Music

header ads

تنبیہ جلیل Tambeeh Jaleel

 تنبیہ جلیل

وتشیید التفریع والتاصیل، وعلی اللّٰہ ثم علی رسولہ التعویل، جل وعلاوصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالتبجیل،


تنبیہ جلیل

اور اصل بیان کرنے اور فروعی مسائل کا استنباط کرنے کی بنیاد، اور بھروسا اللہ عَزَّوجَلَّ پر ہے پھراس کے رسول پر ہے، اللہ تعالٰی ان پر عظمت والا درود بھیجے۔ (ت(

اصل سوم میں گزرا کہ دخول وخروج دونوں اس جریان کے رکن ہیں اُن میں سے جو نہ پایا جائے گا جریان نہ ہوگا اور اصل نہم میں ردالمحتار وضیاء وجامع المضمرات وبزازیہ وخلاصہ وفتاوٰی سے گزرا کہ لوٹے کی دھار جب تک ہاتھ پر نہ پہنچی جاری ہے حالانکہ یہ محض خروج بلا دخول ہے۔ اقول: وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق (اللہ ہی کی توفیق سے میں کہتا ہوں اور اسی کی مدد سے تحقیق کی گہرائی تک پہنچنا ہے۔ ت) اس کی تنقیح وتطبیق ایک اور خلافیہ کی توضیح وتوفیق پر مبنی ہے علما(۱) مختلف ہوئے کہ جاری ہونے کیلئے اوپر سے مدد آنا بھی ضرور ہے یا بلا مدد کسی مائع کا آپ بہنا بھی جریان ہے محقق علی الاطلاق نے اول کو ترجیح دی فتح میں فرمایا:


الحقوا بالجاری حوض الحمام اذا کان الماء ینزل من اعلاہ حتی لوادخلت القصعۃ النجسۃ اوالید النجسۃ فیہ لاینجس وھل یشترط مع ذلک تدارک اغتراف الناس منہ فیہ خلاف ذکرہ فی المنیۃ ثم لابد من کون جریانہ لمدد لہ کما فی العین والنھر ھو المختار ۱؎ اھ ۔


جاری پانی کے ساتھ حمام کے حوض کو بھی شامل کیا گیا ہے، جبکہ پانی اس کے اُوپر سے اُتر رہا ہو یہاں تک کہ اگر اس میں ناپاک پیالہ یا ناپاک ہاتھ ڈالا تو ناپاک نہ ہوگا اور آیا اس میں یہ شرط بھی ہے کہ لوگ پے درپے اس میں سے چُلّو بھر کر پانی نکالتے ہوں؟ اس میں اختلاف ہے، اس کو منیہ میں ذکر کیا، پھر اس کے جاری رہنے کیلئے اس کو مدد دینے والی چیز ضروری ہے جیسا کہ چشمہ اور نہر میں ہوتا ہے یہی مختار ہے اھ


 (۱؎ فتح القدیر    بحث الماء الجاری    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۹)


ثم ذکر مسألۃ الاستنجاء بالقمقمۃ ونقل عن التجنیس النظر فیہ بعین مانظر الامام حسام الدین ثم قال قال ای المصنّف فی التجنیس(۲) ونظیرہ ما اوردہ المشائخ فی الکتب ان المسافر اذا کان معہ میزاب واسع (ای یسع لان یتوضأ فیہ) واداوۃ ماء یحتاج الیہ ولا یتیقن وجود الماء لکنہ(عہ۱) علی طمعہ قبل ینبغی ان یأمر احدا یصب الماء فی طرف المیزاب وھو یتوضؤ وعند الطرف الاٰخر اناء طاھر یجتمع فیہ الماء فانہ یکون الماء طاھرا وطھورا لانہ جار قال بعضکم ھذا لیس بشیئ لان الجاری انما لایصیر مستعملا اذا کان لہ مدد کالعین والنھر وما اشبھہ ومما اشبھہ حوضان صغیران یخرج الماء من احدھما ویدخل فی الاٰخر فتوضأ فی خلال ذلک جاز لانہ جار وکذا اذا قطع(۱) الجاری من فوق وقد بقی جری الماء کان جائزا ان یتوضأ بما یجری فی النھر قبل استقرارہ ۱؎ اھ بالتقاط۔


پھر استنجاء ٹونٹی کے ساتھ کا مسئلہ نقل کیا اور پھر تجنیس سے نقل کیا کہ اس میں نظر ہے یہ وہی نظر ہے جو حسام الدین نے کی تھی، پھر کہا کہ مصنّف نے تجنیس میں کہا ہے اور اس کی نظیر مشائخ کا یہ قول ہے کہ مسافر کے پاس جب واسع پر نالہ ہو (یعنی اس میں اتنی گنجائش ہو کہ اس میں وضو کیا جاسکے( اور پانی کا برتن ہو جس کی ضرورت ہو اور پانی کا پایا جانا یقینی نہ ہو لیکن ملنے کی امید ہو، تو ایک قول یہ ہے کہ وہ کسی کو حکم دے کہ وہ پر نالے کے ایک کنارے سے پانی بہائے اور وہ شخص وضو کرے اور پر نالے کی دوسری طرف ایک پاک برتن ہو جس میں پانی جمع ہوتا ہو تو وہ پانی طاہر اور طہور ہوگا کیونکہ وہ جاری ہے بعض علماء نے فرمایا یہ کچھ نہیں کیونکہ جاری پانی مستعمل نہیں ہوتا ہے جبکہ اس میں نیا پانی شامل ہو رہا ہو جیسے چشمہ اور نہر اور اس کے مشابہ چیزیں، اور اس کے مشابہ دو چھوٹے حوض ہیں جن میں سے ایک میں سے پانی نکل کر دوسرے میں داخل ہورہا ہو تو کسی نے اس کے درمیان کے پانی سے وضو کیا تو جائز ہے کیونکہ یہ جاری ہے اور اسی طرح اگر اوپر سے جاری پانی کو قطع کیا اور پانی کا جاری رہنا باقی ہو تو یہ جائز ہے کہ جو پانی نہر میں جاری ہو اس سے وضو کرلے اس کے استقرار سے قبل اھ (ت(


 (عہ۱) اقول لعل وجہ التقیید بہ التنصیص علی انہ یجوز ھذا الاحتیال وان کان علی من الماء فعند عدمہ اولی ۱۲ منہ غفرلہ (م(

اس قید کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس بات پر نص کرنا مقصود ہو کہ یہ حیلہ جائز ہے اگرچہ پانی ملنے کی امید ہو تو جب امید نہ ہو تو بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ (ت(


 (۱؎ فتح القدیر    بحث الماء الجاری    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۶۹)


اور علامہ حدادی نے سراج وہاج اور علامہ سراج ہندی نے توشیح میں دوم کی تصحیح کی بحر وتنویر ودُر وغیرہا میں اسی پر اعتماد کیا بحر میں بعد نقل ترجیح فتح فرمایا:


وفی السراج الوھاج ولایشترط فی الماء الجاری المدد ھو الصحیح ۲؎ اھ ثم ذکر فی البحر عن التجنیس والمعراج وغیرھا مسألۃ جواز الوضوء بما یجری فی نھر سد من فوقہ ۳؎۔


اور سراج الوہاج میں ہے کہ جاری پانی میں مدد کی شرط نہیں اور یہی صحیح ہے اھ پھر بحر میں تجنیس اور معراج وغیرہ سے یہ مسئلہ منقول ہے کہ وہ نہر جو اُوپر سے بند ہو اس میں جاری پانی سے وضو جائز ہے۔ (ت(


 (۲؎ بحرالرائق   بحث الماء الجاری       ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۶)

(۳؎ بحرالرائق   بحث الماء الجاری       ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۶)


اقول ای فیہ اوبہ اذا وقع فیہ نجس کما لایخفی ثم رأیت فی الحلیۃ اخذ بمثلہ علی متنہ اذقال ظاھر عبارتھم فی ھذہ المسألۃ کما فی الذخیرۃ وواقعات الناطفی اذاسد من فوق فتوضاء بما یجری فی النھر جاز اھ ان یکون الوضوء فی النھر فکان علی المصنف ان یذکر فیہ لان من الواضح جدا جواز الوضوء بہ جاریا کان اوغیر جار خارجہ اما باغتراف اواخذ منہ باناء فلا یقع التقیید ببقاء جریان الماء موقعا ثم ھم اعلی کعبا من ذکر مثلہ ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں یعنی اس میں یا اُس سے جبکہ اس میں نجاست گر جائے کما لایخفی، پھر میں نے حلیہ میں دیکھا کہ متن میں انہوں نے اسی کو اختیار کیا ہے وہ فرماتے ہیں ان کی عبارت کا ظاہر اس مسئلہ میں جیسا کہ ذخیرہ اور واقعات ناطفی میں ہے کہ جب نہر کو اُوپر سے بند کر دیا جائے اور پھر کوئی شخص اس پانی سے وضو کرے جو نہر میں جاری ہے تو جائز ہے، اور یہ کہ وضو نہر میں ہو، تو مصنّف پر لازم تھا کہ ''فیہ'' کا ذکر کرتے کیونکہ اس سے وضو کا جواز بہت واضح ہے، خواہ وہ جاری ہو یا نہ ہو، وضو کرنے والا نہر سے باہر چلّو کے ذریعے نہر سے پانی لے کر یا کسی برتن کے ذریعے حاصل کرکے وضو کرے بہرصورت بقائے جریان کی قید درست نہیں پھر اُن کا مقام اس سے بہت بلند ہے کہ اس قسم کی چیزیں وہ ذکر کریں اھ (ت(


 (۱؎ حلیہ)


اقول ای عتب(۱) علی المصنف اذا کانوا ھم المعبرین بالباء دون فی فھذا محل التفسیر لاالاخذ کما فعل الفقیر قال البحر فھذا یشھد لما فی السراج ۲؎ اھ


میں کہتا ہوں جب وہ خود ''باء'' سے تعبیر کرتے ہیں تو مصنّف پر کیا اعتراض ہے، تو یہ تفسیر کا محل ہے نہ کہ گرفت کرنے کا، جیسا کہ فقیر نے کیا ہے، بحر نے فرمایا یہ اس چیز کی شہادت دیتا ہے جو سراج میں ہے اھ (ت(


 (۲؎ بحرالرائق        بحث الماء الجاری    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۶)


اقول نعم لکن(۲) لاینبغی عزوہ للتجنیس فانہ لیس جانحا الیہ بل ھو فی عداد ما رد علیہ کما یظھر من عبارۃ الفتح حیث نقل عن التجنیس فی مسئلۃ القمقمۃ ھذا لیس بشیئ ثم قال ونظیرہ فذکر مسألۃ المیزاب ثم قال وما اشبھہ وجعل منہ مسألۃ الحوضین وھذہ المسألۃ ثم قال فی البحر وذکر السراج الھندی عن الامام الزاھد ان من حفر(۱) نھرا من حوض صغیر واجری الماء فی النھر وتوضأ بذلک الماء فی حال جریانہ فاجتمع ذلک الماء فی مکان فحفر رجل اخر نھرا من ذلک المکان واجری الماء فیہ وتوضأ بہ حال جریانہ فاجتمع فی مکان اٰخر ففعل رجل ثالث کذلک جاز وضوء الکل لان کل واحد انما توضأ بالماء حال جریانہ والجاری لایحتمل النجاسۃ مالم یتغیر ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں، ہاں، لیکن اس کو تجنیس کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں، کیونکہ وہ اس کی طرف مائل نہیں ہیں بلکہ وہ اس پر رد کرتے ہیں، جیسا کہ فتح کی عبارت سے ظاہر ہے کیونکہ انہوں نے ٹونٹی کے مسئلہ میں تجنیس سے نقل کیا ہے ''یہ کچھ نہیں'' پھر فرمایا اور اس کی نظیر اس کے بعد انہوں نے پر نالہ کا مسئلہ ذکر کیا، پھر فرمایا وما اشبھہ اور اس میں دو حوضوں کے مسئلہ کو شامل کیا اور اس مسئلہ کو بھی، پھر فرمایا بحر میں ''اور ذکر کیا سراج ہندی نے امام زاہدسے کہ اگر کسی شخص نے چھوٹے حوض سے ایک نہر نکالی اور نہر میں پانی چھوڑ دیا، اور جب پانی جاری ہوگیا تو اُس سے وضو کیا، پھر وہ پانی ایک جگہ جمع ہوگیا تو پھر کسی دوسرے شخص نے اس جگہ سے نہر نکالی اور اس میں پانی چھوڑ دیا اور اس پانی سے وضو کیا اس حال میں کہ پانی جاری تھا پھر وہ پانی کسی دوسری جگہ جمع ہوگیا پھر کسی تیسرے شخص نے بھی یہی عمل کیا تو سب کا وضو جائز ہے کیونکہ ہر ایک نے جاری پانی سے وضو کیا ہے اور جاری اس وقت ناپاک نہیں ہوتا ہے جب تک اس میں تغیر پیدا نہ ہو اھ (ت(


 (۱؎ بحرالرائق    الماء الجاری    سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۶)


اقول ای ان وقعت الحقیقیۃ  اوالحکمیۃ ان توضأ فیہ بغمس الاعضاء فلا ینبغی علی نجاسۃ المستعمل ثم ھذہ مثل مسألۃ الحوضین بل  ھی بعبارۃ ابسط وقد ذکرھا صاحب المنیۃ عن المحیط وفی الذخیرۃ عن القاضی الامام علی السغدی وفی الخانیۃ و غیرھا وقال فی الحلیۃ المصنّف نقل عن المحیط تقیید الجواز بما اذا کان بین المکانین مسافۃ وان کانت قلیلۃ یوافقہ ما فی الخانیۃ تاویلہ اذا کان بین المکانین قلیل مسافۃ وفی مسألۃ الحفرتین (ای یخرج من احدھما الماء و یدخل فی الاخری وھی مسألۃ الفتح) لوکان بینھما قلیل مسافۃ کان الماء الثانی (ای المجتمع فی الحفرۃ الاخری) طاھرا کذا قالہ خلف بن ایوب ونصیر بن یحیی وھذا لانہ اذا کان بین المکانین مسافۃ فالماء الذی استعملہ الاول یرد علیہ ماء جار قبل اجتماعہ فی المکان الثانی فلا یظھر حکم الاستعمال (ای لایثبت) اما اذا لم تکن بینہما مسافۃ فالماء الذی استعملہ الاول قبل ان یرد علیہ ماء جار یجتمع فی المکان(۱) الثانی فیصیر مستعملا فلا یطھر بعد ذلک انتھی وھذا کلہ بناء علی نجاسۃ المستعمل ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں یعنی اس صورت میں جبکہ نجاست حقیقیہ یا حکمیہ اس میں گر گئی ہو، اگر اس نے اس میں اعضاء ڈبو کر وضو کیا تو اس کی بناء مستعمل کی نجاست پر نہ ہوگی یہ دو حوضوں کے مسئلہ کی طرح ہے بلکہ مختصر عبارت کے ساتھ یہ بعینہ وہی مسئلہ ہے اس کو صاحبِ مُنیہ نے محیط سے نقل کیا ہے اور ذخیرہ میں قاضی علی السغدی سے اور خانیہ وغیرہ میں، اور حلیہ میں کہا کہ مصنّف نے محیط سے جواز کی قید کو اس صورت میں نقل کیا ہے جبکہ دونوں جگہوں میں مسافت ہو خواہ کم ہی کیوں نہ ہو، خانیہ میں بھی اس کی موافق عبارت موجود ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ جبکہ دونوں جگہوں کے درمیان کم درجہ کی مسافت موجود ہو،اور دو گڑھوں کے مسئلہ میں (یعنی ایک گڑھے سے پانی نکلے اور دوسرے میں داخل ہو اور یہ فتح کا مسئلہ ہے) اگر دونوں کے درمیان کم مسافۃ ہے تو دوسرا پانی (یعنی جو دوسرے گڑھے میں اکٹھا ہے) پاک ہوگا، خلف بن ایوب اور نصیر بن یحییٰ نے ایسا ہی کہا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ جب دونوں جگہوں میں مسافت ہو تو وہ پانی جس کو پہلے نے استعمال کیا ہو اس پر دوسرا جاری پانی وارد ہوگا قبل اس کے کہ وہ دوسری جگہ جمع ہو، تو استعمال کا حکم ظاہر نہ ہوگا (یعنی ثابت نہ ہوگا، اور جب اُن دونوں کے درمیان مسافت نہ ہو تو وہ پانی جس کو پہلے نے استعمال کیا دوسرے جاری پانی کے وارد ہونے سے پہلے وہ دوسری جگہ اکٹھا ہوجائیگا تو مستعمل ہوجائیگا اور اب طاہر نہیں ہوسکتا ہے انتہیٰ، اور یہ تمام اُس صورت میں ہے جب مستعمل پانی کو ناپاک قرار دیا جائے اھ (ت(


 (۱؎ حلیہ)

اقول حوض یکری منہ نھر فیجری فیہ ماء فیجتمع فی مکان اٰخر کیف یتصور ھذا من دون مسافۃ بینہما نعم یمکن فی الحفرتین ان تکونا متجاورتین یکون خروج الماء من احدھما دخولہ فی الاخری۔


میں کہتا ہوں ایک ایسا حوض جس سے نہر نکالی جائے اور اس میں پانی چھوڑ دیا جائے، پھر وہ پانی دوسری جگہ جمع ہوجائے، یہ عمل دونوں میں مسافت کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ ہاں دونوں گڑھوں میں اس امر کا امکان ہے کہ قریب قریب ہوں، کہ ایک سے پانی نکلتے ہی دوسرے میں داخل ہوتا ہو۔ (ت(


فان قلت المراد مسافۃ فوق مایغمس فیھا المتوضیئ اعضائہ لیتحرک علی الارض بعد انفصالہ من اعضائہ فیأتی علیہ ماء اٰخر قبل دخولہ فی المکان الثانی۔


اگر یہ کہا جائے کہ مسافت سے مراد ایسی مسافت ہے کہ جو وضو کرنے والے کے اعضاء کے ڈوبنے سے زائد ہوتا کہ پانی اس کے اعضاء سے جُدا ہونے کے بعد حرکت کرے، اور اس کے دوسری جگہ داخل ہونے سے پہلے دوسرا پانی اس پر آجائے۔ (ت(


اقول اذھو جار فلا یتاثر ولا یفتاق الی ان یجریہ جار اٰخر فلو اجتمع من فورہ فی المکان الثانی لکان طھورا فالوجہ ان لا(۱) یجعل ھذا تقییدا ولا(۲) تاویلا بل بیانا لفائدۃ التصویر بکری النھر ویوجہ بانہ لولا ذلک لانقطع جریانہ بدخولہ فی بطن الثانی کما قدمنا تحقیقہ ان الحرکۃ فی البطن سیلان لاجریان فیقع الوضوءفی الراکد فیفسد ثم البناء(۳) علی مسألۃ فرق الملاقی کما فعلنا فلا حاجۃ الی البناء علی مھجور لکن صاحب الحلیۃ مال الی التسویۃ ثم ذکر السراج مسألۃ المیزاب وعزاھا للشیخ الزاھد ابی الحسن الرستغفنی وقال فیھا وھو یتوضؤ فیہ ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں چونکہ وہ جاری ہے اس لئے متاثر نہ ہوگا اور نہ محتاج ہوگا اس بات کا کہ اس کو کوئی دوسرا جاری پانی جاری کرے اب اگر وہ فوراً ہی دُوسری جگہ جمع ہوجائے تو طہور ہوگا تو وجہ یہ ہے کہ اس کو قید نہ بنایا جائے اور نہ ہی اس کو تاویل قرار دیا جائے بلکہ وہ نہر کھودنے کے فائدے کا بیان ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کا جاری ہونا دوسرے بطن میں داخل ہونے کے سبب منقطع ہوجاتا، جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق کی ہے کہ حرکت بطن میں سیلان کہلاتی ہے نہ کہ جریان، اور اس طرح وضو ٹھہرے ہوئے پانی میں ہوگا اور پانی فاسد ہوجائیگا، پھر ملاقی کے فرق کے مسئلہ پر اس کی بنا ہے جیسا کہ ہم نے کیا ہے، تو کسی مہجور ومتروک چیز پر بنا کی حاجت نہیں، لیکن صاحبِ حلیہ کا میلان برابری کی طرف ہے، پھر سراج نے پرنالہ کا مسئلہ بیان کیا اور اس کو شیخ زاہد ابو الحسن الرستغفنی کی طرف منسوب کیا اور اس میں کہا ''اور حالانکہ وہ اس میں وضو کررہا ہے اھ (ت(


 (۱؎ بحوالہ بحرالرائق    بحث الماء الجاری    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۶)


اقول ای بالغمس وبہ یتضح مااجملہ فی الفتح قال لان استعمالہ حصل حال جریانہ والماء الجاری لایصیر مستعملا باستعمالہ ثم قال السراج ومن المشائخ من انکر ھذا القول وقال الماء الجاری انما لایصیر مستعملا اذا کان لہ مدد کالعین والنھر قال والصحیح القول الاول بدلیل مسألۃ واقعات الناطفی فذکر مسألۃ سد النھر ممن فوق قال فان ھناک لم یبق للماء مدد ومع ھذا یجوز التوضؤ بہ ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں یعنی وہ اعضاء کو ڈبو کر وضو کر رہا ہے اور اسی سے وہ چیز واضح ہوتی ہے جس کا انہوں نے فتح میں اجمال کیا ہے۔ فرمایا کہ اس کا استعمال پانی کے جاری رہنے کی صورت میں ہوا ہے اور جاری پانی کسی کے استعمال سے مستعمل نہیں ہوتا ہے، پھر سراج نے فرمایا :اور بعض مشائخ نے اس قول کا انکار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جاری پانی اس وقت مستعمل نہیں ہوتا ہے جبکہ اس کا سوتا ہو جیسے چشمہ یا نہر، فرمایا اور صحیح پہلا قول ہے، اس پر دلیل واقعات الناطفی کی عبارت ہے، پھر انہوں نے نہر کو بند کرنے کا مسئلہ ذکر کیا کہ اس صورت میں پانی کی مدد باقی نہ رہی لیکن اس کے باوجود اس سے وضو جائز ہے۔ (ت(


 (۱؎ بحوالہ بحرالرائق    بحث الماء جاری    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۸۶)


اقول ولا تنس ماقدمناہ  (ہم نے جو پہلے ذکر کیا ہے اُسے نہ بُھولیے۔ ت) علامہ نے ردالمحتار میں اور مسائل سے اس قول دوم کی تائید کی فقال ویؤیدہ ایضا مامر من انہ لوسال(۱) دم رجلہ مع العصیر لاینجس خلافا لمحمد ۲؎  (فرمایا اور اس کی تائید یہ عبارت کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کا خون پھلوں کے رس کے ساتھ جاری ہوا تو نجس نہ ہوگا، اس میں محمد کا خلاف ہے اھ۔ ت(


 (۲؎ ردالمحتار        باب الانجاس        مصطفی البابی مصر    ۱/۲۳۹)


قلت المسألۃ فی الدرعن الشمنی وغیرہ وفی المنیۃ عن المحیط وفی الحلیۃ عن المجتبیٰ وعن مختارات النوازل وھی مقیدۃ بأن کان العصیر لیسیل ولم یظھر فیہ اثر الدم کما نصوا علیہ قال وفی الخزانۃ (فذکر ماقدمنا فی الاصل العاشر من مسألۃ اختلاط ماء الانائین فی الھواء اواجرائہ فی الارض قال ونظمھا المصنف فی تحفۃ الاقران قال وفی الذخیرۃ فذکر مامر فی العاشر عن الحسن بن ابی مطیع۔


میں کہتا ہوں مسئلہ دُر میں شمنی وغیرہ سے اور منیہ میں محیط اور حلیہ میں مجتبٰی سے اور مختارات النوازل سے ہے، اور یہ اس امر سے مقید ہے کہ عصیربہہ رہا ہو اور اس میں خون کا اثر ظاہر نہ ہو، جیسا کہ علماء نے صراحت کی ہے فرمایا، اور خزانہ میں ہے پھر اُنہوں نے وہ عبارت نقل کی جو ہم نے اصل عاشر میں ذکر کی یعنی دو برتنوں کا پانی جو ہوا میں آپس میں مل گیا یا زمین پر جاری کیا، فرمایا مصنّف نے اس کو تحفۃ الاقران میں ذکر کیا فرمایا اور ذخیرہ میں ہے پھر وہ ذکر کیا جو فصل عاشر میں حسن ابن ابی مطیع سے ہے۔ (ت(


یہاں تک تائید قول دوم میں سات مسئلے ہوئے:

۱۔ حوض صغیر میں سے نہر کھود کر پانی بہا کر اُس میں وضو۔

۲۔ پر نالے میں پانی ڈلوا کر اس میں وضو۔

۳۔ نہر کہ اوپر سے اُس کا مینڈھا باندھ دیا ہے اُس میں وضو۔

۴۔ شیرہ انگور نچوڑ رہا ہے اور وہ جاری ہے کُچھ خون اُس میں ٹپک گیا جس کا اثر ظاہر نہ ہوا نجس نہ ہوگا۔

۵۔ پاک ناپاک برتنوں کے پانی ہوا میں ملا کر چھوڑے۔

۶۔ یا زمین میں بہائے دونوں پاک ہوگئے۔

۷۔ ناپاک زمین پر پانی بہایا ہاتھ بھر بہ گیا زمین بھی پاک پانی بھی پاک

اقول ان سب سے صاف تر وہ مسئلہ ہے کہ برف پگھلا اور ایسے راستہ پر بہا جس میں گوبر وغیرہ نجاسات ہیں اگر نجاسات کا اثر اس میں ظاہر نہ ہوا اس سے وضو ہوسکتا ہے،


وھو ماقدمناہ فی الاصل العاشر عن المنحۃ عن الھدیۃ عن الخزانۃ وعن البزازیۃ وعن الخلاصۃ عن الفتاوٰی۔


یہ وہ ہے جو پہلے اصل عاشر میں ذکر کر آئے ہیں منحہ سے، ہدیہ سے، خزانہ سے، بزازیہ سے، خلاصہ سے اور فتاوٰی سے۔ (ت(


شرح ہدیہ میں فرمایا:ھذا مبنی علی عدم اشتراط المدد فی الماء الجاری ۱؎ اھ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ جاری پانی میں مدد کی شرط نہ ہو۔ (ت(


 (۱؎ بحوالہ منحۃ الخالق    بحث الماء الجاری    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۶۵)

ثم اقول اولا ھذہ الفروع متوزعۃ علی انحاء منھا ماھو مؤید ولا شک وھی مسألۃ نھر سد من فوق والتی زدت ومنھا مالا تائید فیہ اصلا وھما المسألتان الاولیان ولا ادری کیف اتفق الفریقان علی جعلھما مما لامدد لہ فانہ انما یتوضؤ(۱) فی النھر بین الحوضین اوفی المیزاب(۲) ولا شک ان الحوض الاعلی والاداوۃ یمدان ماء ھما الا(۳) تری کیف اتفقوا علی الحاق حوض الحمام بالماء الجاری اذاکان الماء من الانبوب نازلا والغرف متدارکا۔


پھر میں کہتا ہوں اوّلا یہ فروع کئی قسم کی ہیں، بعض تو وہ ہیں جن کی تائید موجود ہے اور جس میں شک نہیں، اس میں وہ فرع ہے جس میں ایسی نہر کا ذکر ہے جس کو اوپر سے بند کر دیا گیا ہواور اس کے ساتھ وہ اضافے جو میں نے کئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کی تائید بالکل نہیں ملتی ہے اور یہ پہلے دو مسئلے ہیں، اور میں نہیں سمجھتا کہ دونوں فریق ان دونوں مسئلوں کو مدد نہ ملنے والے پانی سے بنا دینے پر کیونکر متفق ہوگئے ہیں؟ کیونکہ وضو کرنے والا یا تو نہر میں وضو کرے گا جو دو حوضوں کے درمیان ہے یا پرنالہ سے کرے گا اور اس میں شک نہیں کہ اوپر والا حوض اور برتن دونوں پانی کو مدد پہنچاتے ہیں، پھر مقامِ غور ہے کہ وہ حمّام کے حوض کو جاری پانی سے لاحق کرنے پر کیوں راضی ہوئے جبکہ پانی نالی کے ذریعہ اوپر سے اُتر رہا ہو اور چُلّو سے مسلسل پانی لیا جارہا ہو،


وقد(۴) جزم بہ فی الفتح ھھنا کما رأیت ونظیرہ ماقدمنا عن العلامۃ ش فی الاصل الرابع ان طھارۃ الدلو اذا افرغ فیہ ماء حتی سال مبنی علی عدم اشتراط المدد ومنھا ماللنزاع فیہ مجال وفی ÷ وان اومی الی التائید فمن طرف خفی، فان الماء(۵) الممتزج فی الھواء اوالجاری(۶) علی الارض فی الخامسۃ والسادسۃ یمدہ الصب(۷) بل وکذلک فی السابعۃ وان کان لفظ الذخیرۃ صب علیھا الماء فجری قدر ذراع لا حتی جری کی یدل ظاھرا علی عدم انقطاع الصب الی ھذہ الغایۃ فان الفاء وان لم یدل دلالۃ حتی غیر انھا لا تدل ایضا علی الانقطاع والاحتمال یقطع الاستدلال وکذلک(۸) فرع العصیر فان لہ مدد ا ما دام العصر قائما ،


اور فتح نے یہا ں جزم کیا جیسا کہ آپ نے دیکھا اور اس کی نظیر وہ ہے جو ہم نے علّامہ ''ش'' سے چوتھی اصل میں نقل کی کہ ڈول کی پاکی جب اس میں پانی بہایا جائے یہاں تک کہ اس کے اوپر سے بہہ نکلے مدد کے شرط نہ ہونے پر مبنی ہے اور ان فروع میں سے بعض وہ ہیں جن میں نزاع کی گنجائش کافی ہے اور اس میں تائید کی طرف ہلکا سا اشارہ ہے کیونکہ ہوا میں مِلا ہوا پانی، یا زمین پر جاری پانچویں چھٹی صورت میں اس کو بہانا مدد دیتا ہے بلکہ ساتویں میں بھی ایسا ہی ہے اگرچہ ذخیرہ کے الفاظ ''صب علیھا الماء فجری قدر ذراع'' الخ ہیں، نہ کہ حتی جری، اگر حتی کہا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ بہانا اس غایت تک منقطع نہیں ہوا، کیونکہ ''فا'' اگرچہ ''حتی'' کے مفہوم پر دلالت نہیں کرتی تاہم وہ انقطاع پر بھی دلالت نہیں کرتی اور جب احتمال پیدا ہوجائے تو استدلال ختم ہوجاتا ہے اور اسی طرح عصیر کی فرع کیونکہ اس کو اس وقت تک مدد ملتی رہتی ہے جب تک نچوڑنا برقرار رہتا ہے،


فانقلت المسألۃ مرسلۃ فیشمل مااذا انقطع العصر قلت قالوا فیھا والعصیر لیسیل فالاستشھاد بھا یتوقف علی کون السیلان الباقی بعد انقطاع المدد جریانا وھو اول الکلام فانقلت نعم ھو جریان بالاتفاق الم تسمع مانقل فی الفتح والتوشیح عن شارط المدد ان الماء الجاری انما لایصیر مستعملا اذا کان لہ مدد زاد السراج اما اذا لم یکن لہ مدد یصیر مستعملا ۱؎ اھ فقد سماہ جاریا قلت جعلہ فی حکم الراکد والمقصود الحکم فلا شک ان المراد لیسیلان العصیر وجریان الماء مالا یقبل بہ اثر النجاسۃ ویطھر بعضہ بعضًا نعم قد یقال فی الخامسۃ والسادسۃ ان الامتزاج فی الھواء اوعلی الارض انما یکون بعد الصب فقدر ما یخرج بالصب یمتزج فیحصل المزج الاخیر بعد تمام الصب فلولم یبق جاریا بعدہ نجس الممتزج الاخیر کلہ۔


اگر یہ کہا جائے کہ مسئلہ تو مطلق ہے یہ اُس صورت کو بھی شامل ہے جبکہ نچوڑنا ختم ہوجائے، اس کے جواب میں میں کہوں گا کہ اس میں فقہاء نے فرمایا ہے اور عصیر بہہ رہا ہو تو اس سے استدلال اس امر پر موقوف ہے کہ باقی کا بہنا انقطاع مدد کے بعد جاری ہو اور یہی پہلی بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہاں یہ تو بالاتفاق جاری ہوتا ہے، کیا تم نے وہ نقل نہیں سُنی جو فتح اور توشیح میں مدد کے شرط کرنے والے سے منقول ہے کہ جاری پانی اس وقت مستعمل نہ ہوگا جبکہ اس کیلئے مدد ہو سراج نے اتنا اور اضافہ کیا کہ اگر اس کیلئے مدد نہ ہوئی تو وہ مستعمل ہوجائیگا اھ تو اس کو انہوں نے جاری ہی کہا، میں کہتا ہوں انہوں نے اس کو ٹھہرے ہوئے کے حکم میں کیا ہے اور مقصود حکم ہے تو اس میں شک نہیں کہ عصیر کے بہنے اور پانی کے جاری ہونے سے مراد وہ ہے جو اثر نجاست کو قبول نہ کرے اور جس کا بعض حصہ بعض کو پاک کر دے، ہاں پانچویں چھٹی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ ہوا میں ملنا یا زمین پر جاری ہونا بہنے کے بعد ہی ہوگا تو جس قدر بہانا ہوگا وہ مل جائے گا اور آخری ملنا مکمل بہانے کے بعد ہی متحقق ہوگا تو اگر وہ جاری نہ رہا اس کے بعد تو آخری ملنے والا مکمل طور پر نجس ہوجائے گا۔ (ت(


وثانیا الاشھر فی حد الجاری مایذھب بتبنۃ والاظھر ما یعد جاریا کما فی الدر وھو الاصح کما فی البدائع والتبیین والبحر والنھر ولا شک انھما صادقان علی نھر سد من فوقہ فانہ یذھب بحزمۃ فضلا عن تبنۃ ولا یسوغ لاحد اھل العرف ان یقول انہ راکد فمن العجب(۱) بعد ذکرہ اختیار اشتراط المدد الا ان یقال ان الوضوء بغمس الاعضاء انما یکون فیما بعد السد منفصلا عنہ لا فی الاجزاء الملاصقۃ لہ وما انفصل عن السد فلہ من فوقہ مدد تأمل۔


اور ثانیا، جاری کی جو مشہور تعریف ہے وہ یہ ہے کہ جاری پانی وہ ہے جو تنکا بہا کر لے جائے اور اظہر یہ ہے کہ جس کو جاری سمجھا جائے جیسا کہ دُر میں ہے اور وہ ہی صحیح ہے جیسا کہ بدائع، تبیین، بحر اور نہر میں ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ دونوں تعریفات اُس نہر پر صادق ہیں جو اوپر سے بند کردی گئی ہو کیونکہ یہ تو پورا ایک گھٹا بہر کر لے جائے گی چہ جائیکہ تنکا اور اہلِ عرف میں سے کسی کو روا نہیں کہ وہ اس پانی کو ٹھہرا ہوا کہے، تعجب ہے کہ یہ بات ذکر کرنے کے بعد انہوں نے مدد کے شرط ہونے کو اختیار کیا ہے، تاہم یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ اعضاء ڈبو کر وضو اسی پانی سے ہوسکتا ہے جو بندش کے بعد اس سے جدا ہو، اس پانی میں نہیں ہوسکتا جس کے اجزاء بندش کے ساتھ ملے ہوئے ہوں اور جو بندش سے جدا ہے اس کو اوپر سے مدد مل رہی ہے تأمل


وثالثا یظھر(۲) لی واللّٰہ تعالٰی اعلم ان لیس جریان(۳) الماء الا حرکتہ بطبعہ فی فضاء وبقاؤہ جاریا علی محل واحد ھو الذی یحتاج الی المدد لان الجاری لایقف فلولم یمد لاخلی المحل وبالمدد یتجدد علیہ امثالہ فیستمر جاریا علیہ مادام المدد غیران الجریان دافع لاثرالنجاسۃ عن الماء ما استمر جاریا لارافع لہ عنہ فلوجری(۴) الماء المتنجس بنفسہ بان کان فی صبب سد مجراہ ففتح ففاض لم یطھر ابدا بل لابد للطھارۃ من جریانہ مع الطاھر فجریان الطاھر لایحتاج الی المدد کنھر سد من فوقہ وکما تری اذا اشتد المطر ووقف لایزال الماء الواقع علی الارض والسطوح جاریا مدۃ بعدہ ولا یصح لاحد ان یقول وقف الواقع فور وقوف المطر وجریان النجس المطھرلہ یحتاج الی مدد من طاھر فلیکن محمل القولین وباللّٰہ التوفیق۔


اور ثالثا، جو اللہ کے فضل سے مجھ پر منکشف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کے جاری ہونے سے فضا میں اس کی طبعی حرکت مراد ہے اور اس کا محل واحد پر جاری رہنا مدد کا محتاج ہے کیونکہ جو جاری ہے وہ ٹھہرے گا نہیں، تو اگر اس کو مدد نہ ملے تو وہ جگہ خالی ہوجائے گی اور مدد کی وجہ سے اس پر اس کے امثال کا تجدد ہوگا تو وہ اس پر جاری رہے گا جب تک مدد ملتی رہے گی، البتہ جریان پانی سے نجاست کے اثر کو دفع کرنے والا ہے جب تک کہ وہ جاری ہے اس سے رفع کرنے ولا نہیں ہے تو اگر ناپاک پانی ازخود جاری ہوا مثلاً کسی ڈھلوان میں تھا جو بند تھا پھر اس کو کھولا گیا تو وہ پانی جاری ہوگیا تو اس طرح وہ کبھی پاک نہ ہوگا بلکہ پاکی کیلئے ضروری ہے کہ وہ پاک پانی کے ساتھ جاری ہو، تو پاک کا جاری ہونا مدد کا محتاج نہیں جیسے کوئی نہر کہ اوپر سے بند کردی جائے، اور جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ شدیدبارش کے بعد چھتوں وغیرہ پر جمع شدہ پانی بہت دیر تک بہتا رہتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ گرنے والا پانی بارش کے ٹھہرنے کے فوراً بعد ٹھہر گیا اور ناپاک پانی کا بہنا جو اس کو پاک کردے، پاک پانی کی مدد کا محتاج ہے تو دونوں قولوں کا یہ محمل ہے وباللہ التوفیق۔ (ت(


ثم اقول ھذا(۱) اذا کان الماء فی فضاء اما اذا کان فی جوف کحوض اوظرف فلا بد مع ذلک من خروجہ عنہ لان الماء کان واقفا فیہ والماء لایقف ماصادف منحدرا فدل وقوفہ علی عدمہ فاذا دخلہ ماء اٰخر فلا یدفعہ الی منحدر بل یعلیہ الی فوق فلا یکون جاریا الی ان یقطع العوائق بامتلاء المحل فیجد متسعا فینحدر فعند ذلک یصیر جاریا فمن اجل ھذا شرط فیہ مع الدخول الخروج فاذا(۲) کان حوض فی حوض والماء وراء الصغیر اوماؤہ کان واقفا فیہ لانعدام المنحدر فلا یجری مالم یخرج من الاعلی لما علمت اما اذا لم یکن الا فی الصغیر ووراء ہ مسیل فدخل الطاھر وملأہ وجعل الماء یخرج منہ ویسیل فقد جری الی ان یصل الی مایحاذیہ من سطح الکبیر فیقف لانعدام المنحدر فما یدخل الیہ بعدہ لایجریہ بل یعلیہ الی ان یملأ الا علی ثم یفیض۔


پھر میں کہتا ہوں یہ اُس صورت میں ہے جبکہ پانی فضا میں ہو، لیکن پانی اگر کسی تہ میں ہے جیسے حوض یا برتن تو ضروری ہے کہ وہ اس برتن سے خارج بھی ہو کیونکہ پانی اس میں ٹھہرا ہوا تھا اور پانی اترتی ہوئی چیز سے متصل ہونے کے وقت ٹھہر نہیں سکتا ہے، تو اس کا ٹھہرنا اس کے عدم کی دلیل ہے تو اب جب اس میں دوسرا پانی داخل ہوا تو اس کو ڈھلوان کی طرف دھکا نہیں دے گا بلکہ اس کو اوپر کی طرف بلند کرے گا تو وہ اس وقت تک جاری نہ ہوگا جب تک کہ وہ رکاوٹوں کو محل کے پُر کرنے سے دُور نہ کردے، پھر وہ کشادگی پائیگا اور اُترے گا اُس وقت وہ جاری ہوگا، اسی وجہ سے اس میں دخول کے ساتھ ہی خروج کی شرط بھی رکھی گئی ہے، تو جب ایک حوض دوسرے حوض میں ہو اور پانی چھوٹے حوض کے پیچھے ہو یا اس کا پانی ٹھہرا ہوا ہو کیونکہ اس میں ڈھلوان موجود نہیں تو جب تک اوپر سے خارج نہ ہو جاری نہ ہوگا جیسا کہ آپ نے جانا اور اگر پانی صرف چھوٹے میں ہو اور اس کے پیچھے پانی کے بہنے کا راستہ ہو اور پاک اس میں داخل ہوگیا ہو اور اس کو بھر دیا ہو یہاں تک کہ پانی اُس میں سے بہہ کر نکل رہا ہو تو اب جاری ہوگا یہاں تک کہ بڑے حوض کی مقابل سطح تک جا پہنچے، اب ٹھہر جائیگا کیونکہ ڈھلوان موجود نہیں ہے تو اب اس کے بعد جو آئے گا وہ اس کو جاری نہ کرے گا بلکہ اس کو بلند کرے گا یہاں تک کہ اُوپر والے کو بھر دے گا پھر بہے گا۔ (ت(


ثم اقول: ھذا کلہ فی الجریان الحقیقی اما ما الحقوا بہ کحوض صغیر للحمام اوللوضوء یدخل فیہ الماء من الانابیب والمیازیب ویخرج بالغرف المتدارک والبئر ینبع(۱) فیھا الماء من تحت ویخرج بالاستقاء المتوالی او بفتح منفذ فیھا ان امکن کمامر(عہ۱) عن الھندیۃ عن الظھیریۃ وعن المنحۃ عن الخیر الرملی وفی البحر عن البدائع عن الامام الحسن بن زیاد عند تکرار النزح ینبع الماء من اسفلہ ویؤخذ من اعلاہ فیکون ۱؎ کالجاری اھ


پھر میں کہتا ہوں یہ سب بحث جریان حقیقی میں ہے، لیکن فقہاء نے اس کے ساتھ جس کو لاحق کیا ہے جیسے چھوٹا حوض نہانے کیلئے یا وضو کیلئے جس میں پانی نلوں یا پرنالوں سے آتا ہے اور مسلسل چُلّو بھرنے سے نکلتا ہے، اور یا وہ کنواں جس میں نیچے پانی کے سوتے ہیں، اور مسلسل بھرنے سے وہ پانی نکلتا رہتا ہے یا اس میں کوئی سوراخ کھول دیا گیا ہے اگر ممکن ہو، جیسا کہ ہندیہ سے ظہیریہ سے اور منحہ سے خیر رملی سے گزرا، اور بحر میں بدائع سے امام حسن بن زیاد سے منقول ہے کہ پانی بار بار نکالا جائے تو نیچے سے نکلتا رہے اور اوپر سے لے لیا جاتا ہے، تو یہ مثل جاری کے ہوگا اھ


 (عہ۱) نشر علی ترتیب اللف ۱۲ (م(

اجمال کی ترتیب پر تفصیل ہے۔ (ت(


 (۱؎ بحوالہ بدائع الصنائع    فصل فی بیان مقدار الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۷)

وھو عندی محمل مافی الحلیۃ عن الامام محمد قال اجتمع رأیی ورأی ابی یوسف علی ان ماء البئر فی حکم الماء الجاری لانہ ینبع من اسفل ویؤخذ من اعلاہ فلا یتنجس بوقوع النجاسۃ فیہ ۲؎ اھ


اور میرے نزدیک یہ اس چیز کا محمل ہے جو حلیہ میں امام محمد سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا میری اور ابو یوسف کی یہ رائے ہے کہ کنویں کا پانی جاری پانی کے حکم میں ہے کیونکہ وہ نیچے سے نکلتا ہے اور اوپر سے لے لیا جاتا ہے تو اس میں نجاست کے گرنے سے نجس نہ ہوگا اھ


 (۲؎ بحوالہ بدائع الصنائع    فصل فی بیان مقدار الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۵)


ونقلہ فی العنایۃ بلفظ قال محمد۔۔۔الخ ثم رأیت الامام ملک العلماء نقلہ فی البدائع بعین لفظ الحلیۃ وذکر تمامہ کحوض الحمام اذا کان یصب الماء فیہ من جانب ویغترف من جانب اٰخر انہ لاینجس بادخال الید النجسۃ فیہ ۱؎ اھ وکذلک فی الفتح الی قولہ کحوض الحمام ۲؎ اھ فاکد ذلک ماذکرتہ من المحمل۔


اور عنایہ میں اس کو ''قال محمد'' کے لفظ سے ذکر کیا الخ پھر بدائع میں اس کو بعینہٖ انہی الفاظ میں ذکر کیا جو حلیہ کے ہیں فرمایاجیسے حمام کا حوض کہ اس میں ایک جانب سے پانی ڈالا جائے اور دوسری جانب سے چُلّو کے ذریعہ نکالا جائے تو ناپاک ہاتھ کے ڈالے جانے سے نجس نہ ہوگا اھ اور اسی طرح فتح میں ''کحوض الحمام'' تک ہے اھ تو اِس نے تاکید کردی اُس محمل کی جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ (ت(


 (۱؎ بحوالہ بدائع الصنائع    فصل فی بیان مقدار الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۵)

(۲؎ فتح القدیر        فصل فی البئر    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۸۶)


اقول: وعند ھذا فھو فرع جید مقبول ولا(۱) وجہ لردہ کما یعطیہ کلام الحلیۃ تبعا للبدائع انہ کان القیاس فی البئر ان لاتتنجس اصلا کما نقل عن محمد اولا تطھرا بدا کما قالہ بشر المریسی الا ان اصحابنا ترکوا القیاسین بالاٰثار ھذا حاصل مافیھا حملا منھما ایاہ علی الاطلاق ولیس الاولی بنا ان نرد ما جاء عن الائمۃ مع وجود محمل لہ صحیح فقد تظافرت(۲) کلماتھم علی قبول ھذا المعنی فی الحوض الصغیر فلم لایقبل فی البئر ولا تخالفہ الا فی حیأۃ ولامدخل لھا فی الحکم فکل صغیر سواء او ان الماء یدخل فیہ من اعلاہ وفیھا من اسفلھا ولا یختلف بہ الحکم فقد قال فی الفتح(۳) لوتنجست بئرفاجری ماؤھا بان حفرلھا منفذ فصار الماء یخرج منہ حتی خرج بعضہ طھرت لوجود سبب الطھارۃ وھو جریان الماء وصار کالحوض اذا تنجس فاجری فیہ الماء حتی خرج بعضہ ۱؎ اھ


میں کہتا ہوں اور اس وقت یہ اچھی فرع ہے مقبول ہے، اور اس کے رد کی کوئی وجہ نہیں جیسا کہ حلیہ میں بدائع کی تبعیت میں ہے کہ کنویں میں قیاس یہ تھا کہ کبھی ناپاک نہ ہو جیسا کہ محمد سے منقول ہے یا یہ کبھی پاک نہ ہو جیسا کہ بشر مریسی سے منقول ہے، مگر ہمارے اصحاب نے دونوں قیاسوں کو آثار کی وجہ سے ترک کردیا، یہ اُن دونوں کتابوں کا حاصل ہے کہ انہوں نے اس کو اطلاق پر محمول کیا ہے، اور جو چیز ائمہ سے منقول ہے اور اس کا مناسب محمل بھی موجود ہو تو اس کو رَد کر دینا مناسب نہیں، کیونکہ چھوٹے حوض میں وہ اس حکم کو قبول کرتے ہیں تو پھر اس کو کنویں میں کیوں نہ قبول کیا جائے حالانکہ کنواں چھوٹے حوض سے صرف صورت میں مختلف ہے یا صورت کا حکم میں کیا دخل ہے؟ ہر چھوٹا برابر ہے، اور یہ کہ حوض میں پانی اوپر سے آتا ہے اور اس میں نیچے سے آتا ہے، تو اس سے حکم مختلف نہ ہوگا، چنانچہ فتح میں فرمایا کہ اگر کنواں ناپاک ہوجائے اور اس کا پانی جاری کیا جائے مثلاً اس میں کوئی سوراخ کر دیا جس سے کنویں کا کچھ پانی نکل گیا تو کنواں پاک ہوگیا، کیونکہ سببِ طہارت پایا گیا اور وہ پانی کا جاری ہونا ہے اور یہ حوض کی طرح ہوا کہ ناپاک ہوجائے اور اس میں پانی جاری کیا جائے یہاں تک کہ کچھ پانی نکل جائے ا ھ


 (۱؎ فتح القدیر        آخر فصل فی البئر    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۹۳)


واغترف منہ فی البحر واقرہ وفی الدر یکفی نزح ماوجد وان قل وجریان بعضہ ۲؎ اھ اس کو بحر میں ذکر کیا اور برقرار رکھا اور دُر میں ہے کہ جو پانی اس میں ہے اس کا نکال دینا کافی ہے خواہ کم ہی ہو اور جاری ہونا بعض کا اھ


 (۲؎ الدرالمختار        فصل فی البئر        مجتبائی دہلی        ۱/۹۳)


قال ش بان حفرلھا منفذ یخرج منہ بعض الماء کما فی الفتح ۳؎ اھ ''ش'' نے کہا کہ مثلاً کنویں میں کوئی سوراخ کردیا جس سے کچھ پانی نکال دیا جیسا کہ فتح میں ہے اھ


 (۳؎ ردالمحتار           فصل فی البئر           مصطفی البابی مصر    ۱/۱۶۰)


وقدمنا فی الاصل الثالث عن البحر فی مسألۃ جریان الحوض الصغیر بدخول ماء اٰخر فیہ وخروج البعض منہ حال دخولہ قال السراج الھندی وکذا البئر ۴؎ اھ ومثلہ فی البزازیۃ وقدمناہ عن الخلاصۃ فلولا انھم اعتبروا نبع الماء من اسفلہ لم یکن لہ معنی فان الجریان دافع لارافع فالنجس لایطھر بہ ابدا مالم یجرمع الطاھر ھذا(۱)


اور ہم نے تیسری اصل میں بحر سے چھوٹے حوض کے جاری ہونے کے مسئلہ میں بیان کیا کہ اس میں نیا پانی داخل ہو اور اس کے داخل ہوتے وقت کچھ اس سے خارج ہو، سراج ہندی نے کہا کہ اس طرح کنویں کا حال ہے اھ اور اسی کی مثل بزازیہ میں ہے اور ہم نے اس کو پہلے خلاصہ سے نقل کردیا ہے تو اگر وہ پانی کے نیچے سے پُھوٹنے کا اعتبار نہ کرتے تو یہ بے معنی بات ہوتی کیونکہ جاری ہونا دافع ہے رافع نہیں تو جب تک وہ نجس طاہر کے ساتھ جاری نہ ہو کبھی بھی پاک ہونے کا نہیں، اس کو اچھی طرح سمجھئے۔


 (۴؎ بحرالرائق        بحث عشر فی عشر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۸)


وبالجملۃ کل ماالحق بالجاری علی ھذا المنوال اعنی اقامۃ الاخراج مقام الخروج فقد زید فیہ قید اٰخرو ھو توالی الاخراج واستمرار تحرکہ بہ حتی لوسکن لم یلتحق وذلک لان لازم الجریان شیاٰن تعاقب الاجزاء یزول منہ جزء فیخلفہ اٰخر وعدم الاستقرار بدوام التحرک فاذا دخل الماء فی الحوض والبئر من جانب واخرج من اٰخر بالغرف والاستقاء وجد الاول واذا استمر ذلک حصل الثانی فتم الشبہ فساغ الالتحاق ولذا اعتبروا تدارک الغرفات بان لایسکن وجہ الماء بین الغرفتین لا الموالاۃ الحقیقیۃ اذ بھذا القدر یحصل دوام التحرک المحصل للشبہ ھذا ما عندی واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔


خلاصہ یہ کہ ہر وہ پانی جس کو جاری کے حکم میں کیا گیا ہے اور اس میں اخراج کو خروج گردانا گیا ہے تو اس میں ایک اور قید کا اضافہ کیا گیا ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ اخراج کی قید ہے اور اس کی وجہ سے اس کا مسلسل متحرک رہنا، اور اگر وہ ٹھہر گیا تو جاری کے حکم میں نہ ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جاری ہونے کو دو چیزیں لازم ہیں ایک تو اجزاء کا تعاقب کہ ایک جزء زائل ہو اور دوسرا جُزء اس کے پیچھے آئے، اور مسلسل حرکت کی وجہ سے ایک جگہ نہ ٹھہرتا، تو جب حوض اور کُنویں میں پانی ایک طرف سے داخل ہو اور دوسری طرف سے چُلّوؤں اور ڈولوں یا نالیوں کے ذریعہ نکالا جائے تو پہلی چیز حاصل ہوگی اور یہ سلسلہ جاری رہے تو دوسری چیز حاصل ہوگی اور مشابہت مکمل ہوجائیگی اور اس کا لاحق کیا جانا جائز ہوگا اور اس کیلئے چُلّوؤں کا پے درپے ہونا معتبر ہوگا، اور پے درپے کا مطلب ہے کہ دو چُلّوؤں کے درمیان پانی میں ٹھہراؤ نہ آئے حقیقی موالات مراد نہیں ہیں کیونکہ اس مقدار سے تحرک کا دوام حاصل ہوجاتا ہے جس سے مشابہت پوری ہوتی ہے ھذا ماعندی واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ (ت(

اس تقریر(۱) سے واضح ہوا کہ ندی(۱) کا پانی جس کا مینڈھا اوپر سے باندھ دیا ہو اور (۲) گلا ہوا برف کہ زمین پر بہ رہا ہو اور(۳) مینہ کا پانی کہ بارش تھمنے پر ہنوز رواں ہو اور(۴) دو پانیوں کی دھار جو ہوا میں مل کر اُتر رہی ہے یا(۵) زمین پر ایک ہو کر بہ رہی ہے اور(۶) انگور کا شیرہ کہ ابھی رواں ہے اگرچہ ان کی مدد منقطع ہوگئی ہو جب تک کسی ایسی شے تک نہ پہنچیں جو آگے مرور کو مانع ہو سب جاری ہیں تو لوٹے کی دھار کہ ابھی ہاتھ تک نہ پہنچی بدرجہ اولیٰ اور دخول وخروج دونوں کی شرط اُس مائع میں ہے جو کسی جوف میں رُکا ہوا ہے اور پانی ایک طرف سے آنا اور دوسری طرف سے جلد جلد کھینچا جانا کہ جنبش تھمنے نہ پائے یہ ملحق بہ آب جاری میں ہے والحمدللّٰہ علی توالی اٰلائہ، وافضل صلوٰتہ واکمل تسلیمات علی افضل انبیائہ، وعلیٰ اٰلہٖ وصحبہ وابنہ واحبائہ، والحمدللّٰہ رب العٰلمین واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔


تجدید النظر بوجہ اٰخر، وابانۃ ماھو احلی وازھر، واجلی واظھر۔

اللھم لک الحمد، والیک الصمد، ارعبیدک الصواب ، وقہ التباب، فی کل باب، یاوھاب، وصلّ وسلّم وبارک علی السید الاواب، الذی تحکی نفحۃ من کرمہ الریح المرسلۃ ورشحۃ من فیضہ ھامر السحاب، وعلی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ خیر حزب واٰل واصحاب، اٰمین۔


ایک اور طریقہ سے نظرِ ثانی، اور عمدہ، روشن اور اظہر طریقہ پر وضاحت:

اے اللہ تیرے لئے یہ حمد ہے اور تُو بے نیاز ہے، اے وہاب! اپنے بندوں پر ہر معاملہ میں اچھا راستہ کھول او رہلاکت سے بچا، اور صلوٰۃ وسلام اور برکتیں ہوں رجوع لانے والے آقا پر جس کے کرم کا ایک جھونکا، چلتی ہوئی ہوا کے مشابہ ہے اور جس کے فیض کا ایک چھینٹا بہت برسنے والے بادل کی طرح ہے اور آپ کی آل، اصحاب، اولاد اور گروہ سب پر سلامتی ہو. آمین۔ (ت(

جماہیر مشاہیر کتب معتمدہ متدا ولہ مستندہ کی تصریحات واضحہ وتلویحات لائحہ کا یہی مفاد کہ جو پانی یا مائع کسی جوف میں ہو تازہ آمد کتنی ہی ہو اُسے جاری نہ کرے گی جب تک بھر کر نہ اُبلے حوض وغیرہ کے بطن میں پانی کا بہنا اُس کے پانی کے لئے جریان نہیں کتب کثیرہ سے فروع متکاثرہ وتصریحاتِ متوافرہ اس معنی پر جوابات سابقہ میں گزریں، جواب سوم کے بعض احکام اور آخر چہارم کی تقریر اور پنجم کے اکثر مباحث اسی پر مبنی تھے اور اصل سوم تو خود یہی تھی اور یہی اصل پنجم کی تمہید اور ششم کا حصہ اولین اور نہم کا اوّل واخیر پھر تفریعات میں جو کچھ ان پر متفرع ہے لیکن یہاں ایک قول یہ ہے کہ جریان کیلئے خروج شرط نہیں، حوض کبیر جس کی تہہ میں نجاستیں یا نجس پانی تھا مجرد بھر جانے سے پاک ہوجائیگا منیہ(۱) میں اگرچہ اس قول کو بصیغہ ضعف نقل کیا کہ وقیل لایصیر نجسا (اور ایک قول یہ ہے کہ نجس نہیں ہوگا۔ت) اور حلیہ(۲) میں اُس کا ضعف اور مسجّل کردیا کہ اس کی کچھ وجہ ظاہر نہیں غنیہ(۳) میں اس کے خلاف کی تصریح تصحیح کی امام ابو القاسم صفار(۴) وامام فقیہ ابو جعفر(۵) وامام فقیہ ابو اللیث(۶) وامام صدر الشہید(۷) وامام ابو بکر اعمش(۸) وامام علی سغدی (۹)وامام نصیر بن یحییٰ (۱۰) وامام خلف بن ایوب (۱۱) وغیرہم اجلّہ اکابر قدست اسرارہم ورحمنا اللہ تعالٰی بہم فی الدارین کے ارشادات واختیارات اور ظہیریہ (۱۲) ومبتغی(۱۳) ومحیط(۱۴) وبرہانی ورضوی(۱۵) وغنیہ کی تصحیحا ت اس کے خلاف پر ہیں ان کتابوں اور ان کے سوا بدائع(۱۶) وفتح القدیر(۱۷) وتبیین(۱۸) وتوشیح(۱۹) وبحر(۲۰) وتاتارخانیہ(۲۱) وخانیہ(۲۲) وخلاصہ(۲۳) وذخیرہ(۲۴) وفتاوٰی اہل سمرقند (۲۵) وغیاثیہ(۲۶) وعالمگیریہ(۲۷) وخزانۃ المفتین(۲۸) وجواہر اخلاطی(۲۹) وشرح ہدیہ ابن العماد (۳۰) وغیرہا عامہ کتب جلیلہ نے فروع کثیرہ وافرہ میں اصلاً اس کی طرف التفات بھی نہ کیا یہ امور بتاتے ہیں کہ وہ قول مہجور جمہور ونامقبول ونامنصور ہے ولہٰذا ہم نے بھی باتباع ائمہ اُس کی طرف میل نہ کیا مگر انصافاً(۱) وہ ساقط محض نہیں بجائے خود ایک قوت رکھتا ہے متعدد مشائخ اور کثیر یا اکثر فقہائے بخارا وبعض ائمہ بلخ نے اُسے اختیار کیا اور امام یوسف ترجمانی نے اسے بہ یفتی کہا۔ امام کردری نے وجیز میں اسے مقرر رکھا اور یہ آکد الفاظ فتوٰی سے ہے منیہ کی عبارت کہ ابھی مذکور ہوئی اس کے متصل ہی ہے:


حوض کبیر و فیہ نجاسات فامتلاء قیل ھو نجس وقیل لیس بنجس وبہ اخذ اکثر مشائخ بخاری رحمھم اللّٰہ ذکرہ فی الذخیرۃ ۱؎


حوض کبیر جس کی تہہ میں نجاستیں ہوں پھر وہ بھر جائے تو ایک قول کے مطابق نجس ہے اور ایک قول یہ ہے کہ نجس نہیں بخارا کے اکثر مشائخ (اللہ ان پر رحم کرے) نے اسی کو اختیار کیا ہے اس کو ذخیرہ میں ذکر کیا ہے۔ (ت(


 (۱؎ منیۃ المصلی    فصل فی الحیاض    مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور    ص۷۲)

غنیہ میں قولِ اوّل کی تعلیل کی: لتنجس الماء شیئا فشیئا ۲؎۔ کیونکہ پانی تھوڑا تھوڑا کرکے نجس ہوتا جاتا ہے۔ (ت(


 (۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    سہیل اکیڈمی لاہور        ص۱۰۱)


اور دوم کی: لکونہ کبیرا فصار کما لوکان ممتلئا فوقعت فیہ النجاسات ۳؎۔ کیونکہ یہ بڑا حوض ہے تو یہ اسی حکم میں ہوگا کہ پہلے وہ بھر گیا ہو پھر اس میں نجاستیں واقع ہوئی ہوں۔ (ت(  (؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    سہیل اکیڈمی لاہور        ص۱۰۱)


حلیہ میں ذخیرہ کا نص یوں ذکر کیا: وفی نظم الزند ولیسی اذا کان الحوض کبیرا وفیہ نجاسات فدخل الماء فامتلاء قال اھل بلخ وابو سھل الکبیر البخاری ھو نجس وقال الفقیہ ابوجعفر البلخی والفقیہ اسمٰعیل وابن الحسن الزاھدی البخاری الکل طاھر وبہ اخذ کثیر من فقہاء بخارٰی وھکذا افتی عبدالواحد مرارا وھکذا کان یفتی الفقیہ ابو بکر العیاضی وکان یقول الماء الکثیر فیحکم الماء الجاری انتھیٰ ۱؎۔


اور نظم زند ویسی میں ہے کہ جب حوض بڑا ہو اور اس میں نجاسات ہوں، پھر پانی داخل ہو کر اس کو بھر دے تو بلخ والوں اور ابو سہیل کبیر بخاری کا قول ہے کہ یہ نجس ہے اور فقیہ ابو جعفر البلخی، فقیہ اسمٰعیل اور ابن الحسن الزاہدی البخاری نے کہا کہ سب پاک ہے اور اس قول کو بخارا کے کثیر فقہاء نے اختیار کیا ہے، اور عبدالواحد نے بھی اس پر کئی بار فتوٰی دیا اور ابو بکر عیاضی بھی اسی طرح فتوٰی دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ کثیر پانی جاری پانی کے حکم میں ہے انتہی۔ (ت(


 (۱؎ حلیہ)


پھر فرمایا: ونقل الزاھدی عن یوسف الترجمانی فی انہ قال وبہ یفتی ۲؎۔ زاہدی نے یوسف الترجمانی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اور اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت(


 (۲؎ حلیہ)


بزازیہ میں ہے:تنجس الحوض ثم دخل فیہ ماء کثیر وخرج منہ ایضا قیل طھر الحوض وان قل الخارج وقیل لاحتی یخرج مثل مافیہ وقیل مثلاہ اوثلثۃ امثالہ وقیل یطھر وان لم یخرج شیئ قال ابو یوسف الترجمانی رحمہ اللّٰہ تعالٰی وبہ یفتی ۳؎ اھ


حوض ناپاک ہوگیا پھر اس میں بہت سا پانی داخل ہوگیا اور نکل گیا تو ایک قول ہے کہ حوض پاک ہوگیا خواہ نکلنے والا پانی کم ہی ہو اور ایک قول یہ ہے کہ جب تک اتنا پانی نہ نکلے جتنا کہ حوض میں تھا پاک نہ ہوگا جبکہ ایک قول یہ ہے کہ جب تک حوض کا دوگنا یا تین گنا پانی نہ نکلے پاک نہ ہوگا اور ایک قول یہ ہے کہ پاک ہو جائے گا خواہ کچھ بھی نہ نکلے، یوسف الترجمانی رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت(


 (۳؎ بزازیہ علی الھندیۃ    نوع فی الحیض    نورانی کتب خانہ پشاور     ۴/۸)


اقول تفرد(۱) بشیئین احدھما قید الکثیر فی الماء الداخل وھم قاطبۃ ارسلوہ وقال ش وان قل الداخل ۴؎ اھ وکانہ واللّٰہ تعالٰی اعلم رعایۃ للقول الاخیر اذ یختص بالحوض الکبیر فدل علی کبرہ بدخول الماء الکثیر والاٰخر زیادۃ مثلیہ وانما یذکرون مثلا وثلاثا فالثانی لتثلیث الغسل والاول قیاسا علی البئر فان نزح مافیھا لھا تطہیر افادہ فی البدائع اما التثنیۃ فلا وجہ لھا ھذا،


میں کہتا ہوں وہ دو چیزوں میں متفرد ہیں ایک تو داخل ہونے والے پانی میں کثرت کی قید لگانے میں، جبکہ تمام فقہاء نے یہ قید نہیں لگائی ہے اور ''ش'' نے فرمایا اگرچہ داخل ہونے والا پانی قلیل ہو اھ اور گو یا واللہ تعالٰی اعلم آخری قول کی رعایت ہے کیونکہ یہ بڑے حوض کے ساتھ خاص ہے تو کثیر پانی کا داخل ہونا حوض کی بڑائی پر دلالت کرے گا، اور دوسری چیز دگنا ہونے کی زیادتی، اور دوسرے فقہا ایک گنا اور تین گنا کا ذکر کرتے ہیں، تو دوسرا دھونے میں تثلیث کے لئے ہے اور پہلا کنویں پر قیاس کرتے ہوئے ہے، کیونکہ کنویں میں جو کچھ ہے وہ اگر نکال لیا جائے تو کنواں پاک ہوجائیگا، بدائع میں یہی ہے، اور دُگنا ہونے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں، ہذا۔


 (۴؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۳۸)


ثم قال فی الحلیۃ لکن فی الذخیرۃ قبل ھذہ المسألۃ وفی فتاوٰی اھل سمر قند غدیر کبیر لایکون فیہ ماء فی الصیف ویروث فیہ الناس والدواب (فذکر ماقدمنا عن الخانیۃ وغیرھا عشرۃ کتب فی الاصل الثامن) قال فعلی قیاس الجواب فی ھذہ المسألۃ یکون الجواب ایضا فی المسألۃ التی ذکرھا المصنف ان کان الماء الذی یدخل اولا یدخل علی ماء نجس اومکان نجس فھو نجس وان کان یدخل علی طاھر ویستقر فیہ حتی یصیر عشرا فی عشر ثم یتصل بالنجس فھو طاھر قال فھذا قول ثالث فی المسألۃ المذکورۃ تخریجا کما یمکن ان یتأتی القولان المذکوران فیھا نصا فی ھذہ المسألۃ التی ذکرناھا نحن عن الذخیرۃ ایضا تخریجا ۱؎ اھ


پھر حلیہ میں فرمایا اور لیکن ذخیرہ میں اس مسئلہ سے قبل اور اہل سمرقند کے فتاوٰی میں ہے کہ اگر کوئی بڑا تالاب ایسا ہو جو گرمیوں میں سُوکھ جاتا ہو اور اس میں انسان اور چو پائے بول وبراز کرتے ہوں (تو اس کا حکم وہ بیان کیا جو ہم نے آٹھویں اصل میں خانیہ وغیرہا دس کتب سے نقل کیا) فرمایا اس مسئلہ کے جواب پر قیاس کرتے ہوئے مصنّف نے جو مسئلہ ذکر کیا ہے اس کا بھی جواب ہوگا، اور وہ یہ کہ اگر داخل ہونے والا پانی پہلے نجس پانی پر داخل ہوتا ہے یا نجس جگہ پر تو وہ نجس ہے اور اگر پاک پر داخل ہوتا ہے اور اس میں ٹھہرتا ہے یہاں تک کہ دہ در دہ ہوجائے پھر نجس سے متصل ہو تو وہ پاک ہے فرمایا یہ مسئلہ مذکورہ بطور تخریج تیسرا قول ہے اور دو مذکور قول اس میں بطور نص ہیں جس کو ہم نے ذخیرہ سے بطور تخریج نقل کیا ہے۔ اھ (ت(


 (۱؎ حلیہ)


اقول رحم اللّٰہ المحقق لاتثلیث ولا تخریج اما(۱) الثانی فظاھر فان المسألۃ المذکورۃ مسألۃ المتن حوض کبیر وفیہ نجاسات فامتلأ والتی اوردتموھا عن الذخیرۃ غدیر کبیر لایکون فیہ ماء فی الصیف ویروث فیہ الناس والدواب وای فرق بینہما الا فی اللفظ فلا قیاس ولا تخریج بل القولان المذکوران فی المتن منصوص علیھما فی مسألۃ الذخیرۃ والتفصیل المذکور فیھا منصوص علیہ فی مسألۃ المتن،


میں کہتا ہوں اللہ محقق پر رحم کرے نہ توتثلیث ہے اور نہ تخریج، دوسرا تو ظاہر ہے کیونکہ مسئلہ مذکورہ متن کا مسئلہ 

ہے تثلیث کہ ایک بڑا حوض ہو جس میں نجاستیں ہوں اور بھر جائے، اور جس کو تم نے ذخیرہ سے نقل کیا ہے یعنی بڑا تالاب جو گرمیوں میں خشک ہوجاتا ہے اور اس میں انسان اور جانور بول وبراز کرتے ہوں، ان دونوں میں لفظی فرق کے علاوہ اور کیا فرق ہے، تو نہ قیاس ٹھیک ہے اور نہ تخریج درست ہے بلکہ دونوں قول جو متن میں مذکور ہیں اور ان کو ذخیرہ میں صراحت سے ذکر کیا ہے اور اس میں جو تفصیل ہے وہ متن میں منصوص ہے ،


واما(۲) الاول فلانہ لیس لاحد ان یقول الماء وان کثر فی بطن الحوض قبل وصولہ الی النجس یتنجس حین یصل الیہ وکیف یتنجس وقد فرض کثیرا ھذا خلاف الاجماع فالتفصیل المذکور فی الذخیرۃ ھو المراد قطعا فی القول الاول وانما طووا ذکرہ للعلم بہ کما قلتم ھھنا ان من المعلوم حیث قلنا فی ھذہ المسألۃ اوامثالھا ان الماء طاھر فھو مشروط بکونہ لااثر للنجاسۃ فیہ فترک التقیید بہ فی ذلک للعلم بہ وایاک والذھول عنہ فیذھبن بک الوھم الی تخطئتھم فی ذلک وھم من ذلک ۱؎ براء اھ، فھل(۳) یسوغ لاحد ان یجعل التقیید بعدم ظھور الاثر قولا رابعا فی المسألۃ وقد اشرنا الیہ بعد ذکر الضابط الثالث فما ثم الا قولان التفصیل المذکور فی الکتب العشرۃ واطلاق الطھارۃ وباللّٰہ التوفیق۔


لیکن پہلا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا جبکہ پانی حوض میں کثیر ہو نجس تک پہنچنے سے پہلے، تو وہ نجس ہوجائیگا جب وہ نجاست تک پہنچے گا، اور نجس کیسے ہوگا حالانکہ اس کو کثیر فرض کیا گیا ہے یہ اجماع کے خلاف ہے جو تفصیل ذخیرہ میں ہے وہی قطعاً مراد ہے پہلے قول میں اور اس کو ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وہ پہلے ہی معلوم ہے، جیسا کہ تم نے یہاں کہا ہے کہ یہ بات معلوم ہے جبکہ ہم نے اس مسئلہ میں اور اس جیسے مسائل میں کہا کہ پانی پاک ہے، مگر اس میں یہ شرط ہے کہ نجاست کا اثر اس میں ظاہر نہ ہو تو اس قید کو معلوم ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس سے آپ غافل نہ ہوں ورنہ آپ ان کو خطاکار قرار دیں گے حالانکہ وہ بے قصور ہیں اھ تو کیا کوئی اثر کے ظاہر نہ ہونے کی قید لگانے کو چوتھا قول قرار دے سکتا ہے ۔ اور ہم نے تیسرے ضابطہ کے بعد اس کی طرف اشارہ کیا ہے، تو وہاں صرف دو ہی قول ہیں مذکورہ تفصیل دسوں کتب میں ہے اور طہارت کا اطلاق ہے۔ (ت(


 (۱؎ حلیہ)

ثم اقول وبہ استعین (اللہ سے مدد چاہتے ہوئے میں کہتا ہوں) یہاں دو بحثیں ہیں:

بحث اوّل ہم اوپر بیان کر آئے کہ جریان آب نہیں مگر فضا میں اس کا اپنے میل طبعی سے رواں ہونا اور فضائے غیر محدود غیر مقصود اور محدود بطن حوض میں بھی موجود بارش یا سیل وغیرہ کا پانی کہ اوپر سے بہتا ہوا آیا اور بطنِ حوض میں داخل ہوا وہ قطعاً اب بھی بہ رہا ہے جب تک کنارہ مقابل پر جاکر رک نہ جائے۔

اولاً جاری کی دونوں تعریفیں اشہر واظہر اس پر صادق ہیں وہ ایک تنکا کیا ایک گھٹا بہالے جائیگا اور بے شک جب تک اُس کا بہاؤ نہ ٹھہرے بہتا ہی کہا جائیگا اہل عرف میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سیلاب حوض کے کنارے تک پہنچتے ہی تھم گیا اب اس میں روانی نہ رہی جب تک بھر کر اُبال نہ دے پہلے کنارے پر تھم جائے تو حوض کو بھرے کون اور اُبالے کیوں کر۔

ثانیاً نہر جاری میں سیلاب کی دھار آکر گری اب چاہئے کہ وہ نہر جاری نہ رہے جب تک بھر کر اُبل نہ جائے کہ اعتبار وئے آب کا ہے اور اب روئے آب یہ سیلاب ہے جسے جوفِ نہر میں داخل ہوتے ہی ساکن مان لیا گیا۔

ثالثاً مینہ کاپانی(۱) کہ چھت پر بہتا پر نالوں سے گرتا صحنِ خانہ میں رواں ہو قطعاً آب جاری ہے اگرچہ ابھی مکان کی نالی سے بھی نہ نکلے مکان کو چھت تک لبریز کرکے دیواروں پر سے اُبال دینا تو قیامت ہے،


بدائع میں ہے:ان کانت الانجاس متفرقۃ علی السطح ولم تکن عند المیزاب ذکرعیسٰی بن ابان (ای تلمیذ محمد رحمہما اللّٰہ تعالی) انہ لایصیر نجسا مالم یتغیر وحکمہ حکم الماء الجاری وقال محمد ان کانت النجاسۃ فی جانب من السطح اوجانبین لاینجس الماء ویجوز التوضوء بہ وان کانت فی ثلٰثۃ جوانب ینجس اعتباراللغالب ۱؎ اھ


اگر نجاستیں چھت پر پرا گندہ ہوں اور یہ پرنالہ کے پاس نہ ہوں، تو عیسیٰ بن ابان نے ذکر کیا (یعنی محمد کے شاگرد نے) کہ وہ نجس نہ ہوگا جب تک کہ متغیر نہ ہو اور اس کا حکم جاری پانی کی طرح ہے اور محمد نے فرمایا کہ اگر نجاست چھت کی ایک جانب یا دو جانب ہو تو پانی ناپاک نہ ہوگا اور اس سے وضو جائز ہے اور اگر نجاست تین کناروں پر ہو تو غالب کا اعتبار کرتے ہوئے پانی ناپاک ہوجائیگا اھ (ت(


 (۱؎ بدائع الصنائع    فصل فی بیان المقدار    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۱)


ہندیہ میں ہے:لوکان علی السطح عذرۃ فوقع علیہ المطر فسال المیزاب ان کانت النجاسۃ عند المیزاب وکان الماء کلہ یلاقی العذرۃ اواکثرہ اونصفہ فھو نجس والا فھو طاھر وان کانت العذرۃ علی السطح فی مواضع متفرقۃ ولم تکن علی رأس المیزاب لایکون نجسا وحکمہ حکم الماء الجاری کذا فی السراج الوھاج،


اگر چھت پر پاخانہ پڑا ہو اور بارش ہوجائے پھر پرنالہ بہے تو اگر نجاست پرنالہ کے پاس ہو اور کل پانی پاخانہ سے لگ کر آرہا ہو یا اکثر یا نصف تو وہ ناپاک ہے ورنہ پاک ہے اور اگر نجاست چھت پر متفرق جگہوں پر ہو اور پرنالہ کے سر پر نہ ہو تو ناپاک نہ ہوگا اور اس کا حکم جاری پانی کا سا ہے۔ اسی طرح سراج الوہاج میں ہے،


وفی بعض(۱) الفتاوٰی قال مشائخنا المطر مادام یمطر فلہ حکم الجریان حتی لواصاب العذرات علی السطح ثم اصاب ثوبا لایتنجس الا ان یتغیر(۲) المطر اذا اصاب السقف وفی السقف نجاسۃ فوکف واصاب الماء ثوبا فالصحیح انہ اذا کان المطر لم ینقطع بعد فما سال من السقف طاھر ھکذا فی المحیط وفی العتابیۃ اذا لم یکن متغیرا کذا فی التاتارخانیۃ واما(۳) اذا انقطع المطر وسال من السقف شیئ فما سال فھو نجس کذا فی المحیط وفی النوازل قال مشائخنا المتأخرون ھو المختار کذا فی التتارخانیۃ ۱؎ اھ


اور بعض فتاوٰی میں ہے کہ ہمارے مشائخ نے فرمایا اگر بارش ہورہی ہو تو جاری پانی کے حکم میں ہے یہاں تک کہ اگر یہ پانی چھت پر پڑے ہوئے پاخانہ سے لگ کر بھی آئے اور پھر کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہ ہوں گے، ہاں اگر بارش متغیر ہوجائے جبکہ چھت پر پہنچے اور چھت پر نجاست ہو اور پھر چھت ٹپکنے لگے اور یہ پانی کسی کپڑے پر لگ جائے تو صحیح یہ ہے کہ اگر بارش ابھی منقطع نہیں ہوئی ہے تو جو پانی چھت سے بہا وہ پاک ہے ھکذا فی المحیط۔ اور عتابیہ میں ہے کہ جبکہ متغیر نہ ہو، اور اسی طرح تاتار خانیہ میں ہے اور اگر بارش بند ہونے کے بعد چھت سے پانی ٹپکے تو جو بہا ہے وہ ناپاک ہے کذا فی المحیط، اور نوازل میں ہے کہ ہمارے متأخر مشائخ نے فرمایا یہی مختار ہے کذا فی التتارخانیہ اھ (ت(


 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    الفصل الاول فیما یجوز        نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۱۷)


اقول سال من السقف ای وکف کما قدم اما السائل من المیزاب فجار قطعا وان وقف المطر کما قدمنا۔ میں کہتا ہوں چھت سے بہنے کا مطلب چھت سے ٹپکنا ہے جیسا کہ گزرا اور جو پرنالے سے بہتا ہے وہ قطعاً جاری ہے خواہ بارش ٹھہری ہوئی ہو۔ (ت(

بالجملہ آنے والے پانی کے بطن حوض میں جاری ہونے سے انکار ظاہر نہیں، ہاں جب حد مقابل پر پہنچے جہاں جاکر رک جائیگا یا تحریک پہنچی تو آگے نہ بڑھے گا بلکہ اُوپر چڑھے گا یہ حرکت طبعی نہ ہوگی بلکہ قسری خلاف طبع تو اُس وقت بیشک جریان جاتا رہے گا۔

بحث دوم: آب نجس کی تطہیر کو آبِ طاہر سے مل کر اُس کا جاری ہونا درکار ہے یا آب طاہر جاری کا اُس پر آنا کافی اول نص محرر المذہب امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے منقول ہے،


فی ردالمحتار عن جامع الرموز عن التمرتاشی عن محمد المائع کالماء والد بس وغیرھما طہارتہ باجرائہ مع جنسہ مختلطا بہ ۲؎۔ اور ردالمحتار میں جامع الرموز سے تمرتاشی سے محمد سے ہے۔ کہ بہنے والا جیسے پانی اور شیرہ وغیرہ اس کی طہارت اس کو اسی کی جنس کے ساتھ ملا کر جاری کر دینے سے حاصل ہوتی ہے۔ (ت(


 (۲؎ ردالمحتار        مطلب یطہر الحوض بمجرد الجریان    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۴)


اقول اور اسی کے مؤید ہے اُسے قول دائر وسائر الماء الجاری یطھر بعضہ بعضا  (کہ بعض جاری پانی بعض دوسرے پانی کو پاک کر دیتا ہے۔ ت) کے تحت میں لانا،

فانھما اذا جریا مختلطین کان بعض الجاری طاھرا وبعضہ نجسا فیطھر الاول الاٰخر بخلاف مااذا لم یجر النجس وقد یمکن ان یستأنس للثانی بما قدمنا فی الاصل الرابع عن الحلیۃ عن المحیط الرضوی ان الماء الجاری لما اتصل بہ صار فی الحکم جاریا ۳؎ اھ۔ لکنہ ذکرہ فی اشتراط الخروج من الجانب الاٰخر وان قل فالمراد الاتصال فی الجریان ومعلوم ان الجاری بعضہ لاکل مافیہ ویحکم بطھارۃ الکل فلذا قال صارفی الحکم جاریا فافھم۔


کیونکہ وہ دونوں جب مل کر بہیں تو بعض جاری پاک اور بعض نجس ہوگا تو پہلا دُوسرے کو پاک کر دیگا بخلاف اس صورت کے جبکہ نجس جاری نہ ہو اور دوسرے کیلئے جو ہم نے چوتھی اصل میں حلیہ سے محیط رضوی سے نقل کیا ہے استدلال ہوسکتا ہے کہ جب جاری پانی اس میں مل گیا تو جاری کے حکم میں ہوگا اھ لیکن اس کا تذکرہ انہوں نے وہاں کیا ہے جہاں دوسری جانب سے نکل جانے کی شرط لگائی ہے خواہ کم ہی ہو تو مراد جاری ہونے میں اتصال ہے اور یہ معلوم ہے کہ جاری بعض ہی ہے کل نہیں ہے۔ اور حکم کل کی طہارت کا لگایا جائیگا اور اسی لئے فرمایا کہ یہ جاری کے حکم میں ہوگیا۔ (ت(


 (۳؎ حلیہ)


فقیر کے نزدیک منشاء اختلاف یہی ہے اُن بعض نے جبکہ دیکھا کہ نیا آنے والا پانی بہتا ہوا اس آب نجس سے ملا اس کی طہارت کا حکم دیا پھر اگر نجاست غیر مرئیہ ہے یا مرئیہ تھی اور نکال دی گئی جب تو ظاہر ہے کہ ان کے طور پر سب پانی پاک رہنا چاہئے اگرچہ حوض صغیر ہو کہ جاری میں کثیر کی شرط نہیں اور آب جاری جب نجاست غیر مرئیہ پر وارد ہو اُسے فنا کر دیتا ہے کما حققناہ فی الاصل العاشر (جیسا کہ اس کی تحقیق ہم نے اصل عاشر میں کی ہے۔ ت) تو بعد وقوف اگرچہ محل قلیل میں ٹھہرا نجاست ہی معدوم ہے ہاں نجاست مرئیہ باقیہ میں ضرور کبر محل درکار کہ وقت وقوف بوجہ کثرت عود نجاست نہ ہوسکے اور جمہور نے یہ نظر فرمائی کہ آب داخل اگرچہ جاری ہو مگر آب نجس کو جاری نہ کیا کہ بطنِ حوض میں رُکا ہوا تھا اور اُس کا رُکنا ہی دلیل واضح تھا کہ اُسے آگے بڑھنے کو جگہ نہیں تو آب داخل اُسے آگے نہ بڑھائے گا بلکہ اوپر چڑھائیگا تو اُس کا اجرانہ ہوگا جو اُس کی طہارت کو درکار ہے مگر یہ کہ حوض بھر جائے اُس وقت تک تو سب ناپاک ہے اب جو اُبلے گا پاک ہوجائیگا کہ اب آگے بڑھنے اور منحدر میں اُترنے کو جگہ وسیع ہے اگر کہیے مانا کہ بطن حوض میں آب نجس کا اجرا نہ ہوگا مگر غسل یعنی دھونا تو ہوجائیگا کہ آب جاری بہتا ہوا آکر اُس کے تمام اجزا پر چھا گیا۔

اقول اولاً پانی کو دھونا شرع سے معہود نہیں مگر وہی طاہر سے ملا کر اُس کا اجرا۔

ثانیاً: غسل ہوگا تو فقط سطح بالائے آب نجس کا اور وہ کوئی جامد(۱) شیئ نہیں کہ ضرورۃً غسل سطح قائم مقام غسل کل ہو،


وھذہ فائدۃ استنبطھا الفقیر مما فی فتح القدیر فی بیان مذھب الصاحبین ان کانت(۲) الانفحۃ جامدۃ تطھر بالغسل ۱؎ اھ ای اذا اخذت من بطن جدی میت لتنجسہا عندھما بوعائھا المتنجس بالموت واستظھرہ فی مواھب الرحمٰن وذکر طہارتھا جامدۃ بالغسل کالفتح وعند الامام طاھرۃ لانہ لااثر للتنجس شرعا مادامت فی الباطن النجاسۃ فضلا عن غیرھا فتح وھو الراجح دروالانفحۃ اللبن فی بطن الجدی الراضع۔


یہ فائدہ خود فقیر نے جہاں صاحبین کا مذہب فتح القدیر میں بیان ہوا ہے میں نے مستنبط کیا ہے، اگر دُودھ خشک ہو تو دھونے سے پاک ہوجائیگا اھ یعنی مُردہ بکری کے بچّہ کے پیٹ سے نکالے گئے ہوں کیونکہ صاحبین کے نزدیک وہ ظرف کے ناپاک ہونے کی وجہ سے نجس ہوجائیں گے کیونکہ اس کا ظرف موت کی وجہ سے ناپاک ہوگیا، اور مواہب الرحمن میں اس پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خشک ہوں (یعنی دودھ جم جائے) تو دھونے سے پاک ہوجائیں گے، جیسا کہ فتح میں ہے اور امام صاحب کے نزدیک پاک ہیں کیونکہ جب باطن میں کوئی نجاست ہو تو شرعاً وہ نجاست نہیں چہ جائیکہ اور کوئی چیز ہو فتح، اور یہی راجح ہے در، اور انفحہ اس دُودھ کو کہتے ہیں جو بکری کے شیر خوار بچّے کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ (ت)


 (۱؎ فتح القدیر    الماء الذی یجوزبہ الوضوء    سکھّر    ۱/۸۴)


ثالثاً علی التسلیم (غَسل (دھونا) اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو۔ ت) غسل(۱) کیلئے تثلیث درکار ہوتی یا ذہاب نجاست پر غلبہ ظن۔ بہرحال مائے غاسل کا مغسول پر سے زوال ضرور کہ جب تک جُدا نہ ہوا مغسول سے زوال نجاست نہ ہوا تو حکم طہارت نہ ہوا۔ یوں بھی خروج لازم ہوگیا ظاہر ان وجوہ سے جمہور نے حکمِ نجاست دیا۔

اقول مگر جس طرح قول دوم پر بحث دوم وارد ہوئی یونہی قول اوّل پر بحث اول وارد ہوگی۔ ان اکابر نے بطن حوض میں سَیلان آب کو جریان ہی نہ ٹھہرا یا شرط خروج کی تصریحات وتصحیحات کہ جوابِ دوم میں غنیہ(۱) وظہیریہ(۲) اور جواب پنجم اصل دوم میں ملک العلماء(۳) وفقیہ ہندوانی(۴) وفقیہ سمرقندی(۵) اور اصل سوم میں تبیین(۶) وفتح(۷) وبحر(۸) ومحیط(۹) وتوشیح(۱۰) وامام حسام شہید(۱۱) وتاتارخانیہ(۱۲) وظہیریہ(۱۳) وہندیہ(۱۴) اور اصل چہارم میں مبتغی(۱۵) ومحیط(۱۶) رضوی وحلیہ(۱۷) وخلاصہ(۱۸) وردالمحتار(۱۹) ودو(۲۰) عبارت ظہیریہ(۲۱) وامام(۲۲) ابو بکر اعمش(۲۳) وغیرہ اور اصل ششم میں شرح(۲۴) ہدیہ ومنحہ(۲۵) سے گزریں ان کی تویہ توجیہ واضح ہے کہ جو نجس پانی حوض میں تھا اس کے جریان وتطہیر کیلئے خروج ضرور ہے تازہ پانی کہ اُوپر سے آیا ان سے اس کے جریان کی نفی نہیں ہوتی مگر ان نصوص کثیر کا کیا جواب جو صراحۃً اس آب داخل ہی کے جریان کا ابطال کرتے ہیں اگرچہ بطنِ حوض میں کتنی ہی دُور حرکت کرتا جائے مثلاً:

اولاً وہ تصریحیں کہ پانی اگر بطنِ حوض میں دہ در دہ ہونے سے پہلے نجاست سے ملے گا جتنا آتا جائیگا ناپاک ہوتا جائے گا جیسا کہ جواب چہارم میں امام (۱) صفار سے گزرا امام(۲) ملک العلماء نے اُسے مقرر رکھا اصل ہشتم فتاوٰی(۳) امام قاضی خان وجواہر(۴) اخلاطی سے اور ایسا ہی خزانۃ(۵) المفتین وفتاوٰی(۶) ذخیرہ میں ہے حلیہ(۷) میں اُس پر تقریر ہے غنیہ(۸) میں اس کے معنے ہیں اگر جاری مانا جاتا وہ دہ در دہ ہونا کیا شرط ہوتا کہ جاری کتنا ہی قلیل ہو ناپاک نہیں ہوسکتا جب تک نجاست سے اس کا کوئی وصف نہ بدلے لوٹے کی دھار کا مسئلہ اصل ۹ میں گزرا۔

ثانیا یہ تعلیل وشرط نہ بھی ہوتی تو اس مسئلہ دوّارہ کا نفس حکم کہ کتبِ معتمدہ جماہیر مشاہیر میں دائر وسائر ہے خود اُسے جاری نہ ماننے پر برہان ظاہر ہے جواب چہارم میں منیہ(۹) وبدائع(۱۰) وصفار(۱۱) وحلیہ(۱۲) اور پنجم میں حلیہ(۱۳) وغنیہ(۱۴) اور اس کی اصل ہشتم میں خانیہ(۱۵) وخزانۃ(۱۶) المفتین ومحیط(۱۷) وحلیہ(۱۸) وخلاصہ(۱۹) وفتح(۲۰) وفتاوٰی(۲۱) سمرقند وبحر(۲۲) وہندیہ(۲۳) وغیاثیہ(۲۴) وذخیرہ(۲۵) وفرع(۲۶) آخر قاضی خان وجواہر(۲۷) الاخلاطی سے تصریحیں اور تصحیحیں گزریں کہ حوض کتنا ہی کبیر ہو جب اس میں قلیل پانی ناپاک تھا پھر پانی آیا اور لبالب بھر گیا ناپاک ہی رہا۔ بھلا جب تک حد قلت میں تھا یہ کہہ سکتے تھے کہ آنے والا پانی اگرچہ اپنے داخل ہونے سے دوسری جانب پہنچنے تک جاری رہا مگر وہاں جاکر تو رُک گیا اور ہے قلیل اور نجاست یا آب نجس سے متصل تو اب ناپاک ہوجائیگا اسی طرح جو پانی آتا جائے گا حدِ قلت تک یہی حکم پائیگا وھم انما قالوا کل مادخل صار نجسا لاکما دخل تنجس مگر حوض تو کبیر ہے جب حدِ قلت سے آگے بڑھے گا کیا کہا جائے گا۔ آیا بہتا ہوا اور ٹھہرا کثیر ہو کر تو کسی وقت قابلِ قبول نجاست نہ ہوا پھر یہ حکم کیوں ہے کہ لبالب بھرنے پر بھی سب ناپاک۔ بلکہ لازم تھا کہ یا تو حصہ بالا کو جہاں سے حدِ کثرت ہے (اور ممکن ہے کہ حوضِ کبیر کا معظم حصہ وہی ہو) پاک کہیں اور حدِ قلت سے نیچے تک ناپاک یا نظر برآں کہ حصّہ زیریں ممتاز صورت نہ رکھنے کے باعث بالا کا تابع ہے سب پاک۔

اقول اور ظاہرا یہی اقیس ہوتا آخر نہ دیکھا کہ حوض کتنا ہی(۱) عمیق ہو بلکہ گہرے سے گہرا کنواں اگر لبالب بھر کر اُبل جائے اوپر سے نیچے تک سب پاک ہوگیا کہ آب جاری ہوگیا حالانکہ یقیناً حرکت جریانی صرف اوپر کے قلیل حصہ کو پہنچے گی آنے والا پانی جہاں تک کے پانی کو دبا کر ساتھ بہا کر اُبلے اُبالے گا اُتنے ہی پر جریان واقع ہوگا نیچے گزوں تک کے پانی کو خبر بھی نہ ہوگی اور ٹھہرا سب پاک۔ اُسی لئے کہ صورت واحدہ وشیئ واحد ہے، یوں(۲) ہی آبِ کثیر کی صورت واحدہ رکھتا اور اوپر قلیل حصہ کثیر اور نیچے سب قلیل ہے اور نجاست راسبہ پڑی کہ تہ تک پہنچی سب پاک رہے گا روئے آب کی کثرت وطہارت تہ تک عمل کرے گی کذا ھذا۔

فان قلت فی الجواب عنھما ان العبرۃ فی الکثرۃ والقلۃ لا وان الوقوع وھذا کان قلیلا عندہ والمستشھد بہ کثیرا فافترقا اما الجریان فمعتبر بنفسہ لالحاظ فیہ لکثرۃ اوقلۃ وقت الوقوع فاذ اجری وجہہ وھو شیئ واحدفقد جری کلہ فلا یقاس علیہ طھارۃ الاعلی لاستقرارہ علی الکثرۃ فانھا غیر الجریان


اگر تم ان دونوں کی طرف سے جواب میں یہ کہو کہ کثرت وقلت میں اعتبار گرنے کے وقت کا ہے اور یہ گرتے وقت قلیل تھا اور جس پر استدلال کیا جارہا ہے وہ کثیر ہے تو دونوں میں فرق ہوگیا، اور جاری ہونا تو وہ بنفسہ معتبر ہے اس میں کثرت وقلت کا کوئی اعتبار نہیں، وقوع کے وقت میں، تو جب وہ جاری ہوا اسکی سطح سے حالانکہ وہ شیئ واحد ہے تو گویا کل جاری ہوا، تو اس پر اوپر والے کی طہارت کو قیاس کرنا درست نہ ہوگا کہ وہ کثرت پر مستقر ہے کیونکہ یہ جریان نہیں ہے۔


اقول اولا اذ احکمنا بطھارۃ الکل لاجل الجریان انقطع حکم وقت الوقوع فاذا وقف فکانما الاٰن وقع وھو حینئذ کثیر اذالعبرۃ للوجہ وما تحتہ تبعہ فما وقع الا فی الکثیر والفضل الاٰن بین الا علی والاسفل بالکثرۃ والقلۃ خروج عن حکم الواحدۃ وعلی ھذا یلزم تنجس الاسفل المستشھدبہ ایضا لان النجس الراسب لم یصل الیہ الاحین قلتہ ھف ۔


میں کہتا ہوں اولاً جب ہم نے کل کی طہارت کا حکم لگایا جاری ہونے کی وجہ سے تو گرنے کے وقت کا حکم منقطع ہوگیا، تو جب ٹھہرا تو گویا وہ ابھی گرا ہے اور اس وقت وہ کثیر ہے کیونکہ اعتبار سطح کا ہے، اور جو اس کے نیچے ہے وہ اُس کے تابع ہے توکثیر ہی میں واقع ہوا اور اعلیٰ اور اسفل میں اب کثرت وقلت کے اعتبار سے فرق کرنا وحدتِ حکم سے خروج ہوگا اور اس بنا پر نیچے والے کا نجس ہونا لازم آئیگا جس سے استشہاد بھی کیا گیا ہے کیونکہ نجاست راسبہ اس تک نہیں پہنچی ہے مگر قلت کے وقت یہ خلاف مفروض ہے۔


وثانیا لئن سلم فھذا مضر سیعود نافعا فان الماء الداخل حیث کان جاریا حتی الوصول الی المنتھی والصورۃ واحدۃ فقد جری الکل فانتفت النجاسۃ رأسا ان کانت غیر مرئیۃ وکذا لومرئیۃ وقد اخرجت فلا معنی لعودھا حین استقرارہ ولو علی القلۃ وانتقلت الی الاعلی الکثیر لو باقیۃ طافیۃ فلم یتنجس اذا استقر کثیرا وقد طھر ماتحتہ بالجریان فلا یبقی الا ما اذا کانت مرئیۃ باقیۃ راسبۃ وکلامھم مطلق حاو للصور قاطبۃ۔


اور ثانیاً اگر تسلیم کر لیا جائے تو یہ ہمارے لئے مضر ہے اور عنقریب نافع ہوجائیگا، کیونکہ داخل ہونے والا پانی جاری تھا یہاں تک کہ وہ اپنی انتہا کو پہنچا اور صورتِ واحدہ ہے تو کل جاری ہوگیا اور نجاست اگر غیر مرئیہ ہو اور اس طرح اگر مرئیہ نکال دی گئی ہو تو سرے سے ختم ہوجائیگی تو اس کے لوٹنے کے کوئی معنی نہیں جب کہ پانی ٹھہرا ہوا ہو اگرچہ کم ہی ہو اور وہ نجاست اوپر والے کثیر پانی کی طرف منتقل ہوگئی، اگرچہ وہ اوپر تیر رہی ہو، تو جب کثیر پانی ٹھہرا ہو تو وہ ناپاک نہ ہوگا اور اس کا نچلا حصہ پانی کے جاری ہونے کی وجہ سے پاک ہوگیا تو باقی نہ رہے گا مگر جو مرئی اور تہ میں باقی ہو اور ان کا کلام مطلق ہے اور تمام صورتوں کو شامل ہے۔ (ت(

ثالثا جواب چہارم میں عبارت(۲۸) فتح القدیر دربارہ حوضِ صغیر کہ بھرکر بھی ناپاک رہے گا اُسی عدم تسلیم جریان پر دال ور نہ نجاست غیر مرئیہ یا مرئیہ کہ نکال دی ضرور زائل ہوجاتی۔

رابعا تنبیہ جلیل میں منیہ(۲۹) ومحیط(۳۰) وحلیہ(۳۱) وخانیہ(۳۲) وہندیہ(۳۳) وذخیرہ(۳۴) کی عبارات ائمہ اجلہ علی سغدی(۳۵) ونصیر(۳۶) بن یحییٰ وخلف(۳۷) بن ایوب رحمہم اللہ تعالٰی کے ارشادات کہ ایک حوض سے دوسرے میں انتقال آب کے جریان ہونے کو اُن میں کچھ مسافت ہونا ضرور ورنہ اس میں سے نکل کر اُس کے جوف میں جاتے ہوئے اُس میں وضو کیا جائے تو وضو نہ ہوگا اگر بطن میں حرکت کو جریان مانتے تو جس وقت پانی اول سے دوم میں گر رہا اور یہاں سے منتہی تک بہ رہا ہے اُس میں وضو ضرور آبِ جاری میں وضو ہوتا بیچ میں فاصلہ مسافت کی ضرورت نہ ہوتی کما اشرنا الیہ ثمہ ان ۳۷ عبارتوں سے روشن کہ جمہور اس سیلان کو خود اُس آب داخل ہی کا جریان نہیں مانتے اور یہ اُنہیں وجوہ سے کہ بحث اول میں گزریں اشکال سے خالی نہیں۔اگر کہیے آبِ راکد کے کثیر وناقابل نجاست ہونے کے لئے صرف مساحت سطحِ آب یا طول وعرض دہ در دہ کافی نہیں بلکہ اتنا عمق(۱) بھی درکار ہے کہ اس میں سے پانی ہاتھ سے لیں تو زمین کھُل نہ جائے یہی صحیح ہے ہدایہ وغیرہا کتب کثیرہ اسی پر فتوٰی ہے ظہیرہ خلاصہ درایہ جوہرہ وغیرہا ولہٰذا(۲) فتاوی امام اجل قاضی خان پھر ہندیہ وغنیہ میں فرمایا: واللفظ لھا یعنی الفاظ غنیہ کے ہیں:


ان علا الماء من ثقب الجمد وانبسط علی وجہ الجمد وکان عشرا فی عشر فان کان بحیث لوغرف منہ لاینحسر ماتحتہ من الجمد لم(عہ۱) یفسد بوقوع المفسد وان کان ینحسر اوکان دون عشر فی عشر یفسد ۱؎ بہ۔


جب پانی برف کے سوراخ سے اوپر چڑھے اور پھیل جائے برف کی سطح پر اور پانی دہ در دہ ہو اس طور پر کہ اگر کسی نے چُلّو بھر کر اس سے پانی لیا اور اس کے نیچے برف نہ کھلی تو مفسد کے گرنے سے فاسد نہ ہوگا اور اگر نیچے والی برف کھل گئی یا وہ پانی دہ در دہ نہ تھا تو وہ پانی فاسد ہوجائیگا۔ (ت(


 (عہ۱) ولفظ الاولین جاز فیہ الوضوء والافلا اھ فلیتنبہ فستأتیک فائدتہ فی الرسالۃ الاٰتیۃ ان شاء اللّٰہ تعالی ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م(

پہلی دو کتابوں کے الفاظ یہ ہیں کہ اس میں وضو جائز ہے ورنہ نہیں اھ خبردار اس کا فائدہ آئندہ رسالہ میں آئے گا ان شاء اللّٰہ تعالٰی ۱۲ منہ غفرلہ۔ (ت(


 (۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    بحث عشر فی عشر    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۰۰)

تحفۃ الفقہاء وبدائع میں امام فقیہ ابو جعفر ہندوانی اور تبیین الحقائق میں دربارہ آب جاری امام ابو یوسف سے اور عبدالحلیم علی الدرر وجامع الرموز میں تصریح کی کہ دونوں ہاتھوں سے پانی لینا مراد ہے یعنی لپ بھر کر لینے میں نہ کھُلے اور قہستانی سے مفہوم کہ اُس کا اندازہ، پانچ انگل دَل ہے۔


حیث قال (ان کان) وجہ الماء (عشرا فی عشر لاینحسر ارضہ بالغرفۃ) ای یرفع الماء بالکفین وھذا قول بعض المشائخ فی تقدیر العمق وعلیہ الفتوی کما فی الخلاصۃ وھو علی مااختارہ من المقدارین والعمق الذی ھو خمس اصابع تقریبا ۱؎ الخ


قہستانی نے کہا کہ اگر پانی کا بالائی حصہ ایسا دہ در دہ ہو کہ چُلّو بھرنے سے پانی کی زمین نہ کھلے یعنی دونوں ہاتھوں سے پانی اٹھانے سے۔ اور عمق کی مقدار میں یہ بعض مشائخ کا قول ہے اور اسی پر فتوٰی ہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے، اور یہ وہ ہے جس کو مقداروں میں سے اختیار کیا ہے، اور عمق تقریباً پانچ انگل ہے الخ (ت(


 (۱؎ جامع الرموز    بحث عشر فی عشر    مطبہ کریمیہ قزان، ایران    ۱/۴۸)


اقول وھو تقریب قریب مشھودلہ بالتجربۃ (یہ اچھی تقریب ہے تجربہ اس پر گواہ ہے۔ ت) تو آبِ کثیر ہونے کو یہ چاہئے کہ سو ہاتھ مساحت میں تقریباً پانچ انگل دَل کا پانی پھیلا ہوا ہو کہیں اس سے کم دل نہ ہو تالاب یا حوض کہ بارش کے بہاؤ یا چرخ وغیرہ سے بھرتے ہیں ان کی دھار کبھی اتنی نہیں ہوتی کہ تالاب یا حوض میں گر کر تمام سطح مطلوب پر اُس کنارے تک معاً پانچ اُنگل پانی چڑھادے پانی بالطبع طالب مرکز ہے اُس کے اجزاء زیروبالا اُسی وقت تک رہ سکتے ہیں کہ اوپر کے اجزاء ڈھلکنے کی جگہ نہ پائیں جب محل پائیں گے فوراً اتر کر پھیل جائیں گے پرنالے سے جتنے دَل کی دھار اُتر رہی ہے زمین پر آکر ہرگز اُتنے دل پر نہ رہے گی معاً پھیلے گی یہی سبب ہے کہ مثلاً حوض میں ایک پورے کنارے سے پانی جس حجم کا اتارے باآنکہ مدد برابر جاری اور حوض کے سارے عرض میں معاً ساری ہے تو چاہئے تھا کہ یہی حجم آخر تک محفوظ رہتا اور دوسرے کنارے پر معاً اُتنے دَل کا پانی ہوجاتا مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ اُس کنارے پر بتدریج بڑھتا ہے اور اوپر گزرا کہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر یہ جریان ٹھہر جاتا ہے تو مساحت کی کثرت کیا نفع دے گی جبکہ معاً پانچ انگل دَل نہ ہو بتدریج ہوا تو ہر وقت آب قلیل ہے اتنا ناپاک ہوگیا اور آیا وہ بھی یونہی کم تھا یونہی ناپاک ہوا یہاں تک کہ حوضِ کبیر بھر گیا اور ناپاک ہی رہا۔ ہاں عظیم سیلابوں میں اتنے اور اس سے زیادہ حجم کا پانی اُس کنارے پر معاً چڑھتا ہے مگر وہ دم کے دم میں تالاب کو بھر کر اُبال دیں گے تو اس صورتِ نزاع میں رہے گا ہی نہیں اور بالفرض اگر کبھی ایسی صورت ہو کہ اُتنے عظیم بہاؤ کا پانی آئے اور کنارے ہی پر رک رہے تو یہ بغایت نادر ہے اور احکامِ فقہیہ میں نادر کا لحاظ نہیں ہوتا۔ یہ ہے اُس حکم دائر سائر کا منشا اور یہ ہے اُس تعلیل کا مفاد کہ کل مادخل صار نجسا یہ ہے وہ غایت عذر کہ تالاب میں باہر سے آنے والے پانی کو جاری مان کر بھی بحال نجاست مرئیہ باقیہ تمام تالاب کو ناپاک ٹھہرائے کتنا ہی کبیر ہو اگرچہ مسئلہ حوضین ومسئلہ نجاست غیر مرئیہ یا مرئیہ مخرجہ کا اب بھی جواب نہ ہوا۔

اقول مگر اس تقریر پر وہ صورت وارد ہے کہ اگر پانی تالاب میں داخل ہوکر پہلے دہ در دہ ہو لیا پھر نجاست سے ملا تو ناپاک نہ ہوگا کہ وہ دہ در دہ سہی پانچ اُنگل دَل بھی تو درکار۔

اگر کہیے ملنے سے پہلے اُس پُوری مساحت میں اُتنا دَل پیدا ہونا بعید نہیں کہ پھیلنا تو بہتے میں ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ ملنے سے پہلے کہیں ٹھہر کر دَل پیدا کرلے پھر ملے۔ یہی سِرہے کہ صورتِ مذکورہ خانیہ میں ان لفظوں سے ارشاد ہوئی:


واجتمع الماء فی مکان طاھر وھو عشر فی عشر ۱؎۔ اور پانی پاک جگہ اکٹھا ہوگیا اور وہ دہ در دہ ہے۔ (ت(


 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    فصل الماء الراکد    نولکشور لکھنؤ        ۱/۴)


خلاصہ میں:ان کان الماء الذی یدخل فی الغدیر یستقر فی مکان طاھر حتیٰ صار عشرا فی عشر ۲؎۔ اگر وہ پانی جو تالاب میں داخل ہورہا ہے پاک جگہ ٹھہر گیا یہاں تک کہ دہ در دہ ہوگیا۔ (ت(


 (۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی    فصل فی الحیاض     نولکشور لکھنؤ       ۱/۵)


فتح القدیر وبحرالرائق میں:انکان دخل فی مکان طاھر واستقر فیہ حتی صار عشرا فی عشر ۳؎۔ اور اگر پاک جگہ پانی داخل ہو کر ٹھہر گیا یہاں تک کہ وہ دہ در دہ ہوگیا۔ (ت(


 (۳؎ فتح القدیر        الغدیر العظیم        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۷۱)


ذخیرہ وحلیہ میں:انکان الماء الذی یدخل الغدیر ولایستقر فی مکان طاھر حتی یصیر عشرا فی عشر ۱؎۔ اگر وہ پانی جو تالاب میں داخل ہوتا ہے داخل ہوتے ہی پاک جگہ نہیں ٹھہرتا ہے یہاں تک کہ دہ در دہ ہوجائے۔ (ت(


 (۱؎ حلیہ)


ورنہ صرف دہ در دہ ہونے کیلئے کسی مکان میں ٹھہر کر جمع ہولینا کیوں درکار ہوتا۔

اقول اس وقت کا دَل کیا فائدہ دے گا جبکہ اُسے آگے بڑھ کر نجاستوں سے ملنا ہے بڑھے گا پھر اُسی بہنے پھیلنے سے جو اُس میں وہ حجم نہ رہنے دیں گے۔ 

اگر کہیے اتصال نجاست یوں بھی ممکن کہ آبِ نجس بڑھ کر اُس سے ملے۔

اقول یہ تصویر مفروض کے خلاف ہے اور خانیہ میں الفاظ مذکورہ کے بعد تصریح ہے: ثم تعدی الی موضع النجاسۃ ۲؎  (پھر نجاست کی جگہ تک تجاوز کر جائے۔ ت)


 (۲؎ قاضی خان    الماء الراکد        نول لکشور لکھنؤ        ۱/۴)

بقیہ کتب مذکورہ میں ہے: ثم انتھی الی النجاسۃ (عہ۱) ۳؎  (پھر نجاست تک پہنچ جائے۔ ت)


 (عہ۱)تنبیہ اس مسئلہ کی تحقیق جلیل رسالہ ہبۃ الحبیر میں آتی ہے وہاں سے بتوفیقِ الٰہی یہ توفیق ظاہر ہوگی کہ پانی کے فی نفسہ کثیر ہونے کیلئے عمق درکار نہیں صرف اتنا ہو کہ زمین کہیں کھلی نہ ہو اور یہ جو اتنا عمق شرط کیا گیا کہ پانی لینے سے زمین نہ کھلے اُس حالت میں ہے کہ اُس کے اندر وضو وغسل کریں اس تقدیر پر توجیہ مذکور کی گنجائش ہی نہیں واللہ تعالٰی اعلم ۲۱ منہ غفرلہ (م(


 (۳؎ بحرالرائق        ابحاث الماء    ایچ، ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۷۷)


بالجملہ کلمات جمہور کسی طرح اُس آنے والے پانی کا بھی بطن حوض میں جریان درست نہیں آتا۔

وانا اقول: وباللہ التوفیق تحقیق(۱) یہی ہے کہ وہ جاری نہیں ورنہ اگر مثلاً نصف لوٹے میں ناپاک پانی ہو جس میں نجاست غیر مرئیہ ہو یا مرئیہ تھی اور نکال دی اُس کے بعد لوٹا بھر دیا اور کناروں سے کچھ نہ نکلا بلکہ بھرا بھی نہیں کچھ پانی ڈال دیا جو اُس کے ایک کنارے سے دوسرے تک بہہ گیا تو چاہئے کہ سب پانی اور لوٹا پاک ہوجائے کہ جریان ہوگیا اور وہ نجاست غیر مرئیہ کو فنا کر دیتا ہے اور اُس میں کوئی مساحت شرط نہیں اور بعد فنائے نجاست قلت پر استقرار کیا مضر حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں یہ مشائخ کہ خروج اصلا شرط نہیں کرتے اُن کا کلام بھی حوض کبیر میں ہے ولہٰذا منیہ وذخیرہ ونظم زندویسی میں فرمایا اذا کان ۴؎ الحوض کبیرا


 (۴؎ منیۃ المصلی    فصل فی الحیض    مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۶۷)


بزازیہ میں بظاہر حوض کو صفت کثرت سے مطلق رکھ کر فرمایا: ثم دخل ماء کثیر ۱؎ (پھر کثیر پانی داخل ہو۔ ت) غنیہ میں اُن کے حکم کی تعلیل یوں فرمائی:

(قیل لیس بنجس) لکونہ کبیرا ۲؎ الخ کما تقدم کل ذلک۔(کہا گیا ہے کہ یہ نجس نہیں ہے) کیونکہ یہ بڑا ہے الخ جیسا کہ یہ سب کچھ پہلے گزر چکا ہے۔ (ت(


 (۱؎ بزازیہ مع الہندیہ    نوع فی الحیض    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/۸)

(۲؎ غنیہ المستملی    عشر فی عشر        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۰۱)


تویہ اعتراض بھی اسی قول دوم پر رہا مگر یہ اُن کا کلام مرئیہ باقیہ سے مخصوص کیا جائے۔ اب رہے وجوہ ثلثہ مذکورہ بحث اول اقول وبہ استعین جو ظرف حبس وحفظ آب کیلئے ہو اُس میں پانی کی حرکت عرفاً جریان نہیں کہلاتی مشک کی تہ میں کٹورا بھر پانی ہو اسے دہانہ باندھ کر زیروبالا کیجئے کہ پانی اِدھر سے اُدھر جائے اسے کوئی جاری ہونا نہ کہے گا۔ جب دہانے سے نکل کر بہے گا اب کہیں گے کہ پانی بہا یہاں سے تینوں وجوہ کا جواب ہوگیا کہ بطن ظرف میں متحرک کو عرفاًجاری نہیں کہتے اور مکان اور اس کی دیواریں کوئی ظرفِ آب نہیں اور نہر ظرف ہے مگر نہ ظرف حبس بلکہ محلِ جریان بخلاف تالاب اور حوض کے، اگرچہ کبیر ہو، تو بحمداللہ تعالٰی قول جمہور ہی پر عرش تحقیق مستقر ہوا اور کیوں نہ ہو کہ:


العمل علی قول الاکثر ویداللّٰہ علی الجماعۃ ھذا کلہ ما فاض علی قلب الفقیر، من فیض اللطیف الخبیر، مع تشتت البال، وتراکم البلبال،و ہجوم الحساد ،بانواع الفساد، واللّٰہ المستعان، وعلیہ التکلان، ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم، وحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل، نعم المولیٰ ونعم النصیر،             

        عدت العادون وجاروا ورجوت اللّٰہ عجیرا                     وکفٰی باللّٰہ ولیا وکفٰی باللّٰہ نصیرا


عمل اکثر کے قول پر ہی ہوتا ہے، اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہی ہوتا ہے، یہ سب کچھ فقیر کے دل پر اُترا، مہربان باخبر خدا کے فیض کرم سے ہے، حالانکہ طبیعت پر اگندہ اور پیہم مصائب میں گرفتار ہوں اور حاسدوں نے الگ کئی قسم کے فساد برپا کر رکھے ہیں اللہ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے اور اسی پر بھروسا کیا جاتا ہے اور طاقت وقوت اللہ ہی سے ملتی ہے جو بلند اور باعظمت ہے، ہمیں اللہ کافی ہے اور معتبر کارساز ہے، بہترین آقا اور بہترین مددگار ہے دشمنوں نے حد سے تجاوز کیا اور ظلم کیا۔ اور میں اللہ کے کرم کی امید کرتا ہوں حالتِ انکساری میں اور اللہ کافی کارساز ہے اور اللہ کافی مددگار ہے


ومما قلت فیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، مستجرا بذیلہ الاکرم،

رسول اللہ انت المستجاب     فلا اخشی الا عادی کیف جاروا

بفضلک ارتجی ان عن قریب تمزَّق کیدھم والقوم باروا


میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان اقدس میں آپ کے دامن کی پناہ حاصل کرنے کیلئے یہ اشعار کہے ہیں اے اللہ کے رسول! آپ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے، تو اب مجھے دشمنوں کا کچھ خوف نہیں کہ وہ کیا ظلم ڈھائیں گے، مجھے آپ کے فضل سے امید ہے کہ عنقریب ان کا مکر پارہ پارہ ہوجائیگا اور وہ ہلاک ہوجائیں گے۔

وقلت؎


رسول اللّٰہ انت بعثت فینا کریما رحمۃ حصنا حصینا تخوّفنی العدٰی کیدا متینا


اور عرض کیا ہے اے اللہ کے رسول! آپ ہم میں مبعوث کئے گئے رحمت بنا کر اور مضبوط قلعہ بناکر۔ مجھے دشمن اپنی مضبوط چالوں سے ڈراتے دھمکاتے ہیں


اجرنی یا امان الخائفینا


اے خوفزدہ لوگوں کی پناہ! مجھے پناہ دیجئے۔


ومما قلت قدیما فی ربیع الاٰخر سنۃ الف وثلثمائۃ فرأیت الاجابۃ فوق العادۃ، وفوق المطلب والارادۃ، سریعا فی الساعۃ وللّٰہ الحمد ابدا، وارجو مثلہ سرمدا۔


اور اس سے پہلے ربیع الآخر ۱۳۰۰ھ میں کہا تھا تو امید سے فزوں ترحیرت انگیز طور پر میری مرادیں پُوری ہوگئیں وللہ الحمد، خدا کرے ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے۔


الحمد للمتوحد        بجلالہ المتفرد

وصلاتہ دوما علی     خیرا لانام محمد

والاٰل والاصحاب ھم     مأوای عند شدائدی    

فالی العظیم توسلی     بکتا بہ وبا حمد

وبمن(عہ۱) اٰتی بکلامہ     وبمن ھدی وبمن ھدی

وبطیبۃ وبم جَوَت        وبمنیر وبمسجد


تمام تعریفیں خدائے یکتا کو سزاوار ہیں جو اپنے جلال میں یکتا ہے، اور اس کی رحمتیں مدام، بہترین مخلوق محمد پر نازل ہوں، اور آل واصحاب پر، جو سختیوں میں میری پناہ گاہ ہیں، تو خداوند عظیم کی بارگاہ میں، میں وسیلہ لاتا ہوں، اس کی کتاب اور احمد کا۔ اور ان کا جو اللہ کے کلام کولائے اور جنہوں نے ہدایت دی اور جن سے ہدایت لی جاتی ہے، اور مدینہ منورہ کو اور ان کو جو مدینہ میں رہتے ہیں، اور منبر اور مسجد شریف کو


 (عہ۱)ھو جبریل علیہ الصلاۃ والسلام ونبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وحملۃ القرآن من اٰلہ وصحبہ وامتہ (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلم) ۱۲ منہ غفرلہ (م(

اور وہ جبریل علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حاملینِ قرآن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آل، اصحاب اور امت میں سے ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت(


وبکل من وجد الرضا    من عند رب واجد        

لاھمّ (عہ۱) قدھجم العدای    من کل شأوٍ ابعد

فی خیلھم ورجالھم    مع کل عاد معتد

ھاوین زلۃ مثبتٍ        باغین ذلۃ مھتد

لکنَّ عبدک اٰمن        اذمن دعاک یؤید

لااختشی من باسھم    یدناصری اقوی ید

لاھُمَّ فادفع شرھم    وقنی مکیدۃ کائد

وآدِم صلاتک والسلا    م علی الجیب الاجود

والاٰل امطار النَّدا        والصحب سحب عوائد

ماغرّدَتْ ورقا علی    بانٍ کخیر مغرِّد

واجعل بھا احمد رضا    عبدا بحرز السید


واللّٰہ تعالی وتبارک، صلی وسلم وبارک، علی المولی الکریم المبارک، واٰلہ وصحبہ، وابنہ وحزبہ، صلاۃُ تخل العقد، تُحِلُّ المدد، وتقینا شرحاسد اذا حسد، ومکرحا قد اذا حقد، وضر عاند اذا عند، بحرمۃ قل ھو اللّٰہ احدo اللّٰہ الصمدo لم یلد ولم یولدo ولم یکن لہ کفوا احدo والحمدللّٰہ رب العالمین الی الابد، واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔


اور ان تمام کو جنہیں خوشنودی میسر آئی رب کی جانب سے۔ اے اللہ ! دشمنوں نے مجھ پر ہلّہ بول دیا ہے ہر دُوری سے ان کے پیادوں اور ان کے سواروں نے، ہر حد سے تجاوز کرنے والے ظالم نے، جو ثابت قدم کی لغزش کی امید کرتے ہیں، اور ہدایت یافتہ کی ذلت کے خواہاں ہیں، مگر آپ کا غلام بے خوف ہے کیونکہ جو آپ کو پکارتا ہے اس کی تائید کی جاتی ہے، میں ان کی طاقت وقوت سے خوفزدہ نہیں۔ میرے مددگار کا ہاتھ مضبوط تر ہے۔ یا اللہ! ان کے شر کو دفع کردے، اور مکار کے مکر سے مجھے بچالے، اور اپنے صلوٰۃ وسلام کو سخی تر حبیب پر ہمیشہ نازل فرما، اور اُن کی آل پر جو جُود وسخا کی بارش ہیں، اور اصحاب پر جو فوائد کے بادل ہیں، جب تک قمریاں بان کے درخت پر بہترین گانے گاتی رہیں۔

اور اس صلوٰۃ وسلام کے طفیل احمد رضا کو، آقا کا امان یافتہ غلام بنادے۔

اور اللہ تبارک وتعالٰی صلوٰۃ وسلام اور برکتیں نازل فرمائے آقا، کریم اور مبارک پر، اور ان کی آل واصحاب اور بیٹے اور ان کی جماعت پر، وہ صلوٰۃ جو گرہوں کو کھول دے اور مدد عطا کردے، اور ہمیں حاسدوں کے حسد سے اور کینہ پروروں کے کینوں سے اور سرکشوں کی شرارت سے بچادے، بطفیل قل ھو اللہ احد۔۔۔الخ کے، واللہ سبحانہ، وتعالٰی اعلم۔ (ت(

(عہ۱) لغۃ فی اللھم ۱۲ منہ غفرلہ (م(

اَللّٰھُمَّ میں ایک لغت ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت(


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے