Music

header ads

آبِ مستعمل طاہر ہے غیر مطہر اور فقہ کے احکام Use Kiye Huwe Pani Kaise Use Karen Aur Us k Ahkam Kya Hain

 مسئلہ ۵۹: مسئولہ مولوی چودھری عبدالحمید خان صاحب رئیس سہاور مصنف کنز الآخرۃ     ۷ محرم الحرام ۱۳۳۵ ہجری۔

آبِ مستعمل طاہر ہے غیر مطہر اور فقہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو پانی دَہ در دَہ سے کم ہو خواہ وہ دیگ میں ہو خواہ مٹکے یا لوٹے میں، اگر اُس میں محدث یا جُنب کا ایک پورا بھی چھُو جائے گا تو وہ مستعمل ہوجائےگا اور پھر وہ قابلِ طہارت نہ رہے گا کہ آبِ مستعمل مطہر نہیں۔ ایسی صورت میں بڑی مشکل یہ پڑتی ہے کہ ایک گروہ کثیر در کثیر مسلمانوں کا خاص کر گروہ اناث کا بالکل دارمدار سقّوں کے پانی پر وضو وغسل کرنے کا ہے کہ سقّے پانی لے کر گھروں میں بھرتے ہیں اور اُسی پانی سے تمام گھر والے وضو وطہارت کرتے ہیں اور سقّوں کی یہ حالت ہے کہ اوّل تو وہ بے نمازی ہوتے ہیں جن کو طہارت ونجاست کا کچھ امتیاز نہیں اس کے سوا یہ کہ وہ سقّے نمازی ہی کیوں نہ ہوں لیکن ہمہ وقت باوضو نہیں ہوتے اور پانی کُنویں سے جب کھنیچتے ہیں تو ڈول کی رسّی کو دانتوں سے پکڑ کر ایک ہاتھ کی انگلیوں کو ڈول میں ڈال کر دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے مشک کے منہ پر رکھ کر پانی مشک میں بھرتے ہیں اور پھر جب وہ گھروں میں آکر پانی بھرتے ہیں تو مشک کا منہ کھول کر اور مشک کے منہ کے قریب اپنا ہاتھ رکھ کر گھڑے مٹکوں میں پانی بھرتے ہیں کہ وہ سب پانی اُن کے ہاتھ کی کف دست پر ہو کر ظرف میں پہنچتا ہے اور ایسی حالت میں یقینی دو دو تین تین بار پانی مستعمل ہو کر گھڑے مٹکوں میں پہنچتا ہے اور اُسی سے سب طہارت و وضو ہوتا ہے اس کے سوا عام نمازی مسلمان جس طریق سے مسجدوں میں کُنویں سے پانی کھینچ کر لوٹوں اور مٹکوں میں بھرتے ہیں وہ بھی قریب قریب اُنہیں سقّوں کی ترکیب کے عمل کرتے ہیں اور اُسی سے وضو وطہارت کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اس طہارت کا کیا حکم ہے مسجد کے نمازیوں کی بد احتیاطی سے قطع نظر کرکے سقّوں کی بداحتیاطی کا کیا مضر ہے کہ جن کے پانی پر تمام مسلمانوں کا دارومدار ہے اور سقّوں کی بداحتیاطی جس پر بلوائے عام ہے کسی ترکیب سے کسی تدبیر سے رفع نہیں ہوسکتی تو پھر اب کیا کیا جائے۔ والسلام


الجواب: فی الواقع مذہب صحیح یہی ہے کہ بے وضو آدمی کا ناخن بھی اگر بغیر دُھلا ہُوا اُس پانی میں کہ وہ دہ در دہ نہیں پڑ جائے تو وہ سب پانی مستعمل ہوجائےگا تصانیف امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے فتح القدیر امام ابن الہمام تک تمام کتابوں میں بالاتفاق یہی حکم ہے مگر شریعت(۱) مطہرہ کا قاعدہ کلیہ ہے کہ استعمال درکنار دربارہ نجاست بھی اوہام وشکوک وظنون مجردہ پر نظر نہیں فرماتی ملاحظہ ہو پُرانا استعمالیه جُوتا کس قدر مظنہ نجاست ہے مگر حکم یہ ہے کہ جب تک نجاست معلوم نہ ہو کُنویں میں گرنے سے کُنواں ناپاک نہ ہوگا صرف تطییب قلب کیلئے بیس ڈول نکالے جائیں گے، ناسمجھ بچّے کا ہاتھ یا پاؤں پانی میں پڑ جائے بے علم نجاست پاک نہ ہوگا۔ گائے بکری کُنویں میں گرجائے اور زندہ نکل آئے کنواں پاک رہے گا اگرچہ اُن کے کُھر اور رانوں کا پیشاب وغیرہ میں ملوث نہ ہونا بعید ازقیاس ہے یہاں تک کہ فاسقوں بے نمازیوں بلکہ کافروں کے پاجا مے پر بھی حکمِ نجاست نہیں دیتے صرف کراہت مانتے ہیں۔ سقّاوں کے بھرے ہوئے پانی میں تو ایسے ظنون بھی نہیں جس وقت وہ پانی لاکر برتنوں میں ڈالتے ہیں اُس وقت تو اُن کا ہاتھ پانی کی گزرگاہ پر ہوتا ہی نہیں ورنہ پانی کو برتن میں جانے سے روکے اور ادھر اُدھر بہائے دہانے سے پانی نکلتا ہے اور اُن کا ہاتھ مشک کے گلے پر ہوتا ہے مشک(۲) بھرتے وقت جو بائیں ہاتھ سے اُس کا مُنہ کھولتے اور ڈول سے پانی ڈالتے ہیں اُس وقت وہ پانی جریان کی حالت میں ہوتا ہے جب تک مشک میں داخل ہو اس حالت میں تو اگر نجاست پر گزرے تو اُسے بھی پاک کرتا ہوا جائےگا۔ رہا داہنا ہاتھ اکثر تو ڈول کے نیچے دیکھا گیا ہے اور ڈول نکالتے ہیں تو اُس کی لکڑی پر ہاتھ رکھ کر اور بالفرض یہی ہو کہ اُس کے اندر ہاتھ ڈالا کرتے ہوں تو پہلے ڈول میں کہ ہاتھ ڈالا وہ ضرور مستعمل ہوگیا اگر اُس وقت بے وضو ہو نہ ہاتھ اس سے پہلے دُھلا ہو مگر ساتھ ہی دُھل گیا اب جو دُوسرے ڈول میں ڈالا وہ مستعمل نہ ہوا مشک تین ڈول سے کم کی نہیں ہوتی ایک ڈول مستعمل اس میں پہنچا اور دو یا زائد غیر مستعمل تو ساری مشک کا پانی طاہر ومطہر ہوگیا اور یہ احتمال کہ ممکن ہے کہ پہلے ڈول کے بعد دوسرے ڈول میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اُسے حدث واقع ہوا ہو ناقابلِ قبول ہے ایسے شاید ومحتمل پر عمل کیا جائے تو دین ودنیا دونوں کی عافیت تنگ ہوجائے غرض بہشتیوں کے ہاتھ کا بھرا ہوا پانی ضرور طاہر ومطہر ہے۔ رہیں عوام کی حرکات شریعت اُن پر اور سب پر حاکم ہے اُن کی بے پروائیں یا جہالتیں شرع پر حاکم نہیں ہوسکتیں یہ تو ایک سہل مسئلہ ہے جس میں بعض متأخرین علما کا خلاف بھی ملے گا(۳) اجماعی فرائض وہ کہاں تک پُورا کرتے ہیں وضو میں کُہنیاں،ایڑیاں، کلائیوں کے بعض بالوں کی نوکیں اکثر خشک رہ جاتی ہیں اور یہ تو عام بلا ہے کہ منہ دھونے میں پانی ماتھے کے حصّہ زیریں پر ڈالتے ہیں اور اوپر بھیگا ہاتھ چڑھا کر لے جاتے ہیں کہ ماتھے کے بالائی حصّہ کا مسح ہوا نہ غسل اور فرض غَسل ہے نہ وضو ہوا نہ نماز غسل میں فرض ہے کہ پانی سونگھ کر ناک کے نرم بانسے تک چڑھایا جائے دریافت کر دیکھئے کتنے ایسا کرتے ہیں چُلّو میں پانی لیا اور ناک کی نوک کو لگایا استنشاق ہوگیا تو ہر وقت جُنب رہتے ہیں اُنہیں مسجد میں جانا تک حرام ہے نماز درکنار سجدے میں فرض ہے کہ کم ازکم پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگا ہو اور ہر پاؤں کی اکثر انگلیوں کا پیٹ زمین پر جما ہونا واجب ہے۔ یوں ہی ناک کی ہڈی زمین پر لگنا واجب ہے بہتیروں کی ناک زمین سے لگتی ہی نہیں اور اگر لگی تو وہی ناک کی نوک یہاں تک تو ترکِ واجب گناہ اور عادت کے سبب فسق ہی ہُوا پاؤں کو دیکھیے اُنگلیوں کے سرے زمین پر ہوتے ہیں کسی انگلی کا پیٹ بچھا نہیں ہوتا سجدہ باطل نماز باطل اور مصلّی صاحب پڑھ کر گھر کو چل دیے قرأت(۱) دیکھیے اتنی تجوید کہ حرف دوسرے سے صحیح ممتاز ہو فرض عین ہے بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہے عوام بےچاروں کو جانے دیجئے خواص کہلانے والوں کو دیکھیے کتنے اس فرض پر عامل ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سُنا کن کو علماء کو مفتیوں کو مدرسوں کو مصنفوں کو قل ھو اللّٰہ احد کی جگہ اھد پڑھتے ہوئے جمعہ میں یحسبون کل صیحۃ علیھم کی جگہ یعسبون، ھُم العدو فاحذرھم کی جگہ فاعذرھم، وھو العزیز الحکیم کی جگہ ھو العذیذ بلکہ ایک صاحب کو الحمد شریف میں صراط الذین کی جگہ صراط اللظین۔ کس کس کی شکایت کیجئے یہ حال اکابر کا ہے پھر عوام بےچاروں کی کیا گنتی اب کیا شریعت ان کی بے پروائیوں کے سبب اپنے احکام منسوخ فرمادے گی نہیں نہیں ان الحکم الا للّٰہ ولاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے