Music

header ads

گر درمیان وضو کرنے کے ریح خارج ہوجائے تو کیا کرے؟ Wuzu Ke Darmiyan Hawa Kharij Ho jaye Tu kya Kare

 مسئلہ ۵:  (ف)      ۲۴ ربیع الاول ۱۳۱۹ھ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر درمیان وضو کرنے کے ریح خارج ہوجائے یعنی دو عضو یا تین عضو دھولیے ہیں اور ایک یا دوباقی ہیں تو اس شخص کو ازسرِ نو وضو کرنا چاہیے یاجو عضو باقی رہا ہے صرف اسی کو دھولینا کافی ہے بینوا توجروا۔(ف) مسئلہ :وضو کرتے میں ناقض وضو واقع ہو تو سرے سے وضو کرے ۔


الجواب : ازسرِنو وضو کرے اتنے اعضاء کا غسل باطل ہوگیا مسئلہ بدیہیہ ہے کہ ناقضِ کامل ناقضِ ناقص بدرجہ اولٰی ہے معہذا جزئیہ کی بھی تصریح ہے۔درمختار میں ہے: شرط صحتہا ای الطہارۃ (صدور الطہر من اھلہ فی محلہ مع فقد مانعہ) ۲؎۔ صحتِ طہارت کی شرط یہ ہے کہ طہارت کے اہل سے اس کی جگہ پر واقع ہو اور کوئی مانع طہارت نہ ہو (ت)


 (۲؎الدرالمختار    کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۷)


ردالمحتار میں ہے: قولہ مع فقد مانعہ بان لایحصل ناقض فی خلال الطہارۃ لغیر معذور بہ ۳؎۔ عبارتِ شرح ''کوئی مانع طہارت نہ ہو'' اس طرح کہ درمیان طہارت کوئی ناقض نہ پیدا ہو یہ اس کے لئے ہے جو اسی ناقض کے عذر میں مبتلا نہ ہو ۔ (ت)


 (۳؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت        ۱ /۶۰)


نیز درمختار میں ہے: وشرط لتصحیح الوضوء زوال مایبعد ایصال المیاہ من ادران، کشمع و رمص ثم لم یتخلل الوضوء مناف یا عظیم ذوی الشان ۱؎۔ ضو درست کرنے کے لئے شرط ہے ایسی آلودگی کا دور ہونا جس کی وجہ سے پانی عضو تک نہ پہنچ سکے جیسے موم اور آنکھ کا کیچڑ ۔ پھر یہ کہ وضو کے درمیان کوئی منافی نہ پایا جائے اے اہل شان میں باعظمت ! (ت)


 (۱؎ الدر المختار     کتاب الطہارۃ      مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۷)


حاشیہ علامہ سید احمد مصری طحطاوی پھر ردالمحتار میں ہے: قولہ مناف کخروج ریح ودم ۲؎اھ زادالشامی ای لغیر المعذور بذلک ۳؎۔اھ


قولہ ''کوئی منافی '' جیسے ریح یا خون نکلنا ، ا ھ علامہ شامی نے اضافہ کیا یعنی اس کے لئے جو اس میں معذور نہ ہو ا ھ۔


 (۲؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الطہارۃ    المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۵۷)

(۳؎ رد المحتار         کتاب الطہارۃ         دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۶۰)


جواہر الفتاوٰی ف۱ امام اجل صدر شہید رکن الدین ابو بکر محمد بن ابی المفاخر بن عبدالرشید کرمانی کتاب الطہارۃ باب ثالث فتاوائے امام شیخ الاسلام عطا ء بن حمزہ سغدی میں ہے: رجل ضرب الید علی الارض للتیمم و رفعھا وقبل ان یمسح بہاوجہہ وذراعیہ احدث بریح اوصوت قال بعضھم یجوز التیمم بمنزلۃ ف۲ من ملأ کفیہ ماء الوضوء فاحدث ثم استعملہ فی بعض الوضوء فانہ یجوز وقال السید الامام ناصر الدین لایجوز وھو اختیار الامام الشجاع بسمرقند لان الضربۃ من التیمم قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم التیمم ضربتان فقداتی ببعض التیمم ثم احدث فینقض کما اذا حصل الکل وھذہ بمنزلۃ الوضوء اذاحصل فی خلالہ نقض ماوجدکما ینتقض بعد تمامہ اذا حصل قال الامام ظھیر الدین المرغینانی مااختارہ السید الامام حسن بہ ناخذاھ ۱؎۔


کسی نے تیمم کے لئے زمین پر ہاتھ مار کر اٹھایا اور چہرے یا کلائیوں پر ہاتھ پھیرنے سے پہلے بلاآواز یا آواز کے ساتھ ریح نکلنے سے اس کو حدث ہوا تو بعض نے کہا اس ضرب سے تیمم جائز ہے جیسے کسی نے وضو کا پانی ہتھیلیوں میں لیا کہ اسے حدث ہو گیا پھر اس پانی کو وضو میں استعمال کر لیا تو یہ جائز ہے اور سیدنا امام ناصر الدین نے فرمایا کہ ناجائز ہے اسی کو سمرقند کے امام شجاع الدین نے اختیار کیا اس لئے کہ ضرب بھی تیمم کا ایک حصہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :''تیمم دو ضرب ہے '' تو صورت یہ ہوئی کہ کچھ تیمم اس نے کر لیا پھر اسے حدث ہوا تو یہ ناقض ہو گا جیسے اگر کُل تیمم ہو چکا ہوتا تو جاتا رہتا اور یہ ایسے ہی ہے جیسے وضو کے درمیان کوئی ناقض پایا گیا تو جتنا وضو ہو چکا ہے وہ جاتا رہے گا جیسے وضو مکمل ہونے کے بعد وہ ناقض پائے جانے کی صورت میں پورا وضو جاتا رہتا ۔ امام ظہیر الدین مرغینانی نے فرمایا : جو سیّد امام ناصر نے اختیار کیا وہ عمدہ ہے اور ہم بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں ا ھ ۔

ف۱: مسئلہ تیمم کے لئے ضرب کی اور ابھی منہ یاہاتھ پر نہ ملنے پایا تھا کہ حدث واقع ہوا تو ازسر نو ضرب کرے ۔ 

ف۲:مسئلہ پانی چلو میں لیا اور ابھی استعمال نہ کیا تھا کہ حدث واقع ہوا بعض کے نزدیک اس پانی کووضو میں استعمال کر سکتا ہے اورمصنف کی تحقیق کہ یہ خلاف صحیح ہے وہ چلو وضو میں کام نہیں دے سکتا ۔


 (۱؎جواہر الفتاوی     کتاب الطہارۃ الباب الثالث (قلمی نسخہ)         فوٹو کاپی ص ۵)


اقول۶۴:وباللّٰہ التوفیق ف ماذکر ذلک البعض فی الاستشھادلہ من مسألۃ من ملاء کفیہ وضوءالخ  انما یتمشی علی احدی روایتین غیر ماخوذ تین ،الاولی قول الامام الثانی ان شرط الاستعمال الصب والنیۃ وقد فقدافی الصورۃ المذکورۃ والاخری ماعلیہ مشائخ بلخ من اشتراط الاستقرار بعد الانفصال فی موضع مامن بدن اور ثوب او ارض او غیرھا ومعلوم انہ اذا استعمل مافی کفہ فی عضو فالانفصال من الکف وان حصل لکن لم یستقر بعد فلا یکون مستعملا ۔


اقول: وباللہ التوفیق۔ ان بعض نے اپنے قول کی شہادت میں ، وضو کے لئے ہتھیلیوں میں جو پانی لینے کا مسئلہ ذکر کیا ہے وہ دو غیر ماخوذ روایتوں میں سے ایک کی بنیاد پر چلنے والا ہے ---- پہلی روایت : امام ابو یوسف کا یہ قول کہ مستعمل ہونے کے لئے بہانا اور نیت شرط ہے اور مذکورہ صورت میں دونوں مفقود ہیں ، دوسری روایت جو مشائخ بلخ نے اختیار فرمائی کہ پانی مستعمل ہونے کے لئے اس کے جُدا ہونے کے بعد بدن ، یا کپڑے یا زمین یا ان کے علاوہ کسی جگہ ٹھرنا شرط ہے ۔اور معلوم ہے کہ ہتھیلی کا پانی جب کسی عضو میں استعمال کیا تو ہتھیلی سے جُدائی اگرچہ ہو گئی لیکن ابھی وہ ٹھہرا نہیں تو مستعمل نہ ہو گا


ف:تطفل۴۰ علی جواہرالفتاوی


اما علی القول ف الصحیح المعتمد ان مجرد مس الماء بدنا علیہ حدث وانفصالہ عنہ کاف لحکم الاستعمال وان لم یکن ھناک صب من المحدث ولانیۃ ولم یستقر بعدما انفصل فلاشک ان الماء بانفصالہ من کفہ یصیر مستعملا فلایصح استعمالہ فی وضوء ھذا ماظھرلی وھو واضح جدا وبہ تم الرد علی ذلک القول واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


لیکن صحیح معتمد قول یہ ہے کہ حدث والے بدن سے پانی کا محض مس ہو جانا اور اس سے جدا ہو جانا مستعمل ہونے کے لئے کافی ہے اگرچہ محدث کے عمل سے وہاں نہ بہانا ہو ، نہ نیت ، نہ بعد انفصال کسی جگہ استقرار ---- اس قول معتمد کی بنیاد پر اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی ہتھیلی سے جدا ہو کر مستعمل ہو جائے گا پھر کسی عضو میں استعمال درست نہ ہو گا ، یہ وہ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوا اور بہت واضح ہے اور اسی سے اس قول پر رد مکمل ہو جاتا ہے اور خدائے برتر ہی خوب جانتا ہے ۔ (ت)


ف:مسئلہ صحیح یہ ہے کہ جس بدن پر حدث ہو پانی کا اسے چھوکر اس سے جدا ہونا ہی اس کے مستعمل کر دینے کوبس ہے ،خود صاحب حدث کا پانی ڈالنا یا اس کی نیت یا اس بدن سے جدا ہوکر دوسرے بدن یا کپڑے یا زمین پر ٹھہر جاناکچھ شرط نہیں

مسئلہ ۶: ف مرسلہ مولوی محمد یعقوب صاحب ارکانی ازریاست رامپور محلہ پنجابیاں مکان حافظ غلام شاہ صاحب۴شوال ۱۳۲۴ھ

بعون من قال فاسئلوا اھل الذکران کنتم لاتعلمونo فیامخدومنا الذی فاق فی الاشتھار علی الشمس فی رابعۃ النہار احتوت فضائلہ الاقطار احاطت مواھبہ الامصارما قولکم فی ان المتوضیئ رأی اثرا من الدم فی البزاق بعد المضمضۃ فاخرج مافی الفم من البزاق وغیرہ بالمص لیظھر مساواتہ ومغلوبیتہ فی البزاق فرأی بعدما اخرج ان الدم مساو للبزاق ففی ھذہ ھل ینجس فمہ ام لا،وماء المضمضۃ التی وقعت بعد ذلک الاخراج نجس ام لا ففی صورۃ النجس ان الید التی مضمض بھا اخذ بتلک الید الاناء الذی فیہ الماء وقعت قطرتہا ای قطرۃ تلک الید فی ذلک الاناء غالبالان تلک الید کانت مبلولۃ بماء المضمضۃ لانہ لاشک ان القدر القلیل من ماء المضمضۃ یصل فی الید عند المضمضۃ وایضا یبقی شیئ من ماء المضمضۃ فی الید فلا یدخل کل الماء فی الفم وذلک الباقی یلاقی الشفتین ففی ھذہ ان صارت الشفتان نجستین بورود الدم المساوی للبزاق عند دفع ذلک الدم عن الفم یکون مایلاقیھما ایضا نجسا فتکون الید نجسۃ وما وقع علیہ ماء الید یکون نجسا فیصیر الماء الموضوع فی الاناء الذی اخذہ بتلک الید نجسالان قطرۃ تلک الید وقعت فی الاناء غالباً فذلک المتوضی غسل یدیہ ووجہہ ورجلیہ بذلک الماء الذی وقعت فیہ قطرۃ تلک الید التی مضمض بھا بعد اخراج الدم المساوی للبزاق ثم وقع فی الشک فتوضا ثانیا فی المسجد الاٰخر لکن وقعت قطرۃ فی ماء الا ناء الذی یتوضأ بہ ثم توضأ فی الوقت الاٰخر فوقعت قطرات فی ماء الاناء ثم توضأ فی ماء الاناء عند غسل الیدین وکل قطرات وقعت فی ماء الوضوء انما وقعت فی اول کل مرۃ عند غسل الیدین فی ھذہ الاوقات الثلٰثۃ فبعد ذلک طھرت اعضاء وضوئہ ام لالیکتب فی ھذہ الباقیۃ من الصفحۃ مختصرًا، بینوا توجروا۔


اس کی مدد سے جس نے فرمایا: ''علم والوں سے پوچھو اگر تم نہ جانتے ہو"۔ تو اے ہمارے وہ مخدوم جو شہرت میں آفتابِ چاشت پر فائق ہیں جن کے فضائل تمام اطرافِ زمین کو حاوی ہیں، جن کی عطائیں شہروں کو محیط ہیں، آپ کا کیا ارشاد ہے اُس شخص کے بارے میں وضو کرتا تھاکلی کے بعد لعابِ دہن میں خون کا اثر دیکھا تو باقی لعاب وغیرہ خوب چُوس کر نکالا کہ ظاہر ہو کہ خون تھوک کے برابر ہے یا مغلوب ہے، نکالنے کے بعد معلوم ہوا کہ خون، برابرہے ، تو اس کا منہ ناپاک ہوا یا نہیں؟ اور اس کے بعد جو کلی کی اس کا پانی ناپاک ہے یا نہیں؟ اگر ناپاک ہے تو جس ہاتھ سے کُلی کی غالباً اس کا قطرہ برتن میں ٹپکا، کہ ہاتھ کلی کے پانی سے تر تھا اور شک نہیں کہ کلی کا کچھ پانی ہاتھ میں رہ جاتا ہے جو ناپاک شدہ ہونٹوں سے مل کرناپاک ہوگیا تو برتن کا پانی ناپاک ہوا، اسی سے اس نے تمام وضو کیا، پھر دل میں کچھ شک آیا تو دُوسری مسجد میں وضو کیا مگر یہاں بھی برتن میں قطرہ ٹپک گیا، پھر دوبارہ سہ بارہ ایسا ہی ہوا اور ہر بار وضو سے پہلے ہاتھ دھوتے ہی قطرہ، وضو کے برتن میں گرا تو اب اس کے اعضائے وضو پاک ہوگئے یا نہیں؟ بیان کیجئے اجر لیجئے۔(ت)


ف: مسئلہ منہ سے خون نکلا کلی کی اس کا پانی پاتھ سے ٹپک کر برتن میں گرا اس سے وضو کیا پھر تین وضو اور کیے اور ہر بار ہاتھ کی بوند وضو سے پہلے برتن میں ٹپکی اس میں کیا حکم ہے ۔


الجواب :نعم تنجس فمہ وماء المضمضۃ بعد ذلک الی ثلث نجس وکذلک الیہ التی تمضمض بھا فان قطرت قطرۃ من الید فی الاناء اعنی داخلہ فی الماء قبل تمام الثلث فقد تنجس ماء الاناء والتمضمض بہ بعد ذلک لایزید الفم والیدالا تنجسا ثم اذا توضأ بذلک الماء فقد عمت النجاسۃ اعضاء الوضوء وکل مااصابہ ذلک الماء من بدن اوثوب وکلما توضأ بما ء وقعت فیہ قبل الوضوء قطرۃ من یدہ المتنجسۃ فانہ تنجس والغسل بالنجس لایفید طہرا ولا خفۃ وان غسل الف مرۃ فاعضاؤہ وثیابہ کلہا الی الاٰن علی نجاستھا فانکانت القطرۃ التی قطرت اول مرۃ فی الماء من بقیۃ المضمضۃ الاولی یجب غسل کل مااصابہ ماء شیئ من الوضوءات ثلث مرات وانکانت من المضمضۃ الثانیۃ فمرتین اوالثالثۃ فمرۃ واحدۃ لان النجاسۃ تقبل التشکیک فقبل الغسل نجاسۃ لاتطھرالابتثلیث الغسل وبعد الغسل بمائع طاھر قالع مرۃ نجاسۃ تطھر بغسلتین تعد الغسل مرتین نجاسۃ تطہر بغسلۃ واحدۃ والماء المصیب شیئا نجسا انمایکتسب من النجاسۃ قدر مافی المصاب فماء الغسلۃ الا ولی نجس بالنجاسۃ الکاملۃ لایطھر مایصیبہ الابثلث غسلات وماء الغسلۃ الثانیۃ نجس بنجاسۃ تطھرھا غسلتان،فما یصیبہ یطھر بمرتین وفی ماء الثالثۃ نجاسۃ تطھر بغسلۃ فما اصابہ یطھر بمرۃ ھذا کلہ اذا تحقق وقوع القطرۃ فی الماء ومجرد بقاء شیئ من ماء المضمضۃ فی الید لایقضی بہ جزما لجواز ان لایقع مافیھا الاعلی الاناء من فوق فلا ینجس الاسطحہ الفوقانی اوفی الاناء فوق موضع الماء فلا تنجس الماء مالم یصبہ ر اکد او حنیئذ یطھرہ التوضی الثالث ان مرالماء کل مرۃ علی کل ما اصابہ الماء للمتنجس اذا تحقق وقوع القطرۃ فی الماء اول مرۃ لافی ھذہ المرات الثلث وان لم یتحقق حتی فی المرۃ الاولی فھوطا ھر من اول مرۃ کما لایخفی وقس علیہ واللّٰہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔


ہاں اس کا منہ ناپاک ہوگیا اور اس کے بعد تین کلیوں تک کلی کا پانی ناپاک ہے، یوں ہی وہ ہاتھ جس سے کلی کی تھی ،تو اگر ہاتھ کی بوند برتن میں یعنی اس کے اندر پانی میں تین کلیاں پوری ہونے سے پہلے ٹپکی تو برتن کا پانی ناپاک ہوگیا۔ اور اب اس سے کلی کرنا ہاتھ اور منہ کی نجاست ہی بڑھائے گا، پھر جب اس پانی سے وضو کیا تو اب تمام اعضائے وضو اور جس جس بدن یا کپڑے کو پانی پہنچا سب ناپاک ہوگئے اور جتنی بار ایسے پانی سے وضو کیا جس میں پیش از وضو ناپاک ہاتھ کی بوند گری وہ پانی ناپاک ہوگیا اور ناپاک پانی سے دھونا تو پاک کرے نہ ناپاکی کم ہو اگرچہ ہزار بار دھوئے تو اس کے اعضاء اور کپڑے سب اب تک نجس ہیں، پس اگر وہ قطرہ کہ پہلی بار پانی میں ٹپکا پہلی کلی کے بقیہ سے تھا جب تو کسی بارے میں وضو کا پانی جس چیز کو لگا اُسے تین بار دھونا واجب ہے، اور اگر دوسری کلی کا تھا تو دوبار، اور تیسری کا تو ایک بار، اس لیے کہ نجاست ف کم وبیش ہونے کی قابلیت رکھتی ہے، دھونے سے پہلے تو وہ نجاست ہے کہ بغیر تین بار دھوئے پاک نہ ہوگی ،اور جب کسی پاک بہتی چیز سے جو لگی ہوئی چیز کو چھڑانے والی ہے ایک بار دھولیں تو اب وہ نجاست ہے کہ دوبار دھونے سے پاک ہوگی ،اور جب دوبار دھولیا تو اب وہ نجاست ہے کہ ایک ہی بار دھونے سے پاک ہوجائیگی اور جو پانی کسی چیز سے ملے اس میں اسی قدر نجاست آئیگی جو اس چیز میں تھی، تو پہلی بار کا دھوون پوری نجاست سے نجس ہے کہ جسے یہ پانی لگے گا وہ بغیر تین دفعہ دھوئے پاک نہ ہوگی ،اور دوسرا دھوون اس نجاست سے نجس ہے جسے دوبارہ دھونا پاک کردے گا، تو جس چیز کو یہ دھوون لگے وہ دو دفعہ دھونے سے پاک ہوجائیگی ،اور تیسرے دھوون میں وہ ناپاکی ہے جو ایک ہی بار دھونے سے پاک ہوجائیگی تو یہ جس چیز پر پہنچے وہ ایک ہی بار دھونے سے طہارت حاصل کرلے گی، یہ سب اس وقت ہے کہ اس پانی میں بوند کا ٹپکنا تحقیق ہو، فقط اتنی بات کہ کلی کا کچھ پانی ہاتھ میں رہ جاتا ہے پانی میں قطرہ گرنے کو مستلزم نہیں، ممکن ہے کہ ہاتھ کی بوند برتن کے اوپر ف گری ہو تو صرف اس کی سطحِ بالا ناپاک ہوگی یا برتن کے اندر جہاں تک پانی ہے اُس جگہ سے اوپر گری ہوتو پانی ناپاک نہ ہوگا جب تک ٹھہرے ہونے کی حالت میں اس بوند کی جگہ سے نہ ملے،ولہذااگرصرف پہلی بار ناپاک بوند کاپانی میں گرنا تحقیق ہوا اور اسکے بعد جو تین وضو اور کیے ان میں خاص پانی میں گرنا تحقیق نہ ہو تو پچھلا وضو اسے ناپاک کر دے گا،اگر تینوں با رآب وضو اس تما م موضع پر گزرا ہو جو اس ناپاک پانی سے نجس ہوا تھا ،اوراگر پہلی ہی باراس بوند کا پانی میں گرنا تحقیق نہ ہو جب تو دوسرے سے پاک ہے کما لا یخفی اوراسی پر اور صورتیں قیاس کر لو۔ واللہ تعالی اعلم ۱۲

ف:مسئلہ نجاست کہ تین پانیوں سے دھوئی جاتی ہے ،پہلا پانی جس چیزکو لگے وہ تین با ر دھونے سے پاک ہوگی اور دوسراپانی لگے تو دوبار، اور تیسرا تو ایک ہی بار دھونے سے پاک ہی ہو جائے گی ۔


ف:مسئلہ ناپاک بوندیں برتن کے اوپر گریں اوراندر پانی ہے یا اندر ہی بوند گری مگر جہاں پانی تھا اس جگہ سے اوپر گری تو پانی ناپاک نہ ہو گا جب تک ٹھہرے ہوئے ہونے کی حالت میں اندرکی بوند پر نہ گزرے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے