فـالــوجہ عندی حمل کلام الرسالۃ علی مااذا ذیلت احدھما بافعل والاخری بغیرہ فیکون ثالث مافی المسألۃ عن الخیریۃ والغنیۃ من اختیار الاصح اوالصحیح وھو التخییر وھذا اولی من حملہ علی ما یقبل۔ تو میرے نزدیک مناسب طریقہ یہ ہے کہ رسالہ کا کلام اس صورت پر محمول کیا جائے جس میں ایک کے ذیل میں '' افعل '' سے ترجیح ہو اور دوسرے میں غیر افعل سے ، تو اس مسئلہ میں خیر یہ سے اصح کو اور غنیہ سے صحیح کو اختیار کرنے کا جو حکم منقول ہے اس کی یہ تیسری شق ہوجائے گی وہ یہ کہ تخییر ہے (کسی ایک کی پابندی نہیں صحیح یا اصح کسی کو بھی اختیار کرسکتا ہے) یہ معنی لینا اس معنی پر محمول کرنے سے بہتر ہے جو ناقابل قبول ہے ۔
لاسیما والرسالۃ مجھول لاتدری ھی ولامؤلفہا والنقل فــــــ عن المجھول لایعتمد وان کان عــــہ الناقل من المعتمدین کما افصح بہ ش فی مواضع من کتبہ وبیناہ فی فصل القضاء ۔ خصوصا جبکہ رسالہ مجہول ہے ، نہ اس کا پتا نہ اس کے مؤلف کا پتا، او رمجہول سے نقل قابل اعتماد نہیں اگرچہ ناقل معتمد ہوجیسا کہ یہ ضابطہ خود علامہ شامی نے اپنی تصانیف کے متعدد مقامات میں صاف طور پر بیان کیا ہے اور ہم نے بھی فصل القضاء میں اسے واضح کیا ہے ۔
عـــہ : اقول وثم تفصیل یعرفہ الماھر باسالیب الکلام والمطلع علی مراتب الرجال فافھم اھ منہ
عــــہ : اقول یہاں کچھ تفصیل ہے جس کی معرفت اسالیب کلام کے ماہر اور مراتب رجال سے باخبر شخص سے ہوگی تو اسے سمجھ لیں ۔۱۲ منہ
وبالجملۃ فالثنیا تخالف ماقررہ اما انھا لاتخالفنا فلان فــــ مفادھا اذ ذاک التخییر وھو حاصل ما فی شقی الثانی لانہ لما وقع فی شقہ الاول الخلاف من دون ترجیح اٰل الی التخییر والتخییر مقید بقیود قد ذکرھا من قبل وذکّرھا ھنا بقولہ ولاتنس ماقدمناہ من قیود التخییر ۱؎ اھ
الحاصل وہ استثنا ء ان ہی کے طے کردہ اور مقررہ امر کے خلاف ہے ، رہا یہ کہ وہ ہمارے خلاف نہیں تو اس لئے کہ اس وقت اس کا مفاد تخییر ہے او ریہی اس کا حاصل ہے جو صورت دوم کی دونوں شقوں کے تحت مذکور ہے کیونکہ جب اس کی پہلی شق میں اختلاف ہوگیا ( کہ اصح کو اختیار کرے ، یا صحیح کو اختیار کرے ) اور ترجیح کسی کو نہیں تو مال یہ ہوا کہ تخییر ہے ، اور تخییر کچھ قیدوں سے مقید ہے جنہیں پہلے ذکر کیا ہے اور یہا ں بھی ان کی یاد دہانی کی ہے یہ کہہ کر کہ اور تخییر کی ان قیدوں کو فراموش نہ کرنا جو ہم پہلے بیان کرچکے اھ ،
من اعظمھا ان لایکون احدھما قول الامام فاذا کان فلا تخییر کما اسلفنا اٰنفا نقلہ، وقد قال فی شرح عقودہ اذ کان احدھما قول الامام الاعظم والاٰخر قول بعض اصحابہ عند عدم الترجیح لاحدھما یقدم قول الامام فلذا بعدہ ۱؎ اھ ای بعد ترجیح القولین جمیعا فرجع حاصل القول الی ان قول الامام ھو المتبع الا ان یتفق المرجحون علی تصحیح خلافہ۔
ان میں سے عظیم ترین قید یہ ہے کہ دونوں میں کوئی ایک ، قول امام نہ ہو ، اگر ایسا ہو ا تو تخییر نہ ہوگی جیسا اسے ہم ابھی نقل کرآئے ، او رعلامہ شامی نے اپنی شرح عقود میں لکھا ہے کہ جب دونوں میں سے ایک ، امام اعظم کا قول ہو اور دوسرا ان کے بعض اصحاب کا قول ہو تو کسی کی ترجیح نہ ہونے کے وقت قول امام کو مقدم رکھا جاتا ہے تو ایسے ہی اس کے بعد بھی ہوگا اھ، یعنی دونوں قولوں کی ترجیح کے بعد بھی ہوگا تو حاصل کلام یہی نکلا کہ اتباع قول امام ہی کا ہوگا مگر یہ کہ مرجحین اس کے خلاف کی ترجیح پر متفق ہوں۔
(۱؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۴۰)
فــان قــلـــت فــــ الیس قد ذکر عشر مرجحات اُخر ونفی التخییر مع کل منھا: أکدیۃ التصحیح کونہ (۳) فی المتون والاٰخر فی الشروح اوفی(۳) الشروح والاٰخر فی الفتاوٰی او عللوہ (۴) دون الاٰخر اوکونہ (۵) استحسانا او ظاھر (۶) الروایۃ اوا نفع (۷) للوقف اوقول (۸) الاکثر او اوفق (۹) باھل الزمان او اوجہ زاد ھذین فی شرح عقودہ۔
اگر سوال ہو کہ کیا ایسا نہیں کہ اس میں دس مرجع او ربھی ذکر کئے ہیں او رہر ایک کے ساتھ تخییر کی نفی کی ہے (۱) تصحیح کا زیادہ موکد ہونا(۲) یا اس کا متون میں اور دوسرے کا شرو ح میں ہونا(۳) اس کا شروح میں اور دوسرے کا فتاوی میں ہونا(۴) ان حضرات نے اس کی تعلیل فرمائی دوسرے کی کوئی علت ودلیل نہ بتائی(۵) اس کا استحسان ہونا (۶) یا ظاہر الروایہ(۷)یا وقف کے لئے زیادہ نفع بخش(۸) یاقول اکثر(۹) یا اہل زمانہ سے زیادہ ہم آہنگ اورموافق (۱۰) یا اوجہ ہونا،ان دونوں کا شرح عقود میں اضافہ ہے ۔
قلت بلی ولا ننکرھاأفقال ان الترجح بھا اٰکد من الترجح بانہ قول الامام انما ذکر رحمہ اللہ تعالٰی ان التصحیح اذا اختلف وکان لاحدھما مرجح من ھذہ ترجح ولا تخییر ولم یذکر ماذا کان لکل منھما مرجح منھا۔
میں کہوں گا کیو ں نہیں ، ہمیں ان سے انکار نہیں ، بتائے کیا یہ بھی کہا ہے کہ ان سب وجہوں سے ترجیح پانا قول اما م ہونے کے سبب ترجیح پانے سے زیادہ موکد ہے ؟ انہوں نے تو صرف یہ ذکر کیا ہے کہ جب تصحیح میں اختلاف ہو اور ایک تصحیح کے ساتھ ان دس میں سے کوئی ایک مرجح ہو تو وہ ترجیح پاجائے گی اور تخییر نہ ہوگی ، اس صورت کا تو ذکر ہی نہ فرمایا جس میں ہر ایک تصحیح کے ساتھ ان میں سے کوئی ایک مرجح ہو۔
اقــول فــــ۱وقد بقی من المرجحات کونہ احوط اوارفق اوعلیہ العمل وھذا یقتضی الکلام علی تفاضل ھذہ المرجحات فیما بینھا وکانہ لم یلم بہ لصعوبۃ استقصائہ فلیس فی کلامہ مضادۃ لما ذکرنا۔
اقول : اور ابھی یہ مرجحات باقی رہ گئے اس کااحوط ، یا ارفق ، یا معمول بہ ہونا ( علیہ العمل) اور یہ اس کا متقضی ہے کہ ان تر جیحات کے باہمی تفاوت اورفرق مراتب پر کلام کیا جائے ، اس کی چھان بین دشوار ہونے کے با عث شاید اسے ہاتھ نہ لگایا ، تو ہم نے جو ذکر کیا اس کی کوئی مخالفت ان کے کلام میں نہیں۔
وانــا اقــول : فـــ ۲ الترجح بکونہ مذھب الامام ارجح من الکل التصریحات القاھرۃ الظاھرۃ الباھرۃ المتواترۃ ان الفتویٰ بقول الامام مطلقا وقد صرح الامام الاجل صاحب الھدایۃ بوجوبہ علی کل حال۔
وانا اقول : ( اور میں کہتا ہوں) مذہب امام ہونے کے با عث ترجیح پانا سب سے ارجح ہے اس لئے کہ قاہر ظاہر باہر متواتر تصریحات موجود ہیں کہ فتوی مطلقا قول اما م پر ہوگا اور امام جلیل صاحب ہدایہ نے ہر حال میں قول امام پر افتا ء واجب ہونے کی تصریح فرمائی ہے ،
وان بغیت التفصیل وجدت الترجیح بہ ارجح من جل ماذکر ممایو جد معارضالہ۔ فاقول : القول لایکون الاظاھر الروایۃ ومحال ان تمشی المتون قاطبۃ علی خلاف قولہ وانما وضعت لنقل مذھبہ وکذا لن تجد ابدا ان المتون سکتت عن قولہ والشروح اجمعت علی خلافہ ولم یلھج بہ الا الفتاوٰی و الا نفعیۃ للوقف من المصالح الجلیلۃ المھمۃ وھی احدی الحوامل الست وکذا الاوفقیۃ لاھل الزمان وکونہ علیہ العمل وکذا الارفق اذا کان فی محل دفع الحرج والاحوط اذاکان فی خلافہ مفسدۃ والا ستحسان اذا کان لنحو ضرورۃ او تعامل اما اذاکان فـــــ لدلیل فمختص باھل النظر وکذا کونہ اوجہ واوضح دلیلا کما اعترف بہ فی شرح عقودہ۔
اور اگر تفصیل طلب کرو تو اس کے باعث ترجیح اس کے مقابل پائے جانے والے مذکورہ تقریبا سبھی مرجحات سے زیادہ راجح ملے گی ۔ فاقول : تواس کی تفصیل میں ، میں کہتا ہوں ) (۱) وہ قول جب ہوگا ظاہر الروایہ ہی ہوگا (۲) اور یہ محال ہے کہ تمام متون قول امام کی مخالفت پر گام زن ہوں جب کہ ان کی وضع امام ہی کا مذہب نقل کرنے کے لئے ہوئی ہے (۳۔۴) اسی طر ح ہر گز کبھی ایسا نہ ملے گا کہ متون قول امام سے ساکت ہوں او ر شروح نے اس کی مخالفت پر اجماع کرلیا ہو ، صرف فتا وی نے اسے ذکر کیا ہو۔ (۵) اور وقف کے لئے انفع ہونا عظیم اہم مصالح میں شامل ہے او ریہ اسباب ستہ میں سے ایک ہے (۶) اسی طر ح اہل زمان کے زیادہ موافق ہونا (۷) اور اسی پر عمل ہونا (۸) یوں ہی ارفق اور زیادہ آسان ہونا جب کہ دفع حرج کا مقام ہو (۹) اور احوط بھی ، جب کہ ا س کے خلاف کوئی مفسدہ اور خرابی ہو (۱۰) اور استحسان بھی جب کہ ضرورت یا تعامل جیسی چیز کے با عث ہو ، لیکن استحسان اگر دلیل کے با عث ہو تو وہ اہل نظر سے خاص ہے (۱۱۔۱۲) یوں ہی اس کا اوجہ اور دلیل کے لحاظ سے زیادہ واضح ہونا اہل نظر کا حصہ ہےجیسا کہ علامہ شامی نے شرح عقود میں اس کا اعتراف کیا ہے
فــــ :الاستحسان لغیرنحو ضرورۃ وتعامل لایقدم علی قول الامام ۔
وقد اعلمناک ان المقلد لا یترک قول امامہ لقول غیرہ ان غیرہ اقوی دلیلا فی نظری فاین النظر من النظر وانما یتبعہ فی ذلک تارکاتقلید امامہ من یسلم ان احدا من مقلدبہ ومجتھدی مذھبہ ابصر بالدلیل الصحیح منہ ۔
اور یہ ہم بتا چکے ہیں کہ مقلد اپنے امام کا قول کسی دوسرے کے قول کی وجہ سے ترک نہ کرے گا ، اگر دوسرا قول میری نظر میں دلیل کے لحاظ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو میری نظر کو امام کی نظر سے کیا نسبت؟ اپنے امام کی تقلید چھوڑ کر اس دوسرے کے قول کا اتباع وہی کرے گا جو یہ مانتا ہے کہ امام کے مقلدین اور ان کے مذہب کے مجتہدین میں سے کوئی فرد دلیل صحیح کی ان سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے ۔
ولربما یکون قیاس یعارضہ استحسان یعارضہ استحسان اٰخر ادق منہ فکیف یترک القیاس القوی بالا ستحسان الضعیف وھذا ھو المرجو فی کل قیاس قال بہ الامام وقیل لغیرہ لالمثل ضرورۃ وتعامل انہ استحسان ولنحو ھذا ربما قدموا القیاس علی الا ستحسان وقد نقل فی مسألۃ فی الشرکۃ الفاسدۃ ش عن ط عن الحموی عن المفتاح ان قول محمد ھوالمختار للفتوی وعن غایۃ عـــہ البیان ان اقول ابی یوسف استحسان اھ فقال ش وعلیہ فھو من المسائل التی ترجح فیھا القیاس علی الاستحسان ۱؎ اھ
شاید ایسا ہوگا کہ کسی قیاس کے معارض کوئی ایسا استحسان ہو جس کے معارض اس سے زیادہ دقیق دوسرا استحسان موجود ہو تو قیاس قوی کو استحسان ضعیف کے باعث کیسے ترک کردیا جائے گا؟ امید ہے کہ یہی صورت ہر اس قیاس میں پائی جاتی ہوگی جس کے قائل امام ہیں ، اور جس کے مقابل دوسرے کو ،ضرورت وتعامل جیسے امور کے ماسوا میں ، استحسان کہا گیا ہو ایسے ہی نکتے کے باعث بعض اوقات قیاس کو استحسان پر مقدم کرتے ہیں ، علامہ شامی نے طحطاوی سے انہوں نے حموی سے ، انہوں نے مفتاح سے، شرکت فاسدہ کے ایک مسئلے میں نقل کیا ہے کہ امام محمد ہی کا قول فتوی کے لئے مختار (ترجیح یافتہ) ہے او رغایۃ البیان سے نقل کیا کہ امام ابو یوسف کا قول استحسان ہے اس پر علامہ شامی نے فرمایا ، اس کے پیش نظر وہ ان مسائل میں شامل ہے جن میں قیاس کو استحسان پر ترجیح ہوتی ہے ،اھ
عــہ قالہ الامام الکرخی فی مختصرہ وعنہ نقل فی غایۃ البیان ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
اسے امام کرخی نے اپنی مختصر میں بیان کیا اسی میں غایۃ البیان سے منقول ہے ۱۲ منہ ۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشرکۃ فصل فی شرکۃ الفاسدۃ دار احیا ء التراث العربی بیروت ۳ /۳۵۰)
فـافادان فـــــ ما علیہ الفتوی مقدم علی الاستحسان وکذا ضرورۃً علی ما عُلل فا لتعلیل من امارات الترجیح والفتوی اعظم ترجیح صریح وکذا لاشک فی تقدیمھا علی الاوجہ والارفق والا حوط کما نصوا علیہ فلم یبق من المرجحات المذکورۃ الا اٰکدیۃ التصحیح واکثریۃ القائلین ولذا اقتصرنا علی ذکرھما فیما مضی۔
اس بیان سے انہوں نے یہ افادہ کیا کہ (ما علیہ الفتوی) جس قول پر فتوی ہوتا ہے وہ استحسان پر مقدم ہوتا ہے( ۱۳) یوں ہی بدیہی وضروری طوپر یہ اس قول سے بھی مقد م ہوگا جس کی تعلیل ہوئی ہو ، اس لئے کہ تعلیل ترجیح کی صرف ایک علامت ہے او رفتوی سب سے عظیم ترجیح صریح ہے (۱۴۔۱۶) یوں ہی اوجہ ، ارفق اور احوط پر بھی اس کے مقدم ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ا ب تصحیح کے زیادہ موکد ہونے اور قائلین کی تعداد زیادہ ہونے کے سوا مذکورہ مرحجات سے کوئی مر جح باقی نہ رہا ، اسی لئے سابق میں ہم نے صرف ان ہی دونوں کے ذکر پر اکتفاکی ،
فــــ ۱: ماعلیہ الفتوی مقدم علی الاستحسان ۔
و ای فـــــ ۲ اکثریۃ اکثر ممافی مسألتی وقت العصر والعشاء حتی ادعوا علی خلاف قولہ التعامل بل عمل عامۃ الصحابۃ فی العشاء ولم یمنع ذلک لاسیما فی العصر عن التعویل علی قول الامام ونقلتم عن البحر واقررتم انہ لایعدل عن قول الامام الالضرورۃ وان صرح المشائخ ان الفتوی علی قولھما کما ھنا ۱؎
اب بتائیے قائلین کی اکثریت کہیں اس سے زیادہ ہوگی جو وقت عصراور وقت عشاء کے مسئلوں میں امام کے مقابل موجود ہے ؟ یہاں تک کہ لوگوں نے قول امام کے بر خلاف تعامل بلکہ عشا میں عامہ صحابہ کا عمل ہونے کابھی دعوی کیا پھر بھی یہ اکثر یت ، خصوصا عصر میں ، قول امام پر اعتماد سے مانع نہ ہوسکی ، اورآپ ہی نے بحر سے یہ نقل کیا اور برقرار رکھا کہ قول امام سے بجز ضرورت کے عدول نہ ہوگا اگر چہ مشائخ نے تصریح فرمائی ہو کہ فتوی قول صاحبین پر ہے ، جیسے یہا ں ہے اھ۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۴۶)
فـــــ ۲:عند قول الامام لاینظر الی کثرۃ الترجیح فی الجانب الاخر ۔
ونا ھیک فـــــ بہ جوابا عن اٰکدیۃ لفظ التصحیح وایضا قدمنا نصوص ش فی ذلک فی سردالنقول عن کتاب النکاح وکتاب الھبۃ وایضا اکثر فی ردالمحتار من معارضۃ الفتوی بالمتون وتقدیم ما فیھا علی ما علیہ الفتوی وما ھو الا لان المتون وضعت لنقل مذھب صاحب المذھب رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
اور لفظ تصحیح کے زیادہ موکد ہونے سے متعلق جواب کے لئے بھی یہی کافی ہے اور اس بارے میں علامہ شامی کی صریح عبارتیں ذکر نقول کے تحت کتا ب النکاح او رکتا ب الہبہ سے ہم پہلے بھی نقل کرچکے ہیں ، اور انہوں نے رد المحتار میں بہت سے مقامات پر فتوی کے مقابلہ میں متون کوپیش کیا ہے اور متون میں جو مذکورہ ہے اسے ما علیہ الفتوی (اور قول جس پر فتوی ہے) پر مقد م قرار دیا ہے ، اوریہ اسی لئے کہ متون صاحب مذہب رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب نقل کرنے کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔
فــــ: اذا رجع قول الامام وقول خلافہ کان العمل بقول الامام وان قالوا لغیرہ علیہ الفتوی ۔
فــمـنـھا الاسناد فی البئر الی یوم اوثلثۃ فی حق الوضوء والغسل والا قتصار فی حق غیرھما افتی بہ الصباغی وصححہ فی المحیط والتبیین واقرہ فی البحر والمنح واعتمدہ فی التنویر والدر فقلتم مخالف لاطلاق المتون قاطبۃ (الی قولکم) فلا یعول علیہ وان اقرہ فی البحر والمنح ۱؎
ان میں سے چند مقامات کی نشان دہی (۱) کنویں میں کوئی جانور مراد دیکھا گیا اور گرنے کا وقت معلوم نہیں تو اگر پھولا پھٹانہیں ہے تو ایک دن اورپھولاپھٹا ہے تو تین دن سے پانی نجس ماناجائے گا وضو اور غسل کے حق میں او ردوسری چیزوں سے متعلق جب سے دیکھا گیا اس وقت سے یعنی اب سے نجس مانا جائے گا پہلے سے نہیں ۔
اسی پر صباغی نے فتوی دیا ،محیط اورتبیین میں اسی کو صحیح کہا البحرالرائق اور منح الغفار میں اسی پر اعتماد کیا تو آپ نے فرمایا ،یہ تمام متون کے اطلاق کے بر خلاف ہے (یہاں تک کہ فرمایا) تو اس پر اعتماد نہ ہوگا اگرچہ بحر اور منح میں اسے بر قرار رکھا ۔
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ فصل فے البئر دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۴۶)
ومــنھــا وقف صدقۃً علی رجل بعینہ عاد بعد موتہ لورثۃ الواقف قال فی الاجناس ثم فتح القدیر بہ یفتی ۲؎ فقلتم انہ خلاف المعتمد لمخالفتہ لمانص علیہ محققوا المشائخ ولما فی المتون من انہ بعدموت الموقوف علیہ یعود للفقراء ۳؎
کوئی صدقہ ایک شخص معین پر وقف کیا تو یہ وقف اس شخص کی موت کے بعد واقف کے ورثہ کی طر ف لوٹ آئے گا ، اجناس میں پھر فتح القدیر میں کہا بہ یفتی( اسی پر فتوی دیا جاتا ہے آپ نے فرمایا یہ خلاف معتمد ہے کیونکہ یہ اس کے خلاف ہے جس پر محققین مشائخ نے نص فرمایا او راس کے بھی جو متون میں مذکور ہے ، وہ یہ کہ موقوف علیہ کی موت کے بعد وہ فقراء پر لوٹ آئے گا ۔)
(۲ ؎الدالمختار بحوالہ الفتح کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۹)
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ الفتح کتاب الوقف دار احیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۶۶)
ومــنھـا مااختار الامامان الجلیلان والکرخی من الغاء طلاق السکران وفی التفرید ثم التتار خانیہ ثم الدر الفتوی علیہ ۱؎ فقلتم مثل ح قد علمت مخالفتہ لسائر المتون ۲؎
امام جلیلین طحطاوی وکرخی نے اختیار فرمایا کہ نشہ والے کی طلاق بے کار ہے ، او رتفرید پھرتاتار خانیہ پھر درمختار میں ہے کہ فتوی اسی پر ہے آپ نے حلبی کی طرح فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ سارے متون کے خلاف ہے ۔
(۱؎ الدرالمختار بحوالہ تاتارخانیہ کتاب الطلاق مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۲۱۷)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطلاق دار احیاء التراث العربی بیروت۲/ ۴۲۴و ۴۲۵)
ومــنـھـا قال محمد اذالم یکن عصبۃ فولایۃ النکاح للحاکم دون الام قال فی المضمرات علیہ الفتوی فقلتم کالبحر والنھر غریب للمخالفۃ المتون الموضوعۃ لبیان الفتوی۳؎
(۴) امام محمد نے فرمایا ،جب کوئی عصبہ نہ ہو تو نکاح کی ولایت حاکم کو حاصل ہوگی ، ماں کو نہیں مضمرات میں لکھا ، اسی پر فتوی ہے آپ نے بحرونہرکی طر ح فرمایا ، یہ غریب ہے کیوں کہ بیان فتوی کے لئے وضع شدہ متون کے بر خلاف ہے ،
(۳؎ ردالمحتار کتاب النکاح باب الولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۱۲)
ومـنھـا قال محمد لا تعتبر الکفاءۃ دیانۃ وفی الفتح عن المحیط علیہ الفتوی وصححہ فی المبسوط فقلتم کالبحر تصحیح الھدایۃ معارض لہ فالافتاء بما فی المتون اولی ۴؎
(۵) امام محمد نے فرمایا ، دین داری میں کفاء ت کا اعتبار نہیں فتح القدیر میں محیط کے حوالے سے لکھا ، اسی پر فتوی ہے او رمبسوط میں اسی کو صحیح کہا آپ نے بحر کی طر ف فرمایا ، ہدایہ کی تصحیح اس کے معارض ہے تو اسی پر افتا اولی ہے جو متون میں مذکور ہے ۔
(۴؎ ردالمحتار کتاب النکاح باب الکفاءۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۲۰)
ومـنـھـا قال لھا اختاری اختاری اختاری فقالت اخترت الاولی اوالوسطی اوالاخیرۃ طلقت ثلثا عندہ وواحدۃ بائنۃ عندھما واختارہ الطحاوی قال فی الدر واقرہ الشیخ علی المقدسی وفی الحاوی القدسی وبہ نأخذ فقد افاد ان قولھما ھو المفتی بہ کذا یخط الشرف الغزی۱؎ فقلتم قول الامام مشی علیہ المتون واخر دلیلہ فــــ۱ فی الھدایۃ فکان ھو المعتمد۲؎۔
(۶) شوہر نے بیوی سے کہا ، اختیارکر ، اختیار کر، اختیار کر ، تو بیوی نے کہا میں نے پہلی یا درمیانی یا آخری اختیار کی ، امام صاحب کے نزدیک اس پر تین طلاقیں پڑگئیں ، اور صاحبین کے نزدیک ایک طلاق بائن واقع ہوئی اور اسی کو امام طحاوی نے اختیار کیا ، درمختار میں ہے اور اسے شیخ علی مقدسی نے بر قرار رکھا ، اور حاوی قدسی میں ہے ، وبہ ناخذ ہم اسی کو لیتے ہیں تو یہ افادہ کیا کہ قول صاحبین ہی مفتی بہ ہے شرف غزی کی قلمی تحریرمیں اسی طرح ہے آپ نے فرمایا ، قول امام پر متون گام زن ہیں ، اور ہدایہ میں اسی کی دلیل موخر رکھی ہے تو وہی معتمد ہوا ۔
فــــ ۱ : تاخیر الھدایۃ دلیل قول دلیل اعتماد ہ
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطلاق باب تفویض الطلاق مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲۷)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطلاق باب تفویض الطلاق باب داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۸۰)
ومــنھـا طلب القسمۃ من لا ینتفع بھا لقلۃ حصّتہ قال شیخ الاسلام خواھر زادہ یجاب قال فی الخانیۃ وعلیہ الفتوی فقال فی الدر لکن فـــــ۲ المتون علی الاول فعلیہ المعول ۳؎ واقرر تموہ انتم وط مع قولکم مرارا منھا فی ھبۃ ردالمحتار کن علی ذکرمما قالوا لا یعدل فــــ۳ عن تصحیح قاضی خان فانہ فقیہ النفس ۴؎ اھ
(۷) تقسیم کا ایسے شخص نے مطالبہ کیا جو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ اس کا حصہ بہت کم ہوگا شیخ الاسلام خواہر زادہ نے کہا ، تقسیم کردی جائے ، خانیہ میں کہا اسی پرفتوی ہے اس پر در مختار میں فرمایا ،لیکن متون اول پر ہیں تواسی پر اعتماد ہے اور اسے آپ نے اور طحطاوی نے بر قراررکھا ، با وجود یکہ آپ نے بارہافرمایا ان میں سے ایک موقع رد المحتار کتاب الہبہ کا بھی ہے کہ اسے یاد رکھنا جو علماء نے فرمایا ہے کہ امام قاضی خاں کی تصحیح سے عدول نہ کیاجائے گا کیونکہ وہ فقیہ النفس ہیں ۔ اھ
فـــ ۲: قول الامام مذکور فی المتون مقدم علی ما صححہ قاضی خان باکدالفاظ الفتوی۔
فــــ۳: لا یعدل عن تصحیحہ قاضی خان فانہ فقیہ النفس ۔
(۳؎ الدر المختار کتاب القسمۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ / ۲۱۹)
(۴؎ رد المحتار کتاب الہبۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ / ۵۱۳ )
فـقـد ظھر وللہ الحمد ان الترجیح بکون القول قول الامام لایوازیہ شیئ واذا اختلف الترجیح وکان احدھما قول الامام فعلیہ التعویل وکذا اذالم یکن ترجیح فکیف اذا اتفقوا علی ترجیحہ فلم یبق الامااتفقوا فیہ علی ترجیح غیرہ ۔
اس تفصیل سے بحمدہ تعالی روشن ہوگیا کہ کسی قول کے قول امام ہونے کے باعث ترجیح پانے کے مقابل کوئی چیز نہیں اور جب اختلاف ترجیح کی صورت میں دوقولوں میں سے ایک قول امام ہو تو اسی پر اعتماد ہے اسی طر ح اس وقت بھی جب کوئی ترجیح ہی موجود نہ ہو ، پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب سب اسی کی ترجیح پر متفق ہوں تو اب کوئی صورت باقی نہ رہی سوا اس کے جس میں دو سرے کی ترجیح پر سب متفق ہوں ۔
فــاذا حمل کلامہ علی ماوصفنا فلاشک فی صحتہ اذن بالنظر الی حاصل الحکم فانا نوافقہ علی انانا خذ ح بما اتفقوا علی ترجیحہ انما یبقی الخلاف بیننا فی الطریق فھو اختارہ بناء علی اتباع المرجحین ونحن نقول لایکون ھذا الا فی محل احدی الحوامل فیکون ھذا ھو قول الامام الضروری وان خالف قولہ الصوری بل عندنا ایضا مساغ ھھنا لتقلید المشائخ فی بعض الصور علی مایأتی بیانھا۔
تو اگر علامہ شامی کا کلام اس پر محمول کرلیا جائے جو ہم نے بیان کیا تو اس صورت میں وہ بلا شبہ حاصل حکم کے لحاظ سے صحیح ہوگا کیونکہ ہم بھی اس پر ان کی موافقت کرتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہم اسی کو لیں گے جس کی ترجیح پر مشائخ کا اتفاق ہے البتہ ہمارے اور ان کے درمیان طریقے حکم کا فر ق رہ جاتا ہے ، انہوں نے اس حکم کو اتباع مرجحین کی بنیاد پر اختیار کیا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسا اسباب ستہ میں سے کسی ایک کے پائے جانے ہی کے موقع پر ہوگا تو یہی امام کاقول ضروری ہوگا اگرچہ وہ ان کے قول صوری کے بر خلاف ہو بلکہ ہمارے نزدیک یہاں بعض صورتوں میں تقلید مشائخ کی بھی گنجائش ہے جیسا کہ ان کا بیان آرہا ہے ۔
ثــم لاشک انہ لایتقید ح بکونہ قول احد الصاحبین بل ندور مع الحوامل حیث دارت وانکان قول زفر مثلا علی خلاف الائمۃ الثلثۃ کما ذکر وما ذکر من سبرھم الدلیل وسائر کلامہ نشأمن الطریق الذی سلکہ وح یبقی الخلاف بینہ وبین البحر لفظیا فان البحر ایضا لا یابی عند ئذ العدول عن قول الامام الصوری الی قولہ الضروری کیف وقد فعل مثلہ نفسہ والوفاق اولی من الشقاق۔
پھر بلا شبہ ایسے وقت میں اس کی بھی پابندی نہیں کہ وہ دو سرا قول ، صاحبین ہی میں سے کسی کا ہو بلکہ مدار حوادث پر ہوگا وہ جہاں دائر ہوں اگر چہ تینوں ائمہ کے بر خلاف مثلا امام زفر ہی کا قول ہوجیسا کہ پہلے ذکر ہوا ۔اور وہ جو علامہ شامی نے ذکر کیا کہ مشائخ نے دلیل کی جانچ کر رکھی ہے اور باقی کلام ،یہ سب اس طر یق سے پیدا شدہ ہے جسے انہوں نے اپنایا ۔ اور اب ان کے اور بحر کے درمیان صرف لفظی اختلاف رہ جائے گا ۔ کیونکہ بحر بھی ایسی صورت میں امام کے قول صوری سے ان کے قول ضروری کی جانب عدول کے منکر نہیں ۔منکر کیسے ہوں گے ایسا تو انہو ں نے خود کیا ہے ۔ اور اتفاق ، اختلاف سے بہتر ہے ۔
ولـعـل مـراد ابن الشلبی ان یصرح احد من المشائخ الفتوی علی قول غیر الامام مع عدم مخالفۃ الباقین لہ صراحۃ ولا دلالۃ کا قتصارھم علی قول الامام او تقدیمہ او تأخیر دلیلہ اوالجواب عن دلائل غیرہ الی غیر ذلک مما یعلم انھم یرجحون قول الامام کما اشار ابن الشلبی الی التصحیح دلالۃ وح لابد ان یظھر منھم مخایل وفاقھم لذلک المفتی فیدخل فی صورۃ الثنیا ھذا فی جانب الشامی واما جانب البحر فرأیتنی کتبت فیما علقت علی ردالمحتار فی کتاب القضاء مانصہ۔
اور شاید ابن الشلبی کی مرادیہ ہے کہ مشائخ میں سے ایک نے غیر امام کے قول پر فتوی ہونے کی تصریح کی ہو اور دیگر حضرات نے صراحۃ اس کی مخالفت نہ کی ہواور نہ ہی دلالۃ مثلا یوں کہ قول امام پر اقتصار کریں ، یا اسے پہلے بیان کریں ، یا اس کی دلیل آخر میں لائیں ، یا دوسرے حضرات کی دلیلوں کا جواب دیں ، اسی طر ح کی اور باتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قول امام کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جیسا کہ ابن الشلبی نے دلالۃ تصحیح کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ او رایسی صورت میں دیگر حضرات سے اس مفتی کے ساتھ موافقت کے آثار و علامات نمودار ہونا ضروری ہے کلام ابن شلبی کی یہ مراد لی جائے تو یہ بھی استثنا ء والی صورت میں داخل ہوجائے گا ۔یہ گفتگو رہی شامی کے دفاع میں ، اب رہا بحر کا معاملہ تو رد المحتار پر جو میں نے تعلیقات لکھی ہیں ان ہی میں کتاب القضاکے تحت میں نے دیکھا کہ یہ عبارت رقم کر چکا ہوں ۔
اقــول: محل کلام البحر حیث وجدالترجیح من ائمتہ فی جانب الامام ایضا کمافی مسألتی العصر والعشاء وان وجد اٰکد الفاظہ وھو الفتویٰ من المشائخ فی جانب الصاحبین ولیس یرید ان المشائخ وان اجمعوا علی ترجیح قولھما لایعبؤ بہ ویجب علینا الافتاء بقول الامام فان ھذا لایقول بہ احد ممن لہ مساس بالفقہ فکیف بھذا العلامۃ البحر ولن تری ابدا اجماع الائمۃ علی ترجیح قول غیرہ الا لتبدل مصلحۃ باختلاف الزمان وح لایجوز لنا مخالفۃ المشائخ (لانھا اذن مخالفۃ الامام عینا کما علمت) واما اذا اختلف الترجیح فرجحان قول الامام لانہ قول الامام ارجح من رجحان قول غیرہ لارجحیۃ لفظ الافتاء بہ (اواکثریۃ المائلین الی ترجیحہ) فھذا ما یریدہ العلامۃ صاحب البحر وبہ یسقط ایراد العلامتین الرملی والشامی اھ ماکتبت مع زیادات منی الاٰن مابین الاھلۃ۔
اقول: کلام بحر کامحل وہ صورت ہے جس میں ائمہ ترجیح سے جانب امام بھی ترجیح پائی جاتی ہو جیسے عصر وعشاء کے مسئلوں میں ہے اگر چہ موکد ترین لفظ ترجیح مشائخ کا فتوی صاحبین کی جانب ہو بحر کی مراد یہ نہیں کہ مشائخ قول صاحبین کی ترجیح پر اجماع کر لیں تو بھی اس کا اعتبار نہیں اور ہم پر قول امام ہی پر فتوی دینا واجب ہے ۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص جسے فقہ سے کچھ مس ہے ایسی بات نہیں کہہ سکتا تو یہ علامہ بحر اس کے قائل کیسے ہوں گے ؟ اور ہر گز کبھی غیر امام کے قول کی ترجیح پر ائمہ ترجیح کا اجماع نظر نہ آئے گا مگر ایسی صورت میں جہاں اختلاف زمانہ کی وجہ سے مصلحت تبدیل ہوگئی ہو۔، اور ایسی صورت میں ہمارے لئے مشائخ کے خلاف جانا روا نہیں (کیوں کہ یہ بعینہ امام کے مخالف ہوگی جیسا کہ معلوم ہوا ) لیکن جب تر جیح مختلف ہو تو قول امام کا اس وجہ سے رجحان کہ وہ قول امام ہے زیادہ راجح ہوگا اور اس کے مقابلہ میں دوسرے کے قول کا ،لفظ افتاء کی ارجحیت (یا اس کی ترجیح کی طر ف مائل ہونے والوں کی اکثریت ) کے باعث رحجان اس سے فر وتر ہوگا ۔ یہی علامہ صاحب بحر کی مراد ہے اور اسی سے علامہ رملی وعلامہ شامی کا اعتراض ساقط ہوجاتا ہے ۔ اھ حواشی رد المحتار سے متعلق میری عبارت ختم ہوئی ، اور ہلالین کے درمیان کی عبارتیں اس وقت میں نے بڑھائی ہیں ۔
فبــھــذا تلتئم الکلمات، وتأتلف الاشتات، والحمد للہ رب البریات، وافضل الصلوات، واکمل التسلیمات، علی الامام الاعظم لجمیع الکائنات، واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اولی الخیرات، والسعود والبرکات، عدد کل مامضی وما ھو اٰت، آمین والحمد للّٰہ رب العٰلمین واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی اعلم ۔
تو اس تو ضیح وتاویل سے تمام کلمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور مختلف باتیں باہم متفق ہوجاتی ہیں ۔ اور تمام تر ستائش خدا کے لئے جو مخلوقات کا رب ہے ۔ او ربہتر درود ، کامل ترین تسلیمات ساری کائنات کے امام اعظم اور خیرات ، سعادات ، برکات والے ان کے آل ، اصحاب ، فرزند ا ور جماعت پر ،ہر گزشتہ وآئندہ کی تعداد میں ۔ الہی ! قبول فرما ۔ اور تمام تعریف خدا کے لئے جو سارے جہانوں کا پر وردگار ہے اور پاکی وبر تری والے خدا کو ہی خوب علم ہے ۔
ورأیـــت الناس یتحفون کتبھم الی ملوک الدنیا وانا العبد الحقیر، خدمت بھذہ السطور، ملکا فی الدین، امام ائمۃ المجتہدین، رضی اللہ تعالی عنہ وعنھم اجمعین، فان وقعت موقع القبول، فذاک نھایۃ المسئول، ومنتھی المأمول، وما ذلک علی اللہ بعزیز ان ذلک علی اللہ یسیر، ان اللہ علی کل شیئ قدیر، وللہ الحمد والیہ المصیر، وصلی اللہ تعالی علی المولی الاکرم، واٰلہ وصحبہ و بارک وسلّم، اٰمین۔
میں نے دیکھا کہ لوگ شاہان دنیا کے دربار میں اپنی کتابوں کا تحفہ پیش کرتے ہیں اور بندہ حقیر نے تو ان سطور سے دین کے ایک بادشاہ ،ائمہ مجتہدین کے امام کی خدمت گزاری کی ہے ۔ اللہ تعالی ان سے اور ان سب مجتہدین سے راضی ہو ، تو یہ اگر مقام قبول پاجائیں تو یہی انتہائے مطلوب او رمنتہائے امید ہے اوراللہ پر یہ کچھ دشوار نہیں ، بلاشبہ یہ خدا پر آسان ہے ۔ یقینا اللہ ہر شے پر قادر ہے ۔اور اللہ ہی کے لئے حمد ہے اور اسی کی جانب رجوع ہے۔ اور اللہ تعالی درود وسلام نازل فرمائے آقائے اکرم اور ان کی آل اصحاب پر اور برکت و سلامتی بخشے ۔ الہی! قبول فرما۔
تـنبـیـہ اقول : فـــــ کون المحل محل احدی الحوامل انکان بینا لایلتبس فالعمل علیہ وما عداہ لانظر الیہ وھذا طریق لمی وانکان الامر مشتبہا رجعنا الی ائمۃ الترجیح فان رأیناھم مجمعین علی خلاف قول الامام علمنا ان المحل محلھا وھذا طریق انی وان وجدناھم مختلفین فی الترجیح اولم یرجحوا شیئا عملنا بقول الامام وترکنا ماسنواہ من قول وترجیح لان اختلافھم اما لان المحل لیس محلھا فاذن لاعدول عن قول الامام اولانھم اختلفوا فی المحلیۃ فلا یثبت القول الضروری بالشک فلا یترک قولہ الصوری الثابت بیقین الا اذا تبینت لنا المحلیۃ بالنظر فیما ذکروا من الادلۃ اوبنی العادلون عن قولہ الامر علیھا وکانوا ھم الاکثرین و فنتبعھم ولا نتھمھم اما اذا لم یبنوا الامر علیھا وانما حاموا حول الدلیل فقول الامام علیہ التعویل ھذا ما ظھرلی وار جوا ن یکون صوابا ان شاء اللّٰہ تعالٰی واللّٰہ اعلم۔
تنبیہ:اقول: چھ اسباب میں سے کسی ایک کا محل ہونا اگر واضح غیرمشتبہ ہو تو اسی پر عمل ہوگا اور ماسوا پر نظر نہ ہوگی یہ لمی طریقہ ہے اور اگرمعاملہ مشتبہ ہو تو ہم ائمہ ترجیح کی جانب رجوع کریں گے ۔ اگر قول امام کے بر خلاف انہیں اجماع کئے دیکھیں تو یقین کرلیں گے کہ یہ بھی اسباب ستہ میں سے کسی ایک کاموقع ہے یہ ِانیِّ طریقہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اگر انہیں ترجیح کے بارے میں مختلف پائیں یا یہ دیکھیں کہ انہوں نے کسی کو ترجیح نہ دی تو ہم قول امام پر عمل کریں گے اور اس کے ماسوا قول وترجیح کو ترک کر دیں گے کیوں کہ ان کااختلاف یا تو اس لئے ہوگا کہ وہ اسباب ستہ کا موقع نہیں ۔جب تو قول امام سے عدول ہی نہیں یا اس لئے ہوگا کہ اسباب ستہ کا محل ہونے میں وہ باہم مختلف ہوگئے ۔ تو قول ضروری شک سے ثابت نہ ہوپائے گا ۔ اس لئے امام کا قول صوری جو یقین سے ثابت ہے ترک نہ کیا جائے گا لیکن جب ہم پر اسباب ستہ کا محل ہونا ان حضرات کی بیان کر دہ دلیلوں میں نظرکرنے سے واضح ہوجائے ، یا قول امام سے عدول کرنے والے حضرات نے اسی محلیت پر بنائے کار رکھی ہو اور وہی تعداد میں زیادہ بھی ہوں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور انہیں متہم نہ کریں گے۔۔۔۔۔۔ لیکن جب انہوں نے بنائے کا ر محلیت پر نہ رکھی ہو ، بس دلیل کے گرد ان کی گردش ہو تو قول امام پر ہی اعتماد ہے۔۔۔۔۔ یہ وہ طریق عمل ہے جو مجھ پر منکشف ہوا اور امید رکھتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالی درست ہوگا، واللہ تعالی اعلم
فـــ : تنبہان جلیلان یتبین بھما ما یعمل بہ المقلد فی امثال المقام ۔
تـنبـیہ اقول: ھذا کلہ اذا خالفوا الامام اما اذا فصلو ا اجمالا،او ضحوا اشکالا ، او قیدو ارسالا کداب الشراح مع المتون، وھم فی ذلک علی قولہ ماشون، فھم اعلم منا بمراد الامام فان اتفقوا والا فالترجیح بقواعدہ المعلومۃ وانما قیدنا بانھم فی ذلک علی قولہ ماشون لانہ تقع ھنا صورتان مثلا قال الامام فی مسألۃ باطلاق وصاحباہ بالتقیید فان اثبتوا الخلاف واختاروا قولھما فھذہ مخالفۃ وان نفوا الخلاف وذکروا ان مراد الامام ایضا التقیید فھذا شرح واللّٰہ تعالٰی اعلم ولیکن ھذا اٰخر الکلام، وافضل الصلاۃ والسلام، علی اکرم الکرام، واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ الی یوم القیام، والحمد للّٰہ ذی الجلال والاکرام۔
تنبیہ : اقول: یہ سب اس وقت ہے جب وہ واقعی امام کے خلاف گئے ہوں لیکن جب وہ کسی اجمال کی تفصیل یا کسی اشکال کی تو ضیح ، یا کسی اطلاق کی تقیید کریں جیسے متون میں شارحین کا عمل ہوتا ہے ۔ اور وہ ان سب میں قول امام ہی پر گام زن ہوں تو وہ امام کی مراد ہم سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ اب اگر وہ باہم متفق ہوں تو قطعا اسی پر عمل ہوگا ورنہ تر جیح کے قواعد معلومہ کے تحت ترجیح دی جائے گی ۔ ہم نے یہ قید لگائی کہ'' وہ ان سب میں قول امام ہی پر گام زن ہوں '' اس کی و جہ یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہوتی ہیں ، مثلاامام کسی مسئلے میں اطلاق کے قائل ہیں اور صاحبین تقیید کے قائل ہیں ، اب مرجحین اگر اختلاف کا اثبات کریں اور صاحبین کا قول اختیارکریں تو یہ مخالفت ہے اور اگر اختلاف کا انکار کریں اور یہ بتائیں کہ امام کی مراد بھی تقیید ہی ہے تو یہ شرح ہے واللہ تعالی اعلم ۔ یہی خاتمہ کلام ہونا چاہئے اور بہتر درودو سلام کریموں میں سب سے کریم تر سرکار پر اور ان کی آل ، اصحاب ، فرزند اور جماعت پر تاروز قیام۔ اور ہر ستائش بزرگی واکرام والے خدا کے لئے ہے ۔(ت)
0 تبصرے