قاضی بھی ( مطلقا قول امام کو لگا ) یہی اصح ہے منیہ وسراجیہ ، اور حاوی میں قوت دلیل کے اعتبار کو صحیح کہا ہے ۔ او رقول اول زیادہ ضبط والا ہے نہر (اور تخییر نہ ہوگی مگر جب کہ وہ صاحب اجتہاد ہو)

 (۲؎ الدر المحتار کتاب القضاء مطبع مجتبائی دہلی ۲ / ۷۲)

وفی صدر (۱۶) ط ما ذکرہ المصنف صححہ فی ادب(۱۷) اطفال۳؎ اھ (۱۶۔۔۔۔۔۱۷) طحطاوی کے شرو ع میں ہے ، مصنف نے جو ذکر کیا ہے اسی کو ادب المقال میں صحیح کہا ہے اھ

 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار مقدمۃ الکتاب المکتبۃ العربیہ کوئٹہ۶/ ۴۸)

وفی البحر(۱۸) کما مرقد صححوا ان الافتاء بقول الامام ۴؎ اھ بحر میں ہے ، جیسا کہ گزرا ، علماء نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ فتوی قول امام پر ہوگا،

 (۴؎ البحر الرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء ایچ ایم سعید کمپنی     ۱ /۲۶۹)

وقال ش قولہ وھو الا صح مقابلہ مایأتی عن الحاوی وما فی جامع الفصولین من انہ لو معہ احد صاحبیہ اخذ بقولہ وان خالفاہ قیل کذلک وقیل یخیر الا فیما کان الاختلاف بحسب تغیرالزمان کالحکم بظاھر العدالۃ وفیما اجمع المتأخرون علیہ کالمزارعۃ والمعاملۃ فیختارقولھما ۱؎ اھ

علامہ شامی لکھتے ہیں عبارت درمختار ''وھو الاصح''کا مقابل وہ ہے جو حاوی کے حوالے سے آرہا ہے اور وہ جو جامع الفصولین میں ہے کہ اگر صاحبین میں سے کوئی ایک ،ا مام کے ساتھ ہوں تو قول امام لیا جائے گا ، اور اگر صاحبین مخالف امام ہوں تو بھی ایک قول یہی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ تخییر ہوگی مگر اس مسئلے کے اندر جس میں تبدیلی زمانہ کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوا ہو جیسے ظاہر عدالت پر فیصلہ کرنے کا مسئلہ اور مزار عت ومعاملت جیسے وہ مسائل جن میں متا خرین کا اجماع ہوچکاہے کہ ان سب میں قول صاحبین اختیار کیا جائے گا ۔

 (۱؎ رد المحتار          کتاب القضاء      مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق  داراحیاء التراث العربی بیرو ت ۴ /۳۰۲)

وفی صدر الدر الاصح کما فی السراجیۃ وغیرھا انہ یفتی بقول الامام علی الاطلاق وصحح فی الحاوی القدسی قوۃ المدرک ۲؎اھ درمختار کے شرو ع میں ہے جیسا کہ سراجیہ وغیرہا میں مذکور ہے اصح یہ ہے کہ مطلقا قول امام پر فتوی دیا جائے گا ، اور حاوی قدسی میں قوت دلیل کے اعتبار کو صحیح کہا ہے.

 (۲؎الدرالمختار ،رسم المفتی، مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۱۴)

قال ط قولہ والاصح مقابلہ قولہ بعد وصحح فی الحاوی ۳؎ اھ طحطاوی لکھتے ہیں در مختار میں مذکور''اصح'' کا مقابل وہ ہے جو بعد میں'' صحح فی الحاوی'' حاوی نے اعتبار دلیل کو صحیح کہا '' لکھ کر بیان کیا ہے۔

 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ / ۴۹)

وقال ش بعد نقل عبارۃ السراجیۃ مقابل الاصح غیر مذکور فی کلام الشارح فافھم ۴؎ اھ یرید بہ التعریض علی ط۔ علامہ شامی سراجیہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں اصح کا مقابل کلام شارح میں مذکور نہیں،فافہم (تو سمجھو ) اس لفظ سے طحطاوی پر تعریض مقصود ہے .

 (۴؎ ردالمحتار،رسم المفتی،داراحیاء التراث العربی بیرو ت ۱ / ۴۸)

اقول: ھھنا امور لا بدمن التنبیہ لھا:
فاولا: اقـحم فـــ ۱ الدر ذکرفی التصحیحین قبل قول المصنّف ولا یخیر الخ فاوھم الاطلاق فی الحکم الاول حتی قال فـــ ۲ قولہ صحح فی الحاوی مقابل الاطلاق الذی فی المصنف ۱؎ اھ مع ان صریح نص المصنف تقییدہ بما اذالم یکن مجتہدا۔

اقول: یہاں چند امور پر متنبہ ہونا ضروری ہے ،
اولا:صاحب تنویر کا قول '' مطلقا قول امام کو لے گا '' غیر مجتہد سے خاص ہے ۔ مگر شارح نے عبارت متن'' اور تخییر نہ ہوگی الخ''سے پہلے دونوں تصحیحوں کا تذکرہ درمیان میں رکھ دیا جس سے یہ وہم پیدا ہوا کہ حکم اول (اخذ قول امام) میں اطلاق ہے ، یہاں تک کہ سید طحطاوی نے یہ سمجھ لیا کہ شارح کا قول'' صحح فی الحاوی'' اسی اطلاق کا مقابلہ ہے جو کلام مصنف میں ہے حالاں کہ مصنف کی عبارت میں صراحۃ وہ اس سے مقید ہے کہ '' جب کہ وہ صاحب اجتہاد نہ ہو''

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار    کتاب القضاء        المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۳ /۱۷۶)

فـــ ۱: تطفل علی الدرالمختار
فــــ۲: معروضۃ علی العلامۃ ط

وثانیا: ما صححہ فی الحاوی عین ما صححہ فی السراجیۃ والمنیۃ وادب المقال وغیرھا وانما الفرق فی التعبیر فھم قالوا الاصح ان المقلد لا یتخیر بل یتبع قول الامام وھو قال الاصح ان المجتہد یتخیر لان قوۃ الدلیل انما یعرفھا ھو فیستحیل فــ ۱  ان یکون مقابل الاصح ما صححہ فی الحاوی بل مقابلہ التخییر مطلقا اذا خالفاہ معاکما ھو مفاد الاطلاق القیل المذکور فی السراجیۃ والتقیید بقول الامام مطلقا وان خالفاہ معا والمفتی مجتہد کما ھو مفاد اطلاق ماصدر بہ فیھا فلاوجہ فــــ ۲ ۔ لترجیح الاول علیہ بانہ اضبط وقد قال ح ط ش فی التوفیق بین ما فی السراجیۃ والحاوی ان من کان لہ قوۃ ادراک قوۃ المدرک یفتی بالقول القوی المدرک والا فالترتیب ۱؎اھ قال ش یدل علیہ قول السراجیۃ والاول اصح اذالم تکن المفتی مجتھدا ۲؎ اھ

ثا نیا: حاوی میں جس قول کو صحیح کہا ہے بعینہ وہی ہے جسے سراجیہ ، منیہ ، ادب المقال وغیرہامیں صحیح کہا ہے،  فر ق صرف تعبیرکا ہے ۔ ان حضرات نے یوں کہا کہ مقلد کو تخییر نہیں بلکہ اسے قول امام ہی کی پیروی کرنی ہے ،او رحاوی نے یوں کہا کہ اصح یہ ہے کہ مجتہد کو تخییر ہوگی اس لئے کہ دلیل کی قوت سے آشنا وہی ہوگا ، جب حقیقت یہ ہے تو محال ہے کہ اصح کا مقابل وہ ہو جسے حاوی میں اصح کہا ، بلکہ اس کا مقابل یہ ہے کہ (۱) مطلقا تخییر ہوگی جب کہ صاحبین مخالف امام ہوں ، جیسا کہ سراجیہ میں مذکور قیل، کہا گیا '' کا مفاد ہے ،(۲) اور یہ کہ مطلقا قول امام کی پابند ی ہے اگر چہ صاحبین ان کے مخالف اور مفتی صاحب اجتہاد ہو ، جیسا کہ یہ اس کلام کے اطلاق کا مفا د ہے جسے سراجیہ کے اندر شرو ع میں ذکرکیا ۔[اس میں پہلے یہ کہا کہ'' فتوی مطلقا قول امام پر ہے''۔ پھر یہ لکھا '' کہا گیا کہ جب امام ایک جانب اور صاحبین دو سری جانب ہوں تو مفتی کو اختیار ہے ''۔ اس کے متصل یہ کہا کہ :" اول اصح ہے جب کہ مفتی صاحب اجتہاد نہ ہو'' آغاز کلام سے پتا چلا کہ مجتہد غیرمجتہد سب کے لئے قول امام کی پابندی ہے ، درمیانی قول سے معلوم ہوا کہ مخالفت صاحبین کی صورت میں سب کے لئے تخییر ہے آخر والی تصحیح سے معلوم ہو ا کہ غیر مجتہد کے لئے تو مطلقا قول امام کی پابندی ہے او رمجتہد کے لئے مخالفت صاحبین کی صورت میں اختیار ہے۔۱۲م] جب ایسا ہے تو اول کو '' زیادہ ضبط والا '' کہہ کرتصحیح حاوی پر اسے ترجیح دینے کا کوئی معنی نہیں[ تصحیح حاوی اور تصحیح اول تو بعینہ ایک ہیں ۔۱۲م](۱۹۔۔۔-۲۱) حضرات حلبی ، طحطاوی وشا می نے کلام سراجیہ او رکلام حاوی میں تطبیق کے لئے یہ کہا :کہ جس کے پاس مدرک ودلیل کی قوت سے آگاہی کی قدرت ہو وہ اپنے دریافت کر دہ قوی قول پر فتوی دے گا ورنہ وہی ترتیب ہوگی ۔شامی فرماتے ہیں ، اس پر سراجیہ کی یہ عبارت دلالت کررہی ہے ، او راول اصح ہے جب کہ مفتی صاحب اجتہاد نہ ہو ۔

ف ۱ : معروضۃعلیہ وعلی العلا مۃ ش
ف ۲: تطفل علی النھر وعلی الدر

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار    رسم المفتی        المکتبۃالعربیہ کوئٹہ    ۱ /۴۹
ردالمحتار رسم المفتی داراحیاء التراث العربی بیروت۱ / ۴۸ )
(۲؎ ردالمحتار رسم المفتی داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۸ )

اقول : فرق التعبیر فـــــ۱ لایکون خلافا حتی یوفق وبالجملۃ فتوھم المقابلۃ بینھما اعجب واعجب منہ فـــــ ۲ ان العلامۃ ش تنبہ لہ فی صدر الکتاب ثم وقع فیہ فی کتاب القضاء فسبحٰن من لا ینسی ۔

اقو ل : فرق تعبیرکوئی معنوی اختلاف ہے ہی نہیں کہ تطبیق دی جائے الحاصل ان دو نوں تصحیحوں میں مقابلہ کا تو ہم بہت عجیب ہے او ر اس سے زیادہ عجیب یہ کہ علامہ شامی شرو ع کتاب میں اس پر متنبہ ہوئے پھر کتا ب القضاء میں جاکر اس وہم میں پڑ گئے ۔تو پاکی اس ذات کے لئے جسے فراموشی و نسیان نہیں۔

ف ۱ :معروضۃعلیہ وعلی العلا مۃ ح و علی ط وعلی ش
ف ۲:معروضۃ علی ش

ثالثا: کذلک فـــــ ۱ لا یقابلہ ما فی جامع الفصولین فانہ عین مافی الخانیۃ وانما نقلہ عنہا برمز خ وفیہ تقیید التخییر بالمجتہد فالکل و ردوا موردا واحدا وانما ینشؤا لتوھم لاقتصار وقع فی النقل عنہ  فان۲۲ نصہ لو مع  ح رضی اللہ تعالی عنہ احد صاحبیہ یأخذ بقولھما ولو خالف ح صاحباہ فلو کان اختلافھم بحسب الزمان یأخذ بقول صاحبیہ وفی المزارعۃ والمعاملۃ یختار قولھما لاجماع المتأخرین وفیما عدا ذلک قیل یخیر المجتہد وقیل یأخذ بقول  ح رضی اللہ تعالی عنہ ۲؎ اھ فانکشفت الشبھۃ۔

ثالثا: اسی طر ح اس کا مقابل وہ بھی نہیں جو جا مع الفصولین میں ہے اس لئے کہ اس کا کلام تو بعینہ وہی ہے جو خانیہ کا ہے ، اسی سے ''خ'' کا ر مزدے کر نقل بھی کیاہے ، اس اختیارکو اس سے مقید کیا ہے کہ مفتی مجتہد ہو تو سب نے ایک موقف اختیار کیا ہے او روہم اس اختیار سے پیدا ہوا ہے جو نقل میں واقع ہوا ہے ۔جامع کی عبارت اس طر ح ہے اگر امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ان کے صاحبین میں سے کوئی ایک ہوں تو ان ہی دونوں ( امام اور وہ ایک صاحب) کے قول کو لے ، اور اگر صاحبین '' ح'' کے مخالف ہو تو اگر ان حضرات کا اختلاف بلحاظ زمان ہے ، تو صاحبین ہی کا قول لے ۔اور مزارعت ومعاملت میں صاحبین ہی کا قول  اختیار کر ے کیوں کہ اسی پر اجماع متا خرین ہے ، ان صورتوں کے ماسوا میں ایک قول یہ ہے کہ مجتہد کو تخییرہے اور ایک قول یہ ہے کہ امام ''ح '' رضی اللہ تعالی عنہ کا ہی قول لینا ہے ۔ اس سے شبہہ منکشف ہوگیا ۔

 (۲؎ جامع الفصولین،الفصل الاول فی القضاء الخ اسلامی کتب خانہ کراچی ،۱ /۱۵)

ف :معروضۃعلیہ

و رابــعــا: اھم فـــــ ۲من الکل دفع ما اوھمہ عبارۃ الدر من ان تصحیح الحاوی اعتبار قوۃ المدرک مطلق لا قتصارہ من نصہ علی فصل واحد ولیس کذلک ففی الحاوی ۲۳ القدسی متی کان قول ابی یوسف ومحمد موافق قولہ لا یتعدی عنہ الا فیما مست الیہ الضرورۃ وعلم انہ لوکان ابو حنیفۃ رأی مارأو ا لا فتی بہ وکذا اذا کان احدھما معہ فان خالفاہ فی الظاھر عـــــہ قال بعض المشائخ یأخذ بظاھر قولہ وقال بعضھم المفتی مخیر بینھما ان شاء افتی بظاھر قولہ وان شاء افتی بظاھر قولھما والاصح ان العبرۃبقوۃ الدلیل ۱؎ اھ

رابعا : سب سے اہم اس وہم کو دور کرنا ہے جو عبارت در مختار نے پیدا کیا کہ حاوی کے نزدیک قوت دلیل کے اعتبار کو اصح قرار دینا مطلقا ہے یہ وہم پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ درمختار میں عبارت حاوی کے صر ف ایک ٹکڑے پر اقتصار ہے ۔ حقیقت یوں نہیں ۔کیوں کہ حاوی قدسی کی پوری عبارت یہ ہے :جب امام کے موافق ہو تو اس سے تجاوز نہ کیا جائے گا مگر اس صورت میں جب کہ ضرورت در پیش ہو اور معلوم ہو کہ اگر امام ابو حنیفہ بھی اسے دیکھتے جو بعد والوں نے دیکھا تو اسی پر فتو ی دیتے ،یہی حکم اس وقت بھی ہے جب صاحبین میں سے کوئی ایک ، امام کے ساتھ ہو ، اگر دونوں ہی حضرات ظاہر میں مخالف امام ہوں تو بعض مشائخ نے فرمایا کہ ظاہر قول امام کو لے ، او ربعض مشائخ نے فرمایاکہ مفتی کو دو نوں کا اختیار ہے اگر چاہے تو ظاہر قول امام پر فتوی دے ، اور اصح یہ ہے کہ اعتبار ، قوت دلیل کا ہے اھ،(حاوی قدسی)

 (۱؎ شرح عقود رسم المفتی  رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۲۶)

عـــہ المراد بالظاھر فی المواضح الاربعۃ ظاھر الروایۃ ۱۲ منہ  چاروں جگہ لفظ "ظاھر " سے مراد ظاہرالروایہ ہے ۱۲ منہ ( ت)

فھذا کما تری عین مافی الخانیۃ لا یخالفھا فی شیئ فقد الزم اتباع قول الامام اذا وافقہ صاحباہ وکذا اذا وافقہ احدھما وانما جعل الاصح العبرۃ بقوۃ الدلیل اذا خالفاہ معالا مطلقا کما او ھمہ الدرو معلوم ان معرفۃ قوۃ الدلیل وضعفہ خاص باھل النظر فوافق تقدیم الخانیۃ تخییر المجتھد لانہ انما فـــــ۱ یقدم الاظھر الاشھر

دیکھئے بعینہ وہی بات ہے جو خانیہ میں ہے ذرا بھی اس کے خلاف نہیں کیوں کہ حاوی نے بھی امام کے ساتھ موافقت صاحبین کی صورت میں ، اسی طرح صرف ایک صاحب کی موافقت کی صورت میں قول امام ہی کاا تباع لازم کیا ہے ، اور قوت دلیل کے اعتبار کو اصح صرف اس صورت میں قرار دیا ہے جب دو نوں ہی حضرات ، مخالف امام ہوں اسے مطلقا اصح نہ ٹھہرایا جیسا کہ عبارت درمختار نے وہم پیدا کیااور معلوم ہے کہ دلیل کی قوت اور ضیعف کی معرفت خاص اہل نظر کا حصہ ہے تو یہ تصحیح اسی کے مطابق ہے جسے خانیہ نے مقدم رکھا ، یعنی یہ کہ مجتہد کے لئے تخییر ہے اس لئے کہ قاضی خاں اسی کو مقدم کرتے ہیں جو اظہر واشہر ہو ۔

فــــ۱ : ما قدم الامام قاضی خان فھو الاظھر الاشھر ۔

وقد علمت ان لا خلف فاحفظ ھذا کیلا تزل فی فھم مرادہ حیث ینقلون عنہ القطعۃ الا خیرۃ فقط ان العبرۃ بقوۃ الدلیل فتظن عمومہ للصور وانما ھو فی ما اذا خالفاہ معا،

معلوم ہوچکا کہ دونوں میں کوئی فر ق و اختلاف نہیں تو اسے یاد رکھنا چاہئے تا کہ مراد حاوی سمجھنے میں لغزش نہ ہو کیوں کہ لوگ ان کا صرف آخر ی ٹکڑا '' اعتبار ، قوت دلیل کا ہے'' نقل کرتے ہیں ، جس سے خیال ہوتا ہے کہ ان کا یہ حکم تمام ہی صورتوں کے لئے ہے ۔ حالاں کہ یہ صرف اس صورت کے لئے ہے جب دو نوں حضرات مخالف اما م ہوں

وبامثال فـــــــ ۲ ماوقع ھھنا فی نقل ش کلام جامع الفصولین ونقل الدرکلام الحاوی وما وقع فیھما من الاقتصار المخل یتعین انہ ینبغی مراجعۃ المنقول عنہ اذا وجد فربما ظھر شیئ لا یظھر مما نقل وان کانت النقلۃ ثقات معتمدین فاحفظ وقد قال فی شرح ۲۴ العقود بعد نقلہ مافی الحاوی الحاصل انہ اذا اتفق ابو حنیفۃ وصاحباہ علی جواب لم یجز العدول عنہ الالضرورۃ وکذا اذا وافقہ احدھما واما اذا انفرد عنھما بجواب وخالفاہ فیہ فان فــــــ انفرد کل منھا بجواب ایضا بان لم یتفقا علی شیئ واحد فالظاھر ترجیح قولہ ایضا ۱؎۔

یہاں علامہ شامی سے کلام جامع الفصولین کی نقل میں اور صاحب در سے کلام حاوی کی نقل میں جو واقع ہوا ور دو نوں میں جو اختصار مخل در آیا ایسی ہی باتوں کے پیش نظر یہ متعین ہوجاتا ہے کہ منقول عنہ کے موجود اور دستیاب ہونے کی صورت میں اس کی مراجعت کرلینا چاہئے ہوسکتا ہے کہ اس سے کوئی ایسی بات منکشف ہو جو نقل سے ظاہر نہیں ہوتی اگر نقل کر نے والے ثقہ ومعتمد ہیں ، اسے یاد رکھیں ۔شرح عقود میں حاوی کا کلام نقل کرنے کے بعد تحریر ہے : حاصل یہ کہ جب امام ابو حنیفہ اور صاحبین کسی حکم پر متفق ہو ں تو اس سے عدو ل جائز نہیں مگر ضرورت کے سبب یوں ہی جب صاحبین میں سے ایک ان کے موافق ہوں ۔لیکن جب امام کسی حکم میں صاحبین سے علیحدہ ہوں اور دونوں حضرات اس میں امام کے بر خلاف ہوں تو اگر یہ بھی الگ الگ ایک ایک حکم رکھتے ہوں اس طر ح کہ کسی ایک بات پر متفق نہ ہو ں تو ظاہر یہی ہے کہ تر جیح قول امام کو ہوگی۔

 (۱؎ شرح العقود رسم المفتی بحوالہ الحاوی القدسی رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۲۶)

ف ۲ ـ لیجتنب النقل بالواسطۃ مھما امکن ۔
ف : الترجیح لقول الامام ای بلا خلاف اذا خالفا وتخالفا ۔
اقول وھذہ نفیسۃ افادھا وکم لہ من فوائد اجادھا والا مرکما قال لقول الخانیۃ یأخذ بقول صاحبیہ وقولھا یختار قولھما وقول السراجیۃ وغیرھا وصاحباہ فی جانب (عہ۱)

اقول:یہ ایک نفیس نکتہ ہے جس کا افادہ فرمایا اور ان کے ایسے عمدہ افادات بہت ہیں ، اور حقیقت وہی ہے جو انہوں نے بیان کی ، اس لئے کہ خانیہ میں ہے ، صاحبین کا قول لیا جائے گا ، اور یہ بھی ہے صاحبین کا قول اختیار ہوگا اور سرا جیہ وغیرہا میں ہے کہ اور صاحبین ایک طر ف ہوں ۔

 (عہ۱) خانیہ کی دونوں عبارت اس صورت سے مقید ہے جب صاحبین ہم راے ہونے کے ساتھ خلاف امام ہوں اور ان کا یہ اختلاف اصحاب ستہ کی صورتوں میں سے تغیر زماں و عرف کی حالت میں ہو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب اصحاب ستہ کی بناء پر اختلاف نہ ہو اور صاحبین مخالف امام ہونے کے ساتھ ایک رائے پر نہ ہو ں تو ان کا قول نہیں لیا جائے گا بلکہ قول امام کا اتباع ہوگا ۔۔ اسی طرح سراجیہ وغیرہ میں تخییر مفتی کا حکم اسی صورت میں مذکور ہے جب صاحبین ایک ساتھ ہوں ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مخالفت امام کے ساتھ ان میں باہم اتفاق نہ ہو تو مفتی کے لئے تخییر نہیں بلکہ قول امام ہی کی پابندی ہے ۱۲ م محمد احمد مصبا حی ۔

قال واما اذا خالفاہ واتفقا علی جواب واحد حتی صار ھو فی جانب وھما فی جانب فقیل یترجع قولہ ایضا وھذا قول الامام عبداللہ بن المبارک وقیل یتخیر المفتی وقول السراجیۃ والاول اصح اذالم یکن المفتی مجتھدا یفید اختیار القول الثانی ان کان المفتی مجتھدا ومعنی تخییرہ انہ ینظر فی الدلیل فیفتی بما یظھر لہ ولا یتعین علیہ قول الامام وھذا الذی صححہ فی الحاوی ایضا بقولہ والا صح ان العبرۃ لقوۃ الدلیل لان اعتبار قوۃ الدلیل شأن المفتی المجتھد فصار فیما اذا خالفہ صاحباہ ثلاثۃ اقوال الاول (۱) اتباع قول الامام بلا تخییر الثانی (۲) التخییر مطلقا الثالث (۳) وھو الاصح التفصیل بین المجتھد وغیرہ وبہ جزم قاضی خان کما یأتی والظاھر ان ھذاتوفیق بین القولین بحمل القول باتباع قول الامام علی المفتی الذی ھو غیر مجتھد وحمل القول بالتخییر علی المفتی المجتھد ۱؎ اھ

علامہ شامی آگے لکھتے ہیں لیکن جب صاحبین امام کے مخالف ہو ں او ربا ہم ایک حکم پر متفق ہوں یہا ں تک کہ امام ایک طرف ہوگئے ہوں اور صاحبین ایک طر ف ، تو کہا گیا کہ اس صورت میں قول امام کو ہی ترجیح ہوگی ، یہ امام عبداللہ بن مبارک کا قول ہے ، اور کہا گیا کہ مفتی کو اختیار ہوگا ، اور سراجیہ کا کلام '' اول اصح ہے جب کہ مفتی صاحب اجتہاد نہ ہو'' ۔ یہ مفتی کے مجتہد ہونے کی صورت میں قول ثانی کی ترجیح کا افادہ کر رہا ہے ، تخییر مفتی کا معنی یہ ہے کہ دلیل میں نظر کرنے کے بعد اس پر جو منکشف ہو اسی پر فتوی دے گا ور اس پر قول امام کی پابندی متعین نہ ہوگی اسی کی حاوی میں تصحیح کی ہے، ان الفاظ سے '' اصح یہ ہے کہ اعتبار قوت دلیل کا ہوگااس لئے کہ قوت دلیل کا اعتبارکرنا مفتی مجتہد ہی کا کام ہے ، تو صاحبین کے مخالف امام ہونے کی صورت میں تین قول ہوگئے : اول یہ کہ بلا تخییر قول امام ہی کا اتباع ہوگا دو م یہ کہ مطلقا تخییر ہوگی سوم ، او روہی اصح ہے ، یہ کہ مجتہد اور غیر مجتہد کے درمیان تفریق ہے ( مجتہد کے لئے تخییر ، غیر کے لئے پابندی امام) اسی پر امام قاضی خاں نے بھی جزم کیا جیسا کہ آرہا ہے او رظاہر یہ ہے کہ یہ پہلے دونوں قولوں میں تطبیق ہے اس طر ح کہ اتباع امام والے قول کو اس مفتی پر محمول کیا جو غیر مجتہد ہو او رتخییر والے قول کو اس مفتی  پر محمول کیا جو مجتہد ہو،

 (۱؎ شرح العقود رسم المفتی بحوالہ الحاوی القدسی رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/ ۲۷،۲۶)

ثم قال وقد علم من ھذا انہ لاخلاف فی الاخذ بقول الامام اذا وافقہ احدھما ولذا قال الامام قاضی خان وانکانت المسئلۃ مختلفا فیھا بین اصحابنا ۲ ؔالٰی آٰخر ماقدمنا عنھا۔

آگے فرمایا ، اس سے معلوم ہوگیا کہ صاحبین میں سے کسی ایک کے موافق امام ہونے کی صورت میں قول امام کی پابندی کے حکم میں کوئی اختلاف نہیں اسی لئے امام قاضی خاں نے فرمایا اگر مسئلہ میں ہمارے ائمہ کے درمیان اختلاف ہے یہاں سے آخر عبارت تک جو ہم پہلے (نص ۶کے تحت) نقل کر آئے ۔

 (۲ ؎ شرح العقود رسم المفتی بحوالہ الحاوی القدسی رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/ ۲۷،۲۶)

فقد اعترف رحمہ اللہ تعالی بالصواب فی جمیع تلک الابواب غیرانہ استدرک علی ھذا الفصل الاخیر بقولہ لکن قدمنا ان ما نقل عن الامام من قولہ اذا صح الحدیث فھو مذھبی محمول علی مالم یخرج عن المذھب با لکلیۃ کما ظھر لنا من التقریر السابق ومقتضاہ جواز اتباع الدلیل وان خالف ما وافقہ علیہ احد صاحبیہ ولھذا قال فی البحر عن التتارخانیۃ اذاکان الامام فی جانب وھما فی جانب خیر المفتی وان کان احدھما مع الامام اخذ بقو لھما الا اذا اصطلح المشائخ علی القول الاٰخر فیتبعھم کما اختار الفقیہ ابو اللیث قول زفرفی مسائل ۱؎ انتھی ۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ان تمام ابو اب و ضوابط میں درستی وصواب کے معترف ہیں سوا اس کے کہ اس اخیر حصے پریوں استدراک فرمایا ہے لیکن ہم پہلے بتا چکے کہ امام سے نقل شدہ ان کا ارشاد '' جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے '' اس پر محمول ہے جو مذہب سے بالکلیہ خارج نہ ہو ،جیسا کہ تقریر سابق سے ہم پر منکشف ہوا ۔اور اس کا مقتضی یہ ہے کہ دلیل کا اتباع اس صورت میں بھی جائز ہے جب دلیل امام کے ایسے قول کے مخالف ہو جس پر صاحبین میں سے کوئی ایک ، حضرت امام کے موافق ہوں ۔ اسی لئے بحر میں تاتار خانیہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب امام ایک طر ف ہوں اور صاحبین دو سری طرف تو مفتی کو تخییر ہے اوراگر صاحبین میں سے ایک، امام کے ساتھ ہوں تو ان ہی دونوں حضرات (امام اور ایک صاحب) کا قول لیا جائے گا مگر جب کہ قول دیگر پر مشائخ کا اتفاق ہوجائے تو حضرات مشائخ کا اتباع ہوگا ۔ جیساکہ فقیہ ابو اللیث نے چند مسائل میں امام زفر کا قول اختیار کیا ہے ۔

 (۲ ؎ شرح العقود رسم المفتی بحوالہ الحاوی القدسی رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/ ۲۷)

وقال (۲۵) فی رسالتہ المسماۃ رفع الغشاء فی وقت العصر والعشاء لایرجح قول صاحبیہ او احدھما علی قولہ الا لموجب وھو ا ما ضعف دلیل الامام واما للضرورۃ والتعامل کترجیح قولھما فی المزارعۃ والمعاملۃ واما لان خلافھما لہ بسبب اختلاف العصر والزمان وانہ لوشاھد ما وقع فی عصرھما لوافقھما کعدم القضاء بظاھر العدالۃ  ویوافق ذلک ماقالہ (۲۶)العلامۃ المحقق الشیخ قاسم فی تصحیحہ فذکر ماقدمنا من کلامہ فی توضیع مرامہ وفیہ ان الا خذ بقولہ الافی مسائل یسیرۃ اختار والفتوی فیھا علی قولھما اوقول احدھما وانکان الاٰخر مع الامام ۱؎ اھ وھو محل استشھادہ۔

علامہ شامی اپنے رسالہ '' رفع الغشاء فی وقت العصر والعشاء'' میں رقم طراز ہیں صاحبین یا ایک کے قول کو قول امام پر ترجیح نہ ہوگی مگر کسی موجب کی وجہ سے ۔ وہ یا تو دلیل امام کا ضعف ہے ، یا ضرورت اورتعامل جیسے مزار عت ومعاملت میں قول صاحبین کی ترجیح یا یہ ہے کہ صاحبین کی مخالفت عصر و زمان کے اختلاف کے باعث ہے اگر امام بھی اس کا مشاہد ہ کرتے جو صاحبین کے دور میں رو نما ہوا تو ان کی موافقت ہی کرتے ۔ جیسے ظاہر عدالت پر فیصلہ نہ کرنے کا مسئلہ ۔ اسی کے مطابق وہ بھی ہے جو علامہ محقق شیخ قاسم نے اپنی تصحیح میں فرمایا اس کے بعد ان کا وہ کلام ذکر کیا ہے جو ہم مقصود کلام کی تو ضیح میں پہلے نقل کر آئے ہیں ، اس میں یہ عبارت بھی ہے ہر جگہ امام ہی کا قول لیا گیا ہے مگر صرف چند مسائل ہیں جن میں ان حضرات نے صاحبین کے قول پر ، یا صاحبین میں سے کسی ایک کے قول پر ۔ اگرچہ دو سرے صاحب ، امام کے ساتھ ہوں ۔ فتوی اختیار کیا ہے اھ ۔ یہی حصہ یہاں علامہ شامی کا محل استشہاد ہے (کلام بالا سے مطابقت کے ثبوت میں یہی عبارت وہ پیش کرنا چاہتے ہیں )

 (۱؎ شرح العقود     رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۲۷)
اقول : قد علمت فــــ ان کلام العلامۃ قاسم فیما یخالف فیہ قولھم الصوری جمیعا فضلا عما اذا خالف احدھم وکذاکلام فــــ ۱ التاترخانیۃ فانہ انما استثنی مااجمع فیہ المرجحون فــــ ۲ علی خلاف الامام ومن معہ من صاحبیہ ولا یوجد قط الا فی احد الوجوہ الستۃ وح لا یتقید بوفاق احد من الائمۃ الثلثۃ رضی اللہ تعالی عنہم الا تری فـــــ ۳ : الی ذکر اختیار قول زفر۔

اقول : یہ معلوم ہوچکا کہ علامہ قاسم کا کلام مذکور اس صورت سے متعلق ہے جو ان سبھی حضرات کے قول صوری کے بر خلاف ہو ، کسی ایک کے برخلاف ہونا تو درکنا ر یہی حال کلام تا تا ر خانیہ کا بھی ہے ۔ کیوں کہ اس میں استثنا اس صورت کا ہے جس میں امام اور امام کے ساتھ صاحبین میں جو ہیں دو نوں کی مخالفت پر مر جحین کا اجماع ہو ۔ او راس صورت کا سوا ان چھ صورتوں کے کبھی وجو د ہی نہ ہوگا اس صورت کے لئے یہ قید بھی نہیں کہ تینوں ائمہ میں سے کسی ایک کے موافق ہی ہو دیکھ لیجئے ایسی صورت میں تینون ائمہ کو چھوڑ کر امام زفر کا قول اختیار کرنے کا ذکر گزر چکا ہے ۔

۱؎ معروضۃ علیہ ۲؎ معروضۃ علیہ ۳؎ معروضۃ علیہ

ا ما حدیثا اذا صح الحدیث فـــ ۴وضعف الدلیل فـــ ۵ فشا ملان ما یخالف الثلثۃ رضی اللہ تعالی عنہم الا تری ان الامام الطحاوی خالفھم جمیعا فی عدۃ مسائل منھا تحریم الضب والمحقق حیث اطلق فی تحریم حلیلۃ الاب والا بن رضاعا فکیف یخص الکلام بما اذا وافقہ احدھما دون الاٰخر۔

اب رہا اذا صح الحدیث اور ضعیف دلیل کا معاملہ تو یہ دونوں بھی اس صورت کو شامل ہیں جو تینوں ہی ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بر خلاف ہو دیکھئے امام طحاوی نے متعد د مسائل میں ان سبھی حضرات کی مخالفت کی ہے ان ہی میں سے حرمت ضب (ایک جانور ) کا مسئلہ ہے ۔ اور محقق علی الاطلاق نے رضاعی باپ اور رضاعی بیٹے کی بیوی کی حرمت میں سب کی مخالفت کی ہے ۔ تو کلام اسی صورت سے خاص کیوں رکھا جائے جس میں صاحبین میں سے کوئی ایک موافق امام ہوں ؟

۴؎ معروضۃ علیہ ۵؎ معروضۃ علیہ

فان قلت اذا وافقاہ فلا خلاف عندنا ان المجتھد فی مذھبھم لایسعہ مخالفتھم فلاجل ھذا الا جماع یخص الحدیثان بما اذا خالفہ احدھما۔ اگریہ کہئے :کہ جب صاحبین موافق امام ہو ں تو ہمارے یہاں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ مجتہد فی المذہب کے لئے ان حضرات کی مخالفت روانہیں اسی اجماع کی وجہ سے اذا صح الحدیث اور ضعیف دلیل کے معاملے کو اس صورت سے خاص رکھا جائے گا جس میں صاحبین میں سے کوئی ایک مخالف امام ہوں۔

قلت کذا لا خلاف فیہ عندنا اذا کان معہ احد صاحبیہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کما اعترفتم بہ تصریحا۔ تو میں کہوں گا : اسی طرح ہمارے یہا ں اس بار ے میں اس صورت میں بھی کوئی اختلاف نہیں جب صاحبین میں سے کوئی ایک موافق امام ہوں جیسا کہ آپ نے صراحۃ اس کا اعتراف کیا۔

 [ الحاصل تفصیل بالاسے یہی ثابت ہوا کہ اذاصح الحدیث اور ضعف دلیل والی صورتوں میں مجتہد کے لئے جواز ہے کہ وہ اپنی دستیاب حدیث اور اپنی نظر میں قوی دلیل کی رو سے تینوں ائمہ کے خلاف جاسکتا ہے۔ لیکن اس تحقیق پر یہ اعتراض ضرور پڑے گا کہ اس کے لئے تینوں حضرات کی مخالفت کا جواز کیسے ہوسکتا ہے جبکہ علماء نے بالاتفاق یہ قاعدہ رکھاہے کہ جب تینوں ائمہ متفق ہوں یا امام کے ساتھ صاحبین میں سے کوئی ایک متفق ہوں تو ان کے اتباع سے قدم باہر نکالنے کی گنجائش نہیں ۔ یہ اجماع مطلقا مجتھد اور غیر مجتھد دونوں کے حق میں ہے ۔ اختلاف ہے تو اس صورت میں جبکہ صاحبین باہم متفق اور امام کے مخالف ہوں اگر وہ تحقیق درست ہے تو اس اجماعی ممانعت کا معنی کیا ہے ؟ اور اس کھلے ہوئے تضاد کا حل کیا ہے ؟ ۔۔۔۔ اسی کا حل رقم کرتے ہوئے امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ آگے فرماتے ہیں ۱۲ م ]

فالاوجہ عندی ان معنی نھی المجتھد عنہ نھی المقلد ان یتبعہ فیہ نھیا وفاقیا بخلاف مااذا خالفاہ فان فیہ قیلا ان التخییر عام کما سبق فلأن یتبع مرجحا رجح قولھما اولی وربما یلمح الیہ قول المحقق فـــ حیث اطلق فی مسألۃ الجھر بالتأ مین لو کان الی فی ھذا شیئ لوفقت بان روایۃ الخفض یرادبھا عدم القرع العنیف وروایۃ الجھر بمعنی قولھا فی زیر الصوت وذیلہ ۱؎ الخ فلم یمتنع عن ابداء ما عن لہ وعلم انہ لا یتبع علیہ فقال لوکان الی شیئ واللہ تعالی اعلم۔

تو بہتر جواب اورحل: میرے نزدیک یہ ہے کہ اس مخالفت سے مجتہد کی ممانعت کا مطلب مقلد کو اس بارے میں مجتہد مخالف کی متا بعت سے باز رکھنا ہے (یعنی الفاظ تو یہ ہیں کہ مجتہد مخالفت نہ کرے مگر مقصود یہ ہے کہ مقلد ایسی مخالفت کی پیروی نہ کر ے ۔ رہا مجتہد تو جب اس کے خیال میں ائمہ ثلاثہ کے خلاف حدیث صحیح موجود ہے ، یا ان کے مذہب کے بر خلاف قوی دلیل عیاں ہے تو اسے ا پنے اجتہاد کو کام میں لانے اور ائمہ کے خلاف جانے سے رو کا نہیں جاسکتا ۔ اگر اسے روکا گیا ہے تو اس سے مقصود مقلد ہے کہ وہ تینوں یا ان دواماموں کی مخالفت کی صورت میں اس مجتہد کی پیروی نہ کرے ۱۲مترجم) بخلاف اس صورت کے جس میں صاحبین باہم متفق او رامام کے مخالف ہوں (کہ اس میں مقلد کے لئے مجتہد مخالف کی پیروی سے بالاجماع ممانعت نہیں) کیونکہ اس صورت میں ایک قول یہ بھی ہے کہ تخییر عام ہے ۔ یعنی مجتہد وغیر مجتہد ہر ایک کو مخالفت کا اختیار ہے ، جیسا کہ گزرا ، تو اگر مقلد کسی ایسے مرجح کی پیروی کر لے جن نے قول صاحبین کو تر جیح دی ہو تو بدرجہ اولی اس کااسے اختیار ہوگا اس کا کچھ اشارہ امین بالجہر کے مسئلے میں محقق علی الاطلاق کے اس کلام میں بھی جھلکتا ہے ، وہ فرماتے ہیں : اگر اس بارے میں مجھے کچھ اشارہ ہوتا تو یوں تطبیق دیتا کہ آہستہ کہنے والی روایت سے مراد یہ ہے کہ کرخت آواز نہ ہو اور جہر والی کی روایت کا معنی یہ ہے کہ آواز کے انداز اور اور آواز کے ذیل میں ادا کرے یہاں محقق علیہ الرحمہ اپنی رائے کے اظہار سے باز نہ رہے اور انہیں معلوم تھا کہ اس بارے میں ان کی متابعت نہ ہوگی اس لئے یہ بھی فرمایا کہ" اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا" واللہ تعالی اعلم ۔

 (۱؎ فتح القدیر     کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱ /۲۵۷)

فــ : امام محقق علی الاطلاق نے باوصف مرتبہ اجتہاد مسئلہ جہر آمین میں مخالفت مذہب کی جراء ت نہ کی اور فرمایا مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں یوں دونوں قولوں میں اتفاق کراتا کہ نہ زور سے ہو نہ بالکل آہستہ مسلمانو ! انصاف ، ان اکابر کی تو یہ کیفیت ، اور جاہلان بے تمیز کہ ان اکابر کا کلام بھی نہ سمجھ سکیں وہ امام کے مقابلہ کو تیار ۔

ومجیئ النھی علی ھذا فــــ الاسلوب غیر مستنکران یتوجہ الی احد والمقصود بہ غیرہ قال تعالی فلا یصدنک عنھا من لا یؤمن بھا ۱؎ وقال عزوجل ولا یستخفنک الذین لا یوقنون ۲؎ ای لا تقبل صدہ ولا تنفعل با ستخفافہم واللہ تعالی اعلم ۔

اور اس طر ز پر نہیں آنا کہ تو جہ کسی کی جانب ہو اور مقصود کوئی اور ہو، کوئی اجنبی ونامعروف چیز نہیں باری تعالی کا ارشاد ہے '' تو ہر گز تجھے اس کے (قیامت کے) ماننے سے وہ نہ روکے جو اس پر ایمان نہیں لاتا '' او ر رب  عزوجل کا فرمان ہے :'' اور تمہیں سبک نہ کردیں وہ جو یقین نہیں رکھتے '' پہلی آیت میں نہی ان کے لئے ہے جو ایمان نہیں رکھتے مگر '' مقصود یہ ہے کہ ان کی رکاوٹ تم قبول نہ کرو '' اسی طرح دوسری آیت میں کہ وہ سبک نہ کریں اور مقصود یہ ہے کہ'' تم ان کے استخفاف کا اثر نہ لو ''

 (۱؎ القرآن    ۲۰/۱۶) (۲؎ القرآن    ۳۰/۶۰)

فـــ : قد ینھی زید والمقصود نھی عن غیرہ۔

وفی کتاب التجنیس والمزید للامام الاجل صاحب الھدایۃ ثم ط من اوقات الصلوۃ الواجب عندی ان یفتی بقول ابی حنیفۃ علی کل حال ۳؎ اھ امام بزرگ صاحب ہدایہ کی کتاب التجنیس والمزید پھر طحطاوی اوقات الصلاۃ میں ہے میرے نزدیک واجب یہ ہے کہ ہر حال میں امام ابو حنفیہ کے قول پر فتوی دیا جائے ۔ اھ

 (۳؎ حاشیہ طحطاوی علی الدر المحتار بحوالہ التجنیس کتاب الصلوۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۱۷۵)
وفی ط منھا قد تعقب نوح افندی (۲۸) ماذکر فی الدررمن ان الفتوی علی قولھما (ای فی الشفق) بانہ لایجوز فـــ ۱ الاعتماد علیہ لانہ لایرجع قولہما علی قولہ الالموجب من ضعف دلیل او ضرورۃ او تعامل اواختلاف زمان ۱؎ اھ

طحطاوی اوقات الصلاۃ میں یہ بھی ہے : در ر میں جو ذکر کیا ہے کہ شفق کے بارے میں فتوی قول صاحبین پر ہے ،کہ اس پر علامہ نوح آفندی نے یہ تعاقب کیا ہے کہ : اس پر اعتماد جائز نہیں اس لئے کہ قول امام پر قول صاحبین کو تر جیح نہیں دی جاسکتی مگر ضعف دلیل ، یا ضروت ، یا تعامل ، یا اختلاف زمان جیسے کسی موجب کے سبب ۔ اھ

ف : ۱؎ مسئلہ: دربارہ وقت عشا جو قول صاحبین پر بعض نے فتوی دیا علامہ نوح نے فرمایا اس پر اعتماد جائز نہیں

 (۱؎ حاشیہ طحطاوی علی الدر المحتار بحوالہ التجنیس کتاب الصلوۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۱۷۵)

ومــر ردالمحقق حیث اطلق علی المشائخ فتوٰھم بقولھما فی مواضع من کتابہ وانہ قال لا یعدل عن قولہ الا لضعف دلیلہ ۲؎ اھ

یہ گزر چکا کہ محقق علی الاطلاق نے قول صاحبین پر افتا کے با عث مشائخ پر اپنی کتاب کے متعد د مقامات پر ردکیا ہے اور انہوں نے فرمایا کہ قول امام سے عدول نہ ہوگا سو ااس صورت کے کہ اس کی دلیل کمزورہو ۔ اھ

 (۲؎ شرح عقو د رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین        سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۲۴)

وقــد نقلہ (۳۰) ش واقرہ کالبحر (۳۱) اقول ولم یستثن ما سواہ لما علمت ان ذلک عین العمل بقول الامام لاعدول عنہ فمن فـــ ۲ استثناھا کالخانیۃ والتصحیح وجامع الفصولین والبحر والخیر ورفع الغشاء ونوح وغیرھم نظر الی الصورۃ ومن ترک نظر الی المعنی فان استثنی ضعف الدلیل کالمحقق فنظرہ الی المجتھد وان لم یستثن شیئا کالامام صاحب الھدایۃ والامام الاقدم عبداللہ بن المبارک فقولہ ماش علی ارسالہ فی حق المقلد ۔ اسے علامہ شامی نے بھی بحر کی طرح نقل کیا ہے اور بر قرار رکھا ہے ۔  محقق علی الاطلاق نے ضعف دلیل کی صورت کے علاوہ او رکسی صورت کا استثنا نہ کیا اس کی وجہ معلوم ہوچکی ہے اور صورتوں میں در اصل بعینہ قول امام پر عمل ہے جس سے عدو ل نہیں ہوسکتا تو جن حضرات نے استثنا کیا ہے جیسے خانیہ ، تصحیح ، جامع الفصولین ، بحر ، خیر ، رفع الغشاء ، علامہ نوح وغیرہم ۔ انہوں نے ظاہر صورت پر نظر کی ہے۔ اور جنہوں نے استثنا ء نہیں کیا انہوں نے معنی کا لحاظ کیا ہے ۔ پھر اگر ضعف دلیل کا استثنا کردیا ۔ جیسے محقق علی الاطلاق نے اس میں مجتہد کا اعتبار کیا ہے ۔ اور اگر کچھ بھی استثنا نہ کیا جیسے امام صاحب ہدایہ اور امام اقدم عبداللہ بن مبارک تو یہ مقلد کے حق میں حکم اطلاق پر جاری ہے ۔

ف۲؎ توفیق نفیس من المصنف بین عبارات الائمۃ فی تقدیم قول الامام المختلفۃظاھرا۔

فظھر وللہ الحمد ان الکل انما یرمون عن قوس واحدۃ ویرومون جمیعا ان المقلد لیس لہ الااتباع الامام فی قولہ الصوری ان لم یخالفہ قولہ الضروری والاففی الضروری وفی شرح (۳۲) العقود رأیت فی بعض (۳۳) کتب المتأخرین نقلا عن (۳۴) ایضاح الاستدلال علے ابطال الا ستبدال لقاضی القضاۃ شمس الدّین الحریری احد شراح الھدایۃ ان صدر الدین (۳۵) سلیمن قال ان ھذہ الفتاوی ھی اختیارات المشائخ فلا تعارض کتب المذھب قال وکذا (۳۶) کان یقول غیرہ من مشائخنا وبہ اقول۱؎ اھ وتقدم قول الخیر (۳۷) ثم ش (۳۸) المقرر عندنا انہ لایفتی ولا یعمل الا بقول الامام الاعظم الا لضرورۃ وان صرح المشائخ ان الفتوی علی قولھما۲؎ اھ

بحمد ہ تعالی اس تفصیل وتطبیق سے روشن ہوا کہ سبھی حضرات ایک ہی کمان سے نشانہ لگا رہے ہیں اور سب کا یہ مقصود ہے کہ مقلد کے لئے صرف اتباع امام کاحکم ہے یہ اتباع اما م کے قول صوری کا ہوگا اگر قول ضروری اس کے خلاف نہ ہو ، ورنہ قول ضروری کا اتباع ہوگا ۔ (۳۲۔۔۔۔۔۳۶) شرح عقود میں ہے میں نے بعض کتب متاخرین میں قاضی القضاۃ شمس الدین حریری شارح ہدایہ کی کتاب '' ایضاح الاستدلال علی ابطال الاستبدال '' سے منقول یہ دیکھا کہ صد رالدین سلیمان نے فرمایا ان فتا وی کی حیثیت یہی ہے کہ یہ مشائخ کی تر جیحات اور ان کے اختیار کر دہ اقوال واحکام ہیں تو یہ کتب مذہب کے مقابل نہیں ہوسکتے ''فرماتے ہیں کہ یہی بات ہمارے دو سرے شیوخ بھی فرماتے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں ۔ خیر یہ پھر شامی کاکلام گزرچکا کہ ہمارے نزدیک مقر ر اور طے شدہ یہی ہے کہ صورت ضرورت کے سوا فتوی او رعمل امام اعظم ہی کے قول پر ہوگا ۔ اگرچہ مشائخ تصریح فرمائیں کہ فتوی صاحبین کے قول پر ہے ۔ اھ

 (۱؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۳۶)
(۲؎ ردالمحتار     مطلب اذا تعارض التصحیح دار احیا ء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۹
الفتاوی الخیریہ کتاب الشہادات دارالمعرفۃ بیروت ۲ / ۳۳)

وایضا قول (۳۹) البحر ثم ش (۴۰) یجب الافتاء بقول الامام وان لم یعلم من این قال ۳؎ اھ بحر پھر شامی کا یہ کلام بھی گز رچکا کہ قول امام پر ہی افتا واجب ہے اگرچہ یہ معلوم نہ ہو کہ ان کا ماخذاور دلیل کیا ہے۔ اھ

 (۳؎ البحر الرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ / ۲۶۹)
(ردالمحتار     اذا تعارض التصحیح دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۹)

وفــی ردالمحتار (۴۱) قد قال فی البحر (۴۲) لایعدل عن قول الامام الی قولھما او قول احدھما الالضرورۃ من ضعف دلیل او تعامل بخلافہ کالمزارعۃ وان صرح المشائخ بان الفتوی علی قولھما  ۴؎ اھ وھکذا اقرہ (۴۳) فی منحۃ الخالق ۔

رد المحتار میں بحر سے نقل ہے قول امام سے قول صاحبین کی جانب ضعف دلیل یا قول امام کے خلاف صورت مزارعت جیسے تعامل کی ضرورت کے سوا عدول نہ ہوگا اگرچہ مشائخ کی صراحت یہ ہو کہ فتوی صاحبین کے قول پر ہے اھ علامہ شامی نے منحۃ الخالق میں بھی اس کلام بحر کو اسی طر ح بر قرار رکھا ہے ۔

 (۴؎ ردالمحتار     کتاب الصلوۃ دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۴۰)

وفــیــہ (۴۴) من النکاح قبیل الولی فی مسألۃ دعوی النکاح منہ او منھا ببینۃ الزور  وقضاء القاضی بھا عند قول الدر تحل لہ خلافا لھما وفی الشرنبلا لیۃ عن المواھب وبقولھما یفتی۱؎ ما نصہ قال الکمال قول الامام اوجہ قلت وحیث کان الاوجہ فلا یعدل عنہ لما تقرر انہ لایعدل عن قول الامام الا لضرورۃ او ضعف دلیلہ کما اوضحناہ فی منظومۃ رسم المفتی و شرحھا۲؎ اھ

درمختار کتاب النکاح میں باب الولی سے ذرا پہلے یہ مسئلہ ہے کہ مرد یا عورت نے دعوی کیا کہ اس سے میرا نکاح ہو چکا ہے اس دعوے پر جھوٹے گواہ بھی پیش کردئے اور قاضی نے ثبوت نکاح کا فیصلہ بھی کردیا توعورت اس مرد کے لئے حلال ہوجائے گی اور صاحبین کے قول پر حلال نہ ہوگی شرنبلالیہ میں مواھب کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ صاحبین ہی کے قول پر فتوی ہے ۔ اس کے تحت رد المحتار میں یہ کلام ہے کمال نے فرمایا قول امام اوجہ ہے (بہتر وبادلیل ہے ) میں کہتا ہوں جب قول امام اوجہ ہے تو اس سے عدول نہ کیا جائے گا کیونکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ ضرورت یا قول امام کی دلیل ضعیف ہونے کے سوا اور کسی حال میں قول امام سے عدول نہ ہوگا جیسا کہ منظومہ رسم المفتی او را س کی شرح میں ہم واضح کرچکے ہیں ۔

 (۱؎ الدر المختار        کتاب النکاح فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۱۹۰)
(۲؎ ردالمحتار     کتاب النکاح فصل فی المحرمات مطبع دار احیاء التراث العربی بیروت         ۲ /۲۹۴)
وفــیــہ (۴۵) من ھبۃ المشاع حیث علمت انہ ظاھر الروایۃ ونص علیہ محمد و رووہ عن ابی حنیفۃ ظھر انہ الذی علیہ العمل وان صرح بان المفتی بہ خلافہ ۳؎ اھ

اسی (رد المحتار ) میں ہبہ مشاع کے بیان میں ہے جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہی ظاہر الروایہ ہے، اسی پر امام محمد کا نص ہے او راسی کو ان حضرات نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے توظاہر ہوگیا کہ عمل اسی پر ہوگا اگر چہ یہ صراحت کی گئی ہو کہ مفتی بہ اس کے خلاف ہے ۔

 (۳؎ ردالمحتار     کتاب الہبہ مطبع دار احیاء التراث العربی بیروت         ۴ /۵۱۱)

ھـذہ نصوص العلماء رحمھم اللہ تعالی و رحمنابھم وھی کما تری کلھا موافقۃ لما فی البحر ولم یتعقبہ فیما علمت الا عالمان متأخران کل منھما عاب واٰب وانکر و اقرو فارق و رافق وخالف و وافق وھما العلامۃ خیر الرملی والسید الشامی رحمھما اللہ تعالی ولا عبرۃ بقولٍ مضطرب وقد علمت ان لا نزاع فی سبع صور انما ورد خلاف ضعیف فی الثامن  وھی ما اذا خالفہ صاحباہ متوافقین علی قول واحد ولم یتفق المرجحون علی ترجیح شیئ منھما فعند ذاک جاء قیل ضعیف مجہول القائل بل مشکوک الثبوت" ان المقلد یتبع ماشاء منھما" والصحیح المشہور المعتمد المنصور انہ لایتبع الاقول الامام والقولان کما تری مطلقان مرسلا ن لانظر فی شیئ منھما لترجیح او عدمہ۔

یہ ہیں علماء کے نصوص اور ان کی تصریحات اللہ تعالی ان پر رحمت نازل فرمائے اور ان کے طفیل ہم پر بھی رحمت فرمائے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تمام نصوص کلام بحر کے موافق ہیں او رمیرے علم میں کسی نے بھی اس پر کوئی تعاقب نہ کیا  سوا دو متا خر عالموں کے ، دونوں حضرات میں سے ہر ایک نے عیب بھی لگایا اور رجوع بھی کیا ، انکار بھی کیا اوراقرار بھی ، مفارقت بھی کی اور مرافقت بھی مخالفت بھی اور موافقت بھی یہ ہیں علامہ خیر الدین رملی اور سید امین الدین شامی رحمہما اللہ تعالی ، اور کسی مضطرب کلام کا یوں ہی کوئی اعتبار نہیں۔  یہ بھی معلوم ہوچکا کہ اس مسئلہ کی سات صورتوں میں کوئی نزاع نہیں ، ایک ضعیف اختلاف صرف آٹھویں صورت میں آیا ہے ۔ وہ صورت یہ ہے کہ صاحبین باہم ایک قول پر متفق ہوتے ہوئے  امام کے خلاف ہوں او رمرجحین دونوں قولوں میں سے کسی کی ترجیح پر متفق نہ ہوں ، بس اسی صورت میں ایک ضعیف قول آیا ہے جس کے قائل کا پتا نہیں ، بلکہ اس کے وجود میں بھی شبہ ہے ، وہ قول یہ ہے کہ مقلد دونوں میں سے جس کی چاہے پیرو ی کرے ، صحیح مشہور معتمد منصور قول یہ ہے کہ مقلد قول امام کے سوا کسی کی پیروی نہ کرے ، یہ دونوں قول جیسا کہ آپ کے سامنے ہے ، مطلق اور ہر طر ح کی قید سے آزاد ہیں ۔ کسی میں ترجیح یا عدم ترجیح کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے (ضعیف میں مطلقا اختیار دیا گیا ہے اور صحیح میں مطلقا پابند امام رکھاگیا ہے )

لکـن المحقق الشامی اختار لنفسہ مسلکا جدیدا لا اعلم لہ فیہ سندا سدیدا و ھو ان المقلد لالہ التخییر ولا علیہ التقیید بتقلید الامام بل علیہ ان یتبع المرجحین۔ قال فی صدر ردالمحتار قول السراجیۃ الاول اصح اذا لم یکن المفتی مجتھدا فھو صریح فی ان المجتھد یعنی من کان اھلاً للنظر فی الدلیل یتبع من الاقوال ماکان اقوی دلیلا والا اتبع الترتیب السابق وعن ھذا ترٰھم قدیرجحون قول بعض اصحابہ علی قولہ کما رجحوا قول زفر وحدہ فی سبع عشرۃ مسألۃ فنتبع مارجحوہ لانھم اھل النظر فی الدلیل ۱؎ اھ

لیکن محقق شامی نے اپنے لئے ایک نیا مسلک اختیار کیاہے جس کی کوئی صحیح سند میرے علم میں نہیں وہ مسلک یہ ہے کہ مقلد کو نہ اختیار ہے نہ تقلید امام کی پابندی بلکہ اس پر یہ ہے کہ مرجحین کی پیروی کرے 
رد المحتار کے شر وع میں لکھتے ہیں سراجیہ کی عبارت '' اول اصح ہے جب کہ وہ صاحب اجتہادنہ ہو '' ، اس بارے میں صریح ہے کہ مجتہد یعنی وہ جو دلیل میں نظر کا اہل ہو ، اس قول کی پیروی کرے گا جس کی دلیل زیادہ قوی ہو ورنہ ترتیب سابق کا اتباع کرے گا ۔ اسی لئے دیکھتے ہو کہ مرجحین بعض اوقات امام صاحب کے کسی شاگر د کے قول کو ان کے قول پر ترجیح دیتے ہیں جیسے سترہ مسائل میں تنہا امام زفر کے قول کو ترجیح دی ہے تو ہم اسی کی پیروی کریں گے جسے ان حضرات نے تر جیح دے دی کیوں کہ وہ دلیل میں نظر کے اہل تھے ۔ اھ

 (۱؎ ردالمحتار     مطلب رسم المفتی     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۸)

وقال فی قضائہ لا یجوز لہ مخالفۃ الترتیب المذکور الا اذا کان لہ ملکۃ یقتدر بھا علی الاطلاع علی قوۃ المدرک وبھذا رجع القول الاول الی ما فی الحاوی من ان العبرۃ فی المفتی المجتھد لقوۃ المدرک نعم فیہ زیادۃ تفصیل سکت عنہ الحاوی فقد اتفق القولان علی ان الاصح ھو ان المجتھد فی المذھب من المشائخ الذین ھم اصحاب الترجیح لایلزمہ الاخذ بقول الامام علی الاطلاق بل علیہ النظر فی الدلیل وترجیح مارجح عندہ دلیلہ ونحن نتبع ما رجحوہ واعتمدوہ کمالو افتوا فی حیاتھم کما حققہ الشارح فی اول الکتاب نقلا عن العلامۃ قاسم ویأتی قریبا عن الملتقط انہ ان لم یکن مجتھدا فعلیہ تقلیدھم واتباع رأیھم فاذا قضی بخلافہ لا ینفذ حکمہ وفی فتاوٰی ابن الشلبی لایعدل عن قول الامام الا اذا صرح احد من المشائخ بان الفتوی علی قول غیرہ وبھذا سقط ما بحثہ فی البحر من ان علینا الافتاء بقول الامام وان افتی المشائخ بخلافہ ۱؎ اھ

اور رد المحتار کتاب القضاء میں لکھا : اس کے لئے تر تیب مذکور کی مخالفت جائز نہیں مگر جب کہ اسے ایسا ملکہ ہو جس سے قوت دلیل پروہ آگا ہ ہونے کی قدرت رکھتا ہے ، اسی سے پہلے قول کامال وہی ٹھہرا جو حاوی میں ہے کہ صاحب اجتہاد مفتی کے حق میں قوت دلیل کا اعتبار ہے۔ ہاں اس میں کچھ مزید تفصیل ہے جس سے حاوی نے سکوت اختیار کیا ۔ تو دونوں قول اس پر متفق ہوگئے کہ اصحاب تر جیح مشائخ میں سے مجتہد فی المذہب پر مطلقا قول امام لینا ضروری نہیں بلکہ اس کے ذمہ یہ ہے کہ دلیل میں نظرکرے اور جس قول کی دلیل اس کے نزدیک راجح ہو اس سے ترجیح دے ، اور ہمیں اس کی پیروی کرنا ہے جسے ان حضرات نے ترجیح دے دی اور جس پر اعتماد کیا جیسے وہ اگر اپنی حیات میں کہیں فتوے دیتے تو یہی ہوتا جیسا کہ شروع کتاب میں علامہ قاسم سے نقل کرتے ہوئے شارح نے اس کی تحقیق کی ہے ، او رآگے ملتقط کے حوالے سے آرہا ہے کہ اگر قاضی صاحب اجتہاد نہ ہو تو اسے مرجحین کی تقلید اور ان کی رائے کا اتباع کرنا ہے اس کے خلاف فیصلہ کردے تو نافذ نہ ہوگا ، اورفتا وی ابن الشلبی میں ہے کہ قول امام سے عدول نہ ہوگا مگر اس صورت میں جب کہ مشائخ میں سے کسی نے یہ تصریح کردی ہو کہ فتوی کسی اور کے قول پر ہے ، اسی سے بحر کی یہ بحث ساقط ہوجاتی ہے کہ ہمیں قول امام پر ہی فتوی دینا ہے اگر چہ مشائخ نے اس کے خلاف فتو ی دیاہو۔

 (۱؎ ردالمحتار کتاب القضاء     مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق داراحیاء التراث بیروت ۴ /۳۰۲و ۳۰۳)

اقول اولا فـــــــــ ۱ ھذا کما تری قول مستحدث  ۔ اقول اولا : یہ جیسا آپ دیکھ رہے ہیں ایک نیا قول ہے ۔

فــــ ۱: معروضۃ علی العلامۃ ش

وثانیا فــــــــــــ۲ زاد احداثا باتباع الترجیح المخالف لاجماع ائمتنا الثلثۃ رضی اللہ تعالی عنھم وقد سمعت صرائح النصوص علی خلافہ نعم نتبع القول الضروری حیث کان وجد مع ترجیح او لابل ولو وجد الترجیح بخلافہ کما علمت فلیس الاتباع فیہ للترجیح بل لقول الامام۔

ثانیا : مزید نئی بات یہ بڑھائی کہ اس ترجیح کا بھی اتباع کرنا ہے جو ہمارے تینوں ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کے اجماع کے بر خلاف ہو ، حالاں کہ صریح نصوص اس کے خلاف ہیں،جیسا کہ ملاحظہ کر چکے، ہاں قول ضروری کا ہم اتباع کریں گے جہاں امام کا قول ضروری ہو، خواہ اس کے ساتھ تر جیح ہویا نہ ہو ، بلکہ ترجیح اس کے بر خلاف ہو جب بھی ، جیسا کہ معلوم ہوا تو اس میں ترجیح کی پیر وی نہیں بلکہ قول امام کی ہے ۔

فــــ ۲: معروضۃ علیہ
وثالثا فیہ فــــــــــ ۳ ذھول عن محل النزاع کما علمت تحریرہ بل فوق ذلک لان فـــــــ۴ــ ماخالف فیہ صاحباہ ینقسم الاٰن الی ستۃ اقسام اما یتفق المرجحون علی ترجیح قولہ او قولھما او یکون ارجح الترجحین لکثرۃ المرجحین او قوۃ لفظ الترجیح لہ اولھما او یتساویان فیہ او فی عدمہ ولا یستا ھل لخلاف السید الاالرابع ان یکون ارجح الترجحین لھما فاذن ھو عاشر عشرۃ (عہ۱) وقد تعدیٰ الی ماھوا عم من المقسم ایضا وھو اتباع الترجیح سواء خالفہ صاحباہ او احدھما اولا احد۔

ثالثا: محل نزاع جس کی پوری وضاحت آپ کے سامنے گزری یہاں اس سے بھی ذہول ہے بلکہ اور بھی زیادہ ہے اس لئے کہ (محل نزاع صرف وہ صورت ہے ) جس میں صاحبین باہم ایک قول پر متفق ہونے کے ساتھ امام کے مخالف ہوں اب اس کی چھ قسمیں ہوں گی ،(۱) مرجحین قول امام کی ترجیح پر متفق ہوں(۲) یا قول صاحبین کی ترجیح پر( گزرچکا کہ یہ صورت نہ کبھی ہوئی نہ ہوگی )(۳) مرجحین کی کثرت یالفظ ترجیح کی قوت کے با عث دو نوں ترجیحوں سے ارجح ، قول امام کے حق میں ہو (۴) یا قول صاحبین کے حق میں ہو(۵) دو نوں قول تر جیح میں برابر ہو ں (۶) یا عدم ترجیح میں برابر ہوں، ان میں سے علامہ شامی کے اختلاف کے قابل صرف چوتھی قسم ہے وہ یہ کہ دونوں ترجیحوں میں سے ارجح، قول صاحبین کے حق میں ہو مگر اب یہ دس قسموں میں سے دسویں قسم بن جاتی ہے ، او ر اس حد تک تعدی ہوجاتی ہے جو مقسم سے بھی اعم ہے وہ یہ کہ بہر حال ترجیح کی پیروی ہوگی خواہ مخالف امام دونوں حضرات ہوں یا ایک ہی ہوں ، یا کوئی بھی مخالف نہ ہو۔

فــــ ۳: معروضۃ علیہ  فــــ ۴: معروضۃ علیہ
 (عہ۱) وہ اس طرح کہ امام کے مخالف صاحبین ہیں یا ایک یا کوئی نہیں (۱۔۔۔۲) اور ترجیح یا عدم ترجیح میں سب برابر ہیں (۳) اتفاق قول امام کی ترجیح پر ہے (۴) قول صاحبین پر (۵) ایک صاحب کے قول پر (۶) اس پر جو کسی کا قول نہیں (۴۔۔۔۶) کبھی واقع ہوئیں  نہ ہونگی (۷) ارجح ترجیحات قول امام کے حق میں ہے ۔ (۸) قول صاحبین کے حق میں (۹) ایک صاحب کے حق میں (۱۰) اس کے حق میں جو کسی کا قول نہیں ۔ محمد احمد مصباحی

و رابعا:  ان کان لہذا القول المحدث اثر فی الزبر کان قول التقلید بتقلید الامام مرجحا علیہ و واجب الاتباع بوجوہ ،

رابعا: بالفر ض اس نوپیدا قول کا کتا بوں میں کوئی نام ونشان ہو جب بھی تقلید امام کی پابندی والا قول اس پر ترجیح یا فتہ اور واجب الاتباع ہوگا ۔ اس کی چند وجہیں ہیں ۔

الاوّل فـــــــ ۱انـہ قول صاحب الامام الاعظم بحر العلم امام الفقھاء والمحدثین والاولیاء سیدنا عبداللہ بن المبارک رضی اللہ تعالی عنہ ونفعنا ببرکاتہ العظیمۃ فی الدین والدنیا والاٰخرہ فقد فــــــ ۲ قال فی الحاوی القدسی ونقلتموہ انتم فی شرح العقود متی لم یوجد فی المسألۃ عن ابی حنیفۃ روایۃ یؤخذ بظاھر قول ابی یوسف ثم بظاھر قول محمد ثم بظاھر قول زفر والحسن وغیرھم الاکبر فالاکبر الی اخر من کان من کبار الاصحاب ۱؎ اھ

وجہ اول : یہ امام اعظم کے شاگرد ، بحر علم فقہا ، محدثین اور اولیا کے امام سیدنا عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے ، خدا ہمیں دین ،دنیا او رآخرت میں ان کی عظیم بر کتو ں سے فائدہ پہنچا ئے ، حاوی قدسی میں ہے : اور آپ نے شرح عقود میں اسے نقل بھی فرمایا ہے کہ جب مسئلہ میں امام ابو حنیفہ سے کوئی روایت نہ ملے تو ظاہر قول امام ابو یوسف ، پھر ظاہر قول امام محمد ، پھر ظاہر قول امام زفر و حسن وغیرہم لیا جائے گا ( ظاہر سے مراد وہ جو ظاہر الروایہ میں ہو جیسا کہ حاشیہ مصنف میں گزرا ۱۲ م) بزرگ تر پھر بزرگ تر ، یوں ہی کبار اصحاب کے آخری فرد تک ۔)

فــــ ۱: معروضۃ علیہ
فــــ ۲: مــسئلہ : جب کسی مسئلہ میں امام کا قول نہ ملے امام ابو یوسف کے قول پر عمل ہو، ان کے بعدامام محمد ، پھر امام زفر ، پھر امام حسن بن زیاد وغیرہم مثل امام عبداللہ بن مبارک و امام اسد بن عمرو و امام زاہد و لیث بن سعد و امام عارف داؤد طائی وغیرہم اکابر اصحاب امام رضی اللہ تعالی عنہ کے اقوال پرعمل  ہو ۔

 (۱؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور       ۱ /۲۶)

الثانی فــــــ۳ علیہ الجمھور والعمل بما علیہ فــــــ ۴ الاکثر کما صرحتم بہ فی ردالمحتار والعقود الدریۃ واکثرنا النصوص علیہ فی فتاوٰنا وفی فصل القضاء فی رسم الافتاء ۔

وجہ دوم : اسی پر جمہور ہیں ، او رعمل اسی پر ہوتا ہے جس پر اکثر ہوں ، جیسا کہ آپ نے خود رد المحتار اور العقود الدریہ میں اس کی تصریح کی ہے اور ہم نے اس پر اپنے فتاوی اور فصل القضا ء فی رسم الافتا ء میں بکثر ت نصوص جمع کردئے ہیں۔

فــــ ۳: معروضۃ علیہ  فــــ ۴:العمل بما فیہ الاکثر

 (۱؎ رد المحتار باب المیاہ فصل فی البئر دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۱۵۱)

الـثالث فـــــ ھوالذی تواردت علیہ التصحیحات واتفقت علیہ الترجیحات فان وجب اتباعھا وجب القول بوجوب تقلید الامام وان خالفہ مطلقا وان لم یجب سقط البحث رأسا فانما کان النزاع فی وجوب اتباع الترجیحات فظھر ان نفس النزاع یھدم النزاع و ای شیئ اعجب منہ۔

وجہ سوم : یہی وہ قول ہے جس پر تصحیحات کا توارد اور ترجیحات کا اتفاق ہے ، تو اگر ترجیحات کااتباع واجب ہے ، تو اس کا قائل ہو نا بھی واجب کہ امام کی تقلید ضروری ہے اگر چہ صاحبین مطلقا ان کے مخالف ہوں ۔ او ر اگراتباع تر جیحات واجب نہیں توسرے سے بحث ہی ساقط ہوگئی، کیونکہ یہ سارا اختلاف ، تر جیحات کا اتباع واجب ہونے ہی کے بارے میں تھا ، اس سے ظاہر ہوا کہ خود نزاع ہی نزاع کو ختم کر دیتا ہے ۔اس سے زیادہ عجیب بات کیا ہوگی ؟

فــــ: معروضۃ علیہ

وخـامسا السید المحقق من الذین زعموا ان العامی لامذھب لہ وان لہ ان یقلد من شاء فیما شاء وقد قال فی قضاء المنحۃ فی نفس ھذا المبحث نعم ما ذکرہ المؤلف یظھر بناء علی القول بان من التزم مذھب الامام لایحل لہ تقلید غیرہ فی غیرما عمل بہ وقد علمت ما قدمناہ عن التحریر انہ خلاف المختار ۱؎ اھ۔

خامسا، سید محقق ان لوگو ں میں سے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں او روہ جس بات میں چاہے جس کی چاہے تقلید کرسکتا ہے ۔ منحۃ الخالق کی کتاب القضاء میں خود اسی بحث کے تحت لکھتے ہیں ، ہاں مولف نے جو ذکر کیا ہے اس قول کی بنیاد پر ظاہر ہے کہ جس نے مذہب امام کا التزام کرلیا اس کے لئے دو سرے کی تقلید جن باتوں پر وہ عمل کر چکا ہے ان کے علاوہ میں بھی جائز نہیں ، اور تمہیں معلوم ہے کہ تحریر کے حوالے سے ہم لکھ آئے ہیں کہ یہ قول مختار کے بر خلاف ہے۔

 (۱؎ منحۃ الخالق علیٰ بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء ،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶ /۲۶۹)
اقول : فـــــ ۱ وھذا وانکان قیلا باطلا مغسولا قد صرح ببطلانہ کبار الائمۃ الناصحین، وصنف فی ابطالہ زبر فی الاولین والاٰخرین، وقد حدثت منہ فتنۃ عظیمۃ فی الدین، من جھۃ الوھابیۃ الغیر المقلدین، واللہ لایصلح عمل المفسدین۔

اقول:  یہ اگر چہ ایک باطل وپامال قول تھا ، بزرگ ، ناصح وخیر خواہ ائمہ نے اس کے بطلان کی تصریح بھی فرمادی ہے اور اس کے ابطال کے لئے اولین و آخرین میں متعد د کتا بیں تصنیف ہوئی ہیں ،ا س کی وجہ سے وہابیہ غیر مقلدین کی جانب سے دین میں عظیم فتنہ بھی پیدا ہوا ہے اور خدا مفسدو ں کا کام نہیں بناتا ۔

فــــ ۱ : مسئلہ : تقلید شخصی واجب ہے اور یہ بات کہ جس مسئلہ میں جس مذہب پرچاہو عمل کرو باطل ہے ، اکابر ائمہ نے اس کے باطل ہونے کی تصریح فرمائی اس کے سبب غیر مقلد وہابیوں کا دین میں ایک بڑا فتنہ پیدا ہوا۔

ولعمری ھؤلاء المبیحون فــــمن العلماء غفراللہ تعالی لنا بھم ان سبرتھم واختبر تھم لوجدت قلوبھم عـــــہ اٰبیۃ عما یقولون، وصنیعھم شاھدا انھم لا یحبونہ ولا یریدون، ولا یجتنبونہ بل یحتنبون، ویقولون فی مسائل ھذہ تعلم وتکتم کیلا یتجاسر الجھال علی ھدم المذھب ثم طول اعمارھم یتمذھبون لامامھم ولایخرجون عن المذھب فی افعالھم واقوالھم ویصرفون العمر فی الانتصار لہ والذب عنہ وھذا فتح القدیر لصاحب التحریر ماصنف الاجد لا وکذلک فی مذھبنا والمذاھب الثلثۃ الباقیۃ دفاتر ضخام فی ھذا المرام فلولا التمذھب لامام بعینہ لازما وکان یسوغ ان یتبع من شاء ماشاء لکان ھذا کلہ اضاعۃ عمر فی فضول واشتعالا بمالا یعنی وقد اجمع علیہ علماء المذاھب الاربعۃ واھلھا ھم الائمۃ بل المناظرۃ فی الفروع وذب کل ذاھب عما ذھب الیہ جاریۃ من لدن الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنھم بدون نکیر فاذن یکون الاجماع العملی علی الاھتمام بمالایعنی واستحسان الاشتغال بالفضول وای شناعۃ اشنع منہ۔

یہ جائز کہنے والے علماء خدائے تعالی ان کے سبب ہماری مغفرت فرمائے ، بخدا اگر ان کو جانچا اور آزما یا جائے تو ان کے قلوب ان کے قول سے منکر ، اور ان کے اعمال اس پر شاہد ملیں گے کہ وہ اسے نہ پسند کرتے ہیں نہ اس کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ اسے اچھا نہیں جانتے بلکہ اس سے کنارہ کش رہتے ہیں ، بس بحث کے طور پر اسے لکھ گئے اور بحث ہی تک بات رہ گئی اعتقاد وعمل کوئی اس کا ہم نوا نہ ہوا بہت سے مسائل میں خود کہتے ہیں کہ یہ بس جاننے کے قابل ہیں بتانے کے لائق نہیں کہیں جاہلوں میں مذہب کے گرانے کی جرات نہ پید اہو ، پھر یہ زندگی بھر اپنے ایک امام کے مذہب پر رہ گئے اور افعال و اقوال میں سبھی مذہب سے باہر نہ ہوئے ۔ اسی کی تائید اور اسی کے دفاع میں عمر یں صر ف کردیں ۔ یہ صاحب تحریر کی فتح القدیر ہی کو دیکھ لیجئے صرف مناظرہ کے طور پر لکھی گئی ہے ، اسی طر ح ہمارے مسلک میں اور باقی تینوں مذاہب میں اس مقصد کے تحت بڑے بڑے دفتر تصنیف ہوئے ۔ اگر ایک امام معین کے مذہب کی پابندی لازم نہ ہوتی اور یہ روا ہوتا کہ جو  چاہے جس کی چاہے پیروی کرے یہ سب ایک لایعنی کارروائی اور فضول چیز میں عمر عزیز کی بربادی ہوتی حالانکہ یہ اس کام پر مذاہب اربع  کے علماء اورمذاہب کے ماننے والے ان ہی ائمہ کا اتفاق ہے بلکہ فروع میں مناظرہ اور اپنے اپنے مذہب کی حمایت تو زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے ہی بلانکیر جاری ہے مذہب کی پابندی کوئی چیز نہ ہو تو لازم آئے گا کہ ایک لایعنی کام کے اھتمام اور فضول قسم کی مشغولیت کو اچھا سمجھنے پر اس وقت سے اب تک کے ائمہ و علماء کا عملی اجماع قائم رہا ، اس سے بدتر کون سی شناعت ہوگی ؟

فــــ ۱ : ترجمہ فائدہ جلیلہ :بعض علما بحث کی جگہ لکھ تو گئے ہیں کہ آدمی جس قول پر چاہے عمل کرے مگر یہ بحث ہی تک کہنے کی بات ہے ، دل ان کے بھی اسے پسند نہیں کرتے بلکہ برا جانتے ہیں جابجا جس کسی مسئلہ میں بے قیدی عوام کا اندیشہ سمجھتے ہیں صاف فرمادیتے ہیں کہ اسے عوام پرظاہر نہ کیا جائے کہ وہ مذہب کے گرانے پر جرأت نہ کریں پھر یہی علماء اپنے کو حنفی شافعی مالکی اورحنبلی کہلاتے رہےکبھی مذہب سے بے قیدی نہ برتی ، عمریں اپنے اپنے مذہب کی تائید میں صر ف کیں اور اس میں بڑے بڑے دفتر تصنیف ہوئے اور تمام علماء امت نے اس پر اجماع کیا بلکہ اپنے اپنے مذہب کی تائید میں مناظر ہ تو زمانہ صحابہ کرام سے چلا آتا ہے ، اگر مذہب کوئی چیز نہ ہوتا اور آدمی کو عمل کے لئے سب برابرہوتے تو یہ سب کچھ مناظر ے اور ہزار ہا کتا بیں اور ائمہ واکابر کی عمر وں کی کارروائیاں سب لغو و فضول میں وقت وعمر و مال بر باد کرنا ہوتا اس سے بد تر کون سی شناعت ہے ۔

عـــــہ : اقول والوجہ فیہ ان للشیئ حکما فی نفسہ مع قطع النظر عن الخارج وحکما بالنظر الی ما یعرضہ عن خارج فالاول ھو البحث والثانی علیہ العمل عن المفاسد وان لم یکن انبعاثھا عن نفس ذات الشیئ کمالا یخفی اھ ۱۲ منہ غفرلہ (م)
عـــــہ :اقول اس کا سبب یہ ہے کہ کسی شے کاایک حکم تو اس کی نفس ذات کے اعتبار سے ہوتا ہے جس میں خارج سے قطع نظرہوتی ہے ، اور ایک حکم ان با توں کے سبب ہوتا ہے جو خارج سے پیش آتی ہیں ، تو ان علماء نے جوبحث میں فرمایا وہ پہلا حکم ہے اور جس پر عمل رکھا وہ دوسرا کہ مفسدوں سے بچنا واجب ہے اگرچہ وہ شے کی نفس ذات سے پیدا نہ ہوں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں، اھ ۱۲ منہ غفرلہ۔

لکن سَل فـــــ۱ السید اذالم یجب التقید بالمذھب وجاز الخروج عنہ بالکلیۃ فمن ذا الذی اوجب اتباع مرجحین فی مذھب معین رجحوا احد قولین فیہ ھذا اذا اتفقوا فکیف فـــــ۲ وقد اختلفو اوفی احد الجانبین الامام الاعظم المجتھد المطلق الذی لم یلحقوا غبارہ ولم یبلغ مجموعھم عشر فضلہ ولا معشارہ ھل ھذا الا جمعا بین الضب والنون (عہ۱) اذ حاصلہ ان الامام واصحابہ واصحاب الترجیح: فی مذھبہ اذا اجمعوا کلھم اجمعون علی قول لم یجب علی المقلدین الاخذ بہ بل یأخذون بہ او بما تھوی انفسھم من قیلات خارجۃ عن المذھب لکن اذا قال الامام قولا وخالفہ صاحباہ ورجح مرجحون کلا من القولین وکالترجیح فی جانب الصاحبین اکثر ذاھبا او اٰکد لفظا فح یجب تقلید ھؤلاء ویمتنع تقلید الامام ومن معہ بل فـــــ ۳ ان اجمع الامام وصاحباہ علی شیئ ورجع ناس من ھؤلاء المتأخرین قیلا مخالفا لا جماعھم، وجب ترک تقلید الائمۃ الی تقلید ھؤلاء واتباعھم، ھذا ھوالباطل المبین، لادلیل علیہ اصل من الشرع المتین، والحمد للہ رب العالمین،

لیکن علامہ شامی فـــــ ۱ سے سوال ہوسکتا ہے کہ جب مذہب کی پابندی ضروری نہیں اور اس سے بالکلیہ باہر آنا روا ہے تو کسی معین مذہب کے حضرات مرجحین جنہوں نے اس مذہب کے دو قولوں میں سے ایک کوترجیح دی ، ان کی پیروی کیسے ضروری ہوگئی ؟یہ کلام تو ان حضرات کے متفق ہونے کی صورت میں ہے۔پھر اس صورت کا کیا حال ہوگا جب یہ باہم مختلف ہوں اورایک طرف مجتہد مطلق امام اعظم بھی ہوں یہ جن کی گرد پا کو بھی نہ پاسکے اور ان سب حضرات کا مجموعی کمال بھی ان کے فضل وکمال کے دسویں حصے کو نہ پہنچ سکا۔ یہ ضب اور نون کو جمع کرنے کے سوا کیا ہے ؟ اس لئے کہ اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ حضرت امام، ان کے اصحاب او ران کے مذہب کے اصحاب تر جیح سب کے سب متفقہ طور پر جب کسی قول پر اجماع کرلیں تو مقلدین کے ذمہ اسے لیناضروی نہیں بلکہ انہیں اختیار ہے اسے لے لیں، یا اپنی خواہشات نفس کے مطابق مذہب سے خارج اقوال کو لے لیں، لیکن جب امام کوئی قول ارشاد فرمائیں ، اور ان کے صاحبین ان کے خلاف کہیں پھر دو نوں قولوں میں سے ہر ایک کو کچھ مرجحین ترجیح دیں او رصاحبین کی جانب ترجیح دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو یا اس طر ف ترجیح کے الفاظ زیادہ موکد ہوں توایسی صورت میں ان مرجحین کی تقلید واجب  ہوجائے اور امام اور ان کے موافق حضرات کی تقلیدناجائز ہوجائے ، بلکہ اگر امام اور صاحبین کا کسی بات پراجماع ہو اور ان متا خرین میں سے کچھ افراد ان کے اجماع کے مخالف کسی قول کو ترجیح دے دیں توان ائمہ کی تقلید چھوڑ کر ان افراد کی تقلید اور پیروی واجب ہوجائے ، یہی وہ کھلا ہوا باطل خیال ہے جس پر شرع متین سے ہر گز کوئی دلیل نہیں، والحمد للہ رب العالمین۔

فـــ ۱ : معروضۃعلی العلامـۃ ش  فــــ۲ : معروضۃ علیہ فــــ۳ : معروضۃ علیہ
(عہ۱)ضب : گوہ ، جو جنگلی جانور ہے اور نون : مچھلی ، جو دریائی جانور ہے ۔ دونوں میں کیا جوڑ ، ایک عربی مثل سے ماخوذ ہے ۱۲ ،

بہ ظھر ان قول البحر وان کان مبنیا علی ذلک الحق المنصور المعتمد المختار، المأخوذ بہ قولا عند الائمۃ الکبار، وفعلا عندھم وعند ھؤلاء المناز عین الاخیار، لکن (۱) مازعم السید لایبتغی علیہ ولا علی مازعم انہ المختار، بل یخالفھما جمیعا بالاعلان والجھار، والحجۃ للہ العزیز الغفار، والصّلٰوۃ والسلام علی سید الابرار، واٰلہ الاطھار، وصحبہ الکبار، وعلینا معھم فی دارالقرار، آمین 
قولہ قول السراجیۃ صریح ان المجتھد یتبع ماکان اقوی الاتبع الترتیب فنتبع مارجحوہ ۱؎۔

اسی سے ظاہر ہوا کہ بحر کا کلام تواس قول حق پر مبنی تھا جو منصور ، معتمد ، مختار ہے ، جسے قولا تمام ائمہ کبار نے لیا اور عملا ان کے ساتھ ان بزرگ مخالفین نے بھی لیا لیکن علامہ شامی کے خیال کی بنیاد نہ اس مختار پر قائم ہے نہ اس پر جس کو بزعم خویش مختار سمجھابلکہ وہ علانیہ و عیاں طور پردونوں ہی کے خلاف ہے اور حجت خدائے عزیز وغفار ہی کی ہے او ردرود و سلام ہو سید ابرار ، ان کی آل اطہار ،اصحاب کرام پر اوران کے ساتھ ہم پر بھی دار القرار میں الہی قبول فرما!
علامہ شامی سراجیہ کی عبارت اس بارے میں صریح ہے کہ مجتہد اس کی پیروی کرے گا جو زیادہ قوی ہو ، ورنہ ترتیب سابق کا اتباع کرے گا ، تو ہم اسی کی پیروی کریں گے جسے ان حضرات نے ترجیح دے دی۔

 (۱؎ ردالمحتار     مطلب رسم المفتی     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۸)
اقـول رحمک اللہ قولک فـــــ ۲ فنتبع مارجحوہ ان کان داخلا فی ما ذکرت من مفاد السراجیۃ فتوجیہ القول بضدہ وردہ فان السراجیۃ توجب علی غیر المجتھد اتباع الترتیب لا الترجیح وان کان زیادۃ من عندکم فمخالف للمنصوص وتفریع للشیئ علی ما ھو تفریع لہ فانک ان کنت اھل النظر فعلیک بالنظر المصیب، اولا فعلیک بالترتیب، فمن این ھذا الثالث الغریب۔

اللہ آپ پررحم فرمائے ، تو ہم اسی کی پیروی کریں گے جسے ان حضرات نے ترجیح دے دی ، یہ عبارت اگر آپ نے کلام سراجیہ کے مفاد ومفہوم کے تحت داخل کر کے ذکر کی ہے تو یہ اس کلام کی توجیہ نہیں بلکہ اس کی مخالفت اور تردید ہے کیونکہ سراجیہ تو غیر مجتہد پر ترتیب کی پیروی واجب کرتی ہے نہ کہ ترجیح کی پیروی ۔اور اگر یہ عبارت آپ نے اپنی طر ف سے بڑھائی ہے تو یہ منصوص کے برخلاف ہے اور ایک چیز کی تفریح ایسی چیزپر ہے جو در اصل اس کی تردید ہے۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ آپ اگر صاحب نظر ہیں توآپ کے ذمہ نظر صحیح ہے یا آپ اہل نظر نہیں تو آپ کے ذمہ اتباع ترتیب ہے ، پھر یہ تیسرا بیگا نہ و اجنبی کہاں سے آگیا؟

فــــ ۲: معروضۃ علیہ

قــولـہ لایجوز لہ مخالفۃ الترتیب الا اذاکان لہ ملکۃ فعلیہ ترجیح مارجح عندہ و نحن نتبع مارجحوہ۔۱؎

علامہ شامی: اس کے لئے ترتیب مذکور کی مخالفت جائز نہیں مگر جب اس کے پاس ملکہ ہو تو اس کے ذمہ یہ ہے اس کے نزدیک جو راجح ہو اسے تر جیح دے اور ہمیں اس کی پیروی کرنا ہے جسے ان حضرات نے ترجیح دے دی ۔

 (۱؎ ردالمحتار      کتاب القضاء مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق دار احیاء التراث العربی بیروت     ۴ /۳۰۲)

اقول: رحمک اللہ فـــــ ھذا کذٰلک فحاصل کلامھم جمیعا ما ذکرت الی قولک ونحن اما ھذا فرد علیہ وخروج عنہ فان من لاملکۃ لہ لا یجوز لہ عندھم مخالفۃ الترتیب وانتم اوجبتموہ علیہ ادارۃ لہ مع الترجیح۔

اقول : اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔یہ بھی اسی کی طر ح ہے ۔ کیونکہ ان تمام حضرات کے کلام کا حاصل وہی ہے جو آپ نے ''اور ہمیں'' تک ذکر کیا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ اضافہ تو اس کی تردید اور اس کی مخالفت ہے ۔ کیوں کہ جس کے پاس ملکہ نہیں اس کے لئے ان حضرات کے نزدیک ترتیب کی مخالفت روا نہیں اور آپ نے تو اس پر یہ مخالفت واجب کردی ہے کیونکہ اسے آپ نے ترجیح کے ساتھ چکر لگانے کا پا بند کردیا ہے ۔

فــــ : معروضۃ علی العلامہ ش

قــولہ کما حققہ الشارح عن العلامۃ ۱؎ قاسم ۔علامہ شامی ، جیسا کہ علامہ قاسم سے نقل کرتے ہوئے شارح نے اس کی تحقیق کی ہے۔

 (۱؎ ردالمحتار،کتاب القضاء مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق دار احیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۰۲)

اقــول علمت فـــــ ۱ ان لا موافقۃ فیہ لما لدیہ ولا فیہ میل الیہ قولہ ویأتی عن الملتقط ۲؎ معلوم ہوچکا کہ اس میں نہ تو اس خیال کی کوئی ہم نوائی ہے نہ اس کا کوئی میلان ۔ علامہ شامی،اور ملتقط کے حوالے سے آرہا ہے ۔

فــــ ۱: معروضۃ علی العلامہ ش

 (۲؎ ردالمحتار ،کتاب القضاء مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق دار احیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۰۲)

اقول : اولا فـــــ ۲حاصل ما فیہ ان القاضی المجتہد یقضی برأی نفسہ والمقلد برأی المجتہدین ولیس لہ ان یخالفھم واین فیہ ان الذین یفتنونہ ان کانوا من مجتھدی مذھب امامہ فاختلفوا فی الافتاء بقولہ وجب علیہ ان یأخذ بقول الذین خالفوا امامہ وامامھم ان کانوا اکثر اولفظھم اٰکدو انما النزاع فی ھذا۔

اقول اولا: اس کاحاصل صرف یہ ہے کہ قاضی مجتہد خود اپنی رائے پر فیصلہ کر ے گا او ر قاضی مقلد مجتہدین کی رائے پر فیصلہ کرے گا اسے ان کی مخالفت کا حق نہیں۔ اس میں یہ کہاں ہے کہ جو لوگ اس قاضی مقلد کو فتوی دیں گے اگر وہ اس کے امام کے مذہب کے مجتہدین سے ہوں پھر قول امام پر افتا ء میں باہم مختلف ہوں تو اس پر واجب یہ ہے کہ ان لوگوں کا قول لے جو اس کے امام او راپنے امام کے خلاف ہوگئے ہوں بشرطیکہ تعداد میں وہ زیادہ ہوں یا ان کے الفا ظ زیادہ موکد ہوں حالاں کہ نزاع تو اسی بارے میں ہے ۔

فــ۲: معروضۃ علیہ

وثــانیــا المنع فـــــ۱من ان نخالفھم باٰرائنا اذ لارأی لنا ونحن لانخالفہم باٰرائنا بل برأی امامھم وامامنا۔

اگر ہم اپنی رائے لے کر ان کی مخالفت کریں تو اس سے ممانعت ہے کیونکہ ہماری کوئی رائے ہی نہیں لیکن ان کی مخالفت ہم اپنی رائے کے مقابل نہیں کرتے بلکہ ان کے امام اور اپنے امام کی رائے کو لے کر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔

فــ۱: معروضۃ علیہ

وقد قال فی الملتقط فـــــ۲ فی تلک العبارۃ فی القاضی المجتھدقضی بما راہ صوابا لا بغیرہ الا ان یکون غیرہ اقوی فی الفقہ و وجوہ الاجتہاد فیجوز ترک رأیہ برأی ۱؎

او ر ملتقط کے اندر تو اسی عبارت میں قاضی مجتہد سے متعلق یہ لکھاہے کہ خود جسے درست سمجھے اس پر فیصلہ کرے دوسرے کی رائے پر نہیں لیکن دوسرا اگر فقہ اور وجوہ اجتہاد میں اس سے زیادہ قوی ہو تو اس کی رائے اختیار کر کے اپنی رائے ترک کردینا جائز ہے ۔ اھ

فــ۲: معروضۃ علیہ

 (۱؎ الدرالمختار     بحوالہ الملتقط کتاب القضاء مطبع مجتبائی دہلی ۲/۷۲)

فاذا جاز للمجتھد ان یترک رأیہ برأی من ھو اقوی منہ مع انہ مأمور باتباع رأیہ ولیس لہ تقلید غیرہ فان ترکنا اٰراء ھؤلاء المفتین ارأ ی امامنا وامامھم الاعظم الذی ھو اقوی من مجموعھم فی الفقہ ووجوہ الاجتہاد بل فضلہ علیھم کفضلھم علینا اوھو اعظم الاولی بالجواز واجدر ۔

جب مجتہد کے لئے اپنے سے اقوی کی رائے کو اختیار کر کے اپنی رائے ترک کرنا جائز ہے حالاں کہ اسے حکم یہ ہے کہ اپنی رائے کا اتباع کرے اور دوسرے کی تقلید اس کے لئے روا نہیں ، تو ہمارے اور ان مفتیوں کے امام اعظم جو فقہ اور وجوہ اجتہاد میں ان حضرات کی مجموعی قوت سے بھی زیادہ قوت رکھتے ہیں بلکہ ان پر امام کو اسی طرح فوقیت ہے جیسے ہم پر ان حضرات کو فوقیت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تو اگر ہم ان کی رائے اختیار کر کے ان مفتیوں کی رائے ترک کریں تو یہ بدرجہ اولی جائز اور انسب ہوگا ۔

قـولـہ سقط ما بحثہ فی البحر ۱؎۔علامہ شامی : بحر کی بحث ساقط ہوگئی۔

 (۱؎ ردالمحتار      کتاب القضاء مطلب یفتی بقول الامام علی الاطلاق دار احیاء التراث العربی بیروت     ۴ /۳۰۳)
واقــول: سبحٰن اللہ فـــــ ۱ ھو الحکم الماثور، ومعتمد الجمھور، والمصحح المنصور، فکیف یصح تسمیتہ بحث البحر ھذا ۔ اقول : سبحان اللہ یہی تو حکم منقول ہے جمہور کا معتمد ا ور تصحیح وتائید یافتہ بھی ، پھر اسے بحر کی بحث کہنا کیوں کر درست ہے ؟

فــ۱: معروضۃ علیہ

واقـول: یظھر لی فی توجیہ فـــــ۲ کلامہ رحمہ اللہ تعالٰی ان مرادہ اذا اتفق المرجحون علی ترجیح قول غیرہ رضی اللہ تعالی عنہ ذکرہ ردا لما فھم من اطلاق قول البحر وان افتی المشائخ بخلافہ فانہ بظاھرہ یشمل مااذا اجمع المشائخ علی ترجیح قول غیرہ ۔ اقـول مجھے علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی کے کلام کی توجیہ میں یہ سمجھ آتا ہے کہ ان کی مراد وہ صورت ہے جس میں حضر ت امام رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کسی اور کے قول کی ترجیح پر مرجحین کا اتفاق ہو، اسے اس اطلاق کی تردید میں ذکر کیا جو بحر کی اس عبارت سے سمجھ میں آتا ہے کہ '' اگر چہ مشائخ نے اس کے خلاف فتوی دیا ہو '' کیوں کہ بظاہر یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جس میں غیر امام کے قول کی ترجیح پر اجماع مشائخ ہو ۔

فــــ۲: السعی الجمیل فی توجیہ کلام العلامۃ الشامی رحمہ اللہ تعالی ۔

والدلیل علی ھذہ العنایۃ فی کلام ش انہ انما تمسک باتباع المرجحین وانھم اعلم وانھم سبروا الدلائل فحکموا بترجیحہ ولم یلم فی شیئ من الکلام الی صورۃ اختلاف الترجیح فضلا عن ارجحیۃ احد الترجیحین ولو کان مرادہ ذلک لم یقتصر علی اتباع المرجحین فانہ حاصل ح فی کلام الجانبین بل ذکر اتباع ارجح الترجیحین ۔

یہ مراد ہونے پر کلام شامی میں دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اتباع مرجحین سے استدلال کیا ہے اور اس بات سے کہ وہ زیاد ہ علم والے ہیں او رانہوں نے دلائل کی جانچ کر کے اس کی ترجیح کا فیصلہ کیا ہے ، اور کلام کے کسی حصے میں اختلاف ترجیح کی صورت کو ہاتھ نہ لگایا ، دو ترجیحوں میں سے ایک کے ارجح ہونے کا تذکرہ تودر کنار ، اختلاف ترجیح کی صورت اگر انہیں مقصود ہوتی تو صرف اتباع مرجحین کے حکم پر اکتفا نہ کرتے کیونکہ اس صورت میں اتباع مرجحین تو دو نوں ہی جانب موجو د ہے ، بلکہ اس تقدیر پر وہ دونوں ترجیحوں میں سے ارجح کے اتباع کا ذکر کرتے ۔

ویـؤیدہ ایضا ما قدمنا فی السابعۃ من قولہ رحمہ اللہ تعالٰی لما تعارض التصحیحان تساقطا فرجعنا الی الاصل وھو تقدیم قول الامام ۱؎ اھ

اس کی تائید ان کے اس کلام سے بھی ہوتی ہے جسے ہم مقدمہ ہفتم میں نقل کر آئے ہیں کہ ، جب دونوں تصحیحوں میں تعا رض ہوا تو دونوں ساقط ہوگئیں اس لئے ہم نے اصل کی جانب رجوع کیا ، وہ یہ ہے کہ امام کا قول مقدم رہے گا اھ۔

 (۱؎ ردالمحتار     مطلب اذا تعارض التصحیح دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۹)

وھذا وان کان ظاھرہ فی ما استوی الترجیحان لکن ماذکرہ مترقیا علیہ عن الخیریۃ والبحریعین ان الحکم اعم۔

یہ اگرچہ بظاہر دنوں ترجیحیں برابر ہونے کی صورت میں ہے لیکن آگے اس پر ترقی کرتے ہوئے خیر یہ اور بحر کے حوالے سے جوذکر کیا ہے و ہ تعین کردیتا ہے کہ حکم اعم ہے ۔

ویؤیدہ ایضا ماجعل اٰخرا الکلام محصل جمیع کلام الدر فی المراد اذ قال قولہ فلیحفظ ای جمیع ما ذکرناہ وحاصلہ ان الحکم ان اتفق علیہ اصحابنا یفتی بہ قطعا والا فاما(۱) ان یصحح المشائخ احد القولین فیہ او (۲ )کلا منھما (۳ )اولا ولا ففی الثالث یعتبر الترتیب بان یفتی بقول ابی حنیفۃ ثم ابی یوسف الخ او قوۃ الدلیل ومرا لتوفیق وفی الاول ان کان التصحیح بافعل التفضیل خیر المفتی والا فلا بل یفتی بالمصحح فقط وھذا ما نقلہ عن الرسالۃ وفی الثانی اما ان یکون احدھما عــــہ بافعل التفضیل اولا ففی الاول قیل یفتی بالاصح وھوالمنقول عن الخیریۃ وقیل بالصحیح وھو المنقول عن شرح المنیۃ وفی الثانی یخیر المفتی وھو المنقول عن وقف البحر والرسالۃ افادہ ح ۱؎ اھ

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے جسے آخر کلام میں مقصود سے متعلق پوری عبارت درمختار کا حاصل قرار دیا کہ وہاں یہ لکھا ہے ،عبارت در'' فلیحفظ ، تو اسے یاد رکھا جائے '' کا معنی یہ ہے کہ وہ سب یاد رکھا جائے جو ہم نے ذکر کیا اور اس کا حاصل یہ ہے کہ جب کسی حکم پر ہمارے اصحاب کا اتفاق ہو تو قطعا اسی پر فتوی دیا جائے گا ورنہ تین صورتیں ہوں گی ، (۱) مشائخ نے دونوں قولوں میں سے صرف ایک کو صحیح قرار دیا ہو (۲) ہرایک کی تصحیح ہوئی ہو (۳) مذکورہ دونوں صورتیں نہ ہوں ۔تیسری صورت میں ترتیب کا اعتبارہوگا اس طر ح کہ امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیاجائے گا ، پھر امام ابو یوسف کے قول پر الخ ، یاقوت دلیل کا اعتبارہوگا ، اور ان دونوں میں تطبیق کا بیان گزر چکا ۔اور پہلی صورت میں اگر تصحیح افعل التفضیل کے صیغے (مثلا لفظ اصح) سے ہو تو مفتی کو تخییر ہوگی ورنہ (مثلا صرف لفظ صحیح ہو تو) نہیں ، بلکہ مفتی کو اسی پر فتوی دینا ہے جسے صحیح کہا گیا ،یہ وہ بات ہے جو انہوں نے رسالہ سے نقل کی، اور دو سری صورت میں کوئی ایک ترجیح بلفظ افعل التفضیل ہوگی یا نہ ہوگی ، برتقدیر اول کہا گیا کہ اصح پر فتوی دیا جائے گا ، یہ خیر یہ سے منقول ہے ، او رکہا گیا کہ صحیح پر فتوی ہوگا ، یہ شرح منیہ سے منقول ہے، برتقدیر دوم مفتی کو تخییر ہوگی یہ بحر کتاب الوقف او ر رسالہ سے منقول ہے ۔ یہ حلبی نے افادہ فرمایا ۔ اھ

عـــــــہ : اقول یشمل فــــ ما اذا کان کلاھما بہ ولا یتأتی فیہ الخلاف المذکور فکان ینبغی ان یقول احدھما وحدہ لیشمل قولہ اولا مااذا کان بافعل ۱۲ منہ غفرلہ (م) 
یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جس میں دونوں تر جحیں بلفظ افعل ہوں حالانکہ اس میں خلاف مذکور حاصل نہ ہوگا تو انہیں کوئی ایک کے بجائے '' احد ھما وحدہ''(صرف ایک) کہناچاہئے تھا ، تا کہ ان کا قول '' یا نہ'' اس صورت کو بھی شامل ہوجائے جس میں ہر ایک لفظ افعل ہو ۱۲منہ
فــــ : معروضۃ علی العلامہ ش

 (۱؎ ردالمحتار     مطلب اذا تعارض التصحیح دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۹)

فما ذکرہ فی الثالث عین مرادنا وکذا ما ذکرہ فی الاول اما استثناء ما اذاکان التصحیح بافعل فــاقـول یخالف فــــ نفسہ ولا یخالفنا فان الترجیح اذا لم یوجد الا فی جانب واحد کما جعلہ محمل الرسالۃ ومع ذلک خیر المفتی لم یکن علیہ اتباع مارجحوہ والتاویل بان افعل افادان الروایۃ المخالفۃ صحیحۃ ایضا کما قالاہ ھما وط ۔

تو تیسری صورت میں جوذکر کیا بعینہ وہی ہماری مراد ہے ، اسی طرح وہ بھی جو پہلی صورت میں ذکر کیا ، رہا اس صورت کا استثنا جس میں تصحیح بصیغہ اسم تفضیل ہو فاقول (تو میں کہتا ہوں) وہ خود ان کے خلاف ہے ہمارے خلاف نہیں ، کیوں کہ جب ترجیح صرف ایک طرف ہو ،جیسا کہ اسے رسالے کا محمل اور معنی مراد ٹھہرایا ، ا س کے با وجود مفتی کو تخییر ہو تو اس کے ذمہ اس کی پیر وی لازم نہ رہی جسے مشائخ نے ترجیح دی ، اور یہ تاویل کہ '' افعل''کامفاد یہ ہوگا کہ روایت خلاف بھی صحیح ہے ، جیسا کہ حلبی وشامی اور طحطاوی نے کہا ۔

فــــ : معروضۃ علیہ
فـاقـول اولا:  ھذا فــــ ۱ مسلم اذا قوبل الاصح بالصحیح اما اذا ذکروا قولین وقالوا فی احدھما وحدہ انہ الاصح ولم یلموا ببیان قوۃ مافی الاٰخر اصلا فلایفھم منہ الا ان الاول ھو الراجح المنصور ولا ینقدح فی ذھن احد انھم یریدون بہ تصحیح کلا القولین و ان للاول مزیۃ ما علی الاٰخر فافعل ھھنا من باب اھل الجنۃ خیر مستقرا واحسن مقیلا ولو سبرت کلماتھم فــــ۲ لوجد تھم یقولون ھذا احوط وھذا ارفق مع ان الاٰخر لارفق فیہ ولا احتیاط وھذا بدیھی عند من خدم کلامھم ۔

فاقول( تو میں کہتا ہوں)اولایہ بات اس صورت میں تسلیم ہے جب اصح کے مقابلے میں صحیح لایا گیا ہو۔ لیکن جب دو قول ذکر کریں اور صرف ایک کے بارے میں کہیں کہ وہ اصح ہے اور دوسرے میں جو قوت ہے اس کے بیان سے کچھ بھی تعرض نہ کرے تو ایسی حالت میں یہ ہی سمجھا جائے گا کہ اول ہی راجح اور تائید یافتہ ہے ۔ اور کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ گزرے گا کہ وہ اول کو اصح کہہ کر دو نوں قولوں کو صحیح کہنا اور یہ بتانا چاہتے کہ اول کو دوسرے پر کچھ فضیلت ہے تو یہ افعل ''اھل الجنۃخیر مستقرا واحسن مقیلا'' جنت والے بہتر قرار گاہ اور سب سے اچھی آرام گاہ والے ہیں ، کے باب سے ہوگا ، اگر کلمات مشائخ کی تفتیش کیجئے تو یہ ملے گا کہ وہ حضرات فرماتے ہیں یہ احوط ( زیادہ احتیاط والا) ہے ، یہ ارفق ( زیادہ نرمی وفائدے والا ہے) با وجودیکہ دوسرے میں کوئی احتیاط اور کوئی آسانی نہیں ، یہ ان حضرات کے کلام کے خدمت گزاروں کے نزدیک بدیہی ہے ، اھ

فــــ ۱: معروضۃ علیہ وعلی العلامتین ح و ط 
فـــــ ۲: ربما لایکون افعل فی قول الفقہاء ھذا اصح احوط ارفق اوفق وامثالہ من باب التفضیل ۔ ؂

ولذا فــــ ۳ قال فی الخیریۃ من الطلاق انت علی علم بانہ بعد التنصیص علی اصحیتہ لایعدل عنہ الی غیرہ ۱؎ اھ اسی لئے خیر یہ کتاب الطلاق میں فرمایا ، تمہیں خبر ہے کہ اس کے اصح ہونے کی تصریح ہوجانے کے بعد اس سے کسی اور کی جانب عدول نہ ہوگا، اھ

 (۱؎ فتاوٰی خیریۃ    کتاب الطلاق    دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۳۹)

فــــ ۳:اذا ثبت الاصح لایعدل عنہ ای اذا لم یوجد الاقوی منہ۔

بل قال فی صلحھا فی مسألۃ قالوا فیھا لقائل ان یقول تجوز وھو الاصح ولقائل ان یقول لاما نصہ حیث ثبت الاصح لایعدل عنہ ۲؎ اھ بلکہ خیر یہ کتاب الصلح میں جہاں یہ مسئلہ ہے کہ: لوگوں نے کہا اس میں کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ جائز ہے ، اور وہی اصح ہے ، اورکہنے والا کہہ سکتا ہے جائز نہیں ، وہاں وہ لکھتے ہیں جب اصح ثابت ہوگا تو اس سے عدول نہ ہوگا ،

 (۲؎ فتاوٰی خیریۃ    کتاب الصلح     دارالمعرفۃ     بیروت    ۲ /۱۰۴)

وھذا مفادفــــ ۱متنہ العقود وان مال فی شرحہ الی ما ھنا فانہ قال: ؂ یہی ان کے متن عقود کا بھی مفاد ہے اگر چہ اس کی شرح میں وہ اس بات کی طرف مائل ہوگئے جو یہاں زیر بحث ہے کیوں کہ اس میں یہ لکھا ہے ،

فــــ ۱: معروضۃ علی العلامۃ ش

وحیثما وجدت قولین وقد صحح واحد فذاک المعتمد بنحو ذاالفتوی علیہ الا شبہ والاظھر المختار ذا والاوجہ ۳؎ جہاں تم کو دو قول ملیں ، جن میں ایک کی تصحیح اس طر ح کے الفاظ سے ہو ، اسی پر فتوی ہے ، یہ اشبہ ہے ، اظہر ہے ، مختار ہے ، اوجہ ہے ،تووہی معتمد ہے اھ۔

 (۳؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین،سہیل اکیڈمی لاہور  ،۱ / ۳۷)

فقد حکم بقصرالاعتماد علی ما قیل فیہ افعل ولم یصحّح خلافہ ۔

تو معتمد ہونے کا حکم اسی پر محدود رکھا جس کی تصحیح میں لفظ افعل آیا ہے اور اس کے مخالف قول کی تصحیح نہیں ہوئی ہے۔

ولما قال فــــ ۲ فی الدر فیمن نسی التسلیم عن یسارہ اتی بہ مالم یستدبر القبلہ ۱؎ فی الاصح ۔

در مختار کے اندر اس شخص سے متعلق جو بائیں جانب سلام پھیرنا بھول گیا یہ لکھا ہے جب تک قبلہ سے پیٹھ نہ پھیری ہو اس کی بجا آوری کرلے اصح مذہب میں،

فــــ ۲:مسئلہ نماز میں بائیں طرف کا سلام پھیرنا بھول گیا جب تک قبلہ سے نہ پھرا ہو کہہ لے۔

 (۱؎ الدر المختار     کتاب الصّلٰوۃ    فصل اذا اراد الشروع فی الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۷۸ )

وکان فی القنیۃ انہ الصحیح۲؎ قال ش فــــ۱ عبرالشارح بالا صح بدل الصحیح والخطب فیہ سھل ۳؎ اھ اسی مسئلے کے تحت قنیہ میں لکھا تھا کہ یہی صحیح ہے ، تو اس پر علامہ شامی نے لکھا کہ شارح نے صحیح کی جگہ اصح سے تعبیر کی ، اورمعاملہ اس میں سہل ہے اھ۔

فــــ۱ : الصحیح والاصح متقاربان والخطب فیہ سھل ۔

 (۲؎ القنیۃ المنیہ تتمیم الغنیہ کتاب الصلوۃ باب فی القعدۃ والذکرفیہا کلکۃ انڈیا ص۳۱)
(۳؎ رد المحتار کتاب الصّلٰوۃ    فصل اذا اراد الشروع داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۳۵۲)

وکیف یکون سھلا فــــ ۲وھما عندکم علی طرفی نقیض فان الصحیح کان یفید ان خلافہ فاسد وافاد الاصح عندکم انہ صحیح فقد جعل الفاسد صحیحا۔ سہل کیسے ہوگا جب دو نوں آپ کے نزدیک ایک دوسرے کی بالکل نقیض اورضد ہیں ۔ کیوں کہ صحیح کا مفاد یہ تھا کہ اس کا تقابل فاسد ہے ۔ اور اصح کا مفاد آپ کے نزدیک یہ ہو ا کہ اس کا مقابل صحیح ہے تو آپ کے طور پر تو شارح نے فاسد کو صحیح بنادیا ؟

فــــ ۲: معروضۃ علی العلامۃ ش

وثــانــیا قدقلتم فــــ۳ علینا اتباع مارجحوہ ولیس بیان قوۃ للشیئ فی نفسہ ترجیحا لہ اذ لابد للترجیح من مرجح ومرجح علیہ فالمعنی قطعا ما فضلوہ علی غیرہ فلا شک انھم اذا قالو الاحد قولین انہ الاصح وسکتوا عن الاٰخر فقد فضلوہ و رجحوہ علی الاٰخر فوجب اتباعہ عندکم وسقط التخییر۔

ثانیا آپ نے فرمایا جسے ان حضرات نے تر جیح دے دی ہم پر اسی کی پیروی لازم ہے ، اور شے کی ذات میں پائی جانے والی کسی قوت کا بیان ، ترجیح نہیں ، کیونکہ ترجیح کے لئے مرجح اور مرجح علیہ ( جس کو راجح کہا گیا اور جس پر راجح کہا گیا) دونوں ضروری ہیں، تو قطعا یہ معنی ہوگا کہ جسے ان حضرات نے دوسرے سے افضل قراردیا اس کی پیروی ضروری ہے ، اب یہ قطعی بات ہے کہ جب انہوں نے دو قولوں میں سے ایک کو اصح کہا اور دوسرے سے متعلق سکوت اختیار کیا تو اسے انہوں نے دوسرے سے افضل اور راجح قرار دیا تو آپ کے نزدیک اس کا اتباع واجب ہو ااور تخییر ساقط ہوگئی۔

فــــ ۳: معروضۃ علی العلامۃ ش
فـالــوجہ عندی حمل کلام الرسالۃ علی مااذا ذیلت احدھما بافعل والاخری بغیرہ فیکون ثالث مافی المسألۃ عن الخیریۃ والغنیۃ من اختیار الاصح اوالصحیح وھو التخییر وھذا اولی من حملہ علی ما یقبل۔ تو میرے نزدیک مناسب طریقہ یہ ہے کہ رسالہ کا کلام اس صورت پر محمول کیا جائے جس میں ایک کے ذیل میں '' افعل '' سے ترجیح ہو اور دوسرے میں غیر افعل سے ، تو اس مسئلہ میں خیر یہ سے اصح کو اور غنیہ سے صحیح کو اختیار کرنے کا جو حکم منقول ہے اس کی یہ تیسری شق ہوجائے گی وہ یہ کہ تخییر ہے (کسی ایک کی پابندی نہیں صحیح یا اصح کسی کو بھی اختیار کرسکتا ہے) یہ معنی لینا اس معنی پر محمول کرنے سے بہتر ہے جو ناقابل قبول ہے ۔

لاسیما والرسالۃ مجھول لاتدری ھی ولامؤلفہا والنقل فــــــ عن المجھول لایعتمد وان کان عــــہ الناقل من المعتمدین کما افصح بہ ش فی مواضع من کتبہ وبیناہ فی فصل القضاء ۔ خصوصا جبکہ رسالہ مجہول ہے ، نہ اس کا پتا نہ اس کے مؤلف کا پتا، او رمجہول سے نقل قابل اعتماد نہیں اگرچہ ناقل معتمد ہوجیسا کہ یہ ضابطہ خود علامہ شامی نے اپنی تصانیف کے متعدد مقامات میں صاف طور پر بیان کیا ہے اور ہم نے بھی فصل القضاء میں اسے واضح کیا ہے ۔

ف : لایعتمد علی النقل عن مجھول وان کان الناقل ثقۃ۔ 
عـــہ : اقول وثم تفصیل یعرفہ الماھر باسالیب الکلام والمطلع علی مراتب الرجال فافھم اھ منہ 
عــــہ : اقول یہاں کچھ تفصیل ہے جس کی معرفت اسالیب کلام کے ماہر اور مراتب رجال سے باخبر شخص سے ہوگی تو اسے سمجھ لیں ۔۱۲ منہ

وبالجملۃ فالثنیا تخالف ماقررہ اما انھا لاتخالفنا فلان فــــ مفادھا اذ ذاک التخییر وھو حاصل ما فی شقی الثانی لانہ لما وقع فی شقہ الاول الخلاف من دون ترجیح اٰل الی التخییر والتخییر مقید بقیود قد ذکرھا من قبل وذکّرھا ھنا بقولہ ولاتنس ماقدمناہ من قیود التخییر ۱؎ اھ

الحاصل وہ استثنا ء ان ہی کے طے کردہ اور مقررہ امر کے خلاف ہے ، رہا یہ کہ وہ ہمارے خلاف نہیں تو اس لئے کہ اس وقت اس کا مفاد تخییر ہے او ریہی اس کا حاصل ہے جو صورت دوم کی دونوں شقوں کے تحت مذکور ہے کیونکہ جب اس کی پہلی شق میں اختلاف ہوگیا ( کہ اصح کو اختیار کرے ، یا صحیح کو اختیار کرے ) اور ترجیح کسی کو نہیں تو مال یہ ہوا کہ تخییر ہے ، اور تخییر کچھ قیدوں سے مقید ہے جنہیں پہلے ذکر کیا ہے اور یہا ں بھی ان کی یاد دہانی کی ہے یہ کہہ کر کہ اور تخییر کی ان قیدوں کو فراموش نہ کرنا جو ہم پہلے بیان کرچکے اھ ،

ف : تحقیق ان ماذکر من حاصل کلام الدر فانہ لایخالفنا۔

 (۱؎ ردالمحتار مطلب اذا تعارض التصحیح دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۵۰)

من اعظمھا ان لایکون احدھما قول الامام فاذا کان فلا تخییر کما اسلفنا اٰنفا نقلہ، وقد قال فی شرح عقودہ اذ کان احدھما قول الامام الاعظم والاٰخر قول بعض اصحابہ عند عدم الترجیح لاحدھما یقدم قول الامام فلذا بعدہ ۱؎ اھ ای بعد ترجیح القولین جمیعا فرجع حاصل القول الی ان قول الامام ھو المتبع الا ان یتفق المرجحون علی تصحیح خلافہ۔

ان میں سے عظیم ترین قید یہ ہے کہ دونوں میں کوئی ایک ، قول امام نہ ہو ، اگر ایسا ہو ا تو تخییر نہ ہوگی جیسا اسے ہم ابھی نقل کرآئے ، او رعلامہ شامی نے اپنی شرح عقود میں لکھا ہے کہ جب دونوں میں سے ایک ، امام اعظم کا قول ہو اور دوسرا ان کے بعض اصحاب کا قول ہو تو کسی کی ترجیح نہ ہونے کے وقت قول امام کو مقدم رکھا جاتا ہے تو ایسے ہی اس کے بعد بھی ہوگا اھ، یعنی دونوں قولوں کی ترجیح کے بعد بھی ہوگا تو حاصل کلام یہی نکلا کہ اتباع قول امام ہی کا ہوگا مگر یہ کہ مرجحین اس کے خلاف کی ترجیح پر متفق ہوں۔

 (۱؎ شرح عقود رسم المفتی     رسالہ من رسائل ابن عابدین    سہیل اکیڈمی لاہور    ۴۰)

فــان قــلـــت فــــ الیس قد ذکر عشر مرجحات اُخر ونفی التخییر مع کل منھا: أکدیۃ التصحیح کونہ (۳) فی المتون والاٰخر فی الشروح اوفی(۳) الشروح والاٰخر فی الفتاوٰی او عللوہ (۴) دون الاٰخر اوکونہ (۵) استحسانا او ظاھر (۶) الروایۃ اوا نفع (۷) للوقف اوقول (۸) الاکثر او اوفق (۹) باھل الزمان او اوجہ زاد ھذین فی شرح عقودہ۔

اگر سوال ہو کہ کیا ایسا نہیں کہ اس میں دس مرجع او ربھی ذکر کئے ہیں او رہر ایک کے ساتھ تخییر کی نفی کی ہے (۱) تصحیح کا زیادہ موکد ہونا(۲) یا اس کا متون میں اور دوسرے کا شرو ح میں ہونا(۳) اس کا شروح میں اور دوسرے کا فتاوی میں ہونا(۴) ان حضرات نے اس کی تعلیل فرمائی دوسرے کی کوئی علت ودلیل نہ بتائی(۵) اس کا استحسان ہونا (۶) یا ظاہر الروایہ(۷)یا وقف کے لئے زیادہ نفع بخش(۸) یاقول اکثر(۹) یا اہل زمانہ سے زیادہ ہم آہنگ اورموافق (۱۰) یا اوجہ ہونا،ان دونوں کا شرح عقود میں اضافہ ہے ۔

فـــــ :ذکر عشر مر جحات لاحد القولین علی الاخر

قلت بلی ولا ننکرھاأفقال ان الترجح بھا اٰکد من الترجح بانہ قول الامام انما ذکر رحمہ اللہ تعالٰی ان التصحیح اذا اختلف وکان لاحدھما مرجح من ھذہ ترجح ولا تخییر ولم یذکر ماذا کان لکل منھما مرجح منھا۔

میں کہوں گا کیو ں نہیں ، ہمیں ان سے انکار نہیں ، بتائے کیا یہ بھی کہا ہے کہ ان سب وجہوں سے ترجیح پانا قول اما م ہونے کے سبب ترجیح پانے سے زیادہ موکد ہے ؟ انہوں نے تو صرف یہ ذکر کیا ہے کہ جب تصحیح میں اختلاف ہو اور ایک تصحیح کے ساتھ ان دس میں سے کوئی ایک مرجح ہو تو وہ ترجیح پاجائے گی اور تخییر نہ ہوگی ، اس صورت کا تو ذکر ہی نہ فرمایا جس میں ہر ایک تصحیح کے ساتھ ان میں سے کوئی ایک مرجح ہو۔

اقــول فــــ۱وقد بقی من المرجحات کونہ احوط اوارفق اوعلیہ العمل وھذا یقتضی الکلام علی تفاضل ھذہ المرجحات فیما بینھا وکانہ لم یلم بہ لصعوبۃ استقصائہ فلیس فی کلامہ مضادۃ لما ذکرنا۔

اقول : اور ابھی یہ مرجحات باقی رہ گئے اس کااحوط ، یا ارفق ، یا معمول بہ ہونا ( علیہ العمل) اور یہ اس کا متقضی ہے کہ ان تر جیحات کے باہمی تفاوت اورفرق مراتب پر کلام کیا جائے ، اس کی چھان بین دشوار ہونے کے با عث شاید اسے ہاتھ نہ لگایا ، تو ہم نے جو ذکر کیا اس کی کوئی مخالفت ان کے کلام میں نہیں۔

فــــــ ۱:ذکر ثلث مرجحات اخر ۔

وانــا اقــول  : فـــ ۲ الترجح بکونہ مذھب الامام ارجح من الکل التصریحات القاھرۃ الظاھرۃ الباھرۃ المتواترۃ ان الفتویٰ بقول الامام مطلقا وقد صرح الامام الاجل صاحب الھدایۃ بوجوبہ علی کل حال۔

وانا اقول  : ( اور میں کہتا ہوں) مذہب امام ہونے کے با عث ترجیح پانا سب سے ارجح ہے اس لئے کہ قاہر ظاہر باہر متواتر تصریحات موجود ہیں کہ فتوی مطلقا قول اما م پر ہوگا اور امام جلیل صاحب ہدایہ نے ہر حال میں قول امام پر افتا ء واجب ہونے کی تصریح فرمائی ہے ،

فــــــ ۲:الترجیح بکونہ قول الامام ارجح من کل مایوجد معارضا لہ ۔
وان بغیت التفصیل وجدت الترجیح بہ ارجح من جل ماذکر ممایو جد معارضالہ۔ فاقول :  القول لایکون الاظاھر الروایۃ ومحال ان تمشی المتون قاطبۃ علی خلاف قولہ وانما وضعت لنقل مذھبہ وکذا لن تجد ابدا ان المتون سکتت عن قولہ والشروح اجمعت علی خلافہ ولم یلھج بہ الا الفتاوٰی و الا نفعیۃ للوقف من المصالح الجلیلۃ المھمۃ وھی احدی الحوامل الست وکذا الاوفقیۃ لاھل الزمان وکونہ علیہ العمل وکذا الارفق اذا کان فی محل دفع الحرج والاحوط اذاکان فی خلافہ مفسدۃ والا ستحسان اذا کان لنحو ضرورۃ او تعامل اما اذاکان فـــــ لدلیل فمختص باھل النظر وکذا کونہ اوجہ واوضح دلیلا کما اعترف بہ فی شرح عقودہ۔

اور اگر تفصیل طلب کرو تو اس کے باعث ترجیح اس کے مقابل پائے جانے والے مذکورہ تقریبا سبھی مرجحات سے زیادہ راجح ملے گی ۔ فاقول :  تواس کی تفصیل میں ، میں کہتا ہوں ) (۱) وہ قول جب ہوگا ظاہر الروایہ ہی ہوگا (۲) اور یہ محال ہے کہ تمام متون قول امام کی مخالفت پر گام زن ہوں جب کہ ان کی وضع امام ہی کا مذہب نقل کرنے کے لئے ہوئی ہے (۳۔۴) اسی طر ح ہر گز کبھی ایسا نہ ملے گا کہ متون قول امام سے ساکت ہوں او ر شروح نے اس کی مخالفت پر اجماع کرلیا ہو ، صرف فتا وی نے اسے ذکر کیا ہو۔ (۵) اور وقف کے لئے انفع ہونا عظیم اہم مصالح میں شامل ہے او ریہ اسباب ستہ میں سے ایک ہے  (۶) اسی طر ح اہل زمان کے زیادہ موافق ہونا (۷) اور اسی پر عمل ہونا (۸) یوں ہی ارفق اور زیادہ آسان ہونا جب کہ دفع حرج کا مقام ہو (۹) اور احوط بھی ، جب کہ ا س کے خلاف کوئی مفسدہ اور خرابی ہو (۱۰) اور استحسان بھی جب کہ ضرورت یا تعامل جیسی چیز کے با عث ہو ، لیکن استحسان اگر دلیل کے با عث ہو تو وہ اہل نظر سے خاص ہے (۱۱۔۱۲) یوں ہی اس کا اوجہ اور دلیل کے لحاظ سے زیادہ واضح ہونا اہل نظر کا حصہ ہےجیسا کہ علامہ شامی نے شرح عقود میں اس کا اعتراف کیا ہے

فــــ :الاستحسان لغیرنحو ضرورۃ وتعامل لایقدم علی قول الامام ۔

وقد اعلمناک ان المقلد لا یترک قول امامہ لقول غیرہ ان غیرہ اقوی دلیلا فی نظری فاین النظر من النظر وانما یتبعہ فی ذلک تارکاتقلید امامہ من یسلم ان احدا من مقلدبہ ومجتھدی مذھبہ ابصر بالدلیل الصحیح منہ ۔

اور یہ ہم بتا چکے ہیں کہ مقلد اپنے امام کا قول کسی دوسرے کے قول کی وجہ سے ترک نہ کرے گا ، اگر دوسرا قول میری نظر میں دلیل کے لحاظ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو میری نظر کو امام کی نظر سے کیا نسبت؟ اپنے امام کی تقلید چھوڑ کر اس دوسرے کے قول کا اتباع وہی کرے گا جو یہ مانتا ہے کہ امام کے مقلدین اور ان کے مذہب کے مجتہدین میں سے کوئی فرد دلیل صحیح کی ان سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے ۔

ولربما یکون قیاس یعارضہ استحسان یعارضہ استحسان اٰخر ادق منہ فکیف یترک القیاس القوی بالا ستحسان الضعیف وھذا ھو المرجو فی کل قیاس قال بہ الامام وقیل لغیرہ لالمثل ضرورۃ وتعامل انہ استحسان ولنحو ھذا ربما قدموا القیاس علی الا ستحسان وقد نقل فی مسألۃ فی الشرکۃ الفاسدۃ ش عن ط عن الحموی عن المفتاح ان قول محمد ھوالمختار للفتوی وعن غایۃ عـــہ البیان ان اقول ابی یوسف استحسان اھ فقال ش وعلیہ فھو من المسائل التی ترجح فیھا القیاس علی الاستحسان ۱؎ اھ

شاید ایسا ہوگا کہ کسی قیاس کے معارض کوئی ایسا استحسان ہو جس کے معارض اس سے زیادہ دقیق دوسرا استحسان موجود ہو تو قیاس قوی کو استحسان ضعیف کے باعث کیسے ترک کردیا جائے گا؟ امید ہے کہ یہی صورت ہر اس قیاس میں پائی جاتی ہوگی جس کے قائل امام ہیں ، اور جس کے مقابل دوسرے کو ،ضرورت وتعامل جیسے امور کے ماسوا میں ، استحسان کہا گیا ہو ایسے ہی نکتے کے باعث بعض اوقات قیاس کو استحسان پر مقدم کرتے ہیں ، علامہ شامی نے طحطاوی سے انہوں نے حموی سے ، انہوں نے مفتاح سے، شرکت فاسدہ کے ایک مسئلے میں نقل کیا ہے کہ امام محمد ہی کا قول فتوی کے لئے مختار (ترجیح یافتہ) ہے او رغایۃ البیان سے نقل کیا کہ امام ابو یوسف کا قول استحسان ہے اس پر علامہ شامی نے فرمایا ، اس کے پیش نظر وہ ان مسائل میں شامل ہے جن میں قیاس کو استحسان پر ترجیح ہوتی ہے ،اھ

عــہ قالہ الامام الکرخی فی مختصرہ وعنہ نقل فی غایۃ البیان ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م) 
اسے امام کرخی نے اپنی مختصر میں بیان کیا اسی میں غایۃ البیان سے منقول ہے ۱۲ منہ ۔ (ت)

 (۱؎ ردالمحتار کتاب الشرکۃ فصل فی شرکۃ الفاسدۃ     دار احیا ء التراث العربی بیروت     ۳ /۳۵۰)

فـافادان فـــــ ما علیہ الفتوی مقدم علی الاستحسان وکذا ضرورۃً علی ما عُلل فا لتعلیل من امارات الترجیح والفتوی اعظم ترجیح صریح وکذا لاشک فی تقدیمھا علی الاوجہ والارفق والا حوط کما نصوا علیہ فلم یبق من المرجحات المذکورۃ الا اٰکدیۃ التصحیح واکثریۃ القائلین ولذا اقتصرنا علی ذکرھما فیما مضی۔

اس بیان سے انہوں نے یہ افادہ کیا کہ (ما علیہ الفتوی) جس قول پر فتوی ہوتا ہے وہ استحسان پر مقدم ہوتا ہے( ۱۳) یوں ہی بدیہی وضروری طوپر یہ اس قول سے بھی مقد م ہوگا جس کی تعلیل ہوئی ہو ، اس لئے کہ تعلیل ترجیح کی صرف ایک علامت ہے او رفتوی سب سے عظیم ترجیح صریح ہے (۱۴۔۱۶) یوں ہی اوجہ ، ارفق اور احوط پر بھی اس کے مقدم ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ا ب تصحیح کے زیادہ موکد ہونے اور قائلین کی تعداد زیادہ ہونے کے سوا مذکورہ مرحجات سے کوئی مر جح باقی نہ رہا ، اسی لئے سابق میں ہم نے صرف ان ہی دونوں کے ذکر پر اکتفاکی ،

فــــ ۱: ماعلیہ الفتوی مقدم علی الاستحسان ۔

و ای فـــــ ۲ اکثریۃ اکثر ممافی مسألتی وقت العصر والعشاء حتی ادعوا علی خلاف قولہ التعامل بل عمل عامۃ الصحابۃ فی العشاء ولم یمنع ذلک لاسیما فی العصر عن التعویل علی قول الامام ونقلتم عن البحر واقررتم انہ لایعدل عن قول الامام الالضرورۃ وان صرح المشائخ ان الفتوی علی قولھما کما ھنا ۱؎

اب بتائیے قائلین کی اکثریت کہیں اس سے زیادہ ہوگی جو وقت عصراور وقت عشاء کے مسئلوں میں امام کے مقابل موجود ہے ؟ یہاں تک کہ لوگوں نے قول امام کے بر خلاف تعامل بلکہ عشا میں عامہ صحابہ کا عمل ہونے کابھی دعوی کیا پھر بھی یہ اکثر یت ، خصوصا عصر میں ، قول امام پر اعتماد سے مانع نہ ہوسکی ، اورآپ ہی نے بحر سے یہ نقل کیا اور برقرار رکھا کہ قول امام سے بجز ضرورت کے عدول نہ ہوگا اگر چہ مشائخ نے تصریح فرمائی ہو کہ فتوی قول صاحبین پر ہے ، جیسے یہا ں ہے اھ۔

 (۱؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴۶)

فـــــ ۲:عند قول الامام لاینظر الی کثرۃ الترجیح فی الجانب الاخر ۔

ونا ھیک فـــــ بہ جوابا عن اٰکدیۃ لفظ التصحیح وایضا قدمنا نصوص ش فی ذلک فی سردالنقول عن کتاب النکاح وکتاب الھبۃ وایضا اکثر فی ردالمحتار من معارضۃ الفتوی بالمتون وتقدیم ما فیھا علی ما علیہ الفتوی وما ھو الا لان المتون وضعت لنقل مذھب صاحب المذھب رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

اور لفظ تصحیح کے زیادہ موکد ہونے سے متعلق جواب کے لئے بھی یہی کافی ہے اور اس بارے میں علامہ شامی کی صریح عبارتیں ذکر نقول کے تحت کتا ب النکاح او رکتا ب الہبہ سے ہم پہلے بھی نقل کرچکے ہیں ، اور انہوں نے رد المحتار میں بہت سے مقامات پر فتوی کے مقابلہ میں متون کوپیش کیا ہے اور متون میں جو مذکورہ ہے اسے ما علیہ الفتوی (اور قول جس پر فتوی ہے) پر مقد م قرار دیا ہے ، اوریہ اسی لئے کہ متون صاحب مذہب رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب نقل کرنے کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔

فــــ: اذا رجع قول الامام وقول خلافہ کان العمل بقول الامام وان قالوا لغیرہ علیہ الفتوی ۔

فــمـنـھا الاسناد فی البئر الی یوم اوثلثۃ فی حق الوضوء والغسل والا قتصار فی حق غیرھما افتی بہ الصباغی وصححہ فی المحیط والتبیین واقرہ فی البحر والمنح واعتمدہ فی التنویر والدر فقلتم مخالف لاطلاق المتون قاطبۃ (الی قولکم) فلا یعول علیہ وان اقرہ فی البحر والمنح ۱؎

ان میں سے چند مقامات کی نشان دہی (۱) کنویں میں کوئی جانور مراد دیکھا گیا اور گرنے کا وقت معلوم نہیں تو اگر پھولا پھٹانہیں ہے تو ایک دن اورپھولاپھٹا ہے تو تین دن سے پانی نجس ماناجائے گا وضو اور غسل کے حق میں او ردوسری چیزوں سے متعلق جب سے دیکھا گیا اس وقت سے یعنی اب سے نجس مانا جائے گا پہلے سے نہیں ۔
اسی پر صباغی نے فتوی دیا ،محیط اورتبیین میں اسی کو صحیح کہا البحرالرائق اور منح الغفار میں اسی پر اعتماد کیا تو آپ نے فرمایا ،یہ تمام متون کے اطلاق کے بر خلاف ہے (یہاں تک کہ فرمایا) تو اس پر اعتماد نہ ہوگا اگرچہ بحر اور منح میں اسے بر قرار رکھا ۔

 (۱؎ ردالمحتار     باب المیاہ     فصل فے البئر    دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۱۴۶)
ومــنھــا وقف صدقۃً علی رجل بعینہ عاد بعد موتہ لورثۃ الواقف قال فی الاجناس ثم فتح القدیر بہ یفتی ۲؎ فقلتم انہ خلاف المعتمد لمخالفتہ لمانص علیہ محققوا المشائخ ولما فی المتون من انہ بعدموت الموقوف علیہ یعود للفقراء ۳؎

کوئی صدقہ ایک شخص معین پر وقف کیا تو یہ وقف اس شخص کی موت کے بعد واقف  کے ورثہ کی طر ف لوٹ آئے گا ، اجناس میں پھر فتح القدیر میں کہا بہ یفتی( اسی پر فتوی دیا جاتا ہے آپ نے فرمایا یہ خلاف معتمد ہے کیونکہ یہ اس کے خلاف ہے جس پر محققین مشائخ نے نص فرمایا او راس کے بھی جو متون میں مذکور ہے ، وہ یہ کہ موقوف علیہ کی موت کے بعد وہ فقراء پر لوٹ آئے گا ۔)

 (۲ ؎الدالمختار    بحوالہ الفتح کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۳۷۹)
(۳؎ ردالمحتار     بحوالہ الفتح کتاب الوقف     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۳ /۳۶۶)

ومــنھـا مااختار الامامان الجلیلان والکرخی من الغاء طلاق السکران وفی التفرید ثم التتار خانیہ ثم الدر الفتوی علیہ ۱؎ فقلتم مثل ح قد علمت مخالفتہ لسائر المتون ۲؎

امام جلیلین طحطاوی وکرخی نے اختیار فرمایا کہ نشہ والے کی طلاق بے کار ہے ، او رتفرید پھرتاتار خانیہ پھر درمختار میں ہے کہ فتوی اسی پر ہے آپ نے حلبی کی طرح فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ سارے متون کے خلاف ہے ۔

 (۱؎ الدرالمختار   بحوالہ تاتارخانیہ کتاب الطلاق مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۲۱۷)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطلاق دار احیاء التراث العربی بیروت۲/ ۴۲۴و ۴۲۵)

ومــنـھـا قال محمد اذالم یکن عصبۃ فولایۃ النکاح للحاکم دون الام قال فی المضمرات علیہ الفتوی فقلتم کالبحر والنھر غریب للمخالفۃ المتون الموضوعۃ لبیان الفتوی۳؎

 (۴) امام محمد نے فرمایا ،جب کوئی عصبہ نہ ہو تو نکاح کی ولایت حاکم کو حاصل ہوگی ، ماں کو نہیں مضمرات میں لکھا ، اسی پر فتوی ہے آپ نے بحرونہرکی طر ح فرمایا ، یہ غریب ہے کیوں کہ بیان فتوی کے لئے وضع شدہ متون کے بر خلاف ہے ،

 (۳؎ ردالمحتار    کتاب النکاح باب الولی داراحیاء التراث العربی بیروت     ۲ /۳۱۲)

ومـنھـا قال محمد لا تعتبر الکفاءۃ دیانۃ وفی الفتح عن المحیط علیہ الفتوی وصححہ فی المبسوط فقلتم کالبحر تصحیح الھدایۃ معارض لہ فالافتاء بما فی المتون اولی ۴؎

 (۵) امام محمد نے فرمایا ، دین داری میں کفاء ت کا اعتبار نہیں فتح القدیر میں محیط کے حوالے سے لکھا ، اسی پر فتوی ہے او رمبسوط میں اسی کو صحیح کہا آپ نے بحر کی طر ف فرمایا ، ہدایہ کی تصحیح اس کے معارض ہے تو اسی پر افتا اولی ہے جو متون میں مذکور ہے ۔

 (۴؎ ردالمحتار کتاب النکاح     باب الکفاءۃ    دار احیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۲۰)

ومـنـھـا قال لھا اختاری اختاری اختاری فقالت اخترت الاولی اوالوسطی اوالاخیرۃ طلقت ثلثا عندہ وواحدۃ بائنۃ عندھما واختارہ الطحاوی قال فی الدر واقرہ الشیخ علی المقدسی وفی الحاوی القدسی وبہ نأخذ فقد افاد ان قولھما ھو المفتی بہ کذا یخط الشرف الغزی۱؎ فقلتم قول الامام مشی علیہ المتون واخر دلیلہ فــــ۱ فی الھدایۃ فکان ھو المعتمد۲؎۔

 (۶) شوہر نے بیوی سے کہا ، اختیارکر ، اختیار کر، اختیار کر ، تو بیوی نے کہا میں نے پہلی یا درمیانی یا آخری اختیار کی ، امام صاحب کے نزدیک اس پر تین طلاقیں پڑگئیں ، اور صاحبین کے نزدیک ایک طلاق بائن واقع ہوئی اور اسی کو امام طحاوی نے اختیار کیا ، درمختار میں ہے اور اسے شیخ علی مقدسی نے بر قرار رکھا ، اور حاوی قدسی میں ہے ، وبہ ناخذ ہم اسی کو لیتے ہیں تو یہ افادہ کیا کہ قول صاحبین ہی مفتی بہ ہے شرف غزی کی قلمی تحریرمیں اسی طرح ہے آپ نے فرمایا ، قول امام پر متون گام زن ہیں ، اور ہدایہ میں اسی کی دلیل موخر رکھی ہے تو وہی معتمد ہوا ۔

فــــ ۱ : تاخیر الھدایۃ دلیل قول دلیل اعتماد ہ

 (۱؎ الدرالمختار کتاب الطلاق     باب تفویض الطلاق مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۲۲۷)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطلاق     باب تفویض الطلاق باب داراحیاء التراث العربی بیروت         ۲ /۴۸۰)

ومــنھـا طلب القسمۃ من لا ینتفع بھا لقلۃ حصّتہ قال شیخ الاسلام خواھر زادہ یجاب قال فی الخانیۃ وعلیہ الفتوی فقال فی الدر لکن فـــــ۲ المتون علی الاول فعلیہ المعول ۳؎ واقرر تموہ انتم وط مع قولکم مرارا منھا فی ھبۃ ردالمحتار کن علی ذکرمما قالوا لا یعدل فــــ۳ عن تصحیح قاضی خان فانہ فقیہ النفس ۴؎ اھ

 (۷) تقسیم کا ایسے شخص نے مطالبہ کیا جو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ اس کا حصہ بہت کم ہوگا شیخ الاسلام خواہر زادہ نے کہا ، تقسیم کردی جائے ، خانیہ میں کہا اسی پرفتوی ہے اس پر در مختار میں فرمایا ،لیکن متون اول پر ہیں تواسی پر اعتماد ہے اور اسے آپ نے اور طحطاوی نے بر قراررکھا ، با وجود یکہ آپ نے بارہافرمایا ان میں سے ایک موقع رد المحتار کتاب الہبہ کا بھی ہے کہ اسے یاد رکھنا جو علماء نے فرمایا ہے کہ امام قاضی خاں کی تصحیح سے عدول نہ کیاجائے گا کیونکہ وہ فقیہ النفس ہیں ۔ اھ

فـــ ۲: قول الامام مذکور فی المتون مقدم علی ما صححہ قاضی خان باکدالفاظ الفتوی۔
فــــ۳: لا یعدل عن تصحیحہ قاضی خان فانہ فقیہ النفس ۔

 (۳؎ الدر المختار کتاب القسمۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ / ۲۱۹)
(۴؎ رد المحتار کتاب الہبۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ / ۵۱۳ )

فـقـد ظھر وللہ الحمد ان الترجیح بکون القول قول الامام لایوازیہ شیئ واذا اختلف الترجیح وکان احدھما قول الامام فعلیہ التعویل وکذا اذالم یکن ترجیح فکیف اذا اتفقوا علی ترجیحہ فلم یبق الامااتفقوا فیہ علی ترجیح غیرہ ۔

اس تفصیل سے بحمدہ تعالی روشن ہوگیا کہ کسی قول کے قول امام ہونے کے باعث ترجیح پانے کے مقابل کوئی چیز نہیں اور جب اختلاف ترجیح کی صورت میں دوقولوں میں سے ایک قول امام ہو تو اسی پر اعتماد ہے اسی طر ح اس وقت بھی جب کوئی ترجیح ہی موجود نہ ہو ، پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب سب اسی کی ترجیح پر متفق ہوں تو اب کوئی صورت باقی نہ رہی سوا اس کے جس میں دو سرے کی ترجیح پر سب متفق ہوں ۔

فــاذا حمل کلامہ علی ماوصفنا فلاشک فی صحتہ اذن بالنظر الی حاصل الحکم فانا نوافقہ علی انانا خذ ح بما اتفقوا علی ترجیحہ انما یبقی الخلاف بیننا فی الطریق فھو اختارہ بناء علی اتباع المرجحین ونحن نقول لایکون ھذا الا فی محل احدی الحوامل فیکون ھذا ھو قول الامام الضروری وان خالف قولہ الصوری بل عندنا ایضا مساغ ھھنا لتقلید المشائخ فی بعض الصور علی مایأتی بیانھا۔

تو اگر علامہ شامی کا کلام اس پر محمول کرلیا جائے جو ہم نے بیان کیا تو اس صورت میں وہ بلا شبہ حاصل حکم کے لحاظ سے صحیح ہوگا کیونکہ ہم بھی اس پر ان کی موافقت کرتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہم اسی کو لیں گے جس کی ترجیح پر مشائخ کا اتفاق ہے البتہ ہمارے اور ان کے درمیان طریقے حکم کا فر ق رہ جاتا ہے ، انہوں نے اس حکم کو اتباع مرجحین کی بنیاد پر اختیار کیا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسا اسباب ستہ میں سے کسی ایک کے پائے جانے ہی کے موقع پر ہوگا تو یہی امام کاقول ضروری ہوگا اگرچہ وہ ان کے قول صوری کے بر خلاف ہو بلکہ ہمارے نزدیک یہاں بعض صورتوں میں تقلید مشائخ کی بھی گنجائش ہے جیسا کہ ان کا بیان آرہا ہے ۔

ثــم لاشک انہ لایتقید ح بکونہ قول احد الصاحبین بل ندور مع الحوامل حیث دارت وانکان قول زفر مثلا علی خلاف الائمۃ الثلثۃ کما ذکر وما ذکر من سبرھم الدلیل وسائر کلامہ نشأمن الطریق الذی سلکہ وح یبقی الخلاف بینہ وبین البحر لفظیا فان البحر ایضا لا یابی عند ئذ العدول عن قول الامام الصوری الی قولہ الضروری کیف وقد فعل مثلہ نفسہ والوفاق اولی من الشقاق۔

پھر بلا شبہ ایسے وقت میں اس کی بھی پابندی نہیں کہ وہ دو سرا قول ، صاحبین ہی میں سے کسی کا ہو بلکہ مدار حوادث پر ہوگا وہ جہاں دائر ہوں اگر چہ تینوں ائمہ کے بر خلاف مثلا امام زفر ہی کا قول ہوجیسا کہ پہلے ذکر ہوا ۔اور وہ جو علامہ شامی نے ذکر کیا کہ مشائخ نے دلیل کی جانچ کر رکھی ہے اور باقی کلام ،یہ سب اس طر یق سے پیدا شدہ ہے جسے انہوں نے اپنایا ۔ اور اب ان کے اور بحر کے درمیان صرف لفظی اختلاف رہ جائے گا ۔ کیونکہ بحر بھی ایسی صورت میں امام کے قول صوری سے ان کے قول ضروری کی جانب عدول کے منکر نہیں ۔منکر کیسے ہوں گے ایسا تو انہو ں نے خود کیا ہے ۔ اور اتفاق ، اختلاف سے بہتر ہے ۔
ولـعـل مـراد ابن الشلبی ان یصرح احد من المشائخ الفتوی علی قول غیر الامام مع عدم مخالفۃ الباقین لہ صراحۃ ولا دلالۃ کا قتصارھم علی قول الامام او تقدیمہ او تأخیر دلیلہ اوالجواب عن دلائل غیرہ الی غیر ذلک مما یعلم انھم یرجحون قول الامام کما اشار ابن الشلبی الی التصحیح دلالۃ وح لابد ان یظھر منھم مخایل وفاقھم لذلک المفتی فیدخل فی صورۃ الثنیا ھذا فی جانب الشامی واما جانب البحر فرأیتنی کتبت فیما علقت علی ردالمحتار فی کتاب القضاء مانصہ۔

اور شاید ابن الشلبی کی مرادیہ ہے کہ مشائخ میں سے ایک نے غیر امام کے قول پر فتوی ہونے کی تصریح کی ہو اور دیگر حضرات نے صراحۃ اس کی مخالفت نہ کی ہواور نہ ہی دلالۃ مثلا یوں کہ قول امام پر اقتصار کریں ، یا اسے پہلے بیان کریں ، یا اس کی دلیل آخر میں لائیں ، یا دوسرے حضرات کی دلیلوں کا جواب دیں ، اسی طر ح کی اور باتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قول امام کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جیسا کہ ابن الشلبی نے دلالۃ تصحیح کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ او رایسی صورت میں دیگر حضرات سے اس مفتی کے ساتھ موافقت کے آثار و علامات نمودار ہونا ضروری ہے کلام ابن شلبی کی یہ مراد لی جائے تو یہ بھی استثنا ء والی صورت میں داخل ہوجائے گا ۔یہ گفتگو رہی شامی کے دفاع میں ، اب رہا بحر کا معاملہ تو رد المحتار پر جو میں نے تعلیقات لکھی ہیں ان ہی میں کتاب القضاکے تحت میں نے دیکھا کہ یہ عبارت رقم کر چکا ہوں ۔

اقــول:  محل کلام البحر حیث وجدالترجیح من ائمتہ فی جانب الامام ایضا کمافی مسألتی العصر والعشاء وان وجد اٰکد الفاظہ وھو الفتویٰ من المشائخ فی جانب الصاحبین ولیس یرید ان المشائخ وان اجمعوا علی ترجیح قولھما لایعبؤ بہ ویجب علینا الافتاء بقول الامام فان ھذا لایقول بہ احد ممن لہ مساس بالفقہ فکیف بھذا العلامۃ البحر ولن تری ابدا اجماع الائمۃ علی ترجیح قول غیرہ الا لتبدل مصلحۃ باختلاف الزمان وح لایجوز لنا مخالفۃ المشائخ (لانھا اذن مخالفۃ الامام عینا کما علمت) واما اذا اختلف الترجیح فرجحان قول الامام لانہ قول الامام ارجح من رجحان قول غیرہ لارجحیۃ لفظ الافتاء بہ (اواکثریۃ المائلین الی ترجیحہ) فھذا ما یریدہ العلامۃ صاحب البحر وبہ یسقط ایراد العلامتین الرملی والشامی اھ ماکتبت مع زیادات منی الاٰن مابین الاھلۃ۔

اقول:  کلام بحر کامحل وہ صورت ہے جس میں ائمہ ترجیح سے جانب امام بھی ترجیح پائی جاتی ہو جیسے عصر وعشاء کے مسئلوں میں ہے اگر چہ موکد ترین لفظ ترجیح مشائخ کا فتوی صاحبین کی جانب ہو بحر کی مراد یہ نہیں کہ مشائخ قول صاحبین کی ترجیح پر اجماع کر لیں تو بھی اس کا اعتبار نہیں اور ہم پر قول امام ہی پر فتوی دینا واجب ہے ۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص جسے فقہ سے کچھ مس ہے ایسی بات نہیں کہہ سکتا تو یہ علامہ بحر اس کے قائل کیسے ہوں گے ؟ اور ہر گز کبھی غیر امام کے قول کی ترجیح پر ائمہ ترجیح کا اجماع نظر نہ آئے گا مگر ایسی صورت میں جہاں اختلاف زمانہ کی وجہ سے مصلحت تبدیل ہوگئی ہو۔، اور ایسی صورت میں ہمارے لئے مشائخ کے خلاف جانا روا نہیں (کیوں کہ یہ بعینہ امام کے مخالف ہوگی جیسا کہ معلوم ہوا ) لیکن جب تر جیح مختلف ہو تو قول امام کا اس وجہ سے رجحان کہ وہ قول امام ہے زیادہ راجح ہوگا اور اس کے مقابلہ میں دوسرے کے قول کا ،لفظ افتاء کی ارجحیت (یا اس کی ترجیح کی طر ف مائل ہونے والوں کی اکثریت ) کے باعث رحجان اس سے فر وتر ہوگا ۔ یہی علامہ صاحب بحر کی مراد ہے اور اسی سے علامہ رملی وعلامہ شامی کا اعتراض ساقط ہوجاتا ہے ۔ اھ حواشی رد المحتار سے متعلق میری عبارت ختم ہوئی ، اور ہلالین کے درمیان کی عبارتیں اس وقت میں نے بڑھائی ہیں ۔

فبــھــذا تلتئم الکلمات، وتأتلف الاشتات، والحمد للہ رب البریات، وافضل الصلوات، واکمل التسلیمات، علی الامام الاعظم لجمیع الکائنات، واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اولی الخیرات، والسعود والبرکات، عدد کل مامضی وما ھو اٰت، آمین والحمد للّٰہ رب العٰلمین واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی اعلم ۔

تو اس تو ضیح وتاویل سے تمام کلمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور مختلف باتیں باہم متفق ہوجاتی ہیں ۔ اور تمام تر ستائش خدا کے لئے جو مخلوقات کا رب ہے ۔ او ربہتر درود ، کامل ترین تسلیمات ساری کائنات کے امام اعظم اور خیرات ، سعادات ، برکات والے ان کے آل ، اصحاب ، فرزند ا ور جماعت پر ،ہر گزشتہ وآئندہ کی تعداد میں ۔ الہی ! قبول فرما ۔ اور تمام تعریف خدا کے لئے جو سارے جہانوں کا پر وردگار ہے اور پاکی وبر تری والے خدا کو ہی خوب علم ہے ۔

ورأیـــت الناس یتحفون کتبھم الی ملوک الدنیا وانا العبد الحقیر، خدمت بھذہ السطور، ملکا فی الدین، امام ائمۃ المجتہدین، رضی اللہ تعالی عنہ وعنھم اجمعین، فان وقعت موقع القبول، فذاک نھایۃ المسئول، ومنتھی المأمول، وما ذلک علی اللہ بعزیز ان ذلک علی اللہ یسیر، ان اللہ علی کل شیئ قدیر، وللہ الحمد والیہ المصیر، وصلی اللہ تعالی علی المولی الاکرم، واٰلہ وصحبہ و بارک وسلّم، اٰمین۔

میں نے دیکھا کہ لوگ شاہان دنیا کے دربار میں اپنی کتابوں کا تحفہ پیش کرتے ہیں اور بندہ حقیر نے تو ان سطور سے دین کے ایک بادشاہ ،ائمہ مجتہدین کے امام کی خدمت گزاری کی ہے ۔ اللہ تعالی ان سے اور ان سب مجتہدین سے راضی ہو ، تو یہ اگر مقام قبول پاجائیں تو یہی انتہائے مطلوب او رمنتہائے امید ہے اوراللہ پر یہ کچھ دشوار نہیں ، بلاشبہ یہ خدا پر آسان ہے ۔ یقینا اللہ ہر شے پر قادر ہے ۔اور اللہ ہی کے لئے حمد ہے اور اسی کی جانب رجوع ہے۔ اور اللہ تعالی درود وسلام نازل فرمائے آقائے اکرم اور ان کی آل اصحاب پر اور برکت و سلامتی بخشے ۔ الہی! قبول فرما۔

تـنبـیـہ اقول : فـــــ کون المحل محل احدی الحوامل انکان بینا لایلتبس فالعمل علیہ وما عداہ لانظر الیہ وھذا طریق لمی وانکان الامر مشتبہا رجعنا الی ائمۃ الترجیح فان رأیناھم مجمعین علی خلاف قول الامام علمنا ان المحل محلھا وھذا طریق انی وان وجدناھم مختلفین فی الترجیح اولم یرجحوا شیئا عملنا بقول الامام وترکنا ماسنواہ من قول وترجیح لان اختلافھم اما لان المحل لیس محلھا فاذن لاعدول عن قول الامام اولانھم اختلفوا فی المحلیۃ فلا یثبت القول الضروری بالشک فلا یترک قولہ الصوری الثابت بیقین الا اذا تبینت لنا المحلیۃ بالنظر فیما ذکروا من الادلۃ اوبنی العادلون عن قولہ الامر علیھا وکانوا ھم الاکثرین و فنتبعھم ولا نتھمھم اما اذا لم یبنوا الامر علیھا وانما حاموا حول الدلیل فقول الامام علیہ التعویل ھذا ما ظھرلی وار جوا ن یکون صوابا ان شاء اللّٰہ تعالٰی واللّٰہ اعلم۔

تنبیہ:اقول:  چھ اسباب میں سے کسی ایک کا محل ہونا اگر واضح غیرمشتبہ ہو تو اسی پر عمل ہوگا اور ماسوا پر نظر نہ ہوگی یہ لمی طریقہ ہے اور اگرمعاملہ مشتبہ ہو تو ہم ائمہ ترجیح کی جانب رجوع کریں گے ۔ اگر قول امام کے بر خلاف انہیں اجماع کئے دیکھیں تو یقین کرلیں گے کہ یہ بھی اسباب ستہ میں سے کسی ایک کاموقع ہے یہ ِانیِّ طریقہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اگر انہیں ترجیح کے بارے میں مختلف پائیں یا یہ دیکھیں کہ انہوں نے کسی کو ترجیح نہ دی تو ہم قول امام پر عمل کریں گے اور اس کے ماسوا قول وترجیح کو ترک کر دیں گے کیوں کہ ان کااختلاف یا تو اس لئے ہوگا کہ وہ اسباب ستہ کا موقع نہیں ۔جب تو قول امام سے عدول ہی نہیں یا اس لئے ہوگا کہ اسباب ستہ کا محل ہونے میں وہ باہم مختلف ہوگئے ۔ تو قول ضروری شک سے ثابت نہ ہوپائے گا ۔ اس لئے امام کا قول صوری جو یقین سے ثابت ہے ترک نہ کیا جائے گا لیکن جب ہم پر اسباب ستہ کا محل ہونا ان حضرات کی بیان کر دہ دلیلوں میں نظرکرنے سے واضح ہوجائے ، یا قول امام سے عدول کرنے والے حضرات نے اسی محلیت پر بنائے کار رکھی ہو اور وہی تعداد میں زیادہ بھی ہوں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور انہیں متہم نہ کریں گے۔۔۔۔۔۔ لیکن جب انہوں نے بنائے کا ر محلیت پر نہ رکھی ہو ، بس دلیل کے گرد ان کی گردش ہو تو قول امام پر ہی اعتماد ہے۔۔۔۔۔ یہ وہ طریق عمل ہے جو مجھ پر منکشف ہوا اور امید رکھتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالی درست ہوگا، واللہ تعالی اعلم

فـــ : تنبہان جلیلان یتبین بھما ما یعمل بہ المقلد فی امثال المقام ۔

تـنبـیہ اقول:  ھذا کلہ اذا خالفوا الامام اما اذا فصلو ا اجمالا،او ضحوا اشکالا ، او قیدو ارسالا کداب الشراح مع المتون، وھم فی ذلک علی قولہ ماشون، فھم اعلم منا بمراد الامام فان اتفقوا والا فالترجیح بقواعدہ المعلومۃ وانما قیدنا بانھم فی ذلک علی قولہ ماشون لانہ تقع ھنا صورتان مثلا قال الامام فی مسألۃ باطلاق وصاحباہ بالتقیید فان اثبتوا الخلاف واختاروا قولھما فھذہ مخالفۃ وان نفوا الخلاف وذکروا ان مراد الامام ایضا التقیید فھذا شرح واللّٰہ تعالٰی اعلم ولیکن ھذا اٰخر الکلام، وافضل الصلاۃ والسلام، علی اکرم الکرام، واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ الی یوم القیام، والحمد للّٰہ ذی الجلال والاکرام۔

تنبیہ : اقول:  یہ سب اس وقت ہے جب وہ واقعی امام کے خلاف گئے ہوں لیکن جب وہ کسی اجمال کی تفصیل یا کسی اشکال کی تو ضیح ، یا کسی اطلاق کی تقیید کریں جیسے متون میں شارحین کا عمل ہوتا ہے ۔ اور وہ ان سب میں قول امام ہی پر گام زن ہوں تو وہ امام کی مراد ہم سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ اب اگر وہ باہم متفق ہوں تو قطعا اسی پر عمل ہوگا ورنہ تر جیح کے قواعد معلومہ کے تحت ترجیح دی جائے گی ۔ ہم نے یہ قید لگائی کہ'' وہ ان سب میں قول امام ہی پر گام زن ہوں '' اس کی و جہ یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہوتی ہیں ، مثلاامام کسی مسئلے میں اطلاق کے قائل ہیں اور صاحبین تقیید کے قائل ہیں ، اب مرجحین اگر اختلاف کا اثبات کریں اور صاحبین کا قول اختیارکریں تو یہ مخالفت ہے اور اگر اختلاف کا انکار کریں اور یہ بتائیں کہ امام کی مراد بھی تقیید ہی ہے تو یہ شرح ہے واللہ تعالی اعلم ۔ یہی خاتمہ کلام ہونا چاہئے اور بہتر درودو سلام کریموں میں سب سے کریم تر سرکار پر اور ان کی آل ، اصحاب ، فرزند اور جماعت پر تاروز قیام۔ اور ہر ستائش بزرگی واکرام والے خدا کے لئے ہے ۔(ت)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے