بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مسئلہ ۳ف: ۶ شعبان معظم ۱۳۲۱ ھ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ بعد وضو منہ کپڑے سے پونچھنا نہیں چاہیے اس میں ثواب وضو کا جاتا رہتا ہے بینوا توجروا ۔
(ف: مسئلہ وضو کے بعد کپڑے سے اعضاء پونچھنے کا حکم)
الجواب :الحمد للّٰہ الذی ثقل میزاننا بالوضوء وجعلنا غرا محجلین من اثار الوضوء والصلوۃ والسلام علی من کان مندیل سعدہ احسن وانفس من کل حریر ماسحین بقبولہ عن وجوھنا وقلوبنا کل درن وسخ للتنویر۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے ہماری میزانِ عمل ، آبِ وضو سے گراں بار فرمائی اور ہمیں آثارِ وضو سے تابندہ رو ، روشن دست وپا والا بنایااور جن کا رومالِ سعادت ہر ریشم سے زیادہ حسین و نفیس تھا ان پر ایسے درود و سلام جو ان کے قبول کے باعث ہمارے چہروں اور دلوں کو تابندگی بخشنے کے لئے ہر میل کچیل سے صاف کر دیں ۔ (ت)
اللہ تعالٰی ثواب عطا فرمائے ، وضو کا ثواب جاتا رہنا محض غلط ہے ۔ ہاں بہتر ہے کہ بے ضرورت نہ پُونچھے ، امراء و متکبرین کی طرح اُس کی عادت نہ ڈالے اور پُونچھے تو بے ضرورت بالکل خشک نہ کر لے قدرے نم باقی رہنے دے کہ حدیث میں ف آیا ہے : ان الوضوء یوزن رواہ الترمذی ۱؎عن ابن شھاب الزھری من اواسط التابعین و علقہ عن سعید بن المسیب من اکابرھم و افضلھم ۔ یہ پانی روزِ قیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائے گا ( اسے ترمذی نے درمیانی طبقہ کے تابعی حضرت ابنِ شھاب زہری سے روایت کیا اور بزرگ طبقہ اور افضل درجہ کے تابعی حضرت سعید بن مسیّب سے تعلیقاً بیان کیا ۔ ت)
(۱؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی المندیل بعد الوضو حدیث ۵۴دا رلفکر بیروت۱ /۱۲۰)
ف۱ـ:وضو کا پانی روز قیامت نیکیوں کے پلے میں رکھا جائے گا ۔
اقول ۴۶: والمعلق فـــ۲ عندنا فی الاستناد کالموصول وقد وصلہ ابو بکر بن ابی شیبۃ انہ قال اکرہ المندیل بعد الوضوء وقال ھو یوزن ۲؎ اقول :( حدیثِ معلّق بھی ہمارے نزدیک استناد میں موصول ہی کا حکم رکھتی ہے اور اسے تو ابو بکر بن ابی شیبہ نے ان الفاظ میں موصولاً بھی روایت کیا ہے ۔ سرکار نے فرمایا : میں وضو کے بعد رومال کا استعمال پسند نہیں کرتا اور فرمایا : وضو کا پانی وزن کیا جائے گا ۔
ف۲: المعلق عندنا کا لموصول ۔
(۲؎المصنف لابن ابی شیبہ ،ابواب الطہارۃ باب من کرہ المندیل حدیث۱۵۹۹دار الکتب العلمیہ بیروت۱/ ۱۳۹)
ومالا یقال ف۳ بالرأی فعلی الرفع محمول مالم یکن صاحبہ اٰخذ اعن الا سرائیلیات بل قدروی تمام فی فوائدہ وابن عساکر فی تاریخہ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم من توضأ فمسح بثوب نظیف فلا باس بہ و من لم یفعل فھو افضل لان الوضوء یوزن یوم القیامۃ مع سائر الاعمال۱؎۔
اور جو بات رائے سے نہ کہی جا سکتی ہو وہ اس پر محمول ہوتی ہے کہ سرکار سے مروی اور مرفوع ہے جب کہ راوی اسرائیلیات سے لے کر بیان کرنے والا نہ ہو بلکہ تمام نے فوائد میں اور ابنِ عساکر نے تاریخ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ۔ ت) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو وضو کر کے پاکیزہ کپڑے سے بدن پونچھ لے تو کچھ حرج نہیں اور جو ایسا نہ کرے تو یہ بہتر ہے اس لئے کہ قیامت کے دن آبِ وضو بھی سب اعمال کے ساتھ تولا جائے گا۔
(۱؎کنزالعمال بحوالہ تمام وابن عساکرعن ابی ھریرۃ حدیث ۲۶۱۳۹ ، موسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۳۰۷)
ف۳: مالا یقال بالرأ ی یحمل علی الرفع اذالم یکن صاحبہ اخذا عن الاسرائیلیات ۔
اقول: وبہ انتفٰی الاستدلال بو زنہ علی کراھۃ مسحہ کما قال الترمذی فی جامعہ و من کرھہ انما کرھہ من قبل انہ قیل ان الوضو یوزن ۲؎الخ اقول: آب وضو کے وزن کئے جانے سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اسے پونچھنا مکروہ ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں لکھا کہ اس کا م کو جس نے مکروہ کہا ہے اسی وجہ سے مکروہ کہا ہے کہ فرمایا گیا ہے : یہ پانی روزِ قیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائے گا ۔
(۲؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی المندیل الخ بعد الوضوء حدیث ۵۴دا رلفکر بیروت۱ /۱۲۰)
فھٰذا الحدیث مع تصریحہ بالوزن نص علی نفی الکراھۃ فان ذلک انما ھواستحباب ومعلوم ف۱ان ترک المستحب لایوجب کراھۃ التنزیہ کما حققہ فی البحر والشامی وغیرھما۔ مذکورہ بالا حدیثِ ابو ھریرہ سے یہ استدلال رَد ہو جاتا ہے کیوں کہ اس میں وزن کئے جانے کی صراحت کے ساتھ کراہت کی نفی ،اور اس کے صرف مستحب ہونے پر نص موجود ہے -----اور یہ معلوم ہے کہ ترکِ مستحب، کراہتِ تنزیہ کا مُوجب نہیں۔ جیسا کہ محقق بحر اور علامہ شامی وغیرہما نے اس کی تحقیق فرمائی ہے ۔ (ت)
ف۱ :ترک المستحب لایوجب کراھۃ تنزیہ۔
اس کے سوا اس کی ممانعت یا کراہت کے بارے میں اصلاً کوئی حدیث نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حدیثوں میں اس کا فعل مروی ہوا۔ جامع ترمذی میں ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ تعالٰی سے ہے : قالت کان لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خرقۃ یتنشف بھا بعد الوضوء ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رومال رکھتے کہ وضو کے بعد اُس سے اعضائے منوّر صاف فرماتے۔
( ۱؎سنن الترمذی، ابواب الطہارۃ، باب ما جاء فی المندیل، بعد الوضوء حدیث۵۳دا رلفکر بیروت۱ /۱۱۹)
قلت ۴۸ونحوہ للدار قطنی فی الا فراد۲؎ عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قلت : اسی طرح امام دار قطنی نے یہ حدیث افراد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے(ت)
(۲؎کنزالعمال قط فی الافرادعن ابی بکر حدیث ۲۶۹۹۷ موسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۴۷۰)
نیز جامع ترمذی میں معاذبن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: قال رأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأ مسح وجہہ بطرف ثوبہ ۳؎ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب وضو فرماتے اپنے آنچل سے روئے مبارک صاف کرتے۔
( ۳؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی المندیل بعد الوضوء حدیث۵۳دا رالفکر بیروت ۱ /۱۲۰)
سُنن ابن ماجہ میں سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ فقلب جبۃ صوف کانت علیہ فمسح بھا وجہہ ۴؎ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو فرما کر اُونی کُرتا کہ زیبِ بدن اقدس تھا اُلٹ کر اُس سے چہرہ انور پونچھا۔
(۴؎سنن ابن ماجہ،ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی المندیل بعد الوضو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۷)
اقول۴۸ : یہ چاروں حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں مگر تعددِطرق سے اس کا انجبار ہوتا ہے معہذا حلیہ میں فرمایا کہ جب حدیث ف۱ ضعیف بالاجماع فضائل میں مقبول ہے تو اباحت میں بدرجہ اولیٰ،
(ف ۱:حدیث ضعیف استحباب واباحت میں بالاجماع مقبول ہے ۔)
علاوہ بریں یہاں ایک حدیث حسن قولی بھی موجود امام ابو المحاسن محمد بن علی رحمہ اللہ تعالٰی کتاب الالمام فی آداب دخول الحمام میں روایت فرماتے ہیں: اخبرنا محمد بن اسمٰعیل انا ابو اسحٰق الارموی اخبرتنا کریمۃ القرشیۃ انا ابو علی بن المحبوبی انا ابو القاسم المصیصی اناابو عبدالرحمٰن بن عثمٰن انا ابرٰھیم بن محمد بن احمد بن ابی ثابت ثنااحمد بن بکیر یعلی ثنا سفین عن لیث عن زریق عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاباس بالمندیل بعد الوضوء ۱؎۔
یعنی انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ''وضو کے بعد رومال میں کچھ حرج نہیں''۔ امام مذکور اس حدیث کو روایت کر کے فرماتے ہیں ہذ الاسناد لا باس بہ ۲؎ ( اس اسناد میں کوئی حرج نہیں ت )
(۱؎ الالمام باداب دخول الحمام) ( ۲؎ الالمام باداب دخول الحمام)
حلیہ میں فرمایا: وقول الترمذی ف۲لایصح عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی ھذا الباب شیئ انتھی لاینفی وجود الحسن ونحوہ والمطلوب لایتوقف ثبوتہ علی الصحیح بل یثبت بہ کما یثبت بالحسن ایضاً۔ ۳؎ امام ترمذی کا قول ہے : اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی حدیث صحیح نہ آئی۔ ا ھ اس قول سے حدیث حسن وغیرہ موجود ہونے کی نفی نہیں ہوتی اور مطلوب کا ثبوت حدیث صحیح پر موقوف نہیں بلکہ اسی کی طرح حدیث حسن سے بھی اس کا ثبوت ہوتا ہے ۔ (ت)
(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
ف ۲ :قول المحدثین لایصح لاینفی الحسن ۔
لا جرم محرر المذہب امام ربانی سیدنا امام محمد شیبانی قدس سرہ النورانی کتاب الآثار شریف میں فرماتے ہیں: اخبرنا ابو حنیفۃ عن حماد عن ابرھیم فی الرجل یتوضأ فیمسح وجہہ بالثوب قال لاباس بہ ثم قال ارأیت لواغتسل فی لیلۃ باردۃ ایقوم حتی یجف قال محمد وبہ ناخذ ولا نری بذلک باساً وھو قول ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔۱؎ یعنی امام اجل ابراہیم نخعی سے اس باب میں استفتاء ہوا کہ آدمی وضو کر کے کپڑے سے منہ پونچھے: فرمایا کچھ حرج نہیں ۔ پھر فرمایا : بھلا دیکھ تو اگر ٹھنڈی رات میں نہائے تو کیا یوں ہی کھڑا رہے یہاں تک کہ بدن خشک ہو جائے۔ امام محمد نے فرمایا : ہم اسی کو اختیار فرماتے ہیں ہمارے نزدیک اس میں کچھ حرج نہیں اور یہی قول امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا ہے ۔
(۱؎کتاب الآثار للامام محمدبا ب مسح بعد الوضو بالمندیل ادارۃ القرآن کراچی ص۸ )
اور یہیں ف۱ سے ظاہر ہوا کہ وضو و غسل دونوں کا اس باب میں ایک ہی حکم ہے بلکہ بسا اوقات غسل میں کپڑے سے بدن خصوصاً سر پونچھنے کی حاجت بہ نسبت وضو کے زائد ہوتی ہے اور اگر تجربہ ف ۲صحیحہ یا خبر طبیب حاذق مسلم مستور سے معلوم ہو کہ نہ پونچھنا ضرر شدید کا باعث ہو گا تو صاف کر لینا واجب ہو جائیگا اگرچہ وضو میں اگرچہ بنہایت مبالغہ کہ نم کا نام نہ رہے ۔
ف۱ :مسئلہ غسل کے بعد اعضاء پونچھنے کا حکم ۔
ف۲:اگر اعضاء نہ پونچھنے سے ضرر ثابت ہو توپونچھنا واجب تک ہو سکتا ہے ۔
حلیہ میں ہے : ھذا کلہ اذالم تکن حاجۃ الی التنشیف فان کان فالظاھر انہ لاینبغی ان یختلف فی جوازہ من غیر کراھۃ بل فی استحبابہ او وجوبہ بحسب تلک الحاجۃ۔ ۲؎ یہ سارا کلام اس صورت میں ہے جب پانی خشک کرنے کی ضرورت نہ ہو اور اگر اس کی ضرورت ہے تو ظاہر یہ ہے کہ اس ضرورت کے حسبِ حال اس عمل کے بلاکراہت جواز بلکہ استحباب یا وجوب میں ، کوئی اختلاف نہ ہونا چاہئے۔(ت)
(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اور صحیحین کی حدیث جو ام المومنین میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے : انھا اتت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بخرقہ بعد الغسل فلم یردھا وجعل ینفض الماء بیدہ۔ ۱؎ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہائے ، یہ کپڑا جسمِ اقدس کو صاف کرنے کے لئے حاضر لائیں ، حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ لیا اور ہاتھ سے پانی پونچھ پونچھ کر جھاڑا۔
(۱؎صحیح البخاری ،کتاب الغسل باب من افرغ بیمینہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰۔۴۱)
(صحیح مسلم ،کتاب الحیض باب صفۃ غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۷)
اس سے کراہت ثابت نہیں ہوتی لانھا واقعۃ عین ف ۱لا عموم لھا ( یہ ایک معین واقعہ ہے اس میں عموم نہیں ہے ۔ ت) ممکن ہے کہ وہ کپڑا میلا تھا پسند نہ فرمایا ذکرہ الامام النووی فی شرح المھذب ( امام نووی نے یہ وجہ شرح مہذب میں بیان فرمائی ۔ ت)
ف۱:حکایۃ وقائع الحال لا تدل علی العموم
اقول۴۹: وفیہ بُعد ف۲ان تکون ام المومنین اختارت لہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مثل ھذا مع علمھا بکمال نزاھتہ ونظافتہ ولطافتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الا ان یقال ظنت الحاجۃ لبردونحوہ ولم یجد الاما اتت بہ۔
اقول : اس توجیہ پر اعتراض ہے کہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی پاکیزگی ، صفائی اور لطافت معلوم تھی اس لئے یہ بعید ہے کہ انھوں نے سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ایسا کپڑا پسند کیا ہو مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ٹھنڈک وغیرہ کی وجہ سے یہ سمجھا کہ رومال کی ضرورت ہے اور جو حاضر لائیں اس کے علاوہ دوسرا انھیں دستیاب نہ ہوا ۔ (ت)
ف۲:تطفل۲۸ علی الامام النووی۔
ممکن ہے کہ نماز کی جلدی تھی اس لئے نہ لیا ، ذکرہ ایضًا ( اسے بھی امام نووی ہی نے ذکر کیا ۔ ت)
اقول۵۰: ولا یرد علیہ انہ لا یظہر الفرق بین النشف بالثوب و النفض بالید فی الاستعجال لان لفظ البخاری فناولتہ ثوبا فلم یاخذہ فانطلق وھوینفض یدیہ ۱ ؎ اھ فلعلہ لاجل الاستعجال لم یقم لینتشف بالثوب و لم یرد استصحابہ بخلاف النفض بالید فکان یحصل ماشیا کما فعل صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلّم۔
اقول:اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ جلدی کے معاملہ میں کپڑے سے سُکھانے اور ہاتھ سے جھاڑنے کے درمیان کوئی فرق ظاہر نہیں۔( عدمِ اعتراض ) اس لئے کہ بخاری کے الفاظ یہ ہیں : اُم المومنین نے حضور کو کپڑا پیش کیا تو نہ لیا اور ہاتھوں سے پانی جھاڑتے ہوئے چلے گئے ا ھ ۔ تو ہو سکتا ہے کہ جلدی کی وجہ سے کپڑے سے سُکھانے کے لئے ٹھہرے نہ ہوں اور کپڑا ساتھ لے جانا بھی نہ چاہا ہواور ہاتھ سے پانی جھاڑنے کا کام تو چلتے ہوئے بھی ہو جاتا ہے ، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی کیا۔(ت)
(۱؎صحیح البخاری کتاب الغسل باب نفض الیدین من غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۱)
ممکن ہے کہ اپنے ربّ عزوجل کے حضور تواضع کے لئے ایسا کیا ذکرہ ایضاً (اسے بھی امام نووی نے ذکر کیا ۔ ت)
اقول۵۱: یعنی رومالوں سے بدن صاف کرنا اربابِ تنعم کی عادت ہے اور ہاتھ سے پانی پونچھ ڈالنا مساکین کا طریقہ ، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے توا ضعاً طریقہ مساکین پر اکتفا فرمایا ، ممکن ہے کہ وقت گرم تھا اس وقت بقائے تری ہی مطلوب تھی ذکرہ القاری فی المرقاۃ۲؎ ( اسے علامہ علی قاری نے مرقاۃ میں ذکر کیا ۔ ت) بلکہ اُم المومنین کا کپڑا پیش کرناظاہراً اسی طرف ناظر کہ ایسا ہوتا تھا مگر اس وقت کسی وجہ خاص سے قبول نہ فرمایا:
(۲؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث ۴۳۶ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۱۴۰)
قالہ ابن التین نقلہ فی ارشاد الساری و لفظہ ما اتی بالمندیل الا انہ کان یتنشف بہ وردہ لنحو وسخ کان فیہ ۳؎ ا ھ
اسے ابنِ التین نے کہا،ان سے ارشاد الساری میں نقل ہوا، الفاظ یہ ہیں : رومال اسی لئے حاضر کیا گیا کہ حضور رومال سے پانی خشک کیا کرتے تھے اور سرکار کا نہ قبول فرمانا اس وجہ سے تھا کہ اس میں کچھ مَیل وغیرہ تھا ۔ (ت)
(۳؎ ارشاد الساری کتاب الغسل باب المضمضہ الخ تحت الحدیث ۲۵۹ دارالکتب العلمیہ بیروت۱ /۴۹۷ )
اقول۵۱: ویتوقف ف علی اثبات ان ھذا لم یکن اول غسلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عندھا وانی لہ ذلک ۔
اقول اس توجیہ کی تمامیت یہ ثابت کرنے پر موقوف ہے کہ ان کے یہاں یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا غسل نہ تھا اور یہ کہاں سے ثابت ہو پائے گا ۔ (ت)
ف: تطفل ۲۹ علی الامام القسطلانی و ابن التین ۔
بالجملہ اس قدر میں شک نہیں کہ ترک احیاناً دلیلِ کراہت نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تتمّہ دلیل سنیت ہوتا ہے ، اور احسن تاویلات حدیث وہ ہے جو امام اجل ابراہیم نخعی استاذ الاستاذ سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ نے افادہ فرمائی کہ سلف کرام کپڑے سے پُونچھنے میں حرج نہ جانتے مگر اس کی عادت ڈالنا پسند نہ فرماتے کہ وہ باب ترفہ و تنعم سے ہے ۔
سنن ابی داؤد میں حدیثِ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے آخر میں ہے ۔
فذکرت ذلک لابرھیم فقال کانوا لایرون بالمندیل بأسا ولکن کانوا یکرھون العادۃ ۱؎
حضرت ابراہیم سے میں نے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : وہ حضرات رومال سے پونچھنے میں حرج نہ جانتے تھے مگر اس کی عادت ڈالنا پسند نہ فرماتے تھے ،
(۱؎سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ،باب فی غسل من الجنابۃ، آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۳)
ولفظ الطبری قال الاعمش فذکرت ذلک لابرھیم فقال انما کانوا یکرھون المندیل بعد الوضو مخافۃ العادۃ۔۲؎
طبری کے الفاظ یہ ہیں : امام اعمش نے کہا : پھر میں نے حضرت ابراہیم سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا : وہ حضرات وضو کے بعد رومال استعمال کرنے کو ناپسند فرماتے تھے کہ کہیں عادت نہ پڑ جائے ۔ (ت)
(۲؎ المواہب اللدنیہ المقصدالتاسع النوع الاول الفصل السادس المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۵۴)
پھر نفسِ حدیث میں دلیلِ جواز موجود کہ ہاتھ سے پانی صاف فرمایا اور صاف کرنے میں جیسا کپڑا ویسا ہاتھ ، ذکرہ الامام النووی فی شرح المہذب واو ردہ فی شرح مسلم عن بعض العلماء مقرا علیہ لکن نقل العلامۃ علی القاری فی المرقاۃ شرح المشکوٰۃ عن بعض علمائنا ان معنی قولھا رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا فانطلق فھو ینفض یدیہ یحرکہما کما ھو عادۃعــــہ من لہ رجولیۃ قال وقیل ینفضھما لازالۃ الماء المستعمل وھو منہی عنہ ف فی الوضوء والغسل لما فیہ من اماطۃ اثر العبادۃ مع ان الماء مادام علی العضو لایسمی مستعملا فالاول اولی اھ۔ ۱؎
اسے امام نووی نے شرح مہذب میں ذکر کیا اور شرح مسلم میں بعض علماء سے نقل کیا اور برقرار رکھا لیکن مُلاّ علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہمارے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اُمّ المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ارشاد مذکور '' سرکا ر ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے چلے گئے '' کا معنی یہ ہے کہ مردانگی والوں کے طور پر ہاتھوں کوہلاتے ہوئے گئے ۔ آگے لکھا : اورکہا گیا کہ معنی یہ ہے کہ آب مستعمل بدن سے دور کرنے کے لئے ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے گئے اور اس کام سے وضو و غسل دونوں میں ممانعت آئی ہے کیونکہ اس میں عبادت کا اثر اپنے بدن سے دور کرنا ہے باوجودیکہ پانی جب تک بدن سے لگا ہوا ہے مستعمل نہیں کہلاتا تو پہلا معنی اولیٰ ہے ۔
عــــــہ اقول۵۳الاولی ان یقول کتعبیر غیرہ کما ھوعادۃ الاقویاء۱۲منہ
عــــــہ اقول بہتر یوں کہنا ہے کہ'' طاقتوروں کے طور پر'' جیسے بعض دوسرے حضرات کی تعبیر ۱۲منہ(ت)
ف:مسئلہ وضویا غسل میں پانی سے ہاتھ نہ جھٹکنا بہتر ہے مگرمنع نہیں، اوراس بارے میں جو حدیث آئی کہ'' وہ شیطان کا پنکھا ہے ''ضعیف ہے۔
(۱؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث ۴۳۶ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۱۴۰)
ثم نقل عن القاضی الامام عیاض ان من فوائد الحدیث جواز النفض والاولٰی ترکہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام اذا توضأتم فلا تنفضوا ایدیکم ومنھم من حمل النفض علی تحریک الیدین فی المشی وھو تأویل بعید ۱؎ اھ۔ ثم قال اعنی القاری قلت وانکان التاویل بعیدا فالحمل علیہ جمعا بین الحدیثین اولی من الحمل علی ترک الاولٰی ۲؎ اھ
پھر امام قاضی عیاض سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث سے جو فوائد ملتے ہیں اس میں سے یہ بھی ہے کہ ہاتھ سے پانی پونچھ کر جھاڑنا اولٰی ہے اور بہتر اس کا ترک ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا ارشاد ہے : جب تم وضو کرو تم اپنے ہاتھ نہ جھاڑو اور کسی نے جھاڑنے کا مطلب یہ بتایا ہے : چلنے میں ہاتھوں کو حرکت دینا اور یہ تاویل بعید ہے۔ ا ھ اس پر علامہ قاری لکھتے ہیں میں کہتا ہوں اگرچہ یہ تاویل بعید ہو مگر دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق دینے کے لئے اس معنٰی پر محمول کرنا ترکِ اولٰی پر محمول کرنے سے بہتر ہے ۔ ا ھ
(۱؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث ۴۳۶ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۱۴۰)
(۲؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث ۴۳۶ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۱۴۰)
اقول۵۴: اولا(ف) قد اعترفتم ببعد التاویل وھو کذلک ولم یثبت فی النھی عن النفض حدیث صحیح قال الامام النووی فی المنھاج تحت الحدیث المذکورفیہ دلیل علی ان نفض الید بعد الوضوء والغسل لاباس بہ وقد اختلف اصحابنا فیہ علی اوجہ اشھرھا ان المستحب ترکہ ولایقال انہ مکروہ الثانی انہ مکروہ الثالث انہ مباح یستوی فعلہ وترکہ وھذا ھو الاظھر المختار فقد جاء ھذا الحدیث الصحیح فی الاباحۃ ولم یثبت فی النھی شیئ اصلا اھ۳؎
اقول: اوّلاً آپ کو اعتراف ہے کہ یہ تاویل ، بعید ہے اور یہ واقعۃً وہ ایسی ہی ہے اور ہاتھ سے پانی پونچھ کر جھاڑنے سے ممانعت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں ۔ امام نووی منہاج (شرح مسلم) میں حدیث مذکور کے تحت فرماتے ہیں : اس میں دلیل موجود ہے کہ وضو اور غسل کے بعد ہاتھ سے پانی جھاڑنے میں کوئی حرج نہیں اور اس بارے میں ہمارے علماء کے مختلف اقوال ہیں ، سب سے مشہور یہ ہے کہ مستحب اس کا ترک ہے اور اسے مکروہ نہ کہا جائے گا ، دوسرا یہ مکروہ ہے ، تیسرا یہ کہ مباح ہے ، کرنا نہ کرنا یکساں اور برابر ہے ۔ یہی اظہر اور مختار ہے کیونکہ اباحت کے بارے میں یہ صحیح حدیث موجود ہے اور نہی کے بارے میں سرے سے کچھ ثابت ہی نہیں ۔ ا ھ
ف:تطفل ۳۰ علی العلامۃ القاری۔
(۳؎شرح صحیح مسلم کتاب الحیض باب صفۃ غسل الجنابۃ تحت الحدیث ۷۱۰دار الفکر بیروت ۲ /۶۸۔۱۳۶۷)
والحدیث المذکور رواہ ابو یعلی فی مسندہ وابن عدی فی الکامل من طریق البختری بن عبید عن ابیہ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اشربوا اعینکم من الماء عند الوضوء ولا تنفضوا ایدیکم فانھا مراوح الشیطان ۱؎
اور جو حدیث ذکر ہوئی اسے ابو یعلی نے اپنی مسند میں اور ابنِ عدی نے کامل میں بطریقِ بختری بن عبید عن ابیہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا کہ سرکار نے فرمایا : اپنی آنکھوں کو بھی وضو کے وقت کچھ پانی پلاؤ اور اپنے ہاتھوں کو نہ جھاڑو کیوں کہ ا س طرح وہ شیطان کے پنکھے ہیں ۔
(۱ کنز العمال بحوالہ ع وعدعن ابی ھریرۃحدیث ۲۶۲۵۶ موسسۃالرسالہ بیروت۹ /۳۲۶
الجامع الصغیر بحولہ ع وعدعن ابی ھریرۃ حدیث ۱۰۶۴ دارالکتب العلمیہ بیروت۱ /۷۰)
ونحوہ عندالدیلمی فی مسند الفردوس واخرجہ ایضا ابن حبان فی الضعفاء وابن ابی حاتم فی العلل والبختری ف ضعیف متروک کما فی التقریب ۲؎
اسی کے ہم معنی مسند الفردوس میں دیلمی نے روایت کی اور ابنِ حبان نے بھی کتاب الضعفاء میں اور ابنِ ابی حاتم نے کتاب العلل میں ا س کی تخریج کی اور بختری ضعیف ، متروک ہے جیسا کہ تقریب التہذیب میں ہے ۔
ف: تضعیف البختری بن عبید
( ۲؎ تقریب التہذیب ترجمہ البختری بن عبید ۶۴۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۲۲)
وقال المناوی فی شرحہ الکبیر للجامع الصغیر المسمّی بفیض القدیر ان البختری ضعفہ ابو حاتم وترکہ غیرہ وقال ابن عدی روی عن ابیہ قدر عشرین حدیثا عامتھا مناکیر ھذا منھا اھ ومن ثم قال العراقی سندہ ضعیف وقال النووی کابن الصلاح لم نجدلہ اصلا اھ ۳؎
علامہ مناوی نے جامع صغیر کی شرح کبیر فیض القدیر میں لکھا ہے کہ : بختری کو ابو حاتم نے ضعیف کہا اور دوسرے حضرات نے اسے ترک کر دیا ۔ ابنِ عدی فرماتے ہیں کہ اس نے اپنے والد سے بیس حدیثیں روایت کی ہیں جن میں زیادہ تر منکر ہیں یہ بھی انہی میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ عراقی نے فرمایا : اس کی سند ضعیف ہے اور ابنِ الصلاح کی طرح امام نووی نے فرمایا : ہمیں اس کی کوئی اصل نہ ملی۔ ا ھ
( ۳؎فیض القدیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث ۱۰۲۴ دارالکتب العلمیہ بیروت۱/ ۶۶۸)
قلت ۵۵:وبعض اصحابنا وان عدوا عدم النفض من اٰداب الوضوء کما فی الدر وغیرہ فلا غروفان امثال الحدیث فی امثال المقام تقوم بافادۃ الادبیۃ اما ان ینتہض معارضا لحدیث صحیح فکلا۔
قلت ہمارے بعض علماء نے پانی نہ جھاڑنے کو اگرچہ آدابِ وضو سے شمار کیا ہے جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ ایسی حدیث ایسی جگہ اتنی صلاحیت رکھتی ہے کہ کسی چیز کے ایک ادب اور مستحب ہونے کا افادہ کر دے ۔ رہا یہ کہ کسی حدیث صحیح کے معارض ہو جائے تو ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ۔
وثانیا۵۶ ترک الاولی ف۱ لافادۃ ف۲ الجواز واقع عنہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم بحیث تجاوز حدالاحصاء وذلک ھوالاولی منہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لکونہ من مشارع تبلیغ الشرائع والبیان بالفعل اقوی کما شہد بہ حدیث ام سلمۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا فی واقعۃ الحدیبیۃ۔
ثانیاً کسی چیز کا جواز بتانے کے لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ترکِ اولٰی بے شمار مقامات میں واقع ہے اور یہ عمل ( ترکِ اولٰی افادہ جواز کے لئے ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا اولٰی ہے اس لئے کہ سرکار قوانین واحکام کی تبلیغ کا مصدر و منبع ہیں۔ اور فعل کے ذریعہ بیان زیادہ قوی ہوتا ہے جیساکہ اس پر واقعہ حدیبیہ میں حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث شاہد ہے ۔
ف۱ : تطفل ۳۱ اٰخر علی القاری
ف۲ : ترک الاولی احیانا لبیان الجواز ھو الاولی من النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
وثالثا۵۷: لفظ الحدیث ف۳عند مسلم والنسائی فی طریق اخری عن مخرج الحدیث الاعمش اعنی بطریق عبداللّٰہ بن ادریس عن الاعمش عن سالم ھو ابن ابی الجعد عن کریب عن ابن عباس عن میمونۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اتی بمندیل فلم یمسہ وجعل یقول بالماء ھکذا یعنی ینفضہ اھ ۱؎ ولفظ ابی داؤد عن الاعمش فناولتہ المندیل فلم یأخذہ وجعل ینفض الماء عن جسدہ ۲؎
ثالثا: ( کچھ اور طرق سے جو الفاظِ حدیث وارد ہیں وہ بالکل فیصلہ کن ہیں ) امام مسلم و امام نسائی کے یہاں مخرج حدیث حضرت اعمش سے ایک طریق اور ہے وہ یوں ہے : عبداللہ بن ادریس __ عن الاعمش __ عن سالم __ یہ ابن ابی الجعد ہیں __ عن کریب __ ابن عباس __ عن میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ اس طریقِ عبد اللہ بن ادریس میں الفاظِ حدیث یہ ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رومال حاضر کیا گیا تو اسے ہاتھ نہ لگایا اور پانی کو یوں کرنے لگے یعنی جھاڑنے لگے ۔ ا ھ اور بطریق عبداللہ بن داؤد عن الاعمش ، سنن ابی داؤد میں یہ الفاظ ہیں : امّ المومنین نے سرکار کو رومال پیش کیا تو نہ لیا اور بدن مبارک سے پانی جھاڑنے لگے۔
ف۳: تطفل ۳۲ ثالث علٰی علی القاری
(۱؎صحیح مسلم کتاب الحیض باب صفۃ غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۷)
(۲؎سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب فی الغسل من الجنابۃ آفتا ب عالم پریس لاہور۱/ ۳۳۔۳۲)
فھذہ نصوص مفسرۃ لاتدع لتاویل ذلک البعض مساغا ولا مجالا فضلا عن ان یکون ھو الاولٰی وانا اتعجب ف۱ من القاضی الامام کیف یقتصر علی تبعیدہ وکذا الشیخ المحقق ف۲ حیث نقل ھذا التاویل فی لمعات التنقیح۳؎ شرح مشکوٰۃ المصابیح عن بعض الشروح واقرہ،
یہ ایسے مفسَّر نصوص ہیں کہ اس تاویل ( جھاڑنا یعنی چلنے میں ہاتھ ہلانا ) کی کوئی گنجائش اور جگہ ہی نہیں رہ جاتی ، اس تاویل کا اولٰی ہونا تو بہت دور کی بات ہے اور مجھے تو یہ تعجب ہے کہ امام قاضی عیاض نے اسے صرف بعید کہنے پر اکتفاء کیوں کی ؟ اور اسی طرح شیخ محقق پر بھی تعجب ہے کہ انہوں نے لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں یہ تاویل بعض شروح کے حوالے سے نقل کی اور برقرار رکھی ،
ف۱ : تطفل علی الامام القاضی عیاض ۔
ف۲ :تطفل علی الشیخ المحقق عبدالحق الدہلوی۔
( ۳؎ لمعات التنقیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث۴۳۶ مکتبۃ المعارف النعمانیہ لاہور۲ / ۱۰۹)
وقال فی اشعۃ اللمعات ف۳ ایں معنی بعداست از مقام ۱؎ اھ لم لا یقولون باطل مالہ من مساغ ھذا۔ اور اشعۃ اللمعات میں فرمایا : یہ معنی اس مقام سے بعید ہے ۔ ا ھ یہ کیوں نہیں فرماتے کہ باطل ہے اس کی گنجائش ہی نہیں ، یہ بحث تمام ہوئی ۔
ف۳: تطفل اٰخر علیہ۔
(۱؎اشعۃ للمعات کتاب الطہارۃ باب الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۳۲)
ثم ان من الناس من یقول بکراھۃ المندیل بعد الوضوء دون الغسل قال فی الحلیۃ روی عن ابن عباس ۲؎ اھ
اب یہ ہے کہ بعض حضرات اس کے قائل ہیں کہ وضو کے بعد رومال استعمال کرنا مکروہ ہے ، غسل کے بعد نہیں ۔ حلیہ میں ہے کہ یہ قول حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے ۔ ا ھ
(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
قلت ۵۸:رواہ عبدالرزاق فی مصنفہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما انہ کرہ ان یمسح بالمندیل من الوضوء ولم یکرھہ اذا اغتسل من الجنابۃ ۳؎ اھ قلت اسی عبدالرزاق نے اپنی مصنّف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے وضو کے بعد رومال سے پانی پونچھنے کو ناپسند کیا اور غسلِ جنابت کی صورت میں مکروہ نہ رکھا ۔
(۳؎ المصنف لعبدالرزاق کتاب الطہارۃ بالمندیل حدیث ۷۰۹ المکتبۃ الاسلامی بیروت ۱ /۱۸۲)
وحاول الامام ابن امیر الحاج فی الحلیۃ توجیہہ بان کراھتہ فی الوضوء لما ذکرنا عن الزھری قال ولم ینقل فی الغسل انہ یو زن ۴؎ اھ امام ابنِ امیر الحاج نے حلیہ میں اس کی یہ توجیہہ فرمانے کی کوشش کی ہے کہ وضو میں ان کی کراہت کی وجہ وہ حدیث ہے جو ہم نے امام زہری سے نقل کی ( کہ یہ پانی روزِ قیامت وزن ہوگا ) اور غسل کے بارے میں یہ منقول نہیں کہ اس کا پانی بھی وزن کیا جائے گا ۔ ا ھ
(۴؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول۵۹:تقاعد(ف) کونہ یوزن عن ایراث کراھۃ المسح قد قدمناہ وان سلم (ف ۱)فالنقل فی الوضوء نقل فی الغسل بالقیاس الجلی ف۲، بل بدلالۃ النص، فان الغسل حسنۃ کالوضوء فان کان یوزن ماء الوضوء فکذا ماؤہ بل ھو اولی لانھا طہارۃ کبرٰی وماؤہ اکثر واوفی، وانما الامر عندی واللّٰہ تعالٰی اعلم ان حبر الامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ رأی فی منعہ فی الغسل حرجا کما اسلفنا۔
اقول ہم بتا چکے کہ اس پانی کے وزن کئے جانے کی فضیلت اسے پونچھنے میں کراہت لانے سے قاصر ہے----- اور اگر اسے مان ہی لیں تو ( وہی حکم غسل میں بھی ہونا چاہئے اگرچہ خاص لفظ غسل کے ساتھ حدیث واردنہیں ہے کیونکہ ۱۲ م ) وضو میں منقول ہونا قیاس جلی ، بلکہ دلالۃ النص کی رُو سے غسل میں بھی منقول ہونا ہے اس لئے کہ وضو کی طرح غسل بھی ایک نیکی ہے تو اگر وضو کا پانی تولا جائے گا تو غسل کا پانی بھی ایساہی ہوگا بلکہ وہ بدرجہ اولٰی ہو گا اس لئے کہ وہ طہارتِ کبرٰی ہے اور اس کا پانی زیادہ وافر بھی ہوتا ہے ، ------ میرے نزدیک اس کی وجہ----- واللہ تعالٰی اعلم ------ یہی ہے کہ حبرامت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غسل کے اندر اس سے ممانعت میں حرج دیکھا جیسا کہ پہلے ہم بیان کر آئے ہیں ۔
ف :تطفل ۳۶ علی الحلیۃ
ف۱:تطفل ۳۷ آخر علیہا
ف۲ : غسل کاپانی بھی نیکیوں کے پلے میں رکھاجانا ظاہر ہے
بالجملہ تحقیق مسئلہ و ہی ہے کہ کراہت اصلاً نہیں ، ہاں حاجت نہ ہو تو عادت نہ ڈالے اور پُونچھے بھی تو حتی الوسع نم باقی رکھنا افضل ہے ۔
فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے : لاباس للمتوضئ والمغتسل ان یتمسح بالمندیل روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انہ کان یفعل ذلک ومنھم من کرہ ذلک ومنھم من کرہ للمتوضی دون المغتسل والصحیح ماقلناہ الاانہ ینبغی ان لایبالغ ولایستقصی فیبقی اثر الوضوء علی اعضائہ۔ ۱؎
وضو و غسل کرنے والے کے لئے رومال سے بدن پونچھنے میں حرج نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے ۔ بعض نے اسے مکروہ کہا ہے، اور بعض نے وضو کرنے والے کے لئے مکروہ کہا ہے غسل والے کے لئے نہیں اور صحیح وہی ہے جو ہم نے کہا مگر چاہئے کہ اس میں مبالغہ نہ کرے اور پانی بالکل خشک نہ کر دے اعضاء پر کچھ اثر باقی رہنے دے ۔ (ت)
(۱؎ردالمحتاربحوالہ خانیہ کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۸۹)
حلیہ میں ہے:وکذا وقع ذکر التنشیف بلفظ لاباس فی خزانۃ الاکمل و غیرہ و عزاہ فی الخلاصۃ الی الاصل بھذا للفظ ایضاً ۲؎ اھ اسی طرح خزانۃ الاکمل وغیرہ میں پانی سُکھانے کا ذکر '' لا باس ''(حرج نہیں ) کے لفظ کے ساتھ آیا ہے اور ان ہی الفاظ کے ساتھ خلاصہ میں اسے اصل ( مبسوط) کے حوالہ سے بیان کیا ہے ۔ (ت)
( ۲؎ردالمحتاربحوالہ الحلیۃ کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۹)
یہاں سے ظاہر ہوا ف کہ وہ جو درمختار میں واقع ہوا کہ وضو کے بعد رومال سے اعضاء پونچھنا مستحب ہے ۔ حیث قال من الاٰداب التمسح بمندیل وعدم نفض یدہ ۳؎ اھ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ : آدابِ وضو میں یہ بھی ہے کہ رومال سے پانی پونچھ لے اور ہاتھ سے نہ جھاڑے ا ھ ۔ (ت)
(۳؎ الدرالمختار ،کتاب الطہارۃ،مطبع مجتبائی دہلی ،۱ /۲۴)
ف: تنبیہ علی مافی المنیۃ والدرالمختار۔
اور منیہ میں واقع ہوا کہ غسل کے بعد مستحب ہے حیث قال ویستحب ان یمسح بمندیل بعد الغسل۴؎ اھ (اس کے الفاظ یہ ہیں:مستحب ہے کہ غسل کے بعد کسی رومال سے بدن پونچھ لے۔ اھ ت )
(۴؎ منیۃالمصلی کتاب الطہارۃ فرائض الغسل وسننہا مکتبہ قادیہ لاہور ص۴۰)
دونوں سہوِ قلم ہیں ، لااعلم لہما سلفا فی ذلک فی المذھب فان الخلاف کما علمت فی الکراھۃ فضلا عن الاستحباب۔ مجھے اس بارے میں علمائے مذہب میں سے کوئی بھی ان دونوں حضرات کا پیش رَو معلوم نہیں اس لئے کہ اس میں اختلاف ہے کہ مکروہ ہے یا نہیں ، مستحب کہاں سے ہو گا (ت)
ولہٰذا ردالمحتار میں قولِ دُر پر فرمایا: ذکرہ صاحب المنیۃ فی الغسل وقال فی الحلیۃ ولم ارمن ذکرہ غیرہ وانما وقع الخلاف فی الکراھۃ ۱؎ الخ فاشارالی ان نقلہ الی الوضوء تفرد علی تفرد۔
اسے صاحبِ منیہ نے غسل کے بیان میں ذکر کیا اور حلیہ میں اس پر لکھا کہ صاحبِ منیہ کے سوا کسی اور کے یہاں میں نے اس کا ذکر نہ دیکھا بلکہ یہاں تو کراہت میں اختلاف ہے الخ ۔ اس سے علامہ شامی نے اشارہ کیا کہ اس استحباب کو غسل سے نکال کر وضو میں لانا صاحبِ درمختار کا تفرد پر تفرد ہے (ت)
( ۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃمطلب فی التمسح بمندیل داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۸۹)
ہاں علامہ طحطاوی نے قولِ دُر کو بعد استنجاء آبِ استنجاء ف رومال سے پونچھنے پر حمل کیا اور وہ محمل حسن ہے
ف:مسئلہ پانی سے استنجے کے بعد کپڑے سے خوب صاف کرلینا مستحب ہے کپڑا نہ ہو تو باربار بائیں ہاتھ سے یہاں تک کہ خشک ہو جائے ۔
متعدد کتب میں اس کا استحباب مصرح ہے ،
قال ط قولہ والتمسح ای مسح موضع الاستنجاء بخرقۃ کذافی فتح القدیر۲؎اھ سیّد طحطاوی نے کہا : قولہ والتمسح یعنی مقام استنجاء کو کسی کپڑے سے پونچھ لینا ، ایسا ہی فتح القدیر میں ہے ا ھ (ت)
(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۶)
منیہ کے آداب الوضو میں ہے : وان یمسح موضع الاستنجاء بالخرقۃ بعد الغسل قبل ان یقوم وان لم یکن معہ خرقۃ یجففہ بیدہ ۔۳؎ مقام استنجاء کو دھونے کے بعد کھڑے ہونے سے پہلے کپڑے سے پونچھ لے --- اور پا س میں کپڑا نہ ہو تو ہاتھ سے خشک کر لے ۔ (ت)
(۳؎ منیۃالمصلی کتاب الطہارۃ مستحبات الوضوء مکتبہ قادیہ لاہور ص۲۷)
حلیہ میں ہے: یعنی الیسری مرۃ بعد اخری حتی لایبقی البلل علی ذلک المحل ومنھم من فسر الاستنقاء بھٰذا۱؎۔ یعنی بائیں ہاتھ سے بار بار پُونچھ لے کہ اس جگہ تری نہ رہ جائے اور بعض نے استنقاء (صفائی) کی یہی تفسیر کی ہے ۔ (ت)
(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
غنیہ میں ہے: لیزول اثر الماء المستعمل بالکلیۃ ۲؎ الخ ثم قال ط وفی الہندیۃ ولایمسح ف ۱سائر اعضائہ بالخرقۃ التی یمسح بھا موضع الاستنجاء فلاینا فی انہ یمسح بغیرھا۳؎ اھ ونحوہ فی ردالمحتار۔
تاکہ ماءِ مستعمل کا اثر بالکل ختم ہو جائے الخ ----- آگے سید طحطاوی نے فرمایا : اور ہندیہ میں ہے کہ جس کپڑے سے مقامِ استنجاء کو پونچھے اس سے دیگر اعضائے بدن کو نہ پونچھے تو یہ دوسرے کپڑے سے پُونچھ لینے کے منافی نہیں ا ھ ---- اور اسی کے ہم معنی ردالمحتار میں بھی ہے ،
ف۱:مسئلہ جس کپڑے سے استنجے کا پانی خشک کریں اس سے باقی اعضاء نہ پونچھے
(۲؎غنیۃ المستملی کتاب الطہارۃ آداب الوضوء سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۱)
(۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۶)
اقول۶۰: نعم وکرامۃ ف ۲ولکن لایقتضی ایضا استحباب مسح غیرہ بغیرھا کمالا یخفی فلا یفید کلام الشارح رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔
اقول: ہاں منافی نہیں اور دیگر اعضاء کی عزت کا لحاظ بھی ہے لیکن اس کا تقاضا یہ بھی نہیں کہ باقی بدن کو دوسرے کپڑے سے پونچھ لینا مستحب ہے ۔جیساکہ واضح ہے۔ تو یہ کلامِ شارح رحمہ اللہ تعالی کے لئے مفید بھی نہیں ۔ (ت)
ف ۲ :معروضۃ۳۸ علی العلامتین ط وش
تنبیہ : علماء میں مشہور ہے کہ اپنے دامن ف۳ آنچل سے بدن نہ پونچھنا چاہئے اور اسے بعض سلف سے نقل کرتے ہیں اور ردالمحتار میں فرمایا : دامن سے ہاتھ منہ پونچھنا بھول پیدا کرتا ہے۔
ف۳:مسئلہ اپنے دامن یا آنچل سے بدن پونچھناشرعا منع نہیں مگر دامن سے ہاتھ منہ پونچھنے سے اہل تجربہ منع فرماتے ہیں کہ اس سے بھول پیدا ہوتی ہے۔
لمعات باب الغسل میں ہے: الاولی ان لا ینشف بذیلہ وطرف ثوبہ ونحوھما وحکی ذلک عن بعض السلف ۱؎۔ اولٰی یہ ہے کہ اپنے دامن یا لباس کے کنارے یا اور کسی حصہ سے خشک نہ کرے ،اور یہ بعض سلف سے بطورِ حکایت منقول ہے ۔ (ت)
(۱؎ لمعات التنقیح کتاب الطہارۃ باب الغسل مکتبۃ المعارف العلمیۃلاہور ۲/ ۱۰۹ )
ارشاد الساری باب المضمضۃ و الاستنشاق فی الجنابۃ میں ہے : قال فی الذخائر واذاتنشف فالاولی ان لایکون بذیلہ وطرف ثوبہ ونحوھما ۲؎۔ ذخائر میں ہے اور جب خشک کرے تو اولٰی یہ ہے کہ دامن ، لباس کے کنارے، اور ان کے مثل سے نہ پونچھے ۔ (ت)
(۲؎ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب الطہارۃ باب المضمضۃ الخ دار الکتب العلمیۃ بیروت۱ /۱۹۸)
ردالمحتار میں قبیلِ تیمم ہے : زادبعضھم مما یورث النسیان اشیاء منھا مسح وجھہ او یدیہ بذیلہ، ولسیدی عبدالغنی فیھا رسالۃ ۳؎۔ بعض نسیان پیدا کرنے والی چیزوں میں مزید چند باتیں ذکر کی ہیں ، ان ہی میں اپنے چہرے یا ہاتھوں کو دامن سے پونچھنا بھی ہے اور سیّدی عبدالغنی رحمہ اللہ کا ان اشیاء کے بارے میں ایک رسالہ بھی ہے ۔ (ت)
(۳؎رد المحتار کتاب الطہارۃ فصل فی البئر داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۵۰)
اقول۶۱: یہ اہلِ تجربہ کی ارشادی باتیں ہیں کوئی شرعی ممانعت نہیں، جامع ترمذی وسنن ابنِ ماجہ کی حدیثیں گزریں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے گوشہ جامہ مبارک سے چہرہ اقدس کا پانی صاف فرمایا ،
وذکر فی اشعہ اللمعات فی حدیث معاذبن جبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ یحتمل ان یراد بالثوب الخرقۃ والمندیل ۴؎۔
اشعۃ اللمعات میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث کے تحت ذکر ہے کہ ہو سکتا ہے جامہ سے کپڑے کا کوئی ٹکڑا اور رومال مراد ہو ۔
(۴؎اشعہ لمعات کتاب الطہارۃ با ب سنن الوضوء الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۲۷)
اقول۶۲:مع کونہ(ف) خلاف الظاھر لایحتملہ حدیث سلمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ اقول: ایک تو یہ خلافِ ظاہر ہے دوسرے حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث میں اس کا احتمال نہیں ۔ (ت)
(ف: تطفل ۳۹علی الشیخ المحقق)
ہاں ان کا ضعف اور علماء میں اس کی شہرت اسے مقتضی کہ اس سے احتراز اولٰی ہے ،
بل فی البنایۃ شرح الہدایۃ للامام العینی عن شرح الجامع الصغیر للامام الاجل فخر الاسلام ان الخرقۃ التی یمسح بھا الوضوء محدثۃ بدعۃ یجب ان تکرہ لانھا لم تکن فی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولااحد من الصحابۃ والتابعین قبل ذلک وانما کانوا یتمسحون باطراف اردیتھم ۱؎ اھ
بلکہ امام عینی کی شرح ہدایہ بنایہ میں امام اجل فخر الاسلام کی شرح جامع صغیر سے نقل ہے کہ وضو کا پانی پونچھنے کے لئے یہ جو کپڑے کا ٹکڑا وضع ہوا ہے نو ایجاد بدعت ہے جس کا مکروہ ہونا ضروری ہے اس لئے کہ اس سے پہلے یہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا نہ صحابہ و تابعین میں سے کسی کے دور میں تھا ، وہ حضرات بس اپنی چادروں کے کناروں سے پونچھ لیا کرتے تھے ا ھ ۔
(۱؎البنایۃ فی شرح الہدایہ کتاب الکراھیۃ باب اللبس المکتبۃ الامدادیہ مکۃ المکرمہ ۴ /۲۲۱)
فھذا النص فی المقصود---- ثم ماذکر قدس سرہ من الکراھۃ فمحلہ اذا کان بثیاب فاخرۃ کما تعودہ المتجبرون، قال الامام العینی بعد نقلہ'' وقال الفقیہ ابو اللیث فی شرح الجامع الصغیر کان الفقیہ ابو جعفر یقول انما یکرہ ذلک اذاکان شیئا نفیسا لان فی ذلک فخر ا وتکبرا واما اذالم تکن الخرقۃ نفیسۃ فلا باس بہ لانہ لایکون فیہ کبر وقول المصنف (ای صاحب الہدایۃ) ھو الصحیح ای ھذا القول (المذکور عن الفقیھین ابی اللیث وابی جعفر) ھو الصحیح وکذا قال فی جامع قاضی خان والمحبوبی وذلک لان المسلمین قداستعملوا فی عامۃ البلد ان منا دیل فی الوضوء کیف وقدروی الترمذی فی جامعہ ۱؎ الخ ذکرھھنا حدیث ام المؤمنین المقدم رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا۔
یہ اس مقصود میں نص ہے ----پھر حضرت موصوف قدس سرہ نے جو کراہت ذکر فرمائی ہے اس کا موقع اس صورت میں ہے جب عمدہ قسم کے کپڑوں سے پونچھا جائے جیسے متکبرین نے عادت بنا رکھی ہے ۔ امام عینی نے ارشاد مذکور نقل فرمانے کے بعد لکھا ہے کہ فقیہ ابو اللیث سے شرح جامع صغیر میں فرمایا ہے کہ فقیہ ابو جعفر فرماتے تھے : یہ مکروہ اسی صورت میں ہے جب وہ نفیس قسم کا ہو کیوں کہ اسی میں فخر و تکبّر ہوتا ہے۔ اگر وہ کپڑا عمدہ قسم کا نہ ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس میں کوئی تکبر نہیں ہوتا ۔ اور مصنف ( صاحبِ ہدایہ ) کی عبارت ''ھو الصحیح'' کا معنٰی یہ ہے کہ یہی قول ( جو فقیہ ابو اللیث اور فقیہ ابو جعفر کے حوالے سے مذکور ہے ) صحیح ہے------ اور ایسا ہی جامع قاضی خان اور محبوبی میں ہے --- اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اہلِ اسلام عامہ بلاد میں وضو کا پانی پونچھنے کے لئے رومال کا استعمال کر رہے ہیں، کیوں نہ ہو جب کہ ترمذی نے اپنی جامع میں روایت کی ہے الخ۔ یہاں ام المومنین صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث ذکر کی ہے جو پہلے گزر چکی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رومال رکھتے تھے کہ وضو کے بعد اس سے اعضائے منّور صاف فرماتے )۔
(۱؎البنایۃ فی شرح الہدایہ کتاب الکراھیۃ باب اللبس المکتبۃ الامدادیہ مکۃ المکرمہ ۴ /۲۲۱)
قلت اما ما وقع فی القنیۃ من عدم جواز المسح بثیابہ والعمامۃ ففی مسح الید بعد الاکل فانہ رمز اولاعس للامام علاء الدین السغدی وذکرانہ یجوز مسح الید علی الکاغذ، ثم ذکر رامزاط للمحیط یکرہ استعمال ف۱ الکاغذ فی ولیمۃ لیمسح بھا الاصابع، ولا یجوز مسح ف۲ الید علی ثیابہ ولا بدستار، ثم نقل عن استاذہ البدیع انہ قال فعلی ھذا لایجوز علی المندیل الذی یوضع عندالخوان لمسح الایدی بہ، ثم ردہ بقولہ قلت لکن تعلیل عس فی بیانہ یقتضی جوازہ بالمندیل فانہ قال لان الثوب ما ینسج لہذا والمندیل ینسج لہذا ۱؎ اھ فہذا کلہ فی المسح بعدالاکل۔
قلت رہا وہ جو قنیہ میں آیا ہے کہ اپنے کپڑے اور عمامے سے پونچھنا ناجائز ہے ، تو یہ کھانے کے بعد ہاتھ پونچھنے سے متعلق ہے ،اس لئے کہ اس میں پہلے امام علاؤ الدین سغدی کے لئے عس کا رمز دے کر ذکر کیا ہے کہ کاغذ سے ہاتھ پونچھنا جائز ہے ۔ پھر محیط کے لئے ط کا رمز دے کر ذکر کیا ہے کہ ولیمہ کے اندر انگلیاں پونچھنے کے لئے کاغذ کا استعمال مکروہ ہے اور اپنے کپڑے یا دستار سے ہاتھ پونچھنا، ناجائز ہے ۔ پھر اپنے استاد بدیع سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : تو اس بنیاد پر اُس رومال سے بھی جائز نہ ہو گا جو دستر خوان کے پاس ہاتھ پونچھنے ہی کے لئے رکھا جاتاہے --- پھر اسے یوں رد کر دیا ہے کہ میں کہتا ہوں : لیکن علاؤ الدین سغدی نے اس کے بیان میں جو علّت پیش کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ رومال سے پونچھنا جائز ہو کیونکہ انہوں نے کہا ہے اس لئے کہ کپڑا اس کام کے لئے تیار نہ کیا گیا اور رومال اُسی کے لئے بُنا جاتا ہے اھ ۔ تو یہ سارا کلام کھانے کے بعد پونچھنے سے متعلق ہے ۔
0 تبصرے