Music

header ads

وضو میں پانی زیادہ نہ خرچ ہونے کیلئے چند امور کا لحاظ رکھیں Wuzu me Ziyada Pani kharch karna

 فائدہ مہمّہ: فــ۱:وضو میں پانی زیادہ نہ خرچ ہونے کیلئے چند امور کا لحاظ رکھیں:

(۱) وضو دیکھ فــ۲ دیکھ کر ہوشیاری واحتیاط کے ساتھ کریں، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ وضو بہت جلد کرناچاہئے اور اسی معنے پر کہتے ہیں کہ وضو نوجوان کا سا اور نماز بُوڑھوں کی سی،یہ غلط ہے بلکہ وضو میں بھی درنگ وترک عجلت مطلوب ہے۔ فتح وبحر وشامی شمار آداب وضوء میں ہے والتانی۱؎ (ٹھہر ٹھہرکر دھونا۔ ت)عالمگیریہ میں معراج الدرایہ سے ہے لایستعجل فی الوضوء  ۲؎ (وضو میں جلدی نہ کرے۔ ت)


فــ۱:فائدہ :وہ باتیں جن کے لحاظ سے وضومیں پانی کم خرچ ہو۔

فــ۲:مسئلہ وضومیں جلدی نہ چاہئے بلکہ درنگ واحتیاط کے ساتھ کریں ،عوام میں جویہ مشہورہے کہ وضوجوانوں کاسا،نمازبوڑھوں کی سی،یہ وضوکے بارے میں غلط ہے۔


 (۱؎ فتح القدیر        کتاب الطہارۃ     مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۲

البحرالرائق        کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۸)

(۲؎ الفتاوٰی الہندیہ    کتاب الطہارات     الفصل الثالث فی المستحبات نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۹)


اقول ظاہر ہے کہ جس شے کیلئے شرع نے ایک حدباندھی ہے کہ اُس سے نہ کمی چاہئے نہ بیشی، تو اس فعل کو باحتیاط بجالانے ہی میں حد کا موازنہ ہوسکے گا نہ کہ لپ جھپ اناپ شناپ میں۔

(۲) بعض لوگ چُلّو لینے میں پانی ایسا ڈالتے ہیں کہ اُبل جاتاہے حالانکہ جو گرا بیکار گیااس سے احتیاط چاہئے۔

(۳) ہر چُلّو بھرا ہونا ضرور نہیں بلکہ جس کام کیلئے لیں اس کا اندازہ رکھیں مثلاً ناک میں نرم بانسے تک پانی چڑھانے کو پُورا چُلو کیاضرور نصف بھی کافی ہے بلکہ بھرا چُلو کُلی کیلئے بھی درکار نہیں۔

(۴) لوٹے کی ٹونٹی متوسط معتدل چاہئے نہ ایسی تنگ کہ پانی بدیر دے نہ فراخ کہ حاجت سے زیادہ گرائے اس کا فرق یوں معلوم ہوسکتا ہے کہ کٹوروں میں پانی لے کر وضو کیجئے تو بہت خرچ ہوگا یونہی فراخ ٹونٹی سے بہانا زیادہ خرچ کا باعث ہے اگر لوٹاایسا ہوتو احتیاط کرے پوری دھارنہ گرائے بلکہ باریک۔

(۵) بہت بھاری برتن سے وضو نہ کرے خصوصاً کمزورکہ پورا قابو نہ ہونے کے باعث پانی بے احتیاط گرے گا۔

(۶) اعضاء فــ دھونے سے پہلے اُن پر بھیگا ہاتھ پھیرلے کہ پانی جلد دوڑتاہے اور تھوڑا،بہت کا کام دیتا ہے خصوصاً موسم سرمامیں اس کی زیادہ حاجت ہے کہ اعضأ میں خشکی ہوتی ہے بہتی دھار بیچ میں جگہ خالی چھوڑ جاتی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے ۔


فــ:مسئلہ مستحب ہے کہ اعضاء دھونے سے پہلے بھیگاہاتھ پھیرلے خصوصاجاڑے میں ۔


بحرالرائق میں ہے: عن خلف بن ایوب انہ قال ینبغی للمتوضیئ فی الشتاء ان یبل اعضاء ہ بالماء شبہ الدھن ثم یسیل الماء علیھا لان الماء یتجافی عن الاعضاء فی الشتاء کذا فی البدائع ۱؎۔ خلف بن ایوب سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:وضوکرنے والے کو چاہئے کہ جاڑے میں اپنے اعضاکو پانی سے تیل کی طرح ترکرے پھران پرپانی بہائے اس لئے کہ پانی جاڑے میں اعضا سے الگ رہ جاتاہے۔ ایسا ہی بدائع میں ہے۔(ت)


 (۱؎ البحرالرائق        کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۱)


فتح القدیر میں ہے: الاداب امرار الید علی الاعضاء المغسولۃ والتأنی والدلک خصوصاً فی الشتاء ۲؎ اھ ۔ وضو کے آداب میں یہ ہے کہ دھوئے جانے والے اعضا پرہاتھ پھیرلے،اورٹھہر ٹھہرکردھوئے، اور مَل لیا کرے خصوصاً جاڑے میں اھ۔(ت)


 (۲؎ فتح القدیر        کتاب الطہارۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۲)


واعترضہ فی البحر بانہ ذکر الدلک من المندوبات وفی الخلاصۃ انہ سنۃ عندنا ۳؎ اھ اس پر بحر کااعتراض ہے کہ انہوں نے ملنے کو مندوبات میں شمارکردیاجب کہ خلاصہ میں یہ ہے کہ وہ ہمارے نزدیک سنت ہے،


 (۳؎ البحرالرائق         کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)


وقدمناہ فی التنبیہ الثالث وقال العلامۃ ش فی المنحۃ قولہ ذکر الدلک الخ یمکن ان یجاب عنہ بان مرادہ امرار الید المبلولۃ علی الاعضاء المغسولۃ لما قدمہ الشارح عندالکلام علی غسل الوجہ عن خلف بن ایوب (ای مانقلناہ اٰنفا قال) لکن کان ینبغی تقییدہ بالشتاء تامل ۴؎ اھ۔


اوریہ اعتراض ہم تنبیہ سوم میں ذکرکرچکے ہیں۔علامہ شامی منحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق میں بحر کے اعتراض مذکور کے تحت لکھتے ہیں: اس کا یہ جواب دیاجاسکتاہے کہ صاحبِ فتح کی مراد یہ ہے کہ دھوئے جانے والے اعضاء پر بھیگا ہواہاتھ پھیرلیاجائے اس کی وجہ وہ ہے جو شارح نے غسل وجہ پرکلام کے تحت حضرت خلف بن ایوب سے نقل کی(وہی جواوپر ہم نے ابھی نقل کیا)لیکن انہیں اس کے ساتھ ''جاڑے'' کی قید لگادینا چاہئے تھا۔ تامل کرو۔ اھ۔


 (۴؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)


اقول اولا : ان فــ۱اراد انہ لایندب الیہ الا فی الشتاء فممنوع لان الماء وان کان یتجافی عن الاعضاء فی غیر الشتاء فلا شک ان البل قبل الغسل ینفع فی کل زمان فانہ یسہل مرور الماء ویقلل المصروف منہ کما ھو مجرب مشاھد فالنقل عن الامام خلف فی الشتاء لاینفیہ فی غیرہ انما یقتضی ان الحاجۃ الیہ فی الشتاء اشد وھذا قد صرح بہ المحقق حیث قال خصوصا فی الشتاء ۱؎۔


اقول اولا : اگر علامہ شامی کی مراد یہ ہے کہ وہ صرف جاڑے ہی میں مندوب ہے تویہ قابل تسلیم نہیں اس لئے کہ غیر سرمامیں پانی اگرچہ اعضا سے الگ نہیں ہوتا مگر اس میں شک نہیں کہ دھونے سے پہلے ترکرلینا ہر موسم میں مفید ہے کیوں کہ اس سے پانی بآسانی گزرتاہے اور کم صرف ہوتاہے۔جیسا کہ یہ تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہے ۔توامام خلف سے نقل اگرچہ خاص جاڑے کے لفظ کے ساتھ ہے مگراس سے غیرسرماکی نفی نہیں ہوتی اس کا تقاضا صرف یہ ہے کہ جاڑے میں ضرورت زیادہ ہے اور اس کی تو حضرت محقق نے تصریح کردی ہے اس طرح کہ انہوں نے لکھا:''خصوصاً جاڑے میں''۔


فــ۱:معروضۃ علی العلامۃ ش۔


 (۱؎فتح القدیر        کتاب الطہارۃ     مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۲)


وثانیا :  امرار الید علی الاعضاء المغسولۃ قد افرزہ المحقق عن الدلک کما سمعت فکیف یحمل علیہ لکن التحقیق مااقول ان الامرار المذکور لہ ثلثۃ محتملات الاول الامرار بعد الغسل اعنی بعدفــ۲ماانحدر الماء لنشف الباقی کیلا یترشش علی الثیاب ۔


    ثانیاً : دھوئے جانے والے اعـضا پرہاتھ پھیرنے کو حضرت محقق نے دلک(اعضاکوملنے)سے الگ ذکرکیا ہے جیساکہ ان کی عبارت پیش ہوئی تواسے اس پرکیسے محمول کیاجائے گا؟۔لیکن تحقیق وہ ہے جو میں کہتاہوں کہ مذکورہ ہاتھ پھیرنے میں تین معنی کا احتمال ہے:۔ اول: دھولینے کے بعد ہاتھ پھیرنایعنی پانی گرجانے کے بعد باقی کو خشک کرنے کے لئے ہاتھ پھیرنا تاکہ کپڑوں پر نہ ٹپکے۔


فــ۲:مسئلہ ہرعضودھوکراس پرہاتھ پھیردیناچاہئے کہ پانی کی بوندیں ٹپکناموقوف ہوجائے تاکہ بدن یاکپڑے پرنہ ٹپکیں۔


    والثانی : مع الغسل ای حین کون الماء بعدُ مارا علی الاعضاء وھو عین الدلک المطلوب قال فی البحر خلف ماقدم عن خلفٍ الدلکُ لیس من مفہومہ (ای الغسل بالفتح) وانما ھو مندوب وذکر فی الخلاصۃ انہ سنۃ وحدہ امرار الید علی الاعضاء المغسولۃ ۱؎ اھ۔


    دوم: دھونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ پھیرنا۔یعنی جس وقت پانی اعضا پر گررہا ہے اسی وقت ہاتھ پھیرتے جانا۔یہ بعینہ وہی دلک(اعضا کو ملنا) ہے جو مطلوب ہے۔بحر میں حضرت خلف سے نقل شدہ کلام کے بعد لکھا: دلک، غسل بالفتح۔دھونے۔کے مفہوم میں داخل نہیں۔وہ صرف مندوب ہے۔اور خلاصہ میں ذکرکیاکہ سنت ہے۔اور اس کی تعریف یہ ہے :دھوئے جانے والے اعضاء پر ہاتھ پھیرنا اھ۔


 (۱؎ البحرالرائق     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۱)


    والثالث : قبل الغسل ویحتاج الی التقیید بالمبلولۃ والتجوز فی المغسولۃ بمعنی ماسیغسل اوما امر بہ ان یغسل فح قد یمکن ان یراد بالدلک الثالث کما زعم العلامۃ ش وبالا مرار الاول فلا ھو ینافی الافراز ولا یلزم عدم الثانی من المندوبات خلافا لما ھو المذھب المذکور فی الخلاصۃ ومن القرینۃ علیہ ان المحقق بحث فی کون الدلک خارجا عن حقیقۃ الغسل ومال الی ان المقصود بشرعیۃ الغسل لایحصل الابہ وقد اجاب عنہ فی الغنیۃ بما کفی وشفی فیبعد ان یدخلہ ھھنا فی مجرد ادب نازل عن الاستنان ایضا خلفۃ عن الافتراض وقد یؤیدہ ایضا لفظۃ خصوصا فی الشتاء لان الثانی صرحوا باستنانہ مطلقا وانما قیدوا بالشتاء الثالث فھذا غایۃ توجیہ ما فی المنحۃ وبہ یندفع ایراد البحر وان کان المتبادر من الدلک ھو الثانی ولذا مشی علیہ فی البحر واقتفینا اثرہ فیما مربل مشی علیہ ش نفسہ فی ردالمحتار واعترض علی الفتح بما اعترض فی البحر قائلا لکن قدمنا ان الدلک سنۃ قال ولعل المراد بما قبلہ (ای امرار الید) امرارھا علیہ مبلولۃ قبل الغسل تأمل ۱؎ اھ۔


    سوم: دھونے سے پہلے ہاتھ پھیرنا(فتح کی عبارت ہے : امر ار الید علی الاعضاء المغسولۃ اعضائے مغسولہ پر ہاتھ پھیرنا۱۲م)عبارت فتح کے اندر یہ معنی لینے کے لئے دوباتوں کی ضرورت ہے۔ایک یہ کہ ہاتھ کے ساتھ''تر'' کی قیدلگائی جائے۔دوسری یہ کہ ''مغسولہ'' میں مجاز مانا جائے اورکہاجائے کہ مغسولہ کا معنی یہ کہ وہ جودھوئے جائیں گے یا وہ جن کے دھونے کاحکم ہے۔ایسی صورت میں دلک(اعضا کو ملنا) سے تیسرا معنی مراد لیاجاسکتاہے جیسا کہ علامہ شامی کا خیال ہے اور''ہاتھ پھیرنے''سے پہلا معنٰی مراد ہوسکتا ہے۔یہ معنی اسے الگ ذکر کرنے کے خلاف نہ پڑے گا۔اوریہ بھی لازم نہ آئے گا کہ انہوں نے دوسرے معنی کوخلاصہ میں ذکرشدہ مذہب کے برخلاف،مندوبات میں شمار کردیا۔اوراس پر ایک قرینہ بھی ہے وہ یہ کہ حضرت محقق نے دلک (بمعنی دوم) کے حقیقتِ غسل سے خارج ہونے پر بحث کی ہے اوران کا میلان اس طرف ہے کہ دھونے کی مشروعیت کا جو مقصود ہے وہ اس کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔اس بحث کاصاحبِ غنیہ نے کافی وشافی جواب دے دیاہے(مگرجب وہاں دلک کو عینِ غسل اور نفسِ فرض قراردینے کی طرف مائل ہیں۱۲م) توبعید ہے کہ یہاں فرضیت کے بدلے ، مسنونیت سے بھی فروترصرف ایک ادب کے تحت اسے داخل کردیں۔اور ان کے لفظ''خصوصاًجاڑے میں'' سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔اس لئے کہ معنی دوم کے تو مطلقاً مسنون ہونے کی علماء نے تصریح فرمائی ہے۔ اورجاڑے کی قید صرف معنی سوم میں لگائی ہے۔ یہ منحۃ الخالق کے جواب کی انتہائی توجیہ ہے اور اسی سے بحر کا اعتراض بھی دفع ہوجاتاہے۔ اگرچہ لفظ دلک سے متبادر وہی معنی دوم ہے اسی لئے صاحبِ بحر اسی پرگئے ہیں اور سابق میں ہم نے بھی ان ہی کے نشانِ قدم کی پیروی کی ہے۔بلکہ خود علامہ شامی ردالمحتار میں اسی پر گام زن ہیں اور فتح پر وہی اعتراض کیاہے جو بحر نے کیا،وہ لکھتے ہیں: لیکن ہم پہلے ذکر کر چکے کہ دلک سنت ہے۔اورکہتے ہیں: شاید ماقبل (یعنی ہاتھ پھیرنے) سے مراد دھونے سے پہلے اعضا پر ترہاتھ پھیرنا ہے، تأمل کرو،اھ۔


 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت         ۱ /۸۵)


اقول قدفــ۱علمت ان ھذا اضعف احتمالا تہ واذا کان ھذا مرادہ فحمل الدلک علیہ یکون تکرار بلا شک فان قلت ذکر المحقق بعدہ من الاداب حفظ ثیابہ من المتقاطر ۲؎ فبحمل الامرار علی الاول یتکرر مع ھذا قلت امرار الید وان کان معلولا بالحفظ تعلیل الفعل بغایتہ فلیس علۃ کافیۃ لحصولہ بحیث لایحتاج بعدہ فی الحفظ الی احتراسٍ سواہ فلا یکون ذکرہ مغنیا عن ذکر الحفظ۔


    اقول واضح ہوچکا کہ اس لفظ میں یہ سب سے ضعیف احتمال ہے،اگر اس لفظ سے یہ ان کی مراد ہوتواس پر''دلک''کو محمول کرنے میں بلاشبہہ تکرار لازم آئے گی۔ اگر سوال ہوکہ حضرت محقق نے اس کے بعد آداب میں''ٹپکنے والے پانی سے کپڑوں کوبچانا''بھی شمارکیاہے۔توہاتھ پھیرنے سے اگرمعنی اول مراد لیاجائے تب بھی تویہاں آکر تکرار ہوجائے گی؟ تومیں جواباًکہوں گا اگرچہ ہاتھ پھیرنے کی علت ''کپڑوں کی حفاظت بتائی گئی ہے جیسے کسی فعل کی علت اس کی غایت کو بتایاجاتاہے مگر یہ ہاتھ پھیرنا بچاؤ حاصل ہونے کے لئے ایسی کافی علت نہیں ہے کہ اس کے بعد بچاؤ میں مزید کسی احتیاط اور ہوشیاری برتنے کی ضرورت ہی نہ ہوتوہاتھ پھیرنے کاذکر ہوجانے کے بعد بھی اس کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ ٹپکنے والے پانی سے کپڑوں کے بچانے کو مستقلاً ذکر کیاجائے۔


فــ۱:معروضۃ علی ش۔


 (۲؎ فتح القدیر    کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۲)


ثم اقول عجبافــ۲للبحر جزم ھھنا یندب الدلک ونسب الاستنان للخلاصۃ کغیر المرتضی لہ واعترض ثمہ علی المحقق بان فی الخلاصۃ انہ سنۃ عندنا۱؎۔


    ثم اقول صاحبِ بحر پر تعجب ہے کہ یہاں دلک کے مندوب ہونے پر جزم کیااور مسنون ہونے کوخلاصہ کی طرف یوں منسوب کیا جیسے یہ ان کا پسندیدہ نہیں، اور وہاں حضرت محقق پر یہی اعتراض کیاہے کہ خلاصہ میں لکھا ہے کہ وہ ہمارے نزدیک سنت ہے۔


فــ۲:تطفل علی البحر۔


 (۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۱ /۲۹)


 (۷) کلائیوں پر بال ہوں تو ترشوادیں کہ اُن کا ہونا پانی زیادہ چاہتا ہے اور مونڈنے سے سخت ہوجاتے ہیں اور تراشنا مشین سے بہتر کہ خوب صاف کردیتی ہے اور سب سے احسن وافضل نورہ ہے کہ ان اعضأ میں یہی سنت سے ثابت ابن ماجہ فــ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: ان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان اذا طلی بدأ بعورتہ فطلاھا بالنورۃ وسائر جسدہ اھلہ ۲؎۔ رسول اللہ جب نورہ کا استعمال فرماتے تو ستر مقدس پراپنے دست مبارک سے لگاتے اور باقی بدن مبارک پر ازواج مطہرات لگادیتیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہن وبارک وسلم۔


فــ:مسئلہ ہاتھ ،پاؤں،سینہ ،پشت ،پربال ہوں تونورہ سے دورکرنابہترہے ۔اورموئے زیرناف پربھی استعمال نورہ آیاہے ۔


 (۲؎ سنن ابن ماجۃ     ابواب الادب باب الاطلاء بالنورۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۲۷۴)


اور ایسا نہ کریں تو دھونے سے پہلے پانی سے خوب بھگولیں کہ سب بال بِچھ جائیں ورنہ کھڑے بال کی جڑ میں پانی گزر گیااور نوک سے نہ بہا تو وضو نہ ہوگا۔

(۸) دست وپاپر اگر لوٹے سے دھار ڈالیں تو ناخنوں سے کہنیوں یا گٹوں کے اُوپر تک علی الاتصال اُتاریں کہ ایک بار میں ہر جگہ پر ایک ہی بار گرے پانی جبکہ گر رہا ہے اور ہاتھ کی روانی میں دیر ہوگی تو ایک جگہ پر مکرر گرے گا۔ 

(۹) بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ ناخن سے کُہنی تک یا گٹے تک بہاتے لائے پھر دوبارہ سہ بارہ کیلئے جو ناخن کی طرف لے گئے تو ہاتھ نہ روکا بلکہ دھار جاری رکھی ایسا نہ کریں کہ تثلیث کے عوض پانچ بار ہوجائے گا بلکہ ہر بار کہنی یا گٹے تک لاکر دھار روک لیں اور رُکا ہوا ہاتھ ناخنوں تک لے جاکر وہاں سے پھر اجرا کریں کہ سنت یہی فــ۱ہے کہ ناخن سے کُہنیوں یا گٹوں تک پانی بہے نہ اس کا عکس، کما نص علیہ فی الخلاصۃ وغیرھا  (جیساکہ خلاصہ وغیرہ میں اس کی تنصیص کی ہے۔ ت)


فــ۱:مسئلہ سنت یہ ہے کہ پانی ہاتھ پاؤں کے ناخن کی طرف سے کہنیوں اورگٹوں کے اوپرتک ڈالیں اُدھرسے اِدھرکونہ لائیں ۔

 (۱۰) قول جامع یہ ہے کہ سلیقہ سے کام لیں سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے: قد یرفق بالقلیل فیکفی ویخرق بالکثیر فلا یکفی ذکرہ الامام النووی فی شرح مسلم ۱؎ واوردہ الامام العینی فی شرح البخاری بلفظ قد یرفق الفقیہ بالقلیل فیکفی ویخرق الاخرق ولا یکفی ۲؎ ۔ یعنی سلیقہ سے اٹھاؤ تو تھوڑا بھی کافی ہوجاتاہے اوربدسلیقگی برتوتوبہت بھی کفایت نہیں کرتا(اسے امام نووی نے شرح مسلم میں ذکرکیااورامام عینی نے شرح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا:


 (۱؎ شرح صحیح مسلم للامام النووی    کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء    دارالفکربیروت    ۲ /۱۳۷۳

۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الوضوء باب الوضو بالمد    تحت الحدیث ۶۴۔۲۰۱     دارالکتب العلمیہ بیروت۳ /۱۴۱)


    فائدہ :اوپر حدیث فــ۲ گزری کہ وَلَہان نام شیطان وضو میں وسوسہ ڈالتا ہے اُس کے وسوسہ سے بچو۔دفع وسوسہ کے لئے بہترین تدبیران باتوں کا التزام ہے:


 (فــ۲ :فائدہ جلیلہ :دفع وسواس کی دعائیں اورعلاج )۔


 (۱) رجوع الی اللہ واعوذ(۱) ولا حول(۲) وسورہ(۳) ناس کی قرأت اور(۴) اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ط کہنا (۵) اور ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ ط وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمo۳؎ ان سے فوراً وسوسہ دفع ہوجاتا ہے۔اور (۶) سُبْحٰنِ الْمَلِک الْخَلَّاقِ ط اِنْ یشاْ یذھِبْکُمْ وَیاتِ بِخَلْقٍ جَدِید ط وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیزo۱؎ کی کثرت اُسے جڑ سے قطع کردیتی ہے۔


(۳؎ القرآن الکریم     ۵۷ /۳)  (۱؎ القرآن الکریم     ۱۴ /۱۹)


حدیث(۷) میں ہے ایک صاحب نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر وسوسہ کی شکایت کی کہ نماز میں پتا نہیں چلتا دو پڑھیں یا تین۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اذا وجدت ذلک فارفع اصبعک السبابۃ الیمنی فاطعنہ فی فخذک الیسری وقل بسم اللّٰہ فانھا سکین الشیطان رواہ البزار۲؎ والطبرانی عن والد ابی الملیح ورواہ ایضا الحکیم الترمذی۔ جب تُو ایسا پائے تواپنی دا ہنی انگشتِ شہادت اٹھا کر اپنی بائیں ران میں مار اوربسم اللہ کہہ کہ وہ شیطان کے حق میں چھُری ہے (اس کو بزار اور طبرانی نے ابو ملیح کے والدسے روایت کیاہے اورحکیم ترمذی نے بھی اسے روایت کیاہے۔ت)


 (۲؎ کنزالعمال بحوالہ طب والحکیم عن ابی الملیح     حدیث ۱۲۷۳    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱ /۲۵۲

    المعجم الکبیر        حدیث ۵۱۲    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱ /۱۹۲

مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی والبزاز        کتاب الصلوۃ باب السہو فی الصلوٰۃ    دارالکتاب بیروت ۲ /۱۵۱)


 (۲) وسوسہ کی نہ سُننا اُس پر عمل نہ کرنا اس کے خلاف کرنا، اس بلائے عظیم کی عادت ہے کہ جس قدر اس پر عمل ہو اُسی قدر بڑھے اور جب قصداً اُس کا خلاف کیا جائے تو باذنہٖ تعالٰی تھوڑی مدّت میں بالکل دفع ہوجائے۔عمرو بن مُرّہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ماوسوسۃ باولع ممن یراھا تعمل فیہ ۔رواہ ابن ابی شیبۃ۳؎۔ شیطان جسے دیکھتاہے کہ میرا وسوسہ اس میں کارگرہوتاہے سب سے زیادہ اسی کے پیچھے پڑتاہے۔(اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا۔ت)


 (۳؎ المصنف لابن ابی شیبۃ     کتاب الطہارات حدیث ۲۰۵۴    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱ /۱۷۹)


امام ابن حجر مکّی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں مجھ سے بعض ثقہ لوگوں نے بیان کیا کہ دو وسوسہ والوں کو نہانے کی ضرورت ہوئی دریائے نیل پرگئے طلوعِ صبح کے بعد پہنچے ایک نے دوسرے سے کہا تُو اتر کر غوطے لگا میں گنتا جاؤں گا اور تجھے بتاؤں گا کہ پانی تیرے سر کو پہنچا یا نہیں، وہ اُترا اور غوطے لگانا شروع کئے اور یہ کہہ رہا ہے کہ ابھی تھوڑی سی جگہ تیرے سر میں باقی ہے وہاں پانی نہ پہنچا ایک صبح سے دوپہر ہوگیا آخر تھک کر باہر آیا اور دل میں شک رہا کہ غسل اُترا نہیں۔ پھر اس نے دوسرے سے کہا اب تُو اُتر میں گنوں گا، اس نے ڈبکیاں لگائیں اور یہ کہتا جاتا ہے کہ ابھی سارے سر کو پانی نہ پہنچا یہاں تک کہ دوپہر سے شام ہوگئی مجبور وہ بھی دریا سے نکل آیا اور دل میں شُبہ کا شبہ ہی رہا، دن بھر کی نمازیں کھوئیں اور غسل اُترنے پر یقین نہ ہونا تھا نہ ہوا والعیاذ باللہ تعالٰی ذکرہ فی الحدیقۃ الندیۃ،۱؎  (اسے حدیقہ ندیہ میں بیان کیاگیا۔ت)یہ وسوسہ ماننے کا نتیجہ تھا۔


 (۱؎ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقہ المحمدیۃ        الباب الثانی النوع الثانی     مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۶۹۱)


اور صالحین میں سے ایک صاحب فرماتے ہیں مجھے دربارہ طہارت وسوسہ تھا راستہ کی کیچڑ اگر کپڑے میں لگ جاتی اُسے دھوتا (حالانکہ شرعاً جب تک خاص اُس جگہ نجاست کا ہونا ثابت ومتحقق نہ ہو حکم طہارت ہے) ایک دن نمازِ صبح کیلئے جاتا تھا راہ کی کیچڑ لگ گئی میں نے دھونا چاہا اور خیال آیا کہ دھوتا ہوں تو جماعت جاتی ہے ناگاہ اللہ عزوجل نے مجھے ہدایت فرمائی میرے دل میں ڈالا کہ اس کیچڑ میں لوٹ اور سب کپڑے سان لے اور یونہی نماز میں شریک ہوجا، میں نے ایسا ہی کیا پھر وسوسہ نہ ہوا ۔ ذکرہ فی الطریقۃ المحمدیۃ ۲؎  (اسے طریقہ محمدیہ میں نقل کیاگیا۔ت)یہ اس کی مخالفت کی برکت تھی۔


 (۲؎ الطریقہ المحمدیۃ    النوع الثالث فی علاج الوسوسۃالخ    مکتبہ حنفیہ کوئٹہ     ۲ /۲۳۰)


ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا احدکم اذا کان فی المسجد جاء الشیطان فابسّ بہ کما یبسّ الرجل بدابتہ فان اسکن لہ وثقہ اوالجمہ۔ جب تم میں کوئی مسجدمیں ہوتا ہے شیطان آکر اس کے بدن پر ہاتھ پھیرتا ہے جیسے تم میں کوئی اپنے گھوڑے کو رام کرنے کے لئے اس پرہاتھ پھیرتا ہے پس اگروہ شخص ٹھہر ارہا یعنی اس کے وسوسہ سے فوراً الگ نہ ہوگیا تو اسے باندھ لیتا یا لگام دے دیتاہے۔


ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس حدیث کو روایت کرکے فرمایا: وانتم ترون ذلک اما الموثوق فتراہ مائلا کذا لایذکراللّٰہ واما الملجم ففاتح فاہ لایذکر اللّٰہ عزّوجل رواہ الامام احمد۱؎ ۔ یعنی حدیث کی تصدیق تم آنکھوں دیکھ رہے ہو وہ جو بندھا ہوا ہے اُسے تودیکھے گا یوُں جھکاہوا کہ ذکرِ الہٰی نہیں کرتا اور وہ جولگام دیاہوا ہے وہ منہ کھولے ہے اللہ تعالٰی کا ذکر نہیں کرتا(اسے امام احمد نے روایت کیا۔ت)


 (۱؎ مسند احمد بن حبنل     عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۳۳۰)


رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: واذا وجد احدکم فی بطنہ شیا فاشکل علیہ اخرج منہ شیئ ام لافلا یخرج من المسجد حتی یسمع صوتا اویجد ریحا رواہ مسلم والترمذی۲؎ عن ابی ھریرۃ۔ جب تم میں کوئی اپنے شکم میں کچھ محسوس کرے جس سے اس پر اشتباہ ہوجائے کہ اس سے کچھ خارج ہوا یا نہیں تووہ مسجد سے نہ نکلے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو پائے۔اسے مسلم وترمذی نے حضرت ابوھریرہ سے روایت کیا۔


 (۲؎ صحیح مسلم    کتاب الحیض باب الدلیل علی ان من تیقن الطہارۃ    قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۸

سنن الترمذی    ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوء من الریح    حدیث ۷۵ دارالفکربیر وت    ۱ /۱۵۸)


والا حمد والترمذی وابن ماجۃ والخطیب عنہ مختصرا بلفظ لاوضوء الامن صوت اوریح۳؎ اوران سے امام احمد ،ترمذی، ابن ماجہ اورخطیب نے مختصراً ان الفاظ میں روایت کیاہے:وضو نہیں مگر آواز یا بُو سے۔


 (۳ ؎ سنن الترمذی    ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوءمن الریح    حدیث ۷۵        دارالفکربیر وت    ۱ /۱۳۴

سنن ابن ماجۃ     ابواب الطہارۃ باب لاوضو الامن حدث         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۹

مسند احمدبن حنبل     عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۲۱۰و۴۳۵)


ولا حمد والشیخین وابی داؤد والنسائی وابناء ماجۃ وخزیمۃ وحبان عن عباد بن تمیم عن عمہ عــہ عبداللّٰہ بن زید بن عاصم قال شکی الی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الرجل یخیل الیہ انہ یجد الشیئ فی الصلٰوۃ قال لاتنصرف حتی تسمع صوتا اوتجد ریحا ۱؎ ۔


اورامام احمد،بخاری،مسلم،ابوداؤد، نسائی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ اورابن حبان کی روایت عباد بن تمیم سے ہے، وہ اپنے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم سے راوی ہیں وہ کہتے ہیں ایک شخص نے نبی کے پاس یہ شکایت عرض کی کہ اسے خیال ہوتاہے کہ نماز میں وہ کچھ محسوس کررہا ہے ۔سرکار نے فرمایا: نمازسے نہ پھرویہاں تک کہ آواز سنویا بُو پاؤ۔


 (عــہ)وقع ھھنا فی نسخۃ کنزالعمال المطبوعۃ بحیدراباد عن عمر مکان عن عمہ وھو تصحیف شدید فاجتنبہ اھ منہ۔ 

یہاں کنزالعمال کے نسخہ مطبوعہ حیدرآباد میں عن عمہ کی جگہ عن عمر چھپ گیا ہے اور یہ شدید قسم کی تصحیف ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا چاہئے اھ منہ۔(ت)


 (۱؎صحیح البخاری     کتاب الوضو با ب لایتوضأمن الشک    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۲۵

صحیح مسلم        کتاب الحیض الدلیل علی ان من تیقن الطہارۃ     قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۸

سنن النسائی     کتاب الطہارۃ     باب الوضومن الریح     نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی     ۱ /۳۷

سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ     باب اذاشک فی الحدث     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۲۳

سنن ابن ماجۃ     ابواب الطہارۃ     باب لاوضوالامن حدث     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۹)


ولا حمد وابی یعلی عن ابی سعید عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ان الشیطان لیاتی احدکم وھو فی صلاتہ فیاخذ بشعرۃ من دیرہ فیمدھا فیری انہ قداحدث فلا ینصرف حتی یسمع صوتا اویجد ریحا ۲؎ ۔


اور امام احمد وابو یعلٰی حضرت ابو سعید سے وہ نبی  سے راوی ہیں کہ تم میںکوئی نماز میںہوتاہے اورشیطان اس کے پاس آکر اس کے پیچھے سے کوئی بال کھینچتاہے جس سے وہ یہ خیال کرنے لگتاہے کہ اس کا وضو جاتارہا، ایساہوتو وہ نمازسے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو پائے۔


 (۲؎ الجامع الصغیر بحوالہ حم ع    حدیث ۲۰۲۷    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱ /۱۲۴)


ورواہ عنہ سعید بن منصور مختصرا نحو المرفوع من حدیث عباد وللبراز عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یاتی احدکم الشیطان فی الصلاۃ فینفح فی مقعدتہ فیخیل انہ احدث ولم یحدث فاذا وجد ذلک فلا ینصرف حتی یسمع صوتا اویجد ریحا ۱؎


اوراسے ان سے سعید بن منصور نے مختصراً حضرت عباد کی حدیث کے مرفوع الفاظ کے ہم معنی ذکر کیاہے۔ اوربزار حضرت ابن عباس سے وہ نبی ؐ سے راوی ہیں کہ تم میںکسی کے پاس نماز میں شیطان آکر اس کے پیچھے پھونک دیتا ہے جس سے اس کو خیال ہوتاہے کہ مجھے حدث ہوگیا حالانکہ اسے حدث نہ ہوا توکوئی ایسامحسوس کرے تونماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یا بوُپائے۔


 (۱؎ کشف الاستار عن زوائد البزار    باب مالاینقض الوضوء   موسسۃ الرسالۃ    بیروت    ۱ /۱۴۷)


ورواہ عنہ الطبرانی فی الکبیر مختصرا بلفظ من خیل لہ فی صلاتہ انہ قد احدث فلا ینصرفن حتی یسمع صوتا اویجد ریحا ۲؎ اور اسے طبرانی نے ان سے مختصراً ان الفاظ میں روایت کیاہے جسے نماز کے اندر ایسا خیال ہوکہ اسے حدث ہواتوہرگز وہ نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو پائے۔


 (۲ ؎المعجم الکبیر حدیث ۱۱۹۴۸ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۱۱ / ۳۴۱ )


ولعبد الرزاق وابن ابی الدنیا عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال ان الشیطان یطیف باحدکم فی الصلاۃ لیقطع علیہ صلاتہ فاذا اعیاہ ان ینصرف نفخ فی دبرہ یریہ انہ قداحدث فلا ینصر فن احدکم حتی یجد ریحا اویسمع صوتا ۳؎


اورعبدالرزاق وابن ابی الدنیا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں، انہوں نے فرمایا: شیطان تم میں کسی کے گرد اس کی نماز توڑنے کے لئے گھیرا ڈال دیتا ہے،جب اس سے عاجز ہوجاتاہے کہ وہ اپنی نمازسے پھرے تواس کے پیچھے پھُونک دیتا ہے تاکہ اسے یہ خیال ہوکہ اسے حدث ہوگیا۔ایسا ہوتو ہرگز کوئی نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ بو پائے یا آواز سنے۔


 (۳؎ المصنف لعبدالرزاق    حدیث ۵۳۶ المکتبۃ الاسلامی بیروت ۱ /۱۴۱)


وفی روایۃ اخری عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حتی انہ یاتی احدکم وھو فی الصلاۃ فینفخ فی دبرہ ویبل احلیلہ ثم یقول قد احدثت فلا ینصر فن احدکم حتی یجد ریحا ویسمع صوتا ویجد بللا ۴؎


اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی ایک اورروایت میں یہ ہے کہ وہ نماز میں کسی کے پاس آکر اس کے پیچھے پھونک دیتاہے اوراس کے احلیل(ذکر کی نالی)کو ترکردیتاہے پھرکہتا ہے تو بے وضو ہوگیا۔ توہرگز کوئی نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ بو پائے اورآواز سنے اورتری پائے۔


 (۴؎ آکام المرجان بحوالہ عبداللہ بن مسعود باب ۱۲۰ مکتبہ خیر کثیر کراچی ص ۹۲)


ولعبد الرزاق وابن ابی شیبۃ فی مصنفیھما وابن ابی داؤد فی کتاب الوسوسۃ عن ابرھیم النخعی قال کان یقال ان الشیطان یجری فی الاحلیل وفی الدبرعـــہ فیری الرجل انہ قداحدث فلا ینصر فن احدکم حتی یسمع صوتا اویجد ریحا اویری بللا ۲؎


اور عبدالرزاق وابن ابی شیبہ اپنی اپنی مصنّف میں،اورابن ابی داؤد کتاب الوسوسۃ میں حضرت ابراہیم نخعی سے راوی ہیں انہوں نے فرمایا: کہا جاتاتھاکہ شیطان احلیل میں اور دُبر میں دوڑجاتا ہے ۔آدمی کو یہ خیال دلاتاہے کہ اسے حدث ہوگیا تو ہرگز کوئی نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو پائے یا تری دیکھے۔


عـہ فی نسختی لقط المرجان بین الواو وفی لفظۃ لم یقمہا الکاتب وھو ینفخ فی الدبر اونحوہ اھ منہ (م)

لقط المرجان کا جو نسخہ میرے پاس ہے اس میں واؤ او رفی کے درمیان ایک لفظ ہے جس کو کاتب نے نہیں لکھا اور وہ ینفخ فی الدبر یا اس کے ہم معنی کچھ ہو گا اھ منہ ۔ (ت)


 (۱؎ المصنف لعبدالرزاق باب الرجل یشتبہ علیہ فی الصلوۃ احدث الخ حدیث ۵۳۸ المکتب الاسلامی حدیث ۱/ ۱۴۲)


قلت ذکر ھذین الاثرین الامام الجلیل الجلال السیوطی فی لقط المرجان مقتصرا علیھما ھو وصاحبہ البدر فی اصلہ اٰکام المرجان مع ثبوتہ فی المرفوع کما علمت وقال عامر الشعبی من اجلاء علماء التابعین ان الشیطان بزقۃ یعنی بلۃ طرف الاحلیل۲؎ ذکرہ العارف فی الحدیقۃ الندیۃ۔


قلت یہ دونوں اثر ( اثر ابن مسعود واثرامام نخعی)امام جلال الدین سیوطی نے ''لقط المرجان'' میں ذکر کئے اورانہوں نے انہی دونوں پر اکتفا کی اسی طرح اس کی اصل آکام المرجان میں قاضی بدرالدین شبلی نے بھی ان ہی دونوں پر اکتفا کی ہے حالانکہ یہ مضمون مرفوع میں موجود ہے جیساکہ معلوم ہوا۔ اور اجلّہ علمائے تابعین میں سے امام عامر شعبی فرماتے ہیں: شیطان کبھی تھوک دیتا ہے ۔مراد یہ ہے کہ سرِ احلیل ترکردیتاہے۔ اسے عارف باللہ عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ ندیہ میں ذکر کیا۔(ت)


 (۲؎ حدیقۃ الندیۃ الباب الثالث النوع الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۲ /۶۸۸)

اِن حدیثوں ف کا حاصل یہ ہے کہ شیطان نماز میں دھوکا دینے کیلئے کبھی انسان کی شرمگاہ پر آگے سے تھوک دیتا ہے کہ اُسے قطرہ آنے کا گمان ہوتا ہے کبھی پیچھے پھُونکتا یا بال کھینچتا ہے کہ ریح خارج ہونے کا خیال گزرتا ہے اس پر حکم ہوا کہ نماز سے نہ پھرو جب تک تری یا آواز یا بُو نہ پاؤ جب تک وقوعِ حدث پر یقین نہ ہولے۔


ہمارے امام اعظم کے شاگرد جلیل سیدنا عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: اذا شک فی الحدث فانہ لایجب علیہ الوضوءحتی یستیقن استیقانا یقدران یحلف علیہ ۱؎ ا۔ علقہ الترمذی فی باب الوضوء من الریح ـ


یعنی یقین ایسا درکار ہے جس پر قسم کھا سکے کو ضرور حدث ہوا اور جب قسم کھاتے ہچکچائے تو معلوم ہواکہ معلوم نہیں مشکوک ہے اورشک کا اعتبار نہیں کہ طہارت پر یقین تھا اور یقین شک سے نہیں جاتا۔(ترمذی نے باب الوضو من الریح میں اسے ابن مبارک سے تعلیقاً روایت کیاہے۔ت)


فـــــ : مسئلہ شیطان کے تھوک اور پھونک سے نماز میں قطرے اور ریح کاشبہ جاتا ہے حکم ہے کہ جب تک ایسا یقین نہ ہو جس پر قسم کھاسکے اس پر لحاظ نہ کرے ، شیطان کہے کہ تیرا وضو جاتا رہا تو دل میں جواب دے لے کہ خبیث تو جھوٹا ہے اور اپنی نماز میں مشغول رہے۔


 (۱؎ سنن الترمذی باب الطہارت حدیث ۷۶ دارالفکر بیروت         ۱ /۳۵)


اسی لئے ف ۲ سنت ہوا کہ وضو کے بعد ایک چھینٹا رومالی یا تہ بند ہو تو اس کے ا ندرونی حصّے پر جو بدن کے قریب ہے دے لیا کریں ثم لیقل ھو من الماء پھر اگر قطرہ کا شبہ ہوتو خیال کرلیں کہ پانی جو چھِڑکا تھا اُس کا اثر ہے۔


فــــ ۲: مسئلہ سنت ہے کہ وضو کے بعد رومالی پر چھنیٹادے لے ۔


 (۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الطہارہ باب ماجاء فی النضح بعد الوضوء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۶ )


حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا توضأت فانتضح۔ رواہ ابن ماجہ ۲؎ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ جب تو وضو کرے تو چھینٹا دے لے (اسے ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی سے روایت کیا ۔ ) (ت)

بلکہ ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:


عشرعــــہ۱من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ والسواک واستنشاق الماء وقص الاظفار وغسل البراجم ونتف الابط وحلق العانۃ وانتقاض الماء ۔ دس باتیں قدیم سے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہیں: لبیں کترنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، وضو وغسل میں پانی سونگھ کر اوپر چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑ (یعنی جہاں جہاں میل جمع ہونے کا محل ہے اسے) دھونا،بغل اور زیر ناف بالوں سے صاف کرنا شرمگاہ پرپانی ڈالنا۔


عــہ ۱: قال المناوی من للتبعیض ولذا لم یذکر الختان ھنا اھ ۱ ؎ اقول کونھا فـــ للتبعیض لاشک فیہ فان الختان والمضمضۃ کلا من الفطرۃ کما یاتی فالزیادۃ علی العشر معلومۃ ولکن ماعلل بہ من عدم ذکر الختان ھنا لامحل لہ وکانہ نسی ان الراوی نسی العاشرۃ فما یدریک لعلہا الختان استظھرہ جمع کما سیاتی اھ منہ (م)

علامہ مناوی نے کہا من الفطرۃ میں من تبعیض کاہے۔ اسی لئے یہاں ختنہ کا ذکر نہ کیا اھ اقول من برائے تبعیض ہونے میں کوئی شک نہیں اس لئے کہ ختنہ اورکلی ہرایک کا شمار فطرت کے تحت ہے جیساکہ آرہا ہے تودس سے زیادہ ہونا معلوم ہے۔ لیکن من برائے تبعیض ہونے کی جو علت بیان کی ہے کہ''اسی لئے یہاں ختنہ کا ذکر نہیں'' اس کا کوئی موقع نہیں، شاید وہ یہ بھول گئے کہ راوی دسویں چیز بھول گئے ہیں۔ہوسکتاہے وہ ختنہ ہی ہوجیساکہ ایک جماعت نے اسے ظاہر کہاہے جیساکہ اگلے حاشیہ میں آرہا ہے ۱۲منہ۔(ت)

ف : دس باتیں قدیم سے سنت انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام ہیں ۔


 (۱؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث عشر من الفطرۃ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ / ۱۳۲)


قـال الراوی ونسیت العاشرۃ الا ان تکون المضمضۃ رواہ احمد ۱؎ ومسلم والاربعۃ عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا ۔


راوی نے کہادسویں میں بھول گیا شایدعــہ کُلّی ہو۔ امام احمد، مسلم اور اصحابِ سُنن اربعہ نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت کیا۔(ت)


عــــہ : امام قاضی عیاض  پھر امام نووی نے استظہار فرمایا کہ غالبادسویں ختنہ ہوکہ دوسری حدیث میں ختنہ بھی خصال فطرت سے شمار فرمایا ہے ۲؎ انتہی ، یعنی حدیث احمد و شیخین ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے 

خمس من الفطرت الختان والاستحداد وقص الشارب و تقلیم الاظافر و نتف الابط ۳؎

پانچ چیزیں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنتِ قدیمہ سے ہیں: ختنہ اور اُسترا لینا اور لبیں اور ناخن تراشوانا اور بغل کے بال دورکرنا۔

اقول ایک حدیث میں کلی کو بھی خصال فطرت سے گناہے ۔ امام احمد و ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوداؤد وابن ماجہ وعمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنھم سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

ان من الفطرۃ المضمضۃ والاستشاق ( الی قولہ ) والانتضاح بالماء و الاختنان واللہ تعالی اعلم ۱۲ منہ ۔ 

فطرت سے ہے کُلّی اورناک میں پانی ڈالنا(الی قولہ) شرم گاہ پر چھینٹا اور ختنہ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)


 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۲۹

سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب السواک من الفطرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۸

سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الفطرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۵ 

مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۱۳۷

سنن الترمذی کتاب الادب حدیث ۲۷۶۶ دارالفکر بیروت ۴ /۳۴۸

سنن النسائی کتاب الزینۃ باب من سنن الفطرۃ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۷۳و ۲۷۴

۲؎ شرح صحیح مسلم للنووی مع صحیح مسلم باب خصال الفطرۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ / ۱۲۹

۳؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب قص الشارب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۷۵

صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ قدیمی کتب خانہ ۱ / ۱۲۸ و ۱۲۹ 

مسند احمد بن حنبل عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ / ۲۲۹، ۲۳۹، ۲۸۳

۴؎ مسند احمد بن حنبل عن عمار بن یاسر المکتب الاسلامی بیروت ۲ / ۲۶۴

سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الفطرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۶)


شرمگاہ پر پانی ڈالنے کی علماء نے دو تفسیریں کیں: ایک استنجأ رواہ مسلم عن وکیع ۱؎۔ دوسرے وہی چھینٹا اور اس کے مؤید ہے کہ ایک روایت عـــہ۱؎ میں بجائے انتفاض الماء لفظ والانتضاح آیا ہے جمہور علماء نے فرمایا انتضاح وہی چھینٹا ہے ذکرہ الامام النووی ۲؎۔ 

اور یہیں سے ظاہر ہوا کہ یہ چھینٹا خاص اہلِ وسوسہ ہی کیلئے نہیں بلکہ سب کیلئے سنت ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے وسوسہ کو کیا علاقہ ان عبادی لیس لک علیھم سلطٰن ۴؎  (بے شک میرے بندوں پر تیرا غلبہ اور تسلّط نہیں ہوسکتا۔(ت)ابو داؤد نسائی ابن ماجہ حٰکم بن سفین یا سفٰین بن حکم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی قال کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا بال توضأ ونضح فرجہ ۴؎ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب پیشاب فرماتے وضو فرماتے اور شرمگاہِ اقدس پر چھینٹا دیتے۔ ابن ماجہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی قال توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فنضح فرجہ ۶؎ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو فرما کر ستر مبارک پر چھینٹا دیا۔ احمد وابن ماجہ و دار قطنی وحاکم وحارث بن ابی اسامہ حضرت محبوب ابن المحبوب سیدنا وابن سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما وہ اپنے والد ماجد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اتانی جبریل فی اول ما اوحی الی فعلمنی الوضوءوالصلاۃ فلما فرغ الوضوءاخذ غرفۃ من الماء فنضح بھا فرجہ ۱؎۔ یعنی اول اول جو مجھ پر وحی اتری ہے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام نے حاضر ہو کر مجھے وضو ونماز کی تعلیم دی، جبریل نے وضو خود کرکے دکھایا جب وضو کر چکے ایک چُلّو پانی لے کر اپنی اُس صورت مثالیہ کے موضع شرمگاہ پر چھڑک دیا۔


ولفظ ق: 

علمنی جبرئیل الوضوءوامرنی ان انضح تحت ثوبی لما یخرج من البول بعد الوضوء۲؎۔ جبریل علیہ السلام نے مجھے وضو کی تعلیم دی اور مجھے بلایا کہ زیر جامہ پانی چھڑکوں اس خدشہ کو ختم کرنے کیلئے کہ وضو کے بعد کوئی قطرہ نکلا ہو۔ (ت)


ترمذی عـــہ ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جاء نی جبریل فقال یا محمد اذا توضأت فانتضح ۱؎۔ جبریل نے حاضر ہو کر مجھ سے عرض کی یا رسول اللہ جب حضور وضو فرمائیں چھینٹا دے لیا کریں۔


 عـــہ  وعزاہ الامام الجلیل فی جامعیہ الی ابن ماجۃ ایضا اقول لیس عندہ ف جاء نی جبریل فقال یا محمد انما عندہ ماقدمت ای عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأت فانتضح اھ منہ۔ (م)

امام جلال الدین سیوطی نے جامع صغیر وجامع کبیر میں اس حدیث کو ابن ماجہ کی طرف منسوب کیا ہے، میں کہتا ہوں ابن ماجہ کے نزدیک ان الفاظ کے ساتھ نہیں بلکہ وہ ہے جس کا ذکر میں نے ابی ھریرہ سے کیا ہے اذا توضات فانتضح اھ منہ (ت)

ف تطفل علی الامام الجلیل الجلال الدین السیوطی ۔


جبریل کا اپنی صورتِ مثالیہ کے ستر پر چھڑکنا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور طریقہ وضو عرض کرنے کیلئے تھا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فعل تعلیم اُمت کیلئے۔ مرقاۃ میں ہے:نضح فرجہ ای ورش ازارہ بقلیل من الماء اوسرا ولہ بہ لدفع الوسوسۃ تعلیما للامۃ ۲؎ ستر مبارگ پر چھینٹا دیا یعنی تہبند یا پاجامے  پر بھی امت کو دفع وسوسہ کی تعلیم دینے لئے تھوڑا پانی چھڑک دیا ۔


 (۱؎ سنن دارقطنی     ماجاء فی النضح علی الفرج    نشر السنۃ ملتان    ۱ /۱۱

۲؎ سنن ابن ماجۃ    ماجاء فی النضح علی الفرج   مجتبائی دہلی        ص۳۶

۳؎ ترمذی         ماجاء فی النضح بعد الوضوء   امین کمپنی دہی        ۱ /۹)


معہذا اس میں اقویا کیلئے جن کو برودت مثانہ کا عارضہ نہ ہو ایک نفع اور بھی ہے کہ شرمگاہ پر سرد پانی پڑنے سے اس میں تکاثف واستمساک پیدا ہو کر قطرہ موقوف ہوجاتا ہے کما ارشد الیہ حدیث زید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عند ق عـــہ


عــــہ سیدنا امام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:

اخبرنا ابو حنیفۃ عن حماد عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما قال اذا وجدت شیا من البلۃ فانضحہ مایلیہ من ثوبک بالماء ثم قل ھو من الماء قال حماد قال لی سعید بن جبیر انضحہ بالماء ثم اذا وجدتہ فقل ھو من الماء قال محمد وبھذا ناخذ اذا کان کثر ذلک من الانسان وھو قول ابی حنیفۃ۔ ۳ 

یعنی سیدنا امام اعظم حما د بن سلیمان سے وہ سعید بن جبیر سے وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا تری پاؤ تو شرمگاہ اور وہاں کے کپڑے پر چھینٹا دے لیا کرو پھر شبہ گزرے تو خیال کرو کہ پانی کا اثر ہے۔ امام حماد نے فرمایا کہ ایسا ہی سعید بن جبیر نے مجھ سے فرمایا امام محمد فرماتے ہیں ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب آدمی کو شبہ زیادہ ہوا کرے تو یہی طریقہ برتے اور یہی قول امام اعظم کا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔


اقول مگر یہاں فـــ ۱ اولا یہ ملحوظ رہے کہ مقصودِ نفی وسوسہ ہے نہ ابطال حقیقت تو جسے قطرہ اترنے کا یقین ہوجائے وہ پانی پر حوالہ نہیں کرسکتا یونہی جسے معاذ اللہ سلس البول کا عارضہ ہو اسے یہ چھینٹا مفید نہیں بلکہ بسا اوقات مضر ہے کہ پانی کی تری سے نجاست بڑھ جائے گی۔

ف : مسئلہ: اس چھینٹے میں چند عمل ملحوظ ہیں ۔ 

ثانیا: سفید کپڑا پانی پڑنے سے بدن سے چمٹ کر بے حجابی لاتا ہے اس کا خیال فرض ہے۔

ثالثا : یہ حیلہ اُسی وقت تک نافع ہے کہ چھڑکا ہوا پانی خشک نہ ہوگیا ہو ورنہ اُس پر حوالہ نہ کرسکیں گے۔


وجیز امام کردری میں ہے: رأی البلۃ بعد الوضوءسائلا من ذکرہ یعید الوضوء وان کان یعرض کثیرا ولا یعلم انہ بول اوماء لایلتفت الیہ وینضح فرجہ او ازارہ بالماء قطعا للوسوسۃ واذا بعد عھدہ عن الوضوءاوعلم انہ بول لاتنفعہ الحیلۃ ۱؎۔


وضو کے بعد ذکر سے تری بہتی دیکھی تو وضو کا اعادہ کرے اور اگر ایسا بہت پیش آتا ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یا پانی، تو اس کی طرف التفات نہ کرے اور اپنی شرمگاہ یا تہمد پر قطع وسوسہ کے لئے پانی چھڑک دیاکرے۔ اور جب وضو کئے دیر گزرچکی ہواوراسے معلوم ہوکہ پیشاب ہے تویہ حیلہ اس کے لئے کارآمد نہ ہوگا۔(ت)


 (۱؎ الفتاوی البزازیہ علی ہامش الفتاوی الہندیہ کتاب الطہارہ الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۳)


اسی طرح خلاصہ وخزانۃ المفتین میں ہے: ولفظھما وینبغی ان ینضح فرجہ و ازارہ عــہ الخ ۱؎ ان کے الفاظ یہ ہیں: اپنی شرمگاہ اور تہبند پر پانی چھڑک لینا چاہئے۔(ت)


عــہ ای بالواؤ دون او اھ منہ ( یعنی دونوں پر ، یہ واوکے ساتھ ہے اَو (یا) کے ساتھ نہیں ۱۲منہ ۔ ت)


 (۱؎ خلاصہ الفتاوی     کتاب الطہارۃ الفصل الثالث نوع آخر مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۱۸)


فائدہ: ہم نے فــــ ۲ زیر امر سوم آٹھ پانی گنائے تھے جو آب وضو کے شمار سے جدا ہیں یہ ان کانواں ہوا۔ اُن دیار میں رواج ایسے لوٹوں کا ہے جن میں جانب پشت بغرض گرفت دستے لگے ہوتے ہیں یہاں بھی ایسے لوٹے دیکھے مگر کم۔


ف ۲ : علاوہ ان آٹھ پانیوں کے دو پانی اور جو حساب آب وضو سے جدا ہے۔


علما فرماتے فــــ ۳ ہیں ادب یہ ہے کہ پانی ڈالتے میں لوٹے کے منہ پر ہاتھ نہ رکھے بلکہ دستہ پر۔اور جب بھیگے ہاتھ سے دستہ چھُوا جائے گا تو مستحب فــــ ۱ ہوا کہ وضو سے پہلے اُسے تین بار دھولے یہ دسواں پانی ہوا تلک عشرۃ کاملۃ۔


ف ۳: مسئلہ دستہ دار لوٹا ہو تو مستحب یہ ہے کہ پانی ڈالتے وقت اس کا دستہ تھامے اس کے منہ پر ہاتھ نہ رکھے 

ف ۱: مسئلہ مستحب ہے کہ وضو سے پہلے لوٹے کا دستہ تین بار دھولے ۔


فتح القدیر وبحرالرائق وردالمحتار آدابِ وضو میں ہے: کون فـــ ۲ اٰنیتہ من خزف وان یغسل عروۃ الابریق ثلثا ووضع یدہ حالۃ الغسل علی عروتہ لاراسہ ۱؎۔ مستحب یہ ہے کہ وضو کا برتن مٹی کا ہو،اورلوٹے کا دستہ تین بار دھولے، اور دھوتے وقت ہاتھ دستے پر رکھے لوٹے کے منہ پرنہیں۔(ت)


ف۲: مسئلہ مستحب ہے کہ وضو مٹی کے برتن سے کرے ۔


 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ مطلب فی تیمم المندوبات داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۴

فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۲

البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۲۸)

 (۳) اگر شیطان فــــ ۳ حیلہ سے بھی نہ مانے اور وسوسہ ڈالے ہی جائے کہ تیرے وضو میں غلطی رہی یا تری نماز ٹھیک نہ ہوئی تو سیدھا جواب یہ ہے کہ خبیث تُو جھوٹا ہے۔


ف ۳ : ردّ وسوسہ کا تیسرا علاج


ابن حبان وحاکم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا جاء احدکم الشیطان فقال انک احدثت فلیقل انک کذبت ولابن حبان فلیقل فی نفسہ ۲؎۔


جب تم میں کسی کے پاس شیطان آکر وسوسہ ڈالے کہ تیرا وضو جاتارہا توفوراً اسے جواب دے کہ توجھوٹا ہے(اوراگر مثلاً نماز میں ہے تو) دل میں یہی کہہ لے، مطلب وہی ہے کہ وسوسہ کی طرف التفات نہ کرے۔


 (۲؎ المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ دار الفکر بیروت ۱ / ۱۳۴

۳؎ موارد الظمان     کتاب الطہارۃ حدیث ۱۸۷ المطبعۃ السلفیہ     ص۷۳)


اقول حالتیں تین ہوتی ہیں:

ایک تو یہ کہ عدو کا وسوسہ مان لیا اُس پر عمل کیا یہ تو اس ملعون کی عین مراد ہے، اور جب یہ ماننے لگا تو وہ کیا ایک ہی بار وسوسہ ڈال کر تھک رہے گا حاشا وہ ملعون آٹھ پہر اس کی تاک میں ہے جتنا جتنا یہ مانتا جائے گا وہ اس کا سلسلہ بڑھاتا رہے گا یہاں تک کہ نتیجہ وہی ہوگا دو دوپہر کامل دریا میں غوطے لگائے اور سر نہ دھلا۔

دوسرے یہ کہ مانے تو نہیں مگر اُس کے ساتھ نزاع وبحث میں مصروف ہوجائے یہ بھی اُس کے مقصد ناپاک کا حصول ہے کہ اُس کی غرض تو یہی تھی کہ یہ اپنی عبادت سے غافل ہو کر کسی دوسرے جھگڑے میں پڑ جائے اور پھر اس حیص بیص میں ممکن ہے کہ وہی خبیث غالب آئے اور صورت ثانیہ صورت اولی کی طرف عود کرجائے ۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔


لہٰذا نجات اس تیسری صورت میں ہے جو ہمارے نبی کریم حکیم علیم رؤف رحیم علیہ وعلی آلہٖ افضل الصلاۃ والتسلیم نے تعلیم فرمائی کہ فوراً اتنا کہہ کر الگ ہوجائے کہ تو جھوٹا ہے۔ 

اقول یعنی یہ نہیں کہ صرف اس معنے کا تصور کرلیا کہ یہ کافی نہ ہوگا بلکہ دل میں جمالے کہ ملعون جھوٹا ہے پھر اُس کی طرف التفات اور اُس سے بحث وبردومات کی کیا حاجت شاید اسی لئے فی نفسہ زیادہ فرمایا۔


تنبیہ فــــ ضروری سخت ضروری اشد ضروری : اقول ہمارے حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جوامع الکلم عطا فرمائے گئے مختصر لفظ فرمائیں اور معانی کثیرہ پر مشتمل ہوں۔


شیطان دو قسم ہیں شیاطین الجن کہ ابلیس لعین اور اس کی اولاد ملاعین ہیں اعاذ نااللّٰہ والمسلمین من شرھم وشر الشٰیطین اجمعین  (اے اللہ! ہم کو اور تمام مسلمانوں کو ان کے شر اور تمام شیاطین کے شر سے پناہ دے۔ ت)


فــــــ :یہ ضروری ضروری سخت ضروری :آریوں ، پادریوں ، وغیرہم کے لکچر ندائیں سننے کو جانے سے قرآن عظیم سخت مما نعت فرماتا ہے


دوسرے شیاطین الانس کہ کفار و مبتدعین کے داعی ومنادی ہے ۔ لعنہ اللہ وخذلھم ابدا ونصرنا علیہم نصرا ابدا آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلیھم اجمعین امین  (خدا ان پر لعنت فرمائے اوران کوہمیشہ بے سہارا رکھے اوران پر ہمیں دائمی نصرت عطا فرمائے الہٰی بطفیل سید المرسلین قبول فرما۔حضور پر اورتمام رسولوں پر خدائے برتر کا درود سلام ہو۔ آمین۔(ت)


ہمارا رب عزوجل فرماتا ہے: وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیٰطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا ۱؎۔ یوں ہی ہم نے ہر نبی کا دشمن کیا شیطان آدمیوں اور شیطان جنوں کو کہ آپس میں ایک دوسرے کے دل میں بناوٹ کی بات ڈالتے ہیں دھوکا دینے کیلئے۔


 (۱؎ القرآن    ۶ /۱۱۲)


حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: اللہ کی پناہ مانگ شیطان آدمیوں اور شیطان جنوں کے شر سے۔ عرض کی: کیا آدمیوں میں بھی شیطان ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ رواہ احمد ۲؎ وابن حاتم والطبرانی عن ابی امامۃ واحمد وابن مردویہ والبیھقی فی الشعب عن ابی ذر رضی اللّٰہ تعالی عنہما۔  (اس کی روایت احمد نے ابن حاتم اور طبرانی نے ابی امامہ سے اور احمد نے ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کی۔ ت)


ائمہ دین فرمایا کرتے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔ رواہ ابن جریر عن عبدالرحمٰن بن زید۔  (اس کی روایت ابنِ جریر نے عبدالرحمن بن زید سے کی۔ ت)


 (۲؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر رضی اللہ تعالی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۵ /۱۷۸ و ۲۶۵

الدرالمنثور بحوالہ احمد و ابن ابی حاتم وغیرھا تحت الایہ ۶ / ۱۱۲ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ / ۳۰۷ و ۳۰۸ )


اقول آیہ کریمہ میں شیاطین الانس کی تقدیم بھی اس طرف مشیر، اس حدیث کریم نے کہ ''جب شیطان وسوسہ ڈالے اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تُو جھوٹا ہے''۔ دونوں قسم کے شیطانوں کا علاج فرما د یا شیطان آدمی ہو خواہ جن اُس کا قابو اُسی وقت چلتا ہے جب اُس کے سُنئے اور تنکا توڑ کر ہاتھ پر دھر دیجئے کہ تُو جھوٹا ہے تو خبیث اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ہے۔ آج کل ہمارے عوام بھائیوں کی سخت جہالت یہ ہے کہ کسی آریہ نے اشتہار دیا کہ اسلام کے فلاں مضمون کے رَد میں فلاں وقت لیکچر دیا جائے گا یہ سُننے کیلئے دوڑ ے جاتے ہیں۔ کسی پادری نے اعلان کیا کہ نصرانیت کے فلاں مضمون کے ثبوت میں فلاں وقت ندا ہوگی، یہ سننے کیلئے دوڑے جاتے ہیں۔


بھائیو! تم اپنے نفع نقصان کو زیادہ جانتے ہو یا تمہارا رب عزّوجل تمہارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُن کا حکم تو یہ ہے کہ شیطان تمہارے پاس وسوسہ ڈالنے آئے تو سیدھا جواب یہ دے دو کہ تو جھوٹا ہے نہ یہ کہ تم آپ دوڑ دوڑ کے اُن کے پاس جاؤ اور اپنے رب جل وعلا ، اپنے قرآن اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں کلمات ملعونہ سُنو۔


اقول:  یہ آیت جو ابھی تلاوت ہوئی اسی کا تتمہ اور ا س کے متصل کی آیات کریمہ تلاوت کرتے جاؤ دیکھو قرآن عظیم تمہاری اس حرکت کی کیسی کیسی شناعتیں بتا تا اور اُن ناپاک لکچروں نداؤں کی نسبت تمہیں کیا کیا ہدایت فرماتا ہے، آیہ کریمہ مذکورہ کے تتمہ میں ارشاد ہوتا ہے:


ولو شاء ربّک مافعلوہ فذرھم وما یفترون ۱؎o اور تیرا رب چاہتا تو وہ یہ دھوکے بناوٹ کی باتیں نہ بناتے پھرتے تو تو انہیں اور اُن کے بہتانوں کو یک لخت چھوڑ دے۔


 (۱؎ القرآن    ۶ /۱۱۲)


دیکھو اُنہیں اور اُن کی باتوں کو چھوڑنے کا حکم فرمایا یا اُن کے پاس سُننے کے لئے دوڑنے کا۔ اور سُنئے اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے: ولتصغٰی الیہ افئِدۃ الذین لایؤمنون بالاٰخرۃ ولیرضوہ ولیقترفوا ماھم مقترفون ۲؎o اور اس لئے کہ اُن کے دل اس کی طرف کان لگائیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اُسے پسند کریں اور جو کچھ ناپاکیاں وہ کر رہے ہیں یہ بھی کرنے لگیں۔


 (۲؎ القرآن    ۶ /۱۱۳)


دیکھو اُن کی باتوں کی طرف کان لگانا اُن کا کام بتایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ فرمایا کہ وہ ملعون باتیں ان پر اثر کر جائیں اور یہ بھی اُن جیسے ہوجائیں والعیاذ باللہ تعالٰی۔ لوگ اپنی جہالت سے گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے مسلمان ہیں ہم پر اُن کا کیا اثر ہوگا

حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من سمع بالدجال فلینأمنہ فواللّٰہ ان الرجل لیأتیہ وھو یحسب انہ مؤمن فیتبعہ مما یبعث بہ من الشبھات ۱؎۔ رواہ ابوداؤد عن عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ و عن الصحابۃ جمیعا۔


جو دجال کی خبر سُنے اُس پر واجب ہے کہ اُس سے دُور بھاگے کہ خدا کی قسم آدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں یعنی مجھے اس سے کیانقصان پہنچے گا وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اس کا پیروہو جائے گا(اسے ابوداؤد نے عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ اورتمام صحابہ سے روایت کیا۔ت)


 (۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الملاہم باب خروج الدجال آفتاب عالم پریس لاہور     ۲ /۲۳۷)


کیا دجال ایک اُسی دجال اخبث کو سمجھتے ہو جو آنے والا ہے حاشا تمام گمراہوں کے داعی منادی سب دجال ہیں اور سب سے دُور بھاگنے ہی کا حکم فرمایا اور اُس میں یہی اندیشہ بتایا ہے

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: یکون فی اٰخر الزمان دجّالون کذّابون یاتونکم من الاحادیث بمالم تسمعوا انتم ولا اٰباؤکم فایاکم وایاھم لایضلّونکم ولا یفتنونکم ۲؎۔


آخر زمانے میں دجّال کذّاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے، توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھوکہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں(اسے مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)


 (۲؎ صحیح مسلم باب النہی عن الروایۃ عن الضعفا ء الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۰)


اور سُنئے اس کے بعد کی آیات میں فرماتا ہے: افغیر اللّٰہ ابتغی حکما وھو الذی انزل الیکم الکتٰب مفصلا والذین اتینٰھم الکتٰب یعلمون انہ منزل من ربک بالحق فلا تکونن من الممترین o وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا لامبدل لکلمٰتہ وھو السمیع العلیم o وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللّٰہ ان یتبعون الاالظن وان ھم الایخرصون o ان ربک ھو اعلم من یضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین o ۱؎ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ڈھونڈوں حالانکہ اُس نے مفصل کتاب تمہاری طرف اُتاری اور اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ وہ تیرے رب کے پاس سے حق کے ساتھ اُتری تو خبردار تو شک نہ کرنا اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں کامل ہے کوئی اُس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہ شنوا و دانا ہے اور زمین والوں میں زیادہ وہ ہیں کہ تو ان کی پیروی کرے تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں وہ تو گمان کے پیرو ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکے گا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔


 (۱؎ القرآن        ۶ /۱۱۴ تا۱۱۷)

یہ تمام آیات کریمہ انہیں مطالب کے سلسلہ بیان میں ہیں گویا ارشاد ہوتا ہے تم جو اُن شیطان آدمیوں کی باتیں سُننے جاؤ کیا تمہیں یہ تلاش ہے کہ دیکھیں اس مذہبی اختلاف میں یہ لکچرار یا یہ منادی کیا فیصلہ کرتا ہے ارے خدا سے بہتر فیصلہ کس کا! اُس نے مفصل کتاب قرآن عظیم تمہیں عطا فرمادی اُس کے بعد تم کو کسی لکچر ندا کی کیا حاجت ہے لکچر والے جو کسی کتاب دینی کا نام نہیں لیتے کس گنتی شمار میں ہیں! یہ کتاب والے دل میں خوب جانتے ہیں کہ قرآن حق ہے تعصب کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہے کہ ہٹ دھرمی سے مکرے جاتے ہیں تو تجھے کیوں شک پیدا ہو کہ اُن کی سُننا چاہے تیرے رب کا کلام صدق وعدل میں بھرپور ہے کل تک جو اُس پر تجھے کامل یقین تھا آج کیا اُس میں فرق آیا کہ اُس پر اعتراض سننا چاہتا ہے کیا خدا کی باتیں کوئی بدل سکتا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میرا کوئی مقال کوئی خیال خدا سے چھُپ رہے گا وہ سنتا جانتا ہے، دیکھ اگر تُونے اُن کی سنی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے کیا یہ خیال کرتا ہے کہ ان کا علم دیکھوں کہاں تک ہے یہ کیا کہتے ہیں ارے اُن کے پاس علم کہاں وہ تو اپنے اوہام کے پیچھے لگے ہوئے اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں جن کا تھل نہ بیڑا جب اللہ واحد قہار کی گواہی ہے کہ اُن کے پاس نری مہمل اٹکلوں کے سوا کچھ نہیں تو اُن کو سُننے کے کیا معنے سننے سے پہلے وہی کہہ دے جو تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا کہ کذبت شیطان تو جھوٹا ہے، اور اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ مجھ کو کیا گمراہ کریں گے میں تو راہ پر ہوں تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بہکے گا اور کون راہ پر ہے تو پورا راہ پرہوتا ہے بے راہوں کی سُننے ہی کیوں جاتا حالانکہ تیرا رب فرما چکا ذرھم وما یفترون ۲؎o چھوڑ دے اُنہیں اور اُن کے بہتانوں کو۔


 (۲؎ القرآن    ۶ /۱۱۲ )


تیرے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرما چکے ایاکم وایاھم۱؎ اُن سے دُور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو بہکانہ دیں کہیں وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔


 (۱؎ صحیح مسلم      باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۰)


بھائیو! ایک سہل بات ہے اسے غور فرمالو۔ تم اپنے رب عــہ۱جل وعلا اپنے قرآن اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سچّا ایمان رکھتے ہو یا معاذ اللہ کچھ شک ہے! جسے شک ہوا سے اسلام سے کیا علاقہ وہ ناحق اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو کیوں بدنام کرے۔ اور اگر سچا ایمان ہے تو اب یہ فرمائے کہ ان کے لکچروں نداؤں میں آپ کے رب عــہ۲ وقرآن ونبی وایمان کی تعریف ہوگی یا مذمت۔ ظاہر ہے کہ دوسری ہی صورت ہوگی اور اسی لئے تم کو بلاتے ہیں کہ تمہارے منہ پر تمہارے خدا عــہ۳ونبی وقرآن ودین کی توہین وتکذیب کریں۔


اب ذرا غور کرلیجئے ایک شریر نے زید کے نام اشتہار دیا کہ فلاں وقت فلاں مقام پر میں بیان کروں گا کہ تیرا باپ ولد الحرام اور تیری ماں زانیہ تھی، للہ انصاف، کیا کوئی غیرت والا حمیت والا انسانیت والا جبکہ اُسے اس بیان سے روک دینے باز رکھنے پر قادر نہ ہو اُسے سُننے جائے گا حاشا للہ کسی بھنگی چمار سے بھی یہ نہ ہوسکے گا پھر ایمان کے دل پر ہاتھ رکھ دیکھو کہ اللہ ورسول عــہ۴ وقرآن عظیم کی توہین تکذیب مذمّت سخت تر ہے یا ماں باپ کی گالی۔ ایمان رکھتے ہو تو اُسے اس سے کچھ نسبت نہ جانو گے۔ پھر کون سے کلیجے سے اُن جگر شگاف ناپاک ملعون بہتانوں افتراؤں شیطانی اٹکلوں ڈھکوسلوں کو سُننے جاتے ہو بلکہ حقیقۃًفـــ انصافاً وہ جو کچھ بکتے اور اللہ ورسول عــہ۵ وقرآن عظیم کی تحقیر کرتے ہیں ان سب کے باعث یہ سننے والے ہیں اگر مسلمان اپنا ایمان سنبھالیں اپنے رب عــہ۶وقرآن ورسول کی عزت عظمت پیش نظر رکھیں اور ایکا کرلیں کہ وہ خبیث لکچر گندی ندائیں سننے کوئی نہ جائے گا جو وہاں موجود ہو وہ بھی فوراً وہی مبارک ارشاد کا کلمہ کہہ کر تو جھوٹا ہے چلا جائے گا تو کیا وہ دیواروں پتھّروں سے اپنا سر پھوڑیں گے تو تم سُن سُن کر کہلواتے ہو نہ تُم سنو نہ وہ کہیں، پھر انصاف کیجئے کہ اُس کہنے کا وبال کس پر ہوا۔


عــہ۱ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     عــہ۲ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     

عــہ۳ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     عــہ۴ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     

عــہ۵ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     عــہ۶ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     

فــــ : اللہ ورسول و قرآن عظیم کی جتنی توہین آریہ و پادری اپنے لیکچروں میں کرتے ہیں ان سب کا وبال شرعا ان پر ہے جو سننے جاتے ایسے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں .


علماء فرماتے ہیں ہٹّے کٹّے جوان تندرست جو بھیک مانگنے کے عادی ہوتے اور اسی کو اپنا پیشہ کرلیتے ہیں اُنہیں دینا ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر شَہ دینی ہے لوگ نہ دیں تو جھَک ماریں اور محنت مزدوری کریں۔ بھائیو! جب اس میں گناہ کی امداد ہے تو اس میں تو کفر کی مدد ہے والعیاذ باللہ تعالٰی قرآن عظیم فـــ کی نص قطعی نے ایسی جگہ سے فوراً ہٹ جانا فرض کردیا اور وہاں ٹھہرنا فقط حرام ہی نہ فرمایا بلکہ سُنو تو کیا ارشاد کیا۔رب عزوجل فرماتا ہے: وقد نزل علیکم فی الکتٰب ان اذا سمعتم اٰیت اللّٰہ یکفربہا ویستھزأبھا فلا تقعدوا معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ انکم اذا مثلھم ان اللّٰہ جامع المنٰفقین والکٰفرین فی جہنم جمیعا ۱؎o یعنی بے شک اللہ تم پر قرآن میں حکم اتار چُکا کہ جب تم سُنو کہ خدا کی آیتو ں سے انکار ہوتا اور اُن کی ہنسی کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو جب تک وہ اور باتوں میں مشغول نہ ہوں اور تم نے نہ مانا اور جس وقت وہ آیات اللہ پر اعتراض کر رہے ہیں وہاں بیٹھے تو جب تم بھی انہیں جیسے ہو بیشک اللہ تعالٰی منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔


فــــ : دیکھو قرآن فرماتا ہے ہاں تمہارا رب رحمان فرماتا ہے جو ایسے جلسوں میں جائے ایسی جگہ کھڑا ہو وہ بھی انہیں کافروں آریوں پادریوں کی مثل ہے


 (۱ القرآن الکریم         ۴ /۱۴۰)


آہ آہ حرام تو ہر گناہ ہے یہاں تو اللہ واحد قہاریہ فرما رہا ہے کہ وہاں ٹھہرے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔

مسلمانو! کیا قرآن عظیم کی یہ آیات تم نے منسوخ کردیں یا اللہ عزوجل کی اس سخت وعید کو سچّا نہ سمجھے یا کافروں جیسا ہونا قبول کرلیا۔ اور جب کچھ نہیں تو اُن جمگھٹوں کے کیا معنی ہیں جو آریوں پادریوں کے لکچروں نداؤں پر ہوتے ہیں اُن جلسوں میں شرکت کیوں ہے جو خدا عــہ ورسول وقرآن پر اعتراضوں کیلئے جاتے ہیں۔بھائیو! میں نہیں کہتا قرآن فرماتا ہے کہ : انکم اذا مثلھم ۲؎ تم بھی ان ہی جیسے ہو۔ ت)


عــہ جل و علا و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۱۲ منہ


 (۲؎ القرآن     الکریم     ۴ /۱۴۰ )


اُن لکچروں پر جمگھٹ والے اُن جلسوں میں شرکت والے سب اُنہیں کافروں کے مثل ہیں وہ علانیہ بک کر کافر ہوئے یہ زبان سے کلمہ پڑھیں اور دل میں خدا عــہ ۱ورسول وقرآن کی اتنی عزّت نہیں کہ جہاں اُن کی توہین ہوتی ہو وہاں سے بچیں تو یہ منافق ہوئے جب تو فرمایا کہ اللہ انہیں اور انہیں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا کہ یہاں تم لکچر دو اور تم سنو ذق انک انت العزیز الکریم ۱؎o ( کھولتے پانی کا عذاب چکھ ، ہاں ہاں توہی بڑا عزت والا کرم والا ہے ۔ ت)


عــــہ ۱ : جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم


(۱ القرآن        ۴۴ /۴۹)


الٰہی اسلامی کلمہ پڑھنے والوں کی آنکھیں کھول ولا حول ولا قوۃ الّا باللہ العلی العظیم، مسلمان اگر قرآن عظیم کی اس نصیحت پر عمل کریں تو ابھی ابھی دیکھیں کہ اعداء اللہ کے سب بازار ٹھنڈے ہوئے جاتے ہیں ملک میں ان کے شور وشر کا نشان نہ رہے گا جہنم کے کُندے شیطان کے بندے آپس ہی میں ٹکرا ٹکرا کر سر پھوڑیں گے، اللہ۲؎ ورسول وقرآن عظیم کی توہینوں سے مسلمانوں کا کلیجا پکانا چھوڑیں گے،


عــہ۲ : جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم


اور اپنے گھر بیٹھ کر بکے بھی تو مسلمانوں کے کان تو ٹھنڈے رہیں گے اے رب میرے توفیق دے وحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا محمد واٰلہٖ وصحبہ اجمعین۔


خیر ، بات دور پہنچی اور بحمداللہ تعالٰی بہت نافع وضرور تھی، کہنا یہ تھا کہ وسوسہ شیطان کا تیسرا علاج یہ ہے کہ خبیث تو جھُوٹا ہے امام ابو حازم کہ اجلّہ ائمہ تابعین سے ہیں، اُن کے پاس ایک شخص آکر شاکی ہوا کہ شیطان مجھے وسوسے میں ڈالتا ہے اور سب سے زیادہ سخت مجھ پر یہ گزرتا ہے کہ آکر کہتا ہے تو نے اپنی عورت کو طلاق دے دی امام نے فوراً فرمایا کیا تونے میرے پاس آکر میرے سامنے اپنی عورت کو طلاق نہ دی وہ گھبرا کر بولا خدا کی قسم میں نے کبھی آپ کے پاس اُسے طلاق نہ دی فرمایا جس طرح میرے آگے قسم کھائی شیطان سے کیوں نہیں قسم کھا کر کہتا کہ وہ تیرا پیچھا چھوڑے اخرجہ ابو بکر ابی داؤد فی کتاب الوسوسۃ ۲؎ ۔ ( ابوبکر بن ابو داؤد نے اسے کتاب الوسوسہ میں بیان کیا۔ ت )


 (۲؎ آکام المرجان بحوالہ ابن ابی داؤد الباب السابع والثمانون مکتبہ خیریہ کثیر کراچی ص ۱۶۵ )

 (۴) وسوسہ فـــــ کا اتباع اپنے حول وقوت پر نظر سے ہوتا ہے ابلیس خیال ڈالتا ہے کہ تونے یہ عمل کامل نہ کیا اس میں فلاں نقص رہ گیا یہ اُس تکمیل کے خیال میں پڑتا ہے حالانکہ جتنا رخصت شرعیہ کے مطابق ہوگیا وہ بھی کامل وکافی ہے اکملیت کے درجات اکملوں کے لائق ہیں دشمن سے کہہ کہ اپنی دلسوزی اٹھا رکھے مجھ سے تو اتنا ہی ہوسکتا ہے ناقص ہے تو میں خود ناقص ہوں اپنے لائق میں بجالایا میرا مولی کریم ہے میرے عجزو ضعف پر رحم فرما کر اتنا ہی قبول فرمالے گا اُس کی عظمت کے لائق کون بجا لاسکتا ہے ؎


بندہ ہمان بہ کہ زتقصیر خویش        عذر بدرگاہِ خدا آورد

ورنہ سزا وار خدا وندیش            کس نتواند کہ بجا آورد


 (بندہ وہی بہتر ہے کہ اپنے قصور کا عذر اللہ تعالٰی کی درگاہ میں کرے ورنہ خدا کی شان کے لائق کوئی شخص پورا نہیں کرسکتا۔ ت)


ف : دفع وسواس کے دو آخری علاج ۔


علامہ محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح مواہب لدنیہ شریف میں فرماتے ہیں: قال فی النصائح الوسوسۃ من افات الطھارۃ واصلہا جھل بالسنۃ اوخبال فی العقل ومتبعھا متکبر مدل بنفسہ سیئ الظن بعبادۃ اللّٰہ معتمد علی عملہ معجب بہ وبقوتہ وعلاجہا بالتلھی عنھا ۱؎ الخ


نصائح میں فرمایا: وسوسہ طہارت کی ایک آفت ہے اور اس کی بنیادسنت سے بے خبری یا عقل کی خرابی ہے۔ اس کی پیروی کرنے والا تکبر، خود رائی، اللہ کی عبادت کے ساتھ سوء ظن، اپنے عمل پر اعتماد،اپنی ذات اوراپنی فریفتگی کا شکار ہے اور وسوسہ کا علاج یہ ہے کہ اس سے بے پروا ہوجائے۔(ت)


 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب ا للدنیۃ    المقصد التاسع النوع الاول     دار المعرفہ بیروت     ۷ /۲۵۲)


مولانا شیخ محقق عبدالحق محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں: درد دفع آں خاطر تکلف ننما یندو درپے آن نروند وہم برخصت عمل کنند واگر شیطان بسیار مزاحمت دہد و گوید کہ ایں عمل کہ توکردی ناقص ونادرست ست  وپذیرائے درگاہِ حق نے برغم اوبگوید کہ تو برواز دست من زیادہ بریں نمی آید ومولائے من کریم ست تعالٰی ازمن ہمیں قدر پذیر دوفضل ورحمت وی واسع ست ۱؎۔


اس خیال کو دفع کرنے میں تکلیف نہ کرے اوراس کے پیچھے نہ پڑے اوررخصت پرعمل کرے۔اگر شیطان بہت مزاحمت کرے اور کہے کہ یہ عمل جو تونے کیا وہ ناقص ونادرست ہے اور بارگاہِ حق میں مقبول نہیں، اس کے برخلاف کہے: توجا، مجھ سے اس سے زیادہ نہیں ہوسکتااورمیرا مولا کریم ہے،مجھ سے اسی قدر قبول فرمالے گا، اس کا فضل اوراس کی رحمت بہت وسیع ہے۔(ت)


 (۱؎ شرح سفر السعادۃ باب در طہارت حضرت پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۳۰)


 (۵) اٰخر الدواء الکی واٰخر الحیل السیف (آخری دوا داغنا ہے اور آخری حیلہ تلوار۔ ت) یوں بھی گزرے تو کہے فرض کردم کہ میرا وضو نہ ہوا میری نماز نہ سہی مگر مجھے تیرے زعم کے مطابق بے وضو یا ظہر کی تین رکعت پڑھنی گوارا ہے، اور اے ملعون تیری اطاعت قبول نہیں۔ جب یوں دل میں ٹھان لی وسوسہ کی جڑ کٹ جائے گی اور بعونہٖ تعالی دشمن ذلیل وخوار پسپا ہوگا۔ یہی معنے ہیں اُس ارشاد امام اجل مجاہد تلمیذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے کہ فرماتے: لان اصلی وقد خرج منی شیئ احب الی من ان اطیع الشیطان ۲؎۔ ذکرہ فی الحدیقۃ الندیۃ۔ مجھے بے وضو پڑھ لینی اس سے زیادہ پسند ہے کہ شیطان کی اطاعت کروں۔( اسے حدیقۃ الندیۃ میں بیان کیا گیا ہے)


 (۲؎ الحدیقۃ الندیہ الباب الثالث الفصل الاول النوع الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ / ۶۸۸)


امام اجل قاسم محمد بن بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک شخص نے شکایت کی کہ نماز میں مجھے بہت سہو ہوتا ہے سخت پریشان ہوتا ہوں، فرمایا: امض فی صلاتک فانہ لن یذھب ذلک عنک حتی تنصرف وانت تقول مااتممت صلاتی ۳؎۔ رواہ امام دار الھجرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی مؤطاہ۔ اپنی نماز پڑھے جاکہ یہ شبہے دفع نہ ہوں گے جب تک تو یہ نہ کہے کہ ہاں میں نے نماز پوری نہ کی یعنی یونہی سہی مگرمیں تیری نہیں سنتا۔(اسے امام دارالہجرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مؤطا میں روایت کیا۔ت)


 (۳؎ موطأ الامام مالک کتاب السہو العمل فی السہو میرمحمد کتب خانہ کراچی ص ۸۴)


مرقاۃ میں ہے: المعنی لاتذھب عنک تلک الخطرات الشیطانیۃ حتی تفرغ من الصّلٰوۃ وانت تقول للشیطان صدقت مااتممت صلاتی لکن ما اقبل قولک ولا اتمہا ارغا مالک ونقضا لما اردتہ منی وھذا اصل عظیم لدفع الوساوس وقمع ھواجس الشیطٰن فی سائر الطاعات والحاصل ان الخلاص من الشیطان انما ھو بعون الرحمن والاعتصام بظواھر الشریعۃ وعدم الالتفات الی الخطرات والوساوس الذمیمۃ ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم ۱؎۔


معنی یہ ہے کہ وہ شیطانی خیالات تم سے دور نہ ہوں گے جب تک ایسا نہ ہو کہ تم نماز سے فارغ ہوجاؤ اور شیطان سے کہو تو ٹھیک کہتا ہے میں نے اپنی نماز پوری نہ کی لیکن میں تیری بات نہیں مانتا اور تیری تحقیر کے لئے اور تیرے ارادہ کو شکست دینے کے لئے میں اسے پوری نہ کروں گا۔ یہ وسوسوں کے دفعیہ اور شیطانی خیالات کی بیخ کنی کے لئے تمام طاعات میں بہت عظیم بنیاد ہے۔ حاصل یہ کہ شیطان سے چھٹکارا اسی طرح ملے گا کہ خدا کی مدد ہو اور ظاہر شریعت کہ مضبوطی سے تھامے رہے، بُر ے خیالات اوروسوسوں کی طرف التفات نہ کرے۔ اور طاقت وقوت نہیں مگر برتری وعظمت والے خدا ہی سے۔(ت)


 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب الوسوسۃ حدیث ۷۸ المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۵۶ )


الحمدللہ یہ فتوٰی لاحول شریف پر تمام ہوا اس سوال کے متعلق کسی کتاب میں چند سطروں سے زائد نہ تھا خیال تھا کہ دو تین ورق لکھ دئے جائیں گے ولہٰذا ابتدا میں خطبہ بھی نہ لکھا مگر جب فیض بارگاہ عالم پناہ سید العالمین محمّد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جوش پر آیا فتوی ایک مبسوط رسالہ ہوگیا عظیم وجلیل فوائد جزیل پر مشتمل جو اس کے غیر میں نہ ملیں گے والحمدللّٰہ رب العالمین بلکہ متعدد جگہ قلم روک لیا کہ طول زائد ہوتا اور اسی کے مضامین سے ایک مستقل رسالہ بسط الیدین جس کا ذکر اوپر گزرا جُدا کر لیا لہٰذا مناسب کہ اس کا تاریخی نام بارق النور فی مقادیر ماء الطھور نور کی تابش آب طہارت کی مقدار میں ۔ ت) ہو، اور خطبہ کہ  سابقاً نہ ہوا لاحقا مسطور ہو ۱۳۲۷ھ ہو کہ النھایۃ ھی الرجوع الی البدایۃ  (انتہا ابتدا کی طرف لوٹتی ہے۔ ت) اول بآخر نسبتے دارد (اول آخر سے نسبت رکھتا ہے۔ت)

فالحمدللّٰہ الذی انزل من السماء ماء طھورا لیذھب عنا الرجس ویطھرنا بہ تطھیرا ووضع المیزان وقدر کل شیئ تقدیرا کی نختار العدل ویجتنب طرفیہ اسرافا وتقتیرا واطھر الصلاۃ واطیب السلام علی من ارسل بشیرا ونذیرا وداعیا الی اللّٰہ باذنہ سراجا منیرا فطھرنا بمیاہ فیضہ الھامر لاماطر کثیرا غزیرا واذھب عنا ارجاس الکفر وانجاس الضلال بسحاب فضلہ المنھل ابدا کل حین واٰن ھلّا کبیرا فصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا امین ۔


توساری تعریف خدا کے لئے جس نے آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی اتارا تاکہ اس سے ہماری پلیدی دور کرکے ہمیں خوب خوب پاک کردے۔ اورجس نے ترازو رکھی اور ہر چیز کی ایک مقدار متعین فرمائی تاکہ ہم عدل اختیار کریں اوراس کے دونوں کنارے، زیادتی اورکمی سے بچیں۔اورپاک تر درود، پاکیزہ ترسلام اُن پر جو مژدہ دینے والے ،ڈرسنانے والے بناکر بھیجے گئے، اور خدا کی طرف سے اس کے اذن سے دعوت دینے والے اور روشن چراغ بناکر مبعوث ہوئے۔ توانہوں نے ہمیں اپنے فیض کی فراواں،بھرپور،موسلادھار بارش سے پاک فرمایا اورہم اپنے فضل کے ہر لمحہ وہر آن خوب خوب برستے بادل کے ذریعہ ہم سے کفر کی پلیدی ،ضلالت کی ناپاکی دُور کردی۔ تو ان پر، ان کی آل پر اوران کے اصحاب پر خدا کی رحمت وبرکت اوراس کا زیادہ سے زیادہ سلام نازل ہو۔ الہٰی قبول فرما۔


ھذا ولاجل العجل اذکان تنمیقہ وطبع الفتاوی جارٍ والطبع مشغول بشیون اھّم عظیمۃ الاخطار مع ھجوم الھموم وجمود الذھن وخمود الافکار بقی خبایا المرام فی زوایا الکلام لاسیما اثنان


یہ رسالہ توپورا ہوا۔ اورچوں کہ عجلت درپیش تھی اس لئے کہ ایک طرف رسالہ لکھا جارہاتھا دوسری طرف ْطباعت ہوتی جارہی تھی اور طبیعت کچھ عظیم اہم معاملات میں مشغول تھی، ساتھ ہی پریشانیوں کا ہجوم ، ذہن کی بستگی، فکر کی فروماندگی بھی دامنگیر رہی اس طرح کلام کے گوشوں میں کچھ باتیں چھپی رہ گئیں۔ خصوصاً دو باتیں:


الاول فــــ حدیث الغرفۃ وقد علمت مافیہ من الاشکال فلو ارسلت الغرفۃ علی الجبہۃ کما ھو السنۃ فی فتاوی الامام قاضی خان وخزانۃ المفتین ان اراد غسل وجہہ یضع الماء علی جبینہ حتی ینحدر الماء الی اسفل الذقن ولا یضع علی خدہ ولا علی انفہ ولا یضرب علی جبینہ ضربا عنیفا ۱؎ اھ


اول چُلّو سے متعلق حدیث۔ اس میں جو اشکال ہے معلوم ہوچکا۔ سنت یہ ہے کہ چلّو پیشانی پر ڈالا جائے۔ فتاوٰی امام قاضیخاں اور خزانۃ المفتین میں ہے: جب چہرہ دھونا چاہے توپانی جبین پرڈالے تاکہ وہ اُترکر ٹھوڑی کے نیچے تک آئے اوررخسار پر یاناک پر نہ ڈالے اورنہ پیشانی پرزور سے دے مارے اھ


ف : مسئلہ منہ دھونے میں نہ گالوں پر ڈالے نہ ناک پر نہ زور سے پیشانی پر ۔ یہ سب افعال جہال کے ہیں بلکہ بآہستگی بالائے پیشانی سے ڈالے کہ ٹھوڑی سے نیچے تک بہتا آئے ۔


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الطہارۃ،باب الوضوء والغسل    نولکشور لکھنؤ    ۱ /۱۶

خزانۃ المفتین    کتاب الطہارۃ،فصل فی الوضوء    قلمی    ۱/ ۲)


فمعلوم قطعا ان الماء لایستوعب جمیع اجزاء الوجہ وان استقبل الماء فی مسیلہ فاخذہ بالید وامرھا علی اطراف الوجہ لم یکن غسلا کما قدمت من قبل نفسی لوضوحہ بشھادۃ العقل والتجربۃ ثم رأیتہ منصوصا علیہ فی فـــ الخلاصۃ والخزانۃ اذ یقولان الغسل مرۃ فریضۃ عندنا وان توضأ مرۃ سابغۃ جاز وتفسیر السبوغ ان یصل الماء الی العضو ویسیل ویتقاطر منہ قطرات اما اذا افاض الماء علی راس العضو فقبل ان یصل الی المرفق اوالکعب یمسک الماء ویمد بکفہ الی اخرالعضو لایکون سبوغا ۱؎ اھ ھذا لفظ الخلاصۃ ولفظ خزانۃ المفتین الغسل مرۃ سابغۃ فریضۃ ۲؎ ثم ذکر مثلہ وزیادۃ ۔


اب اگر اس طرح پیشانی پرچُلّو ڈالے توقطعاً معلوم ہے کہ پانی چہرے کے تمام حصوں کا احاطہ نہ کرسکے گا۔اور بہتے ہوئے پانی پر بیچ میں ہاتھ لگاکر چہرے کے اور حصوں تک ہاتھ پھیردیا تو یہ دھونا نہ ہوا جیسا کہ پہلے اسے میں نے اپنی طرف سے لکھا تھا کیوں کہ یہ عقل وتجربہ کی شہادت کے مطابق بالکل واضح بات تھی پھر میں نے دیکھا کہ خلاصہ اورخزانہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ ان کی عبارتیں یہ ہیں: ایک بار دھونا ہمارے نزدیک فرض ہے اور اگرایک بارکامل وسابغ طور پر دھولیاتووضو ہوگیا۔اور سابع کا معنٰی یہ ہے کہ پانی عضو تک پہنچے اوراس سے اس طرح بہہ جائے کہ کچھ قطرے ٹپکتے جائیں، لیکن اگر عضو کے سرے پرپانی بہایا اورکہنی یاٹخنے تک پہنچنے سے پہلے پانی روک کرہتھیلی کے ذریعہ عضو کے آخر تک پھیلادیا تو سبوغ نہ ہوا، اھ یہ خلاصہ کے الفاظ ہیں۔اور کے الفاظ یہ ہیں:ایک بارسابغ (احاطہ کے) طور پر دھونا فرض ہے (آگے عبارت خلاصہ کے مثل ہے اورکچھ زیادہ ہے)۔


فـــ:مسئلہ ضروریہ خود پانی کا تمام عضو پر بہنا ضرور ہے اگر ہاتھ یا پاؤں کے پنجے پر پانی ڈالا کہنیوں گٹوں تک نہ پہنچاتھا کہ بیچ میں ہاتھ لگا کر آخر عضو تک پھیر دیا تو وضو نہ ہوگا کہ یہ بہانا نہ ہوا بلکہ چپڑنا ہوا۔


 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارات،الفصل الثالث        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۲۲

۲؎ خزانۃ المفتین    کتاب الطہارۃ،فصل فی الوضوء        قلمی        ۱ /۳)


والثانی روایۃ الحسن فی توزیغ الماء علی الاعضاء وما استظھرت فی توجیھہ قبیل الامر الرابع فیعکرہ بُعدان یحاسبوا سنۃ الاستنجاء ویترکوا ھذہ السنن التی کانھا للوضوء من الاجزاء لاسیما ولفظ الخلاصۃ فی اٰخر فصل الغسل والحاصل ان الرطل للاستنجاء والرطل للقدمین والرطل لسائر الاعضاء۳؎اھ ولفظ وجیز الکردری فی صدر فصل الوضوءرطل للاستنجاء واخر لغسل الرجل واخر لبقیۃ الاعضاء ۴؎ اھ فھذا ظاھر فی شمول الفم والانف فکذا الیدان الی الرسغین علی انک علمت بُعد التسویۃ بین مجموع نفس الوجہ والیدین وبین القدمین فلیتأمل لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا وصلی اللّٰہ تعالٰی علی اعظم الانبیاء قدر اوفخرا وعلی اٰلہ وصحبہ واولیائہ وحزبہ اولی واخری وبارک وسلم واللّٰہ سبحانہ  وتعالٰی اعلم وعلمہ جل شانہ اتم واحکم۔


دوم اعضاء پر پانی کی تقسیم سے متعلق حسن بن زیاد کی روایت اورامر چہارم سے کچھ پہلے اس کی توجیہ میں، میں نے جو استظہارکیا اس پر یہ اعتراض ہوتاہے کہ ایسا بُعد ہے کہ سنت استنجا کوتوشمار کریں اور ان سنتوں کوجوگویاوضوکے جز کی حیثیت رکھتی ہیں،چھوڑجائیں۔ فصلِ غسل کے آخرمیں خلاصہ کے الفاظ یہ ہیں: حاصل یہ کہ ایک رطل استنجا کے لئے ،ایک رطل دونوں قدم کے لئے ، ایک رطل باقی اعضا کے لئے اھ۔ اورفصل وضو کے شروع میں وجیز کَردَرِی کے الفاظ یہ ہیں: ایک رطل استنجا کے لئے، ایک پیر دھونے کے لئے ،ایک اور بقیہ اعضاء کے لئے اھ۔ تو یہ منہ اورناک کو شامل ہونے میں ظاہر ہے ایسے ہی گٹوں تک دونوں ہاتھ بھی ہیں۔علاوہ اس کے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کے مجموعے ،اور دونوں پیروں کے درمیان پانی کی مقدار برابر ہونا بعید ہے۔ توان باتوں پر تامل کی ضرورت ہے شاید خدا اس کے بعدکچھ اور ظاہر فرمائے۔اور خدا کا درودوسلام اوربرکت ہوا ن پر جو قدرو فخر میں تمام انبیا سے عظیم ہیں اور حضور کی آل واصحاب،ان کے اولیا وجماعت پربھی دنیا وآخرت میں۔اور خدائے پاک وبرترہی کو خوب علم ہے اور اس ذات بزرگ کا علم زیادہ تام اور محکم ہے۔(ت)


 (۳؎خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارات،الفصل الثانی        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۱۴

۴؎الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ    کتاب الطہارۃ،الفصل الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۱)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے