Music

header ads

ایک کُنویں میں پُھکنا گر گیا اُس وقت اُس میں پیشاب نہ تھا Kunwen me Peshab ya Phonkna

 مسئلہ ۷۰:    یکم رجب ۱۳۱۱ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک کُنویں میں پُھکنا گر گیا اُس وقت اُس میں پیشاب نہ تھا بلکہ بچّے اُس میں پھُونک رہے تھے اُن کے ہاتھ سے گر گیا یہ معلوم نہیں کہ گائے کا ہے یا بھینس کا پھکنا نکال لیا گیا اب کُنویں کی نسبت کیا حکم ہے۔ بینوا توجروا۔


الجواب:کنواں پاک ہے کہ مذبوح جانور ماکول اللحم کا پھکنا بالاتفاق اپنی ذات میں تو کوئی نجاست نہیں رکھتا، فی الدرالمختار کل اھاب ومثلہ المثانۃ والکرش دبغ طھر وفی التنویر وماطھر بہ طھر بذ کا ۃ ۱؎۔


درمختار میں ہے ہر چمڑہ اور ایسے ہی مثانہ اور گُردے جب رنگ دیے جائیں تو پاک ہوجاتے ہیں اور تنویر میں ہے جو اس طرح پاک ہوجاتے وہ ذبح سے بھی پاک ہوجاتے ہیں۔ (ت)یہاں اگر ذبح ہونا معلوم نہیں تو مُردار سے ہونا بھی معلوم نہیں،


 (۱؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مجتبائی دہلی        ۱/۳۸)


والیقین لایزول بالشک ۲؎ اقول والمحل محل الطھارۃ والنجاسۃ دون الحل والحرمۃ فافھم۔ اور یقین، شک کی وجہ سے زائل جنہیں ہوتا، میں کہتا ہوں اور یہ محلِ طہارت ہے اور نجاست حلال وحرام کا محل نہیں ہے فافہم (ت)


 (۲؎ غنیۃ المستملی    فصلی فی البئر    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۶۰)


رہا یہ کہ اس میں پیشاب ہوتا ہے اور عادۃً اُسے پاک کرنے کے طور پر دھویا نہیں جاتا تو اس کے باطن میں وہ رطوبت بدستور لگی رہی یہ یہاں کچھ مضر نہیں کہ پھکنا معدنِ بول ہے اور نجاست جب تک اپنے معدن میں ہو اُسے حکمِ نجاست نہیں دیا جاتا اُس کے جوف میں کوئی ناپاک شے نہ تھی۔ غنیہ میں ہے:


السخلۃ(۱) اذا وقعت من امھا، رطبۃ فی الماء لاتفسدہ کذا فی کتب الفتاوٰی وھذا لان الرطوبۃ التی علیھا لیست بنجسۃ لکونھا فی محلھا ۱؎ اھ اقول مقصودنا الاستشھاد بما فی التعلیل افاد اما المسألۃ فمبنیۃ علی قولھما بنجاسۃ رطوبۃ الفرج اماعندہ(۱) رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وعنھما فطاھرۃ۔


بکری کا بچّہ اگر پیدا ہوتے ہی پانی میں گِر جائے تو پانی نجس نہ ہوگا۔ کتبِ فتاوٰی میں ایسے ہی ہے یہ اس لئے کہ بچّے پر جو رطوبت ہے وہ ناپاک نہیں کیونکہ ابھی تک یہ نجاست اپنے محل میں ہے اھ میں کہتا ہوں کہ اس عبارت کا مقصد صرف علّت کیلئے مفید امر پر استشہاد پیش کرنا ہے لیکن اصل مسئلہ صاحبین کے اس قول پر مبنی ہے کہ فَرج (شرمگاہ) کی رطوبت نجس ہے مگر امام صاحب اور ایک روایت میں صاحبین کے نزدیک یہ رطوبت پاک ہے۔ (ت)


ثم اقول ولی(۲) فیہ نظر فان جلد السخلۃ لیس محل تلک الرطوبۃ بل رحم امھا ومنھا اصابتہ ثم یعکر(۳) علی حکم ھذہ المسألۃ ومسألۃ المثانۃ وامثالھما انھا لیست نجسۃ مادامت فیھا فاذا انتقلت صارت نجسۃ والماء اذا اصابھا اودخلھا فلاشک ان الرطوبۃ تنتقل منھا الیہ فکیف لایحکم بنجاسۃ لاختلاطہ بماھو نجس الاٰن وان لم یکن محکوما بالنجاسۃ قبل الاتری ان دم(۴) الشھید طاھر مادام علیہ فتجوز صلاۃ حاملہ لکن ان اصابہ اوثوبہ قدر مانع من دمہ لم تجز لحصول الانفصال والانتقال کذا ھذا فھذا مایقتضیہ النظر ولکن الحکم دوار فی الفتاوٰی ولم ارمن تعرض لہ فتأمل وحرر لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا۔ واللّٰہ تعالی اعلم۔


پھر میں کہتا ہوں کہ مجھے یہاں اعتراض ہے کیونکہ بکری کے بچّے کی کھال اس رطوبت کا محل نہیں ہے بلکہ اس کا محل تو اس کی ماں کا رحم ہے وہاں سے بچّے کو رطوبت لگی ہے پھر دوبارہ اعتراض اس مسئلہ سمیت مثانہ وغیرہ کے مسئلہ پر ہے کہ یہ اُس وقت تک نجس نہ ہوں گے جب تک یہ اپنے مقام میں ہیں لیکن جب وہاں سے منتقل ہوجائیں تو نجس ہوجائینگے اور ان کو پانی لگے یا اس میں پانی داخل ہو تو لازماً ان کی رطوبت پانی میں منتقل ہوگی تو پھر کیسے پانی کو پاک کہا جاسکتا ہے جبکہ اب ناپاک چیز مل چکی ہے اگرچہ قبل ازیں اسی چیز پر ناپاکی کا حکم نہ تھا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ شہید کا خون جب تک اس پر ہے پاک ہے لہذا اس کو اٹھانے والے کی نماز جائز ہوگی لیکن جب یہ خون اٹھانے والے کے بدن یا کپڑے کو اتنی مقدار میں لگ جائے جو نماز کے لئے مانع ہو تو نماز جائز نہ ہوگی کیونکہ وہ خون شہید سے جُدا ہوکر دوسری جگہ منتقل ہوگیا ہے لہذا ظاہر نظر میں یہاں بھی یہی صورت ہے لیکن فتاوٰی میں یہ حکم ایسے ہی مذکور چلا آرہا ہے مگر کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی، غور کرو اور چھان بین کرو، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالٰی اس کے بعد کوئی حل نکال دے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)


 (۱؎ غنیۃ المستملی         باب الانجاس        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۵۰)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے