مسئلہ ۲۳ : ۲۷ صفر ۱۳۰۵ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بقیہ آبِ وضو سے کہ برتن میں رہ جائے وضو جائز ہے یا نہیں اور اگر پہلا وضو کرنے میں کچھ پانی ہاتھ سے اُس میں گر پڑا تو کیا حکم ہے۔ بینّوا توجروا۔
الجواب :بقیہ(۱) آبِ وضو کہ برتن میں رہ جاتا ہے مائے مستعمل نہیں بلکہ وہ پانی ہے جو استعمال سے بچ رہا اُس سے وضو میں کوئی حرج نہیں اور مائے مستعمل(۲) اگر غیر مستعمل میں مل جائے تو مذہب صحیح میں اُس سے وضو جائز ہے جب تک مائے مستعمل غیر مستعمل سے زائد نہ ہوجائے اگرچہ مستعمل پانی دھار بندھ کر گراہو، اور بعض نے کہا اس صورت میں بھی مستعمل فاسد کردے گا اور وضو جائز نہ ہوگا اگرچہ غیر مستعمل زائد ہو مگر ترجیح مذہبِ اول کو ہے۔
فی فتاوی الخلاصۃ جنب اغتسل فانتقض من غسلہ شیئ فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل منہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قول محمّد لایفسدہ مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ من الطھوریۃ ۱؎
فتاوٰی خلاصہ میں ہے اگر جُنبی شخص کے جسم سے بوقتِ غسل کچھ چھینٹے برتن میں گر گئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، ہاں اگر باقاعدہ بَہہ کر پانی گرا تو ناپاک ہوگا اور حمام کے حوض کا بھی یہی حکم ہے اور امام محمد کا قول ہے کہ صرف اُسی وقت ناپاک ہوگا جب وہ پاک پانی پر غالب ہوجائے
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارت ۱/۸)
وفی الدر المختار یرفع الحدث بماء مطلق لابماء مغلوب بمستعمل بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطہیر بالکل والا لا علی ما حققہ فی البحر والنھر والمنح ۲؎ اھ۔ ملتقطا واللّٰہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
اور دُرِّمختار میں ہے کہ مطلق پانی سے حَدَث کو زائل کرے نہ کہ اُس پانی سے جس پر مستعمل پانی غالب ہو اگر مطلق پانی آدھے سے زائد ہو تو کل سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں، بحر، نہر اور منح میں یہی تحقیق ہے اھ ملتقطا۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار باب المیاہ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴)
0 تبصرے