مسئلہ ۴۲:از مقام چتور گڑھ علاقہ اودے پور راجپوتانہ مسئولہ مولوی عبدالکریم صاحب ۱۶ ربیع الاول شریف ۱۳۳۴ھ
پانی کی نالی ناپاک چُونے سے تیار کی گئی اورخشک ہونے سے قبل اُس میں پانی جاری کیا گیا اور وہ پانی حوض میں اُسی جگہ سے جمع ہوناشروع ہوا جہاں ناپاک چُونے سے بند کی گئی تھی تو کیا یہ پانی پاک ہے یا ناپاک، فقہاء نے لکھا ہے کہ جس تالاب میں نجاست کنارہ پر ہو اور پانی وہیں سے جمع ہوتاہو تو وہ پانی ناپاک ہے تو اس روایت پر تمام پانی ناپاک ہوگا۔
الجواب : پانی اگر اُوپر سے اُس نالی پر بہتا ہوا آیا اور بہتا ہوا گزر گیا تو صحیح مذہب یہ ہے کہ ناپاک نہ ہوگا جب تک کہ اس کے کسی وصف میں اُس کے سبب تغیر نہ ہو دوسری روایت ضرور یہ ہے کہ کل یا اکثر یا نصف پانی کا بہاؤ اگر نجاست پر ہو تو بہنا نفع نہ دے گا کل پانی ناپاک سمجھا جائے گا صحح ایضاوان کان الاول علیہ المعول لانہ الا قوی وعلیہ الفتوی (اور اس کی تصحیح بھی کی گئی ہے اعتماد اگرچہ پہلے قول پر ہے کیونکہ وہ اقوی ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ت(
اقول : مگر یہ نجاست مرئیہ میں ہے جیسے مردار یاغلیظ غیر مرئیہ میں بالاتفاق اُسی ظہور اثر کا اعتبار ہے،
کما نصواعلیہ قاطبۃ وقال فی البحر فی توجیہ القول الاٰخر للتیقن بوجود النجاسۃ فیہ بخلاف غیر المرئیۃ لانہ اذالم یظہراثرھا علم ان الماء ذھب بعینھا ۳؎۔
جیسا کہ اُن تمام نے اس پر نص کیا،اور بحر میں دوسرے قول کی توجیہ میں فرمایا کہ اس میں نجاست کا پایا جانا متیقن ہے بخلاف غیر مرئی نجاست کے کیونکہ جب اس کا اثر ظاہر نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ پانی اس نجاست کو بہا کر لے گیا ہے۔ (ت(
(۳؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۳۸)
اور چُونا نجاست نہیں متنجس ہے اور اعتبار نجس کا ہے نہ متنجس کاولہٰذا اگر ناپاک گلاب(۱)یا زعفران آب جاری میں گرے اور اس میں گلاب کی بُو یا زعفران کی رنگت آجائے اسے ظہور اثر نہ کہیں گے بلکہ اُس نجاست کا کوئی وصف پانی میں آئے جس نے گلاب وزعفران کو ناپاک کیا تو پانی ناپاک ہوگا،
ردالمحتار میں ہے:فی شرح ھدیۃ ابن العماد لسیدی عبدالغنی الظاھران المراد اوصاف النجاسۃ لاالمتنجس کماء الورد والخل مثلا فلوصب فی ماء جار یعتبر اثر النجاسۃ التی فیہ لااثرہ نفسہ لطھارۃ المائع بالغسل ولم ارمن نبہ علیہ وھو مھم فاحفظہ ۱؎ اھ
سیدی عبدالغنی نے شرح ہدیۃ ابن العماد میں لکھا ہے کہ بظاہر اس سے مراد نجاست کے اوصاف ہیں نہ کہ نجس ہونے والا پانی،جیسے گلاب کا پانی اور سرکہ،اگر اس کو بہتے پانی میں ڈالا جائے تو اس میں جو نجاست ہے اس کا اثر معتبر ہوگا،خود اس کا اپنا اثر معتبر نہ ہوگا کیونکہ بہنے والی چیز غسل (دھونے) سے پاک ہوجاتی ہے،اس نکتہ پر میں نے کسی اور کو مطلع کرتا ہوا نہیں پایا حالانکہ یہ بہت اہم ہے اسے یاد کرلیجئے اھ (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۳۸)
اقول: وھو واضح البرھان فان المقصود غلبۃ النجاسۃ علی الماء حتی اکسبتہ وصفالھا وذلک فی ظھور وصف نفسھا دون المتنجس بھا الا تری ان لوکانت قلیلۃ لاتغلب الماء وکان مکان ماء الوردماء قراح لم یظھراثرھا فکذا فی ماء الورداذلا تختلف قلۃ وکثرۃ باختلاف المتنجس۔
میں کہتا ہوں اس کی دلیل بہت واضح ہے کیونکہ مقصود نجاست کا پانی پر غالب ہونا ہے تاکہ نجاست کا وصف اس میں ظاہر ہوجائے، اور یہ تب ہے جب خود اس کا اپنا وصف اس میں ظاہر ہو نہ کہ اس چیز کا جو اس کی وجہ سے نجس ہوئی ہے، مثلاً اگر نجاست اتنی تھوڑی ہوتی کہ پانی پر غالب نہ ہوتی اور بجائے عرق گلاب کے سادہ پانی ہوتا تو اس کا اثر ظاہر نہ ہوتا تو اسی طرح گلاب کے پانی کا حال ہے کیونکہ نجاست قلۃ وکثرۃ میں ناپاک ہونے والے پانی کے اعتبار سے مختلف نہیں ہوتی ہے۔ (ت)
تو جبکہ وہ نجاست(۲) جس سے چُونا ناپاک ہوا مرئی نہیں تو یہ صورت نجاست غیر مرئیہ کی ہے اس سے وہ روایت متعلق نہیں بلکہ یہاں بالاتفاق حکمِ طہارت ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
0 تبصرے