مسئلہ ۴۳: ازکوٹارمپورہ عقب موچی کٹرہ مکان چاند خان دفعدار مرسلہ شیخ ممتاز علی بیکل منگلوری سرویر محکمہ جنگلات کوٹا۱۰ جمادی الاولی ۱۳۳۴ھ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین سوالاتِ ذیل کے جواب میں خداوند کریم آپ کو اجرِ عظیم اور سائل کو صراطِ مستقیم عطا فرمائے۔
عمرو وزید دو شخص ہیں عمرو سے کسی نے دریافت کیا کہ یہ چاہ جو سامنے موجود ہے اس کا پانی قابلِ وضو اور نیز دیگر استعمال کے ہے یا نہیں؟عمرو نے جواب دیاکہ بنا بررفعِ شک چاہ کو ناپ لیا جائے چنانچہ وہ کُنواں ناپا گیا تو لمبائی ۲/۱ -۱۱ ہاتھ اور چوڑائی ۲/۱ -۹ ہاتھ گہرائی ۳ ہاتھ ہوئی جو برابر ہے ۷۵ع ۳۲۷ ہاتھ کے مگر زید اس کو ۴۲ ہاتھ بتلا کر اس کے پانی سے وضوناجائز بتلاتا ہے اورپانی ہذا کو قابلِ استعمال نہیں بتلاتا لیکن عمرو نے اسی چاہ سے وضو کیا اور زید نے عمرو کے پیچھے نماز پڑھی لہٰذا التماس ہے کہ اس پانی کا استعمال موافق شرع شریف جائز ہے یا نہیں اور زید کی نماز اس صورت میں عمرو کے پیچھے ہوئی یا نہیں؟
نوٹ:اس چاہ میں پانی کی اس قدر آمد ہے کہ اگرچر س بند کردیا جائے جو دن بھر پانی کھینچتا ہے تو چاہ لبریز ہو کہ زائد پانی ایک راستہ سے خارج ہو کر چند روز میں دو سو فیٹ لمبے اور پچاس فیٹ چوڑے بند کو جس کی گہرائی بھی ۳ فیٹ سے کم نہیں لبریز کردیتا ہے۔یہ پانی مویشی پیتے ہیں یہ تو موسم سرما کی حالت ہے اور موسم گرما میں چرس چلے یا نہ چلے کنویں سے پانی باہر نہیں آتاالبتہ جس قدر کنواں خالی ہوجاتا ہے وقت چرس چلنے کے اُتنا ہی رات کو پھر کنویں میں پانی آجاتا ہے ماسوا اس کے پہاڑی علاقہ ہونے کے سبب ایسے کنویں قلیل ہیں کہ جن کاپانی ڈول وغیرہ سے کھینچا جائے ورنہ عام کنویں زینہ دار ہیں تمام لوگ اندر جا کر پانی پیتے اور بھرتے ہیں بلکہ نہانا اور عام طور پر کپڑے وغیرہ دھونے کا عام رواج ہے،ہاں بعض موقع پر ایسا بھی رواج ہے کہ جس کنویں کے اندر نہاتے ہیں اُس کا پانی نہیں پیتے۔
الجواب: پانی میں فقط اُس کی سطح بالا کی پیمائش معتبر ہے عمق کا اصلاً لحاظ نہیں اگر اوپر کی سطح مثلاً ایک ہاتھ مربع ہے اور ہزار ہاتھ گہرا ہے تو وہ ایک ہی ہاتھ قرار پائے گا اور سطح سو ہاتھ ہے اور فقط نصف ہاتھ گہرا ہے تو وہ پورا سو ہاتھ ٹھہرے گا نہ کہ پچاس۔ عمق صرف اتنا ہونا چاہئے کہ لپ میں پانی لینے سے زمین نہ کُھلے لہٰذا چاہ مذکور کی مساحت ۲۵ء۱۰۹ ہاتھ ہے نہ ۷۵ء ۳۲۷ بہرحال شک نہیں کہ وہ مائے کثیر ہے اُس سے وضو وغسل اور اُس میں کپڑے دھوناسب جائز ہے وہ نجاست پڑنے سے بھی ناپاک نہ ہوگا جب تک نجاست اس کا رنگ یا مزہ یا بُو نہ بدل دے اُسے ۴۲ ہاتھ کہنا محض بے علمی اور اُس سے وضو وغسل ناجائز بتانا صریح نادانی ہے اور اگر واقع میں اُس کے اعتقاد میں یہی ہے کہ اُس کنویں کے پانی سے وضو نہیں ہوسکتا اور اُس نے عمرو کو اُس سے وضو کرکے نماز پڑھاتے دیکھا اور اپنے اُسی اعتقاد پر قائم رہ کر اُس کی اقتداء کرلی تو زید کی نماز نہ ہوئی کہ اس کے اعتقاد میں امام بے وضو نماز پڑھا رہا ہے بلکہ وہ اس سے بھی سخت تر ہے کہ اس سے نماز کو معاذ اللہ بازیچہ سمجھناپیدا ہوتا ہے والعیاذ باللہ تعالٰی یہی حکم اُن سب کُنّووں کا ہے جن کے پانی کی سطح بالا۲۲۵ فٹ ہو اُن میں کپڑے دھونا بھی جائز ہے اور اُس سے ناپاک نہ ہوں گے اگرچہ وہ کپڑے ناپاک ہوں جب تک نجاست ان کا رنگ یا بُو یا مزہ نہ بدل دے واللہ تعالٰی اعلم۔
0 تبصرے