Music

header ads

شاہ کمال کے نام سے ایک درگاہ شریف ہے وہاں دُور دُور سے لوگ آکر نذر ونیاز کے طور پر گائے یا بکری لاکر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرتے ہیں Bakri Zubah Karne Ka Hukm

 مسئلہ ۶۵ :    از مہندرگنج سکول ہیڈ مولوی ضلع گار وہیلس تورا ملک آسام مرسلہ نجم الدین احمد صاحب     ۱۸ ربیع الاول شریف ۳۱ ھ

حضرت قبلہ مولانا فاضل صاحب لطف بیکران بر غریب بادچہ ارشاد فرما یند دریں مسئلہ کہ درعلاقہ فقیر درگار ہے بنام شاہ کمال ازمدت درازست مردمان ازدور دور برائے تعمیل نذر ونیاز بزوبقرہ آوردہ بسم اللہ گفتہ ذبح  مینمایندو خادم درگاہ بتعجیل تمام پوست آن ذبیحہ راکشیدہ بعدیا قبل دباغت  میفروشند اوقاتش ازیں شغل بسر مےشود علمائے چند دریں دیار گویند کہ انتفاع ازچرم غیر اللہ جائز نیست اگرچہ بروقتِ ذبح بسم اللہ خواندہ شود وبعضے گویند کہ بلاشبہ جائز ست زیراکہ غیر اللہ مثل مردار ست چوں پوست مردار ازدباغت پاک شودچرم غیر اللہ نیز ازدباغت شود ایں چنین بحث وتکرار ہنوزپایان نرسید لہذا بخدمت اقدس حضرت عرض اینست کہ خریدوفروخت قبل یابعد دباغت پوست ذبیحہ غیر اللہ درست ست یانہ مع دلیل بحوالہ کتاب رقم درزیدہ ودستخط بالمہر عنایت سازند وعنداللہ اجر جزیل وصول نمایند۔

حضرت قبلہ مولانا فاضل مجھ پر آپ کی مہربانی ہوگی آپ کا کیا ارشاد ہے اس مسئلہ میں کہ میرے علاقہ میں شاہ کمال کے نام سے ایک درگاہ شریف ہے وہاں دُور دُور سے لوگ آکر نذر ونیاز کے طور پر گائے یا بکری لاکر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرتے ہیں وہاں کے خادم ذبح کرنے کے فوراً بعد اس کا چمڑا اتارتے ہیں اور رنگنے سے قبل یا بعد فروخت کرتے ہیں اورر اس سے ان کی گزراوقات ہوتی ہے۔ اس علاقہ کے کچھ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ غیر اللہ کے جانور کے چمڑے سے نفع جائز نہیں ہے اگرچہ ذبح کے وقت اللہ تعالٰی کا نام پڑھا جائے، اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ بلاشبہ جائز ہے کیونکہ اگر یہ جانور مردار کی طرح حرام بھی ہو تو اس کا چمڑا (دباغت) رنگنے سے پاک ہوجاتا ہے۔ یہی بحث وتکرار جاری ہے لہذا آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ غیر اللہ کے ذبیحہ کا چمڑا رنگنے سے پہلے یا بعد فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں دلیل اور حوالہ کتاب لکھیں اور دستخط ومہُر لگائیں اور اللہ کے ہاں بھاری اجر حاصل کریں۔


الجواب:آں چرمہا بنفس ذبح پاک  میشودہیچ حاجت دباغت ندار د خرید وفروخت واستعمال آنہما مطلقاً رواست مسلمانان(۱) جانوران کہ برائے اولیائے کرام قدست اسرار ہم ذبح  میکنندز نہار عبادت غیر نمی خواہند ایں بدگما نی شدید ست وبدگمانی ازطریق اسلامی بعید قال اللہ یٰایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۱؎


یہ چمڑے صرف ذبح کرنے سے ہی پاک ہوجاتے ہیں خریدوفروخت یا دیگر استعمال کیلئے رنگنا ضروری نہیں ہے مسلمان جن جانوروں کو اولیاء اللہ کیلئے ذبح کرتے ہیں اس سے ان کا مقصد یانیت ہرگز غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوتی یہ بہت بڑا بہتان ہے جو مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے اور اسلام میں بدگمانی ناجائز ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا اے مومنو! بدگمانی سے بچو اور بدگمانی گناہ ہے۔


 (۱؎ القرآن    ۴۹/۱۲)


وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ۲؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدگمانی سے بچو کیونکہ یہ جھوٹی بات ہے۔


 (۲؎ جامع للبخاری    باب قول اللہ عزوجل من بعد وصیۃ یوصی من الوصایا    قدیمی کتب خانہ کراچی۱/۳۸۴)


ودرمختار فرمود انالانسی الظن بالمسلم انہ یتقرب الی الاٰدمی بھذا النحر ۳؎ و ردالمحتار ست ای علی وجہ العبادۃ لانہ المکفر وھذا بعید من حال المسلم ۴؎۔


اور درمختار میں فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی نہیں کرسکتے وہ اس ذبح سے غیر اللہ کے تقرب اور عبادت کی نیت کرتا ہے۔ اور ردالمحتار میں ہے کہ عبادت کے بارے میں گمان نہیں ہوسکتا کیونکہ اس گمان سے مسلمانوں کو کافر بنانا ہے اور مسلمان سے یہ بات بعید ہے۔


 (۳؎ الدرالمختار        کتاب الذبائح            مجتبائی دہلی        ۲/۲۳۰)

(۴؎ ردالمحتار           کتاب الذبائح         مصطفی البابی مصر    ۵/۲۱۸)


باز اگر گیرم کہ بعض آرند گانِ جہاں، ہمچنان خواشند اگر ذابح برائے(۲) خدا ذبح کردونام اوعزو علاگرفت حلال شد کہ اعتبار نیت وقول ذابح راست کما حققناہ فی رسالتنا الصغیرۃ حجما الکبیرۃنفعا ان شاء اللّٰہ تعالٰی سیل الاصفیاء فی حکم الذبح للاولیاء ومولٰی سبحنہ وتعالٰی در قرآن عظیم فرماید مالکم ان لاتأکلوا مما ذکر اسم اللّٰہ علیہ ۱؎ شمارا چیست کہ نخورید ازانچہ برآں نام خدا گرفتہ شدہ است۔


اور اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ دنیا میں کوئی ایسا واقعہ ہے تو بھی جب ذبح کرنے والے نے اس پر اللہ تعالٰی کا نام پڑھ لیا تو وہ جانور حلال ہوجاتا ہے کیونکہ ذبح کرنے والے کی نیت اور قول کا اعتبار ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے اس کو ایک چھوٹے رسالے میں ثابت کیا ہے اگرچہ وہ رسالہ فائدہ میں اِن شاء اللہ بڑا ہے اس کا نام ''سیل الاصفیاء فی حکم الذبح للاولیاء'' ہے اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے تمہیں کیا ہوا کہ جس پر اللہ تعالٰی کا نام ذکر کیا گیا تم اس کو نہیں کھاتے۔


 (۱؎ القرآن    ۶/۱۱۹)


واگرازیں ہم گزریم وفرض کنیم کہ ذابح معاذ اللہ بہ نیت عبادت غیر کشت ومرتد گشت تاازینہم آنچہ لازم آید حرمت ذبیحہ است نہ نجاست پوست کہ نزد امام قاضی خان مذہب(۱) ارجح آنست کہ ذبح مطلقاً تطہیر جلد میکند اگرچہ ذابح مرتد یا مجوسی باشد۔ دربحرالرائق ست قد قدمنا عن معراج الدرایۃ معزیا المجتبی ان ذبیحۃ المجوسی وتارک التسمیۃ عمدا توجب الطھارۃ علی الاصح وان لم یکن ماکولا وکذا نقل صاحب المعراج فی ھذہ المسئلۃ الطھارۃ عن القنیۃ ایضا ھنا ویدل علی ان ھذا ھو الاصح ان صاحب النھایۃ ذکر ھذا الشرط بقیل معزیا الی فتاوی قاضی خان ۲؎


اس کو بھی اگر چھوڑیں اور ہم فرض کرلیں کہ معاذاللہ کہ ذبح کرنے والے نے غیر اللہ کی عبادت کی نیت سے جانور کو کاٹا اور وہ مرتد ہوگیا تب بھی جانور حرام ہوگا مگر اس کا چمڑا نجس نہ ہوگا، امام قاضی خان کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ذبح مطلقاً چمڑے کو پاک کردیتا ہے خواہ ذبح کرنے والا مرتد یا مجوسی ہو۔ بحرالرائق میں ہے کہ مجتبیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ہم نے معراج الدرایہ سے پہلے نقل کیا ہے کہ مجوسی یا قصداً بسم اللہ نہ پڑھنے والے کا ذبیحہ بھی پاک ہے اگرچہ وہ کھانے کیلئے حرام ہے، یہی صحیح ہے نیز صاحبِ معراج نے بھی اس مسئلہ کو قنیہ سے نقل کیا اور کہا کہ پاک ہے۔ اس کے اصح ہونے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ صاحبِ نہایہ نے اس شرط کو قیل کے ساتھ ذکر کیا اور اس کو قاضی خان کی طرف منسوب کیا ہے۔


 (۲؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ    سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۰۶)

درفتاوائے امام اجل قاضی خان فخرالدین او زجندی ست مایطھر جلدہ بالدباغ یطھر لحمہ بالذکاۃ ذکرہ شمس الائمۃ الحلوانی رحمہ اللّٰہ تعالٰی وقیل یجوز بشرط ان تکون الذکاۃ من اھلھا فی محلھاوقد سمی ۱؎ اھ


اور امام اجل قاضی خان فخرالدین اوزجندی کے فتاوٰی میں ہے کہ وہ جانور جس کا چمڑا رنگنے سے پاک ہوجاتا ہے ذبح کرنے سے اس کا گوشت پاک ہوجاتا ہے اس کوشمس الدین حلوانی رحمہ اللہ تعالٰی نے ذکر کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا بشرطیکہ ذبح کا عمل اپنے محل میں اہلیت والے شخص سے صادر ہو اور بسم اللہ بھی پڑھی ہو۔ (ت)


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل فی النجاسۃ        نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۰)


اقول فافادبحکم المقابلۃ ان الذکاۃ فی القول الاول مطلقۃ ولوغیر شرعیۃ والمسألۃ فی اللحم تدل علی حکم الجلد بالاولی ففیہ ترجیحان لعدم اشتراط الشرعیۃ الاول ماذکر من ذکرہ القول الثانی بقیل والثانی انہ قدم الاول وھو انما یقدم الاظھر الاشھر کمانص علیہ فی خطبتہ فیکون ھو المعتمد کمافی الطحطاوی والشامی۔


میں کہتا ہوں کہ حکم مقابلہ سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ پہلے قول میں ذبح عام ہے خواہ غیر شرعی ہو، اور گوشت کے حکم سے چمڑے کا حکم بطریق اولیٰ معلوم ہوا، یہاں ذبح کیلئے شرع کی شرط نہ ہونے پر دو ترجیحات ہیں اوّل یہ کہ دوسرے قول کو قیل کے ساتھ ذکر کرنا، اور دوسری یہ کہ پہلے قول کو مقدم ذکر کرنا کیونکہ وہ مشہور اور واضح قول کو پہلے لاتے ہیں جیسا کہ انہوں نے خود یہ بات اپنے خطبہ میں کہی ہے لہٰذا یہ پہلا قول قابلِ اعتماد ہے جیسا کہ طحطاوی اور شامی میں ہے۔ (ت)


اماقول الدر ھل یشترط لطھارۃ جلدہ کون ذکاتہ شرعیۃ قیل نعم وقیل لا والاول اظھر لان ذبح المجوسی وتارک التسمیۃ عمدا کلا ذبح ۲؎ اھ فاقول نعم ذلک فی حق الحل اماطھارۃ الجلد فلا تتوقف علیہ وانما ھی لان الذبح یعمل عمل الدباغ فی ازالۃ الرطوبات النجسۃ ۳؎ کما فی الھدایۃ بل لانہ یمنع من اتصالھا بہ والدباغ مزیل بعد الاتصال ولما کان الدباغ بعد الاتصال مزیلا ومطھراکانت الذکاۃ المانعۃ من الاتصال اولی ان تکون مطھرۃ ۱؎ کمافی العنایۃ ولاشک ان ھذا یعم کل ذبح فکان کما اذا دبغ مجوسی فالاظھر مااختارہ الامام قاضیخان ھذا ولعل الاوفق بالقیاس والا لصق بالقواعد ماذکر تصحیحہ فی التنویر والدر والقنیۃ ایضا وبہ جزم الاکمل والکمال وابن الکمال فی العنایۃ والفتح والایضاح وبالجملۃ ھماقولان مصححان وھذا اوفق وذاک ارفق فاختر لنفسک والاحتیاط اولٰی۔


لیکن درمختار کا یہ قول کہ کیا چمڑے کے پاک ہونے کیلئے شرعی ذبح شرط ہے، بعض نے کہا کہ ہاں اور بعض نے کہا نہیں۔ اور اول زیادہ ظاہر ہے کیونکہ مجوسی اور بسم اللہ کو قصداً چھوڑنے والے کا ذبح کالعدم ہوتا ہے، میں کہتا ہوں کہ ہاں حلال ہونے کے معاملہ میں تو ایسے ہے لیکن چمڑے کے پاک ہونے کا حکم اس پر موقوف نہیں ہے اور یہ اس لئے کہ ذبح کرنے والا اپنے عمل میں دبّاغ کا عمل کرتا ہے کہ وہ نجس رطوبات کو نکال دیتا ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے بلکہ ذبح کا عمل چمڑے سے ناپاک رطوبتیں لگنے سے منع کرتا ہے جبکہ دباغت کا عمل ناپاک رطوبتوں کو لگنے کے بعد زائل کرتا ہے اور دباغت جوکہ رطوبات کو لگنے کے بعد زائل کرتی ہے، سے چمڑا پاک ہوجاتا ہے تو ذبح سے بطریق اولیٰ پاک ہوگا کیونکہ وہ رطوبات کو چمڑے کے ساتھ لگنے سے روک دیتا ہے جیسا کہ عنایہ میں ہے اور بلاشبہ یہ چیز ہر ذبح میں پائی جاتی ہے جیسا کہ ہر دباغت سے پاک ہوجاتا ہے خواہ مجوسی ہی دباغت کرے لہذا ظاہر حکم و ہی ہے جس کو قاضی خان نے بیان کیا ہے، اس کو محفوظ کرو۔ ہوسکتا ہے جس قول کی تصحیح تنویر، دُر اور قُنیہ نے کی وہ بھی قیاس کے موافق اور قواعد کے مطابق ہو۔ اسی کو اکمل، کمال اور ابن کمال نے عنایہ، فتح اور ایضاح میں اختیار کیا ہے۔ حاصل یہ کہ صحیح شدہ یہ دونوں قول ہیں ایک قیاس وقاعدہ کے زیادہ قریب ہے اور دوسرا آسانی کا باعث ہے اپنے طور پر جسے چاہو پسند کرو مگر احتیاط بہتر ہے۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار        باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۸)

(۳؎ الہدایۃ        قبیل فصل فی البئر    المکتبۃ العربیۃ کراچی    ۱/۲۴)

(۱؎ العنایۃ مع الفتح القدیر        مطبوعہ سکھّر    ۱/۸۳)


واگر ازینہم گرزیم وگیریم کہ ذابح معاذ اللہ مرتد شدوذبیحہ بجمیع اجزائہا نجس گشت بریں تقدیر نیز دباغت راموجب طہارت ندانستن جہل عظیم وباطل باجماع ائمہ ماست فقد قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایما اھاب دبغ فقد طھر۲؎  واللّٰہ تعالٰی اعلم۔


اور اگر ہم اس کو بھی درگزر کریں اور تسلیم کرلیں کہ ذابح معاذ اللہ مرتد ہے اور ذبیحہ کے چمڑے سمیت تمام اجزاء ناپاک ہیں تب بھی دباغت کے عمل سے چمڑے کو پاک نہ ماننا جہالت ہے اور باطل ہے کیونکہ اس پر تمام ائمہ کا اجماع ہے اور خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر چمڑا رنگنے سے پاک ہوجاتا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۲؎ مسند امام احمد بن حنبل عن ابن عباس    بیروت    ۱/۲۱۹)


فصل فی البئر


مسئلہ ۶۶ :از خیر آباد مرسلہ مولوی سید حسین بخش صاحب رضوی     یکم ربیع الاوّل ۱۳۰۶ہجری

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر گرگٹ چاہ افتادہ ہو اُس کا پانی کس قدر نکالا جائے اور گرگٹ کس جانور کے برابر ہوسکتا ہے اگرچہ جُثّہ میں چھپکلی سے زیادہ اور خون رکھتا ہے بحوالہ کتاب ارشاد ہو، بینوا توجروا۔


الجواب:گرگٹ چُوہے کے حکم میں ہے اگر کُنویں سے مُردہ نکلے اور پھُولا پھٹانہ ہو بیس۲۰ ڈول نکالے جائیں گے فتاوٰی خانیہ وفتاوٰی ہندیہ وغیرہما میں ہے: اذا وقع فی البئر سام ابرص ومات ینزح منھا عشرون دلوافی ظاھر الروایۃ ۱؎۔ ظاہر روایت یہ ہے کہ اگر گرگٹ کنویں میں گر کر مرجائے تو بیس۲۰ ڈول نکالے جائیں گے۔ (ت)


 (۱؎ فتاوی ہندیۃ    النوع الثالث من الفصل الاول من المیاہ    پشاور    ۱/۲۰)


علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح میں شرح نورالایضاح میں فرماتے ہیں: مابین الفارۃ والھرۃ فحکمہ حکم الفارۃ ۲؎ الخ  (چوہے اور بلّی کے درمیانی جانور سب کا حکم چوہے جیسا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔


 (۲؎ مراقی الفلاح    مسائل الاٰبار            بولاق مصر    ص۲۲)


مسئلہ ۶۷ (عہ) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دلو وسط کی مقدار کیا ہے۔ بینوا توجروا۔

(عہ) یہ فتوٰی فتاوٰی قدیمہ کے بقایا سے ہے جو مصنف نے اپنے صغر سن میں لکھے ۱۲ (م)


الجواب:کنویں میں جب کوئی چیز گرجائے اور شرع مطہر کچھ ڈول نکالنے کا حکم دے جہاں متون متاخرین میں لفظ دلو وسط واقع ہوا یعنی مثلاً چوہا گر کر مرجائے تو بیس۲۰ ڈول متوسط نکالے جائیں، اس ڈول کی تعیین میں بھی اقوال مختلفہ ہیں کہ سات۷ تک پہنچتے ہیں مگر ظاہر الروایۃ ومختار(۱) امام قاضی خان وصاحبِ(۲) محیط ومصنف(۳) اختیار ومولف(۴ ہدایہ وغیرہم اکابر علماء یہی ہے کہ ہر کنویں کے لئے اُسی کا ڈول معتبر ہوگا جس سے اس کا پانی بھرا جاتا ہے، ہاں اگر اُس کنویں کا کوئی ڈول معین نہ ہو تو اس ڈول کا اعتبار کریں گے جس میں ایک صاع عدس یا ماش آجائیں غنیہ میں ہے:


الدلو الوسط مایسع صاعا من الحب المعتدل ۱؎  (درمیانہ ڈول وہ ہے جس میں صاع برابر (دال وغیرہ کے) دانے آجائیں۔ ت) اور صاع(۱) ہمارے امام کے نزدیک آٹھ رطل کا ہوتا ہے ہر رطل بیس۲۰ اِستار ہر استار ساڑھے چار مثقال ہر مثقال ساڑھے چار ماشے، تو ہر رطل تینتیس۳۳ تولے نوماشے، اور صاع دوسو ستّر۲۷۰ تولے کا ہوا۔


 (۱؎ غنیۃ المستملی    فصل فی البئر    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۵۷)


فی ردالمحتار عن شرح درر البحار اعلم ان الصاع اربعۃ امداد والمد رطلان والرطل نصف من والمن بالدراھم مائتان وستون درھما وبالاستار اربعون والاستار بکسرا لھمزۃ بالدراھم ستۃ ونصف وبالمثاقیل اربعۃ ونصف ۲؎ اھ


ردالمحتار میں شرح دررالبحار سے منقول ہے، معلوم ہونا چاہئے کہ صاع چار۴ مُد، اور مُد دو۲ رطل، اور رطل نصف مَن اور مَن کا وزن دوسوساٹھ۲۶۰ درہم اور مَن اِستار کے حساب سے چالیس۴۰ استار کا ہوتا ہے، اور استار کا وزن دراہم کے حساب سے ساڑھے چھ درہم اور مثاقیل کے حساب سے ساڑھے چار مثقال ہوتا ہے۔ اھ (ت)


 (۲؎ ردالمحتار    مطلب فی تحریر الصاع من الزکاۃ    مصطفی البابی مصر    ۲/۸۳)


اقول: والدرھم المذکور ھھنا غیر الدرھم الشرعی المعتبر بوزن سبع کما یشھد بذلک جعلہ الاستار بالدراھم ستۃ ونصفا وبالمثاقیل اربعۃ ونصفا اذلوکان بوزن سبع لکانت اربعۃ مثاقیل ونصف بالدراھم ستۃ وثلثۃ اسباع لانصفا وایضا لوکان المن ۲۶۰ درھما بوزن سبعۃ لکان من المثاقیل ۱۸۲مع انہ بحساب الاستار المذکور مائۃ وثمانون کمالایخفی علی المحاسب۔


میں کہتا ہوں کہ یہاں جس درہم کا ذکر کیا گیا ہے وہ شرعی درہم نہیں جس میں سات کا وزن معتبر ہے (یعنی دس درہم بمقابلہ سات مثقال) اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اِستار کے حساب میں ساڑھے چار (۲/۱ -۴) مثقال کو ساڑھے چھ (۲/۱ -۶) دراہم کے برابر ذکر کیا ہے اور اگر سات کا وزن مراد ہوتا تو پھر ساڑھے چار (۲/۱ -۴) مثقال کے برابر ساڑھے چھ (۲/۱ -۶) کی بجائے چھ دراہم اور ایک درہم کے تین ساتویں حصے (۷/۳ -۶) کہا جاتا نیز اگر من دوسوساٹھ ۲۶۰ دراہم کا سات کے وزن پر ہوتا تو ایک سو بیاسی۱۸۲ مثقال مَن کی مقدار میں بیان کیا جاتا حالانکہ انہوں نے ایک سو بیاسی۱۸۲ مثقال کی بجائے ایک سو اسّی۱۸۰ مثقال کہا جو کہ حساب دان پر مخفی نہیں۔ (ت)

وبہ علم بحمداللّٰہ تعالی ان(۱) ماوقع من العلامۃ الشامی حیث قال بعد مامر ثم اعلم ان الدرھم الشرعی اربعۃ عشر قیراطا والمتعارف الاٰن ستۃ عشر فاذا کان الصاع الفا واربعین درھما شرعیا یکون بالدرھم المتعارف تسعمائۃ وعشرۃ ۱؎ الخ خلط بین اصطلاحین فان الصاع انما یکون الفا واربعین بالدرھم المذکور ھنا لان الصاع ثمانیۃ ارطال والرطل عشرون استارا والاستار بھذہ الدراھم ستۃ ونصف فاذا ضربت عشرین فی ستۃ ونصف کان الرطل مائۃ وثلثین درھما بضربھا فی ثمانیۃ یحصل الف واربعون والدرھم الذی ھو اربعۃ عشر قیراطا انما ھو الدرھم الشرعی المعتبر بوزن سبعۃ کما فی الدرالمختار وغیرہ فتنبہ لھذا واترک الدراھم وحاسب بمالایختلف وھو المثقال فانہ اربع ونصف ماسۃ(۲) فالاستار طولجۃ وثمان ماسات وربع ای حبتان فالرطل ثلث وثلثون طولجۃ وتسع ماسات کماذکرنا وباللّٰہ التوفیق۔


مذکور وضاحت سے معلوم ہوا کہ علامہ شامی نے اپنی مذکورہ بالا عبارت کے بعد جہاں یہ فرمایا کہ ''جاننا چاہئے کہ شرعی درہم چودہ قیراط کا ہوتا ہے حالانکہ اب سولہ قیراط والا متعارف ہوا پس جب صاع کو ایک ہزار چالیس (۱۰۴۰) شرعی دراہم کا قرار دیا جائے تو متعارف درہم کے حساب سے صاع نوسودس (۹۱۰) دراہم کا ہوگا'' الخ۔ اس میں علامہ نے دونوں اصطلاحوں میں خلط کردیا ہے کیونکہ صاع کا حساب ایک ہزار چالیس (۱۰۴۰) دراہم اس وزن سے بنتا ہے جس کو علامہ شامی نے خود اوپر یہاں ذکر کیا ہے کیونکہ جب صاع آٹھ رطل، اور رطل بیس۲۰ استار، اور اِستار اس درہم کے حساب سے ساڑھے چھ (۲ /۱ -۶) درہم بنتا ہے تو جب بیس۲۰ کو ساڑھے چھ (۲/۱ -۶) میں ضرب دیں تو رطل ایک سو تیس(۱۳۰) درہم کا ہوگا جب اس کو آٹھ سے ضرب دیں تو  ایک ہزار چالیس(۱۰۴۰) بنے، اور جو درہم چودہ قیراط ہے وہ شرعی ہے جس میں سات والا وزن معتبر ہے جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے۔ لہذا تم سمجھو اور دراہم کا حساب چھوڑ کر مثاقیل کے حساب کا اعتبار کرو جو مختلف نہیں ہوتا۔ پس مثقال ساڑھے چار (۲/۱ -۴) ماشہ جبکہ اِستار ایک تولہ آٹھ ماشے دو۲ رتی ہوگا۔ اس طرح رطل تینتیس (۳۳) تولہ نوماشہ ہوگا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، اور اللہ تعالٰی سے ہی توفیق ہے۔ (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    مطلب فی تحریر الصاع من الزکوٰۃ    مصطفی البابی مصر    ۲/۸۳)


اور یہ تفصیل کہ ہر کنویں کیلئے اُسی کا ڈول معتبر رکھیں اور نہ ہو تو ایک صاع والا ڈول یہ گویا ان دونوں معتبر قولوں کی جمع وتوفیق اور قول فیصل ہے اور یہی فتاوٰی خلاصہ(۱) وشرح(۲) طحاوی وسراج(۳) سے ظاہر اور صاحبِ بحرالرائق(۴) نے اسی پر اعتماد اور صاحبِ در(۵) مختار نے اسی پر جزم کیا اور بہ تبیعت صاحبِ بحر دلو وسط کے یہی معنی قرار دیے۔


فی الخانیۃ اذا وجب نزح بعض الماء بعدد من الدلاء فالمعتبر فی ذلک دلوھذہ البئر ۱؎ وفی الھدایۃ(۲) ثم المعتبر فی کل بئر دلوھا الذی یستقی بہ منھا وقیل دلویسع فیہ صاع ۲؎


خانیہ میں ہے کہ جب کنویں سے چند ڈول کے حساب کچھ پانی نکالا ہو تو اس کنویں کا ڈول معتبر ہوگا۔ اور ہدایہ میں ہے پھر ہر کنویں میں اس کا وہی ڈول معتبر ہوگا جس سے پانی نکالا جاتا ہے۔ اور بعض نے کہا کہ ایک صاع کی گنجائش والا معتبر ہے۔


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل فی مایقع فی البئر    نولکشور لکھنؤ    ۱)/۶

(۲؎ الہدایۃ    فصل فی البئر    المکتبۃ العربیۃ کراچی        ۱/۲۷)


وفی الخلاصۃ المعتبر فی کل بئر دلوھا فان لم یکن لتلک البئر دلوح ینزح بدلو یسع فیہ الصاع وھو ثمانیۃ ارطال وعن ابی حنیفۃ خمسۃ امناء ۳؎ وفی البحر(۴) الرائق واختلف فی تفسیر الدلو الوسط فقیل ھی الدلو المستعملۃ فی کل بلد وقیل المعتبر فی کل بئر دلوھا لان السلف لما اطلقوا انصرف الی المعتاد واختارہ فی المحیط والاختیار والھدایۃ وغیرھا وھو ظاھر الروایۃ لانہ مذکور فی الکافی للحاکم وقیل مایسع صاعا وھو ثمانیۃ ارطال وقیل عشرۃ ارطال وقیل غیر ذلک۔


اور خلاصہ میں ہے کہ ہر کنویں میں اس کا اپنا ڈول معتبر ہے اور اگر اس کا اپنا ڈول نہ ہو تو اس وقت اس کا پانی ایسے ڈول کے ساتھ نکالا جائے جس میں ایک صاع کی گنجائش ہو اور صاع آٹھ رطل ہے اور امام ابوحنیفہ سے پانچ مَن (دس رطل) کی روایت ہے۔ اور بحرالرائق میں ہے کہ درمیانے ڈول کی تعیین میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہر علاقے میں وہاں کا مستعمل ڈول ہے اور بعض نے ہر کنویں میں استعمال ہونےوالا ڈول مراد لیا ہے کیونکہ اسلاف جب کسی چیز کو مطلق بولتے ہیں تو اس سے زیر عادت چیز مراد ہوتی ہے اسی کو محیط، اختیار اور ہدایہ وغیرہا میں پسند کیا گیا ہے اور یہی ظاہر روایت ہے کیونکہ امام حاکم کی کتاب "کافی"  میں یہی مذکور ہے۔ بعض نے درمیانہ ڈول ایک صاع کی گنجائش والے کو قرار دیا ایک صاع کے بارے میں بعض نے آٹھ رِطل اور بعض نے دس رِطل کہا ہے، اس کے علاوہ اور بھی قول ہیں۔ (ت)


 (۳؎ خلاصۃ الفتاوٰی    مسائل البئر    نولکشور لکھنؤ    ۱/۱۱)


والذی یظھر ان البئر اما ان یکون لھا دلوا ولا فانکان لھا دلو اعتبر بہ والا اتخذ لھا دلویسع صاعا وھو ظاھر مافی الخلاصۃ وشرح الطحاوی والسراج الوھاج وح فینبغی ان یحمل قول من قدر الدلو علی مااذا لم یکن للبئر دلو کما لایخفی ۱؎


اور ظاہر یہ ہے کہ کنویں کا اپنا ڈول ہوگا یا نہیں، اگر اپنا ڈول ہو تو وہی معتبر ہوگا ورنہ پھر ایک صاع والا ڈول بنوایا جائے گا اور یہ خلاصہ، شرح طحاوی، سراج وہاج کی عبارات سے ظاہر ہے، اس صورت میں جنہوں نے ڈول کا اندازہ بیان کیا یہ اس وقت ہوگا جب کنویں کا اپنا ڈول نہ ہو، جیسا کہ مخفی نہیں،


 (۱؎ بحرالرائق     کتاب الطہارت    سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۸)


وفی الدر(۵) المختار بدلو وسط ھو دلو تلک البئر فان لم یکن فمایسع صاعا ۲؎ وفی الشامیۃ قولہ فان لم یکن الخ ھذا اذا کان لھا دلو فان لم یکن فالمعتبر دلو یسع صاعا ھذا التفصیل استظھرہ فی البحر وقال ھو ظاھر مافی الخلاصۃ وشرح الطحاوی والسراج ۳؎۔


اور درمختار میں ہے درمیانہ ڈول کنویں کا ڈول ہے اور اگر اس کا ڈول نہ ہو تو پھر ایک صاع والا ڈول ہوگا۔ اور فتاوٰی شامی میں ہے کہ ماتن کے قول اگر نہ ہو، کا مطلب یہ اگر کنویں کا اپنا ڈول ہو تو وہی معتبر ہے اور اگر نہ ہو تو ایک صاع والا ڈول معتبر ہے۔ اس تفصیل کو بحر میں ذکر کیا ہے اور کہا کہ یہ خلاصہ، شرح طحاوی اور سراج کے مضمون سے ظاہر ہوا۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار    فصل فی البئر    مجتبائی دہلی        ۱/۳۹)

(۳؎ ردالمحتار      فصل فی البئر       مصفی البابی مصر    ۱/۱۵۹)


وفی المقام بحث وکلام اورد بعضا منہ السید ابن عابدین فی ھذہ الحاشیۃ رأینا طی الکشح عنہ احری مخافۃ التطویل مع حصول المقصود اذ(۱) لیس مرجعہ الا الی اللفظ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔


اس مقام میں بحث اور کلام ہے جس کا کچھ حصہ علامہ ابن عابدین (شامی) نے اس حاشیہ میں ذکر کیا ہے ہم نے مقصد کے حاصل ہوجانے پر طوالت کے خوف سے اس بحث کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کا تعلق صرف الفاظ سے ہے واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ (ت)


مسئلہ ۶۸ :   ۲۸ رمضان ۱۳۰۵ہجری :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کنویں میں سے گائے یا بھینس کا پٹھا نکلا جو بندش کے کام میں آتا ہے نہیں معلوم کسی آدمی سے گرایا جانور نے ڈال دیا ثابت ہے گلا سڑا نہیں اس میں کنویں کیلئے کیا حکم ہے طاہر ہے یا نجس بینوا توجروا۔


الجواب:طاہر ہے مطلقاً اگرچہ گل گیا ہو، فی التنویر شعرالمیتۃ وعظمھا وعصبھا طاھر ۱؎ اھ ملتقطا اقول وھذا فی العصب علی المشھورکما فی الدروکذا علی خلافہ اعنی روایۃ نجاسۃ عصب المیتۃ اذلا علم بان الواقع فی البئر ھو عصب المیتۃ دون المذبوح والیقین لایزول بالشک ۲؎  واللّٰہ تعالی اعلم۔


تنویر میں ہے کہ مردار کی ہڈی، بال اور پٹھّے پاک ہیں اھ ملتقطا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ حکم مردار کے پٹھوں کے بارے میں مشہور قول پر مبنی ہے جیسا کہ دُر میں ہے اور اگر اس کے خلاف کا لحاظ کیا جائے یعنی مردار کے پٹھوں کو نجس والی روایت، تو بھی حکم یہی ہوگا (کہ پانی پاک ہوگا) کیونکہ کنویں سے نکلنے والے پٹھے کے بارے میں معلوم نہیں کہ مردار کا ہے یا ذبح شدہ جانور کا ہے تو یہ شک یقین کو زائل نہیں کرے گا، واللہ تعالٰی اعلم (ت)


 (۱؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مجتبائی دہلی        ۱/۳۸)

(۲؎ غنیۃ المستملی    فصل فی البئر    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۶۰)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے