Music

header ads

جنب کو کلام اللہ شریف کی پوری آیت پڑھنی ناجائز ہے یا آیت سے کم بھی Napaki ki Halat Me Quran Padhna

 مسئلہ ۲۲:        ۲۲ محرم الحرام    ۱۳۲۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جنب کو کلام اللہ شریف کی پوری آیت پڑھنی ناجائز ہے یا آیت سے کم بھی، مثلاً کسی کام کیلئے حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل یا کسی تکلیف پر انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون کہہ سکتا ہے کہ یہ پوری آیتیں نہیں آیتوں کے ٹکڑے ہیں یا اس قدر کی بھی اجازت نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

حمد المن انزل کتابہ وقدس جنابہ فحرم قراء تہ حال الجنابۃ والصلاۃ والسّلٰم علٰی من اٰتاہ خطابہ وطھر رحابہ وعلی الاٰل والصحابۃ وامۃ الاجابۃ۔ حمد ہے اسے جس نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس کی بارگاہ مقدس رکھی، کہ اس کی قرأت بحالتِ جنابت حرام فرمائی۔ اور درودوسلام ہو ان پر جنہیں اپنا کلام عطا کیا، اورجن کا صحن پاکیزہ رکھا، اور ان کے آل واصحاب اور امتِ اجابت پر بھی ۔ (ت)


اولا یہ معلوم فـــ رہے کہ قرآن عظیم کی وہ آیات جو ذکر وثنا ومناجات ودُعا ہوں اگرچہ پوری آیت ہو جیسے آیۃ الکرسی متعدد آیات کاملہ جیسے سورہ حشر شریف کی اخیر تین آیتیں ھو اللّٰہ الذی لاالٰہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ۱؎ سے آخر سورۃ تک ،بلکہ پوری سورت جیسے الحمد شریف بہ نیت ذکر ودعا بے نیت تلاوت پڑھنا جنب وحائض ونُفسا سب کو جائز ہے اسی لئے کھانے یا سبق کی ابتدا میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کہہ سکتے ہیں اگرچہ یہ ایک آیت مستقلہ ہے کہ اس سے مقصود تبرک واستفتاح ہوتا ہے، نہ تلاوت، تو حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل اور انّا اللّٰہ وانّا الیہ راجعون کہ کسی مہم یا مصیبت پر بہ نیت ذکر ودعا، نہ بہ نیت تلاوت قرآن پڑھے جاتے ہیں، اگرچہ پوری آیت بھی ہوتی تو مضائقہ نہ تھا جس طرح کسی چیز کے گُمنے پر عسٰی ربنا ان یبدلنا خیرا منھا انّا الی ربنا راغبون۲؎ کہنا ۔


فـــ:مسئلہ جو آیت پوری سورت خالص دعا وثنا ہو جنب و حائض بے نیت قرآن صرف دعا و ثنا کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں جیسے الحمد و آیۃ الکرسی۔


 (۱؎ القرآن الکریم ۵۹ /۲۲)  (۲؎ القرآن الکریم  ۶۸ /۳۲)


بحر میں ذکر مسائل ممانعت ہے: ھذا کلہ اذا قرأ علی قصد انہ قراٰن اما اذا قراہ علی قصد الثناء اوافتتاح امر لایمنع فی اصح الرویات وفی التسمیۃ اتفاق انہ لایمنع اذا کان علی قصد الثناء اوافتتاح امرکذا فی الخلاصۃ وفی العیون لابی اللیث ولو انہ قراء الفاتحۃ علی سبیل الدعاء اوشیئا من الایات التی فیہا معنی الدعاء ولم یرد بہ القراء ۃ فلا باس بہ اھ واختارہ الحلوانی وذکر غایۃ البیان انہ المختار۳؎۔


یہ سب اس وقت ہے جب بقصدِ قرآن پڑھے۔لیکن جب ثنایاکسی کام کے شروع کرنے کے ارادے سے پڑھے تواصح روایات میں ممانعت نہیں۔ اورتسمیہ کے بارے میں تواتفاق ہے کہ جب اسے ثنا  یا کسی کام کے شروع کرنے کے ارادے سے پڑھے توممانعت نہیں۔ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ امام ابو اللیث کی عیون المسائل میں ہے:اگر سورہ فاتحہ بطور دُعا پڑھی یا کوئی ایسی آیت پڑھی جو دُعا کے معنی پر مشتمل ہے اوراس سے تلاوتِ قرآن کاقصد نہیں رکھتاتوکوئی حرج نہیں اھ۔ اسی کو امام حلوانی نے اختیارکیا اورغایۃ البیان میں مذکور ہے کہ یہی مختار ہے۔(ت)


 (۳؎ البحر الرائق    کتاب الطہارۃ    باب الحیض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹)


ہاں آیۃ الکرسی یا سورہ فاتحہ اور ان کے مثل ایسی قراء ت کہ سننے والا جسے قرآن سمجھے اُن عوام کے سامنے جن کو اس کا جنب ہونا معلوم ہو بآواز بہ نیت ثنا ودعا بھی پڑھنا مناسب نہیں کہ کہیں وہ بحال جنابت تلاوت جائز نہ سمجھ لیں یا اس کا عدمِ جواز جانتے ہوں تو اس پر گناہ کی تہمت نہ رکھیں۔


وھذا معنی ما قال الامام الفقیہ ابو جعفر الھندوانی لاافتی بھذا وان روی عن ابی حنیفۃ ۱؎ اھ قالہ فی الفاتحۃ قال الشیخ اسمٰعیل بن عبدالغنی النابلسی والدالسید العارف عبدالغنی النابلسی فی حاشیۃ علی الدرر لم یرد الھند وانی رد ھذہ الروایۃ بل قال ذلک لما یتبادر الی ذھن من یسمعہ من الجنب من غیر اطلاع علی نیۃ قائلہ من جوازہ منہ وکم من قول صحیح لایفتی بہ خوفا من محذورا خر ولم یقل لااعمل بہ کیف وھو مروی عن ابی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی ۲؎ اھ


یہی اس کا معنی ہے جو امام فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے فرمایا کہ میں اس پر فتوٰی نہیں دیتا اگرچہ یہ امام ابو حنیفہ سے مروی ہے اھ۔یہ بات انہوں نے سورہ فاتحہ سے متعلق فرمائی۔شیخ اسمٰعیل بن عبدالغنی نابلسی ،سیدی العارف عبدالغنی نابلسی کے والد گرامی اپنے حاشیہ دررمیں فرماتے ہیں: امام ہندوانی کا مقصد اس روایت کی تردید نہیں، بلکہ یہ انہوں نے اس خیال سے فرمایاہے کہ جو اس جنابت والے کی نیت جانے بغیر اس سے سنے گاتو اس کاذہن اس طرف جائے گا کہ بحالتِ جنابت تلاوت جائز ہے۔


 (۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ،باب الحیض    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹

۲؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق    کتاب الطہارۃ،باب الحیض    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹)


اقول: وقید بالجھر وکونہ عند من یعلم من العوام انہ جنب لان المحذور انما یتوقع فیہ وھذا محمل حسن جدا وما بحث البحر تبعا للحلیۃ فسیأتی جوابہ وما احلی قول الشیخ اسمٰعیل انہ مروی عن الامام وکیف یرد ماقالت خدام۔


اوربہت ایسی صحیح باتیں ہوتی ہیں جن پر کسی اورخرابی کی وجہ سے فتوٰی نہیں دیا جاتا۔انہوں نے یہ نہ فرمایاکہ میں اس پر عمل نہیں کرتااوریہ کیسے ہوسکتاہے جب کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے اھ۔ 

اقول: میں نے بآواز بلندپڑھنے کی قید لگائی اوریہ کہ ان عوام کے سامنے جن کو اُس کاجنب ہونا معلوم ہواس لئے کہ خرابی کا اندیشہ اسی صورت میں ہے۔اوریہ کلامِ ابو جعفرکا بہت نفیس مطلب ہے۔ اور بحر نے بہ تبعیتِ حلیہ جو بحث کی ہے آگے اس کاجواب آرہا ہے ۔اورشیخ اسمٰعیل کا یہ جملہ کتنا شیریں ہے کہ یہ امام سے مروی ہے اورخدّام کا کلام اس کی تردید میں کیسے ہوسکتاہے؟


ثانیا آیت فــ  طویلہ کا پارہ کہ ایک آیت کے برابر ہو جس سے نماز میں فرض قراء ت مذہب سیدنا امام اعظم کی روایت مصححہ امام قدوری وامام زیلعی پر ادا ہوجائے جس کے پڑھنے والے کو عرفاً تالی قرآن کہیں جنب کو بہ نیت قرآن اُس سے ممانعت محل منازعت نہ ہونی چاہئے۔


فـــ:مسئلہ کسی آیت کا اتنا ٹکڑا کہ ایک چھوٹی آیت کے برابر ہو بہ نیت قرآن جنب و حائض کوبالاتفاع( بالاتفاق) ممنوع ہے۔


اقول: کیف وھو قرآن حقیقۃ وعرفا فیشملہ قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لایقرء الجنب ولا الحائض شیئامن القرآن رواہ الترمذی۱؎ وابن ماجۃ وحسنہ المنذری و صححہ النووی کما فی الحلیۃ۔


اقول: اس میں نزاع کیوں ہو؟ جب کہ یہ حقیقۃً وعرفاً قرآن ہے توسرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد قطعاً اسے شامل ہے: ''جنب اور حائض قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھیں'' اسے ترمذی وابن ماجہ نے روایت کیا،اور منذری نے اسے حسن اورامام نووی نے صحیح کہا، جیسا کہ حلیہ میں ہے۔


 (۱؎ سنن الترمذی    ابواب الطہارۃ،باب ماجاء فی الجنب والحائض،حدیث۱۳۱    دارلفکر بیروت    ۱ /۱۸۲)

سنن ابن ماجہ    ابواب الطہارۃ،باب ماجاء فی قراء ۃ القرآن  الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی      ص۴۴)


قطعاًکون کہہ سکتا ہے کہ آیہ مدانیت کے اول سے یا ایھا الذین اٰمنوا یا آخر سے لفظ علیم چھوڑ کر ایک صفحہ بھر سے زائد کلام اللہ بہ نیت کلام اللہ پڑھنے کی جُنب کو اجازت ہے ردالمحتار میں ہے: لوکانت طویلۃ کان بعضہا کاٰیۃ لانھا تعدل ثلث ایات ذکرہ فی الحلیۃ عن شرح الجامع لفخر الاسلام ۱؎ اھ آیت اگر طویل ہو تواس کا بعض حصہ ایک آیت کے حکم میں ہوگا اس لئے کہ پوری آیت تین آیتوں کے برابر ہے، اسے حلیہ میں فخرالاسلام کی شرح جامع صغیر کے حوالے سے ذکر کیا ہے اھ۔(ت)


 (۱؎ رد المحتار    کتاب الطہارۃ    دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۱۶

البحرالرائق    کتاب الطہارۃ،باب الحیض    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹)

اقول: ذھب قدس سرہ الی مصطلح الفقہاء ان الطویلۃ ھی التی یتأدی بھا واجب ضم السورۃ وھی التی تعدل ثلث ایات ولکن فـــ۱ ارادۃ ھذا المعنی غیرلازم ھھنا اذا لمناط کون المقروء قدرما یتأدی بہ فرض القراء ۃ عند الامام وھو الذی یعدل ایۃ فلو کانت اٰیۃ تعدل اٰیتین عدل نصفھا ایۃ فینبغی ان یدخل تحت النھی قطعا وقس علیہ۔


اقول:حضرت موصوف قدس سرہ  اصطلاحِ فقہاء کی طرف چلے گئے کہ لمبی آیت وہ ہے جس سے واجبِ نماز، ضمِّ سورہ کی ادائیگی ہوجائے اوریہ وہ ہے جو تین آیتوں کے برابر ہو۔ لیکن یہاں پر یہ معنی مراد لینا ضروری نہیں اس لئے کہ مدارِ حرمت اس پر ہے کہ جتنے حصے کی تلاوت ہو وہ اس قدر ہوجس سے حضرت امام کے نزدیک فرضِ قراء ت ادا ہوجاتا ہے اور یہ وہ ہے جو ایک آیت کے برابر ہو ۔توپوری آیت اگر دوآیتوں کے برابر ہے تو اس کا نصف ایک آیت کے برابر ہوگا تو اسے نہی کے تحت قطعاً داخل ہونا چاہئے۔ اورمزید اسی پر قیاس کرلو۔


فـــ۱:تطفل خویدم ذلیل علی خدام الامام الجلیل فخر الاسلام ثم الحلیۃ و ش


وکیف یستقیم فـــ۲ ان لایجوز تلاوۃ ثُلث ایۃ تعدل ثلٰث ایات لکونہ یعدل ایۃ ویجوز تلاوۃ ایۃ تعدل ایتین بترک حرف منھا مع انہ یقرب قدر اٰیتین فتبصر۔


اور یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ تین آیت کے مساوی ایک آیت کے تہائی حصّہ کی تلاوت جائز نہیں اس لئے کہ وہ ایک آیت کے برابر ہے۔ اور دو آیتوں کے مساوی ایک آیت کی تلاوت اس کا کوئی حرف چھوڑ کر جائز ہے؟ حالانکہ وہ تقریباً دوآیت کے برابر ہے۔ توبصیرت سے کام لو۔(ت)


فـــ۲:تطفل اٰخرعلیہم۔


ہاں جوفـــ  پارہ آیت ایسا قلیل ہو کہ عرفاً اُس کے پڑھنے کو قرأت قرآن نہ سمجھیں اُس سے فرض قراء ت یک آیت ادا نہ ہو اتنے کو بہ نیت قرآن پڑھنے میں اختلاف ہے امام کرخی منع فرماتے ہیں امام ملک العلماء نے بدائع اور امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر اور امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید اور امام عبدالرشید ولو لوالجی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصحیح فرمائی ہدایہ وکافی وغیرہما میں اسی کو قوت دی درمختار میں اسی کو مختار کہا حلیہ وبحر میں اسی کو ترجیح دی تحفہ وبدائع میں اسی کو قول عامہ مشایخ بتایا اور امام طحاوی اجازت دیتے ہیں خلاصہ کی فصل حادی عشر فی القراء ۃ میں اسی کی تصحیح کی امام فخر الاسلام نے شرح جامع صغیر اور امام رضی الدین۔ سرخسی نے محیط پھر محقق علی الاطلاق نے فتح میں اسی کی توجیہ کی اور زاہدی نے اس کو اکثر کی طرف نسبت کیا۔


فــ:مسئلہ صحیح یہ ہے کہ بہ نیت قرآن ایک حرف کی بھی جنب و حائض کو اجازت نہیں۔


غرض یہ دو قول مرجح ہیں:

اقول: اور اول یعنی ممانعت ہی بوجوہ اقوی ہے۔

اوّلا :اکثر تصحیحات اُسی طرف ہیں۔

ثانیا: اُس کے مصححین کی جلالت قدر جن میں امام فقیہ النفس جیسے اکابر ہیں جن کی نسبت تصریح ہے کہ اُن کی تصحیح سے عدول نہ کیا جائے۔

ثالثا: اُسی میں احتیاط زیادہ اور وہی قرآن عظیم کی تعظیم تام سے اقرب۔


رابعا: اکثر ائمہ اُسی طرف ہیں اور قاعدہ ہے کہ العمل بما علیہ الاکثر ۱؎  ( عمل اسی پرہوگا جس پر اکثر ہوں۔ ت) اور زاہدی کی نقل امام اجل علاء الدین صاحبِ تحفۃ الفقہاء وامام اجل ملک العلماء صاحبِ بدائع کی نقل کے معارض نہیں ہوسکتی۔


 (۱؎ رد المحتار    کتاب الطہارۃ،فصل فی البئر    دار احیاء التراث العربی بیروت        ۱ /۱۵۱)


خامسا :اطلاق احادیث بھی اُسی طرف ہے کہ فرمایا جنب وحائض قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔

سادسا:خاص جزئیہ کی تصریح میں امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کا ارشاد موجود کہ فرماتے ہیں:


اقرؤا القراٰن مالم یصب احدکم جنابۃ فان اصابہ فلا ولا حرفا واحدا۔رواہ الدار قطنی ۱؎ وقال ھو صحیح عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔


قرآن پڑھو جب تک تمہیں نہانے کی حاجت نہ ہواور جب حاجتِ غسل ہوتو قرآن کا ایک حرف بھی نہ پڑھو۔(اسے دارقطنی نے روایت کیااور کہا یہی صحیح ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ت)


 (۱؎سنن الدار قطنی    کتاب الطہارۃ،باب فی النہی للجنب والحائض،حدیث۴۱۸ /۶ دار المعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۳ و ۲۹۴)


سابعا: وہی ظاہر الروایۃ کا مفاد ہے امام قاضی خان شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: لم یفصل فی الکتاب بین الایۃ وما دونھا وھو الصحیح ۲؎ اھ امام محمد نے کتاب میں آیت اورآیت سے کم حصہ میں کوئی تفریق نہ رکھی اوریہی صحیح ہے اھ۔(ت)


 (۲؎ شرح الجامع الصغیرللامام قاضی خان)


بخلاف قولِ دوم کہ روایت نوادر ہے۔ رواھا ابن سماعۃ عن الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ کما ذکرہ الزاھدی۔ اسے ابن سماعہ نے حضرت امام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے جیساکہ زاہدی نے ذکر کیا ہے۔ (ت)

ثامنا :قوت دلیل بھی اسی طرف ہے تو اسی پر اعتماد واجب۔


ویظھر ذلک بالکلام علی مااستدلوا بہ للامام الطحاوی فاعلم انہ وجہہ رضی الدین فی محیطہ والامام فخر الاسلام فی شرح الجامع الصغیر بان النظم والمعنی یقصر فیما دون الایۃ ویجری مثلہ فی محاورات الناس وکلامھم فتمکنت فیہ شبھۃ عدم القران ولھذا لاتجوز الصّلٰوۃ بہ ۱؎ اھ


یہ ان دلیلوں پرکلام سے ظاہر ہوگا جن سے اُن مرجحین نے امام طحاوی کی حمایت میں استدلال کیا ہے۔ اب واضح ہوکہ محیط میں رضی الدین نے اور شرح جامع صغیرمیں امام فخرالاسلام نے مذہب امام طحاوی کی توجیہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ مادون الآیۃ(جو حصہ ایک آیت سے کم ہے اس) میں نظم ومعنی دونوں میں قصوروکمی ہے۔اوراس طرح کی عبارت لوگوں کی بول چال اور گفتگو میں بھی آتی رہتی ہے تواس میں عدم قرآن کاشبہہ جاگزیں ہو جاتاہے اور اسی لئے اتنے حصہ سے نمازجائز نہیں ہوتی اھ۔(ت)


 (۱؎ البحر الرائق بحوالہ المحیط    کتاب الطہارۃ،باب الحیض    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۱ /۱۱۹)

اقول اولا :لم فـــ  یصل فھمی القاصر الی قصور النظم والمعنی فیما دون الایۃ فبعض ایۃ ربما یکون جملۃ تامۃ مستقلۃ بالافادۃ کقولہ تعالی واصبر۲؎ وایۃ تامۃ لاتکون کذلک کقولہ تعالی اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح o۳؎ ھذا فی المعنی والنظم یتبعہ وان ارید التحدی فلیس الا بنحوا قصر سورۃ لابکل ایۃ ایۃ فابلغ ماوردبہ التحدی قولہ تعالی فاتوا بسورۃ من مثلہ۴؎۔


اقول اولا :مادون الایۃ میں نظم ومعنی کے قصور وکمی تک میرے فہم قاصر کی رسائی نہ ہوسکی۔ اس لئے کہ جزوآیت کبھی پورا جملہ اور افادہ معنٰی میں مستقل ہوتا ہے جیسے باری تعالٰی کاارشاد :واصبر(اورصبرکر)اورکبھی پوری آیت ایسی نہیں ہوتی جیسے ارشاد باری تعالٰی ہے:''جب خدا کی مدد فتح آئے''۔یہ گفتگومعنی سے متعلق ہوئی اور نظم اسی کے تابع ہے۔ اوراگر یہ مراد ہے کہ مادون الاٰیۃ سے مقابلے کا چیلنج نہیں تو چیلنج توصرف سب سے مختصر سورہ کے مثل سے ہے ہر ہر آیت سے نہیں کیوں کہ سب سے زیادہ مبالغہ کے ساتھ جو تحدّی(چیلنج) وارد ہے وہ یہ ارشادِ ربانی ہے:''تواس کے مثل کوئی سورہ لے آؤ''۔


فـــ:تطفل ثالث علی خدام الامام فخرالاسلام وعلی الامام رضی الدین السرخسی۔


 (۲؎ القرآن الکریم    ۱۱ /۱۱۵ ۳)  (؎ القرآن الکریم    ۱۱۰ /۱)  (

۴؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۳)


وثانیا:رب فـــ۱ایۃ تامۃ تجری الفاظھا علی الالسنۃ فی محاورات الناس کقولہ تعالی ثم نظر o۱؎  وقول تعالی لم یلد o۲؎ وقولہ تعالی ولم یولد  o۳ ؎ علی انھما ایتان وقولہ تعالی مدھامتان  o ۴؎۔


ثانیاً : بہت سی پوری آیتیں بھی ایسی ہیں جن کے الفاظ لوگوں کی بول چال میں زبانوں پر آتے رہتے ہیں جیسے ارشادِ باری تعالٰی :''ثم نظر'' پھر دیکھا۔اور ارشادِ حق تعالٰی:''لم یلد '' وہ والد نہیں۔ اوراس کا ارشاد: ''ولم یُولد'' اور وہ مولود نہیں۔ باوجود یکہ یہ دو آیتیں ہیں۔ اور اس کا ارشاد: ''مدھامّتان''۔


فـــ۱:تطفل رابع علیہ و ثان علی السرخسی۔


(۱؎ القرآن الکریم  ۷۴ /۲۱)   (۲؎ القرآن الکریم ۱۱۲ /۳) 

(۳؎ القرآن الکریم  ۱۱۲ /۳)  ( ۴؎ القرآن الکریم  ۵۵ /۶۴)


وثالثا: جریانہ فـــ۲ فی تحاور الناس انما یورث الشتباہ علی السامع انہ جری علی لسانہ وافق لفظہ نظم القراٰن اوقصد قراء ۃ القراٰن فتتمکن الشبھۃ عند السامع اما ھو فالانسان علی نفسہ بصیرۃ فاذا قصد التلاوۃ فلا معنی للاشتباہ عندہ وانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۵؎ والاشتباہ عندالسامع لاینفی مایعلمہ من نفسہ۔


ثالثا: لوگوں کی گفتگو میں اس کے جاری ہونے سے صرف سامع پر اشتباہ ہوتا ہے کہ بولنے والے کی زبان پر وہ عبارت یوں آگئی جس کے الفاظ نظم قرآن کے موافق ہوگئے یا اس نے قرآن پڑھنے کی نیت کی ہے،توسننے والے کے نزدیک شبہہ جاگزیں ہوجاتاہے۔رہا اس عبارت کوادا کرنے والا توانسان اپنے متعلق پوری طرح آشناہوتاہے اگر واقعی اس کی نیت تلاوت کی ہے تو اس کے نزدیک اشتباہ کا کوئی معنی نہیں۔''اور اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اورہرشخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی''۔اورسامع کا اشتباہ اُس علم کی نفی نہیں کرسکتا جو قاری کو خود اپنی ذات سے متعلق حاصل ہے۔


فـــ۲:تطفل خامس علیہ و ثالث علی السرخسی۔


 (۵؎ صحیح البخاری  باب کیف کان بدؤ الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم     قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱ /۲)


وکانہ لاجل ھذا عدل المحقق علی الاطلاق فی الفتح عن ھذا التقریر واقتصر علی ماحط علیہ کلامھما اخرا وھو عدم جواز الصلاۃ بہ حیث قال وجہہ ان مادون الایۃ لایعد بہ قارئا قال تعالی فاقرؤا ما تیسر من القراٰن کما قال صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لایقرأ الجنب القراٰن فکما لایعد قارئا بما دون الایۃ حتی لاتصح بھا الصّلوۃ کذا لایعدبھا قارئا فلا یحرم علی الجنب والحائض ۱؎ اھ


شاید اسی لئے محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اس تقریر سے ہٹ کر صرف اُس پر اکتفا کی جوصاحبِ محیط وامام فخر الاسلام کے آخرکلام میں واقع ہے وہ یہ کہ اس قدرسے نماز نہیں ہوتی۔حضرت محقق لکھتے ہیں: اس کی وجہ یہ ہے کہ مادون الاٰیۃ پڑھنے والے کو قراء ت کرنے والاشمار نہیں کیاجاتا۔باری تعالٰی کا ارشاد ہے:''توقرآن جو میسر آئے پڑھو''۔ جیسے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے:''جنابت والا قرآن کی قراء ت نہ کرے''۔ توجیسے وہاں مادون الاٰیۃ پڑھنے سے اس کو قراء ت کرنے والا شمار نہیں کیاجاتاکہ اتنے سے نماز درست نہیں ہوتی اسی طرح یہاں بھی اتنے حصے سے اس کوقراء ت کرنے والاشمار نہ کیاجائے گا تو اتنا پڑھنا جنب وحائض پر حرام نہ ہوگا اھ۔


 (۱؎ فتح القدیر    کتاب الطہارۃ،باب الحیض والاستحاضۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۱۴۸)


وردہ المحقق الحلبی فی الحلیۃ تبعا للامام النسفی فی الکافی باطلاق الحدیث من دون فصل بین قلیل وکثیر قالا وھو تعلیل فی مقابلۃ النص فیرد لان شیا نکرۃ فی موضع النفی فتعم وما دون الایۃ قراٰن فیمتنع کالایۃ ۱؎ اھ وتبعھما البحر ثم ش۔


اسے محقق حلبی نے حلیہ میں کافیِ امام نسفی کی تبعیت میں رَد کردیا کہ حدیث مطلق ہے اس میں قلیل وکثیر کا کوئی فرق نہیں۔یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں:یہ نص کے معاملہ میں تعلیل ہے اس لئے قابل قبول نہیں کیوں کہ حدیث  (لایقرأ الجنب والحائض شیئامن القراٰن) میں شیئامقام نفی میں نکرہ ہے اس لئے وہ عام ہوگا اور مادون الاٰیۃ بھی قرآن ہے تو اس کا پڑھنا بھی نا جائز ہوگاجیسے  پوری آیت کا پڑھنا اھ۔ اس تردید میں ان دونوں حضرات کی پیروی بحر پھر شامی نے بھی کی ہے۔


 (۱؎ البحر الرائق    کتاب الطہارۃ،باب الحیض    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹)


ورأیتنی علقت علیہ مانصہ۔اقولالمحقق فـــ لایقیس المسألۃ علی المسألۃ بل یرید ان الاحادیث انما حرمت علی الجنب قراء ۃ القران وقد علمنا ان قراء ۃ مادون الایۃ لاتعد قراء ۃ القران شرعا والا لجازت بہ الصلاۃ لان قولہ تعالی فاقرؤا ما تیسر من القراٰن قد فرض القراء ۃ من دون فصل بین قلیل وکثیر مع تاکید الاطلاق بما تیسر وحینئذ لاحجۃ لکم فی اطلاق الاحادیث فافھم اھ۲؎ ۔


میں نے دیکھااس پرمیں نے یہ حاشیہ لکھا: اقول حضرت محقق مسئلہ کا مسئلہ پرقیاس نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ احادیث نے جنب پر قراء تِ قرآن حرام کی ہے اورہمیں معلوم ہے کہ مادون الاٰیۃ(آیت سے کم حصہ)کو پڑھنا،شرعاً قراء تِ قرآن شمار نہیں ہوتا ورنہ اس سے نماز ہوجاتی۔اس لئے کہ ارشادِ باری تعالٰی فاقرؤا ماتیسر من القراٰن  (تو قراء ت کرو جو بھی قرآن سے میسر آئے)نے قراء ت فرض کی،جس میں قلیل وکثیر کاکوئی فرق نہیں، ساتھ ہی ماتیسّر(جو بھی میسر آئے) کے اطلاق کی تاکید بھی ہے،جب ایسا ہے تو اطلاقِ احادیث میں بھی تمہارے لئے حجّت نہیں ،تو اسے سمجھو۔


فــ:تطفل علی الحلیۃ والبحر و ش۔


 (۲؎ جد الممتار علی رد المحتار    کتاب الطہارۃ    المجمع الاسلامی مبارکپور ہند    ۱ /۱۱۷)


ثم لما قال الدر لوقصد التعلیم ولقن کلمۃ کلمۃ حل فی الاصح ۱؎ وکتب علیہ ش ھذا علی قول الکرخی وعلی قول الطحاوی تعلّم نصف ایۃ نہایۃ وغیرھا ونظر فیہ فی البحر بان الکرخی قال باستواء الایۃ وما دونھا فی المنع واجاب فی النھر بان مرادہ بما دونھما مابہ یسمی قارئا وبالتعلیم کلمۃ کلمۃ لایعد قارئا ۲؎ اھ۔


پھر درمختار کی عبارت ہے: اگر سکھانے کا قصد ہو اور ایک ایک کلمہ بول کر سکھائے توبرقولِ اصح جائز ہے۔ اس پر علامہ شامی نے لکھا:یہ حکم امام کرخی کے قول پر ہے۔اور امام طحاوی کے قول پر نصف آیت سکھائے۔ نہایہ وغیرہا۔اس پر بحرنے یہ کلام کیا کہ امام کرخی کے نزدیک آیت اور مادون الآیۃ یہ دونوں ہی عدمِ جواز میں برابر ہیں۔نہر میں اس کا یہ جواب دیا کہ مادون الآیۃ سے ان کی مراد اس قدر ہے جتنے سے اس کو قراء ت کرنے والا کہاجاسکے اور ایک ایک کلمہ سکھانے سے اس کو قراء ت کرنے والا شمارنہ کیا جائے گا اھ اھ۔


 (۱؎ الدرالمختار        کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۳

۲؎ رد المحتار        کتاب الطہارۃ    دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۱۶)


کتبت علیہ اقول ھذا فـــ یؤید کلام المحقق فانکم ایضا لم تنظروا ھھنا الی ان الاحادیث لم تفصل بین القلیل والکثیر وانما مفزعکم فیہ الی ان من قرأ کلمۃ لایعد قارئا مع ان تلک الکلمۃ ایضا بعض القران قطعا فکذلک ھم یقولون ان من قرأ مادون الایۃ لایعد قارئا ایضا والا لکان ممتثلا لقولہ تعالی فاقرؤا ماتیسر منہ ولزم جواز الصلاۃ بما دون الایۃ ۱؎ بالمعنی المذکور وھو خلاف مااجمعنا علیہ اھ۔


اس پر میں نے یہ حاشیہ لکھا: اقول اس سے کلام محقق کی تائید ہوتی ہے۔ اسی لئے کہ یہاں آپ حضرات کی نظر بھی اس طر ف نہیں کہ احادیث میں قلیل وکثیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں بلکہ یہاں آپ نے صرف اس کا سہارا لیا ہے کہ جس نے ایک کلمہ پڑھااسے قاری شمار نہیں کیاجاتاباوجودیکہ وہ کلمہ بھی قطعاً بعضِ قرآن ہے۔اسی طرح وہ حضرات بھی کہتے ہیں کہ جس نے مادون الآیہ پڑھا اسے بھی قراء ت کرنے والا شمار نہیں کیاجاتاورنہ وہ ارشادِ باری تعالٰی فاقرؤا ماتیسر منہ کی بجاآوری کرنے والا قرار پاتا اور مادون الآیہ بمعنی مذکورسے نماز کا جواز لازم ہوتا۔حالانکہ یہ ہمارے اور آپ کے اجماعی حکم کے برخلاف ہے اھ۔


فـــ:تطفل علی النھر و ش۔


 (۱؎جد الممتار علی رد المحتار    کتاب الطہارۃ    المجمع الاسلامی مبارکپور ہند    ۱ /۱۱۸)


ثم لما قال ش بقی ما لوکانت الکلمۃ ایۃ کصۤ وقۤ نقل نوح افندی عن بعضھم انہ ینبغی الجواز اقول وینبغی عدمہ فی مدھا متان تأمل۲؎ اھ۔


پھر علامہ شامی لکھتے ہیں:یہ صورت رہ گئی کہ اگر وہ کلمہ پوری ایک آیت ہوجیسے صۤ اور قۤ توکیا حکم ہے؟علامہ نوح آفندی نے بعض حضرات سے نقل کیاہے کہ جواز ہونا چاہئے۔میں کہتاہوں اور مدھامّتان میں عدمِ جواز چاہئے۔تأمل کرو اھ۔


 ( ۲؎ رد المحتار        کتاب الطہارۃ    دار احیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۱۶)

کتبت علیہ اقول فـــ و وجہہ علی ذلک ظاھر فانہ لایعد بھذا قارئا والا لجازت الصلوۃ بہ وبہ یظھر وجہ مابحث العلامۃ المحشی فی ''مدھامتان''فانہ تجوز بہ الصلاۃ عندالامام علی ما مشی علیہ ملک العلماء فی البدائع والامام الاسبیجابی فی شرح المختصر وشرح الجامع الصغیر من دون حکایۃ خلاف فیہ علی مذھب الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ وکل ذلک یؤید ماقدمنا فی تقریر کلام المحقق اھ ماعلقت علیہ


اس پر میں نے یہ حاشیہ لکھا:اقول اُس قول کی بنیاد پر اس کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ وہ اتنی مقدار پڑھنے سے قراء ت کرنے والا شمارنہ ہوگا ورنہ اس سے نماز جائز ہوتی۔اوراسی سے اس کی وجہ ظاہر ہوجاتی ہے جو علامہ شامی نے مدھامّتان میں بحث کی ہے کیوں کہ اس سے حضرت امام کے نزدیک نماز ہوجاتی ہے جیسا کہ اس پر بدائع میں ملک العلماء اور شرح مختصر وشرح جامع صغیر میں امام اسبیجابی گئے ہیں اور مذہب امام رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اس میں کسی خلاف کی کوئی حکایت بھی نہیں۔ان سب سے اُس بیان کی تائید ہوتی ہے جو ہم نے کلام محقق علیہ الرحمہ کی تقریر میں پیش کیا اھ میرا حاشیہ ختم ہوا۔


فـــ:معروضۃ اخرٰی علی العلامۃ ش۔


وھذاکلہ کلام معہم علی ماقرروا  انا اقول فــ  وباللّٰہ التوفیق انما توجہ ھذا علی کلام النھروش لانھما حملا مذھب الکرخی علی مااٰل بہ الی قول الطحاوی فانا اثبتنا عرش التحقیق ان مایعدبہ قارئا لایجوز وفاقا ولو بعض ایۃ وقد شھدبہ کلام اولئک الاعلام الثلٰثۃ الموجھین قول ابی جعفرکماسمعت وھذافخر الاسلام المختارقولہ مصرحابعدم جواز بعض ایۃ طویلۃ یکون کایۃ فان کان ابو الحسن ایضالایمنع الا مایعدبہ قارئا لم یبق الخلاف فالصحیح مانص علیہ فی الحلیۃ وتبعہ البحر ان منع الکرخی مبقی علی صرافۃ ارسالہ ومحوضۃ اطلاقہ بعد ان تکون القرأۃ بقصد القران وقد سمعت نص امیرالمؤمنین المرتضی رضی اللّٰہ تعالی عنہ ولا حرفاواحدا۔


یہ سب ان حضرات کی تقریرات کے مطابق ان کے ساتھ کلام تھا۔اور میں کہتاہوں۔وباللہ التوفیق۔یہ اعتراض نہروشامی کے کلام پرصرف اس لئے متوجہ ہواکہ ان حضرات نے مذہب امام کرخی کو ایسے معنی پر محمول کیا جس سے وہ امام طحاوی کے قول کی طرف راجع ہوگیا۔ہم نے تو قصر تحقیق کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ جتنے سے بھی اسے قرأت کرنے والا شمار کیاجائے اس کا پڑھنابالاتفاق جائز نہیں اگرچہ وہ بعضِ آیت ہی ہو۔اوراس پرامام ابو جعفر طحاوی کے قول کی توجیہ فرمانے والے اُن تینوں بزرگوں(فخر الاسلام، رضی الدین، حضرت محقق)کا کلام بھی شاہد ہے جیسا کہ ہم نے پیش کیا۔ امام طحاوی کاقول اختیار کرنے والے یہ فخر الاسلام ہیں جو اس بات کی تصریح فرمارہے ہیں کہ کسی لمبی آیت کا اتنا حصہ جو ایک آیت کی طرح ہو ،پڑھنا جائز نہیں۔تو اگر امام ابو الحسن کرخی بھی صرف اسی کو ناجائزکہتے ہیں جس سے اس کو قرأت کرنے والاشمار کیا جائے تب توکوئی اختلاف ہی نہیں رہ جاتا۔ توصحیح وہ ہے جس کی تصریح صاحبِ حلیہ نے فرمائی اوربحر نے ان کا اتباع کیا کہ امام کرخی کی ممانعت اپنے خالص اطلاق وعدم تقیید پر باقی ہے اس شرط کے ساتھ کہ قرأت بہ نیتِ قرآن ہو اور امیر المومنین علی المرتضےٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نص سُن چکے کہ بحالتِ جنابت ''ایک حرف بھی'' نہ پڑھو۔


فــ:تطفل آخرعلی النھروثالث علی ش


قال فی الحلیۃ المذکور فی النھایۃ وغیرھا اذا حاضت المعلمۃ فینبغی لہا ان تعلم الصبیان کلمۃ کلمۃ وتقطع بین کلمتین علی قول الکرخی وعلی قول الطحاوی تعلم نصف ایۃ انتھی، قال قلت وفی التفریع المذکور علی قول الکرخی نظر فانہ قائل باستوا الایۃ وما دونھا فی المنع اذا کان بقصد القران کما تقدم فھی حینئذعندہ ممنوعۃ من ذکر الکلمۃ بقصدالقران لصدق مادون الایۃ علیھاوھذا اذا لم تکن الکلمۃایۃفان کانت کمد ھامتان فالمنع اظھر فان قلت لعل مراد ھذا القائل التعلیم المذکور بنیۃ غیر قراء ۃ القران قلت ظاھران الکرخی حینئذ لیس بمشترط ان یکون ذلک کلمۃ بل یجیزہ ولواکثر من نصف ایۃ بعد ان لایکون ایۃ نعم لعل التقیید بالکلمۃ لکونہ الغالب فی التعلیم اولان الضرورۃ تندفع فلا حاجۃ الی فتح باب المزید علیہ ۱؎ اھ ۔


حلیہ میں کہا: نہایہ وغیرہا میں مذکور ہے کہ جب معلّمہ حائض ہو تو اسے چاہئے کہ بچوں کو ایک ایک کلمہ سکھائے اور دوکلموں کے درمیان فصل کردے،یہ حکم امام کرخی کے قول پر ہے۔اورامام طحاوی کے قول پر یہ ہے کہ نصف آیت سکھائے ،انتہی۔صاحبِ حلیہ لکھتے ہیں:میں کہتاہوں امام کرخی کے قول پر تفریع مذکور محلِ نظر ہے اس لئے کہ وہ اس کے قائل ہیں کہ آیت اورمادون الآیہ دونوں ہی کو بقصدِ قرآن پڑھنامنع ہے جیساکہ گزرا ، توان کے نزدیک حائضہ کو بہ قصدِ قرآن ایک کلمہ بھی زبان پرلانے سے ممانعت ہوگی اس لئے کہ مادون الآیہ اس پر بھی صادق ہے۔ یہ گفتگو اس صورت میں ہے جب کہ ایک کلمہ کامل آیت نہ ہو،اگرایسا ہوجیسے مدھامّتان oتو ممانعت اور زیادہ ظاہر ہے۔ اگر یہ سوال ہو کہ شاید اس قائل کی مراد یہ ہوکہ تعلیم مذکور قرأت قرآن کے علاوہ کسی اورنیت سے ہو۔تومیں کہوں گا ظاہرہے کہ ایسی صورت میں امام کرخی ایک کلمہ ہونے کی شرط نہیں رکھتے بلکہ اسے جائز کہتے ہیں اگرچہ نصف آیت سے زیادہ ہو،اس کے بعدکی پوری آیت نہ ہو۔ہاںایک ایک کلمہ کی قید شاید اس لئے ہو کہ سکھانے میں عموماًیہی ہوتاہے یا اس لئے کہ اتنے سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو اس سے زیادہ کا دروازہ کھولنے کی حاجت نہیں اھ۔


 (۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )


اقول: ولہ فــــ  ملمح ثالث مثل الاول اوحسن وھو ان المرکب من کلمتین ربما لاتجد فیہ نیۃ غیرالقران کقولہ تعالی  انا اللّٰہ ۲؎  وقولہ تعالی فاعبدنی۳؎ وقولہ تعالی عصٰی ادم ۴؎  فان من قالہ فی غیر التلاوۃ فقد غوٰی بخلاف المفردات القرانیۃ فلیس شیئ منھا بحیث یتعین للقرانیۃ ولا یصلح الدخول فی مجاری المحاورات الانسانیۃ فذکرماھو اعم واکفی ولا یحتاج الی ادراک المعنی ولا غائلۃ فیہ اصلا حتی للجہال لاسیما النساء المخدرات فی الجھال ۔


 اقول: اس کی ایک تیسری صورت بھی ہے جو اول کے مثل یا اس سے بھی خوب ترہے۔ وہ یہ کہ دو کلموں کے مرکب میں بارہاایسا ہوگا کہ غیر قرآن کی نیت ہی نہ ہو پائے گی جیسے ارشادِ باری تعالٰی: اَناَ اللہ(میں خدا ہوں) اور یہ ارشاد:فاعبد نی(تومیری عبادت کر) اوریہ فرمان: عصی اٰدم،کہ غیر تلاوت میں جو اس طرح کہے گمراہ ہوجائے،اور قرآنی مفردات میں سے کوئی ایسا نہیں کہ اس کا قرآن ہونا ہی متعین ہواور انسانی بول چال کے مقامات میں آنے کے قابل نہ ہوتووہ ذکرکیا جو زیادہ عام اور زیادہ کافی ہواور جس میں ادراک معنی کی حاجت نہ ہو اوراس میں کوئی خرابی نہیں یہاں تک کہ جُہّال خصوصاً پردہ نشین عورتوں کے لئے بھی۔


 (عــہ ) ذکرتہ مما شاۃ وسیاتی ان الوجہ عندی الثانی اھ منہ 

میری یہ روش ہم قدمی کے طورپرہے ورنہ آگے ذکرہوگاکہ میرے نزدیک باوجہ ثا نی ہے۱۲منہ(ت)


(۲؎القرآن الکریم    ۲۸/ ۳۰)  (۳؎القرآن الکریم    ۲۰/ ۱۴)

(۴؎القرآن الکریم    ۲۰/ ۱۲۱)


وھذا(ای افادہ فی الحلیۃ۱۲) کما تری کلام حسن من الحسن بمکان غیر انی اقول لاوجہ فــ لقولہ بعد ان لایکون ایۃ فان ماکان بنیۃ غیر القرآن لایتقید بما دون اٰیۃ کما تقدم وکل من ایۃ وما دونھما قد یصلح لنیۃ غیرہ وقدلا کایۃ الکرسی والابعاض التی تلونا فما صلح صح ولو ایۃ وما لافلا ولو دونھا۔


صاحبِ حلیہ نے جو افادہ کیا بہت عمدہ وباوقعت کلام ہے مگر یہ کہ میں کہتا ہوں ''اس کے بعد کہ پوری آیت نہ ہو'' یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لئے کہ جو غیر قرآن کی نیت سے ہو اس میں یہ قید نہیں کہ ایک آیت سے کم ہو،اور آیت ومادون الاٰیۃ ہر ایک کبھی غیر قرآن کی نیت کے قابل ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا، جیسے آیۃ الکرسی، اور وہ بعض ٹکڑے جو ہم نے تلاوت کئے۔ تو جو غیر قرآن کی نیت کے قابل ہوجائے اس کا پڑھنا صحیح ہے اگرچہ ایک آیت ہو اور جوایسانہ ہو اسے پڑھنا درست نہیں اگرچہ ایک آیت سے کم ہو۔


فــ:تطفل علی الحلیۃ۔


وما بحث فی الفاتحۃ وعدم تغیرھا بنیۃ الثناء والدعاء ان الخصوصیۃ القرانیۃ لازمۃ لہا قطعا کیف لاوھو معجزیقع بہ التحدی فلا یجری فی کل ایۃ کما لایخفی فلا ادری ما الحامل لہ علی التقیید بھا مع انہ ھو الناقل فـــ۱عن الخلاصۃ معتمدا علیہ جواز مثل ثم نظر ولم یولد ثم بحثہ فی مثل الفاتحۃ وان کان لہ تماسک فما کان لبحث ان یقضی علی النص۔


 اور صاحبِ حلیہ نے سورہ فاتحہ سے متعلق جو بحث کی ہے اور کہا ہے کہ ثنا ودُعا کی نیت سے اس میں تغیر نہیں ہوتا اس لئے کہ خصوصیت قرآنیہ اسے قطعاً لازم ہے۔کیوں کہ نہ ہو جب کہ یہ وہ قدر مُعجز ہے جس سے تحدی واقع ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بحث ہر آیت میں جاری نہیں ہوتی تو پتہ نہیں کہ آیت کی قید لگانے پر ان کے لئے باعث کیا ہے(یعنی ان کے اس قول میں: اس کے بعد کہ پوری آیت نہ ہو) باجودیکہ خلاصہ سے انہوں نے اعتماد کے ساتھ خود ہی نقل کیا ہے کہ ثم نظر اورلم یولد کے مثل میں جواز ہے۔پھر سورہ فاتحہ کے مثل میں ان کی بحث کواگر کچھ سہارا بھی مل جائے تو بھی کوئی بحث ، نص کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتی۔


فـــ۱:تطفل آخرعلیہا۔


 ثم ماذکرہ فــ۲ھھنا سؤالا وتر جیا ان مراد الکرخی فی التعلیم مااذا نوی غیر القران قدجزم بہ من قبل قائلا ینبغی ان یشترط فیہ (ای فی التعلیم) ایضا عدم نیۃ القران لما سنذکرہ عن قریب معنی واثرا ۱؎ اھ وقال عند قول الماتن لایکرہ التھجی بالقران والتعلیم للصبیان حرفا حرفا ھذا فیما یظھر اذا لم ینوبہ القران اما اذا نواہ بہ فانہ یکرہ ۲؎ اھ۔


پھر یہاں سوال اورشاید کے طورپر جوبات ذکر کی ہے کہ''تعلیم میں امام کرخی کی مراد غیر قرآن کا قصد ہونے کی صورت میں ہے'' اس کو اس سے پہلے بطورجزم بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ تعلیم میں بھی نیتِ قرآن نہ ہوناچاہئے اس کی وجہ ہم معنٰی واثر کے لحاظ سے آگے بیان کریں گے اھ۔ ماتن کی عبارت تھی:''قرآن کی تہجی اور بچوں کوایک ایک حرف سکھانا مکروہ نہیں''اس پر حلیہ میں لکھا: بظاہر یہ حکم اسی صورت میںہے جب نیتِ قرآن نہ ہو اور اگر اس سے قرآن کی نیت ہو تومکروہ ہے اھ۔


فــ:مسئلہ تعلیم کی نیت سے قرآن مجیدقرآن ہی رہے گاصرف اتنی نیت جنب وحائض کوکافی نہیں ۔


 (۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃالمصلی 

۲؂ حلیۃالمحلی شرح منیۃالمصلی)

اقول وھذا ھو الحق الناصع فمجرد نیۃ التعلیم غیر مغیر فما تعلیم شیئ الاالقاؤہ علی غیرہ لیحصل لہ العلم بہ فاذا قرأ ونوی تعلیم القراٰن فقد اراد قراء ۃ القران لیلقیہ ویلقنہ فنیۃ التعلیم لایغیرہ بل یقررہ فما وقع فـــ۱فی الدرالمختار من عدہ نیۃ التعلیم فی نیات غیر القراٰن لیس فی محلہ فلیتنبہ۔


اقول یہی بے داغ، خالص حق ہے۔ توصرف نیت تعلیم سے کوئی تغیر نہیں ہوتاکیوں کہ کسی شے کی تعلیم یہی ہے کہ اس شے کو دوسرے کے سامنے اس لئے پیش کرے کہ اسے اس کا علم حاصل ہوجائے۔تو جب اس نے پڑھا اور تعلیم قرآن کی نیت کی تو یہ متحقق ہوگیا کہ دوسرے کو بتانے سکھانے کے لئے اس نے قرآن پڑھنے کا قصد کیا۔تو نیتِ تعلیم سے نیتِ قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کی اور تائید و تاکید ہوتی ہے۔ تو درمختار میں نیتِ تعلیم کو غیر قرآن کی نیتوں میں شمار کرانا بے جاہے، اس پر متنبّہ رہنا چاہئے۔


فــ۱:تطفل عل الدرالمختار۔


فانقلت نیۃ التعلیم ان لم تکن مغیرۃ فما بال فتح المصلی علی غیر امامہ یفسد صلاتہ وما ھو الا التعلیم وقراء ۃ القراٰن لاتفسد الصلاۃ قلت لیس الفساد لان القراٰن تغیر بنیۃ الفتح بل لان الفتح فـــ۲علی غیر الامام لیس من اعمال الصلاۃ وھو عمل کثیر فیفسد الا تری فــ۳ان المصلی ان قیل لہ اقرا ایۃ کذا فقرأ امتثالا لامرہ فسدت صلاتہ مع انہ لم یقرأ الا القراٰن۔


اگر سوال ہو کہ جب نیتِ تعلیم سے کوئی تغیّر نہیں ہوتا توکیا وجہ ہے کہ نمازی اگر اپنے امام کے علاوہ کسی اور کو لقمہ دے دے تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے حالانکہ وہ بھی تعلیم ہی ہے اور قرأتِ قرآن مفسدِ نماز نہیں،میں کہوں گا فسادِ نماز کا سبب یہ نہیں ہے کہ لقمہ دینے کی نیت سے قرآن میں تغیر ہوگیابلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ غیر امام کو لقمہ دینا اعمالِ نماز میں نہیں اوریہ عمل کثیرہے اس لےے نماز کو فاسد کردے گا۔دیکھو اگر مصلّی سے کہا جائے فلاں آیت پڑھو،اس نے اس کے حکم کی بجا آوری کے لئے پڑھاتو اس کی نماز فاسد ہوگئی باوجودیکہ اس نے قرآن ہی پڑھا۔ وباللہ التوفیق۔


فــ۲:مسئلہ نمازی اگراپنے امام کے سواکسی کوقرآن مجید میں لقمہ دے گانمازجاتی رہے گی 

فــ۳:مسئلہ نمازی نمازمیں ہے اس وقت کسی نے کہافلاں آیت یاسورت پڑھ۔اس نے اس کاکہاماننے کی نیت سے پڑھی نمازجاتی رہے گی۔


وباللّٰہ التوفیق بقی الکلام علی توجیہ الامام ابن الھمام وما ذکرنا لہ من تقریر المرام فلنعم الجواب عنہ ما نقلہ فی الحلیۃ بعد الجواب الاول المذکور اذقال مع انہ قداجیب ایضا بالاخذ بالاحتیاط فیھما وھو عدم الجواز فی الصلاۃ والمنع للجنب ۱؎ اھ۔


اب اس پر کلام رہ گیا جو امام ابن الہمام نے توجیہ کی اورہم نے جو ان کے مقصد کی تقریر کی تواس کا بہت عمدہ جواب وہ ہے جو حلیہ میں مذکورہ جواب اول کے بعدنقل کیا وہ لکھتے ہیں: باجودیکہ یہ جواب بھی دیاگیا ہے کہ دونوں میں احتیاط  پر عمل ہے وہ یہ کہ نماز میں عدم جواز ہے اورجنب کے لئے پڑھنے کی ممانعت ہے اھ۔


 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )


اقول تقریرہ ان الامام وصاحبیہ رضی اللّٰہ تعالی عنھم اختلفوا فی فرض القراء ۃ فقالا ثلٰث قصاراوایۃ طویلۃ ای مایعدل ثلٰثا لانہ لایسمی فی العرف قارئا بدونہ وقال بل ایۃ ای اذا لم تکن مما یجری فی تحاور الناس ویشبہ تکلمھم فیما بینھم کثم نظر فانھا اذا کانت کذلک عدقارئا عرفا بخلاف مادون الایۃ بالمعنی الذی اعطینا من قبل فھو وان کان بہ قارئا حقیقۃ لایعد قارئا عرفا فتطرقت الشبھۃ فی براء ۃ الذمۃ من قبل العرف ھکذا قررہ ھذا المحقق نفسہ وقال قولہ تعالی ماتیسر مقتضاہ الجواز بدون الایۃ وھو قول ابن عباس فانہ قال اقرأ ماتیسر معک من القران ولیس شیئ من القران بقلیل الا ان مادون الایۃ خارج من النص اذا المطلق ینصرف الی الکامل فی الماھیۃ ولا یجزم بکونہ قارئا عرفا بہ فلم یخرج عن عہدۃ مالزمہ بیقین اذلم یجزم بکونہ من افرادہ فلم تبرء بہ الذمۃ خصوصا والموضع موضع الاحتیاط بخلاف الایۃ اذیطلق علیہ قارئا بھا فالخلاف (ای بین الامام وصاحبیہ) مبنی علی الخلاف فی قیام العرف فی عدہ قارئا بالقصیرۃ قالا لاوھو یمنع وفی الاسراف ماقالاہ احتیاط فان قولہ لم یلد ثم نظر لایتعارف قرانا وھو قران حقیقۃ فمن حیث الحقیقۃ حرم علی الحائض والجنب ومن حیث العرف لم تجز الصلاۃ بہ احتیاطا فیھما ۱؎ اھ مختصرا


اقول اس کی تقریر یہ ہے کہ حضرت امام اور صاحبین رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان فرض قرأت کی مقدار میں اختلاف ہے صاحبین نے فرمایا تین چھوٹی آیتوں یا تین آیتوں کے برابر، ایک لمبی آیت کی قرأت فرض ہے اس لئے کہ عرف میں اس کے بغیر اسے قرأت کرنے والانہیں کہاجاتا اورامام نے فرمایا بلکہ ایک آیت پڑھنا فرض ہے جب کہ وہ اس میں سے نہ ہو جو لوگوں کی بول چال میں جاری ہے اورجو اُن کی باہمی گفتگوکے مشابہ ہے جیسے''ثم نظر''۔ کیوں کہ جب اس شرط کے ساتھ کوئی آیت پڑھے گاتو عرفاً اسے قرأت کرنے والا شمار کیا جائے گا بخلاف اس کے جو ایک آیت سے کم ہو اسی معنی میں جوہم نے پہلے بیان کیا۔ تو وہ اس کی وجہ سے اگرچہ حقیقۃً قرأت کرنے والا ہے مگر عرفاً اسے قرأت کرنے والا شمار نہیں کیا جاتا۔توعرف کی جہت سے اس کے بری الذمّہ ہونے میں شُبہہ راہ پاگیا۔اسی طرح اس کی خود محقق حلبی نے تقریر کی ہے اورفرمایا ہے کہ باری تعالٰی کے ارشاد ماتیسّر کا تقاضا یہ ہے کہ مادون الآیہ سے بھی نماز ہوجائے اوریہی حضرت ابن عباس کا قول ہے انہوں نے فرمایا تمہیں قرآن سے جو بھی میسر آئے پڑھو اور قرآن میں سے کچھ بھی قلیل نہیں۔مگر یہ ہے کہ مادون الآیہ نص سے خارج ہے اس لئے کہ مطلق اسی کی طرف پھرتا ہے جو ماہیت میں کامل ہو اور مادون الآیہ سے اس کوعرفاً قرأت کرنے والا شمار نہیں کیاجاتا تواس پر جو لازم ہوا اس سے وہ یقینی طور پر عہدہ بر آنہ ہوا، اس لئے کہ اس پر جزم نہ ہوا کہ یہ مقدار، قدر لازم کے افراد سے ہے تواتنے سے وہ بری الذمہ نہ ہوا، خصوصاً جب کہ یہ مقام احتیاط ہے بخلاف کامل آیت کے، کہ اسے پڑھنے کی وجہ سے اس پر قرأت کرنے والے کا اطلاق ہوتاہے۔(توحضرت امام اور صاحبین کے درمیان) اختلاف کی بنیاد اس پر ہے کہ چھوٹی آیت پڑھنے سے عرفاً اسے قرأت کرنے والاشمار کیا جاتا ہے یا نہیں ؟ صاحبین نے فرمایا: نہیں، اورامام نے فرمایا:ہاں۔ اوراسرار میں ہے کہ قولِ صاحبین میں احتیاط ہے اس لئے کہ ارشادِ باری لم یلد۔اور۔ثم نظر۔بطور قرآن متعارف نہیں اور درحقیقت یہ قرآن ہے ۔ تو حقیقت کا اعتبارکرکے حائض و جنب پراس کی قرأت حرام رکھی گئی اورعرف کا لحاظ کرکے ہم نے اس سے نماز جائز نہ کہی، تاکہ دونوں مسئلوں میں ہمارا عمل احتیاط پررہے اھ مختصراً۔


 (۱؎ فتح القدیر        کتاب الصلٰوۃفصل فی القرأۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۲۹۰)


فعدم تناول الاطلاق مادون الایۃ فی قولہ تعالی فاقرؤاماتیسر من القراٰن ۲؎ لایستلزم عدم تناولہ لہ فی قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لایقرء الجنب ولا الحائض شیئا من القران۳؎ بل قضیۃ الدلیل ھو التناول ھھنا والخروج ثمہ۔


تو باری تعالٰی کے ارشاد : فاقر ء واما تیسرمن القراٰن میں مادون الآیہ کو اطلاق کاشامل نہ ہونا اسے مستلزم نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد لایقرأ الجنب و لا الحائض شیئا من القراٰن  (جنب اورحائض قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھیں) میں بھی اطلاق اسے شامل نہ ہو بلکہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں شامل ہو اور وہاں شامل نہ ہو۔


 (۲؎ القرآن الکریم     ۷۳ /۲۰

۳؎سنن الترمذی     ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الجنب والحائض الخ حدیث ۱۳۱    دارالفکربیروت    ۱ /۱۸۲

سنن ابن ماجہ     باب ماجاء فی قراء ۃ القرآن علی غیرالطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۴۴)


ثم اقول لایخفی فــ علیک ان لوبنی الامر ھھنا علی مایعد بہ قارئا عرفا لزم ان یحل عند الصاحبین للجنب واختیہ قراء ۃ مادون ثلٰث ایات بنیۃ القراٰن ولا قائل بہ فتحقق ان قول الکرخی ھو الارجح روایۃ ودرایۃ والحمدللّٰہ ولی الھدایۃ۔


    ثم اقول مخفی نہیں کہ اگر''یہاں''(مسئلہ جنب میں) بنائے کاراس پر ہوتی جس کی وجہ سے اس کو عرفاً قرأت کرنے والا شمار کیاجائے تولازم تھاکہ صاحبین کے نزدیک جنب اورحیض ونفاس والی کے لئے تین آیت سے کم بہ نیتِ قرآن پڑھنا جائز ہو۔حالانکہ کوئی اس کا قائل نہیں۔تو ثابت ہواکہ امام کرخی ہی کا قول روایت ودرایت دونوں لحاظ سے ارجح ہے ، اورساری حمدخدا کے لئے ہے جو ہدایت کا مالک ہے۔


فــ:تطفل علی الفتح ۔


ولکن العجب من المحقق الحلبی کتبت ھذا ثم رأیت فی غنیتہ مال الی ماقلت ان لاقائل بہ حیث قال وینبغی ان تقید الایۃ بالقصیرۃ التی لیس مادونھا مقدار ثلٰث ایات قصار فانہ اذا قرأ مقدار سورۃ الکوثر یعد قارئاوان کان دون ایۃ حتی جازت بہ الصلاۃ واماما علی وجہ الدعاء والثناء فلانہ لیس بقران لانہ الاعمال بالنیات والالفاظ محتملۃ فتعتبر النیۃ ولذا لوقرأ ذلک فی الصّلاۃ بنیۃ الدعاء والثناء لاتصح بہ الصلاۃ ۱؎ اھ۔


لیکن محقق حلبی (صاحبِ غنیہ) پر تعجب ہے کہ وہ اس طرف مائل ہیں جس کے بارے میں میں نے کہاکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔ مذکورہ بالا سطور لکھنے کے بعد میں نے غنیہ میں دیکھا کہ وہ لکھتے ہیں:آیت کے ساتھ یہ قیدہونی چاہئے کہ ایسی چھوٹی آیت جس سے ذرا کم ہو تووہ آیت تین چھوٹی آیتوں کے بقدر نہ ہواس لئے کہ جب وہ سورہ کوثر کے بقدر پڑھے اگرچہ وہ ایک آیت سے کم ہی ہوتو اس کی وجہ سے وہ قرأت کرنے والا شمار ہوگایہاں تک کہ اس سے اس کی نماز ہوجائے گی۔ لیکن جو دُعا اورثنا کے طور پرہو تووہ قرآن نہیں اس لئے کہ اعمال کا مدارنیتوں پرہے اورالفاظ میں احتمال ہوتاہے تو نیت کا اعتبار ہوا۔ اسی لئے اگراسے نماز میں بہ نیتِ دُعا وثنا پڑھا تو نماز درست نہ ہوگی اھ۔


 (۱؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی    بحث قرأۃ القرآن للجنب    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۵۷)

اقول اولا فـــ: وقع بحثہ علی خلاف المنصوص فی شرح الجامع الصغیر للامام فخرالاسلام فانہ اعتبرکون بعضھا کایۃ لاکثلٰث کما تقدم ۔


اقول اولا: ان کی بحث اس کے خلاف واقع ہے جو امام فخر الاسلام کی شرح جامع صغیر میں منصوص ہے اس لئے کہ انہوں نے لمبی آیت کے بعض کو ایک آیت کے مثل شمار کیاہے تین آیت کے مثل نہیں جیساکہ گزرا۔


فـــ:تطفل علی الغنیۃ ۔


    وثانیا: عدل فــ۱عن قول الامام الی قولھما فی افتراض ثلث فان راعی الاحتیاط لمامرعن الاسراران ماقالہ احتیاط لمامر عن الاسرار نفسہا ان ذلک فی الصّلاۃ اما فی مسألۃ الجنب فالاحتیاط فی المنع وقد نقلہ ھکذا فی الغنیۃ۔


    ثانیا: قول امام سے عدول کرکے تین آیت کی فرضیت میں قول صاحبین کی طرف آگئے۔ اگراس میں انہوں نے احتیاط کی رعایت کی ہے کیوں کہ اسرار کے حوالہ سے گزرا کہ قولِ صاحبین میں احتیاط ہے توخود اسرار ہی کے حوالہ سے یہ بھی گزرا کہ یہ نماز کے بارے میں ہے اور مسئلہ جنب میں احتیاط ممانعت میں ہے۔ اسے اسی طرح غنیہ میں نقل بھی کیا ہے۔


وثالثا:ماذکر فـــ۲من عدم الاجزاء فــ۳اذا قرأ فی الصلاۃ بنیۃ الثناء خلاف المنصوص ایضا ففی البحر عن التوشیح عن الامام الخاصی اذا قرأ الفاتحۃ فی الاولیین بنیۃ الدعاء نصوا علی انھا مجزئۃ ۱؎ اھ


ثالثا :نماز میں قرأت بہ نیتِ ثنا ہوتونماز نہ ہوگی ،یہ مسئلہ انہوں نے منصوص کے برخلا ف ذکرکیا کیوں کہ بحر میں امام خاصی کی تو شیح سے منقول ہے کہ جب پہلی دونوں رکعتوں میں سورہئ فاتحہ کی قرأت بہ نیتِ دُعا کرے تو علماء نے نص فرمایاہے کہ اس سے نماز ہوجائے گی اھ۔


فــ۲:تطفل ثالث علیھما۔

فــ۳:مسئلہ نماز میں سورۃفاتحہ یاسورت پڑھی اورقراء ت کی نیت نہ کی دعاوثناکی نیت کی جب بھی نمازہوجائے گی ۔


 (۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ باب الحیض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۰۰)


وعن التجنیس اذا قرأفی الصلاۃ فاتحۃ الکتاب علی قصد الثناء جازت صلاتہ لانہ وجدت القراء ۃ فی محلھا فلا یتغیر حکمھا بقصد ۲؎ اھ ومثلہ فی الدر نعم نقل فی البحر عن القنیۃ انھا ذکرت فیہ خلافا ورقمت لشرح شمس الائمۃ انھا لاتنوب عن القراء ۃ ۱؎ وانت تعلم ان القنیۃ لاتعارض المعتمدات والزاھدی غیر موثوق بہ فی نقلہ ایضا کما نصوا علیہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اور تجنیس سے نقل ہے کہ جب نماز میں بہ نیتِ ثنا فاتحۃ الکتاب کی قرأت کرے تونماز جائز ہے اس لئے کہ قرأت اپنے محل میں پائی گئی تونیت سے اس کا حکم نہ بدلے گا اھ۔ اسی کے مثل درمختار میں بھی ہے۔ہاں بحر میں قنیہ سے نقل کیاہے کہ اس نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیاہے اورشرح شمس الائمہ کا نشان(رمز) دےکر لکھا ہے کہ وہ قرأت کی جگہ کافی نہ ہو سکے گی اھ۔اورمعلوم ہے کہ قنیہ کتب معتمدہ کے مقابلہ میں نہیں آسکتی اور زاہدی نقل میں بھی ثقہ نہیں جیساکہ علماء نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔اور خدائے برتر ہی کو خوب علم ہے۔


 (۲؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ باب الحیض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۰۰

۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ باب الحیض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۰۰)


تنبیہ۱ :عیون امام فقیہ ابو اللیث کی عبارت کہ صدر کلام میں گزری جس میں فرمایا تھاکہ فاتحہ وغیرہاآیات دعا بہ نیت دعا پڑھنے میں حرج نہیں نہرالفائق میں اُس سے یہ استنباط فرمایا کہ یہ حکم صرف اُنہی آیات سے خاص ہے جن میں معنی دُعا وثنا ہوں ورنہ مثلاً سورہ لہب وغیرہااگربنیت غیر قرآن پڑھے تو ظاہر اً روا نہ ہونا چاہئے۔


حیث قال ظاھر التقیید بالایات التی فیھا معنی الدعاء یفھم ان مالیس کذلک کسورۃ ابی لھب لایؤثر فیھا قصد غیرالقرانیۃ لم ار التصریح بہ فی کلامھم ۲؎۔


ان کے الفاظ یہ ہیں:آیات میں معنی دُعا ہونے کی قید سے بظاہر یہی مفہوم ہوتاہے کہ جوآیات ایسی نہ ہوں۔جیسے سورہ ابی لہب۔اس میں غیر قرآن کی نیت اثر انداز نہ ہوگی مگر اس کی تصریح کلامِ علماء میں میری نظر سے نہ گزری۔(ت)


 (۲؎النہرالفائق شرح کنز الدقائق    کتاب الطہارۃباب الحیض    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۳۳)


علّامہ شامی نے منحۃ الخالق وردالمحتار میں اس کی تائید فرمائی کہ: قد صرحوا ان مفاھیم الکتب حجۃ ۳؎ اھ ولفظ المنحۃ المفہوم معتبر مالم یصرح بخلافہ ۴؎ اھ


علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ کتابوں میں مفہوم معتبر ہوتا ہے اھ۔ منحۃ الخالق کے الفاظ یہ ہیں: مفہوم کا اعتبار ہوتا ہے جب تک اس کے خلاف کی تصریح نہ ہو۔(ت)


 (۳؎ ردالمحتار          کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۱۶

۴؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق    کتاب الطہارۃ باب الحیض    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹)


اقول اولا :خلاصہ فــ  وبزازیہ وبحر میں ہے: وھذا لفظ الوجیز ا ما اذا قصد الثناء اوافتتاح امر فلا فی الصحیح ۱؎۔ اور یہ وجیز کے الفاظ ہیں: لیکن جب ثناء یاکوئی کام شروع کرنے کی نیت سے پڑھے تو صحیح قول پر ممانعت نہیں۔(ت)


فـــ:تطفل علی النھر و ش۔


 (۱؎الفتاوی البزازیہ علی ہامش الفتاوی الہندیہ     کتاب الصلوۃ الفصل الحادی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۴۱)


درمختار میں ہے: فلو قصد الدعاء اوالثناء اوافتتاح امرحل ۲؎۔ اگر دُعا یاثناء یا کسی کام کے شروع کرنے کی نیت ہوتو جائز ہے۔(ت)


 (۲؎الدرالمختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۳۳)


یہاں تو کہہ سکتے ہیں کہ بعد تنقیح افتتاح کا حاصل دعا وثنا سے جُدا نہ ہوگا مگر خلاصہ وحلیہ وبحر میں ہے: وحرمۃ قراء ۃ القراٰن (ای من احکام الحیض) الا اذا کانت ایۃ قصیرۃ تجری علی اللسان عندا لکلام کقولہ ثم نظر اولم یولد ۳؎ اھ  (احکامِ حیض میں سے)قرأت قرآن کی حرمت بھی ہے مگر جب ایسی چھوٹی آیت ہوجو بول چال میں زبان پر آتی رہتی ہے جیسے ارشاد باری تعالٰی: ثم نظر۔یا۔ولم یولد۔(ت)


 (۳؎ خلاصۃ الفتاوٰی    کتاب الحیض    الفصل الاول     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۲۳۰)


یعنی جبکہ قرأت قرآن کی نیت نہ ہو اور اپنے کلام میں پوری آیت سے موافقت واقع ہوجائے مثلاً زید کی حکایت حال میں کہا: ثم نظر زید  (پھر زید نے نظر کی۔ ت) یا کسی ہندہ کے حمل کو پوچھا کہ پیدا ہوا؟کہا ماوضع ولم یولد بعد  (نہیں پیدا کیا اور لم یولد بعد میں کہا۔ ت) تو اس میں حرج نہیں اگرچہ ثم نظر بالاتفاق اور ولم یولد علی الخلاف پوری آیتیں ہیں اس لئے کہ بہ نیت قرآن نہ کہی گئیں یہاں سے صراحۃً ظاہر کہ جواز کیلئے عدم نیت قرآن کافی ہے خاص نیت دُعا یا ثنا ضرور نہیں کہ ان صورتوں میں دعا وثنا کہاں! یوں ہی اگر نقل حدیث میں کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کے جواز میں بھی شبہ نہیں اگرچہ محمد رسول اللہ ضرور قرآن عظیم ہے اور یہاں نام اقدس مقصود نہ کہ دعا وثناء لاجرم بحر سے گزرا ھذا کلہ اذا قرأ علی قصد انہ قراٰن ۱؎  (یہ سب اس وقت ہے جب بہ نیتِ قرآن پڑھا ہو۔(ت)


 (۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     باب الحیض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹)


اسی طرح خلاصہ میں ہے، تنویر میں ہے: یحرم قراء ۃ قراٰن بقصدہ ۲؎  (قرآن کا کوئی حصہ بہ نیتِ قرآن پڑھنا(اس کے لئے) حرام ہے۔(ت)


(۲؎ الدرالمختارشرح تنویرالابصار    کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۳)

ثانیا : عیون فـــ کا اتنا مفاد مسلم کہ آیاتِ دعا میں نیت دُعا درکار ہے نہ یہ کہ نیت دعا ہی پر مدار ہے،


وذلک انہ تصویرلنیۃ غیر القران وھی فی ایات الدعاء بنیۃ الدعاء فیفید ان الجواز بنیۃ الدعا مقصور علی آیات الدعاء لاقصر الجواز مطلقا علی نیۃ الدعاء کأن تقول لو قرأ التسمیۃ بنیۃ الافتتاح ولم یرد القراء ۃ فلا بأس بہ لایدل علی قصر الحکم فی جمیع القران علی نیۃ الافتتاح۔


وہ اس لئے کہ عبارتِ عیون میں نیت غیر قرآن کی صورت پیش کی گئی ہے وہ یہ کہ آیاتِ دعا بہ نیتِ دعا پڑھی جائیں اس کا مفاد یہ ہے کہ آیاتِ دعا پڑھنے کا جواز صرف اس صورت میں ہوگا جب وہ بہ نیتِ دعا پڑھی جائیں،نہ یہ کہ مطلقاً ہر آیت پڑھنے کا جواز صرف نیتِ دعا ہی کی صورت میں محدود ہے۔ مثلاً کہاجائے کہ اگر کام شروع کرنے کے ارادہ سے بسم اللہ پڑھی اورتلاوت کی نیت نہ کی تواس میں کوئی حرج نہیں، تواسکا یہ معنی نہ ہوگا کہ پورے قرآن میں حکمِ جواز بس اسی ایک صورت میں محدود ہے کہ اسے کوئی کام شروع کرنے کے ارادہ سے پڑھا جائے۔(ت)


فــ:تطفل آخرعلیھما۔


لکنی اقول وباللہ التوفیقْ  (لیکن خداکی توفیق سے میں کہتاہوں۔ت)تحقیق مقام فـــ۱ یہ ہے کہ یہاں دوصورتیں ہیں: عدم نیت واعدام نیت ۔عدم نیت یہ کہ بعض الفاظ اتفاقا موافق نظم قرآن زبان سے اپنے کلام سے ادا ہوجائیں جیسے صورمذکورہ میں ثم نظراور ولم یولد کہ ان کے تکلم کے وقت خیال بھی نہیں جاتاکہ یہ الفاظ آیات قرآنیہ ہیں یہاں قرآن عظیم کی طرف قصد سرے سے پایاہی نہ گیا۔اور اعدام نیت یہ کہ آیات قرآنیہ کی طرف التفات کرے اوربالقصدانہیں نیت قرآن سے پھیرکر غیرقرآن کاارادہ کرے ۔آیۃ الکرسی یاسورۃ فاتحہ یاسورہ تبت وغیرھاہرکلام طویل میں یہی صورت متحقق ہوسکتی ہے ،ناممکن ہے کہ بلاقصد زبان سے تین آیت کے برابر کلام نکل جائے جوبالکل نظم قرآنی کے موافق ہوکہ اس قدرسے تحدی فرمائی گئی ہے توکوئی اتنے پرکیوں کر قادر ہوسکتاہے ۔نہیں بلکہ یقیناالفاظ قرآنیہ ہی کا قصد کرے گا پھر ان کو بالارادہ نیت قرآن سے نیت غیر قرآن کی طرف پھیر ے گااورموجودات حقیقیہ اعتبارمعتبرکے تابع نہیں ہوتے ،نہ باوجود علم قصدا تبدیل نیت سے علم منتفی ہوااگرکوئی شخص شہد کوجان بوجھ کراس نیت سے کھائے کہ یہ شہد نہیں نمک ہے ، تونہ وہ واقعی نمک ہوجائے گا نہ اس کاعلم کہ یہ واقع میں شہد ہے زوال پائے گا۔یونہی جب اس نے نظم قرآنی کی طرف قصدکیااوراسے اداکرناچاہاتوباوصف علم حقیقت اس کا یہ خیال کرلیناکہ میں یہ قرآن نہیں پڑھتا کچھ اورپڑھتاہوں ،نہ قرآن عظیم کو اس کی حقیقت سے مغیرہوسکتاہے نہ یہ دیدہ ودانستہ اس تبدیل خیال سے کچھ نفع پاسکتاہے توکیونکرممکن کہ تعظیم قرآن عظیم کے لئے جوحکم شرع مطہرنے اسے دیایہ دانستہ نیت پھیرکراسے ساقط کردے۔


فـــ۱:مسئلہ قراء ت جنب کی صورتوں میں مصنف کی تحقیق جلیل مفرد۔


اقول وبہ فــ۲ استبان ضعف مااجاب بہ العلامۃ اسمٰعیل فی حواشی الدرر عن بحث الحلیۃ فی قراء ۃ الفاتحۃ بنیۃ الدعاء اذ قال المحقق ان ھذا قراٰن حقیقۃ وحکما و لفظا ومعنی کیف لا وھو معجز یقع بہ التحدی وتغییر المشروع فی مثلہ بالقصد المجرد مردودعلی فاعلہ فان الخصوصیۃ القراٰنیۃ فیہ لازمۃ قطعا ولیس فی قدرۃ المتکلم اسقاطھا عنہ مع ما ھو علیہ من النظم الخاص ۱؎ اھ۔


    اقول اسی سے اس کی کمزوری واضح ہو گئی جو حواشی درر میں علامہ اسمٰعیل نے بہ نیتِ دعا قرأت ِ فاتحہ کے بارے میں بحثِ حلیہ کے جواب میں لکھا ہے۔محقق حلبی نے لکھا تھا: یہ حقیقۃً، حکماً،لفظاً، معنیً ہر طرح قرآن ہے ۔کیوں نہ ہو جب کہ یہ قدرِ معجز ہے جس سے تحدّی واقع ہوئی ہے اورایسے کلام میں جو امر شرعاً ثابت ہے اسے اگرکوئی محض نیت سے بدلنا چاہے تو وہ نیت خود رد ہوجائے گی اس لئے کہ اسے قرآنی خصوصیت قطعاً لازم ہے۔ اور اس نظم خاص پر اس کے برقرار ہوتے ہوئے اس خصوصیتِ قرآنیہ کو کوئی متکلم اس سے ساقط نہیں کرسکتا اھ۔


فــ۲:تطفل علی سیدی اسمعیل محشی الدرروالعلامۃ ش۔


 (۱؎البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     باب الحیض     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۱ /۱۹۹ )


فاجاب العلامۃ النابلسی وتبعہ فی المنحۃ بانہ اذا لم یرد بھا القراٰن فات مافیہ من المزایا التی یعجز عن الاتیان بھا جمیع المخلوقات اذ المعتبر فیھا القصد اما تفصیلا وھو من البلیغ اواجمالا وذلک بحکایۃ کلامہ وکلاھما منتف حینئذ کما لایخفی ۲؎ اھ۔


علامہ نابلسی نے اس کے جواب میں لکھا ۔اور منحۃ الخالق میں علامہ شامی نے بھی ان کا اتباع کیا۔ کہ:جب وہ اس کے پڑھنے میں قرآن کا قصد نہیں کرے گا تو اس کی وہ خصوصیات نہ رہ جائیں گی جنہیں بروئے کارلانے سے تمام مخلوقات عاجز ہیں اس لئے کہ ان خصوصیات میں قصد کا اعتبار ہے یا تو تفصیلاً ہو جوبلیغ کاکام ہے۔یا اجمالاً ہواس طرح کہ اس کاکلام بھی ویسا ہوجائے جیسا وہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہاں دونوں باتیں نہیں ہیں اھ۔


 (۲؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق    کتاب الطہارۃ با ب الحیض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۱۹۹)


ولعمری ان فی حکایتہ  غنی من نکایتہ ولیت شعری کیف تفوت المزایا الثابتۃ اللازمۃ الواقعیۃ بمجرد صرف القارئ النیۃ عن نسبۃ الی متکلمہ مع بقاء الکلام علی نظمہ وقد کان نبہ علیہ المحقق فی بحثہ فلم یلتفت الیہ العلامۃ واعاد الکلام من دون جواب ولاالمام۔


    بخدا اس جواب کوذکر کردینا ہی اس کا منصف ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ حیرت ہے کہ جب تک وہ کلام اپنے نظم پر برقرار ہے اس کی لازمی، واقعی،ثابت شدہ خصوصیات محض اتنے سے کیوں کر ختم ہوجائیں گی کہ قاری نے اس کلام کے متکلم کی جانب انتساب سے اپنی نیت پھیرلی؟ اس پر تومحقق حلبی نے اپنی بحث ہی میں تنبیہ کردی تھی مگر علامہ نے اس کی طرف توجہ نہ کی اور وہی بات دہرادی نہ اس کا جواب دیا نہ جواب کے قریب گئے۔


واقول فی فــ۱الحل وجود المزایا بثبوتھا الواقعی وظھورھا بالعلم تفصیلا اواجمالا کما وصفتم وبھمایتم امرالتحدی وکلاھما حاصل حینئذ اذما قصد الاخذ الا مماھو قراٰن وما احدث الا صرف النیۃ ولا صرف الابعد العلم ولا علم ینتقی بالصرف۔


واقول حل مسئلہ سے متعلق میں عرض گزار ہوں۔ خصوصیات کا وجود توان کے ثبوت واقعی سے ہوتا ہے اوران کا ظہور ان کے تفصیلی یا اجمالی علم سے ہوتا ہے جیساکہ آپ نے بیان کیا۔ اورکارتحدی ان دونوں ہی سے مکمل ہوتا ہے۔اور دونوں اس صورت میں حاصل ہیں، اس لئے کہ اس نے اسی سے اخذ کاقصد کیا جو قرآن ہے۔ اور اپنی جانب سے کچھ نہ کیا سوا اس کے کہ نیت پھیردی۔اور پھیرنا علم کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اور پھیرنے سے علم ختم نہیں ہوجاتا۔


فــ۱:تطفل آخرعلیھما۔


وایضا لوفات فــ۲المزایا المعجزۃ للخلق بصرف القصد لوجب فوت عجزھم وھو باطل بداھۃ ۔


یہ بھی ہے کہ قصد پھیرنے کی وجہ سے اگرمخلوق کو عاجز کردینے والی خصوصیات ختم ہوجاتیں توضروری تھاکہ اس سے ان کی عاجزی بھی ختم ہوجاتی،اور یہ بداہۃً باطل ہے۔


فــ۲:تطفل ثالث علیھما۔


وکذا مااجاب النھر وتبعہ فی ردالمحتار بان کونہ قراٰنا فی الاصل لایمنع من اخراجہ عن القراٰنیۃ بالقصد ۱؎ اھ


اسی طرح اس جواب کا بھی ضعف واضح ہوگیا جو صاحبِ نہر نے پیش کیا۔اور علامہ شامی نے رد المحتار میں ان کا اتباع کیا۔ کہ اصل میں اس کا قرآن ہونا اس سے مانع نہیں کہ قصد کے باعث وہ قرآنیت سے خارج ہوجائے اھ۔


 (۱؎ النہرالفائق    کتاب الطہارۃ     باب الحیض     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۳۳

ردالمحتار        کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت        ۱ /۱۱۶)


وقد کان اتی المحقق علی ھذا ایضا کما سمعت اما نحن فقد ف۱ وضحنا باحسن وجہ ان لااثر للقصد فی تغییرا الحقائق وکذا ماتقدم من تمسک الغنیۃ ان ماعلی وجہ الدعاء لیس بقراٰن لان الاعمال بالنیات ۱؎ الخ


محقق نے اپنے کلام میں اس کا بھی اشارہ دے دیا تھا جیسا کہ پیش ہوا۔اور ہم نے توبہت اچھی طرح واضح کردیا کہ قصد میں یہ تاثیر قطعاً نہیں ہوتی کہ وہ حقائق واقعیہ کو تبدیل کردے۔ 

اسی طرح اس کی کمزوری بھی عیاں ہوگئی جس نے غنیہ سے استناد کیاکہ''جو بطورِدعا ہووہ قرآن نہیں اس لئے کہ اعمال کا مدارنیتوں پر ہے الخ''جیسا کہ گزرا۔


ف۱:تطفل علی النھر ورابع علی ش۔


 (۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    بحث قرأۃ القرآن للجنب    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۵۷)

اقول: نعم لایثاب فــ۲ ثواب التلاوت من نواہ دعاء لکن القراٰن کیف ینسلح عن القراٰنیۃ مع بقاء النظم المتحدی بہ واذا لقصد الی الاخذ منہ فمجرد صرف النیۃ کیف یزیل التعظیم الواجب علیہ فان صرفہا عن شیئ مع العلم بہ انکان لہ اثر ففی حرمان الصارف عما ھو لہ دون اسقاط ماھو علیہ وبالجملۃ لیس فی شیئ من ھذہ مایغنی من جوع۔


اقول : ہاں جس نے دعا کا قصد کیا اسے تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا لیکن جس نظم کے ذریعہ تحدّی ہوئی ہے اس کے برقرار رہتے ہوئے قرآن سے قرآنیت کیونکر نکل جائے جب کہ قرآن ہی سے اخذ کا قصد بھی موجود ہے، تو محض نیت کے پھیردینے سے وہ اس تعظیم کو کیسے ختم کردے گا جو اس کے ذمہ واجب تھی۔ اس لئے کہ کسی چیز کو جانتے ہوئے اس سے نیت پھیرلینے کا اگرکوئی اثر ہوسکتاہے تویہی کہ اس میں اس کاجو فائدہ تھا اس سے وہ محروم ہوجائے نہ یہ کہ اس پر جو لازم تھا وہ بھی اس سے ساقط ہوجائے۔ الحاصل ان میں سے کسی میں کوئی کار آمد بات نہیں ۔


ف۲:تطفل علی الغنیۃ ۔


ثم اقول :  عساک فــ۳ ایقنت مما القیت علیک ان المناط ھو ان یعمد الی القراٰن فیاخذ من نظمہ ویقرأہ علی نیۃ غیرہ سواء کان قدر ما وقع بہ التحدی اولا فان القلیل والکثیر من الکلام العزیز سواء فی وجوب الادب والتعظیم اما سمعت الی قول حبر الامۃ سیدنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہمالیس شیئ من القرآن بقلیل فتخصیص المحقق الکلام بما تحدی بہ لیس فی محلہ، ولا یتوقف فــ علیہ کونہ قرآنا حقیقۃ وحکما ولفظاً ومعنیً کما یوھمہ کلامہ نعم لزوم الخصوصیۃ القراٰنیۃ یختص بذلک لاستحالۃ جریانہ علی اللسان اتفاقا دون مادونہ کما علم من موافقات الفرقان والفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وقولہ عند سماع ایۃ اطوار الخلق  فتبٰرک اللّٰہ احسن الخالقین فنزل کذلک لکن اسمعناک ان لاحاجۃ الیہ بعد تعمد الاخذ من القراٰن العظیم فھو بما فی نفسہ علیم فافھم وتثبت۔


ثم اقول امید ہے کہ ناظر کو ہمارے بیا ن سابق سے اس بات کا بھی یقین حاصل ہوچکا ہوگاکہ مدار اس پر ہے کہ قرآن کی طرف توجہ کرکے اس کے نظم سے کچھ اخذ کرے اور اسے غیر قرآن کی نیت سے پڑھے، خواہ وہ اس مقدار میں ہو جس سے تحدی ہوئی ہے یا نہ ہواس لئے کہ وجوب ادب وتعظیم کے معاملہ میں کلام عزیز کے قلیل وکثیر کا حکم ایک ہے۔آپ سن چکے کہ حبراُمت سیّدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : قرآن میں سے کچھ بھی قلیل نہیں۔ تو محقق حلبی نے اپنی گفتگو جو مقدار تحدی سے خاص فرمائی وہ بے محل ہے۔اور اس کا حقیقۃً،حکماً،لفظاً،معنیً قرآن ہونا اس پر موقوف بھی نہیں جیساکہ ان کے کلام سے وہم ہوتاہے ۔ہاں خصوصیت قرآنیہ مقدار تحدی ہی کو لازم ہے اس لئے کہ اسی مقدار کا زبان پر اتفاقاًجاری ہوجانا محال ہے اس سے کم کا نہیں۔ جیساکہ فرقان اورجناب فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے موافقات سے معلوم ہے اور اس سے بھی کہ جب تخلیق کے مراحل کے ذکر پر مشتمل آیت مبارکہ سُنی توکہہ دیا ''فتبارک اللہ احسن الخالقین'' پھر ایسا ہی نازل بھی ہوا۔لیکن ہم بتا چکے کہ جب خود اس کے دل میں قرآن عظیم سے اخذ کا قصد موجود ہے تو تحدی والی گفتگو کی یہاں کوئی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ اسے اپنے دل کی بات کا خود ہی علم حاصل ہے،تواسے سمجھو اور ثابت قدم رہو۔(ت)


ف۳: تطفل علی الحلیۃ ۔ ف۳: تطفل اخر علیھا۔


 (۱؎القرآن الکریم ۲۳ / ۱۴)


تو واجب تھا کہ سورہ فاتحہ وآیۃ الکرسی بالائے سرفقط الحمدللّٰہ یا سبحٰن اللّٰہ یا لاالہٰ الا اللّٰہ بھی جُنب کو جائز نہ ہو جبکہ ان میں اخذ عن القرآن کا قصد کرے اگرچہ نیت قرآن سے پھیر کر غیر قرآن کی کرلے، مگر شرع مطہر نے لحاظ فرمایا کہ مسلمان ہر وقت ہر حال میں اپنے رب جل وعلا کے ذکر وثنا اور اُس سے سوال ودعا کا محتاج ہے اور ثنائے الٰہی وہی اتم واکمل ہے جو خود اُس نے اپنے نفس کریم پر کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرض کرتے ہیں: لااحصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک ۱؎۔ الٰہی! میں تیری تعریف نہیں کرسکتا تو ویسا ہی ہے جیسی تُو نے خود اپنی ثنا کی۔


 (۱؎ سنن ابی داؤد     کتاب الصلوۃ باب القنوت فی الوتر     آفتاب عالم پریس لاہور     ۱ /۲۰۲)


یوں ہی جو دعائیں قرآن عظیم نے تعلیم فرمائیں بندہ اُن کی مثال کہاں سے لاسکتا ہے رحمت شریعت نے نہ چاہا کہ بندہ ان خزائن بے مثال سے روکا جائے علی الخصوص حیض ونفاس والیاں جن کی تہائی عمر انہیں عوارض میں گزرتی ہے لہٰذا یہاں بہ تبدیل نیت اجازت فرمائی جسے بسم اللہ الرحمن الرحیم بہ نیت افتتاح کہنے کے جواز پر علماء نے ظاہر کردیا اس کی نظیر یہ ہے کہ نماز فــــ میں کسی کلام سے اگرچہ آیت یا ذکر الٰہی ہو ایسے معنی کا افادہ جو اعمال نماز سے باہر ہے مفسد نماز ہے مثلا کسی خوشی کی خبر کے جواب میں کہا الحمدللّٰہ رب العٰلمین یا خبر غم کے جواب میں انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون یا کسی نے پوچھا فلاں شخص کیسا ہے اُس کی خوبی بتانے کو کہا سبحان اللّٰہ نماز جاتی رہے گی مگر کسی شخص نے آواز دی اور اس نے یہ جتانے کو کہ میں نماز پڑھتا ہوں لا الٰہ الا اللّٰہ یا سبحٰن اللّٰہ یا اس کے مثل ذکر یا قرآن عظیم سے کچھ کہا نماز نہ جائے گی کہ شرع مطہر نے اس حاجت کے دفع کو اتنے کی اجازت عطا فرمادی،


ف: مسئلہ نماز میں اگر کسی آیت یا ذکر الہی سے کسی شخص کو خطاب یا بات کا جواب چاہے گا مثلا بقصد جواب خوشی کی خبر پر الحمدللہ رنج کی خبر پر انا للہ وا نا الیہ راجعون کہا نماز جاتی رہے گی ہاں اگر کسی نے پکارا اسے یہ جتانے کے لئے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں سبحان اللہ یا لاالہ الا اللہ وغیرہ کہا نمازنہ جائے گی


درمختار میں ہے: یفسدھا جواب خبر سوء بالاسترجاع ۱؎۔ خبر بد کے جواب میں اناّ للہ واناّ الیہ راجعون پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(ت)


 (۱؎ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصّلٰوۃ ومایکرہ فیھا مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۹)


اُسی میں ہے: اراد ا علامہ بانہ فی الصلاۃ لاتفسد اتفاقا ابن ملک وملتقی ۲؎۔ اگر یہ بتانے کا ارادہ ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں تو اس سے نماز بالا تفاق فاسدنہ ہوگی، ابن ملک وملتقی۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصّلٰوۃ ومایکرہ فیھا مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۸۹)


ہدایہ میں ہے: لواجاب رجلا فی الصلاۃ بلا الٰہ الا اللّٰہ فھذ اکلام مفسدوان اراد اعلامہ انہ فی الصلاۃ لم تفسد بالاجماع لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا نابت احدکم نائبۃ فی الصلٰوۃ فلیسبح اھ۳؎۔ اگر اندرونِ نماز لا الٰہ الاّ اللہ کہہ کر کسی کو جواب دیا تویہ کلام مفسدِ نماز ہے اور اگر اپنے اندرونِ نماز ہونے سے اس کو آگاہ کرنا مقصود ہے تو بالاجماع نماز فاسد نہ ہوگی اس لئے کہ حضور کا ارشاد ہے :


جب تم میں سے کسی کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہے اھ۔(ت)


 (۳؎ الہدایۃ     کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصّلٰوۃ ومایکرہ فیھا المکتبۃ العربیہ کراچی    ۱ /۱۱۶)


اقـول فبھذا ظھر الجواب عن بحث الحلیۃ وللّٰہ الحمد ومحصلہ ان ذلک مستثنی بالاذن الشرعی کما استثنی بہ قصد الاعلام بانہ فی الصلاۃ مع تحقق المعنی المفسد قطعا وھو افادۃ معنی لیس من اعمال الصلاۃ فافھم وتثبت۔


اقول تواسی سے بحث حلیہ کاجواب ظاہر ہوگیا۔وللہ الحمد۔اوراس کا حاصل یہ ہے کہ یہ باذنِ شریعت مستثنیٰ ہے جیسے باذن شرعی اپنے مشغولِ نماز ہونے کو بتانے کا قصد مستثنٰی ہے باوجودیکہ معنی مفسد قطعاً متحقق ہے،وہ ہے ایسے معنی کا افادہ جو اعمال نماز سے نہیں ۔تواسے سمجھو اور ثابت قدم رہو۔(ت)

اور جب حاجت اکملیت ذکر ودعا کا لحاظ فرمایا تو حاجت تعلیم قرآن تو اُس سے اہم ہے خصوصاً حائض کیلئے کہ اس کا زمانہ ممتد ہے


حتی ان مالکا اباح لھا التلاوۃ لھذا وبہ فرق بینھا وبین الجنب ۔


 (یہاں تک کہ اسی وجہ سے امام مالک نے اس کے لئے تلاوت جائز کہی، اوراسی سے اس میں اور جنب میں فرق کیا۔(ت) 

مگر یہ حاجت ایک ایک کلمہ سکھانے سے پوری ہوجاتی ہے اور شک نہیں کہ وہ بہ نسبت مرکبات صورت نظم قرآنی سے دور تر ہے لہٰذا اسی قدر کی اجازت ہوئی۔


وقد اشار الامام الفقیہ ابو اللیث فی شرح الجامع الصغیر الی ان اباحۃ التعلیم لاجل العذر کما فی الحلیۃ وعبر فی محیط السرخسی بالعذر والضرورۃ کما فیھا ایضا۔


امام فقیہ ابو اللیث نے شرح جامع صغیر میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تعلیم کا جوازعذر کی وجہ سے ہے۔ جیساکہ حلیہ میں نقل کیا۔اورمحیط سرخسی کی تعبیریہ ہے کہ ''عذروضرورت کی وجہ سے ہے''۔اسے بھی حلیہ میں نقل کیا۔


اقول وبمافــ قررت وذکرت من حدیث اعلام الصّلاۃ مع عدم الضرورۃ بالمعنی الحقیقی ومن اعتبار الشرع حاجۃ الجنب فی الدعاء مع تمکنہ من الاغتسال بل ومن الدعاء بالفاظ اُخر بخلاف التعلیم ینفتح الجواب عن ایرادی الحلیۃ علی مسألۃ التعلیم بقولہ لایخفی مافیہ بالنسبۃ الی الجُنب ثم مافی کون ھذا الاحتیاج مبیحا لذلک ۱؎ اھ فافھم واعلم واللّٰہ اعلم۔


اقول میری تقریر سابق سے اور اس بیان سے کہ اپنے مشغول نماز ہونے کو مذکورہ کلمات سے بتاسکتا ہے جب کہ یہاں ضرورت بمعنی حقیقی موجود نہیں۔اور یہ کہ شریعت نے دُعاکے معاملہ میں جنب کی حاجت کا لحاظ کیا ہے حالاں کہ وہ غسل کرسکتا ہے بلکہ دوسرے الفاظ سے دعابھی کرسکتاہے۔ بخلاف تعلیم کے۔(اس تقریر وبیان سے) صاحبِ حلیہ کے دو اعتراضوں کا جواب منکشف ہوجاتا ہے جو انہوں نے مسئلہ تعلیم سے متعلق ان الفاظ میں پیش کئے ہیں کہ: اس مسئلہ میں جنب کی بہ نسبت جو خامی ہے وہ پوشیدہ نہیں ۔پھر اس کے لئے تعلیماًکلمہ قرآن پڑھنے کے حکم میں اس ضرورت کے باعث اباحت ہونے میں جوکلام ہے وہ بھی مخفی نہیں اھ۔تواسے سمجھو اورجانو ۔واللہ اعلم۔(ت)


ف : تطفل رابع و خامس علیہا۔


 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیتہ المصلی     )

ظاہر ہے کہ ان کے ماورا مثل قصص وغیرہا میں نہ تو حاجت ہے نہ وہ دُعا وثنا کے معنے ہیں کہ ان سے ملحق ہوسکیں تو بعد قصد قرآن پھر تبدیل نیت وہی شہد کو دانستہ نمک ٹھہرا کر کھانا ہوگا تو حکم ممانعت ہی چاہئے جب تک شرع سے اجازت ثابت نہ ہو اور وہ کہیں ثابت نہیں۔ معہذا اگر مطلق تبدیل نیت کی اجازت ہو تو جو کلام طویل قرآن عظیم نے اپنے محبوبوں مقبولوں یا دشمنوں سے نقل فرمائے اور دُور تک ان کا سلسلہ چلا گیا ہے جیسے سورہ نوح علیہ الصّلوۃ والسّلام میں قال چھوڑ کر ربّ انی دعوت قومی لیلا ونھارا ۲؎oسے لتسلکوا منھا سبلا فجاجا ۳؎o تک سولہ آیتیں متواتر، اور سورہ جن میں انا سمعنا قراٰنا عجبا ۴؎ o سے واما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا ۵؎o تک پندرہ آیتیں، اور سورہ لقمان میں یبُنیَّ انھا ان تک سے ان انکرا الاصوات لصوت الحمیر ۷؎o تک چار طویل آیتیں کہ ہر ایک تین آیت کی مقدار سے زائد ہے اور سورہ اسرا میں وقالوا چھوڑ کر  لن نؤمن ۱؎ سے کتٰبا نقرؤہ ۲؎ تک اس نیت سے کہ یہ نوح ولقمان وجن وکفار کے کلام ہیں پڑھ سکے بلکہ تمام سورہ یوسف علیہ الصّلٰوۃ والسلام شروع سورت کے  اذقال یوسف لابیہ ۳؎ سے گیارھویں رکوع کے اواخر والحقنی بالصالحین ۴؎o تک جس کی مقدار نصف پارہ قرآن عظیم سے بھی زائد ہے بحالِ جنابت بہ نیت حکایت قصّہ پڑھ جائے اور جائز ہو صرف بیچ بیچ میں سے چند جملے جو قرآنیت کیلئے متعین ہیں ترک کردے یعنی رکوع دوم میں واوحینا الیہ لتنبئنھم ۵؎ نصف آیت سوم میں وکذلک مکّنّا سے نجزی المحسنین ۶؎ o تک کچھ کم دو آیتیں، پھر کذلک لنصرف ۷؎ نصف آیت ہفتم میں وکذلک مکنا ۸؎ ایک آیت ہشتم میں وانہ لذو علم لما علمنہ ۹؎ تہائی آیت نہم میں کذلک کدنا لیوسف اور نرفع درجٰت من نشاء ۱۰؎ چہارم آیت وبس جس کی مقدار چورانوے آیت طویل ہوئی یہ کس قدر مستبعد اور قرآن عظیم کے ادب سے جدا وابعد ہے تو سوا اُ ن صور استثناء کے مطلقاً ممانعت چاہئے


(۲؎ القرآن    ۲۹ /۵ ۳)(؎ القرآن ۲۹ /۲۰ ۴)

(؎ القرآن    ۲۹ /۱ )(۵؎ القرآن    ۲۹ /۱۵)

( ۶؎ القرآن    ۲۱ /۱۶  )(۷؎ القرآن    ۲۱ /۱۹)

 (۱؎ القرآن    ۱۵ /۹۰ )(   ۲؎ القرآن    ۱۵ /۹۳ )

( ۳؎ القرآن    ۱۲ /۴ ۴)(؎ القرآن    ۱۲ /۱۰۱ )

(۵؎ القرآن    ۱۲ /۱۵) (  ۶؎ القرآن    ۱۲ /۲۱۔۲۲)

( ۷؎ القرآن    ۱۲ /۲۴ )(  ۸؎ القرآن    ۱۲ /۵۶)

(۹؎ القرآن    ۱۲ /۶۸)(۱۰؎ القرآن   ۱۲ /۷۶)


اور فــــ۱حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ بہ نیت قرآن ایک حرف بھی روا نہیں اور جو الفاظ اپنے کلام میں زبان پر آجائیں اور بے قصد موافقت اتفاقا کلمات قرآنیہ سے متفق ہوجائیں زیر حکم نہیں اور قرآن عظیم کا خیال کرکے بے نیت قرآن ادا کرنا چاہئے تو صرف دو صورتوں میں اجازت ایک یہ کہ آیات دعا وثنا بہ نیت ودعا وثنا پڑھے دوسرے یہ کہ بحاجتِ تعلیم ایک ایک کلمہ مثلاً اس نیت سے کہ یہ زبان عرب کے الفاظ مفردہ ہیں کہتا جائے اور ہر دو لفظ میں فصل کرے متواتر نہ کہے کہ عبارت منتظم ہوجائے کما نصوا علیہ ان کے سوا کسی صورت میں اجازت نہیں ( جیسا کہ علماء نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت )


فـــ۱ مسئلہ ان مسائل کا خلاصہ حکم جامع و منقح ۔


ھذا ماظھرلی وارجوا ن یکون صوابا وباللّٰہ التوفیق وللّٰہ الحمدا بدا۔ یہ وہ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوا اور امید رکھتاہوں کہ درست ہو،اورخداہی سے توفیق ہے اوراللہ ہی کے لئے ہمیشہ حمد ہے۔(ت)


تنبیہ ۲: اقول تمام کتب فــــ ۲ میں آیات ثنا کو مطلق چھوڑا اور اس میں ایک قید ضروری ہے کہ ضروری یعنی بدیہی ہونے کے سبب علماء  نے ذکر نہ فرمائی وہ آیاتِ ثنا جن میں رب عزّوجل نے بصیغہ متکلم اپنی حمد فرمائی جیسے وانی لغفار لمن تاب اُن کو بہ نیت ثنا بھی پڑھنا حرام ہے کہ وہ قرآنیت کیلئے متعین ہیں بندہ اُنہیں میں انشائے ثنا کی نیت کرسکتا ہے جن میں ثنا بصیغہ غیبت یا خطاب ہے۔


فـــ۲ : مسئلہ جنب کو وہ آیات ثنابہ نیت ثنا بھی پڑھنا حرام ہے جن میں رب عزوجل نے اپنے لئے متکلم کی ضمیریں ذکر فرمائیں


تنبیہ ۳: اقول یہاں فــــ۳ ایک اور نکتہ ہے بعض آیتیں یا سورتیں ایسی ہی دعا وثنا ہیں کہ بندہ ان کی انشا کرسکتا ہے بلکہ بندہ کو اسی لئے تعلیم فرمائی گئی ہیں مگر اُن کے آغاز میں لفظ قل ہے جیسے تینوں قل اور کریمہ قل اللھم مٰلک الملک ۱؎ ان میں سے یہ لفظ چھوڑ کر پڑھے کہ اگر اس سے امر الٰہی مراد لیتا ہے تو وہ عین قرأت ہے اور اگر یہ تاویل کرے کہ خود اپنے نفس کی طرف خطاب کرکے کہتا ہے قل اس طرح کہہ یوں ثنا ودعا کر۔ تو یہ امر بدعا وثنا ہوا نہ دعا وثنا اور شرع سے اجازت اس کی ثابت ہوئی ہے نہ اُس کی۔


فـــ۳ : مسئلہ جن آیات دعا وثنا کے اول میں قل ہے ان میں جنب یہ لفظ چھوڑ کر بہ نیت دعا پڑھے ورنہ جائز نہیں ۔


 (۱؎ القرآن الکریم۳ /۲۶)


تنبیہ ۴: اقول یوں ہی فــــ۱ وہ ادعیہ واذکار جن میں حروف مقطعات ہیں مثلاً صبح فــــ۲ وشام کی دُعاؤں میں آیۃ الکرسی کے ساتھ سورہ غافر کا آغاز حٰم o تنزیل الکتٰب من اللّٰہ العزیز العلیمo غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطّول ط لا الٰہ الا ھو ط الیہ المصیر۲؎o تک پڑھنے کو حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جو صبح پڑھے شام تک ہر بلا سے محفوظ رہے اور شام پڑھے تو صبح تک رواہ الترمذی۳؎ والبزار وابنا نصر ومردویہ والبیھقی فی شعب الایمان عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم بحال جنابت اسے نہیں پڑھ سکتا ہے کہ حروف مقطعات کے معنے اللہ ورسول ہی جانتے ہیں جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا معلوم کہ وہ ایسا کلام ہو جس کے ساتھ غیر خدا بے حکایت کلام الٰہی تکلم نہ کرسکتا ہو۔ معہذا اجازت صرف دعا وثنا کی ہے کیا معلوم کہ ان کے معنے میں کچھ اور بھی ہو واللہ تعالٰی اعلم۔


فــــ ۱: مسئلہ اسے حروف مقطعات والی دعا کی بھی اجازت نہیں ۔ 

فــــ ۲: بلاؤں سے محفوظی کی دعا۔


 (۲؎ القرآن    ۴۰/ ۱ تا ۳

۳؎ الدر المنثور بحوالہ الترمذی والبزار ومحمد بن نصر الخ تحت الایۃ ۴۰/ ۱ تا ۳ دار احیاء التراث العربی بیروت ۷ / ۲۳۳ )


تنبیہ ۵: اقول ہماری اُس تقریر سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ جن آیات فــــ۳ میں بندہ دعا وثنا کی نیت نہیں کرسکتا بحال جنابت وحیض انہیں بطور عمل بھی نہیں پڑھ سکتا مثلاً تفریق اعدا کے لئے سورہ تبت نہ کہ سورہ کوثر کہ بوجہ ضمائر متکلم انا اعطینا قرآنیت کے لئے متعین ہے عمل میں تین نیتیں ہوتی ہیں یا تو دعا جیسے حزب البحر، حرزیمانی یا اللہ عزوجل کے نام وکلام سے کسی مطلب خاص میں استعانت جیسے عمل سورہ یٰس وسورہ مزمل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا اعداد معینہ خواہ ایام مقدرہ تک اس غرض سے اس کی تکرار کہ عمل میں آجائے حاکم ہوجائے اُس کے موکلات تابع ہوجائیں اس تیسری نیت والے تو بحال جنابت کیا معنے بے وضو پڑھنا بھی روا نہیں رکھتے اور اگر بالفرض کوئی جرأت کرے بھی تو اس نیت فـــ۱سے وہ آیت وسورت بھی جائز نہیں ہوسکتی ۔جس میں صرف معنی دعا وثنا ہی ہے کہ اولا یہ نیت نیت دعا وثنا نہیں، ثانیا اس میں خود آیت وسورت ہی کہ تکرار مقصود ہوتی ہے کہ اس کے خدام مطیع ہوں تو نیت قرآنیت اُس میں لازم ہے۔ رہیں پہلی دو نیتیں جب وہ آیات معنی دعا سے خالی ہیں تو نیت اولٰی ناممکن اور نیت ثانیہ عین نیت قرآن ہے اور بقصد قرآن اُسے ایک حرف روا نہیں۔


ف ۳: مسئلہ جن آیات میں خالص دعا و ثنا نہیں انہیں جنب یا حائض بہ نیت عمل بھی نہیں پڑھ سکتے ۔

ف۱:مسئلہ صرف عمل میں لانے کی نیت سے جنب و حائض خالص آیات دعا وثنا بھی نہیں پڑھ سکتے ۔


تنبیہ۶: یہی حکم دم کرنے کیلئے پڑھنے فــــ ۲کا ہے کہ طلب شفا کی نیت تغییر قرآن نہیں کرسکتی آخر قرآن ہی سے تو شفا چاہ رہا ہے کون کہے گا کہ افحسبتم انمافــــ ۳خلقنکم عبثا ۱؎ تا آخری سورت عـــہ مصروع ومجنون کے کان میں جنب پڑھ سکتا ہے ہاں جس آیت یا سورت میں خالص معنی دعا وثنا بصیغہ غیبت وخطاب ہوں اور اُس کے اول میں قُل بھی نہ ہو نہ اُس میں حروف مقطعات ہوں اور اس سے قرآن عظیم کی نیت بھی نہ کرے بلکہ دعا و ثنا کی برکت سے طلب شفا کرنے کیلئے اس پر دم کر ے تو روا ہے۔


عـــہ حدیث میں ہے کہ کوئی آسیب زدہ یا مجنون تھا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے کان میں یہی آیتیں پڑھیں وہ فوراً اچھا ہوگیا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے کان میں کیا پڑھا؟ انہوں نے عرض کیا فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سچے یقین والا اگر ان آیتوں کو پہاڑ پر پڑھے تو اُسے جگہ سے ہٹادے گا اخرجہ الامام الحکیم الترمذی وابو یعلی وابن حاتم وابن السنی وابو نعیم فی الحلیۃ وابن مردو یہ عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ رحمۃ اللّٰہ علیہ

ف۲ :مسئلہ دم کرنے کے لئے بھی جنب وہی خالص آیات دعا وثنا بے نیت قرآن خاص بہ نیت دعا و ثنا ہی پڑھ سکتا ہے 

ف۳ :آسیب زدہ و مصروع و مجنون کا علاج ۔


 (ا؎ القرآن الکریم ۲۳ / ۱۱۵

۲؎ الدر المنثور  بحوالہ  الحکیم  و ابی یعلی وابن ابی حاتم و غیرھم تحت  الایۃ۲۳ / ۱۱۵     داراحیاء التراث العربی بیروت       ۶/ ۱۱۴)

تنبیہ ۷: علمت فـــــ۱مما القیت علیک ان التغیر بنیۃ الدعاء والثناء دون نیۃ الاستشفاء ووقع فی ش نقلا عن سیدی عبدالغنی قدس سرہ مایوھم خلافہ اذقال الھیکل والحمائلی المشتمل علی الایات القرانیۃ اذا کان غلافہ منفصلا عنہ کالمشمع ونحوہ جاز دخول الخلأ بہ ومسہ وحملہ للجنب ویستفاد منہ ان ماکتب من الایات بنیۃ الدعاء والثناء لایخرج عن کونہ قرانا بخلاف قراء تہ بھذہ النیۃ فالنیۃ تعمل فی تغییر المنطوق ۲؎ لاالمکتوب ۱؎ اھ ومبناہ کما تری علی فھم ان نیۃ الاستشفاء مغیرۃ کنیۃ الدعاء ولم تعمل فی المکتوب فکذلک نیۃ الدعاء اونقول الاستشفاء من باب الدعاء فنیتہ نیتہ۔


ہمارے بیان سابق سے واضح ہواکہ تغیر دعا و ثنا کی نیت سے ہوتاہے شفا طلبی کی نیت سے نہیں ہوتا۔ اورشامی میں سیدی عبدالغنی قدس سرہ سے نقل کرتے ہوئے وہ لکھاہے جس سے اس کے خلاف وہم پیدا کرتا ہے وہ لکھتے ہیں: جو تعویذ قرآنی آیات پر مشتمل ہو اگر اس کا خول اس سے الگ ہو۔ جیسے وہ جو موم جامہ وغیرہ کے اندرہوتاہے۔ تو اسے لے کر بیت الخلا میں جانا او رجنب کے لئے اُسے چھونا اورلینا جائز ہے۔اور اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو آیات بہ نیت دعا وثنا لکھی گئی ہوں وہ قرآنیت سے خارج نہ ہوں گی بخلاف اُن کے جو اس نیت سے پڑھی جائیں تونیت منطوق کی تبدیلی میں اثرانداز ہوتی ہے مکتوب کی تبدیلی میں نہیں اھ۔جیساکہ پیشِ نظر ہے اس کی بنیاد یہ سمجھنے پر ہے کہ نیتِ دعا کی طرح شفا طلبی کی نیت سے بھی تبدیلی ہوتی ہے اوریہ نیت مکتوب میں اثر انداز نہیں ہوتی تو یہی حکم نیتِ دعا کا بھی ہے یا یوں کہیں کہ شفا طلبی بھی دعا ہی کے باب سے ہے تو شفا طلبی کی نیت بھی نیتِ دُعا ہی ہے۔


ف: مسئلہ فقط شفا لینے کی نیت قرآن مجید کو قرآنیت سے خارج نہیں کرسکتی ۔


 (۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ قبیل باب المیاہ داراحیاء الترا ث العربی بیروت ۱ /۱۱۹)


واقول :  لیس فــ ۱ الا مرکذا فمعنی القرأۃ بنیۃ الدعاء ان یکون الکلام نفسہ دعاء فیرید بہ انشاءہ لاتلاوۃ الکلام العزیز والاستشفاء دعاء معنوی لایجعل اللفظ بمعنی الدعاء فلیس ھومن بابہ ولا تغییر ایضا فان الذی یقراء اویکتب مستشفیا متبرکا فانما یرید التبرک والاستشفاء بالکلام العــزیز لاانہ یخرجہ عن القراٰنیۃ ثم یستشفی بغیر القراٰن ولو کانت فــ ۲ تغیر لجاز ان یقرأ الجنب القراٰن ولو کانت فــ ۳ تغیر لجاز ان یقرأ الجنب القراٰن کلہ بنیۃ الشفاء فان القراٰن من اولہ الی اخرہ نور وھدی وشفاء وھذا لایسوغ ان یقول بہ احد وبالجملۃ فالمنوی فی الرقیۃ ھو القراٰن نفسہ لاغیرہ الا تری فــ ۴ ان بعض الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہم لمارقی السلیم بالفاتحۃ علی شاۃ وجاء بھا الی اصحابہ کرھوا ذالک وقالوا اخذت علی کتاب اللّٰہ اجرا حتی قدموا المدینۃ فقالوا یارسول اللّٰہ اخذ علی کتاب اللّٰہ اجرا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان احق مااخذتم علیہ اجرا کتاب ۱؎ اللّٰہ کما فی الجامع الصحیح عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فلم یخرج الاسترقاء الفاتحۃ عن کونھا کتاب اللّٰہ مع انھا تصلح للدعاء والثناء فکیف بمالا یصلح لھما ۔


واقول اور معاملہ ایسا نہیں کیوں کہ بہ نیتِ دعا پڑھنے کا معنی یہ ہے کہ کلام خود دعا ہو اور اس سے بجائے تلاوت کے انشائے دُعا کا قصد کرے۔اورشفا طلبی تومعنوی دعا ہے جو لفظ کو دُعا کے معنی پرمشتمل نہیں کردیتی لہٰذا وہ اس دعا کے باب سے نہیں۔ اور تبدیلی بھی نہیں اس لئے کہ جو شفا وبرکت حاصل کرنے کے لئے پڑھتاہے وہ کلامِ عزیز ہی سے شفا حاصل کرناچاہتا ہے یہ نہیں کہ اسے قرآنیت سے خارج کرلیتا ہے پھرغیر قرآن سے شفا کا طالب ہوتا ہے۔ اگر یہ نیت تبدیلی لانے والی ہو توجائز ہوگا کہ جنب پورا قرآن بہ نیت شفا پڑھ جائے اس لئے کہ قرآن شروع سے آخرتک سبھی نوروہدایت اورشفا ہے۔اوراس جواز کا کوئی بھی قائل نہیں ہوسکتا۔الحاصل تعویذ میں خود قرآن ہی مقصود ہوتاہے غیر قرآن مقصود نہیں ہوتا۔ دیکھئے ایک صحابی نے کچھ بکریاں لینے کی شرط پرجب سانپ کاٹے شخص کو سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے توانہوں نے اسے مکروہ وناپسند سمجھااورکہا کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت حاصل کی، یہاں تک کہ ان حضرات نے مدینہ حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! اس نے کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے۔ تو رسول اللہ نے فرمایا: جن پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ حق کتاب اللہ کا ہے جیسا کہ بخاری کی جامع صحیح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے توتعویذ بنانے اور دم کرنے سے سورہ فاتحہ کتاب اللہ ہونے سے خارج نہ ہوئی جب کہ دعا و ثنا ہونے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جو دعا وثنا بننے کے قابل نہیں۔


ف ۱ : تطفل علی سیدی عبد الغنی و ش ۔

ف ۲ : تطفل اخر علیھا ۔   ف ۳: تطفل ثالث علیھما ۔


اما فـــ۱ ما افاد من ان النیۃ لاتعمل فی المکتوب فاقول نعم ماکتب قرانا ولو فاتحۃ لایصح للجنب ان یقول فی نفسہ لیس ھذا قرانا بل دعاء اویقول لا ارید بہ قرانا بل دعاءوثناء ثم یمسہ اذلا مدخل لارادتہ فی ظھورہ فی ھذہ الکسوۃ التی قدتم امرھا۔


اور یہ جو افادہ کیاکہ نیت مکتوب میں اثر انداز نہیں ہوتی تومیں کہتا ہوں ہاں جسے بطور قرآن لکھاگیا اگرچہ وہ سورہ فاتحہ ہی ہواس سے متعلق یہ نہیں ہوسکتاکہ جنب اپنے دل میں کہے یہ قرآن نہیں بلکہ دعا ہے یا کہے میں اس سے قرآن کا قصد نہیں بلکہ دعا وثنا کا قصد کرتا ہوں، پھر اسے مس کرے ، اس لئے کہ اس کے ارادہ کا اس حصہ قرآن کے اس لباس میں ظاہر ہونے میں کوئی دخل نہ ہوا اس کاکام توپہلے ہی انجام پذیر ہوچکاہے۔


ف ۱: مسئلہ لکھے ہوئے قرآن کو جنب اپنی نیت سے نہیں بدل سکتا مگر سورۃ فاتحہ تنہا کہیں لکھی ہے اس میں یہ نیت کرلے کہ یہ ایک دعا ہے اور اسے ہاتھ لگائے یہ جائز نہیں ۔


اما ان ینشیئ فـــ ۲ کتابۃ مثلھا وینوی الدعاء والثنا فاقول قضیۃ ماقدمت من التحقیق المنع لان الاذن ورد للحاجۃ ولا حاجۃ فی الدعاء والثناء الی الکتابۃ وما ورد علی خلاف القیاس لایتعداہ وبہ یظھر انہ لایؤذن فی کتابۃ الرقی بالایات وان تمحضت للدعاء والثناء ونواھما فلیراجع ولیحرر واللّٰہ سبحنہ وتعالی اعلم۔


    رہی یہ صورت کہ ازسرِ نو وہ اسی طرح لکھے اور دعاوثنا کی نیت رکھے تومیں کہتا ہوں سابقاً میں نے جو تحقیق رقم کی اس کا تقاضا یہی ہے کہ ممانعت ہو اس لئے کہ اجازت حاجت کے باعث ہوئی ہے اور دعا وثنا میں کتابت کی کوئی حاجت نہیں۔ اورجو امر خلافِ قیاس وارد ہوتاہے وہ اپنی جگہ سے متجاوزنہیں ہوتا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ جنب کوآیات کے تعویذات لکھنے کی اجازت نہ ہوگی اگرچہ وہ خالص دُعا وثنا پر ہی مشتمل ہوں اور دُعا وثناہی کی نیت بھی ہو۔ اس بارے میں مزیدمراجعت کی جائے اور اس کا حکم واضح کرلیا جائے۔اور خدائے پاک وبرتر ہی کو خوب علم ہے۔


ف۲: مسئلہ آیات دعا وثناکو بہ نیت دعا و ثنا پڑھنے کی اجازت ہے لکھنے کی اجازت نہ ہونی چاہیئے اگرچہ دعا ہی کی نیت کرے تو جنب وہ تعویذ کسی نیت سے نہ لکھے جس میں آیات قرآنیہ ہوں ۔


تنبیہ مہم فــــ یہ کہ ہم نے سلسلہ کلام میں اوپر ذکر کیا کہ غیر تلاوت میں اپنی طرف سے سید نا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائمہ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علمائے کرام نے اسے کفر بتایا، مولیٰ کو شایان ہے کہ اپنے محبوب بندوں کو جس عبارت سے تعبیر فرمائے فرمائے دوسرا کہے تو اس کی زبان گُدّی کے پیچھے سے کھینچی جائے للہ المثل الا علی بلا تشبیہ یوں خیال کرو کہ زید نے اپنے بیٹے عمرو کو اس کی کسی لغزش یا بھول پر متنبہ کرنے ادب دینے جزم وعزم واحتیاط اتم سکھانے کیلئے مثلاً بیہودہ نالائق احمق وغیرہا الفاظ سے تعبیر کیا باپ کو اس کا اختیار تھا اب کیا عمرو کا بیٹا بکر یا غلام خالد انہیں الفاظ کو سند بنا کر اپنے باپ اور آقا عمرو کو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے، حاشا اگر کہے گا سخت گستاخ ومردود ناسزا ومستحق عذاب وتعزیر وسزا ہوگا، جب یہاں یہ حالت ہے تو اللہ عزوجل کی ریس کرکے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی شان میں ایسے لفظ کا بکنے والا کیونکر سخت شدید ومدید عذابِ جہنم وغضب الٰہی کا مستحق نہ ہوگا والعیاذ باللہ تعالیٰ۔


ف: فائدہ ضروریہ : تلاوت قرآن یا قراء ت حدیث کے سوا اپنی طرف سے آدم علیہ الصلوۃ والسلام خواہ کسی نبی کو معصیت کی طرف منسوب کرنا سخت حرام ہے ۔


امام عبداللہ قرطبی تفسیر میں زیر قولہٖ تعالیٰ وطفقا یخصفان علیہما من ورق الجنۃ ۱؎  ( اور آدم و حوا اپنے جسم پر جنت کے پتے چپکانے لگے ۔ت )کی تفسیر میں فرماتے ہیں: قـال القاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ لایجوز لاحدمنا الیوم لا یخبر بذلک عن اٰدم علیہ الصّلاۃ والسّلام الا اذا ذکرناہ فی اثنأ قولہ تعالی عنہ اوقول نبیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فاما ان نبتدئ ذالک من قبل انفسنا فلیس بجائزلنا فی ابائھا الاَدَنین الینا المما ثلین لنا فکیف بابین الاقدم الاعظم الاکبر النبی المقدم صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین۱؎۔ قاضی ابو بکرابن العربی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ :آج ہم میں سے کسی کے لئے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق یہ کہنا جائز نہیں مگر صرف اس صورت میں کہ اسے باری تعالٰی کے کلام یا اس کے نبی کے کلام کے اثناء میں ذکر کریں۔اسے ابتداءً اپنی طرف سے بتانا توہمارے لئے اپنے ان قریبی آباء کے حق میں بھی جائز نہیں جو ہماری ہی طرح ہیں پھر ان کے حق میں کیوں کر روا ہوگا جوہمارے سب سے پہلے باپ ہیں جو بڑی عظمت وبزرگی والے اور سب سے پہلے نبی بھی ہیں، ان پر اور تمام انبیاء ومرسلین پر خدائے بر تر کا درود سلام ہو۔(ت)


(۱؎ القرآن الکریم ۲۰ / ۱۲۱ )(۱؎ الجامع للاحکام القرآن تحت الایہ ۲۰ / ۱۲۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۱ / ۱۲۹

مدخل لابن الحاج    فصل فی مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم    بیروت    ۲ /۱۶)


امام ابو عبداللہ محمد بن عبدری ابن الحاج مدخل میں فرماتے ہیں: قد قال علما ؤ نا رحمہم اللّٰہ تعالٰی ان من قال عن نبی من الانبیاء علیھم الصّلاۃ والسلام فی غیر التلاوۃ والحدیث انہ عصٰی اوخالف فقد کفر نعوذ باللّٰہ من ذلک ۲؎۔     ہمارے علماء رحمہم اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ جوشخص انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے کسی نبی کے بھی بارے میں غیر تلاوت وحدیث میں یہ کہے کہ انہوں نے نا فرمانی یا خلاف ورزی کی تووہ کافرہے، اس سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔(ت)


 (۲؎ مدخل لابن الحاج    فصل فی مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم    بیروت    ۲ /۱۵)


ایسے امور میں سخت احتیاط فرض ہے اللہ تعالی اپنے محبوبوں کا حسن ادب عطا فرمائے ۔ آمین


وصلی اللّٰہ تعالی علی سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین وبارک وسلم واللّٰہ سبحنہ وتعالی اعلم


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے