مسئلہ ۱۸: ازکلکتہ دھرم تلا نمبر ۶ مرسلہ جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب ۱۲ رمضان المبارک ۱۳۱۱ ھ وبار دوم از ملک بنگال ضلع نواکھالی مقام ہتیا مرسلہ مولوی عباس علی عرف مولوی عبدالسلام صاحب ۲۰ ذی الحجہ ۱۳۱۵ ھ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حالتِ جنابت میں ہاتھ دھو کر کُلّی کر کے کھانا کھانا کراہت رکھتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب
نہ ،اور بغیر اس کے مکروہ۔ اور افضل تو یہ ہے کہ غسل ہی کرلے ورنہ وضو کہ جہاں جنب ہوتا ہے ملائکہ رحمت اُس مکان میں نہیں آتے۔ کما نطقت بہ الاحادیث (جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ ت)
درمختار میں ہے: لاباس باکل وشرب بعد مضمضۃ وغسل ید واما قبلہا فیکرہ للجنب ۱؎ اھ ملخصا
کُلّی کرنے اورہاتھ دھولینے کے بعدکھانے پینے میں حرج نہیں،اوراس سے پہلے جنب کے لئے مکروہ ہے اھ ملخصاً ۔(ت)
(۱؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ،باب الحیض مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۱)
ردالمحتار میں حاشیہ علامہ حلبی سے ہے: وضوء الجنب لھذہ الاشیاء مستحب کوضوء المحدث۱؎۔ ان کاموں کے لئے جنب کو وضو ئے محدث کی طرح وضو کرلینا مستحب ہے۔(ت)
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،باب الحیض دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۹۵)
امام طحاوی شرح معانی الآثار میں مالک بن عبادہ غافقی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ انہوں نے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ حاجتِ غسل میں کھانا تناول فرمایا، انہوں نے فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے اس کا ذکر کیا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اعتبار نہ آیا انہیں کھینچے ہوئے بارگاہِ انور میں حاضر لائے اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! یہ کہتے ہیں کہ حضور نے بحال جنابت کھانا تناول کیا۔ فرمایا: نعم اذا توضأت اکلت وشربت ولکنی لااصلی ولا اقرء حتی اغتسل۲؎ ہاں جب میں وضو فرمالوں توکھاتاپیتا ہوں مگر نماز وقرآن بے نہائے نہیں پڑھتا۔(ت)
(۲؎ شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ،باب ذکر الجنب والحائض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۶۵)
مسئلہ ۱۹: غرہ شعبان ۱۳۱۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ حالت ناپاکی میں مسجد میں جانا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
حرام ہے مگر بضرورتِ شدیدہ کہ نہانے کی ضرورت ہے اور ڈول رسّی اندر رکھا ہے اور یہ اُس کے سوا کوئی سامان کر نہیں سکتا نہ کوئی اندر سے لا دینے والا ہے یا کسی دشمن سے خائف ہے اور مسجد کے سوا جائے پناہ نہیں اور نہانے کی مہلت نہیں ایسی حالتوں میں تیمم کرکے جاسکتا ہے، صورتِ اولٰی میں صرف اتنی دیر کے لئے ڈول رسّی لے آئے اور صورتِ ثانیہ میں جب تک وہ خوف باقی رہے۔
اقول:بلکہ صورت ثانیہ میں اگر دشمن سر پر آگیا تیمم کی بھی مہلت نہیں تو بے تیمم چلا جائے اور کواڑ بند کرنے کے بعد تیمم کرلے فان الحقین اذا اجتمعا قدم حق العبد لفقرہ وغنی المولی (کیونکہ جب حق اللہ اور حق العبد دونوں جمع ہوں توحق العبد کو مقدم کرے اس لئے کہ بندہ محتاج ہے او ر مولا بے نیازہے ۔ ت) صرف اس ضرورت کیلئے کہ گرم پانی سقائے میں ہے اور سقایہ مسجد کے اندر ہے باہر تازہ پانی موجود ہے گرم پانی لینے کو بے غسل مسجد میں جانا جائز نہیں مگر وہی ضرورت کی حالت میں اگر تازہ پانی سے نہائے گا تو صحیح تجربے یا طبیب حاذق مسلم غیر فاسق کے بتانے سے معلوم ہے کہ بیمار ہوجائے گا یا مرض بڑھ جائے گا اور باہر کہیں گرم پانی کا سامان نہیں کرسکتا نہ اندر سے کوئی لادینے والا ہے تو تیمم کرکے اندر جاکر لاسکتا ہے واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۰: ۴ جمادی الآخرہ ۱۳۱۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسلمان کو نہانے کی حاجت ہو اُس حالت میں مسجد کے لوٹے وغیرہ کو ناپاک ہاتھ سے چھُونا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب
ہاتھ پر اگر کوئی نجاست لگی ہے کہ ہاتھ سے چھُوٹ کر لگ جائے گی تو چھونا جائز نہیں اگرچہ لوٹا نہ مسجد کا ہو نہ کسی دوسرے شخص کا بلکہ خود اپنی ملک ہو کہ بلا ضرورت فـــ پاک شے کو ناپاک کرنا ناجائز وگناہ ہے بحرالرائق بحث ماء مستعمل میں بدائع سے ہے تنجیس الطاھر حرام ۱؎ (پاک کو ناپاک کرنا حرام ہے۔ ت) اور اگر کوئی نجاست نہیں صرف نہانے کی حاجت ہے تو جائز ہے اگرچہ ہاتھ یا لوٹا تر ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم
فــــ:مسئلہ بلاضرورت پاک چیز کو ناپاک کرنا حرام ہے۔
(۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۹۴)
مسئلہ ۲۱: ازپیلی بھیت محلہ پنجابیاں مرسلہ شیخ عبدالعزیز صاحب ۱۳۰۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اِن مسائل میں اول یہ کہ سوا مصحف خاص کے کہ جس کے چھُونے کی جنب اور محدِث کے حق میں شریعت سے ممانعت صریح واقع ہوئی ہے بعض مصاحف اس قسم کے رائج ہوئے ہیں کہ اُن میں علاوہ نظم قرآن شریف کے دیگر مضامین بھی شامل ہوتے ہیں چنانچہ بعض قسم اُس کی مترجم ہیں کہ مابین السطور ترجمہ فارسی یا اردو کا ہوتا ہے اور بعض مترجم کے حواشی پر کچھ کچھ فوائد بھی متعلق ترجمہ کے ثبت ہوتے ہیں بلکہ بعض میں فوائد متعلق قراء ت اور رسم خط وغیرہ بھی درج ہوتے ہیں اور بعض اقسام مترجم کے حاشیوں پر کوئی کوئی تفسیر بھی چڑھی ہوتی ہے بعض پر عربی مثل جلالین وغیرہ کے اور بعض میں فارسی اور اردو مثل حسینی وغیرہ کے چڑھاتے ہیں علی ہذا القیاس اس قسم کے مصاحف کے مس کرنے کا حکم بحق جنب اور محدث کے حرام ہے یا مکروہ اور در صورت کراہت تحریمی ہوگی یا تنزیہی یا جائز بلا کراہت ہے بینوا توجروا۔
الجواب
محدث کو مصحف چھونا مطلقاً حرام ہے خواہ اُس میں صرف نظم قرآن عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ترجمہ یا تفسیر یا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگا یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذافـــ۱ حاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا بلکہ پٹھوں کو بھی بلکہ چولی پر سے بھی بلکہ ترجمہ کا چھونافـــ۲ خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو ہندیہ میں ہے: منھا حرمۃ مس المصحف لا یجوز لہما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لابما ھو متصل بہ ھو الصحیح ھکذا فی الھدایۃ وعلیہ الفتوی کذا فی الجوھرۃ النیرۃ والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لاکتابۃ علیہ ھکذا فی التبیین ۱؎۔ ان ہی امور میں سے مصحف چھونے کی حرمت بھی ہے۔ حیض ونفاس والی کے لئے ،جنب کے لئے ،اوربے وضو کے لئے مصحف چھونا جائز نہیں۔مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو اس سے الگ ہوجیسے جزدان اوروہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو، اس غلاف کے ساتھ چھُونا جائز نہیں جو مصحف سے جُڑا ہوا ہو یہی صحیح ہے، ایسا ہی ہدایہ میں ہے، اسی پر فتوٰی ہے اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے ۔اور صحیح ہے کہ مصحف کے کناروں اوراس بیاض کو بھی چھونا منع ہے جس پر کتابت نہیں ہے۔ایسا ہی تبیین میں ہے۔(ت)
فـــ۱:مسئلہ بے وضو آیت کو چھونا تو خود ہی حرام ہے اگرچہ آیت کسی اور کتاب میں لکھی ہو مگر قرآن مجید کے سادہ حاشیہ بلکہ پٹھوں بلکہ چولی کا بھی چھونا حرام ہے ہاں جزدان میں ہو تو جزدان کو ہاتھ لگاسکتاہے۔
فـــ۲:مسئلہ قرآن مجید کا خالی ترجمہ اگر جدا لکھا ہو اسے بھی بے وضو چھونا منع ہے۔
(۱؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ،الباب السادس،الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۸ و ۳۹)
اُسی میں ہے: لوکان القراٰن مکتوبا بالفارسیۃ یکرہ لھم مسہ عند ابی حنیفۃ وھکذا عندھما علی الصحیح ھکذا فی الخلاصۃ۱؎۔
اگر قرآن فارسی میں لکھا ہوا ہو تومذکورہ افراد کے لئے امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا چھونا مکروہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ صاحبین کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے۔(ت)
(۱؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ،الباب السادس،الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۹)
درمختار میں ہے: ولو مکتوبا بالفار سیۃ فی الاصح الا بغلافہ المنفصل۲؎۔ اصح یہ ہے کہ فارسی میں قرآن لکھا ہوتوبھی چھونا جائز نہیں مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو مصحف سے الگ ہو۔ (ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ،باب الحیض مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۱)
ردالمحتار میں ہے: دون المتصل کالجلد المشرز ھو الصحیح وعلیہ الفتوی لان الجلد تبع لہ سراج ۳؎۔ اس غلاف کے ساتھ نہیں جو مصحف سے ملا ہوا ہو جیسے اس کے ساتھ جُڑی ہوئی جلد،یہی صحیح ہے، اوراسی پر فتوٰی ہے اس لئے کہ جلد تابع ہے۔ سراج۔(ت)
(۳؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،باب الحیض دار احیاء التراث العربی ۱ /۱۹۵)
اُسی فـــ میں ہے: فی السراج عن الایضاح ان کتب التفسیر لایجوز مس موضع القراٰن منہا ولہ ان یمس غیرہ وکذا کتب الفقہ اذا کان فیہا شیئ من القراٰن بخلاف المصحف فان الکل فیہ تبع للقراٰن۱؎ اھ واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی اعلم۔
سراج میں ایضاح کے حوالے سے ہے کہ کتب تفسیر میں جہاں قرآن لکھا ہوا ہے اس جگہ کو چھونا جائز نہیں، اور وہ دوسری جگہ کوچھوسکتاہے۔ یہی حکم کتب فقہ کاہے جب ان میں قرآن سے کچھ لکھا ہوا ہو، بخلاف مصحف کے کہ اس میں سب قرآن کے تابع ہیں اھ۔واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔(ت)
فـــ:مسئلہ کتب تفسیر و حدیث و فقہ میں جہاں آیت لکھی ہو خاص اس جگہ بے وضو ہاتھ لگانا حرام ہے باقی عبارت میں افضل یہ ہے کہ باوضو ہو۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ،قبیل باب المیاہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۸ و ۱۱۹)
0 تبصرے