مسئلہ ۷۱: جناب مولوی صاحب۔ السلامُ علیکم۔ غوطہ خور ہندو تھا اور سب کپڑے اتار کر اُس نے ایک چھوٹا سا کپڑا جو اُسی کے استعمال میں رہتا ہے باندھ کر ایک ڈول اُس کنویں کے پانی کا جس میں وہ جُوتی نکالنے کو گیا تھا بلا ادائے ارکان غسل ڈال لیا تھا پس وہ کنویں میں گھُس کر جُوتی نکال لایا اور ایک جُوتی پہلے کی بھی جو خدا جانے کب گری تھی وہ بھی نکلی جو گل سڑ گئی تھی ایسی حالت میں کتنے ڈول پانی کنویں میں سے نکلوانا چاہئے بعد گرنے جوتی کے اگر اُس کنویں کا پانی ظروف گلی مثل سبو وغیرہ میں غلطی سے بھرا گیا تو ظروف قابلِ استعمال رہے یا نجس ہوگئے فقط والسلام۔
الجواب: عنایت فرمائے من وعلیکم السّلام اگر یقینا معلوم تھا کہ اس ہندو کے بدن یا کپڑے یا اُس جُوتے پر نجاست تھی تو کنویں کا سب پانی نکلوائیں اور مٹی کے جو برتن چکنے استعمالی ہوں تین بار یوں ہی دھوئیں ورنہ ہر بار سکھا سکھا کر اور خشک ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اتنی تری نہ رہے کہ ہاتھ کو تر کرے اور اگر ان چیزوں میں کسی کا نجس ہونا یقینا معلوم نہیں جب بھی احتیاطی حکم یہی ہے کہ سب پانی نکالیں اس لئے کہ کافر غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتا ہاں اگر بدن پاک کرکے خوب نہا کر پاک کپڑا باندھ کر جائے تو سب پانی کی حاجت نہیں جُوتے کی نامعلوم حالت کے لحاظ سے تطییب قلب کو بیس۲۰ ڈول نکال لیں ردالمحتار میں ہے: نقل فی الذخیرۃ عن کتاب الصلاۃ للحسن ان الکافر اذا وقع فی البئر وھو حی نزح الماء وفی البدائع انہ روایۃ عن الامام لانہ لایخلو عن نجاسۃ حقیقیۃ اوحکمیۃ حتی لواغتسل فوقع فیھا من ساعتہ لاینزح منھا شیئ اقول ولعل نزحھا للاحتیاط تأمل ۱؎ اھ ]
امام حسن کی کتاب الصلوۃ سے ذخیرہ میں نقل کیا گیا کہ کافر جب کنویں میں گرجائے اور زندہ ہو تو پانی نکالا جائے گا، اور بدائع میں ہے کہ یہ امام صاحب سے مروی ہے۔ کیونکہ کافر عام طور پر نجاستِ حقیقی یا حکمی سے خالی نہیں ہوتا، حتی کہ اگر وہ غسل کے فوراً بعد کنویں میں گِرا ہو تو کچھ پانی نہیں نکالا جائےگا۔ میں کہتا ہوں کہ کافر کے گرنے سے کنویں کے پانی نکالنے کا حکم احتیاط پر مبنی ہے، غور کرو۔ اھ (ت)
طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں تاتارخانیہ سے ہے:
(سئل) الامام (الخجندی عن رکیۃ) وھی البئر (وجد فیھا خف) ای نعل تلبس ویمشی بھا صاحبھا فی الطرقات (لایدری متی وقع فیھا ولیس علیہ اثر النجاسۃ ھل یحکم بنجاسۃ الماء قال لا ۱؎) اھ۔ ملخصا۔
امام خجندی سے ایسے کنویں کے بارے میں پوچھا گیا جس میں ایساجُوتا گرا پایا گیا جس کو پہننے والے نے راستے میں چل پھر کر استعمال کیا ہو (اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کب سے کنویں میں گرا ہے جبکہ اس پر نجاست کا بھی کوئی اثر معلوم نہ ہو۔ تو کیا کنویں کے پانی کو ناپاک قرار دیا جائےگا، تو امام خجندی نے فرمایا: نہیں اھ ملخصا۔ (ت)
(۱؎ حدیقۃ ندیۃ الصنف الثانی من الصنفین من الطہارۃ نوریہ رضویۃ فیصل آباد ۲/۶۷۴)
خانیہ میں ہے:لو وقعت شاۃ واخرجت حیۃ ینزح عشرون دلوا لتسکین القلب لاللتطھیر حتی لولم ینزح وتوضأ منہ جاز وذکر فی الکتاب الاحسن ان ینزح منھا دلاء ولم یقدر وعن محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی کل موضع ینزح لاینزح اقل من عشرین دلوالان الشرع لم یرد بنزح مادون العشرین ۲؎ اھ۔ والسلام واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اگر کنویں میں بکری گر جائے اور زندہ نکال لی جائے تو تسکین قلب کیلئے بیس۲۰ ڈول نکالے جائیں، پاک کرنے کیلئے نہیں حتی کہ اگر کسی نے بیس ڈول نکالے بغیر وضو کرلیا تو جائز ہوگا کتاب میں مذکور ہے کہ بہتر یہ ہے کہ کچھ ڈول نکالے جائیں یہاں تعداد بیان نہیں کی۔ اور امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ جہاں پر کنویں کو پاک کرنے کی ضرورت ہو تو وہاں بیس۲۰ ڈول سے کم نہ نکالے جائیں کیونکہ شریعت نے بیس۲۰ سے کم ڈول بیان نہیں کئے اھ، والسلام واللہ اعلم۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خان فصل فی مایقع فی البئر نولکشور لکھنؤ ۱/۵)
0 تبصرے