Music

header ads

بیچنے والا پانی اگر مثل قیمت میں یا کچھ زیادہ کرکے فروخت کرے تو تیمم جائز نہیں Tayyamum Ke Masala

 مسئلہ ۱۰۰:    مرسلہ مولوی اللہ یار خان صاحب ازمکان منشی حبیب اللہ صاحب تحصیلدار کھنڈوا ضلع نماڑ ملک متوسط ۴ ربیع الاوّل ۱۳۰۸ھ۔

جناب فيض مآب حاوی معقول ومنقول کاشف دقائق فروع واصول جناب مولوی محمد احمد رضا خان صاحب ادام اللہ فيضہم وظلہم وبرکاتہم بعرض مستفيدان حضور ایک عبارت دریافت معنے کیلئے حاضر کی جاتی ہیں۔ ان باعہ بمثل القیمۃ اوبغبن یسیر لایجوز لہ التیمم وان باع بغبن فاحش تیمم والغبن الفاحش مالایدخل تحت تقویم المقومین وقال بعضھم تضعیف الثمن ۳؎۔


بیچنے والا پانی اگر مثل قیمت میں یا کچھ زیادہ کرکے فروخت کرے تو تیمم جائز نہیں اور اگر غبن فاحش کے ساتھ (بہت بڑھا کر) بیچے تو تیمم کرے۔ غبن فاحش یہ ہے کہ کسی چیز کے ماہرین اگر قیمتیں لگائیں تو اتنی زیادتی کے ساتھ اس کی قیمت نہ لگائیں۔ اور بعض حضرات نے کہا کہ غبن فاحش کا معنی ہے قیمت دوگنا کردینا۔ (ت)


 (۳؎ منیۃ المصلی    فصل فی التیمم            مکتبہ قادریہ جامع نظامیہ رضویہ لاہور    ص۵۰)


ایک ولایتی صاحب مدِّ مقابل ہیں جو معنی مجھے ازراہِ درس معلوم ہیں بیان کرتا ہوں قبول نہیں کرتے لہٰذا استفادہ کرتا ہے کہ مثل قیمت وغبن یسیر وغبن فاحش وتقویم مقومین کے معنی اردو میں ارشاد فرمائیں کہ بے علم بھی مستفيض ہوں والتسلیم۔


الجواب: مثل(۲) قیمت بازار کا بھاؤ اور غبن یسیر نرخ بازار سے تھوڑا بل اور فاحش بہت اور تقویم قیمت لگانا جو چیزاُس کے مبصروں کے سامنے قیمت لگانے کیلئے پیش کی جائے وہ عادتاً تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ تقویم میں اختلاف کرسکتے ہیں مثلاً دس۱۰ روپے کی چیز کے کوئی پُورے دس۱۰ کہے گا کوئی ساڑھے نو کوئی ساڑھے دس یہ نہ ہوگا کہ دس۱۰ کسی چیز کے پانچ۵ یا پندرہ۱۵ کہہ دیں اس تھوڑے تفاوت کو داخل فی تقویم المقومین کہتے ہیں اب مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس پانی نہ ہو اور بے قیمت نہ ملے اور قیمت حاجاتِ ضروریہ سے فارغ اُس کی ملک میں ہو اگر پاس موجود ہے فبہا ورنہ پانی وعدہ پر مل سکے کہ مثلاً گھر پہنچ کر قیمت بھیج دُوں گا تو ایسی حالت میں تیمم جائز نہیں پانی مول لے کر وضو یا غسل واجب بشرطیکہ بیچنے والا یا تو مثل قیمت کو دے یا بَل کرے تو تھوڑا سا جسے غبن یسیر کہتے ہیں ورنہ اگر غبن فاحش یعنی زیادہ بَل سے دیتا ہے تو خریدنا ضرور نہیں شرع تیمم جائز فرمائے گی یہاں روایات مختلف ہوئیں کہ اس غبن یسیر وفاحش کی حد کیا ہے بعض کے نزدیک اُتنا بَل کہ تقویم مقومین میں پڑسکتا ہے غبنِ یسیر ہے اور اس سے زیادہ غبنِ فاحش۔


وھذا ھو الذی قدمہ فی مراقی الفلاح وعبر عن الاٰتی بقیل ومثل ذلک عبارۃ المنیۃ المذکورۃ فی السؤال وقد قال فی الغنیۃ انہ الاوفق لدفع الحرج ۱؎۔ اسی کو مراقی الفلاح میں پہلے ذکر کیا اور اگلے قول کو قیل سے تعبیر کیا ہے، اسی کے مثل منیۃ المصلی کی وہ عبارت ہے جو سوال میں ذکر ہوئی۔ اور غنیہ میں کہا کہ یہی قول دفعِ حرج اور ازالہ تنگی ومشقّت سے زیادہ موافقت ومطابقت رکھتا ہے (ت) (اور دفع حرج کا شریعت میں خاص لحاظ ہے)


 (۱؎ غنیۃ المستملی    باب التیمم    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۷۰)


اس روایت پر جس جگہ اُس قدر پانی کی قیمت دس۱۰ پیسے ہو اور بیچنے والا ساڑھے دس کو دے تو خریدنا واجب اور تیمم ناجائز اور زیادہ مثلاً بارہ۱۲ یا گیارہ۱۱ کو دے تو تیمم ناجائز مگر اظہر واشہر والیق بالعمل وہ قول ہے جو امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نوادر میں منقول ہوا کہ یہاں دُونی قیمت کا نام غبنِ فاحش ہے اور اُس سے کم غبنِ یسیر مثلاً اُتنا پانی اُس مقام کے بازاری نرخ سے ایک پیسہ کا ہے اور بیچنے والا دو۲ کو دے تو تیمم کرلے اور دو۲ سے کم کو تو خریدنا لازم اور تیمم ممنوع۔ اور قیمت دیکھنے میں اعتبار خاص اُس جگہ کا ہے جہاں اسے اس وقت ضرورت آب ہے اگر وہاں کی قیمت کا پتہ نہ چلے تو جو جگہ وہاں سے قریب تر ہے اُس کا اعتبار کرے۔ غنیہ میں ہے:


مالا یدخل تحت تقویم المقومین قدروہ فی العروض بالزیادۃ علی نصف درھم فی العشرۃ والنصف یسیر والماء من جملۃ العروض ۲؎۔


وہ قیمت جو نرخ لگانے والوں کے نرخ لگانے میں نہ آسکے سامانوں میں اس کی تحدید یوں کی گئی ہے کہ دس درہم کی چیز دس پر نصف درہم سے بھی زیادہ اضافہ کرکے دے۔ نصف درہم تک ہی زیادتی ہو تو یہ معمولی ہے پانی بھی سامانوں ہی کے ذیل میں داخل ہے۔ (ت)


 ( ۲؎ غنیۃ المستملی    باب التیمم    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۷۰)


خانیہ میں ہے:اختلفوا فی حد الغالی عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان کان لایبیع الا بضعف القیمۃ فھو غالی وقال بعضھم مالایدخل تحت تقویم المقومین فھو غالی ۱؎۔


امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے گراں کی حد روایت کرنے میں علماء کا اختلاف ہوا ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ اگر دوگنا قیمت پر بیچتا ہے تو وہ گراں ہے۔ اور بعض نے کہا کہ جو نرخ لگانے والوں کے نرخ لگانے میں نہ آسکے وہ گراں ہے۔ (ت)(۱؎


فتاوٰی قاضی خان    فصل فيما یجوزلہ التیمم    نولکشور     ۱/۲۶)


درمختار میں ہے:ان لم یعطہ الابثمن مثلہ اوبغبن یسیر ولہ ذلک فاضلا عن حاجتہ لایتیمم ولو اعطاہ باکثر یعنی بغبن فاحش وھو ضعف قیمتہ فی ذلک المکان اولیس لہ ثمن ذلک تیمم ۲؎۔ اگر پانی ثمن مثل پر یا تھوڑی زیادہ قیمت پر اسے دے اور اتنا اس کے پاس ضرورت سے فاضل موجود ہے تو تیمم نہ کرے۔ اور اگر بہت بڑھا کر غبن فاحش کے ساتھ دے یعنی اس جگہ جو قیمت ہے اس کا دوگنا مانگے یا اس کے پاس پانی کی قیمت موجود نہ ہو تو تیمم کرے۔ (ت)


 (۲؎ الدرالمختار        باب التیمم        مجتبائی دہلی    ۱/۴۴)


ردالمحتار میں ہے:قولہ بثمن مثلہ ای فی ذلک الموضع بدائع وفی الخانیۃ فی اقرب المواضع من الموضع الذی یعز فيہ الماء قال فی الحلیۃ والظاھر الاول الا ان لایکون للماء فی ذلک الموضع قیمۃ معلومۃ کما قالوا فی تقویم الصید قولہ ولہ ذلک ای وفی ملکہ ذلک الثمن وقدمنا انہ لولہ مال غائب وامکنہ الشراء نسئۃ وجب بخلاف مالو وجد من یقرضہ بحر قولہ وھو ضعف قیمتہ ھذا مافی النوادر وعلیہ اقتصر فی البدائع والنھایۃ فکان ھو الاولی بحر اھ ملخصا ۱؎۔


صاحب درمختار کا قول ''ثمن مثل پر'' یعنی اس جگہ پانی کی جو قیمت ہے اسی قیمت پردے، بدائع الصنائع اور خانیہ میں یہ ہے کہ جس جگہ پانی نایاب ہے اس سے قریب تر مقام میں جو قیمت ہے، حلیہ میں کہا کہ ظاہر پہلا قول ہے مگر یہ صورت ہو کہ اس جگہ پانی کی کوئی معین ومعلوم قیمت نہ ہو (تو قریب تر مقام کا اعتبار ہوگا) جیسا کہ علماء نے شکار کی قیمت کے بارے میں فرمایا ہے۔ صاحبِ در مختار کا قول ''اتنا اس کے پاس ہو'' یعنی اس کی ملکیت میں اتنی قیمت ہو۔ اور یہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اگر اس کی ملکیت میں مال ہے جو اس کے پاس نہیں اور ادھار خرید سکتا ہے تو خریدنا واجب ہے۔ اور اگر اس کی ملکیت میں نہیں مگر کوئی ایسا شخص مل گیا جو اسے قرض دے رہا ہے تو خریدنا واجب نہیں، بحر اھ صاحب درمختار کا قول ''اور وہ اس کی قیمت کا دوگنا ہے''۔ یہ وہ روایت ہے تو نوادر میں ہے، اور اسی پر بدائع اور نہایہ میں اکتفاء کی ہے، تو یہی اولٰی ہے، بحر اھ بتلخیص (ت)


 (۱؎ ردالمحتار    باب التیمم    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۸۴)


اقول: وکذا اقتصر علیہ فی الکافی وغیرہ من المعتبرات فاعتمدت علی ھذا لکونہ روایۃ عن الامام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ولجلالۃ معتمدیہ ولکثرتھم ولتقدیم الخانیۃ ایاہ مع تصریحہ فی فاتحۃ کتابہ انہ انما یقدم الاظھر الاشھر ولان قیمۃ الماء المحتاج الیہ لطھر لا تزید غالبا علی نحوفلس لاسیما فی بلادنا فاعتبار زیادۃ جزءٍ من تسعۃ عشر جزء من اجزاء فلیس مثلا مسقطۃ لوجوب الوضوء والغسل مع تیسر الثمن وتملکہ لہ بالفعل وفراغہ عن حاجاتہ مما یستبعد ولایسلّم ان فيہ کثیر حرج یجب دفعہ فافھم۔ واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔


میں کہتا ہوں، اور اسی طرح کافی وغیرہ معتبر کتابوں میں اسی پر اکتفاء کی ہے تو میں نے بھی اسی پر اعتماد کیا اس لئے کہ یہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے اس پر اعتماد کرنے والے حضرات جلیل الشان ہیں، ان حضرات کی تعداد بھی زیادہ ہے، فقیہ النفس امام قاضیخان نے خانیہ میں اسے مقدم رکھا ہے، اور آغازِ کتاب میں وہ اس کی صراحت کرچکے ہیں کہ وہ اسی قول کو مقدم کرتے ہیں جو اظہر واشہر (زیادہ ظاہر ومشہور) ہو، اور اس لئے کہ کسی طہارت کیلئے جس قدر پانی کی ضرورت ہے اس کی قیمت قریباً ایک پیسہ سے زیادہ نہیں ہوتی اکثر اور خاص طور سے ہمارے بلاد میں یہی حال ہے، تو اگر پانی کی قیمت مثلاً ایک پیسے کے انیس حصّوں میں سے ایک حصہ (۱۹/۱) کے برابر زیادہ ہے اور یہ قیمت اسے میسر ہے۔ بالفعل اس کا مالک بھی ہے اور اس کی ضروریات سے فاضل بھی ہے، ان سب کے باوجود یہ مان لینا کہ اتنی سی زیادتی سے وضو اور غسل کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے ایک مستبعد امر ہے۔ یہ بھی قابل تسلیم نہیں کہ اس میں کوئی حرج اور تنگی ہے جسے دفع کرنا ضروری ہے، اسے سمجھ لینا چاہئے واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم (ت)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے